Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22649 articles
Browse latest View live

انتخابی اصلاحات:اب کیا ہو سکتا ہے؟

$
0
0

الیکشن اصلاحات کے لیے یہ آخری سال ہے۔ کہتے ہیں جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے، اب ہر کام جلدی میں ہوگا اور جلدی جلدی میں سب کچھ غلط بھی ہوگا اس لیے کہا جائے گا کہ پرانے الیکشن سسٹم کو ہی فالو کیا جائے گا کیوں کہ ’’نئے سسٹم میں بہت سی خرابیاں ہیں‘‘ ۔ اور پھر کیا ہوگا؟ وہی ہوگا جو 2013ء کے الیکشن کے بعد ہوا، بلکہ اسی کی دوبارہ سے ریہرسل کی جائے گی۔ وہی کنٹینر ، وہی چار پانچ حلقے ، وہی شعبدہ بازیاں،وہی عوامی لیڈرز، وہی عدالتیں، وہی الیکشن کمیشن اور وہی عوام ہو گی۔

2013ء کے بعد کے ماہ و سال کسی کو نہیں بھولے۔ جو جیت گئے انھوں نے شکر الحمدللہ کہا اور جو ہار گئے انھوں نے دھاندلی کا شور مچایا اور شور بھی ایسا تھا کہ پوری دنیا نے سنا، پھر الیکشن اصلاحات کے لیے کمیٹیاں قائم کی گئیں جن میں ٹیکنو کریٹس کے علاوہ اپوزیشن اور حکومتی نمایندوں کو شامل کیا گیا۔ دو تین سال اسی میں گزار دیے اور اب عام انتخابات کے انعقاد میں تقریباً سوا سال کا عرصہ رہ گیا ہے مگر بدقسمتی سے پارلیمنٹ اور عوامی فورمز پر ہونے والے بحث مباحثے کے باوجود انتخابی اصلاحات نہیں لائی جا سکی ہیں۔

نہ ہی احتساب کے قوانین میں کوئی تبدیلی ممکن ہوئی ہے۔ جولائی 2014ء میں انتخابی اصلاحات کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی۔ کمیٹی کو 90 روز میں اپنا کام مکمل کرنے کے لیے کہا گیا تھا ، مگر ایک تو کمیٹی کی میٹنگز تسلسل سے نہ ہو سکیں، دوسرا ارکان کی سیاسی نیت بھی کمزور تھی اور تیسرا دوسرے سٹیک ہولڈروں سے مشاورت بھی نہ کی جا سکی یوںکمیٹی اپنا کام مکمل کرنے میں ناکام ہو گئی۔مجھے ایک بار فرانس کا الیکشن مانیٹر کرنے کا اتفاق ہوا تو وہاں اس بات کی طرف توجہ نہیں دی گئی کہ کتنے فیصد عوام نے ووٹ کاسٹ کیا جب کہ یہ ضرور دیکھا گیاکہ کتنے فیصد عوام نے ووٹ نہیں ڈالا۔ گزشتہ انتخابات میں فرانس میں 17فیصد عوام نے ووٹ نہیں ڈالا۔ تو یہ خبر فرانس کے بڑے اخبارات کے صفحہ اول پر چھپی۔ وہاں موجود الیکشن کمیشن فکر مند تھا کہ اس قدر ووٹرز نے ووٹ کیوں نہیں کاسٹ کیا۔

میری اس حوالے سے وہاں ایک دوست سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ یہاں کی حکومت ہر الیکشن کے بعد ووٹ نہ دینے والے شہریوں کا تجزیہ کرتی ہے اور پالیسی بناتے ہیں تاکہ اگلے الیکشن میں ان ووٹروں کو ووٹ کاسٹ کرنے پر کیسے مجبور کر سکیں۔دنیا کے تمام ممالک ووٹ‘ ووٹروں اور الیکشن کے بارے میں حساس ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ یہ جانتے ہیں‘ عوام جب تک حکومت سازی کے عمل کا حصہ نہیں بنتے ملک میں اس وقت تک اچھی حکومت نہیں آتی اور ملک میں جب تک اچھی حکومت نہ آئے اس وقت تک عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے چنانچہ تمام ممالک زیادہ سے زیادہ عوام کو حکومت سازی کے عمل میں شریک کرتے ہیں‘ سوائے ہمارے۔ ہمارا آمرانہ ذہن جانتا ہے‘ ہمارے ملک میں جب بھی انتخابی اصلاحات ہوں گی۔

اس دن ہماری آمرانہ سوچ‘ آمرانہ جمہوریت اور آمرانہ لیڈر شپ کا بستر گول ہو جائے گا۔ بھارت کے 81 کروڑ چالیس لاکھ ووٹر ہر پانچ سال بعد اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں‘ بھارت کا الیکشن سسٹم خاصا متاثر کن ہے‘ ہم اگر ملک میں فرنچ‘ برٹش‘ امریکن یا آسٹریلین الیکشن سسٹم نافذ نہیں کرسکتے تو نہ کریں مگر ہم اپنے ہمسائے سے بے شمار چیزیں سیکھ سکتے ہیں‘ انڈیا کا الیکشن کمیشن خودمختار بھی ہے اور با اختیار بھی۔ یہ الیکشن کے دوران ہر قسم کا حکم جاری کرسکتا ہے اور سرکاری مشینری اس حکم پر عملدرآمد کی پابند ہوتی ہے‘ بھارت میں الیکشن سے قبل نگران حکومت نہیں بنتی‘ پرانی حکومت چلتی رہتی ہے‘ صدر‘ وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ اپنے عہدوں پر فائز رہتے ہیں۔

یہ خود مختار الیکشن کمیشن کی وجہ سے الیکشن پر ایک فیصد اثر انداز نہیں ہو پاتے‘…انڈیا میں 28 ریاستیں (صوبے) ہیں‘ وفاقی اسمبلی (لوک سبھا) کے الیکشن مختلف ریاستوں میں مختلف اوقات میں ہوتے ہیں ۔ 81 کروڑ چالیس لاکھ ووٹروں کے انگوٹھوں اور انگلیوں کے نشان الیکشن کمیشن کے ڈیٹا بینک میں موجود ہیں‘ ووٹر پولنگ اسٹیشن پر جاتا ہے‘ مشین پر اپنی انگلی رکھتا ہے اور اس کا ووٹ کھل جاتا ہے۔ اسکرین پر امیدواروں کے نام اور انتخابی نشان بھی آجاتے ہیں‘ یہ انگلی سے کسی ایک انتخابی نشان کو ٹچ کر دیتا ہے اور اس کا ووٹ کاسٹ ہو جاتا ہے‘ یہ اس کے بعد ملک کے کسی حصے میں دوبارہ ووٹ نہیں ڈال سکتا، مشین دوسری بار اس کا ووٹ قبول نہیں کرتی۔ کسی سیاسی جماعت کو نتائج پر اعتراض ہو تو یہ فیس جمع کرا کر پورا ڈیٹا دیکھ سکتی ہے‘ملک کا ایک ایک ووٹ اس کے سامنے آ جاتا ہے‘ سیاسی جماعتیں اور امیدوار حلقے میں بینر لگا سکتے ہیں‘ پوسٹر لگا سکتے ہیں اور نہ ہی چاکنگ کر سکتے ہیں۔

ہم اگر بھارتی الیکشن کمیشن کا مطالعہ کریں تو ہمیں اس میں تین خوبیاں نظر آتی ہیں‘ ایک‘ الیکشن مختلف ریاستوں میں مختلف اوقات میں ہوتے ہیں‘ اس سے الیکشن کمیشن کو نتائج جمع کرنے میں سہولت ہوتی ہے‘ یہ ایک مرحلہ مکمل کرنے کے بعد دوسرے مرحلے کی طرف بڑھتے ہیں‘ یوں عملہ بھی کم درکار ہوتا ہے اور وسائل بھی کم خرچ ہوتے ہیں‘ دو‘ بائیو میٹرک سسٹم کی وجہ سے دھاندلی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں‘ کم وقت میں زیادہ ووٹ بھگت جاتے ہیں۔

پولنگ اسٹیشنز پر زور آزمائی اور دھونس کے واقعات بھی نہیں ہوتے‘ پولنگ اسٹیشنز پر ووٹوں کی گنتی نہیں ہوتی‘ ووٹ سینٹرل ڈیٹا میں چلے جاتے ہیں اور کمپیوٹر ان کی کاؤنٹنگ کرتا ہے یوں پولنگ اسٹیشنوں پر ہیرا پھیری کا امکان ختم ہو گیا۔ سوال یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں اس سلسلے میں کیا کررہی ہیں؟ اور اگلے انتخابات کو شفاف، منصفانہ اور غیر جانبدار بنانے کے لیے کون سے اقدامات کیے جارہے ہیں؟ کمیٹی اس سلسلے میں کہاں تک پہنچی ہے اور وہ کون سی اصلاحات ہیں جو کرنا مقصود ہے تاکہ انتخابات منصفانہ ہوں (اور باقاعدہ قرار بھی دیے جا سکیں)۔

The post انتخابی اصلاحات:اب کیا ہو سکتا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


مشرق وسطیٰ کے بدلتے حالات

$
0
0

آپ کو اگر یاد ہو شام کی جنگ پر اکثر مضامین میں یہ لکھتا رہا کہ اس جنگ کے خاتمے کے بعد کردوں کو اپنا ایک ملک تو مل جائے گا، کیونکہ کردستان کی حامی پارٹیاں 1970 سے اس جدوجہد میں مصروف ہیں۔

اس طویل عرصے میں 1970 کے نوجوان اور بعض طالب علم کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے اور وہ ان دنوں کی طلبہ تحریک خصوصاً این ایس ایف کے لوگوں کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے اور سیاسی معاملات پر گفتگو کرتے تھے، مگر ان دنوں نہ موبائل فون ہوا کرتے تھے نہ انٹرنیٹ اور خال خال پی ٹی سی ایل، اس لیے ان لوگوں سے رابطے نہ رہے۔ اکثر بعض بین الاقوامی خبروں میں کردوں کی سرکوبی کی خبریں آتی تھیں، ان میں عراق، ایران اور ترکی کی حکومتیں، کوئی بھی ان کے حقوق دینے پر تیار نہ تھیں۔ جو طلبا یہاں آتے تھے ان کی اکثریت اردن اور عراق کی ہوا کرتی تھی مگر کرد پاکستان میں تعلیم عموماً حاصل نہیں کرتے تھے۔

اکثریت عرب ممالک سے وابستہ اور خاص طور پر فلسطینی ہوا کرتے تھے، لیکن جو بھی اتفاق سے اس رہ گزر پر ملے ان کے نظریات جمہوری اور سوشلسٹ ہوا کرتے تھے۔ مگر یکم جنوری 2017 کو یہ خبر نمایاں نظر آئی کہ کردوں نے شام سے شمالی علاقے میلان میں آزاد کرد فیڈریشن ریاست قائم کرلی ہے۔ مخالفت میں کسی ملک کی طرف سے کوئی بیان نہیں آیا، البتہ ترکی کے صدر طیب اردگان نے اس ملک کے خلاف فوری بیان دیا اور اپنے بیان میں کہا کہ ترکی اس کی شدید مزاحمت کرے گا۔ کیونکہ ترکی کے سرحدی علاقوں اور ان کے بعض بڑے شہروں میں خاصے کرد رہائش پذیر ہیں اور وہ خاص طور سے پی کے کے (PKK) کے خاصے حامی ہیں، جو ایسی ریاست کے قیام میں پیش پیش ہیں۔

شام کی خانہ جنگی میں جو قوتیں نبرد آزما رہی ہیں ان میں ایک طرف شامی مجاہدین تھے، جن میں سعودی عرب کے حمایت یافتہ اور عرب ریاستوں اور سعودی اتحاد کے رکن ممالک پیش پیش تھے تو دوسری جانب حزب اﷲ، ایران اور عراقی ملیشیا تھی۔ یہ جنگ تقریباً 5 برس چلی۔ عرب مجاہدین کے پس پردہ امریکا اور ایران کی پشت پر روس تھا۔ جو جنگ روس کی حامی فوجوں نے جیت لی، درحقیقت یہ جنگ روس اور امریکا کی پراکسی وار کا نتیجہ تھی، جس سے روس اور امریکا میں شدید قسم کی سرد جنگ شروع ہوگئی، یہاں تک کہ صدر اوباما نے روس کے 35 کے قریب اہم سفارت کاروں کو امریکا بدر کردیا۔ جب کہ ولادی میر پوتن نے جواباً جوابی کارروائی سے گریز کیا۔

درحقیقت یہ امریکا کی پہلی بار مشرق وسطیٰ  میں سیاسی شکست تھی، جس کے اثرات امریکا کے حلیف ممالک پر پڑے۔ گو یہ پالیسی امریکا کی ریپبلکن پارٹی کے سابق صدر بش کی پالیسیوں کا تسلسل تھی، جب کہ ظاہری طور پر امریکا کے نئے صدر جو ریپبلکن پارٹی کے حمایت یافتہ تھے وہ یکسر صدر بش کی پالیسیوں سے انحراف کرکے انتخابات جیتے ہیں، جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ملک کے ووٹروں کے جذبات کو تسکین دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ فی الحال ان کو امریکا کے عالمی وقار سے کوئی سروکار نہیں، وہ سیاست کی دنیا میں نو وارد ہیں، اس لیے اپنی ساکھ بحال کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ انتخاب جیتنے کے بعد انھوں نے اسرائیل  کے سیاسی رخ پر ایک بار مثبت اور دو بار منفی بیانات دیے، مگر بنیادی طور پر وہ اسرائیل کے حامی ہیں۔

انھوں نے 1983 میں امریکا اور اسرائیل کے تعلقات میں گرمی پیدا کرنے کے لیے حکومت اسرائیل کو ایک خطیر رقم سے نوازا (جیوش نیشنل فنڈ)، ایک اور بڑا ایوارڈ ان کو اسرائیل نوازی پر 2015 میں دیا گیا۔ مگر یہ پہلا موقع تھا کہ بحیثیت صدر مملکت ان کے اقوال دہرائے جارہے ہیں مگر ایک بات قابل غور ہے کہ ان کی کابینہ میں دائیں بائیں جو مشیر رکھے جارہے ہیں وہ یہودی کے بجائے قدامت پرست عیسائی ہیں، یہ وہ عیسائی ہیں جو حضرت خدیجہؓ کا بہت احترام کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کے اعمال سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے فیصلوں اور عقائد میں مضبوط نہیں۔ درحقیقت وہ امریکی اسٹیبلشمنٹ سے کافی دور رہے ہیں، اس لیے غالباً ابھی وہ سیاست کے امریکی آئینہ کا کردار ادا کرنے سے کوسوں دور ہیں اور جب ان کا سامنا عالمی امور پر ولادی میر پوتن سے پڑے گا تو پھر تضادات سامنے آئیں گے۔

خاص طور سے جب سے روس نے سنوڈن کو روس میں پناہ دی ہے اور سنوڈن کے بیانات نے اوباما کو خاصی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ مثلاً ان کا یہ خیال کہ اسامہ بن لادن زندہ ہیں اور امریکا میں قید ہیں۔ حال میں سنوڈن جو خفیہ معلومات کے ہیرو ہیں، انھوں نے ابوبکر بغدادی کے متعلق کہا ہے کہ داعش کے سربراہ امریکا میں ہیں اور انھی کا ہمشکل موصل میں داعش کے جانبازوں کے ہمراہ ہے، اس لیے امریکا کی عالمی پوزیشن خراب ہورہی ہے۔ موجودہ الیکشن میں سنوڈن کے ذریعے الیکشن نتائج میں مداخلت کا الزام روس پر لگانا اور سنوڈن کا استحصال کس قدر گمراہ کن اعلان ہے جس کو پوتن نے نظر انداز کردیا۔ کیونکہ اس بیان سے ظاہر ہورہا ہے کہ روس فنی اعتبار سے امریکا کو مات دے چکا ہے، خود اوباما رازوں کو طشت ازبام لے آیا ہے۔ اس عمل سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ روس کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں امریکا کو مات دے چکا ہے۔

خود اوباما کو یہ احساس نہیں کہ 15 سال تک بلاشرکت غیرے یونی پولر قوت کا مالک امریکا اب روس کے ہاتھوں شکست کھا رہا ہے۔ اس لیے امریکا پر انحصار کرنے والے ممالک کے لیے یہ کس قدر برا وقت ہے اور امریکا کے نئے صدر بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ روس کے ساتھ مل کر چلنا چاہتے ہیں اور سرد جنگ سے بالکل گریز کریں گے اور وہ رقم جو جنگوں پر خرچ ہوتی ہے وہ انسانی ترقی کے لیے خرچ ہوگی۔

مسٹر ٹرمپ نے شام کے صدر بشارالاسد کے موقف کی بھی حمایت کی جس سے امریکا کی سیاسی حکمت عملی کی تضحیک کی، جو کسی ملک کے وقار کے منافی ہے کہ ماضی کی تاریخ کو ایک مذاق بناکر رکھ دیا۔ خصوصیت کے ساتھ اقوام متحدہ پر ان کے ریمارکس کہ اقوام متحدہ کا ادارہ ایک شراب خانے کا نقشہ کھینچ رہا ہے، جہاں لوگ تفریح طبع کے لیے جاتے ہیں اور وقت برباد کر کے جاتے ہیں۔ انھوں نے دنیا کے 183 ممالک کے نمایندوں کو غور و فکر کرنے والے ادارہ کے بجائے ان کی کس قدر تضحیک کی، مگر دنیا کے کسی بھی گوشے سے اس بیان کی مذمت میں کوئی آواز نہ اٹھی۔ تمام خرابیوں کے باوجود ابھی دنیا میں امن قائم کرنے کا ایک ادارہ تو ہے اگر یہ بھی ختم ہوجائے گا تو کوئی پلیٹ فارم باقی نہ رہے گا اور نہ اجتماعی سوچ کا کوئی راستہ باقی رہے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ جب تک امریکا اپنے اقدامات کا آغاز نہ کرے اس وقت تک ہم یہ خیال کریں کہ ایک ملٹی بلینائر چیف گیسٹ سیاست کے میدان میں اپنی آرا کے اوراق بکھیر رہا ہے۔ مثال کے طور پر کردستان کا ایک نیا مسئلہ مشرق وسطیٰ سے جو اٹھنے والا ہے، اس کا کیا حل نکلے گا۔

ایک طرف ترکی کی مخالفت اور اس کے چند حامیوں کی حمایت، جب کہ دوسری جانب کرد جنگجو جن میں ان کی خواتین رضاکار بھی داعش کے خلاف جنگ میں پیش پیش تھیں اور جس علاقے کو آزاد کرایا اس علاقے پر کس کا استحقاق ہے؟ جب کہ شام تو ایک پستی کی رہ گزر سے نکلا ہے اور کرد ان کے حامی تھے اور وہ روسی ہتھیار استعمال کررہے تھے، اس لیے روس کو ایک بڑی آزمائش سے گزرنا ہوگا۔ ماضی کا سوویت یونین روس قوموں کی آزادی اور خود مختاری کا حامی رہا ہے اور اپنے اسی منطق کے تحت کریمیا اور یوکرین کے استدلال کو انھوں نے عملی جامہ پہنایا تھا، جس پر ایک طویل کشیدگی مغرب اور ان کے اتحادی روس کے خلاف متحد تھے اور یہ مسئلہ آج تک بھی حل نہ ہوا۔ مگر روس کے لیے کردستان ایک امتحان سے کم نہ ہوگا، البتہ امریکا اور عرب ریاستیں کردستان کے خلاف ہی متحد رہیںگی۔ رہ گیا پاکستان کا کیا موقف ہوگا؟ کچھ کہنا مشکل ہے۔

غالب امکان یہی ہے کہ پاکستان یا تو اس کشمکش سے دور رہے گا اور ممکن ہے کہ یہ کردستان کے خلاف ہو، کیونکہ ترکی کا سخت گیر موقف ہوسکتا ہے پاکستان پر اثر دکھائے۔

مگر ترکی نیٹو معاہدے کا ایک رکن ہے، لہٰذا ممکن ہے کہ ترکی کی حمایت میں امریکی موقف ہو۔ مگر امریکی موقف کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہے، اس لیے کہ ترکی نے حالیہ بغاوت کے بعد امریکا سے گولن کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا مگر امریکا نے ایک نہ سنی جب کہ پاکستان میں حکومت نے گولن سے وابستہ اسکولوں پر قدغن لگائی تھی، جس کو عدلیہ نے روکا تھا۔ لہٰذا آنے والے وقت میں ٹرمپ کو مشکلات پیش آئیںگی، کیونکہ وہ روس کے ساتھ جیسے تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں امریکن اسٹیبلشمنٹ اس پر ہرگز تیار نہ ہوگی۔ خواہ اس کو کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ ایسے سنگین عالمی حالات پر پاکستان کا موقف کیا ہوگا؟ کیونکہ پاکستان کے سیاسی ناقدین جو کمنٹری کررہے ہیں اس نے پاکستانی عوام کو کنفیوز کر رکھا ہے۔ ہر ٹی وی چینل کی اپنی خود ساختہ سیاسی راہ ہے، جیسے کوئی پیچھے سے ڈور ہلارہا ہے۔ یہ رویہ ملک کے لیے نہایت سنگین ہے۔

The post مشرق وسطیٰ کے بدلتے حالات appeared first on ایکسپریس اردو.

سیاسی اتحادوں کے مقاصد

$
0
0

الیکشن جیسے جیسے قریب آرہے ہیں سیاسی جماعتیں مختلف اتحادوں میں شامل ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ مختلف النوع اتحادوں سے بھری پڑی ہے لیکن ان اتحادوں کا ایک مشترکہ مقصد یہی رہا ہے کہ حکومت وقت کو ہٹایا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض وقت حکمران ملک و ملت کے لیے ایک خطرہ بن جاتے ہیں اور انھیں اقتدار سے ہٹانا قومی مفادات کی ضرورت بن جاتا ہے لیکن عموماً اس قسم کے اتحادوں کا مقصد سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے مفادات کی تکمیل ہی ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر مرحوم بھٹو کے خلاف بننے والا پی این اے اتحاد ہے۔ بھٹو اگرچہ اپنے منشور اور دعوؤں کے برخلاف عوامی سیاست کرنے اور ملک میں مزدور کسان راج لانے کے بجائے وڈیرہ شاہی کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن پی این اے کی تحریک ملک میں عوامی جمہوریت لانے یا مزدور کسان راج لانے کے لیے نہیں چلائی گئی بلکہ محض بھٹو کو ہٹانے کے لیے چلائی گئی اور بہانہ یہ بنایا گیا کہ الیکشن میں پیپلز پارٹی نے پنجاب کی کچھ نشستوں پر دھاندلی کی ہے۔

ہمارے انتخابی نظام میں دھاندلی ایک ناگزیر ضرورت کی طرح شامل ہے، اگر پیپلز پارٹی نے پنجاب کی چند نشستوں پر دھاندلی کی تھی تو یہ کوئی حیرت کی بات نہ تھی لیکن اس رائج الوقت دھاندلی کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کا رخ بھٹو کی طرف موڑ دیا گیا اور عوام کو مس گائیڈ کرکے سڑکوں پر لایا گیا۔ چونکہ اس تحریک کو امریکا بہادر کی دامے درمے اور سخنے حمایت حاصل تھی لہٰذا یہ تحریک جنگل کی آگ کی طرح سارے ملک میں پھیل گئی اور کہا یہ گیا کہ یہ تحریک جمہوریت کی بالادستی کی تحریک ہے، کیونکہ پنجاب کی چند نشستوں پر مبینہ طور پر کی جانے والی دھاندلی کو جمہوریت کے چہرے پر داغ بتایا جا رہا تھا لیکن جمہوریت کے چہرے کے داغ ہٹانے والی یہ تحریک ایک فوجی آمر بھٹو کی جگہ اقتدار میں لا کر جمہوریت کا پورا منہ کالا کرنے کا سبب بن گئی اور دلچسپ بات یہ رہی کہ سارے نو کے نو ستارے جمہوریت کا بیڑہ غرق کرنے والے آمر کی حکومت کا حصہ بن گئے۔ یہ تھا وہ اتحاد جو سیاسی اتحادوں کی تاریخ میں سب سے بڑا اتحاد کہلاتا ہے۔

ضیا الحق جیسا ڈکٹیٹر پاکستان پر 10 سال تک حکومت کرتا رہا لیکن سوائے ایم آر ڈی کی مختصر احتجاجی تحریک کے ضیا الحق کے خلاف کوئی موثر اور بڑا اتحاد نہیں بن سکا۔ ضیا الحق نے افغانستان میں روسی مداخلت کے خلاف امریکا کے کارکن کی حیثیت سے کام کرکے اس ملک کو مذہبی انتہاپسندی کی دلدل میں دھکیل دیا لیکن ضیا الحق جیسے فوجی آمر کے خلاف کوئی بڑا اور موثر اتحاد نہ بن سکا اور جمہوریت کے راج دلارے فوجی آمریت کی گود میں کھیلتے رہے۔ اگر ضیا الحق طیارہ حادثے میں موت کا شکار نہ ہوتے تو اگلے دس سال بھی شاید نو ستاروں کی روشنی میں اطمینان کے ساتھ گزار دیتے۔

2014 میں عمران، طاہرالقادری اتحاد بنا اور اسلام آباد میں تاریخی دھرنا تحریک چلائی گئی۔ ملک پچاسوں شدید قومی مسائل میں غرق ہے لیکن دھرنا تحریک ’’گو نواز گو‘‘ پر ہی اٹک کر رہ گئی، اور ناپختہ قیادت کی وجہ سے یہ مضبوط تحریک آہستہ آہستہ کمزور ہوکر ناکامی کا شکار ہوگئی۔ یہ مضبوط تحریک بھی نان ایشوز پر چلائی گئی اور ’’گو نواز گو‘‘ کی نعرہ بازیوں کی نذر ہوگئی۔

سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں سیاسی تحریکوں کا ہدف قومی مسائل کے بجائے فرد واحد کیوں رہتا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہماری سیاسی تحریکیں سیاسی اختلافات کی بنیادوں پر کھڑی کی جاتی ہیں اور قومی مسائل کے بجائے فرد واحد ان کا ہدف ہوتا ہے۔

2018 میں انتخابات ہوتے نظر آرہے ہیں اور سیاسی جماعتیں بلا شرکت غیرے حکومت میں آنے یا کسی اتحاد کے ذریعے اقتدار میں حصہ بٹانے کی تیاریوں میں مصروف نظر آرہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان اشرافیائی جماعتوں اور ان کے دودھ شریک بھائیوں کو عوام اور ان کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، ان کی ساری توجہ پرائم منسٹر ہاؤس پر لگی رہتی ہے اور سارے جوڑ توڑ، سارے اتحاد اسی محور پر گھومتے رہتے ہیں۔ موجودہ صورت حال بڑی دلچسپ ہے، مسلم لیگ (ن) چونکہ اقتدار میں ہے لہٰذا اسے کسی موثر اتحاد کی ضرورت نہیں ہے۔ پنجاب پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کی پالیسی پر چل کر مسلم لیگ اقتدار پر قابض ہے، اس کی کوشش ہے کہ پنجاب میں زیادہ سے زیادہ ترقیاتی کام کرکے حکومت میں رہنے کی سبیل پیدا کرے۔ جو پارٹی بھی اقتدار میں ہوتی ہے اسے دو بڑی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں، ایک ریاستی مشینری دوسرا مادی وسائل۔ یہ دو سہولتیں دس سیاسی اتحادوں سے زیادہ طاقتور ہوتی ہیں۔

ایسی صورتحال میں ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے، وہ یہ کہ مڈل کلاس پر مشتمل مخلص ایماندار اور عوام دوست سیاسی جماعتیں خواہ وہ کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہوں، عوامی ایجنڈا رکھنے والی اور اسٹیٹس کو کے خلاف سیاسی جماعتوں، مزدور، کسان تنظیموں، ڈاکٹروں، وکلا، ادیبوں، شاعروں کی تنظیموں کو ساتھ ملاکر 69 سالہ بدترین اور عوام دشمن اسٹیٹس کو کے خلاف اہم قومی مسائل کے حل پر اتحاد بنالیں اور اشرافیائی سیاست کے خلاف مورچہ لگائیں۔ موجودہ صورتحال میں ایسے کسی اتحاد کی کامیابی آسان نہیں، لیکن اس کا ایک مثبت فائدہ یہ ہوگا کہ ایسا اتحاد عوام میں متعارف ہوگا اور آنے والے الیکشن میں اس کا فائدہ ہوگا۔

The post سیاسی اتحادوں کے مقاصد appeared first on ایکسپریس اردو.

فساد خلق سے چپ ہیں جو عقل و ہوش رکھتے ہیں (1)

$
0
0

تاریخ کی ترتیب و تدوین میں غیرجانبداری ایسی نایاب چیز ہے جسے ڈھونڈنا نا ممکن ہے۔ دنیا میں آپ کو کہیں کہیں ایسی تحریریں مل جاتی ہیں جو کم جانبدار ہیں لیکن میرے ملک پاکستان میں اس کی پیدائش کے دن سے لے کر آج تک غیرجانبدار تاریخ ڈھونڈنا ایسے ہی ہے جیسے سیاہ رات میں سیاہ پتھر پر سیاہ چیونٹی کو تلاش کرنا۔ اول دن سے اس ملک کے واقعات کو دو مختلف نظریات رکھنے والے گروہوں نے بیان کیا ہے۔

ایک وہ جو قائداعظم کو سیکولر ثابت کرنے کی ضد پر قائم رہے اور آج بھی اس ملک کی آزادی کی تحریک کو اسی رنگ میں دیکھتے ہیں۔ دوسرے وہ جو اس ملک کو ایک اسلامی نظریاتی ملک سمجھتے ہیں اور دوقومی نظریے کی ایک تاریخ بیان کرتے ہیں جس کا برصغیر میں بانی اورنگ زیب عالمگیر بتایا جاتا ہے۔ دونوں جانب تعصبات اور شخصیات پرستی سے رنگین تاریخ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ چونکہ پاکستان کو انگریز ورثے میں برطانوی اقدار سے متاثر ایک سیکولر بیوروکریسی‘ سیکولر اشرافیہ اور سیکولر فوج عطا کر گیا تھا‘

اسی لیے تاریخ مرتب کرنے والوں پر بھی انھی کا پلڑا بھاری رہا۔ یہ ستر سال اس تگ و دو میں لگے رہے کہ آیندہ نسلوں کو یہ بتایا جائے کہ یہ ملک اسلام کے لیے نہیں بلکہ مسلمانوں کے لیے بنا ہے اور اس ملک میں بسنے والے 20کروڑ مسلمان ان کے بتائے ہوئے تاریخی واقعات اس لیے جھٹلاتے رہے کہ مسلمان تو ہوتا ہی اسلام کے لیے ہے‘ اسلام کے بغیر اس کی حیثیت ہی کیا ہے۔

موجودہ دور میں پاکستان کی تاریخ کے خود ساختہ ماہرین کا ایک اور طبقہ وجود میں آ گیا ہے جسے کالم نگار کہتے ہیں۔ ان کے ذاتی تعصب بلکہ بعض مقام پر تو ذاتی بغض و عناد نے تاریخ کا دامن اتنا میلا کر دیا ہے کہ پوری تاریخ جھوٹ کا پلندہ لگنے لگتی ہے۔ آپ ضیاء الحق کو بیک وقت بہترین اور بدترین دونوں ثابت کر سکتے ہیں اور ذوالفقار علی بھٹو کو غدار اور محب وطن کے روپ میں پیش کیا جا سکتا ہے اور دونوں کے بارے میں مواد گزشتہ بیس سالوں میں لکھے گئے کالموں‘ کتابوں اور ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز میں وافر موجود ہے۔ اب یہ مرتب کرنے والوں کے تعصب‘ بغض‘ عناد اور محبت پر منحصر ہے کہ وہ کونسا حصہ چنتا ہے اور کونسا چھوڑ دیتا ہے۔

یہ معاملہ اور بھی گمبھیر ہو جاتا ہے جب تاریخ مرتب کرنے کا معاملہ افواج پاکستان سے متعلق ہو۔ یہ تو ایسی تنی ہوئی رسی ہے جس پر چلنے والا بمشکل تمام ہی سچ بولنے کے فریضے سے عہدہ برآ ہوتا ہے۔ یہاں فساد خلق کا اتنا خوف نہیں ہوتا جتنا اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ آپ محب وطن افراد کی فہرست سے ہی خارج نہ کر دیے جائیں۔

ایسے میں اس تاریخی گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کچھ لوگ ہوتے ہیں جو سچ کی مشعل ضرور روشن کرتے ہیں۔ ایسی ہی شخصیت لیفٹیننٹ جنرل(ر) محمود احمد ہیں۔ جنرل صاحب سے میرا ایک محبت کا رشتہ برسوں سے قائم ہے اور بار بار میں ان سے یہ درخواست کرتا رہا ہوں کہ ’’گیارہ ستمبر‘‘ کے واقعات کے حوالے سے آپ کے بارے میں اس قدر جھوٹ سچ بولا جاتا رہا ہے تو پھر آپ خود ساری تفصیلات قوم کے سامنے کیوں نہیں رکھتے۔ ہر دفعہ ان کا جواب ہوتا کہ میں اس جھوٹ پر مبنی میڈیا پر نہ جانے کی قسم کھا چکا ہوں۔

ان کی 1965 کی پاک بھارت جنگ پر لکھی گئی کتاب “illusion of victory” جیت کا سراب ایک ایسی دستاویز ہے جو پاکستان ہی نہیں پاکستان کے باہر اکثر ممالک کے فوجی تعلیمی اداروں میں مقبول ہے۔ یہ کتاب 1965ء کی جنگ کے دوران پاکستان کی سیاسی اور فوجی غلطیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ ایسی غلطیاں جن کی وجہ سے ہمیں صرف چھ سال بعد ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ چھ سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب میں کئی حصے ایسے تھے جن پر پاکستان فوج کو اعتراض تھا اور جی ایچ کیو اسے چھاپنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔

1986 میں لکھی گئی اس کتاب کو اکتوبر2001 میں ترمیمات کے ساتھ قابل اشاعت سمجھ کر منظوری دے دی گئی۔ کتاب کا دیباچہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے لکھا ہے۔ کتاب دراصل ان خامیوں کی نشاندہی کرتی ہے‘ ان کمزوریوں سے آگاہ کرتی ہے‘ اس اعتماد کی کمی کا بتاتی ہے اور ان عالمی‘ علاقائی اور فوجی سازشوں سے بے نقاب کرتی ہے کہ کس طرح ہم نے اپنے دفاع سے اغماض کیا اور چھ سال بعد اس کا خمیازہ بھگتا۔ کتاب کا آخری فقرہ سب کچھ بیان کرتا ہے۔

”The seeds of defeat had been sown on the banks of River Tavi on 2nd September,  1965 and the bitter harvest of humilation was reaped in East Pakistan in December 1971” (شکست کا بیج 2ستمبر1965 کو دریائے توی کے کنارے بویا گیا اور اس کی فصل دسمبر1971 کی ذلت آمیز شکست کی صورت مشرقی پاکستان میں کاٹی گئی)۔ اس فقرے کے پس منظر میں وہ ساری کہانی ہے کہ کس طرح  1965 میں ایک مکمل جیت کی جانب بڑھتی ہوئی جنگ کو روک کر بھارت کو منصوبہ سازی کا موقع دیا گیا۔

جنرل محمود احمد کی اس حق گوئی کو نظر میں رکھتے ہوئے‘ میں نے ان سے بار بار ستمبر کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر‘ امریکی دباؤ کی کہانیاں‘ پرویز مشرف کا سرنڈر اور دیگر امور کے بارے میں گفتگو کو طشت ازبام لانے کے لیے کہا‘ جس پر انھوں نے میڈیا پر آنے سے انکار کر دیا۔ البتہ میرے ساتھ ایک کرمفرمائی کی کہ میں ان کے بیان کردہ حقائق کو اپنے کالم کے ذریعے عوام تک پہنچا سکتا ہوں۔ یہ اجازت میرے لیے ایک ایسی نعمت ہے کہ 9/11 کے واقعہ سے لے کر افغانستان پر امریکی حملوں تک کے مختصر عرصہ کے بارے میں ایسے بے بنیاد واقعات اخبارات‘ رسائل اور کتب میں گردش کر رہے ہیں کہ ان میں سے زیادہ تر ان افراد کے حوالے سے بیان نہیں ہوئے ہیں جو وہاں موجود ہی نہ تھے‘ جب کہ جنرل محمود احمد سے زیادہ کون ان دنوں کا گواہ ہوگا بلکہ ان پر تو یہ دن بیت رہے تھے۔

جنرل محمود احمد گیارہ ستمبر کے واقعات سے پہلے امریکا میں کیا کررہے تھے۔ ان کی بیان کردہ تفصیلات حیرت انگیز ہیں۔ پرویز مشرف کے ابتدائی دو سالوں میں پاکستان پر امریکا کی جانب سے شدید پابندیاں لگی ہوئی تھیں۔ حالت یہ تھی کہ کلنٹن نے بھارت کا طویل دورہ کیا اور پاکستان کی منت سماجت کے بعد چند گھنٹوں کے لیے یہاں قدم رکھا اور پاکستانی قوم کو ٹیلی ویژن کے ذریعے خطاب کر کے نصیحتیں کر کے چلے گئے۔ امریکا کے ساتھ اپنی ساکھ بحال کرنے اور امداد جاری کرنے کے لیے حکومت پاکستان نے اس زمانے کے وزیر خارجہ عبدالستار کو کشکول دے کر امریکا بھیجا کہ وہ وہاں سے کچھ امداد لے کر واپس آئیں‘ لیکن ان کا یہ تفصیلی دورہ ناکام و نامراد ثابت ہوا۔ ایسے میں جنرل محمود احمد سے کہا گیا کہ چونکہ آپ آئی ایس آئی کے سربراہ ہیں اور مدتوں آئی ایس آئی اور سی آئی اے کا ایک گہرا تعلق افغان جنگ کے سلسلے کے حوالے سے رہا ہے۔

اس لیے یہ کشکول آپ تھامیں اور اس وسیلے سے امریکی انتظامیہ کو قائل کرنے کی کوشش کریں۔ جنرل محمود کا یہ امریکی دورہ 9/11 کے تین دن پہلے ختم ہو جانا تھا۔ وزیر خارجہ عبدالستار کی طرح یہ دورہ بھی ناکام و نامراد ثابت ہو چکا تھا اور جنرل محمود واپسی کے لیے اپنی شیڈول فلائٹ کے ذریعے واپس جانے والے تھے کہ نیویارک کے کچھ بااثر پاکستانی افراد نے انھیں کچھ دنوں کے لیے رک جانے کو کہا تاکہ کچھ ریپبلکن اور ڈیمو کریٹ سینیٹرز سے ان کی ملاقات کرائی جا سکے۔ یوں عین ان کی امریکا موجودگی میں گیارہ ستمبر آ گیا اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہو گیا۔ اس کے بعد پوری دنیا کے پریس اور پاکستانی میڈیا نے ایک شور مچانا شروع کر دیا کہ جنرل محمود اس وقت امریکی کنٹرول میں ہیں۔

انھیں رچرڈ آرمٹیج دھمکی دے رہا ہے کہ ہمارا ساتھ دو ورنہ پتھر کے دور میں پہنچا دیں گے۔ لیکن ان تمام اخباری اطلاعات کے برعکس جن کا کوئی چشم دید گواہ نہیں جنرل محمود کہتے ہیں کہ جیسے ہی9/11 ہوا‘ جو کشکول میرے ہاتھ میں تھا‘ وہی کشکول اب امریکیوں کے ہاتھ میں آ چکا تھا اور وہ مجھ سے اس سارے معاملے میں مدد کی بھیک مانگ رہے تھے۔ امریکی نائن الیون کے واقعے کی وجہ سے ہونے والی اپنی رسوائی کے خوف سے اسقدر پریشان تھے کہ کولن پاؤل جیسا تنومند آدمی جنرل محمود کے سامنے ایسے ڈھے جائے گا کہ پاکستان سے تعاون کی بھیک مانگتے ہوئے وہ جنرل محمود کے کندھے پر اپنا سر رکھ دے گا اور اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگیں گے اور صرف یہی الفاظ تھے اگر پاکستان نے ہمارے ساتھ تعاون نہ کیا تو ہم اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال نہیں کر سکیں گے۔

(جاری ہے)

The post فساد خلق سے چپ ہیں جو عقل و ہوش رکھتے ہیں (1) appeared first on ایکسپریس اردو.

چند پس پردہ حقائق

$
0
0

انور مجید کون ہیں؟یہ آصف علی زرداری کے انتہائی قریبی ساتھی ہیں‘ بزنس مین ہیں‘ یہ زرداری صاحب کے کاروبار‘ شوگر ملز اور زمینوں کا دھیان رکھتے ہیں‘ یہ ان چار ستونوں میں شامل ہیں جن پر آصف علی زرداری کی کاروباری عمارت کھڑی ہے‘ ملک کی فیصلہ ساز قوتوں کا خیال ہے یہ ستون جس دن گر گئے‘یہ عمارت اس دن دھڑام سے اپنی بنیاد پر آجائے گی چنانچہ یہ قوتیں جب بھی زرداری صاحب کو تنگ کرنا چاہتی ہیں یہ ان کے کسی نہ کسی ستون پر وار شروع کر دیتی ہیں اور یہ وار زرداری صاحب کو’’ تم ہمیں جانتے نہیں ہو‘ ہم تمہاری اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور تم نے تین سال بعد چلے جانا ہے‘ مستقل صرف ہم نے رہنا ہے‘‘ جیسی للکار پر مجبور کر دیتے ہیں۔

جون 2015ء میں بھی اسٹیبلشمنٹ انور مجید کے گرد گھیرا تنگ کر رہی تھی‘ یہ تنگ ہوتا گھیرا زرداری صاحب کو تنگ کرتا چلا گیا یہاں تک کہ یہ 16 جون 2015ء کو فوج کو للکارنے پر مجبور ہو گئے‘ آصف علی زرداری کی تقریربہت خوفناک تھی‘ میاں نواز شریف کے ساتھ ان کی ملاقات طے تھی‘ وزیراعظم نے تقریر کے بعد یہ طے شدہ ملاقات بھی منسوخ کر دی اور زرداری صاحب کی تقریر کو نامناسب بھی قرار دے دیا‘حکومت نے آصف علی زرداری کو مشورہ دیا ’’آپ فوری طور پر ملک سے باہر چلے جائیں‘ آپ کے خلاف گواہ تیار ہیں‘ گواہوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھنے کی دیر ہے اور آپ ملک میں محصور ہو کر رہ جائیں گے‘‘حکومت نے آصف علی زرداری کو یہ مشورہ کیوں دیا؟ اس کی دو وجوہات تھیں۔

پہلی وجہ 2014ء کا دھرنا تھا‘ پاکستان پیپلز پارٹی نے دھرنے کے دوران حکومت کا کھل کر ساتھ دیا تھا‘ آصف علی زرداری اگر اس وقت میاں نواز شریف کا ساتھ نہ دیتے تو حکومت فارغ ہو جاتی‘ حکومت اس احسان کا بدلہ اتارنا چاہتی تھی‘ دوسرا‘ عمران خان ابھی تک میدان میں موجود تھے‘ حکومت جانتی تھی یہ 2016ء میں دوسرا حملہ کریں گے اور اس سے قبل پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا ’’اتحاد‘‘ تڑوا دیا جائے گا تاکہ اپوزیشن متحد ہو جائے‘ پیپلزپارٹی عمران خان کے کنٹینر پر کھڑی ہو جائے اور جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے پہلے حکومت ختم ہو جائے‘حکومت جانتی تھی حالات نازک ہیں‘ چوہدری نثار کے ایک ماتحت ادارے کی طرف سے ریڈ کی دیر ہے اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان موجود دھاگہ ٹوٹ جائے گا۔

حکومت یہ دھاگہ بچانا چاہتی تھی‘ یہ ’’چھاپے‘‘ سے قبل زرداری صاحب کو ملک سے باہر بھجوانا چاہتی تھی چنانچہ حکومت نے بیک ڈور استعمال کیا اور آصف علی زرداری 24 جون 2015ء کو دبئی چلے گئے اور 23 دسمبر 2016ء تک ڈیڑھ سال ملک سے باہر رہے‘ یہ اس دوران لندن‘ نیویارک اور دبئی میں رہے‘ یہ واپس آئے تو رینجرز نے 23 دسمبر کو انور مجید کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا اور وہاں سے بھاری اسلحہ برآمد کر لیا‘ یہ چھاپہ اور اسلحے کی برآمدگی زرداری صاحب کے نام یہ پیغام تھا’’ہمارا حافظہ بہت تگڑا ہے‘ قیادت کی تبدیلی اس حافظے پر اثر انداز نہیں ہوتی‘ یہ معاملہ انور مجید سے شروع ہوا اور یہ انور مجید پر ہی ختم ہو گا‘‘۔

آصف علی زرداری‘ انور مجید اور اسٹیبلشمنٹ کا آپس میں کیا تعلق ہے‘ یہ ہم مستقبل میں تفصیل سے بیان کریں گے‘ ہم سرِدست آصف علی زرداری کی صحت کی طرف آتے ہیں‘ آصف علی زرداری11 سال جیل میں رہے‘جیل نے ان کے ذہن پرخوفناک اثرات مرتب کیے‘ یہ2004ء میں رہائی کے بعد ملک سے باہر گئے اور 2008ء تک امریکا کے دو مشہور نفسیات دانوں فلپ سیلٹیل اور سٹیفن ریچ سے علاج شروع کرا دیا‘ یہ زندگی بھر کا علاج تھا‘ مریض نے باقی زندگی ادویات کھانی تھیں‘ یہ ادویات کے شیڈول کو2008ء تک فالو کرتے رہے لیکن پھر یہ صدر بن گئے‘ مصروفیت بڑھ گئی‘ یہ مصروفیت کی وجہ سے اکثر اوقات ادویات چھوڑ دیتے تھے اور کوئی انھیں سمجھانے کی ہمت نہیں کرتا تھا‘ ادویات کا طویل اور خوفناک تعطل 2011ء کے نومبر دسمبر میں آیا‘ حکومت یلغار کی زد میں تھی‘ میمو سکینڈل شکنجہ بنتا جا رہا تھا۔

دہشت گردی عروج پر تھی اور حکومت کرپشن کے خوفناک الزامات کا شکار تھی‘یہ تمام چیزیں مل کر صدر کو دبانے لگیں‘ دسمبر کے شروع میں انور مجید ایوان صدر آئے اور چار دن مسلسل صدر کے ساتھ رہے‘ یہ صدر کے لیے فل ٹائم ٹینشن تھے‘ حسین حقانی بھی ان دنوں ایوان صدر میں تھے‘ ان پر غداری کا مقدمہ بن چکا تھا ‘ انھیں یقین تھا چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری انھیں پھانسی پر لٹکا دیں گے‘ یہ بھی صدر کو مسلسل ٹینشن دے رہے تھے‘ صدر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی من مانیوں سے بھی پریشان تھے‘ ملکی حالات بھی ٹھیک نہیں تھے‘ فیملی کے ایشوز بھی تھے‘ ادویات بھی بند تھیں اور یہ مسلسل تین دن سے جاگ بھی رہے تھے چنانچہ پانچ اور چھ دسمبر کی درمیانی شب ان کی طبیعت خراب ہوگئی‘ ان پر اینگزائٹی کا خوفناک حملہ ہوا اور یہ ڈپریشن میں چلے گئے‘ بیڈروم میں اس وقت ان کے ساتھ انور مجید اور ملک ریاض تھے۔

رحمن ملک نے اندر داخل ہونے کی کوشش کی لیکن ٹھیک ٹھاک تاج پوشی کروا کر بھاگ گئے‘ صدر کا اسٹاف صورتحال سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اچانک صدر اوباما کا فون آگیا‘ اسٹاف نے کال تھرو کر دی‘صدر اوباما کے ساتھ اس کے بعد کیا ہوا وہ کسی المیے سے کم نہیں ‘ مجھے یقین ہے صدر اوباما جب کتاب لکھیں گے تو وہ اس ٹیلی فون کال کا ضرور ذکر کریں گے‘ پاکستان کے صدر نے ان کو حکومت سازی اور دنیا کو قابو میں رکھنے کے طریقے بتانا شروع کر دیے اور یہ انھیں مسلسل 35 منٹ بتاتے رہے‘ صدر اوباما درمیان درمیان میں مسٹر پریذیڈنٹ‘ مسٹر پریذیڈنٹ کرتے رہے لیکن ان کی باری نہیں آئی یہاں تک کہ صدر اوباما نے تھک کر ملٹری سیکریٹری کو مشورہ دیا ’’آپ اپنے صدر کا خیال رکھیں‘ مجھے ان کی صحت ٹھیک نہیں لگ رہی‘‘ اور فون بند کر دیا‘ صدر نے اس کے بعد آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو فون کیا اور ان کی ’’غلط فہمیاں‘‘ دور کرنے لگے‘ کال لمبی ہو گئی۔

اسٹاف نے دوسری لائن کے ذریعے جنرل کیانی کو بتایا’’ صدر کی طبیعت ٹھیک نہیں‘ انھیں فوری طبی مدد چاہیے‘ آپ فون بند کریں تا کہ ان کا علاج شروع کیا جا سکے‘‘ جنرل کیانی نے جواب دیا ’’یہ صدر ہیں‘ میں ان کی کال ڈراپ نہیں کر سکتا ‘‘ یوں کال لمبی ہو گئی یہاں تک کہ اسٹاف نے ایوان صدر کا ایکسچینج بند کردیا‘ صدر کو علاج کے لیے اے ایف آئی سی لے جانے کا فیصلہ ہوا لیکن یہ وہاں جانے کے لیے تیار نہیں ہوئے‘یہ ملک سے باہر جانا چاہتے تھے چنانچہ صدر کا طیارہ تیار کرا دیا گیا‘ صدر نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایوان صدر سے ائیرپورٹ پہنچنا تھا اور وہاں سے دبئی روانہ ہو جانا تھا لیکن انھوں نے عین وقت پر حسین حقانی اور ان کی بیگم فرح ناز اصفہانی کو بھی ہیلی کاپٹر میں بٹھا لیا‘ حسین حقانی ای سی ایل پر تھے‘ یہ ملک سے باہر نہیں جا سکتے تھے‘ پائلٹ نے حسین حقانی کے ساتھ ہیلی کاپٹر اڑانے سے انکار کر دیا‘صدر نے حکم دے دیا ’’یہ میرے ساتھ دبئی جائیں گے‘‘صورتحال نازک ہو گئی‘اسٹاف حسین حقانی کو باہر نہیں لے جا سکتا تھا اور صدر حسین حقانی کو ہیلی کاپٹر سے اترنے نہیں دے رہے تھے۔

اسٹاف نے صدر کو راضی کرنے کے لیے بلاول بھٹو کو بلایا لیکن ان کے ساتھ بھی رحمن ملک جیسا سلوک ہوا‘ اسٹاف نے یوسف رضا گیلانی کو بلالیا‘ یہ آئے اور بڑی مشکل سے حسین حقانی کو ہیلی کاپٹر سے اتارا‘ صدر ائیر پورٹ پہنچے اور دبئی روانہ ہو گئے‘ دبئی میں ملک ریاض نے امریکن اسپتال میں بکنگ کرا رکھی تھی‘ ڈاکٹر عاصم حسین نے اس دوران نیویارک سے صدر کا ذاتی ڈاکٹر بلوا لیا‘صدراپنے ڈاکٹر اور نفسیاتی علاج کو خفیہ رکھنا چاہتے تھے چنانچہ ڈاکٹر عاصم کو اس غلطی کے خوفناک نتائج بھگتنا پڑے‘ بہرحال امریکی ڈاکٹر نے ادویات دوبارہ شروع کرا دیں اور یوں صدر کی طبیعت سنبھل گئی‘ یہ آٹھ دن اسپتال رہے اور اس کے بعد اپنی ذاتی رہائش گاہ میں شفٹ ہو گئے۔ آرمی چیف جنرل کیانی نے اس دوران ڈاکٹروں کا بورڈ بٹھا کر صدر کی حالت کے بارے میں رپورٹ حاصل کر لی‘بورڈ نے صدر کو ’’ناٹ فٹ فار آفس‘‘ڈکلیئر کر دیا‘ یہ رپورٹ خطرناک تھی۔

یہ اگر سپریم کورٹ میں جمع کرا دی جاتی توچیف جسٹس صدر کو ہٹا کر نئے صدارتی الیکشن کا حکم جاری کر دیتے لیکن جنرل کیانی نے ’’ساتھیوں‘‘ کے اصرار کے باوجود یہ رپورٹ سپریم کورٹ نہیں بھجوائی تاہم حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں اور زرداری فیملی کو صورتحال سے مطلع کر دیا گیا‘ صدر آصف علی زرداری 19 دسمبر کو واپس آ گئے‘ صدر کے ذاتی معالجین نے اس دوران بلاول بھٹو کو دو مشورے دیے‘ پہلا مشورہ ادویات سے متعلق تھا‘ بلاول صاحب کو بتایا گیا صدر کی ادویات کسی قیمت پر بند نہیں ہونی چاہئیں‘ یہ ذمے داری آپ اور آپ کی بہنوں کو اٹھانا ہو گی اور دوسرا مشورہ انور مجید سے پرہیز تھا‘ ڈاکٹروں کا کہنا تھا’’ آپ انھیں انور مجید جیسے لوگوں سے بچائیں‘ یہ لوگ انھیں ناقابل علاج بنا دیں گے‘‘ بلاول بھٹو ان دونوں مشوروں پر عمل کرتے رہے لیکن انور مجید کے وار بھی مسلسل چلتے رہے‘ یہ وار 16 جون 2015ء کی تقریر کے وقت بھی چلا اور یہ اس وقت بھی چل رہا ہے‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور لیڈروں کو دعا کرنی چاہیے آصف علی زرداری کا انور مجید سے رابطہ ختم ہو جائے۔

یہ رابطہ نہ ٹوٹا تو پارٹی ٹوٹ جائے گی اور یہ انور مجید جیسے لوگوں کی بہت بڑی خواہش ہے‘ یہ اس وجہ سے حساب سے بچ جائیں گے چنانچہ آصف علی زرداری کے پاس اب صرف ایک آپشن باقی ہے‘ سیاست یا انور مجید‘ آصف علی زرداری کو یہ فیصلہ جلد از جلد کر لینا چاہیے ورنہ دوسری صورت میں یہ بھی میاں نواز شریف کی طرح پانامہ جیسے کسی سکینڈل میں پھنس جائیں گے‘ میاں نواز شریف خوش قسمت ہیں‘ یہ اب تک بچ رہے ہیں لیکن زرداری صاحب زیادہ لکی ثابت نہیں ہوں گے‘ یہ پھنسیں گے تو ذوالفقار مرزا سے لے کر انور مجید تک ان کے خلاف سلطانی گواہوں کی لائن لگ جائے گی اور یہ گھر کے چراغوں کے دھوئیں میں ڈوب جائیں گے۔

The post چند پس پردہ حقائق appeared first on ایکسپریس اردو.

کراچی میں ’صفائی‘ چینی کمپنی کرے گی

$
0
0

کراچی میں صفائی کی ابتر صورتحال لگتا ہے جلد ہی ختم ہونے والی ہے کیونکہ اخباری اطلاعات کے مطابق کراچی کے جنوبی و شرقی اضلاع میں صفائی کے لیے چینی کمپنی کانگ جی سینیٹیشن پرائیویٹ لمیٹیڈ نے بیشتر مشینری منگوالی ہے۔ صوبہ سندھ خصوصاً شہر قائد میں صفائی کی ناقص صورتحال نے جو کھٹراگ پھیلایا تھا، اس کی لپیٹ میں سندھ کی گزشتہ وزارت اعلیٰ بھی آگئی تھی، شہری ہر فورم پر صفائی کا مطالبہ کرتے دکھائی دے رہے تھے، اسی تناظر میں نئے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بھی اپنا عہدہ سنبھالتے ہی کراچی میں صفائی کا اعلان کیا تھا لیکن معاملات ہنوز جوں کے توںہیں۔ اسی دوران کراچی کے کچرے کو ’ٹھکانے‘ لگانے کی ذمے داری چینی کمپنی کے سپرد کی گئی تھی۔

چند ماہ قبل سندھ سولڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ کی زیر نگرانی بلدیہ جنوبی و شرقی کی انتظامیہ اور چینی کمپنی کے درمیان معاہدہ طے پایا تھا۔ اطلاعات ہیں کہ نجی کمپنی ضلع جنوبی میں صفائی کا کام رواں ماہ کے آخر سے شروع کردے گی، جب کہ اگلے ماہ سے ضلع شرقی میں صفائی کا آغاز کیا جائے گا۔ شہر قائد کے رہائشیوں کو مبارک ہو کہ جلد عروس البلاد سے بدنما داغ چھٹنے لگیں گے۔ شنید ہے کہ نجی کمپنی گھر گھر سے کچرا جمع کرکے گاربیج  ٹرانسفر اسٹیشن پر جمع کرے گی، اور وہاں سے کچرا لینڈ فل سائٹ پر ٹھکانے لگانے کی ذمے داری سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کی ہوگی، کمپنی چھوٹی بڑی سڑکوں کی صفائی بھی کرے گی، شہریوں سے ایک سال تک کوئی چارجز نہیں لیے جائیں گے اور مفت کچرا گھروں سے اٹھایا جائے گا، بعدازاں چارجز لگانے پر غور کیا جائے گا۔

صفائی کی خدمات فراہمی کے عوض سندھ حکومت چینی کمپنی کو ضلع جنوبی میں صفائی کا کام انجام دینے کے لیے تقریباً سوا ارب روپے جب کہ ضلع شرقی میں تقریباً ایک ارب روپے سالانہ ادائیگی کرے گی۔ اس دوران چینی کمپنی کی کارکردگی کو بھی مانیٹر کیا جاتا رہے گا، اگر کمپنی کے عملے نے کہیں غفلت برتی تو اسے جرمانے کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ دنیا بھر میں صفائی ستھرائی کے معاملات بلدیاتی اداروں کے سپرد ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں سیاسی پارٹیاں بلدیاتی نظام پر زیادہ ’بھروسہ‘ نہیں کرتیں، یہی وجہ ہے کہ وہ کام جو بلدیاتی ادارے بخوبی سرانجام دے سکتے تھے اسے اب کثیر سرمایہ خرچ کرکے غیر ملکی کمپنی سے کرایا جارہا ہے۔ بہرحال دیر آید درست آید، کم از کم اسی بہانے کراچی کا حسن تو لوٹ آئے گا اور یہ میٹروپولیٹن شہر بھی عالمی شہروں کے مقابلے میں باعزت طریقے سے شامل ہوسکے گا۔

The post کراچی میں ’صفائی‘ چینی کمپنی کرے گی appeared first on ایکسپریس اردو.

گوادر، پاکستان کے افق پر روشن ستارہ

$
0
0

پاکستان اللہ پاک کی عظیم و عالیشان نعمتوں سے بھری ہوئی ایک ایسی سرزمین ہے، جہاں ہم رہتے ہوئے جتنا شکر ادا کریں اتنا کم ہے۔ کیا کچھ ہمارے پاس ہے اور کیسی کیسی زبردست معدنیات سے لدا پھندا یہ ملک سونا چاندی اگلنے کو ہر دم تیار ہے۔ CPEC کے منصوبے نے دنیا کی آنکھیں خیرہ کردی ہیں۔ یہ ایک ایسا عظیم منصوبہ ہے جو پاک فوج کی زیر نگرانی پھل پھول رہا ہے۔

گوادر کا نیلا شفاف سمندر، صاف ستھری ہوائیں، ایک ایسے شہر کے بسنے کی آواز لگاتا ہے جو نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک مثال ہوگا۔ گوادر کوسٹل ہائی وے ایک ایسا سفر ہے جس میں پریوں کے دیس والے پہاڑ جابجا اپنی خوبصورتی بکھیر رہے ہیں۔ اس طویل سفر پر روانہ کوئی بھی شخص پورا نہیں ہوسکتا کہ قدرت کی رعنائیاں بے انتہا خوبصورتی کے ساتھ ہم سفر ہیں۔

انتہائی طویل سفر بھی خوبصورت اور یادگار بن جاتا ہے، جب سفر گوادر کوسٹل ہائی وے پر رواں دواں ہو۔ ابھی کیونکہ یہ شہر اپنے ابتدائی درجے پر ہے مگر جس طرح کی پلاننگ اور جس طرح سیکیورٹی کے ایشوز کو ہینڈل کیا جا رہا ہے اس سے لگتا تو یہ ہے کہ جلد ازجلد یہ شہر ایک اسمارٹ شہر بن کر دنیا کے خطے پر چمکے گا۔ کہتے ہیں دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں مگر گوادر جاکر ایسا لگتا ہے کہ شاید یہ ڈھول اس شہر میں آکر اور بھی سہانے ہوگئے ہیں۔

گوادر پورٹ اور چینی مینجمنٹ ایک بے انتہا کمال کی صورتحال ہے، اس پورٹ میں کھڑے ہوکر لگتا ہی نہیں کہ ہم اپنے ملک کے پورٹ میں کھڑے ہیں۔ بے انتہا منظم اور بے انتہا لگن کے ساتھ تمام مدارج طے کیے جا رہے ہیں۔ گو کہ چینیوں کے حوالے سے گوادر کے مقامی لوگ کچھ تحفظات کا شکار بھی ہے۔ ان کو محسوس ہوتا ہے کہ شاید ان کے مواقع یہ چینی حاصل کر چکے ہیں، مگر جس طرح گوادر شہر کی پلاننگ کی جا رہی ہے اور مقامی لوگوں کے لیے اسکول، کالجز، یونیورسٹی، اسکالرشپ اور ان کے حالات بہتر بنانے کے لیے جو اقدامات پلاننگ کا حصہ ہیں، اگر یہ اسی طرح نافذ بھی ہوئے اور ہوتے رہے تو شاید گوادر کا مقامی کچھ سکون محسوس کرے۔ مقامی لوگوں کو چینی زبان بھی سکھائی جا رہی ہے، 40 سال کے لیے ملک چین کو دی گئی گوادر کی باگ ڈور میں ایک عام ان پڑھ پاکستانی کیسے اپنا شیئر ڈالے گا اور کیسے اپنے حال اور مستقبل کو روشن کرے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

گوادر شہر جانے والی کوسٹل ہائی وے گوکہ بہت زیادہ پہاڑوں کی خوبصورتی سے سجی ہوئی ہے مگر اس طویل شاہراہ کو مزید ٹورزم کے حوالے سے بہترین بنایا جا سکتا ہے۔ قدرت کی رعنائی سے بھرے ہوئے یہ پہاڑ بہترین اسکیچ کا حصہ محسوس ہوتے ہیں۔ کراچی سے ڈھائی سوکلو میٹر پر کند ملیر کا ساحل اور اس کا سبز و نیلا سمندر بے انتہا شاندار ساحل سمندر ہے، جہاں ویک اینڈ پر بے انتہا رش کی صورتحال ہوتی ہے۔

پھر اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اس طرح کے نایاب بیچ Beach کو جدید سہولتوں سے آراستہ کیا جائے۔ بہترین رہنے کے لیے ریسٹورنٹ کی موجودگی ٹورزم کو فروغ دینے کا باعث بنے گی۔ نہ جانے کیوں ہم اللہ کی نایاب نعمتوں کی اتنی قدر و قیمت نہیں کرتے، جتنا ان کا حق ہوتا ہے۔ یہی beach اگر کسی اور ملک میں ہو تو وہ لاکھوں زرمبادلہ کما سکتا ہے۔ بہرحال جیسے جیسے CPEC کا منصوبہ آگے بڑھتا جائے گا سفر اور تفریح کی جگہیں بھی ترقی پائیں گی۔

گوادر کی ترقی اور پورٹ کے حوالے سے انڈسٹری کے حوالے سے 2005ء سے جو شروعات ہوئیں پھر درمیان میں رک گئیں مگر اب پھر سے تیزی کے ساتھ وہاں انڈسٹریل ایریا تیار ہو رہا ہے، ہاں وہاں انڈسٹری لگانے والوں کی ایک ڈیمانڈ ضرور ہے کہ حکومت ان کو 20 سال کے لیے ٹیکس فری زون بنا دے، تاکہ وہ اس شہر کی انڈسٹری کو مضبوطی سے جماسکیں۔ میدان میں کھڑے پہاڑوں کو گرانا، زمین کو ہموار بنانا، گیس، بجلی، پانی ان تمام بنیادی ضرورتوں کا حصول ہی اس انڈسٹری کو جما سکتا ہے۔

مقامی باشندوں کو مختلف مراعات اور ان کی زمین کے بدلے بہتر زمین اور رقم بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ جو زمینیں حاصل کی جا رہی ہیں ان کی بہترین پلاننگ بھی پائپ لائن میں ہے۔ ابھی جو صورتحال گوادر میں ہے کہ پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے، جس کے لیے ہنگامی طور پر پلانٹ لگائے جانے چاہئیں، بنیادی ضروریات کی بغیر رکے فراہمی کی اس شہر کو تیزی سے ترقی دلا سکتی ہے۔ صفائی و ستھرائی کا مکمل نظام ابھی سے بنانے کی بھی شدید ضرورت ہے۔

گوادر کا مقامی ماہی گیر بھی بہت پرامید نظر آتا ہے کہ جیسے جیسے سی پیک کا منصوبہ آگے بڑھے، جیسے جیسے گوادر پورٹ فنکشنل ہو گا، تو بڑی بڑی انڈسٹریوں کی صورت میں گوادر سے Sea Food ایکسپورٹ ہو سکے گا۔ یہ شہر بس جائے تو یہاں زبردست فوڈ اسٹریٹ کا قیام بھی لاجواب ہو گا۔ بے انتہا شاندار ڈیزائننگ کی جا رہی ہے، روڈ کے ساتھ ساتھ گوادر کو مختلف شہروں سے ٹرین کے ذریعے اور فیری سروسز کے ذریعے بھی جوڑا جائے گا جو یقیناً تفریح کا باعث بھی ہو گا۔ پاکستان کے مختلف شہروں سے بلکہ دنیا کے مختلف ممالک سے لوگوں کی دلچسپی اس شہر سے بڑھتی جا رہی ہے۔ چائنیز اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ بھی کر رہے ہیں۔ ایک نیا ٹرمینل بھی زیر تعمیر ہے۔

PC جیسا شاندار ہوٹل بھی اس شہر کے اونچے پہاڑ، مہندی پہاڑ پر اپنی سروسز دے رہا ہے۔ سیکیورٹی کا کوئی ایشو نظر نہیں آتا، پرسکون اور پر فضا یہ شہر منتظر ہے کہ اس میں بہترین سوجھ بوجھ کے ساتھ کام کیا جائے، پاکستانی اور چائنیز دونوں اپنی محنت و لگن سے اس شہر کو دنیا کے لیے مثال بنا سکتے ہیں اور ایسا ہی نظر آتا ہے بلوچستان کے لوگ بھی شادآباد ہو جائیں اور ان کو بھی بہترین مواقع فراہم کیے جائیں۔ مقامی آبادی اور بلوچستان کے لوگ کچھ تحفظات اس طرح بھی رکھتے ہیں کہ کہیں ملازمتوں کے مواقع ان سے چھن کر چائنیز کے ہاتھوں میں نہ چلے جائیں اور وہ منہ تکتے نہ رہ جائیں، اور اقلیت بن جائیں، مگر اسکول، کالجز کا قیام اس بات کی علامت ہے کہ اب اس مقامی آبادی کو بھی کھلے ذہن کے ساتھ اپنی سوچوں کو پھیلانا ہو گا اور زبردست طریقے سے تعلیم کا حصول اور مختلف ٹریننگ کا حصول ہی مفید ہو گا۔

خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے شدید جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ تب ہی ممکن ہوتا ہے جب ہم سب ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوطی سے تھامیں ایک دوسرے کو دھکا نہ دیجیے بلکہ مضبوطی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر چلیے کہ یہ ملک ہے تو ہم ہیں۔

The post گوادر، پاکستان کے افق پر روشن ستارہ appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک آواز ایک خوشبو

$
0
0

اسکول کے زمانے میں کسی دوست کو ڈاک کے ٹکٹ جمع کرنے کا شوق تھا، کسی کو مختلف ملکوں کے سکے جمع کرنے سے دلچسپی اور کچھ ایسے دوست بھی تھے ’’نکی پور‘‘ گیم کھیلنے کے لیے سگریٹوں کے خالی پیکٹ جمع کرتے تھے، مگر اس وقت میں ایک آنے میں بکنے والی فلمی کہانیوں کے خلاصے اور گانوں کی چھوٹی چھوٹی کتابیں (پمفلٹ) جمع کیا کرتا تھا۔ اس دور میں بندر روڈ پر پکچر ہاؤس کے نام سے ایک سینما تھا، اسی گلی میں ایک چھوٹی سی کتابوں کی دکان تھی جہاں فلمی گانوں کی چند صفحات پر مشتمل کتابیں ڈوری سے بندھی لٹکی رہتی تھیں، اس دکان پر بچوں کی کہانیاں اور لطیفوں کی کتابیں بھی خوب بکتی تھیں۔

میرے پاس پاکستانی اور ہندوستانی فلمی کہانیوں اور گانوں کی یہ پچاس سے زیادہ کتابیں جمع ہوگئی تھیں اور میں وقت نکال کر بڑے شوق سے پڑھا کرتا تھا اور کبھی کبھی اسکول میں بھی کلاس کے دوران کتاب میں چھپاکر پڑھ لیتا تھا۔ یہ کتابیں پڑھ کر مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے میں نے بہت سی فلمیں دیکھ لی ہیں اور اس طرح فلمیں دیکھنے کا میرا شوق پورا ہو جاتا تھا، کیونکہ ہمارا بڑا ہی مذہبی گھرانہ تھا، فلم دیکھنا تو درکنار ریڈیو سے فلمی گانے سننے پر بھی والد صاحب کی طرف سے سخت پابندی تھی اور اس پابندی پر پورا گھرانہ عمل کیا کرتا تھا۔

فلموں کے گانے میں پڑوس کے گھروں میں جاکر ریڈیو سے سن لیا کرتا تھا اور اس طرح فلمی گانوں سے بھی میری دلچسپی بڑھنے لگی تھی اور پھر میں بڑی بے چینی کے ساتھ 14 اگست کے دن کا انتظار کیا کرتا تھا، کیونکہ اس زمانے میں 14 اگست کی بڑی ویلیو تھی، جشن آزادی کی خوشی میں شہر کے سارے سینماؤں میں 14 اگست کو مفت شو دکھائے جاتے تھے اور بے شمار بچے، بڑے اس دن ہر سینما میں فری شو دیکھا کرتے تھے۔ میں بھی اپنے اسکول کے دوستوں کے ساتھ بڑی شان اور آزادی کے ساتھ فلم شو دیکھنے جاتا تھا۔ اس فری فلم شو کی بھی میرے گھر والوں کو خبر نہیں ہوتی تھی۔

جب میں آٹھویں جماعت میں تھا، 13 اگست کی رات تھی، میں خوشی سے ساری رات جاگتا رہا، دوسرے دن سال بھر کے بعد مفت فلم شو دیکھنے کا دن آرہا تھا۔ میں نے فلم ’’محل‘‘ کی کہانی پڑھی تھی اور ان دنوں فلم ’’محل‘‘ بھی ایک سینما میں لگی ہوئی تھی اور فلم ’’محل‘‘ کا ایک گانا جس میں بار بار ’آئے گا، آئے گا، آئے گا‘ کی تکرار تھی، اسے سننے کی مجھے خواہش تھی۔ دوسرے دن جشن آزادی کا سورج طلوع ہوا اور میرا ذہن بھی روشن ہوگیا تھا، میں نے اپنے اسکول کے دو تین دوستوں کے ساتھ ایک سینما میں فلم محل کا مفت شو دیکھا۔ پورا ہال کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔

جب ’آئے گا‘ والا گیت آیا تو سارے سینما ہال میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ کیا گیت تھا، کیا موسیقی تھی اور کیا آواز تھی، جو دل میں اترتی چلی جارہی تھی، فلم کی کہانی تو میری سمجھ میں اس وقت زیادہ نہیں آئی مگر اس ایک گیت کی وجہ سے میں نے کالج میں آنے کے بعد بھی فلم محل کئی بار دیکھی تھی اور یہ اندازہ لگالیا تھا کہ اس گیت کے مکھڑے کی ایک لائن میں سات مرتبہ آئے گا کا لفظ ریپیٹ ہوا ہے اور یہ لفظ جب بھی ریپیٹ ہوتا تھا، ایک نیا ہی مزا دیتا تھا، ایک نیا سرور حاصل ہوتا تھا۔ وہ پورا گیت مجھے یاد ہوگیا تھا۔ نخشب جارچوی کا لکھا ہوا بہت ہی خوبصورت گیت ایک ایک لفظ موتیوں کی طرح جڑا ہوا تھا اور دلکشی بڑھاتا تھا۔ ایک انترہ قارئین کی بھی نذر کرتا ہوں۔

دیپک بغیر کیسے پروانے جل رہے ہیں

کوئی نہیں چلاتا اور تیر چل رہے ہیں

تڑپے گا کوئی کب تک بے آس بے سہارے

لیکن یہ کہہ رہے ہیں دل کے مرے اشارے

آئے گا، آئے گا، آنے والا آئے گا

فلم محل کے ہیرو اور فلمساز بھی اداکار اشوک کمار تھے اور ان کی ہیروئن اس دور کی بیوٹی کوئن اداکارہ مدھو بالا تھی، جب کہ فلم کے مصنف اور ہدایت کار کمال امروہوی تھے، موسیقار کھیم چند پرکاش تھے، جن کی لازوال موسیقی سے فلم ’’محل‘‘ کو کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ یہ 1949ء کی فلم تھی، فلم کے جس سپرہٹ گیت سے لتا منگیشکر کو شہرت ملی تھی، اس کے بارے میں بھی بتاتا چلوں کہ موسیقار کھیم چند پرکاش سے پہلے بھی چند موسیقاروں نے جب لتا کو پہلی بار سنا تھا تو ان کی آواز کے بارے میں کہا تھا کہ لتا کی آواز بہت باریک ہے، یہ آواز پلے بیک سنگنگ کے لیے موزوں نہیں ہے۔

جب کہ کئی موسیقاروں نے لتا منگیشکر کو اپنے گیتوں کے لیے منع کرد یا تھا، مگر جب موسیقار کھیم چند پرکاش نے لتا کو سنا تو کہا، یہ آواز جب آگے چل کر اور کھلے گی تو بڑی بڑی آوازوں کو مات کر دے گی، اس آواز میں قدرتی سر ہے، گلے میں رچاؤ ہے، سوز و گداز ہے۔ اور پھر اسی موسیقار نے اپنی فلم محل کا اہم گیت لتا منگیشکر سے گوایا اور وہ گیت امر ہو گیا۔

اس گیت کی ریکارڈنگ کا بھی ایک دلچسپ قصہ ہے، جب یہ گیت اس دور میں ریکارڈ کیا گیا تو ’آئے گا، آئے گا‘ کے تاثر کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے لتا نے اس گیت کو چل چل کر ریکارڈ کرایا۔ یوں دھیمے سروں سے گیت آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور ریکارڈسٹ مائیک ساتھ لیے لیے لتا منگیشکر کے قدموں کو فالو کرتا ہے۔ بڑی محنت کے بعد یہ گیت OK ہوتا ہے اور پھر اس گیت کی سارے برصغیر میں دھوم مچ جاتی تھی اور اپنے وقت کے مشہور کلاسیکل سنگر دینا ناتھ کی بیٹی ایک دن انڈین فلم انڈسٹری کی لیجنڈ گلوکارہ بن جاتی ہے اور اس کی آواز خوشبو بن کر پھیلتی چلی جاتی ہے۔

اس میلوڈی کوئن نے اپنے کیریئر کا آغاز 1942ء میں کیا تھا۔ لتا کیسے سنگر بنی، اس کا بھی ایک دلچسپ قصہ ہے۔ لتا کے والد دینا ناتھ کی ایک میوزک تھیٹریکل کمپنی تھی۔ دینا ناتھ کے بے شمار لڑکے اور لڑکیاں شاگرد تھے۔ ایک دن دینا ناتھ کی ایک شاگرد لڑکی استاد کی غیر موجودگی میں گیت کی ریہرسل کر رہی تھی اور وہ صحیح جگہ نہیں لگا پا رہی تھی۔ لتا اس وقت بچی تھی۔

اس نے جب یہ دیکھا تو وہ اس شاگرد کے قریب آ کر بیٹھ گئی اور پھر اسے وہ گیت خود گا کر سنایا اور صحیح جگہ لگا کر بتائی۔ اسی دوران دینا ناتھ کمرے میں داخل ہوئے اور لتا کو گاتے ہوئے دیکھ کر دروازے ہی پر رک گئے۔ دینا ناتھ نے اپنی بچی کو اتنا اچھا گاتے ہوئے سنا تو آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا اور کہا مجھے تو یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ میری چھوٹی سی یہ بٹیا اتنی کم عمر میں اتنی گُنی ہے۔

اس دن کے بعد دینا ناتھ نے لتا کو باقاعدہ موسیقی کی تعلیم دینا شروع کی اور ایک دن کہا بیٹی تم بڑی گنی ہو، قدرت نے تمہارے گلے میں بڑے سر دیے ہیں، تم بڑی ہوکر سارے ہندوستان میں اپنی آواز کا جادو جگاؤ گی۔ اور پھر یہی ہوا۔ باپ کی پیش گوئی حقیقت کا روپ دھارگئی۔ لتا منگیشکر ایک لیجنڈ گلوکارہ بن کر ابھری اور یہ ایک ایسی گلوکارہ بنی، جس نے سب سے زیادہ فلموں کے سپر ہٹ گیت گائے اور اس نے نہ صرف برصغیر میں اپنا بلکہ اپنے باپ دینا ناتھ کا بھی نام روشن کیا۔ اب لتا منگیشکر ایک آواز ہی نہیں، ایک خوشبو کا نام ہے۔

The post ایک آواز ایک خوشبو appeared first on ایکسپریس اردو.


مجھے نام نہاد لیڈروں سے بچاؤ

$
0
0

سعادت حسن منٹو نے تقسیم ہند سے قبل ایک مضمون تحریر کیا تھا، جس کا عنوان تھا ’’ہندوستان کو لیڈروں سے بچاؤ‘‘۔ وہ اس طرح سے تھا: ’’ہم ایک عرصے سے یہ شور سن رہے ہیں، ہندوستان کو اس چیز سے بچاؤ، اس چیزسے بچاؤ۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان کو ان لوگوں سے بچانا چاہیے جو اس قسم کا شور پیدا کر رہے ہیں۔ یہ لوگ شور پیدا کرنے کے ماہر ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، مگر ان کے دل اخلاص سے بالکل خالی ہیں۔ رات کو کسی جلسے میں گرماگرم تقریر کرنے کے بعد جب یہ لوگ اپنے پرتکلف بستروں میں سوتے ہیں تو ان کے دماغ بالکل خالی ہوتے ہیں۔

ان کی راتوں کا خفیف ترین حصہ بھی اس خیال میں نہیں گزرتا کہ ہندوستان کس مرض میں مبتلا ہے۔ دراصل وہ اپنے ذاتی مرض کے علاج معالجے میں اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ انھیں اپنے وطن کے مرض کے بارے میں غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ یہ لوگ جو اپنے گھروں کا نظام درست نہیں کر سکتے، جن کا کریکٹر بے حد پست ہوتا ہے، سیاست کے میدان میں اپنے وطن کا نظام ٹھیک کرنے اور لوگوں کو اخلاقیات کا سبق دینے کے لیے نکلتے ہیں۔ کس قدر مضحکہ خیز چیز ہے۔ یہ لوگ جنھیں عرف عام میں لیڈر کہا جاتا ہے، سیاست اور مذہب کو وہ لنگڑا، لولا اور زخمی آدمی تصور کرتے ہیں۔

جس کی نمائش سے ہمارے یہاں گداگر عام طور پر بھیک مانگتے ہیں۔ سیاست اور مذہب کی لاش ہمارے یہ نام نہاد لیڈر اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں اور سیدھے سادے لوگوں کو، جو ہر وہ بات مان لینے کے عادی ہوتے ہیں جو اونچے سروں میں کہی جاتی ہے، یہ کہتے پھرتے ہیں کہ وہ اس لاش کو از سر نو زندگی بخش رہے ہیں۔ مذہب جیسا تھا ویسا ہی ہے اور ہمیشہ ایک جیسا رہے گا۔ مذہب کی روح ایک ٹھوس حقیقت ہے، جو کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی۔ مذہب ایک ایسی چٹان ہے جس پر سمندر کی خشمناک لہریں بھی اثر نہیں کر سکتیں۔ یہ لیڈر جب آنسو بہا بہا کر لوگوں سے کہتے ہیں کہ مذہب خطرے میں ہے تو اس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ مذہب ایسی چیز ہی نہیں کہ خطرے میں پڑ سکے۔

اگر کسی بات کا خطرہ ہے تو وہ ان لیڈروں کا ہے، جو اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے مذہب کو خطر ے میں ڈالتے ہیں۔ ہندوستان کو ان لیڈروں سے بچاؤ جو ملک کی فضا بگاڑ رہے ہیں اور عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ آپ نہیں جانتے مگر یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کے یہ نام نہاد لیڈر اپنی اپنی بغل میں ایک صندوقچی دبائے پھرتے ہیں۔ جس میں یہ لوگوں کی جیبیں کتر کر روپیہ جمع کرتے ہیں۔ ان کی زندگی ایک لمبی دوڑ ہے، سرمائے کے پیچھے۔ ان کی ہر سانس میں آپ ایک ریاکاری اور دغا بازی کا تعفن محسوس کر سکتے ہیں۔

لمبے لمبے جلوس نکال کر منوں بھاری ہاروں کے نیچے دب کر چوراہوں پر طویل طویل تقریروں کے کھوکھلے الفاظ بکھیر کر ہماری قوم کے یہ نام نہاد رہنما صرف اپنے لیے راستہ بناتے ہیں جو عیش و عشرت کی طرف جاتا ہے۔‘‘ منٹو لکھتا ہے ’’یہ چند لوگ اکٹھے کرتے ہیں، مگر کیا انھوں نے آج تک بیکاری کا حل پیش کیا ہے؟ یہ لوگ مذہب مذہب چلاتے ہیں مگر کیا انھوں نے خود کبھی مذہب کے احکام کی پیروی کی ہے؟

یہ لوگ جو خیرات میں دیے ہوئے مکانوں میں رہتے ہیں، چندوں سے اپنا پیٹ پالتے ہیں، جو مستعار اشیا پر جیتے ہیں، جن کی روح لنگڑی، دماغ اپاہج، زبان مفلوج اور ہاتھ پیر شل ہیں، ملک و ملت کی رہبری کیسے کر سکتے ہیں؟ ہندوستان کو بے شمار لیڈروں کی ضرورت نہیں، جو نئے سے نیا راگ الاپتے رہیں، ہمارے ملک کو صرف ایک لیڈر کی ضرورت ہے، جو حضرت عمرؓ کا سا اخلاص رکھتا ہو، جن کے سینے میں اتاترک کا سپاہیانہ جذبہ ہو، جو برہنہ پا اور گرسنہ شکم آگے بڑھے اور وطن کے بے لگام گھوڑے کے منہ میں باگیں ڈال کر اسے آزادی کے میدان میں ان کی طرف مردانہ وار لیے جائے۔ یاد رکھیے وطن کی خدمت شکم سیر لوگ کبھی نہیں کر سکیں گے۔

وزنی معدے کے ساتھ جو شخص وطن کی خدمت کے لیے آگے بڑھے، اسے لات مار کر باہر نکال دیجیے۔ حریر میں لپٹے ہوئے آدمی ان کی قیادت نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی شخص ریشمی کپڑے پہن کر آپ کو غربت کا سدباب بتانے کی جرأت کرے تو اس کو اٹھا کر وہیں پھینک دیجئے جہاں سے نکل کر وہ آپ لوگوں میں آیا تھا۔ یہ لیڈر کھٹمل ہیں، جو وطن کی کھاٹ میں چولوں کے اندر گھسے ہوئے ہیں۔

ان کو نفرت کے ابلتے ہوئے پانی کے ذریعے باہر نکال دینا چاہیے۔ لیڈر جلسوں میں سرمائے اور سرمایہ داروں کے خلاف زہر اگلتے ہیں، صرف اس لیے کہ وہ خود سرمایہ اکٹھا کر سکیں۔ کیا یہ سرمایہ داروں سے بدتر نہیں۔ یہ چوروں کے چور ہیں۔ رہزنوں کے رہزن۔ اب وقت آگیا ہے کہ عوام ان پر اپنی بے اعتمادی ظاہر کردیں۔ ضرورت ہے کہ پھٹی ہوئی قمیضوں والے نوجوان اٹھیں اور عزم کو، خشم کو اپنی چوڑی چھاتیوں میں لے لیں۔

ان نام نہاد لیڈروں کو اس بلند مقام پر سے اٹھا کر نیچے پھینک دیں جہاں یہ ہماری اجازت کے بغیر چڑھ بیٹھے ہیں۔ ان کو ہمارے ساتھ، ہم غریبوں کے ساتھ ہمدردی کا کوئی حق حاصل نہیں۔ یاد رکھیے، غربت لعنت نہیں ہے، جو اسے لعنت ظاہر کرتے ہیں وہ خود ملعون ہیں۔ وہ غریب اس امیر سے لاکھ درجے بہتر ہے جو اپنی کشتی خود اپنے ہاتھوں سے کھینچتا ہے۔ اپنی کشتی کے کھویّا خود آپ بنیے۔ اپنا نفع نقصان خود آپ سوچیے اور پھر ان لیڈروں، ان نام نہاد رہنماؤں کا تماشا دیکھیے کہ وہ زندگی کے وسیع سمندر میں اپنی زندگی کا وزنی جہاز کس طرح چلاتے ہیں۔‘‘

برک کہتا ہے کہ ’’اقوام جن کی رہنمائی چھوٹے دماغوں، چھوٹے دلوں سے ہوتی ہے، انھیں اپنے آپ کو صدموں، آفتوں اور خاتمے کے لیے تیار رہنا چاہیے‘‘۔ اس وقت ملک کے ہر دوسرے آدمی کی یہ سوچ ہے کہ ہم مکمل تباہی کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ کرپشن، دہشتگردی، لاقانونیت، بدامنی کی وجہ سے ہر آدمی سہما ہوا ہے۔ بیروزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے لوگ فاقوں پر مجبور ہیں۔ آبادی میں خوفناک اضافہ کی طرف کوئی دھیان دینے کے لیے تیار نہیں۔ رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہو رہا۔ ادارے کمزور سے کمزور تر ہوتے جا رہے ہیں۔ نفسانفسی، بے حسی ہمارے خون میں شامل ہو چکی ہے، ہم ایسی بھیڑ بن گئے ہیں جس کی کوئی منزل نہیں۔ حکمران جماعت کے وزیر کہہ رہے ہیں کہ پاکستان ایتھوپیا بننے جا رہا ہے۔

قوم مشکل میں ہے اور مشکل کشا بے نیاز و بے پروا ہیں۔ نام نہاد لیڈروں کا یہ حال ہے کہ وہ ملک اور قوم کے بجائے صرف اپنے آپ میں مست ہیں، ان کا نہ تو کوئی ویژن ہے، نہ کوئی فلسفہ اور نہ ہی کوئی نظریہ ہے۔ نام نہاد لیڈر بونوں میں تبدیل ہو گئے ہیں، ان کی نااہلی کی وجہ سے مسائل پہاڑوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ ظاہر ہے بونے جن کا کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ہر طرف کھینچاتانی، کرپشن، نااہلی کا دور دورہ ہے۔

آج ہمارے نام نہاد لیڈروں کا وہی حال ہے جو سعادت حسن منٹو نے اپنے مضمون میں ہندوستان کے لیڈروں کا حال رقم کیا تھا۔ تقسیم کے بعد بھی کچھ نہیں بدلا، بدلا تو صرف نام نہاد لیڈروں کا نصیب بدلا، جب کہ قوم کا نصیب وہی کا وہی رہا۔ لیکن آنسو بہانے سے کیا فائدہ، آنسو ہماری قسمت کو تو نہیں بدل سکتے۔ قوم کو نام نہاد قیادت اب نہیں چاہیے۔ خودغرض، نااہل، کرپٹ حکمران قوم کو اب قبول نہیں۔ قوم کو اب دلیر، ایماندار، جرأت مند، نڈر قیادت کی ضرورت ہے۔ تقدیر خود ہی نہیں بن جاتی بلکہ اس کا انتخاب کرنا پڑتا ہے اور نہ ہی تقدیر کے انتظار میں رہنا چاہیے بلکہ اسے حاصل کر لینا چاہیے۔ دہشتگردی، غربت، جہالت، بیماریاں، بیروزگاری، مہنگائی، فاقے، کرپشن، ہماری تقدیر نہیں ہیں۔ آئیں ہم مل کر، اٹھ کر، جاگ کر، اپنی تقدیر بدل ڈالیں۔‘‘

منٹو کی یہ تحریر آج بھی حقیقت کی درد انگیز تصویر کشی کرتی ہے۔

The post مجھے نام نہاد لیڈروں سے بچاؤ appeared first on ایکسپریس اردو.

کیا ایم کیو ایم لندن کو سیاست کی اجازت ملنی چاہیے

$
0
0

پانامہ کی لڑائی اپنے جوبن پر ہے۔ سپریم کورٹ کی روزانہ کی سماعت اور فریقین کی پریس کانفرنسیں پانامہ کو ہر لمحہ زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے دوبارہ سماعت کے آغاز نے مردہ پانامہ میں جان ڈال دی ہے۔ لیکن نہ جانے کیوں میں سمجھتا ہوں کہ پانامہ کی اہمیت اپنی جگہ لیکن کراچی میں ایم کیوایم لندن اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان بڑھتا تناؤ شاید کہیں نہ کہیں پانامہ سے اہم ہے۔ایم کیو ایم لندن دوبارہ سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے پر بضد ہے جب کہ ریاستی ادارے اس کو یہ اجازت دوبارہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ شاید کہیں نہ کہیں یہ سوچ موجود ہے کہ بمشکل اس جن کو بوتل میں بند کیا گیا ہے۔ اب دوبارہ یہ جن بوتل سے نکل آیا تو پھر کون بند کرے گا۔ تاہم ایسا لگ رہا ہے کہ ایم کیو ایم لندن بھی کسی فائنل راؤنڈ کی تیاری کر رہی ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان نے عوامی طاقت کا مظاہرہ کر دیا ہے۔ فاروق ستار نے ایک عوامی شو کر کے ایم کیو ایم پاکستان کی عوامی لانچنگ بھی کر دی ہے۔ دوسری طرف مصطفیٰ کمال بھی آہستہ آستہ اپنی جماعت کو عوامی اجتماعات کی طرف لا رہے ہیں۔ ایسے میں ایم کیو ایم لندن کے لیے میدان سے باہر رہنا ممکن نظر نہیں آرہا۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب آئندہ الیکشن کی تیاری ہے۔ فاروق ستار کی ایم کیوایم پاکستان کی خواہش ہے کہ ایم کیو ایم کا سارا ووٹ بینک اسے مل جائے۔ تاہم پاک سر زمین پارٹی اس میں سے اپنا حصہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جب کہ ایم کیو ایم لندن سمجھتی ہے کہ کراچی کا سارا مہاجر ووٹ بینک اس کی ملکیت ہے جس پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

یہ مہاجر ووٹ بینک کس کا ہے۔ اب تک کے انتخابی نتائج میں تو یہ الطاف حسین کا ہی تھا۔ لیکن کیا الطاف حسین کی22 اگست کی پاکستان مخالف تقریر کے بعد یہ الطاف حسین کا ہے۔ میرے نزدیک یہ سوال اہم ہے۔ لیکن جب ایم کیو ایم لندن سے یہ سوال کیا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ اول تو الطاف حسین اپنی 22 اگست کی تقریر پر معافی مانگ چکے ہیں۔ دوسرا ان کا موقف ہے کہ اس سے پہلے بھی الطاف حسین پر جناح پور کی سازش جیسے الزمات لگے ہیں لیکن ان الزمات کو الطافٖ حسین کے ووٹ بینک نے مکمل طور پر مسترد کر دیا تھا۔ اس لیے الطاف حسین کا ووٹ بینک قائم ہے اور قائم رہے گا۔ اگر ایسا ہے تو یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔

ایم کیو ایم لندن کی اس وقت ایک ہی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح ان کو اس حد تک سیاسی سرگرمیوں کی اجازت مل جائے کہ وہ اگلا الیکشن لڑ سکیں۔ تاہم اس کو روکنے کی بھر پور کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن یہ صورتحال کیسے اور کب تک چلے گی۔ ایم کیو ایم لندن نے حکمت عملی بدل لی ہے اور اب ایک نئے پلیٹ فارم سے سیاسی سرگرمی کا اعلان کر دیا ہے۔ ایم کیو ایم لندن پاکستان قومی موومنٹ نامی تنظیم کے ساتھ ملکر استحکام پاکستان ریلی نکال رہی ہے۔ بظاہر پاکستان قومی موومنٹ پر تو کوئی علانیہ و غیر علانیہ پابندی نہیں ہے۔ اس لیے ایم کیو ایم لندن نے اس کا سہارا لے لیا ہے۔ لیکن فی الحال ایم کیو ایم لندن ایسی آگ ہے جس سے جو بھی لپٹے گا جل جائے گا۔

یہ بھی کوئی اہم بات نہیں کہ کیا پاکستان قومی موومنٹ 21 جنوری کو ایم کیو ایم لندن کے ساتھ مل کر استحکام پاکستان ریلی نکالنے میں کامیاب ہوتی ہے کہ نہیں۔ کیونکہ زیادہ اہم بات یہ ہو گی کہ کیا ایم کیو ایم لندن اگلا انتخاب بھی ایسے ہی کسی پلیٹ فارم سے لڑنے کا فیصلہ تو نہیں کر رہی۔ اگر ایسا ہے تو پھر کیا ہو گا۔ اگر ایم کیو ایم لندن انتخابات سے قبل کسی بھی ایسی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد کر لیتی ہے جو کاغذات میں تو موجود ہے لیکن میدان میں نہیں ۔ اور اس کے پلیٹ فارم سے انتخاب میں حصہ لیتی ہے تو کیا ہوگا۔تھرڈ پارٹی کی مدد سے زندگی وینٹی لیٹر کی  زندگی کے ہی مترادف ہو گی۔ ایسے میںاگر ایم کیو ایم لندن ایم کیو ایم پاکستان کو ہی تائید دے دے تو زیادہ بہتر ہو گا ۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ کیا الطاف حسین کو معافی ملنی چاہیے۔ کیا ان کی جانب سے معافی مانگ لینا کافی ہے۔ کیا ایک معافی سے ان پر سیاست اور میڈیا کے دروازے واپس کھل جانے چاہیے۔ اس حوالہ سے دونوں طرف دلائل میں وزن ہے۔ یقینا پاکستان مخالف تقریر کوئی اتنا چھوٹا اور نظر انداز کرنے والا جرم نہیں کہ بس ایک معافی سے مسئلہ حل ہو جائے۔ یہ ناقابل معافی جرم ہے اور سخت سزا ہونی چاہیے۔ تو پھر اس کا بھی کوئی قانونی راستہ ہونا چاہیے۔ جو بہر حال ابھی تک اختیار نہیں کیا گیا۔ کم ازکم ایم کیو ایم لندن کو ایک دہشت گرد تنظیم ہی قرار دے دیا جائے تا کہ قانونی تقاضے پورے کیے جا سکیں۔ دوسری طرف دلیل یہ ہے کہ الطاف حسین محب وطن ہے کہ نہیں اس کا فیصلہ عوام کی عدالت میں ہو گا۔ اور ایم کیو ایم لندن کو اگلا انتخاب لڑنے کی اجازت دی جائے اگر عوام نے الطاف حسین کے نام ووٹ دے دیے تو ٹھیک اور اگر عوام کی عدالت نے سزا دے دی تو ٹھیک۔

مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ ابھی تک ایم کیو ایم لندن کے مسئلہ کا مستقل حل کسی کے پاس نہیں ہے۔ ایک طرف امید ہے کہ عوام ایم کیو ایم پاکستان یا پاک سرزمین پارٹی میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیں گے تو دوسری طرف امید ہے کہ ماضی میں بھی ایسی کوششیں ناکام ہوئی ہیں اب بھی ناکام ہونگی۔ ووٹ بینک الطاف حسین کا تھا اور رہے گا۔جب ان سے زیادہ بحث کی جائے تو نیپ جیسی سیاسی جماعتوں کے واقعات بتاتے ہیں جب سیاسی جماعتوں کو غدار قرار دینے کی پالیسیاں ناکام ہوئیں۔ ابھی تک کی تو صورتحال یہی ہے کہ ایم کیو ایم لندن میدان چھوڑنے کو تیار نہیں۔ اور ریاستی ادارے انھیں میدان دینے کے لیے تیار نہیں۔

ایم کیو ایم لندن کے لیے ایک محفوظ راستہ تو یہی ہے کہ وہ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے اگلے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دے۔اس طرح دونوں فریقین کے درمیان ایک سیز فائر ہو سکتا ہے۔ لیکن شاید ایم کیو ایم لندن کو بھی کہیں نہ کہیں خوف ہے کہ اگر انھوں نے بائیکاٹ کیا تو ان کا ووٹ بینک ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ متبادل کی جگہ بن جائے گی۔  انھیں بھی کہیں نہ کہیں احساس ہے کہ یہ اب ان کی بقا کی جنگ ہے۔

دوسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ الطاف حسین سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کرتے ہوئے ندیم نصرت کو اپنا جانشین مقرر کر دیں۔ شاید اس طرح بھی کوئی راستہ نکل آئے۔ اگر انھیں یہ دونوں کام نہیں کرنے تو پھر الطا ف حسین کو ایم کیو ایم لندن کی ساری قیادت کے ساتھ پاکستان آنے کا اعلان کرنا ہو گا۔پاکستان آنا ہو گا اور پاکستان کے قانون کا سامنا کرنا ہو گا۔ یقینا یہ ایک مشکل راستہ ہے لیکن بحالی کا یہ واحد انقلابی راستہ ہے۔ وہ پاکستان آئیں پاکستان کی مٹی کو سجدہ دیں۔ اور پاکستان کی عوام اور قانون کا سامنا کریں۔ ورنہ لندن سے بیٹھ کر ریموٹ کنٹرول سے راستے تلاش کرنا اب عملا ناممکن نظرآرہا ہے۔

The post کیا ایم کیو ایم لندن کو سیاست کی اجازت ملنی چاہیے appeared first on ایکسپریس اردو.

نیا سال اور آزاد صحافت کو درپیش چیلنج

$
0
0

آزادیٔ صحافت اس صدی کے آغاز سے خطرے میں ہے، مگر صحافیوں کے تحفظ کے لیے سرگرداں بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم Committee to Protect Journalists کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ سال کوئی صحافی قتل نہیں ہوا۔ گزشتہ سال کوئٹہ کے سول اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں خودکش حملے میں 100 سے زائد وکلا کے علاوہ دو فوٹو جرنلسٹس محمود خان اور شہزاد احمد ہلاک ہوئے تھے۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کو مختلف نوعیت کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔ غیر ریاستی کرداروں پر مشتمل پریشر گروپ خبر کے قتل اور اپنی مرضی کے مواد کو خبر کے طور پر پیش کرنے کے لیے دھمکیاں دیتے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان پریشر گروپوں کی سرکوبی نہیں کرپاتیں، اس طرح صحافی سیلف سنسرشپ کا طریقہ اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔

گزشتہ سال ایک حساس خبر کی اشاعت کے بعد آزادئ صحافت کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے تھے۔ وفاقی حکومت نے اس خبر کی اشاعت کے ذمے دار رپورٹر کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کردی تھی مگر صحافیوں، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کے احتجاج پر یہ پابندی ختم کردی گئی تھی ۔ اس وقت پریس کونسل کے اجلاس میں متفقہ طور پر منظور کی جانے والی قرارداد میں کہا گیا تھا کہ خبر کے ذرائع کا تحفظ صحافی کا بنیادی حق ہے، صحافی اس حق سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوں گے۔

عوام کے جاننے کے حق کی توثیق کے لیے صحافیوں کی یہ ذمے داری ہے کہ ریاست کے تینوں ستونوں انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ اور ان کے انتظامی اداروں کے بارے میں عوام کو اطلاعات فراہم کریں اور عوام کے جاننے کے حق کے تناظر میں قومی مفاد کی تشریح ہونی چاہیے۔ صحافت کے استاد ڈاکٹر عرفان کا کہنا تھا کہ ہر دور میں قومی مفاد کی تعریف مختلف رہی ہے۔ برطانوی ہند حکومت نے ہندوستان کی آزادی اور عوام کے بنیادی حقوق کے مطالبے کو قومی مفاد کے خلاف قرار دیا تھا۔ ہندوستان کی صحافت کی تاریخ میں بہت سے ایسے صحافیوں کا ذکر ملتا ہے جو ہندوستان کی آزادی کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے جرم میں سزا وار قرار پائے۔ ذرائع کے تحفظ کے لیے مولانا حسرت موہانی کا نام سرفہرست ہے۔

ان کے رسالے اردو معلی میں مصر کی صورتحال کے بارے میں ایک مضمون شائع ہوا تھا۔ اس مضمون پر مصنف کے حقیقی نام کے بجائے قلمی نام درج تھا۔ انگریزی سرکار نے رسالہ کے مدیر مولانا حسرت موہانی کو پیشکش کی تھی کہ وہ مصنف کا حقیقی نام ظاہر کردیں تو ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی مگر حسرت نے صحافت کی تابناک روایت پر عمل کرتے ہوئے مضمون کے مصنف کا نام ظاہر نہیں کیا۔ انگریز حکومت نے ایک خصوصی عدالت میں یہ مقدمہ بھیج دیا۔ خصوصی عدالت کے جج نے بھارت کی ریاست اترپردیش کے دور افتادہ علاقے میں حسرت موہانی کے خلاف مقدمہ چلایا تھا اور حسرت کو 2 سال قید اور 500 روپے جرمانہ کی سزا دی تھی۔ حسرت نے استقامت سے جیل کاٹ لی تھی مگر جرمانہ ادا نہ کرنے پر ان کا قیمتی اثاثہ یعنی لائبریری کی کتابیں نیلام کردی گئیں۔ لیکن حسرت نے کبھی اس مضمون کے مصنف کا نام ظاہر نہیں کیا تھا۔

خبر کے ذرائع کے تحفظ کے لیے وفاق کی سطح پر قانون سازی کی ضرورت ہے۔ یورپی ممالک میں خبر کے ذرائع کے تحفظ کے لیے قوانین موجود ہیں، اسی طرح برطانیہ اور امریکا کی عدالتوں نے بھی خبر کے ذرائع کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی ہے۔ ایسی ہی قانون سازی کی ملک میں سخت ضرورت ہے۔ جاننے کے حق کے لیے کوئی قانون سازی مہم نہ ہونے کی بنا پر عوام اور صحافیوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں وعدہ کیا تھا کہ جاننے کے حق کے تحفظ کے لیے جامع قانون کی ضرورت ہے۔

پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو شہید اور مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف کے درمیان 2010 میں ہونے والے میثاق جمہوریت میں اس بات پر اتفاق رائے ہوا تھا کہ جب دونوں برسر اقتدار آئیں گی تو جاننے کے حق کے تحفظ کے لیے آئینی ترمیم کریں گی۔ دونوں جماعتوں نے 18ویں ترمیم میں آرٹیکل 19-A شامل کرکے اپنے  وعدے کی تجدید کی تھی۔ 2013 میں آرٹیکل 19-A کے مطابق پختونخوا اور پنجاب میں جامع قانون سازی ہوئی، مگر وفاق، سندھ اور بلوچستان میں پرانے قوانین ہی نافذ رہے۔ صحافیوں، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں نے وفاق، سندھ اور بلوچستان میں ان قوانین کو بہتر کرنے کے لیے کوششیں کیں۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر، سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید اور سندھ کے سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ وعدے کرتے رہے۔

پیپلز پارٹی کے مرد آہن سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے سینیٹ میں جاننے کے حق کے لیے ایک مسودہ پیش کیا۔ سینیٹ نے اس مسودے کو منظور کرلیا مگر مسلم لیگ کی حکومت اس مسودے کو قومی اسمبلی میں پیش کرکے قانون بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز (C.P.N.E) نے ایک قانون کا مسودہ سندھ کے سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کو پیش کیا مگر قائم علی شاہ اس کو اسمبلی میں پیش نہیں کرپائے۔ سندھ کے اطلاعات کے مشیر مولا بخش چانڈیو نے جو عوامی مسائل پر زوردار تقاریر کرنے کی شہرت رکھتے ہیں، سی پی این ای کے مشاورتی اجلاس کے بعد غیر رسمی ملاقات میں واضح کیا کہ سول سوسائٹی کو اس قانون کا پیچھا چھوڑ دینا چاہیے (سندھ حکومت اس ضمن میں قانون سازی کے لیے تیار نہیں ہے)۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر گزشتہ دنوں سول سوسائٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے کراچی آئے اور ان سے پوچھا گیا کہ حکومت سندھ اس قانون کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے تو انھوں نے خاموشی اختیار کرلی۔

وفاق اور تین صوبوں میں قانون کمزور ہونے کی بنا پر معروضی رپورٹنگ میں کئی مسائل درپیش ہیں۔ قانونی طریقے سے مصدقہ دستاویزات حاصل نہ ہونے کی بنا پر دستاویزات کے حقیقی اور جعلی ہونے کی بحث باقی رہتی ہے، جس کا فائدہ بدعنوان عناصر کو ہوتا ہے۔ آزادیٔ صحافت کو ایک خطرہ ایجنڈا جرنلزم سے ہے۔ بعض صحافی اخبارات اور ٹی وی چینلز مخصوص ایجنڈا کی بنا پر خبریں شائع کرتے ہیں۔ یہ خبریں معروضی حقائق سے دور ہوتی ہیں، اس طرح زرد صحافت کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں بعض عناصر کو میڈیا کے خلاف پروپیگنڈا کا موقع ملتا ہے۔

مجموعی طور پر میڈیا کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ اخبارات میں ایڈیٹر کا ادارہ کمزور ہونے اور الیکٹرانک چینلز میں ایڈیٹر کا ادارہ قائم نہ ہونے کی بنا پر پاکستانی صحافت کو نئے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ پاکستان کے صحافی دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہونے کے بعد سے سخت صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ ڈاکٹر عرفان جنھوں نے نائن الیون کے بعد اخبارات کی صورتحال پر تحقیق کی ہے، کا کہنا ہے کہ 1947 سے 1988 تک ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد صرف چند تھی، پھر یہ تعداد دو ہندسوں پر پہنچ گئی اور نائن الیون کے بعد سے گزشتہ سال تک 150 صحافی ہلاک ہوئے۔

پولیس صرف ایک امریکی صحافی کے قاتلوں کو گرفتار کرسکی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے دنیا کے تین خطرناک ممالک میں ہونے لگا تھا مگر گزشتہ دو برسوں کے دوران ہونے والے آپریشن ضرب عضب کے بعد صورتحال میں خاصی مثبت تبدیلی آئی اور گزشتہ سال کوئی صحافی قتل نہیں ہوا۔ امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے سے یہ تبدیلی رونما ہوئی اور صحافیوں کو تحفظ کا احساس ہوا، جس سے ان کی کارکردگی کا معیار بلند ہوا، مگر جاننے کے حق اور خبر کے ذرائع کے تحفظ کے لیے جامع قانون سازی نہ ہونے، صحافیوں کے معروضیت کی اہمیت کو نہ محسوس کرنے اور بعض مفاد پرست عناصر کے دباؤ پر بعض میڈیا ہاؤسز کے ایجنڈا صحافت کو تقویت دینے سے پاکستانی صحافت کو نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔ نیا سال نئی امیدوں کے ساتھ طلوع ہوا ہے۔ امید ہے کہ اس سال پاکستانی صحافت ان چیلنجز سے نمٹنے میں کامیاب ہوگی۔

The post نیا سال اور آزاد صحافت کو درپیش چیلنج appeared first on ایکسپریس اردو.

مسئلہ بین الاقوامی ہے

$
0
0

دہشت گردی قومی یا علاقائی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسا بین الاقوامی مسئلہ ہے جو ہزاروں سالہ انسانی تہذیب کے درپے ہے۔ لیکن اس بین الاقوامی مسئلے سے علاقائی سطح پر ہی نمٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دہشت گردی کا شکار ہونے والے معصوم اور بے گناہ عوام کا تعلق نہ کسی ایک مذہب سے ہے نہ کسی ایک ملک سے، بلکہ دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کا تعلق مختلف مذاہب، مختلف ملکوں سے ہے۔

یہ درست ہے کہ مغربی ملک اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اقدام بھی کر رہے ہیں لیکن اب تک اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے کوئی موثر بین الاقوامی اتحاد بنا، نہ تسلسل کے ساتھ کوئی مشترکہ کارروائی کی جا رہی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ دہشت گردی کی بڑی وارداتیں مسلم ملکوں ہی میں ہو رہی ہیں اور مسلمان ہی سب سے زیادہ اس وبا سے متاثر ہورہے ہیں، لیکن اب تک اس تباہ کن مسئلے سے نمٹنے کے لیے مسلم ملکوں کا کوئی موثر اتحاد نظر نہیں آرہا۔ ایک ہفتے کے دوران مسلم ملکوں میں دہشت گردی سے جو نقصانات ہوئے ہیں اس کا اندازہ ترکی، عراق میں ہونے والی دہشت گردی کی لگاتار وارداتوں سے ہوسکتا ہے۔

عراقی دارالحکومت بغداد میں تین بم دھماکے ہوئے، جن میں 29 افراد جاں بحق اور 53 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ ترکی میں نئے سال کی تقریبات منائی جا رہی تھیں کہ ایک مسلح شخص نے نائٹ کلب میں گھس کر اندھادھند فائرنگ کردی، جس سے 39 افراد ہلاک اور 40 سے زیادہ افراد زخمی ہوگئے اور دلچسپ بلکہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ 39 افراد کو ہلاک کرنے اور 40 افراد کو منٹوں میں زخمی کرنے والا شخص آسانی سے فرار ہوگیا۔ عموماً جب کسی ملک میں دہشت گردی کی کوئی بڑی واردات ہوتی ہے تو ہائی الرٹ کا اعلان کیا جاتا ہے، لیکن چند دن بعد ہائی الرٹ ختم ہوجاتا ہے جس کا فائدہ دہشت گرد اٹھاتے ہیں۔

کرسمس عیسائی برادری کی سب سے بڑی تقریب ہے، اس خطرے سے ساری دنیا واقف ہے کہ ایسی تقریبات کے موقع پر دہشت گرد آسانی سے بڑی واردات کر گزرتے ہیں۔ ترکی کے شہر استنبول میں کرسمس کے موقع پر ہی اتنی سنگین واردات کرگئے اور اس بڑی کارروائی میں ملوث دہشت گرد آسانی سے فرار ہوگیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موقع کی مناسبت سے موثر انتظامات کیوں نہیں کیے گئے؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردوں کا تعلق مسلم قوم سے ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی کا زیادہ تر شکار مسلم ملک اور مسلمان ہی ہو رہے ہیں۔ صرف پاکستان میں اب تک 60 ہزار کے لگ بھگ مسلمان دہشت گردی کی نذر ہوگئے ہیں۔ عراق اور شام بھی دہشت گردی کے مرکز بن گئے ہیں۔ عموماً ان حلقوں میں ہر روز ہی دہشت گردی کی سنگین وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ 57 مسلم ملکوں میں اب تک کوئی ایسا بڑا بین المسلمین اتحاد نظر نہیں آتا جو دہشت گردی کے خلاف تسلسل کے ساتھ کارروائی کر رہا ہو۔

دہشت گردی خصوصاً عراق اور شام میں ہونے والی دہشت گردی کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان ملکوں میں ہونے والی دہشت گردی عموماً فقہوں کے حوالے سے کی جا رہی ہے، لیکن مسلم ملکوں میں فقہی دشمنیوں کے خلاف اب تک کوئی فکری کوششیں کی گئیں نہ 57 مسلم ملکوں میں فقہی اختلافات کو ختم کرنے کے لیے کوئی موثر اور منظم کوشش کی گئی۔ شام دہشت گردی کا شکار ملک ہے لیکن شام میں بڑی طاقتوں کے مفادات کی جنگ کی وجہ سے دہشت گردی کی روک تھام کے لیے موثر کوششیں کی جاسکتی ہیں۔ امریکا شام کے صدر بشار الاسد کا سخت مخالف ہے، اس کی مسلسل یہ کوشش رہی ہے کہ بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹایا جائے، اس مہم میں امریکا کے ساتھ کچھ عرب ملک بھی شامل ہیں۔ روس بشار الاسد کا حامی ہے اور اس کی پوری کوشش ہے کہ بشارالاسد شام میں برسر اقتدار رہیں۔

بھارت میں بھی دہشت گردی کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں، اصولاً اس خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دونوں ملکوں کو مشترکہ کوششیں کرنی چاہئیں لیکن ہو یہ رہا ہے کہ بھارت دہشت گردی کو پاکستان کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ کشمیر دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف ایک متنازع مسئلہ ہے بلکہ اس خطے میں کشمیر کا مسئلہ دہشت گردی کا مسئلہ دونوں ملکوں کے درمیان عدم اعتماد کا سبب بنا ہوا ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ اس خطے میں دہشت گردی کے فروغ میں کشمیر کا مسئلہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

اسی طرح فلسطین کا دیرینہ مسئلہ بھی دنیا میں دہشت گردی کے فروغ کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ بڑی طاقتیں محض اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کی خاطر ان دونوں سنگین مسائل کو حل کرنے سے گریزاں ہیں۔ یہ درست ہے کہ ترقی یافتہ مغربی ملکوں میں دہشت گردی میں وہ شدت نہیں جو مسلمان ملکوں میں دیکھی جا رہی ہے لیکن کشمیر اور فلسطین کے مسائل کو حل کرنے کی سنجیدہ کوششیں نہ کی گئیں تو اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ آنے والے دنوں میں ساری دنیا عراق، شام اور پاکستان جیسی دہشت گردی کا شکار ہوسکتی ہے۔

اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان دہشت گردوں کا اڈہ بنا ہوا ہے۔ پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں پر پابندی عائد ہے لیکن دہشت گرد تنظیمیں مختلف ناموں سے کام کر رہی ہیں، جس کا علم پاکستانی حکومت کو بھی ہے لیکن یہ کالعدم تنظیمیں دوسرے ناموں سے نہ صرف موجود ہیں بلکہ مذہبی انتہا پسندی کے فروغ کا ذریعہ بھی بن رہی ہیں۔ اور یہ سلسلہ کشمیر کے مسئلے کے منصفانہ حل تک فطری طور پر جاری رہے گا، کیونکہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان ایک کمزور ملک ہے اور بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے مذہبی انتہا پسندوں کو استعمال کرسکتا ہے۔

The post مسئلہ بین الاقوامی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

دیانت ہے جس کا نام۔۔۔۔

$
0
0

فکری دیانت کا تقاضا یہی ہے کہ سچ کی جستجو کی جائے، چاہے اس کی زد ہمارے احساسات یا پہلے سے تسلیم کردہ تصورات ہی پر کیوں نہ پڑتی ہو اور جب حقائق واضح ہوجائیں تو، یہ سوال نہ رہے کہ ان کا فائدہ یا نقصان کس کو ہوگا۔ دیانت، اخلاص اور بیباکی جیسی اقدار کو چاہے ’’دقیانوسی‘‘کیوں نہ تصور کیا جائے لیکن یہی حکمرانوں کی اصل قوت ہیں۔ حقیقی لیڈر کبھی اپنی غلطی تسلیم کرنے سے نہیں گھبراتا، مسائل پر سوچ بچار کرتا ہے اور اس کی نظر چیلنجز میں بھی مواقع تلاش کرلیتی ہے۔

ہارورڈ کے ماہر اخلاقیات لوئس ایم گیونن کے نزدیک فکری دیانت کا جوہر ہے کہ ’’نیک نیتی فریب نہیں کھاتی چاہے فریب کھانے میں مفاد ہی کیوں نہ پوشیدہ ہو‘‘۔ اس تناظر میں ہمارے رہنماؤں کا عمومی رویہ دیکھیے، جو کبھی ذاتی تو کبھی سیاسی مصلحت کے تحت، مختلف مواقع پر متضاد بیانات دیتے ہیں اور بڑی بے باکی کے ساتھ اس رویے کا قانونی جواز پیش کرتے ہیں۔ پاناما گیٹ کوئی معمولی مقدمہ نہیں، ملک کے اعلیٰ ترین منصب دار کی اخلاقی حیثیت  اس کی زد میں ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی بھی قابل وکیل قانونی داؤ پیچ کی مدد سے اپنے مؤکل کو قانون کی گرفت سے صاف بچا لے جائے، لیکن باضمیر قانون داں ایک شہری کی حیثیت سے خود پر ریاست کے حقوق اور اپنے فرائض کا پورا ادراک رکھتا ہے، وہ جانتا ہے کہ جب بات وزیر اعظم کی ہو تو صرف سچ ہی کو ’’حقائق‘‘ کے طور پر پیش کیا جانا چاہیے۔

ضروری نہیں کہ اخلاقی ذمے داری قانونی طور پر بھی لازم آتی ہو۔ عوامی نمائندوں کو لیکن قانون اور اقدار دونوں ہی کا پاس کرنا ہوتا ہے۔ حق و ناحق کو قبول و رد کا پیمانہ تسلیم کرنے کا نام ہی اخلاقیات ہے۔ جرمن فلسفی ایمانوئل کانٹ نے ان ہی قدروں کو اصول اخلاق کی بنیاد قرار دیا تھا۔

جب فکری دیانت اور اخلاقی ذمے داری کا احساس کسی معاشرے میں دَم توڑ جائے، تو اچھی طرز حکمرانی کی موت سب سے پہلے ہوتی ہے اور پاکستان کی طرح، جمہوریت صرف نام کو باقی رہ جاتی ہے۔ اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے نوکر شاہی، سیاست داں اقتدار میں آنے کے بعد دونوں ہی کو بدعنوانی کی راہ پر لے آتی ہے۔ حکمران کاروبار ریاست چلانا جانتے نہیں، یا تو اس کے لیے بیوروکریٹس کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں یا کئی مرتبہ یہ امور خود نوکرشاہی اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے اور بابو چاپلوسی اور جی حضوری کرکے حکمرانوں کے فیصلوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ حکمرانوں اور بیوروکریسی میں مال سمیٹنے کا مقابلہ جاری رہتا ہے، اب کون کس کا احتساب کرے؟ صرف عدالتیں ہی حدود سے تجاوز اور نقب زنی کا تدارک کرسکتی ہیں۔

ہمارے ہاں حکمرانوں نے اقتدار کو طول دینے کے لیے دیانت فکر اور اخلاقی قدروں کو پامال کیا۔ المیہ یہ ہے کہ ایسا کرنے والوں میں وہ بھی شامل رہے ، قوت کے غلط استعمال کو روکنا، جن کی ذمے داریوں میں شامل تھا۔ ایک ریٹائرڈ جرنیل کہتے ہیں کہ دیانت دار اور بے باک فرد کو اس نظام کا حصہ ہی نہیں رہنے دیا جاتا اور اصلاح کے امکانات معدوم تر ہوجاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے کسی منصب تک پہنچنے کے لیے، جہاں سے نظام میں کوئی مؤثر تبدیلی لائی جاسکے، دوہری نہیں تہری شخصیت اپنانی پڑتی ہے۔ سبق یہ ہے کہ کسی بھی قیمت پر نظام کا حصہ بنے رہو! مناصب کی جستجو میں جب کوئی ایک بار سمجھوتا کرلے تو عہدہ و منصب کے تحفظ کے لیے ہر اصول کی قربانی دینا پڑتی ہے۔

فکری دیانت اور اخلاقی ذمے داری سے فرار کا راستہ لالچ اور مفاد پرستی سے گزر کر’’نظریۂ ضرورت‘‘ کی منزل تک پہنچتا ہے، چاہے 58 ٹو بی جیسا اختیار ہی کیوںنہ ختم کردیا جائے۔آمرانہ حکومتوںمیں تھوڑے ہی وقت کے لیے عام آدمی سکون کا سانس لیتا ہے لیکن پھر اقتدار کو طویل کرنے کے لیے یہ حکمران سمجھوتے کرتے ہیں اور اپنی راہ سے ہٹ جاتے ہیں۔ مسائل حل نہیں ہوتے۔ پاکستان کا ’’کاکڑ‘‘ فارمولا 15برس بعد 2007ء میں بنگلہ دیش نے بھی آزمایا۔ لیکن جب من مانا احتساب ہوا اور فوجی حکمران خود ہی راستہ بھٹک گئے تو اس کے نتائج کیسے برآمد ہوتے۔

’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے اس آسیب سے محفوظ رہنے کے لیے عدلیہ کو مکمل غیر جانبداری اور مؤثر انداز میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے یہ یقینی بنانا ہوگا کہ اعلیٰ مناصب پر فائز افراد ’’متصادم مفادات‘‘ (Conflict of Interest)کی کسوٹی سے بچنے نہ پائیں۔ ماضی میں چند انتہائی قابل جج صاحبان کو صرف ذاتی ناپسندیدگی کی بنیاد پر رخصت کیا گیا۔ ان کی خالی ہونے والی نشستیں پُر کرنے کے لیے جلد بازی میں فیصلے کیے گئے جس کے نتائج اچھے نہیں نکلے۔ بڑے عہدوں پر فائز ہونے والوں نے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے قوانین میں تبدیلیاں کیں۔ جو کچھ اس سب سے واقف تھے(یا ہیں) انھوں نے اختیارات کے اس بے رحمانہ استعمال کے خلاف کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا؟

اقتدار کی نچلے طبقات تک منتقلی جمہوریت کی بنیاد ہے۔ کیا عوام ہمارے نظام پر اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ان کی حقیقی نمائندگی کے بغیر جمہوری نظام کی نعرے بازی محض ڈھکوسلہ ہے۔ ملک کی سبھی بڑی سیاسی جماعتیں ’’قانون کی حکمرانی‘‘ کے لیے سوائے زبانی جمع خرچ کے اور کوئی زحمت نہیں فرماتیں، بلکہ حقیقی روح کے ساتھ اس کے نفاذ کی راہ میں خود بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔اقربا پروری اور کرپشن پر اندھا، بہرا اور گونگا بنے رہنے سے کیا صورت حال میں کوئی تبدیلی آئے گی؟جمہوری روایات کا رٹا رٹایا سبق سنانے والوں کو جے آئی ٹیز میں سامنے آنے والے حقائق کو نتیجہ خیز بنانے پر بھی غور کرنا چاہیے۔اعلیٰ عدلیہ کی ایک ایسی ٹیم بنائی جا سکتی ہے جس میں سیاست داں اور بیورکریٹ بھی بطور مبصر شامل ہوں، جو عذیر بلوچ، ڈاکٹر عاصم، اسد کھرل، نثار مورائی اور ان جیسے ہائی پروفائل مقدمات میں ملوث افراد کے اعترافی بیانات کا جائزہ لے۔

پاکستان میں تاثر ہی حقیقت ثابت ہو جاتا ہے،پانامہ کیس میں جن پر الزام لگا ، کیا ان کی جانب سے پاناما کے معاملے میں غلط بیانی سے کام لیا گیا۔ شاید منی لانڈرنگ کے معاملے میں بہت کچھ چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جب تک حکمران اپنی اخلاقی ذمے داریوں کی پاس داری نہیں کرتے، عوام کے حالات نہیں بدلیں گے۔ بددیانتی اور اپنے فرائض سے فرار کی روش انھیں ایسے مشیروں اور ساتھیوں کو اپنے گرد جمع کیے رکھنے پر مجبور کیے رکھے گی جو ان کی ہر بات پر آنکھیں بند کرکے ایمان لے آئیں اور تعمیل حکم بجا لائیں، چاہے اس کے لیے انھیں کسی جرم ہی کا ارتکاب کیوں نہ کرنا پڑے۔ ’’مفادات کے تصادم‘‘ کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ قوت و اقتدار کے بل پر، ریاستی اداروں کااستعمال کرتے ہوئے افسانوں کو حقیقت اور حقیت کو افسانہ ثابت کرنے کا کھیل جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔

The post دیانت ہے جس کا نام۔۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

آج چند اشعار ہی سہی

$
0
0

جب سے حافظہ کمزور ہونے لگا ہے میں نے بعض تحریریں اور اشعار محفوظ کرنے یعنی نقل کرنے شروع کر دیے ہیں۔ اگرچہ یہ سب کسی ترتیب کے بغیر ہی ہوتا رہتا ہے لیکن کچھ تحریریں پسند کی بھی ہوتی ہیں جو شاید آپ لوگوں کو بھی اچھی لگیں اور اگر پسند نہ آئیں تو میری پسند کی کمزوری سمجھ کر معاف کر دیں۔ اس سلسلے میں چند اشعار بھی ہیں جو پیش خدمت ہیں اس امید کے ساتھ کہ یہ آپ کو پسند آئیں گے۔

کبھی تو پوچھ کسی ان کہی کے بارے میں
کہ دل میں خواہش اظہار پھر رہے نہ رہے
عابد سیال
لرز رہا تھا ستارہ بھی میرے ساتھ ظفر
شب جوانی کی تصویر اور کیا ہو گی
…………
ایک آواز کہ ہے کوئی خریدار کہیں
ایک بازار یہاں آخر شب لگتا ہے
…………
دھیان کے آتش دان میں ناصر
بجھے دنوں کا ڈھیر پڑا ہے
…………
فلک سے رفتگاں نے جھک کے دیکھا
بساط خاک سے اٹھنا ہمارا
میجر شہزاد نئر
خوبصورت بہت ہو تم لیکن
دوسروں کا بھی کچھ خیال کرو
…………
کوئی تدبیر کرو‘ وقت کو روکو یارو
صبح دیکھا ہی نہیں‘ شام ہوتی جاتی ہے
…………
نہ زمینی ہوں نہ آسمانی ہوں
ختم ہوتی ہوئی کہانی ہوں
فیصل احمد
کاشف حسین دشت میں جتنے بھی دن رہا
بیٹھا نہیں غبار میرے احترام میں
…………
جدائی بن کے بچھا لی ہے عرش پر اظہار
اسی پر بیٹھ کے روتا‘ اسی پہ سوتا ہوں
اظہار الحق
کبھی تو پوچھ کسی ان کہی کے بارے میں
کہ دل میں خواہش اظہار پھر رہے نہ رہے
…………
اب مجھے واپسی کی فکر نہیں
اپنی کشتی ڈبو چکا ہوں میں
…………
کٹ ہی گئی جدائی میں‘ یہ کب ہوا کے مرگئے
تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے
عدیم ہاشمی
…………
شیخ جو ہے مسجد میں ننگا‘ رات کو تھا مے خانے
کرتا ٹوپی خرقہ جبہ مستی میں انعام کیا
…………
جسے چٹکی بجانا کہہ رہے ہو
ہماری انگلیوں کی گفتگو ہے
شعیب زمان
…………
طلب کریں تو یہ آنکھیں بھی ان کو دے دوں میں
مگر یہ لوگ ان آنکھوں کے خواب مانگتے ہیں
عباس رضوی
دکھ تو یہ ہے کہ ساری دنیا ہے
میں نہیں ہوں‘ مری کہانی میں
افضل گوہر
…………
راستہ دیتی ہے دیواریں ہمیں اب بھی ظفر
در کھلا کرتے تھے پہلے بھی ہمارے نام سے
…………
رات کھولے تھے کچھ پرانے خط
پھر محبت دراز میں رکھ دی
…………
رات کھولے تھے کچھ پرانے خط
پھر محبت دراز میں رکھ دی
زندگی تو مجھے گزار کہ میں
اس سے پہلے تمہیں گزار چکا
ستیہ پال آنند
…………
میں ماں کی تصویر کے آگے روئی جب
میری ماں کی آنکھیں دیکھنے والی تھیں
ریحانہ قمر
…………
بال چراغ عشق دا‘ تے کردے روشن سینہ
دل دے دیوے دی رشنائی جاوے وچ زمیناں
میاں محمد بخش
…………
کون طاقوں میں رہا‘ کون سر راہگزر
شہر کے سارے چراغوں کو ہوا جانتی ہے
…………
آپ تھے جس کے چارہ گر…وہ جواں
سخت بیمار ہے دعا کیجیے
جون ایلیا
اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں
میں اب اکثر میں نہیں رہتا۔ تم ہو جاتا ہوں
انور شعور
اب تو دنیا بھی وہ دنیا نہ رہی
اب تیرا دھیان بھی اتنا نہ رہا
…………
میں اگر پہلا تماشا تھا تماشا گاہ میں تو پھر
مشغلہ اس کا میری ذات سے پہلے کیا تھا
٭٭٭

The post آج چند اشعار ہی سہی appeared first on ایکسپریس اردو.

تو یہ تھا آپ کا اوم پوری

$
0
0

میری پیدائش اٹھارہ اکتوبر 1950کو انبالے میں ہوئی۔ خاندانی پس منظر بھی وہی ہے جو کروڑوں غریب بھارتیوں کا ہے۔میرے والد پہلے انڈین آرمی میں اور پھر ریلوے میں ملازم ہو گئے۔ایک دن ان پر ریلوے گودام سے سیمنٹ چوری کا الزام لگا اور جیل چلے گئے۔ہم دو بھائی تھے۔اس وقت میری عمر چھ برس تھی۔والد کے جیل جانے کے بعد نہ صرف ان کی نوکری تیل ہوئی بلکہ ریلوے کوارٹر بھی چھوڑنا پڑا۔ ماں نے ایک کھولی کرائے پر لے لی۔بڑے بھائی کو ریلوے اسٹیشن پر قلی گیری کرنا پڑی اور مجھے ایک چائے والے کے کھوکھے پر رکھوا دیا۔مگر میرا جنون کچھ اور تھا۔مجھے یہ سب کچھ نہیں کرنا تھا۔لیکن پیٹ تو جیسے کیسے پالنا تھا۔زندہ تو رہنا تھا۔

میں تھیٹر کرنا چاہتا تھا ، فلمی ہیرو بننا چاہتا تھا۔مگر یہ خواب تو ہر نوجوان دیکھتا ہے۔شائد میری لگن سچی تھی۔جیسے جیسے وقت گزرتا گیا میرے اندر کی آگ بجھنے کے بجائے اور بھڑک اٹھی۔وہ جو کہتے ہیں کہ جنون ہو تو راستہ بھی نکل آتا ہے۔میں نے لوکل تھیٹر میں چھوٹے موٹے رول کرنے شروع کردیے۔ اسی دوران پنجابی تھیٹر کی ایک مہان ایکٹر اور ڈائریکٹر نیلم مان سنگھ کی نظر مجھ پر پڑی۔انھوں نے کہا لڑکے تو یہاں کا نہیں کہیں اور کا ہے۔یہاں پڑا رہا تو گل سڑ جائے گا۔میں سوچنے لگا نہ شکل نہ صورت ، چیچک کے داغ ، خواہش تو بہت ہے کہ ممبئی  جا  کے نام اور کام کماؤں مگر مجھ بد شکلے کو کون منہ لگائے گا۔ نیلم مجھے دلی میں نیشنل اسکول آف ڈرامہ ( این ایس ڈی )لے گئی اور بھارتی تھیٹر کے مہان گرو ابراہیم القاضی کے سامنے پیش کردیا ’’اس بچے میں دم ہے۔ داخلہ مل جائے تو مایوس نہیں کرے گا ‘‘

یوں میرا 1973 میں این ایس ڈی میں داخلہ ہوگیا۔ کلاس میں نصیر الدین شاہ نام کا لڑکا بھی تھا۔کھاتے پیتے گھرانے کا ، انگریزی بھی اچھی تھی۔بہت چالو چیز تھی۔ ایک پل نچلا نہیں بیٹھتا تھا۔معلوم نہیں دوستی کیسے ہوئی مگر ایسی ہوئی کہ پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔اس سے میں نے انگریزی اور لڑکیوں کو پٹانا سیکھا ( مگر ایک بھی نہ پٹا پایا)۔ نصیر کا کہنا ہے کہ اس نے مجھ سے ایکسپریشن سیکھا مگر مجھے لگتا ہے کہ وہ مجھے ماموں بنا رہا ہے۔وہ تو خود ایسا تھا کہ پوت کے پاؤں پالنے میں دکھائی دے رہے تھے۔میں اسے کیا بتاتا۔مگر یہ نصیر کا بڑا پن ہے کہ وہ ایسی باتیں کر کے میرا دل رکھ لیتا ہے۔تعلیم کے دوران ہی مجھے ایکٹرز اسٹوڈیو میں پارٹ ٹائم کام مل گیا۔میرے شاگردوں میں سے دو بہت مشہور ہوئے۔ایک تو انیل کپور اور دوسرا گلشن گروور۔

این ایس ڈی سے گریجویشن کے بعد ہر لڑکے اور لڑکی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ یا تو بڑے اسٹیج پر جائے یا پھر بالی وڈ۔1976 میں مجھے پہلی بار مشہور مراٹھی ڈرامہ نگار وجے تندولکر کے ڈرامے گھاسی رام کوتوال کی فلمی تشکیل کے بعد اسی نام سے بننے والی فلم میں ایک کردار ملا۔اس دوران میں تھیٹر کرتا رہا۔

1980 میں نصیر الدین شاہ نے مجھے مہان ڈائریکٹر شیام بینگل سے ملوایا۔انھوں نے مجھے آکروش میں ایک قبائلی کی بے بس زندگی کے گرد گھومنے والے مرکزی کردار کی پیش کش کی۔ظاہر ہے میں نے جھٹ سے قبول کرلی۔معاوضہ تو دس ہزار روپے ملا مگر شہرت کروڑوں کی مل گئی۔

خوش قسمتی سے ستر کی دہائی سے بالی وڈ میں رئیل لائف پر مبنی فلمیں بنانے کا چلن عام ہونے لگا۔جسے لوگ باگوں نے جانے کیوں آرٹ فلموں کا نام دے دیا۔یہ روایتی کمرشل موویز تو نہیں تھیں مگر ایکٹنگ کی پیاس بجھانے کے لیے ان سے بہتر کوئی اور پلیٹ فارم نہیں تھا۔ اسی دوران مجھے سمیتا پاٹیل ، شبانہ اعظمی اور نصیر اور کلبھوشن کھربیندرا جیسے دگجوں کا ساتھ مل گیا اور ہم لوگ ایک طرح سے آرٹ فلموں والی منڈلی کے طور پر جانے جانے لگے۔ساتھ ساتھ پیسے کمانے کے لیے ہم لوگ کمرشل فلموں میں بھی کام ڈھونڈھ لیتے تھے۔

1982 میں اردھ ستیا ریلیز ہوئی اور اس نے سینما جگت میں دھوم مچا دی۔وہاں سے اس مسٹر اوم پوری کا ظہور ہوا جسے آج اچھے خاصے لوگ جانتے ہیں۔اس فلم نے مجھے بیسٹ ایکٹر کا انڈین نیشنل ایوارڈ دلوایا۔اس کے بعد منتھن ، پار ، 1986 میں مرچ مصالحہ ، 1987 میں ٹیلی فلم تمس ، 1992 میں دھاراوی اور 1996 میں پنجاب میں سکھ بغاوت کے پس منظر میں بنائی گئی گلزار صاحب کی فلم ماچس ریلیز ہوئی۔

اب  پلٹ کر دیکھتا ہوں تو گھاسی رام کوتوال سے لے کر دبنگ اور بجرنگی بھائی جان تک کیا کیا کیا اور کیا کیا چھوڑ دیا کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔اسی بیچ کہیں میری اپنی مادری زبان کی پنجابی فلمیں بھی آئیں جن میں سے دو ’’ چن پردیسی ‘‘ اور لونگ دا لشکارا زیادہ مشہور ہوئیں۔مزاحیہ کرداروں کو بھی ہاتھ مارا۔اس کیفیت میں پہلی فلم 1997 میں جانے بھی دو یارو تھی۔تین برس بعد ہیرا پھیری اور اس کے دو برس بعد چور مچائے شور کی کامیابی نے مجھ پر آشکار کیا کہ آپ کا بھائی تو اچھا خاصا کامیڈین بن سکتا ہے۔

میں نے شروع میں آپ کو بتایا کہ جب میں این ایس ڈی میں داخل ہوا تو انگریزی کا ایک شبدھ بھی پلے نہیں پڑتا تھا۔تھینک یو ، ایکسکیوز می اور اوکے کو میں ہندی یا پنجابی کے الفاظ سمجھتا تھا۔مگر پھر نصیر کی صحبت اور اس کے نتیجے میں آنے والا اعتماد۔مگر میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ انگریزی فلموں اور وہ بھی ہالی وڈ کی فلموں اور برٹش فلموں اور ڈرامہ سیریلیز میں بھی کام مل جائے گا۔سر رچرڈ ایٹن برو کی لیجنڈری فلم گاندھی ، جیک نکلسن کے ساتھ وولف میں کردار نگاری ، سٹی آف جوائے میں رکشہ والے کے کردار کے لیے رکشہ چلانا سیکھنا، چارلی ولسنز وار میں جولیا رابرٹس، ٹام ہینکس اور یہ خادم بطور ضیا الحق ،  پھر ریکلٹنٹ فنڈامینڈلسٹ ناول پر مبنی مائی سن دی فنیٹک اور ایسٹ از ایسٹ جیسی برٹش فلمیں۔

حالانکہ نہ تو میں پاکستان میں پیدا ہوا اور نہ ہی وہاں بہت زیادہ گیا۔مگر جتنی بار بھی گیا یہ سوال ساتھ واپس لایا کہ جب ہم بولنے ، دکھنے ، سوچنے ، کھانے پینے ، شادی بیاہ اور غمی میں ایک سے ہیں تو پھر ایک دوسرے کو قتل کرنے کے لیے اتنے بے تاب کیوں رہتے ہیں۔میں نے تو آج تک کوئی عام بھارتی یا عام پاکستانی نہیں دیکھا جو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہو۔میں تو جب بھی لاہور یا کراچی گیا واپسی پر ہمیشہ پاکستانی روٹھ جاتے تھے کہ میں اتنی جلدی کیسے جا رہا ہوں۔جب اڑی کے واقعے کے بعد دونوں ملکوں نے فن کاروں پر پابندی لگائی اور جب میں نے کھل کے اس پابندی کی مخالفت کی تب جا کے شدت سے احساس ہوا کہ نفرت کی سیاست سے کتنے لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔

پہلی بار میرا دل بہت زیادہ ٹوٹ گیا۔پہلی بار ایک بے بسی اور ناامیدی نے مجھے گھیر لیا۔میں مسلسل سوچتا رہا کہ کیا ہماری قسمت کا فیصلہ پاگل ہی کرتے رہیں گے۔ہم تعداد میں ان پاگلوں سے بے پناہ زیادہ ہونے کے باوجود کب تک گائے بھینس اور بکری بنیں رہیں گے۔میرا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔مگر ایسے سوالات دماغ میں آنے کے لیے سیاستداں ہونا تو ضروری نہیں۔یہ سوال تو ہر انسان کے ذہن میں آتے ہوں گے۔کچھ کہہ دیتے ہیں۔بے شمار بس سہتے ہیں۔میں نے پچھلے سال ایک پاکستانی فلم ’’ ایکٹر ان لا ’’ میں کام کر کے ایک عجیب سا آنند لیا۔

انبالے کا ایک معمولی شکل و صورت والا لڑکا دو فلم فئیر ایوارڈ، دو نیشنل ایوارڈ، ایک پدم بھوشن ، ایک او بی ای اور کروڑوں لوگوں کے دلوں میں بسنے والی محبت لینے کے بعد اور کس شے کی تمنا کرے۔

لہٰذا میں آپ کا اوم پوری چھ جنوری 2017کو اطمینان سے اپنے بستر میں لیٹا لیٹا مر گیا۔دل کا دورہ تو بہانہ تھا۔میرے پاس دل تھا ہی کہاں۔وہ تو آپ میں بٹ چکا کبھی کا…کوشش کروں گا کہ اوپر بھی اوم کسی نہ کسی فلم میں اوم پوری کو بریک تھرو دے دے۔مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا۔۔

 

The post تو یہ تھا آپ کا اوم پوری appeared first on ایکسپریس اردو.


پاکستان کی خاطر

$
0
0

پاک سرزمین پارٹی کا حیدرآباد کا جلسہ متاثرکن تھا۔ وہ لوگ جو اسے ایک چھوٹی اور غیرمقبول پارٹی کا طعنے دے رہے ہیں، اس جلسے نے یقیناً ان کے منہ بند کردیے ہوں گے۔ آزاد مبصرین بھی اس جلسے کو حوصلہ افزا قرار دے رہے ہیں۔ اس پارٹی کو ابھرے ابھی مشکل سے دس ماہ ہی گزرے ہیں اور اس کی گونج کراچی سے کشمیر تک پہنچ چکی ہے۔ مختصر سے عرصے میں اس نے ملک کے تمام طبقوں میں اپنی جگہ بنالی ہے۔

اس پارٹی کا یہ بھی کمال ہے کہ یہ تین مارچ 2016ء کو قائم ہوئی اور اس نے اپنے قیام کے صرف ایک ماہ بعد یعنی 25 اپریل کو اپنے پہلے جلسے کو منعقد کرنے کا اعلان کر ڈالا۔ سب ہی حیران تھے مگر دیکھنے والوں نے دیکھاکہ صرف ایک ماہ کی پارٹی نے کمال کردیا اور 25 اپریل کو باغ جناح میں مزار قائد کے سامنے ایک شاندار جلسہ منعقد کرڈالا۔ مبصرین اور تجزیہ کاروں کو  نظر آنے لگا تھا  کہ پارٹی جلد عروج حاصل کر لے گی۔ اس جلد مقبولیت حاصل کرنے کی ٹھوس وجوہات ہیں۔ اس نے اپنے منشور میں پاکستان اور پاکستانیوں کو اپنا محور قرار دیا ہے،  لہٰذا اس کے نزدیک ملک کی سلامتی اور بقا اور امن سب سے مقدم ہے۔

کراچی میں انارکی کی صورتحال تھی۔ اس پارٹی نے ملک کو نقصان پہنچانے والوں اور دشمن کے آلہ کاروں کے خلاف آواز بلند کی بلکہ انھیں للکارا۔ اس وقت کراچی میں جان بوجھ کر جو دہشتگردی پھیلائی جا رہی تھی اور لوگوں کو یرغمال بناکر ایک مخصوص بیرونی ایجنڈے پر کام کیا جا رہا تھا، یہ پارٹی اسے ناکام بنانے کے لیے سینہ سپر ہوگئی۔ اس کے تمام رہنما پہلے متحدہ قومی موومنٹ میں تھے وہ اپنی جان جوکھم میں ڈال کر شہر کو اندھیرے سے نکال کر اجالے کی سمت لے جانے کے لیے یکجا ہوگئے تھے۔ انھوں نے کراچی کا امن تباہ کرنے والوں سے کھلی جنگ کی اور شہریوں کو متبادل قیادت فراہم کی۔

یہ شہرِ مہاجرین ہے۔ مہاجرین نے دوسروں کے ساتھ مل کر اسے ایک معمولی شہر سے بین الاقوامی سطح کا صنعتی اور کاروباری شہر بنا  دیا ہے۔ آج اس کی آمدنی سے پورا ملک مستفید ہو رہا ہے۔ چند ماہ قبل تک روز روز کی فرمائشی ہڑتالوں نے اس کی معیشت کو گھن لگا دیا تھا۔ اس کے اکثر کارخانے اور معاشی ادارے بھتوں کی بھرمار، قتل و غارت گری اور ہڑتالوں کی وجہ سے بند ہوگئے تھے۔  بڑی تعداد میں سرمایہ دار کراچی ہی نہیں بلکہ ملک چھوڑ کر خلیجی اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں اپنا سرمایہ لگانے لگے۔ محنت کش بیروزگار ہوگئے۔ ہڑتالوں نے پتھارے داروں اور ریڑھی والوں کو بھی فاقوں پر مجبور کردیا۔

پاک سرزمین پارٹی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے سندھ اور بالخصوص کراچی میں امن و امان کے قیام میں انتظامیہ کی بھرپور ہمت افزائی کی۔ اس نے نفرتوں کو ختم کرکے پیار و محبت اور وطن پرستی کا وہ جذبہ پیدا کیا،  اس پارٹی نے اندھیرے کو اجالے میں تبدیل کرنے کے لیے جس جدوجہد کا آغاز کیا تھا، 22 اگست کو اس کی انتہا ہوگئی۔ وطن پرستی کی فتح ہوئی اور غیر ملکی ایجنڈا اپنی موت آپ مر گیا۔

مصطفیٰ کمال صرف کراچی والوں کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام پاکستانیوں کے لیے جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ وہ پرویز مشرف کے دور میں کراچی کے میئر کی حیثیت سے کراچی میں جو کارہائے نمایاں انجام دے چکے ہیں انھیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ جن دنوں وہ کراچی میں تعمیراتی کام انجام دے رہے تھے اس وقت لاہور کے عوامی بہبود کے تعمیراتی منصوبوں سے محروم تھا۔

پنجاب کے سابق گورنر سلمان  تاثیر  نے ایک پریس کانفرنس میں مصطفیٰ کمال کی دل کھول کر تعریف کی تھی۔ انھوں نے یہ بھی خواہش ظاہر کی تھی کہ کاش لاہور میں بھی کوئی مصطفیٰ کمال ہوتا تو لاہور کے دن بھی پھر جاتے۔ راقم نے اس وقت اپنے ایک کالم میں تاثیر کو مشورہ دیا تھا کہ وہ پرویز مشرف سے درخواست کر کے مصطفیٰ کمال کو لاہور کی بھی میئر شپ دلوا دیں تو لاہور کے دن بھی پھر سکتے ہیں۔

مصطفیٰ کمال کا یہ وصف بھی قابل ذکر ہے کہ انھوں نے کراچی میں جتنے بھی پروجیکٹ مکمل کیے ان کا کام اپنے سامنے مکمل کرایا۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے فرض شناسی اور عوامی خدمت کا پرخلوص کردار ادا کیا۔ ان کے بنائے ہوئے پلوں اور سڑکوں پر آج بھی ٹریفک رواں دواں ہے۔ ان پر اب ان پروجیکٹس کی تعمیر میں کمیشن لینے کا الزام لگایا جا رہا ہے مگر انھوں نے قسم کھا کر کہا ہے کہ انھوں نے ایک پیسہ بھی نہیں لیا، جو کچھ کیا خدمت خلق کے جذبے کے تحت کیا اور اگر کسی کو شک ہے تو وہ عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔ ان کی پارٹی پر یہ بھی الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس نے کئی دہشتگردوں کو اپنے دامن میں پناہ دے رکھی ہے، یہ عسکری ونگ کے لوگ ہیں جو کراچی میں قتل و غارت گرمی میں مصروف رہے ہیں۔

مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ میں انھیں مجرم نہیں مانتا، اصل مجرم وہ ہیں جنھوں نے انھیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ وہ لاپتہ کارکنان کو بازیاب کرانا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ جہاں تک عسکری ونگ کے لوگوں کو پناہ دینے کا معاملہ ہے، مبصرین کے مطابق پاک سرزمین پارٹی کو ان معاملات سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے اس کا اپنا دامن بھی داغ دار ہو سکتا ہے۔ جہاں تک اس پارٹی کے نظریات کا تعلق ہے وہ بہت واضح اور قابل توجہ ہیں۔

یہ ملک کو جھوٹ فریب اور منافقت کی سیاست سے باہر نکالنا چاہتی ہے۔ مہاجروں کو اور ان کی نسلوں کو گندم نما جو فروشوں سے محفوظ بناکر نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہتھیار کے بجائے قلم اور کتاب دیکھنا چاہتی ہے۔ یہ ملک میں مختلف قومیتوں کی سیاست کو ختم کرکے صرف ایک پاکستانی قوم کی سیاست کو پروان چڑھانا چاہتی ہے۔ اس پارٹی کے ان نظریات نے کراچی سے کشمیر تک تمام پاکستانیوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا ہے۔

اس میں اس وقت کوئی منتخب ممبر نہیں ہے مگر اس کے تمام ہی لیڈر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی اپنی رکنیت قربان کرکے اس کے دائرے میں داخل ہوئے ہیں، چونکہ یہ ایک نئی پارٹی ہے اور اسے دوسری بڑی قومی سیاسی پارٹیوں کے مقابلے پر آنے کے لیے ابھی بہت محنت کرنا ہے اور لمبا سفر بھی طے کرنا ہے، چنانچہ اسے اپنی صفوں میں بدعنوان اور گھٹیا شہرت کے حامل لوگوں کے داخلے سے ہوشیار رہنا چاہیے، ورنہ اس کا حشر تحریک انصاف جیسا ہوسکتا ہے۔ اگلے سال منعقد ہونے والے انتخابات میں کامیابی کے لیے مہاجروں سے منسلک دوسری محب وطن پارٹیوں سے انتخابی اتحاد کرنے سے گریز نہ کیا جائے، یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ مہاجر ووٹ نہ بٹنے پائے۔

The post پاکستان کی خاطر appeared first on ایکسپریس اردو.

تیشۂ کوہ کن

$
0
0

سید مسعود عالم رضوی ایکسپورٹ پروموشن بیورو کے وائس چیئرمین تھے۔ ایک دن انھوں نے محمد محسن سے کہا ’’آپ جس طرح کام کرتے ہیں، کسی سے پوچھتے نہیں، کسی کی سنتے نہیں۔ اپنے لیول پر بڑے سے بڑا فیصلہ بغیر کسی افسر سے پوچھے جاری کردیتے ہیں، میرے خیال میں تو آپ کو نوکری سے چار پانچ مرتبہ ڈس مس ہوجانا چاہیے تھا۔ Did you ever land into any big problem?۔‘‘

’’سر! نوکری سے نکالے جانا تو چھوٹی بات ہے، مجھے تو جیل بھی ہوسکتی تھی لیکن کبھی کسی ایسی مشکل میں نہیں پڑا۔‘‘

رضوی صاحب نے پوچھا کیوں؟ محسن نے جواب دیا ’’میں نے تمام عمر سرکاری نوکری اپنی مرضی اور شان سے کی ہے لیکن جتنے بھی کام کیے ہیں ان میں کبھی بھی میرا ذاتی فائدہ نہیں ہوتا تھا اور نہ نیت خراب ہوتی تھی۔‘‘

یہ لب لباب ہے محمد محسن کی زندگی کی داستان کا جو انھوں نے اپنی کتاب ’’تیشۂ کوہ کَن‘‘ میں بیان کی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ’’اس کتاب میں کچھ حکایاتانہ، کچھ فلسفیانہ، کچھ گستاخانہ اور کچھ غیر شریفانہ باتیں ملیں گی۔ کچھ سفر کے حالات، کچھ زندگی کے تلخ و شیریں تجربات، کچھ نصیحتیں، کچھ فرمودات اور بونگیاں۔ موجودہ ملکی حالات کے بارے میں میرے تجربات اور شاید ناقابل برداشت طرز تحریر۔‘‘

اس سے بہتر محمد محسن کی کتاب کا کوئی تعارف نہیں ہوسکتا تھا اور نہ ان کی شخصیت کا۔ وہ فرماتے ہیں ’’زندگی کی ابتدا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے باپ کے بیٹے سے شروع کی اور اللہ نے شہرت، عزت، دولت، مرتبہ اور اولاد در اولاد سب کچھ دے دیا۔‘‘

محمد محسن نے معمولی اسکول میں تعلیم شروع کی۔ نویں کلاس میں آئے تو والد نے کہا کہ تمہیں اپنے دادا کی طرح ڈاکٹر بننا ہے، سائنس لے لو۔ ان کا رجحان کچھ اور تھا، آرٹس میں داخلہ لیا، بی اے کیا، پھر اکنامکس میں ایم اے۔ اس کے ساتھ ہی ایل ایل بی کرلیا۔ نوکری نہیں مل رہی تھی تو کالا کوٹ پہن کر وکالت شروع کردی۔ شمشاد  لاری ان کے استاد تھے۔

ایکسپورٹ پروموشن بیورو کا ریجنل آفس کراچی میں تھا۔ ملازمت کے لیے درخواست دی، پبلک سروس کمیشن کے سامنے پیش ہوئے، انٹرویو کامیاب ہوا اور میرٹ کوٹے پر دوسری پوزیشن لے کر منتخب ہوگئے۔ گریڈ 16 کے افسر بن کر ریجنل آفس میں گئے۔ سرکاری نوکری جیسے تیسے بڑی شان سے کی، اسی لیے گاہے بگاہے ٹرانسفر ہوجاتا تھا۔ ایک نئے ڈائریکٹر جنرل آئے تو انھوں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے سروس ریکارڈ کے مطابق آپ کے بار بار تبادلے ہوئے ہیں کیا وجہ ہے؟ محسن نے جواب دیا ’’کبھی مجھے افسر پسند نہیں کرتا تھا اور کبھی میں افسر کو پسند نہیں کرتا تھا، بس ٹرانسفر ہوجاتا تھا۔‘‘

محسن کا واسطہ ایک ایسے افسر سے پڑا جو انتہائی قابل، شریف اور ایمان دار تھے۔ یہ محمد یوسف تھے جو ایکسپورٹ پروموشن بیورو کے ڈائریکٹر جنرل تھے اور پھر وائس چیئرمین ہوگئے۔ ان سے محسن کی نہیں بنی اور انھوں نے تیرہ سال تک ان کا پروموشن نہیں ہونے دیا، چنانچہ یہ گریڈ 16 میں ہی رہے۔ نوکری کے آخری دور میں رجسٹرار ٹریڈ مارک کی حیثیت سے ان کی تعیناتی ہوئی جو گریڈ 19 میں ایک بڑا اور بہ اعتبار اختیارات اہم عہدہ تھا۔ اس عہدے پر رہتے ہوئے انھوں نے کئی معرکۃ الآرا فیصلے کیے۔ بعض ایسے فیصلے بھی تھے کہ جن پر خود انھیں حیرت ہوئی۔ لکھتے ہیں ’’ابا جی کی طرف سے سخت احکامات تھے کہ جھوٹ نہیں بولنا، غلط کام نہیں کرنا اور محنت کرنی ہے، جس پر میں زندگی بھر کاربند رہا اور ایک نہایت کامیاب زندگی گزاری۔‘‘

محمد محسن ساڑھے تین سال ٹریڈ مارک رجسٹری میں رہے پھر ڈپٹی ڈائریکٹر ہوکر واپس ایکسپورٹ پروموشن بیورو میں آگئے اور ٹیکسٹائل کوٹا سیکشن میں لگا دیے گئے۔ ان کی صاف گوئی اور بدلحاظی کے باوجود ان کی قابلیت اور ایمان داری اور فرض شناسی کے باعث ان کے افسران ان پر بھروسہ کرتے تھے اور وہ سارے مشکل کام جو کوئی اور نہیں کرتا تھا، انھیں سونپ دیے جاتے تھے۔ وزارت تجارت میں اہم میٹنگوں میں یہ اپنے بیورو کی نمائندگی کرتے تھے۔

محسن نے بہت سے ملکوں کے دورے کیے، تاجروں کے وفد لے کر گئے اور کامیاب ہوکر آئے۔ ان کا پہلا دورہ تھائی لینڈ، سنگاپور، ہانگ کانگ، جاپان اور جنوبی کوریا کا تھا جو انھوں نے پاکستان کے سرکاری تجارتی وفد کے ممبر اور سیکریٹری کی حیثیت سے کیا۔ یہ چین بھی گئے، لیبیا، مالٹا، یمن اور اسپین بھی گئے۔ ان کو یوسف صاحب نے ہی نامزد کیا حالانکہ ان سے ان کے تعلقات اچھے نہ تھے۔ اسپین محسن کے خوابوں کی سرزمین تھا۔ وہ غرناطہ گئے اور قرطبہ بھی گئے، الحمرا کی سیر کی۔ اسپین کے بعد وہ برطانیہ گئے۔ لندن میں چار پانچ دن رہے۔ ایک بار انھیں جرمنی میں میونخ میں اسپورٹس گڈز کی نمائش کا انچارج بناکر بھیجا گیا۔

ہالینڈ کے ایک مطالعاتی دورے پر بھی گئے۔ نیپال، برما اور ویتنام بھی تجارتی وفد لے کر گئے۔ برما میں آخری مغل تاجدار بہادرشاہ ظفر کے مزار پر بھی ہو آئے۔ اشک آباد، ترکمانستان میں پاکستانی مصنوعات کی نمائش کا انتظام کیا جس کا افتتاح وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے ترکمانستان کے قومی دن کے موقع پر کیا۔ محسن نے افریقہ کے کئی ملکوں کا بھی تجارتی وفدوں کے ساتھ دورہ کیا۔ ان میں جبوتی، کینیا، ایتھوپیا، یوگنڈا، تنزانیہ، سینگال، زیمبیا، گھانا شامل تھے۔ وہ بھوٹان بھی گئے۔ یہ اس وفد میں بھی شامل تھے جو ایران اور پاکستان کی سرحدوں پر کامن بارڈر مارکیٹوں کے قیام کا جائزہ لینے کے لیے ایران بھیجا گیا تھا۔ محسن عراق بھی گئے اور مقدس مقامات کی زیارت کی۔ بابل کے کھنڈرات بھی دیکھے۔

امریکا میں لاس ویگاس کی آٹومکینک نمائش میں پاکستانی پویلین کا ڈائریکٹر بناکر ان کو بھیجا گیا۔ محسن کا آخری دورہ آسٹریلیا میں سڈنی کا تھا جہاں یہ انٹلیکچوئل پراپرٹی کے سیمینار میں پاکستان کی نمائندگی کرنے گئے۔ اس طرح انھوں نے اپنے ملک کی خدمت کی اور سیر و سیاحت کا لطف بھی اٹھایا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر بیرونی دورے سے واپسی پر عمرہ کرکے آتے تھے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو اتنے عمرے کرائے کہ انھوں نے ان کا شمار کرنا ہی چھوڑ دیا۔ یہ اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر حج پر بھی گئے۔ لکھتے ہیں ’’دوران حج میں نے جتنی دعائیں مانگیں سب قبول ہوئیں اور اللہ سے جو بھی مانگا مل گیا۔‘‘

محمد محسن نے اپنے کچھ افسروں، ساتھیوں اور دوستوں کے خاکے بھی اپنی کتاب میں شامل کیے ہیں۔ ان میں یوسف صاحب بھی ہیں جنھوں نے ان کی گستاخیوں کے باوجود ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ ان سے بڑے بڑے کام لیے۔ جسٹس ربانی کو بھی یاد کیا ہے جو ان کے نہایت شفیق اور لائق استاد تھے، ایک اور شفیق استاد اور پھر دوست میر حامد علی ہیں، ساتھیوں میں اسلم بھٹی، امیر جان، نصرت اقبال اور اعظم محمد اور سید مسعود رضوی ہیں جو ان کے لائق افسر اور مہربان ہیں۔ ان سب شخصیتوں کے خاکوں میں خود ان کی شخصیت جھلکتی ہے۔

محمد محسن کی کتاب میں اور بھی کچھ ہے، کچھ اشعار ہیں، کچھ ایسے ہیں جو محسن کی پسند ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی پسند کریں، کچھ رکشاؤں اور بسوں اور ٹرکوں پر لکھے جانے والے شعر ہیں۔ آخر میں ایک جدید اردو لغت بھی ہے۔ کتاب اس مصرعے پر ختم ہوتی ہے:

جوئے شیر و تیشۂ سنگ گراں ہے زندگی

The post تیشۂ کوہ کن appeared first on ایکسپریس اردو.

یہ میرا کام نہیں ہے 

$
0
0

دسمبر کا مہینہ شادیوں کے انعقاد کے لحاظ سے سب سے بھاری مہینہ بن چکا ہے اور کیلنڈر پر کوئی ایسی تاریخ نہیں بچتی جس کے گرد سبز دائرہ اس بات کا غماز نہ ہو کہ اس رات ایک شادی اٹینڈ کرنا ہے، غالبا اسی سلسلے کی گزشتہ برس کی آخری شادی تھی جسے یاد رکھنے کے کئی حوالے ذہن میں ہیں، ہرلحاظ سے ایک بہت بڑی شادی… رنگ و بو کا سیلاب تھا اور آنکھوں کو خیرہ کردینے والی روشنیوں نے زنانہ ملبوسات کی چمک کو چاند بنا رکھا تھا، جگر جگر کرتے قیمتی ملبوسات میں ملبوس خواتین اپنے شوہروں کی معیت میں اس ہال میں داخل ہوتیں تو کیمروں کی زد میں آتیں اور ساتھ ہی قریب اور دور کھڑے لوگوں کی نظریں اس جوڑے کا طواف شروع کر دیتیں۔

چند قدم چل کر آگے آتے تو باوردی بیرے پھلوں کے تازہ جوس کی ٹرے لے کر پہنچ جاتے، جس پر بلوریں طویل گلاسوں میں انار، سیب اور مالٹے کے جوس کی ورائٹی تھی…  کوئی اپنی من مرضی کا جوس اٹھا لیتا اور کوئی اسے شکریہ کہہ کر چلتا کرتا- عورتیں  ابھی اپنے میک اپ کا تاثر بگاڑ نہ سکتی تھیں- دور دور تک وہ لوگ نظر آ رہے تھے جنھیں ہم ملک کی اشرافیہ کا درجہ دیتے ہیں، دولت کے لحاظ سے نہیں بلکہ تعلیم اور رکھ رکھاؤ میں بھی کہ وہ لوگ ہیں جو ملک میں بیوروکریٹ ہیں اور اعلی عہدوں پر فائز ہیں-

تمام وقت ان کے ایٹی کیٹ اور تمیز کا مظاہرہ ہو رہا تھا، ’’خواتین و حضرات، براہِ مہربانی کھانے کے لیے ساتھ والے ہال میں تشریف لے چلیں! ‘‘ لگ بھگ ساڑھے دس بجے کھانے کا اعلان مائیک پر کیا گیا،  ہم نے تو ایسی ایسی شادیاں عام دیکھی ہیں جن میں بیرے ڈشوں کے اسٹیل کے ڈھکن آپس میں زور زور سے بجاتے ہیں، یہ گویا بگل ہوتا ہے اعلان جنگ کا اور اس کے بعد پلیٹوں کی چھینا جھپٹی سے لے کر کھانے کی ڈشوں پر یلغار تک کا منظر ہم سب کے اندر چھپا ہوا وحشی انسان سب کو دکھا دیتی ہے- یہاں بھی کئی بار کھانے کا اعلان ہوا، لیکن لوگوں کی آپس کی بات  چیت کھانے سے زیادہ اہم تھی پھر  لوگ دوسرے ہال کی طرف سرکنے لگے جوپہلے ہال سے بھی بڑا تھا، اس میں کھانے کی اشتہا انگیز خوشبو پھیلی ہوئی تھی، ہلکی موسیقی کی آواز کے ساتھ تازہ بنتے ہوئے بار بی کیو اور تنور کی خستہ روٹیوں کی مہک پھیلی ہوئی تھی- بیرے قطاروں میں کھڑے تھے اور اس ہال میں داخل ہوتے ہی ہاتھ میں پلیٹ پکڑا دیتے سو  پلیٹ کی تلاش کا مرحلہ وہاں درپیش نہ آیا، سلاد کی ورائٹی سے سجی میزیں، بے شمار میٹھے… بار بی کیو کے علاوہ انواع و اقسام کے کھانوں سے سجی میزیں مگر لوگ وہاں بھی قطاروںمیں آرام سے کھڑے تھے- ( اسلام آباد اور راولپنڈی میں بہت سی مارقی ( Morquee) ہیں جن پر ملک کے دیگر شہروں کی طرح شادی بیاہ پر حکومت کی طرف سے لاگو قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا، نہ وقت کی پابندی کا اور نہ ون ڈش کی پابندی کا) –  کوشش کر رہا تھا نہ کوئی شور مچا رہا تھا، اپنی باری آنے پر تھوڑا سا نفاست سے اپنی پلیٹ میں کھانا ڈالا جاتا، اتنا ہی کہ جتنا وہ کھا اس کیں گے… بار بی کیو کے سامنے قطار طویل تھی کہ وہ کوشش کے باوجود تیزی سے نہ دے سکتے تھے کہ گوشت کچا رہ جاتا، وہاں انتظار میں کھڑے لوگ یوں بھی اس موسم میں آگ کی تپش سے محظوظ ہو رہے تھے… مرد قطارمیں تھے مگر جونہی کوئی خاتون آ جاتیں تو وہ لوگ ہٹ کر اسے پہلے کھانا لینے دیتے… اتنی منظم، اتنے سلیقے اور اتنے طریقے کی شادی شاید ہی کسی کو دیکھنا نصیب ہوتی ہو-

ہم سب سہیلیوں کا گروپ بھی حسب معمول تقریب کے دوران اپنی باتوں کے ساتھ ساتھ ان خواتین کے ملبوسات کی تعریف بھی کر رہا تھا جو کہ کسی نہ کسی لحاظ سے مختلف تھا، کوئی اتنی سردی میں بغیر بازؤں کی قمیض پہن کر ٹھٹھر رہی تھی تو کسی نے بیگانی شادی میں دیوانہ بنتے ہوئے اتنا بھاری لبا س پہن رکھا تھا کہ اسے سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا، کوئی موقعے کے بر خلاف بہت ہی سادہ لباس میں تھی تو کوئی چیختے چنگھاڑتے میک اپ کے ساتھ مزاحیہ لگ رہی تھی … کسی کے لباس سے کسی کوکوئی غرض نہیں ہوتی مگر جب موضوعات ختم ہو جائیں تو ہم عورتیں ایسے ہی گھٹیا موضوعات پر باتیں کرنا شروع کر دیتی ہیں- مردوں کے لباس اس لیے موضوع گفتگو نہیں تھے کہ سب ایک جیسے لباس میں تھے… –

کھانے کے ساتھ جو نپکن پلیٹوںمیں رکھے گئے تھے… وہ انتہائی اعلی کوالٹی کے اورکافی بڑے تھے،ا ستعمال کے بعد اندازہ ہوا کہ وہ کپڑے کے نہیں بلکہ انتہائی اعلی کاغذ کے بنے ہوئے تھے، ان کو بھی سراہا گیا- کھانا ختم ہوا، ہم نے پلیٹیں رکھ کر واپسی کی راہ اختیار کرتے ہوئے ایک دوسرے کو اللہ حافظ کہنا شروع کیا، میں اپنی سہیلی کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے چل رہی تھی کہ شوہر حضرات کو اس مجمعے میں کیسے تلاش کیا جائے… ہمارے آگے وہ خاتون چل رہی تھیں جس کی look اور لباس کو ہم سب نے اپنی گفتگومیں اے گریڈ دیا تھا، اب وہ ہمارے قریب تھی اور اس کے لباس کو اب ہم زیادہ غور سے دیکھ رہے تھے جو بظاہر تھا تو سادہ مگر انتہائی قیمتی کپڑے کا بنا ہوا اور اس کی تراش خراش بھی عمدہ تھی، اس خاتون کے با ذوق ہونے میں کوئی شک نہ تھا-

وہ بڑا سا سفیدنپکن جو کھانے کی میز پر استعمال کے لیے رکھا گیا تھا، اس خاتون کے ہاتھوںمیں نظر آیا، سالن کے داغوں سے پیلا ہوتا ہوا، انھوں نے اس کے ساتھ آخری بار ہاتھ پونچھے اوراپنے ہاتھوں سے گولہ سا بنا کر اس صاف ستھرے چمکدار فرش کی نذر کر دیا-

صرف ایک لمحہ لگتا ہے جب انسان کے اندر کی شخصیت اس کے خوب صورت چہرے، لباس اور حلیے کے خول کو توڑ کر باہر نکل آتی ہے… ’’ سنیے… ‘‘ میں نے اسے پکارا، اس نے مڑ کر حیرت سے دائیں بائیں اور پھر پیچھے دیکھا، ’’یہ آپ کے ہاتھ سے گر گیا ہے!!‘‘ میں نے اس کے متوجہ ہونے پر اس کاغذی نپکن کے گولے کی طرف اشارہ کیا-

’’ گرا نہیں، میں نے خود پھینکا ہے!! ‘‘ ادائے بے نیازی-

’’ آپ ایسا نہیں کر سکتیں!! ‘‘ میں نے تاسف سے کہا-

’’ کیوں ؟ ‘‘ انھوں نے چتون چڑھائے، ’’آپ کو کوئی پرابلم ہے کیا؟‘‘

’’ پرابلم … ہاں پرابلم ہی ہے… میں اٹھا دوں یہ نپکن؟ ‘‘ میں ذرا سا جھکی، ’’کام تو آپ کا ہے مگر میں کر دیتی ہوں!!‘‘

’’ یہ میرا کام نہیں… صفائی کرنے والوں کا کام ہے!!‘‘ کہہ کروہ مڑیں اور چل دیں، اپنی شخصیت کو بت پاش پاش کر کے- ہم خیال کرتے کہ ہمارا کچرا وہ اٹھائیں گے جنھیںا س کام پر مامور کر رکھا ہے کیونکہ ہم ٹیکس دیتے ہیں؟؟

ہماری شکل و صورت، وضع قطع اور لباس کے قیمتی ہونے کی اہمیت صفر ہے اگر ہم میں بات کرنے کی تمیز نہیں اور اپنی صفائی ہیچ ہے۔ … جن جھیلوں کی خوب صورت تصاویر تم انٹر نیٹ پر ہمیں دکھاتے تھے کہ جن کی صفائی اور شفافیت آئینے سے زیادہ ہے وہاںاب چپس اور جوس کے خالی ڈبے سطحء آب پر تیرتے ہیں!!‘‘

… ہم سب یہی تو کر رہے ہیں، آپ اور میں!! سوچیں کہ اس ملک کو آلودہ کرنے میں آپ کا اور میرا کتنا حصہ ہے، کیا فائدہ ہمارے گھر کی صفائی کا، جب ہم سب کا مشترکہ گھر، ہمارا ملک دنیا میں جس خوبصورتی کے لیے مشہور تھا اسے ہم نے گرہن لگا دیا ہے!!

The post یہ میرا کام نہیں ہے  appeared first on ایکسپریس اردو.

شہر قائد اور قائداعظم  (حصہ اول)

$
0
0

قائداعظم کا یوم پیدائش اور 25 دسمبر ایک ہی ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔ دونوں دنوں کی اہمیت مسلم ہے۔ 25 دسمبر کا دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے حوالے سے مسیحی برادری کے لیے مسرتوں کا دن ہے، لیکن اس سال جب مسیحی برادری کی خوشیاں تروتازہ تھیں کہ اچانک ان کے گھروں میں قیامت اتر آئی، ٹوبہ ٹیک سنگھ کے رہائشی کچی شراب پینے کے باعث اپنی جانوں سے گئے، اس سانحے میں تقریباً 42 اموات ہوئیں۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، بلکہ سالہا سال سے جہلم، بنوں اور دوسرے کئی علاقوں میں زہریلی شراب پینے سے  بے شمار متاثرین اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ حکومت نے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔

شراب  تمام ہی مذاہب میں منع ہے، خاص موقعوں پر پادری حضرات اقرار کرتے ہیں کہ یسوع مسیح (حضرت عیسیٰؑ) نے ان باتوں سے  دور رہنے کا حکم دیا ہے۔  اس کے علاوہ حقوق العباد کی ادائیگی پر ہم سے زیادہ غیر مسلم پابند ہیں،

25 دسمبر قائداعظم کے یوم ولادت کے حوالے سے محمد یونس کا مضمون بعنوان ’’قائداعظم کی یادیں‘‘ میری نگاہوں کے سامنے آکر ٹھہر گیا ہے۔ انھوں نے قائداعظم کی کراچی آمد پر  قائد سے عقیدت کو لفظوں کا جامہ بے حد سحر انگیزی کے ساتھ پہنایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’میری بڑی مشتاقانہ آرزو تھی کہ قائداعظم کے جہاز کو اترتا دیکھ سکوں، ہم ماڑی پور پہنچے تو ایئرپورٹ کے آس پاس بہت ہجوم تھا، وہاں پہنچتے پہنچتے جہاز اتر چکا تھا اور عوام جوش سے بے قابو ہوتے جا رہے تھے، قائداعظم کا جلوس چلا تو ہمارے ڈرائیور نے نہایت ہوشیاری کے ساتھ موٹر کو گیارہویں نمبر پر ڈال دیا، ہم خوشی اور فخر کے ان جذبات کے ساتھ قائداعظم کی سرکاری قیام گاہ تک پہنچے کہ ہم اپنے بابا کے جلوس میں ان سے گیارہویں نمبر پر ہیں، راستے میں ہر جگہ انسانوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ جمع تھے، چھوٹی چھوٹی بستیوں سے بھی گزرے تو دیکھا عورتیں، بچے، مرد سڑک کے کنارے، مکانوں کی چھتوں اور درختوں پر کھڑے اور بیٹھے ہیں،  یہی تھی وہ قوم جسے قائداعظم نے انگریز اور ہندوؤں کی دہری غلامی سے آزاد کرایا تھا۔

14 اگست کا دن بھی ناقابل فراموش بن گیا تھا، اس سے کچھ روز پیشتر ہی مشرقی پنجاب میں قتل و غارت کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا، لٹے پٹے مہاجرین پاکستان پہنچنا شروع ہوگئے تھے، اس سے فضا سوگوار ہوگئی تھی مگر اس کے باوجود آزادی کی خوشی اپنے عروج پر تھی، کراچی صبح آزادی کے استقبال کے لیے پوری طرح تیار تھا، قائداعظم برصغیر کے آخری وائسرائے ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر جلوس کی شکل میں سارے شہر سے گزرے، اس روز پہلی بار نیوی کے جوانوں نے ٹرکوں میں اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے رات بھر میں وہ ’’انڈین نیوی‘‘ سے ’’پاکستان نیوی‘‘ کے جوان بن گئے تھے۔‘‘

اس دن نیوی کے تمام جہاز دلہن کی طرح سجائے گئے تھے جہاں مضمون کے قلم کار محمد یونس اور ان کے ساتھی سمندر کی سیر کرنے آئے تھے ان کے ساتھ ایک بوڑھا شخص بھی تھا جس نے عقیدت و محبت اور قائداعظم کی بلند ہمتی، استقامت و عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’کوئی اپنی زمین کا ایک چپہ کسی کو نہیں دے سکتا مگر قربان جاؤں اپنے قائداعظم پر جنھوں نے ملک کا ملک ہندوؤں سے بٹوا کر لے لیا۔‘‘

قائداعظم کا بنایا ہوا ملک آج دشمنوں کے نرغے میں ہے۔ اس کا ہر صوبہ متعصبانہ رویوں، نفرتوں و عداوتوں، قتل و غارت اور مفاد پرستی کی آماجگاہ بن چکا ہے، کوئی اپنے ملک، اپنے صوبے اور شہر سے مخلص نہیں ہے۔ قدم قدم پر میر صادق و میر جعفر کے ٹولے ملک کی بنیادوں میں دراڑیں ڈالنے کے لیے اسلحے سے لیس ہیں۔

پاکستان کا دل کراچی جیسے بڑے شہر کے لعل و جواہر کو لوٹ لیا گیا ہے۔ اس کی شاہراہوں کا حسن چھین لیا گیا ہے۔ امن و سکون برباد  ہے، لیکن اسی قوم سے ایک بہادر، راسخ العقیدہ مسلمان اٹھا اور اس نے ضرب عضب کے ذریعے ظالموں کے ظلم کو روکنے اور مظلوموں کو تحفظ دینے کے لیے میدان کارزار میں کود گیا اور ایک بار حالات بہتری کی طرف رواں دواں ہیں۔ لیکن آزمائے ہوئے بازی گروں پر اعتماد دوبارہ کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔

کراچی شہر کی تاریخ تقریباً تین سو سال پرانی ہے۔ 1729ء میں موجودہ ٹاور کے علاقے میں ایک مچھیروں کی بستی آباد تھی، اس بستی کے ایک طرف کھارا اور دوسری طرف میٹھا پانی بہتا تھا، اسی حوالے سے یہ علاقے کھارا اور میٹھادر کے ناموں سے مشہور ہوئے اور قائداعظم بھی اسی تاریخی علاقے کھارادر میں 1874ء میں پیدا ہوئے، اسی سال ملکہ برطانیہ وکٹوریہ نے قیصر ہند کا لقب اختیار کیا، اس تاریخی بستی میں مائی کلاچی نام کی ایک عورت بھی سکونت پذیر تھی، شاید یہی وجہ تھی کہ اس بستی کا نام کلاچی پڑ گیا، پھر وقت گزرتا گیا، آبادی بڑھتی گئی اور کلاچی نامی بستی بھی اپنے رقبے کے اعتبار سے پھیلتی گئی اور شہر کی شکل اختیار کر گئی۔

انگریزوں کی کراچی آمد 1843ء میں ہوئی، ان دنوں برصغیر پر قبضہ کرنے کی بھی مہم جاری تھی، اسی دوران انھوں نے شہر کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے نزدیک، بالخصوص ساحل سمندر ہونے کی وجہ سے رہائش اختیار کی اور آبادکاری کا کام بخوبی انجام دیا۔ ’’کلفٹن‘‘ نام انھی کا دیا گیا ہے، فریئر ہال بھی 1863ء میں انگریزوں کی کاوشوں سے وجود میں آیا، انھوں نے کراچی سے پشاور تک ریلوے لائن بھی بچھائی، اس سے قبل 1835ء میں کراچی میں حسن علی آفندی نے تعلیمی لحاظ سے بڑا کارنامہ انجام دیا اور سندھ مدرسے کی بنیاد ڈالی، اس مدرسے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسی سے قائداعظم محمد علی جناح نے تعلیم حاصل کی  اور آج ہم جو کراچی میں پتھر کی پختہ اور خوبصورت عمارات دیکھتے ہیں وہ سب انگریزوں کی ہی بنائی گئی ہیں۔ ہماری سابقہ اور موجودہ حکومتوں نے فن تعمیر کے اعتبار سے کوئی نمایاں کام انجام نہیں دیا، البتہ نجی اداروں نے ضرور عمارات اور پلازے بنائے۔

انگریزوں کا بنایا ہوا سولجر بازار بھی آج تک موجود ہے لیکن اس کی حالت خستہ ہوچکی ہے۔ اسی طرح ایمپریس مارکیٹ فوجی بیرکیں اور دفاتر بھی وجود میں آئے۔ ڈی جے سائنس کالج بھی اسی دور کی یاد ہے جو آج تک قائم و دائم ہے۔ اس کا شمار معیاری کالجوں میں ہوتا ہے۔ سینٹرل جیل بھی انگریزوں کی ہی بنائی ہوئی ہے۔ اسی جیل میں مرد مجاہد، تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن مولانا محمد علی جوہر کو قید کیا گیا تھا اور زندگی کی قید سے آزادی انھیں بیت المقدس میں ملی، گویا دین و دنیا میں سرخ روئی اور عزت و مرتبہ حاصل ہوا۔ خوش قسمتی ہے ان کی جنھیں حب الوطنی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نتیجے میں بلند مقام حاصل ہو جاتا ہے۔

(جاری ہے)

The post شہر قائد اور قائداعظم  (حصہ اول) appeared first on ایکسپریس اردو.

محبت فاتح عالم

$
0
0

جھوٹ، فریب، مکر اور حسد نے جس طرح ہمارے معاشرے میں پنجے گاڑے ہیں، اس کی جھلک سیاست اور بیوروکریسی میں تو ملتی ہی ہے، لیکن عام آدمی بھی اس میں اتنا ہی ملوث ہے جتنے ہمارے لیڈر۔ بالخصوص وہ لوگ جو خود کو بہت زیادہ مذہبی ظاہر کرتے ہیں، کہ گھر میں ٹی وی نہ ہو، شادی بیاہ کی تقریبات میں ڈھولک نہ بجے، مایوں، مہندی نہ ہو، تیجہ، چالیسواں نہ ہو، وہ بڑے اطمینان اور فخر سے کسی ماں کو اس کی اولاد سے جدا کردیتے ہیں۔

جہاں حدیث نبویؐ دہراتے ان کی زبانیں تالو سے چپک جاتی ہیں، وہیں جلن اور حسد میں ڈوبے ہوئے الفاظ اور رویے اختیار کرتے وقت انھیں ذرا بھی ڈر نہیں لگتا۔ جہاں مایوں میں ڈھولک بجانے سے یہ کانپتے ہیں، وہیں یہ بھول جاتے ہیں کہ حضورؐ نے ماں کے بارے میں کیا حکم دیا ہے کہ ’’اگر نماز کے لیے نیت باندھ لی ہے اور ماں نے آواز دی ہے تو نیت توڑ کر پہلے ماں کی طرف جاؤ، پھر دوبارہ نیت باندھو، ماں دوبارہ آواز دے تو دوبارہ نیت توڑ کر اس کی بات سنو‘‘۔ ایک اور حدیث میں فرمایا ہے کہ:’’اگر 70 سال تک خانہ کعبہ کا طواف کرکے اس کی نیکیاں اپنے ماں باپ کو ہدیہ کرتے رہو تب بھی تم اس آنسو کا بوجھ ہلکا نہیں کرسکتے جو دل دکھانے پر ماں باپ کی آنکھ سے ٹپکا ہو‘‘۔

ایک اور حدیث میں فرمایا : ’’اپنی زبان کی تیزی اس ماں پر مت چلاؤ جس نے تمھیں بولنا سکھایا‘‘۔ جنت میں جانے کا راستہ اولاد کو یہ بتایا ہے: ’’اگر جنت میں جانا ہے تو جیتے جی اپنے والدین کو راضی کرلو۔ دونوں میں سے کوئی ایک بھی زندہ ہے تو اس کا دل نہ دکھاؤ‘‘۔

آج مجھے ماں کے حوالے سے احادیث اس لیے یاد آرہی ہیں کہ ایک بیٹا عمرہ ادا کرنے گیا ہے، اس نے سب رشتے داروں کو (سسرالی) فون کیا لیکن ماں کو بھولے سے بھی یاد نہیں کیا۔ ماں کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ بتارہی تھیں کہ ان کی آرزو تھی کہ بیٹا بہو اور پوتا پوتی کے ساتھ عمرے کی سعادت حاصل کرے، اخراجات کے ذمے داری بھی وہ خود ہی اٹھانا چاہتی تھیں لیکن بیٹے نے تو اطلاع دینا بھی گوارا نہیں کیا کیونکہ اس بیٹے کی حیثیت وہی ہے جو جنگل میں دشمنوں کی سنگینوں اور بھالے برچھوں کے درمیان پھنسے ہوئے کسی انسان کی ہوتی ہے۔ وہ دشمنوں کی ہر بات ماننے کے لیے مجبور ہوتا ہے ورنہ وہ اسے زندہ نہیں چھوڑینگے۔ اپنی جان بچانے کے لیے وہ دشمنوں کا مذہب، ان کی رسمیں، ریت رواج اور بہت کچھ ماننے پہ مجبور ہوتا ہے۔

کیسی حیرت کی بات ہے کہ بزعم خود بہت زیادہ مذہبی کہلانے والے مندرجہ بالا احادیث کو کبھی یاد نہیں رکھتے۔ جن میں والدین کے حقوق کی بات کی گئی ہو جس طرح ہماری مذہبی جماعتیں صرف خود کو ہی مسلمان سمجھتی ہیں اسی طرح یہ منافقین بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پنج وقتہ نماز ادا کر کے انھیں ہر ایک کی دل آزاری کا ٹھیکا مل گیا ہے۔ انھیں شاید اﷲ نے بتادیا ہے کہ تم جنتی ہو، جتنا جی چاہو کسی ماں باپ کا دل دکھاؤ اور فساد پھیلاؤ اور وہ علامہ حضرات و خواتین بھی برابر کے شریک ہیں کہ وہ بھی فساد پھیلانے اور شر پھیلانے والوں کے حمایتی بن کر سامنے کھڑے ہیں اور ناحق کا ساتھ دیکر خود بھی گنہگار بن رہے ہیں۔ جنھیں نشانہ بنایا جارہا ہے وہ خاموش ہیں کہ ’’ایک عدالت اور بھی ہے‘‘۔

میں نے اپنے ایک کالم میں ذکر کیا تھا کہ تقسیم سے سب سے زیادہ نقصان معاشرتی رویوں اور سماجی رابطوں کو ہوا ہے، جس میں سرفہرست رشتوں میں دراڑیں پڑنا ہے۔ پیسے کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ انسانیت، محبت اور رواداری بالکل ختم ہوتی جارہی ہے۔ پہلے بزرگوں اور بڑوں کا لحاظ اس حد تک کیا جاتا تھا کہ محلے کے بزرگ بھی اگر ڈانٹ ڈپٹ کردیتے تھے تو بچے اور جوان سر جھکا کر سن لیا کرتے تھے کیونکہ گھر سے ہی تہذیب ملی تھی لیکن آج آپ کسی نوجوان کو ہارن بجانے سے، تیز رفتاری سے یا گٹکا کھانے سے منع کرکے دیکھے۔ آپ کو کیا جواب ملے گا۔ صرف اسی پر بس نہیں، اگر آپ نے کسی کی بیٹی یا بیٹے کی کوئی غلط بات نوٹ کی یا اسے کسی غلط جگہ دیکھا اور حق ہمسائیگی یا حق دوستی نبھانے کے حوالے سے والدین کو خبردار کیا تو الٹا وہ آپ کے سر ہوجائیں گے کہ آپ غلط ہیں اور ہماری اولاد صحیح۔ اس لیے اب لوگوں کی اکثریت سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی آنکھیں بند کرلیتی ہے کہ ناحق برا کون بنے؟ اپنے کالموں میں اکثر میں نے کالج کی طالبات اور طلبا کے رویوں کا ذکر کیا ہے۔

والدین کے ساتھ ساتھ استاد کا ادب بھی اب ماضی کی بات بن گئی۔ لیکن والدین یہ نہیں سمجھتے کہ جب بچوں نے استاد کی شکایت کی تو آپ فوراً اسکول یا کالج پہنچ گئے اور استاد کی خبر لے لی کہ اب استاد صرف ایک ملازم ہے۔ جب ان ہی بچوں نے والدین کی نافرمانی شروع کی تو پھر آپ کس منہ سے استاد کے پاس شکایت لے کر پہنچے کہ ’’بچے ہمارا کہنا نہیں مانتے‘‘۔ ہمت تو آپ نے ہی دی کہ چاہے استاد ہو یا آس پاس والے سب کی بے ادبی کرنے کا انھیں حق حاصل ہے۔سوسائٹی کسی ایک فرد سے نہیں بنتی، معاشرہ گروہی تہذیب کا تقاضا کرتا ہے۔ جب تہذیبی رویوں میں نفرت اور حسد پیدا ہوجائے تو سازشیں جنم لیتی ہیں۔ سازشیں اور حسد رشتوں میں نفرت کی دراڑیں ڈال دیتے ہیں۔

یاد رکھیے اﷲ تعالیٰ نے حقوق العباد کو اہمیت دی ہے۔ مذہب کا ٹھیکیدار بن کر کسی کو اولاد سے جدا کردینا، بھائی بھائی کو دشمن بنادینا، بھائی بہنوں میں نفرت پیدا کردینا، ان تمام رویوں سے نفرتیں بڑھتی ہیں۔موجودہ سماجی رویوں میں ہر سطح پر ہمیں درگزر، مفاہمت، خلوص اور محبت کی اشد ضرورت ہے۔ محبت کو اقبال نے ’’فاتح عالم‘‘ کہا ہے۔ کہتے ہیں کہ تلوار کا زخم بھرجاتا ہے لیکن زبان کا گھاؤ نہیں بھرتا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ خواہ لیڈر ہوں یا عام آدمی سب سے زیادہ زبان کے گھاؤ ہی لگارہے ہیں۔ کسی نے یونہی تو نہیں کہہ دیا کہ:

زبان شیریں، ملک گیری
زبان کڑوی ملک بانکا

اگر محبت اور پیار کی پالیسی بھارت اور پاکستان بھی اپنالیں تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ کچھ نادیدہ طاقتوں کو دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت اور محبت کی پالیسی کا ایجنڈا سوٹ نہیں کرتا۔ اسی طرح دو خاندانوں کے درمیان بھی محبت اور پیار کا رشتہ بعض لوگوں کو پسند نہیں ہوتا۔ اسی لیے نفرتیں بڑھتی جاتی ہیں اور زندگیاں تلخ ہوتی جاتی ہیں، مائیں روتی رہتی ہیں، باپ سوگوار رہتے ہیں اور ’’نادیدہ قوتیں‘‘ نفرتوں کی دیواروں کو اونچا کرنے میں مگن رہتے ہیں۔ کاش انھیں بھی کوئی بتائے کہ محبت کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ انسان دنیا ہی میں جنت پالیتا ہے۔

The post محبت فاتح عالم appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 22649 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>