Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22628 articles
Browse latest View live

بان، شان سے رخصت ہوئے

$
0
0

سینڈریلا کی کہانی ہم میں سے اکثر لوگوں کو یاد ہے۔ وہ خوش جمال لڑکی جو سوتیلے رشتوں میں گھری ہوئی تھی اور اپنی سوتیلی ماں اور بہنوں کے ستم سہہ رہی تھی۔ موسم سرما میں بھی ٹھنڈے فرش پر سونا، بچا کچا کھانا اس کا مقدر تھا اور سارے گھر کو محنت اور مشقت سے چمکائے رکھنا، کھانے پکانا، غرض ہر کام اس کی ذمے داری تھی۔

اس کہانی سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ ایک پری نے جادو کی چھڑی گھما کر کس طرح چند گھنٹوں کے لیے اس کی زندگی بدل دی تھی اور اس کے بعد بھی کہانی میں کئی نشیب و فراز آتے ہیں لیکن پریوں کی کہانیوں کا اختتام تو اسی جملے پر ہوتا ہے کہ اور پھر کہانی کے کردار ہنسی خوشی زندگی گزارتے رہے۔

یہ کہانی بچپن سے ذہن پر نقش ہے، اسی لیے جب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے دس برس کے نہایت مشکل اور تھکا دینے والے دنوں کے اختتام پر یہ کہا کہ مجھے اپنی زندگی پریوں کی کوئی کہانی لگتی ہے تو مجھے خوش گوار حیرت ہوئی۔ انھوں نے اپنے اسٹاف سے الوداعی ملاقات میں کہا کہ مجھے یوں محسوس ہورہا ہے جیسے میں سینڈریلا ہوں اور کل 12 بجے رات کو جب میں اپنے عہدے سے سبک دوش ہو جاؤں گا تو میری زندگی مکمل طور پر تبدیل ہوجائے گی۔

ہوسکتا ہے کہ ہم ان کے بیان سے اتفاق نہ کریں لیکن یہ بات تو ہم سب کو تسلیم کرنی ہوگی کہ انھوں نے ابتدا سے ایک مشقت طلب زندگی گزاری اور جب وہ دو مرتبہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے تو دنیا میں جتنے پیچیدہ مسائل تھے اور ان مسائل کو سلجھانے کے لیے دن رات ایک کردینے کی جدوجہد کچھ اس طرح تھی جیسے کوئی شخص گہری کھائی پر تنے ہوئے رسے پر اپنا توازن برقرار رکھتے ہوئے چل رہا ہو۔ اب سے ایک ہفتہ پہلے وہ اس صبر آزما مرحلے کو طے کرسکے۔

بان کی مون کی تصویروں پر نظر ڈالیے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی جاپانی کو دیکھ رہے ہیں لیکن بان کوریا کے باشندے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم ختم ہورہی تھی تب وہ پیدا ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کوریا پر جاپانیوں کا قبضہ تھا۔ ان کے والد کاروبار کرتے تھے لیکن جنگ عظیم اور جاپانیوں کے قبضے کی وجہ سے یہ ملک دیوالیہ ہوچکا تھا۔ جان بچانے کی خاطر یہ خاندان اپنے دیہاتی مکان سے بھاگ کر پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوا۔

آدھے درجن بھائی بہنوں کے درمیان بان اس وقت 6 برس کے تھے اور اس جنگ سے نفرت کرتے تھے جس نے ان سے ان کا گھر، آنگن میں پھرتی ہوئی مرغیاں اور بکریوں سے محروم کردیا تھا۔ یہ انڈوں، دودھ اور تازہ سبزیوں سے محرومی تھی۔ بان کا گھرانا 3 برس تک پہاڑوں میں چھپا رہا۔ یہاں شمالی یا جنوبی کوریا کے فوجی ان کے تعاقب میں نہیں پہنچ سکتے تھے لیکن بھوک سے ان کو نجات نہیں تھی۔ بان کو اسی بات کا بہت دنوں تک احساس رہا کہ جب آپ کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا تو یہ بھوک ہوتی ہے جو آپ کو کھانے لگتی ہے۔ ایک بار بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ہم کوریا والوں نے واقعی جنگ کی راکھ سے نیا جنم لیا ہے۔

خراب حالات میں جانے کس طرح یہ بات ان کی سمجھ میں آگئی کہ انگریزی زبان کو سیکھنا انھیں تمام مشکلوں سے نجات دلائے گا۔ یہ سوچ کر وہ دیوانوں کی طرح انگریزی سیکھنے کی اور انگریزی میں لکھنے کی کوشش کرنے لگے۔ اسے محض اتفاق کہیے کہ جب وہ نو عمر تھے تو ان کی کلاس سے کہا گیا کہ وہ اس وقت اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ڈیگ ہیمر شولڈ کے نام ایک خط لکھے جس میں یہ لکھا جائے کہ وہ ہنگری پر سوویت یونین کے قبضے کو ختم کرانے کی کوشش کریں۔

اس وقت ان کے استاد یا خود بان یہ نہیں جانتے تھے کہ کچھ دن جاتے ہیں جب وہ خود اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ہوں گے اور دنیا کے مختلف ملکوں کے درمیان ایسے ہی پیچیدہ تنازعات کو حل کرانے اور ثالثی کرانے کی ذمے داری ان کی ہوگی۔ وہ نوجوانی کے دور میں قدم رکھ رہے تھے جب امریکی ریڈ کراس کی طرف سے ایک تحریری مقابلہ انھوں نے جیتا اور وہ امریکا بھیجے گئے۔ وہاں ان کی ملاقات اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی سے کرائی گئی۔

وائٹ ہاؤس اور اس کا اوول آفس جہاں وہ دنیا کی عظیم عالمی طاقت امریکا کے صدر کے سامنے کھڑے تھے، وہ اس سے ہاتھ ملا رہے تھے اور کینیڈی ان کی پشت تھپتھپاتے ہوئے انھیں زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کہہ رہے تھے۔ تین برس تک جان کے خوف سے پہاڑوں میں زندگی گزارنے اور بھوک سے مقابلہ کرنے والے بچے کے لیے یہ ایک ناقابل یقین لمحہ تھا۔ یہی لمحہ تھا جب انھوں نے طے کیا کہ وہ اپنی آئندہ زندگی میں ایک ڈپلومیٹ کا کیریئر اختیار کریں گے۔

یہی عزم تھا جسے اپنے سینے میں پرورش کرتے ہوئے انھوں نے کوریائی فارن سروس کا امتحان پاس کیا۔ 1972ء سے 1978ء تک وہ  کوریائی فارن سروس کی طرف سے ہندوستان میں مختلف عہدوں پر کام کرتے رہے۔ اسی دوران 1985ء میں انھوں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ایم اے کیا اور اس کے بعد وہ جنوبی کوریا کی فارن سروس میں کام کرتے رہے۔ وہ جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے چین، جاپان، روس، امریکا کے علاوہ شمالی اور جنوبی کوریا سے ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ جیسے نازک اور اہم مسئلے پر بات چیت میں شریک رہے تھے۔ ایک کامیاب اور نیک نام ڈپلومیٹ کی زندگی گزار کر وہ اکتوبر 2006ء میں دنیا کے اہم ترین عہدے تک پہنچے اور چند دنوں پہلے دو مدتیں گزار کر عزت و احترام کے ساتھ اپنے عہدے سے رخصت ہوئے ہیں۔

دس برس کی مدت پر مشتمل عہدے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ مدت نہ ختم ہونے والے امتحان کی طرح تھی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ قوموں کی اجتماعی کوششوں سے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بہتر ہوئیں لیکن انھیں سب سے زیادہ صدمہ اس بات کا تھا کہ شام کی جنگ چھٹے برس میں داخل ہوچکی ہے۔ اسی طرح وہ جنوبی سوڈان، یمن، سینٹرل افریقن ری پبلک اور کونگو کے حالات کی وجہ سے بھی دل گرفتہ تھے۔ انھوں نے دنیا کے مختلف صدور، وزرائے اعظم اور بادشاہوں پر کھل کر تنقید کی کہ دنیا کے بہت سے علاقے ان کی وجہ سے شدید تناؤ اور لڑائیوں کا شکار ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اپنے لوگوں کی زندگیوں اور فلاح و بہبود سے کہیں زیادہ اپنا اقتدار عزیز ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اپنے عہدے سے سبک دوش ہونے کے باوجود وہ دنیا کے ان حکمرانوں پر زور ڈالتے رہیں گے اور یہی کہیں گے کہ اگر وہ اکیسویں صدی کے حقائق کو سمجھیں اور اپنے اقتدار کا خیال کرنے کے بجائے اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود کو سامنے رکھیں تو دنیا ایک بہت بہتر جگہ ہوسکتی ہے۔

اس دوران جب وہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل تھے، انھوں نے موسمیاتی تبدیلی کو نہایت اہمیت دی۔ وہ جانتے تھے کہ یہ دوچار ملکوں کا نہیں ساری دنیا کا مسئلہ ہے اور اگر ہم نے سنجیدگی سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہ کی تو ہم اپنے ہاتھوں سے دنیا کی تباہی کا منظرنامہ لکھیں گے جو نہایت بھیانک ہوگا۔ اسی طرح انھوں نے صنفی مساوات کے لیے بھی ان تھک کام کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی نصف آبادی کو حقوق سے محروم رکھ کر ہم ایک خوش حال اور خوب صورت دنیا کیسے تعمیر کرسکتے ہیں۔

اپنے دوسرے دور میں بھی انھوں نے عالمی موسمیاتی معاہدے کو منظور کرانے کے لیے شب و روز محنت کی۔ یہ معاہدہ دسمبر 2015ء میں پیرس ایگریمنٹ کے نام سے سامنے آیا۔

ان کی جہاں بہت تعریف و توصیف ہوئی وہیں انھیں چین اور روس میں انسانی حقوق کی صورت حال پر سخت موقف اختیار نہ کرنے کے حوالے سے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اب جب کہ وہ دس برس کا نہایت مشکل عرصہ گزار کر اپنی ذمے داریوں سے سبک دوش ہوگئے ہیں، ان کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ وہ جنوبی کوریا واپس چلے جائیں گے اور اس بات کا بھی قوی امکان موجود ہے کہ وہ اپنے ملک کے اگلے صدر منتخب ہوجائیں گے۔

ان کی آئندہ زندگی کیا رخ اختیار کرتی ہے، اس سے قطع نظر لوگ انھیں ایک ایسے شخص کے طور پر یاد کریں گے جو مختلف ملکوں اور قوموں کے درمیان پل تعمیر کرتا رہا، انھوں نے 6 برس کی عمر سے خود غربت اور بھوک جھیلی تھی، اسی لیے وہ امیروں اور غریبوں کے درمیان تفاوت کو کم سے کم کرنے کے خواہاں رہے۔ وہ بھوک کے دشمن جانی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جنگ، بھوک اور نابرابری تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ ان مسائل کے خاتمے تک دنیا میں امن اور استحکام کا قیام ممکن نہیں۔

The post بان، شان سے رخصت ہوئے appeared first on ایکسپریس اردو.


ٹریفک یا Terrific ۔

$
0
0

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کاروباری افراد، ملازمت پیشہ لوگ، اسکولوں کالجوں کے طلبہ اور دیگر شہری صبح اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو انھیں اچانک راستے بند ملتے ہیں اور اگر وہ متبادل راستہ تلاش کرنا چاہیں تو مختلف اطراف سے بھٹک کر آئے ہجوم کے ریلوں کے تھپیڑے کھاتے راستہ بھول کر مخالف سمتوں میں گم ہو کر کہیں سے کہیں نکل جاتے ہیں اور پھر اپنے ہی گھروں کا راستہ پوچھتے پائے جاتے ہیں۔ جب بھی کسی علاقے میں وی وی آئی پی حکمرانوں کے لیے بیریئر لگا کر رستے بند کیے جاتے یا کسی احتجاجی جلوس کو روکنے کے لیے کنٹینر کھڑے کر کے سڑکیں اور رستے بلاک کیے جاتے ہیں تو ٹریفک حشر کا منظر دکھا رہی ہوتی ہے۔

اگر روڈ بلاک کے متاثرین جن میں پیدل، سائیکل اور موٹربائیک سوار، رکشہ و کار سوار، ویگنوں کے مسافر اور بسوں میں بیٹھے لوگوں کی تعداد گنی جائے اور ہر فرد کے وقت کے ضیاع کا شمار کیا جا سکے تو بزبان شاعر یہی ردعمل دیا جا سکتا ہے کہ ’’یا ہنس پڑو یا ہاتھ اٹھا کر دعا کرو‘‘۔ ایک اندازے کے مطابق کئی ہزار سائیکلوں، موٹرسائیکلوں اور موٹرکاروں کے سوار جن کی تعداد دس سے بیس ہزار سے متجاوز ہو گی، مہینے میں کئی بار پولیس ناکوں کی زد میں آ کر لاکھوں منٹ تک وقت کے ضیاع اور ذہنی کوفت کے عذاب سے گزرتے ہیں۔

مذکورہ بالا نوحہ تو محض جملہ معترضہ تھا جو عذاب اور انتظار کی کئی لاکھ گھڑیوں کے ذکر سے طوالت پکڑ گیا۔ مجھے تو صوبائی دارالحکومت کی سڑکوں کا ذکر کرنا تھا جن پر دس بارہ اقسام کی ٹریفک ہمہ وقت رواں دواں رہتی ہے لیکن اسے Traffic کے بجائے Terrific کہنا زیادہ موزوں ہو گا۔

دن کے چوبیس گھنٹوں میں ہمارے اکثر برسرروزگار شہری دو سے چار گھنٹے بلاشبہ سفر میں یعنی سڑک پر سوار ہوتے ہیں۔ ان مصروف سڑک سوار افراد کو آتے جاتے دیکھئے تو معلوم ہو گا کہ اکثریت عجلت اور جلدبازی میں ہوتی ہے۔ پیدل شخص کو تو اتنی جلدی ہوتی ہے کہ سڑک کراس کرنے کے لیے وہ دن میں کتنی ہی بار جان ہتھیلی پر رکھ کر خطرناک اور تیزرفتار موٹروں کے بیچ میں سے تیر نہیں بگولے کی طرح نکل جاتا ہے اور موٹرسائیکل سوار اس طرح بل کھاتا ہوا نکلے گا کہ خود اپنی مہارت پر دم بخود ہو کر رہ جاتا ہو گا۔

رکشہ ڈرائیور کو داد دینا ہی پڑتی ہے کہ جب تک آپ کو پتہ چلے کہ ہوا کیا ہے وہ جناب کی ٹانگوں میں سے نکل چکا ہوتا ہے۔ ویگنیں چونکہ پٹرول کے بجائے ہارن کی طاقت سے چلتی ہیں اور ان کے سٹیئرنگ میں لگا مقناطیس مسافر کی کشش ثقل پا کر یکلخت نوے ڈگری گھوم سکتا ہے اور اردگرد چلتے ہوئے راہگیروں کو خصوصی حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔

مکرر آمدم برسر مطلب انگریز حاکموں کا چھوڑا ہوا اور ہمارا وقتاً فوقتاً ترمیم شدہ موٹر وہیکل سے متعلق قانون اتنا جامع ہے کہ اگر اس پر عمل درآمد ہو جائے تو سڑکوں پر ڈسپلن قائم ہونے کے نتیجے میں سڑک کے حادثات میں کمی کے علاوہ معاشرتی زندگی میں بھی بہتری آئے گی۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے ایک اچھا اسپورٹس مین کھیل کے میدان سے باہر بھی بااصول اور ایماندار شہری ہوتا ہے۔ ہمارا موٹر وہیکل آرڈیننس تو اتنا ظالم ہے کہ پاکستان میں اسمبلڈ شو روم سے نکلی نئی موٹر کار کا چالان تک کروا دے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں قوانین کی تو بھرمار ہے، خرابی ان پر عمل کرنے اور کروانے والوں میں ہے۔

ریاستی بے منزلی اور لاقانونیت کا مشاہدہ کرنے کے لیے آج کل پاکستان بہترین ماڈل اور ورکشاپ ہے لیکن شکر خدا کہ ابھی مکمل ہنیر نہیں پڑا۔ کسی کسی جگہ دیے روشن ہیں اور عدلیہ نے اپنے چراغوں میں ان ہی دنوں تیل تبدیل کیا ہے جو ریاست کے باقی اداروں کو تقویت اور روشنی دے سکتا ہے۔ یہاں البتہ ’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی  طوالت مدت بے یقینی کے بھنور میں ہے۔

ہر قسم کی لاقانونیت جس کا آج کے پاکستان میں ذکر کیے بغیر کوئی مضمون مکمل نہیں ہوتا، کافی حد تک طمع نفسانی سے اور ایک State of mind سے پیدا ہونی بیان کی جاتی ہے۔ کوئی ماتحت اور وہ شخص جسے عوام کہا جا سکتا ہے،اس وقت تک لا قانونیت کا مرتکب ہونے کی جرأت نہیں کر سکتا جب تک حاکم، مالک، افسر یا گھر کے سربراہ سے جرم سرزد نہ ہو، ہر فرد اپنے سے اوپر والے کو دیکھ کر تحریک پکڑتا یا عبرت حاصل کرتا ہے۔ ماں کی گود پہلی اور تعلیمی درسگاہ دوسری تربیت کی جگہ ہوتی ہے۔

اول الذکر کی حالت یہ ہے کہ کسی گھر میں کثرت اولاد تو کسی میں قلت اموال کے سبب بچے کی تربیت ناممکن ہو چکی ہے۔ مدرسوں کی جگہ اب دکانیں کھل گئی ہیں۔ کچھ میں تعلیم کا کاروبار ہوتا ہے تو کچھ میں روبوٹ بنائے جاتے ہیں۔ گھروں اور درس گاہوں سے باہر سڑکیں اور بازار ہیں جہاں پیدل اور سوار آتے جاتے اور ایک دوسرے کے پاس سے گزرتے ہیں۔ سڑک ملکوں، شہروں، محلوں، گلیوں اور مکانوں کو آپس میں ملانے کا ذریعہ ہے۔ کہتے ہیں کسی بھی سڑک، بازار یا چورستے پر گزرنے والوں کا نظارہ کر کے آپ ان لوگوں کے اخلاق، مزاج، نظم وضبط اور ان کی تہذیب وترقی، شرافت اور تربیت کے علاوہ معاشرتی رویوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

حکومت کی بیشمار ذمے داریاں اور مصروفیتیں ہوتی ہیں۔ وہ اگر سڑک کے ڈسپلن کو ریگولیٹ کرنے ہی کی ذمے داری سنجیدگی سے لے لے تو اس کا اثر دوررس ہو سکتا ہے۔ ٹریفک کی بدنظمی کو کنٹرول کرنا حکومتی ترجیحات میں آ جائے تو اس میں شریک اور اس کے شاہد دونوں پر مثبت اثر پڑیگا۔ آج کل کا سروے بتاتا ہے کہ بغیر ڈرائیونگ لائسنس Automobiles چلانے والوں، غیر تربیت یافتہ اور کمسن ڈرائیوروں، بغیر ٹیسٹ اور جعلی لائسنس ہولڈروں کی وجہ سے سڑکیں غیرمحفوظ ہو چکی ہیں۔

نااہل ڈرائیور گاڑی کے ہارن اور ایکسیلیٹر کے علاوہ کسی دوسرے پرزے مثلاً سٹیئرنگ، بریک اور انڈیکیٹر کے استعمال سے واقف نہیں۔ شہروں کی بے ہنگم اور خطرناک ٹریفک پر کوئی کنٹرول یا چیک نہیں۔ پبلک سروس ٹرک، بس، رکشہ، ویگن کی ناقص مکینیکل حالت اور مخدوش باڈی کی پڑتال کا نظام کرپشن اور نااہلی پر قائم ہے۔ہر ضلعی ہیڈکوارٹر میں ڈرائیونگ ٹریننگ اسکول قائم کرنے کی تجویز مختلف سطح پر زیرغور آتی رہی ہے۔ ہر قسم کی موٹروں کی فٹنس کی تصدیق کی اسکیم بھی سوچی گئی ہے۔

پبلک سروس گاڑیوں یعنی رکشہ، ویگن، بس، ٹرک وغیرہ کی فٹنس کا موجودہ سرکاری سسٹم کرپشن کی بنیادوں پر چل رہا ہے جس کی وجہ سے ناقص اور خطرناک گاڑیاں سڑکوں پر عام ہیں۔ اپنے فرائض سے بیگانہ اور اخلاقی اصولوں سے ناواقف لوگ ڈرائیونگ کرتے ہوئے جنگل کا قانون اپناتے ہیں۔ اگر حکومت صرف سڑک سواروں پر موٹر وہیکل ضوابط کے ناقابل معافی عملدرآمد کا اطلاق کروا لے تو اس تربیت کے دوررس اور مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ پولیس کی ڈیوٹیوں کا جائزہ لیا جائے تو انکشاف ہو گا کہ ان کی برین واشنگ ہو چکی ہے جس کے علاج کی ضرورت ہے۔

چند روز قبل سابق گورنر سلمان تاثیر کے یوم شہادت پر احتجاج کرنے والوں کو روکنے کے لیے انتظامیہ نے شہر لاہور کے مصروف ترین علاقوں سے گزرنے والی ٹریفک کو Divert کرنے کے لیے مختلف مقامات پر کنٹینر کھڑے کر کے لکھوکھ ہا شہریوں کے لیے پریشان کن صورت حال پیدا کر دی۔ صبح سے رات گئے تک ان رکاوٹوں نے لوگوں کو ایک ہیجان میں مبتلا رکھا۔ ابھی چند روز قبل صوبہ پنجاب میں انگریزی دور کا ڈپٹی کمشنر والا ضلعی نظام بحال کرنے کی خبر تھی لیکن کنٹینر سے رستے بلاک کر کے لاء اینڈ آرڈر قائم کرنے کا فارمولا تو ایک احمقانہ فعل تھا۔

معلوم ہوتا ہے حکومت وقت کو موجودہ ضلعی انتظامیہ کی ٹریننگ کے لیے سابق ڈپٹی کمشنروں کی خدمات حاصل کرنی پڑیں گی۔معلوم ہوتا ہے انتظامیہ کی وی آئی پی روٹ لگانے کی ٹریننگ نے ان کی ذہنی حالت پر شدید منفی اثرات پیدا کر دیے ہیں جس کا مناسب علاج کیے بغیر ٹریفک کی بدنظمی کا سدھار ممکن نہیں۔

The post ٹریفک یا Terrific ۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

عدالت ِعظمیٰ ہی قوم کو پاناما کے عذاب سے نجات دلاسکتی ہے

$
0
0

انتخابی دھاندلی کے بطن سے برآمد ہونے والا احتجاجوں کا ایک طویل سلسلہ، جوکبھی دھرنوں کی شکل میں توکبھی مقدموں کی شکل میں پاکستان کی سیاست کا محور بنا ہوا ہے‘ پاکستان تحریکِ انصاف کے علاوہ تمام سیاسی جغادری اپنے اپنے مفادات کی چادر اوڑھے حکومت کی بُکل کے چور بنے ہوئے ہیں‘ پانامالیکس کا اونٹ ہے کہ کسی کروٹ بیٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہا‘ ایک چیف جسٹس کے بعد دوسرے چیف جسٹس کو بھی پاناما ہی پاناما درپیش ہے‘ پاکستان کے نئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی تقرری کی جونہی خبر شایع ہوئی۔

حسبِ روایت ان پرمعترض حلقوں نے لفظوں کا دھاوا بول دیا‘ قاضی القضاء کا عہدہ سنبھالتے ہی انھوں نے بہرکیف پہلا حکم یہی صادر کیا کہ پاناما کیس کی سماعت 4جنوری سے ہوگی‘ ساتھ ہی نیا پانچ رکنی بنچ بھی تشکیل دیدیا اور خود اس سے الگ رہے‘ یہ ان کا واقعی ججوں والا فیصلہ تھا جس کی عوام کی طرف سے زبردست توصیف کی گئی‘ تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کی تمام ترسیاست اور مستقبل کا انحصار بھی اب قریں قریں پاناما کیس پرہی آگیا ہے‘ ان کی دانست کے مطابق تو عدالتِ عظمیٰ سے وہ یہ کیس جیت چکے ہیں اور وزیراعظم نوازشریف بھی اب نااہل ہوئے ہی چاہتے ہیں۔

قوم نہایت دلچسپی سے یہ ساری کارروائی دیکھ رہی ہے اور یہ بھی بڑی حیرت سے دیکھا گیا ہے کہ عمران خان کوجب اُمید کی کرن نظر آئی ہے تو وہ یہ کہہ اٹھے ہیںکہ وہ عدلیہ پر اعتماد رکھتے ہیں اور جو بھی فیصلہ ہو گا وہ اسے قبول کرینگے، لیکن اگر فیصلہ شریف فیملی کے حق میں آیا تو کیا تب بھی عمران خان اسے قبول کرینگے؟ اس بات کا یقین شاید اب ان کو بھی نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی نے عدالت میں جانے کی مخالفت کی اور رائے دی تھی کہ پارلیمنٹ میں احتساب کیا جائے اور عوامی رائے ہموار کی جائے لیکن تحریکِ انصاف فیس سیونگ کے لیے سب سنی اَن سنی کرکے عدالت جا پہنچی۔

اس اہم کیس پر اعتراز احسن کا موقف ہے کہ کیس مضبوط اور بارِثبوت مدعا علیہان پر ہے تاہم وہ خود اس کیس میں وکیل نہیں ہیں‘ جہاں تک پیپلزپارٹی کا اپنا تعلق ہے تو آصف زرداری کی آمد کے بعد بلاول زرداری والی تیزتر پالیسی میں کافی حد تک تبدیلی آئی ہے‘ انھوں نے آتے ہی باپ بیٹے کے قومی اسمبلی میں جانے کا اعلان کردیا اور ایسا یقیناً ہو بھی جائے گا‘ عام تاثر یہی ہے کہ آصف زرداری زیادہ زمانہ شناس اور زیرک سیاستدان ہیں‘ ان کی پالیسیوں سے محسوس ہورہا ہے کہ پیپلزپارٹی کو قلیل عرصہ میں انتخابی میدان کے لیے تیار کرنے کی حکمتِ عملی پر کام شروع کردیا گیا ہے‘ وہ اپوزیشن کو متحد کرنے کی بھی بات کرتے ہیں لیکن بیانات کے تبادلے میں نہیں اُلجھ رہے جب کہ بلاول اس کے برعکس کررہے تھے اور کرپشن کے خلاف بھی انھوں نے محاذ کھڑا کررکھا تھا۔

عمران خان اور ان میں یہ ایک قدرِ مشترک پیدا ہوئی‘ پاناما کا اور کوئی فائدہ ہوا ہو یا نہ ہواہو، اتناضرور ہوا ہے کہ کرپشن کی بات سبھی کرنے لگ پڑے ہیں، حتیٰ کہ نیب کی پلی بارگیننگ کے حوالے سے تو پورا ایوان ایک ہی زبان بول رہا ہے‘ سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ اب عدالت کو یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا سرکاری عہدے کا غلط استعمال تو نہیں ہوا‘ وزیراعظم نوازشریف کی خاندانی کاروبار پر تقاریر میں موقف کی تردید ان کے بچوں کے موقف سے سامنے آئی‘ اس منی ٹریل کا نہیں بتایا جارہا جب نواز شریف وزیرخزانہ، وزیراعلیٰ اور وزیراعظم رہے اورجب جب وہ ملک سے باہر گئے۔

وزیراعظم نے 1997ء میں کہا کہ بزنس سے الگ ہورہا ہوں، وہ سیاست بھی کرتے رہے اور بزنس بھی کرتے رہے‘ یہ سوال مفادات کے تضاد ہی کا تو ہے کہ جب جب نواز شریف نے عہدہ سنبھالا تب تب ان کے بزنس معاملات آگے بڑھے‘ وزیراعظم کے بچوں اور ان کے تحائف کے درمیان ٹیکس چوری تقریباً واضح ہوچکی ہے‘ فلیٹ نمبر17 اے 7مئی 1993ء کو خریدا گیاجو آف شور کمپنی نیسکول نے خریدا‘ کیا ایسی کوئی دستاویز ہے کہ 1993ء میں نیسکول کمپنی حسین نواز کی ملکیت تھی؟ ہاں بالکل! پورے کیس میں یہی توایک راز کی بات ہے جسے نعیم بخاری اس کیس کا اسمِ اعظم قرار دے رہے ہیں۔

عدالت کہتی ہے، نیلسن اور نیسکول آف شور کمپنیوں کی 2006ء سے پہلے کی ملکیت پی ٹی آئی نے ثابت کرنی ہے۔ پی ٹی آئی کے وکلاء کا موقف ہے کہ بارِثبوت مدعاعلیہان پر ہے کیونکہ مریم نواز آج بھی اپنے والد کے زیرکفالت ہیں‘ معزز عدلیہ نے فریقین کو یہ بھی باور کروایا ہے کہ کسی کوبینچ کی ساخت پر اعتراض نہیں تومیڈیا سے مخاطب ہونے کے بجائے عدالت سے مخاطب ہوا جائے‘ میڈیا ججوں کے ریمارکس، آبزرویشن اور سوالات کو ان کی ذاتی سوچ سے تعبیر نہ کرے‘ ججوں کے سوالات کا مقصد وکلاء سے اندر کی باتیں نکلوانے یا کیس کے مرکزی نکتے تک پہنچنے کے لیے ہوتے ہیں‘ ان کے سوالات کی بنیاد پر بحث ومباحثے نہیں ہونے چاہئیں‘ وہ کسی پرقدغن نہیں لگا سکتے‘ پروگرام ضرور ہوں لیکن ججوں کے سوالات اور آبزرویشن پر نہ ہوں‘ان کے سوالات اور آبزرویشن میڈیا پر ٹھاہ ٹھاہ کی آواز کے ساتھ سنائے جاتے ہیں تو وہ خود بھی سن کر ششدر رہ جاتے ہیں۔

عمران خان میڈیا پر آکر مقدمہ لڑنے پر اس لیے مجبور ہوگئے ہیں کہ جب جوڈیشل کمیشن بنا تھا تو ان کے خلاف حکومتی پلیٹ فارم استعمال ہوا تھا‘ اب وہ عدالت میں بھی یہ دلیل پیش کررہے ہیں کہ اسرائیلی وزیراعظم سے تو وہاں کی پولیس نے براہ راست پوچھ گچھ کی ہے، توپھر نوازشریف سے کیوں نہیں؟ وہ خم ٹھونک کر کہہ رہے ہیں کہ وہ تو الزام لگائیں گے‘ اپوزیشن نے تو الزام لگانے ہی ہوتے ہیں، انکوائری کرنے کے لیے ادارے موجود ہیں‘ عمران خان کے سیاسی مرشد شیخ رشید توعدالت سے یہ اصرار کر رہے ہیں کہ پاناماکیس پر 20کروڑ عوام کی نظریں لگی ہیں، اس کو کورٹ روم سے براہِ راست میڈیا کے ذریعے نشر ہونا چاہیے۔

خیر وہ توجو ہوگا، سو ہوگا لیکن اب یہ عدالت کی صوابدید ہے کہ وہ کیس بند کمرے میں چلاتی ہے یا براہِ راست نشر کرنے پر آمادہ ہوتی ہے‘پاناماکیس کے نئے بنچ نے اپنی پہلی ہی سماعت میں کئی سوالات بھی اُٹھا دیے ہیں‘ کچھ سوالات کے جواب شریف خاندان کو اور کچھ کے جواب تحریکِ انصاف کو دینا ہونگے‘ اہم بات یہ ہے کہ عدالت اب روزانہ کی بنیاد پرسماعت کریگی‘ عدالت نے فریقین کے سامنے چیلنج رکھا ہے۔

شریف خاندان کے سامنے چیلنج یہ ثابت کرنا ہے کہ 2006ء سے پہلے فلیٹس ان کے نہیں تھے‘ دوسری طرف تحریکِ انصاف پر یہ ثابت کرنے کی ذمے داری ہے کہ 2006ء سے پہلے یہ سب کچھ شریف خاندان کی ملکیت میں تھا‘ پی ٹی آئی اگریہ ثابت کردیتی ہے کہ لندن فلیٹس شریف خاندان کی ملکیت میں 2005ء سے پہلے کے تھے تو قطری خط بھی مشکوک ہوجائے گا اور شریف خاندان کے تمام دعوے بھی غلط ثابت ہوجائینگے‘ اسی بوکھلاہٹ میںنون لیگ کی قیادت تین دفعہ اپنے وکلاء تبدیل کرچکی ہے‘ وکیل بار بار تبدیل کرنے سے معاملہ ان سے حل نہیں ہوپارہا کیونکہ کوئی بھی وکیل گلف اسٹیل کی 12ملین ڈالر کی رقم ثابت کرنے سے گھبراتا ہے۔

گلف اسٹیل جب بیچی گئی تو 26ملین درہم کے نقصان میں تھی‘ تحریکِ انصاف نے جو دستاویزات دی ہیں ان کے مطابق لندن فلیٹس کی ملکیت نیلسن اور نیسکول کے پاس ہے اور ان دونوں کمپنیوں کی مالک منروا سروسز ہے جو مریم نوازشریف کے زیرِدستخطی ہے‘ ان دستاویزات میں 2004، 2005 کی دستاویزات ثابت کرتی ہیں کہ مریم نواز اس کی بینیفیشل اونر ہیں،مگر اسے غلط ثابت کرنا وکیلوں کے بس کی بات نظر نہیں آتی‘ نوازشریف اور ان کے اہلِ خانہ کو وکلاء کی ٹیم تبدیل کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔

سپریم کورٹ کا بینچ تبدیل ہوچکا ہے‘ نئے شواہد آگئے ہیں، اس کے مطابق وہ اپنی ٹیم بھی تبدیل کرسکتے ہیں‘ نیا بینچ اپنے طور طریقے متعین کریگا‘ وہ یہ بھی دیکھے گا کہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس کے اختیارات کیا ہیں؟ وہ تمام شواہد کو بھی دیکھے گا‘ پہلا سوال تو یہ ہوگا کہ عدالت کرنا کیا چاہتی ہے؟ بینچ میں شامل تمام جج صاحبان معتبر ہیں، انھیں یقینا اس بات کا احساس ہوگا کہ کیا کارروائی کرنی ہے؟ کیا سپریم کورٹ کا بینچ آخری فیصلہ کردیگا؟ اگر ایسا ہوا تو ملزم اس کے خلاف اپیل کہاں کریگا؟ بینچ کو یہ تمام باتیں مدنظر رکھنا ہونگی کہ وہ کیا کررہا ہے‘ پہلے عدالت نے یہ تعین کرنا ہے کہ وہ کرنے کیا جارہی ہے اور اس کا طریقہ کار کیا ہوگا۔

پاناما بنچ کے فاضل جج صاحبان کے مطابق یہ عدلیہ کی تاریخ کا اہم ترین کیس ہوگا، شاید اسی لیے فاضل جج اسے عجلت میں نہیں سننا چاہتے مگر پی ٹی آئی اسے ہفتوں میں نمٹانا چاہتی ہے‘ عمران خان کے دستِ راست زلفی بخاری نے مکمل پاناما فائل حاصل کرلینے کا بھی دعویٰ کردیا ہے‘ اس فائل کے چند صفحات بطور ثبوت سپریم کورٹ میں پیش کردیے گئے ہیں‘ اس سے مبینہ طور پر ثابت ہوتا ہے کہ مریم نوازشریف کی حیثیت آف شور کمپنیوں (نیسکول اور نیلسن) سے فائدہ اٹھانے والے اونر کی ہے‘ دو فرانزک اکاؤنٹنسی اینڈ سرچ فرمز ’’ایریک‘‘ اور ’’کرول‘‘ کی خدمات گزشتہ 2ماہ میں زلفی اور ترین نے حاصل کی تھیں‘ ان فرمز نے اس معاملے میں ترین اور زلفی سے تقریباً 45ہزار مختلف دستاویزات شیئر کیں‘ فرمزکو ہزاروں پاؤنڈز کی ادائیگی کی گئی مگر حتمی فریم کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔

پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیرترین نے دسمبر 2016ء کے اختتام پر انگلینڈ میں ایک ہفتہ گزارا اور زلفی بخاری کے ہمراہ برٹش ورجن آئی لینڈ میں اپنے ایک ذریعہ سے فائل حاصل کرنے کے لیے مشترکہ طور پر کام کیا‘ یہ سمجھا جاتا ہے کہ زلفی بخاری اپنے تعلقات کے ذریعے پی وی آئی اور نیوجرسی آئی لینڈ سے ایسی فائلیں حاصل کرنے کی کوشش کررہے تھے جوکہ شریف فیملی کے ارکان کے لیے قانونی مشکلات کا سبب بن سکتی ہیں‘ زلفی بخاری خود بھی آف شور بزنس کے بارے میں بڑی تفصیلات سے آگاہ ہیں‘ قبل ازیں دستاویزات کو پرکھنے کے لیے پروفیشنل ایڈوائس نے پارٹی کی کافی مدد کی ہے اور عمران خان ای میلز کا تبادلہ دیکھ کر بہت خوش ہیں۔

انھوں نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ شواہد پختہ ہیں مگرنون لیگ اسے غیرتصدیق شدہ سمجھتی ہے اور فوٹو کاپیاں قانون کی عدالت میں ثبوت کے طور پر زیرغور نہیں لائی جاسکتیں‘ آنیوالے دنوں میں چند صفحات کوئی تبدیلی لائینگے یا نہیں، تاہم پی ٹی آئی رہنماؤں کو یہ پیپرز حاصل کرنے کے بعد بہت خوش دیکھا گیا ہے۔

عمران خان کے ثبوتوں پر فیصلہ عدالت ہی کرسکتی ہے کہ یہ ثبوت قابلِ قبول ہیں یا نہیں ہیں، اگر عدالت پی ٹی آئی کے ثبوت قبول کرلیتی ہے تو دو دن میں فیصلہ کردیگی‘ جو اپنی بات کے حق میں ثبوت دیدے فیصلہ اسی کے حق میں ہوجائیگا‘ معزز جج صاحبان کسی بھی طرح اصلیت کو سامنے لانا چاہتے ہیں‘ ابھی واضح نہیں کہ پاناما کیس سپریم کورٹ کے بنچ کے ذریعے ہی چلانا ہے تو طریقہ کار کیا ہوگا‘ حسبِ معمول سپریم کورٹ کا بنچ کارروائی کریگا تو اپیل کورٹ کے نارمل قوانین اپلائی ہونگے کہ جس نے الزام لگایا وہی ثابت کریگا‘ اگر کمیشن بنتا ہے تو عدالت کمیشن کے لیے بنائے گئے قوانین کے تحت ہی آگے چلے گی۔

پی ٹی آئی سپریم کورٹ کے سامنے شرائط پیش نہیں کرسکتی‘ عمران خان ججوں سے وہ فیصلہ طلب کررہے ہیں جو وہ چاہتے ہیں، بدیں وجہ کچھ لوگ یہ تنقید کررہے ہیں کہ عمران خان انصاف نہیں وزیراعظم نوازشریف کی چھٹی کروانا چاہتے ہیں‘ سپریم کورٹ نے عمران خان کے کمیشن نہ ماننے پر کوئی ایکشن نہیں لیا، جسکا مطلب ہے، عمران خان کی طرف سے پاپولر دباؤ بہت زیادہ ہے۔

سپریم کورٹ میں پانامالیکس کیس کے دوبارہ آغازکے بعد پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون کے مابین لفظوں کی جنگ زور شور سے شروع ہوگئی ہے‘ ہماری سابقہ سیاسی روایات کے مطابق بالعموم سیاستدان عدالتوں میں زیرسماعت مقدمات پر کسی قسم کے تبصروں سے گریز کرتے تھے مگر اب جو سیاسی کلچر پروان چڑھ رہا ہے اس کے مطابق صبح کے وقت عدالتی کارروائی ہوتی ہے جس میں فاضل ججوں کے سامنے وکلاء پیش ہوتے ہیں جب کہ شام کو ہرٹی وی چینل پر میڈیا کی عدالتیں سج جاتی ہیں جہاں مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندے ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی ہی نہیں، دشنام طرازی بھی کرتے سنائی دیتے ہیں‘ اگلے روز ان ہی ٹاک شوز کی چیختی چنگھاڑتی سرخیوں کے ساتھ اخبارات میں خبریں لگائی جاتی ہیں اور سوشل میڈیا پر تبصروں اور کارٹونوں کی صورت میں ایک ہنگامہ سامنے آتا ہے۔

اس ساری میڈیا کارروائی کے نتیجے میں سیاسی فضا مسموم ہورہی ہے‘ سیاستدانوں اور ان کے پیروکاروں کو اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ اعلیٰ عدالتوں کے واجب الاحترام ججوں پر اس طرح کی سیاسی کارروائیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ ان کی اول وآخر کمٹمنٹ عدل وانصاف کے اعلیٰ ترین معیار کے ساتھ ہوتی ہے‘ ججز اور عدلیہ کے خلاف زہر اُگلا جارہا ہے‘ میڈیا پربے سروپا بیان بازی سے کم ازکم فریقین کو ضرور گریز کرنا چاہیے جو نہیں کیا جارہا‘ شاید یہی وجہ ہے کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے عدالتِ عظمیٰ کے احاطے کی حد تک وہاں ہرطرح کی پریس کانفرنس پر پابندی عائد کردی ہے‘ تازہ ترین عدالتی صورتحال کی روشنی میں عدالتِ عظمیٰ نے پاناماکیس کی روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، نیز میڈیا پر بیان بازی کی بھی حوصلہ شکنی کی ہے۔

ضرورت اس اَمر کی ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کو مکمل سکون واطمینان کے ساتھ اپنی کارروائی مکمل کرنے دی جائے اورابلاغی عدالتوں میں تندوتلخ تبصروں اور الزام تراشیوں سے اجتناب کیا جائے۔ پاناما کی لڑائی عدالت کے بجائے میڈیا میں لڑنے پرعدالت کو مکمل پابندی عائد کرنی چاہیے‘ پاناماکیس عدالت میں ہے، اس پر دونوں فریقین ہرپیشی سے پہلے اور پیشی کے بعد پریس کانفرنسیں کیوں کرتے ہیں؟عمران خان عدالت میں آجکل مسلسل تسبیح گھماتے نظر آتے ہیں‘ اس دوران ان کی آنکھوں میں ایک روحانی چمک بھی عودآتی ہے جس میں یہ واضح پیغام ہوتاہے کہ پاناماکیس کی وجہ سے 2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نون کو مسائل کا سامنا ہوگا‘ وزیراعظم نوازشریف اور مریم نواز دونوں کے لیے مشکلات بڑھیں گی۔

نوازشریف کے لیے اس لیے مشکل ہوگی کہ وہ مریم نواز کو اپنے سیاسی وارث کے طور پر دیکھ رہے ہیں جن کا مستقبل روشن نظر نہیں آرہا‘ پاناماکیس کا فیصلہ جو بھی ہو یہ داغ اتنی آسانی سے نہیں دُھلے گا‘ اگر پی ٹی آئی کے نئے ثبوت بے معنی ہوتے تو نون لیگ والوں کی چیخیں نہیں سنائی دے رہی ہوتیں‘ ان کی چیخیں گواہ ہیں کہ ان کی دم پر پاؤں پورا پورا آگیا ہے‘ اگر باپ مصیبت میں ہو تو بیٹی اذیت میں ہوگی اور اگر بیٹی مصیبت میں ہوتو باپ اذیت میں ہوگا‘ حالات نے فیصلہ سنا دیا ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک مشکل میں ضرور ہوگا۔

سپریم کورٹ توشواہد کو دیکھ کر ہی فیصلہ کریگی مگر عوامی نظر میں وزیراعظم اپنی ساکھ کھو چکے ہیں‘ اگر وزیراعظم کو مشکل درپیش ہوئی تو مریم نواز کو بھی مشکل ہوگی‘ اسی طرح مریم نواز کو مشکل پیش آئی تو نوازشریف بھی مشکل میں ہونگے‘ پاناما کیس کا فیصلہ حق میں آئے یا خلاف آئے، دونوں ہی صورتوں میں نوازشریف کا ذاتی اور سیاسی نقصان ہے‘ پاناما کیس مریم یا حسین نواز کا نہیں صرف نوازشریف کا کیس ہے‘ پاناماکیس میں شریف خاندان کے خلاف فیصلہ ان کی فیملی کے سیاسی کیریئر کے خاتمے کا اعلان ہوگا۔ نوازشریف یا مریم نواز دونوں میں سے فیصلہ کسی کے خلاف بھی آئے، اس کا اثر پورے شریف خاندان پر پڑیگا۔

اب سچ کوعوام کے سامنے آنے سے کوئی نہیں روک پائے گا‘ اس قوم کی خوش قسمتی ہے کہ کرپٹ حکمرانوں کو شرمندہ کرنے کے لیے اللہ پاک نے ثبوت بیرون ملک سے پاکستان بھجوا دیے ہیں‘ 200ارب ڈالر کی رقم پاکستان سے بیرون ملک منتقل ہوئی ہے جس کو حکومت تسلیم بھی کرتی ہے‘ چار سو کیسز ایسے ہیں جن میں عوام کا پیسہ غیرقانونی طور پر ملک سے باہر منتقل ہوا ہے‘ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ایک دوسرے کے خلاف ریفرنس دائر کرتے ہیں مگر ان میں سے ابھی تک کسی کو سزا نہیں ہوئی، جسکا مطلب یہ ہے کہ ملک میں پارلیمانی نظام کاملاًو مطلقاًناکام ہوچکا ہے‘ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کے پارلیمانی نظام کے ساتھ ساتھ عدالتی نظام بھی ڈھے چکا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔

پاکستان کی عدلیہ کبھی بھی شاندار عدالتی روایات کی حامل نہیں رہی، اس کے فیصلے تاریخ کے صفحات پر آج بھی آہ وبکا کرتے نظر آتے ہیں‘ ہمارے فاضل ججوں نے جو غیر آئینی روایات قائم کی ہیں ان کا تذکرہ بھی اکثر وبیشتر زبان زدِعام رہتا ہے‘ سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس عوام کی آخری اُمید بن کر عدالتی اُفق پر نمودار ہوئے ہیں‘ بشمول ہمارے ہرخاص وعام کے دل میں رِجاء کی کرن بیدار ہوئی ہے، ساتھ ہی یہ اُمید بھی لگی ہے کہ شاید اب عدلیہ ہی اس ملکِ خداداد کی طاغوتی طاقتوں کو لگام دے اور عشروں سے اذیت میں مبتلا پاکستانی قوم کوسیاسی مافیا سے نجات دلائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کے اس نیک سفر کا پہلا قدم پانامالیکس کی شکل میں ناپا جاچکا ہے جسکے فیصلے کا پاکستان بھر کے عوام کو بے صبری سے انتظار ہے۔

اب ایک دستی خط پیش ہے جو حسن ناصر نے اپنی فریاد متعلقہ حکام تک پہنچانے کے لیے ہمیں بھیجا ہے: جناب رحمت علی رازی صاحب! السلام علیکم! میری آپ سے کچھ عرصہ پہلے عابد حسن منٹو صاحب کے ریفرنس سے ملاقات ہوئی تھی‘ میرے والد صاحب غلام دستگیر ساڑھے 4سال سے پولیس کے جھوٹے کیس میں جیل میں ہیں اور ابھی تک کچھ فیصلہ نہیں ہوا‘ آپ نے کہا تھا کہ تفصیلات بھیجیں۔

تفصیلات کچھ یوں ہیں: 16مئی 2012 کو دوپہر کے وقت ڈیرہ سہگل فارم کے مکین مزارعوں پر اعلیٰ افسران کی قیادت میںپولیس کی بھاری تعدادنے حملہ کیا‘ مردوں، عورتوں اور بچوں پر بدترین تشدد، چار افراد کو گرفتار کرکے ان پر ڈکیتی کا جھوٹا مقدمہ درج کردیا ‘ مقدمہ کا ٹرائل سول کورٹ میں مکمل ہوا تو چار افراد کی بریت نے پولیس کے مبینہ جھوٹ کا پردہ فاش کردیا‘ اس حملے کا مقصد زمین کا قبضہ غیرقانونی طور پر حکومتی مشینری کی مدد سے جبراً حاصل کرنا تھا جو مزارعین چالیس سال سے زائد عرصہ سے کاشت کرتے چلے آرہے ہیں‘ ان موروثی مزارعین کو قانونی یا عدالتی طور پر بے دخل کرنے میں ناکامی کے بعد قبضہ گروپ/لینڈ مافیا کے پسندیدہ اعلیٰ افسران کی تعیناتی اور غیرقانونی طور پر قبضہ حاصل کرنے کی کوشش کی خاطر یہ ایکشن پلان کیا گیا‘ اسی طرح کی کوششیں پہلے بھی کی جاچکی تھیں۔

قبل ازیں بھی یکم مئی 2011 کو اسی بستی پر پولیس سحری کے وقت حملہ آور ہوئی تھی‘ مردوں، عورتوں اور بچوں پر بدترین تشدد کے بعد آٹھ افراد کو گرفتار کرکے لے گئے، جس پر مزارعین نے پولیس کے مظالم اور گرفتاریوں کے خلاف مظاہرہ کیا‘ یہ پہلا موقع تھا جب پولیس کے کہنے پر غلام دستگیر محبوب نے مصالحت کا کردار ادا کیا اور معاملہ گرفتار افراد کی رہائی اور احتجاج ختم کیے جانے پر منتج ہوا‘ اس ناکامی کے بعد قبضہ گروپ نے ڈی پی او سمیت دیگر پسندیدہ عملہ کو اپنے اثرورسوخ سے تعینات کروایا تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل کیے جااس کیں‘ اس طرح اس ایکشن ڈرامہ کا اسکرپٹ تیار ہوا اور یہ سب لوگ لینڈمافیا کی ہدایت اور وسائل کی مدد سے 16مئی 2012 کا ایکشن کرنے کے لیے تیار ہوئے‘ اس غیرقانونی اور غیراخلاقی اقدام پر مزارعین نے علاقہ کی کسان اور مزدور تنظیموں کے ہمراہ احتجاج کیا اور غیرقانونی طور پر گرفتار افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا۔

احتجاج کے باعث جی ٹی روڈ پر سڑک بلاک ہوگئی‘ حسبِ سابق غلام دستگیر کی مصالحت کار کے طور پر موجودگی میں مظاہرین کی ٹیم اور ڈی ایس پی   کی قیادت میںپولیس پارٹی کے ساتھ مذاکرات ہوئے جو نتیجہ خیز ہونے سے پہلے ہی پولیس نے اعلیٰ افسر کی کال پر بے تحاشہ لاٹھی چارج، فائرنگ اور آنسوگیس کا استعمال شروع کردیا‘ اسی دوران ایکشن پلان کے مطابق لینڈ مافیا کے کرائے کے غنڈوں نے پتھراؤ شروع کردیا‘ جس کا جواب مظاہرین نے سڑک کنارے پڑے پتھروں سے دیا‘ پتھراؤ کی وجہ سے کئی پولیس والے اور مزارعین زخمی ہوگئے جن میں اے ایس آئی جان محمد بھی شامل تھا جو پتھر لگنے سے شدید زخمی ہوگیا اور تیرہ روز بعد جان کی بازی ہار گیا۔

بلاک ٹریفک کے اندر ہی کوٹ موکھل ڈسکہ کا تین بھائیوں سمیت ایک خاندان تھا جو لاہور سے مال مویشی کا کاروبار کرنے کے بعد واپس جارہے تھے، ان میں سے ایک بھائی محمدعارف ولد غلام رسول رفع حاجت کے لیے ٹرک سے اترا اور ٹرک کی طرف واپس آتے ہوئے پولیس کے ہتھے چڑھ گیا‘ مظاہرین اور اپنے بھائیوں کے دیکھتے دیکھتے پولیس کے تشدد اور ان کی گولی کا شکار ہوگیا‘ جیساکہ منقولہ (عارف ولد غلام رسول) کے بھائیوں کے 164کے بیانات میں بتایا گیا ہے جو وقوعہ کے چند روز بعد عدالت میں ریکارڈ کیے گئے۔

ظالم پولیس نے اپنے ہاتھوں قتل کیے گئے مقتول عارف کے قتل کا الزام 72سالہ (موجودہ عمر 76سال) غلام دستگیر محبوب پر لگادیا جو عوامی ورکرز پارٹی کے مقامی رہنما ہونے کی وجہ سے موقع پر موجود تھا‘مقتول عارف کے بھائیوں (جن کی موجودگی میں پولیس نے فائر کرکے ان کے بھائی کو قتل کیا) نے 12ماہ سے زائد اپنے بھائی کے قتل کی ایف آئی آر پولیس کے خلاف کرانے کی جدوجہد کی اور پھر ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق استغاثہ دائر کردیا جس میں عرصہ ہوا تین پولیس افسروں (ڈی ایس پی شاہد نیاز گجر، ایس ایچ او شوکت علی اور ایک اے ایس آئی) پر فردِجرم عائد ہوچکی ہے۔

ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں دوسرا استغاثہ مظلوم مزارعین کی جانب سے دائر کیا گیا جس میں پولیس افسران اور لینڈمافیا کے سرغنہ سمیت 7ملزمان ڈی پی او ڈاکٹر حیدر اشرف ، مہرمحمدشفیع، ڈی ایس پی شاہد نیاز گجر، ایس ایچ او شوکت علی، سہگل برادران وغیرہ) کو سمن ہوئے مگر اس استغاثہ کے مدعی وارث رضا سے روایتی دباؤ، دھونس دھمکیوں اور جھوٹے وعدوں کی مدد سے استغاثہ واپس کروا کے عدالت کی چاردیواری میں انگوٹھے لگوا لیے گئے‘ اس میں مقامی ایم پی اے کے والد کی مدد حاصل کی گئی جو مسئلہ حل کروانے کا وعدہ کرکے بعد میں بھول گئے۔

اے ٹی سی میں دائر کیا گیا استغاثہ اور کیس آج بھی بغیر کسی نتیجے کے چل رہے ہیں اور غلام دستگیر 4سال سے زائد عرصہ سے جیل کی چاردیواری میں قید ناکردہ گناہ کی سزا بھگت رہا ہے‘ عدالت میں لینڈ مافیا اپنے اثرورسوخ سے تاخیری حربے استعمال کررہی ہے تاکہ مقدمہ منطقی انجام تک پہنچنے سے پہلے ہی 76سالہ غلام دستگیر ٹوٹ کر پولیس اور لینڈ مافیا کے سامنے دوزانو ہوجائے‘ ان چار سال اور سات ماہ میں مختلف ذرائع سے انصاف کے حصول میں مدد کے لیے کی گئی کوششیں بارآور ثابت نہ ہوسکیں جن میں مقتول کے بھائیوں کی طرف سے دائر استغاثہ، پنجاب حکومت کی کھلی کچہریوں میں فریاد، ایچ آرسی پی کی طرف سے شائع کردہ پولیس ناانصافی کی رپورٹ، انگلینڈ میں موجود پاکستانی وکلاء کی تنظیم کی طرف سے چیف جسٹس سپریم کورٹ، پاکستانی حکومت کے اربابِ اختیار کو لکھا گیا خط، پنجاب اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد اور مختلف اخبارات کی خبریں اور کالم شامل ہیں مگر لینڈمافیا اور پولیس کے گٹھ جوڑ کی مدد سے معاملہ گمبھیر ہوتا جارہا ہے۔

ہمارا قانون کے رکھوالوں اور انصاف کے محلّفوں سے سوال ہے کہ محکمہ پولیس جب ازخود غیرقانونی کام کرے، قبضے دلوائے، دہشت گردوں کی حمایت اور دہشت گردی کی نرسریاں تعمیر کرنے میں مددگار ہو تو لاقانونیت اور دہشت گردی اس ملک سے کیسے ختم ہوگی؟ ملک کی سپریم عدالت بھی یہی کہہ رہی ہے۔

The post عدالت ِعظمیٰ ہی قوم کو پاناما کے عذاب سے نجات دلاسکتی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

کسی متوقع الیکشن کے بارے میں

$
0
0

ایک شاعر نے تھوڑی بہت بارش کو ’کم کم باد و باراں‘ کہہ کر ایک نیا رنگ دے دیا ہے۔ اس وقت جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو لاہور میں بھی کم کم باد وباراں کی کیفیت ہے۔ آسمان پر بادل گھرے ہیں کالے رنگ کے جنھیں دیکھ کر ہم وادیٔ سون کے بارانی علاقے کے لوگ بہت خوش ہوتے ہیں اور ان کی یہ امید بڑی پختہ ہو جاتی ہے کہ بارش کے قطرے جو ان بادلوں میں کہیں اٹکے ہوئے ہیں، جلد ہی بادلوں سے جان چھڑا کر آزاد ہو جائیں گے اور نیچے زمین پر گرنے لگیں گے جہاں ان کو خوش آمدید کہا جائے گا۔

نیچے زمین پر آباد انسان بھی ان کا خیرمقدم کریں گے اور خشک پیاسی زمینیں بھی۔ بارش کے یہ قطرے خواہ وہ کتنے ہی مہین کیوں نہ ہوں انسانوں اور ان کی زمینوں کے لیے آب حیات کا درجہ رکھتے ہیں اور انسان ہی کیا جانور بھی بارش میں بے ساختہ رقص کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ آسمان پر بادل گھرے ہیں اور ان میں سے پانی کے قطرے زمین پر گر رہے ہیں تو زمین پر موجود جانور سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اور ان قطروں کو اپنے جسموں پر محسوس کر کے خوش ہوتے ہیں۔

کیا معلوم کہ یہ بارش ان بے زبان حیوانوں کی دعاؤں کا نتیجہ ہو جو بول تو نہیں سکتے یا ہم انسان ان کی زبان نہیں سمجھ سکتے، کچھ بھی ہو یہ بارش ان بے زبانوں کی خاموش دعاؤں کا نتیجہ محسوس ہوتی ہے۔ میں نے بارش میں ان حیوانوں کو ادھر ادھر بھاگتے دوڑتے دیکھا ہے اور ان کے خوشی منانے کے اس انداز میں ہم انسان بھی اپنا اپنا حصہ ادا کرتے ہیں۔ اگر آپ دیہاتی زندگی کے رومانس کو اپنا رومانس سمجھتے ہیں تو آپ اس نعمت سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں جو قدرت کا ایک عطیہ ہوتی ہے اور یہ انسانوں کے ساتھی جانوروں میں بھی زندہ محسوس ہوتی ہے۔ افسوس کہ ہم ان کی زبان نہیں سمجھتے لیکن کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ جانور ہماری زبان سمجھتے ہیں۔

میں نے ایک بھرے ہوئے بکریوں کے ریوڑ میں دیکھا ہے کہ چرواہے کی آواز پر کوئی بکری ریوڑ سے الگ ہو کر اپنے چرواہے کی آواز کو سمجھنا چاہتی ہے کہ وہ اس سے کیا کہہ رہا ہے اور کیا چاہتا ہے۔ آپ کبھی ریوڑ کو پہاڑ یا کسی دوسری سرسبز جگہ پر چرتا دیکھیں اور چرواہا کسی بکری کو آواز دے تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ بکری جو اپنے رنگ وغیرہ کی وجہ سے اپنے نام کو جانتی ہے اور چرواہے کے دیے ہوئے اس نام کو اپنے وجود کے ساتھ رکھتی ہے۔ قدرت کی طرف سے اتنی ذہانت بھی رکھتی ہے کہ اپنا نام پہچان لے اور اپنے چرواہے کا نام بھی۔ یہ سب عجائبات قدرت ہیں۔ موقع ملے تو ان کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ جائیں۔

ہم شہروں کے شور میں زندہ رہنے والے قدرت کی اس نعمت سے محروم رہتے ہیں۔ ہم کسی جانور کا گوشت تو بڑے شوق سے کھاتے ہیں لیکن اس زندہ جانور کی قدر نہیں کرتے۔ اس کے جذبات کو نہیں پہچانتے۔ وہ محض ایک ایسا جانور ہوتا ہے جسے انسان اپنی ضرورت کے تحت زندہ رکھتا ہے اور ضرورت پڑنے پر ایک لمحہ ضایع کیے بغیر اس کی جان لے لیتا ہے۔ مجھے یہ صورت حال دیکھ کر سیاست دان یاد آتے ہیں جو اپنے اپنے ریوڑ یعنی ووٹروں کو اپنی انتخابی ضرورت کے تحت ایک لمحہ ضایع کیے بغیر ان کو قربان کر دیتے ہیں۔

ان ووٹروں کی انھیں کوئی پروا نہیں ہوتی کہ وہ زندہ ہیں تو کس حال میں اور ان کی زندگی کن مصائب سے گزر رہی ہے۔ اگر وہ ووٹ کے دن زندہ ہیں اور پولنگ اسٹیشن پر پہنچ سکتے ہیں تو ان کی ستے خیراں۔ اگر وہ ووٹ کاسٹ نہیں کر سکتے، کسی بیماری یا کسی مصروفیت کی وجہ سے تو پھر وہ زندہ رہیں یا نہ رہیں ان کا وجود بے کار ہے۔ اگر انگوٹھا لگایا جا سکتا ہے اور ڈبے میں پرچی ڈالی جا سکتی ہے تو پھر سب ٹھیک ہے ورنہ ووٹر زندہ رہے یا نہ رہے کسی امیدوار کو اس سے کیا غرض۔

ہمارے ہاں ایک سیاست دان سے زیادہ خودغرض طبقہ اور کوئی نہیں جس کی خودغرضی اس کی پوری سیاست پر چھائی رہتی ہے۔ وہ کسی نہ کسی حیلے سے آپ کا ووٹ لے لیتا ہے اور پھر وہ اس ووٹ کی برکت سے کسی اسمبلی میں داخل ہو جاتا ہے اور اس اسمبلی میں وہ پہلے اپنے اور پھر مفید انتخابی حامیوں کی خدمت میں مصروف ہو جاتا ہے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ آنے والے الیکشن کے لیے اتنا مال جمع کر لیا جائے کہ اس الیکشن میں مایوسی نہ ہو کیونکہ الیکشن اب کسی اصول کے تحت نہیں، کسی حصول کے لیے لڑے جاتے ہیں۔

شاید ہی کوئی ایسی جماعت موجود ہو جو کسی اصول، نظریے اور مقصد کے تحت الیکشن لڑتی ہو کہ کامیابی کے بعد وہ قومی خدمت کا یہ اور وہ کام کرے گی اور اپنے ووٹروں کے اجتماعی مفاد کے لیے قربانی دے گی۔ عملاً ایسا نہیں ہوتا اور ووٹروں کے اجتماعی مفاد کو سامنے نہیں رکھا جاتا۔ ایسے نظریاتی امیدوار شاذ ونادر ہی دیکھے ہیں جو اپنی ہار جیت کی پروا کیے بغیر کسی اصول کے تحت کام کرتے رہیں۔

الیکشن اور ووٹنگ کا سلسلہ عوام کے کسی سچے ہمدرد نے ایجاد کیا تھا۔ حکومت بنانے یا اچھی حکومت قائم کرنے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا۔ خوش نصیب ہیں وہ ووٹر جن کے امیدوار ان کی اجتماعی فلاح کے لیے صحیح الیکشن لڑتے ہیں اور اس کا پھل پاتے ہیں۔ اس لیے لازم ہے کہ الیکشن میں ووٹر یہ دیکھیں کہ ان کا امیدوار کس قماش کا ہے اور وہ عوام کے لیے کس حد تک قربانی دے سکتا ہے کیونکہ الیکشن تو کبھی بھی آ سکتا ہے۔

The post کسی متوقع الیکشن کے بارے میں appeared first on ایکسپریس اردو.

اسٹاک ایکسچینج

$
0
0

میں نے ایک دن جنید جمشید سے پوچھا ’’مولوی صاحب آپ نے گانا کیوں چھوڑدیا تھا‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور دیر تک ہنستا رہا‘ میں خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا‘ اس نے عینک اتاری‘ ٹشو سے آنکھیں صاف کیں اور ہنستے ہنستے جواب دیا ’’یار تم نے مجھے جس انداز سے مولوی صاحب کہا‘ میں وہ انجوائے کر رہا ہوں‘ تم مجھے یہ انجوائے کرنے دو‘‘ وہ اس کے بعد دوبارہ ہنس پڑا‘ وہ ہنستے ہنستے خاموش ہوا اور پھر بولا ’’یار گانے نے مجھے شہرت دی‘ عزت دی اور پیسہ دیا‘ اگر کچھ نہیں دیا تو وہ سکون تھا‘ سکون مجھے مولوی صاحب بن کر ملا اور یہ جب مجھے مل گیا تو مجھے پتہ چلا سکون دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہوتا ہے۔

پیسہ‘ عزت اور شہرت تینوں مل کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے‘‘ وہ اس کے بعد دوبارہ ہنسا اور بولا ’’میں ویمبلے میں شو کرنا چاہتا تھا‘ میری خواہش تھی‘ میرا خیمہ درمیان میں ہو اور دوسرے گلوکاروں‘ موسیقاروں اور اداکاروں کے خیمے دائیں بائیں ہوں‘ میں 1992ء میں ویمبلے گیا‘ امیتابھ بچن کا خیمہ درمیان میں تھا‘ لوگ اس کے ہاتھ چوم رہے تھے‘وہ اس پر واری واری جا رہے تھے‘ وہ اس کے ساتھ تصویریں بنوانے کے لیے ایک دوسرے کو روند رہے تھے‘ میں نے یہ عزت دیکھی تو میرے دل میں خیال آیا‘ کیا میں بھی کبھی اس مقام تک پہنچ سکتا ہوں‘ کیا مجھے بھی یہ عزت‘ لوگوں کا یہ والہانہ پن مل سکتا ہے‘ وہ شاید قبولیت کی گھڑی تھی۔

اللہ نے میری دعا سن لی اور وہ وقت آ گیا جب میرا خیمہ ٹھیک اس جگہ تھا جہاں کبھی امیتابھ بچن نے راتیں گزاریں تھیں‘ نوجوان لڑکیاں اور لڑکے اس دن میرے ساتھ تصویریں بنوانے کے لیے بھی ایک دوسرے پر گر رہے تھے‘ مجھے بہت خوشی ہوئی‘ میں اندر سے نہال ہو گیا‘ میں کئی دن اس سرشاری میں رہا لیکن پھر‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘ وہ دیر تک کچھ سوچتا رہا‘ پھر اس نے سر اٹھایا‘ میری طرف دیکھا اور بولا ’’لیکن پھر ایک نئے احساس نے اس سرشاری کی جگہ لے لی۔

مجھے محسوس ہوا میری کامیابی نے مجھے عزت تو دے دی لیکن میں سکون سے محروم ہوں‘ مجھے یہ بھی محسوس ہوا سکون عزت سے بڑی چیز ہے اور مجھے اس بڑی چیز کی طرف جانا چاہیے‘‘ میں خاموشی سے سنتا رہا‘ وہ بولا ’’میں اس کے بعد بھی گاتا رہا‘ لوگ میرا گانے سنتے تھے‘ جھومتے تھے اور مجھے چومتے تھے‘ دل دل پاکستان اور سانولی سلونی سی محبوبہ میری پہچان بن گیا‘ میں جہاں جاتا تھا لوگ مجھ سے فرمائش کرتے تھے‘ جے جے سانولی سلونی ہو جائے اور میں ذرا سا گنگنا کر آگے نکل جاتا تھا لیکن میں اب عزت کے ساتھ ساتھ سکون بھی تلاش کر رہا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور مجھے یہ نعمت بھی مل گئی‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔

میں نے اس سے پوچھا ’’تم تبلیغی جماعت اور مولانا طارق جمیل کے قابو کیسے آ گئے‘‘ اس نے ایک قہقہہ لگایا اور بولا ’’پاکستان کا ہر شہری زندگی میں کبھی نہ کبھی ڈاکٹر‘ پولیس اور تبلیغی جماعت کے قابو ضرور آتا ہے‘ زیادہ تر لوگ ان کے ساتھ چند دن گزار کر واپس آ جاتے ہیں لیکن تھوڑی سی تعداد دائمی مریض‘ عادی مجرم اور مولوی صاحب بن کر مستقلاً ان کا حصہ بن جاتے ہیں۔

میں بھی ایک دوست کے ذریعے مولانا طارق جمیل سے ملا اور پھنس گیا‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کیسے پھنس گئے‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ’’مجھے اس شخص نے اتنی محبت دی جو مجھے اس سے پہلے کسی سے نہیں ملی تھی‘ یہ محبت میرے لیے نشہ ثابت ہوئی اور میں اس نشے کی لت کا شکار ہوتا چلا گیا‘ میں نے دین کا مطالعہ شروع کر دیا‘ میں شغل شغل میں چلے لگانے لگا اور مجھے جب ہوش آئی تو میں اس وقت تک اچھا خاصا مولوی صاحب بن چکا تھا‘‘ میں نے اس سے پوچھا ’’آپ اچھے خاصے سمجھ دار انسان ہیں‘ آپ درمیان میں بھاگ کیوں نہیں گئے؟‘‘۔

اس نے ایک اور قہقہہ لگایا اور بولا ’’میں نے بھاگنے کی ایک آدھ ٹرائی کی تھی‘ میں نے گانا چھوڑ دیا تھا لیکن پھر اچانک احساس ہوا جنید جمشید تم کھاؤ گے کہاں سے‘تمہیں اس کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں آتا‘ گانا میری زندگی بھی تھا‘ مجھے محسوس ہوتا تھا میں نے اگر یہ بند کر دیا تو مجھ سے میری زندگی چھن جائے گی چنانچہ میں نے شیو کی اور اپنی دنیا میں واپس آ گیا لیکن چند دن بعد غلطی کا احساس ہو گیا‘ میں اس نتیجے پر پہنچ گیا مجھے سکون اور شہرت‘ دولت‘ عزت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔

میرے اندر کشمکش جاری تھی لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے کرم کیا‘ میرے دماغ سے غلط فہمیوں کے اندھیرے چھٹ گئے اور میں دوبارہ اس لائین پر آ گیا جہاں مجھے ہونا چاہیے تھا‘ میں تبلیغ والوں کے ساتھ شامل ہو گیا‘‘ میں نے پوچھا ’’لیکن کیا شہرت‘ عزت اور دولت آسانی سے چھوٹ گئی؟‘‘ تڑپ کر جواب دیا ’’بہت مشکل تھا‘ گانا میرا واحد سورس آف انکم تھا‘ مجھے شہرت کی لت بھی پڑ چکی تھی‘ میرے لیے فینز‘ تصویریں اور آٹوگرافس زندگی تھی‘ میرا گانا میرا شناختی کارڈ تھا‘ میں اس شناختی کارڈ کے بغیر کچھ بھی نہیں تھا چنانچہ میں گانے کے بغیر معاشی‘ سماجی اور ذہنی طور پر زندہ نہیں رہ سکتا تھا لیکن پھر میں نے ایک سودا کیا‘ میں نے اللہ کے نام پر اپنے تینوں اثاثے قربان کر دیے۔

میں نے عزت‘ شہرت اور روزگار تینوں چھوڑ دیے اور اللہ کی راہ پر لگ گیا‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘ میں نے پوچھا’’کیوں؟ آپ نے یہ کیوں کیا؟‘‘ وہ بولا’’ میں بنیادی طور پر اللہ کا قانون ٹیسٹ کر رہا تھا‘ میں نے کسی جگہ پڑھا تھاجو شخص اللہ کے ساتھ سودا کرتا ہے‘ جو اللہ تعالیٰ کے نام پر اپنی عزیز ترین چیز قربان کردیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے کبھی مایوس نہیں کرتا‘ خدا کی ذات اسے اس کے حق سے زیادہ نوازتی ہے‘ میں نے اللہ کے اس اعلان‘ اس وعدے کو ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کیا‘ میں نے اپنا کل اثاثہ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا‘ میرے بھائی جاوید آپ یقین کرو اللہ تعالیٰ نے میری تینوں چیزیں ستر سے ضرب دے کر مجھے واپس لوٹا دیں۔

میں نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں لاکھوں روپے کی قربانی دی تھی‘ رب کی ذات نے مجھے کروڑوں روپے سے نواز دیا‘ میں نے آج تک ایک رومال نہیں بنایا‘ آپ اللہ کا کرم دیکھو‘ دنیا میں جنید جمشید کے نام سے کپڑوں کا سب سے بڑا پاکستانی برانڈ چل رہا ہے‘ میں راک اسٹار کی حیثیت سے مشہور تھا‘ آپ اللہ کا کرم دیکھو میں آج نعت خوانی اور اللہ کے ذکر کے حوالے سے پوری دنیا میں مشہور ہوں‘ لوگ مجھے دل دل پاکستان کی وجہ سے عزت دیتے تھے لیکن آج لوگ الٰہی تیری چوکھٹ پر سوالی بن کے آیا ہوں کے حوالے سے میرے ہاتھ چومتے ہیں۔

ْمیں کبھی جینز پہن کر اسٹیج پر ناچتا تھا اور عزت دار لوگ اپنی بہو بیٹیوں کو میرے سائے سے بچا کر رکھتے تھے لیکن میں آج سر پر عمامہ اور ٹوپی رکھ کر منبر رسولؐ پر بیٹھتا ہوں اور لوگ مجھ سے اپنے بچوں کے لیے دعا کرواتے ہیں‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں کیا یہ اس سے ستر گناہ زیادہ نہیں جس کی میں نے قربانی دی تھی‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔

میں اس وقت آج کے مقابلے میں زیادہ گمراہ‘ زیادہ سنگدل اور زیادہ بددیانت تھا چنانچہ میں نے اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیا‘ میں نے اس سے کہا ’’آپ اگر ان مولویوں کے ہاتھ سے بچ گئے جو اس وقت آپ کی گردن کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں‘ جو آپ کو گستاخ اور حضرت عائشہ ؓ کا گناہ گار سمجھ رہے ہیں تو میں آپ کو آپ کے سوال کا جواب ضرور دوں گا‘‘ وہ بھی ہنس پڑا لیکن میں نے جب سات دسمبر کو جنید جمشید کے ائیر کریش کی خبر سنی اور اس کے بعد جس طرح پورے ملک کو اس کے سوگ میں ڈوبتے دیکھا اور پھر 15دسمبر کو کراچی میں اس کا جنازہ دیکھا تو میں اس کو سچا ماننے پر مجبور ہو گیا۔

ملک میں ہزاروں علماء کرام‘ سیاستدان‘ بیورو کریٹس‘ صوفیاء کرام‘ اداکار‘ گلوکار اور ارب پتی تاجر فوت ہوئے‘ ان کے جنازے جنازہ گاہوں میں پڑھائے گئے لیکن جنید جمشید کا جنازہ اسٹیڈیم میں پڑھا گیا اور اس میں حقیقتاً لاکھوں لوگ شریک تھے‘ تاحد نظر سر ہی سر اور بازو ہی بازو تھے‘ جنید جمشید کو اس سے پہلے ائیرفورس نے گارڈ آف آنر بھی دیا‘ اس کے کفن کو پاکستانی پرچم میں بھی لپیٹا اور اسے سی ون تھرٹی کے ذریعے اسلام آباد سے کراچی بھی پہنچایا ‘ یہ اعزاز آج تک کسی گلوکار کو حاصل ہوا؟ جی نہیں! دنیا میں مہدی حسن اور نورجہاں جیسے گلوکار دوبارہ پیدا نہیں ہوں گے۔

بڑے غلام علی خان‘ نصرت فتح علی خان‘ عزیز میاں قوال‘ استاد امانت علی خان اور صابری برادران موسیقی کے استاد تھے‘ یہ استاد کس عالم میں دنیا سے رخصت ہوئے اور ان کے جنازے کیسے اور کتنے تھے؟ ہم سب جانتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے جو عزت جنید جمشید جیسے ایک سابق گلوکار کو دی یہ بھی سارا زمانہ جانتا ہے ‘ موسیقی کے استاد ہونے کے باوجود یہ لوگ دنیا سے کسمپرسی میں رخصت ہوئے جب کہ جنید جمشید کے غم کو ہر شخص نے ٹیس کی طرح محسوس کیا‘ یہ کیا ثابت کرتا ہے‘ یہ ثابت کرتا ہے وہ ٹھیک کہہ رہا تھا‘ اس نے اللہ تعالیٰ سے سودا کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی قربانی کو ستر سے ضرب دے کر اس کے تمام اثاثے اسے لوٹا دیے۔

جنید جمشید نے ہم جیسے لوگوں کی آنکھیں کھول دیں‘ اس نے ثابت کر دیا اللہ کے ساتھ سودا کرنے والے کبھی خسارے میں نہیں رہتے‘ عزت قربان کرو گے تو اللہ عزت کو ستر گنا کر کے لوٹائے گا اور شہرت اور دولت کی قربانی دو گے تو اللہ تعالیٰ انھیں بھی ستر سے ضرب دے کر لوٹائے گا‘ بے شک اللہ تعالیٰ کی اسٹاک ایکسچینج کائنات کی سب سے بڑی اسٹاک ایکسچینج ہے‘ یہ کبھی کریش نہیں ہوتی‘ یہ کبھی اپنے شیئر ہولڈرز کا خسارہ نہیں ہونے دیتی‘ اس کا انڈیکس ہمیشہ اوپر جاتا ہے‘ اوپر سے اوپر اور اوپر۔

The post اسٹاک ایکسچینج appeared first on ایکسپریس اردو.

دراڑیں

$
0
0

لفظ ہجرت پاکستان کی تحریک اور تاریخ سے اس طرح منسلک نظر آتا ہے کہ اس کو الگ کرنا ناممکن ہے، کیونکہ علیحدہ خطہ زمین کے لیے اٹھنے والی آواز موجودہ خطہ پاکستان سے نہیں اٹھی تھی، بلکہ اس کی بازگشت ان اقلیتی علاقوں سے سنائی دیتی ہے جن میں خصوصی طور پر علی گڑھ، دہلی، آگرہ، لکھنو، حیدرآباد دکن، گجرات، الٰہ آباد کے علاوہ اور بہت سے ایسے مقامات، جو اس وقت موجودہ ہندوستان کا حصہ یا بنگلہ دیش میں شامل ہیں، جہاں زیادہ تر مسلمان اقلیت میں آباد تھے۔

یہ آواز اس وقت ان کی زندگی اور موت کا درماں بن گئی تھی۔ اب یہاں سے اور پیچھے چلتے ہیں کہ جب برصغیر کے مقامی لوگوں نے مل کر انگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کی جہت شروع کی تو انھوں نے اپنے خلاف ان کی آپس میں بڑھی ہوئی ہم آہنگی اور یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے مذہب کو بنیاد بناکر فسادات کی چنگاری بھڑکا دی اور یوں ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کی پالیسی متعارف ہوئی جو چند بڑی طاقتوں نے آج بھی جاری و ساری رکھی ہوئی ہے۔

اگر دنیا پہ نظر ڈالیں تو ایک طرف خلیجی ممالک جہاں ایران، عراق، کویت، شام، یمن، سعودیہ عرب میں بسنے والے مسلمان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں، جب کہ سب کے لہو میں کلمہ طیبہ کی صدا دوڑ رہی ہے، تو دوسری طرف مشرق بعید جہاں ایک جیسی شکل و صورت، بوٹا سا قد و قامت اور ملتے جلتے رنگ و نسل کی قومیں، جو اپنی تعلیم و تربیت اور ذہن کی بلوغت کے سبب بیشتر ٹیکنالوجی میں مغربی طاقتوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئیں، وہ خواہ جاپان ہو یا چین، کوریا ہو یا تائیوان باہم ایک دوسرے سے تناؤ کا شکار ہیں۔

ایسی ہی سازشوں کا خمیازہ برصغیر ہندوستان کے مسلمانوں کو بھی بھگتنا پڑا کہ ہندو اور مسلم آپس میں لڑوا دیے گئے، ورنہ تو مسلمانوں کی طویل حکومت کو ہندوؤں نے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہی قبول کیا ہوا تھا۔ ان ہی دنوں مسلمانوں میں بھی شیعہ سنی کے درمیان تفریق بڑھانے کی سازشوں کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا، جس کا ابتدائیہ انگریز نے تیار کیا اور اس کی ڈور ان مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھما دی جنھوں نیدوسرے کے خلاف فتوے جاری کرنا شروع کردیے اور یہ فتنہ پرور فکر پاکستان بنتے ہی یہاں در آئی، جس کی موشگافیاں آج بھی جاری ہیں۔

اس کی رو سے انسان کے رتبے کے لیے اس کی تعلیم و تربیت، بالغ النظری کوئی معنی نہیں رکھتی، بلکہ خاندانی اجارہ داری اس کے مستقبل کا تعین کرتی ہے، مثلاً حال ہی میں یونیورسٹی کے ایک گوشے کو دنیا کے نامور فزکس کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام سے موسوم کیا گیا تو اس پر فکری اختلافات کے باعث مخالفت میں آج بھی سرخیاں اخبارات کی زینت بنی ہوئی ہیں۔

بات ہورہی ہے ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کی۔ سو جب برصغیر کے مسلمانوں نے اپنی جان اور مال و متاع کی قربانیاں دے کر اس کو حاصل کرلیا، جس کا نام پاکستان رکھا گیا اور دل و جان سے اس زمین پہ ماتھے ٹیک دیے، ان میں اکثریت ان کی تھی جو لٹ پٹ کر آئے تھے، لیکن ساتھ ہی وہ ہستیاں بھی تھیں جن میں سر آدم جی، حبیب فیملی، سیٹھ ولیکا، راجہ صاحب محمودآباد، سر آغا خان، ہارون فیملی، سردار عبدالرب نشتر، لیاقت علی خان و دیگر ایسے زیرک لوگ شامل تھے جنھوں نے ابتدا میں پاکستان کی معاشی تعمیر و ترقی میں بہترین کردار ادا کیا۔

مہاجروں نے پاکستان بننے کے بعد پہلی دہائی میں ہی اس بات کا اندازہ لگالیا تھا کہ کراچی اور اندرون سندھ کے شہروں میں ہجرت کرکے آنے والوں کو وہ حقوق نہیں مل رہے تھے جو ایک معاہدے کے تحت اقوام متحدہ کے پرچم تلے طے پائے تھے کہ وہ ہندو جو ہجرت کرکے ہندوستان جارہے تھے انھیں اپنی زرعی زمینیں نہ فروخت کرنے کا اختیار تھا اور نہ کسی کو تحفتاً دینے کا، جب کہ 50 فیصد زرعی زمینیں ان کی ملکیت تھیں اور 30 فیصد ان کے پاس رہن موجود تھیں اور یہ تمام 80 فیصد زمینیں ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کے لیے مختص کی گئی تھیں، جب کہ یہاں ہجرت کرکے آنے والوں کو اس کا 8 فیصد بھی نہ مل سکا۔

اس کے برعکس یہی قانون پاکستان سے جانے والے ہندوؤں کے لیے بھی بنایا گیا تھا کہ جو جائیدادیں مسلمان وہاں چھوڑ کر جا رہے ہیں انھیں مل جائیں گی اور ایسا ہی ہوا۔ ایسی تمام تر صورتحال کو دیکھتے ہوئے پہلی دہائی کے مہاجر بزرگ انصاف کے متقاضی ہوئے، جن میں رئیس امروہوی، محمود الحق عثمانی (یوپی)، اختر رضوی(لکھنو)، احمد الطاف (گوالیار) اور کئی ایک نامور ہستیاں اس عمل میں پیش پیش رہیں، لیکن ان کے تدبر اور صبر سے کسی میٹھے پھل کی نوید ملنے کے بجائے پوری قوم محرومیوں کے جنگل میں ہی بے یار و مددگار کھڑی رہی۔

اس صورتحال کے ردعمل کے نتیجے میں کراچی یونیورسٹی کے نوجوان طالب علموں نے اس درد کو محسوس کیا اور اس کا مداوا کرنے کے لیے لفظ مہاجر کو ہی اپنی شناخت قرار دیا۔ ان تمام کے آباؤ اجداد کا تعلق یوپی، سی پی، راجستھان، بنگال، بہار، اودھ اور دیگر علاقوں سے تھا، لیکن نئے ہوں یا پرانے سب کی کہانی وہی احساس محرومی تھی، جس نے سب کو جوڑ دیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ یہ ایک اور ایک گیارہ کی مصداق اپنی تعلیم و آگہی سے ایک منظم طاقت کے طور پر عوام کے سامنے آئے اور پھر اس نظام کو للکارا جو سیاہ اور سفید کا مالک بنا بیٹھا تھا۔

تاہم دوسری طرف وہ طبقہ جو تہی داماں تھا، کے بنیادی حقوق کے ساتھ سماجی، معاشی اور سیاسی میدان میں انھیں اس زمین کا باشندہ ہی تسلیم نہیں کیا جا رہا تھا، جب کہ ہجرت کرکے آنے والوں کی اولاد جو جوان ہو رہی تھی اور اس فلسفے پر یقین رکھتی تھی کہ جس نے پیدا ہوکر اس سرزمین پر قدم رکھا، وہ اسی مٹی کے سپوت ہیں۔ لیکن انھیں مقدر میں صرف نشیب اور پھسلن ہی نظر آرہی تھی، تب ان حالات میں مہاجر طلبا کا اتحاد ایک طاقتور آواز کے طور پر ابھرا اور منفی طاقتوں کے لیے چیلنج بن گیا۔

بدقسمتی سے سازشی عناصر نے موقع کا فائدہ کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیا، لہٰذا روز اول سے ہی اس کو توڑنے اور بکھیرنے کے لیے نیلے پیلے لوگوں کی شمولیت کروادی گئی۔ اس وقت کی قیادت کو کمزور کرنے کے لیے جب کارکنوں کے سمندر کے درمیان سے پاکستان سے اٹھا کر ایک قطرے کی مانند لندن میں تنہا بٹھا دیا گیا، یہ پہلی دراڑ اور تقسیم کی سازش تھی۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی، ان کے گرد چند ایسے عناصر کا حصار باندھا گیا جنھوں نے صرف اپنے مفادات کو ہی ترجیح دی۔

یہ دوسری تقسیم تھی، جب کہ پاکستان میں چاروں طرف پھیلے ہوئے عوام اور کارکنان جو زمینی حقائق کو بہت قریب سے دیکھ رہے تھے اور بھگت بھی رہے تھے اور بہت کچھ کہنا بھی چاہتے تھے لیکن ایسے لوگوں کا قیادت سے تعلق منقطع کرنے کی کوشش مسلسل جاری رہی اور ان کے علم میں لائے بغیر پاکستان کی جڑوں میں بسنے والے کارکنان کو چارے کے طور پر استعمال کرنے کی بھی کوششیں کی جاتی رہیں اور یوں محب وطن افراد کے سامنے ریاستی اداروں سے تصادم کے راستے وا کرنے کے امکانات کو فروغ دیا گیا۔ یہ تھی تیسری تقسیم۔ جب بات اس سے بھی نہ بنی تو تقسیم کے پراسرار طریقے اختیار کیے گئے۔

مہاجروں کے اس کٹھن سفر میں کچھ کی زندگیوں نے وفا نہ کی، شہادتیں بھی پائیں، روپوشیاں بھی کاٹیں اور آج بھی ایک بڑی تعداد لاپتہ ہے اور ان سے بڑی تعداد ناکردہ گناہوں کی سزا کے طور پر قید و بند کی صعوبتیں بھگت رہی ہے۔ اگرچہ قانون کے مطابق جرم ثابت ہوتا ہے تو وہ لازمی سزا کے مستحق ہیں اور اگر ان کے سیاسی، آئینی و قانونی مطالبات ہیں تو انھیں پاکستانی شہری تسلیم کرتے ہوئے انصاف فراہم کیا جائے۔

پاکستان بننے کے بعد ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں نے درختوں کی شاخوں سے قلم بنا کر کام کی ابتدا کی اور اپنی محنت سے کلاچی کو ایک بڑا شہر کراچی بنادیا، یہ ان ہی کی نسلیں ہیں جو ایک بار پھر اعتماد اور یقین سے رشتہ استوار کرکے اس بکھرے ملبے کو سمیٹ کر ستون بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ وہ ستون جو پاکستان کو مضبوط و محفوظ اور مستحکم بنانے میں معاون اور مددگار ثابت ہوگا۔

The post دراڑیں appeared first on ایکسپریس اردو.

حزب ریاست کی محدودیت

$
0
0

وطن عزیزکے اندرونی حالات بلاشبہ بہت ہی بھیانک نتائج کے حامل دکھائی دیے جانے لگے ہیں، کیونکہ ریاست کے مقدس منصبوں پر براجمان حضرات بدانتظامی کے سنگین الزامات کی ضد میں ہیں۔ ریاستی ملازمین عدم تحفظ کے شکار اور اپنے فرائض سے غافل ہیں، جن کی اکثریت ان تہمت زدہ مقتدر طبقے کی بے جا فرمائشوں کی اطاعت کرکے اپنی ملازمتوں کو برقرار رکھنے کے جتن میں مصروف ہے۔ غریب اور بے پہنچ عوام کا جو حشر، نشر ہوتا آیا ہے، اسے تھر میں مرتے بچوں کی طرح چکن گنیا کے متاثرہ افراد کو سرکاری اسپتالوں میں لاوارث دیکھا جانا ممکن ہوا ہے۔

ہر طرف مایوسی کا عالم چھایا ہوا ہے۔ ملکی وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں ملوث مقتدر طبقہ (حکمران، صنعت کار اور اشرافیہ) کے احتساب کو تو جیسے جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کی ضمانت قبل از گرفتاری حاصل ہوچکی ہے، اور اس ضمن میں ریاستی رٹ کو برقرار رکھے جانے کی خاطر عوامی امنگوں کے ترجمان اقدامات کو بھی جمہوریت پسندی کی قربان گاہ میں ایسا رنگ چڑھا دیا جاتا رہا ہے کہ جس سے ریاست کے آفاقی و نظریاتی مقاصد بھی بے اثر ہوتے ہوئے نظر آنے لگے ہیں۔

جس کے حتمی نتائج کے طور کتنی مضحکہ خیز صورت حال پیدا ہوچکی ہے کہ انسداد بدانتظامی پر کام کرنے والے ریاستی ادارے خود بدانتظامی کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ قوت واختیارات رکھنے والے ریاستی اداروں کے سربراہان بھی ٹی وی اینکرز کی طرح فقط سوالات اٹھانے میں مصروف ہیں، تو پھر ریاست کے چوتھے ستون کا درجہ حاصل کرنے والے میڈیا میں ٹی وی اسکرین پر آنے والے حضرات کا تو کوئی قصور ہی نہیں رہ جاتا۔

اپنے سروں پر ’’اسکالر‘‘ ہونے کا نام نہاد تاج سجانے والے حضرات ان ٹاک شوز میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑنے جھگڑنے لگ جائیں تو ان کی نظریاتی تعلیمات کا حاصل بھی کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ جب کہ حزب اختلاف بھی ’’شتر اڑ نہیں سکتے اور مرغ بار برداری نہیں کرتے‘‘ کے مصداق شترمرغ بنی ہوئی نظر آنے لگی ہے۔ ہاں البتہ وہ بھی ان ٹاک شوز کے مہمانوں کی طرح کسی روڈ کی تعمیر کے وقت کسی ریاستی ملازم کو کھری کھری سنانے کی اداکاری کرنے پر داد و دہش حاصل کرنا اپنا حق سمجھنے لگ جائیں تو اس میں کوئی حیرت کا پہلو نہیں رہ جاتا۔

چونکہ انسانوں کے موجودہ ترقی یافتہ ارتقائی مرحلے پر ریاستوں کے داخلی وخارجی مسائل اور ان کے حل کی پالیسیاں عالمی صورت حال کے پیش نظر ترتیب دی جانے لگی ہیں۔ اس لیے کرۂ ارض پر موجود ریاستوں اور ان کے اداروں کی اصلاح اور فعالیت کے لیے صرف اور صرف پرائیویٹائزیشن کا چلن ہی قابل قبول تصور کیا جانے لگا ہے۔ شاید اسی لیے پاکستان سمیت ان ممالک عالم میں حیران کن حد تک ریاستی اداروں کی اصلاح کی جانب گامزن ہونے کے بجائے اداروں کی پرائیویٹائزیشن کی راہ ہموار کیے جانے کا پہلو بہت ہی بھیانک حالات کو بیان کرتے ہوئے نظر آنے لگا ہے، جس کی سب سے چھوٹی اور بہترین مثال پاکستان میں بھی دیگر مملکتی اداروں کے بعد پی آئی اے کو پرائیویٹائز کیے جانے کا پہلو لمحہ فکریہ بنا ہوا ہے۔

اس چلن پر تمام محب وطن پاکستانیوں کو یہ منظر خوف زدہ کیے ہوئے ہے کہ کیا اب قانون وانصاف کو بھی پرائیویٹائز کیے جانے کے نکات زیر بحث لائے جائیں گے؟ اور جب ریاستی اداروں کی پرائیویٹائزیشن اپنی تکمیل کو پہنچ جائے گی تو کیا ہمارے ڈگری یافتہ، جمہوریت پسند وقابل ترین حکمران ریاست کو بھی پرائیویٹائز کرنے جیسی دور کی کوڑی لائیں گے؟

ہمارے مقتدر طبقے کی بودوباش اور طرز عمل سے یہ بات تو بالکل ہی عیاں ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ پاکستان کے غیر جمہوری وقدامت پسند رویوں کے سبب ہمارا جمہوریت پسند مقتدر طبقہ مغرب میں سر اٹھا کر چل نہیں سکتا۔ جو یہ چاہتا ہے کہ مغربی ممالک میں ان کے بڑے بڑے مہنگے فلیٹ اور محل ہوں، جن میں ہیلی کاپٹرز کے اترنے اور اڑان بھرنے کی سہولتیں بھی میسر ہوں، تا کہ ہم مغرب میں پاکستانی وقار کا جلوہ دکھا سکیں، اور انھیں جتا سکیں کہ ہم بھی جدید ترقی اور وسیع النظری میں کسی سے کم نہیں ہیں۔

اگر اس دوران گدھوں پر سواری کرنے والے فرسودہ رسم ورواج سے وابستہ ناخواندہ اور بے ضرر تھری بچے، بوری بند ہونے سے خائف چکن گنیا زدہ اور ماڈل ٹاؤن میں خوامخواہ ہنگامہ کرکے ’’غیر جمہوری‘‘ رویے کا مظاہرہ کرنے والے اپنی جان سے جاتے ہیں، تو جائیں، ویسے بھی مغرب میں ان کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں ہے۔ یہ زندہ رہ کر الٹا ریاست پر بوجھ ہی بننے والے تھے۔

چونکہ اب یہ عالمی چلن بن چکا ہے اس لیے ہم ترقی پسند جمہوری پاکستانیوں نے اس چلن کی ہر حال میں تقلید کرنی ہوگی۔ کیا اس چلن کی مخالفت کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے شکار کی اجازت نہ دے کر ہماری سپریم کورٹ کو خط بھیجنے کا اختیار رکھنے والے قطری شہزادوں سے اپنے تعلقات خراب کردیے ہیں؟ جب کہ کمال خوبصورتی کے ساتھ سندھ حکومت کی جانب سے سابق وزیراعظم کے حلقہ انتخاب این اے 207 قمبر شہدادکوٹ میں سعودی شہزادوں کے شکار کھیلنے کی میزبانی حاصل کرکے اپنے ’’مختارکل‘‘ کی وطن واپسی کی راہ ہموار کیے جانے کا مظاہرہ نہیں دیکھا۔ تو کیا انھیں اب بھی یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے قومی تشخص کے نکھار کے لیے ملک میں جاگیریں اور مغرب میں فلیٹ، محل اور کمپنیاں قائم کرنا کتنا اہم اور ضروری ہے؟

اگر یہ جاگیریں نہ ہوتیں تو کیا ہم ایسی شاندار میزبانی کے مزے حاصل کرسکتے؟ دبئی اور لندن میں محل اور فلیٹ نہ ہونے کی صورت میں کیا پاکستانی مقتدر طبقے کے حکومتی وسیاسی مشاورتی اجلاس ومیزبانی کسی ہوٹل میں رکھے جانے کا اقدام ہماری قومی آن وشان کے خلاف نہ ہوتا؟

شاید اسی لیے ہمارے مقتدر طبقے نے یہ سوچ اپنائی ہوئی ہے کہ تین تین دن تک بجلی سے محروم اور بسوں میں دھکے کھانے والے دبئی، لندن اور نیویارک کی چکاچوند اور ہوائی جہازوں کی نرم وگداز سیٹوں کا پرلطف احساس کیا جانیں؟ اس لیے گوبر زدہ پالتو جانوروں کے بیچ رہنے والے ان عام لوگوں (عوام) کو بین الاقوامی سطح پر قومی تشخص کے نکھار کے لیے رائج اس چلن کی نزاکت کو سمجھانے کی کوشش کرنا ہی بے کار ہے۔

شاید اسی لیے ہمارے مقدروں کے مالک ڈیڑھ ڈیڑھ سال تک ملک سے باہر ہی رہتے ہیں تا کہ ان عام لوگوں کی ’’بے وقوفانہ مغزماری‘‘ سے بچا جاسکے۔ چونکہ ان میں سے بعض حضرات رکن اسمبلی ہونے کے باوجود بھی خود کو ملک بدر کیے بیٹھے ہیں، اس لیے اعلیٰ منصبوں سے سبک دوش ہونے والے ملک چھوڑتے ہوئے نظر آنے لگیں تو انھیں واپس بلاتے رہنا شاید مناسب نہ ہوگا۔ کیونکہ اگر وہ واپس ہوئے تو پھر ان کے لیے نئے سیاسی اتحاد یا دھڑے بنانے پڑ جائیں گے۔

دیرینہ مسائل کو برننگ ایشوز بنا کر لوگوں کو سڑکوں پر لائے جانے کی مشقت کرنا اور انھیں دوبارہ سے اعلیٰ منصب بھی دینے پڑ جائیں گے۔ اس لیے جو اعلیٰ ایوانوں میں مسند نشیں ہیں انھیں چھیڑا جانا عالمی طور پر رائج چلن اور عالمی استعماریت کے خلاف عمل تصور کیا جائے گا۔ اس لیے عالمی استعماریت کو چھیڑا نہ جائے۔ جو میسر ہیں ان سے کام چلا لیں اور ان میں سے جو اپنی وکٹ کو نہ بچا سکے انھیں بھی ملکی پِچ سے بیرون ملک کی پویلین روانہ کردیا جانا چاہیے۔ کیونکہ جمہوری ٹرین سے اقتداری اسٹیشنوں پر نئے اترنے والے بھی تو اسی چلن ہی پر کاربند رہیں گے۔ اس لیے سب ایک قطار میں دوستانہ انداز اپنا کر کھڑے ہیں اور دھکم پیل کرنے کے بجائے اپنی اپنی باری کا انتظار کرتے نظر آنے لگے ہیں۔ جمہوریت کا کیا خوبصورت انداز دلربائی ہے کہ سبھی حزب اقتدار بھی ہیں اور سبھی حزب اختلاف بھی ہیں۔ جنھوں نے ’’حزب ریاست‘‘ کو محدود کیا ہوا ہے۔

The post حزب ریاست کی محدودیت appeared first on ایکسپریس اردو.

طیبہ تیرے لیے

$
0
0

قانون پر ظالم حاوی ہیں۔ ظالموں نے اپنے خونی پنجے قانون کے جسم میں گاڑ رکھے ہیں اور قانون کی گردن کو اپنے خونی نوکیلے دانت میں جکڑ رکھا ہے۔ یہ دس سالہ بچی طیبہ پر جو ظلم ہوا ہے، اس کے ہاتھ جلائے گئے، چہرہ جلایا گیا، یہ کوئی نیا کام تو نہیں ہوا، ایسے کام تو پاکستان میں ازل سے ہو رہے ہیں، بس اس بار ظلم کی داستان میں نئے رنگ کا اضافہ ہوا ہے کہ ظلم کرنے والے وہ ہیں جو قانون کے رکھوالے ہیں، جن کے پاس اس آس پر مظلوم جاتے ہیں کہ یہ رکھوالے رب راکھا بن کر انصاف فراہم کریںگے۔ مگر یہ سب کچھ خام خیال ہے۔ یہاں ہمارے ملک پاکستان میں ایسی ناپاک حرکتیں مزید ہوتی رہیں گی۔

یہاں ایک شاہ نے دوسرے شاہ کو گولیاں مار کے مار ڈالا، مگر انصاف اب تک نہیں ہوا۔ مرنے والا شاہ سیر تھا تو مارنے والا شاہ سوا سیر۔ کوئی غریب غربا ہوتا تو اب تک پھانسی چڑھ چکا ہوتا۔ کراچی سے شمال کی طرف نکلو تو اﷲ کی زمین پر ناجائز قابضین کی جاگیروں کے قوی ہیکل دروازے کھڑے ہیں۔ فلاں وڈیرا اسٹیٹ، سندھ سے پنجاب میں داخل ہو تو فلاں جاگیردار اسٹیٹ، خیبرپختونخوا میں فلاں خان اسٹیٹ، ادھر بلوچستان میں فلاں سردار اسٹیٹ، پتا نہیں کتنی طیبائیں ان زمینی خداؤں کی جاگیروں میں چیخ چیخ کر مر کھپ جاتی ہیں اور ان کی چیخیں مضبوط در و دیوار سے ٹکرا ٹکرا کر دم توڑ دیتی ہیں۔

ابھی چند دن پہلے قائداعظم کا ذکر کرتے ہوئے میں نے علامہ اقبال کے ایک خط کا ذکر کیا تھا۔ 1937 میں لکھنو کانفرنس کے بعد علامہ نے قائداعظم کو خط لکھتے ہوئے کہاکہ پنجاب کے جاگیردار خود کو مسلم لیگ پر مسلط کررہے ہیں۔ اس روش نے پاکستان بننے کے بعد خوب جڑیں مضبوط کیں۔ 1949 میں پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان، پاکستان کے ولبھ بھائی بن کر پنجاب پہنچے اور زرعی اصلاحات پر پنجاب مسلم لیگ سے بات کی تو پنجاب مسلم لیگ پر قابض جاگیرداروں نے زرعی اصلاحات بل کو یکسر مسترد کردیا، بلکہ علامہ اقبال کے خدشات کے عین مطابق جاگیرداروں کا اکٹھ بنالیا۔

کرنل عابد حسین، مشتاق گورمانی وغیرہ اس اکٹھ کے سربراہان میں شامل تھے۔ خضر حیات اس اکٹھ کے بانی تھے۔ولبھ بھائی پٹیل ہندوستان کانگریس کے صف اول کے رہنما تھے، غریب کسان کے بیٹے تھے، انھوں نے ہندوستان کی آزادی کے ساتھ ہی پورے ہندوستان کے راجے رجواڑے ختم کرنے کی دستاویز گاندھی جی اور پنڈت نہرو کے سامنے رکھی، کسان کے بیٹے کی بات مان لی گئی اور اپنے پاکستان میں قائداعظم کی جیب کے ’’کھوٹے سکوں‘‘ نے قائد ملت کی ایک نہ چلنے دی، بلکہ انھیں شہید کردیا گیا اور قائداعظم کے ساتھ دفنادیا۔

1946 میں قائد کی بہن عوام کو ملک دلانے کے لیے نکلیں تو کھوٹے سکے مادر ملت کے خلاف جمع ہوگئے، البتہ نوابزادہ نصراﷲ خان، مادر ملت کے سامنے آن ملے۔ پاکستان کے مشہور غدار ولی خان، مولانا بھاشانی، غوث بخش بزنجو، عطا اﷲ مینگل، خیر بخش مری، محمود علی قصوری، عبدالحمید جتوئی، تالپور برادران، محمود الحق عثمانی، انیس ہاشمی اور ایک بڑا مشہور شاعر حبیب جالب فاطمہ جناح کے ساتھ تھے۔

بیٹی طیبہ! قائد کی جیب کے انھی کھوٹے سکوں نے پھر کام دکھایا۔ ظلم پھر مکر و فن سے جیت گیا۔ اور آخر مادر ملت کو بھی وہیں پہنچادیا گیا، جہاں ان مزارات پر آتے ہیں اور اپنے اپنے عہد دہرا کر چلے جاتے ہیں۔ بیٹی طیبہ! تمہیں بااختیار ادارے نے اپنی بیٹی کہا ہے، مگر بیٹی ہی تو کہا ہے، ظالموں کو سزا کا فیصلہ سناکر اس پر عمل در آمد ہوگا یا نہیں! یہ کس کو خبر، کیونکہ سزا پر عمل کروانے والے کب خود کو سزا دیںگے۔

میں نے لکھا ہے نا! کہ ظالموں نے قدم قدم پر بارود بچھا رکھا ہے ۔ پاکستان کی زمین آزاد نہیں ہے یہاں اپنے خرچ پر مظلوم عوام قید ہیں۔

طیبہ بیٹی! یہاں آنکھوں نے کیا کیا ظلم دیکھے ہیں، کیا بیان کروں! یہ آنکھیں کتنا روئی ہیں! کیا بیان کروں! ان آنکھوں میں تیرے لیے آنسو نہیں بچے۔ اب دل روتا ہے سو دل رو رہا ہے۔ مگر ہم دھرتی کے پیارے، دکھیارے یہی آس دل میں لیے جی رہے ہیں کہ حقیقی آزادی کا سورج وہ صبح لے کر ضرور ابھرے گا کہ جب ستم گروں کا نشان نہ ہوگا۔ امت کی لڑائی کا آغاز ہونے کو ہے جو ظلم اور ظالموں کے خاتمے پر ختم ہوگی۔

طیبہ بیٹی! تمہارے زخم لو دے رہے ہیں، تمہارے زخموں کی روشنی میں راہیں اجلی ہوگئی ہیں، وہی راہیں جو اس نگر کی طرف جاتی ہیں جہاں سحر ہماری منتظر ہے، جہاں آنسو نہیں، آہیں نہیں، جہاں کسی کی آس دم نہیں توڑتی۔

طیبہ بیٹی! تمہاری صورت میں ہمیں وہ منزل صاف نظر آرہی ہے جہاں سکھ بھرے سویرے ہیں۔ وہاں کوئی رہزن نہیں ہوگا۔ طیبہ بیٹی! ہمیں یقین ہے کہ آخر تم اور تمہارے جیسے سبھی مظلوموں کو آخرکار انصاف ضرور ملے گا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے تمہیں اپنی بیٹی کہا ہے اور ہمیں اعلیٰ عدالت کے فیصلے کا شدت سے انتظار ہے۔

The post طیبہ تیرے لیے appeared first on ایکسپریس اردو.


تیسری وجہ

$
0
0

ایک جج صاحب کی بیگم پر اپنی نوکرانی کو مارنے پیٹنے کا الزام ہے۔ چھوٹی سی بچی کا ہاتھ چولہے میں ڈالنے کی بات کی جارہی ہے۔ بیس گریڈ کے عدالتی افسر کے اہل خانہ سے تفتیش کے لیے اسی درجے کے پولیس افسر کو مقرر کیا گیا۔ غریب ملازمین کو کچھ روپے دے کر معافی تلافی کی کوشش کی گئی۔ اب دیکھنا ہے کہ انصاف کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے کہ چیف جسٹس نے اس کا نوٹس لے لیا ہے۔

سابق کرکٹر باسط علی نے ایک شخص کو تھپڑ ماردیا۔ غصہ اس بات پر تھا کہ یہ صاحب ٹی وی پر بیٹھ کر باسط پر تنقید کرتے تھے۔دو عہدوں کے حامل خواتین کرکٹرز کے کوچ اور جونیئرز کرکٹرز کی سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین باسط علی نے اس شخص سے معافی مانگ لی جس کو تھپڑ مارا تھا، کرکٹ بورڈ کے سربراہ نے اس معافی کو قبول نہ کیا یوں باسط علی دونوں عہدوں سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہوگئے۔

کسی پر ظلم نہ کرنے کی تین وجوہات ہوتی ہیں۔ کوئی کسی پر زیادتی کب کرتا ہے؟ جب وہ دوسرے فریق کو کمزور سمجھتا ہے۔ فلموں میں ایسے مناظر دکھائی دیتے ہیں کہ دو مخالف زمینداروں کا آمنا سامنا ہوجاتا ہے۔ دونوں کے ساتھ ان کے درجن بھر ساتھی ہوتے ہیں۔ دونوں طرف سے اسلحہ نکال لیا جاتا ہے، پھر بزرگ زمیندار اپنے اپنے لوگوں کو روک دیتے ہیں۔ آنکھوں میں غصہ دونوں طرف ہوتا ہے لیکن دونوں اپنی اپنی راہ پر چل پڑتے ہیں۔ کیوں؟

مقابلہ برابر کا ہوتا ہے، کوئی کسی پر اس وقت زیادتی کرتا ہے جب دوسرا فریق کمزور ہوتا ہے۔ یہ پہلی وجہ ہوتی ہے کہ ایک گروہ طاقت ور ہونے کے باوجود بھی دوسرے سے نہیں الجھتا۔ روس کے بعد امریکا بہادر کا دل چاہا تو افغانستان پر چڑھ دوڑا کہ وہ کمزور ملک ہے۔ جب بات طاقتور چین کی آتی ہے تو سپر پاور اپنے قدم پیچھے ہٹالیتا ہے۔ امریکا کا جاسوس طیارہ چین کی سرحد میں داخل ہوا تو چینیوں نے اسے مار گرایا۔ اب امریکا اپنے طیارے کا ملبہ اور ڈھانچہ مانگ رہا تھا، چینی ایئر فورس کے ماہرین اس امریکی طیارے کی اعلیٰ ٹیکنالوجی سمجھنا چاہتے تھے، ایک طرف جلد بازی تھی تو دوسری طرف وقت حاصل کرنا تھا۔

چین نے مطالبہ کیا کہ امریکا اپنی اس حرکت کی معافی مانگے، یہ بات سپر پاور کو گوارا نہ تھی، وہ معذرت کو تیار تھا جسے چینی قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ اب دونوں ممالک کے لسانی ماہرین سر جوڑ کر بیٹھے کہ انگریزی اور چینی زبانوں سے ایسا لفظ تلاش کیا جائے جو دونوں کو مطمئن کردے۔ یہ ہوتا ہے طاقتور کا طاقتور سے سلوک۔ طاقتور کو دیکھ کر طاقتور اپنے قدم پیچھے ہٹالیتا ہے۔ دو وجوہات اور بھی ہوتی ہیں جب طاقتور ظلم کرنے سے باز رہتا ہے، لیکن پہلے اس واقعے پر نظر ڈالتے ہیں۔

بنگلہ دیش کرکٹر شہادت حسین نے اپنی ملازمہ پر تشدد کیا۔ دس گیارہ سالہ زخمی لڑکی پولیس کو سڑک پر روتی ہوئی دکھائی دی۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ کرکٹر کے گھر کام کرتی ہے جس کو میاں بیوی نے مارا پیٹا ہے۔ اب شہادت حسین اور ان کی بیگم روپوش ہوگئے کئی دنوں بعد عدالت میں ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے سامنے آئے۔ یوں ایک ابھرتے ہوئے کرکٹر کی بدنامی بھی ہوئی اور کیریئر پر دھبہ بھی لگ گیا۔ یہاں بھی وہی وجہ نظر آتی ہے کہ غریب والدین کی سیدھی سادھی بچی گھر پر کام کررہی ہے تو اسے ظلم کا نشانہ بنایا جائے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں بچوں کے لیے نہ تعلیم لازمی ہے اور نہ ان کے اس طرح گھروں پر کام کرنے پر پابندی ہے۔

ایک نواب زادی کا مقدمہ ایل ایل بی کے نصاب میں تھا۔ Reported Cases یا اہم نظائر کے عنوان سے مضمون میں درج تھا کہ گھر پر کام کرنے والی بچی کو اس کی مالکہ نے استری سے جلایا تھا۔ انگریزوں کا دور تھا اور امیر گھرانے کی عورت گرفتار ہوئی اور اس پر مقدمہ چلا۔ یہ دوسری وجہ ہوتی ہے جب کوئی طاقتور کسی کمزور پر ظلم کرنے سے باز رہتا ہے۔ اس کے دماغ میں امیری کا فتور نکل جاتا ہے، جب قانون کا کلہاڑا چلتا ہے، جب اسے علم ہوا کہ ظلم کرنے پر انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا، بدنامی اور جگ ہنسائی ہوگی اور کیریئر داؤ پر لگ جائے گا، آتی دولت اور ترقی سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ تیسری وجہ سے پہلے یہ واقعہ:

ایک جج صاحب پر الزام تھا کہ انھوں نے ایک نوجوان کو قتل کیا ہے، الزام لگانے والے بھی ایک جج تھے۔ پولیس افسران کے لیے مشکل تھا کہ ایک حاضر سروس جج کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ اعلیٰ پولیس افسران نے چیف جسٹس سے ملاقات کی۔ صوبے کی عدلیہ کے سربراہ نے قانون کے محافظوں کو قانون کے مطابق کارروائی کرنے کو کہا۔ اب ایک جج کے بیٹے کے قتل کے الزام میں ایک جج گرفتار ہیں۔ عہدہ بھی گیا اور بے عزتی بھی ہوئی۔ مبینہ طور پر ایک جج کا بیٹا دوسرے جج کی بیٹی سے محبت کرتا تھا یا شادی کرنا چاہتا ہے، کسی ناخوشگوار بات پر جذباتی ہوکر ایک پڑھے لکھے اور سمجھ دار قانون دان نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اب تک تو وہ جیل میں ہیں کہ ضمانت بھی نہیں ہوئی۔

پہلی وجہ کسی دوسرے پر زیادتی نہ کرنے کی یہ ہوتی ہے کہ فریق مخالف بھی طاقتور ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ قانون طاقتور ہوتا ہے۔ فریق اگر کمزور ہو اور قانون ناتواں ہو تو پھر طاقتور لوگ بے دھڑک قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ قانون کی عمل داری کے اس واقعے کے بعد ہم تیسری وجہ کی جانب آتے ہیں۔ حضور اکرم کے دور مبارک میں ایک امیر عورت نے چوری کی۔ ساتھیوں کی خواہش تھی کہ اس رئیس زادی کو چھوڑ دیا جائے۔ نبی کریمؐ کے پوتے کی مانند حضرت زید ؓ بن حارث کے بیٹے اسامہؓ بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ ’’تم سے پہلے کی قومیں اس لیے برباد ہوئیں کہ وہ غریب کو سزا دیتے تھے اور امیر کو چھوڑ دیتے تھے‘‘۔

امیر کے لیے قانون کے علاوہ تعلیمی ادارے، اسپتال، ہوٹل، بستیاں، سواری، پانی اور خوراک تک الگ ہوگئے ہیں۔ اس دور پر آشوب میں کمزور پر ظلم نہ کرنے کی تیسری وجہ کو ضرور یاد رکھا جانا چاہیے۔ اگر سامنے والا کمزور ہے اور قانون بھی کچھ نہیں بگاڑسکتا تو مکافات عمل یا روز قیامت یا خوف خدا یا قدرت کا قانون کسی بھی شخص کو ظلم سے روکنے کی بن جاتا ہے تیسری وجہ۔

The post تیسری وجہ appeared first on ایکسپریس اردو.

آرکیالوجی پولیس …اور خالص دودھ

$
0
0

قصہ تو آپ نے یقیناً سنا ہو گا بڑا مشہور قصہ ہے بلکہ ممکن ہے خود آپ پر یا آپ کے اردگرد یہ قصہ وقوع پذیر ہوا بھی ہو، بلکہ یہ جو سامنے ہماری سرکار، سرکاری محکمے اور محکموں کے اہل کار ہیں سب اس کہانی کے کردار ہیں، کہتے ہیں ایک شخص نے خالص دودھ کے لیے بھینس خریدی، اس احمق کو یہ پتہ ہی نہیں کہ خالص دودھ صرف کٹے یا بچھڑے ہی ہضم کر سکتے ہیں اور یہ انھی کا نصیبہ ہوتا ہے جو انسان ان سے چھین لیتا ہے اب چھینی ہوئی چیز میں خالص اور ناخالص کیا، لیکن اس شخص نے یہ سعی لاحاصل کی۔

اس کے بعد کی کہانی ہر کسی کو معلوم ہے کہ خالص دودھ کے شوق میں اسے تین چار نوکر بھی رکھنا پڑے اور دودھ پتلا ہوتے ہوتے خالص پانی ہو گیا، ویسے تو تازہ ترین خبر یہ ہے کہ صوبائی حکومت کو محکمہ آثار قدیمہ نے ایک ’’آرکیالوجیکل‘‘ پولیس قائم کرنے کی تجویز دی ہے کیونکہ آثار قدیمہ کی نوادرات کی چوری بہت زیادہ ہونے لگی ہے یہ آرکیالوجیکل پولیس کیسی ہو گی  یہ بھی  ہمیں خوب پتہ ہے کہ یہ پولیس کرے گی کیا؟

وہی کرے گی جو خالص دودھ والے کے ملازمین کرتے تھے، سوال اب یہ ہے کہ کیا آثار قدیمہ والوں کو یہ پتہ نہیں ہو گا کہ اگر ایسا ہو گا تو پھر کیا ہو گا کیسا ہو گا اور کتنا ہو گا یہ تو سیدھی سیدھی حصہ دار بنانے والی بات ہے، کیا آثار قدیمہ والے اتنے بھولے اور معصوم ہیں کیا ان کو ملک کے ہر سرکاری اسٹیج پر یہ دودھ والا ڈرامہ اسٹیج ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا؟ خیر یہ تو دیکھیں گے لیکن پہلے ایک پرانی کہانی … جنرل ضیاء کا دور حق تھا اور صوبے میں ایک اسمبلی شروع ہوئی تھی جو نان پارٹی الیکشن کے تحت وجود میں آئی تھی۔

ایک دن اس اسمبلی کا اجلاس چل رہا تھا اب اس ممبر نے اسمبلی میں سوال اٹھایا کہ صوبے میں نکلنے والی آثار قدیمہ کو وسیع پیمانے پر بیچا جا رہا ہے اور اس کی نقلیں تیار کر کے ان کی جگہ رکھی جاتی ہیں، زیادہ تر قیمتی اشیاء کی جگہ نقلی اشیاء پڑی ہیں اور اصلی نوادرات بیرون ملک بیچی جا چکی ہیں، حکومت اس قومی ورثے کی حفاظت کے لیے کچھ کرے اس پر اچانک ایک دینی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ممبر کی رگ پھڑکی اپنی قراقلی سر پر رکھی اور بول پڑے… یہ آثار قدیمہ وغیرہ ہمارا قومی ورثہ نہیں ہے یہ کفر کی نشانیاں ہیں ہمارا ورثہ اسلام ہے … اسلامی، اسلامی، اسلامی … اور پھر ساری بات ہی اسلامی ہو کر ختم ہو گئی۔

دیر سے تعلق رکھنے والے اس ڈاکٹر ممبر کی وجہ سے گویا اس چوری کو کھلی چھٹی مل گئی، اب معلوم نہیں کہ واقعی وہ اسلامی جذبے سے سرشار تھے یا کہیں خود بھی اس معاملے میں شامل تھے لیکن اتنا ہوا کہ بات آئی گئی ہو گئی … اور اب یہاں تک پہنچ گئی کہ اس کے لیے الگ سے پولیس رکھنے کی بات ہو رہی ہے جو اس سے بھی بڑی غلطی ہو گی بھلا کبھی بلیوں نے بھی گوشت کی چوکیداری کی ہے … کہ اس پولیس میں کسی باہر کے ملکوں سے لوگ بھرتی کیے جائیں، انھی وزیروں، کونسلروں اور افسروں  کے لوگ ہی بھرتی ہوں گے، ایک اور بات یاد آ رہی ہے بلکہ بہت بڑی تاریخ بھی ہے۔

خلیفہ مامون الرشید نے جب بغداد میں دارالخلافہ  قائم کیا بڑے بڑے عالم جمع کیے اور علم کی ہر جہت پر تحقیق تدقیق کا کام شروع ہوا تو یونانی کتابوں کے تراجم بھی ہونے لگے، مسئلہ ان قدیم علمی یونانی کتابوں کا حصول تھا چنانچہ مامون نے بازنطینی بادشاہ کو خط لکھا کہ یونانی کتب فراہم کرے کیونکہ اس وقت یونان بازنطینی سلطنت میں شامل تھا، کتابوں کی جستجو ہوئی کہ عیسائی پادریوں نے ان کتابوں کو بڑے پیمانے پر جلایا ہے۔

بازنطینی بادشاہ کو تشویش ہوئی کہ اگر میں یہ کام نہ کر سکا تو بڑی سبکی کی بات ہو گی چنانچہ اس نے یونانی کتابوں کے لیے انعام کا اعلان کیا اس پر ایک بوڑھے پادری نے سراغ دیا کہ فلاں گرجے کے تہہ خانے میں یونانی کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے، واقعی ایسا ہی تھا لیکن اب یہ سوال اٹھا کہ یہ کتابیں مسلمانوں کو دی جائیں یا نہیں آخر پادریوں نے فیصلہ کیا کہ یہ ’’کفری کتابیں‘‘ ہیں بہتر ہے کہ مسلمانوں کو دی جائیں تا کہ ان کا دین بھرشٹ ہو جائے، اس طرح یونان کا بے مثل علمی خزانہ ’’بدنیتی‘‘ سے مسلمانوں کو دے دیا گیا۔

بیت الحکمت میں ان کے ترجمے ہوئے شرحیں لکھی گئیں اور یوں مسلمان اس علمی دور زرین کے مالک ہو گئے کہ دنیا کے علوم کا مرکز بغداد بن گیا، بڑے بڑے فلسفی سائنس دان، کیمیا دان، طبیب، ماہرین فلکیات پیدا ہوئے، یہ وہی دور زرین ہے جسے یاد کر کر کے مسلمان آج بھی روتے ہیں کیونکہ مسلمانوں میں جب دین مسجد تک رہ گیا تو وہ سارا علمی خزانہ یورپ منتقل ہوا اور وہاں موجودہ نشاۃ ثانیہ کا باعث بنا۔

آج ہم اس دور کے نوحے پڑھ پڑھ امید لگائے بیھٹے ہیں کہ پھر کوئی آئے گا اور ایک انگلی کے اشارے پر وہ ہماری کھوئی ہوئی عظمت رفتہ ہماری جھولی میں ڈال دے گا اور ہم پھرذرا بھی انگلی ہلائے پسینہ بہائے اور علم و عمل کے بغیر پھر ساری دنیا پر چھا جائیں گے یا علامہ اقبال کے مرد مومن نسیم حجازی کے مجاہد تلوار سونت کر ساری دنیا کو کان پکڑوا دیں تمام کفرستانی شہزادیاں اسلامی مجاہدوں کا انتظار کریں گی کہ کب وہ آئے اور وہ اپنی زیورات کی پوٹلی باندھ اس کے پیچھے گھوڑے پر سوار ہو جائیں گی اور اس مرد مجاہد کے دست حق پرست پرمشرف بہ اسلام ہو کر ان کے حبالہ عقد میں جا کر جلوہ کثرت فرزندان اسلام دکھانا شروع کر دیں گی۔

ایسے تمام لوگوں کے لیے ہمارے پاس ایک خبر ہے کہ بیٹھے رہیئے تصور جانان کیے ہوئے یا اپنے آباؤ اجداد کے کارناموں کی کہانی سنتے سناتے رہیئے یا ایک دوسرے کو گلے سے پکڑیئے، اسلام کے دائرے سے نکالیے بلکہ دنیا ہی سے دفع دور کر دیجیے تو حوران خوش ادا اور غلمان خوش نما ملنے کی بھی امید ہے،بلکہ ہمیں تو شبہ ہے کہ شاید یہ جو راہداریاں بن رہی ہیں یہ اسی مجاہدکی آمد کی تیاریاں ہوں۔ آرکیالوجی پولیس کے فوائد پتہ نہیں کتنے کتنے اور کہاں تک ہوں گے لیکن خبر میں دو بہت بڑے بڑے فوائد بتائے گئے ہیں ایک تو یہ کہ تاریخی مقامات کی حفاظت اور غیر قانونی کھدائی بند ہو جائے گی اور نوادرات کی غیر قانونی اسمگلنگ ختم ہو جائے گی، اور یہ بات ایک سو چار فیصد درست ہے کیونکہ یہ کام پھر ’’قانون‘‘ کے سائے میں اچھے خاصے اطمینان سے ہوں گے۔

منطقی بات ہے جو کام پولیس کی نگرانی میں ہو گا وہ سو فیصد قانونی ہو گا جن میں چوری کھدائی اور اسمگلنگ سبھی کام شامل ہیں، بلکہ ہمارا تو خیال بلکہ یقین ہے کہ اب یہ جو چھپ چھپا کر یہ کام کیے جاتے ہیں بڑے سست رفتار ہیں پھر اس میں باقاعدگی اور اچھا خاصا اضافہ ہو جائے گا، کیجیے بلکہ جتنی جلد ہو سکے یہ کام کر لیجیے تاکہ چوری کا کوئی ’’کٹھکا‘‘ ہی نہ رہے اور دن کو لٹنے والے رات کو آرام سے اور رہزن کو دعائیں دیتے ہوئے سونا شروع کر دیں۔

جہاں پولیس اور قانون آجائے پھر تو وہاں راوی چین ہی چین لکھتا ہے بھلا قانون اور پولیس کے سائے میں جو کام ہو گا وہ ناجائز اور غلط کیسے ہو سکتا ہے اور پھر اس شدید بیروزگاری کے عالم میں وزیروں،کونسلروں اور سرکاریوں کے پاس ڈھیر ساری افرادی بلکہ انتخابی قوت بھی موجود ہے الیکشن بھی قریب آرہا ہے ایسے میں کسی نئے ’’وسیلے‘‘ کی دستیابی نہایت ہی کامیابی کی راہ ہے، ’’خالص دودھ‘‘ تو کٹوں اور بچھڑوں کا نصیبہ ہوتا ہے انسان کیسے خالص دودھ ہضم کر سکتا ہے۔

The post آرکیالوجی پولیس …اور خالص دودھ appeared first on ایکسپریس اردو.

سی پیک کے پاکستان کے لیے فواید

$
0
0

ماضی کی شاہراہ ریشم، حال کا سی پیک یعنی پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ۔ اس کے لیے ہمیں ماضی میں جانا پڑے گا جب پاکستان چین دوستی کی ابتدا ہوئی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب چین پر پوری دنیا کے دروازے بند تھے کیونکہ چین میں کمیونسٹ انقلاب برپا ہو چکا تھا۔ چنانچہ ہر طرح کی ملکی دولت اور وسائل پیداوار جو کچھ لوگوں اور گروہوں کی ملکیت تھے۔ اسے عوام کی ملکیت بنا دیا گیا۔

جب یہ عوامی دولت عوام پر خرچ ہونے لگی تو صدیوں سے پس ماندہ بھوکے ننگے عوام بھی ترقی کرنے لگے۔ چنانچہ یہ انقلاب گردن زدنی قرار پایا عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے سرخیلوں کی نظر میں۔ چنانچہ عالمی سرمایہ داری نے اس کے خلاف ہر طرح کا پروپیگنڈا کیا۔ ہر برائی اور خرابی اس سے منسوب کی گئی۔ تاکہ برصغیر سے لے کر مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید کے عوام سامراج غلامی سے نجات نہ حاصل کر لیں۔

چین پر یہ بڑا کٹھن وقت تھا۔ اس اانقلاب کو ناکام بنانے کے لیے ہر طرح کی سازش کی گئی۔ لیکن چینی عوام ماؤزے تنگ اور ان کے ساتھی چواین لائی کی قیادت میں متحد تھے چنانچہ ہر سازش ناکام ہوئی اور چینی عوام اور ان کی قیادت ہر آزمائش میں سرخرو ہوئی۔جب چین عالمی تنہائی کا شکار تھا پاک چین دوستی کی ابتدا ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب دور میں چین کا دورہ کیا جب وہ پاکستان کے وزیر خارجہ تھے۔

کہا جاتا ہے کہ پاک چین دوستی کی بنیاد رکھنے والے بھٹو تھے۔ انھوں نے جان لیا تھا کہ چین پاکستان کی مستقبل سازی اور سالمیت کی حفاظت میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے اس وقت سرد جنگ شروع ہوئی تھی اور دنیا دو بلاکوں میں بٹ رہی تھی۔ ایک طرف امریکی کیمپ تھا تو دوسری طرف روسی بلاک۔ امریکی بلاک دنیا کے سرمایہ دار ملکوں اور ان کے طفیلوں پر مشتمل تھا۔ پاکستان امریکی بلاک کا حصہ تھا، آج بھی ہے۔ جب کہ روسی بلاک میں وہ ممالک اور مظلوم اقوام شامل تھیں جو سامراجی غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے تھے۔ پاکستان امریکی کیمپ کا حصہ ہونے کے باوجود کمزوری اور غیریقینی صورتحال کا شکار تھا۔

بھارت کے مقابلے میں اس کمزوری کو دور کرنے کے لیے پاکستان نے امریکا کی ہر طرح کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی یہاں تک کہ سوویت یونین کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کیا۔ اپنے ملک کو میدان جنگ بناتے ہوئے خود کو دہشتگردوں اور دہشتگردی کا عالمی مرکز بنا لیا۔ لیکن ان سب قربانیوں اور خدمت گزاریوں کے باوجود امریکا کا جو جھکاؤ بھارت کی طرف ہی رہا۔ ایک طرف پاکستان اپنے قیام سے ہی امریکا کی خوشنودی حاصل کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتا رہا تو دوسری طرف امریکا اور سوویت یونین بھارت کی خوشنودگی حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے بازی لے جانے میں مصروف رہے۔

سوویت یونین کے خاتمے سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ عالمی سرمایہ داری نے سوشلزم کو شکست دے دی۔ سرمایہ دارانہ نظام کا پوری دنیا پر غلبہ ہو گیا اور دنیا کے ممالک جوق در جوق کھلی منڈی کی معیشت کو اپنانے لگے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے نتیجے میں دنیا کی کل دولت کا نصف سے زائد حصہ چند درجن افراد کی ملکیت بن گیا۔ اس ظالمانہ ارتکاز کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج دنیا میں اربوں لوگ رات کو بھوکے سونے پر مجبور ہیں۔چین اب عالمی سرمایہ داری نظام کا ناگزیر حصہ ہے۔ ایسا حصہ جس کے بغیر اس نظام کا چلنا مشکل ہے۔

چین کے امریکا یورپ جاپان اور دیگر مغربی ممالک سے تضادات ہو سکتے ہیں لیکن سرمایہ داری نظام سے نہیں۔ روس میں جہاں کمیونزم سوشلزم کا تجربہ ہوا۔ اب وہاں سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے۔چین امریکا کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ اس کی تیز رفتار معاشی ترقی نے جاپان جرمنی سمیت دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ سی پیک قدیم ترین شاہراہ ریشم کا جدید ترین تصور ہے جس کے ذریعے چین اپنی پیداوار کو سینٹرل ایشیا بحیرہ روم اور یورپ تک پہنچانا چاہتا ہے۔ چین کی معاشی ترقی سے یورپ جاپان اور خاص طور پر امریکا کی معاشی بالادستی خطرے میں پڑ گئی ہے۔

یہ معاشی جنگ ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے کھیل کا حصہ ہے۔ اپنی گرتی ہوئی شرح پیداوار کی وجہ سے چین کے منصوبہ سازوں نے کمال کا منصوبہ سی پیک معاشی راہداری کی شکل میں بنایا تاکہ اس کی پیداوار کم ترین لاگت میں دنیا کے دوسرے حصوں تک پہنچ سکے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ گوادر بندر گاہ استعمال کرنے سے چین کو روزانہ 6 ملین ڈالر کی بچت ہو گی اور چین کا اس بندر گاہ کو استعمال کرنے سے خلیجی ممالک سے جہاں سے وہ اپنی بیشتر تیل کی ضروریات پوری کرتا ہے سے فاصلہ 12500 کلو میٹر (اور 45 دن پر تیل چین پہنچنے میں لگتے ہیں اب دس دن لگیں گے) سے صرف ڈھائی ہزار کلو میٹر رہ جائے گا۔ یعنی چین پاکستانی معاشی راہداری استعمال کر کے ناقابل بیان ان گنت معاشی اور اسٹرٹیجک فوائد حاصل کرے گا۔ جب کہ پاکستان کو بھی اس سے فوائد حاصل ہوں گے، لیکن چین کے مقابلے میں بہت کم۔

سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان میں لوٹ مار کرپشن کا جو نظام رائج ہے اس کی موجودگی سی پیک کے فوائد پاکستانی عوام کو بھی حقیقی معنوں میں مل سکیں گے یا حکمران طبقات اور ان کے طفیلیے گروہ ہی فیضیاب ہوں گے۔ پاکستانی عوام کو یہ جاننا چاہیے کہ پاک چین معاشی راہداری واحد نہیں بلکہ چین دنیا میں ایسی مزید 5 معاشی راہداریاں قائم کر رہا ہے۔

پاک چین اقتصادی راہداری کی سرمایہ کاری میں 35 ارب ڈالر امداد نہیں بلکہ یہ قرضے کی شکل میں پاکستان کو دیے گئے ہیں جو بالآخر پاکستانی قوم اور ان کی نسلوں کو سود سمیت واپس کرنے ہیں۔

چین ایک ابھرتا ہوا سامراج ہے جو امریکا کی جگہ لینے جا رہا ہے۔ ہمیں سی پیک کے صرف مثبت رخ کو ہی سامنے نہیں رکھنا چاہیے بلکہ یہ بھی دیکھنا ہے کہ ہماری معیشت چین کے کسی حد تک کنٹرول میں آئے گی اور اس کے اثرات پاکستانی سیاست اور سماج پر کتنے پڑیں گے۔

پانامہ لیکس کے حوالے سے اہم تاریخیں 16-13-12-9تا 18 جنوری۔

 

The post سی پیک کے پاکستان کے لیے فواید appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان کا ریٹائرمنٹ کلچر

$
0
0

میں اب پریشان ہوں کہ راحیل شریف کو ریٹائرڈ جنرل لکھوں یا نہیں۔ اخباری خبر کے مطابق وہ تو دوبارہ جنرل بن گئے ہیں۔ اس لیے اب کیا انھیں ریٹائرڈ لکھا جا سکتا ہے۔ یہ بھی کوئی اہم بات نہیں کہ انھوں نے نئی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ تقریباً تمام ریٹائرڈ جنرلز کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں‘ جو لوگ ان کی نئی ذمے داری پر اعتراض کر رہے ہیں ‘ کیا ان کے سامنے تمام ریٹائرڈ جنرلزکی موجودہ ذمے داریوں کی فہرست نہیں ہے۔ کتنے سیاست میں ہیں‘ کتنے میڈیا میں ہیں‘ کتنے رئیل اسٹیٹ ٹائیکونز کے ساتھ ہیں۔

صورتحال یہ ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی ریٹائر ہونے کو تیار نہیں۔ یہ صورتحال صرف ریٹائر فوجی افسران  کے ساتھ نہیں بلکہ سیاستدان ‘جج ‘وکیل ‘ڈاکٹر سمیت کوئی بھی ریٹائر ہونے کے لیے تیار نہیں۔ اب سابق صدر آصف زرداری کی مثال ہی لے لیں ‘وہ اس ملک کے صدر رہے ہیں لیکن اب ایک عام رکن اسمبلی بننے کے لیے بیتاب ہیں۔ اس سے پہلے سابق صدر فاروق لغا ری بھی ایسا کر چکے ہیں۔ حالانکہ جناب آصف زرداری کو فاروق لغاری کی مثال سامنے رکھنی چاہیے تھی کہ صدر بننے کے بعد ایک عام رکن اسمبلی بننے سے ان کی عزت و وقار میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا۔ اسی طرح وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر فائز رہنے کے بعد بھی عام رکن کے طور پر اسمبلی پہنچنے والوں کی لمبی لائن ہے۔ ان میں سے کوئی بھی ریٹائر ہونے کے لیے تیار نہیں۔

اسی طرح جج بھی ریٹائر ہونے کے لیے تیار نہیں۔ جج کے منصب سے ریٹائر ہونے کے بعد دوبارہ نوکری کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ٹربینولز اور کئی جگہ ریٹائرڈ ججز نظر آتے ہیں۔ اسی طرح ریٹائرڈ ججز کی پرائیوٹ پریکٹس کس حد تک جائز ہے‘ یہ بھی اپنی جگہ ایک سوال ہے۔

ججز کا منصف سے وکیل بننے کا عمل بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ جج بھی ریٹائرمنٹ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وکلا اور ڈاکٹر تو ریٹائرمنٹ پر مکمل طور پر یقین نہیں رکھتے بلکہ جب تک نبض چلتی ہے کام چلتا ہے کے مصداق یہ کام کرتے ہیں۔ بیورو کریٹس کی صورتحال نسبتاً مختلف ہے۔ ان کے لیے سیاست میں آنے کے راستے تو کھلے ہیں لیکن شاید ریٹائرمنٹ کے بعد کسی خود مختار ادارے میں کنٹریکٹ ان کی واحد منزل سمجھی جاتی ہے۔

جہانگیر کرامت ایک امریکی تھنک ٹینک میں کوئی ذمے داری نبھا رہے ہیں۔ پرویز مشرف بھی اس کا اقرار کر چکے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں سعودی حکومت سے رقم ملی ہے۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں کوئی فری لنچ نہیںدیتا۔ مرزا اسلم بیگ بھی ایک این جی او چلاتے رہے ہیں۔ جنرل (ر) پاشا بھی ریٹائرمنٹ  کے بعد متحدہ عرب امارات کی حکومت کی ملازمت کرتے رہے ہیں۔ بیسیوں اور مثالیں بھی ہیں۔

ایسی صورتحال میں راحیل شریف اعتراض درست نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی اس کے کئی ایسے پہلو ہیں۔ جس پر بات ہو سکتی ہے مثلاً اگر آج ہمارے ایک ریٹائرڈ سپہ سالار مسلم فوجی اتحاد کے سربراہ بن سکتے ہیں تو کیا دیگر ریٹائرڈ جنرلز اور فوجی افسران کو دیگر ممالک کے حوالے سے ایسی اجازت دی جا سکتی ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ کیا راحیل شریف نے اپنی عزت و وقار میں اضافہ کیا ہے یا کمی۔ سوال یہ بھی ہے کہ راحیل شریف کی نئی ذمے داری سے پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا۔ صرف ان کا عہدہ سنبھالنا پاکستان کے لیے بظاہر کوئی بڑے خسارے کی بات نہیں ۔ البتہ یہ ان کی ذ اتی کامیابی ہو سکتی ہے۔ اس ضمن میں ایک دوست کا کہنا ہے کہ یہ تو دوسری جنگ عظیم والی بات ہو گئی جب انگریز نے ہندوستان سے فوج بھرتی کی تھی۔ جس نے سلطنت برطانیہ کی جنگ لڑی تھی۔ لیکن اس کا ہندوستان کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ کیا راحیل شریف کے عہدہ سنبھالنے سے سعودی عرب میں پاکستانیوں کے لیے ویزوں میں آسانی ہو گی۔ کیا پاکستانیوں کو بھارتیوں پر ترجیح دی جائے گی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں ریٹائرمنٹ کے حوالہ سے سخت قانون سازی کی جائے۔ تا کہ اعلیٰ مقام پر پہنچ کر ریٹائر ہونے والے افراد کو کسی قواعد و ضوابط کا پابند بنایا جائے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد کونسا کام کر سکتے ہیں اور کونسا نہیں۔ یہ طے ہونا چاہیے۔ ریٹائرڈ جج کیسے بطور وکیل پریکٹس کر سکتا ہے۔ صدر اور وزیر اعظم کے عہدہ پر پہنچ جانے والے سیاستدانوں کے لیے بھی ریٹائرمنٹ کے اصول ہونے چاہیے۔

پاکستان میں اس وقت کوئی بھی کسی بھی عہدہ یا معراج پر پہنچ جانے کے بعد بھی ریٹائر ہونے کے لیے تیار نہیں۔ ایسا لگتا کوئی منزل پر پہنچ کر کے بھی آرام کرنے کو تیار نہیں۔ کوئی نئی نسل کے لیے راستہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ دنیا بھر میں ریٹائرمنٹ کے حوالہ سے قواعد و ضوابط موجود ہیں۔ مغربی ممالک میں ایک دفعہ سربراہ مملکت بن جانے کے بعد ریٹائرمنٹ کا تصور ہے۔

امریکا میں صدر بن جانے کے بعد گھر بیٹھنے کا تصور ہے۔ لوگ فلاحی کام کرتے ہیں۔ دوبارہ منفعت بخش عہدوں کی تلاش میں نہیں پھرتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھی بڑے بڑے عہدوں سے ریٹائر ہونے والوں کو یہ سمجھائیں کہ وہ نوکریوں کی تلاش کے بجائے فلاحی کاموں پر توجہ دیں۔ لوگوںکو  یہ بات سمجھانی ہو گی کہ وہ واقعی ریٹائر ہو گئے ہیں۔ مصیبت یہی ہے کہ یہاں کوئی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ وہ ریٹائر ہو گیا ہے۔

The post پاکستان کا ریٹائرمنٹ کلچر appeared first on ایکسپریس اردو.

بے حسی کے اس ماحول میں

$
0
0

سمجھ میں نہیں آ رہا کہ گفتگو کا آغاز کہاں سے کیا جائے۔ مسئلہ ایک ہو تو بات کی جائے، یہاں تو مسائل کا انبار ہے۔ ہر صبح ابھی سابقہ مسئلہ حل نہیں ہو پاتا کہ ایک نیا مسئلہ سر اٹھائے کھڑا ہوتا ہے۔ وجہ ایک نہیں درجنوں ہیں۔ ایک طرف فرسودہ نوآبادیاتی نظام حکمرانی کا تسلسل، جو سیاسی، سماجی اور معاشی پسماندگی کا ایک بنیادی سبب ہے۔

دوسری طرف سماجی ڈھانچے میں پیوست اشرافیائی کلچر کی مضبوط جڑیں ہیں، جنھوں نے عام آدمی کو ان کے جمہوری اور شہری حقوق سے محروم کر رکھا ہے۔ تیسری طرف خواندگی کی تشویشناک حد تک کم شرح نے عوام کو سوچنے سمجھنے سے محروم کر رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اشرافیائی کلچر کے چنگل سے نکل نہیں پا رہے۔ ان کے علاوہ ان گنت دیگر اسباب بھی ہیں جو ملک و معاشرے کو فرسودگی اور زوال آمادگی کی جانب دھکیلنے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ کسی ایک اظہاریہ میں ان کا احاطہ ممکن نہیں، بلکہ ہر ایک مسئلہ کئی کئی اظہاریوں کا متقاضی ہے۔

ایک ایسے ماحول میں جہاں حکمرانوں اور صاحب الرائے افراد کی آنکھوں پہ چربی کی دبیز تہیں جمی ہوں، کانوں میں روئی ٹھنس چکی ہو، ملک کے طول و عرض سے محکوم، مظلوم اور محروم طبقات کی ابھرنے والی چیخیں نہ ایوانوں کو ہلاتی ہیں اور نہ ہی عام آدمی کے دل پہ کوئی اثر کرتی ہیں۔ کیونکہ یہ چیخیں روز کا معمول  ہیں۔ یہ اس ملک کے قبائلی اور جاگیردارانہ اشرافیائی کلچر کا حصہ ہیں۔ آج کل اسلام آباد میں ایک لڑکی طیبہ پر ایک سیشن جج کی بیگم کی جانب سے ہونے والے تشدد اور ایذا رسانی کا ذرایع ابلاغ میں چرچا ہے۔

عدالت عظمیٰ نے اس واقعے کا ازخود نوٹس لے لیا ہے۔ مگر جج صاحب منصفی کی مسند پر بدستور براجماں ہیں، ان کی بیگم بھی کسی حوالات کے بجائے اپنی پرتعیش خواب گاہ میں پرسکون نیند کے مزے لے رہی ہیں۔ کیونکہ انھیں یقین ہے کہ وہ جس اشرافیائی کلچر کا حصہ ہیں، وہ انھیں صاف بچا لے جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے چند سکوں کے عوض اس ستم رسیدہ لڑکی کے والدین کا منہ بند کرنے کی بھی کوشش کی۔

یہ ایک واقعہ ہے، جو وفاقی دارالحکومت میں رونما ہوا۔ بڑے شہروں میں ہونے والے ایسے قبیح واقعات ذرایع ابلاغ کے ذریعے مشتہر ہو جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اکثر دودھ میں کچھ ابال آ جاتا ہے، مگر پھر وہی ڈھاک کے تین پات، یعنی جلد ہی سرد خانوں میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ کراچی میں ہونے والے نوجواں کے قتل کی داستانیں بھی قصہ پارینہ ہوئیں۔ جلد ہی محمد میاں سومرو کے بھانجے کے قتل کی داستان بھی داخل دفتر ہو جائے گی۔ اشرافیہ کے ہاتھوں میں دولت اور اقتدار و اختیار کی لگامیں ہیں، جب کہ غریبوں کی اپنی مجبوریاں ہیں۔ جو انھیں بااثر افراد کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

اس قسم کے واقعات روز کا معمول ہیں، جو ملک کے طول وعرض میں صبح و شام رونما ہوتے رہتے ہیں۔ غربت و افلاس کی چکی میں پسے خاندان، جن کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول جوئے شیر لانے سے کم نہیں، ہر وقت حکمران اشرافیہ اور اہل ثروت کی ذہنی اور جسمانی ایذارسانی کا شکار رہتے ہیں، کیونکہ یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ یہ انسان نہیں بلکہ گندی نالیوں میں پلنے والے کیڑے مکوڑے ہیں۔ ان کا کام ہی اہل زر کی جوتیاں سیدھی کرنا اور کھانا ہے۔ اس لیے انھیں اہمیت دینے اور مساوی شہری سمجھنے کی کسی کو کیوں فکر ہو؟ ان کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی پر کسی کی آنکھ سے کیونکر آنسو ٹپکے؟

یہی وجہ ہے کہ جب کبھی ذرایع ابلاغ کی وجہ سے کوئی واقعہ، کوئی سانحہ منظر عام پر آ جاتا ہے، تو کچھ دے دلا کر معاملہ دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان 70 برسوں کے دوران کوئی ایک مثال ایسی نہیں ہے جب گھریلو ملازمین کے ساتھ جنسی زیادتی یا ایذا رسانی پر کسی بااثر شخصیت یا اس کے اہل خانہ کو سزا ملی ہو۔

دراصل پاکستان ایک ایسا ملک بن چکا ہے، جو تمامتر قدرتی اور انسانی وسائل رکھنے کے باوجود معاشی بدحالی، سیاسی انتشار اور سماجی بے راہ روی کا اس لیے شکار ہے، کیونکہ اس پر نااہل، خودغرض اور کوتاہ بین اشرافیہ کے پنجے بری طرح گڑے ہوئے ہیں۔ جو عوام کو اپنا زر خرید غلام سمجھتے ہیں۔ وہ ایک ایسے نظام کا خاتمہ کیوں چاہیں گے، جس کی وجہ سے اقتدار پر ان کی گرفت قائم ہے۔ وہ کیوں چاہیں گے کہ ملک میں تعلیم عام ہو اور قانون کی بالادستی قائم ہو۔ وہ کب چاہیں گے کہ وہ لوگ جو ان کے دست نگر ہیں، ان کی ہمسری پر اتر آئیں۔

بیشتر بااثر اراکین اسمبلی برملا کہتے نظر آتے ہیں کہ ’’تعلیمی نظام بہتر بنا کر کیا ہم اپنے غلاموں کو اپنے سروں پہ مسلط کر لیں؟ کیا اپنے ووٹروں کو اپنے خلاف کھڑا ہونے کا حوصلہ بخش دیں؟‘‘ یہی وہ مائنڈ سیٹ ہے، جو ملک میں عوامی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اسی طرز عمل کی وجہ سے تعلیمیافتہ نوجوان ملک چھوڑ کر دیگر ممالک کا رخ کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

کیا یہ مضحکہ خیز بات نہیں کہ ایک ایسی ریاست جسے امور مملکت چلانے کے لیے ہر چند ماہ بعد عالمی مالیاتی اداروں کے آگے کاسہ گدائی پھیلانا پڑتا ہو، بینکوں سے قرضے اور دوست ممالک سے امداد لینے کی ضرورت پڑتی ہو۔ اس کے منتخب نمایندوں کی بلٹ پروف لینڈ کروزرز ایوان نمایندگان کے سامنے قطار اندر قطار کھڑی ہوں۔ وہ ملک جس کی 40  فیصد سے زائد آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو، بیروزگاری اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہو اور اجرتیں اتنی قلیل ہوں کہ عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا محال ہو۔ وہاں حکمران اشرافیہ کے اللے تللوں کا یہ عالم ہو کہ ایوان وزیراعظم کے بیت الخلا اور غسل خانوں کی تزئین و آرائش کے لیے 24 کروڑ مختص کیے جائیں، جب کہ وزرا اور دیگر اہلکاروں کے اخراجات کا کوئی حساب نہ ہو۔

آج اورنج ٹرین کی پٹریاں بچھائی جانے اور میٹرو بسوں کے ٹریک بنائے جانے کو ترقی کہا جا رہا ہے، مگر تعلیمی ادارے، جو ترقی کی پہلی سیڑھی ہوتے ہیں، بدترین زبوں حالی کا شکار ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اورنج ٹرین اور سڑکوں کی تعمیر میں بھاری کمیشن ملتا ہے، جب کہ اسکول، کالج اور اسپتال کی تعمیر سے وہ منافع نہیں ملتا، جو حکمرانوں کی ہوس زر کی تسکین کر سکے۔ پھر جن کے اپنے بچے بیرون ملک اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہوں، جن کے بارے میں یہ یقین ہو کہ بالآخر انھوں نے ہی آگے چل کر اقتدار سنبھالنا ہے، تو پھر عام آدمی کے لیے بہتر تعلیم کی کسی کو کیا پرواہ ہو سکتی ہے۔

ملائشیا ہم سے دس برس بعد آزاد ہوا (31 اگست 1957ء)۔ تنکو عبدالرزاق (موجودہ وزیراعظم کے والد) نے کئی اہم فیصلے کیے جنھیں عملی جامہ مہاتیر محمد نے پہنایا۔ پہلا فیصلہ تعلیم کو A لیول تک مفت کرنا تھا، جس نے ہر امیر و غریب کی رسائی تعلیم تک کر دی اور محض 15 برسوں میں تعلیم کی شرح میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ دوسرا اقدام یہ کیا کہ وہ ٹیکنالوجی، جو جاپان چھوڑ رہا تھا، اسے مستعار لے کر اپنی معیشت (جس کا انحصار کبھی پام آئل اور ربر پلانٹس پر ہوا کرتا تھا) کو صنعتی بنانے کی طرف راغب کیا۔ یوں ملائشیا 1990ء کے عشرے میں ایک تیزی سے ترقی کرتا ہوا صنعتی ملک بن گیا۔ یہی قصہ انڈونیشیا کا ہے، جس نے جنرل سوہارتو سے جان چھڑانے کے بعد تیزی کے ساتھ ترقی کی ہے اور ایشیا کی چوتھی مضبوط معیشت بن چکا ہے۔

مگر ہماری حکمران اشرافیہ اس ملک کو فیوڈل کلچر اور نوآبادیاتی طرز حکمرانی سے نکلنے ہی نہیں دے رہی کہ کوئی اور راہ اختیار کی جا سکے۔ کیونکہ ان کے اقتدار کی بقا اسی میں ہے کہ فیوڈل اور برادری کلچر کو برقرار اور نوآبادی طرز حکمرانی کے ذریعے عوام کو کنٹرول میں رکھا جائے، جب کہ پاکستان کی مڈل کلاس اور اہل دانش موقع پرست اور منافق ہیں، جو مختلف مصلحتوں کو بہانہ بنا کر اپنا الو سیدھا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس لیے ملک میں مفلوک الحالی، غربت اور افلاس کے خاتمے کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آ رہے۔ لہٰذا ستم رسیدہ محروم طبقات کے بچے اور بچیاں اسی طرح بااثر اشرافیہ کی جنسی ہوس اور جسانی ایذا رسانی کا شکار ہوتے رہیں گے۔ جب کبھی کوئی باضمیر صحافی ان کی چیخوں کو سینہ قرطاس پر منتقل یا نشر کردے گا، تو معاشرے میں تھوڑا سا ابال آجائے گا، مگر پھر ظلم و جبر کی وہی سیاہ رات ان مسکینوں کا مقدر ہو گی۔ کیونکہ حق و انصاف کی صبح صادق ابھی بہت دور ہے۔

The post بے حسی کے اس ماحول میں appeared first on ایکسپریس اردو.

وہ کام جو حکمران آسانی سے کر سکتے ہیں

$
0
0

کراچی سندھ کا ہی نہیں بلکہ پاکستان کا بھی سب سے بڑا شہر ہے جہاں ڈھائی کروڑ کے لگ بھگ انسان رہتے ہیں، یہ شہر بے شمار مسائل سے دوچار ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ کسی حکومت نے عوامی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کوئی حکومت، کسی شعبے کے ماہرین، اعلیٰ منصوبہ سازوں اور مسائل کا درست ادراک رکھنے والوں کی خدمات حاصل کرنے کی زحمت نہیں کرتی۔

ترقی یافتہ ملکوں میں ہر شعبۂ زندگی کے ماہرین تھنک ٹینکوں کی شکل میں موجود ہوتے ہیں، جو حکومتوں کو اہم قومی مسائل سے آگاہ بھی کرتے ہیں اور انھیں حل کرنے کی پالیسی بنا کر دیتے ہیں، لیکن پسماندہ ملکوں میں چونکہ حکمران طبقہ خود ہی اداکار، ہیرو، ولن، پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کے کردار انجام دیتا ہے، لہٰذا ان ملکوں میں نہ قومی اور شہری مسائل سے حکومتیں آگاہ رہتی ہیں، نہ ان کے حل کے لیے مثبت اقدامات کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

کراچی شہر بجلی، پانی سمیت بے شمار مسائل سے دوچار ہے، اس شہر میں بعض ایسے مسائل ہیں جنھیں حکومت آسانی کے ساتھ حل کر کے عوام کو سہولتیں بھی فراہم کر سکتی ہے اور عوام کی حمایت بھی حاصل کر سکتی ہے۔ ان مسائل میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بھی عوام کے لیے عذاب بنا ہوا ہے، ہماری پچھلی حکومتیں اس تکلیف دہ مسئلے سے غافل رہیں، اگر وہ چاہتی تو اس مسئلے کو آسانی سے حل کر کے عوام کی حمایت حاصل کر سکتی تھیں لیکن چونکہ ہمارے جمہوری نظام میں عوام کی حمایت حاصل کرنے کے کئی متبادل طریقے موجود ہیں، لہٰذا عوام کی حمایت عوام کے مسائل حل کر کے حاصل کرنے کا سرے سے ہمارے ملک میں چکر ہی نہیں ہے۔

ہماری سندھ حکومت طویل عرصے تک جن حکمرانوں کے قبضے میں رہی وہ عوامی مسائل سے اس حد تک لاتعلق رہے کہ عوام ان سے سخت نالاں رہے، ہمارے موجودہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ ایک متحرک وزیراعلیٰ نظر آ رہے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کے مسئلے کو گرین لائن بس سروس کے حوالے سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو ایک کم مدتی حل ہے، اس کے مقابلے میں سرکلر ریلوے، ماس ٹرانزٹ جیسے منصوبے نہ صرف طویل مدتی ہیں، بلکہ طویل مدت سے کاغذوں ہی میں بن اور بگڑ رہے ہیں۔

سندھ حکومت نے 500 نئی بسیں منگوا کر کراچی کے عوام کو بلا تاخیر سہولتیں فراہم کرنے کا جو کام شروع کیا ہے وہ نہ صرف لائق تحسین ہے بلکہ اس منصوبے سے کراچی کے عوام کی ٹرانسپورٹ دشواریوں میں کمی آ سکتی ہے، جس کا فائدہ یا کریڈٹ سندھ حکومت کو ملے گا۔

کراچی کے ڈھائی کروڑ عوام طبی سہولتوں سے محروم ہیں، سرکاری اسپتال ایک تو عوام کی ضرورتوں کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرے کی حیثیت رکھتے ہیں، دوسرے ان اسپتالوں میں ایسی طبی سہولتیں بھی موجود نہیں جو کم سرمائے سے آسانی کے ساتھ عوام کو فراہم کی جا  سکتی ہیں۔ کراچی کے مضافاتی علاقوں کے اسپتالوں میں اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی شدید کمی ہے، دل، دماغ، یورولوجی سمیت کئی شعبوں کے اسپیشلسٹ موجود نہیں، ہیں تو برائے نام ہیں۔

مراد علی شاہ اگر چاہیں تو سرکاری اسپتالوں میں ہر اہم شعبے کے اسپیشلسٹ کی خدمات مہیا کر کے مریضوں کے بہتر علاج کی سہولتوں کا بندوبست کر سکتے ہیں، جس کے لیے نہ کثیر سرمائے کی ضرورت ہے نہ کسی بڑی منصوبہ بندی کی۔ سرکاری اسپتالوں میں مریض عموماً او پی ڈی سے رجوع کرتے ہیں لیکن او پی ڈی میں ڈاکٹروں کی اتنی شدید کمی ہوتی ہے کہ او پی ڈی میں ہمیشہ ایک ہجوم جمع رہتا ہے اور مریضوں کو اپنی باری کے لیے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس مسئلے کا آسان اور انتہائی کم خرچ حل یہ ہے کہ او پی ڈی میں ڈاکٹروں کی تعداد ضرورت کے مطابق بڑھائی جائے۔

سرکاری اسپتالوں میں قائم لیبارٹریاں اس حد تک ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں کہ خود ان اسپتالوں کے ڈاکٹر مریضوں کو باہر سے ٹیسٹ کرانے کے مشورے دیتے ہیں۔ اگر مراد حکومت ہر ٹاؤن میں ایک جدید آلات سے لیس لیبارٹری اور ایکسرے کی سہولت فراہم کرے تو مریضوں کو نہ صرف مفت ٹیسٹ کی سہولتیں فراہم ہوںگی بلکہ مریض پرائیویٹ لیبارٹریوں کی لوٹ مار سے بچ جائیںگے۔

کراچی کے سرکاری اسپتالوں کی ایمرجنسیاں اس قدر ناقص اور ضروری سہولتیں سے محروم ہوتی ہیں کہ عموماً ڈاکٹر حضرات مریضوں کو پرائیویٹ اسپتال ریفر کر دیتے ہیں، خاص طور پر مضافاتی بستیوں میں ایمرجنسی کا حال اس قدر خستہ ہوتا ہے کہ مریض یہاں سوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہیں کر سکتا۔

ایمرجنسی کی سب سے بڑی نااہلی یہ ہوتی ہے کہ یہاں ضروری ادویات کا فقدان رہتا ہے، جس کی وجہ سے مریضوں کی جانیں ضایع ہونے کا خطرہ رہتا ہے، ایمرجنسی میں ماہر ڈاکٹر ناپید ہوتے ہیں، ایک عام ایم ایل او ہر مرض کے علاج پر مامور ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مریضوں کی زندگی دائر پر لگی رہتی ہے۔ یہ ساری ایسی کمزوریاں ہیں جن پر بڑی آسانی اور کم سرمائے سے قابو پایا جا  سکتا ہے، لیکن ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں میں اتنی اہلیت نہیں ہوتی کہ وہ اس قسم کی آسان ضرورتوں کو پوری کر کے مریضوں کو علاج کے مواقع فراہم کریں۔

The post وہ کام جو حکمران آسانی سے کر سکتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

فساد خلق سے چپ ہیں جو عقل و ہوش رکھتے ہیں  (2)

$
0
0

ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے سے پہلے جنرل محمود کی ملاقاتیں امریکی انتظامیہ کی تیسرے درجے کی قیادت سے ہورہی تھیں۔ باوجود یکہ وہ امریکی سی آئی اے کے سربراہ جارج ٹینٹ کے مہمان تھے ۔ مگر افغان جنگ میں روس کو شکست دینے کے بعد امریکا نے اس علاقے سے ایسا منہ پھیرا تھا کہ ان کے نزدیک پاکستان کی افادیت ہی ختم ہوگئی تھی۔

ان ملاقاتوں میں تین اہم امور مستقل بحث کا موضوع تھے۔ (1 افغانستان میں طالبان کے مقابلے میں عوام کے جذبات کیسے ہیں۔ (2 آپ لوگ بھارت سے اپنے تعلقات درست کیوں نہیں کرتے اور (3 آپ اپنے نیوکلیئر پروگرام کو اس قدر شدت سے ترقی کیوں دے رہے ہو۔ افغانستان میں ملا محمد عمر کی حکومت کی مقبولیت سے بہت زیادہ خوفزدہ تھے۔ انھوں نے بارہا ذکر کیا کہ پندرہ سال پہلے ایران کا انقلاب آیا تھا، اگرچہ کہ یہ خلیج فارس میں ہمارے لیے بہت بڑادھچکا تھا لیکن ہمیں اندازہ تھا کہ یہ مزید آگے نہیں پھیل سکتا کیوں کہ ایران ایک شیعہ ریاست ہے اور اس کے اردگرد تمام ممالک سنی اکثریت کے ملک تھے لیکن ملا محمد عمر کے پڑوس میں آزاد ہونے والی روسی ریاستیں تاجکستان، ازبکستان، کرغزستان، قازاقستان، ترکمانستان اور آذربائیجان چونکہ سنی اکثریت کی ریاستیں تھیں، اس لیے یہ خطرہ تھا کہ طالبان کی عوام میں مقبولیت ان ممالک میں انقلاب کا پیش خیمہ نہ بن جائے۔

بھارت سے تعلقات کے بارے میں وہ زور دیتے رہے کہ دیکھو ہم روس سے دنیا بھر کے درجن بھر ممالک میں لڑ رہے تھے اور افغانستان میں تو ہم نے اسے مجبور کرکے رکھ دیا تھا لیکن پھر بھی ہم اس سے مسلسل مذاکرات کرتے تھے۔ آپ کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں تو وہ بہت درشت تھے اور پریسلر ترمیم کی وجہ سے کوئی بات سننے کو تیار ہی نہ تھے۔ یہ تمام ملاقاتیں 7 ستمبر 2001ء کو ختم ہوچکی تھیں اور 10 ستمبر کو جنرل محمود احمد کی پاکستان واپسی کی فلائٹ تھی۔

اس دوران امریکا میں پاکستان کی سفیر ملیحہ لودھی نے کہا کہ دو سینیٹر بوب گراہم  (Bob Garaham) اور پیٹر گوس (Peter Goss) گزشتہ جولائی میں پاکستان گئے تھے جہاں آپ نے ان کی مہمانداری کی تھی تو وہ دونوں آپ کو کسی کھانے پر ملنا چاہتے ہیں۔ یوں گیارہ ستمبر صبح سات بجے ملاقات طے ہوئی۔ اس ملاقات میں جنرل محمود کے ساتھ ملیحہ لودھی، سفارت خانے سے ضمیر اکرم، ٹرانسفر ہونے والے ملٹری اتاشی بریگیڈیئر مجتبیٰ اور نئے آنے والے بریگیڈیئر مظہر الحق شریک تھے جب کہ دوسری جانب سے بھی تقریباً اتنے ہی لوگ موجود تھے۔  پیٹرگوس بعد میں امریکا کی تینوں خفیہ ایجنسیوں کو ملا کر جو اتحاد بنایا گیا، یہ اس کا سربراہ بنا دیا گیا۔

میٹنگ کے دوران اچانک کسی نے ایک چٹ لا کر دی جو تمام لوگوں نے باری باری پڑھی جس میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے پہلے ٹاور سے طیارہ ٹکرانے کی بات تھی، اس کے فوراً بعد 8 بجکر چالیس منٹ پر میٹنگ ختم ہوگئی اور گاڑی انھیں لے کر ہوٹل روانہ ہوگئی۔ جنرل محمود کے بقول جب میں نے ٹیلی ویژن پر یہ منظر دیکھا تو پہلا خیال یہ آیا کہ یہ دوسرا پرل ہاربر ہے یعنی کسی بڑی جنگ میں کودنے کے لیے خود کروایا گیا ہے۔ پورے امریکا میں ایک سراسمیگی کی کیفیت تھی۔ انھوں نے مختلف جگہ اس واقعہ پر افسوس کے لیے ٹیلیفون کیے اور اپنے میزبان جارج ٹینٹ سے ملاقات کرنے کے لیے چلے گئے۔ یہ ملاقات بہت حیران کن تاثر چھوڑ گئی۔

سی آئی اے ہیڈکوارٹر کے دروازے پر استقبال کرتے ہوئے اس نے دیگر امریکیوں سے مختلف اور عام سرکاری رویے سے علیحدہ آگے بڑھ کر گلے لگایا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ایسے لگتا تھا جیسے یہ شخص ٹوٹ چکا ہے۔ جنرل محمود کے نزدیک اگر یہ سازش کسی جگہ بنائی بھی گئی ہوگی تو جارج ٹینٹ کو اس سے بے خبر رکھا گیا تھا۔ گیارہ ستمبر ہوچکا تھا۔ اس واقعہ کے بعد جو تبدیلی آئی وہ یہ تھی کہ کل تک جو کشکول جنرل محمود کے ہاتھ میں تھا اب وہ امریکیوں کے ہاتھ میں آگیا تھا اور ان کا پہلا سوال یہ تھا کہ پاکستان ان کی کیسے مدد کرسکتا ہے۔

اس ضمن میں بارہ ستمبر کو صبح گیارہ بجے پہلی ملاقات رچرڈ آرمٹیج سے امریکی حکومت کی درخواست پر رکھی گئی۔ یہ ایک انتہائی خوشگوار ملاقات تھی جس میں کہا گیا کہ ہم پرانی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہم آپ کو چھوڑ گئے۔ ایک نیا آغاز کرتے ہیں، تاریخ کا ایک نیا سفر شروع کرتے ہیں، اس مرتبہ آپ کو امریکا کی مدد کا بہترین تجربہ ہوگا۔ اس کے جواب میں جنرل محمود نے امریکی بے وفائیوں کی داستان سنا دی کہ کیسے 1965ء کی جنگ میں ہمارا ساتھ چھوڑ دیا جب کہ ہم سیٹو اور سینٹو میں امریکا کے ساتھ دفاعی معاہدے میں تھے۔

1971ء کی جنگ اور پھر افغان جہاد کے بعد کیسے ہمیں اکیلے چھوڑ کر چلے گئے۔ جواب میں آرمٹیج تسلیاں دیتا رہا کہ آیندہ ایسا نہیں ہوگا، میٹنگ ختم ہوگئی۔ امریکی حلقوں میں یہ تاثر تھا کہ پاکستان کا رویہ بہت ہی درشت تھا۔ اس سلسلے میں امریکی حلقوں کے قریب پاکستانی نژاد تاجر سعید پراچہ نے سفارت خانے کے افراد کو بتا بھی دیا۔ جس صبح گیارہ ستمبر کا واقعہ ہوا اس رات ٹیلی ویژن پروگراموں میں ایک سینیٹر پاکستان کے خلاف خاصہ زہر اگل رہا تھا۔

جنرل محمود نے میٹنگ ختم ہونے کے بعد ملیحہ لودھی سے کہا کہ اگر اس سے ملاقات کا وقت مل جائے تو اس کے سامنے پاکستان کی پوزیشن تو واضح کی جائے۔ ملاقات کے لیے کہا گیا تو فوراً بلالیا گیا۔ یہ شخص جوبائڈن Joe Biden تھا۔ میٹنگ کے دوران وہ سخت غصے میں تھا اور افغانستان اورعراق کے بارے میں زہر افشانی کررہا تھا۔

جنرل محمود نے پاکستان کی پوزیشن واضح کرنا شروع کی تو ٹھنڈا پڑگیا اور اس کا سارا نزلہ افغانستان پر اترنے لگا۔ کہنے لگا آپ کو نہیں پتہ سینیٹ اور کانگریس کے ارکان 9/11 کے بعد اس قدر غصے میں ہیں کہ ”They Said to Use Nuclier against Them” ’’انھوں نے کہا کہ ان کے خلاف نیوکلیئر ہتھیار استعمال کرو‘‘ جنرل محمود نے کہا ’’یہ ان کون ہے‘‘ جوبائیڈن نے ایک دم کہا ’’Off Caerse Afghanistan‘‘ صاف ظاہر ہے افغانستان‘‘ یہ تھی وہ گفتگو جس کودنیا بھر کے میڈیا میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا کہ تم کو پتھر کے زمانے میں لے جائیں گے۔ یہاں تک کہ پرویز مشرف جو اس ساری گفتگو کے متن سے آگاہ تھا اس نے بھی امریکا کے سامنے مکمل جھکاؤ کے جواز کے لیے اسی جھوٹ کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جو میڈیا نے شایع کیا تھا کہ جوبائیڈن نے جنرل محمود کو دھمکایا ہے، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔

اگلے دن آرمٹیج سے دوبارہ ملاقات طے تھی۔ گزشتہ ملاقات میں اس کے سامنے پاکستان کے گلے شکوے رکھ دیے گئے تھے۔ اس لیے وہ دوسری ملاقات میں مزید نرم خو اور کسی حد تک خوشامدانہ تھا۔ میٹنگ شروع ہوتے ہی آرمٹیج نے ایک کاغذ جنرل محمود کے حوالے کیا جس میں بارہ ایسے کام لکھے ہوئے تھے جو امریکی چاہتے تھے کہ پاکستان ان کے لیے کرے۔

جنرل محمود کے مطابق ان میں سے کوئی ایک بھی بڑا کام نہ تھا۔ جیسے ہوائی اڈوں کی فراہمی، فلیٹ کا سمندری حدود کو استعمال کرنا وغیرہ۔لسٹ میں ایسے کام تھے جو پاکستان پہلے ہی سے امریکی حکومت کے لیے کررہا تھا۔ اس لیے جنرل محمود نے فوراً کہا میں اپنے صدر کو ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ اس لیے آپ کے ان تمام مطالبات پر عملدرآمد ہوگا۔ یہ میٹنگ انتہائی خوشگوار ماحول میں ختم ہوگئی۔ اس کے بعد جنرل محمود فوج کے ہیڈکوارٹر پینٹاگون گئے تاکہ جنرل ابی زید سے ملاقات کی جاسکے۔

اس میٹنگ کے دوران جنرل ابی زید نے پوچھا کہ کیا آپ وہ جگہ دیکھنا چاہتے ہیں جہاں طیارہ پینٹاگون کی عمارت سے ٹکرایا تھا۔ میٹنگ مشرقی حصے میں ہورہی تھی، وہ جگہ مغربی حصے میں تھی، ایک میجر کی سربراہی میں وہاں پہنچے۔ جنرل محمود کے مطابق ابھی تک دھواں اٹھ رہا تھا اور فائر فائٹر کام کررہے تھے۔ لیکن سوراخ سے نہیں لگتا تھا کہ یہاں کوئی جہاز ٹکرایا ہے اور دوسری بات یہ کہ کسی جگہ بھی کوئی لوہے، دھات یا اسٹیل کا ٹکڑا بکھرا ہوا نہیں تھا۔

گیارہ ستمبر کے بعد تمام امریکی ہوائی اڈوں پر سے پروازیں بند کردی گئی تھیں۔ پہلا جہاز سی آئی اے کی اجازت سے سعودی عرب کے افراد کو لے کر امریکا سے روانہ ہوا، دوسرا جہاز بن لادن خاندان کو لے کر روانہ ہوا اور 14 ستمبر کو سی آئی اے نے جنرل محمود کو اپنا ایگزیکٹو جہاز گلف اسٹیم دیا جس میں وہ اور ان کی بیوی پاکستان آئے۔ پورا راستہ ان کی بیوی قرآن کی تلاوت اور وظائف کرتی رہی کہ کہیں اس جہاز میں بھیجنا سی آئی اے کی سازش نہ ہو۔ پاکستان واپسی کے بعد اگلا مرحلہ ملا محمد عمر، طالبان اور افغانستان کو اس امریکی حملے سے خبردار کرنے کا تھا جو ان کی طرف سے بڑھ رہا تھا۔     (جاری ہے)

نوٹ: گزشتہ کالم میں جارج ٹینٹ سی آئی اے چیف کی جگہ کولن پاؤل کا نام تحریر ہوگیا، معذرت خواہ ہوں۔

نوٹ: اہل نظر بارشوں کی آمد سے بہت خوفزدہ دکھائی دے رہے ہیں، درخواست کررہے ہیںکہ اللہ سے اجتماعی دعا کریں کہ ان بارشوں کو خیر میں بدل دے ہمیں معاف فرما دے۔

The post فساد خلق سے چپ ہیں جو عقل و ہوش رکھتے ہیں  (2) appeared first on ایکسپریس اردو.


ایک مسافر، ایک مترجم اور حیدرآباد کا ادبی میلہ

$
0
0

سبزے پر سفید چادر تنی تھی۔ جھاڑیوں پر دھواں تیر رہا تھا۔ گاڑی کے شیشے میں ٹھہری ٹھنڈ باہر کے موسم کی خبر دیتی تھی، سورج زرد ہوا۔ کہرے کی ایک لہر تھی۔ ایک میل دور کا منظر سفیدے میں چھپ چھپ جاتا۔ یہ اس سرد صبح کا ذکر ہے، جب زیر تعمیر موٹر وے پر دوڑتی گاڑی کی منزل سرخ اینٹوں والا شہر تھا۔ شہر، جو یاد بن کر میرے دل کی راہداری میں چلتا پھرتا ہے، جہاں میری بچپن گزرا۔ جہاں ایک شام گھر کی سیڑھیوں سے گرا، تو ماتھے کو وہ زخم ملا، جو شناخی کارڈ پر شناختی علامت کے طور پر درج ہونے والا تھا۔۔۔ سبزے پر سفید چادر تنی تھی، اور ہم حیدرآباد لٹریچر فیسٹول کی اُور جا رہے تھے۔ جام شورو پل کے نیچے بہتا سندھو خشک ہوا۔

یہ ادبی میلوں کا موسم ہے۔ یوں ہے کہ جب ایک سال لگ بھگ گزر چکا ہو، دوسرا طلوع ہورہا ہو، تب یک دم ملک بھر میں ادبی کانفرنسوں اور فیسٹولز کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ گزشتہ برس کے آخر میں شہر قائد میں نویں عالمی اردو کانفرنس کی بازگشت تھی۔ اس سے پہلے اِسی بکھرتے، پھیلتے شہر میں ماہ نومبر میں، پہلا سندھ لٹریچر فیسٹول منعقد ہوا۔ کراچی لٹریچر فیسٹول فروری میں ہونے کو ہے۔

ان ہی دنوں میں دوسرے حیدرآباد لٹریچر فیسٹول کا ڈول ڈالا گیا، جس کی تاریخیں اسلام آباد میں منعقدہ اکادمی ادبیات کی چوتھی بین الاقوامی کانفرنس کی تاریخوں سے براہ راست متصادم تھیں، مگر دونوں میں کوئی براہ راست تعلق نہ ہونے کی وجہ سے منتظمین کسی پریشانی کا شکار نہیں ہوئے۔ یہ تین روزہ فیسٹول تھا، مگر میں ادھر ٹھہر نہیں سکتا تھا، مجھے لوٹنا تھا۔ کسی سے کیا وعدہ نبھانا تھا۔ (جس وقت کراچی میں بیٹھا یہ سطریں لکھ رہا ہوں، حیدرآباد فیسٹول میں شاید مبشر علی زیدی کا سیشن جاری ہو، ضرور ادھر مسکراہٹیں گردش کرتی ہوں گی!)

تو یہ حیدرآباد لٹریچر فیسٹول کا ذکر ہے، جہاں ’’اردو فکشن میں سندھی معاشرت‘‘ کا موضوع ہمیں پکارتا تھا۔ سندھی معاشرت جس پر حادثوں، المیوں نے اَن مٹ نقوش چھوڑے۔ یہ ہجرت تھی، جس نے لاکھوں انسانوں کو بے جڑی کے کرب میں دھکیل دیا۔ مہاجرین خواب لیے لٹے پٹے اس زمین پر آن بسے جو کبھی گھوڑوں اور رتھوں سے مالامال تھی جس کے دریا پر دیوتاؤں کا تخت تھا۔ مگر ماضی کے آسیب نے نہ تو اُن کا پیچھا چھوڑا، جو اپنا سب کچھ چھوڑ آئے تھے، نہ ہی اُن کا جو یہاں آباد تھے۔ یوں ہجرت نے کروڑوں زندگیوں کو متاثر کیا۔ سب خس و خاشاک ہوا۔

اسی سے کہانیوں کا جنم ہوا۔ کراچی اور سندھ، تقسیم کے بعد ہی صحیح معنوں میں اردو فکشن کا موضوع بنے۔ شوکت صدیقی کا شہرہ آفاق ناول ’’خدا کی بستی‘‘ جو نچلے طبقے میں سرگرم مافیا کا قصہ، شاید حیدآبار ہی کی کہانی ہے، جہاں سے ریل کے ذریعے کردار کراچی پہنچتے ہیں۔ ایک حزنیہ قرۃ العین حیدر نے ’’سیتا ہرن‘‘ میں بیان کیا اور پھر ہم نے اجنبی زمینوں کی کہانیاں، ناقابل گرفت کے ساتھ منظر کرنیوالے حسن منظر کے افسانے پڑھے۔ ہمیں گرویدہ بنا لینے والے قلم کار، خالد اختر کا ایک سفرنامہ بھی ملتا ہے، تھر کا سفرنامہ، دھیرے دھیرے سر اٹھاتے بگاڑ، لسانی اور سیاسی تقسیم اور تشدد پر لکھا جانے لگا البتہ یہ اعتراض درست کہ سندھ کی دیہی زندگی کی اردو فکشن میں بھرپور عکاسی نہیں کی گئی۔

یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ شہری معاشرت بھی سیاسی تقسیم، جبر اور خوف کے باعث کاملیت کے ساتھ سامنے نہیں آسکی۔ تو ہمیں حیدرآباد جانا تھا۔ پونے آٹھ کی ٹرین تھی۔ گھر سے نکلے، تو شہر سویا ہوا تھا۔ سرد ہوائیں گلیوں میں سرپٹ دوڑتی تھیں۔ موذن پکارتا تھا۔ رکشے میں ٹھٹھرتے کینٹ اسٹیشن پہنچے، تو ریل کی سیٹی سنائی دی۔ ابتدائی کرنیں ظاہر ہونے کو تھیں۔ ابھی سات بجے تھے۔ اطمینان تھا کہ ہماری ٹرین پونے آٹھ کی تھی، مگر اسٹیشن پر ہمارے منتظر رفاقت حیات نے۔۔۔ سندھ کی دیہی زندگی کو مہارت سے منظر کرتے ناول ’’میرواہ کی راتیں‘‘ کے مصنف رفاقت حیات نے، یہ پریشان کن خبر سنائی کہ یہ ٹرین، جو دھواں چھوڑتی ہم سے دُور جاتی ہے، دراصل یہی ہمارا وسیلہ تھی۔ ہم نے وقت کا اندازہ غلط لگایا ۔۔۔ وہاںسعدیہ بلوچ بھی تھیں۔ سندھ کی روشن خیال ثقافت سے جڑی، نگری نگری گھوم کرسوشل ورک کا تجربہ کشید کرنیوالی، گہری اور کاٹ دار نظموں کی خالق سعدیہ بلوچ۔ ٹرین چھوٹ جانے پر کبیدہ خاطر۔ ہم بھی افسردہ تھے، اور ٹھٹھر رہے تھے۔

ریل کا آخری سفر گیارہ برس قبل کیا تھا۔ تب منزل سکھر تھا۔ پھر منظر میں سید کاشف رضا کی آمد ہوئی، نثری نظم کے قابل توجہ شاعر، مترجم، مسافر۔ فکشن پر اُن کی گہری نظر ۔ خود بھی ایک ناول پر کام کر رہے ہیں۔ اب سہراب گوٹھ منزل تھی (80 کی دہائی میں شہر کی سیاسی کروٹوں میں اِس علاقے کا جو کردار، اُس پر پھر کبھی بات ہوگی) وہاں سے ٹیکسی کی، اور زیرتعمیر سڑک سے ہوتے ہوئے، جہاں بار بار دھول سے اٹے کچے راستے میں اترنا پڑتا، ہیبت ناک ٹریلرز کے درمیان سے گزرنا پڑتا، حیدرآباد پہنچے۔ ادھر جمیل عباسی ہمارا منتظر تھا۔ محبت سے لبریز، انکساری کا پیکر، مہمان نوازی کی قدیم روایات سے جڑا ایک مسکراتا چہرہ۔ ایک مسافر۔ اُس کی تحریروں کے مانند اُس کی شخصیت میں بھی دل کش تسلسل اور دھیما پن ہے۔ سندھ میوزیم میں فیسٹول تھا۔ خاصی بڑی اور معقول جگہ تھی، چہل پہل بھی تھی مگر منتظمین شاید افتتاحی سیشن میں الجھے تھے جہاں ہمارا سیشن ہوا، وہ عمارتوں کے عقب میں چھپا ایک خاموش سبزہ زار تھا۔ ہم بھی ڈھونڈتے ڈھونڈتے پہنچے، حاضرین خاصے کم تھے، ہاں سیشن اچھا ہوا۔ ہم ماڈریٹر تھے۔

سید کاشف رضا اور رفاقت حیات نے گفتگو کی۔ کاشف نے اپنے ناول ’’چار درویش اور ایک کچھوا‘‘ کا ایک حصہ بھی پڑھا۔ چند سوالات بھی ہوئے۔ سندھی کے ابھرتے شاعر، علی زاہد نے، جن کا اصرار تھا کہ ہم آج رات اُن ہی کے ہاں ٹھہر جائیں، جب سوال کیا، تو جہاں سندھ کے کٹھن سیاسی دور کی عکاسی کرتے انور سن رائے کے ناول ’’چیخ‘‘ کا تذکرہ تھا، وہیں یہ شکوہ بھی تھا کہ علی بابا جیسے جید سندھی فکشن نگار اور اسکالر کے انتقال پر الیکٹرانک میڈیا خاموش رہا۔ (اُن کا شکوہ بجا۔ ہم منقسم ہیں، لاعلم ہیں، اور محدود ہیں!) امر سندھو کا ’’خانہ بدوش کیفے‘‘ وہ آخری جگہ تھی، جہاں سے ہوتے ہوئے ہم سندھ میوزیم سے باہر آئے۔ جمیل کی محبت سے بھیگے ہوئے، حیدرآباد کی ٹھنڈ سے محظوظ ہوتے، گہری پڑتی رات میں مسافر کراچی لوٹ رہے تھے۔ ٹیکسی ڈرائیور بلوچ تھا، جو خلاف توقع پرویز مشرف کا مداح نکلا۔ وہ وفاق کے بجائے صوبائی نمایندوں سے شاکی تھا۔

اُس کی کہانی نے ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کروالی۔ اسی دوران فیس بک پر نظر ڈالی، تو جنرل راحیل شریف کے اسلامی فوج کے سربراہ بننے کی خبر ملی۔ ہفتے کا دن چٹخا، تو ایک خوش گوار خبر منتظر تھی۔ وکٹر ہوگیو، گنترگراس اور ہرٹا مولر کے ناولوں کو اردو روپ دینے والے مترجم، باقر نقوی لندن سے کراچی پہنچ چکے تھے۔

لوگ انھیں اردو کا پہلا ماہر نوبیلیات کہتے ہیں، تو اس کا سبب ہے۔ چار کیٹیگریز (ادب، امن، حیایات، طبیعیات) میں نوبیل سے نوازے جانے والی بیسویں صدی کی تمام شخصیات کے خطبات کو اردو روپ دے چکے ہیں۔ ایک نقاد کا دعویٰ ہے کہ ایسی مثال کسی اور زبان میں نہیں ملتی۔ 80 برس کی عمر میں بھی وہ متحرک، مطمئن اور مسرور۔ ایک کثیرالمنزلہ عمارت میں ان سے ملاقات ہوئی، جس کے سولہویں مالے کی کھڑکی کے باہر ایک بکھرا، پھیلتا بے رنگ شہر تھا، جس کے آسمان پر دھواں تیر رہا تھا، مگر یہ وہ دھند نہیں تھی، جو حیدرآباد جاتے سمے سبزے پر تنی تھی۔ یہ دخانی کہرا تھا۔ گرد کا طوفان تھا۔ یہ وہ شہر تھا، جس کی سیکڑوں کہانیاں ابھی ان سنی ہیں۔

The post ایک مسافر، ایک مترجم اور حیدرآباد کا ادبی میلہ appeared first on ایکسپریس اردو.

2018 روشنیوں کا سال

$
0
0

یہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے آخری برسوں کا معاملہ تھا، جب اچانک یہ بات سامنے آئی کہ ملک کو بجلی کے بدترین بحران کا سامنا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھر میں بدترین لوڈشیڈنگ شروع ہوگئی۔ بجلی کی عدم فراہمی سے ایک طرف قوم کا براحال ہونے لگا تو دوسری جانب ملکی معیشت تباہ ہونے لگی اور سرمایہ داروں نے اپنا کاروبار بیرون ملک منتقل کرنا شروع کردیا۔ قوم کو اس عذاب میں مبتلا کرنے والے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے رہے۔ حکومت، وزرا، صدر مملکت، پلاننگ کمیشن اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے طرح طرح کے بہانے تراشتے رہے۔

لیکن حقیقت یہ تھی کہ طویل عرصے ملک پر حکومت کرنے کے باوجود جنرل پرویز مشرف نے ملک میں بجلی کی پیداوار اور پیداواری یونٹ لگانے پر قطعی کوئی توجہ نہیں دی۔ انھیں مستقبل میں بجلی کی کھپت کا بھی کوئی اندازہ نہیں تھا۔ جب یہ بحران سامنے آیا تو مختلف استدلال دیے گئے مگر سچ یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت بجلی بحران کی اصل ذمے دار تھی۔ توانائی کے بحران نے پاکستان کی معاشی ترقی اور قوم کی خوشحالی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا لیکن ملک و قوم کو اس عذاب میں دھکیلنے والے اب بھی گلچھڑے اڑا رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بجلی بحران سامنے آنے کے بعد ان کی حکومت فوری طور پر کوئی موثر منصوبہ بندی بھی نہیں کی، یہاں تک کہ آخرکار ان کی حکومت رخصت ہوگئی اور وہ ملک کو اندھیروں میں دھکیل کر بیرون ملک چلے گئے۔

پیپلز پارٹی کی حکومت کو بجلی بحران پچھلی حکومت سے ورثے میں ملا تھا مگر افسوس انھوں نے بھی پاور سیکٹر میں کچھ ایسے کام نہیں کیے جس سے عوام کو لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات مل جاتی۔ انھوں نے 5 سال اپنی مدت حکومت پوری کی مگر توانائی بحران کے حوالے سے قوم کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ پی پی کے دور میں ملک میں 18، 18 گھنٹے لوڈشیڈنگ کی جارہی تھی۔ صنعتیں بتدریج بند ہوگئی تھیں بیروزگاری بڑھ رہی تھی۔ نئے پاور پلانٹ لگا کر بجلی بحران پر قابو پانے کے لیے کوئی خاص قابل ذکر کام نہیں کیا گیا۔

2013 میں عام انتخابات سر پر آگئے۔ جب مسلم لیگ (ن) کا منشور بن رہا تھا تو ان میٹنگز میں، میں بھی شریک تھا اور نوازشریف کی صدارت میں ہونے والے ان اجلاس میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے تجاویز اور پلاننگ کو حتمی شکل دی گئی تھی۔ مجھے ان اجلاسوں میں یقین ہوگیا تھا کہ (ن) لیگ کی اگر حکومت آئے گی تو یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے گا، کیوںکہ میں نے وہاں سنجیدگی اور دور اندیشی دیکھی تھی اور جب مسلم لیگ (ن) نے جو منشور دیا اور وزیراعظم محمد نوازشریف نے حکومت سنبھالنے کے بعد جو پہلی تقریر کی اس میں انھوں نے قوم سے وعدہ کیا کہ وہ ملک سے دہشتگردی ختم کردیں گے، بجلی کا بحران 2018 تک ختم کرکے دم لیں گے اور زبوں حال معیشت کو سنبھالا دیں گے۔

بلاشبہ حکومت سنبھالنے کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے جو وعدے کیے، وہ تقریباً پورے کردیے ہیں۔ خوف و دہشت کا ماحول ختم ہوچکا ہے۔ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ مسلح گروہوں، فائرنگ اور بم دھماکے تقریباً ختم ہوچکے ہیں اور معیشت میں آنے والی بہتری کو پوری دنیا نے تسلیم کیا ہے۔ پاکستانی معیشت کو ابھرتی ہوئی معیشت قرار دیا جارہا ہے۔ جہاں تک توانائی بحران کا تعلق ہے تو اب ملک بھر میں پہلے جیسی صورتحال نہیں ہے اور قومی سطح پر اس بحران پر مسلسل کام ہورہا ہے، اٹھارہ، بیس گھنٹے لوڈشیڈنگ ماضی کا قصہ ہوگئی ہے اور اب صرف 4 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں پاور پلانٹ لگائے جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں پورٹ قاسم، کراچی پورٹ ٹرسٹ، تھر میں تھرکول، ٹھٹھہ کے بھمبیر میں ونڈ پاور، ساہیوال گوادر اور ملک کے دیگر حصوں میں نئے پاور پروجیکٹ پر تیزی سے کام جاری ہے۔

نیشنل گرڈ میں وقفے وقفے سے بجلی کی مزید پیداوار شامل کی جارہی ہے جس سے عوام اور خاص طور پر صنعت کاروں نے سکھ کا سانس لیا ہے اور اس پیشرفت کی وجہ سے بیروزگاری کی شرح میں بھی کمی آئی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کی دلی خواہش ہے کہ انھوں نے اب تک توانائی کے جن منصوبوں کا آغاز کیا ہے وہ سب 2018 تک بھرپور پیداوار شروع کردیں تاکہ وہ عوام سے کیے گئے وعدے سے سرخرو ہوسکیں۔ اس مقصد کے لیے وہ دن رات ان منصوبوں کی نگرانی کررہے ہیں اور ان ہی کوششوں کی بدولت اب لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی بہت کم ہوگیا ہے۔ نواز حکومت نے بجلی بحران کے خاتمے کے لیے ملکی وسائل پر ہی انحصار نہیں کیا بلکہ بیرونی وسائل سے بھی استفادہ کیا ہے، خاص طور پر چین پاکستان میں توانائی کے متعدد منصوبوں پر کثیر سرمایہ کاری کررہا ہے۔ یقیناً مستقبل میں اس کے دورس نتائج برآمد ہوں گے۔

اس ضمن میں حالیہ ایک بڑی پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے 340 میگاواٹ کے چشمہ تھری جوہری بجلی گھر کا افتتاح کیا ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ دھرنے اور احتجاج ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں، ایسا کرنے والے ملک پر رحم کریں، وطن عزیز سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح ہے، 2018 تک ملک میں نہ صرف لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی بلکہ بجلی بھی سستی ہوجائے گی۔

چشمہ تھری نیوکلیئر پاور پلانٹ کی تکمیل سے 340 میگاواٹ بجلی قومی گرڈ میں شامل ہوگی۔ یہ منصوبہ نیوکلیئر سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پاک چین تعاون کا منہ بولتا ثبوت ہے اور خطے میں ایک نئے دور کا آغاز بھی ہے۔ امید ہے کہ چشمہ فور نیوکلیئر پاور پلانٹ بھی مقررہ وقت سے قبل یعنی 2017 کے وسط سے پہلے بجلی کی پیداوار شروع کردے گا۔ اس کے علاوہ ٹو اور کے تھری پاور پلانٹس کی تعمیر سے جہاں توانائی کے حصول کی جانب اہم قدم ہوگا، وہیں یہ باہمی تعلقات کو بھی مستحکم کرے گا۔ چینی ساختہ پہلے پاور پلانٹ چشمہ یونٹ کی تعمیر کا معاہدہ بھی مسلم لیگ نواز کے پہلے دور حکومت میں ہی طے پایا تھا، جس کی بدولت دونوں ملکوں کے درمیان نیوکلیئر توانائی کے شعبے میں باہمی تعاون کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔

چین ہمارا قابل اعتماد دوست ہے، مگر موجودہ حکومت کے دور میں پاک چین تعلقات مزید مستحکم ہوئے ہیں۔ بلاشبہ پاک چین دوستی اپنی انتہاؤں کو پہنچ گئی ہے۔ چین پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے اور موجودہ حکومت چین کی اس سرمایہ کاری کا خاطر خواہ فائدہ عوام کو منتقل کرنا چاہتی ہے، لیکن اس شعبے میں ابھی کام کی مزید گنجائش موجود ہے۔ اس لیے وزیراعظم نے افتتاحی تقریب کے موقع پر چینی کمپنیوں کو نیوکلیئر پاور پلانٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت بھی دی ہے اور یہ یقین بھی دلایا ہے کہ حکومت اس سلسلے میں ہر ممکن تعاون اور بھرپور مدد بھی فراہم کرے گی۔

جوں جوں پاور سیکٹر کی صورتحال بہتر ہوتی جارہی ہے اور بجلی کی پیداوار بڑھ رہی ہے ملک میں پہلے کی نسبت اب بجلی بھی سستی ہوگئی ہے۔ نوازحکومت نے اپنے دور میں بجلی کی قیمتوں میں کئی بار کمی کرکے عوام کو زبردست ریلیف دیا ہے۔ نواز حکومت توانائی بحران کے خاتمے کے لیے جس طرح جنگی بنیادوں پر کام کررہی ہے، اسے دیکھتے ہوئے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وزیراعظم نوازشریف 2018 میں ملک کو اندھیروں سے مکمل طور پر نکال لیں گے، ملک سے اندھیروں کا خاتمہ اور روشن پاکستان کا خواب حقیقت میں بدل جائے گا۔

The post 2018 روشنیوں کا سال appeared first on ایکسپریس اردو.

کپڑے کے نیچے

$
0
0

پاکستان کی سیاست ’’خالہ پھپھو‘‘ کی سیاست ہے اور جو اس کو سمجھ لیتا ہے وہ آرام سے اپنا Tenure جس کا ترجمہ سیاست کے اعتبار سے ’’عرصہ محشر‘‘ کیا جانا چاہیے، اچھی طرح گزار لیتا ہے اور جو اس فارمولے کو نہیں سمجھتا وہ پھر واقعتا ’’عرصہ محشر‘‘ میں رہتا ہے۔ایک مسئلہ یہ ہے کہ جو بھی بھائی میرے کالم کو کمپیوٹر پر لکھتے ہیں کیونکہ میں کاغذ پر لکھ کر ارسال کرتا ہوں اس دور میں بھی، وہ ظاہر ہے کہ تحریر کے سلسلے میں دشواریوں کا شکار ہونگے۔ میں کچھ زیادہ ’’خوش رقم‘‘ نہیں ہوں لہٰذا غلطیاں میری ہی شمار کی جائیں، کارکن تو صرف مار کھاتے ہیں، فائدے لیڈروں کے ہوتے ہیں۔ کالم میرے نام سے چھپتا ہے تو غلطیاں بھی میرے ہی کھاتے میں رہیں، وہ بھائی پریشان نہ ہوں۔ میں ہوں نا۔اچھا یہ تو ایک ہلکا پھلکا وقفہ تھا ’’غیر تجارتی‘‘ اس کے بعد ہم پھر موضوع پر آجاتے ہیں۔ ہمارے عوام بہت دلچسپ لوگ ہیں، بشمول میرے۔ مسائل وغیرہ کو تو ہم پس پشت ڈال دیتے ہیں۔

کچرے کے ڈھیر پر بیٹھ کر ہم صحت و صفائی پر تقریر کرتے ہیں۔ یہ غلط ہے کیا؟ آپ دیکھ لیں جس ہوٹل میں بلکہ ’’شاندار ہوٹل‘‘ میں، اس موضوع پر گفتگو ہو رہی ہوتی ہے اس کے بیک یارڈ یعنی عقب کی گلیوں میں کچرے کے ڈھیر ہوتے ہیں۔پر اس سے کیا ہوتا ہے تقریر تو شاندار ہوئی نا بلکہ تقریب بھی، کھانا شاندار اور اگر ممکن ہوا تو ناچ گانا بھی شاندار ترین۔ میری ان قلمی حرکتوں پر میرے کسی دن کسی کے ہاتھوں پٹ جانے کے بھی روشن امکانات ہیں مگر خیر کوئی بات نہیں، دنیا میں ہر بڑے آدمی کو ان مسائل کا سامنا رہا ہے اور میں نے کب اپنے آپ کو دوسرے پاکستانیوں کی طرح چھوٹا سمجھا ہے۔لالہ سے لے کر خالہ تک جس کو دیکھو ڈھائی گھرکا ہی سمجھتا ہے اپنے آپ کو اور اپنی رائے کو وہ مقدم ترین اور درست ترین۔ لالہ لکھا تو عمران خان یاد آگئے۔ وہ کہتے ہیں یکم نومبر کو کہ فیصلے کپتان ہی کرتا ہے، بات تو ٹھیک ہے مگر گھوڑا تو کاٹھ کا ہے تو کپتان فیصلے کس کے بارے میں کر رہے ہیں۔

وہ تو اب اس جگہ پہنچ گئے ہیں جہاں وہ قریب ترین لوگوں کو بھی کہنے والے کہتے ہیں کہ خاطر میں نہیں لاتے، جیسا کہ انھوں نے کہا تھا اور اپنے ہر عمل سے ثابت کیا کہ ’’میں‘‘ ہی ان کی اصل لیڈر ہے۔ کرکٹ میں تو وہ کھلاڑیوں کو آڑے ہاتھوں لیا کرتے تھے، لفظ آڑے ہاتھوں کا آپ آزادانہ ترجمہ کرسکتے ہیں، آپ کو اجازت ہے۔ ہم نے قانون کے دائرے میں لفظ استعمال کیا ہے۔ آپ پر کوئی قانون لاگو نہیں، آپ آزاد پاکستانی ہیں۔ آپ پر کسی قانون کی پابندی لازم نہیں ہے کیونکہ قانون بنانیوالے بھی اس پر عملدرآمد نہیں چاہتے صرف بناتے ہیں کہ انھیں اس وقت اور کوئی مناسب کام نہیں ملتا۔تو یہ کالم جب چھپ رہا ہوگا بات دو ماہ پرانی ہوچکی ہوگی کہ دھرنے کا کس طرح دھڑن تختہ ہوا، خورشید شاہ نے کچھ عرصہ پہلے ایک دلچسپ بات کی تھی کہ عمران خان نواز شریف کے سب سے بڑے حمایتی ہیں اور ان کی کاوشوں سے نواز شریف کا دورانیہ ٹھیک گزر رہا ہے کیونکہ جب کوئی مسئلہ ہوتا ہے، عمران خان کوئی اسکیم لے کر میدان میں آجاتے ہیں اور ساری توجہ اس طرف ہوجاتی ہے اور جو بڑا مسئلہ حکومت کو درپیش ہوتا ہے وہ اس سے نمٹ لیتی ہے۔

بات ٹھیک لگتی ہے نہ جانے کیوں۔ کشمیر کا سخت مرحلہ درپیش تھا، بھارت کے ظلم و ستم کے بارے میں دنیا بھر میں کچھ نہ کچھ شور و غوغا ہو رہا تھا، کچھ امید بندھ چلی تھی کہ اس پر کچھ ہوگا، خاں صاحب کے دھرنے نے ساری گھڑیوں کے کانٹے یعنی میڈیا اور عوام کو اپنی طرف متوجہ کرلیا اور پھر سپریم کورٹ میں معاملہ پہنچتے ہی Relax ہوگئے اور کشمیری وہاں ہی رہ گئے، ظلم و ستم برداشت کرنے کے لیے۔ غلط خبر فیڈ کرنے کا معاملہ سرد پڑگیا، اس وقت اب تو جب یہ کالم چھپ رہا ہوگا بہت کچھ تبدیلیاں ہوچکی ہوں گی مگر تاریخ تبدیل کرنا ایک الگ کام ہے، سب کچھ لکھا جا رہا ہے، محفوظ کیا جارہا ہے۔یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ ہے۔

پاکستان کی سیاسی پارٹیوں نے درپردہ سپورٹ کرکے خاں صاحب کو کئی بار گھوڑی چڑھایا ہے مگر دولہا سسرال سے پہلے ہی گھوڑی سے اتر گیا، اور وہ فائدے جو خاں صاحب کے آخر تک عمل کے ہوتے، وہ نہ ان کو ملے اور نہ گھوڑی چڑھانے والوں کو۔ اس پہلوان کا پروموٹر اس سے خوش نہیں ہوتا جو پہلوان رنگ میں جاکر من مانی کرے اور خان صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ پروموٹرز کی مدد سے رنگ میں جاکر ’’من مانی‘‘ کرتے ہیں، یہ کوئی اچھا بزنس نہیں ہے۔

شروع میں ہم نے پاکستانی سیاست کا ذکر کیا تھا مگر قلم خان صاحب کی طرف مڑا تو دلچسپ موضوع ہے، وہیں رہ گیا تو پاکستانی صحافت، معاف کیجیے گا سیاست کے سب سے اچھے کھلاڑی کا نام اگر کہیں درج کیا جاسکتا ہے تو وہ عجیب شخصیت ہے کہ جس کو ان کی بیگم صاحبہ سیاست سے دور رکھتی تھیں اور شاید بہتر سمجھتی تھیں کہ ان کو اپنا چراغ جلانا مشکل ہوجاتا اور یہ ایک بار وہ ان کو ایک شجر کاری کی مہم کا انچارج لگا کر دیکھ چکی تھیں جس کے تحت ملک میں کروڑوں اربوں درخت لگانے تھے، غالباً 1995 یا آس پاس کا زمانہ تھا اور حکومت نے ایک بجٹ مختص کیا تھا، چاروں صوبوں کے لیے اربوں روپے کا، وہ بجٹ خرچ ہوا۔ درخت آج تک ایک بھی کہیں نہیں ہے۔

یہ تو ایسے ہی کچھ یاد آگیا تو ذکر کردیا۔ ذکر ہم کر رہے تھے خالہ پھپھو کی سیاست کا تو اس کے ماہر کے طور پر اگر کہیں کوئی نام لکھا جاسکتا ہے وہ ہے سابق صدر پاکستان آصف زرداری، شوہر بے نظیر بھٹو صاحبہ کا۔ بیوی کی طرف سے اگر بھٹو ہونے کا رواج ہوتا تو وہ پہلے آصف زرداری بھٹو ہوتے۔ انھوں نے اس سیاست کو رواج دیا اور پھر ان سے یہ سیاست شریفوں کو منتقل ہوئی۔ فرق صرف یہ تھا اور ہے کہ زرداری ادائیگی میں یقین رکھتے ہیں، ڈاکٹر عاصم اس کا ثبوت ہیں اور شریف لوگ وعدوں پر ٹرخاتے ہیں۔ ان لوگوں کے تین تین دور حکومت، جنھیں میں عوام کے لیے ’’عرصہ محشر‘‘ کہتا ہوں، بھی اگر آجائیں تو وہ ویسے ہی رہیں گے اور یہ ایسے ہی رہیں گے۔ No Change کیونکہ یہ لوگ Made In ہی ایسے ہیں، عوام کے لیے دونوں خطرناک، وہ بے تحاشا نوکریاں دے کر، مفت خوری کو عام کرتے ہیں، یہ ایک خاص طبقے کو مراعات فراہم کرتے ہیں، جن کا تعلق ان سے یا زیادہ سے زیادہ ان کے صوبے سے ہوتا ہے۔

آپ دیکھ لیں تمام وفاقی وزرا کہاں سے ہیں؟ سب ان کے آس پاس سے۔ صدر کا کیا ذکر کرنا وہ تو 58/2B کے ختم کرنے کے بعد بے دانت کا شیر ہے، کہیں سے بھی لے سکتے ہیں جب صرف علامتی عہدہ رہ گیا ہے۔ ’’خالہ پھپھو‘‘ کا قصہ یہ ہے کہ بہت عرصے پہلے اخبار میں پڑھی تھی کہ ایک لڑکے نے بیک وقت دو شادیاں کی تھیں، ایک خالہ کی بیٹی سے اور ایک پھپھو کی بیٹی سے، یوں اس نے جھگڑے کو نمٹا دیا جو دو خاندانوں کی تباہی کا باعث بن سکتا تھا۔ فائدے میں کون رہا؟ ’’دولہا‘‘… یہ ہیں آصف زرداری اور ان کی سیاست۔ جو کہ اب ملک میں وارد بھی ہوچکے ہیں۔

ہم نے تو بہرحال تمام تر قومی نقصانات کے باوجود یہ دیکھا سیاست میں آصف علی زرداری کامیاب رہے۔ وزیراعظم دونوں پنجاب سے لیے، خود پارٹی کے شریک چیئرمین اور صدر پاکستان پارٹی پر بھی گرفت، ملک پر بھی حکومت اور صدر عالی شان کے تحت ملک بھر میں اور باہر بھی دورے اور تفریح، مگر بدنام کم رہے، بدقسمتی سے دوسروں کے حصے میں صرف بدنامی آئی اور ٹھیک آئی۔ دولت مشترکہ ہے دونوں کی، کوئی کسی کی دولت نہیں برآمد کرے گا۔ اس مسئلے پر کپڑے کے نیچے دونوں کے ہاتھ ملے ہوئے ہیں۔

The post کپڑے کے نیچے appeared first on ایکسپریس اردو.

مختلف بلدیاتی نظاموں کا تماشا

$
0
0

ملک بھر میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں مختلف بلدیاتی قوانین کے تحت جو بلدیاتی ادارے کام کر رہے ہیں ان میں صرف ایک چیز مشترک ہے کہ ان میں زیادہ اثر سابق صدر جنرل ضیا الحق کے 1979 کے بلدیاتی نظام کا عکس نظر آتا ہے اور نمایاں فرق یہ ہے کہ فوجی صدر کے دیے گئے بلدیاتی نظام کی یہ خوبی تھی کہ وہ صوبائی نہیں بلکہ ملک گیر تھا اور چاروں صوبوں میں یکساں بلدیاتی نظام نافذ تھا اور کسی بھی میونسپل کارپوریشن میں ایک سے زیادہ ڈپٹی میئر نہیں تھے۔

چاروں صوبوں میں ایک جیسے بلدیاتی ادارے تھے جو ملک بھر میں حاصل اختیارات کے تحت کام کر رہے تھے اور صوبوں کا محکمہ بلدیات انھیں کنٹرول کرتا تھا اور یہ ادارے صوبائی وزرائے بلدیات اور صوبائی بلدیاتی سیکریٹریوں کی جی حضوری کے علاوہ اپنے علاقوں کے کمشنروں، ڈپٹی کمشنروں اور اسسٹنٹ کمشنروں کے ماتحت تھے اور مذکورہ بالا سرکاری افسران ان کے کنٹرولنگ اتھارٹی تھے اور بلدیاتی ادارے اپنے بجٹوں کی منظوری کے لیے بھی ان ہی کے محتاج تھے۔

جنرل پرویز مشرف 2007 میں صدر تو منتخب ہوگئے تھے اور انھوں نے 2001 میں ملک کو جو ضلعی بلدیاتی نظام ضلعی اور سٹی حکومتوں کی شکل میں دیا تھا وہ انتہائی بااختیار ہونے کے ساتھ ملک بھر میں یکساں تھا، جس کا وفاقی اور صوبائی بلدیاتی وزارتوں کے بجائے قومی تعمیر نو نامی وفاقی ادارے کے ماتحت تھا۔ جس کی وجہ سے وفاقی اور صوبائی بلدیاتی محکموں کا بلدیاتی اداروں سے تعلق نام کی حد تک رہ گیا تھا اور ملک بھر کے بلدیاتی اداروں کو چاروں صوبوں کے محکمہ بلدیات کے وزیروں صوبائی سیکریٹریوں، لوکل گورنمنٹ بورڈ، ڈویژنوں کے بلدیات کے ڈائریکٹروں سے نجات مل گئی تھی۔ ہر دور میں بلدیاتی اداروں کو متعلقہ صوبائی محکمہ بلدیات کے وزیر اور سیکریٹری کا محتاج رکھا جاتا تھا اور بلدیاتی اداروں میں وزیر بلدیات کو وزیراعلیٰ جیسی اہمیت اور پروٹوکول ملتا تھا۔

میونسپل کارپوریشنوں میں اٹھارہ سے بیس گریڈ کے افسروں، ڈائریکٹروں اور انجینئروں کی بھرمار ہوتی ہے جب کہ میونسپل کمیٹیوں میں چیف میونسپل افسروں اور چیف افسران، ضلع کونسلوں میں چیف افسروں اور ٹاؤن کمیٹیوں میں ٹاؤن افسر اور یونین کونسلوں میں سیکریٹری مقرر ہیں جن کی تقرریاں منظور شدہ گریڈوں کے مطابق وزیر بلدیات، سیکریٹری بلدیات اور ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ ڈویژن میں اور اضلاع میں ڈپٹی ڈائریکٹر کرتے ہیں۔ گریڈوں کے لحاظ سے نئی تقرریاں اور تبادلے بھی مذکورہ بالا عہدیداروں کا اختیار ہے۔ زیادہ تر تقرر و تبادلے مقررہ رشوت اور کم تبادلے سفارشوں پر ہوتے ہیں، مگر پوسٹنگ آرڈر لیتے وقت رشوت دینا پڑتی ہے یا مہینوں متعلقہ دفاتر کے چکر لگانا پڑتے ہیں۔

بلدیات کے منتخب میئروں اور چیئرمینوں کو سرکاری افسروں کے مقابلے میں محدود مالی، انتظامی اور نئی تقرریوں کے اختیارات جنرل ضیا کے 1979 کے بلدیاتی نظام میں دیے گئے تھے جو چاروں جمہوری حکومتوں نے ترامیم کرکے مزید محدود کردیے ہیں جس پر چاروں صوبوں کے منتخب بلدیاتی نمائندے احتجاج کر رہے ہیں مگر عوام کی منتخب حکومتیں نچلی سطح پر بلدیاتی منتخب عہدیداروں کو وہ اختیارات جان بوجھ کر نہیں دے رہیں جو معاملات چلانے کے لیے ان کا حق ہیں۔ بلدیاتی اداروں کے اختیارات محدود اور انھیں اپنا محتاج رکھنے میں چاروں صوبائی حکومتیں ایک ہیں اور وزیراعلیٰ اور محکمہ بلدیات کے وزیر اور افسران تمام اہم اختیارات اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں اور انھیں اعلیٰ عہدوں پر تقرر و تبادلوں کے نہ صرف اختیارات حاصل ہیں بلکہ کارپوریشن سے یوسی تک نچلی سطح کے منتخب بلدیاتی نمائندے ان کے مکمل احتجاج اور رحم و کرم پر ہیں۔

ملک کی تاریخ میں پلی بار بلدیاتی نظام صوبوں میں صوبائی اور اسلام آباد کا بلدیاتی نظام وفاقی حکومتوں کے مکمل کنٹرول میں آچکا ہے جب کہ جنرل پرویز کے ضلعی حکومتوں میں بلدیاتی عہدیدار انتظامی اور مالی طور پر مکمل بااختیار تھے اور محکمہ بلدیات وہاں من مانی اور غیر قانونی مداخلت نہیں کرسکتے تھے اور مداخلت نہ کیے جانے کا سب سے زیادہ دکھ ارکان قومی و صوبائی اسمبلیوں کو تھا کیونکہ غیر جماعتی بنیاد پر منتخب ناظمین کے دور میں ان کی نہیں چلتی تھی اور بلدیاتی کاموں کے فنڈ ارکان اسمبلی کے بجائے بلدیاتی اداروں کو ملتے تھے۔

ضلعی حکومتوں میں اضافی عملہ مقررہ یا کچھ زیادہ بھی ہوتا تھا کیونکہ انھیں اپنے وسائل کے مطابق بجٹ میں ترقیاتی اور غیر ترقیاتی فنڈ رکھنا پڑتا ہے اور انھیں صوبوں کی گرانٹ کی محتاجی بھی نہیں تھی۔زیادہ فنڈ ترقیاتی کاموں کے لیے مختص تھے۔ ناظمین فرشتے تو نہیں تھے مگر سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کے مقابلے میں اپنے علاقوں کے عوام کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے کیونکہ انھیں وہیں رہنا جینا اور مرنا ہوتا ہے اور سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کے وہ علاقے اپنے شہر ہوتے ہیں اور وہ عوام کے بجائے اپنے بڑوں کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ ترقیاتی کاموں میں کمیشن تو ہر بلدیاتی اداروں میں مقرر ہے خواہ وہاں سرکاری افسران سربراہ ہوں یا منتخب نمائندے اور سرکاری افسروں کے دور میں تو انھیں وزیر بلدیات سے لے کر اسسٹنٹ کمشنروں تک کا خصوصی خیال رکھنا پڑتا ہے اس لیے وہاں کرپشن بھی زیادہ ہوتی ہے۔

کمشنری نظام کو موجودہ بلدیاتی اداروں کا ماتحت کرکے زیادہ سے زیادہ کرپشن کے مواقع فراہم کرنے کا سہرا بھی نام نہاد جمہوری حکومتوں کے سر ہے جو خود تو وفاق سے بھی آزاد ہیں مگر نچلی سطح کے بلدیاتی اداروں کو بیورو کریسی کا ماتحت بناچکی ہیں۔ملک بھر میں مختلف بلدیاتی نظاموں میں تماشا یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی بلدیہ عظمیٰ کراچی کا سربراہ میئر کہلا رہا ہے اور بلدیہ عظمیٰ لاہور کا سربراہ لارڈ میئر ہے۔ سب سے بڑے شہر کراچی میں صرف ایک ڈپٹی میئر ہے جب کہ لاہور میں سب سے زیادہ نو ڈپٹی میئر ہیں۔ اسلام آباد میں ایک میئر اور تین ڈپٹی میئر ہیں جنھیں منتخب ہونے کے فوری بعد چارج مل گیا تھا اور چاروں صوبوں میں بلدیاتی سربراہوں کو مہینوں تاخیر سے اختیارات دیے گئے۔ تیسرے بڑے شہر فیصل آباد میں میونسپل کارپوریشن کے چار ڈپٹی میئر اور چوتھے بڑے شہر حیدرآباد کے لیے صرف ایک ڈپٹی میئر ہے۔

سندھ، بلوچستان اور کے پی کے کے کسی بلدیہ اعلیٰ میں ایک سے زیادہ ڈپٹی میئر نہیں مگر راولپنڈی، ملتان، گوجرانوالہ ودیگر میں دو سے تین ڈپٹی میئر ہیں۔ چاروں صوبوں میں یہی حال یونین کونسلروں کی تعداد کا ہے اور کراچی سے زیادہ یونین کونسلیں لاہور کی ہیں۔ کراچی میں بلدیہ عظمیٰ کے ساتھ ضلع کونسل کراچی بھی ہے جب کہ دیگر میونسپل کارپوریشنوں میں ایسا نہیں ہے۔ کراچی کے 6 ضلعوں میں یونین کمیٹیاں اور ضلع کونسل میں یونین کونسلیں بنائی گئی ہیں جس سے ملک بھر میں بلدیاتی نظام اور بلدیاتی ادارے تماشا بنا دیے گئے ہیں جو دور آمریت میں نہیں جمہوری کہلانے والی حکومتوں نے کیا ہے۔

The post مختلف بلدیاتی نظاموں کا تماشا appeared first on ایکسپریس اردو.

زہرہ بی بی کا قتل اور شہباز شریف کا ایکشن

$
0
0

لاہور کے جناح اسپتال کے ننگے فرش پر جان دینے والی زہرہ بی بی کے بے حس قتل کا ذمے دار کون ہے۔زہرہ بی بی کو لاہور کے چار اسپتالوں نے علاج کی بنیادی سہولت دینے سے انکار کیا ۔ اس طرح یہ کسی ایک ڈاکٹر یا اسپتال کی بے حسی کا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک اجتماعی بے حسی کلچر کا عکاس ہے۔ لیکن پھر بھی کسی کو تواس کی ذمہ د اری قبول کرنی ہو گی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب زہرہ بی بی کے گھر گئے ہیں۔

انھوں نے اس قتل کے ذمے داروں کو معاف نہ کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ زہرہ بی بی کے ساتھ جو ہوا ہے وہ پاکستان کے ہر اسپتال میں ہر غریب آدمی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ تحریک انصاف جو شہباز شریف کی میٹروز پل اور سڑکیں بنانے کے اس لیے خلاف ہے کہ یہ وسائل تعلیم اور صحت پر خرچ ہونے چاہیے ، وہ بھی اسپتالوں اور ڈاکٹروں کو ٹھیک کرنے کا کوئی فارمولہ اور عملی نمونہ پیش نہیں کر سکی ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے نہ تو اسپتال ٹھیک کیے ہیں اور نہ ہی پل سڑکیں اور میٹرو بنائی ہیں۔ اگر وہ  ہی کوئی روڈ میپ اپنے صوبہ میں پیش کر دیتے تو آج ہم کہہ سکتے کہ پنجاب خیبر پختونخواہ کے روڈ میپ کی پیروی کر لے۔ لیکن افسوس کہ وہاں بھی کچھ نہیں ہوا۔

بہر حال شہباز شریف گزشتہ چند ماہ سے پنجاب کے اسپتال ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کوشش کتنی کامیاب ہو ئی ہے ۔ کتنی کامیاب ہو سکتی ہے ۔کیا یہ دیر سے شروع کی گئی ہے۔ اس پر تو مختلف رائے ہو سکتی ہے۔ لیکن پھر بھی کوئی اس بات کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا کہ اسپتال اور ڈاکٹر ٹھیک کیے بغیر عام آدمی کو علاج کی سہولیات میسر نہیں آسکتیں۔ یقیناً شہباز شریف نے ایک مشکل کام شروع کیا ہے جس سے اکثر حکومتیں جان چھڑانے کی ہی کوشش کر تی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شہباز شریف اس کام کو اب منطقہ انجام تک پہنچائیں۔ انھیں یہ بات سمجھنی ہو گی کہ اگر وہ پنجاب کے سرکاری اسپتالوں کو ٹھیک کریں گے تو سندھ اور باقی صوبوں کے اسپتال بھی ٹھیک ہو جائیں گے۔ پنجاب کو پہل کرنا ہو گی۔ شائد کے اس کے بعد ہمارے حکمران بھی سرکاری اسپتالوں میں علاج کرانے کے لیے  تیار ہو جائیں۔

اگر یہ مان لیا جائے کہ بطور وزیر اعلیٰ شہباز شریف علاج نہ ملنے کے ذمے دار ہیں۔ تو پھر بھی خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ کم از کم شہباز شریف کو اس  کا احساس تو ہو گیا۔ ورنہ پاکستان کے باقی صوبوں میں بھی سرکاری اسپتالوں میں بھی علاج کی سہولتیں نہایت مخدوش ہیں مگر وہاں کوئی اس کی براہ راست ذمے داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جب تک حکمران اس کی ذمے داری قبول نہیں کریں گے  تب تک یہ صورتحال ٹھیک بھی نہیں ہو گی۔ گزشتہ دنوں جب سابق صدر آصف زرداری کراچی کے ایک اسپتال گئے تو اسپتال جانے کے لیے ان کی مہنگی گاڑی کو گندے پانی سے گزر کر جانا پڑا۔ جس پرسندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ بہت ناراض ہوئے ۔ صورتحال پشاور اور کوئٹہ کی بھی کوئی خاص مختلف نہیں ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وسائل سے قطع نظر پورے پاکستان کے سرکاری اسپتال ایک ہی کلچر کا شکار ہیں۔ یہ ڈاکٹرز کی بے حسی کا کلچر ہے۔

پاکستان میں ڈاکٹرز کی ہڑتال کے کلچر نے سرکاری اسپتالوں میں بے حسی کے کلچر کو عروج بخشا ہے۔ ڈاکٹر    مسیحا کی بجائے پیسے بنانے والی مشینیں بن گئے  ہیں۔ وہ ذمے داری کے احساس سے محروم ہو گئے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کا علاج نہیں کیاجاتا بلکہ انھیں شام کو پرائیوٹ کلینکس میں علاج کے لیے آنے پر مجبور کیا جا تا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا شہباز شریف کی سمت درست ہے۔ کیا ڈاکٹروں کا احتساب مریضوں کے لیے بہتر علاج کو ممکن بنا سکے گا۔ میرے خیال میں یہ اس سمت میں پہلا قدم ہے۔ یہ درست ہے کہ علاج کی سہولیات کم ہیں۔ حکومت کو صحت کے شعبہ کو مزید وسائل دینا ہو نگے لیکن اس سے بھی پہلے جو وسائل موجود ہیں ان کا درست استعمال یقینی بنانا اہم ہے۔ صورتحال تو یہی ہے کہ جو وسائل موجود ہیں ان کو بھی عوام کی فلاح کے لیے استعمال نہیں کیا جا رہا ہے۔ موجودہ وسائل کے بہترین استعمال کے لیے احتساب کا عمل ناگزیر ہے۔ یہ ایک مشکل کام ہے کیونکہ ڈاکٹرز اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

سرکاری اسپتالوں میں پروفیسرز کا کام نہ کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ پروفیسرز سرکاری اسپتالوں کو صرف اپنی پرائیوٹ پریکٹس کی مارکیٹنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ دن میں ایک راؤنڈ وہ بھی صرف چہرہ دکھانے کے لیے۔ جب تک شہباز شریف پروفیسرز کو کسی قانون و ضابطہ کے کنٹرول میں نہیں لاتے تب تک سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی بے حسی پر قابو نہیں پا یا جا سکتا۔

شہباز شریف کے مخالفین یہ کہہ سکتے ہیں کہ شہباز شریف کا زہرہ بی بی کے گھر جانا سیاسی شعبدہ بازی ہے لیکن میرے نزدیک یہ ڈاکٹروں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ایک شعوری کوشش ہے۔ ہمیں ملک کے چاروں وز راء  اعلی کو اس بات پر مجبور کرنا چاہیے کہ وہ زہرہ بی بی جیسے ہر واقعہ پر سخت ایکشن لیں ۔ کسی زہرہ بی بی کا خون رائیگاں نہیں جانا چاہیے۔

اس ضمن میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی اس کاوش پر تنقید کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تا کہ ڈاکٹروں کا احتساب شروع ہو سکے۔اس وقت شہباز شریف نے صحت کے شعبہ میں مختلف انقلابی کام شروع کیے ہوئے ہیں۔ ان میں جعلی ادویات کے خلاف کریک ڈاؤن بھی شامل ہے۔ پرائیوٹ اسپتالوں کی انسپکشن اور انھیں کنٹرو ل کرنے کی کوشش بھی شامل ہے۔ اسی کے ساتھ حکومت پنجاب کی جانب سے پنجاب فوڈ اتھارٹی کے تحت ناقص دودھ گھی اور دیگر کھانے پینے کی اشیا کے خلاف مہم کا تعلق بھی عام آدمی کی صحت سے ہی ہے۔

سرکاری اسپتالوں کا انچارج کون ہونا چاہیے ۔اس حوالہ سے بھی معاملات  ابھی تک طے نہیں ہو سکے ہیں۔ پہلے یہ دلیل دی گئی کہ اسپتال کا ایم ایس ایک ڈاکٹر کو ہی ہونا چاہیے کیونکہ ایک ڈ اکٹر ہی اسپتال کا انتظام اور معاملات سمجھ سکتا ہے۔ لیکن یہ فارمولہ فیل ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر ایم ایس نہ صرف ڈاکٹرز کی بے حسی کے سامنے سرنگوں نظرا ٓئے ہیں بلکہ وہ پروفیسرز سے پوچھ گچھ کرنے کے اہل بھی نظر نہیں آئے۔جس نے سر اٹھا یا اس ایم ایس کو ڈاکٹروں نے اسپتال میں مارا ۔ اور حکومت خاموش رہی۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ پنجاب کے سرکاری اسپتالوں میں ایسے پروفیسرز بھی ہیں جنھوں نے ایک سال میں ایک مریض بھی نہیں دیکھا۔ ایسے سرجن بھی ہیں جنھوں نے ایک سال میں ایک آپریشن بھی نہیں کیا۔ صرف اپنی ذاتی پریکٹس پر توجہ دی۔ اور اس کی مارکیٹنگ کی۔ ایسے میں بیچارہ ایم ایس تو ان سے بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

اس لیے اب اس پرانے اور فرسودہ فارمولہ اور دلیل سے جان چھڑانے کی ضرورت ہے۔ اور سرکاری ہستپالوں کا نظام ایسے افراد کے ہاتھ میں دینے کی ضرورت ہے جو انتظامی سہولیات کا ماہر ہو۔ یہ درست ہے کہ ڈی ایم جی کے افسران کا لگانا بھی کوئی حل نہیں۔ ہماری بیوروکریسی پر ڈی ایم جی کا راج ہے۔ اور افسر شاہی ہر مسئلہ کا حل ڈی ایم جی کو ہی سمجھتی ہے۔ ویسے تو عام آدمی کا یہ مسئلہ نہیں کہ اسپتال کون ٹھیک کرے گا۔ انھیں تو ٹھیک چاہیے۔ کیا ڈی ایم جی افسران پروفیسرز کو لگام ڈال سکیں گے۔ یہ ایک مشکل سوال ہے۔

The post زہرہ بی بی کا قتل اور شہباز شریف کا ایکشن appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 22628 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>