Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22607 articles
Browse latest View live

لاثانی امتیاز احمد

$
0
0

2016 کا پرآشوب سال جاتے جاتے ایک اور زخم لگا کر چلا گیا۔ سابق ٹیسٹ کرکٹر امتیاز احمد 31 دسمبر بروز ہفتہ صبح کے وقت اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ وہ 5 جنوری 1928کو لاہورمیں پیدا ہوئے اور اپنی جنم بھومی میں ہی آسودہ خاک ہوئے۔

امتیاز احمد کا نام ہم نے سب سے پہلے اپنے والد صاحب کے منہ سے سنا تھا جوکپتان عبدالحفیظ کاردار، بولرز خان محمد اور فضل محمود اور بلے بازوں نذر محمد، حنیف محمد اور وکٹ کیپر بیٹسمین امتیاز احمد کے بڑے زبردست مداح تھے۔ ’’پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں‘‘ والی کہاوت امتیاز احمد پر حرف بہ حرف صادق آتی ہے۔ ان کی خداداد صلاحیت کے جوہر اسلامیہ ہائی اسکول، بھاٹی گیٹ لاہور کے زمانے سے کھلنے شروع ہوگئے تھے۔ پھر اس کے بعد جب قیام پاکستان سے قبل انھوں نے پہلی مرتبہ 1944-45 ہندوستان کے مشہور کرکٹ ٹورنامنٹ رانجی ٹرافی میں اپنی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو اہل نظر کو اندازہ ہوگیا کہ یہ ہونہار کرکٹ کے میدان میں اپنی کامیابی کے خوب جھنڈے گاڑے گا۔

یہ بھی امتیاز احمد کا ہی طرہ امتیاز کہ انھوں نے پہلا ٹیسٹ میچ کھیلنے سے قبل بھی ہندوستان کے مشہور شہر بمبئی میں جو اب ممبئی کہلاتا ہے، برابورن اسٹیڈیم میں کامن ویلتھ کی ٹیم کے خلاف ہندوستان کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو XI کی جانب سے 1952 میں ناقابل شکست 300 رنز اسکور کرکے اپنی بے پناہ صلاحیت کا لوہا منوالیا تھا۔ امتیاز کو اس میچ میں کھیلنے کے لیے خصوصی طور پر پاکستان سے بلوایا گیا تھا۔ ان کی اس ٹرپل سنچری میں اس وقت کے نامور بھارتی کرکٹرز روسی مودی، وجے منجریکر، مشتاق علی اور ایس جئے سنگھے نے ان کے ساتھ شراکت داری کی تھی۔

سب سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس میچ میں امتیاز نے اس دور کے مایہ ناز گیند بازوں کیتھ ملر، ڈیرک شیکلٹن اور اسپنر سونی رامادھین کی خوب پٹائی کی تھی اور انھیں چوکڑی بھلادی تھی۔ اس زمانے میں کیتھ ملر جیسے طوفانی بولر کا مقابلہ کرنا اس لیے بھی آسان نہیں تھا کیونکہ تب بلے باز کی حفاظت کے لیے ہیلمٹ ایجاد نہیں ہوا تھا اور تیز بال بولر کا سب سے بڑا اور خطرناک ہتھیار ہوا کرتا تھا۔ چنانچہ جب امتیاز احمد نے اس میچ کی دوسری اننگز میں اپنی بلے بازی شروع کی تو کھیل کے درمیان انھیں آر آر ڈؤوی کی گیند سے چہرے پر ہٹ ہوجانے کی وجہ سے تھوڑی دیر کے لیے ریٹائر ہوکر پویلین جانا پڑا مگر واپسی پر انھوں نے رہی سہی کسر پوری کردی۔

1954 میں جب پاکستان کی ٹیم نے انگلینڈ کا دورہ کیا تو اس کی پہلی فتح کے دوران امتیاز نے فضل محمود کی گیندوں پر سات کیچ پکڑ کر اپنی وکٹ کیپنگ کا لوہا منوالیا اور Caught Imtiaz bowled Fazal ایک روایت سی بن گئی۔ 1958 میں پاکستان ٹیم کے دورہ ویسٹ انڈیز میں بھی امتیاز احمد نے اپنی صلاحیت کے خوب خوب جوہر دکھائے۔ برج ٹاؤن کے تاریخی ٹیسٹ میچ میں جہاں لٹل ماسٹر حنیف محمد نے 337 رنز کی شاندار اننگز کھیل کر میچ کا پانسہ پلٹ دیا تھا امتیاز احمد کے 91 رنز بڑی اہمیت کے حامل تھے جو ان کی جرأت مندانہ اور انتہائی جارحانہ بلے بازی پر مشتمل تھے۔

انھوں نے ویسٹ انڈیز کے رائے گلکرائسٹ اور ڈیوڈنی جیسے طوفانی بولرز کی جو کالی آندھی کہلاتے تھے خوب دھنائی کی۔ وہ عبدالحفیظ کاردار کی قیادت میں تشکیل پانے والی پہلی پاکستانی ٹیم کے انتہائی اہم اور سرگرم رکن تھے۔ انھوں نے 1952 سے 1962 کے دس سالہ قابل ذکر عشرے میں 41 ٹیسٹ میچوں میں 29 کی اوسط سے 2079 رنز اسکور کیے اور وکٹ کے پیچھے 77 کیچ پکڑے جب کہ 66کھلاڑیوں کو اسٹمپ آؤٹ کیا۔

دائیں بازو کے زبردست اسٹروک پلیئر 180 فرسٹ کلاس میچوں میں شرکت کرکے 137 اعشاریہ 37کی اوسط سے 10,391 رنز اسکور کیے۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز قیام پاکستان سے قبل 1944 میں کیا اور غیر منقسم ہندوستان کی مختلف ٹیموں میں اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ اپنے ٹیسٹ کیریئر کا اختتام بھی انھوں نے اسی شان کے ساتھ 1962میں انگلینڈ کے اوول ٹیسٹ میچ میں کیا اور غیرمنقسم ہندوستان کی مختلف ٹیموں میں اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ اپنے ٹیسٹ کیریئر کا اختتام بھی انھوں نے اس شان کے ساتھ 1962 میں انگلینڈ کے اوول ٹیسٹ میچ میں دھواں دھار 49 اور 98 رنز اسکور کرکے کیا۔ امتیاز اور فضل محمود محض ساتھی کھلاڑی ہی نہیں بلکہ آپس میں بڑے گہرے دوست بھی تھے۔

دونوں نے کئی برسوں تک ایک دوسرے کے ساتھ مل کر پنجاب یونیورسٹی کی ٹیموں کا انتخاب بھی کیا۔ اگرچہ کئی کھلاڑی Reverse Swing بولنگ کی ایجاد کے دعوے دار ہیں لیکن امتیاز صاحب کا کہنا تھا کہ اس کا سہرا ان کے ہم عصر فاسٹ بولر خان محمد کے سر تھا، جو پاکستان کی پہلی قومی کرکٹ ٹیم کے اوپننگ بولر تھے۔ اگرچہ امتیاز احمد نے کھلاڑی کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز تقسیم سے پہلے شمالی ہندوستان سے کیا لیکن ان کی اصل شہرت اس وقت ہوئی جب انھوں نے 1945-46 میں آسٹریلین سروسز کے خلاف کھیلتے ہوئے کیتھ ملر، سیل پیپر اور پیٹی فورڈ جیسے طوفانی بولرز کے چھکے چھڑا دیے۔

امتیاز احمد اور کرکٹ کا چولی دامن کا ساتھ رہا۔ انھوں نے نہ صرف ایک بے مثال کرکٹر کی حیثیت سے ناقابل فراموش خدمات انجام دیں بلکہ ایک انتہائی مخلص، غیر جانبدار اور باوقار قومی سلیکٹر کے طور پر بھی گراں قدر خدمات انجام دیں جن کے اعتراف میں انھیں بجا طور پر پرائیڈآف پرفارمنس اور تمغہ امتیاز سے نوازا گیا جس کے وہ پوری طرح مستحق تھے۔ اس کے علاوہ پی سی بی کی جانب سے انھیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ انھوں نے پاکستان ایئرفورس میں 27 سالہ طویل خدمات بھی انجام دیں جہاں سے وہ بحیثیت ونگ کمانڈر شان و شوکت کے ساتھ سبک دوش ہوئے۔

انھوں نے کئی سال تک انڈر 19کرکٹرز کی کوچنگ کی اور تین برس تک پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم کے لیے مشیر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ وہ پی اے ایف اسکول آف فزیکل فٹنس پشاور کے سربراہ بھی رہے جس کے دوران انھوں نے اسکواش کے مایہ ناز ہیرو جان شیر خان کو بھی تربیت دی۔ امتیاز احمد امتیازی خصوصیات و صفات کے حامل تھے اور اس اعتبار سے وہ اسم بامسمی تھے۔ اردو شاعری سے بھی انھیں بڑا گہرا شغف تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک انتہائی نیک دل اور مرنجان مرنج قسم کے انسان تھے جن کے بارے میں پرخلوص دعائے مغفرت کے ساتھ یہی کہنے پر اکتفا کیا جاسکتا ہے:

خدا بخشے کہ کیا کیا خوبیاں تھیں مرنے والے میں

The post لاثانی امتیاز احمد appeared first on ایکسپریس اردو.


تبدیلیوں کا سامنا کیسے کیا جائے

$
0
0

چائنا پاک اقتصادی راہداری (CPEC) چین اور پاکستان دونوں ممالک کے لیے بہت بڑا اور انتہائی اہم منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کی سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ یہ دنیا کے دو قریبی اور ایک دوسرے پر اعتماد کرنے والے دوست ممالک میں تعمیر ہونے والا پروجیکٹ ہے۔

گزشتہ ماہ چین کے شہر بیجنگ میں CPECکی مشترکہ رابطہ کمیٹی (JCC) کی چھٹی نشست منعقد ہوئی۔ اس نشست میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال ، وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق  فاطمی ، سندھ ، خیبر پختونخوا ، بلوچستان اور گلگت بلتستان کے وزائے اعلیٰ سید مراد علی شاہ، پرویز خٹک، نواب ثناء  اللہ زہری، حفیظ الرحمٰن، پنجاب کے وزیر صنعت شیخ علاؤ الدین اور دیگر وزراء اور وفاقی اور صوبائی اعلیٰ افسران نے شرکت کی ۔ چین کا وفد وائس چئیر مین برائے قومی ترقی و اصلاحات وانگ ژاؤٹاؤ Wang Xiaotaoکی سربراہی میں شریک ہوا۔

چین اور پاکستان میں جے سی سی کے پہلے بھی کئی اجلاس ہوچکے ہیں، زیر تزکرہ اجلاس کی اہمیت ہم پاکستانیوں کے نزدیک اس لیے زیادہ ہے کہ اس میں وفاقی حکومت کے نمائندوں کے ساتھ پاکستان کے ہر صوبے کی اعلٰی سطحی نمائندگی ہوئی  اور ہر صوبے نے  سی پیک کے منصوبوں پر اپنے مکمل اطمینان اور اعتماد کا اظہار کیا۔ اس اجلاس کے ذریعے پاکستان کے کچھ حلقوں میں پائے جانے والے بعض خدشات کا بخوبی ازالہ بھی ہوگیا۔

پاکستان کی ترقی اور استحکام سے ناخوش کئی ممالک سی پیک کی تعمیر کے خلاف ہیں۔ جے سی سی کے اس اجلاس میں ہونے والے اتفاق رائے سے پاکستان کے دشمنوں اور سی پیک کے مخالفوں کو بھی واضح پیغام دے دیا گیا ہے۔

اب بحیثیت قوم ہمیں آگے کی طرف دیکھنا ہے، ترقی اور خوشحالی کی سمت میں آگے بڑھنا ہے۔

سی پیک جتنا بڑا منصوبہ ہے پاکستان کے لیے اتنے ہی اہم سوالات بھی لیے ہوئے ہے۔ کیا پاکستان کی وفاقی  اور صوبائی حکومتوں اور دیگر اداروں نے ان سوالات کے جواب تلاش کرلیے ہیں ، اور اس حوالے سے اپنی اپنی ذمے داروں کی ادائیگی کے لیے تیاریاں شروع کردی ہیں؟

سی پیک کی وجہ سے پاکستان میں روزگار کے لاکھوں نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ ٹیلی کمیونیکیشن ، روڈ ، ریل، ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں درکار تعلیم یافتہ افراد کی فراہمی کے لیے منصوبے بنالیے گئے ہیں؟

بجلی کے پیداواری اور ترسیلی یونٹس اور دیگر صنعتی اداروں کے لیے مختلف شعبوں کے انجینئیرز، ٹیکنیشنز اور دیگر ہنر مند افراد کی تعلیم و تربیت کے لیے درکار معتبر ادارے ہمارے ملک میں ہیں…؟

اگر نہیں ، تو ان تعلیمی اور تربیتی اداروں کے قیام اور ان کے لیے درکار ہزاروں ماہر اساتذہ اور دیگر ٹرینرز کی فراہمی کے لیے کیا سوچا گیا ہے؟

چند برسوں بعد جب اس اقتصادی راہداری پر ہزاروں ٹرک روں دواں اور کئی ٹرینیں محو سفر ہوں گی تو ہمیں کئی نئی ضرورتوں کا سامنا بھی ہوگا۔ بہتر ہوگا کہ پاکستان کے ہر صوبے میں سی پیک کے تحت آنے والے مختلف شعبوں کے ماہرین کے تھنک ٹینکس تشکیل دے دیے جائیں۔ ان تھنک ٹینکس کو مطالعے، مشاہدے اور تحقیق کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کی جائیں۔

دیکھیے…!اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کی وجہ سے انسانی معاشروں کو پہلے ہی کئی تبدیلیوں کاسامنا ہے، پاکستانی معاشرہ بھی ان تبدیلیوں سے گزر رہا ہے۔ کمپیوٹر، انٹرنیٹ، موبائل فون، فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ، آن لائن بزنس وغیرہ رہن سہن کے انداز اور کاروبار کے طریقوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی یہ تبدیلیاں بظاہر کسی ایک ملک کی ہیوی انویسٹمنٹ یا محض کسی ایک ملک کی افرادی شمولیت یا نفوذ کے بغیر آرہی ہیں۔ آج کے دور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کسی شعبے کی سمجھ بوجھ رکھنے والا کوئی نوجوان اپنی صلاحیتوں سے کام لے کر ایک بڑا کاروبار چلاسکتا ہے۔ اینڈروئیڈ فون پر مختلف ایپس  کے ذریعے معمولی سمجھ بوجھ کا حامل کوئی بھی شخص دنیا کے کسی بھی خطہ سے رابطہ کرسکتا ہے ، دوسرے ملکوں میں تعلقات قائم کرسکتا ہے، کاروبار کرسکتا ہے، اپنے خیالات و نظریات شئیر کرسکتا ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا بھر تک رسائی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی کئی تبدیلیاں  پچھلے دس  پندرہ سال میں ہی آئی ہیں۔ جب ان تبدیلیوں کا آغاز ہورہا تھا تب ہمارے یہاں  ان کا صحیح ادراک نہیں کیا گیا۔ ہم نے ان تبدیلیوں کا سامنا کرنے ، ان کا خیرمقدم کرنے یا ان کی حدود مقرر کرنے کے لیے بروقت کوئی تیاری نہیں کی ۔ اس نظر اندازی یا غفلت کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بیش بہا ثمرات سے ہم ٹھیک طرح فائدہ نہیں اٹھا پارہے۔ کئی مقامات پر ہمارے ملک میں روایتی ایڈہاک ازم اور کہیں سُستی مزاحمت کررہی ہے۔

پچھلے بیس پچیس سال سے سردیوں کے دو تین مہینوں میں پنجاب کے کچھ شہروں میں دھند بہت بڑھ جاتی ہے، اس شدید دھند میں حد نظر بہت کم ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک کی روانی تو متاثر ہوتی ہے لیکن لاہور، ملتان اور بعض دیگر ائیر پورٹس پر تیاروں کی آمد ورفت بھی معطل ہوجاتی ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں میں انتہائی شدید دھند میں بھی جہازوں کی رہنمائی کے لیے جدید ترین نظام کئی دہائیوں سے نصب ہیں لیکن ہم اس ترقی کو اختیارکرنے اور اس سے استفادہ کرنے میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔

یہی حال موسمیات کے محکمے کا بھی ہے۔ اس کی اکثر پیش گوئیاں غلط ہوجاتی ہیں۔ غلط پیش گوئیوں پر عوام کو ہونے والی تکالیف  اور محکمہ موسمیات کو ہونے والی شرمندگی کی سب سے بڑی وجہ موسم کی بروقت مانیٹرنگ کے لیے جدید معیاری آلات کا نہ ہونا ہے۔ خواجہ سعد رفیق کی جانب سے ریلوے کی وزارت سنبھالنے کے بعد پاکستان ریلوے کی حالت میں بہت سدھار آیا ہے ،  ٹرینیں اب وقت پر چل رہی ہیں، مسافروں کی سہولت کے لیے نئی اور آرام دہ ٹرینیں بھی چلائی جارہی ہیں۔ یہ اچھی کارکردگی اپنی جگہ لیکن پاکستان ریلوے آج بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ثمرات سے پوری طرح استفادہ نہیں کررہی۔

ان مثالوں کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ دنیا بھر میں آسانی سے دستیاب کئی سہولتوں کو بھی ہم ٹھیک طرح اختیار نہیں کرپارہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تبدیلیوں کے لیے ذہنی طور پر خود کو تیار نہ کرپانا ہے۔ یہی حال معاشی ترقی کا بھی ہے۔ ہر معاشی ترقی اپنے ساتھ کئی تبدیلیوںکی نوید لے کر آتی ہے۔ ان تبدیلیوں کو مثبت طور پر قبول کرلیا جائے اور ان کے منفی پہلوؤں کی  تحدید کردی جائے تو معاشرے کو زیادہ مستحکم اور منظم بنایا جاسکتا ہے۔ ان تبدیلیوں کو نظر انداز کردیا جائے یا ان کی مزاحمت کی جائے  تو یہ تبدیلیاں دریائی سیلاب کا ایک ایسا شدید ریلہ بن جاتی ہیں جو اپنے سامنے والے ہر بند کو توڑتا چلاجاتا ہے۔

سی پیک منصوبہ بھی اپنے ساتھ کئی تبدیلیوں کی نوید لارہا ہے، سی پیک سے ہونے والی متوقع معاشی ترقی کو پاکستان میں سماجی بہتری کا ذریعہ بھی بننا چاہیے۔ اس معاشی ترقی سے سماجی بہتری حاصل کرنے کے لیے  بڑے پیمانے پر سوچ بچار اور صحیح منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ایسی منصوبہ بندی جس میں پاکستان کے کثیر الثقافتی معاشرے کی مختلف اہم خصوصیات کو مدنظر رکھا گیا ہواور مثبت پہلوؤں اور دلکش رنگوں کو زیادہ سے زیادہ نمایاں ہونے کے مواقع رکھے جائیں۔ ان مقاصد کے لیے ایسے نظام تعلیم اور نصاب کی ضرورت ہے جو پاکستانیت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جدید  علوم و فنون پر مشتمل ہو۔

…………………

میاں مشتاق احمد عظیمی

روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین کے کالم نگار، کئی کتابوں کے مرتب ، مؤلف اور مصنف، سابق صوبائی سیکریٹری میاں مشتاق احمد عظیمی بدھ ,4جنوری   2017کو لاہور میں انتقال کرگئے،

اناللہ وانا الیہ راجعون

میاں صاحب ایک درویش صفت اور صوفی منش انسان تھے، برسہا برس فی سبیل اللہ خدمت خلق میں مصروف رہے۔ آپ کی رحلت سے آپ کے ہزاروں  چاہنے والوں کو شدید صدمہ ہوا۔ اللہ تعالی سے دعا ہے  میاں مشتاق عظیمی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا ہو۔

The post تبدیلیوں کا سامنا کیسے کیا جائے appeared first on ایکسپریس اردو.

مقدمے یا دشمنیاں

$
0
0

میں سخت سردی سے گھبرا کر وادی سون سے بھاگ کر لاہور پہنچا کہ یہاں سردی قابل برداشت ہو گی اور جسم کے آر پار گزرنے والی ٹھنڈ وہ نہیں ہو گی جو میری پہاڑی وادی سون میں آزادانہ اڑتی پھرتی ہے۔ لاہور میرا دوسرا گھر ہے کہ عمر کا بڑا حصہ اور بہترین حصہ لاہور کے گلی کوچوں اور بازاروں میں گزرا ہے۔ سائیکل چلاتے ہوئے لاہور کے مدرسوں اور تعلیمی اداروں میں جوانی گزر گئی۔ تب یہاں ہندو اور سکھ لڑکیاں سائیکل چلایا کرتی تھیں۔ خواتین کی سائیکل کی ساخت ذرا مختلف ہوتی تھی کہ لڑکیاں آرام سے سائیکل چلا سکیں۔

میں اس سائیکل کا نقشہ نہیں کھینچ سکتا جو لڑکیوں کی سہولت کے لیے تیار کی جاتی تھی۔ اس کی کاٹھی اور ہینڈل کے درمیان ڈنڈا نہیں تھا جو لڑکیوں کے لیے سہولت بن کر سائیکل چلانے میں ان کی مدد کرتا تھا۔ بہرکیف پاکستان کی تحریک شروع ہوئی اور سائیکل کی ساخت بھی بدل گئی۔ یعنی جیسی سائیکل سکھ اور ہندو لڑکیاں استعمال کرتی تھیں وہ بدل گئی جیسے پاکستان کی آمد آمد کے ساتھ وہ بھی مسلمان ہو گئی ہو۔ غیر مسلم اور غیر پاکستانی لڑکیاں جو سائیکل استعمال کرتی تھیں اس کی ساخت صرف اتنی بدل گئی کہ جو ڈنڈا سیدھا ہینڈل تک جاتا تھا وہ جھک گیا۔

اس کی جگہ خواتین کے لیے ایک اور راڈ  لگا دیا گیا۔ یوں یہ سائیکل بھی پاکستانی بن گئی۔ میں جس زمانے کی بات کر رہا ہوں تب لڑکیاں آمدورفت کے لیے سائیکل چلاتی تھیں اور سواری کے لیے اسے استعمال کرتی تھیں۔ مسلم اور غیر مسلم لڑکیوں کے لیے سائیکل کی ساخت ذرا مختلف ہوتی تھی اور خواتین آمدورفت کے لیے مردوں کی محتاج نہیں ہوتی تھیں۔ ایک ہی سڑک اور ایک ہی راستے پر مسلم اور غیر مسلم سائیکل بلاتکلف چلتی تھی جس سے ٹریفک کا مسئلہ حل ہو گیا تھا اور خواتین خصوصاً لڑکیاں مردوں کی محتاج نہیں رہی تھیں وہ اپنی مرضی سے آزادانہ گھومتی پھرتی تھیں۔ ان سائیکل سوار لڑکیوں کو مسلمان بخوشی برداشت کرتے تھے اور ایک ہی راستے پر لڑکیاں اور مرد سائیکل سواری کرتے تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا جس میں مسلمان ہندو سکھ سبھی ایک ساتھ زندگی بسر کرتے تھے اور مل جل کر زندگی کا سفر طے کرتے تھے۔ مسجد مندر گرجے سبھی موجود تھے۔ اچھے وقتوں میں سبھی اپنی اپنی جگہ آباد تھے اور ان میں مذہبی رسومات ادا ہوا کرتی تھیں۔کسی عبادت گاہ میں جانے والے کسی دوسری عبادت گاہ سے کوئی تعرض نہیں کرتے تھے بلکہ احترام کرتے تھے۔ اکثر انگریزی اسکول گرجوں میں تھے جن میں مسلمان طلبہ کی اکثریت ہوا کرتی تھی۔ چھٹی کے وقت ان طلبہ کو لینے کے لیے ان کے سرپرست ایک ساتھ ان کی چھٹی کے وقت انتظار کرتے تھے۔ اور انتظار کا یہ وقت باہمی گپ شپ میں گزارتے تھے اور چھٹی پر بچوں کو لے کر گھر چلے جاتے تھے۔

ہر مذہب اور نسل کے بچے ایک ساتھ پڑھتے تھے اور ان کو گھر لے جانے والے بھی مختلف نظریات کے لوگ ہوتے جو سبھی مل کر ان کی چھٹی کا انتظار کرتے تھے اور ان کے درمیان کبھی کسی تلخی کی خبر نہیں ملی لیکن وہ شرفاء کا زمانہ تھا، اگر آج کا زمانہ ہوتا تو اسکولوں میں یہ ماحول نہ ملتا۔ اس کے باوجود کہ اس زمانے کا ایک بڑا حصہ گزر گیا لیکن اس کی مروت اور باہمی تعلق کی روایت باقی رہی میں نے خود دیکھا ہے کہ ملک معراج خالد اپنے پڑوسی لڑکوں کو اپنی سائیکل پر بٹھا کر ان کے گھر پہنچا آتے۔ شدید گرمی میں ان کے گھروں سے پانی بھی پی لیتے تھے۔ جیسا کہ عرض کیا ہے یہ زمانہ مل جل کر زندگی بسر کرنے کا زمانہ تھا جس میں بھائی چارے کا راج تھا اور زندگی بہت ہی آسان تھی اس میں تنازع نہیں تھے بلکہ تعاون تھا اور زندگی کو آسان بنانے کا رواج تھا۔ اس آسانی کے لیے قربانی بھی کی جاتی تھی جسے ایک اعزاز سمجھا جاتا تھا۔

میں جس آسان زندگی کی بات کر رہا ہوں وہ میری دیکھی بھالی یا یوں کہوں کہ یہ میری ذاتی زندگی تھی اس زندگی میں تنازعے بھی تھے اور مقدمہ بازی بھی لیکن یہ لطیفہ بھی مشہور ہے کہ مخالف فریق تاریخ بھگتنے کے لیے کسی دور کے مقام پر گئے اور وہاں کھانے کے وقت پر کھانا ایک ساتھ کھا لیا اور دونوں فریق گھر سے جو پکوا کر لے گئے تھے اسے ایک ساتھ رکھا اور کھایا۔ یہ زندگی کی روایت تھی اور اس کی کئی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ سن کر لوگ حیران رہ جاتے ہیں۔

ہمارے ہاں شاہ پور شہر میں کچہریاں تھیں لیکن خوشاب اور ان کے درمیان ایک دریا تھا دریائے جہلم اسے عبور کر کے دوسری طرف عدالت میں لوگ جاتے تھے لیکن اگر کسی دن دریا میں چلنے والی بیڑی دستیاب نہ ہوتی تو فریق مخالف اپنی بیڑی میں مخالف کے لیے جگہ بنا دیتا اور یوں دونوں متحارب فریق ایک ہی کشتی میں سوار عدالت میں پہنچتے اور وہاں سے کوئی بھی فیصلہ لے کر گاؤں لوٹ آتے اور اس فیصلے پر عملدرآمد میں جو تنازعے ہوتے وہ گاؤں میں ہی نپٹا لیے جاتے یا پھر عدالت کا دروازہ تو تھا ہی جس تک پہنچنے کے لیے بیچ میں صرف ایک دریا حائل تھا۔

ان لوگوں کی زندگی اسی طرح گزر گئی مقدمہ بازی بھی جاری رہی اور صلح صفائی بھی۔ خطرناک صورت حال بھی پیدا ہوتی رہی اور صلح بھی رہی لیکن یہ وقت خیریت سے گزر گیا تاآنکہ کسی فریق کی بدقسمتی نے کسی مقدمے کو باہمی دشمنی بنا دیا۔

The post مقدمے یا دشمنیاں appeared first on ایکسپریس اردو.

ایسی بھی کیا جلدی خان جی

$
0
0

مجھے ریاستی نظام میں ان سب خرابیوں کے بارے میں اتفاق ہے جن کی نشاندہی عمران خان وغیرہ کرتے رہتے ہیں۔ اس سے بھی اتفاق ہے کہ تبدیلی آنی چاہیے۔ مگر اتنا زور لگا کے یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ تبدیلی آ گئی ہے؟ اول تو یہ جملہ ہی غلط ہے کہ تبدیلی آ گئی ہے۔ درست جملہ یہ ہے کہ تبدیلی آ رہی ہے۔اور یہ بھی کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ تبدیلی آرہی ہے۔تبدیلی کسی کے کہنے نہ کہنے، گلا پھاڑنے نہ پھاڑنے سے نہیں آتی۔یہ تو خود کار اور فطری نظام ہے۔آپ چاہیں کہ نہ چاہیں، دھاڑیں کہ خاموش رہیں تبدیلی ہر آن آرہی ہے اور آتی چلی جائے گی۔

ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

انسان نے غاروں سے عالی شان محلات تک جو سفر کیا۔ پیدل سے خلائی جہاز تک جو پہنچا۔حلق سے غوں غاں نکالنے والے دو پیروں کے جانور نے جو بھانت بھانت کی زبانیں اور ان کی پیچیدہ گرائمر تشکیل دی۔ پہاڑی دیواروں پر ٹوٹی پھوٹی تصاویر بنانے سے جو ابتدا ہوئی اور پھر براستہ مونا لیزا تھری ڈی مووی تک پہنچ گئی۔ پتھروں سے لڑائی کرنے والوں کی نسلوں کی انگلیاں ایٹم بم کے بٹن اور ڈرون گھمانے کی جوکی سٹک تک پہنچ گئیں۔

ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ تک باآوازِ بلند پیغام بھیجنے یا  دھوئیں کے ذریعے اپنی بات دور کھڑے کو پہنچانے والے نے ای میل تک کا جو فاصلہ طے کیا۔آگ جلا کر روشنی حاصل کرنے والوں کے ورثا نے روشنی کو ایک بلب میں جیسے قید کرلیا۔جانور کی کھال بدن پر لپیٹنے والوں کے بچے بوتیک ڈریسنگ تک جو آگئے۔چہرے پر مٹی سے نقش و نگار بنا کر اچھل کود کرنے والی دخترِ حوا اب ڈیزائنرز کاسمیٹکس استعمال کرنے کے قابل جو ہوگئی۔تو یہ سب تبدیلیاں کون سا خان لایا ؟

ہم تبدیلی بازوں کی پیدائش سے پہلے کمزور اور ادنیٰ ذات والا طاقتور کے برابر یا سامنے نہیں بلکہ جوتے دہلیز سے باہر رکھ کے پگڑی اتار کے زمین پر بیٹھتا تھا اور اس کے منہ سے سوائے جی جی جناب ، بجا فرمایا حضور، مائی باپ آپ سچ کہتے ہیں کہ سوا کچھ بھی نہ نکلتا تھا۔اب یہی کمزور ڈنڈہ اٹھائے منہ سے جھاگ نکالتے ہوئے دیدے گھما گھما کر بات کرتا ہے، حقوق کے لیے نعرے لگاتاہے، سڑک بند کردیتا ہے اور حاکم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وعدوں کا حساب طلب کرتا ہے۔

جب عمران خان کرکٹر تھے اور ان کے نزدیک تبدیلی کا مطلب پرانی گیند نئی سے بدلنے سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔اس زمانے تک کا میڈیا حکمرانی کی چوکھٹ پر سربسجود ہی رہتا تھا۔مضمون و کالم و اداریہ نگار ایک ایک فقرہ لکھنے سے پہلے دس بار سوچتا تھا کہ کہیں یہ ناراض نہ ہوجائے ، کہیں وہ خفا نہ ہوجائے ، کہیں فلاں نہ بگڑ جائے۔خبریں تب بھی اتنی ہی ہوتی تھیں جتنی آج ہیں مگر ہر خبر شایع یا نشر کرنے کی تو نہیں ہوتی تھی نا۔حکومت ، فوج ، عدلیہ کے ادارے ایسی مقدس گائے تھے جن کے بارے میں ایک ایک اطلاع پھونک پھونک کر شایع کرنی پڑتی تھی۔بدتمیز میڈیائیوں کے ڈکلریشن اور کاغذ کا کوٹہ ضبط ہونا اور پھر ان کا جیل میں بند ہونا، جرمانہ بھرنا، نیک چال چلن کے پروانے پر دستخط کرنے کے بعد آزاد ہونا اور پھر بھی باز نہ آنا تو ٹکٹکی پر بندھ کر تشریف پر کوڑے کھانا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔

آج یہی میڈیا ہے جس سے شرفا تو رہے ایک طرف لفنگے بھی دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اور ادھر ادھر کھسک جاتے ہیں۔جس کا ہاتھ کیمرے کے بٹن پر وہی بادشاہ۔جس نے فیس بک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ کھول لیا گویا کسی کو بھی جوتے کی نوک پر رکھ لیا۔جسے چاہا ہیرو کردیا نہ چاہا تو زیرو کردیا۔غلام میڈیا کی بے لگام آزادی آخر کس عمران خان کی مرہونِ منت ہے؟

اور جمہوریت؟ کیسی جمہوریت؟ کسی اور سے نہیں خان صاحب اپنے کسی بزرگ سے ہی پوچھ لیں کہ ووٹ عام آدمی کا حق کب اور کیسے بنا۔اب سے ساٹھ ستر برس پہلے ووٹ صرف وہ شخص دے سکتا تھا جو کچھ پڑھا لکھا ہو یا مالیہ و ٹیکس ادا کرتا ہو اور صاحبِ املاک ہو۔انیس سو چھیالیس کے جس الیکشن کے نتیجے میں پاکستان بنا اس میں ووٹر کے لیے یہی شرائط تھیں۔ایک آدمی ایک ووٹ کا تصور نری عیاشی تھی چہ جائکہ کوئی انگلا کنگلا صاحب کے سامنے امیدواربننے کا خواب دیکھ سکے۔ووٹ مانگنے صاحب نہیں بلکہ اس کے مسٹنڈے اور کارندے آتے تھے۔

اسمبلیاں وفادار معززین اور نمک خوار مصاحبین کی ٹاک شاپ ہوا کرتی تھیں۔ان کا کام آنکھ بند کرکے قوانین کے مسودے کی منظوری تھا۔جلوس نکالنے کے لیے مجسٹریٹ کی پیشگی اجازت ضروری تھی ورنہ صرف وہی جلوس نکالنے کی جرات کرتے جنھیں لاٹھی سہنے اور گولی کھانے کا حوصلہ ہو۔کسی بھی بلا اجازت جلوس پر پولیس فائرنگ سے پانچ سات لوگوں کا مرجانا اور سیکڑوں کا گرفتار ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ سیاسی قیدیوں کو برسوں جیل میں سڑانا کوئی انہونی بات نہیں تھی۔

آج جب کہ خان صاحب انقلاب ، تبدیلی اور حقوق کی بات گویا ایسے کررہے ہیں جیسے کوئی پہلی دفعہ کر رہا ہو۔اگر یہی خان صاحب اب سے پچیس تیس برس پہلے اس سے آدھی بات بھی کرتے تو غداری کے مقدمے میں کسی کوٹ لکھپت ، میانوالی یا سکھر جیل میں بند ہوتے۔مگر ان پچیس تیس برسوں میں کس قدر تبدیلی آگئی ہے کہ لوگ پارلیمنٹ کے لان میں کپڑے دھو کر لٹکا سکتے ہیں۔پولیس گاڑیوں کی ہوا نکال کر قیدی چھڑوا سکتے ہیں۔پولیس کے سربراہ کو کیمروں کے سامنے ڈنڈوں سے پیٹ سکتے ہیں۔ جو میڈیا ہاؤس پسند نہیں اس پر روزانہ پتھراؤ کرسکتے ہیں۔

عدالتی سمن و فیصلے پھاڑ سکتے ہیں۔ججوں کو مرکزی شاہراہ کے بجائے گلیوں گلیوں دفتر پہنچنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔غیر ملکی صدور اور وزرائے اعظم کے دورے منسوخ کروا سکتے ہیں۔آج اگر ایک شخص بھی سیاسی قیدی ہو تو حقوق کی تنظیمیں آسمان سر پہ اٹھا لیتی ہیں۔فوجی قیادت کو اپنی نئیت کے بارے میں سو سو وضاحتیں پیش کرنا پڑتی ہیں۔ کیا یہ سب تبدیلیاں کوئی ایک شخص لایا ہے ؟

جواہر لعل نہرو جب نئے نئے وزیرِ اعظم بنے تو ایک دن دفتر کے سامنے اپنی گاڑی سے اترے ہی تھے کہ ایک بڑھیا آگے بڑھی اور اس نے نہرو جی کی شیروانی پر ہاتھ ڈال کے زور سے جھٹکتے ہوئے کہا ’’ تو تو پردھان منتری بن گیا مجھے دیش کی آزادی سے کیا ملا۔میرے بچے تو اب بھی کھولی میں رہتے ہیں‘‘۔ جواہر لعل نے بڑھیا کے دونوں ہاتھ نرمی سے پکڑ کے شیروانی سے الگ کرتے ہوئے کہا ’’ ماں تجھے یہ ملا کہ آج تیرا ہاتھ پردھان منتری کے گریبان پر ہے‘‘۔

فیض صاحب سے کسی بے صبرے نوجوان نے پوچھا حضورِ والا آپ کی نسل نے اتنی جدوجہد کی ، ہماری نسل بھی مسلسل جدوجہد کر رہی ہے مگر انقلاب چھوڑ تبدیلی کا بھی دور دور نام و نشان نہیں۔فیض صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا صاحبزادے اتنی جلدی کس بات کی ہے۔ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے۔تبدیلی آپ کی نہیں اپنی شرائط پر آتی ہے۔آپ دل ہارے بغیر کام کرتے رہیں۔

جان کی امان پاؤں۔ابھی ڈیڑھ برس باقی ہے۔ خیبر پختون خواہ ترقی کا شو کیس بن جائے تو لوگ دور دور سے دیکھنے اور ووٹ ڈالنے آئیں گے۔جو وقت بنوں اور صوابی میں لگانے کا ہے اسے بہاولپور اور لاہور میں مت لگائیں۔ورنہ اور وقت لگے گا۔

 

The post ایسی بھی کیا جلدی خان جی appeared first on ایکسپریس اردو.

جنگل یا معاشرہ

$
0
0

محلے کے لوگ اکثر اوقات بچی کی آوازیں سنتے تھے‘ بچی باجی کی منتیں بھی کرتی تھی‘ معافی بھی مانگتی تھی‘ اللہ کا واسطہ بھی دیتی تھی‘ بھوک کی شکایت بھی کرتی تھی‘ درد اور بیماری کی دہائیاں بھی دیتی تھی اور اندھیرے اور سردی کا واویلا بھی کرتی تھی‘ سننے والوں کو ترس آتا تھا لیکن وہ مکین کے رتبے اور طاقت کی وجہ سے خاموش ہو جاتے تھے‘ بچی ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد راجہ خرم علی خان کے گھر ملازم تھی‘ بیگم صاحبہ سخت اور غصے کی تیز تھیں‘ وہ معمولی باتوں پر بچی کی پٹائی شروع کر دیتی تھیں‘ بچی کی چیخیں پورا محلہ سنتا تھا‘ محلے کے گارڈز بچی کو بچانے کے لیے کئی بار گھر تک گئے لیکن وہ دروازے پر دستک دینے کی ہمت نہ کر سکے یہاں تک کہ 29 دسمبر 2016ء کا دن آ گیا‘ بچی کی داستان غم اور زخم دونوں سوشل میڈیا تک پہنچ گئے۔

چائلڈ پروٹیکشن بیورو کو بھی اطلاع ہو گئی اور محلے کے ایک پولیس افسر کو بھی بچی پر رحم آ گیا‘ پولیس نے بچی کو جج کے گھر سے ریکور کر لیا‘ بچی زخمی تھی‘ آنکھ پر سوجن تھی‘ کان کے قریب زخم تھا اور اس کا ایک ہاتھ جلا ہوا تھا‘ پولیس نے بچی کو اسسٹنٹ کمشنر کے سامنے پیش کر دیا‘ بچی نے بتایا‘ باجی مجھے مارتی تھی‘ مجھے رات اسٹور روم میں بند کر دیا جاتا تھا‘ فرش پر لٹایا جاتا تھا اور بھوکا اور پیاسا بھی رکھا جاتا تھا‘ جھاڑو گم ہوگیا تو باجی نے میرا ہاتھ چولہے میں دے کر جلا دیا‘ میرے والدین دو سال پہلے مجھے جج صاحب کے گھر چھوڑ گئے تھے‘ یہ اس کے بعد مجھے کبھی ملنے نہیں آئے اور مجھ سے گھر کا سارا کام بھی کرایا جاتا تھا وغیرہ وغیرہ‘ پولیس نے بچی کا میڈیکل کرایا‘ میڈیکل رپورٹ نے بچی کے بیان کی تصدیق کر دی‘ پولیس نے جج اور اس کی اہلیہ کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا لیکن فیصلے پر عمل سے قبل بچی کی تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں۔

یہ تصویریں سوشل سے الیکٹرانک میڈیا تک پہنچیں‘ نیوز چینلز نے کہرام برپا کر دیا‘ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ محمد انور کاسی نے یہ خبریں دیکھیں اور واقعے کا سوموٹو نوٹس لے لیا‘ ہائیکورٹ سے کارروائی کا حکم ملا‘ پولیس نے سیشن جج راجہ خرم علی خان کے گھر ریڈ کیا اور بیگم صاحبہ کو گرفتار کر لیا‘ یہ خبر بھی نیوز بلیٹنز کا حصہ بن گئی‘ بیگم صاحبہ سے تفتیش جاری تھی کہ 3 جنوری کا دن آ گیا‘ بچی کا وہ والد‘ والدہ‘ پھوپھی اور چچا عدالت میں پیش ہو گئے جو دو سال تک بچی کی شکل دیکھنے کے لیے جج صاحب کے گھر نہیں آئے تھے‘ یہ چاروں ایڈیشنل سیشن جج راجہ آصف محمود خان کی عدالت میں پیش ہوئے اور جج راجہ خرم علی خان اور ان کی بیگم کے لیے معافی نامہ لکھ کر دے دیا‘ بچی کے رشتے داروں کا کہنا تھا‘ یہ کیس جھوٹا ہے‘ ہم ملزمان کو اللہ کے نام پر معاف کر رہے ہیں‘ عدالت نے والدین کے راضی نامے کی بنیاد پر جج صاحب کی اہلیہ کی ضمانت منظور کر لی‘ بیگم صاحبہ نے 30 ہزار روپے کے مچلکے جمع کرائے اور یہ گھر واپس تشریف لے گئیں۔

عدالت نے بچی والدین کے حوالے کر دی‘ والدین بچی کے ساتھ عدالت سے نکلے اور غائب ہو گئے‘ میڈیا نے فوری انصاف کے اس واقعے پر احتجاج شروع کر دیا‘ یہ احتجاج سپریم کورٹ تک پہنچا اور نئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سوموٹو نوٹس لینے پر مجبور ہوگئے‘ چیف جسٹس نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو ایک دن میں رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا‘ بچی کے میڈیکل ٹیسٹ کے لیے نیا بورڈ بھی بنا دیا گیا‘ یہ نوٹس اسٹوری میں نیا ٹرن ثابت ہوا‘ بچی غائب ہو گئی یا غائب کر دی گئی‘ پولیس اور ضلعی انتظامیہ چار دن بچی کو تلاش کرتی رہی لیکن بچی اور اس کے والدین نہ ملے‘ یہ کیس داخل دفتر ہو جاتا لیکن سپریم کورٹ سیریس نکلی چنانچہ پولیس اورضلعی انتظامیہ بھی سنجیدگی پر مجبور ہو گئی‘ پولیس کی پانچ ٹیمیں بنیں‘ بچی کے وکیل راجہ ظہور کے گرد گھیرا تنگ ہوا اور بچی اتوار8جنوری کی سہ پہر اسلام آباد کے مضافاتی علاقے برما ٹاؤن سے مل گئی‘ یہ والدین کے قبضے میں تھی اور والدین نے اپنے تمام فون بند کر رکھے تھے‘ پولیس طبی معائنے اور تفتیش کے بعد بچی کوکل سپریم کورٹ میں پیش کر ے گی۔

یہ دس سالہ طیبہ کی کہانی ہے‘ یہ کہانی اپنی جزوئیات کے ساتھ اب تک ملک کے بچے بچے تک پہنچ چکی ہے‘ سرکار کے تمام ادارے اور محکمے بھی طیبہ سے پوری طرح واقف ہو چکے ہیں لیکن کیا یہ واقفیت اور کیا یہ جزوئیات کافی ہیں؟ کیا ہمیں سپریم کورٹ کے سوموٹو اور طیبہ کی بازیابی کے بعد مطمئن ہو جانا چاہیے؟ جی نہیں! طیبہ اس پوری مملکت کے خلاف ایک ایف آئی آر ہے‘ یہ ہمارے سسٹم کا نوحہ‘ یہ ہمارے نظام کا وہ ننگا پیٹ ہے جسے ہم 70 برسوں سے جھوٹی تسلیوں کے چیتھڑوں میں چھپاتے چلے آ رہے ہیں‘ یہ ایک ’’ویک اپ‘‘ کال‘یہ ایک ’’پینک الارم‘‘ بھی ہے‘ یہ الارم‘ یہ ویک اپ کال اور یہ ایف آئی آر چیخ چیخ کرکہہ رہی ہے یہ صرف ایک بچی کا مسئلہ نہیں ملک کے ڈیڑھ کروڑ بچے طیبہ جیسے حالات سے گزر رہے ہیں۔

یہ بچے گھروں‘ ورک شاپس‘ کارخانوں‘ دکانوں اور بازاروں میں چائلڈ لیبر کا شکار ہیں‘ یہ اپنا بچپن ننگے فرشوں‘ اسٹور رومز‘ تھڑوں اور فٹ پاتھوں پر گزار رہے ہیں اور ہماری ریاست ان کے وجود تک سے واقف نہیں ‘ ملک میں چائلڈ لیبر جرم ہے لیکن آپ نظام کی بدصورتی ملاحظہ کیجیے سیشن جج کے گھر سے دس سال کی بچی برآمد ہوتی ہے اور یہ بچی دو سال تک اس شخص کے گھر غیر انسانی سلوک کا شکار رہی جو لوگوں کو انصاف دیتا تھا‘ جو چائلڈ لیبر کے خلاف فیصلے کرتا تھا‘ یہ ثابت کرتا ہے ہم گراوٹ‘ لاقانونیت اور درندگی کے انتہائی پست درجے پر کھڑے ہیں‘ ہمارے ملک میں ملزم اور جج  دونوں برابر ہو چکے ہیں‘ ہمارا عدالتی نظام اس قدر سست ہے کہ یہ 19 سال بعد قتل کے مجرم کو بری کرتا ہے تو پتہ چلتا ہے مجرم کو دفن ہوئے 2 سال ہو چکے ہیں لیکن آپ طیبہ کے کیس میں عدالت کی ایفی شینسی ملاحظہ کیجیے عدالت نے دو دن میں ملزمہ کی ضمانت لے لی۔

یہ ثابت کرتا ہے ہمارے ملک میں انصاف کے بے شمار دھارے بہہ رہے ہیں اور ان دھاروں میں ایک دھارا ججوں کی ملکیت ہے‘ یہ لوگ ایک دوسرے کو فوری انصاف فراہم کرتے ہیں‘ آپ سسٹم کی بددیانتی ملاحظہ کیجیے‘ چار لوگ عدالت میں پیش ہوئے‘ طیبہ کو اپنی بچی ڈکلیئر کیا اور عدالت نے چند منٹوں میں بچی ’’والدین‘‘ کے حوالے کر دی اور یہ والدین بچی کو لے کر غائب ہو گئے‘ عدالت نے پولیس کو یہ تصدیق  کرنے کا موقع تک نہ دیا ’’کیا یہ لوگ واقعی بچی کے والدین ہیں یا پھر مدعی نے کیس دبانے کے لیے جعلی والدین کھڑے کر دیے ہیں‘‘ بچی کی قسمت اچھی تھی چیف جسٹس نے نوٹس لے لیا ورنہ دوسری صورت میں یہ بیچاری جان سے بھی جا سکتی تھی‘ ہماری عدالتیں ہمیشہ جعلی مقدموں‘ جعلی تفتیشوں اور جعلی گواہوں کا واویلا کرتی ہیں لیکن طیبہ کے کیس میں عدالت نے بچی کے والدین کی تصدیق تک مناسب نہ سمجھی‘آپ نظام کی ایک اوربدصورتی ملاحظہ کیجیے ہمارے ملک میں ججوں سمیت تمام بااثر لوگ قصاص اور دیت کے قوانین کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔

یہ مدعی کو خرید لیتے ہیں یا دبالیتے ہیں اور ان کا جرم معاف ہو جاتا ہے‘ ہم اگر واقعی ملک کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں طیبہ کو ٹیسٹ کیس بنا کر نظام میں چند اصلاحات کرلینی چاہئیں‘ ہمیں دس بڑے جرائم کو ریاست کے خلاف جرم قرار دے دینا چاہیے‘ ان جرائم میں ریاست مدعی ہو اور یہ کسی کو معافی کا اختیار نہ دے‘ مجرم ہر صورت کیفرکردار تک پہنچے خواہ وہ کوئی بھی ہو‘ حکومت فوری طور پر چائلڈ لیبر کے قوانین کو سخت بھی کر دے اور ان پر عملدرآمد بھی یقینی بنا دے‘ ہم ایک غریب ملک ہیں ‘ ہمیں یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چاہیے ملک کے غریب والدین اپنے بچوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے‘ یہ بچے غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر مزدوری کے لیے نکلتے ہیں‘ ہمیں یہ مجبوری ذہن میں رکھ کر حل نکالنے چاہئیں۔

ہم لوگوں کو پابند کریں یہ اگر کسی بچے کو ملازم رکھ رہے ہیں تو یہ بچے کی صحت‘ تعلیم اور لباس کی ذمے داری اٹھائیں گے‘ یہ بچے باقاعدہ رجسٹرڈ ہوں‘ ان کا ماہانہ معائنہ ہو اور ان بچوں کا باقاعدہ تعلیمی ریکارڈ رکھا جائے اور آخری تجویز وہ وقت آگیا ہے جس میں ہمیں مقدس گائیوں سے جان چھڑا لینی چاہیے‘ آپ مہربانی کر کے تمام جانوروں کو برابر کر دیں‘ جج ہوں‘ جرنیل ہوں‘ جرنلسٹ ہوں یا پھر جنرل پبلک ہو قانون کے سامنے سب برابر ہونے چاہئیں‘ کسی گورے کو کالے اور عربی کو عجمی پر فوقیت نہیں ہونی چاہیے اور ریاست فیصلہ کر لے ملک میں جنم لینے والا کوئی بچہ ریاست کی آنکھ سے اوجھل نہیں ہو گا‘ یہ ریاست کی نظروں میں ہو گا‘ ہم اگر آج یہ فیصلے کر لیتے ہیں تو طیبہ کی اذیت عبادت بن جائے گی‘ یہ بچی عمل انگیز ثابت ہو گی لیکن اگر ہم نے یہ موقع بھی ضایع کر دیا‘ ہم اس پر بھی خاموش رہے تو پھر تباہی اور ہمارے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں رہے گا‘ ہم ایک ایسا جنگل بن جائیں گے جس میں ہر بڑا جانور چھوٹے کو چیرنا‘ پھاڑنا اور کھانا اپنا حق سمجھے گا جس میں صرف اورصرف طاقتور زندہ رہیں گے۔جنگل یا معاشرہ ‘ ہم نے آج ان میں سے کسی ایک کا تعین کرنا ہے۔

The post جنگل یا معاشرہ appeared first on ایکسپریس اردو.

تھر کا کالا سونا

$
0
0

بہت پرانی بات تو نہیں ہے۔ یہی 2014ء کے اوائل میں سندھ فیسٹیول منعقد کیا گیا تھا، جس میں کروڑوں روپے پانی کی طرح بہائے گئے تھے اور جس کا مقصد صرف اور صرف ڈیموکریسی ڈانس ان ڈیزرٹ تھا۔ وہ آئے جن کا اس ملک اور اس کے چھوٹے بڑے شہروں کے چھوٹے بڑے مسائل سے دور دور تک کوئی واسطہ نہ تھا۔ انھیں یہ ادراک نہیں تھا کہ اپنے منورنجن کے لیے جن نئی جگہوں کا انتخاب وہ کررہے ہیں وہاں تو بھوک اور افلاس پہلے ہی سے رقص کررہی ہے، بغیر پانی اور بجلی اور کسی بھی طرح کی بنیادی ضروریات سے محروم ان نئی Locations پر تو خوشی اور سرمستی جیسی عیاشیاں ہونا صدیوں سے ہی خارج از امکان رہا ہے۔

غربت نے وہاں ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور ایسے ساتھ دیتی ہے کہ کوئی قریبی دوست بھی کیا دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بیماریوں، تکلیفوں، بے روزگاریوں، بھوک، افلاس، ستم ظریفی، سبھی سے نسل در نسل رشتہ نہ صرف استوار رہا بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ دوسری طرف تو جلد بس لوکیشن ڈھونڈی گئی اور صحرا میں خوب خوب جشن طرب منایا گیا اور جو دوسری دنیا کے باسی تھے وہ اپنی منزل کو سدھارے۔ کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ اس سحر انگیز نئی اور یونیک لوکیشن پر کتنی زندگیوں نے بھوک، پیاس، افلاس سے دم توڑ دیا تھا۔

بعد میں میڈیا نے بہت شور مچایا اور اخبارات نے بھی خبریں شایع کیں، لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔ بے حسی جو اب ارباب اقتدار کا اوڑھنا بچھونا بن گئی ہے۔ سو ان سے بھلائی کی امید رکھنا ہی غلط ہے، لیکن اس سب کا افسوسناک اور دردناک پہلو یہ ہے کہ جب ووٹ چاہیے ہوگا، تب یہی اندرون سندھ کے لوگ ان کے واپس اقتدار کے ایوانوں میں تخت نشین بن جانے کے ذمے دار بھی ہوںگے۔

ہوتا تو شہروں میں بھی یہی ہے، لیکن شہروں میں دھاندلی سے ہوتا ہے اور شہری عوام کی خاموشی ان کے لیے زہر قاتل بن جاتی ہے، لیکن دیہاتوں میں عوام اپنے نمایندوں کو خدا سمجھ کر منتخب کرتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے خداؤں نے انھیں زیور تعلیم سے آراستہ ہونے نہیں دیا اور غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لیے ان کے پاس قوت، اعتماد کی شدید قلت ہے۔ بہرحال 2017ء کی پہلی صبح جب ہم عازم سفر ہوئے تو دل اور دماغ میں ایک عجیب سی کشمکش چل رہی تھی، کیونکہ ہم جارہے تھے تھر پارکر۔ یہ وزٹ تھر کول پاور پلانٹ کا تھا جس کا موقع ہمیں پاکستان کونسل آف میڈیا ویمن کی بدولت مل رہا تھا۔ یہ گروپ ان خواتین نے بنایا ہے جوکہ میڈیا سے وابستہ خواتین کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر نہ صرف ان کے حقوق کی پاسبانی کرتی ہیں بلکہ صحافتی تقاضوں کو بھی دل کی گہرائیوں سے نبھانے کے لیے بھی ہر گاہ کوشاں رہتی ہیں۔

خیر ہماری سواری ہمیں لے کر منزل کی جانب گامزن ہوئی۔ کراچی میں اور کراچی کے باہر تقریباً آدھا راستہ نہایت دشوار گزار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ لیکن پھر سجاول سے کافی پہلے سے اسلام کوٹ تک ہم نے جس سڑک پر سفر کیا وہ بہترین تھی اور لگ ہی نہیں رہا تھا کہ ہم سندھ کے پسماندہ علاقوں میں سفر کررہے ہیں۔ 9 گھنٹوں کا سفر کرکے ہم پہلے مٹھی اور پھر اسلام کوٹ پہنچے۔

راستے بھر اونچی نیچی پہاڑیوں کا سلسلہ چلتا رہا اور راستے کے دونوں طرف خود رو پودے، جھاڑیاں اور درختوں کا بھی ساتھ مسلسل رہا اور آپ یقین کریں کہ بہ یک وقت سبز رنگ کے اتنے شیڈز دیکھنے کو ملے کہ شاید پہلے میں نے نہیں دیکھے تھے۔ اس پر پہاڑیوں کے دامن میں کافی اونچائی پر کچھ آبادیاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر موجود وہاں انسانوں کی موجودگی کا ثبوت دے رہی تھیں۔ یہ گھر ایک نوک دار ٹوپی کی شکل کے گھاس پھونس کی بنی ہوئی اسٹائلش جھونپڑیاں تھیں جوکہ وہاں کی ثقافتی علامتوں میں نہ صرف شمار ہوتی ہے بلکہ وہاں کے لوگوں کو اتنی محبوب ہے کہ اگر پکے گھر بھی بن جائیں تو ایک طرف اس ثقافت کو زندہ رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ چورا یا چونرا کہلاتا ہے۔

خوشگوار سی کیفیت میں سفر کا اختتام ہوا اور ہم ریسٹ ہاؤس پہنچادیے گئے، لنچ کیا، فریش ہوئے اور پھر سفر شروع ہوا، ہمیں بلاک 2 کے آفس میں بریفنگ دی گئی۔

بریفنگ کی تفصیلات سے پہلے میں آپ کو بتاتی چلوں کہ تھر پارکر ڈسٹرکٹ، جس کا ایریا 19,638 کلومیٹر ہے اور آبادی 2,226,4653 ہے جس میں سے مسلم آبادی 61.4 فیصد اور ہندو 35.58 فیصد ہے۔ 1965ء میں 80 فیصد ہندوؤں اور 20 فیصد مسلمان آبادی ہوا کرتی تھی۔ اور زیادہ تر بزنس اور پیسہ بھی ہندوؤں کے ہی پاس تھا۔ مٹھی تھرپارکر کا کیپٹل ہے۔ اسلام کوٹ اور آس پاس کے علاقے کو 13 بلاکس میں تقسیم کیا گیا ہے اور سب سے پہلے ان کا کام بلاک 2 میں شروع ہوا۔ ہمیں بتایا گیا یہ کام شروع بلاک 2 سے ہوا ہے لیکن وقت اور کامیابی پورے 13 بلاکس کو فعال بنا دے گا، بس ایک مقررہ ٹائم درکار ہوگا۔

فروری 2016ء وہ تاریخ جس نے تاریخ میں جگہ بنالی ہے، سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی نے اس تاریخ کو باقاعدہ Coal Project کا آغاز کیا، جب کہ تیاریاں تو پہلے سے ہی جاری تھیں۔ چائنا کے ساتھ ایگریمنٹ، سندھ حکومت کا حیرت انگیز اور خوش آیند تعاون، اینگرو کی آسمانوں کو چھوتی ہوئی کاوشیں، جس کے نتیجے میں پاکستان ساتویں نمبر پر آگیا۔ کم و بیش 3 لاکھ ایکڑ پر کول نکلا، جوکہ 160 میٹر کی گہرائی میں پایا گیا۔

اس میگا پروجیکٹ میں سندھ گورنمنٹ 54.7 فیصد جب کہ 50 فیصد کی شیئر ہولڈر ہے اور گورنمنٹ آف سندھ بہت سنجیدگی سے اس معاملے کا ساتھ دے رہی ہے جوکہ نظر بھی آرہا ہے۔ ایئرپورٹ روڈ اور سہولیات جوکہ ابھی تک تھر کے عوام کو نہیں ملی ہیں اس طرح سے، لیکن چونکہ بڑا کام ہے وقت تو لے گا۔

جیساکہ SECMC کے انجینئر نے ابتدائی بریفنگ میں بتایا کہ تھر کا جو علاقہ SECMC پروجیکٹ کا حصہ ہے اس کو 13 بلاکس میں تقسیم کیا گیا ہے اور ابھی صرف بلاک 2 پر سارا کام ہو رہا ہے ، بلاک 2 میں بھی 6000 ایکڑ میں کام ہو رہا ہے جب کہ ٹوٹل 24000 ایکڑز ہیں۔ اور وقت اور محنت شامل حال رہی تو تمام 13 بلاکس سونا اگل رہے ہوں گے۔

The post تھر کا کالا سونا appeared first on ایکسپریس اردو.

ایسا کیوں ہے؟

$
0
0

وہ ایک نو دس سال کی بچی ہے۔ ابھی اس کی عمر گڑیوں سے کھیلنے کی ہے، لیکن اسے گھروں میں کام کاج کرنا پڑتا ہے۔ غلطی کی صورت میں اسے مار پیٹ سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور کبھی کبھار سزا کے طور پر کھانا بھی بند کردیا جاتا ہے اور اکیلے کمرے میں بند کردیا جاتا ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا ہے بلکہ ہمارے یہاں ایسا ہوتا رہا ہے، گھریلو ملازمین کے ساتھ اس قسم کے سلوک سننے میں آتے رہتے ہیں، لیکن جب اس قسم کے حادثات و واقعات بڑے اچھے پڑھے لکھے گھرانوں میں سننے میں آئے تو تعجب نہیں، افسوس ہوتا ہے۔

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہم اپنے ہی جیسے انسانوں کے بچوں کو بے دردی سے مارتے پیٹتے ہیں، انھیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے۔ خوف قیامت کا ختم ہوجانا۔ جب یہ سمجھ کر یقین کرلیا جائے کہ قیامت تو آنی ہی ہے۔ اور بس اس کے آگے پیچھے اور کچھ بھی نہیں، تو بہت سے خوف نکلتے چلے جاتے ہیں۔ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اشرف المخلوقات میں پیدا ہوئے ہیں، اس کے بعد شکر کی ایک طویل فہرست چلی جاتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہم خود بخود یہ اخذ کرتے چلے جاتے ہیں کہ سب کچھ ہے، شکر ہے، لیکن اس شکر کے لوازمات کو نہیں سمجھتے۔ شکر کے لوازمات کیا ہیں؟

خدا تعالیٰ نے ہمارے اردگرد نعمتوں سے بھری دنیا سجائی ہے، جو مادی اشیا سے لے کر خوبصورت جذبات و احساسات تک پھیلی ہے۔ مثلاً ہم خوش نصیب ہیں کہ پیار کرنے والے والدین ہیں، خیال کرنے والے عزیز و اقارب، بہن بھائی اور بہت سے رشتے ہیں۔ کسی کے لبوں سے ادا کردہ ایک خوبصورت جملہ ہماری شخصیت میں بھرپور انرجی بھر دیتا ہے۔ یہ کیا ہے؟ یہ وہ احساسات و جذبات ہیں جن کا شکر ادا کرنا ہماری فہرست میں شامل ہی نہیں۔ وہ تمام لوگ جو ہمارے لیے اچھا سوچتے ہیں، محبت کرتے ہیں، خیال کرتے ہیں، چاہے برسوں سے ہم ان سے نہیں ملیں لیکن ہم ان کے خیالات میں اچھے لفظوں سے محفوظ ہیں، یا اگر ماضی میں ان کے کسی برے عمل کی وجہ سے وہ آپ کو حال میں یاد آجائیں تو ان کی اس برائی کو نظرانداز کرتے ان کے کسی اچھے عمل کو یاد کریں تو بھی اس میں آپ کے اچھے خیالات پھول سے کھل جاتے ہیں، جو انسان کی شخصیت میں قدرتی طور پر انرجی بھر دیتے ہیں۔

یہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ حقیقت ہے، اسے اپنی عملی زندگی میں شامل کرکے دیکھیے، یہ احساس بہت خوبصورت ہے کہ کسی کے برے عمل کو اگر وہ آپ کی یاد میں اسی ناگواری کے ساتھ ابھرے تو اسے بری یاد کے طور پر دل سے لگا کر نہ رکھیے بلکہ اسے کسی اچھی دعا کے ٹیگ کے ساتھ محفوظ کرلیں اور کچھ نہیں تو صرف یہی کہ خدا انھیں نیک ہدایت دے۔ یا ایک بڑے بزرگ بدرالزماں طورسی کی مانند ’’خدا انھیں خوف قیامت دے‘‘ کی دعا دے کر بری یاد کے اس سفر سے آگے نکل جائیے۔ ایک بہت آسان اور خوبصورت پریکٹس ہے۔

سائنس کا ایک قانون ہے کہ ہر منفی چارج مثبت چارج کی طرف کشش کرتا ہے۔ اسلام میں بھی کچھ اسی طرح ہے، بلکہ دونوں طرح سے ہے۔ اچھے اعمال خودبخود آپ کے گرد اچھے لوگوں کو جمع کردیں گے یا برے لوگوں کو۔ دونوں میں اچھائی کا پہلو ہے مثلاً یہ کہ خدا کی طرف سے برے لوگوں کی اصلاح کے لیے ایک پہلو پوشیدہ ہے اور دوسرے اچھے لوگوں کی صحبت سے اچھی باتیں سیکھنے کو ملتی ہیں۔ ہم خود کس طرح اپنی اصلاح کرسکتے ہیں؟ یہ سوال مجھ سے کسی نے پوچھا تھا۔ حالانکہ باتیں یوں ہی روزمرہ کے مسائل کی ہورہی تھیں۔

ذہن میں اس وقت یہی جواب ابھرا۔ اگر آپ کے سامنے بیٹھی کوئی شخصیت یا ذہن میں ابھرتی کسی بھی شخصیت کے متعلق آپ کے ذہن میں کوئی منفی بات آرہی ہے تو اسے دھکیلتے ہوئے سوچیے کہ لیکن اس کی فلاں بات اچھی ہے۔ تو کیا ہوا۔ انسان سے غلطی ہوجاتی ہے اور بعض اوقات نہایت معمولی سی غلطی بھی ذہن پر خراشیں ڈال دیتی ہے۔ یہ صرف انسان کا نفس ہے جو اسے دوسرے انسان کے خلاف ابھارنے میں ذرا نہیں چوکتا۔ ہمیں اسی کھیل پر توجہ دینی ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس پر قابو پانے کا آسان حل۔ خدا کا شکر ادا کرنا ہے۔ ایک بار سرا مضبوطی سے تھام لیں پھر دیکھیے کمال۔

ایک چھوٹی سی بچی پر تشدد کے کیس نے ہماری اعلیٰ اقدار پر بیٹھے لوگوں کی عزت کی کس قدر دھجیاں اڑائیں، اس میں قصور محض ایک خاتون کا ہے لیکن انگلیاں بہت سی جانب اٹھ رہی ہیں۔ نقصان کس کا ہو رہا ہے؟ بس یہی کوشش ہے ان منفی طاقتوں کی جو انسان سے اس انداز سے کام کرواتی ہیں جو وقتی طور پر اس کے اندر ابھرتے جنون، وحشت کو بظاہر پرسکون کرتا ہے لیکن ان چند منٹوں، چند لمحوں، کچھ وقت کی پرسکون لذت کتنے طویل عرصے تک ان سب کو شرمندہ اور پریشان کرتی رہے گی، اس اذیت کا انھیں بخوبی اندازہ ہوا ہوگا۔ کاش ایسا نہ ہوا ہوتا۔ کاش میں یوں کردیتی۔

کاش ایسا ہو جاتا۔ کاش … ایسے بہت سارے کاش جب دامن میں جمع ہونے لگے تو ان سب کا کنکشن اپنے رب سے کردیں۔ ایک آسان سا حل۔ اور کاش کی وجہ پر توبہ کرکے آگے بڑھیے لیکن ایسا نہ ہو کہ دامن آلودہ ہو اور ایک بار پھر وہی سرد مہری۔ تندی، غرور، اکڑ کہ ان دل کی بیماریوں کا علاج دنیا بھر کے کسی حکیم ڈاکٹر کے پاس نہیں۔ اور یہی انسانی شخصیت کا کینسر ہے، جس کا علاج خود انسان کے پاس ہے اگر وہ اپنا علاج کرنا چاہے تو۔

پتا نہیں اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں؟ ہمارے معاشرے میں یہ جملہ بہت عام ہے یہ دراصل شکایتی جملہ ہے جس کی جڑ سے اتنی شاخیں نکلتی ہیں جو انسان کو دنیا اور آخرت دونوں میں بڑی آسانی سے رسوا کرسکتی ہیں۔ ذاتی طور پر تقریباً سب کو ہی تجربہ ہوا ہے کہ اگر واقعی کوئی بڑی شخصیت ہے تو اسے یہ سوچ کر آگے بڑھ جائیے کہ شاید وقت نہیں ہوگا۔ یہ نہ سوچیے کہ کسی نے کم سمجھ کر توجہ نہیں دی، یا پتا نہیں اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں ہونہہ… ارے ہم بھی کیا کسی سے کم ہیں، فلاں فلاں۔ اس طرح دل میں اس شخصیت کے خلاف بلاوجہ کدورت جمع ہوتی رہتی ہے۔

ذرا سوچیے اس جمع شدہ کدورت کا ہماری ذات کو کیا فائدہ۔ نہ ظاہری طور پر اور نہ ہی باطنی طور پر۔ لہٰذا ایسی کدورت کو فارغ ہی کریں جس سے فائدہ ہی نہ ہو۔ اپنے دل کو کم سے کم تکلیف دیں۔ اسے بلا وجہ کسی کی کدورت، حسد، بغض اور عناد سے آلودہ نہ کریں کیونکہ اس آلودگی سے نہ صرف آپ کی شخصیت سے نرمی، خوش اخلاقی اور خوبصورتی رخصت ہوجائے گی بلکہ آپ اپنے جاننے والوں اور گھر والوں میں بھی بدمزاج، غصیلے اور سڑیل ٹائپ کے الفاظوں سے یاد کیے جائیں گے۔

ہمارے رب کے اخلاق بہت اعلیٰ ہیں اور وہ یہی چاہتے ہیں کہ ان کے بندے اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں تمام پیغمبران و انبیا اور بزرگان اسلام کا اخلاق ملاحظہ فرمائیں آج مغرب ترقی یافتہ، مہذب کہلاتا ہے تو کیوں؟ ہمارے پاس کس چیز کی کمی ہے سوچیے…! معاف کردینے میں عظمت ہے۔ اچھا سوچیے اپنے لیے اور اپنے اردگرد لوگوں کے لیے کہ اس میں کون سے پیسے خرچ ہوتے ہیں اور شکر ادا کیجیے اپنے رب کا کہ اس میں بھی پیسے خرچ نہیں ہوتے۔ تجربہ ہی کرکے دیکھ لیں۔

The post ایسا کیوں ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

بڑا شور سنتے تھے

$
0
0

سیاسی امور سمیت حالات حاضرہ پر تبصرے اور تجزیے ٹی وی ٹاک شوز میں اتنے پرلطف اور عوامی پسندیدگی کے لحاظ سے مقبول نہیں ہوتے، جتنے چائے کے ہوٹلوں اور قہوہ خانوں میں سننے کو ملتے ہیں۔ ٹی وی ٹاک شوز ایک تو متعلقہ چینلز کی پالیسیوں کے تابع ہوتے ہیں، دوسرے ان میں حصہ لینے والوں کی زبان چونکہ عام آدمیوں والی نہیں ہوتی اس لیے ان میں نہ تو بے ساختگی ہوتی ہے نہ وہ چاشنی اور مزہ، جو اس زبان کا خاصا ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ میں سیاست اور دیگر اہم معاملات پر گھر میں ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھ کر تبصرے اور تجزیے سننے کے بجائے کوئٹہ کے کسی پٹھان کے ہوٹل یا قہوہ خانے میں سچ مچ کے لائیو عوامی تبصرے سننے کو ترجیح دیتا ہوں۔ یہ میری بہت پرانی عادت ہے جس کے تانے بانے اس واقعے سے ملتے ہیں جب اسکول چھوڑنے کے بعد ہم دو دوست تفریح کی غرض سے حیدرآباد گئے تھے۔ ایک دن ہم اپنے استاد مولوی نبی حسن سے ملنے چلے گئے جو ہمیں عربی پڑھایا کرتے تھے۔ وہ لطیف آباد میں اپنے بیٹے کے ساتھ رہتے تھے، اصرار کرکے ہمیں گھر لے گئے، کھانا بنوا کر کھلایا اور ہمارے بستر بھی اپنے کمرے میں لگوائے کہ خوب باتیں کریں گے۔

رات کو وہ ہمیں فلم بھی دکھانے لے گئے، ٹکٹ بھی خود لیے، لیکن تھرڈ کلاس کے، جو اس زمانے میں آٹھ آنے کا ہوا کرتا تھا۔ اس کلاس میں سب سے آگے پردے کے سامنے بغیر ٹیک والی بینچیں رکھی ہوتی تھیں جن پر فلم دیکھنے کے لیے ڈھائی تین گھنٹے گردن اکڑا کر بیٹھنا پڑتا تھا۔ سینما ہال میں یہی وہ واحد کلاس ہوتی تھی جس میں بیٹھے ہوئے فلم بین ایک ٹکٹ میں دو مزے لیتے تھے یعنی فلم دیکھنے کے ساتھ ساتھ اس پر برابر میں بیٹھے ہوئے دوسرے فلم بینوں سے رواں تبصرے بھی سنتے جاتے تھے، جو اس اعتماد سے تبصرے کرتے اور خامیوں کی نشاندہی کیا کرتے کہ لگتا تھا فلم کا ڈائریکٹر ان کا شاگرد رہا ہوگا۔

تب سے عام لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے اور ان کی باتیں سننے کی گویا لت پڑگئی، جو چُھوٹے نہیں چھوٹتی۔ فلمیں دیکھنے کا شوق تو خیر جوانی میں بھی کوئی خاص نہیں تھا، البتہ ایک ٹکٹ میں دو مزے لینے کا اب بھی قائل ہوں اور ایک کپ چائے کے پیسے دے کر عوامی تبصرے اور تجزیے مفت میں سنتا ہوں۔ ان میں میری دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ نہ تو کسی خاص پالیسی کے تابع ہوتے ہیں، نہ کسی ضابطہ اخلاق کے پابند۔ سب کو بولنے کی آزادی ہوتی ہے، جس کے منہ میں جو آتا ہے بلاجھجک کہہ دیتا ہے، کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی۔

کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی موضوع کے حق اور مخالفت میں بولنے والوں کے دو گروپ بن جاتے ہیں اور ان کی باتیں کھلے بحث مباحثے کا روپ دھار لیتی ہیں، زیر بحث مسئلے یا معاملے کے وہ پہلو بھی جاننے کو ملتے ہیں جو آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے کہ سننے کو ملیں گے۔ آپ بس چائے کی چسکیاں لیتے، سگریٹ کے کش لگاتے یا پان چباتے سنتے جائیے۔

ہاں اگر ان میں سے کسی گروپ کا کوئی مقرر اچانک داد طلب نظروں سے آپ کی طرف دیکھ لے تو اس کا دل رکھنے اور حوصلہ بڑھانے کے لیے آپ کو اثبات میں گردن ہلانا پڑتی ہے، جس کا وہ یہ مطلب لیتا ہے کہ آپ اس سے پوری طرح متفق ہیں یا کم از کم اس کے موقف کی حمایت کرتے ہیں۔ اس دن بھی جب میں چائے پینے زر ولی کے ہوٹل پہنچا تو زوردار بحث مباحثہ جاری تھا۔ موضوع تھا سپریم کورٹ میں پاناما گیٹ کیس کی سماعت۔ ایک صاحب نے چیف جسٹس کی سربراہی میں کیس کی سماعت کرنے والے لارجر بینچ کے، سماعت نئے چیف جسٹس کے عہدہ سنبھالنے تک ملتوی کرنے کے فیصلے کو جان چھڑانے سے تعبیر کرتے ہوئے کہا، اب یہ کیس اس نئے بینچ کا درد سر بنے گا جو اس کی سماعت کرے گا۔

دوسری میز پر براجمان ایک اور صاحب بولے، بھیا، جب حکومت نے نئے چیف جسٹس کا قبل از وقت اعلان کیا تو اپنا ماتھا اسی وقت ٹھنکا تھا کہ اس سے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ ترپ کا پتہ ان کے نہیں، حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ چیف صاحب نے پیغام کو سمجھنے میں دیر نہیں کی اور کوئی رسک لینے کے بجائے معاملہ آگے بڑھا دیا کہ اب جو اس کیس کا فیصلہ کریں گے انھیں اس کی ذمے داری بھی قبول کرنا پڑے گی۔ ان صاحب کی بات سن کر پہلے صاحب نے کہا اگر ایسا تھا تو انھوں (چیف جسٹس) نے دوران سماعت نیب اور ایف آئی اے وغیرہ کے خلاف وہ ریمارکس کیوں پاس کیے تھے کہ پاناما گیٹ کا معمہ حل کرنا سپریم کورٹ کا نہیں بلکہ ان اداروں کا کام تھا مگر انھوں نے کچھ نہیں کیا، نکمے نکلے۔

یہ سفید ہاتھی سرکاری خزانے پر بوجھ ہیں، جن کے ہونے کا کو ئی جواز نہیں وغیرہ۔ موصوف نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا اگر میں وکیل ہوتا اور مدعیان میں سے کسی کی نمایندگی کر رہا ہوتا تو بصد احترام چیف صاحب سے پوچھتا کہ جناب نیب اور ایف آئی اے کے متعلق آپ کا فرمانا بجا، لیکن آپ نے کیا کیا؟ وہ دونوں تو سرکاری ادارے ہیں اور ان پر حکومت کا دباؤ ہونا بھی سمجھ میں آتا ہے جس کی وجہ سے وہ بقول آپ کے اپنا فرض پورا نہ کرسکے، لیکن آپ تو حکومت کے ماتحت اور دباؤ میں نہ تھے، پھر آپ نے ایسا کیوں کیا اور کیوں رزلٹ نہ دے سکے؟ انھوں نے حسب حال حیدر علی آتش کا وہ مشہور شعر بھی سنایا۔

بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا

ان دونوں کے عقب میں دو میزیں چھوڑ کر بیٹھے ہوئے تیسرے صاحب سے بھی نہ رہا گیا اور یہ کہتے ہوئے بحث میں کود پڑے کہ زیادہ جوش میں آنے کی ضرورت نہیں، اچھا ہے تم وکیل نہ ہوئے ورنہ لائسنس ہی معطل کروا بیٹھتے۔ تم کیا پوچھو گے چیف جسٹس سے، انھوں نے تو پاناما گیٹ کیس کی سماعت جنوری 2017ء تک ملتوی کرنے کے بعد بھی اپنی پہلے کہی ہوئی بات پھر دہرائی ہے کہ اگر ادارے اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام رہیں تو عدلیہ کو مداخلت کرنے کا اختیار ہے۔ اگر انھیں پاناما گیٹ کیس کا فیصلہ کرنے میں اپنی ناکامی کا ذرا بھی احساس ہوتا تو کیا ایسی بات کر سکتے تھے؟

ان ہی کے ساتھ بیٹھے ہوئے چوتھے صاحب بولے انھوں نے یہ کب کہا، میں نے تو اخبار میں ایسی کوئی خبر چیف جسٹس کے حوالے سے نہیں پڑھی؟ جواب ملا آپ جو اخبار پڑھتے ہیں اس میں ہوسکتا ہے ایسی چھوٹی موٹی خبریں نہ لگتی ہوں، دوسرے تمام اخبارات نے تو ان کی تقریر نمایاں طور پر شایع کی ہے، جو انھوں نے ایوان اقبال میں لاہور ہائی کورٹ کے قیام کی 150 ویں سالگرہ کی تقریب میں کی تھی۔ جہاں تک دباؤ والی بات کا تعلق ہے تو آپ لوگ پاناما گیٹ کیس کی قسمت کا فیصلہ سپریم کورٹ کے نئے بینچ کو سونپتے وقت کہے ہوئے چیف جسٹس کے وہ تاریخی الفاظ کیوں بھلا بیٹھے ہیں کہ ہر ایک پر واضح ہونا چاہیے کہ ہم کسی کے دباؤ میں آنے والے نہیں اور کمیشن بنانا ہماری صوابدید ہے۔

زر ولی کے ہوٹل میں جاری یہ عوامی مباحثہ دلچسپ مرحلے میں داخل ہو رہا تھا لیکن مجھے چونکہ اپنے پوتے کو اسکول سے لینے بھی جانا تھا، اس لیے انھیں بحث کرتا چھوڑ کر اٹھ گیا اور یہ نہ جان سکا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھا۔

The post بڑا شور سنتے تھے appeared first on ایکسپریس اردو.


روسی سوشلسٹ انقلاب

$
0
0

ویسے تو سماج کی تاریخ انقلابات سے بھری پڑی ہے، بلکہ یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ سماج کی تاریخ ہی انقلابی تاریخ ہے۔ معلوم تاریخ کے دور جدید میں معروف انقلاب 1789کا انقلاب فرانس، جہاں لوئس دہم کی بادشاہت کا خاتمہ کرکے مساوات قائم کی گئی تھی، برسوں ریاست خلا میں معلق رہی۔ عوام خودکار انجمنوں کے ذریعے اپنے روزمرہ کے معمولات چلا رہے تھے۔

پھر 1871کا پیرس کمیون ہے، جہاں انارکسٹوں نے دو سو رکنی اسمبلی تشکیل دی اور مقامی بنیادوں پر کمیون کے ذریعے سماجی سرگرمیاں کیں۔ 70 دن کی حکمرانی میں کوئی بھوکا مرا، کوئی قتل ہوا، کہیں ڈاکا پڑا، چوری ہوئی، بیروزگاری رہی، عصمت فروشی ہوئی، بے علاجی رہی اور نہ کوئی اغوا ہوا۔ یعنی مزدور طبقہ اور پیداواری قوتوں نے یہ کرکے دکھا دیا کہ وہ نسل انسانی کے سماج کو برابری کی بنیاد پر قائم کرسکتے ہیں اور طبقات کا خاتمہ کرکے امداد باہمی کا معاشرہ بخوبی چل سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بورژوازی (سرمایہ دار) نے سازش کر کے اس مزدور طبقے کی حکومت کو خون میں نہلا دیا۔

اس کے بعد 1886 میں امریکا کے صنعتی شہر شکاگو کے مزدوروں نے عظیم جدوجہدکی، بے شمار مزدور گولیوں کا نشانہ بنے، 6 مزدور رہنماؤں کو نو ماہ بعد پھانسی دے دی گئی۔ چھ میں سے دو امریکا، دو جرمنی، ایک آئرلینڈ اور ایک انگلینڈ کا تھا۔ یہ سب کے سب مزدور رہنما کسی جماعت کے تھے اور نہ کسی تنظیم کے عہدے پر فائز تھے، مگر تھے سب انارکسٹ۔ ان کی عظیم قربانی سے آج ساری دنیا کے محنت کشوں، پیداواری قوتوں اور شہریوں کے لیے آئینی طور پر آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی مقرر ہوئی۔

یہ آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کسی ریاستی کوششوں، کسی جماعت کی جدوجہد یا کسی ادارے کے بدولت حاصل نہیں ہوئی بلکہ محنت کش طبقے کی عالمی یکجہتی کی وجہ سے ہوئی۔ مگر روسی سوشلسٹ انقلاب اس لیے مشہور و معروف ہوا کہ اس انقلاب کے بعد دنیا میں کچھ بے مثال کارنامے انجام پائے۔ انقلاب کے بعد جن 113 ملکوں میں رائج نو آبادیاتی نظام قائم تھا، اس نوآبادیاتی غلامی سے آزادی حاصل کی۔ انقلاب روس کے بعد دنیا کی نو آبادیات میں سامراج مخالف تحریک چلانے کی مشعل راہ اور حوصلے ملے۔ اس نوآبادیاتی غلامی سے آزادی حاصل کرنے والے ممالک میں ہندوستان، جنوبی افریقہ، انڈونیشیا، ملائشیا، ایران، عراق، مصر، نائیجیریا، برازیل، ارجنٹاین، چین اور ویتنام سب ہی شامل ہیں۔

سوشلسٹ روس نے نو آبادیاتی غلامی کے خلاف مالی، اخلاقی، سیاسی، عسکری، تربیتی اور بعض ملکوں کو نفری آزادی دلوانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ انقلاب روس سے قبل دنیا میں کہیں بھی خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ 1917کے روسی سوشلسٹ انقلاب کے بعد 1918میں جرمنی، 1919 میں امریکا، 1929میں برطانیہ اور 1971 میں سوئٹزرلینڈ سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ یہ الگ بات ہے کہ چند عرب بادشاہتوں، پاکستان کے علاقے فاٹا اور بعض پختونخوا کے علاقوں میں ووٹ ڈالنے کا حق نہیں ہے۔

یہ وہاں کے حکمرانوں کا موقف ہے کہ اسلام میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں ہے۔ بہرحال جب ایشیائے کوچک، کوہ قاف اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں 1920سے 1935تک سوشلسٹ انقلابات برپا ہوتے رہے اور وہ سوویت یونین کا حصہ بنتے گئے، وہاں خواتین کو بھی حق نمایندگی ملتا رہا۔ مسلم ریاستوں میں انقلاب سے پہلے ہزار میں صرف دو خواتین پڑھی لکھی تھیں، جب کہ انقلاب کے بعد سو میں ساٹھ ڈاکٹرز خواتین تھیں اور سو میں پچاس انجینئرز خواتین تھیں اور اب بھی کچھ کمی کے ساتھ اتنی ہی ہیں۔ ان مسلم ریاستوں میں 97 سے 98 فیصد لوگ خواندہ ہیں۔

انقلاب کے بعد یہاں تعلیم اور صحت مکمل مفت تھیں، جب کہ ٹرانسپورٹ اور رہائش تقریباً مفت تھیں۔ خوراک اور ادویات بہت سستی تھیں۔ پانی، توانائی مفت تھیں۔ کوئلہ، لوہا، تیل، کیمیا اور چینی کی پیداوار دنیا میں سب سے زیادہ تھیں۔ کوئی شخص بیروزگار تھا اور نہ گداگر۔ سرمایہ داری، جاگیرداری، قبائلی اور بیرونی عالمی مالیاتی اداروں کی لوٹ کے دروازے بند تھے۔

دنیا میں سب سے زیادہ سائنسدان روس میں تحقیق میں رات و دن مصروف عمل تھے۔ دنیا کی سب سے بڑی لائبریری روس میں تھی۔ لوممبا یونیورسٹی کے ہاسٹل میں 17 ہزار طلبا رہائش پذیر تھے۔ خلائی تحقیق میں سب سے آگے روس تھا۔ ادبی شعبے میں دنیا کا سب سے زیادہ مقبول ہونے اور ترجمہ ہونے والا ناول میکسم گورکی کا ماں ’’دی مدر‘‘ ہے۔ فلمی شعبے میں دنیا کا سب سے ذہین اور معروف ڈائریکٹر گریگوری تھے، اولمپک گیمز میں ہر سال روس ہی تمغوں میں آگے تھا۔ ریلوے کا نظام دنیا میں سب سے بہتر اور تیز رفتار روس کا تھا۔ دنیا کے عوام سب سے زیادہ روسی ہوائی جہاز سے سفر کرتے تھے، اس لیے کہ وہ سستا اور سہولت سب سے زیادہ تھی۔ ہاں مگر آج سوویت یونین کے انہدام کے بعد صورتحال اس کے برعکس ہوچکی ہے۔ ازبکستان، پولینڈ اور یوکرین سمیت کئی ریاستیں امریکی سامراج کا فوجی اڈہ بن چکی ہیں۔ دنیا کی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں روسی کمپنیاں بھی شامل ہوگئی ہیں۔ انقلاب کے بعد روس کے عوام کی اوسط عمر جرمنی اور امریکا کے برابر تھی اور اب پاکستان سے کچھ ہی بہتر ہے۔ اب بیروزگاری اور مہنگائی عروج پر ہے۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا کے عوام طبقاتی استحصال کے خلاف لڑائی سے دستبردار ہوگئے ہیں۔ کل جو فلپائن امریکا کا آلہ کار تھا، وہاں امریکی فوجی اڈہ تھا، آج وہاں کا صدر کہتا ہے کہ ہر امریکی سفیر سی آئی اے کا جاسوس ہوتا ہے۔ کیوبا، بولیویا، ایکواڈور، وینزویلا، ویتنام، کمبوڈیا، لاؤس، زمبابوے، منگولیا اور نیپال اپنے آپ کو سوشلسٹ ممالک گردانتے ہیں۔

بھارت، چین، افریقہ، یورپ، امریکا اور لاطینی امریکا سمیت ساری دنیا کے محنت کش عوام اپنے حقوق کے لیے دن و رات قربانیوں کے ساتھ جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ہندوستان، پاکستان، برازیل، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ، فرانس، جنوبی افریقہ سمیت ہر جگہ محنت کش ہڑتال کررہے ہیں۔ پاکستان میں گوادر (بلوچستان) کے ماہی گیر، کراچی کے سینیٹری ملازمین سامراج کی لوٹ کی وجہ سے مچھیروں اور خاکروبوں کی بے روزگاری کے خلاف زبردست احتجاج کررہے ہیں۔

پوری دنیا انقلاب کے دہانے پہ کھڑی ہے، مگر اس بار سوشلسٹ انقلاب آنے کے بعد رکے گا اور نہ منجمد ہوگا، بلکہ انقلاب کے فوراً بعد اپنی منزل مقصود کمیونسٹ معاشرے یعنی پنچایتی یا امداد باہمی یا خودکار مقامی حکومتوں کی جانب پیش قدمی کرے گا۔ وہ دن جلد آنے والا ہے، جب دنیا بھر میں طبقات، جائیداد، ملکیت، سرحدیں، سرمایہ داری، جاگیرداری، خاندان، ریاستی جبر اور سرحدوں کے محافظ ناپید ہوجائیں گے، سارے لوگ مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔ کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ ایک ایسا سماج تشکیل پائے گا، جس کا ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ان میں ترمیم و ترقی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام اس وقت کے حالات کے تحت خود کرتے رہیں گے۔ فطری نظام کو ریڈی میڈ من مانے نظام کے سانچے میں ڈھالا نہیں جا سکتا۔

The post روسی سوشلسٹ انقلاب appeared first on ایکسپریس اردو.

حکومت کے خلاف اپوزیشن کی آخری امید ؟

$
0
0

بقول چوہدری شجاعت حسین کے، گرینڈالائنس کے لیے آصف علی زرداری سے ملاقات پانی میں مدھانی کے مترادف ثابت ہوئی ہے۔ انھی سطورمیں گزشتہ ہفتہ یہ بات کہی گئی تھی کہ پچھلے تین سال میںجب بھی نوازشریف حکومت کواپوزیشن کی طرف سے کسی خطرہ کا سامنا ہوا، پیپلزپارٹی نے اس کو ریسکیو کیا۔

وجہ اس کی یہ ہے کہ حکومت میں آصف زرداری کا سٹیک وزیراعظم نوازشریف سے کسی طورکم نہیں۔ اگر نوازشریف کے پاس ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں اکثریت اورصوبہ پنجاب کی حکومت ہے، تو آصف زرداری کے پاس ایوان بالایعنی سینیٹ میں اکثریت اور صوبہ سندھ کی حکومت ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں قائد حزب اختلاف بھی پیپلزپارٹی کے ہیں۔ مزید یہ کہ پنجاب میں اگر پچھلے آٹھ سال سے ن لیگ حکمران ہیں تو سندھ میں پچھلے آٹھ سال سے پیپلزپارٹی حکمران ہیں۔ صرف ایک فرق ہے کہ نوازشریف اور شہباز شریف خوداسمبلیوں میں بیٹھے ہیں، جب کہ آصف زرداری اور بلاول زرداری اسمبلیوں سے باہر ہیں۔ مگرآیندہ چند ہفتوں میں یہ بھی ختم ہو جائے گا، جب دونوں زرداری ضمنی الیکشن جیت کر اسمبلیوں میں پہنچ جائیں گے۔

آصف زرداری اور بلاول زرداری کے ضمنی الیکشن لڑنے کے اعلان اور پارلیمنٹ میں پہنچنے کے اعلان کا مطلب واضح ہے کہ وہ حکومت کوگرانا نہیں، بلکہ مستحکم کرنا چاہتے ہیں، اور آیندہ الیکشن بھی اسی حکمت عملی کے ساتھ لڑناچاہتے ہیں، جس حکمت عملی کے ساتھ انھوں نے گزشتہ الیکشن لڑاتھا۔ حکمت عملی یہ ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کا تسلسل قائم رہے، جب کہ پنجاب میں ن لیگ کوکمزورکرنے کے لیے اس کی مخالف قوتوں کوساتھ ملانے کی کوشش کی جائے، جن میں سرفہرست مسلم لیگ ق ہے۔

مگر مسئلہ یہ ہے کہ چوہدری برادران جان چکے ہیں کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کے تلوں میں کوئی تیل نہیں۔ 2013  کے الیکشن کے بعد لوکل باڈیز الیکشن میں بھی پیپلزپارٹی پٹ گئی ہے ۔یہ کہنا مناسب ہو گا کہ قومی سطح پر اگر پیپلزپارٹی کو اپوزیشن کی باقی پارٹیوں کو ساتھ لے کرچلنے میں کوئی دلچسپی نہیں توپنجاب کی سطح پر اپوزیشن کی دیگرپارٹیوں کو پیپلز پارٹی کے ساتھ چلنے میں کوئی منفعت نظر نہیں آتی۔ اس تناظر میں یہ باور کرنا کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی قیادت میں حکومت کے خلاف کوئی گرینڈالائنس بن سکتا ہے، مضحکہ خیز بات ہوگی۔

’چیئرمین بلاول‘کی حکومت کے خلاف شعلہ بیانی نے پنجاب میں جیالوں کے خون میں کچھ گرمی پیداکی تھی اور وہ بطوراپوزیشن پیپلزپارٹی کی بحالی کے خواب دیکھنے لگ گئے تھے؛ مگر27 دسمبرکو جو کہ ’چیئرمین بلاول‘ کی جانب سے حکومت کو ڈیڈلائن تھی، آصف زرداری نے ’چیئرمین ‘ کی ڈیڈلائن کا ذکر تو دورکی بات، حکومت سے ان کے4 مطالبات کو بھی اس قابل نہیں سمجھا کہ ان کو دہرا ہی دیا جائے۔ ان کے اس تجاہل سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آصف زرداری ’چیئرمین بلاول‘ کی ’چیئرمین شپ‘ کوکتنی اہمیت دیتے ہیں۔ پنجاب کے حالیہ بلدیاتی الیکشن کے نتائج دیکھ کر یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ن لیگ کے خلاف اگر پنجاب میں کوئی مضبوط انتخابی اتحاد قائم نہ ہوا تو پنجاب میں ن لیگ اگلا الیکشن بآسانی جیت سکتی ہے۔

پنجاب میں الیکشن جیتنے کا مطلب ہے کہ وفاق میں بھی ن لیگ کی حکومت ہو گی۔ پنجاب میں ن لیگ کی راہ میں اگرکوئی رکاوٹ ہو سکتی ہے، تو وہ عمران خان اور چوہدری برادران کا ’انتخابی اتحاد‘ ہے، کیونکہ اس صورت میں اس کو ن لیگ کے ناراض عناصرکی ہمدردیاں بھی مل سکتی ہیں، جیساکہ بلدیاتی الیکشن کے سربراہوں کے الیکشن میں ہوا۔ ملتان میں شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کاغذی پہلوان ثابت ہوئے ہیں۔ اس بارے میں حتمی طورپرکچھ کہنامشکل ہے؛ لیکن یہ تسلیم کیے بغیرچارہ نہیں کہ پچھلے آٹھ سال میں پنجاب میں یہ چوہدری برادران اور عمران خان ہی ہیں، جنھوں نے حقیقی اپوزیشن کا کرداراداکیا ہے۔2014 میں طاہرالقادری کے پیچھے اگر چوہدری برادران کھڑے نہ ہوتے توطاہرالقادری کا ’انقلاب مارچ‘ ظہور پذیر نہیں ہو سکتا تھا، اور طاہرالقادری کا ’انقلاب مارچ‘ ظہورپذیر نہ ہوتا تو عمران خان کا ’آزادی مارچ‘ لاہور سے نکل کراسلام آباد پہنچ ہی نہیں سکتا تھا۔

اس طرح جب عمران خان نے ’اسلام آباد لاک ڈاون‘ کی کال دی تو سوائے چوہدری برادران کے، کسی نے عمران خان کی کھل کرحمایت نہیں کی۔ علاوہ اس کے، چوہدری برادران اور عمران خان کے درمیان ٹیلی فونک رابطوں کے بعد براہ راست ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں، بلکہ جب سپریم کورٹ نے عمران خان سے جوڈیشل کمیشن کے قائم کرنے یانہ کرنے پررائے مانگی تو انھوں نے پرویز الٰہی سے بھی اس بارے میں مشاورت کی۔ پچھلے دنوں جاوید ہاشمی نے عمران خان پر الزامات کی بارش کی، تو اس میں بھی چوہدری برادران ہی نے ان کو ریسکیو کیا۔

مگراس سب کچھ کے باوجودیہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ عمران خان اورچوہدری برادران کے درمیان اب بھی بہت فاصلہ ہے۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ چوہدری برادران پانچ سال تک پنجاب میں برسراقتداررہ چکے ہیں، اورآج بھی جب پنجاب میں شہبازشریف دورکاموازنہ پرویزالٰہی دورہی سے کیاجاتاہے۔ یہ کوئی رازنہیں کہ تب سے پنجاب اوراسلام آبادکی ایسٹیبلشمنٹ چوہدری برادران کے ساتھ رابطے میں ہے۔

عمران خان اس سے خائف ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ق لیگ کے جو سیاست دان قلازی کھا کے پی ٹی آئی میں شامل ہو چکے ہیں۔وہ بھی ایکسپوزہونے سے بچنے کے لیے عمران خان اورچوہدری برادران کوانتخابی طور پر ملتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔ یہ وہ سیاستدان تھے کہ جب تک ق لیگ برسراقتدار تھی، یہ چوہدری برادران سے اسی طرح وفاداری کادم بھرتے تھے، جس طرح آج عمران خان سے وفاداری کادم بھرتے ہیں یہ سمجھنامشکل نہیںکہ پنجاب میں چوہدری برادران اورعمران خان کے درمیان جوفاصلے ہیں، وہ اگر برقراررہتے ہیں اوردونوں پارٹیاں بدستور ایک دوسرے سے کھنچی کھنچی رہتی ہیں تواس کاتمام ترفائدہ ن لیگ کو ہوگا۔ لہٰذا ن لیگ کی پوری کوشش بھی ہے کہ عمران خان اور چوہدری برادران اکٹھے نہ ہونے پائیں۔

حرف آخریہ کہ پنجاب نوازشریف حکومت کاپاوربیس ہے، جس میں ان کامقابلہ آصف زرداری کاگرینڈالائنس نہیں، عمران خان اورچوہدری برادران کاانتخابی اتحاد ہی کر سکتاہے۔ پنجاب میں بلاول بھٹوکی حکومت کے خلاف شعلہ نوائی کوعوامی سطح پراہمیت دی جارہی تھی اورپانامہ لیکس پراحتجاجی سیاست نے ان کوپارٹی امیج بحال کرنے کاموقع بھی مہیاکردیاتھا؛ مگرآصف زرداری نے وطن واپسی پراس طرح ان کی ڈورکھینچی کہ پنجاب میں ان کی سیاست کاستارہ پوری طرح روشنی بکھیرنے سے پہلے ہی بجھ گیاہے؛ اور پنجاب میں اپوزیشن کی سیاست کی کامیابی کادارومداراب مکمل طورپرعمران خان اورچوہدری برادران کے انتخابی اتحاد پررہ گیاہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ بیل بھی منڈھے چڑھتی ہے یا نہیں۔شاعرنے کہاتھا،

لیے جاتی ہے کہیںایک توقع غالب

جادہ رہ کشش کاف ِ کرم ہے ہم کو

The post حکومت کے خلاف اپوزیشن کی آخری امید ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

بھارتی سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ

$
0
0

بھارتی سپریم کورٹ نے انتخابات میں مذہب اور ذات کو استعمال کرنے پر پابندی لگادی۔ بھارتی سپریم کورٹ کے رخصت ہونے والے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کی قیادت میں 7 رکنی ججوں پر مشتمل بینچ میں سے 4 نے متفقہ طور پر تحریر کیا کہ انتخابات ایک سیکولر سرگرمی ہے، اس لیے انتخابی مہم میں مذہب اور ذات کا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ بھارتی سپریم کورٹ میں 1990 سے یہ پٹیشن زیر سماعت تھی، مگر مقدمات کی بھرمار اور نامعلوم وجوہات کی بنا پر 26 سال بعد یہ معرکۃ الآرا فیصلہ سامنے آیا۔

بھارت میں 80 فیصد لوگوں کا مذہب ہندو مت ہے۔ مسلمان جنھوں نے ہزار سال تک حکومت کی تھی، دوسرے نمبر پر ہیں، ان کی آبادی کا کل تناسب 14.2 فیصد ہے۔ سکھ، عیسائی، بدھ مت مذہب کے ماننے والوں کی تعداد  6فیصد ہے۔ مسلمان علما نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ بھارت میں اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے، جو ہندوتوا کے نعرے پر برسر اقتدار آئی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کے حوالے سے بھارتی سماج کو ہزاروں سال پیچھے لے جانے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی جماعت نے بھارتی اداروں کو ہندومت کے مطابق ڈھالنے کی مہم شروع کی ہوئی ہے۔

بھارتی حکومت تعلیمی اداروں کے نصاب کو تبدیل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ مودی نے ایک سائنسی کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ ہندو دیوتا پلاسٹک سرجری کے ماہر تھے اور انھوں نے ہیلی کاپٹر ایجاد کیے تھے۔ بھارتی جنتا پارٹی نے مختلف ریاستوں میں گائے کے گوشت کے استعمال کو ممنوع قرار دلوایا ہے، جس سے اقلیتوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ 2013 میں دو مسلمانوں سمیت کئی افراد کو مشتعل ہجوم نے گائے کا گوشت رکھنے پر تشدد کرکے ہلاک کردیا تھا، مگر جن ریاستوں میں دیگر جماعتوں کی حکومتیں قائم ہیں وہاں گائے کاٹنا جرم نہیں ہے۔ بھارت کی سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ میں واضح کیا تھا کہ اپنی پسند کے کھانے کا انتخاب ہر شہری کا بنیادی حق ہے، حکومت کسی شخص کو گائے نہ کھانے پر مجبور نہیں کرسکتی۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کی مذہبی انتہاپسندی کو فروغ دینے کی کوششوں کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی کی تنظیموں، فنکاروں، دانشوروں، ادیبوں اور اساتذہ نے کی۔ بہت سے ادیبوں، دانشوروں اور فنکاروں نے قومی اعزازات واپس کردیے تھے۔ اس روش کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں معروف اداکار شاہ رخ خان، عامر خان اور اوم پوری بھی شامل تھے۔ مذہبی انتہاپسندی کے خلاف مہم چلانے والوں میں معروف سماجی کارکن ارون دھتی رائے سرفہرست ہیں۔ انھوں نے کشمیر میں بھارتی فوج کی کارروائیوں، خاص طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر کبھی بھارت کا حصہ نہیں رہا۔ بھارت کی آزادی کی جدوجہد انڈین نیشنل کانگریس نے شروع کی تھی۔کانگریس ایک انگریز نے قائم کی تھی، پھر ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی ہند حکومت کی اصلاحات کے نتیجے میں تعلیم یافتہ درمیانہ طبقہ وجود میں آیا تھا۔

درمیانے طبقے کے بہت سے نوجوان انڈین سول سروس اور دیگر ملازمتوں میں کھپ گئے تھے، مگر چند سرپھرے ایسے بھی تھے جنھوں نے کانگریس، کمیونسٹ پارٹی اور دیگر تنظیموں میں شمولیت اختیار کی اور ہندوستان کی آزادی کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔ دادا بھائی، نوروجی تلک، حسرت موہانی، محمد علی جناح، مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد، بابا صاحب اور امبیدکر کانگریس کی قیادت میں شامل رہے۔ آزادی کی جدوجہد میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی اور دیگر تمام مذاہب اور ذاتوں کے لوگ شامل تھے۔ امبیدکر اور منڈل کا تعلق نچلی ذات کی ہندو برادری سے تھا۔ ہندوستان کے عوام نے انگریزوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے تاریخی قربانیاں دیں۔

ان قربانی دینے والوں میں بھگت سنگھ اور اشفاق اﷲ سمیت تمام مذاہب کے لوگ شامل تھے۔ مہاتما گاندھی یوں تو عظیم رہنما تھے مگر انھوں نے سیاست میں مذہب کا استعمال شروع کیا تھا۔ جب مولانا محمد علی جوہر نے ترکی کی خلافت کو بچانے کے لیے خلافت تحریک شروع کی تو گاندھی نے اس تحریک کی حمایت کی تھی۔ مساجد اور مندروں میں خلافت تحریک کے جلسے ہوئے۔ محمد علی جناح پہلے شخص تھے جنھوں نے خلافت تحریک میں شمولیت سے انکار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاست میں مذہب کا استعمال خطرناک ہے۔ جناح صاحب کا مولانا محمد علی جوہر کے بھائی مولانا شوکت علی سے سخت مکالمہ ہوا تھا اور پھر جناح صاحب کانگریس سے علیحدہ ہوگئے تھے۔ گاندھی کئی بار اپنی تحریک کے لیے مذہب اور ذات کو استعمال کرتے رہے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو ہمیشہ سیکولر سوچ کے حامل تھے۔ دلت رہنما ڈاکٹر امبیدکر کانگریس کی نچلی ذات کے ہندوؤں سے متعلق پالیسیوں سے نالاں تھے۔

انھوں نے اسی بنا پر بدھ مت اختیار کیا اور جناح صاحب کے پاکستان کے نظریہ کی حمایت کی تھی، مگر اس طرح مولانا ابوالکلام آزاد نے ہندوستان کی تقسیم کی ذمے داری اپنے قریبی دوست پنڈت نہرو اور سردار پٹیل پر عائد کی تھی۔ سردار پٹیل آزادی کے وقت وزیر داخلہ تھے۔ سردار پٹیل پر مسلمان دشمن فسادات میں منفی کردار ادا کرنے کا الزام بھی لگا تھا، مگر جب بھارت آزاد ہوا تو گاندھی نے کوئی انتظامی عہدہ قبول کرنے سے انکار کیا۔ پنڈت نہرو وزیراعظم بنے۔ انھوں نے ڈاکٹر امبیدکر کو وزیر قانون اور مولانا ابوالکلام آزاد کو وزیر تعلیم مقرر کیا۔

امبیدکر کی قیادت میں بھارتی پارلیمنٹ نے آئین ساز کمیٹی قائم کی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی زیر نگرانی سیکولر اور سائنسی بنیادوں پر نئی تعلیمی پالیسی ہوئی۔ اس تعلیمی پالیسی نے جدید بھارت کے تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی۔ امبیدکر کی قیادت میں ایک ایسا جامع آئین تیار ہوا جس میں مذہب اور ذات کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں تھا اور ریاستوں کو خودمختاری دی گئی تھی۔ سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کے دور میں سوشلزم کو آئین کا حصہ بنایا گیا تھا۔ بھارتی یونین نے اس آئین کی بنیاد پر آزاد عدلیہ کی بنیاد رکھی۔ بھارت کی اعلیٰ عدلیہ نے اس آئین کی پاسداری کرتے ہوئے کئی تاریخی فیصلے کیے۔

کانگریس پارٹی نے اگرچہ سیکولر سیاست کا نعرہ لگایا اور پنڈت جواہر لعل نہرو کے دور تک اس نعرے پر عملدرآمد ہوا مگر پھر حکمرانوں نے اپنے مقاصد کے لیے مذہب اور ذات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔ سینئر صحافی سعید حسن خان جن کی بھارت کی سیاست پر ہمیشہ گہری نظر رہتی ہے، کہتے ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی، مزدور اور کسان تحریکوں کو کمزور کرنے کے لیے کانگریس نے ہندو انتہاپسندی کے ہتھیار کو بار بار استعمال کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت کے اقتصادی دارالحکومت بمبئی اور اطراف کے علاقوں میں آزادی کے وقت سے مزدور تحریک مضبوط تھی۔ بمبئی کے صنعتکاروں نے بال ٹھاکرے کی حوصلہ افزائی شروع کی۔ ان کوششوں کے پیچھے کانگریس بھی تھی۔

80 کی دہائی میں بمبئی کے مضافاتی علاقوں میں ہندو مسلمان فساد ہوا۔ بال ٹھاکرے نے مزدور تحریک کو سخت نقصان پہنچایا، کمیونسٹ پارٹی کی مزدور تنظیموں کی جگہ ہندو انتہاپسندوں نے لے لی۔ جب 1977 میں کانگریس کو شکست ہوئی اور ڈیسائی کی قیادت میں جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو کانگریس نے امرتسر میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ میں ایک انتہاپسند بھنڈراوالا کی بالواسطہ سرپرستی کی۔ پھر اندرا گاندھی اقتدار میں آگئی۔ اندرا گاندھی نے فوج کے ذریعے بھنڈراوالا کا خاتمہ کیا۔ مسز گاندھی کے  سکھ باڈی گارڈز  نے اندرا گاندھی کو قتل کردیا۔

دہلی میں سکھوں کے خلاف بدترین فسادات ہوئے، جس نے مسلم کش فسادات کی یاد تازہ کردی۔ سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کے دور میں بھارتی سپریم کورٹ نے ایک مسلمان طلاق یافتہ خاتون شاہ بانو کو شوہر سے معاوضہ دینے کا حکم دیا۔ بھارت کے مسلمانوں نے اس فیصلے کو شریعت میں مداخلت قرار دیا اور تحریک شروع کردی۔

راجیو گاندھی دباؤ کا شکار ہوئے اور آئین میں ترمیم کرکے اس فیصلے کو غیر موثر بنایا۔ مگر مسلمانوں کی اس تحریک سے حوصلہ پاکر انتہاپسند ہندو رہنما ایل کے ایڈوانی نے رتھ یاترا تحریک شروع کی۔ اس تحریک کا مقصد رام مندر تعمیر کرنا تھا۔ اس تحریک کے نتیجے میں ہندو انتہاپسند متحرک ہوگئے اور ہندو انتہاپسندوں نے بابری مسجد کو شہیدکرنے کا منصوبہ بنایا۔ کانگریس کے وزیراعظم نرسمہاراؤ کی نااہلی کی بنا پر انتہاپسندوں کو بابری مسجد کے انہدام کا موقع ملا۔ ایک سینئر بھارتی صحافی کا کہنا تھا کہ بابری مسجد کا انہدام بھارت کی سیکولر تاریخ پر ایسا سیاہ دھبہ ہے جو مٹائے نہ مٹے گا۔

پاکستان کے سپریم کورٹ نے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی قیادت میں 19 جون 2014 کو اقلیتوں کے مساوی حقوق کے بارے میں تاریخی فیصلہ کیا۔ اس فیصلے پر عملدرآمد سے پاکستان کے ان شہریوں کو جن کا مذہب اسلام نہیں ہے بہت سے حقوق حاصل ہوجائیں گے، مگر وفاقی حکومت نے اس فیصلے پر عملدرآمد کے لیے اقدامات نہیں کیے۔ بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ اس وقت آیا ہے جب مختلف ریاستوں میں انتخابات ہورہے ہیں۔ اس فیصلے پر عملدرآمد سے ہی تمام شہریوں کو تحفظ حاصل ہوگا۔ بھارت، پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کی بقا سیکولر ریاست میں ہے اور سیکولر ریاست سے ہی حقیقی جمہوریہ وجود میں آسکتی ہے۔

The post بھارتی سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ appeared first on ایکسپریس اردو.

302 حادثات اور وزارت ریلوے

$
0
0

میرے کالم کے ’’ٹائٹل‘‘ سے شاید کئی لوگوں کو اختلاف ہو، لیکن اخبارات کے جھوٹے سچے ریکارڈ کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں ٹرین حادثوں کی تعداد 530 ہے لیکن  میں نے سوچا ادھر اُدھر کی ناقابل اعتبار رپورٹ سے بہتر ہے کہ سینیٹ و قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی ہی کی رپورٹ پر اکتفاء کیا جائے جس کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں 300 ٹرین حادثات ہو چکے ہیں اور اب ایک ماہ میں دو حادثات بھی شامل کر لیے جائیں تو 302کا ہندسہ عبور ہوجاتا ہے۔

گزشتہ ماہ ایران میں ٹرین حادثے میں 49افراد کی ہلاکت کے فوری بعد ریلوے منسٹر نے استعفیٰ دے کر اپنے آپ کو انکوائری کے لیے پیش کر دیا۔ جنوبی کوریا میں ٹرین حادثے میں ہلاکتوں کے بعد وہاں کے وزیر نے استعفیٰ دیا۔ برسوں پہلے بھارت میں 144افراد کی ٹرین حادثے میں ہلاکت کے بعد لال بہادرشاستری نے یہ کہہ کر استعفیٰ دیا تھا کہ ’’میں ذمے دار ہوں‘‘۔ چین میں سابق وزیر ریلوے کو اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرنے پر عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ چند سال قبل بنگلہ دیش میں بھی ریلوے وزیر کو حادثات کا موجب بنا کر برطرف کیا گیا۔

لودھراں میں ٹرین حادثہ ہوا تو میںنے سوچا کہ ہمارا وزیر ریلوے بھلا کیوں استعفیٰ دے۔ یہ تو پاکستان ہے،  یہاں تو ایسی روایت ہی نہیں رہی۔ ماضی میں 1969 میں لیاقت پور کے قریب ٹرین حادثے میں 80 افراد جاں بحق ہوئے ،کیا اُس وقت کسی نے استعفیٰ دیا؟ 22 اکتوبر 1987 کو مورو کے قریب ٹرین اور بس میں تصادم کے نتیجے میں 28 افراد جان سے گئے،کیا کسی نے استعفیٰ دیا؟ 3 اور 4 جنوری 1990 کی درمیانی شب پنوعاقل چھاؤنی کے قریب سانگی گاؤں کے پاس ٹرین حادثے میں 350 افراد ہلاک ہوئے، یہ پاکستان کی 67 سالہ تاریخ کا بدترین ٹرین حادثہ تصور کیا جاتا ہے ۔

جس میں 700 افراد زخمی ہوئے،کیا اس وقت کے وزیر ریلوے ظفر علی لغاری نے استعفیٰ دیا؟ 8 جون 1991 کو ایکسپریس ٹرین اور مال گاڑی کے درمیان گھوٹکی ریلوے اسٹیشن پر تصادم کے نتیجے میں کم از کم 100 افراد ہلاک ہوئے، کیا اس وقت کے وزیر ریلوے میر ہزار خان بجرانی نے استعفیٰ دیا؟ نومبر 1992 میں گھوٹکی میں ہی ایک بار پھر سے مسافر ٹرین کھڑی مال گاڑی سے ٹکرا جانے کے نتیجے میں 54 افراد ہلاک ہوئے، کیا غلام احمد بلور نے استعفیٰ دیا؟ 13 جولائی 2005 کو گھوٹکی ریلوے اسٹیشن پر ہی کوئٹہ اور کراچی ایکسپریس کے درمیان ہولناک تصادم کے نتیجے میں 110 افراد ہلاک ہوئے جب کہ ان دونوں ٹرینوں کے درمیان تصادم کی وجہ سے پٹڑی سے اُتر جانے والے ڈبے آنے والی ایک تیسری ٹرین تیزگام سے ٹکرا گئے۔

تینوں ٹرینوں میں مجموعی طور پر تین ہزار سے زائد مسافر سوار تھے اور بعض لوگ ہلاک شدگان کی تعداد 500 تک بتاتے ہیں، کیا اُس وقت کے وزیر ریلوے شمیم حیدر نے استعفیٰ دیا؟ نومبر 2007 میں محراب پور کے قریب ٹرین پٹڑی سے نیچے اُترنے کی وجہ سے50 افراد ہلاک ہوئے، کیا شیخ رشید جو اس وقت کے وزیر ریلوے تھے نے استعفیٰ دیا؟ اور پھر غلام احمد بلور  کے دور میں ریلوے کا جو حال ہوا کیا انھوں نے استعفیٰ دیا اور اب تو 2013سے لے جنوری 2017 تک جو حادثات ہوئے ، ان کی وجہ سے خواجہ سعد رفیق استعفیٰ کیوں دیں۔ چلیں مان لیا کہ ٹرینوں کے پٹڑیوں سے اترنے ، موٹر وہیکلز سے ٹکرانے ، انجن اور بوگیوں میں آگ لگنے ۔

ان مینڈ اور مینڈ لیول کراسنگ پر ٹرین حادثات کی ذمے داری وزیر پر نہیں ڈالنی چاہیے کیونکہ وہ کونسا کسی رکشہ ڈرائیور سے کہتا ہے کہ دھند میں پٹڑیوں کے درمیان میں لا کر رکشہ کھڑا کر دے یا پھاٹک پر کھڑے ملازم سے کہے کہ جب ریل گاڑی آرہی ہو تو پھاٹک کھلا رکھے  تاکہ یہ ڈھیٹ عوام اس کے تلے روندی جائے لیکن میرے خیال میںسسٹم کو بہتر کرنا خواجہ صاحب آپ کا ہی کا م ہے، آپ جیسے پڑھے لکھے شخص سے جب اس ادارے کا یہ حال ہے تو یقین مانیں مجھے انڈیا کا ’’ان پڑھ ‘‘ لالو پرساد یاد آجا تاہے جس نے 2004 میں جب بھارتی ریلوے کا چارج سنبھالا تو انڈین ریلوے سفید ہاتھی تھا۔لالو پرشاد نے ریلوے کے ’’ڈاکٹر‘‘ کا کردار ادا کیا۔ تمام بیماریوں کو خود تلاش کیا ۔

علاج کے لیے اقدامات کیے۔ لالوپرشاد صبح گھر سے نکلتااور کسی بھی ٹرین میں سوار ہوجاتا اور اسے راستے میں جو بھی مسائل نظر آتے تھے ، وہ متعلقہ محکمے کو فورا ہدایات جاری کرتااور اس کے حل کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کراتا۔ وہ سیکریٹری سے لے کر ریلوے کے چھوٹے موٹے افسران تک سب سے ملاقاتیں ریلوے اسٹیشن پرکرتا اور مسافروںکے مسائل سنتا اور اسی وقت افسران کواصلاح کے احکامات بھی جاری کرتا۔لالوپرشاد نے قاعدہ بنادیاکہ ریلوے کا کوئی اہلکارہوائی سفر،بس و ویگنوں میں سفر نہیں کرسکتا، وہ صرف ریل کے ذریعے سفر کریں گے۔ ریلوے کی مال گاڑیوں کو ترجیح ملنے لگی، اس سے مال برداری کا 90 فیصد حصہ ریلوے کو ملنے لگا اور جلد ہی ریلوے کا خسارہ ختم ہوگیا۔ لالوپرشاد نے تمام ریلوے اسٹیشنوں کی کینٹینوں سے چینی، پلاسٹک، دھات اور ڈسپوزیبل برتنوں کی جگہ صرف اور صرف مٹی کے برتن استعمال کرنے کے احکامات جاری کیے۔

اس سے 25ہزار دیہات کا مقدر تبدیل ہوگیا۔ ریلوے اسٹیشنوں کے اردگردکمہاروں نے دھڑا دھڑمٹی کے برتن بنانا شروع کر دیے۔ مٹی کے برتن کیونکہ جلد ٹوٹ جاتے ہیںچناچہ ان کی سپلائی لائن لمبی ہوتی گئی اور ریلوے کے اردگرد کے دیہات مٹی کے برتنوں کی منڈیاں بن گئیں۔ لالوپرشاد نے ریلوے کی انشورنش بھی کرادی۔ اس نے انجنوں کی مرمت ،موبل آئل کی تبدیلی کا کام پرائیویٹ کمپنیوں کو دے دیا، عملہ بھی کم کردیا، ان تمام عوامل کی بدولت آج بھارتی ریلوے روزانہ تقریباایک ارب روپے کماکر دیتا ہے یعنی سالانہ 365ارب بھارتی روپے، اس وقت بھارت میں روزانہ 14 ہزار سے زیادہ ٹرینیں چلتی ہیں اور حادثات کی تعداد پاکستان سے نہایت کم ہے۔

خواجہ صاحب میں آپ سے عمران خان کی طرح استعفے کا مطالبہ تو نہیں کر رہا مگر اتنا ضرور کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس عہدہ پر عوام کی خدمت کے لیے چناہے۔ آپ اسی شعبہ میں رہ کر بلور یا شیخ بننے کے  بجائے عوام کے دلوں کی دھڑکن بنیں یا کم از کم لالو پرساد ہی بن جائیں مگر افسوس ہماری ترجیحات ’’غیر نصابی ‘‘ سرگرمیاں ہیں۔ آپ کی جانب سے کبھی پی ٹی آئی کے حوالے سے بیان جاری ہوتا ہے تو کبھی پیپلز پارٹی کی دم پر پاؤں رکھ رہے ہوتے ہیں۔ بسا اوقات آپ کو سیاسی میٹنگز میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے دیکھا گیا ہے حالانکہ ان میٹنگز کا فائدہ الیکشن سے پہلے ہوتا ہے ۔ الیکشن کے بعد عوام کارکردگی دیکھنا چاہتے ہیں۔ بہرحال یہ ادارہ اتنا بھی برا نہیں ہے کہ ٹھیک نہ ہو سکے ۔

ایک زمانہ تھا جب لوگ ٹرین دیکھ کر اپنی گھڑیوں کا وقت درست کیا کرتے تھے۔ ’’ریلوے‘‘ اپنی پولیس، اپنے اسکول، ریلوے کالونیاں ، اسپتال اور عدالتیں رکھتا ہے، عدالتوں میں مجسٹریٹ عدالتی کارروائی انجام دیتے ہیں جب کہ مردان میں 251 ایکڑ رقبے پر ریلوے انجن بنانے کا اپنا کارخانہ ہے،جس میں جاپان کی اشتراک بھی شامل ہے مگر کرپشن اور دہشت گردی کے دور میں ریلوے کو تباہ و برباد کرکے ملک کی معیشت کے لیے ایٹم بم بنا دیا ہے۔ مجھے گزشتہ دوربھی اکثر یاد آجاتا ہے جس میں قومی اسمبلی کے50 سیشنوں کے دوران ارکان اسمبلی نے وفاقی وزارتوں میں سب سے زیادہ 568 سوالات وزارت ریلوے سے کیے تھے جن میں سے 346 سوالات اس وقت کی اپوزیشن پاکستان مسلم لیگ نواز نے کیے تھے اور غلام احمد بلور کو آڑے ہاتھوں لے رہے تھے۔

The post 302 حادثات اور وزارت ریلوے appeared first on ایکسپریس اردو.

ریاستی نہیں قومی بیانیے کی ضرورت

$
0
0

یہ 1976 کی جولائی تھی جب اس وقت کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اکیڈمی آف لیٹرز کی بنیاد رکھی۔ وہ دنیا کی تاریخ اور تہذیب سے بخوبی آگاہ تھے اور یہ جانتے تھے کہ علم و ادب قوموں کی بلند پروازی میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ انھوں نے فرانس کی اکیڈمی آف لیٹرز کی نہج پر پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کا خواب دیکھا لیکن اس خواب کو اپنی خواہشوں کے مطابق شرمندئہ تعبیر نہ کرسکے۔

جلد ہی آمریت کے مہیب سائے پاکستان پر مسلط ہوگئے اور اکیڈمی آف لیٹرز جو علم و ادب کے فروغ اور اہل دانش کے درمیان مکالمے کی خاطر وجود میں آئی تھی، وہ جنرل ضیاء الحق کی خواہشوں کے تابع ہوگئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے سات دنوں بعد اسی اکیڈمی کے زیراہتمام ملک بھر کے شاعر، ادیب اور دانشور ایوان صدر میں مدعو کیے گئے۔

انھوں نے ایوان صدر کے جگمگاتے ہوئے ماحول میں جمہوریت پر شب خون مارنے والے کے ہونٹوں سے یہ تضحیک آمیز جملے سنے کہ ’’جو مصنفین اور اہل قلم اپنے وطن سے اپنے تشخص کو گوارا نہیں کرسکتے وہ اس ملک سے فیضیاب ہونے کا حق نہیں رکھتے اورجو ادیب اپنے ملک کا وفادار نہیں ہوسکتا وہ ادب کا بھی وفادار نہیں ہوسکتا۔ ادب کے فروغ کے لیے حکومت ہر قسم کی حوصلہ افزائی کرنے کو تیارہے۔ اور اس کے ساتھ حکومت ادیبوں پر کسی تخلیقی ادب کا خاکہ چسپاں کرنا نہیں چاہتی۔ ادیب جو کچھ وہ چاہیں‘ جس طرح چاہیں لکھنے کے لیے آزاد ہیں۔ اگرہمارے ادیب ذہنی اور نظریاتی طور پر پاکستانی ہیںتو مجھے یقین ہے کہ ان کی تخلیقات کا بنیادی خیال پاکستان ہوگا اور وہ کسی اور چیز کو اپنے ذہن میںجذب کر ہی نہیں سکیں گے۔

جو اہل علم ادیب اور مصنف پاکستان کے ساتھ اپنے تشخص پرشرم محسوس کرتے ہیں ان کے لیے پاکستان کا رزق‘ یہاں کا پانی اور اس ملک کا سایہ‘ اس کی چاندنی حرام ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانیت ایک وحدت ہے۔

ایک ہی آسمان کے نیچے سانس لیتی اور خالق کائنات کی مخلوق ہے۔ لیکن یہ عالمی برادری مختلف علاقوں سے تعلق رکھتی ہے اور ہر طبقہ کے تشخص کے کچھ نہ کچھ عوامل ہوتے ہیں۔ کوئی شخص فضامیں معلق ہوکر کائناتی نظام کا تصور نہیں کرسکتا ۔کوئی شخص اپنے وطن سے علیحدہ اور لاتعلق ہوکر انسانی مسائل کی باتیں نہیںکرسکتا۔ ہر خواب کا قریب ترین حقائق سے تعلق ہوتا ہے۔  ایک ادیب اور دانشور کی عظمت اس کی تخلیقات میں ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ ادیب سرحدوںسے بے نیاز ہوتا ہے۔ لیکن اہل قلم اور ان کی قلمی کاوشوں کی وفاداریاں ہوتی ہیں اور بلاشبہ یہ وفاداریاں اس کے لیے ہوں گی جن سے وہ منسلک ہوتے ہیں‘‘۔

آزادیٔ فکرو تحریر پر ایمان رکھنے والے ادیبوں پر وطن کی چاندنی، ہوا اور پانی حرام کرنے کا فتویٰ دینے والے آمر مطلق سے ہمارے سیکڑوں دانشوروں اور ادیبوں نے یہ سب کچھ سنا اور خاموش رہے۔

اس بات کو اب 40 برس گذر چکے ہیں۔40 برس بعد 2017 میں ہونے والی ادیبوں کی کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے موجودہ وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ ہم وطن عزیز سے دہشت گردی کا خاتمہ کرکے اسے امن و آشتی کا گہوارہ بنائیں گے، اس سلسلے میں سب سے کلیدی کردار ادیبوں ، شاعروں اور اہل علم و دانش کا ہے، کچھ لوگ ملک میں ناامیدی اور مایوسی پھیلا رہے ہیں، ہم زبان و بیان کا سیلقہ بھولتے جارہے ہیں، ہمارا لب و لہجہ کرخت ہوگیا، دل آزاری کے الفاظ عام ہوگئے، وہ رویے جو میڈیا کے ایک حصے کے ذریعے عام ہورہے ہیں نئی نسل کو متاثر کررہے ہیں، ادیبوں اور دانشوروں کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

اختتامی تقریب سے مخاطب ہوتے ہوئے صدرِ مملکت ممنون حسین نے کہا کہ آج کے ادیب کے کاندھوں پر یہ بھاری ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ اپنے تخلیقی اظہار میں اپنے عہد کے مسائل، خاص طور پر شدت پسندی جیسے مسئلے کا تجزیہ کرکے بتائے کہ چند بیمار ذہنوں نے جس شقاوتِ قلبی کا مظاہرہ کیا ہے، اس کی اجازت نہ دین سے ملتی ہے اور نہ انسانی اور تہذیبی روایت میں اس کی کوئی گنجائش پائی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ذمے داری معاشرے کے ہر طبقے پر عائد ہوتی ہے لیکن اس سلسلے میں جو کردار ادیب اور شاعر ادا کرسکتے ہیں، اس کا کوئی متبادل نہیں کیونکہ ادب ایک ایسا پیرا یہ اظہار ہے جو اپنی خیال آفرینی اور نازک خیالی کے باوصف انسان کے دل و دماغ میں مستقل جگہ بنا کر اس کے فکر و خیال میں دیر پا تبدیلی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

صدر مملکت نے کہا کہ اہلِ قلم کا یہ اجتماع خیالات کے باہمی تبادلے اور معاصر علمی و ادبی رجحانات سے آگاہی کا ذریعہ بنے گا جس سے انتہا پسندی، بد امنی اور جنگ و جدل جیسے معاملات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ذہنی و جذباتی کیفیات کو سمجھ کر تخلیقی سطح پر افہام و تفہیم اور بقائے باہمی کی ایسی فضا پیدا ہوگی جس سے امنِ عالم کو تقویت ملے گی، منفی رجحانات رکھنے والی قوتیں کمزور ہوں گی اور ہم اپنی دنیا کو مزید خوبصورت اور بنی نوعِ انسان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے موزوں بنا سکیں گے۔ صدر مملکت نے کہا کہ ہمارے نوجوان ادیب اور شاعر اپنی ادبی و تہذیبی روایات اور بزرگوں کے تجربات کی روشنی میں نئی راہیں نکالنے کے خواہش مند ہیں جن کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی ناگزیر ہے۔

اس کانفرنس کے روح رواں وزیراعظم کے مشیر برائے قومی تاریخ و ادبی ورثہ عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ ادب کی ایک روح ہوتی ہے اور اس کالمس مشرق ہو یا مغرب دونوں جگہ ایک ہوتا ہے۔ کانفرنس میں پی ٹی وی کے عطا الحق قاسمی اور اکیڈمی کے چیئرمین قاسم بگھیو نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

ہمارے بے مثال لکھاری امر جلیل اس کانفرنس میں بہ ذاتِ خود شریک نہ ہوسکے لیکن انھوں نے اپنی تحریر سے اس میں شرکت کی اور یہ کہا کہ ہماری سرزمین صوفیا کی سرزمین ہے۔ یہ ان ہستیوں کی سرزمین ہے جو تب خون کے آنسو بہاتی ہیں جب کسی دوسرے پر آگ برسائی جاتی ہے۔ یہ تب ماتم کرتی ہیں جب کوئی دوسرا تکلیف میں ہوتا ہے۔ یہ غم سے نڈھال ہوجاتی ہیں جب کسی دوسرے کو اذیت پہنچائی جاتی ہے۔

یہ تب روتی ہیں جب تخیل کے پروں کو قطع کیا جاتا ہے۔ عدم برداشت اور سرد مہری کے دور میں یہ ہستیاں با معنی ادب کی بنت کاری کرتی ہیں۔ بامعنی ادب کی روشنی کو جہالت کی تاریکی ختم کرنے دو۔ علم اور تربیت سے گھٹے ہوئے دماغوں کو کھولنے دو۔ جہاں جنون کا راج ہے، وہاں با معنی ادب کو دانش کے بیج بونے دو۔ الفاظ کی لے، موسیقی اور نغمگی سے معطل روحوں کو بیدار کرنے دو۔ یہ کانفرنس ایکتا کی متقاضی ہے۔ کیوں کہ ایکتا سیدھا کھڑا ہونے کی اور سچ اور صرف سچ بولنے اور لکھنے کی جرأت پیدا کرتی ہے۔

بولنے اور لکھنے کی جس جرأت کا ذکر امر جلیل نے کیا اسی بارے میں ہمارے جید ادیب مشتاق احمد یوسفی نے بجا طور پر اس طرف اشارہ کیا کہ ہمیں قومی سطح پر اس وقت ایک مکالمے کی ضرورت ہے۔ اچھا مکالمہ وہ ہوتا ہے جس میں آزادی اور اطمینان کے ساتھ اختلاف بھی کیا جائے۔ اختلاف کو ختم کرنے کے لیے اختلاف کا اظہار ضروری ہوتا ہے چاہے وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو۔ ادیبوں کا مکالمہ معاشرے کی قلبی کیفیات کو سامنے لاتا ہے اور ہر طرح کے مسائل کے لیے حل کی راہ پیدا کرسکتا ہے۔

امر جلیل اور مشتاق احمد یوسفی دانائے راز ہیں اور معاشرے کی نبض پر ان کا ہاتھ ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ قومی سطح پر ہمیں ایک مکالمے کی ضرورت ہے، حکمرانوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ درست ہے کہ دانشوری اور ادب کے حوالے سے ہمارے موجودہ حکمرانوں کا بیانیہ بدل رہا ہے، وہ جمہوریت اور آزادی فکر، آزادیٔ تحریر و تقریر کو اہمیت دے رہے ہیں لیکن انھیں اس بارے میں بھی سوچنا چاہیے کہ وہ کون سے عناصر ہیں جو آزادیٔ فکر کی راہ میں کانٹے بچھا رہے ہیں۔

ہمارے سوچنے والے اور اپنی سوچ کا آزادانہ اظہار کرنے والے نوجوان سڑکوں سے اٹھائے جارہے ہیں، لاپتہ ہورہے ہیں اور ان کی یہ پر اسرار گمشدگی ان کے اہل خانہ کو اور ملک میں جمہوری سوچ رکھنے والے تمام لوگوں کو شدید اضطراب میں مبتلا کررہی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کانفرنس کے موقعہ پر بعض آزاد سوچ رکھنے والوں کا لاپتہ کردیا جانا، ادب کے حوالے سے کہیں صدر مملکت اور وزیراعظم کے اس بیانیے کو کمزور کرنے کا ایک طریقہ تو نہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ہمیں ریاستی نہیں قومی بیانیے کی ضرورت ہے۔

The post ریاستی نہیں قومی بیانیے کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک سرکاری عمرے کی رُوداد

$
0
0

چند روز پہلے کسی صاحب نے ماضی کے ایک حکمران کی معیّت میں پروٹوکول کے ساتھ عمرہ کرنے اور خانہ کعبہ کے اندر جانے کی کہانی لکھی جسے پڑھکر مجھے بھی ایک سرکاری عمرے کی روداد یاد آگئی ہے۔ 1993 کے ماہِ رمضان کی بات ہے راقم اُسوقت پرائم منسٹر کے ساتھ اسٹاف آفیسر تھا اور سنگین جرائم اور امن وامان کے معاملات دیکھتا تھا ۔

ایک روز میں اسلام آباد سے اپنے گاؤں آیا ہوا تھا افطاری کے بعد میں والد صاحب اور والدہ صاحبہ سے ملکر اسلام آباد واپس جانے کے لیے نکلا توبیرونی برآمدے میں ہمارے ملازم نے روک کر کہا ’’تھانہ وزیرآباد کا ایس ایچ او آیا ہے اور آپ سے ملنا چاہتا ہے‘‘۔ میں گھر سے باہر آکر ایس ایچ او سے ملا تو اُس نے کہا  ’’سر! وزیرِاعظم ہاؤس سے آپکے لیے پیغام ہے آپ فوری طور پر اسلام آباد پہنچیں کل صبح آپ نے بھی وزیرِ اعظم صاحب کے ساتھ سعودی عرب جاناہے‘‘۔  میں پولیس والوں کا شکریہ ادا کرکے گھر واپس آیا اور والدین کو خوشخبری سنائی ، وہ بھی بہت خوش ہوئے اورپھران سے اجازت لے کر اسلام آباد روانہ ہوگیا۔

اپنی رہائش گاہ پر پہنچ کر میںنے پرائم منسٹر ہاؤس فون کیا تو مجھے بتایا گیا کہ’’صبح آٹھ بجے پاسپورٹ لے کر پی ایم ہاؤس کے پروٹوکول سیکشن میں پہنچ جائیں‘‘۔ میں وقت سے کچھ پہلے ہی پی ایم ہاؤس پہنچ گیا، پروٹوکول افسرغلام عباس مجھے ساتھ والے کمرے میں لے گیااور الماری (جس میں درجنوں شیروانیاں لٹکی ہوئی تھیں) کھول کر کہنے لگا اس میں سے اپنے سائز کی شیروانی پہن لیں۔ میں نے اندازے سے ایک شیروانی اتاری جو مجھے فِٹ آگئی اور میں نے وہیںپہن لی پھر پوچھا اب اور بتائیں کیا کرنا ہے؟ پروٹوکول افسر نے کہا’’دس بجے تک ائرپورٹ پہنچ جائیںساڑھے دس بجے تک وزیرِ اعظم صاحب بھی پہنچ جائیں گے‘‘۔ ائیرپورٹ کے وی آئی پی لاؤنج میں پہنچا توچندوزرأ اور پی ایم اسٹاف کے کچھ اورلوگ بھی نظر آگئے۔ وہیں کسی نے بتایا کہ افغانستان کی آزادی کے لیے روس کے خلاف برسرِپیکار تمام افغان گروپوں کے درمیان اسلام آباد میں جومعاہدہ طے پایا ہے۔

اُسی معاہدۂ اسلام آباد کی توثیق مکہ مکرّمہ میں ہوگی۔ اسی لیے شاہ فہد نے پاکستان کے وزیرِ اعظم اور افغانستان کے صدر ، وزیرِ اعظم اور باقی لیڈروں کو سعودی عرب مدعو کیا ہے۔ مجھے اس تاریخی وفد میں شمولیّت پر مزیدخوشی ہوئی۔وقت ِمقرّرہ پر ہم سب لوگ جہاز میں اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے تھوڑی دیر بعد وزیرِ اعظم بھی افغان مہمانوں کے ساتھ پہنچ گئے ۔ میاں صاحب نے حسبِ معمول سب کے پاس جاکر مصافحہ کیا اور پھر جہاز کے پائلٹ کی آواز گونجی’’میں پی آئی اے کی جانب سے اس خصوصی پرواز پر اسلامی جمہوریہ افغانستان کے صدر جناب برہان الدین ربّانی ، پاکستان کے وزیرِ اعظم جناب محمد نواز شریف اور افغانستان کے وزیرِ اعظم جناب گلبدین حکمت یار کو خوش آمدید کہتا ہوں‘‘۔ ہم سعودی عرب کی فضاء میں داخل ہوئے تو کیپٹن نے بتایا کہ ہم پہلے مدینہ منوّرہ کے ہوائی اڈے پر اتریں گے۔

ہوائی اڈے سے سیدھا ہم مسجدِ نبویؐ پہنچے اور وہیں روزہ افطار کیا اور مغرب کی نماز ادا کی اور روضہء رسولؐ پر درود وسلام کے بعد ہمیں گورنرمدینہ کے شاہی مہمان خانے میں لے جایا گیا۔ دوسرے روز ہم جدّہ پہنچے ایک رات وہاں قیام کرنے کے بعد ہم نے ہدایات کے مطابق احرام باندھ لیے اور لگژری کوچز کے ذریعے مکّہ کے لیے روانہ ہوئے۔ مکّہ معظمہ میں ہمیں حرم سے متّصل سولہ منزلہ شاہی محل (دارالضیافہ) میں ٹھہرایا گیا ، ڈائننگ ہال کا بوفے ٹیبل واقعی شاہانہ تھا ان گنت اقسام کے کھانے اور مشروبات سجے تھے۔ بہت سے دوستوں کے لیے کھانے اور پینے کے لیے پسندکا انتخاب کرنا مشکل تھا۔ایک فلور پر نماز کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ مگر مسجد الحرام کے ہمسائے میں علیحدہ مسجد کا تصوّر مجھے بڑا نامناسب اور ناگوار محسوس ہوا۔

دوسرے روز دس بجے کے قریب جب میں وفد کے چند لوگوں کے ساتھ طواف کرنے میں مصروف تھا تو ایک دم ہلچل سی محسوس ہوئی، سعودی پولیس افسر بڑی تعداد میں خانہ کعبہ کی جانب آتے ہوئے نظر آنے لگے۔ پھر دیکھا کہ حرم کا اسٹاف رسّوںکی مدد سے طواف کرنے والوں کو پیچھے ہٹا رہا ہے، یہ کیا ماجراہے؟لوگوں کو پیچھے کیوں ہٹایا جارہاہے؟ ایک ساتھی نے کہا ’’وہ دیکھیں پرائم منسٹر صاحب آرہے ہیںان کے ساتھ افغانستان کے صدر اور وزیرِ اعظم بھی ہیں‘‘۔ انھوں نے طواف کے سات چکّر مکمل کیے تو پھر ہلچل مچی۔ عام زائرین کو مزید پیچھے دھکیل دیا گیا۔

اب کیا دیکھتے ہیں کہ سیڑھی لائی جارہی ہے۔ سیڑھی خانہ کعبہ کے دروازے کے ساتھ لگادی گئی۔ خانہ کعبہ کے قریب اب صرف سعودی پولیس افسرتھے یا پاکستانی وفد کے ارکان۔ ان کے علاوہ دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگوں کو بہت پیچھے دھکیل دیا گیا تھا۔ وہیں پتہ چلا کہ وفد کے ارکان کو یہ خاص ’’اعزاز‘‘ بخشا گیا ہے کہ ان کے لیے خانہ کعبہ کا دروازہ کھولا جارہا ہے اورارکان چار چار کے گروپوں میں اندر جاکر نوافل ادا کریں گے۔ سب سے پہلے وزیرِ اعظم نوازشریف اور ان کے ساتھ افغانستان کے صدر برہان الدین ربانی اور وزیرِ اعظم گلبدین حکمت یار خانہ کعبہ کے اندر گئے،  پھر وفد کے دوسرے ارکان جاتے رہے، عام زائرین یہ منظربڑی حسرت سے دیکھ رہے تھے۔

مجھے یہ سب کچھ براسا لگنے لگا۔ یا الٰہی تیرے گھر میں بھی VIPکا تصوّر؟ ۔ تیرے گھر میںبھی عام اور خواص کا فرق کیوں ہے؟ خانہ کعبہ میں بھی یہ امتیازات برتے جائیں گے تو پھر فرق کہاںختم ہوگا؟ یہاں تو ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، ایک طرف وہ لوگ ہیں جو بے پناہ شوق اور جذبے سے آئے ہیں، ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو اپنے مال مویشی اور زیور تک بیچ کر اﷲکے گھر کی زیارت کے لیے پہنچے ہوںگے۔ ان کے ساتھ یہ سلوک کہ انھیں دور دھکیل دیا گیا ہے اور دوسری طرف سرکاری وفد کے ارکا ن ہیںجو ایک پیسہ خرچ کیے بغیر سرکاری خرچے پر یہاں آئے ہیں۔ رسّے کے اُس طرف والے جذبوں سے سرشار ہیںاوراِس طرف والے ’’سرکاری دورے‘‘ پر آئے ہوئے ہیں۔

اے کائناتوں کے خالق اور مالک!  تیرے گھر میں بھی یہ امتیاز روا رکھّا جائیگا تو برابری کہا ںہوگی؟۔ یا الٰہی تیرا دربار ہی تو ایسی جگہ ہے جہاں امیر اور حقیر، بادشاہ اور فقیر سب برابر ایک ہی صف میں ہونے چاہئیں مگر یہ کیا ہورہا ہے؟۔ اس منظر نے میری طبیعت کو مکّدر کردیا۔ چند لمحوں کے لیے عمرے کاسارا جذبہ اور خوشیاں جاتی رہیںاور ذہن میں صرف یہی خیال آنے لگاکہ کاش ایسا نہ ہوتا ،کاش اﷲ کے گھر میں عام و خاص کا فرق روا نہ رکھّا جاتا! اُس وقت ایک عجیب سی خواہش نے جنم لیا کہ کاش ایسا ہوکہ خالقِ کائنات اپنے گھر میں روا رکھے جانے والے اس فرق اور امتیاز پر نا پسندیدگی Conveyکرنے کے لیے حضرت ِجبرائیل کو اِسی وقت بھیجیں۔ عظیم الشان جبرئیل ؑ آسمانوں سے زمین پر اتریں تو ان کی ہیبت سے ہر شخص پرکپکپی طاری ہوجائے۔

پھر وہ اعلان کریں کہ اﷲکے اس گھر میںبڑے عہدے رکھنے والوں کو نہیں بلندجذبے رکھنے والوں کو خانہ کعبہ کے اندر جانے کی اجازت ہوگی۔ اور پھرایسا ہوکہ ان کے ایک اشارے سے دنیادار اور صاحبانِ اختیار پیچھے دھکیل دیے جائیں اور سچے جذبوں اور عقیدتوں سے سرشار افراد سرکاری وفد کی جگہ VVIPبن جائیں۔

میں انھی خیالوں میں گم رہا اور خانہ کعبہ کے اندر جانے کا بھی خیال نہ رہا۔ اُدھر وفد کے تمام ارکان نفل ادا کرچکے تو سیڑھی اتر گئی۔ اچانک وزیرِ اعظم اسٹاف کے ایک افسرکی نظر مجھ پر پڑی۔ اس نے باآواز ِبلند مجھ سے پوچھا’’آپ اندر سے ہوآئے ہیں؟‘‘ میں خاموش رہا، اس نے سمجھا شاید رش کی وجہ سے میں نہیں جاسکا، وہ عربی زبان میں سیڑھی لے جانے والے اہلکار سے مخاطب ہوا اور سیڑھی دوبارہ لگانے کے لیے کہا ’’سیڑھی دوبارہ آگئی‘‘۔

اس نے مجھے بازو سے پکڑ کر سیڑھی پر چڑھادیااورمیں نے بھی خانہ کعبہ کے اندر جاکر دو نوافل ادا کرنے کا’’ اعزاز‘‘ حاصل کرلیا ۔ میں آج بھی سوچتا ہوں کہ خانہ کعبہ کے اندر نہ جاتا تو حسرت ہی رہتی لیکن اُس وقت میں نے بھی یہ نہ سوچا کہ اسی صحنِ حرم میں لاکھوں افراد مجھ سے زیادہ حقدار ہیں۔ میںنے اپنی جگہ ان میں سے کسی کو خانہ کعبہ کے اندرکیوں نہ بھیج دیا۔ مجھے بھی قربانی دینے کی توفیق نہ ہوئی اور میں نے بھی اپنا ذاتی مفاد ہی پیشِ نظر رکھا اس لیے کہ میں بھی ایک عام ساگناہگار انسان ہوں ۔

The post ایک سرکاری عمرے کی رُوداد appeared first on ایکسپریس اردو.

ذکر موسم وغیرہ کا

$
0
0

وادی سون کے پہاڑوں سے اترنے والی سردی جب ہڈیوں کے آر پار گزرنی شروع ہوئی تو میں نے اپنے گاؤں سے بھاگ کر لاہور کا قصد کیا جو اب میرا دوسرا گاؤں ہے لیکن افسوس کہ لاہور نے بھی اپنے اس بیٹے کی نگہداشت سے انکار کر دیا اور وہ سردی جو پہاڑی گاؤں میں تھی لاہور میں بھی میرے جسم سے چمٹ گئی اور اس سے قبل کہ وہ جسم کے بعد ہڈیوں کے آر پار بھی ہو جاتی،  میں لاہور کے گرم کمبلوں میں لپٹ گیا اور ہیٹر جل اٹھے، ان کی سرخ آگ مجھے تسلی دینے لگی کہ فکر نہ کرو سردی کب تک اور پھر تم ہوگے اور تمہارے شہری فیشنی کپڑے جن پر سردی خوش ہوتی ہے کہ اب یہ اس کا کچھ بگاڑ نہیںسکتی  اور سردی آرام کے ساتھ گرم جسموں سے لپٹ کر موسم سرما گزار لیتی ہے لیکن اس سال سردی غلط فہمی میں مبتلا رہی اور وہ سردی جو وادی سون کے پہاڑوں پر جنم لیتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ پہاڑوں سے نیچے میدانوں میں اتر آتی ہے، اس سال پہاڑوں سے جیسے ناراض ہو کر بے تکلفی سے پہاڑوں سے ایسی اترتی کہ دور دور تک پھیل گئی اور گرمی کو بہت دور پھینک دیا۔

اب شکست خوردہ گرمی سردی کو جھانک کر دیکھتی ہے اور سردی کا ایک تھپیڑا کھا کر واپس چلی جاتی ہے۔ ہمارے میدانی جمع پہاڑی علاقوں میں موسم کی یہ آمدورفت جاری رہتی ہے اور اسی میں ایک پورا موسم گزر جاتا ہے۔ ہم لوگ ہر موسم کے عادی ہوتے ہیں اور کسی بھی موسم کو گزار لیتے ہیں۔ نہ گزاریں تو موسم کا کیا جاتا ہے وہ ہمیں گزار لیتا ہے اور اس کی ایک مقرر رفتار ہے جس کے مطابق اسے اپنا سفر طے کرنا ہے موسم  انسان پسند کریں نہ کریں ان کا اتنا اختیار ہے کہ وہ موسم سے بچاؤ کے لیے اپنا انتظام کرلیں۔ سردی ہے تو گرم لباس پہن لیں اور آگ جلا لیں جسے سینک کر وہ اپنا وقت گزار لیں اور موسم کی سختی کو اپنے سے دور رکھیں۔ یہ انسان کے اختیار میں ہے لیکن اس کا اختیار صرف موسم کے دفاع تک محدود ہے موسم تو جو آنا ہے وہ آئے گا ہی۔ اس پر قابو پانا آپ کے اختیار میں ہے۔

ہم وادی سون کی سخت سردی کے عادی لاہور کی سردی کی پروا نہیں کرتے لیکن موسم بہر حال اپنا اثر دکھاتا ہے۔ اگر گرمیوں میں پسینے نکلتے ہیں تو سردیوں میں جسم سن ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے مگر انسان ہر موسم کا علاج رکھتا ہے۔ موسم کے ساتھ کھانا پینا بدل جاتا ہے لباس میں تبدیلی آ جاتی ہے بستر بدل جاتے ہیں اور ہر موسم کے مطابق گھر کا ماحول بھی۔ البتہ موسم سے پیدا ہونے والی مجبوریاں نہیں بدلتیں۔ ہمارے گاؤں کا ایک فوجی سپاہی کوئٹہ کی یخ بستہ فضا کے علاقے میں تبدیل ہو گیا ہر فوجی سپاہی کی طرح اسے بھی گھر کی یاد آتی تھی اور بہت آتی تھی اس نے تڑپ کر گھر والوں کو خط لکھا کہ یہاں سردی کا یہ حال ہے کہ گھر یاد آتا ہے تو آنسو نکل آتے ہیں مگر یہ آنسو آنکھوں سے گر کر گالوں پر جم جاتے ہیں کیونکہ سرد ہوا نہیں بہنے نہیں دیتی۔

جہاں ان کا ٹھنڈی یخ بستہ ہوا سے سامنا ہوتا ہے وہیں جم جاتے ہیں۔ اور گھر کی یاد بھی ان کے ساتھ چپ ہو جاتی ہے۔ بس اب تو چھٹی کا انتظار ہے جو دو ماہ بعد ملے گی اور ایک مہینے کی یہ چھٹی میں آپ سب کے ساتھ گزاروں گا اور اب یاد کر کے مجھے بتا دیں کہ آپ کے لیے  کیا کیا لے کر آنا ہے کیونکہ میرے پاس خریداری کا وقت بہت ہے اور تنخواہ بھی ملنے والی ہے۔ آپ فکر نہ کریں۔ ہاں اتنا بتا دیں کہ میری گدھی (کھوتی) کا کیا حال ہے جو گزشتہ دنوں بیمار رہی اور اس کے بچے کا کیا حال ہے جس نے ذرا بڑے ہو کر میرا بوجھ اٹھانا ہے۔

یہ کسی ایک فوجی کے خط کا اقتباس ہے جو اپنے گاؤں سے کہیں دور نوکری کر رہا ہے اور آنے والی چھٹی کے انتظار میں وقت کاٹ رہا ہے۔ گھر خط لکھتا ہے اور اپنی گدھی تک کو یاد کرتا ہے۔ یہ اس کی اس کے گھر سے وابستگی کی علامت ہے اور اسی گھر میں واپسی کو یاد کرتا ہوا وہ نوکری کے دن کاٹ رہا ہے اور فوجی زندگی کی سختیاں سہہ رہا ہے جو اس کی نوکری نے اس پر مسلط کر دی ہیں اور جن سے چھٹکارا بہت مشکل ہے فوج کی نوکری سے الگ ہونا ایک بڑا کٹھن مرحلہ ہے کیونکہ ایسے سخت قوانین ہیں کہ فوج سے علیحدہ ہونا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے باقاعدہ ایک بورڈ بنتا ہے جس کا اتفاق رائے ضروری ہوتا ہے۔ بہر کیف فوج میں نوکری حاصل کرنا اور پھر اس سے الگ ہونا دونوں زندگی کے بڑے لمحے ہیں اور شاذونادر ہی کسی کو یہ دونوں نصیب ہوتے ہیں۔ موسم اور نوکری کا ذکر ختم۔

The post ذکر موسم وغیرہ کا appeared first on ایکسپریس اردو.


لارڈ میکالے کے ساتھ سب متفق

$
0
0

پچھلے کالم میں لارڈ میکالے کے ہندوستان میں نظام تعلیم کے متعلق انگریزی زبان کے حق میں دیے گئے دلائل پر بات ہو رہی تھی وہ آگے لکھتے ہیں کہ’’دوسری مثال شاید اب بھی ہمارے نظروں کے سامنے ہے پچھلے 120سالوں میں ایک قوم جو بالکل اسی طرح وحشی تھی جس طرح ہمارے آباء و اجداد صلیبی جنگوں سے قبل تھے ’جہالت کے اندھیروں سے نکل کر مہذب قوموں میں شمار ہونے لگی ہے میری مراد روس سے ہے ’اب اس ملک میں بہت بڑا تعلیم یافتہ طبقہ موجود ہے جو کسی بھی طرح پیرس اور لندن کے دانشور حلقوں سے کم ترنہیں یہ امید رکھنے کی وجوہات موجود ہیں کہ روس کی یہ وسیع سلطنت جو شاید ہمارے آباء و اجداد کے زمانے میں پنجاب سے پیچھے تھا اب ہمارے پوتوں پوتیوں کے زمانے میں ترقی کی راہ پر برطانیہ اور فرانس کے مقابلے کا ہو گا ’آخر یہ تبدیلی کیسے آئی؟

انھوں نے اپنے قومی تعصب اور برتری کے احساس پر اصرار کیا اور نہ ہی انھوں نے ماسکو کے نوجوانوں کے ذہن پرانی عورتوںیا سینٹ نکولس کی جھوٹی عظمت کی کہانیوں جن پر ان کے ظالم والدین کا عقیدہ تھا سے بھرے انھوں نے اپنے جوانوں پر اس بارے میں بھی زور نہیں دیا کہ وہ اس بڑے سوال کے بارے میں مطالعہ کریں کہ دنیا 13ستمبر کو پیدا ہوئی تھی کہ نہیں؟ان سب کی بجائے انھوں نے اپنے نوجوانوں کو وہ زبانیں پڑھائیں جن میں علوم کے خزانے چھپے ہوئے تھے’اس طرح ان تمام علوم تک ان نوجونوں کی رسائی ہو گئی مغربی یورپ کی زبانیں سیکھنے کے بعد ہی روس تہذیب یا فتہ ہو گیا مجھے یقین ہے کہ جس طرح مغربی علوم نے وحشی تاتاریوں کو مہذب بنایا اسی طرح وہ ہندوستانیوں کو بھی تہذیب اور علوم کے خزانوں سے مالامال کر نے میں مددگار ثابت ہوں گی۔

ہم جو بھی محسوس کریں لیکن اس رائے میں ایک وزن ہے اور یہ دلائل حقائق کے منافی نہیں ہیں اصل میں میکالے کا فیصلہ اس دور کے تعلیم یافتہ ہندوستانیوں کی رائے کا عکاس تھا ایک ہندوستانی علم دوست شخصیت اور بنگالی سماجی کارکن راجہ رام موہن رائے نے میکالے کے مقالے(Minutes) لکھنے سے دس برس قبل ہندوستان کے گورنر جنرل کو ایک اپیل بھیجی تھی کہ برطانوی حکومت جو رقم ہندوستان میں تعلیم کی ترویج کے لیے دے رہی ہے اس کو سنسکرت اور عربی پر خرچ کرنے کی بجائے اس رقم سے ہندوستانیوں کو مغربی سائنس اور دیگر علوم پڑھائے جائیں اصل میں 19ویں صدی کے یہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ان مستشرق افسران کی پالیسی پر تنقید کی جو سنسکرت عربی اور فارسی زبان کی ترویج چاہتے تھے۔

1822ء میں انھوں نے ’’انگلو ہندو اسکول کی بنیاد رکھی جہاں پر جزوی تعلیم انگریزی میں دی جاتی تھی رائے نے گورنر جنرل لارڈ امرسٹ پر زور دیا کہ وہ انگریزی تعلیم کو وسعت دیں۔میکالے کے ’’تعلیم کے بارے میں مقالے (Minutes on Education)کے بارے میں کرسٹوفر بائیلی کے خیالات کا جائزہ لینا مناسب ہوگا ان کا خیال ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ میکالے کے تعلیم کے بارے میں منٹس سنسکرت فارسی یا کسی اور مقامی زبان کو انگریزی کے مقابلے میں کم تر گرداننے کی کو شش کی ہے ان منٹس نے برصغیر میں انگریزی زبان کی توسیع کے بارے میں بھی کوئی خاص حکمت عملی نہیں دکھائی انگریزی کا استعمال میکالے کے کلکتہ آنے سے قبل ہی برصغیر میں شروع ہو چکا تھا بنگال میں تو کمرشل ایجنٹ 1835ء سے بھی 50 سال قبل سے انگریزی زبان استعمال کرتے تھے۔

اپنے مقالے میں پونم اوپدھائیا (Ponam Upadhyaya) نے زور دیا ہے کہ میکالے نے اصل میں رام موہن رائے کے ان خیالات کو مناسب الفاظ میں پیش کیا ہے جن میں انھوں نے یورپ کے علو م کی ترویج کی بات کی تھی یہ رائے انھوں نے ’’۔Remarks on settlement in Indian by Europeans   میں دی تھی جو مشرقی ہندوستان کے بارے میں پارلیمانی سیلیکٹ کمیٹی کی 1832ء کی رپورٹ کے ساتھ منسلک تھی ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’میکالے کے تعلیم کے بارے میں منٹس اصل میں رام موہن رائے کے اس خط کی میکالے کے اپنے مخصوص انداز میں تشریح ہے جو انھوں نے گورنر جنرل کو انگریزی زبان کی ترویج اور طریقہ تعلیم قرار دینے کے بارے میں لکھی تھی۔

میکالے نے اصل میں اس بات پر زور دیا ہے کہ مشرقی زبانوں کی ترویج ضرور ہونی چائیے ان کا زور اس بات پر تھا کہ ’’دہلی مدرسے میں عربی اور ’’بنارس کالج میں سنسکرت لازمی طور پر پڑھائی جانی چائیے ان کا خیال تھا کہ انگریزی کے آنے سے مشرقی زبانوں میں بھی قوت آجائے گی وہ اس بات میں یقین رکھتے تھے کہ ہندوستان میں زیادہ تر تعلیم مشرقی زبانوں میں ہی دی جائے گی ان سب کے کہنے کے باوجود کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ میکالے ماڈرن ازم یا جدت پسندی کے بہت بڑے وکیل تھے ان کے خیال میں ماڈرن ازم صرف انگریزی تعلیم سے نہیں آئے گا بلکہ اس کے ساتھ ضروری ہے کہ انگریزی آزاد خیالی اور انصاف کا نظام نافذ کیا جائے۔

میکالے نے ہندوستان کے بعض افراد کے لیے ایک مستقل ورثہ چھوڑا ہے ان لوگوں میں بنگال کے بھولاناتھ چندرا گھوش اور آر سی دت’یوپی کے سرسید احمد خان دادا بھائی نورو جی مغربی ہندوستان کے مشہور لبرل اور میکالے کے سب سے بڑے ترجمان جی ڈبلیو لیٹنر (G.W.Leitner) شامل تھے ان تمام نے جدیدیت کی حمایت کی لیکن کسی نے بھی قدیم طرز تعلیم کی قیمت پر نئی طرز کی حمایت نہیں کی ان تمام لوگوں نے قدیم طرز تعلیم اور جدید طرز کے درمیان ایک توازن کے قیام پر زور دیا یہ بات بہت اہم ہے کہ جیسا کہ باربرا میٹکاف (Barbara Metcalf) نے اپنی کتاب ”Islamic Revival in British India:Deoband1867-1900”  میں لکھا ہے کہ جدیدیت کی تحریک اتنی تیز تھی کہ دارالعلوم دیو بند اور دارالعلوم ندوۃ علماء جیسے مذہبی ادارے بھی اس سے صرف نظر نہ کر سکے۔

اوپر دیے گئے حقائق کی روشنی میں ضرورت اس امر کی ہے کہ لارڈمیکالے کا دوبارہ جائزہ لیا جائے آج بھی ہمارے بعض دانشور اور مذہبی علماء جب بھی تعلیمی یا معاشی نظام کی بات آتی ہے تو لارڈ میکالے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں وہ اپنی تمام نا اہلیوں کا ملبہ میکالے کے سر پر ڈالنے کی کو شش کرتے ہیں ورنہ انگریز کو گئے 70سال ہوگئے ہیں ہم نے نیا نظام تعلیم کیا بنانا تھا پرانے نظام کا بھی حلیہ بگاڑ دیا ۔سرکاری اسکولوںکا حال تو نہ پوچھئے نہ سلیبس کا پتہ نہ انتظامی اور تعلیمی استعدادلیکن یہ جو درجنوں قسم کا تعلیمی نظام یہاں رائج ہے فرقہ وارانہ اور تجارتی بنیادوں پر قائم مدرسوں نے اتحاد امت کو پارہ پارہ کردیا ہے ہر مدرسے میں اپنے فرقے کے علاوہ دوسروں کے کافر ہونے کا درس دیا جاتا ہے قسم قسم کے انگریزی اسکولوں میں نہ جانے کہاں کہاں کا نصاب پڑھایا جاتا ہے اور پسماندہ ٹاٹ اردو میڈیم اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں میں طبقاتی نفرت پروان چڑھائی جا رہی ہے۔

ایک قوم اور ملت کے تصور کو بڑھانے کی بجائے پاکستان کے عوام کو اتنے خانوں میں تقسیم کردیا گیا ہے کہ اب ان کا اتحاد اور یک جہتی مشکل سے قائم ہوگی کیا یہ تباہی اور بربادی میکالے نے ہمارے اوپر مسلط کی ہے یا یہ ہماری اپنی کوتائیوں اورخود غرضیوں کا نتیجہ ہے۔بعض دانشوروں کی یہ رائے اہمیت رکھتی ہے کہ ہر بچے کو ایف اے ایف ایس سی تک یکساں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹری انجینئرنگ دینی تعلیم کمپیوٹر یا کسی اور خصوصی شعبے میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کی آزادی ہونی چائیے ایف ایس سی یا ایف کرنے کے بعد کم از کم اس کا شعور تو کچھ پختہ ہوچکا ہوگا۔

جماعت اسلامی خصوصی طور پر میکالے کو تنقید کا نشانہ بناتی رہتی ہے ان کے تمام اسکول انگریزی میڈیم ہیں اب تو انھوں نے شباب ملی کو(JI Youth) جماعت اسلامی یوتھ میں تبدیل کردیا اسی طرح پشتو زبان کے علمبردار اے این پی نے پختون زلمے وغیرہ چھوڑ کر (National Youth Organisation)نام رکھ دیا۔ آج خیبر پختونخوا کی حکومت کا پروگرام ہے کہ انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے جب کہ جماعت اسلامی اس حکومت کا حصہ ہے ان حالات میں میرا سوال یہ ہے کہ میکالے نے کیا غلط کیا تھا؟ انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کی تجویز انھوں نے 1835ء میں دی تھی اور وہی بات آج ہم2017ء میںبھی کر رہے ہیں ان کی دور اندیشی کو خراج تحسین پیش کرنا چائیے۔

The post لارڈ میکالے کے ساتھ سب متفق appeared first on ایکسپریس اردو.

تیسری آنکھ

$
0
0

زندگی ہر لمحہ بدلتی ہے۔ لہٰذا رویے اور لہجے بھی بدل جاتے ہیں۔ سوچ بھی ایک سی نہیں رہتی۔ مگر وقت کے ساتھ جب احساس بدل جاتا ہے تو زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ کیونکہ جب جدت کی بات کی جاتی ہے تو پھر زندگی فطری پن سے دور نکل جاتی ہے۔ پھر رویے اور لہجے مشینی ہوجاتے ہیں۔ بلکہ قدرے تلخ ہوجاتے ہیں۔ بے حسی کے سرور میں ڈوبے ہوئے۔

زندگی کتنی ہی کیوں نہ بدل جائے اور جدت کے حسین رنگ اس پر حاوی ہونے لگیں۔ مگر ایک مستقل اپنے ہونے کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ اور وہ ہے مٹھاس کی کمی۔ لہجوں کی شیرینی کمیاب ہے۔ بس ایک روکھی پھیکی زندگی ہے، جو اپنے محور سے ہٹ کر ایک ہی سمت چلی جا رہی ہے۔ ایک مٹھاس منافقت بھری ہے۔ جس کی وجہ سے کوئی کام نہیں رکتا۔ جب کہ خوشامدی مٹھاس کے سہارے قسمت کے بند دروازے خودبخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔ یہ مٹھاس سکہ رائج الوقت ہے۔

ٹھنڈے رویے اور میٹھے لہجے معاشرتی زندگی کا رخ بدل دیتے ہیں۔ یہ رویے اور شہد آگیں لہجے اب ملک سے باہر کی دنیا میں ملتے ہیں اور ان لہجوں و رویوں کے توازن میں معاشرتی زندگی ترتیب سے چلتی دکھائی دیتی ہے۔ من کے زہر سے انسان کو باقاعدہ لڑنا پڑتا ہے۔ کیونکہ یہ زہر اپنے جسم پر پہلے وار کرتا ہے، اس کے بعد کسی دوسرے کو زخمی کرتا ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ اندر کی تلخیوں سے لڑنے کے لیے ہم نے کھانوں میں مٹھاس کی مقدار بڑھا دی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مردوں کو چینی 150 کیلوریز (37.5گرام) دن میں لینی چاہیے جوکہ نو چمچ کھانے کے چمچ کے برابر ہیں اور خواتین کو سو کیلوریز (25گرام) تقریباً چھ چمچ مٹھاس استعمال کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ ڈبل روٹی، چاول، فروٹ ودیگر غذا میں الگ چینی شامل ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں آئسکریم، سافٹ ڈرنکس اور جوسز روزمرہ کے استعمال میں آتے ہیں۔ کیک، بسکٹ اور مٹھائی کے بغیر یہ زندگی ادھوری لگتی ہے۔

میٹھا زیادہ کھانے سے ڈپریشن اور شیزوفرینیا جیسی ذہنی بیماری لاحق ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں اور مزاج سمجھ اور معیار زندگی پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ چینی کا زیادہ استعمال روحانی خلا پیدا کردیتا ہے۔ یہ pineal glands کی کارکردگی پر اثرانداز ہوتی ہے۔ جنھیں روحانیت کی مسند کہا جاتا ہے۔ یہ گلینڈس جنھیں تیسری آنکھ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دماغ کے وسط میں موجود Endocrine Gland (درون افرازی غدود) کہلاتے ہیں۔ یہ گلینڈ عبادت، مراقبہ یوگا، یا تصوراتی عمل کے وقت متحرک ہوتا ہے۔ طبعی طور پر سونے اور جاگنے کے طریقہ کار کو ضابطے میں رکھتا ہے۔ یہ ہارمونز لیول سے لے کر دباؤ اور جسمانی کارکردگی کا تعین کرتاہے۔

Pineal Gland جس طرح سے روشنی اور اندھیرے کے بائیو الیکٹرک سگنلز پر ردعمل دکھاتا ہے، بالکل اسی طرح مراقبے کے دوران اس بائیو الیکٹریکل توانائی کو متحرک کردیتا ہے۔ قدیم تہذیبیں جسم کے اس فعال عضوے کو ادراک، وجدان اور روحانی کیفیات کا مرکز سمجھا کرتی تھیں۔

آج کل ہم اکثر بچوں یا بڑوں کے ناپسندیدہ رویوں کا ذکر کرتے ہیں۔ جس میں بے حسی، لاتعلقی، بات نہ سمجھنا، مزاج کے اتار چڑھاؤ وغیرہ شامل ہیں تو ان تمام تر مسائل کی وجہ ہمارے جسم میں مٹھاس کی زیادہ مقدار کا ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جسم میں موجود یہ شیرینی، لہجوں کو تلخ اور پریشان کن بنا دیتی ہے۔

ذہن کی یکسانیت، تشویش اور زندگی سے بے زاری کو فطری خوشی و اطمینان میں بدلنے کے لیے تیسری آنکھ کو کھولنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جسے third eye chakra بھی کہا جاتا ہے۔ جس کے لیے سب سے پہلے دماغ میں خاموشی کا بیج بونا پڑتا ہے۔ ذہن خاموش اور پرسکون ہے تو یہ ذہنی ارتکاز فطرت و کائنات کی توانائی کو اپنے اندر جذب کرتا رہتا ہے۔ سوچ، تصور و خیال کے زاویے بدل جاتے ہیں۔ بلکہ ان میں وسعت و گہرائی آجاتی ہے۔ ذہن پرسکون ہے، تو تصور کی کھڑکی ان دیکھے مناظر کی طرف کھل جاتی ہے۔ ہماری زندگی بیک وقت پس منظر و پیش منظر کا امتزاج ہے۔ ایک حقیقت سامنے ہے اور دوسری پوشیدہ ہے۔

ہم ظاہری طور پر نظر آنے والے رویوں اور واقعات کا مشاہدہ کرسکتے ہیں مگر ان کے پس پردہ چھپے محرکات تک رسائی حاصل کرنا ممکن نہیں۔ لہٰذا عمل اور ردعمل کے درمیان کا فاصلہ عبور نہیں کر پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری زندگی عمل کی طاقت سے بے بہرہ اور ردعمل کے نتائج سے بے خبر گزرتی ہے۔ زمینی حقائق کے مطابق جب ہم زمین میں بیج بوتے ہیں تو جلد ہی پودا پنپنے لگتا ہے مگر جب ذہن میں منفی خیال کا بیج بوتے ہیں (چاہے اپنے ذہن میں یا کسی اور کے) تو اس کے منفی اثرات اور تباہ کن نتائج سے بے خبر رہتے ہیں۔ برا نتیجہ سب سے پہلے بیج بونے والا بھگتتا ہے۔ یہ نفرت یا ذہنی فشار بھی جدید دنیا کے اشتہاری رویوں کی ضرورت بن چکے ہیں۔

انسان بیک وقت خیال کی مختلف سمتوں کی جانب سفر کرتا ہے۔

ایک ہی وقت میں سوچ کی مختلف سمتیں خیال کی مرکزیت سے دور کردیتی ہیں۔

باطن کی تیسری آنکھ کی فعالیت اس وقت ممکن ہے جب ہم فطری ماحول و فطری روشنی سے رابطہ بڑھا دیں گے۔ سورج و چاند کی روشنی، جسمانی مشق، گہری سانسوں کی مشق و تعمیری مشغلے ذہن کے انتشار سے باہر نکال سکتے ہیں۔ ہم نے جدت کے نام پر جس شور سے دوستی کرلی ہے اسے ترک کرنے میں ہی بہتری ہے۔ خاموشی، تنہائی، درخت، پھول، پودے، دریا اور تمام مظاہر فطرت جو ذہن کی مخفی صلاحیتوں کو جلا بخشتے ہیں۔ ان سے دوبارہ دوستی کرنی پڑے گی۔

ہم جدید غذا سے منہ نہیں موڑ سکتے۔ فاسٹ فوڈ اور تمام تر میٹھی اشیا زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ لیکن ہم ان کا استعمال کم کرکے ذہن، جسم و روح کی کھوئی ہوئی توانائی دوبارہ بحال کرسکتے ہیں۔

The post تیسری آنکھ appeared first on ایکسپریس اردو.

کاروشی

$
0
0

جاپان، یہ اب سے 10 برس قبل کی بات ہے۔ مشی یونیشی گاکی، ایک دکھیاری ماں، جس کے نوجوان اکلوتے بیٹے نے کام کی زیادتی سے تنگ آ کر خودکشی کرلی۔ کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ لوگ بھوک، افلاس اور کام نہ ہونے کی بنا پر جان گنواتے ہیں۔ آج کے انسان کو کام کی زیادتی مارے دے رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’میں نے اپنا پیارا بیٹا کام کی زیادتی کی وجہ سے گنوا دیا۔‘‘ اس کے بیٹے ’’نویا‘‘ کے بلاگ پر اس نے لکھا تھا کہ ’’جاپان کے لوگ اتنا کام کیوں کرتے ہیں؟

میں جانتا ہوں کہ میری ڈپریشن کا سبب یقینی طور پر کام ہے۔ میں کسی کام کا نہیں رہ گیا، مجھے نہیں لگتا کہ میں کچھ کر رہا ہوں، میں خود کو صرف تھکا ماندہ، جھلایا ہوا اور بیزار محسوس کرتا ہوں۔ اپنے ان احساسات کو ادویات سے دبانے کی ناکام کوشش کرتا رہتا ہوں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دواؤں کا اثر بھی کم ہوتا جارہا ہے۔ میں بہت پریشان ہوں، سمجھ میں نہیں آتا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ … میں بے کار ہوں… میرے زندہ رہنے کی کوئی وجہ نہیں؟ لیکن مجھ میں مرنے کا بھی حوصلہ نہیں۔ میں بس غائب ہوجانا چاہتا ہوں۔ میں سوچتا ہوںکہ جب میں نجات کے کسی یقینی فیصلے پر پہنچوں گا تو وہ یقیناً’’موت‘‘ ہی ہوگا۔‘‘

جاپان، گزشتہ برس کی بات ہے۔ سیوٹوناکاہارا۔ یہ 32 برس کا ایک سسٹم انجینئر ہے۔ کام کی زیادتی کی بنا پر 8 برس سے ڈپریشن کا شکار ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’میں صبح 8:40 پر کام پر آتا ہوں اور تمام دن کام میں لگا رہتا ہوں۔ میری ڈیوٹی 3 بجے سہ پہر کو ختم ہوتی ہے۔ اس کے فوراً بعد میں 24 گھنٹے کھلے رہنے والے ایک ’’کنوینینس اسٹور‘‘ میں کام پر پہنچ جاتا ہوں۔ یہاں سے فارغ ہونے پر  میں جلدی جلدی ایک جگہ سے تیار کھانا لیتا ہوں، کھانا ختم کرنے کے لیے میرے پاس صرف 5 منٹ ہوتے ہیں۔

اب میں تیزی سے وہاں پہنچتا ہوں جہاں میں رہتا ہوں۔ کیونکہ مجھے نہانا ہے، اپنے کپڑے دھونے ہیں اور چند گھنٹے کی نیند لینی ہے، تا کہ  صبح 7 بجے اٹھ کر کام پر پہنچ سکوں۔ یہ تھی انجینئرنگ کے بعد میری زندگی۔ میں 2 برس تک خود کو اسی طرح گھسیٹا کیا، پھر بیمار پڑگیا، شدید ڈپریشن کا مریض۔ میری ذہنی حالت یہ ہو گئی کہ میں صبح کو بڑی مشکل سے بستر چھوڑ پاتا۔ میں یہ بتانے سے بھی قاصر تھا کہ یہ کون سا دن اور کون سا موسم ہے۔ میں نیچے دیکھتا ہوا خود کو کام پر گھسیٹتا رہتا تھا۔

واحد چیز جو مجھے نظر آتی وہ کمپنی کا دروازہ تھا۔ مجھے اپنے آس پاس کی کسی شے کا کوئی احساس نہیں ہوتا تھا۔ میرے لیے ہر چیز دھندلی تھی۔ کام پر مجھے صرف اپنا کمپیوٹر دکھائی دیتا تھا۔ انھیں جب بھی مجھے کچھ کہنا ہوتا تو وہ میری کرسی کو زور سے لات مار کر مجھے متوجہ کرتے اور اپنی بات کہتے۔ میرے پاس 2 ہی راستے تھے یا تو میں خود کو ہلاک کر ڈالتا یا ان منحوس ملازمتوں کے چنگل سے آزادی اختیار کرتا۔ ہمیں بچپن سے یہ بتایا گیا تھا کہ ملازمت بہت ضروری ہے، یہ ہی ہماری زندگی ہے۔ لیکن یہ زندگی موت بانٹ رہی تھی، میں نے جینے کی راہ اپنائی۔‘‘

کہتے ہیں کام زندگی ہے لیکن جاپان میں کام کی وجہ سے موت نے وبا کی صورت اختیار کر لی ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق وہاں کام کی زیادتی سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2000 سالانہ سے بھی زائد ہے۔ جاپانی اصطلاحات وضع کرنے اور نام رکھنے کے بھی ماہر ہیں۔ کام کی وجہ سے ہلاکتوں کو وہاں ’’کاروشی‘‘ کہا جاتا ہے اور کام کی وجہ سے خودکشی کرنے کے رجحان کو ’’کارو جیتاتسو‘‘۔

مزدوروں کی عالمی انجمن ’’آئی ایل او‘‘ نے ’’کاروشی‘‘ پر ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ میں کاروشی کے 4 کیس ذکر کیے گئے ہیں۔ 1۔ مسٹر اے، آپ اسنیکس بنانے والی ایک بڑی کمپنی کے ملازم تھے۔ یہاں یہ 110 گھنٹے فی ہفتہ (نہ کہ فی مہینہ) کام کیا کرتے تھے۔ یہ حملہ قلب کی بنا پر صرف 34 برس کی عمر میں واصلِ ملازمت ہوئے۔ آپ کی اندوہناک موت کو ’’لیبر اسٹنڈرڈز آفس‘‘ نے کام کے باعث ہلاکت قرار دیا۔ 2۔ مسٹر بی، آپ ایک بس ڈرائیور تھے۔

آپ نے سال بھر میں کمپنی کے منافع میں اضافے کے لیے 3000 گھنٹے کام کیا۔ 15 برس تک انھوں نے ایک چھٹی بھی نہ کی۔ 37 برس کی عمر میںفالج ہوگیا۔ اداروں نے اسے بھی کام کی زیادتی کا نتیجہ قرار دیا۔ 3۔ مسٹر سی، آپ ایک بڑی پرنٹنگ کمپنی میں ٹوکیو میں ملازم تھے۔ آپ نے رات کی شفٹیں ملا کر 4320 گھنٹے سالانہ کام کیا۔مسلسل ان تھک۔ 58 برس میں فالج کا حملہ ہوا اور انتقال ہوگیا۔ 4۔ مس ڈی، 22 برس کی نوجوان نرس، 34 گھنٹے کی مسلسل ڈیوٹی کے بعد حملہ قلب ہوا اور مرگئی۔ وہ ہر ماہ ایسی 5 ڈیوٹیاں انجام دیا کرتی تھی۔

جاپانی حکومت کہتی ہے کہ وہاں کی ہر 5 میں سے 1 کمپنی کے کارکنان خطرناک حد تک طویل گھنٹوں تک کام کرتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ملازمین کا یہ استحصال صرف جاپان تک محدود نہیں۔ جمہوریت کے سائے میں پلنے اور پھلنے پھولنے والی تمام ہی کمپنیوں کا مقصد ’’میکسامائز دی پروفٹ‘‘ ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول ہی اصل اخلاقیات ہے۔ وہ اس کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو اپنے لیے جائز سمجھتی ہیں۔ کم سے کم ملازمین سے زیادہ سے زیادہ کام لینا ہی ایچ آر کا اصل کام ہے۔ اسی سے کمپنی کا منافع بڑھے گا۔ اب اگر لوگ مرتے ہیں تو مرا کریں۔ مارکیٹ سے اور ورکر مل جائیں گے۔ آج ساری دنیا میں یہ ہی ہو رہا ہے۔

او ای سی ڈی (آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ) کے مطابق دنیا بھر میں فی برس سب سے زیادہ کام میکسیکو کے باشندے کرتے ہیں، یعنی 2246 گھنٹے۔ اس کے بعد کوسٹاریکا کا نمبر آتا ہے2230 گھنٹے۔ پھر جاپان 1719 گھنٹے ، ناروے 1424، نیدرلینڈ اور جرمنی 1371 گھنٹے کے حساب سے کام کیا جاتا ہے۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ کام کی زیادتی سے ہلاکتوں اور خودکشیوں کی رپورٹیں چند دہائیوں سے دنیا کے کئی گوشوں سے مسلسل آرہی ہیں۔ چین میں ایسی اموات کو ’’گولوسی‘‘ اور جنوبی کوریا میں ایسی اموات کو ’’گواروسا‘‘ کہا جاتا ہے۔

جاپان گزشتہ برس اس وقت خبروں میں آیا جب وہاں کی سب سے بڑی اشتہاری ایجنسی ’’دینسو‘‘ میں کام کرنے والی 24 برس کی ٹوکیو یونیورسٹی کی گریجویٹ ملازمہ ’’ماتسوری تکا ہاشی‘‘ نے کرسمس کے دن ملازمت سے تنگ آکر خودکشی کرلی۔ ماتسوری تکا ہاشی کی مدت ملازمت 9 ماہ سے زائد نہ تھی۔ اس دوران اس نے مسلسل اور بے تکان بغیر کسی چھٹی کے کام کیا۔ 105 گھنٹے فی ہفتہ یا شاید اس سے بھی کچھ زیادہ۔ اس نے مرنے سے قبل اپنی ماں کے نام ایک نوٹ چھوڑا جس میں اس نے لکھا تھا کہ ’’زندگی اتنی مشکل کیوں ہے؟‘‘ وہ کام کی زیادتی کے حوالے سے مسلسل اپنی ماں کو شکایتی ای میلز کرتی رہی لیکن بیٹی کی کوئی بھی پکار ماں کی ممتا کو جھنجھوڑ نہ سکی۔ شاید کارپوریٹ کلچر کی پروردہ ماؤں کی ممتا بھی سکون کی جھنکار اور تنخواہوں کے ’’ ڈیجٹس‘‘ میں کہیں گم ہوچکی ہے۔

یہ حالت زار تو ترقی یافتہ ممالک کی ہے، اسی پر قیاس کرلیا جائے ارضِ پاک کی ملازمین کو۔ ان پر تو جو کچھ نہ گزر جائے وہ کم ہے۔ 15 گھنٹے روازنہ کام کرنا اور پھر سفری صعوبتیں برداشت کرکے گھر پہنچنا، یہیں کا خاصا ہے۔

ظلم و استحصال اگرچہ ظالم کیا کرتے ہیں لیکن استحصال کو دوام اس لیے ملتا ہے کہ لوگ اس کے خوگر ہوجاتے ہیں۔ ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے۔

The post کاروشی appeared first on ایکسپریس اردو.

الوداع عبدالحفیظ لاکھو الوداع

$
0
0

ہم وکیلوں کی زندگیاں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ نہ کوئی ریٹائرمنٹ ہوتی ہے نہ کبھی سکھ سے گھر بیٹھنا نصیب ہوتا ہے۔جب تک آنکھوں میں بینائی ہو، گو کہ ہاتھوں میں جنبش نہ ہو، اس پیشے میں عمر کی کوئی قید نہیں۔دن مہینے سال دہائیاں گزر جاتی ہیں بار میں آتے جاتے سیڑھیاں چڑھتے اترتے لائبریری و کورٹ روم کے چکر کاٹتے کاٹتے۔ کسی قہوہ خانے کی مانند قدموں کی چاپ ہے، کالا کوٹ ٹائی کالے جوتے سب کا لباس ہے۔ وہ ذرا بھی بند ہوا نہیں تو پھر کسی ہاتھ کی ہلکی کی جنبش اسے کھول دیتی ہے۔اور پھر یوں ایک دم سے قہقہوں کی بارش سمیٹ لیتی ہے۔

اپنی آغوش میں، سگریٹ کا دھواں چائے کی پیالیوں کی گڑگڑاہٹ ہے، کوئی بغلگیر ہے تو کوئی خیالوں میں گم تو کوئی ہنسی میں ڈوبا ہوا ہے۔ یہ جو جیسے پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے، جانے نا جانے وکیل ہی نہ جانے عالم تو سارا جانے ہے کہ کل حفیظ پیرزادہ چلا گیا آج عبدالحفیظ لاکھو تو پھر کوئی اور ہو گا۔ وقت کی لڑیاں ہیں بس جس میں مقید ہے میرا ہونا اور نہ ہونا بھی پل دو پل کے وکیل پل دو پل کی ان کہانیاں۔

’’مگر عبدالحفیظ لاکھو بڑی مشکل ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا‘‘ کی مانند تھے واقعی ہزاروں سال نر گس اپنی بے نوری پر روتی ہو گی۔ یہ میری خوش نصیبی ٹھہری کہ میں نے ان کو بہت قریب سے دیکھا وہ میرے استاد محترم تھے۔ پورے پانچ سال ان کی شاگردی میں گزارے۔

کچھ دن پہلے انتقال کر گئے لگ بھگ نوے سال کی عمر پائی۔ یوں کہیے پرانے زمانے کے وکیل تھے وہ جس قبیل کے وکیل تھے وہ قبیلہ اب تاریخ ہوا۔ساٹھ سال سے بھی زیادہ کا عرصہ وکالت میں گزارا۔ سندھ ہائی کورٹ بار کے صدر بھی ہوئے تو سندھ کے ایڈوکیٹ جنرل بھی۔ یہ بینظیر کے پہلے دور کا واقعہ ہے جب ان کے شوہر زرداری صاحب نے ان کے کام میں مداخلت ڈالنے کی حرکت کی تو کیا ہوا؟ عبدالحفیظ لاکھو استعفیٰ دے کر بیٹھ گئے، بینظیر پر جب عتاب آیا تو یہ ان کے فعال وکیل تھے۔ایک دن عدالت میں بینظیر ساتھ ان کے اور لاکھو صاحب کورٹ سے مخاطب تھے۔

بینظیر صاحبہ بیچ میں حسب عادت جج صاحب سے خود رجوع کر بیٹھیں یہ بات لاکھو صاحب کو نا گوار گزری اور ایک دم پرزور انداز میں بولے، محترمہ یعنی اپنی موکل کو بھری عدالت میں کہہ بیٹھے ’’محترمہ میں ہوں نا آپ کا وکیل آپ کی صفائی میں بولنے کے لیے آپ پلیز بیچ میں نا بولیں‘‘۔ بھلا کون سا وکیل تھا جو بینظیر کا ہوتا ہو گا جو یہ کہنے کی جرأت کرتا؟ کوئی بھی نہیں!

جب ذوالفقار علی بھٹو کا لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ چل رہا تھا یہ ان کے بھی وکیل تھے اور سپریم کورٹ یا جب بھٹو پنڈی جیل میں تھے اس وقت بھی ان کے وکیل تھے ہر دوسرے دن ملاقات کے لیے وہ بھٹو سے جیل میں ملنے جاتے تھے۔ایک ملاقات میں بھٹو نے کہا ’’ذرا میری لٹکی ہوئی شلوار میں سے ناڑا نکالیے‘‘ لاکھو صاحب نے ناڑا نکالا اور بھٹو صاحب سے پوچھا کہ اب کیا کرنا ہے بھٹو صاحب نے کہا ’’اب اس کمرے کو اس ناڑے سے ناپ لیجیے لاکھو صاحب نے ناپ لی پھر پوچھا اب کیا کرنا ہے بھٹو صاحب نے کہا کہ’’یہ ناپ آپ بیگم صاحبہ کو (نصرت بھٹو) کو دیجیے‘‘ لاکھو صاحب سے رہا نہیں گیا پوچھ بیٹھے مگر کیوں‘‘؟

بھٹو صاحب نے کان میں لاکھو صاحب کو کہا ’’قذافی کے کمانڈو آئیں گے مجھے چھڑوانے کے لیے ان کو کمرے کا ناپ چاہیے‘‘ لاکھو صاحب، بھٹو صاحب کی اس غیر سنجیدہ بات سے نالاں ہو گئے اور وہ بھٹو کو کہنے کی بھی جرأت رکھتے تھے اور کہہ بھی دیا ’’ایسے بیکار سے خیالات میں اپنا وقت ضایع نہ کیجیے ایسا کچھ نہیں ہونے والا‘‘۔

ایک طرف عبدالحفیظ پیر زادہ تھے جو بھٹو کے رفیق بھی تھے اور دوسری طرف عبدالحفیظ لاکھو تھے جو بھٹو کے وکیل تھے۔ یہی وجہ تھی کے بے نظیر بھٹو عبدالحفیظ لاکھو کو بہت قابل احترام سمجھتی تھیں۔ وہ عبدالحفیظ پیر زادہ کی اس بات سے بھی بخوبی واقف تھی کہ جس رات بھٹو کو پھانسی ہوئی تھی اور جب یہ خبر اسی رات پیر زادہ صاحب کے کانوں میں پڑی تھی تو انھوں نے اس خبر پر گہری نیند سونے کو ترجیح دی۔

اب ابدی نیند میں ہیں،کوئی گلہ نہیں۔ عبدالحفیظ لاکھو نے اپنے موکل بھٹو کا کیس گاتے گاتے ’’تجھ کو معلوم نہیں کیوں عمر گنوا دی ہم نے‘‘ کی باقی ماندہ زندگی بتا دی۔ ضیاء آمریت کا دور تھا تو لاکھو صاحب ایم آر ڈی تحریک کے روح رواں تھے، پابند سلاسل بھی رہے زیر عتاب بھی رہے یوں کہیے پا بجولاں تھے اور سامنے بازار تھے اور دشمنوں کے ہاتھوں میں کنکریاں تھیں۔ یوں تو بڑے نام ہیں جو اس کورٹ سے وابستہ ہیں، اے ۔کے بروہی، شریف الدین پیرزادہ وغیرہ عین ممکن ہے مورخ لاکھو صاحب کو پیشے اور قابلیت کے اعتبار سے اتنا بڑا وکیل نا کہے لیکن وکیل ہونے کے ناطے جو اصول ہیں آداب ہیں جو ریتیں ہیں رسمیں ہیں یا جس شعور کی سطح پر لاکھو صاحب کھڑے تھے اور وہ جو قومی ذمے داریاں اسی حوالے سے آپ پر پڑتی تھیں یا جو جمہوریت اور آمریت کے بیچ میں گھمسان کی جنگ تھی یہ شخص تاریخ کا ساتھ نبھانے کے لیے اپنا کردار لیے صف آرا تھا اور یوں لاکھو صاحب کا نام ہمیشہ جسٹس دراب پٹیل اور فخرالدین جی ابراہیم کے ساتھ لیا جائے گا۔

مجھ بد نصیب کو پورے پانچ سال میں ایک دن بھی ایسا موقع نہیں ملا کہ ان سارے نازوں نیازوں کو چھیڑتا اور ان سے بہت کچھ پوچھتا۔ بس وہ میرے سینئر وکیل تھے اور میں ان کا جونیئر وکیل۔ حفظ مراتب کا لحاظ ہر دم پیش نظر، نہ میں ان سے پیشے کے علاوہ کچھ پوچھ سکا نہ وہ کچھ بتاتے۔ بہت کم گو تھے مخدوم خلیق الزماں جب مجھے ان کے پاس لے کے گئے اس خیال سے کہ وہ مجھے اپنی شاگردی میں لیں اور جب میرا تعارف کراتے میرے والد محترم کا نام ان کے کانوں میں پڑا تو اِک دم سے خلیق سائیں کو کہنے لگے ـ ’’کہ میں ان کو اپنی شاگردی میں تمہاری سفارش پر نہیں لے رہا بلکہ جس باپ کا یہ بیٹا ہے اس کو میں ناں نہیں کہہ سکتا‘‘ اور پھر پورے پانچ سالوں میں مجھ سے میرے ابّا کا ایک مرتبہ بھی ذکر نہ کیا فقط ایک دفعہ بار میں جب پہلی بار میں ان کے ساتھ داخل ہوا تو ایک کونے کی طرف مجھے لے جاتے ہوئے کہاکہ ’’تمہارے ابّا جب بار میں آتے تھے تو اس جگہ بیٹھا کرتے تھے‘‘ پھر لاکھو صاحب کی آنکھوں سے میرے لیے رحم ختم اور بے رحمی شروع جو کہ ایک شاگرد کو لوہے سے کندن بنانے کے لیے لازم تھی۔ مگر پھر بھی ان کی محبت ان کے ہر ایک قدم سے بول اٹھتی تھی۔

رکے تو چاند چلے تو ہواؤں جیسا تھا
وہ شخص دھوپ میں دیکھو تو چھاؤں جیسا تھا

آج صبح بار میں داخل ہونے کی جرأت کی تو میری آنکھیں اس طرف چل نکلیں جہاں لاکھو صاحب بیٹھا کرتے تھے کہ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ بھلا میں کافر کیسے اپنی آنکھوں بہتا نم روک سکتا تھا۔ مجھ کو یقین ہے پھر بھی جس طرح میں اپنے آنے والے وکیلوں کو یہ بتایا کروں گا کہ یہ خوبصورت انسان جس نے پاکستان کے عوام کے ہمراہ جمہوریت کے ساتھ انصاف و عدل کے لیے جو وکالت کی وہ ساٹھ سالوں سے اسی بار میں آیا کرتے تھے اور بار کے اس کونے میں بیٹھا کرتے تھے۔ خدا کرے لاکھو صاحب کی ٹریننگ سے میں بھی ایسا وکیل بن سکوں جیسا کہ وہ چاہتے تھے۔

’’اے سندھ تم کو الوداع
اے ہند تم کو الوداع

تم میں تھی سارت جگت
اے جند تم کو الوداع‘‘

(شیخ ایاز)

The post الوداع عبدالحفیظ لاکھو الوداع appeared first on ایکسپریس اردو.

تندی باد مخالف سے نہ گھبرا ’’سعد‘‘

$
0
0

لودھراں میں ٹرین حادثہ اور اس میں ننھے بچوں کی شہادت پر پورے ملک کی فضا سوگوار ہے۔ ہر آنکھ پر نم تھی۔کون ہے جو بچوں کی شہادت پر دکھی نہ ہو۔ لیکن اس دکھ اور افسوس کو سیاسی مقاصد کے حصول اور سیاسی نظریات کے فروغ کے لیے استعمال کرنا بھی اتنا ہی افسوسناک ہے جتنا یہ حادثہ افسوسناک ہے۔

اس حادثہ کی آڑ میں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی۔ جو لوگ لودھراں حادثہ کی آڑ میں خواجہ سعد رفیق سے استعفیٰ لینے کے لیے بے تاب ہیں وہ یہ حقیقت نظر انداز کر رہے ہیں کہ لودھراں حادثہ ٹرین ڈرائیور کی غفلت سے پیش آیا ہے اور ڈرائیور پولیس کی حراست میں ہے۔ ریلوے  انتظامیہ کے اپنے موقف کے مطابق ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ہزارہ ایکسپریس لودھراں سے روانہ ہوئی تو اس کے ڈرائیور نے پھاٹک سے ایک اعشاریہ دو کلومیٹر فاصلے پر وسل نہیں دی جو کہ ایس او پیز کے مطابق انتہائی ضروری تھی، یہ ایک کاشن تھا جو پھاٹک پر دیا جانا تھا تاکہ پھاٹک بند کر دیا جاتا اور اس کے ساتھ ہی خود کار طریقے سے سگنل ڈاون ہوجاتا۔

ہزارہ ایکسپریس کو سگنل ڈاون نہیں ملا اور یہاں اس کے ڈرائیور کو فوری طور پر گاڑی روک لینا چاہیے تھی مگر وہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق ناشتہ کرنے میں مصروف تھا، اس نے وسل بورڈ کے بعد سگنل کو بھی نظرانداز کیا اور گاڑی پٹری پر موجود موٹرسائیکل رکشے سے ٹکرا گئی اور معصوم بچوں کی قیمتی جانیں ضایع ہو گئیں۔سادہ بات یہ ہے کہ دھند زیادہ تھی۔ ڈرائیور نے ناشتہ کرنا شروع کر دیا اور ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کی گاڑی ڈرائیور چلا رہا ہو اور وہ اپنی غلطی سے گاڑی مار دے اور پولیس ڈارئیور کے بجائے آپ کو پکڑ لے حالانکہ آپ گاڑی میں بھی نہ ہوں۔

اس سے پہلے پاکستان ریلوے پر بات کی جائے تو یہ سمجھنا ہو گا کہ خواجہ سعد رفیق پر چڑھائی کی وجہ بھی سیاسی ہے۔ خیر سے خواجہ صاحب اپنے سیاسی مخالفین سے کونسی رعایت کرتے ہیں جو ان کے ساتھ رعایت کی جائے۔ خواجہ سعد رفیق اگر سیاسی میدان میں فرنٹ فٹ پر کھیلنے کے عادی ہیں تو انھیں یہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ انھیں جواب بھی فرنٹ فٹ پر ہی ملے گا۔ مگر میرے نزدیک یہ ایک دلچسپ میچ ہے۔ اس میچ کی وجہ سے خواجہ سعد رفیق کو پتہ ہے کہ ان کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔

یہ درست ہے کہ خواجہ سعد رفیق نے ریلوے کی وزارت کا چارج ایک ایسی صورتحال میں سنبھالا جب ریلوے بند ہو رہی تھی۔ جب خبریں یہ تھیں کہ ریلوے کے پاس ٹرینیں چلانے کے لیے ڈیزل کے پیسے بھی نہیں ہیں۔ ٹرینیں ڈیزل نہ ہونے کی وجہ سے بند ہو رہی تھیں۔ ریلوے کو بیچ دینے اور بند کر دینے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ اعداد و شمار کے مطابق ریلوے کا خسارہ خطرناک حد تک بڑھ چکا تھا۔ اور کسی بھی حکومت کے لیے یہ خسارہ برداشت کرنا ممکن نظر نہیں آرہا تھا۔

جو لوگ خواجہ سعد رفیق کی کارکردگی پر سوال کر رہے ہیں وہ حادثات کے اعداد و شمار تو پیش کر رہے ہیں لیکن یہ نہیں بتا رہے کہ ایک بھی حادثہ ریلوے کے نظام میں کسی خرابی کی وجہ سے نہیں ہوا۔ چند ماہ قبل وزیر آباد میں ایک فوجی ٹرین کو جو حادثہ ہوا تھا اس کی وجہ بھی ڈرائیور کی  اوور اسپیڈنگ تھی۔ آف دی ریکارڈ  بات تو یہ تھی کہ ٹرین میں موجود مسافروں نے ہی ڈرائیور کو اوور اسپیڈنگ پر مجبور کیا تھا جو حادثہ کا باعث بنا۔ اس طرح ابھی تک ایک بھی حادثہ ریلوے کے نظام میں کسی خرابی کی وجہ سے نہیں ہوا۔

ڈرائیورز کی غلطی سے حادثات تو سڑکوں پر بھی ہوتے ہیں  اور اس کی ذمے داری ڈرائیور پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اس کی سزا بھی ڈرائیور کو ہی ملتی ہے۔جو لوگ بھارت کی ریلوے کا پاکستان کی ریلوے سے موازنہ کر رہے ہیں اور لالو پرشاد کی مثالیں دے رہے ہیں وہ یہ نہیں بتا رہے کہ گزشتہ ماہ بھارت میں ریلوے حادثات میں 128 لوگ مر گئے ہیں۔ لیکن شاید وہاں کوئی وزیر ریلوے سے استعفیٰ نہیں مانگ رہا۔

جہاں تک ریلوے کے خسارہ اور بحالی کی بات ہے تو خواجہ سعد سے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے والے اس کا ذکر نہیں کرتے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ جب خواجہ سعد رفیق نے ریلوے کا چارج سنبھالا تب ریلوے کی آمدن صرف اٹھارہ ارب روپے تھی ۔ اس کو مزید سادہ زبان میں بیان کیا جائے تو ریلوے240 روپے خرچ کر کے صرف ایک سو روپے کما رہا تھا۔ اور اب اس کی آمدن اس مالی سال میں چالیس ارب تک پہنچ رہی ہے۔ یعنی اب صرف 117روپے خرچ کر کے ایک سو روپے کمائے جا رہے ہیں۔ شاید سعد سے استعفیٰ مانگنے والے اس کاوش کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

ریلوے اور ریلوے کے وزیر کے ساتھ سیاست اپنی جگہ۔ لیکن جہاں تک ریلوے کے مستقبل کا سوال ہے تو یہ یقینا ایک اہم سوال ہے کہ پاکستان میں ریلوے کا مستقبل کیا ہے۔ شاید لوگ سمجھ نہیں رہے کہ سی پیک کے پہلے مرحلہ میں تو سڑکیں بن رہی ہیں لیکن یہ سڑکیں اور موٹر وے سی پیک کا لوڈ برد اشت نہیں کر سکیں گی۔ اس کے لیے آخری حل ریلوے ہی ہے۔

چین کی سرحد تک ریلوے ٹریک ہی سی پیک کی حقیقی منزل ہے۔ اور اس پر پس پردہ کام ہو رہا ہے۔ جب چین سے گوادر ریلوے ٹریک بنے گا تو ایران اور سینٹرل ایشیا کی ریاستوں تک بھی ٹریک بنے گا۔ ایسے میں پاکستان ریلوے کا مستقبل مخدوش نہیں ہے۔ سی پیک کے تحت لاہور سے پشاور تک مین لائن کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے، آبادی میں ریلوے لائن کے گرد باڑھ لگائی جا رہی ہے۔

اگر یہ سب ٹھیک ہے تو ریلوے کے بارے میں عوامی و سیاسی تاثر کیوں ٹھیک نہیں ہو رہا۔میرے نزدیک اس کی وجہ بھی خواجہ سعد رفیق ہی ہیں۔ وہ ہر وقت ملک کی سیاست پر بیان دیتے ہیں۔ خود کو ملک کے سیاسی منظر نامہ میں زندہ رکھنے کی شعوری و غیر شعوری کوشش کرتے ہیں لیکن ریلوے میں اپنی کارکردگی پر بات نہیں کرتے۔ وہ ریلوے کا کام تو کرتے ہیں لیکن ریلوے کا مقدمہ نہیں لڑتے۔

سوال یہ بھی ہے کہ خواجہ سعد سے حادثہ کی بنیاد پر استعفیٰ مانگنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے علاوہ خواجہ سعد کے پاس کچھ نہیں۔ سعد نے ریلوے کی زمین مال مفت کی طرح نہیں بانٹی بلکہ اس کو واپس لینے کی کوشش کی ہے۔ سعد پر کرپشن کا کوئی اسکینڈل نہیں ہے۔ سعد کے دور وزارت میں ریلوے کا کوئی میگا کرپشن اسکینڈل سامنے نہیں آیا۔ کوئی نوکریوں کی بندر بانٹ نہیں سامنے آئی۔ ریلوے کی بحالی کا سفر ابھی شروع ہوا ہے۔ منزل دور ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ کون ریلوے کی بحالی کے عمل کو روکنے کی سازشیں کر رہا ہے۔ پاکستان میں سستے سفر کا واحد راستہ ریلوے کی بحالی ہے۔سیاحت کے فروغ کا واحد راستہ بھی ریلوے ہی ہے۔ اس لیے خواجہ سعد لگے رہو۔ آخر میں خواجہ سعد کے لیے بس ایک شعر ۔

تندی باد مخالف نہ گھبرا اے”سعد”

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

The post تندی باد مخالف سے نہ گھبرا ’’سعد‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 22607 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>