Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22369 articles
Browse latest View live

جمہوریت، آمریت اور کتاب

$
0
0

انسان نے سیدھا چلنا، کھیت جوتنا، باغ لگانا سیکھا تو یہ مشقت کے ایسے کام تھے جو اس کا خون پسینہ نچوڑ لیتے تھے۔ اس کی یہ محنت مشقت اس سے تفریح کی طلب گار ہوئی۔کبھی چاند کا میلہ اور کبھی موسم بہار کا۔ فصل کی کٹائی کے موقع پر ناچ گانا۔ انسان نے مشکل اور محنت طلب زندگی میں راحت اور سکون کے لمحوں کے لیے کیا کیا بہانے نہیں تراشے۔کچھ دنوں پہلے تک ہمارے یہاں بسنت ہوتی تھی، نوروز کا تہوار منایا جاتا تھا، جب تک ہندو اور سکھ ہمارے اور ہم ان کے ساتھ تھے اس وقت تک ہولی، دیوالی اور کئی دوسرے تہوار ہم بھی مناتے تھے۔ بٹوارا ہوا، وہ چلے گئے تو ان کے تہوار بھی ان کے ساتھ رخصت ہوئے۔

مغلوں نے کیسے دل کش اور عوامی تہوار ایجاد کیے تھے۔ بہار کا موسم آغاز ہوتا تو جشن نوروز منایا جاتا، جس میں شاہی محل کے در و دیوار پر رنگین چراغاں ہوتا، مختلف رنگوں سے جھلکتی ہوئی روشنی محل کا حسن دوبالا کرتی اور یوں محسوس ہوتا جیسے بہار محل کے در و دیوار پر سانس لے رہی ہے۔ عوام بھی اپنی حیثیت کے مطابق نوروز مناتے، میلہ چراغاں کی رونق کچھ الگ تھی۔ آخر آخر مغلوں کے دورِ اقتدار میں پھول والوں کی سیر سے خواص و عوام سب ہی لطف اٹھاتے۔ اس کے نظارے ہم نے اپنی نصابی کتابوں میں دیکھے۔ بہت سے تہوار ہم سے چھین لیے گئے۔ اب بہت دنوں سے ہمارے یہاں ان لوگوں کا رعب و دبدبہ ہے جو انسانوں کو خوش ہوتے دیکھ کر ناخوش ہوتے ہیں۔ میں ان ہی خیالوں میں گم تھی اور پاک چائنا فرینڈشپ سینٹر کی پہلی منزل سے بچوں، عورتوں اور مردوں کا ہجوم دیکھ رہی تھی۔ لوگ امنڈے چلے آرہے تھے۔ ان کے چہروں سے خوشی چھلک رہی تھی اور بچوںکا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے بڑوں کا ہاتھ چھڑا کر ان دکانوں پر ٹوٹے پڑ رہے تھے جو کہانیوں کی رنگین کتابوں، نقشوں اور رنگ برنگ کی پنسلوں سے بھری ہوئی تھیں۔

یہ کتابوں کا قومی میلہ تھا جو نو برس سے نہایت پابندی سے منایا جاتا ہے۔ جس طرح آکسفورڈ کا کراچی لٹریچر فیسٹیول ہمارے شہر کراچی کی رونق دوبالا کرتا ہے اسی طرح کتابوں کا یہ قومی میلہ اسلام آباد کی پہچان بن گیا ہے۔ اس کی سب سے خوبصورت بات یہ تھی کہ یہاں عوام کی نئی اور پرانی نسل کے لوگ امنڈ آئے تھے۔ کتابوں کے دو رویہ اسٹالوں پر وہ ہجوم تھا جیسے رمضان کے آخری دنوں میں عید کی خریداری ہورہی ہو۔ فرق تھا تو یہ کہ مہندی، چوڑی اور دوپٹے کے بجائے طلسم ہوشربا، سندباد جہازی کا سفر، الف لیلہ اور سنو وہائٹ کی کہانیاں بچے ذوق و شوق سے خرید رہے تھے، کچھ معلوماتی اور سائنسی کتابوں کی ورق گردانی کررہے تھے۔

وہ بچہ شاید سات برس کا ہوگا، اپنی نازک انگلیوں سے کہانی کی ایک کتاب کو بار بار الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا۔ وہ اس کے صفحوں پر اپنی انگلیاں پھیرتا اور سوالیہ نگاہوں سے اپنی ماں کو دیکھتا۔ دستِ سوال دراز کرنے کا اتنا دل کش انداز میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ماں اپنے بٹوے میں نوٹ اور سکے تلاش کررہی تھی اور وہ اس کتاب پر اپنی انگلیاں پھیر رہا تھا۔ ایک خاموش مکالمہ تھا جو ماں بیٹے کے درمیان ہورہا تھا۔

ماں نے چند نوٹ دکان دار کے ہاتھ میں رکھے اور وہ بچہ نہالوں نہال ہوگیا۔ آنکھوں کی چمک اور رخسار کی دمک دیدنی تھی۔ اسے دیکھتے ہوئے مجھے بے اختیار اپنا بچپن یاد آیا جس میں کتابوں کے لیے ایسی ہی ہمک ہوتی تھی۔ فرق تھا تو اتنا کہ ہمارے دور میں کتابیں اتنی پرکشش نہیں ہوتی تھیں، اس زمانے میں بچت اسی لیے کی جاتی تھی کہ روپے ڈیڑھ روپے اکھٹے ہوجائیں تو اس سے کوئی من پسند کتاب خریدی جا سکے۔ محلے کی آنہ لائبریری کا ماہانہ کرایہ دو روپے ہوتا تھا اور اسے ادا کرکے یوں محسوس ہوتا تھا کہ قارون کا خزانہ ہاتھ آگیا ہے۔ مجھ ایسے تیز پڑھنے والوں سے آنہ لائبریری والا ناراض رہتا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اتنا تیز پڑھنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس دور کے مشہور تاریخی ناول اپنے محلے کی آنہ لائبریری سے لے کر پڑھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور دیوان سنگھ مفتون کو بھی اسی آنہ لائبریری کی عنایت سے پڑھا۔ ان دنوں آنہ لائبریری چلانے والوں کا ذوق اعلیٰ ہوتا تھا اور وہ اس پر بھی نظر رکھتے تھے کہ بچے کوئی ’غلط‘ کتاب نہ لے جائیں۔

میں ان ہی خیالوں میں غلطاں تھی کہ فاطمہ حسن نے شانہ ہلایا ’’آپ پھر خیالوں میں تیرنے لگیں۔ صدر صاحب کی آمد کا وقت ہوا چاہتا ہے‘‘۔ میں 60 برس سے زیادہ کی مدت ٹپ کر حال میں آگئی۔ ناصرہ زبیری، رخشندہ نوید، صغریٰ صدف اور صوفیہ بیدار کے ساتھ آڈیٹوریم کا رخ کیا، جہاں بچے اور بچیاں جھوم جھوم کر گا رہے تھے ’کتابوں کی دنیا سلامت رہے‘۔ دل موہ لینے والا یہ گیت ہم سالہا سال سے سن رہے ہیں اور وجد کررہے ہیں۔ یہ گیت جسے بچے آیندہ برسوں میں بھی گائیں گے اور دلوں میں کتابوں کی محبت کے چراغ جلائیں گے۔

صدر محترم ممنون حسین مقررہ وقت پر تشریف لائے تو اپنے منتظر بچوں کے ساتھ اسی انکسار اور دردمندی کے ساتھ ملے جو ان کے مزاج کا خاصا ہے۔ وہ چھوٹے چھوٹے بچے جو گھنٹوں سے ان کے انتظار میں کھڑے تھے انھوں نے لہک لہک کر کتابوں کا ترانہ گایا اور ہم میں سے اکثر زیر لب ان کا ساتھ دیتے رہے۔ بچے رخصت ہوئے تو نیشنل بک فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے ہمیں بتایا کہ ’امن انقلاب بذریعہ کتاب‘ کے نعرے کو اختیار کرکے نیشنل بک فاؤنڈیشن نے 2017 کے سال میں 33 کروڑ 54 لاکھ روپے کی کتابیں ملک بھر میں فروخت کیں۔ یہ اتنی بھاری رقم ہے جسے پڑھ کر ذہن سرشار ہوتا ہے اور ان لوگوں کے سامنے آئینہ رکھنے کو جی چاہتا ہے جو بہ اصرار یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں کتابوں کی فروخت کم ہوئی ہے اور لوگوں میں کتاب پڑھنے کا رجحان گھٹ گیا ہے۔

ڈاکٹر انعام الحق نے ہمیں بتایا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد این بی ایف بطور فیڈرل ٹیکسٹ بک بورڈ بھی اپنی ذمے داریاں پوری کررہا ہے۔ ان دنوں ہمارے یہاں 18 ویں ترمیم کے مخالفین اپنی پوری کوشش کررہے ہیں کہ کسی طرح اس ترمیم کا خاتمہ ہوسکے تاکہ صوبائی خودمختاری کو ایک زوردار جھٹکا دیا جاسکے اور ایک بار پھر مختلف معاملات کو مرکز کے زیرانتظام لایا جاسکے۔ جمہوریت کو سلب کرنے کا اس سے بہتر نسخہ تجویز نہیں کیا جاسکتا۔ ان سے یہ سن کر بھی بہت خوشی ہوئی کہ این بی ایف نے جیل خانوں میں سزا کاٹنے والوں کو بھی انسان سمجھا ہے اور ملک کے 9 جیل خانوں میں قیدیوں کے لیے کتابیں فراہم کی گئی ہیں۔ یہ کتابیں ان کے لیے روشنی کی کرن ہیں جو اپنی زندگی کے سیاہ شب وروز گزار رہے ہیں اور اپنے پیاروں سے دور ہیں۔

اس روز افتتاحی تقریب میں عرفان صدیقی بھی موجود تھے۔ وہ وزیراعظم کے مشیر برائے قومی تاریخ اور ادبی ورثہ ہیں اور ایک متحرک اور سرگرم شخص کے طور پر ان کی رہنمائی میں ملک کے مختلف علمی اور ادبی اداروں کو نئی زندگی ملی ہے۔ اپنی تقریر کے دوران انھوں نے بتایا کہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے ان کی درخواست پر ادیبوں اور ادبی سرگرمیوں کے لیے 50 کروڑ کا ایک انڈومنٹ فنڈ قائم کیا، جس کے طفیل اب ہم اپنی علمی اور ادبی سرگرمیوں کے لیے کسی کے بھی دست نگر نہیں رہے ہیں۔ ہر مہینے ہمیں اس انڈومنٹ فنڈ کی آمدنی سے لاکھوں روپے مل جاتے ہیں، جس کے ذریعے ہم اپنی سرگرمیاں کھلے ہاتھ اور کھلے دل سے کرتے ہیں۔ اس روز افتتاحی تقریب میں قومی تاریخ اور ادبی ورثہ کے وفاقی سیکریٹری انجینئر عامر حسن بھی موجود تھے اور انھوں نے بھی اس کتاب میلے کی اہمیت اور افادیت پر روشنی ڈالی۔

صدرمحترم ممنون حسین روسٹرم پر تشریف لائے تو حسب معمول انھوں نے علم وادب اور تاریخ سے نوجوانوں کی آگہی کی اہمیت پر اصرار کیا۔کچھ لوگوں کو ممنون صاحب اس لیے اچھے نہیں لگتے کہ ان کے لباس میں کلف نہیں لگا ہوا اور نہ ان کے لہجے میں رعونت اور تکبر ہوتا ہے۔ وہ ایک شفیق بزرگ کی طرح باتیں کرتے ہیں، اسی لیے لوگوں کو وہ گھر کے بزرگ محسوس ہوتے ہیں، ان سے خوف نہیں آتا، وہ چاہتے ہیں کہ ان سے اپنے اور دوسروں کے دکھ سکھ کہہ دیے جائیں۔ اسلام آباد سے واپسی پر سوچ رہی تھی کہ یہ سب جمہوریت کی بہاریں ہیں۔ جب ووٹ کا احترام ہوتا ہے اور وہ جیت جاتا ہے تو کتابوں کی الماریاں بھی آباد ہوجاتی ہیں۔ آمریت کتاب سے ڈرتی ہے اور جمہوریت کتاب کے سہارے چلتی ہے۔ کاش ہمارا یہ سفر جاری رہے۔

The post جمہوریت، آمریت اور کتاب appeared first on ایکسپریس اردو.


صندوق میں بندوق ہے، بندوق میں گولی

$
0
0

کیا کمال کی چیز ہے، یہ چھوٹا سا چوکور سا اور کالا سا صندوق جیسے ’’ ٹی وی ‘‘کہتے ہیں ،کیا ہے جو اس میں نہیں ہے خاص طور ’’ امراض ‘‘ کے لیے تو اس سے بڑا ڈاکٹر ، حکیم اور طبیب نہ اس سے پہلے کبھی پیدا ہو ا تھا نہ ہے اور نہ ہوگا ۔ بڑے بڑے ڈاکٹروں کی لمبی فیسوں سے اس نے لوگوں کو ایسی نجات دلائی ہے جیسے ایک ٹوٹھ پیسٹ نے دانتوں کو ہر بیماری سے نجات دلائی ہوئی ہے۔ پرانے زمانوں میں گھر کا حکیم ، گھریلوں ڈاکٹر ، اور دیہاتی ڈاکٹر جیسی کتابیں ہوا کرتی تھیں لیکن اس جادوئی اور حکیمی صندوق نے سب کو بے روز گار کر دیا  ہے ۔

کچھ بھی کرنے آنے جانے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، پوری سو بیماریوں سے نجات دلانے کے لیے ’’ صابن ‘‘ کی صرف ایک ٹکیہ کافی ہے۔ لگ بھگ اتنی ہی بیماریوں کا ذمے دار ٹوتھ پیسٹ ہو گیا اور اگر برش بھی ساتھ کر دیجیے تو دانت اور آنتوں کی ساری بیماریاں تو بھاگیں ہی، ہو سکتا ہے کہ دانتوں اور آنتوں سے بھی نجات دلا دے ۔ کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ اب انسان صرف دو پائے کا جانور ہے ،کوئی ٹرک  تو نہیں کہ دو سو سے زیادہ بیماریاں اس کی سواریاں ہوں لیکن اگر بالفرض ان دو ڈھائی سو بیماریوں سے بھی زیادہ کچھ مہمان ٹائپ کی بیماریاں ہوں تو بھی فکر نہیں ہے ۔ ہمارا تو خیال ہے کہ ہمیں اس کے سامنے بیٹھ کر ہر دم گانا چاہیے کہ ۔

سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر

اٹھتے نہیں ہاتھ میرے اس دعا کے بعد

ہاں یاد آیا یہ تو جسمانی بیماریوں کی بات ہو گئی، کچھ ذہنی امراض بھی لاحق ہو سکتے ہیں جسے لیڈر ، سرکاری محکمے اور منتخب نمایندے وغیرہ ۔ بلکہ کچھ لوگوں کا تو خیال ہے جو یقین سے کسی طرح بھی کم نہیں کہ جو کو ئی اس وقت اور اس دور میں بھی پاگل نہیں ہوا وہ یقینا پا گل ہے اور یہ دور جناب قائد عوام فخر ایشیاء معمار پاکستان بلکہ معمار نیا پاکستان کے ورود مسعود سے شروع ہو چکا ہے بلکہ آثار ایسے ہیں کہ شاید کوئی نیا کنٹریکٹر آف کنسٹریکشن اس نئے پاکستان کو مزید ’’ نیا ’‘ بلکہ ’’ نویلہ ‘‘ کردے۔

ٹھیکیدار ، انجنیئرز اور معمار پہنچ چکے ہیں ، صرف مزدوروں کے آنے کا انتظار ہے۔ہاں تو ہم ذہنی امراض کی بات کر رہے تھے، ان امراض کا علاج بھی اس جادوئی ڈبے میں موجود ہے جو ٹاک شوز اور بیک وقت آٹھ دس ماہرین کے بولنے پر مشتمل ہوتا ہے جس سے ذہنی امراض تو ایک ہی ڈوز میں چلے جاتے ہیں لیکن اگر کوئی چاہے تو علاج جاری رکھ کر فساد کی اس جڑ یعنی ذہن یا دماغ سے بھی مکتی حاصل کر سکتا ہے ۔مطلب یہ کہ چنتا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آچکا ہے اور تقریباً ہر گھر میں پہنچ بھی چکا ہے، تمام انسانی امراض کا علاج آپ سے ایک بٹن کے فاضلے پر، دبا ئیے اور ہٹے کٹے ہو جائیے۔کبھی کبھی ہمیں ایک اور خیال آتا ہے جو زیادہ باوثوق تو نہیں ہے، آپ سے شیئر کرنے میں کوئی برائی بھی نہیں  ہے، وہ ’’ پنڈورا کے بکس ‘‘ والی کہانی تو آپ نے سنی ہی ہو گی، چلیے ممکن ہے سب نے نہیں سنی ہو۔

اس لیے موٹا موٹا دہرائے دیتے ہیں۔ پنڈورا نام کی ایک عورت یونان میں ہوا کرتی تھی جو چندے آفتاب اور چندے مہتاب تو تھی ہی لیکن ساتھ ہی ایک اور خوبی سے بھی آراستہ تھی یعنی کمال درجے کی احمق تھی جو حسینوں کے لیے بمثال ’’ زیور ‘‘ کے ایک خوبی ہے، بزرگوں نے عورتوں کی کچھ اور خوبیوں کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ ایک نہایت ہی دانا و بینا بزرگ جو بمقام مملکت اللہ داد نا پرسان اب بھی بقید حیات ہے یا حیات اس کی قید میں ہے، حضرت علامہ بریانی عرف برڈ فلو ماہر تعویزات و عملیات و ازواجیات ۔ ان کا کہنا ہے کہ گونگی اور بہری عورت شوہر کے لیے نعمت عظمیٰ  ہوتی ہے لیکن کچھ اور دانشوروں نے حماقت کو ایک ’’ زیور ‘‘ کا درجہ دیا ہوا ہے۔

اور یہ ’’ پنڈورا ‘‘ نام کی عورت اس زیور سے مکمل طور پر آراستہ بلکہ پیراستہ بھی تھی ، خود یونانی علمائے لغت نے اس لفظ ’’ پنڈورا ‘‘ کے معنی ’’ سب کچھ کا تحفہ ‘‘ ۔ تمام دیوتاؤں نے کوئی نہ کوئی حسن کا تحفہ اسے دیا ہوا تھا۔یہ تحفہ دو ٹائی ٹان بھائیوں مراپی متھیس اور پرومتھیس کو دیا گیا تھا جو اصل میں دیوتاؤں اور خاص طور صدر یا چیئر مین دیوتا زیوس کی نظر میں ’’ بلیک لسٹ ‘‘ تھے اور انسانوں سے ہمدردی رکھتے تھے۔  روئے زمین پر ایسی کسی بیماری نے جنم لیا ہی نہیں جس کا علاج اس ’’ڈبے ‘‘ میں نہ ہو بلکہ ہم تو حیراں ہیں کہ اس کے ہوتے ہوئے دنیا بھر کے اسپتال اور کلینک دوا ساز کارخانے وغیرہ بند کیوں نہیں ہوئے ہیں اور ڈاکٹر حکیم اور معالج لوگ بھوکوں مرکیوں نہیں ہو چکے ہیں۔البتہ اس باکس میں امید نہیں ہے، شاید مر کھپ گئی ہو گی یا اس کی دوسری ٹانگ بھی توڑ دی گئی ہو، بانجھ تو وہ پیدائشی تھی۔ شاید وہ تو آسمانی اور زمینی بلاؤں کا مقابلہ کر سکتی، انسان اور سیاسی بلاؤں سے اسے نپٹنے کا تجربہ ہی نہیں تھا ۔

The post صندوق میں بندوق ہے، بندوق میں گولی appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک تقریر … جس سے بہت سُبکی ہوئی

$
0
0

کالج کے کلاس فیلوہونے کے ناتے وزیر صاحب کبھی کبھارگپ شپ کے لیے میرے ہاں چلے آتے۔کچھ عرصہ قبل ایک تقریب کے فوراً بعد آئے تو پریشان سے تھے،میں نے سبب پوچھاتوکہنے لگے ’’آج تقریرنہیں ہوسکی‘‘ میں نے کہا ’’کیامطلب؟ آپ تو تقریر کے اتنے شوقین ہیں کہ پلیّ سے کچھ دیکر بھی تقریر کرآتے ہیںحتیٰ کہ جنازوں پر بھی میتّ کوتقریر سنائے بغیردفن نہیں ہونے دیتے اس ضمن میں جناب نے کبھی سامعین کے مُوڈ یا تعدادکی بھی پرواہ نہیں کی اسلیے آج تقریر کیے بغیرکیوں چلے آئے؟۔‘‘کہنے لگے’’ آپ ٹھیک کہتے ہومگر آج کی تقریب میں جم کر تقریرنہیں کرسکا،کیونکہ موضوع فاٹا کے ممبروں کی طرح گرفت میں ہی نہیں آسکا، اورسامعین کی دلچسپی اتنی ہی کم رہی جتنی حکومتی ارکان کی وزیرِاعظم کی عدم موجودگی میں اسمبلی سے ہوتی ہے۔سچی بات ہے آج بہت بے عزّتی ہوئی۔‘‘

توآپ تیاری کر کے کیوں نہیں گئے، ٹوٹوں والا فارمولابھی نہیں چل سکا؟’’میںنے پوچھا ۔جواب میں وزیر صاحب نے پوری رام کہانی سنادی” دیکھو یار ! بات یہ ہے کہ ہمیں بے شمار تقریبات میں جاناپڑتاہے،اب اتناوقت تونہیں ہوتاکہ ہر تقریب یا ہر سیمینار کے متعلقہ موضوع پر تقریر تیار کرنے بیٹھ جائیں ،اسطرح تو ہماری وزارت صرف تقریرسازی کا کام ہی کریگی ،میں نے مشورہ دیتے ہوئے کہا “اسپیچ رائٹررکھ لیں”، کہنے لگے “رکھاتھامگراُس نے تقریر نویسی کا کام ٹھیکے پر دے دیا سو اس سے جان چھڑانا پڑی۔

…”ـہاں تم نے ٹوٹوںکی بات کی ہے یہ درست ہے کہ میں نے ،، کالج میں کچھ ادیبوں کے لکھے ہوئے چند جذباتی پیراگراف،جنھیں ٹوٹے کہا جاتا تھا، رٹ لیے تھے۔ہر تقریرمیں وہ ٹوٹے استعمال کرکے بڑی ٹرافیاں جیتیں۔ ایک بار وہی ٹوٹے مجھ سے پہلے آنے والے مقررّ نے ہائی جیک کر لیے تو وہ جیت گیا ۔

…وزیربن کر بھی وہ فارمولا بڑی کامیابی سے چلتا رہا۔ایک بار ادیبوں کی تقریب میں مہمانِ خصوصی کے طور پر تقریر کا آغاز بھی ایک ٹوٹے سے ہوا۔درمیان میں تھوڑا سا وقفہ دیکر مزید دو ٹوٹے فِٹ کیے اور اختتا م پھر ٹوٹے سے کیاتو لوگ واہ  واہ کر اٹھے۔

پھر ایک بار ڈاکٹرو ں کی تقریب میں مجھے مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعوکیاگیا۔موضوع تھا ’’ماں بچے کی صحت میں مڈوائف کا کردار‘‘ بچپن میں مارننگ واک پر مضمون یادکیا تھا ۔ لہٰذاتقریر کا آغاز اُسی مضمون سے کرتے ہوئے بتایاکہ ماںاور بچے کی صحت کے لیے مارننگ واک کتنی مفید ہے ۔پھر تم تو جانتے ہومیرے وزیر بننے کے بعد ترقی کی رفتار میں کتنا اضافہ ہوا ہے، وزارت سے پہلے میری صرف ایک بیگم تھی اب موجودہ اہلیہ ماشاء اللہ میری وائف نمبر تین ہیں ،میںنے سامعین کو بتایاکہ مڈوائف کا کردار بچوں کے لیے کتنا اہم ہوتا ہے میری مڈل والی وائف کا کردار اتنا ہی اہم ہے جتنا اسٹیبلشمنٹ کا، یعنی میری پہلی بیگم اور بچے میری مڈل وائف کو اُسی نظر سے دیکھتے ہیں جس سے بڑی پارٹی کے لیڈر اسٹیبلشمنٹ کو دیکھتے ہیں۔

ویسے سچ بات تو یہ ہے کہ”تیسرانکاح، نر ی ذلت وخواری ہے اگر آدمی نے ذلیل ہی ہو ناہے تو بہترہے پارٹی بدل لے ۔ اگر آدمی نے منہ ہی کا لا کرا نا ہے تو تیسرانکاح کرنے سے بہتر ہے سینیٹ کے الیکشن میں ووٹ بیچ کر پیسے کما لے ۔ بہرحال،میں نے تقریر میںکچھ ذاتی واقعات،کچھ سیاسی لطیفے اور ڈاکٹروں کے ساتھ اپنے تجربات سناتے ہوئے جب سامعین کو بتایا کہ زندگی میں کئی ڈاکٹروں سے پالاپڑاہے ہر ڈاکٹر نے کسی نہ کسی نعمت سے محروم کرنے کی کوشش ضرور کی ہے کِسی نے کھانے سے اور کسی نے کچھ پینے سے منع کیا مگرانکی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہو ئیں یہ الگ بات ہے کہ منع کرنے والے تمام طبیب اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں اور میں آپکے سامنے اپنی مڈوائف کی خوبیاں بیان کر رہا ہوں۔،اسپربھی خوب تالیاں بجیں‘‘۔

پھر ایک دفعہ ایک اسپورٹس کلب نے اپنی تقریب میں مدعوکیا،حسبِ معمول کوئی تیاری نہیں تھی ،پی اے نے انٹرنیٹ سے کئی مضامین نکال کر پیش کیے ،کئی اسپورٹس اسٹارز کے اسکینڈل بھی دکھائے مگر میںنے سب کو نظر انداز کیا صرف اسکینڈل زدہ لیڈی اسٹار زکی تصاویرکامعائنہ کیا اور فیصلہ سنادیاکہ فی البدیہہ تقریر کرونگا۔

کیابتاؤں میرے دوست !بھلے وقتوں کی کھائی ہوئی خوراک اور کی ہوئی محنت کتناکام آتی ہے، ذہن پر تھوڑا سا زور دینے سے یاد آگیاکہ کالج میں فٹ بال میچ پر ایک مضمون یاد کیا تھا،صرف میدان کا مقا م اور کھلاڑیو ں کے نام بدلنا پڑے باقی تقریباًسارا مضمون تقریرکہہ کر سنادیا۔یہ جانتے ہوئے کہ سامعین میں فٹ بال سے زیادہ کرکٹ کے شائقین ہوں گے، میں نے کرکٹ میں جوئے کے عمل دخل اور جواریوں پر جیل کے اثرات ” پربھی روشنی ڈال دی جس سے سامعین بہت متاثرہوئے ۔ ویسے وہ یورپ کی جیلوں میں ملنے والی سہولتو ں کے ذکر سے زیادہ متاثر ہوئے اور کئی حضرات علیحدگی میں مجھ سے جیل جانے کے آسان طریقے بھی پوچھتے رہے ۔

مگرآج کی تقریب میںبہت سبکی ہوئی ۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ کم علمی کا بھرم کھل گیا”۔”موضوع کیاتھا؟” میںنے پوچھا…کہنے لگے موضوع ٹیڑھا اور سا معین بے ذوق تھے۔ موضوع تھا “ادب اور ثقافت پر عالمی سیاست کے اثرات” اور سا معین تھے عمر رسیدہ اور عشق گزیدہ ادیب اور شاعر۔ میرے پی اے گلزارِوفا جسکا دعویٰ ہے کہ چونکہ اس نے پانچویں جماعت میںایک بار بیت بازی کے مقابلے میں انعام حاصل کیا تھا اسلیے اسے یہ حق پہنچتاہے کہ وہ مجھے چٹوں پرشعر یا مصرعے لکھ کر فراہم کیا کرے اور وہ بھی، ہر تقریرسے پہلے، پھر ساتھ یہ بھی لکھ دیتاہے کہ،شعر کے موضوع کے ساتھ تعلق کی کوئی گارنٹی نہیں ہے ۔

موضوع میں ادب کالفظ سنتے ہی گلزارِوفا نے مجھے قبل از تقریب جو چٹ پکڑائی اُسپر لکھا تھا ع ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔لہٰذامیں نے تقریر کا آغاز اسی سے کیا اور اپنی پہلی محبتّ کے چند واقعات سنا ڈالے مگر سامعین بدذوق سے نکلے کہ جن پر کوئی اثر نہ ہوا اورکسی نے ہلکی سی تالی بجانے کی بھی زحمت نہ کی ،اس کے بعد فارمولے کے مطابق ایک دو ٹوٹے چلا ئے مگر سامعین تالیوں سے اسطرح گریزاں رہے جیسے تالی بجاتے ہی انھیں نیب والے اٹھا کر لے جائیں گے۔

بات بنتی نظر نہ آئی توحکومت کے کارنامے گنوانے شروع کردیے کیونکہ یہ ضروری بھی ہے اور مجبوری بھی۔ ایک بار گونگے اور بہرے افراد کی تقریب میں ایک وزیر حکومت کے کارنامے بتانابھول گیاتو اس کی وزارت سے چھٹی ہوگئی۔ حکومتی کارکردگی پرمیری بات ذرا طویل ہوئی تو ایک صاحب بولے”حضور !لگتاہے راستہ بھول گئے ہیں۔ موضوع کیجانب تشریف لائیے”میں نے انھیں تسلّی دیتے ہوئے کہافکر نہ کیجیے اُسی جانب آرہا ہوں” کہنے لگے” شارٹ کٹ لیجیے، آپ تو بائی پاس پر چڑھے ہوئے ہیں”۔ میں جانتا تھا کہ سامعین کی دلچسپی کم ہونے لگے تو کوئی جذباتی شعر یا لطیفہ سنا کر متوجہ کیا جاسکتاہے۔

،لہٰذایہ فارمولا بھی استعمال کیا ۔شعر چونکہ رومانوی تھا اسلیے پچھلی قطارمیں بیٹھے ہو ئے صرف دو نوجوانوں کی واہ سنائی دی باقی مجمعے پر آہ والاماحول ہی طار ی ر ہا۔ صرف ایک روز پہلے جس اخبار پرڈرائیور پکوڑے لایا تھااُس پکوڑہ زدہ اخبار سے پڑھے ہوئے تیل آلود لطیفوںکا جوڑا سنایا تو ایک معززّ سامع کے بازوؤںمیں حرکت پیداہوئی ، میں خوش ہوا کہ تالی بجانے لگا ہے جس سے دوسروں کو بھی انگیخت ہو گی اور پوار ہال تالیو ں سے گونج اٹھے گا مگر موصوف کا ردِّعمل جمائی سے شروع ہوا اور انگڑائی پر ختم ہوگیا۔ سا معین ناراض زرداری کی طرح پگھلنے سے انکاری نظرآئے تو میں نے حبیب جالب کا ایک انقلابی ساشعر پڑھا۔ اس پر سامنے بیٹھے ہوئے ایک صاحب بولے ” ـحضور یہ شعر موضو ع سے اتنا ہی دور ہے جتنا یہا ں سے ٹمبکٹو۔اس دوران میں چار بار پانی پی چکا اور چھ بار پسینہ پونچھ چکا تھا۔

کئی حربے اورکئی فارمولے آزمائے مگر موضوع کراچی والے ایس ایس پی راؤ کی طرح گرفت سے باہر رہا۔پھر ذہن گھوم گیا ، دماغ میں چرچل، کینیڈی، لُوتھرکنگ کی تقریریں،مشاہیر کے فرمودات ، ڈائیلاگ، سرخیاں، حکمت ،طبِ مشرق،بہت کچھ گڈ مڈہونے لگا ۔ اب جو کچھ میرے منہ سے نکلاو ہ کچھ اسطرح تھا۔

I have a dream….that we will fight in the plains…..Early to Bed and early to rise Some of you are fools……others are not wise……….

ظالما !ذراتالی بجادے۔ چھلکے ہمیشہ باہر پھینکیں۔ ووٹر کونہیں ووٹ کو عزتّ دو ، تخم ملنگاں نیم گرم دودھ میں ملا کر پئیں پرانی قبض دور ہوگی ۔ یہ فقر ے میں خالص مولویانہ انداز میں گاکر ادا کررہا تھا۔اس پر میں نے کہا ’’ میرے پیارے وزیر صاحب ! بات تخم ملنگاںپر ہی ختم ہونا تھی توچرچل اور مارٹن لوتھر سے شروع کرنے کی کیا ضرورت تھی ، عامرلیاقت سے شروع کر لیتے”۔کہنے لگے” پوری بات سن لو سنو! تخم ملنگاںوالی بات سنتے ہی ہال سے ایک آواز آئی ’’وزیر ذہنی توازن کھو گیاہے ڈاکٹر کو بلاؤ ‘‘ دوسری آواز آئی ، ’’ڈاکٹر نہیں ون ون ٹو ٹو والوںکو بلالاؤ ۔

پھر اگلی صف میں سے ایک شاعر قسم کے حضرت بولے”حضورموضوع آپ کے ہاتھ نہیں آ رہا موضوع کو پکڑئیے”ابمیں بھی بیزار ہو چکا تھا جَھلّا کر کہا “بھائی صاحب !موضوع ہے یا چور ، جسے میں پکڑوں۔ آپ کو شوق ہے تو آپ پکڑ لیں “۔اسپر ہال میں پہلی بار قہقہہ بلند ہوا  ۔

پھر ایک محترمہ نے بیزاری سے آواز لگائی ـ”اب جان بھی چھوڑ دیں”۔میں نے جواباًکہا “جان چھڑانی ہے تو اپنے شوہر سے چھڑائیں میں نے آپکی جان کہاں سے پکڑ رکھی ہے”اس پر ہال میں شور مچ گیا ۔ایک طرف سے آواز آئی “خاتون کی توہین برداشت نہیں کی جائے گی “دوسری طرف سے آواز آئی “آپ کو شرم آنی چایئے معافی مانگیں ،اُدھر ہوامیں اچھلتاہوا ایک جوتا نظر آیا اور ساتھ ہی نوجوانوں کی آواز کانوں میں پڑی “پکڑو اسے جانے نہ پائے”یہ سنتے ہی میں نے اسٹیج سے چھلانگ لگادی۔ ادھر میرے گن مین نے میرا بازو پکڑکر دوڑلگادی ۔اس دوران کچھ جوتابردار نوجوان ہمارے قریب پہنچ گئے تھے ،میرے گن مین نے دھکا دیکر مجھے گاڑی میں دھکیلا اور ڈرائیور نے گاڑی بھگادی۔تو یہ ہے آج کی روداد۔”چلو اچھاہوا عزت بچاکر آگئے ہو”میں نے اسے تسلّی دیتے ہوئے کہا۔کہنے لگے ’’اگر اب بھی بچ گئی ہے تو لُٹتی کیسے ہے ؟‘‘

The post ایک تقریر … جس سے بہت سُبکی ہوئی appeared first on ایکسپریس اردو.

آزادی کا سورج جلد طلوع ہوگا

$
0
0

تاریخ گواہ ہے کہ کسی قوم سے مستقل بنیادوں پر آزادی جیسی نعمت کو چھینا نہیں جاسکتا ہے، جو قوم اپنے خون سے آزادی کی تحریک کو سینچ رہی ہو اور اپنی آزادی کے لیے قربانیاں اور شہادتیں دے رہی ہو وہ قوم آزادی کی نعمت سے محروم نہیں رہ سکتی۔

قیام پاکستان کے ساتھ ہی ریاست جموں وکشمیر کو بھارت کے قبضے سے آزاد کرانے کی جدو جہد کا آغاز ہوگیا تھا مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تین جنگیں ہوچکی ہیں اور دونوں ممالک خود کو دفاعی طور پر مستحکم کرتے ہوئے ایٹمی طاقتیں بھی بن چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے کمیشن کی 19سے زائد قراردادوں پر عملدرآمد کے انحراف کے سبب دونوں ممالک ایٹمی جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں جب کہ مسئلے کے اصل فریق یعنی کشمیری بھارتی فوج کی بربریت اور انسانیت سوز مظالم کی وجہ سے ڈیڑھ لاکھ سے زائد جانیں ضایع کیے جانے کے باوجود بھارت سے آزادی کے حصول تک جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔

کشمیریوں کی شہادتوں اور لازوال قربانیوں کا کوئی حساب نہیں ہے مگربرہان الدین وانی کی شہادت نے آزادی کے بھڑکتے ہوے الاؤ میں مزید شدت پیدا کردی ہے۔وادی کشمیر میں گونجتے ہوئے یہ نعرے۔ ہم کیا چاہتے ہیں آزادی… ہم لے کر رہیں گے آزادی… برہان کے صدقہ آزادی… میرے کفن پر لکھنا آزادی… خون کو گرما دینے والے نعرے، آزادی کی تحریک کو جلا بخش رہے ہیں یہ نعرے ایک جانب تحریک آزادی کوگرما رہے ہیں تو دوسری طرف جابر اور ظالم بھارتی حکمرانوں کی نیندیں حرام کر رہے ہیں۔

تحریک آزادی کو ختم کرنے کے لیے بھارتی افواج نے مظالم کی حد پار کر دی ہیں انسانی اقدارکا خیال نہیں رکھا جا رہا ۔دنیا بھر میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں مقبوضہ کشمیر میں ہو رہی ہیں۔گزشتہ برسوں میں کشمیر میں انسانی حقوق کی اتنی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں اور اتنے مظالم ڈھائے گئے ہیں کہ اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتیں۔

1947ء میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر برصغیر جنوبی ایشیا کی تقسیم کا یہ فارمولا طے پایا تھا کہ مسلم اکثریت کے ملحقہ علاقے پاکستان میں شامل ہونگے اور غیر مسلم اکثریت کے ملحقہ علاقے بھارت میں اور یہی اصول برصغیر کی پانچ سو کے قریب ریاستوں کے لیے بھی طے پایا تھا، چنانچہ برصغیر کی تقسیم کے بعد جب بھارت اور پاکستان کے نام سے دو الگ الگ مملکتیں معرض وجود میں آئیں تو ان ریاستوں نے اس اصول کے مطابق بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر لیا، اگر ان میں سے کسی ریاست نے اپنے مستقبل کا فیصلہ ان اصولوں سے ہٹ کر کرنے کی کوشش کی تو اسے تسلیم نہیں کیا گیا ۔

مثلاً ریاست حیدرآباد جو ہندو اکثریت کی ریاست تھی جس کا حکمران نظام حیدرآباد مسلمان تھا اس نے اس ریاست کو خود مختار قرار دینے کا فیصلہ کیا لیکن بھارت نے اس فیصلے کو برصغیرکی تقسیم کے اصولوں کے منافی قرار دیتے ہوئے ماننے سے انکارکردیا اور حیدرآباد پر زبردستی قبضہ کر لیا۔

اسی طرح ہندو اکثریت کی ریاست جوناگڑھ کے مسلمان حکمران نے جب اپنی ریاست کا الحاق پاکستان سے کرنے کی کوشش کی تو بھارتی حکمرانوں نے اسے اس بنیاد پر تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ غالب ہندو اکثریت کی اس ریاست کا الحاق تقسیم برصغیر کے اصولوں کی رو سے بھارت کے ساتھ ہونا چاہیے نہ کہ پاکستان کے ساتھ اور اس کے ساتھ ہی اس نے ریاست جوناگڑھ کے خلاف فوجی کارروائی کرکے اسے اپنے ساتھ شامل کر لیا۔

اس کے برعکس یہ ایک عجیب المیہ ہے کہ مسلم اکثریت کی ریاست جموں وکشمیر کے معاملے میں بھارت کے یہ پیمانے بدل گئے اور اس نے ریاست کے ہندو حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کے نام سے ایک جعلی دستاویز الحاق تیارکی اور اسے بنیاد بنا کر 27 اکتوبر 1947ء کو اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں۔ حالانکہ یہ بات اس کو معلوم تھی کہ ریاستی عوام کی غالب مسلم اکثریت کی واحد نمایندہ جماعت مسلم کانفرنس اس سے کئی ماہ پہلے 19 جولائی 1947 کوکشمیرکے پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کرچکی ہے۔

بھارت کے انگریزگورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مہاراجہ ہری سنگھ کے پیش کردہ الحاق کی جعلی درخواست کی منظوری دیتے ہوئے لکھا تھا۔’’ہماری اس پالیسی کے پیش نظر کہ جس ریاست کا الحاق کا مسئلہ متنازعہ ہو ، اس کے الحاق کا فیصلہ وہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق ہونا چاہیے ،میری حکومت یہ چاہتی ہے کہ ریاست میں نظم ونسق کی بحالی اور ریاست کو حملہ آوروں سے خالی کرنے کے بعد الحاق کا مسئلہ عوام کی آرزو اور رائے کے مطابق طے کیا جائے۔‘‘

اور پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیری عوام کی آزادی اور حق خود ارادیت کے بنیادی حق کو تسلیم کرتے ہوئے یہ تاریخی قرارداد منظورکی تھی کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ریاست جموں وکشمیر میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کا اہتمام کرکے خود کشمیری عوام کی مرضی سے یہ طے کیاجائے کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کس کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں۔ یہ قرار داد تحریک آزادی کشمیر کو بین الاقوامی اعتبار سے ٹھوس آئینی اور قانونی بنیادیں مہیا کرتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کشمیری عوام نے پہلے دن سے اس قرار داد کو ہمیشہ آزادی اور حق خودارادیت کے لیے اپنی جدوجہد اور تحریک کی بنیاد قرار دیا ہے۔ نیزاسی قراردادکی بنیاد پر پاکستان مسئلہ کشمیر کا ایک بنیادی فریق قرار پاتا ہے اور تحریک آزادی کشمیرکی تائید وحمایت کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارت ہمیشہ ان قراردادوں کے نفاذ سے راہ ِ فرارکے لیے حیلے بہانے تلاش کرتا رہا ہے۔

بھارت مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی بجائے مغالطے اور غلط فہمیاں پیدا کرکے فکری انتشارکی ایک ایسی کیفیت کو پروان چڑھا رہا ہے جس کے نتیجے میں آزادی کشمیر کی تحریک جو اپنی منزل کے بہت قریب آچکی ہے اسے ایک بار پھر منزل سے بیگانہ کردیا جائے اور مسئلہ کشمیرکو اس قدر الجھا دیا جائے کہ عوامی سطح پر جیتی ہوئی جنگ کو ڈپلومیٹک محاذ پر شکست میں تبدیل کردیا جائے۔ اپنے ان مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے بھارت کی کوشش یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اس کی قانونی اور آئینی بنیادوں سے بیگانہ کردیا جائے۔

اس مقصد کے لیے ان حلقوں کی طرف سے کبھی مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بجائے ثالثی کے ذریعے حل کرنے کی تجویز سامنے آتی ہے اور کبھی مذاکرات کی ، کبھی ’’تھرڈ آپشن‘‘ اور کبھی خودمختار کشمیر کا،کبھی تقسیم کشمیر کی بات کی جاتی ہے اور کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں تحریک آزادی کشمیرکی راہ میں رکاوٹ ہے اور کبھی یہ کہ یہ قراردادیں کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے خلاف ایک سازش ہیں، غرضیکہ مختلف حیلوں بہانوں سے کشمیری عوام کو مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہٹ کرکوئی ’’دوسرا حل‘‘ تسلیم کرنے پر تیار کیا جا رہا ہے اور اس کے لیے بھارتی حکمران بھی اپنا پورا زور صرف کر رہے ہیں۔

آخرکب تک انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں چپ رہیں گے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ کشمیریوں کو اقوا م متحدہ کی قرارداد کے مطابق استصواب رائے کا حق دیا جائے۔ کشمیریوں کو ان کو اپنی مرضی کے مطابق زندہ رہنے کا موقع فراہم کیا جائے اور مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل کیا جائے۔کشمیری شہدا کا خون ضرور رنگ لائے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کا سورج جلد طلوع ہوگا۔ وہ وقت قریب آ گیا ہے کہ بھارت کے لیے کشمیریوں کو زیادہ دیر تک غلام بنا کر رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔

The post آزادی کا سورج جلد طلوع ہوگا appeared first on ایکسپریس اردو.

واقعہ معراج اور کائنات کی روحانی تعبیر

$
0
0

توحید، رسالت اور آخرت، اسلامی تعلیمات کے بنیادی نکات ہیں۔ رسول اکرمؐ کا تیرہ سالہ مکی دور، انسان کے عقل و حواس اور دل و نگاہ سے انھی ابدی حقیقتوں، صداقتوں اور سچائیوں کو تسلیم کروانے میں بسر ہوا۔

ان بنیادی نکات کی دعوت میں آپ کو ایسے ایسے مصائب و شدائد کا سامنا کرنا پڑا جن کے تصور سے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن آپؐ نے صبر و استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور دعوت حق سے منہ نہ موڑا۔ مکی زندگی آپؐ کی اخلاقی بلندی کی بین دلیل تھی۔ اس دور کی انتہا اور مدنی زندگی کی ابتدا کے دوران ’’واقعہ معراج‘‘ آپؐ کی روحانی بلندی کے ثبوت میں پیش کیا گیا۔

مکہ سے سایہ رحمت رسالتؐ کے رخصت ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے واقعہ معراج آخری حجت کے طور پر کفار مکہ کے سامنے پیش کیا تاکہ جو زندہ رہنا چاہے بینات کے ساتھ زندہ رہے اور جو مرنا چاہے بینات کے ساتھ مرے۔ آپؐ کی صداقت اور امانت کو تسلیم کروانے کے بعد آپؐ کی رسالت اور توحید اور آخرت کو منوانے کی عقل سلیم اور دل بینا کے لیے یہ آخری حجت تھی۔ کیونکہ اب آپؐ کا دور مکی اختتام پذیر ہوا ہی چاہتا تھا۔ وہ لوگ جو علم نہیں بلکہ تجربہ اور مشاہدہ کے قائل ہوتے ہیں۔ کہنے پر نہیں، دیکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔

انھی کے عطا کردہ صادق اور امین خطاب یافتہ انسان نے جو کچھ اب تک کہا تھا اور ان کے کانوں نے اس کی زبان مبارک سے جو کچھ سنا تھا۔ انھی باتوں کے متعلق آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہا ہے تاکہ حجت تمام ہوجائے۔ تشکیک اورتکذیب کی بھول بھلیوں میں کھویا ہوا انسان تصدیق کی راہ ہدایت اختیار کرکے اپنے رب سے ملاقات کرے۔ واقعہ مراج انسان سے مطالبہ کرتا ہے:

نکل جا عقل سے آگے کہ یہ نور

چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے

جہاں عقل کی انتہا ہے وہاں سے معراج کی ابتدا ہے۔ انسان کے ذہن کی آزمائش کا سامان ہے ایمان اور عشق کا امتحان ہے۔ اللہ کا فرمان ہے کہ:

’’ہم نے اس معراج کو معیارِ آزمائش ٹھہرایا ہے‘‘ (القرآن)

اللہ دیکھنا چاہتا ہے کہ انسان اس واقعہ معراج سے بمثل پروانہ شمع ایمان کی طرف آتا ہے یا شمع کفر کی طرف جاتا ہے اس سے ہدایت پکڑتا ہے یا ضلالت کی دلدل میں پھنستا ہے، اسے خواب تصورکرتا ہے یا حقیقت اور اللہ کی قدرت سمجھتا ہے۔

اسی طرح واقعہ معراج کا تعلق ان مومن لوگوں سے ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات پر یقین کامل رکھتے ہیں اس کی ذات اور صفات پر شک نہیں کرتے بلکہ اس کی ہر بات کو سچ سمجھتے ہیں۔ اسلام نام ہے تسلیم کا (یعنی بلا چوں و چرا فرمانبرداری) اور تسلیم ہے یقین اور یقین نام ہے تصدیق کا اور تصدیق کے ضمن میں سب سے اول اور سب سے آخر نام نامی اسم گرامی ہے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنھوں نے واقعہ معراج بزبان رسالت نور عقل سے گزر کر دل کی نگاہ سے دیکھا اور سنا اور برجستہ پکار اٹھے صدقت یا رسول اللہ۔

واقعہ معراج میں وجود باری تعالیٰ اور اس کی صفات کاملہ خصوصاً سبحان اور قدیر کی واضح نشانیاں موجود ہیں اور قرآنی آیت ’’بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘ کی عملی تعبیر ہے۔واقعہ معراج کے ذریعے حیات اور کائنات کی روحانی تعبیر پیش کی گئی ہے تاکہ انسان اپنی عقل سے حیات اور کائنات کی مادی حقیقت کا پردہ غفلت و جہالت اتار کر اپنی اخروی سعادت کا سامان کرے۔ محبوب خدا کے تجربے اور مشاہدے میں یہ بات لائی گئی کہ انسان کا ہر عمل نیک ہو یا بد اپنا اثر اور وزن رکھتا ہے اور محفوظ رہتا ہے۔ تاکہ آپؐ کے تجربے اور مشاہدے پر یقین کرکے انسان زندگی کی اصل سمجھ سکے اور عقل عبرت پکڑ کر زاد راہ سفر کے لیے نیکیوں کا انتخاب اور بدیوں سے اجتناب کرے۔

عالم برزخ میں آپؐ کو شہیدان راہ حق کی جزا، تاریک الصلوٰۃ و زکوٰۃ، زانی اور زانیہ، گمراہ کرنے والے واعظ، حرام خور، یتیم خور، سود خور اور چغل خور وغیرہ کی حالت زار کا عینی مشاہدہ کرایا گیا۔ تاکہ صادق و مصدوق کی عینی شہادت کے بیان کو سن کر آنکھوں والے عبرت پکڑیں اور اپنی زندگی کو سنجیدگی کے ساتھ نیکی کی راہ پر چلائیں۔

جنت اور دوزخ دکھائی گئی۔ آپؐ نے دیکھا کہ غربت اور جنت میں نسبت خاص ہے آپؐ نے فرمایا ’’میں نے دیکھا، جنت کے مکانات موتی جیسے تھے اس کی مٹی میں بھینی بھینی خوشبوکی مہک تھی۔ جو لوگ غربت کی وجہ سے دنیا میں برباد رہے وہ کثرت سے وہاں آباد تھے جنھیں دنیا والے نظر تحقیر سے دیکھتے تھے۔‘‘

اور دوزخ کے متعلق آپؐ نے فرمایا ’’اس میں زیادہ تر عورتوں کو دیکھا‘‘ جب صحابہ کرامؓ نے وجہ دریافت کی تو آپؐ نے فرمایا ’’نعمت شکر سے محرومی۔ اگر تم عورت کا دامن خوشیوں سے بھر دو لیکن اگر کبھی وہ تمہارے کسی رویہ سے ناراض ہوجائے تو فوراً شکر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے گی اور فوراً تمہارے احسانات کو بھول جائے گی اور چیخ اٹھے گی ’’میں نے تمہارا اچھا سلوک دیکھا ہی نہیں۔‘‘(مفہوم احادیث)۔

یہ تو چند جزئیات خیر و شر کے مشاہدات تھے جس سے دل مومن کلیات خیر و شر کے انجام کا بخوبی اندازہ لگاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ واقعہ معراج میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں اور عبرت پکڑنے کا سامان ہے۔

جب اللہ کی نشانیاں اور مختلف عجائبات قدرت، عالم برزخ، جنت اور دوزخ کا مشاہدہ کرنے کے بعد مختلف منازل و مراحل و مقامات سے گزر کر مقام قاب قوسین و ادنیٰ پر پہنچے تو اپنے رب کریم غفور و رحیم کے سامنے حمد و ثنا کا یہ تحفہ پیش کیا:

’’سب زبانی، سب بدنی اور سب مالی عبادتیں صرف اللہ کے لیے ہیں۔‘‘

اس حمد و ثنا کے جواب میں آپ کی شان میں رب دو جہان نے فرمایا:

’’اے نبیؐ تجھ پر اللہ کا سلام اور اس کی رحمتیں اور برکتیں۔‘‘

اپنے اوپر فضل و کرم کی برسات دیکھ کر رؤف و رحیم رسول کریمؐ کو اپنی امت کا خیال آیا اور آپؐ کے لبوں پر دل کی تمنا دعا بن کر اس طرح آئی:

’’سلام ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر۔‘‘

ملائکہ نے جب رحمت اور شفقت کی اس دو بدو گفتگو کو سنا تو پکار اٹھے:

اشھد ان لا الٰہ الا اللہ و اشھد ان محمدًا عبدہ و رسولہ

یہی وہ عبد اور معبود کے درمیان سلسلہ تکلم ہے جس کو آپؐ کی امت کا ہر فرد نماز  میں اول و آخر میں دہراتا ہے۔

دیدار الٰہی اور شرف ہمکلامی کے بعد وقت رخصت بارگاہ صمدیت سے بارگاہ رسالت کو تین تحائف پیش کیے گئے:

اول سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات جو ایمانیات کا اعادہ ہیں۔

دوم پنج وقتہ اقامت صلوٰۃ جو اللہ کی یاد دل میں آباد رکھنے کا نسخہ رحمانی ہے۔

سوم یہ روحانی رحمت کی نوید مسرت کہ آپؐ کی امت میں جو بھی فرد شرک سے اجتناب کرے گا وہ مغفرت کی امید سے مایوس نہ ہو اور جو شخص نیکی کی نیت کرے اور نہ کرسکے تو ایک نیکی کے اجر کا اہل ہوگا اور اگر نیکی پر عمل کرے گا تو ایک کی دس لکھی جائے گی اور اگر کوئی شخص بدی کی نیت کرے مگر اس پر عمل نہ کرے تو وہ ایسا ہی رہا گویا اس نے بدی کی ہی نہیں اور اگر بدنیتی پر عمل کیا تو ایک ہی بدی لکھی جائے گی۔

یہ تو تھا معراج کا روحانی فلسفہ لیکن اس میں شرف و عظمت انسان کا نشان بھی ملتا ہے۔ معراج، انسان کی مادی ترقی کی جادہ پیمائی کی بانگ درا ہے کہ آنے والا دور مادی ترقی اور عروج کا دور ہوگا۔ ہمت والے، حکمت والے مادی ترقی کی عظمتوں کو چھولیں گے ستاروں پر کمند ڈالیں گے۔ تسخیر کائنات، عقل و حکمت کی مٹی میں ہوگی اقبال نے کیا خوب کہا ہے:

سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ سے ہمیں

کہ عالم بشریت کی زد میں ہیں افلاک

یہ سب معراج ہی کی حقیقت کو پا لینے اور سمجھ لینے کا نتیجہ ہے کہ آج انسان سمندر میں مچھلی کی طرح تیر رہا ہے فضا میں پرندوں کی طرح اڑ رہا ہے ذرات کا جگر چیر کر توانائی حاصل کر رہا ہے براق نما برق رفتار تیز فضائی سواریاں ایجاد کر رہا ہے۔ لیکن واقعہ معراج میں یہ حقیقت بھی نہاں ہے کہ ہمت والے، حکمت والے اگر اللہ والے نہ ہوئے ان کی حکمت کی بنیاد ایمان نہ ہوئی تو یہی انسان کا مادی عروج اس کے زوال، ہلاکت گویا قیامت کی دعوت بھی ہوگی۔

The post واقعہ معراج اور کائنات کی روحانی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.

عوام کہاں کریں فریاد

$
0
0

اس بیان سے حکمرانوں کی بے بسی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب عوام کی فریاد سننے اور مسائل حل کرانے کی ذمے دار حکومت کا سربراہ ہی کہے کہ ہاں میں فریادی ہوں اور ملک کی فریاد لے کرگیا تھا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار بھی کہہ چکے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی بھی سائل فریاد لے کر آئے گا تو ہمیں اس کی فریاد اور شکایت ضرور سننی ہے۔

اعلیٰ عدلیہ اور عدالتی سربراہ ایک نہیں کئی بار بلکہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ جب حکومت اور سرکاری ادارے کام نہیں کریں گے یا من مانیاں، اقربا پروری اور غیر قانونی کام کریں گے انسانوں کے بنیادی حقوق متاثر ہوں گے تو عدالتوں کو آئین میں رہتے ہوئے مداخلت اور متاثرین کو ان کے قانونی حقوق دلانے کے احکامات دینے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ایک بار پھر کہا ہے کہ اگر انتظامیہ اپنا کام نہ کرے تو کیا عدلیہ کا نوٹس لینا مداخلت ہے۔ اپنی شکایات اور مسائل کے لیے روزانہ سائل آتے ہیں تو میں کسی کو روکتا نہیں کسی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ انھوں نے ایک سینئر وکیل کو کہا کہ آپ اور عوام چاہتے ہیں کہ میں کچھ کروں لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ کچھ نہ کرو۔ اب میں مظلوموں کی فریاد سنوں یا بعض لوگوں کی باتیں سن کر خاموش رہوں ۔

پنجاب کے علاقے حجرہ شاہ مقیم میں گندی گلی سے جنازہ نکالے جانے کی ایک تصویر پر لیے گئے ازخود نوٹس کیس میں چیف جسٹس نے کہا کہ ایگزیکٹیو اپنا کام نہیں کرے گی توکیا عدلیہ کا نوٹس لینا مداخلت ہے۔ کیا بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عدلیہ کا نوٹس لینا غلطی ہے؟

چیف جسٹس پاکستان نے جو کچھ کہا وہ سو فیصد درست اور حکومت اور انتظامیہ سے مایوسی عوام کے دل کی آواز ہے جو خود ملک میں یہ سب کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں اور مجبوری میں خاموش ہیں کہ وہ فریادوں اور شور کے سوا کچھ کر نہیں سکتے۔ بس عام انتخابات میں آزمائے ہوئے پرانے سیاستدانوں پر ہی اعتماد کیے جاتے ہیں جنھوں نے کئی کئی باریاں لے کر اقتدار میں آکر دعوؤں اور جھوٹے وعدوں کے سوا کچھ نہیں کیا۔

عوام ایک صوبے میں حکمرانی کے پانچ سالوں میں کوئی قابل ذکر اور مثالی کارکردگی نہ دکھا کر وزیر اعظم بننے کے لیے بے چین سیاستدان سے بھی امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں مگر ان کے قول و فعل میں نمایاں فرق دیکھ کر سوچتے ہیں کہ اب کس پر اعتبار کریں۔ پنجاب اور سندھ کے بعد چیف جسٹس نے حالات دیکھنے کے پی کے جانے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد نیا پاکستان بنانے کے دعویداروں کا جھوٹ اور سچ بھی سامنے آجائے گا۔

سندھ اور پنجاب میں چیف جسٹس نے اسپتالوں کے دوروں میں علاج فراہمی کی حکومتی سہولتیں دیکھ لیں اور سندھ میں چار ہزار اسکولوں میں صاف پانی اور ٹونٹیوں کا نہ ہونا بھی دیکھا اور سوٹ پہننے کے شوقین وزیر اعلیٰ سے بھی پوچھا تھا کہ کیا وہ میرے ساتھ ایک گلاس یہ آلودہ پانی پینا پسند کریں گے جو ان کے صوبے کے عوام پی رہے ہیں اور اپنے جسموں میں بیماریاں پال رہے ہیں۔

سندھ میں بدتر صورتحال پر اگر سپریم کورٹ نے واٹر کمیشن نہ بنایا ہوتا تو یہ تلخ حقائق اور کرپشن سامنے نہ آتی کہ سندھ کا محکمہ بلدیات اور عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے والے ادارے اور افسران دس سالوں سے کر رہے ہیں اور سندھ حکومت بڑی ڈھٹائی سے ترقی کے دعوے اور اشتہاری ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے۔

راولپنڈی اور لاہور میں زیر زمین پانی کس قدر آلودہ ہوچکا ہے وہ بھی عدلیہ اور میڈیا کے سامنے آچکا ہے۔ چلنے پھرنے کے قابل لوگ تو میٹرو بسوں، اورنج ٹرینوں اور گرین بسوں میں سفر کرلیں گے مگر حکومتی لاپرواہی سے بیماریوں میں مبتلا لاکھوں بیمارکیسے سفر کریں گے یہ کوئی بھی نہیں بتا سکتا۔

عدالتوں سے سوال کیا جاتا ہے کہ وہ سیاسی و انتظامی معاملوں کی بجائے ان اٹھارہ لاکھ سے زائد زیر التوا مقدمات کیوں نہیں نمٹا رہیں جو سالوں سے زیر سماعت ہیں اور چیف جسٹس کے علم میں بھی ہیں مگر چیف جسٹس کو ان لاکھوں مقدمات کے ساتھ کروڑوں عوام کو درپیش بنیادی مسائل کو بھی دیکھنا پڑ رہا ہے کہ جن کی وجہ سے عوام عذاب میں مبتلا ہیں جن کی ذمے دار عدلیہ نہیں حکومتیں، سیاستدان اور متعلقہ ادارے ہیں جنھوں نے ووٹ لینے کے بعد عوام کے دکھوں کا احساس کرکے ان کے حل پر توجہ دی ہوتی تو چیف جسٹس کو مضر صحت پانی کی فراہمی، علاج کی سہولتوں کے فقدان، حکومتی بد انتظامیوں اور من مانیوں پر توجہ نہ دینا پڑتی ۔

سیاستدانوں نے سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں طے کرلیے ہوتے اور وہ خود سپریم کورٹ کو ان سیاسی معاملات میں ملوث نہ کرتے تو صورتحال مختلف ہوسکتی تھی مگر حصول اقتدار کے لیے عدلیہ کو سیاسی کیچڑ میں پھنسایا گیا تو دیگر معاملات بھی کھل کر سامنے آگئے۔

وزیر اعظم کو تو چیف جسٹس نے حکومتی فریاد سنانے کے لیے ملاقات اور دو گھنٹے دے دیے کیونکہ دونوں صاحب اقتدار ہیں مگر اقتدار کے لیے صرف ووٹ دینے والوں کے لیے وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ، ارکان اسمبلی اور سرکاری افسروں کے پاس وقت نہیں ہے تو عوام اپنی فریاد لے کر کس کے پاس جائیں۔ حکمرانوں کی نام نہاد کھلی کچہریاں ختم ہوچکیں ۔ دہشت گردی سے خوفزدہ حکمران عوام سے دور جا چکے۔

عدالتوں سے انصاف حاصل کرنا کتنا مہنگا اور طویل ہے اس کا پتا تو نواز شریف کو نا اہل ہوکر چلا ہے۔ کراچی میں ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے والی کے الیکٹرک کو تو کوئی بھی نہیں پوچھ رہا کہ وہ وفاقی محتسب کے فیصلوں پر عمل کیوں نہیں کر رہی اور وفاقی حکومت کی اس بے بسی پر بھی عوام عدلیہ کا ازخود نوٹس چاہتے ہیں کہ جن سے اربوں روپے اضافی بلنگ کے ذریعے لوٹ لیے گئے ہیں۔

The post عوام کہاں کریں فریاد appeared first on ایکسپریس اردو.

دور موجود کو کیا نام دوں

$
0
0

قصورکی معصوم زینب کے واقعے پر جو شور ہوا اور پھر جس قدر پھرتی سے اس کے قاتل کو گرفتار کیا گیا، اس سے عوام کو امید ہوچلی تھی کہ اب شاید ایسے واقعات کی سنجیدگی سے روک تھام ممکن ہوگی، مگر اب اندازہ ہو رہا ہے کہ یہ پھرتی، یہ اعلیٰ کارکردگی شاید زیادہ شور مچ جانے اور ذرایع ابلاغ کے اس افسوسناک واقعے کو اجاگر کرنے کے باعث حکومت پنجاب نے اس بے رحمانہ قتل کو بھی 2018 کے انتخابات میں خود کو عوام دوست ثابت کرکے عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ہی استعمال کیا۔

ایسے واقعات کا سدباب کرنا شاید ان کا مقصد تھا نہ ارادہ ۔ جیسا کہ کئی لکھنے والوں نے لکھا کہ زینب کا سانحہ نہ پہلا تھا اور نہ آخری۔ ملک کے طول و عرض میں ایسے واقعات زینب کے قاتلوں کو سزا دیے جانے کے بعد بھی خاصی تعداد میں رونما ہوئے ہیں، کراچی سے خیبر تک ایسے حادثات کا تانتا بندھا ہوا ہے، اندازاً پنجاب میں ان حادثات میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔

بن کھلی کلیوں کو پاؤں تلے روندھنے کے علاوہ نوجوان لڑکیوں، طالبات کو اغوا کرنے، بے حرمتی کے بعد قتل جیسے بھیانک جرائم کا سدباب لگتا ہے کہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والوں کے لیے ایک کھلا چیلنج بن چکا ہے۔

معاشرہ جس اخلاقی انحطاط کا شکار ہے اس پر غور و فکر کرنے اور آنے والے تلخ و بھیانک دور کے لیے نئی منصوبہ بندی کرنے کا خیال بھی کسی کو نہیں ہے، فی الحال تو کیا سیاسی اور کیا مذہبی جماعتیں سب آیندہ انتخابات میں حصول اقتدار کی دوڑ میں لگی ہوئی ہیں۔ جانے یہ سب کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس دوڑ میں وہی کامیاب ہوسکتا ہے جو عوام کے مسائل حل کرے، اقتدار حاصل کرنے کے بعد نہیں اس سے قبل، کیا بلااقتدار عوام کی خدمت کرنا کسی مذہب میں ممنوع ہے؟

کاروکاری، وٹہ سٹہ، ونی، غیرت کے نام پر، جرگہ کے فیصلے، جاگیردار اور وڈیرے و سرداروں کے حکم پر جو ظلم صنف نازک پر ہوتا رہا وہ تو ہمارے معاشرے کی پسماندگی کا عکاس ہے ہی۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ملک کی نصف سے زائد آبادی کے ووٹ کے حصول کے لیے تو ہر سیاسی جماعت سرگرم نظر آتی ہے، مگر ان ووٹرز (خواتین) کے حقوق و مسائل پر کوئی سنجیدہ ہونے کو تیار نہیں، ایئرکنڈیشن ہوٹلوں میں حقوق نسواں ، معاشرے میں عورت کا کردار پر تو بڑے بڑے سیمینار منعقد ہوتے ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی بیگمات نئے جوڑے پہن کر بیوٹی پالرز سے میک اپ اور ہیئر اسٹائل بنوا کر ذرایع ابلاغ کے سامنے بڑے بڑے دعوے کرتی ہیں۔

پارٹی کے کچھ سرکردہ حضرات بھی ان کی حمایت میں پرجوش بیانات داغتے ہیں مگر کیا عملی طور پر وہ معاشرے کی محنت کش خواتین کے لیے واقعی کچھ کرتے ہیں، ان سیمینار، تقاریر اور بیانات سے صرف ایک مخصوص طبقہ ہی آگاہ ہوپاتا ہے وہ بھی صرف ’’آگاہ‘‘ مسائل اپنی جگہ نہ صرف باقی رہتے ہیں بلکہ ان میں ہر آنے والے دن میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔

سیاسی جماعتوں نے تو اپنا مطمع نظر بلکہ لائحہ عمل اپنے مخالفین کو سرعام رسوا کرنا اور دنیا کا ہر عیب مخالفین کی ذات سے منسوب کرنا بنا لیا ہے۔ اب چاہے اس کے لیے انھیں گالیاں ہی دینی پڑیں، مخالف کے خاندان کے گڑھے مردے اکھاڑنے پڑیں یا ان کی بہو بیٹیوں پر بہتان تراشی کرنی پڑے اس حقیقت سے بے خبر کہ جواب میں اس سے زیادہ سخت ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔

ساری سیاست ہی معاشرے کو آلودہ کرنے اور حصول اقتدار کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرنے پر تندہی سے مصروف ہے۔ اپنے مطالبات کے لیے مظاہرے، جلسے، جلوس اور روز مداریوں کا تماشا لگانا جس میں بعداز اقتدار وہ وہ دعوے کرنا کہ الامان الحفیظ، مگر کسی بھی سیاسی جماعت (حکمران جماعت سمیت) نے آئے دن زیادتی اور قتل کے ان واقعات پرکوئی احتجاج، کوئی ہڑتال ، کوئی واک یا مظاہرہ کرنے کی ضرورت محسوس کی؟

جہاں تک مذہبی جماعتوں کا تعلق ہے (جو مذہب کے نام پر سر تاپا سیاست میں آلودہ ہیں) وہ خواتین کے لیے حدود و قیود پر تو ہر وقت کمربستہ رہتی ہیں مگر ان کے حقوق و احترام پر منہ پر تالے پڑ جاتے ہیں ۔ تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ اسلام جیسے عالمگیر دین میں شاید خواتین کے حقوق ہی نہیں، انھیں صرف پالتو جانور تصور کیا جاتا ہے، جو دین اسلام کی کھلی توہین کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات ’’انسان‘‘ کو قرار دیا ہے صرف مردوں کو نہیں۔

آج ہمارا معاشرہ جس ’’مذہبی حبس‘‘ اور طبقاتی تقسیم کا شکار ہے اس میں غریب طبقہ جہاں اور سب معاشرتی محرومیوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، وہاں عزت و ناموس بھی اسی طبقے کی زیادہ تر خطرے میں رہتی ہے، ایک جانب مذہبی طور پر ان کا استحصال دوسری جانب طبقاتی اور پھر قبائلی رسم و رواج ہر جانب سے یہ طبقہ ہی ہر زیادتی کا شکار ہوتا ہے۔

ونی، کاروکاری، جرگہ کے علاوہ ہوس پرست جاگیردار اور ان کے مراعات یافتہ صاحبزادگان سے غریب اپنی بہو بیٹی کو کیسے بچا سکتے ہیں نہ ان کے پاس حفاظتی اسکواڈ ہوتا ہے نہ قانون کے محافظ وڈیرے سے ٹکر لے کر ان کی حفاظت کرنے پر آمادہ۔ غریبوں کے مردوں کے جرائم کی سزا بھی ان کی عورتوں (بیٹیوں، بہنوں) کو ملتی ہے آئے دن ایسے شرمناک جرگہ، پنچایت کے فیصلے ذرایع ابلاغ کی زینت بنتے رہتے ہیں کہ بھائی کی غلطی کی سزا، اس کی بے گناہ بہن، باپ کے جرم کی سزا اس کی معصوم نو عمر بیٹی کو دی گئی۔

یہ سب کچھ معاشرے میں کھلم کھلا ہو رہا ہے۔ کیا کسی سیاسی، مذہبی رہنما نے اس پر احتجاج کیا، جلوس نکلا، دھرنا دیا؟ غریب تو یوں بھی اعلیٰ طبقے کا غلام، زرخرید ہوتا ہے تو بھلا اس کی عزت بھی کوئی عزت ہوتی ہے؟

The post دور موجود کو کیا نام دوں appeared first on ایکسپریس اردو.

وہ کہاں ہے جو انگریز لے جاتے تھے

$
0
0

فیشن ایبل ’’دانش و فلسفہ‘‘ کی با ت کی جا ئے تو ماشاء اﷲ خیر سے اپنا پاکستان بھی ’’یونان‘‘ بنا ہوا ہے۔ خدا نظر بد سے بچائے گلی گلی کو چہ کوچہ بلکہ چینل چینل اور اخبار اخبار ، دانش و فلسفہ کے دریا بہائے جا رہے ہیں بلکہ سمندروں کو کالموں اور ٹاک شوز کے ’’کوزوں‘‘ میں بند کیا جارہا ہے ۔

فیشن ایبل ’’دانش‘‘ در اصل حکمرانیہ اور اشرافیہ کا ہی ’’بغل بچہ‘‘ ہوتا ہے، اس کا کام ہی عوام کو قصائی کے حوالے کرنا ہوتا ہے اور اگر تاریخ میں کھو جایا جائے تو اس فیشن ایبل عرف ابلاغیہ کا رشتہ اس پروہت یا برھمن سے جا ملتا ہے جس نے پہلے پہل تلوار کے ساتھ ساجھے داری کا آغاز کیا تھا۔ حکمران اشرافیہ نے بھی اسے ہنسی خوشی اپنا پارٹنر بنایا کہ عوام کا لانعام میں ’’جسم‘‘ کے ساتھ ساتھ ایک ’’ذہن‘‘ بھی پیدا ہونے لگا تھا اور اسے قابو کرنے کے لیے ’’تلوار‘‘ ناکافی پڑ رہی تھی، پھر اسے اپنا پارٹنر پروہت برھمن یا مذہبی پیشوا کے روپ میں مل گیا ، یوں تین طبقوں کھشتری، ویش اور شودر کے ساتھ کے ساتھ چوتھا طبقہ برھمن کی بھی تشکیل پا گیا جسے دوسری اصطلاح میں ’’اہل شریعت‘‘ بھی کہا جاتا ہے، جس کا کام حکمران کے ہر کام کے لیے دین سے جواز پیدا کرنا ہوتا ہے اور بدلے میں حکمران اسے بھی اجازت دیتا ہے کہ تو بھی لوٹ مچا لے۔یہ فیشن ایبل دانش بھی اسی دوسرے ساجھے دار کے تنے سے پھوٹی ہوئی شاخ ہے جسے آج کل ’’ابلاغیہ‘‘ کہتے ہیں جس کا کام آج کل ’’شوشے‘‘ چھوڑ چھوڑ کر حکمرانیہ اوراشرافیہ کو عوام الناس سے بچانا ہوتا ہے۔

اسی فیشن ایبل اورمصنوعی دانش میں آج کل ’’نو آبادیاتی نظام‘‘ یعنی کالونیلزم پر بھی زیادہ فوکس کیا جا رہا ہے لیکن ڈنڈی یہ ماری جاتی ہے کہ نو آبادیاتی سلسلہ انگریزوں تک ہی رکھا جاتا ہے۔ ورنہ اگر حقیقت کھوجی جائے تو ’’نوآبادیاتی‘‘ سلسلے کا آغاز اس وقت سے ہوتا ہے جب ہند میں خانہ بدوش تلوار بازوں نے ورودکیا ہے جنھیں آریا کہا جاتا ہے۔ اور ان  خانہ بدوشوں نے ہند میں پہلے سے آباد باشندوں کو مغلوب کرکے ویش اور شودر کا درجہ دے دیا۔ یوں ان پر حکمرانی کا آغاز کیا۔ کم از کم گنگا جمنا تک تو ایسا ہی ہوا۔

یہ ہند میں پہلا ’’نو آبادیاتی‘‘ سلسلہ تھا، اس کے بعد ایک طویل سلسلہ ہے کہ پوری دنیا سے لوگ آتے ہیں اور اس سرزمین میں حکمران بن کر نو آبادیاتی سلسلہ چلاتے رہے۔ تا آں کہ یہ سلسلہ مغرب کے بجائے مشرق سے بھی شروع ہوا اور یورپی اقوام جہازوں میں بیٹھ کر پانی کے راستے آ پہنچی۔

اور اس نو آبادیاتی یا کلونیلزم کا سلسلہ شروع ہوا جس پر ہندوستان اور پاکستان میں آج کل بہت زیادہ دانش بگھاری جاتی ہے۔  انگریزی سامراج اور نو آبادیاتی نظام پر سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ وہ مختلف ملکوں پر قبضہ کرکے وہاں کی دولت اور وسائل کو لوٹ رہے تھے اور یہ سچ بھی ہے بلکہ یہی سچ ہر حکمرانیہ پر منطبق ہوتا ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب یا قوم و نسل یا ملک و براعظم سے ہو ، حکمران، حکمران ہوتا ہے اور وہ حکمران کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔

ہندو نہ مسلم نہ سکھ نہ عیسائی اور نہ ہی آریا یونانی یا ترک وغیرہ جو پندرہ فیصد ہو کر بھی پچاسی فیصد پر سوار ہوتا ہے۔ توانگریز بھی لوٹ رہے تھے، چلیے مان لیتے ہیں کہ سب سے زیادہ لوٹ رہے تھے۔ لیکن اصل سوال اب سامنے آنے والا ہے جواب کے لیے تمام فیشن ایبل دانش کو تیار کر دیجیے ۔ کہ ستر سال سے تو انگریز نہیں ہیں۔ وہ توبڑے ظالم تھے، ریلوے پٹڑیاں بچھا کر سڑکیں بناکر، سرنگیں کھود کر، نہریں نکال کر، واپس انگلستان چلے گئے۔ اگر انھوں نے بے تحاشا لوٹ مار کی ہوتی تواس سرزمین کے باسی بھکاری بن جاتے لیکن ایسا نہیں تھا۔

حساب کتاب جو فیشن ایبل دانش والوں نے ’’کتابوں‘‘ میں دکھایا ہے، وہ تو بہت زیادہ ہے، اصولی طور پر تو اب ’’اپنے ہاتھ‘‘ میں آ جانے پر ان ممالک کو ’’مالامال‘‘ ہونا چاہیے تھا کہ ساتھ ہی ان کو ایک نیا ذریعہ آمدن بھی ملا ہے۔ پلوں سڑکوں شہروں پر ٹیکس کا ذریعہ آمدن تو نیا ملا ہے۔ تو ’’یہ‘‘ اور ’’وہ‘‘ کل ملا کر دولت کا ایک بہت بڑا ڈھیر ان ممالک بلکہ ’’ا س‘‘ ملک میں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن کہاں؟ ہاں البتہ قرضے کے بڑ ے بڑے پہاڑ ہیں جو ان باسیوں کے کاندھوں پر دھرے ہوئے ہیں جنہوں نے ظالم، غاصب ڈاکوؤں اور نو آبادیاتی والوں سے ’’آزادی‘‘ حاصل کی ہوئی ہے۔ آزادی و آبادی و دلشادیٔ انسان۔معلوم نہیں وہ کون سا لٹیرا چپکے سے آگیا اور ہماری اس گٹھڑی کو لے گیا جس میں ہم نے انگریز لٹیرے سے بچایا ہوا اندوختہ رکھا تھا۔

سفید چور تو نہیں تھاکیونکہ سفید چور کو تو ہم نے بھگا دیا تھا، یہ شاید کوئی ’’کالا چور‘‘ ہو گا جو کالے جادو کا بھی ماہر لگتا ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہی اس نے ہمارا سب کچھ چرا لیا۔ ایک نو آبادیاتی دانش مند نے بتایا ہے کہ انگریز ہمارا اتنا مال لوٹتے تھے کہ وہاں بینک اور قرضہ دینے والے گلی گلی پھر کر نعرے لگاتے تھے کہ قرضہ لے قرضہ لے لو لیکن کوئی قرضہ لینے والا ملتا نہیں تھا اور کیسے ملتا کہ ہر کوئی ہمارے ’’مال‘‘ سے مالا مال ہو رہا تھا اور ابھی تک ’’مالا مال‘‘ ہے۔

ذرا فیشن ایبل دانش والے جو نو آبادی نظام کی خرابیوں پر بڑی بڑی کتابیں لکھ چکے ہیں اور لکھ رہے ہیں اس کے ہر ہر پہلوں اور ہر ہر خرابی پر پی ایچ ڈی کر چکے ہیں کہ وہ ’’مال‘‘ کہاں ہے جواب نہیں لوٹا جا رہا ہے۔ ستر سال تو ہو گئے لیکن ’’گھر والوں‘‘ کو ’’تھانے‘‘ سے اپنا بازیافت شدہ سامان نہیں ملا ہے کہیں تھانے والے تو نہیں ڈکار گئے؟ لیکن تھانے والے تو ہمارے ہمدرد ہیں، ہمارے غم میں دوڑ دوڑ کر اتنے دبلے ہوگئے ہیں کہ دکھائی ہی نہیں دیتے نو آبادی نظام پر لعنت۔لیکن اس’’خود آبادیاتی‘‘ نظام پر کیا؟۔

یہاں تو خیر ابھی قرضوں کے حساب کتاب سے فراغت نہیں ملی ہے لیکن پڑوسی ملک کے کچھ بندوں نے باقاعدہ حساب کتاب لگا کر کہاہے کہ انگریز لوگ جتنا مال ہم سے دو سو سال میں لے گئے تھے، اس سے چار گنا مال اس ستر سال کے عرصے میں جا چکا ہے ،کون لے گیا ہے، یہ ذرا فیشن ایبل اور مصنوعی دانش والے بتائیں گے؟ ۔

The post وہ کہاں ہے جو انگریز لے جاتے تھے appeared first on ایکسپریس اردو.


اسٹوڈنٹس یونین طلبہ حقوق کی چیمپئن

$
0
0

اس بات میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ انسان کو اپنی تکلیف کا احساس ہر عمر میں ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کم عمری میں جب اس کو تکلیف کے اظہار کا طریقہ معلوم نہ ہو تو صرف رو روکر اظہارکرتا ہے۔ یہ وہ عمر ہے جب وہ چند ماہ کا ہوتا ہے تو والدین کو بھی نہیں معلوم ہوتا کہ اس کے بچے کی تکلیف کا مقام کیا ہے۔

یہ درد کان میں ہے، ناک میں یا پیٹ میں مگر جوں جوں عمر بڑھتی ہے، شعور اور آگہی میں اضافہ اس کا محافظ ہوجاتا ہے اور میٹرک یا (O) لیول تک آتے آتے اور بعد ازاں اس کو ہارمون کی دستک کے بعد تو تمام ضروریات کا احساس ہوتا جاتا ہے گوکہ اس میں پختگی نہیں ہوتی، اس لیے اس کے احباب اور ارد گرد کا ماحول اس کو مزید تعلیم دیتا ہے۔

شعور اور بلوغیت کی اس عمر تک آنے کے بعد تعلیمی دنیا میں تمام مہذب ملکوں میں اسٹوڈنٹس یونین کا اطلاق ہوتا ہے مگر تقریباً 40 برس ہوگئے ایک آمر نے پاکستان میں طلبہ یونین پر پابندی عاید کردی اور آج تک اس کے بنائے ہوئے آمرانہ دستور پر عمل جاری ہے اور جو بھی بعد میں آیا اس نے جمہور اور جمہوریت کے راگ الاپے مگر بینظیر بھٹو پر اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا کیونکہ انھوں نے کابینہ کی ایک میٹنگ میں اپنے ایک وزیر امیر حیدرکاظمی جو ایک زمانے میں این ایس ایف کے صدر تھے ان سے اس پابندی کو یکسر طور پر ختم کرنے کا وعدہ کر لیا تھا مگر اس میٹنگ کا موضوع کوئی اور تھا، خصوصی طور پر طلبہ یونین نہ تھا، مگر ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور بھٹو کی بیٹی کا یہ چراغ ظالموں نے بجھا دیا پھر کوئی عوامی جمہوری حکومت نہ آئی جو اسٹوڈنٹس یونین بحال کرتی۔

ہاں البتہ سینیٹ کے سابق چیئرمین  رضا ربانی اپنے بیانات میں آئے دن تسلیاں دیتے رہے کہ اسٹوڈنٹس یونین بحال کی جائیںگی۔ تین حکومتیں جمہوریت کے نام پر آئیں مگر ایسا نہ ہوا اور نہ ہوگا کیونکہ حکمرانوں کو معلوم ہے کہ عوام سے سیاسی پارٹیاں تو دغا کرسکتی ہیں مگر اسٹوڈنٹس یونین تو جو کام کرتی ہیں وہ کبھی جزا کی امید نہیں رکھتیں۔ جب کہ سیاسی پارٹیوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں، جب کہ پاکستان کی سیاسی پارٹیاں توکوئی عوامی منشور نہیں رکھتی ہیں۔

ایک پارٹی عوامی منشور رکھتی ہے مگر ان کے لیڈران کرمِ کتابی  بنے ہوئے ہیں۔ میدانِ عمل میں آکر حکمرانوں کو للکارتے ہی نہیں تاکہ عوامی جلسوں میں ان کا منشور طشت از بام ہو۔ جب کہ ایک رہنما جن کا عوام سے کوئی تعلق نہیں وہ رکن سازی کی مہم چلا رہے ہیں اور ان کا انداز عوامی ہے اور لوگ ان کے دام میں اسیر ہو رہے ہیں۔ بقول بلاول بھٹو کے وہ طالبان کے ایک قسم کے ترجمان ہیں۔ ان کا مینڈیٹ وہ نہیں جو قیام پاکستان پر 11 اگست 47ء کو قائد اعظم کا تھا۔

پاکستان کے عوام کو بھلا یہ کیا معلوم کہ فلاحی ریاست کیا ہوتی ہے اور تعلیم و صحت کا بوجھ کیسے اٹھایاجاتا ہے۔ انھوں نے کبھی بھی ایک لفظ اسٹوڈنٹس یونین کے لیے نہ ادا کیا خصوصاً کراچی کے لیے، مانا کہ اس وقت سندھ کے شہری علاقوں کی قیادت بے خبر ہے اور طلبہ کے لیے کوئی رحم کے جذبات نہیں رکھتی اور نہ ہی کوئی اسٹوڈنٹس پارٹی ہے جو ان کے لیے آنسو بہائے۔ جو لوگ شہری علاقوں کے بہی خواہ خود کو کہا کرتے تھے انھوں نے شہر کے پارکوں اور فلاحی پلاٹوں کو ہڑپ کرلیا۔

کراچی کے عوام کے لیے کوئی لیڈر نہیں اور جو لیڈری کے دعوے دار ہیں ان کی فریاد بھی مصنوعی ہے۔ اس لیے کراچی جو پاکستان کا سب سے بڑا انڈسٹریل سٹی ہے یہاں کوئی لیبر پارٹی مصروفِ کار نہیں اور نہ ہی پنجاب میں جس طرح طلبہ کے مسائل پر ہائی کورٹ نے سوموٹو لیا سندھ پر ایسے احکامات کا اطلاق نہ ہوا اور سندھ کے عوام سے دو ماہ کی اسکول فیسوں میں انتظامیہ نے بے رحمی کا خوب عمل کیا۔

ایسا نہیں کہ انھوں نے اساتذہ کو دو ماہ کی یکمشت فیسوں سے کچھ رحم اساتذہ کی تنخواہوں پر بھی کیا ہو۔ ملک میں تنخواہوں کا جو رواج چل رہا ہے وہ قابل افسوس ہے دیکھیے کوئی نہیں جو پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کا دورہ کرکے وہاں ملازمین کی حالت زار کو دیکھے اور طلبہ سے 7 لاکھ روپے سالانہ فیسوں کی کوئی روک تھام کرے اور ان پرائیویٹ کالجوں میں اساتذہ کی تنخواہوں اور وہاں کے کلرک حضرات کی سیلری کا جائزہ لے جن کو بظاہر 12،14 ہزار دیے جاتے ہیں مگر بڑے وثوق سے لکھ رہا ہوں کہ اسٹاف کو دس ہزار سے بھی کم دیے جاتے ہیں مگر وہ وہاں کام کرنے پر مجبور ہیں۔

لہٰذا پڑھے لکھے یہ حضرات اپنی نسل کو جاہل رکھنے پر مجبور ہیں اور دوسری جانب نئے آرڈیننس کے مطابق ایک لاکھ تک کی رقم جو سیلری کی مد میں ہو اس پر ٹیکس کی چھوٹ ہے اور جن کی جائیداد کو کالا دھن قرار دیا گیا ہے ان پر سفید کرنے کے لیے 3 فی صد ٹیکس لاگو کیا گیا ہے جب کہ 4 فی صد ٹیکس لگاکر اس آمدنی کو کلرک اور کم آمدنی والے لوگوں کی مد میں یہ رقم استعمال کی جا سکتی تھی۔

بہر حال اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی معاشی اور اقتصادی صورتحال بڑی دگرگوں ہے کیونکہ روپیہ کی قدر میں مسلسل کمی اس ملک کے حاکموں کی اندھیر نگرقسم کی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ اسی لیے دنیا بھر کے ملکوں میں فیکٹری مالکان یا ہوائی سروسز کے مالکان کو وزیراعظم نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ اگر یہ روا رکھا جائے گا تو قومی ایئر لائن یا دیگر پرائیویٹ اداروں کو اقتصادی مسابقت میں انصاف کا عمل جاری رکھنا مشکل ہوگا۔

اسی لیے پاکستان کی انڈسٹریل پروڈکشن روبہ زوال ہے اور کاٹن ایکسپورٹ اور ملبوسات کی پیداوار میں وہ ممالک آگے نکل گئے جہاں کپاس پیدا نہیں ہوتی جیسے بنگلہ دیش، ظاہر ہے ایسی صورتحال میں ملک بحران در بحران سے گزرتا ہی رہے گا اور انجام کار کیا ہوگا؟

چیف جسٹس جو اقدامات خود اٹھا رہے ہیں وہ وقت کی ضرورت ہے۔ مگر اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ طلبہ تحریک نے 1968ء اور 70ء میں جو عوامی فوائد حاصل کیے تھے سب کے سب چھین لیے گئے ہیں۔ لہٰذا ان مراعات کو واپس لینے کے لیے اسٹوڈنٹس یونین کی واپسی بہت ضروری ہے اور حکمران اسٹوڈنٹس سے اپنے کام لینے کے لیے تنظیموں کی واپسی پر توخوش ہیں لیکن ان کی مثبت قوت کے اجتماع پر ہرگز تیار نہیں ہیں۔ کیونکہ طلبہ یونین کے لیڈران نہ صرف اپنے ادارے کے طلبہ کی فیسوں میں غریب طلبہ کے لیے نصف یا معاف کروانے کے لیے 5 تا 10 فی صد طلبہ کی فیسوں کو معاف کرواتے تھے بلکہ فیسوں کی ادائیگی کے لیے اقساط طے کرتے تھے جہاں وہ سیاسی اور سماجی حقوق کے لیے ہی جد وجہد نہ کرتے تھے بلکہ بی اے، بی ایس سی اور بی کام دو سال کے بجائے تین سال کرنے کو ختم کرنے کی جدوجہد بھی کرتے تھے۔

طلبہ کے ریل، بس اور دیگر مراعات ختم ہوچکی ہیں پرائیویٹ اسکولوں کی فیس کی کوئی حد نہیں کم از کم 4 تا 5 ہزار ماہانہ ہیں ورنہ اے اور او لیول کی عام طور پر پندرہ بیس ہزار کیونکہ حکومت سندھ نے گورنمنٹ اسکولوں کو نظر انداز کردیا ہے لہٰذا با شعور طلبہ کو چاہیے کہ وہ نظریاتی اختلافات کو ختم کرکے ایک مرکز پر جمع ہوجائیں یعنی جمعیت طلبہ، ڈی ایس ایف، این ایس ایف، پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن، مسلم اسٹوڈنٹس اور دیگر تنظیمیں یوم یکجہتی منائیں اور مرکزی حکومت کو چارٹر آف ڈیمانڈ دیں۔

صرف ایک ڈیمانڈ کہ طلبہ یونین سے پابندی ختم کی جائے اور یہی ملکی مسائل کا واحد جمہوری حل ہے۔ ورنہ چیف جسٹس کو حکومت کے ہر کام میں مداخلت کرنی پڑے گی اور اسمبلیاں جو قانون ساز ادارہ ہیں وہ نمائشی ادارہ بن کے رہ جائیں گی اور سینیٹ عضو معطل ہوجائے گی در اصل ورنہ ان مسائل پر توجہ دینے کے لیے کم از کم بجٹ کا ڈھائی فی صد تعلیم پر لگانا ہوگا تاکہ ملک ہنرمند اور خود کفیل ہو کیونکہ طلبہ مسائل پر طلبہ ہی طلبہ حقوق کے چیمپئن ہوسکتے ہیں۔

The post اسٹوڈنٹس یونین طلبہ حقوق کی چیمپئن appeared first on ایکسپریس اردو.

بی جے پی مودی کی ذاتی پارٹی ہے!

$
0
0

وزیراعظم نریندر مودی اب بھارتیہ جنتا پارٹی میں سب سے زیادہ طاقتور ہو گئے ہیں‘ انھوں نے اپنے سب سے قریبی ساتھی امیت شاہ کو پارٹی کا صدر مقرر کر دیا ہے تاہم عوام کی یادداشت بہت کمزور ہے ‘اس پارٹی کے بانی اٹل بہاری واجپائی تھے جنہوں نے این ڈی اے حکومت کے مشترکہ محاذ کی قیادت کرتے ہوئے ملک کی وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھال لیا۔

یہ مخلوط حکومت کئی پارٹیوں کا مجموعہ تھی۔ کانگریس کی کرشماتی قیادت کا جادو جے پرکاش نارائن کی زیرقیادت ٹوٹا جو مہاتما گاندھی کے پیروکار تھے اور سوشلسٹ نظام حکومت پر یقین رکھتے تھے۔

کانگریس کے خلاف ان کی قیادت میں چلنے والی تحریک اس قدر طاقتور تھی کہ کانگریس کے علاوہ تمام پارٹیاں اس تحریک میں شامل ہو گئیں اور ایک متحدہ محاذ بنا لیا۔ پرانی جنتا سنگھ پارٹی کے قیام کے بعد اس کے ارکان آر ایس ایس کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کے بہت آرزو مند تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ پارٹی کا ایجنڈا ہندوتوا ہی رہے گا مگر جے پرکاش کے جوتے ہندوتوا والی جن سنگھ کو پورے نہیں آئے۔

اس وقت پارٹی کا نام جن سنگھ تھا یہ جے پرکاش ہی تھے جنہوں نے اس پارٹی کو اندرا گاندھی کی آمرانہ حکومت میں اپوزیشن پارٹیوں میں شامل کیا۔ جے پرکاش کو مکمل احساس تھا کہ جن سنگھ آر ایس ایس کا سیاسی بازو ہے لیکن ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ دونوں پارٹیاں الگ الگ ہو جائیں گی۔

جے پرکاش نارائن عرف جے پی جانتے تھے کہ ملک میں ان لوگوں نے ایسی فضا قائم کر دی ہے جس میں ایک ہندو نے مہاتما گاندھی کو قتل کر دیا۔ نتھورام گوڈسے نے گاندھی کے پیروں کا ہاتھ لگایا اور پھر قریبی فاصلے (پواینٹ بلینک)سے انھیں گولی مار دی۔ بعد میں سب کو پتہ چل گیا کہ یہ سب ایک طے شدہ منصوبے کے تحت کیا گیا ہے۔ آر ایس ایس پر پابندی لگا دی گئی۔ تنظیم کے سربراہ ایم ایس گوالکر کو گرفتار کر لیا گیا لیکن سال بھر کے بعد اسے اس شرط پر رہا کر دیا گیا کہ آر ایس ایس انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لے گی۔

یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے اس حقیقت کو چھپا لیا کہ گاندھی کے قتل کے لیے تمام رہنمائی آر ایس ایس نے ہی فراہم کی تھی۔ آج یہی متعصب تنظیم ریاستی اسمبلی کے لیے بی جے پی کے امیدواروں کا چناؤ کر رہی ہے اور لوک سبھا کے انتخابات میں بھی یہی ٹرینڈ نظر آئے گا۔ آر ایس ایس نے جو تحریری وعدہ کیا تھا مگر اس وعدے کی آڑ میں وہ جنتا پارٹی میں شامل ہو گئی۔ جے پی جنتا سنگھی لیڈروں کو یاد دہانی کراتے رہے کہ اپنے وعدے کا پاس کریں مگر انھوں نے کان بند کر رکھے تھے۔

آخر وہ ایسا کیوں نہ کرتے جب کہ جنتا سنگھ خود آر ایس ایس کی اپنی تخلیق تھی جس کا مقصد بھارت میں ہندو راشٹرا قائم کرنا تھا۔ شروع میں جنتا سنگھ کے ارکان بی جے کو یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ آر ایس ایس ایسی پارٹی نہیں جیسے سمجھا جا رہا ہے لیکن جب حقیقت کھل کر سامنے آ گئی تو انھوں نے آر ایس ایس سے ناطہ توڑنے سے صاف انکار کر دیا۔ جے پی کو محسوس ہوا کہ اس کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے لیکن تب وہ اس قدر بیمار اور لاغر ہو چکے تھے کہ لوگوں کے پاس جا کر وضاحت کرنے کے قابل نہ رہے تھے البتہ یہ بات انھوں نے عوام کو کہہ دی کہ انھیں دھوکا دیا گیا ہے اور ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے لیکن اپنی خرابی صحت کے ہاتھوں وہ لاچار تھے۔

جب جنتا پارٹی نے رکنیت کے مسئلہ کا سوال اٹھایا تو جنا سنگھ کے اراکین نے واک آؤٹ کرنا زیادہ مناسب خیال کیا۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس وقت تک انھیں قبول کر لیا گیا تھا اور ان کی جنتا سنگھ آج کی بی جے پی بن گئی ہے لیکن گاندھی جی کے قتل کی کئی دہائیوں بعد بھی قاتلوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا۔

جنتا پارٹی میں دو سال قیام اور اس کے مناصب کا استعمال بالخصوص مرکزی وزارت نے بی جے پی کی بہت  مدد کی۔ ایک طرف یہ پارٹی نئے ارکان کو گیروے کپڑے پہنا رہی ہے جو ہندو یوگیوں کی علامت ہے اس کے علاوہ اہم پوسٹوں کے لیے اپنی بات منوانے والوں کو متعین کرتی ہے یعنی وزارت اطلاعات اور براڈ کاسٹنگ میں۔

آج تو ایسا لگا رہا ہے جیسے آر ایس ایس سب پر حاوی ہو چکی ہے۔ ایک وقت تھا جب بی جے پی نے بھی عقلمندی کا مظاہرہ کیا اور مثبت رویہ اختیار کر لیا جس نے ہندو انٹیلی جنشیا کو کنفیوز کر دیا۔ جب اٹل بہاری واجپائی جیسے چوٹی کے لیڈر حالات و واقعات بڑے فیصلے کرنے کا اختیار رکھتے تھے تو انھوں نے توازن برقرار رکھا اور بیک وقت دو گھوڑوں پر کامیابی سے سواری کرتے رہے۔ بابری مسجد عرف رام بھومی کا تنازعہ جب اٹھ کھڑا ہوا لیکن اس قضیے میں کئی دیگر وجوہات بھی شامل تھیں۔

بالآخر بی جے پی نے لوک سبھا کے 545 نششتوں کے ایوان میں 181نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور پھر جے پی کے قریبی پیروکار بہانے بہانے سے حکومتی پارٹیوں میں شامل ہونے لگے تاکہ انھیں بھی اقتدار میں سے کچھ حصہ مل جائے۔

اس وقت تک یہ واضح ہو گیا تھا کہ بی جے پی اپنے لیے وسعت کی تلاش میں بے قرار ہو رہی ہے۔ ڈپٹی وزیراعظم ایل کے ایڈوانی نے بی جے پی اور آر ایس ایس کی داخلی دوریاں کم کرنے کی کوشش کی۔ ایڈوانی نے ڈپٹی پرائم منسٹر کی حیثیت سے جہاں ہندوتوا کو مزید طاقتور کرنے کی کوشش کی اور رتھ یاترا کی رہنمائی بھی کی جس کی منزل شمال ہند کے دور دراز پہاڑوں پر تھی۔

یہ بے حد خطرناک مذہبی سفر تھا جس نے ہندوؤں اور مسلمانوں میں فاصلے اور زیادہ بڑھا دیے حالانکہ دونوں صدیوں سے مل جل کر رہ رہے تھے۔ ایڈوانی اپنی اس کامیابی پر اس قدر مسرور تھے کہ اس طرح دونوں ملکوں میں واضح لائن کھچ گئی تھی اور یوں لوگ رتھ یاترا کو گاندھی کے سالٹ مارچ سے تشبیہہ دینے لگے (جب گاندھی نے نمک پر برطانوی حکومت کا ٹیکس عائد کرنے پر سمندری پانی سے نمک بنانا شروع کر دیا تھا جس سے انگریزوں نے ان پر لاٹھی چارج بھی کرایا) وزیراعظم مودی ہر دم یہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ ان کی ذات پارٹی سے بھی بہت بلند تر ہے۔

انھیں حکومت کرتے 4سال ہو گئے لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہوا کہ موصوف بھارت کو کس سمت میں لے جانا چاہتے ہیں یا ان کی ’دشا‘ کیا ہے۔ یہ بات ماننا پڑے گی کہ انھوں نے ہندوتوا میں جو نرمی پیدا کی ہے اس کی وجہ سے یہ ملک بھر میں پھیل رہی ہے لیکن جنوبی ریاستوں پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں بلکہ وہ آج بھی یہ تاثر دے رہی ہیں کہ یہ ان کا مسئلہ نہیں ہے۔

ایک اور بڑا مسئلہ ہندی زبان کے رائج کرنے کی کوشش کا ہے جو اتنا ہی کٹھن نظر آ رہا ہے جس طرح پنڈت جواہر لعل نہرو کے دور حکومت کے آخری ایام میں ہوا تھا۔ ان کے بعد ان کے جانشین لال بہادر شاشستری کو ایوان پارلیمنٹ میں یقین دہانی کرانی پڑی کہ ان ریاستوں میں جن کی زباں ہندی نہیں وہاں پر ہندی کا نفاذ اس ریاست کے عوام کے استصواب پر کیا جائے گا یعنی جب وہ لوگ خود ہندی کے لیے تیار ہوئے تب زبان بدلی جائے گی۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ مودی اس معاملے میں کس طرح کامیاب ہوتے ہیں۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

The post بی جے پی مودی کی ذاتی پارٹی ہے! appeared first on ایکسپریس اردو.

کیا امریکی فوجی اتاشی کو سزا ہوگی؟

$
0
0

جیسے جیسے عام انتخابات کا وقت نزدیک آتا جارہا ہے ویسے ویسے سیاسی درجہ حرارت بھی بڑھتا جارہا ہے۔ نگران سیٹ اپ کے لیے اپوزیشن اور حکومت کے درمیان مشاورت کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جب کہ سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی تمام تر توجہ عام انتخابات کی تیاریوں پر مرکوز کرکھی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں امریکی فوجی اتاشی کی گاڑی کی ٹکر سے نوجوان کے جاں بحق ہونے پر تاحال کسی بھی بڑی سیاسی جماعت نے اپنے رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔

7 اپریل کو دارالحکومت میں امریکی ملٹری اتاشی کرنل جوزف کی گاڑی کی ٹکر سے موٹر سائیکل پر سوار 2 نوجوانوں میں سے ایک جاں بحق جب کہ دوسرا زخمی ہو گیا۔ اس واقعہ کی فوٹیج سے واضح پتہ چلتا ہے کہ غلطی مکمل طور پر سفارتکار کی تھی جو ٹریفک کا  اشارہ سرخ ہونے کے باوجود رکا نہیں اور اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بائیں جانب سے آنے والے موٹر سائیکل سواروں کو ٹکر مار دی جس سے نوجوان عتیق چل بسا۔

واقعہ سے زیادہ افسوسناک صورتحال اس وقت دیکھنے میں آئی جب اسلام آباد پولیس نے غلامانہ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ضابطہ کی کارروائی کے بجائے امریکی ملٹری اتاشی کا پاسپورٹ دیکھ کر انھیں جانے کی اجازت دیدی۔

ملک بھر میں کروڑوں پاکستانی ٹی وی چینلوں پر اس واقعے کی رپورٹ دیکھ کر شدید صدمے اور حیرت سے دوچار ہوگئے کہ کرنل جوزف عمانویل کو کسی قانونی کارروائی کے بغیر چھوڑ دیا گیا اور جواز یہ پیش کیا کہ سفارت کاروں کو ملکی قوانین سے استثنیٰ حاصل ہوتا ہے جب کہ شواہد کے مطابق ملٹری اتاشی نے سگنل توڑ کر نوجوانوں کو کچلا تھا۔ ایسی غلطی کی صورت میں قوانین سے چھوٹ باقی نہیں رہتی یا پھر ایسے معاملات پھر سفارتی سطح پر طے کیے جاتے ہیں۔

پولیس نے متعلقہ حکام کو مطلع کیے بغیر امریکی اہلکار کو کیوں چھوڑا؟ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ یہ معاملہ شاید دب جاتا مگر بھلا ہو میڈیا کا کہ اس نے معاملے کو دبنے نہیں دیا۔ شروع میں تو حکومتی سطح پر اس واقعے کا نوٹس نہیں لیا، تاہم اگلے دن امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کو وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا جہاں سیکریٹری خارجہ تہمینہ  جنجوعہ نے واقعہ پر احتجاج کیا، انھیں باور کرایا کہ نوجوان کی ہلاکت کے معاملے میں ملکی قوانین اور ویانا کنونشن کے مطابق مکمل انصاف کیا جائے گا۔

بعد ازاں وزارت داخلہ کی برہمی کے بعد ایس ایچ او کوہسار کو واقعہ میں ملوث ملزم کو سفارتی استثنیٰ کی آڑ میں چھوڑنے کے حوالے سے شوکاز نوٹس جاری کیا گیا۔ جس کے بعد اس سفارت کار کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ کوہسار میں ایف آئی آر درج کی گئی۔

قانونی کارروائی کے مطابق پولیس نے کیس کو رجسٹرڈ کرنے کا عمل مکمل کرکے کیس پاکستان کے دفتر خارجہ میں جمع کرایا، یہی کیس اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کو ارسال کیا جائے گا، میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی سفارتخانہ نے تفتیش میں تعاون سے انکار کر دیا ہے اور سفارت خانے کا ملٹری اتاشی تک رسائی دینے سے بھی انکار سامنے آیا ہے۔

جس پر پولیس نے وزارت داخلہ کو خط لکھ دیا ہے اور امریکی سفارتخانے کو واقعہ کی رپورٹ اور سی سی ٹی وی فوٹیج کی کاپی بھی بھیج دی ہے۔ ملزم کا پاکستانی ڈرائیونگ لائسنس منسوخ کرکے نام ای سی ایل میں شامل کرلیا گیا ہے اور ملک بھر کے تمام ایئر پورٹس، سمندری اور زمینی راستوں پر تعینات امیگریشن حکام کو امریکی ملٹری اتاشی کا نام دیدیا گیا ہے تاکہ وہ فرار نہ ہونے پائے۔

یہ بھی اطلاعات ہیں ملزم نے بیرون ملک بھاگنے کی کوشش کی تھی جسے وفاقی پولیس نے ناکام بنا دیا، تاہم عتیق بیگ کے اہل خانہ پولیس کی کارروائی سے مطمئن نہیں لگتے اور وہ مزید قانونی کاروائی کے لیے عدالت سے رجوع کر رہے ہیں۔

امریکی سفارتکار کی گاڑی کی ٹکر سے جاں بحق ہونیوالے پاکستانی نوجوان کے ورثاء کو انصاف کیسے ملے گا؟ یہاں یہ سوال غور طلب ہے کہ کیا سفارتکار کو سزا ہو سکتی ہے؟ ان سوالوں کا جواب ویانا کنونشن میں موجود ہے۔ ویانا کنونشن 1961ء میں منظور ہونے والا ایک بین الاقوامی قانون ہے جو ایک ملک کے سفارتکاروں کو میزبان ملک میں بلا خوف و خطر کام  کرنے کی آزادی فراہم کرتا ہے۔ اس وقت دنیا کے 191 ممالک اس قانون کو مانتے ہیں جو دوسرے لفظوں میں سفارتکاروں کو دوسرے ممالک میں سفارتی استثنیٰ فراہم کرتا ہے۔ پاکستان نے اس قانون پر 1962ء میں دستخط کیے تھے۔

قانونی ماہرین کے مطابق پاکستانی حکومت کے پاس اس سفارت کار کے خلاف کارروائی کرنے کے اختیارات محدود ہیں کیونکہ ویانا کنونشن کے قانون کا آرٹیکل 29 یہ کہتا ہے کہ سفارتکار کو میزبان ملک میں گرفتار یا نظربند نہیں کیا جا سکتا۔ امریکی سفارتکار کو گرفتاری اور قید سے تو استثنیٰ حاصل ہے لیکن ٹرائل کے خلاف استثنیٰ حاصل نہیں ہے، امریکی سفارتکار کو پاکستان یا پھر امریکا میں ٹرائل کا سامنا کرنا ہوگا۔

سزا کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ امریکا سفارتکار کو حاصل سفارتی استثنیٰ ختم کردے، پاکستان امریکا کو کہہ سکتا ہے کہ وہ سفارت کار کا استثنیٰ ختم کرے یا اس کے خلاف امریکی قوانین کے تحت کارروائی کرے کیونکہ وہاں بھی ٹریفک سگنل توڑنا اور حادثے میں ملوث ہونا جرم ہے۔

اگر امریکا اس میں سے کوئی بھی اقدام نہیں کرتا تو یہ سیاسی مسئلہ بن سکتا ہے، جس کے بعد پاکستان کے سیاسی عزم پر منحصر ہے کہ وہ اس معاملے کو کتنا آگے لے کر جانا چاہتا ہے کیونکہ جنوبی کوریا سمیت دنیا میںاس طرح کے  واقعات پیش آ چکے ہیں جس میں امریکا کو سفارتی استثنیٰ ختم کرنا پڑا اور مقامی طور پر سزا دی گئی۔

ہونا تو یہی چاہیے کہ پاکستان امریکا سے باقاعدہ مطالبہ کرے کہ امریکی سفارتکار کا استثنیٰ ختم کیا جائے اور اس کو ملکی قوانین کے تحت قرار واقعی سزا دی جائے کیونکہ یہ حادثہ نہیں بلکہ اس نے سگنل توڑ کر ایک پاکستانی کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت پاکستانی قوانین کی بالادستی کو برقرار رکھتے ہوئے امریکی سفیر کو سزا دلوانے میں کامیاب ہوتی ہے  یا نہیں؟

امریکی دفاعی اتاشی کی گاڑی کی ٹکر سے نوجوان کے جاں بحق ہونے کا واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں بڑی حد تک کشیدگی پائی جاتی ہے، امریکا کے نو مور کے جواب میں پاکستان کے ڈو مور پر ڈٹے رہنے کے رد عمل میں امریکا نے پاکستان کی فوجی امداد بھی بند کررکھی ہے۔

قرائن یہ بتا رہے ہیں کہ امریکی سفارتخانہ اس معاملہ کے جلدنمٹانے کا خواہاں ہے تاکہ اس حادثہ کے سیاسی و سفارتی مضمرات کو محدود رکھا جاسکے۔ یہ امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ ملٹری اتاشی کو حاصل استثنیٰ سے استفادہ کرتے ہوئے اسے امریکا واپس بھجوا دیا جائے گا۔

مرحوم کے لواحقین اور ایک زخمی کو معاوضہ کی پیشکش بھی کی جاسکتی ہے، ماضی میں 2011ء میں ریمنڈ ڈیوس کیس میں قوم دیت و خون بہا کی ادائیگی کے بعد ملزم کی رہائی کا منظر دیکھ چکی ہے۔ یہ بھی اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ امریکا کی جانب سے پاکستانی سفارتی عملے کی نقل و حرکت محدود کرتے ہوئے ان پر نئی پابندی لگانے پر بھی غور کیا جارہا ہے، اسے کہتے ہیں چوری اور پھر سینہ زوری۔

امریکا نے پاکستانی سفارت کاروں کی نقل و حرکت کے لیے نیاضابطہ اخلاق تیار کرلیا جس کے تحت پاکستانی سفارتی عملے کو 45 کلومیٹر کے علاقے تک محدود کردیا گیا ہے۔ پاکستانی سفارتکار یکم مئی سے نئے ہدایت نامے پر عملدرآمد کے پابند ہونگے، اس پابندی سے پاکستانی سفارتی عملے کو کام میں نئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اگر امریکا کسی بھی معاملے میں دوسروں کو قانون کی بالا دستی کا مشورہ دیتا ہے تو اسے بھی پاکستانی قوانین کا احترام کرنا چاہیے۔ جب امریکا میں قانون کی پابندی کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کا وزیر اعظم بھی ایئرپورٹ پر جسمانی تلاشی کے عمل سے گزرتا اور اس کارروائی کو قانون کا تقاضا قرار دے کر خندہ پیشانی سے قبول کرتا ہے تو امریکی سفارتخانے کے ایک اہلکار کی غیرذمے داری سے پاکستانی شہری کی جان کے نقصان کا معاملہ کسی رعایت کا مستحق نہیں ہونا چاہیے۔

اگر بیرون ممالک جاتے ہوئے وہ لوگ اپنے قوانین پر عمل کراتے ہیں تو پاکستان کو بھی یہ حق پہنچتا ہے کہ یہاں پر رہنے والے غیر ملکی پاکستانی قوانین پر عمل کریں، اگر وہ عمل پیرا نہیں ہوتے تو اس پر انھیں عمل کرایا جائے تب ہی ہماری بیرونی دنیا میں عزت ہوگی۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے جائز موقف پر ڈٹے رہیں۔

اگر امریکا اپنے فوجی اتاشی کو معافی دلانا چاہتا ہے تو اس کے بدلے ہمیں معطل شدہ اقتصادی و فوجی امداد کی بحالی کے ساتھ ساتھ امریکا میں قید عافیہ صدیقی کی رہائی کا بھی مطالبہ کرنا چاہیے تاکہ کچھ لو، کچھ دو کے اصول پر معاملہ طے ہوجائے، ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے وقت بھی حکومت پاکستان نے عافیہ صدیقی کے معاملے کو نظر اندازکیا تھا، لیکن اس بار پاکستان امریکی سفارتکار کے لیے کسی قسم کی رعایت کو عافیہ صدیقی کی رہائی سے مشروط کر دے تو یہ اس مسئلے کا ایک آبرومندانہ حل ہو گا۔

The post کیا امریکی فوجی اتاشی کو سزا ہوگی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

چوہدری شجاعت حسین کی آپ بیتی ’’سچ تو یہ ہے‘‘

$
0
0

ہماری سیاست کی بھولی بھالی شخصیت چوہدری شجاعت حسین جنہوں نے آخر کار اپنی آپ بیتی ’’سچ تو یہ ہے‘‘ لکھ ہی دی، جسے اگر ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا صحیح جواب کہیں تو غلط نہ ہوگا، چوہدری شجاعت حسین کو ذاتی طور پر میں جتنا جانتا ہوں یا ان سے ملاقاتوں میں بات چیت کے دوران میں نے جو محسوس کیا ہے وہ یہ ہے کہ انھیں نواز شریف کے حوالے سے ’’غصہ‘‘ یہ ہے کہ ان کے خاندان کی وساطت سے سیاست میں آنے والا شریف خاندان کس قدر کرپشن کرتا رہا ہے اور پھر سینہ زوری یہ کہ جب ان سے کوئی یہ پوچھتا ہے کہ ہاں بتاؤ کہاں سے پیسہ آیا تو پھر یہ پوچھنے کا کسی کو حق حا صل نہیں ہے۔

’’سچ تو یہ ہے‘‘ کے مطالعے کے دوران یہ محسوس ہوا کہ جیسا مصنف ویسی تصنیف سیدھی سادی، رواں دواں، برجستہ اور کرماں والی آپ بیتی ہے۔ چوہدری صاحب پیشہ ور لکھاری نہیں اور یہی سادگی و پرکاری اس کتاب کا حسن ہے۔

اس کتاب میں چوہدری شجاعت حسین نے گزشتہ 3دہائیوں سے زائد عرصے سے سیاست میں سرگرم رہنے کے حوالے سے بہت سی باتیں کیں۔انھوں نے بتایا ہے کہ ان کے کاروبار مختلف تجارتی شعبوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ان کے والد نے بطور پولیس کانسٹیبل اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا تھا۔چوہدری شجاعت حسین پہلی بار 1981ء میں اپنے والد کے قتل کے بعد سیاست میں داخل ہوئے۔ وہ جنرل ضیاالحق کی مجلسِ شوریٰ میں شامل ہوئے۔

1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیرِاعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ میں بطور وفاقی وزیر شامل ہوئے۔اس کے بعد 4دفعہ قومی اسمبلی کے رکن رہے۔اور جہاں تک میں انھیں جانتا ہوں انھوں نے اس کتاب میں ایک ایک لفظ سچ لکھا ہے، اس کتاب میں انھوں نے اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی کو کھول کر رکھ دیا ہے۔اس کتاب میں انھوں نے اپنے دور حکومت میں پیش آنے والے بڑے واقعات کی منظرکشی کی ہے۔

گزشتہ روز مذکورہ کتاب کی تقریب رونمائی لاہور میں ہوئی تو وہ دن یاد آگئے جب راقم انھیں مشورہ دیا کرتا تھا کہ چوہدری صاحب آپ کے سینے میں جو راز دفن ہیں انھیں عوام کے سامنے لے آئیں تاکہ لوگوں کو علم ہو جائے کہ شریف خاندان اس ملک کے ساتھ کیا کیا کرتا رہا۔ لیکن چوہدری صاحب ’’مٹی پاؤ‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا رہے اور اُن کی شخصیت میں نفیس پن آڑے آتا رہا۔ لیکن بادی النظر میں جو انکشافات انھوں نے آج کیے وہ انھیں بہت پہلے کر دینے چاہیے تھے۔

خیر دیر آید درست آید کے مصداق اس کتاب میں انھوں اپنے والد چوہدری ظہور الٰہی کے حوالے سے بہت سی باتیں اور یاداشتیں تحریر کی ہیں۔ اپنی اور پرویزالٰہی کی پہلی گرفتاری کے حوالے سے انھوں نے جذباتی سی تحریر بھی لکھی ہے، کہ انھیں کس طرح سیاسی قیدی بنا کر جیل میں رکھا گیا اور بدبو دار کمرے میں بدبو دار کھانا اور کمبل دیے جاتے رہے۔

نواز شریف سے پہلی ملاقات کے حوالے سے انھوں نے لکھا کہ میاں نواز شریف سے ہماری پہلی ملاقات 1977ء میں اس وقت ہوئی جب جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ اُلٹنے کے فوراً بعد نوے روز میں الیکشن کرانے کا اعلان کیا تھا۔

میرے والد لاہور میں بھٹو کے مقابلہ میں الیکشن لڑرہے تھے، ایک روز ہم انتخابی مہم کی تیاری کے سلسلہ میں اپنے گھر کے دفتر میں بیٹھے تھے کہ ایک ملازم نے آکر بتایا کہ باہر کوئی ’’نوجوان‘‘ (نواز شریف) آیا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اس نے چوہدری ظہورالٰہی صاحب سے ملنا ہے۔ والد صاحب چونکہ میٹنگ میں مصروف تھے، انھوں نے پرویزالٰہی سے کہا کہ وہ اس نوجوان سے جا کر مل لیں۔ پرویزالٰہی باہر آئے تو ایک گوراچٹا کشمیری نوجوان برآمدے میں بیٹھا تھا۔

اس نے پرویزالٰہی کو اپنا وزیٹنگ کارڈ دیتے ہوئے کہا کہ اسے اس کے والد میاں محمد شریف نے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ وہ چوہدری ظہورالٰہی کی الیکشن مہم میں فنڈز دینا چاہتے ہیں۔ پرویزالٰہی نے اس نوجوان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ الیکشن مہم کے لیے ہم کسی سے فنڈ نہیں لیتے اور یوں یہ سرسری سی ملاقات ختم ہو گئی۔انتخابی میٹنگ سے فارغ ہونے کے بعد میرے والد نے پوچھا کہ باہر کون تھا، تو پرویزالٰہی نے بتایا کہ اس طرح میاں محمد شریف صاحب کا بیٹا آیا تھا اور کہہ رہا تھا کہ ان کے والد الیکشن کے لیے فنڈز دینا چاہتے ہیں۔

والد صاحب نے کہا، تم نے اس کو بتایا نہیں کہ ہم الیکشن کے لیے فنڈز نہیں لیتے۔ پرویزالٰہی نے کہا، میں نے تو اس کو یہ بات بتا دی تھی لیکن آپ بھی بتا دیں، یہ کہہ کر اس نوجوان کا وزیٹنگ کارڈ میرے والد کو دے دیا۔ یہ نوجوان میاں نواز شریف تھے۔ 1977ء میں اس ملاقات سے پہلے ہم کبھی ان سے ملے، نہ ان کے بارے میں سُنا تھا۔

اس کے بعد کے حالات کا بھی چوہدری شجاعت نے ذکر کیا ہے کہ وہ کس طرح 1985ء میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے منصب پر پہنچے اور اس کے بعد جنرل ضیاء نے کس طرح نواز شریف کو جھاڑ پلائی جس سے ان کی ہوائیاں اُڑ گئیں۔ چوہدری شجاعت نے انکشاف کیا کہ نواز شریف کے وزارتِ عظمیٰ کا حلف لینے سے پہلے اسلام آباد ہوٹل میں نواز شریف نے ایک پارٹی میٹنگ بلائی۔ وہاں بہت سے مقررین نے تقریریں کیں۔

میرا تقریر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ مجھے مجبوراًتقریر کرنی پڑی۔چوہدری شجاعت نے کہا کہ یہ دیکھ کر کہ ارکان قومی اسمبلی کس طرح نواز شریف کی چاپلوسیاں کررہے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں، نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے میں نے کہا کہ میاں صاحب میں صرف تین باتیں کہنا چاہوں گا، جب آپ وزیراعظم بن جائیں تو ان تین باتوں کا بہت خیال رکھیں۔.1اپلوسوں کی باتوں میں نہ آئیں۔ .2منافقوں سے دور رہیں۔.3آپ میں ’’میں‘‘ نہیں آنی چاہیے۔

یہ تین باتیں کرنے کے بعد میں اسٹیج سے نیچے اترا تو تمام ہال تالیوں سے گونج اُٹھا، بعد ازاں جب ہم گاڑی میں بیٹھ کر واپس گھر آرہے تھے تو اسمبلی کے آگے سے گزرتے ہوئے  میاں صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ جو تین باتیں بتا رہے تھے، وہ دوبارہ بیان کریں، میں نے دوبارہ انھیں وہ باتیں سنائیں۔ لیکن افسوس سے کہنا چاہوں گا کہ میاں صاحب نے میری تینوں باتوں پر اُلٹ ہی عمل کیا۔

اس کتاب میں اور بھی بہت کچھ ہے جو حقیقت میں شریف خاندان کے حوالے سے بہت سے انکشافات ہیں کہ یہ خاندان پاکستان کی سیاست میں کس طرح ’’ان‘‘ ہوا اور کیا کیا کرتا رہا۔ میں سمجھتا ہوں کہ عصر حاضر میں اس کتاب کے حوالے سے جتنی تعریف کی جائے کم ہے، اور میرا یہ دعویٰ ہے کہ جس نے بھی چوہدری شجاعت حسین کی اس  کاوش کو پڑھا وہ ضرور ان کو اپنا گرویدہ بنا لے گا۔ انھوں نے 300سے زائد صفحات میں بہت سے موضوعات کو چھیڑا ہے۔ انھوں نے کتاب میں انکشاف کیا کہ پرویز مشرف سے افتخار چوہدری کی شکایت شوکت عزیز نے کی اور افتخار چوہدری کی بحالی پر پرویز مشرف کو مشورہ دیا کہ انھیں ’’جپھا‘‘ ڈال لیں لیکن دونوں کے ارد گرد موجود لوگوں نے صلح کا موقع گنوایا۔

انھوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر کے حوالے سے لکھا کے جنرل مشرف کے کہنے پر ڈاکٹر صاحب نے اعتراف کیا کہ انھوں ایٹمی راز افشاں کرنے کے پیسے لیے۔ چوہدری شجاعت نے لکھا کہ نواز شریف، آصف زرداری کے خلاف منشیات اسمگلنگ کا مقدمہ بنوانا چاہتے تھے تاہم جھوٹا مقدمہ بنانے سے انکار کر دیا تھا جب کہ آصف زرداری نے 2011ء میں کہا کہ آپ کی وجہ سے آج صدر پاکستان ہوں۔

اپنی کتاب میں چوہدری شجاعت حسین نے مزید لکھا کہ لال مسجد واقعے کے بارے میں سوچ کر آج بھی پریشان ہوجاتا ہوں۔چوہدری شجاعت نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا کہ 2008ء کا الیکشن فکس تھا اور امریکا بینظیر بھٹو کو وزیراعظم دیکھنا چاہتا تھا۔میرے والد ظہور الٰہی نے رحمان ملک کو نوکری دی لیکن رحمن ملک نے ڈائریکٹر ایف آئی اے بنتے ہی سب سے پہلے مجھے اور چوہدری پرویز الٰہی کو جیل میں ڈالا۔

بہرکیف اس کتاب سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کبھی ہمارے سیاستدان استاد دامنؔ اور حبیب جالبؔ جیسے مجذوبوں کو بھی محبوب اور محترم رکھتے تھے۔ یہ انھی کی تربیت تھی کہ چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی نوجوانی میں استاد دامن کے حجرے ٹکسالی گیٹ میں حاضری دیا کرتے اور ان کے بزرگ حبیب جالبؔ جیسوں کے نخرے اٹھایا ا ور اس پر فخر کیا کرتے۔ آج اگر ویسے سیاستدان نہیں رہے تو استاد دامنؔ اور جالبؔ کی جگہ پر بھی تو دکانداروں کے سوا کچھ نہیں۔ دونوں انتہاؤں پر قحط الرجال انتہا پر ہے تو وہ مصرعہ ہانٹ کیوں نہ کرے،

’’زوال آئے تو پورے کمال میں آئے‘‘

مختصراً یہ کہ ایوب خان کے دور سے گزر کر 1970ء کے انتخابی معرکے، بھٹودور، 77ء کی پی این اے تحریک، جنرل ضیا کے عہد اور بینظیر، نواز زمانوں سے ہوتے ہوئے پرویز مشرف کے عہد سے ’’فکس‘‘ ہوچکے الیکشن 2008ء تک یہ کتاب انتہائی اہم اور قیمتی دستاویز ہے، خصوصاً سیاست کے طالبعلموں کے لیے جنھیں چوہدری شجاعت کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ نواز شریف کو بھی چاہیے، ’’فارغ ہو کر کچھ لکھیں ۔

The post چوہدری شجاعت حسین کی آپ بیتی ’’سچ تو یہ ہے‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

جاگیر

$
0
0

1973ء کے آئین کے مطابق پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور اسی آئین کے مطابق ہماری جمہوریت پارلیمانی ہے اس حوالے سے کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی۔

ہماری پارلیمانی جمہوریت کو ناقدین ہمارے اجتماعی مزاج کے خلاف کہتے ہیں اور ان ناقدین کا خیال ہے کہ ہمارے مزاج، ہمارے معاشرے کو صدارتی نظام سوٹ کرتا ہے۔ اس قسم کے اختلافات جمہوریت کا حصہ ہیں لیکن ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ جمہوریت بھی برقرار رہے اور بادشاہت بھی چلتی رہے۔

اس حوالے سے ہمارے ملک کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ وقت واحد میں جمہوریت بھی ہے اور شاہانہ بھی۔ جمہوریت میں منتخب حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد ہنسی خوشی اقتدار سے الگ ہو جاتی ہیں اور نئی منتخب حکومت کے لیے جگہ خالی کر دیتی ہیں۔

ہمارے آئین میں ایک جماعت کو دو بار برسر اقتدار رہنے کا موقعہ دیا گیا تھا لیکن شاہانہ مزاج رکھنے والوں نے جن کا اقتدار کے بغیر گزارا نہیں ہوتا بڑی کوششوں سے آئین میں ترمیم کروا کر دو سے زیادہ بار اقتدار میں آنے کی گنجائش پیدا کر لی۔ اسی پر بس نہیں ان کی کوشش بلکہ خواہش ہے کہ جب ان کا دم نکلے اس وقت وہ وزیر اعظم کے عہدے پر موجود رہیں۔

ہو سکتا ہے یہ کوئی نفسیاتی بیماری ہو لیکن یہ بیماری اشرافیائی طبقے میں وہ بھی ہمارے اشرافیائی طبقے میں جڑیں پکڑ رہی ہے۔ شاہی نظام کے تسلسل کے لیے ولی عہدی نظام کا سہارا لیتے ہیں کہ باپ کے بعد بیٹا یا بیٹی برسر اقتدار آئے، اقتدار بہرحال خاندان سے باہر نہ جانے پائے۔ یہ بیماری اشرافیہ سے نکل کر اب مڈل کلاس تک آگئی ہے حالانکہ اس کے اقتدار میں آنے کے امکانات موجود نہیں۔

بادشاہوں اور انگریزوں نے اپنے اقتدارکے تحفظ اور قانونی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے ایک طبقہ پیدا کیا تھا جسے جاگیردار کہا جاتا تھا۔ بادشاہ اس طبقے کو جاگیریں بخشتے تھے اور یہ جاگیریں اس قدر مضبوط ہوتی تھیں اور شاہوں کی طرح ایسی موروثی ہوتی تھیں کہ سوائے شاہ کے ان جاگیروں کو کوئی نہیں چھین سکتا تھا۔ اگر کوئی شخص کسی شے پر اپنی دائمی ملکیت کا حق رکھتا تھا تو ایسے حق کو ’’باپ کی جاگیر‘‘ کہا جاتا تھا۔ پاکستان ایک ملک ہے لیکن ہماری اشرافیہ نے اس ملک کو اپنے باپ کی جاگیر بنا رکھا ہے۔

ہمارے سابق وزیر اعظم کا  ووٹ کے تقدس کا درس اس شدت سے دیتے ہیں کہ جمہوریت سے ناواقف انسان بھی ووٹ کے تقدس پر ایمان لے آتا ہے۔ پچھلے دنوں میاں صاحب نے ایک موقعے پر یہ بصیرت افروز بیان دیا کہ ’’ہمارے ملک کے سو سے پانچ سو افراد ایسے ہیں جو پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں‘‘ اس سے پہلے کہ میاں صاحب کے بیان پر غور کیا جائے اس حقیقت کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ سو سے پانچ سو تک لوگ نہیں بلکہ چند خاندان پاکستان کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھتے ہیں۔ سو سے پانچ سو وہ سرکار کے مصاحبین ہوتے ہیں جو سرکار سے بڑھ کر سرکار ظاہر کرتے ہیں اور اس خدمت کے عوض اپنا منہ موتیوں سے بھر لیتے ہیں۔

جاگیر ایسی جائیداد ہوتی ہے جو عام طور پر میراث کے طور پر اولاد تک پہنچتی ہے۔ اس حوالے سے اگر سیاسی رہنماؤں کو حقائق کی کسوٹی پر جانچا جائے تو ایسے رہنما چاند سورج کی طرح عوام کی نظروں میں آ جاتے ہیں جن کا جینا مرنا اقتدار سے وابستہ ہے اور اقتدار کی خاطر وہ پاتال کی گہرائی تک جانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقتدار میں بلا کی کشش ہوتی ہے بلکہ یہ کشش کشش ثقل جیسی ہوتی ہے جو انسان کو ہواؤں میں اڑنے سے روک کر زمین پر اس کے پیر جمائے رکھتی ہے۔ لیکن کیا انسان کی عزت انسان کے وقار سے اقتدار زیادہ اہم ہوتا ہے؟

ہماری کرپٹ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں ’’باپ بڑا نہ بھیا‘ سب سے بڑا روپیہ‘‘ ہوتا ہے لیکن باضمیر اور خوددار لوگ دولت کو پیر کی جوتی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور اس خودداری کی سزا میں غربت و افلاس کی کڑی سزا بھگتتے ہیں لیکن ان کے پاؤں میں لغزش نہیں آتی، ایسے لوگ ہر ملک کا اصل سرمایہ ہوتے ہیں لیکن کرپٹ سرمایہ دارانہ نظام نے ایسے عظیم اور نابغہ روزگار لوگوں کو گمنامی کے اندھیروں میں دھکیل رکھا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ معاشرہ اپنے کردار کے حوالے سے ذلت و رسوائی کے پاتال میں پہنچا ہوا ہے اور یہ صورت حال اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک کرپشن کی فاحشہ سرمایہ دارانہ نظام کی شکل میں ہمارے معاشرے پر قابض رہے گی۔

پاکستان میں عملاً بادشاہی نظام ہی رائج بادشاہ ہے شہزادے ہیں، شہزادیاں ہیں، ملکائیں ہیں، بادشاہوں کا جاہ و جلال ہے، بادشاہوں کا کروفر ہے اس سلطنت میں 20 کروڑ رعایا ہے جو رہتی بھوکے پیٹ ہے لیکن شاہ زندہ باد کے نعرے ضرور لگاتی ہے۔ یہ سلسلہ 70 سالوں سے اس لیے جاری ہے کہ ہمارا میڈیا عوام کی نمایندگی کرنے کے بجائے شاہوں کی پبلسٹی کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مڈل کلاس عوام میں بیداری پیدا کرتی ہے عوام میں سیاسی شعور پیدا کرتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہماری مڈل کلاس میڈیا سمیت ہر محاذ پر اشرافیہ کی خوشامد کا کردار ادا کر رہی ہے۔

میاں صاحب بجا طور پر کہہ رہے ہیں کہ پاکستان اشرافیہ کی جاگیر بنا ہوا ہے ہماری ان پڑھ عوام اشرافیہ کے معنی نہیں سمجھتی کیا ہمارے مہربان عوام کو اشرافیہ کے معنی بتائیں گے اور اشرافیہ سے عوام کا تعارف کروائیں گے۔ ہمارے چھوٹے میاں بار بار یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اگر عوام کے حالات نہیں بدلے تو ملک میں خونی انقلاب آجائے گا اور اشرافیہ عوام کے اشتعال کی زد میں ہوگی۔

چھوٹے میاں کا یہ اندازہ یا پیش گوئی سو فیصد درست ہے لیکن کیا چھوٹے میاں کا تعلق اشرافیہ سے نہیں ہے؟ بہرحال دیر آید درست آید ہو سکتا ہے عوام کو بیدار ہونے میں کچھ وقت لگے لیکن عوام بیدار ہوں گے اور اپنے دشمنوں سے گن گن کر حساب چکائیں گے۔

The post جاگیر appeared first on ایکسپریس اردو.

اگر سندھ میں یہ ترقی ہے تو۔۔۔

$
0
0

اگرچہ پرانا شاہی بازار بھی اْس وقت تک جزوی طور پر آباد تھا اور پوری طرح اجڑا نہیں تھا، لیکن نیا بازار جو مشرق سے مغرب کی سمت عمودی شکل میں ڈگری ناکہ سے چمبڑ ناکہ تک تیزی سے بسایا جا رہا تھا اور پرانے خشک نالے (بھڈے) کے سرخ اینٹوں اور پتھروں سے بنے گول محرابی دروازوں والے پْل پر برگد کے گھنے درخت سے لے کر سرکاری ڈسپینسری و مسافر خانے تک محدود تھا۔

دونوں جانب سے مظفر شاہ کی مسجد کی طرف جانیوالے راستے کے موڑ پر حسین شاہ کی آٹا پیسنے کی مشینی چکی سے پہلے دکانوں کے عقب میں ایک چھپرا ہوا کرتا تھا جہاں سواری کے لیے کرایے پر اونٹ ملتے تھے، ان کے مالکان گاہکوں کے انتظار میں کانبھ باندھے چٹائی پر بیٹھے ہوتے جب کہ جگالی کرتے ہوئے جانور بھی تیار حالت میں پاس ہی بیٹھے ہوتے تھے۔

جی ہاں، میں 50ء کے عشرے کے اپنے آبائی شہر ٹنڈو غلام علی کا ذکر کر رہا ہوں۔ ہماری بڑی آپا کی شادی بھی انھی دنوں ہوئی تھی جو دو ڈھائی میل کی مسافت پرکپری موری کے قریب عبداللہ ہالیپوٹہ کے پرانے گاؤں سے ذرا آگے بابو عزیزالدین کے گاؤں بیاہ کرگئی تھیں۔ میں چونکہ ان کے ساتھ بہت زیادہ اٹیچ تھا، اس لیے میری چھٹیاں زیادہ تر انھی کے پاس گاؤں میں گزرتی تھیں۔ وہ جب بھی میکے آنا چاہتیں، میں اونٹ کرائے پر لیتا اور آپا کو لینے چلا جاتا۔ تب اونٹ کا سارے دن کا کرایہ 5 روپے ہوا کرتا تھا، اس کا مالک خود ساتھ نہیں جاتا تھا، میرے بیٹھتے ہی اونٹ اٹھ کھڑا ہوتا اور وہ نکیل مجھے تھما کر دوبارہ چٹائی پر جا بیٹھتا۔

شاخ کی پٹڑی کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ہم کوئی آدھ پون گھنٹے میں آپا کے گاؤں پہنچ جاتے، جونہی اونٹ ان کے دروازے پر پہنچتا، میرے نیچے اترتے ہی آپا کے سسر، چچا اسماعیل، لڑکوں کو آواز دیکر بلاتے جو فوراً کس کر باندھا ہوا پاکھڑا اتار کر اونٹ کو اس کی جکڑ سے نجات دلاتے اور اس کے آگے پانی اور چارہ لاکر رکھتے، یوں عصر کے وقت ہمارے لوٹنے تک وہ آرام کرتا اور شام سے پہلے ہمیں واپس اپنی منزل پر پہنچا دیتا جہاں اس کا مالک پہلے سے ہمارا منتظر ہوتا اور جانور کی نکیل پکڑ کر سیدھا اپنے گاؤں کا رخ کرتا، پانچ روپے کی دیہاڑی لگنے پر وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتا تھا، کیا سستا زمانہ تھا۔ ابا کی تنخواہ صرف ڈیڑھ سو روپے ماہانہ تھی جس میں وہ 9 افراد پر مشتمل بڑے کنبے کی کفالت کرتے تھے اور ٹھاٹھ سے بسر ہوتی تھی۔

ذاتی سواری کے طور پر گھوڑے پالنے کا رواج تھا، آس پاس کے گاؤں دیہات سے لوگ اپنے گھوڑوں پر شہرآیا کرتے تھے، پہلے اپنا جانور باڑے میں چھوڑتے اور پھر وہ کام نمٹاتے جس کے لیے آنا ہوتا تھا۔ شروع میں چچا ڈاڑھوں کا ایک ہی باڑا ہوا کرتا تھا جو چارپائیاں بھی بْنا کرتے تھے، فارغ ہوتے تو اپنے چھپرے میں بیٹھے سستا رہے ہوتے، جونہی کوئی سواری باڑے میں داخل ہوتی، تیزی سے آگے بڑھ کر سوار سے باگ لیتے، کسی مناسب جگہ سائے میں کلہ منتخب کرکے جانور کو باندھتے، اس کی پیٹھ سے بندھا ہوا سامان اتارکر چھپرے میں رکھتے، پانی کی بالٹی بھر کر لاتے اور اس کے آگے رکھ کر قریبی گھاس بیچنے والے کو آواز دیکر چارہ منگواتے، پسینہ سوکھتا تو جانور کی مالش بھی کرتے جو اگر دن بھر کے لیے نہیں تو تین چار گھنٹے ضرور ان کی تحویل میں رہتا تھا۔

اس خدمت کا معاوضہ وہ صرف ایک روپیہ وصول کرتے تھے اور اوسطاً بیس تیس روپے روزانہ کما لیتے تھے۔میروں کے منشی صدیق عرف ریڈیوکو باڑے کی زمین کا 5 روپے ماہانہ کرایہ ادا کرنے کے بعد بھی سات آٹھ سو بچا لیتے تھے جس سے اچھی گزر بسر ہوتی تھی۔ ان کی دیکھا دیکھی بعد میں ایک طرف سے مستری رشید کی بڑھئی کی دکان تو دوسری جانب سے ہل، کدالیں، درانتیاں اور کلہاڑیاں وغیرہ بنانے والے کاریوں کے گھروں کے سامنے ایک اور باڑا بھی قائم ہوگیا تھا، وہ چل نکلا تو سائیں الہ ڈنو نے بھی چچا ڈاڑھوں کے باڑے والی لائن میں کھٹیوں کی آرا مشین کے پاس تیسرا باڑا کھول لیا، وہ پہلے کبھی ہمارے ڈرائنگ ٹیچر ہوا کرتے تھے۔

ایلیمینٹری گریڈ ڈرائنگ کا امتحان دلانے وہی ہمیں ٹنڈو باگو لے کر گئے جہاں ہمارا سینٹر پڑا تھا۔ پتہ نہیں کیوں لڑکوں نے ان کا نام پھوکنو (غبارہ) رکھ چھوڑا تھا، شاید ان کے بھاری بھرکم جسم کی وجہ سے۔ تو میں آپکو اس زمانے کی سواریوں کے بارے میں بتا رہا تھا۔ آپا کے سسر چچا اسماعیل کے پاس بھی سواری کے لیے گھوڑی ہوا کرتی تھی، ایک بار جب اس نے بچہ دیا تو میں وہیں آپا کے پاس گیا ہوا تھا، مجھے وہ بہت اچھا لگتا تھا اور میں ہر وقت اسکو اچھل کود کرتے اور ماں کا دودھ پیتے دیکھا کرتا، ایک دن چچا اسماعیل نے مجھ سے پوچھا تم گھوڑا پالو گے، میں نے کہا ہاں تو انھوں نے سچ مچ وہ مجھے دے دیا۔ کاریوں کے گھروں کے پاس ہی بروہی قبیلے کے لوگ آباد تھے، ان میں سے کچھ تو سنار کا کام کرتے اور زیورات بناتے بیچتے تھے جب کہ اکثر کا پیشہ گھوڑوں کو سدھانا تھا۔

رلو، مْنوں اور نہ جانے کون کونسی چالیں تھیں جوگھوڑوں کو سکھائی جاتی تھیں، دو تین مہینے جانور ان کی تحویل میں دے دیا جاتا تھا جس کا چارے کی قیمت سمیت وہ ٹھیک ٹھاک معاوضہ پاتے تھے جو ٹریننگ مکمل ہونے پر مالک کی طرف سے جانور کا ٹیسٹ لیتے وقت ادا کیا جاتا تھا۔ ابا نے مجھے ملا ہوا وچھیرا (گھوڑے کا بچہ) بھی سدھانے کے لیے انھی بروہیوں کو دیا تھا، تربیت لے کر آنے کے بعد سارا دن گھر میں بندھا رہتا تھا۔ کبھی بھائی جان تو کبھی میں اسے پانی پلانے اور نہلانے شاخ پر لے جایا کرتے تھے۔

ایسے جانور شروع شروع میں چونکہ بدکتے بہت تھے اس لیے ابا ہمیں اس پر سوار ہونے سے سختی سے منع کرتے مگر ہم ان کی ہدایت پر پولیس تھانے کا چبوترا آنے تک ہی عمل کرتے اور وہاں پہنچ کراس پر نہ صرف سوار ہوجاتے بلکہ تیز بھگاتے ہوئے شاخ تک یا کبھی اور بھی آگے لے جاتے، وہ کبھی بدک جاتا تو ہمیں گرا بھی دیا کرتا، چوٹیں کھا نے کے باوجود ہم باز نہ آتے اور اپنی پریکٹس جاری رکھتے۔

ابا کا کبھی شکار کے لیے جانے کا موڈ بنتا تو ٹرنک سے اپنی دونالی بندوق نکالتے، کارتوسوں کا پٹہ کندھے سے لٹکاتے اور گھوڑے پر سوار ہوکر چل پڑتے۔ ایسے ہی ایک موقع پر شکار کے لیے جاتے ہوئے ان کا گھوڑا بدک گیا اور اس نے بے قابو ہوکر سرپٹ بھاگنا شروع کردیا، ابا کا ایک پاؤں رکاب سے نکل گیا اور دوسرا پھنسا رہ گیا، نہ صرف جھٹکے سے گرے بلکہ کچھ دور تک گھسٹتے ہوئے بھی گئے، اس حادثے میں ان کے ایک پاؤں کی ہڈی ٹخنے کے پاس سے ٹوٹ گئی تھی۔ لیکن ’’چھٹتی نہیں ہے کافر منہ کو لگی ہوئی‘‘ کے مصداق ان کا گھڑ سواری کا شوق نہ گیا۔

فیملی کے ساتھ ایک سے دوسرے گاؤں یا گاؤں سے شہر آنے جانے کے لیے اس زمانے میں بیل گاڑیاں استعمال ہوتی تھیں کہ ایک ماتلی ڈگری روڈ کے سوا پختہ سڑکوں کا کہیں کوئی وجود نہ تھا، کچے راستوں پر سفرکے لیے ایسی ہی سواریاں مناسب سمجھی جاتی تھیں، شاید یہی وجہ تھی کہ کیٹی کے رئیس علی بخش نظامانی، ان کے پڑوسی عبدالرحیم گھاروڑی، چوہدری غلام علی اورکئی دوسرے بڑے زمینداروں کے پاس بھی کاریں یا جیپیں وغیرہ نہیں ہوتی تھی اور وہ بھی کہیں آنے جانے کے لیے گھوڑوں کی سواری استعمال کرتے تھے۔

صرف میروں کو استثنیٰ حاصل تھا جن کے پاس لمبی لمبی شیورلیٹ کاریں ہوا کرتی تھیں، ان کے علاوہ لے دے کے ٹھری کے حاجی دودو نظامانی یا مانک لغاری کے حاجی نجم الدین سریوال کبھی کبھی اپنی جیپوں میں آتے جاتے دکھائی دیتے تھے، اب تو ہمارے ایک دوست کے بقول جس کے گھر میں کھانے کو آٹا نہیں ہے وہ بھی ایک عدد گاڑی کا مالک ہے، موٹر سائیکلیں توگاؤں دیہات میں کتوں سے بھی زیادہ تعداد میں پائی جاتی ہیں، اگر یہ ترقی ہے تو سندھ کے دیہی علاقوں نے واقعی بہت ترقی کی ہے۔

The post اگر سندھ میں یہ ترقی ہے تو۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

کشمیر جنوبی ایشیا کا مسئلہ ہے

$
0
0

مشیر قومی سلامتی ناصر جنجوعہ نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر تقسیم سے شعلوں میں جل رہا ہے ، دنیا کو اب حرکت میں آنا ہوگا،کشمیر کا حل دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان امن کی کنجی بن سکتا ہے اسے پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا۔

بھارت طاقت کے بل بوتے پر کشمیر کو جلا رہا ہے۔ اس موقعے پر حریت رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک کا کہنا تھا کہ ہم کشمیری لاشوں پر مذاکرات نہیں کر سکتے یہ سب کشمیریوں کا فیصلہ ہے مذاکرات سے انکار نہیں مگر انسانی حقوق کا مسئلہ متاثرین کے ذریعے عالمی دنیا کے سامنے اٹھایا جائے۔

بھارتی فوج نے یکم اپریل 2018ء کو مقبوضہ کشمیر میںانسانیت سوز بربریت اور بدترین ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 20کشمیری نوجوانوں کو شہید اور ایک سو سے زائد کو زخمی کردیا تھا ۔ اس المناک سانحے پر پوری مقبوضہ وادی میں غم و غصے کی شدید لہر دوڑ گئی اور مکمل ہڑتال کی گئی ۔

مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی بربریت روز اول سے تا حال جاری و ساری ہے اور عالمی برادری کی معنی خیزپالیسی بھی کل کی طرح آج بھی سوالیہ نشان ہے۔ اقوام متحدہ کے پاس کردہ قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل کشمیریوں کی رائے شماری کے تحت حل ہونا ہے اور یہی اقوام متحدہ پاکستان اور بھارت سے کہتا رہتا ہے کہ وہ آپس میں بات چیت کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کریں کیونکہ یہ پاکستان اور بھارت کا مسئلہ ہے ۔

ہے نا یہ عجیب بات ! سچ بات یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر صرف پاکستان اور بھارت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پوری جنوبی ایشیا کا مسئلہ ہے کیونکہ ایشیا میں واقع جغرافیائی اعتبار سے کشمیر انتہائی اہم علاقہ ہے جنوبی اور مشرقی ایشیا سے اس کے تاریخی رابطے ہیں اور یہ کہ کشمیر ، پاکستان ، افغانستان ، چین اور بھارت کے درمیان واقع ہے ۔ کشمیر کا رقبہ 222236مربع کلو میٹر 88900مربع میل ہے ۔ ایک تہائی شمالی حصہ پاکستان کے اور دوتہائی حصہ بھارت کے زیر تسلط کنٹرول میں ہے ۔

1947-48ء میں ہندو مہاراجہ ہری سنگھ کے من مانے فیصلے کے نتیجے میں پہلی جنگ ہوئی مجاہدین نے آزادی کی جنگ شروع کردی۔ 1949ء میں اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرائی اور قرارداد کے ذریعے کشمیر میں استصواب رائے کے لیے کہا۔ بھارت نے اپنی افواج نکالنے اور ریفرینڈم کرانے کا اقوام متحدہ میں وعدہ کیا مگر اس پر عمل نہ کیا۔ 1965ء میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کی جنگ ہوئی۔ سوویت یونین کی مداخلت سے جنگ بندی ہوئی۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کی بھارتی کوشش کے نتیجے میں پاکستان و بھارت کے مابین جنگ ہوئی جو بنگلہ دیش کے قیام پر منتج ہوئی۔ 1972ء میں پاکستان اور بھارت نے شملہ سمجھوتے پر دستخط کیے جس میں تمام معاملات بالخصوص مسئلہ کشمیر کو پر امن طور پر حل کرنے کا عہد کیا گیا۔

1989ء میں کشمیر میں نام نہاد الیکشن کے بعد کشمیری حریت پسندوں کی سرگرمیاں شروع ہوئیں۔ 1996ء کے الیکشن کا کشمیریوں نے بائیکاٹ کیا۔ 1999ء میں بھارتی وزیر اعظم واجپائی نے لاہور کا دورہ کیا۔ کارگل کے واقعے کے بعد کشیدگی بڑھ گئی ۔2000ء میں مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر فلیش پوائنٹ بن گیا۔ 24جولائی 2000ء کو حزب المجاہدین نے جنگ بندی کا اعلان کیا۔ 8اگست2000ء کو بھارتی رویہ کے باعث اعلان واپس لے لیا۔

علاوہ ازیں پاکستان اور بھارت کے مابین متعدد بار مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں مذاکرات ہوچکے ہیں جو بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بے سود ثابت ہوئے ۔بھارت نے ہمیشہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیا ہے جب کہ پاکستان آج بھی بین الاقوامی اصولوں پر قائم ہے اور مسئلہ کشمیر کو ہر مقام پر ، پر امن طریقے سے حل کرنے کا خواہ ہے لیکن بھارت ہر بار چالاکی و عیاری کا مظاہرہ کرتا رہا ہے ایک طرف وہ امن کی باتیں کرتا رہا تو دوسری طرف وہ کشمیریوں پر ظلم و بربریت کا بازار گرم کرتا رہا اور الزام پاکستان کو دیتا ہے کہ وہ حریت پسندوں کی مدد کررہا ہے جو سراسر 21ویں صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے ، سچ تو یہ ہے کہ کشمیر کے عوام غاصب بھارت سے چھٹکارا چاہتے ہیں جس کے حصول کے لیے اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں اور ان کے بہتے ہوئے خون کے اثرات ہیں کہ آج دنیا کی نظریں مسئلہ کشمیر پر مرکوز ہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جنوبی ایشیا ایٹمی جنگ کے دہانے پر ہے ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایٹمی جنگ کا خطرہ کیونکر پیدا ہوا ؟ اس سوال کے جواب سے پوری عالمی برادری اچھی طرح واقفیت رکھتی ہے یعنی مسئلہ کشمیر اس کا بنیادی سبب ہے اور اس امرکا بھی انھیں اعتراف ہے کہ ایٹمی دھماکے کی ذمے داری پاکستان پر عائد نہیں کی جاسکتی کیونکہ بھارت کے بعد پاکستان نے اپنے دفاع کے طور پر ایٹمی دھماکے کیا تھا۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ بھارت ایک طرف امن کی بات کرتا ہے تو دوسری طرف ایٹمی ہتھیاروں کے انبار لگانے میں مصروف ہے اور ایک سوگنا دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا ہوا ہے اور کشمیریوں کو شہید کرنا ، کشمیری خواتین کی عزتوں کو پامال کرنا، انھیں زیر حراست شہیدکرنا ، ان کی املاک کو نقصان پہنچانا،کشمیری نوجوانوں کو اغواء کرکے غائب کرنا ، جیسے حالات و واقعات میں مصروف بھارت کس منہ سے امن و آشتی کی بات کرتا ہے ؟سچ تو یہ ہے کہ بھارت جنوبی ایشیا کا دادا گیر بننا چاہتا ہے جسے ابھرتا ہوا دہشت گرد کہا جائے تو بجا ہوگا ۔

پاکستان ایک پر امن ملک ہے لیکن اس امن پسندی کوکمزوری و بزدلی نہ تصور کیا جائے ۔کشمیر کے عوام بھارت کے ظلم و ستم اور بربریت سے نجات چاہتے ہیں اور پاکستان انھیں اخلاقی مدد فراہم کرتا رہے گا، لہٰذا عالمی برادری کو بھی چاہیے کہ وہ بھارت پر بھی دباؤ بڑھا کرکشمیریوں کی اخلاقی مدد کریں اور اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا پاکستان و بھارت تعلقات معمول پر نہیں آسکتے ۔

عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت کی جانب سے برسوں سے جاری مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی ، پاکستان کے اندر بھارتی پراکسی وار ختم کرنے ، بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی روکنے و احترام کرنے ،لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی روکنے، بھارتی جیلوں میں قید کشمیری حریت پسندوں کی رہائی اور انھیں تحفظ فراہم کرنے پر زور دینا چاہیے۔

اس امر پر بھی زور دینا چاہیے کہ اگربھارت نے پاکستان پر کسی قسم کی جنگ ایٹمی و روایتی مسلط کی تو پاکستان اپنا دفاع کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے ۔ واضح رہے کہ جبتک مسئلہ کشمیر حل طلب رہے گا ، جنوبی ایشیا میں امن کا قیام ایک خواب ہی رہے گا ۔

The post کشمیر جنوبی ایشیا کا مسئلہ ہے appeared first on ایکسپریس اردو.


جدید نو آبادیات کی چھینا جھپٹی

$
0
0

ماضی ، حال اور مستقبل کی جنگیں، وسائل پر قبضہ کرنے کی جنگیں تھیں، ہیں اور رہیں گی، تاوقتیکہ وسائل مشترکہ ملکیت نہ ہوجائیں۔ معلوم تاریخ کے زمانہ قدیم میں جب مشترکہ ملکیت تھی تو میرا اور تیرا کا تصور بھی نہیں تھا، سب مل کر پیداوار کرتے تھے اور مل کرکھاتے تھے۔ سائنس نے اتنی ترقی کی تھی اور نہ پیداوارکی بہتات تھی مگر آج کی طرح روزانہ ہزاروں انسان بھوک سے مرتے تھے اور نہ جنگوں کے نظر ہوتے تھے۔

امریکا کی دریافت سے قبل وہاں انسان رہتے تھے اور خوش وخرم ہوتے تھے۔ وہ ہفتے میں تین روزکام کرتے تھے اورکام یہ تھے کہ درختوں سے پھل توڑنا اور دریاؤں سے مچھلی پکڑنا۔ جب ہسپانوی سامراج نے امریکا پر، برطانوی سامراج نے ہندوستان اور چین پر اور فرانسیسی وجرمن سامراج نے افریقہ اور عرب پر قبضہ کیا تو وہاں بھوک، افلاس اورطرح طرح کی بیماریوں سے لوگ مرنے لگے۔ جابجا قحط اور وبائی امراض نے عوام کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ نوآبادیات کے حصول اور قدرتی وسائل پر قبضے کے لیے دو عالمی جنگیں ہوئیں جس کے نتیجے میں پانچ کروڑ انسان جان سے جاتے رہے، صرف روس میں دوکروڑ سے زیادہ انسان مارے گئے۔

عالمی سامراجی گدھ کی طرح نو آبادیات پر جھپٹ پڑے۔ اس چھینا جھپٹی میں سامراج کے دو مرکزے بن گئے۔ ایک جانب برطانیہ، امریکا، فرانس اور دوسری جانب اٹلی، جرمنی اور جاپان۔ جنگ کے اختتام پر فاتح نے مفتوح پر تاوان ادا کرنے اور طرح طرح کی اقتصادی پابندیاں عاید کردیں۔ امریکا، ایشیا، افریقہ خاص کر ایشیا کے دو ممالک ہندوستان اور چین کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ نتیجتا یورپی ممالک خواندہ، ترقی یافتہ اورخوشحال ہوگئے اورامریکا،ایشیا و افریقہ کنگال ہوگئے۔

ان لوٹ مارکی نو آبادیاتی عوامل کے نتیجے میں روس، چین، ویتنام، مشرقی یوروپ،کیوبا،کوریا اورکچھ عرب ممالک میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا اور وہاں سر مایہ داری و جاگیرداری کا خاتمہ کردیا گیا۔ ان ملکوں سے مہنگائی ، بیروزگاری، افلاس، ناخواندگی ، بے گھری، لاعلاجی اور طبقاتی نا برابری کا خاتمہ کیا لیکن تیز رفتاری سے امداد باہمی یا کمیونسٹ سماج کی جانب پیش قدمی نہ کرنے سے ان ملکوں میں سرمایہ داروں نے سازشیں کیں اور رد انقلاب لا کر وہاں پھر سے سرمایہ داری قائم کردی۔ اس کے باوجود آج بھی ان ملکوں میں خواندگی کی شرح 90 سے 98 فیصد ہے۔ ملاوٹ، علاج معالجے اور زندگی کی بنیادی سہولتیں ایک حد تک پھر بھی بہتر ہے۔کیوبا اور کوریا میں 99.99 فیصد لوگ خواندہ ہیں۔

پاکستان اورکشمیر میں 2005ء میں آنے والے زلزلے کے متاثرین کی علاج معالجے کے لیے کیوبا سے آ نے والے ڈاکٹروں کی خدمات کے عوض پاکستان کی حکومت نے ڈاکٹر فیدل کاستروکو خصوصی اعزازسے نوازا ہے، لیکن عالمی سرمایہ داری آج کل انتہائی معاشی بحران کا شکار ہے۔ یورپ کی شرح نمو دو فیصد تک آن پہنچی ہے جب کہ امریکا کی تین فیصد اور چین کی گیارہ فیصد سے گھٹ کر چھ فیصد پر آگئی ہے۔ آج کی عالمی سرمایہ داری کا بحران درحقیقت زائد پیداوارکا بحران ہے۔ اس لیے عالمی سرمایہ دار نوآبادیوںکی جگہ جدید نو آبادیات کی حصول کے لیے پراکسی وار اور ایجنٹوں کے ذریعے جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔

اس وقت سامراج کے دو بڑے عالمی مراکز تشکیل پاچکے ہیں۔ ایک جانب امریکا، یورپ، سعودی عرب، اسرائیل، بھارت، مصر، اردن،جاپان اور جنوبی کوریا تو دوسری جانب روس، چین، ایران، شام، لبنان ، یمن، عراق، وسطی ایشیائی ممالک اور منگولیہ وغیرہ ہیں ۔ امریکا نے جدید نوآبادیاتی ممالک پہ اپنا قبضہ جمائے رکھنے کے لیے اسرائیل، سعودی عرب، بحرین، مصر، جنوبی کوریا، جاپان اور عرب امارات میں اپنے فوجیوں پر مشتمل فوجی اڈے قا ئم کر رکھے ہیں، جب کہ روس، چین اور ایران وسطیٰ ایشیا، عرب ممالک ،افغانستان، برما، سری لنکا، مغربی افریقا اور دیگر ممالک میں سامراجی کردار ادا کررہے ہیں۔

مثال کے طور پر برما میں گیس، تیل اور قیمتی جواہرات کے بہت بڑے ذخائر ہیں۔ چین پائپ لائن کے ذریعے برما سے تیل اورگیس حاصل کرتا ہے جب کہ امریکا اس کوشش میں پراکسی وار کرنے میں جتا ہوا ہے کہ چین کو برما سے بھگا کرخود قبضہ کرے۔ اسی طرح دنیا کے چار بڑے تانبے کے ذخائر میں سے ایک افغانستان میں ہے جس کا ٹھیکہ چینی کمپنی کے پاس ہے۔ اس وقت دنیا کے سمندروں میں امریکا کے 68 بحری بیڑے موجود ہیں جب کہ چین کے 12 ہیں۔ پا کستان اس چکی کا پاٹ بنا ہوا ہے۔ امریکا ہمیں ایک ڈالر دے کر چودہ ڈالر لے جاتا ہے جب کہ ہمیں سب سے زیادہ تجارتی خسارہ چین سے ہورہا ہے۔

گزشتہ برس چینی کمپنی کو ایک ارب روپے کراچی کا کوڑا صاف کرنے کے لیے ادا کیے گئے، لیکن صفائی کچھ بھی نہیں ہوئی۔ اس مسئلے پر حکومت سندھ نے رد عمل بھی ظاہرکیا ہے۔ 2017ء کے آخری مہینوں میں کراچی چیمبر آف کامرس نے ایک قرار داد پاس کی جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان جو سہولتیں چینی کمپنیوں کو دے رہی ہے وہی سہولتیں پاکستانی کمپنیوں کو بھی دی جائیں۔

ہم فلسطین کی حمایت کرتے ہیں اور اسرائیل کی مذمت کرتے ہیں لیکن اسرائیل کے آقا، امریکا سے یہ التجا کرتے ہیں کہ ’’ہماری قربانیوں کو تسلیم کرے‘‘ یعنی امریکی سامراج کے احکامات کی بجا آوری کے لیے سامراج مخالف ڈاکٹر نجیب کی حکومت کے خلاف پا کستان سے طالبان کو بھیجے گئے لاکھوں لوگ اور سپاہی سامراجی خد مات میں مارے گئے۔ انھیں وسائل کے حصول کے لیے پاکستان کے اندر حکمران طبقات کے مابین تضادات جاری ہیں۔

سی پیک کے ٹھیکے کس کو ملیں؟ سول حکو مت اپنے ٹھیکیداروں کو دینے کا مطالبہ کرتی ہے مگر اب تک زیادہ تر ٹھیکے فوجی فاؤنڈیشن اور این ایل سی کو ملے ہیں۔ پہلے تو ہمارے بجٹ کا بڑا حصہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دفاعی بجٹ پر خرچ ہوجاتا ہے۔ جو بچتا ہے وہ بھی کمیشن اور رشوت خوری کا شکار ہو تا ہے اور نا اہلیت کی یہ نوبت ہے کہ بجٹ بھی پیش ہوجاتا ہے مگر عوام کے کام نہیں آتا۔ مثال کے طور پر بلوچستان کے 78 ارب روپے کے بجٹ کا 52ارب روپے لیپس ہوا یعنی کہیں استعمال ہی نہیں ہو پایا۔ ہم اپنے بجٹ کا بیش تر حصہ غیر پیداواری مد میں خرچ کردیتے ہیں۔ اگر بجٹ کا بڑا حصہ بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانے اورکارخانوں کا جال بچھانے پر لگا دیں تو ملک سے بیروزگاری کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

The post جدید نو آبادیات کی چھینا جھپٹی appeared first on ایکسپریس اردو.

چند ناقابل فراموش فلمی لوریاں

$
0
0

بچے غریبوں کے ہوں یا امیروں کے وہ محلوں میں پلے بڑھے ہوں یا چھوٹے گھروں اور جھونپڑیوں میں ، ان کی پرورش ہوئی ہو ان کے والدین انھیں میٹھی میٹھی لوریاں سنا کر ہی سلاتے رہے ہیں اور لوری کے یہ گیت ہر زبان ہر قوم میں صدیوں سے گائے جاتے رہے ہیں۔ پھر جب فلموں کا دور آیا تو فلموں کے ذریعے فلمی لوریوں نے بھی خوب رواج پایا اور سارے برصغیر میں یہ فلمی لوریاں مشہور ہوتی چلی گئیں۔

یہ 1951ء کی بات ہے جب ہندوستان اور پاکستان میں ایک فلم ’’البیلا‘‘ ریلیز ہوئی تھی اس فلم کی ایک لوری نے بڑی دھوم مچائی تھی اور غالباً شاعر راجندرکرشن کی بھی پہلی لکھی ہوئی لوری تھی جس کی موسیقی سی رام چندرا نے دی تھی اور اس لوری کوگلوکارہ لتا منگیشکر نے گایا تھا اور اس کی دلکش آواز میں ایک جادو سا تھا اس زمانے میں وہ لاکھوں بچوں کے ساتھ بڑوں کی بھی پسندیدہ لوری تھی اور گھر گھر گائی جاتی تھی۔ اس لوری کے چند بول بھی قارئین کی دلچسپی کے لیے درج ہیں۔

دھیرے سے آجا ری اکھین میں نندیا‘ آ جا ری آ جا دھیرے سے آجا

لے کر سہانے سپنوں کی کلیاں‘ آ کے بسا دے پلکوں کی گلیاں

چپکے سے نینن کی بگین میں نندیا آ جا ری آ جا‘ دھیرے سے آ جا

اس دلکش لوری کے بعد پاکستان کی فلم ’’نوکر‘‘ کی ایک لوری نے بھی بے پناہ مقبولیت حاصل کی تھی جسے قتیل شفائی نے لکھا تھااور جس کی موسیقی جی اے چشتی نے دی تھی۔ یہ بھی کیا خوبصورت لوری تھی جس کے بول دل میں اترتے چلے جاتے تھے اس لوری کو کوثر پروین نے گایا تھا۔ 1955ء کی فلم تھی اور فلم ’’نوکر‘‘ نے اس لوری ہی کی وجہ سے گولڈن جوبلی کی تھی۔ یہ پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی فلم بھی تھی۔

راج دلارے توہے دل میں بساؤں‘ توہے گیت سناؤں

میری اکھیوں کے تارے میں تو واری واری جاؤں

سارے جہان پر پھیلی ہے چاندنی

ترے مکھڑے کے آگے میلی ہے چاندنی

چندا کو میں کیا جانوں تو میرا چاند ہے‘ راج دلا رے

لوری کے گیتوں کا تذکرہ چل نکلا ہے تو ایک اور لوری مجھے یاد آگئی ہے جو 1956ء میں نمایش پذیر ہوئی تھی۔ فلم تھی ’’لخت جگر‘‘ فلمساز آغا جی اے گل اور ہدایت کار نعمان تھے اور اس لوری کے موسیقار بھی جی اے چشتی تھے۔ یہ لوری بھی لاجواب تھی۔ اس لوری کے کچھ بول بھی قارئین کی نذر ہیں۔

چندا کی نگری سے آجا ری نندیا‘ تاروں کی نگری سے آ جا

پریوں کی دنیا کے نغمے سنا کر‘ ننھے کو میرے سلا جا ‘ چندا کی نگری سے آجا

سویا ہے چندا سوئے ہیں تارے‘ خوابوں میں سوئے ہیں سارے

نغمے سناؤں تجھے پیارے پیارے‘ سو جا تو دل کے سہارے

آ پیاری نندیا گیتوں سے اپنے‘ ننھے کی دنیا بسا جا‘ آ جا ری نندیا آجا

اس لوری کو میڈم نور جہاں کی آواز کا حسن ملا تھا تو یہ لوری اور زیادہ حسین ہوگئی تھی۔ اس لوری کے شاعر ناظم پانی پتی تھے۔ جو لخت جگر سے پہلے بمبئی کی فلم انڈسٹری سے کافی طویل عرصے تک وابستہ رہے تھے اور بمبئی کی بے شمار فلموں کے لیے گیت لکھ چکے تھے۔ ناظم پانی پتی کو ایک کریڈٹ یہ بھی جاتا ہے کہ ان کے لکھے ہوئے پنجابی فلم لچھی کے ایک گیت سے گلوکار محمد رفیع کو ابتدائی شہرت ملی تھی یہ گیت ایک ڈوئیٹ کی صورت میں تھا جسے لتا منگیشکر اور محمد رفیع نے گایا تھا۔ اور ہاں لخت جگر کی مشہور لوری کے بارے میں ایک خاص بات اور بتاتا چلوں کہ اس لوری کی زبردست مقبولیت کے بعد انڈین فلم انڈسٹری کے نامور موسیقار ناشاد نے فلم کے موسیقار جی اے چشتی کو باقاعدہ ایک خط لکھا تھا اور اس میں موسیقار جی اے چشتی کی دل کھول کر تعریف کی تھی۔

’’فلم کبھی کبھی‘‘ کی ایک لوری نے بھی بڑی مقبولیت حاصل کی تھی۔ اس لوری کو نامور شاعر اور نغمہ نگار ساحر لدھیانوی نے لکھا تھا۔ اور اس لوری میں ایک ایک لفظ ادب کی مٹھاس بھی رکھتا ہے اور دلوں پر دستک دیتا ہے۔ اور یہ لوری انڈیا کے لیجنڈ موسیقار خیام کی ذہنی کاوشوں کا نچوڑ تھی۔ جس کے بول تھے:

میرے گھر آئی ایک ننھی پری

چاندنی کے حسین رتھ پہ سوار

میرے گھر آئی ایک ننھی پری

اس کی باتوں میں شہد جیسی مٹھاس

اس کی سانسوں میں عطر کی مہکار

ہونٹ جیسے کہ بھیگے بھیگے گلاب

بال ایسے کہ دہکے دہکے انار

میرے گھر آئی ایک ننھی پری

یش چوپڑہ کی یہ فلم 1976ء میں ریلیز ہوئی تھی یہ لوری وحیدہ رحمان پر فلمائی گئی تھی۔ننھی پری کا جب تذکرہ ہوا ہے تو اس تذکرے کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک اور خوبصورت لوری میرے ذہن میں آگئی ہے۔ جو فلم ’’سجاتا‘‘ کے لیے مشہور شاعر مجروح سلطان پوری نے لکھی تھی جس کی موسیقی لیجنڈ موسیقار ایس ڈی برمن نے دی تھی اور اس لوری کو گیتا دت نے گایا تھا۔ آواز موسیقی، شاعری تینوں کا حسن بے مثال تھا۔ اور بول تھے:

ننھی پری سونے چلی

ہوا دھیرے آنا

نیند بھرے پنکھ لیے جھولا جھلانا

چاند کے رنگ سی گڑیا

نازوں کی ہے پلی

چاندنی آج آنا میری گلی‘ ننھی پری سونے چلی

اس لوری کے ساتھ شاعر آنند بخشی کی لکھی ہوئی فلم ’’مکتی‘‘ کی خوبصورت لوری بھی قلم کی نوک پر آگئی ہے جس کے موسیقار آر ڈی برمن تھے اور اس لوری کو گلوکار مکیش نے اپنی آواز کے حسن سے سجایا تھا یہ بھی 1977ء کی فلم تھی اور اس کو بھی بڑی شہرت ملی تھی اس کے بول بھی قارئین کی نذر ہیں:

للا للا لوری

دودھ کی کٹوری

دودھ میں بتاشا

منی کرے تماشا

چھوٹی چھوٹی پیاری پیاری

پریوں جیسی ہے

کسی کی نظر لگے نہ منی ایسی ہے

شہد سے بھی میٹھی‘ دودھ سے بھی گوری

للا للا لوری

یوں تو اور بھی بے شمار مقبول فلمی لوریاں ہیں مگر میں اب آخر میں حمایت علی شاعر کی مشہور فلم ’’لوری‘‘ کے لیے ریکارڈ کی گئی لوری کا تذکرہ کروں گا۔ اس لوری کو دو گلوکاراؤں نے گایا تھا۔ اور یہ لوری دو اداکاراؤں پر فلمائی گئی تھی۔ فلم ’’لوری‘‘ میں زیبا پر فلمائی گئی لوری کو ثریا حیدرآبادی نے گایا تھا۔ اور اداکارہ طلعت صدیقی پر فلمائی گئی لوری طلعت صدیقی ہی کی آواز میں ریکارڈ ہوئی تھی۔ فلم کے موسیقار خلیل احمد تھے۔ جنھوں نے گلوکارہ ثریا حیدرآبادی کو بطور خاص اس لوری کی ریکارڈنگ کے لیے لاہور بلایا تھا اور یہ فلم ’’لوری‘‘ کی ہائی لائٹ لوری تھی جسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ جس کے بول تھے:

چندا کے ہنڈولے میں

اڑن کھٹولے میں

امی کا دلارا ابو جی کا پیارا سوئے

نندیا جھلائے تجھے جھولنا

دھیرے دھیرے نندیا تو اکھیوں میں آنا

میٹھے میٹھے پیارے پیارے سپنے دکھانا

پریوں کی نگری کی سیر کرانا

چندا کے ہنڈولے میں‘ اڑن کھٹولے میں

اس لوری کا تصور کرکے تو مجھے خود نیند سی آنے لگی ہے۔ نصف شب گزر چکی ہے اور بوجھل آنکھوں کے ساتھ اب اپنے قارئین سے اجازت چاہتا ہوں۔

The post چند ناقابل فراموش فلمی لوریاں appeared first on ایکسپریس اردو.

کراچی کے یرغمال شہری

$
0
0

کے الیکٹرک کو گیس سے چلنے والے پاور پلانٹس چلانے کے لیے سوئی سدرن گیس کی جانب سے مطلوبہ مقدارمیں سپلائی نہیں مل رہی، جس کی وجہ سے کراچی کے صارفین کو اضافی لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیلنا پڑ رہا ہے۔ سوئی سدرن گیس کمپنی اور کے الیکٹرک کے مابین اس ڈیڈ لاک کی وجہ سے پاور شارٹ فال 500میگا واٹ تک پہنچ چکا ہے، اس کی ابتدا دس روز پہلے ہوئی تھی، حل کے آثار دکھائی نہیں دیتے اور یہ مسئلہ وہیں کھڑا ہے۔

سوئی سدرن گیس نے ابتدائی طور پر اس بات سے انکار کیا کہ کے الیکٹرک کو گیس کی فراہمی میں کمی کی گئی ہے۔ اس کے بعد یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ ایس ایس جی سی کو مختلف گیس فیلڈز میں قلت کا سامنا ہے جس کی وجہ سے موجودہ صارفین کی ضروریات پوری کرنے کے لیے گیس کی فراہمی نہیں ہوپارہی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایس ایس جی سی اور کے الیکٹرک کے مابین مسائل کی نوعیت مختلف ہے۔

ایس ایس جی سی کا دعوی ہے کہ کے الیکٹرک فراہم کردہ گیس کی ادائیگیاں نہیں کررہی۔ دوسری جانب کے ای نے بلاناغہ گیس کے ماہانہ بلوں کی ادائیگی کے ثبوت پیش کیے، اس میں اصل قابل ادا رقوم پر تنازعہ نہیں، جب کہ سود کی رقم  60ارب بتائی جاتی ہے۔ کمشنر کراچی کو اپنے خط میں ایس ایس جی سی نے کے الیکٹرک کو گیس کی اضافی فراہمی کے لیے تین شرائط رکھی ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے تمام بقایاجات ادا کیے جائیں،کے الیکٹرک فراہمی گیس کے معاہدے (GSA) پر دستخط کرے اور تیسری شرط یہ ہے کہ زر ضمانت جمع کروایا جائے۔

کے الیکٹرک کا مؤقف یہ ہے کہ ان پر ایس ایس جی سی کے صرف 13.7ارب واجب الادا ہیں جب کہ باقی رقم پر تنازعہ ہے، 60ارب روپے کے جو بقایا جات بتائے جاتے ہیں ان میں سود اور تاخیر سے ادائیگی کے سرچارج شامل ہیں اور یہ معاملہ عدالتوں میں ہے۔ جب تک کے الیکٹرک کو مطلوبہ مقدار میں فراہمی نہیں کی جاتی، گیس سے چلنے والے اس کے پاؤر پلانٹ بند رہیں گے اور 500میگا واٹ کا شارٹ فال جاری رہے گا۔

اہل کراچی کی بدقسمتی یہ ہے کہ ایس ایس جی سی نے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے شدید گرم موسم کا انتخاب کیا۔ شنگھائی الیکٹرک پاؤر(ایس ای پی) کو کے الیکٹرک کے انتظام کی ممکنہ منتقلی بھی ایک پہلو ہے۔ اس بات پر سوچنا گوارہ نہیں کیا گیا کہ لوڈ شیڈنگ سے شہر کی صنعتی پیداوار پر پڑنے والے اثرات سے اربوں کا نقصان ہوگا، اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے روزگاری سے ایس ایس جی سی کو کوئی سروکار نہیں۔ کراچی چیمبر آف کامرس اور بن قاسم ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری(بقاٹی) نے اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ ‘‘گیس لوڈ مینجمنٹ پالیسی‘‘ پر نظر ثانی ہونی چاہیے اور گیس کی فراہمی کے لیے نسبتاً کم اہم سیکٹرز کے مقابلے میں زیادہ اہم سیکٹرز، جیسے کہ سی این جی سیکٹر کی نسبت پاؤر سیکٹر کو ترجیحی بنیادوں پر فراہمی ہونی چاہیے۔ آگ برساتے موسم میں لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیلنے والے شہریوں کی داد رسی کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے گذشتہ ہفتے کے الیکٹرک اور ایس ایس جی سی کے نمایندگان کو طلب کیا اور ان پر واضح کیا کہ دونوں کمپنیوں کے باہمی تنازعے کی سزا شہریوں کو دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

مراد علی شاہ نے یہ بے باک اور خوش آیند اقدام کرتے ہوئے نہ صرف دونوں کمپنیوں کو مسئلے کا فوری حل نکالنے کے لیے الٹی میٹم دیا بلکہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے بھی کراچی کے شہریوں اور کاروباری سرگرمیوں کے ریلیف کے لیے اس معاملے میں مداخلت کرنے کا مطالبہ کیا۔ وزیر اعظم کو دس روز کے اندر اپنے دوسرے خط میں وزیراعلی مراد علی شاہ نے شہر کے عوام کو فوری طورپر لوڈ شیڈنگ سے ریلیف فراہم کرنے پر زور دیا۔

وزیراعلی مراد علی شاہ کے مطابق ’’مفاد عامہ‘‘ کی خاطر ایس ایس جی سی کی جانب سے اپنے گیس مینجمنٹ پلان کے ذریعے کے الیکٹرک کو گیس کی اضافی فراہمی کی پیش کش کی گئی، اور اس کے لیے زر ضمانت جمع کروانے، بقایاجات کی ادائیگی اور گیس فراہمی کے معاہدے (جی ایس اے) پر دست خط کرنے کی شرائط رکھی گئیں۔

دوسری جانب کے الیکٹرک نے زرضمانت جمع کروانے کی یقین دہانی کروائی اور باہمی متفقہ شرائط پرگیس کی فراہمی کا معاہدہ کرنے کے لیے آمادگی ظاہر کی۔ اتوار کو ایس ایس جی سی نے بورڈ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جس میں کے الیکٹرک کو چھے ارب روپے زرضمانت، جو 150ایم ایم سی ایف ڈی کی فراہمی کے اعتبار سے تین ماہ کے اوسط بل کے مساوی ہے،  جمع کروانے پر 120ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی فراہمی اور متفقہ شرائط پر آزاد چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ فرم کی تقرری کرنے کے معاہدے کی منظوری دی۔

کے الیکٹرک نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ایس ایس جی سی کو سود/تاخیر سے ادائیگی کے سرچارجز کی ادائیگی ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور جواباً اس میں اسٹرٹیجک بلک کنزیومرز اور وفاقی حکومت پر (نرخوں میں دی جانے والی سبسڈی کی مد میں ) واجبات کی ادائیگی کو بھی اس میں شامل کردیا۔ یہ غیر معمولی مسئلہ حل کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ کے خط میں وفاقی و صوبائی حکومتوں، ایس ایس جی سی اور کے الیکٹرک کے نمایندگان پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے کی سفارش بھی کی گئی۔

ایس ایس جی سی نے کے الیکٹرک کو بجلی کی پیداوار کے لیے مطلوب اضافی فراہمی سے واجبات کی بنا پر انکار کرکے ایک ہولناک نظیر قائم کی ہے، جس کے تباہ کُن نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، اسے کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا۔

واجبات کی وصولی کے لیے سرکاری /نیم سرکاری اداروں کا یہ طرز عمل نہ صرف کئی اثرات کا حامل ہے بلکہ مستقبل میں دونوں اسٹیک ہولڈرز اور وسیع پیمانے پر عوام کو بھی اس سے دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس مثال کو دیکھتے ہوئے پی ایس او 26ارب کے واجبات کی بنا پر پی آئی اے کو یا سوئی ناردرن گیس کو فراہمی روک سکتا ہے، ملک کو ایل این جی کی سب سے بڑی فراہم کنندہ اس کمپنی پر پی ایس او کے کم از کم 28ارب واجب الادا ہیں، یا کے الیکٹرک کو اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ 32ارب روپے کی عدم ادائیگی پر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو بجلی کی فراہمی روک دے۔ خود ایس ایس جی سی کو پی پی ایل اور او جی ڈی سی ایل کے 112ارب روپے ادا کرنے ہیں۔

کیا ان کمپنیوں کو بھی ایس ایس جی سی کو فراہمی سے انکار کردینا چاہیے۔ اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو ہمارے شہر(اور ملک میں) کہیں گیس ، بجلی اور پانی دستیاب نہیں ہوگا۔ کیا ایس ایس جی سی کراچی کے شہریوں کا تاوان وصول کرنے کی خواہاں ہے؟ گزشتہ دو برسوں میں سندھ اور کراچی میں ہیٹ اسٹروک سے ہونے والی اموات کون فراموش کرسکتا ہے؟

اس موضوع پر سیاسی نمایندگان، حکومت اور انتظامیہ کی خاموشی اور عدم دل چسپی عوام کے دکھوں میں اضافہ کررہی ہے ، عام آدمی معاشی اور دیگر مسائل کے ہاتھوں پہلے ہی تنگ ہے۔کراچی میں صنعتوں کی محدود ہوتی پیداوار کے باعث برآمدات میں کمی اور مقامی مارکیٹ کے بحران جنم لیں گے اور اس سے ملک کی مجموعی اقتصادی صورت حال متاثر ہوگی جب کہ غربت اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوگا۔

ہوش کے ناخن لینے چاہییں اور کراچی کو بجلی کی فراہمی بحال ہونی چاہیے۔ عوامی خدمات سے منسلک کمپنیوں کو اخلاقی دائرے میں رہنا چاہیے اور انھیں اپنے ’’واجبات‘‘ کی وصولی کے لیے کوئی ایسا اقدام کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، جس کے باعث شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔

فی الحال تو ایس ایس جی سی نے اپنے مفادات کے لیے کراچی کے شہریوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ ایم کیو ایم کے مسلح گروہ تاوان کے لیے کراچی کو اسی طرح یرغمال رکھ چکے ہے، مسلح گروہوں کے بعد کیا اب یہ کراچی کے شہریوں کو بلیک میل کرنے کا کوئی نیا طریقہ ہے؟ ہمیں 2000 سے 2010کے سیاہ ترین دور میں دھکیلنے کی یہ کوشش کس کے اشارے پر کی جارہی ہے؟ جب تک کوئی بااختیار کمیٹی بلا تاخیر اس تنازعے کو حل کرتی ہے، کچھ اور تو چھوڑیے صرف انسانی بنیادوں ہی پر گیس کی فراہمی بحال ہونی چاہیے۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

The post کراچی کے یرغمال شہری appeared first on ایکسپریس اردو.

عالمی یوم صحت

$
0
0

شاہین اختر نفسیات کی پروفیسر ہیں اور سرکاری یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کی سربراہ ہیں۔ پروفیسر شاہین اختر مارچ کے مہینے میں صبح 10:00 بجے اپنے گھر سے یونیورسٹی جانے لیے اپنی کار میں روانہ ہوئیں۔ ان کی گاڑی صفورا چوک سے کراچی یونیورسٹی کی طرف بڑھی تھی کہ سڑک کے کنارے ایک ہجوم نظر آیا۔

پروفیسر شاہین کی گاڑی جب ہجوم کے قریب پہنچی تو انھیں سڑک پر گرا ہوا ایک نوجوان نظر آیا۔ اس 30 سالہ نوجوان کے سر سے خون بہہ رہا تھا اورقریب ہی اس کی موٹر سائیکل گری ہوئی تھی۔ شاہین اختر نے ہجوم میں موجود لوگوں سے پوچھا کہ انھوں نے ایمبولینس بلوانے کے لیے کہیں ٹیلیفون کیا ہے تو لوگ خاموش ہوگئے۔

ہجوم سے آوازیں آئیں کہ یہ تو پولیس کیس ہے۔ پروفیسر صاحبہ نے اپنے ڈرائیور اور چند لوگوں کی مدد سے بے ہوش نوجوان کو کار میں سوارکرایا اور ڈرائیورکو علاقے کے بڑے میمن اسپتال لے جانے کوکہا۔ ڈرائیور نے تیزی سے گاڑی دوڑائی۔ سڑک پر رش نہیں تھا، چند منٹوں میں  اسپتال پہنچ کر ایمرجنسی وارڈ پر تعینات اہلکاروں سے کہا کہ زخمی کو ایمرجنسی وارڈ میں منتقل کریں مگر ان لوگوں نے انکارکیا اور بیک زبان کہا کہ اسپتال پولیس کیس نہیں لیتا۔ پروفیسر صاحبہ نے پھر ہمت باندھی اور زخمی نوجوان کے سر سے خون رک ہی نہیں رہا تھا۔ وہ اپنی گاڑی کو ایک میڈیکل یونیورسٹی کے کیمپس لے گئیں۔

ایک مشکل سفر اختتام کو پہنچا مگر سرکاری اسپتال کا عملہ بھی زخمی کو امداد دینے پر تیار نہیں تھا اور اسپتال کے عملے کا اصرار تھا کہ یہ پولیس کیس ہے مگر جب پروفیسر صاحبہ نے شور مچایا اور پیشکش کی کہ پولیس کے طلب کرنے پر انھیں وہ گرفتاری دے دیں گی تو زخمی کو ایمرجنسی وارڈ میں منتقل کیا گیا۔ پروفیسر شاہین نے مریض کے علاج کے لیے اپنے پرس میں موجود کل رقم بھی دی مگر یہ نوجوان زیادہ خون بہہ جانے کی بناء پر جاں بحق ہوگیا۔ جب نوجوان کے لواحقین اسپتال پہنچے تو پتہ چلا کہ بدقسمت نوجوان کی شادی ایک سال قبل ہوئی تھی ۔

ملک میں حادثات میں جاں بحق ہونے والے افراد کی شرح خاصی زیادہ ہے۔ کراچی میں گزشتہ سال ٹریفک کے حادثات میں مرنے والوں کی تعداد 800کے قریب تھی۔ ان میں سے بیشتر فوری طبی امدا د نہ ملنے کی بناء پر زندہ نہ رہ سکے۔ پاکستان یوں تو ایٹم بم بنانے والے دنیا کے بڑے ممالک کے کلب میں شامل ہے مگر اسی ملک میں صحت سے متعلق انڈیکیٹر انتہائی مایوس کن ہیں۔ پاکستان میں خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زچہ وبچہ کی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے اور صدی کے اٹھارہ سال گزرنے کے باوجود صورتحال ویسی ہی ہے جیسی گزشتہ صدی کے آخری عشروں میں تھی۔ پاکستان میں ہر ساتواں آدمی ذیابیطس کے مرض کا شمار ہے۔

ٹی بی کے جراثیم اس مرض کے تدارک کے لیے دی جانے والی دوائیوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں جس بناء پر ٹی بی کا مرض ختم ہونے کے بجائے پھیل رہا ہے، اگرچہ گزشتہ صدی میں چیچک اور خسرہ کی بیماریوں کے بارے میں یقین دلایا گیا تھا کہ ریاستی اداروں کی جامع کوششوں کے بعد ان امراض پر قابو پالیا گیا ہے مگر سندھ کے مختلف شہروں سے ملنے والی اطلاعات سے اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ خسرہ اور چیچک وبائی صورت اختیارکررہی  ہیں۔

اخبارات میں شایع ہونے والے فیچرزکے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنوبی پنجاب میں ہیپاٹائیٹس بی اور سی کا مرض وبائی شکل اختیار کرگیا ہے۔ حکومت کی اس مرض کے خاتمے کی کوششیں کارآمد ثابت نہیں ہوئیں ۔

ہیپاٹائٹس کی خطرناک اقسام بی اور سی اور ایڈز کا مرض خون کی منتقلی سے پھیلتا ہے۔ انجکشن کی سوئی، ڈرپ کی نڈل اور حجام کا استرا ان امراض کو پھیلانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں مگر وفاقی اورصوبائی حکومتیں اس مرض کے بارے میں شعور پھیلانے اور رائے عامہ کو تبدیل کرنے میں ناکام ہوئی ہیں۔ بچوں کو پولیوکے قطرے پلانے سے پاؤں کو معذور بنانے سے روکنے کی کوششوں کے خلاف ایک مزاحمتی تحریک موجودہے مگر ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ابھی تک پولیوکی مہم کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ اب تک سوشل میڈیا بھی پولیو کے قطرے پلانے کے خلاف مہم میں مؤثر حصہ بن گیا ہے۔

ملک میں معذور بچوں کی حمایت میں کوئی مؤثر تحریک ارتقاء پذیر نہیں ہوئی۔ اب تو بین الاقوامی ادارۂ صحت (W.H.O) کے پاس پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچا، مگر ہر دفعہ جب ملک کے مختلف علاقوں میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم شروع ہوتی ہے تو پولیو کے قطرے پلانے والے اہلکاروں پر حملوں اور ان کے شہید ہونے کی خبریں آتی ہیں۔

18 ویں ترمیم کے بعد اب صحت کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہوگیا ہے مگر دوائیوں کے اجراء کے لیے لائسنس کے اجراء اور قیمتوں کے تعین کا معاملہ ڈرگ کنٹرول اتھارٹی کے سپرد ہے۔ یہ اتھارٹی وفاقی وزارت صحت کے تحت کام کرتی ہے مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اتھارٹی دوائیوں کی قیمتوں کو بڑھانے کا فریضہ انجام دینے کے لیے قائم ہوئی ہے۔

پاکستان شاید دنیا کا وہ بدقسمت ملک ہے جہاں شوگر لیول ناپنے کے لیے استعمال ہونے والی اسٹرپ کے ڈبے کی قیمت 1200 روپے ہے۔ ایک ڈبے میں صرف 50 اسٹرپ ہوتی ہیں۔ اسی طرح کینسر، ڈائیلیسز اورگردہ  ٹرانسپلانٹ کے مرض کی دوائیوں کی قیمتیں لاکھوں روپے میں ہیں، اگرکسی فرد کوکینسر کا مرض لاحق ہوجائے اور گردے کام کرنا بندکر دیں تو اس مریض کا خاندان والوں کو فوری طور پر دیوالیہ ہونے کا خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے۔

صوبوں نے صحت کے شعبے پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی ہے، اگرچہ مالیاتی ایوارڈ کے نئے فارمولے کے تحت صوبوں کی آمدنی بڑھ گئی ہے مگر چاروں صوبوں نے جدید اسپتالوں کی تعمیر ، ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی تربیت پر توجہ نہیں دی۔

یہی وجہ ہے کہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے سرکاری اسپتالوں پر دباؤ زیادہ ہے۔ پورے ملک کے دور دراز علاقوں سے لوگ علاج کرنے کے لیے ان شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ سندھ حکومت کے زیر اہتمام چلنے والے سول اور جناح اسپتال کے حالات بہتر ہیں مگر بلدیہ کراچی کے زیر انتظام عباسی شہید اسپتال زبوں حالی کا شکار ہے۔ چھوٹے شہروں کے اسپتالوں میں معقول سہولتیں موجود نہیں ہیں۔

حکومت کے پاس ماہر ڈاکٹروں کو چھوٹے شہروں میں فرائض انجام دینے پر آمادہ کرنے کے لیے کوئی اسکیم موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کنسلٹنٹ کی بڑی تعداد بڑے شہروں میں ملتی ہے۔ جو ماہر ڈاکٹر سرکاری اسپتالوں میں تعینات ہیں وہ بھی کھلے عام پرائیوٹ پریکٹس کرتے ہیں اور خوب رقم کماتے ہیں۔ حکومت کی صحت کی ناقص پالیسی کی بناء پر پرائیوٹ سیکٹر میں جدید اسپتال پورے ملک میں پھیل گئے ہیں۔

یہ اسپتال مریضوں سے اسی طرح رقم بٹورتے ہیں جس طرح ہوٹل والے اپنے مہمان مسافروں سے رقم لیتے ہیں۔ اب کراچی میں کنسلٹنٹ کی فیس آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ کنسلٹنٹ کی فیس ہزار روپے سے شروع ہوتی ہے اور 5 ہزار روپے کو عبورکرتی ہے۔ جب مریض دوسری دفعہ کنسلٹنٹ کے پاس جاتے ہیں پھر بھی وہی فیس وصول کی جاتی ہے جو پہلی دفعہ لی گئی ہوتی ہے۔ جب مریض آئی سی یو میں منتقل کیا جاتا ہے اور اس کی حالت زیادہ خراب ہوتی ہے تو کنسلٹنٹ ڈاکٹر کو دویا زائد بار بلایا جاتا ہے تو وہ جتنی دفعہ معائنہ کرتے ہیں اتنی ہی زیادہ فیس وصول کرتے ہیں۔ جو ماہر ڈاکٹر سرکاری اسپتالوں میں تعینات ہیں وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنی پرائیوٹ پریکٹس کے اشتہار اخبارات میں شایع کراتے  ہیں۔

کراچی گزشتہ 10 برسوں سے بلدیاتی امور سے محروم ہے جس کی بناء پر شہرکوڑے دان میں تبدیل ہوتا جارہا ہے،  جس کی بناء پر چکن گونیا جیسی بیماریاں پھیل رہی ہیں ۔ پنجاب میں تو فوڈ کنٹرول اتھارٹی موجود ہے مگر سندھ میں اب بھی اتھارٹی کے قیام پر غور ہو رہا ہے۔ یوں ناقص اشیاء کے استعمال سے مختلف نوعیت کے امراض وبائی شکل اختیارکرچکے ہیں۔ حکومت نے والدین کوکم بچے پیدا کرنے کی طرف راغب کرنے کے معاملے کو فراموش کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماں اور نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات خطرناک حد تک زیادہ ہے۔  بیمار ماں کے بچوں کی اموات کی خبریں روزانہ ذرایع ابلاغ کی زینت بنتی ہیں۔

گزشتہ مہینے عالمی ادارۂ صحت کی کوششوں سے دنیا بھر میں صحت کا دن منایا گیا ۔ اس دن ملک بھر میں تقاریب منعقد ہوئیں اور اخبارات کے خصوصی صفحے شایع کیے۔ الیکٹرونک میڈیا نے بھی بہت مختصر حصہ اس دن کے لیے مختص کیا مگر صحت کے عالمی دن کے موقعے پر ہم اسپتالوں کے عملے کی تربیت کے لیے کچھ نہ کرسکے کہ وہ ہر زخمی کا علاج کریں۔ شاہین اختر کوکسی زخمی کی جان بچانے کے لیے اسپتالوں کے چکر کاٹنے نہ پڑیں۔

عوام بغیر کسی خوف کے زخمیوں کو اسپتال منتقل کرنے پر توجہ دیں۔ ماہرکنسلٹنٹ اپنی فیسیں کم کریں یا پھر حکومت اس بارے میں جامع قانون بنائے۔ حکومت جان لیوا امراض کی ادویات مفت فراہم کرے۔ آیندہ انتخابات میں شرکت کرنے والی سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں ہر شہری کے علاج کے حق کو تسلیم کرنے کے لیے یہ حصہ شامل کریں۔

The post عالمی یوم صحت appeared first on ایکسپریس اردو.

ووٹ کا نہیں ووٹر کا احترام

$
0
0

جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں، سیکڑوں جھوٹے وعدوں کے ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ووٹ کے تقدس کو، ووٹ کے احترام کو تسلیم کیا جا رہا ہے کہ ووٹ کے تقدس کو ووٹ کے احترام کو تسلیم کرو ۔ اسی حوالے سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عوام نے عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے ۔

جہاں تک ووٹ کے تقدس کی بات ہے بلاشبہ ووٹ عوام کی طاقت کا نام ہے اور عوام کی طاقت کا احترام بھی کیا جانا چاہیے اور اس کا تقدس بھی کیا جانا چاہیے لیکن ہم جس جمہوریت میں سانس لے رہے ہیں اس میں ووٹ کے تقدس کا عالم یہ ہے کہ اسے خریدا بھی جاتا ہے اور بیچا بھی جاتا ہے، ایسی چیز جو سیاست کے بازار میں خریدی اور بیچی جاتی ہے اس کا تقدس ووٹ خریدنے والوں نے اس طرح ملیامیٹ کرکے رکھ دیاہے کہ ووٹ آلو،  پیاز بن کر رہ گیا ہے۔ ہماری اشرافیہ کی ہر بات کے پیچھے اس کے مفادات پوشیدہ ہوتے ہیں۔

ووٹ کے تقدس کی بات یوں ملائی جا رہی ہے کہ ہماری عدالت عظمیٰ سیاسی اشرافیہ کے خلاف فیصلے سنا رہی ہے اور یہ فیصلے اشرافیہ کے مفادات کے خلاف جا رہے ہیں ۔ اشرافیہ بڑی گھما پھرا کر بات کرتی ہے چونکہ حکمران عوام کے ووٹوں ہی سے اقتدار میں آتے ہیں لہٰذا اقتدار کے خلاف کوئی بھی فیصلہ  ووٹ کے تقدس کو مجروح کرنے والا فیصلہ نہیں رہا ہے۔ ووٹ کے تقدس کا درس دینے والے محترم حضرات یقینا 2013 کے الیکشن کے خلاف اپوزیشن کے الزامات سے واقف ہوںگے، ان الزامات میں سب سے بڑا الزام ووٹ کے تقدس کو پامال کرنا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غریب عوام تو ووٹ ڈال کر اپنی قومی ذمے داری پوری کرتے ہیں لیکن ووٹ کے تقدس کو پامال کون کرتے ہیں۔ ابھی سینیٹ کے انتخابات ہوئے  جن کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ ایک ایک ووٹ کروڑوں میں خریدا اور بیچا گیا ۔ کیا یہ ووٹ کی خرید و فروخت کرنے والے عوام تھے، کیا عوام نے ووٹ کے تقدس کو پامال کیا، کیا عدلیہ نے ووٹ کے تقدس کو پامال کیا؟

اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ بے لگام اشرافیہ کے منہ میں پہلی بار لگام دی جا رہی ہے اور ایسی جرأت کو اشرافیہ اپنی توہین سمجھتی ہے۔ اشرافیہ اول دن سے اختیارات کلی کے ساتھ ملک پر راج کرتی آرہی ہے اب اس کے اختیارات میں پہلی بار مداخلت ہوئی ہے جس کی وجہ سے اشرافیہ تلملارہی ہے ووٹ کے تقدس کی پامالی کا الزام اسی پس منظر میں لگایا جارہاہے جس ملک کے ووٹر کی آزادی کا حال یہ ہو کہ اسے ووٹ ڈالنے سے پہلے سختی سے یہ بتایاجاتا ہے کہ اسے کس نشان پر ٹھپہ لگانا ہے اور حکم عدولی کی سخت سزا سے بے چارہ ووٹر اس قدر خوف زدہ رہتا ہے کہ اپنی مرضی اور آزادی سے اپنے ووٹ کے استعمال کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا، جس جمہوریت میں عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والے خریدے اور بیچے جاتے ہیں اور اس خریداری کے لیے اربوں کا فنڈ رکھا جاتا ہے اس جمہوریت کے ووٹ کی حرمت کی بات کرنا کس قدر مضحکہ خیز کہلاسکتا ہے۔

ہماری ستر سالہ سیاسی تاریخ بدعنوانیوں اورکرپشن سے بھری ہوئی ہے اور اس بدعنوانی اورکرپشن کا ارتکاب ایک فرد واحد افراد یا ایک جماعت نے نہیں کیا، بد عنوانی اور کرپشن کے اس حمام میں ساری سیاست ملوث ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا،  جب تک ہمارے ملک میں سرمایہ دارانہ سیاست کا رواج رہے گا۔ سرمایہ دارانہ نظام بے ایمانی سے شروع ہوتا ہے اور بے ایمانی پر ختم ہوتا ہے، رہے نظام میں ووٹ کے تقدس کی باتیں دیوانے کی بڑ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔اصل مسئلہ یہی ہے کہ اشرافیہ ووٹ کے تقدس کا پروپیگنڈا کرکے ووٹرکے تقدس کو نظر انداز کررہی ہے اس ملک کے بیس کروڑ عوام مقدس ہیں لیکن انھیں ذلیل و خوارکرکے رکھ دیا گیا ہے۔

ہمارے ملک میں 6 کروڑ مزدور ہیں جنھیں ہم صنعتی غلام کہہ سکتے ہیں۔ ان مزدوروں کو ٹھیکیداروں کی تحویل میں دے دیا گیا ہے، شکاگو میں مزدوروں سے غیر معینہ وقت تک اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام لیا جاتا تھا، صنعتکاروں کے اس ظلم کے خلاف شکاگو کے مزدوروں نے جب احتجاج شروع کیا تو بے رحم صنعتکاروں نے غلام پولیس کے ذریعے ان نہتے اور بے گناہ مزدوروں پر گولیاں چلوائیں ، جس میں بے شمار مزدور مارے گئے۔ شکاگو کے مزدوروں کے خون سے شکاگو کی سڑکیں سرخ ہوگئیں یہ قتل عام کروانے والے بے رحم صنعت کاروں کے خلاف تو کارروائی نہیں کی گئی الٹا ہڑتالی مزدوروں کو سزائے موت سنائی گئی۔

اس سانحے کو گزرے ڈھائی سو سال سے زیادہ کا عرصہ ہو رہا ہے لیکن یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ پاکستان میں آج بھی مزدوروں سے غیر معینہ وقت تک غلاموں کی طرح کام لیا جا رہا ہے۔ ظالم صنعت کار شکاگو کے مزدوروں کی طرح 18،18 گھنٹے پاکستانی مزدوروں سے کام لے رہے ہیں۔ ٹھیکیداری نظام مزدوروں پر مسلط کردیا گیا ہے۔

سیکڑوں سال کی جد وجہد اور بے شمار قربانیاں دے کر مزدوروں نے جو حقوق حاصل کیے تھے پاکستان میں ٹھیکیداری نظام کے ذریعے ان حقوق کو مزدوروں سے چھین لیا گیا ہے۔ ووٹرکے تقدس کا حال یہ ہے کہ کروڑوں مزدوروں کو غلام بناکر رکھ دیا گیا ہے۔ صنعت کاروں کے مظالم کا حال یہ ہے کہ اگر کوئی مزدور ٹریڈ یونین کا نام لے تو اسے کان سے پکڑ کر کارخانے سے باہر کر دیا جاتا ہے۔ ہڑتال اور ٹریڈ یونین بنانے کے حق کو مزدوروں سے چھین کر انھیں غلام بنا دیا گیا ہے۔

ووٹ کے تقدس کا مطلب اشرافیہ کی راجدھانی کا تقدس ہے جب کہ تقدس کا اصل مقصد ووٹر ہے پاکستان کے دیہی علاقوں کے 60 فی صد عوام ہاری اورکسان ہیں۔ جنھیں وڈیروں اور جاگیرداروں نے غلام بناکر رکھ دیا ہے، کسانوں اور ہاریوں کی بہو بیٹیوں کو اپنے غنڈوں کے ذریعے اٹھالیاجاتا ہے کسانوں اور ہاریوں کی بہو بیٹیوں کے ننگے جلوس نکال کر انھیں رسوا کیا جاتا ہے یہ ہے ووٹر کا تقدس۔

پاکستان کے 20 کروڑ عوام دن بھر محنت کرنے کے باوجود دو وقت کی روٹی سے محتاج ہیں ۔ انھیں بے وقوف بناکر ان سے ووٹ لیے جا رہے ہیں ان سے روٹی، روزگار اور معیاری زندگی کے وعدے کیے جاتے ہیں لیکن ہو یہ رہا ہے کہ عوام کو نہ روزگار میسر ہے نہ ان کے بچوں کو تعلیم کی سہولتیں حاصل ہیں ۔ چھ چھ، آٹھ آٹھ سال کی عمرکے بچوں کو ماں باپ قالین کے کارخانوں میں نوکری کے لیے بھیج دیتے ہیں کیونکہ ایک سربراہ خاندان کی اجرت سے ایک خاندان کا پیٹ نہیں بھرسکتا۔

پاکستان کے 20 کروڑ عوام جانتے ہیں کہ ان کے ووٹوں سے اقتدار کے ایوانوں میں جانے والے ان کے مسائل حل کرنے کے بجائے اربوں روپوں کی لوٹ مار میں لگ جاتے ہیں ۔ لٹیروں کے احتساب کا آغاز ہوا ہے اس لیے اشرافیہ کو ووٹ کے تقدس، ووٹ کی حرمت کا خیال آرہا ہے، اگر ووٹ کی حرمت، ووٹ کے احترام کا خیال آرہا ہے تو ووٹرکو روزگار مہیا کرو، جان لیوا مہنگائی سے نجات دلاؤ، بچوں کو تعلیم کی سہولتیں فراہم کرو، علاج کی مفت سہولتیں فراہم کرو، زبانی جمع خرچ سے ووٹ کے احترام کی بات کرنا عوام کو دھوکا دینا ہے ۔

The post ووٹ کا نہیں ووٹر کا احترام appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 22369 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>