Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22386 articles
Browse latest View live

علامہ بریانی کا بیانیہ

$
0
0

امید ہے اب تک آپ کو ہمارے اس ’’ بیانئے ‘‘ کا علم ہو چکا ہو گا کہ ہمارا ’’ بیانیہ ‘‘کچھ زیادہ بہادرانہ بیانیہ نہیں ہوتا ہے کیونکہ ہم اپنا یہ بیانیہ بار بار دہرا کر تقریباً رجسٹر کر چکے ہیں کہ نہ تو کوئی خاص بہادر ہیں اور نہ اتنے زیادہ مومن کہ کسی ’’ جابر سلطان ‘‘ کے آگے اپنا بیانیہ بلند کر سکیں بلکہ جابر سلطان تو دور ہم ’’ صابر بیوی ‘‘ کے آگے بھی ’’ بیانیہ حق ‘‘ بلند کرنے کے حق میں نہیں کیونکہ حالات و واقعات اتنی تیزی سے بدل رہے ہیں کہ ہر بات پر ۔ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔

ان حالات میں بکری کو شیر بننے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے ۔اوریہ ’’ بیانیہ ‘‘ تو خود ہمارے نام ہی سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ دنیا ’’خانوں ‘‘ سے تقریباً پھٹی پڑ رہی ہے اور ہم ’’ جان ‘‘ کے اندر اپنی جان چھپاتے ہیں، در اصل ہمارے بزرگ بھی ہوشیاری اور احتیاط کے معاملے میں بالکل ہم پر گئے تھے اس لیے انھوں نے ’ ’خان ‘‘ کے بیانئے میں ممکنہ خطرات بھانپ کر ہمارا بیانیہ ’’ جان ‘‘ کر دیا تھا کہ جان ہے تو جہان ہے، جان بچی تو لاکھوں پائے۔اس لیے اس وقت ہمارے ارد گرد جو ’’ بیانیہ ‘‘ چل رہا ہے وہ کچھ اچھا بیانیہ نہیں ہے، ایسا لگتا ہے کہ سنجیدہ سے سنجیدہ معاملے کو بھی رنجیدہ بنانے کی ہوا سی چلی ہو بلکہ یوں کہئے کہ ٹریجڈی میں بھی کامیڈی کرنے کا بیانیہ چل رہا ہے اور اتنا زیادہ چل رہا ہے کہ کامیڈی کی کوشش میں معاملہ ’’ پھکڑ پن ‘‘اور بازاری جگت بازی تک پہنچ جاتا ہے ۔

اب ہم اگر تھوڑے بہادر ہوتے تھوڑے مومن ہوتے اور باقی پشتون ہوتے تو اس نئے پاکستانی بلکہ پاکستان کی سیاسی کامیڈی پر بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن نہیں کہہ سکتے کہ فضا ہی ایسی بنی ہوئی ہے کہ گدھے کی جگہ کلال کو نہ داغا جائے اور لومڑی کو اونٹ کا بچہ بنا کر اونٹ کی طرح ٹیڑھا میڑھا نہ کر دیا جائے ۔اور یہ کوئی ہوائی خدشہ نہیں ایک دوبار ہم بھگت بھی چکے ہیں، ایک مرتبہ یہ ہوا کہ ناجائز اسلحہ رکھنے کے جرم میں ایک شخص کو سزا دیتے ہوئے سو روپے جرمانہ کر ڈالا، اس زمانے میں سو روپے بہت ہوتے تھے کہ مزدور کی دیہاڑی دو روپے تھی، ہم نے مجسٹریٹ سے نہایت ہی عاجزانہ لہجے میں عرض کیا کہ حضور یہ شخص بہت غریب ہے اگر کچھ اور رعایت … ہماری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی جیسے عدالت میں کوئی دھماکا ہوا ہو ۔تم مجھے ڈکٹیٹ کر رہے ہو ، ابھی توہین عدالت میں ہتھکڑی لگوا دی جائے گی ۔

ہم چپ رہے ہم رو دیے کہ منظور تھا پردہ اپنا لیکن عدالت کے دل میں کچھ رحم آیا اور ہمیں ہتھکڑیاں لگوانے کے بجائے اس شخص کا جرمانہ پانچ سو کر دیا اور زبانی جو کچھ سنایا گیا وہ الگ ۔خدا کا کرنا ایسا ہوا شاید ہمارے جلے دل کی آہ کا اثر تھا کہ ایک محترمہ عدالت میں داخل ہوئی، بعد میں معلوم ہوا کہ و ہ ایک بہت بڑی فیملی سے تعلق رکھتی تھی اور کسی کونسل کی چیئرمین تھی اور کسی بات پر ویسی ہی بگڑی تھی جیسے ہماری بات پرآنریبل مجسٹریٹ صاحب بگڑے تھے، وہ عدالت کے بیچوں بیچ کھڑی تھی اور تقریر کے انداز میں عدالت کی عزت افزائی کر رہی تھی، آواز اتنی بلند تھی کہ کچہریوں کے بہت سارے وکیل موکلین سائلین اور عملے بھی آگئے، بات کسی نوٹس کی تھی جو اسے بھیجا گیا تھا ۔ بے ربط اور آزادانہ اظہار خیال کے دوران پتہ چلا کہ وہ منصف کسی عام گھرانے سے تھا جو اس محترمہ کے خاندان سے گہرا تعلق رکھتا تھا۔

اور اب منصف ہو کر ان کے منہ آرہا ہے جس کا جدی پشتی جاننے والا ہے ۔ لیکن اس وقت ’’ عدالت ‘‘ کہاں چلی گی جو ہماری درخواست دھماکا بن گئی تھی حاتمہ اس ڈرامے کا یوں ہوا کہ شور سن کر اے سی صاحب بھی آگئے اور انھوں نے معاملہ رفع دفع کرنے کے لیے محترمہ کو شانت کیا اور اپنے دفتر میں چائے پلوانے کے لیے لے گئے، چند اور واقعات بھی ہیں لیکن  ان میں خدشہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر کسی نازک آبگینے کو ٹھیس نہ لگ جائے اور کرچیاں ہمارا چہرہ لہو لہان نہ کردیں ۔ البتہ ہم علامہ بریانی عرف برڈفلو اور چشم گل چشم عرف سوائن فلو کے درمیان ہونے والی ایک سرد و گرد جنگ کا احوال ضرور سنا سکتے ہیں ۔

جھگڑا اصل میں ایک پرانی بات پر تھا جب علامہ بریانی اتنے زیادہ علامہ بریانی نہ تھے اپنے والد یک وفات پر جب اس نے جدی پشتی دھندہ سنبھالا تو ’’تازہ واردان بساط ہوائے دل تھا ۔ آمدنی بھی کوئی خاص نہیں تھی۔ ’’ بازو‘‘ بھی اس کے پیچھے نہ تھے اور ان دنوں چشم گل چشم پورے عروج پر تھا۔ خود اپنے صین آف اسکولز کا چیئرمین بھی تھا ۔ بیٹے بھی مختلف دھندوں میں چل نکلے تھے ۔ ان دنوں علامہ نے اس سے اپنے کسی اسکول میں کوئی جاب مانگی جاب تو قہر خداوندی نے اسے دی اور ٹیچر کی دی لیکن عملاً اپنا چپراسی سمجھا اور خوب خوب ذلیل کیا ۔

کہتے ہیں دن اور رات ’’ رہٹ ‘‘ کے ڈول میں کبھی بھرے کبھی خالی ۔ علامہ نے بھی جب تعویذات و عملیات اور اپنے مشہور چورنوں کی وجہ سے شہرت پائی اور مسجد کی ساتھ والی شاملاتی زمین پر دارالعلوم کی بنیاد رکھی اور چندے کے دو چار چکر امریکا آسٹریلیا اور یورپ کے لگائے اور عرب ممالک میں اپنے دفاتر قائم کیے تو نہ صرف اس پر ہن برسنے لگا بلکہ گاؤں کے سارے نئے پرانے معززین بھی اس کے حلقہ بگوش ہوئے تو اس نے اپنی توہینات اور تضحیکات کا بدلہ لینے کے لیے قہر خداوندی کو تاکا ، اس کے دو چار اسکولوں کی زمینوں کو ناجائز ثابت کیا اور اپنے ’’ خطبوں ‘‘ کے ذریعے قہر خداوندی کو بدمعاش غنڈہ موالی اور چوروں کا چور بھی مشہور کرنے لگا۔

ڈاکٹر امرود کے مشورے پر آخر کار ایک قہر خداوندی نے علامہ کے پیر پکڑ لیے کہ حضور بس کیجیے اور اپنے خیال میں معاملہ رفع کردیا۔ لیکن یہ اس کی خام خیالی تھی دوسرے دن جمعہ تھا اور اس میں علامہ نے جس طرح قہر خداوندی کی مٹی پلید کی اس پر تو بعضے غیر جانبدار لوگ بھی چہ میگوئیاںکرنے لگے اور اگر چشم گل چشم کا نہیں تواپنے مرتبے کا لحاظ تو کرتا ایک مسجد کا امام ایک مدرسے کا مہتمم اور علامہ ہوتے ہوئے کم از کم زبان تو …؟

چاہتے توہم بھی ہیں کہ علامہ سے کچھ کہیں لیکن کیسے کہیں کہ ہمارا بیانیہ اتنا بہادرانہ ہے ہی نہیں کہ کسی کے بیانئے پر بیانیہ دیں ۔

The post علامہ بریانی کا بیانیہ appeared first on ایکسپریس اردو.


قومی مفاد

$
0
0

دنیاکی ہرقوم اپنے مفادات کوسینے سے لگاکررکھتی ہے۔قومی فائدے پرکسی قسم کاکوئی سمجھوتہ نہیں کیاجاتا۔ منسلک ادارے اورلوگ ہرقیمت پران مفادات کی حفاظت کرتے ہیں۔وقت آنے پراپنی جانیں قربان کرتے ہیں۔ لڑتے ہیں،ہرحربہ استعمال کرتے ہیں۔

مقصدصرف ایک کہ ملکی مفادات کوآنچ نہ آئے۔اس کی سادہ ترین مثال پاکستان کے جوہری ہتھیارہیں۔ان کی حفاظت اورترتیب پرپورے ملک میں کوئی دورائے نہیں۔بالکل اسی طرح دہشت گردی کے خلاف موثرجنگ ہے۔تمام لوگ،ادارے اورسیاسی اکابرین اس لڑائی میں ریاستی طاقت کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔

یہاں تک بات بالکل ٹھیک ہے اوردرست بھی۔معاملہ اس وقت بگڑتاہے جب ملک اپنے قومی مفادات کوپسِ پشت ڈال کرکسی ایسی جانب روانہ ہوجاتے ہیں جن سے انھیں بے حدنقصان ہوتاہے۔وہ اس قیمت کو اداکرتے بھی ہیں مگراداکرنابھی نہیں چاہتے۔

اس میں کسی قسم کاکوئی ابہام نہیں کہ ہمارے ملک کی فکری اساس اسلام سے کشیدکی گئی ہے۔لبرل حلقے کے افراد،اس نکتہ کومتنازعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔مگراس سچ سے گریزنہیں کیاجاسکتاکہ سات دہائیوں سے ملک میں مذہب کوغیرمعمولی بنیادی حیثیت حاصل ہے۔یہ بالکل درست ہے۔قوموں کے لیے ایک نظریہ،فلسفہ یکجارکھنے میں کلیدی اہمیت رکھتاہے۔ہمارے ملک میں یہ حقیقت صرف اورصرف اسلام ہے۔

صورتحال سے ایک مزیدردِعمل سامنے آتاہے کہ ملک کی بیرونی پالیسی خصوصاًفارن پالیسی کس طرح کی ہونی چاہیے۔خارجہ پالیسی بھی دراصل ملکی نظریہ سے ہی آگے بڑھتی ہے۔مگر انتہائی سنجیدہ لوگ اس نکتہ کوبے حداہمیت دیتے ہیں کہ ملک کسی الجھاؤکاشکارنہ ہوجائے۔  سفارتی سطح پراپنے دشمنوں کوکم سے کم کرنے کی حتی المقدور کوشش کی جاتی ہے۔مگریہاں آکرابہام آجاتاہے کہ کیا واقعی ہم اپنے دشمنوں کوکم کرپائے ہیں یاانھیں بڑھارہے ہیں۔

اس صورتحال کودلیل سے پہچاننے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے امریکا اورپاکستان کے حالیہ تعلقات کی جانب نظردوڑائیے۔دنیاکے کسی سیانے ملک کودیکھ لیجیے۔ ہرملک اپنے قومی مفادکومدِنظررکھتے ہوئے امریکا سے بہترین تعلقات رکھنے کی بھرپورکوشش کرتاہے۔متحرک قومیں واشنگٹن میں ایسی کمپنیوں سے معاہدے کرتی ہیں جو امریکی انتظامیہ اورسیاستدانوں سے ان کے باہمی تعلقات کو بہترسے بہترکرسکیں۔

اس کام کے لیے کروڑوں ڈالرخرچے جاتے ہیں۔مسلمان ملکوں کی مثال سامنے رکھیے۔ اُردن،  سعودی عرب،الجزائر،موروکو،حتیٰ کہ بنگلہ دیش تک تمام ممالک امریکا سے تعلق کوانتہائی اہمیت دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ ممالک اپنے اپنے قومی مفادات کے تحت امریکا سے دوستی قائم رکھتے ہیں۔پالیسی کاانکوفائدہ ہوتاہے اوران کے عوام کوبھی۔تعاون سے ترقی کے نئے امکان جنم لیتے ہیں۔زندگی کے ہرشعبہ میں نئی جہتیں وجودمیں آتی ہیں۔دوبارہ عرض کرونگاکہ تمام قومیں اپنی خودمختاری اورقومی مفادپرقطعاًسمجھوتا نہیں کرتیں۔مگر کامیاب سفارت کاری کے ذریعہ امریکا سے باہمی فائدے حاصل کرتیں ہیں۔

مگرانتہائی مشکل اَمریہ ہے کہ متضادپالیسیاں اپناکر قوم کوانتہائی ہیجان،جذباتیت اورجعلی روایات کاعادی بنادیا گیاہے۔مختلف حکومتوں نے عجیب وغریب محرکات کے تحت کام کیاہے۔پوری دنیاسے لشکرمنگواکرافغانستان پر ایک جنگ مسلط کردی،جس سے وہ بدقسمت ملک آج تک نہیں نکل سکا۔مجاہدین کوہیروبناکروائٹ ہاؤس بھجوایا گیا۔ اب حالت یہ ہے کہ ہمارے ماضی کے دست وبازوبیرونی طاقتوں کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں۔

دہشت گردوں کے ایک گروہ کوختم کیاجاتاہے توفوراًہی دوسراجنم لے لیتا ہے۔ یعنی موت اوربارودکاکھیل ہرطریقے سے جاری وساری ہے۔ہوناتویہ چاہیے تھاکہ ہم دنیاکی واحدسُپرپاورسے اس مشکل صورتحال میں مثالی تعلقات رکھتے۔مگرغیردانش مندی کامظاہرہ کرتے ہوئے امریکا کواپنادشمن بنالیا ہے۔ اس دشمنی کی کیاقیمت ہوسکتی ہے مقتدرطبقہ اس سے مکمل طورپرواقف ہے۔

ان میں سے اکثریت نے محفوظ ممالک کی شہریت حاصل کررکھی ہے کہ جب بھی حالات خراب ہوں،فوراًپاکستان چھوڑکرٹھنڈی ہواؤں میں چلے جائیں اوروہاںجاکرقومی حمیت،غیرت اوراتحادپربیانات دیں۔ مستقبل توبائیس کروڑلوگوں کاہے جنکاخارجہ پالیسی سے کسی قسم کاکوئی تعلق نہیں۔ان میں ایک منظم طریقے سے امریکا کوولن بناکرپیش کیاجاچکاہے۔عام لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے لیے امریکا سے بہترین تعلقات نہ بھی ہوں توکوئی فرق نہیں پڑتا۔مگرسنجیدگی سے دیکھاجائے توبے انتہافرق پڑتاہے۔ہرطرح سے اورہرسطح پر۔

غورکیجیے۔اسامہ بن لادن کیاہمارے ملک میں قیام پذیرنہیں تھا۔کیااس سچ کوکسی بھی طریقے سے غلط ثابت کیا جاسکتاہے۔کیاآج تک اس چیزکادلیل پرجواب ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ سب کچھ ہماری ناک کے نیچے کیسے ہوتارہا۔آپ سمجھتے ہیں کہ اوباما انتظامیہ کے ذہن میں ہمارے ملک کے متعلق منفی خیالات نہیں آئے ہونگے۔ عدالتی کمیشن بنانے سے کیاہمارے بیرونی تعلقات بہتر ہوگئے۔

کیاہمارے ملک کے اردگردشک کے دائرے مزید گھمبیرنہیں ہوچکے۔مگرہم ہراہم موضوع پربات کرتے ہوئے کتراتے ہیں۔سچ بولناتودور،سچ سننے سے بھی خوفزدہ ہیں۔ہم نے اس معاملہ کوایک سیکیورٹی ایشو کانام دیاکہ امریکا نے ہماری فضائی اورزمینی حدودکی خلاف ورزی کی ہے۔یہ الزام درست ہے۔مگرکیاآج تک کسی نے امریکی انتظامیہ کے اس بیان کی تردیدکی کہ اگرہم اسامہ بن لادن کی موجودگی اوررہائش کی معلومات پاکستانی انتظامیہ کودے دیتے،توشائداُسامہ اپناٹھکانہ تبدیل کرلیتا۔یعنی عدم اعتماد کی انتہادیکھیے۔ہم پریقین نہ پہلے تھااورخیراب تو غیراعتمادی کی کیفیت ہرجائزحدعبورکرچکی ہے۔

کیایہ نہیں ہوناچاہیے تھاکہ پاکستانی حکومت زمین آسمان ایک کرکے اس شک اورشبہہ کی فضاکومعتدل بناتی۔پرنہیں۔خیرآج کی صورتحال حددرجہ مشکل ہے۔ٹرمپ اوراُبامہ کے مزاج میں بے حدفرق ہے۔ٹرمپ مکمل طورپرپاکستان کے خلاف ہے اور ہمارے ملک کے اردگردگھیراتنگ کیا جاچکا ہے۔ اقتصادی طورپرہماری معیشت کوبے حدکمزور کردیا گیا ہے۔ بیرونی معاملات توچھوڑیے۔

چندبلین ڈالرکے خفیف ذخائر رکھ کر بھی ہم لوگوں کوسچ نہیں بتارہے کہ اگرمزیدقرضے نہ لیے گئے توملک دیوالیہ ہوسکتاہے۔قیامت یہ ہے کہ حقیقت سے روگردانی کرتے ہوئے ہم اپناایک مخصوص بیانیہ ترتیب دے رہے ہیں جسکودنیامیں کوئی تسلیم نہیں کرتا۔چین اورترکی بھی نہیں۔سعودی عرب بھی نہیں۔آپ ترکی کے صدرکی حالت دیکھیے۔گفتارکے غازی نے دومہینے پہلے اسرائیل کے خلاف جذباتی تقریرکی۔معاملہ امریکی سفارت خانے کے القدس منتقلی کاتھا۔

لوگ تقریرسن سن کرروتے تھے۔گریہ کرتے تھے۔مگرٹھیک چندہفتے پہلے اسرائیل اورامریکا کے ساتھ ملکراسلامی ملک شام پرحملہ کردیا۔سوال ہے کہ ترکی نے ایساکیوں کیا۔صرف اسلیے کہ وہ امریکا کوناراض نہیں کرناچاہتااوراپناقومی مفادکوسامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرنے کی بھرپورکوشش کرتاہے۔

ترکی سے کوئی دلچسپی نہیں۔اپناملک سب سے زیادہ عزیزاورمحترم ہے۔کیااس وقت، امریکا مخالف پالیسی کے زیرِاثر،روس اورچین کے ساتھ قربت ہمارے مفادمیں ہے۔ہوسکتاہے کہ کچھ لوگ اسکودرست گردانتے ہوں۔مگر تجزیہ کیجیے توروس نے جس طرف بھی دوستی کاہاتھ بڑھایا،وہ ملک تھوڑے عرصے میں خون اوربارودمیں نہاگیا۔دورمت جائیے۔لبنان خوبصورت ترین ملک تھا۔

روس نے ایک گروہ کی حمایت کرکے امن سے اس خطہ کودہائیوں دوررکھا۔ قطعاًیہ عرض نہیں کررہاکہ دوسری جانب سے کوئی سنجیدہ بات ہورہی تھی۔مگردوستوں کاکمال تویہ ہے کہ جنگ ہونے ہی نہ دیں۔اگرایک باریہ جن بوتل سے باہرآگیاتواس کے نتائج پر کسی کوکنٹرول نہیں رہتا۔لبنان میں بھی یہی ہوا اورشام میں بھی یہی ہورہاہے۔اگرواقعتاروس چاہے توکیاشام میں مذاکرات کے ذریعے امن واپس نہیں لاسکتا۔مگرآپ نے کبھی امن کالفظ نہیں سناہوگا۔

ہمارے کان جنگ،مفلسی اور لاشوں جیسے الفاظ ہی سنتے ہیں۔پوری دنیاکی لڑائی شام منتقل ہوچکی ہے۔مگرامن کی کوشش کرنے والاکوئی بھی نہیں۔ ہمارا معاملہ توبالکل مختلف ہے۔پاکستان نے توروس کے حصے بخرے کرنے میں  استطاعت سے بڑھ کرمددکی ہے۔ آپکا خیال ہے کہ روسی قیادت یہ فراموش کرچکی ہے۔ہونہیں سکتا، کہ جس ملک نے اس سُپرپاورکوختم کرنے میں عملی رول ادا کیاہو،اسے اتنی آسانی سے بخش دیاجائے۔روس کی بھرپور کوشش ہوگی کہ جس آگ میں ہم نے انھیں مبتلاکیاتھا،اس آگ میں وہ ہمارے ملک کوبھی خاکسترکردے۔مگرہم انتہائی ناقص حکمتِ عملی کے تحت امریکا کواپنامزیددشمن بنانے پرتلے ہوئے ہیں اوراس میں کامیاب بھی ہورہے ہیں۔

چین کی طرف آئیے۔وہ ہمارادوست صرف اس وقت تک ہے جب تک اس کے اورہمارے اقتصادی ہدف ایک جیسے ہیں۔لیکن چین کبھی بھی جذباتی پالیسی کوتقویت نہیں دیتا۔سیانامشورہ دیکرآرام سے پیچھے ہوجاتاہے۔خودچین کے امریکا سے انتہائی مضبوط تعلقات ہیں۔چھوٹے موٹے تجارتی مسائل ایک طرف،مگرآج بھی چینی سرمایہ کار سب سے زیادہ امریکی جائیدادخریدنے والے طبقے میں شامل ہیں۔

عرض کرنے کامقصدصرف ایک ہے۔پاکستان کوحقیقت پسندی سے کام لے کرامریکا سے تعلقات بہتر بنانے کی بھرپورکوشش کرنی چاہیے۔یہ نہ ہو،کہ ہمیں اتنا نقصان پہنچادیاجائے کہ پھرہم کوئی فیصلہ کرنے کی حالت میں نہ رہیں۔اگرآج بھی ہمیں سمجھ نہ آئی توشائدمعاملہ ہر طریقہ سے خراب ہوتاچلاجائیگا۔اس منفی صورتحال سے بچناہمارااولین قومی مفادہے۔

The post قومی مفاد appeared first on ایکسپریس اردو.

ہماری انتظامیہ

$
0
0

انتظامیہ کی کار کردگی کو اگر دیکھا جائے تو آپ اس نتیجہ پر فوراً ہی پہنچ جاتے ہیں کہ انتظامیہ نام کی کوئی چیز اس ملک میں موجود نہیں جو آپ کو نظر آتا ہے وہ محض نظر کا دھوکا ہے، انتظامیہ اشرافیہ کے ارد گرد ہی گھومتی نظر آتی ہے اور ہٹو بچو کی صدائیں بلند ہوتی سنائی دیتی ہیں۔

اس لیے آپ یہ تو بھول جائیں کہ کوئی انتظامیہ ہے جو میری اور آپ کی حفاظت اور مفادات کے تحفظ کے لیے موجود ہے بلکہ یہ انتظامیہ صرف اور صرف امراء کے لیے ہی اپنی انتظامی صلاحیتیں استعمال کرتی ہے ان کی حفاظت میرے اور آپ کے خرچے پر کی جاتی ہے جب کہ مجھے اور آپ کو بے یارومددگارچھوڑ دیا گیا ہے ہمیں اپنی حفاظت خود کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے اور اس مقصد کے لیے لاتعداد کمپنیاں بھی قائم کر دی گئیں تا کہ آپ ان کی مدد سے اپنی حفاظت کا بندو بست خود ہی کر لیں اور انتظامیہ کو اس معاملے میں زحمت نہ دیں۔

انتظامیہ کا کردارملک کو مستحکم بنیادوں پر آگے بڑھانا اور ایسے قواعد و ضوابط وضع کرنا جن کے تحت ملکی نظام کو ہموار طریقے سے بغیر کسی رکاوٹ کے چلایا جا سکے ۔یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ایک نوزائیدہ ملک کو شروع میں ہی ایسی انتظامیہ مل گئی جس نے ملک کے انتظامی امور کے لیے قوانین کے تحت قواعد و ضوابط بنائے اور پھر ان پراحسن طریقے سے عمل درآمد بھی کیا لیکن پھر وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے کہ افسروں کی وہ نسل آہستہ آہستہ ناپید ہوتی گئی یعنی وہ اپنی مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہو گئے اور ہمیں نئے زمانے کے نئے افسران کے رحم و کرم پر چھوڑ گئے۔

جنہوں نے وقت کی ضرورت کے مطابق انتظامی امور کو چلانا شروع کیا ۔ ملکی مفادات کی جگہ ذاتی مفادات کو ترجیح دی جانے لگی۔ پسند ناپسند کی بنیاد پر فیصلے کیے جانے لگے جس سے ملکی نظام میں خرابی کا آغاز ہوا حالانکہ افسر شاہی انگریز دور کی پیداوار تھی اور انگریزوں نے برصغیر میں انصاف فراہم کر کے اپنے اقتدار کو طول دیا، انگریز سرکار کی بہت ساری خرابیوں کو ان کا نظام عدل چھپا لیتا تھا اور اس کی وجہ سے وہ برصغیر میں کامیابی سے حکمرانی کر گئے لیکن بعد میں جب ان کے پیروکاروں کے ہاتھ میں انتظامی امور آئے تو انھوں نے آہستہ آہستہ عوام سے دور ہونا شروع کیا اور پھر اتنی دور چلے گئے کہ اپنے ساتھ عوام کے لیے انصاف کا نظام بھی لے گئے اور اسی ابتری کو ہم آج بھگت رہے ہیں ۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ انتظامیہ نام کی کوئی شئے ملک میں موجود نہیں ۔ہمارے حکمرانوں نے اپنی سیاسی دکانداری قائم رکھنے کے لیے ملکی انتظامیہ کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے، پسند ناپسند کی بنیاد پر افسران کا انتظامی عہدوں پر تقرر کیا جاتا ہے سینئر افسران کو کھڈے لائن لگا کر جونیئر افسروں کو اہم انتظامی عہدوں پہ تعینات کیا جاتا ہے اور پھر ان سے اپنے مطلب اور مفاد کے کام کرائے جاتے ہیں جن کے نتائج پوری قوم بھگتتی ہے اور یہ سب ہم دیکھ رہے ہیں کس طرح ان جونیئر افسران کو استعمال کر کے ملکی اداروں کا بیڑا غرق کیا گیا ۔ سینئر انتظامی افسران اپنے تمام تر تجربے کے باوجود اپنا انتظامی کردار ادا نہیں کر رہے۔

جس کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ حکومت کو یہ تجربہ کار افسران اس لیے پسند نہیں کہ یہ انتظامی امور میں رات کو دن نہیں کرتے یعنی حکمرانوں کی پسند کے مطابق فیصلے نہیں کرتے کیونکہ وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ کون سے فیصلے ملکی مفاد کے لیے ضروری ہیں اور اگر وہ قواعد و ضوابط کوچھوڑ کر فیصلے کرنا شروع ہو گئے تو ملکی انتظامیہ تباہ ہو جائے گی اس لیے ان جماندروں افسروں کو کھڈے لائن لگا کر ان کی جگہ جونیئر اور ناتجربہ کار افسران سے اپنی مرضی کے فیصلے کرائے جاتے ہیں اور یہ جونیئر افسران اپنی مراعات کی خاطر حکومت کی منشا کے مطابق فیصلے کر دیتے ہیں جس کے دوررس نتائج ہوتے ہیں اور ہم اب ان ناتجربہ کار فیصلوں کو بد انتظامی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔

انتظامیہ کا یہ بحران راتوں رات پیدا نہیں ہو گیا بلکہ اس کے لیے ہمارے سیاستدانوں نے بڑی محنت کی اور اپنے مفادات کے لیے من پسند افسران اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں تعینات کراکر ان سے جائز ناجائز کام کراتے رہے یعنی انھوں نے بڑی کوشش کر کے ضلعی سطح تک انتظامیہ کو برباد کیا، عوام کو ان افسروں کے ذریعے دباؤ میں لا کر اپنے ووٹ سیدھے کیے گئے جس کی وجہ سے عوام کا انتظامیہ پر اعتماد مجروح ہو گیا اور ہماری انتظامیہ اپنی غیر معمولی نااہلی اور غفلت پر نادم ہونے کے بجائے عوام کو اس کی سزا دیتی رہتی ہے، اپنے قلم کا استعمال کرتے ہوئے ایسی کارروائیاں کرتی رہتی ہے جس سے عام آدمی کی مشکلات بھری زندگی میں کچھ اور اضافہ ہوجاتا ہے۔

اس ساری صورتحال کی بگاڑ کا ذمے دار ہمارا وہ طبقہ ہے جو کہ با اختیار ہے اس ملک کا مالک ہے اور اس ملک کو اپنی خواہشات کے مطابق چلانا چاہتے ہیں تاکہ ان کے راستے کی تمام رکاوٹیں دور ہو جائیں اور وہ اس میں ابھی تک کامیاب جا رہے، ملک کی انتظامیہ ان کے گھر کی باندی بنی ہوئی ہے جس کا نقصان پاکستان کے عوام سہہ رہے ہیں اور نہ جانے کب تک سہتے رہیں گے اور ان کی اس بے پناہ طاقتور طبقے سے کب جان چھوٹے گی۔

The post ہماری انتظامیہ appeared first on ایکسپریس اردو.

101 حفاظ بچوں کی شہادت

$
0
0

امریکا کا بخار دنیا کے بیشتر ممالک پر سوار ہے، یہ جب ایک دفعہ چڑھ جائے تو جان لے کر ہی ٹلتا ہے اور اگر جان چھوٹ گئی تب جسم کے مفلوج ہونے کا شدید خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔

امریکا گزشتہ 15 سال سے افغانستان کو تہہ و بالا کر رہا ہے، ہزاروں لاکھوں شہری فضائی حملوں میں شہید ہوچکے ہیں اور زخمیوں کی تو کوئی گنتی ہی نہیں۔ ایک سروے کے مطابق 33000 سے زیادہ ہے اور مزید اضافہ ہو رہا ہے، اب اگر اس نے افغانستان میں دستار بندی کے موقع پر 101 حفاظ قرآن کو شہید کردیا تو اس کی نظر میں کوئی ظلم نہیں ہے، اس سے زیادہ ظلم تو وہ شام میں ڈھا چکا ہے، عراق اور عراقیوں کو خاک و خون میں ملا چکا ہے۔ لیکن 101 شہید بچوں پر خاص موقع پر بمباری کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟

کیا امریکا قرآن کی تعلیم سے خوفزدہ ہے کہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ قرآن کی پیش گوئیاں حرف بہ حرف سچی ہیں اور اس اللہ کی آخری کتاب فرقان حمید میں غیر مسلموں پر عذاب الٰہی کا ذکر بھی ہے اور جہنم میں دھکیلے جانے کا تذکرہ بھی بار بار آیا ہے لیکن جن لوگوں نے عمل صالح کیا، اللہ کی وحدانیت کا یقین کیا اور اس کے رسول آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لے آئے، تب یہ ام الکتاب جنت کی بشارت دیتی ہے۔

معصوم بچوں کو مارنے کا مطلب ان کے والدین، خاندان کو جیتے جی موت کے منہ میں دھکیلنا ہے۔ دستار بندی والے دن گھر والے خوشی سے بے قابو ہوں گے، گھروں میں اپنی بساط کے مطابق جشن کا سماں ہوگا، عزیز و اقارب نے پھولوں کے تحفے اور شیرینی کا خصوصی انتظام کیا ہوگا، اس لیے کہ آج کم عمر معصوم پھول جیسے بچے صبح و شام کی محنت اور حکم خداوندی سے کامیاب ہوچکے ہیں، قرآن پاک کے تیس پارے ان کے سینے میں محفوظ ہیں، اللہ کے حکم سے سینہ بہ سینہ قرآن پاک منتقل ہوتا رہے گا، تا قیامت یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

یہود و نصاریٰ کا شمار اہل کتاب میں ہوتا ہے لیکن عیش و عشرت بھری زندگی کتاب کی تعلیم کی طرف توجہ مبذول کرنے سے روکتی ہے۔ آسمانی کتابوں میں تحریف کردی گئی ہے اور اپنی پسند اور مرضی کی وہ باتیں شامل کی گئی ہیں جو انھیں دنیاوی نفع اور سرور زندگی فراہم کرے۔ دنیا بھر کے وہ لوگ جو تعلیم یافتہ یا دینی و دنیاوی معلومات سے آشنا ہیں وہ جانتے ہیں کہ پچھلی قومیں اپنی نافرمانی، نبیوں اور پیغمبروں کو پر الزام تراشی اور جھوٹا ثابت کرنے پر تلی رہیں نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ پر پتھروں کا عذاب نازل ہوا اور کچھ کو زلزلے نے آلیا۔ جس طرح حضرت صالح کی قوم زلزلے اور حضرت لوطؑ کی قوم پر پتھروں کی بارش کی گئی، اسی طرح بنی اسرائیل عذاب الٰہی کے تحت بندر بنادیے گئے جو آج تک عبرت کا نشان ہیں۔

کفار ان سزاؤں سے واقف ہیں لیکن اس رب سے نہیں ڈرتے ہیں، جسے وہ بھی جانتے ہیں۔ زمین ، دولت اور تیل کی ہوس نے ان کے اصلی چہرے سے نقاب ہٹا دیا ہے۔ امریکا کو انسانوں خصوصاً مسلمانوں کا لہو پانی کی طرح بہانے میں انوکھا لطف آتا ہے، گویا اس کے منہ کو خون مسلم لگ گیا ہے۔ ہر امریکی صدر، صدارت کے منصب پر فائز ہوتے ہی اسلام دشمنی کے منصوبے بناتا اور پچھلے صدور کی سازشوں اور منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہوجاتا ہے بش نے عراق میں ہتھیاروں کا بہانہ کرکے حملہ کیا ہتھیار تو ملے نہیں بلکہ تیل کی دولت ہاتھ لگ گئی جو اس کا منصوبہ تھا، وہ کامیاب ہوا۔

اور اب نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے مشن پر لگ گئے ہیں۔ ’’صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے افغانستان میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ (داعش) پر ایک بہت بڑا تقریباً 245 من وزنی غیر جوہری بم گرایا، یہ تاریخ کا سب سے بڑا غیر جوہری بم ہے جو امریکا نے کسی بھی کارروائی میں استعمال کیا۔ جس سے امریکا کی افغانستان میں جاری جنگ اور مستقبل کی حکمت عملی کا عندیہ ملتا ہے۔

امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے مطابق ایم سی 130 طیارے کے ذریعے جی بی یو۔43 بم پاکستان کی سرحد کے نزدیک افغان صوبے ننگرہار کے ضلع اچین کے پہاڑی علاقے میں داعش کے زیر استعمال غاروں، سرنگوں اور بنکروں پر مشتمل کمپلیکس پر گرایا گیا ہے، صوبہ ننگرہار کی حکومت نے 90 ہلاکتوں کی اطلاع دی ہے، یہ پہلا موقع ہے کہ امریکا نے کسی جنگ میں اس طرح کا اتنا بڑا بم گرایا ہے، اس حملے میں غار، سرنگیں اور بنکر ملبے کا ڈھیر بن گئے۔

کہا جاتا ہے کہ داعش نے ان غاروں اور سرنگوں کے اردگرد روایتی زمینی حملے سے بچاؤ کے لیے بارودی سرنگیں بچھا رکھی تھیں، امریکا کے خصوصی دستوں اور افغان فورسز نے اس علاقے میں داعش کے جنگجوؤں کے خلاف زمینی کارروائی شروع کی تھی، مگر انھیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا، افغانیوں کی کثیر تعداد نے اس حملے کی شدید مذمت کی تھی اور کہا کہ امریکا نے ان کے ملک کو ہر قسم کے ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کے جائزے کے لیے ایک تجربہ گاہ بنا رکھا ہے۔‘‘  (بحوالہ۔ افغان پیپرز)

امریکا ایک منظم طریقے سے تشدد کی فضا کو پروان چڑھاتا ہے، وہ دوسروں خصوصاً پاکستان کو دہشتگرد بنانے پر تلا رہتا ہے اور گزشتہ دنوں پاکستان کو دہشتگرد ملک میں ثابت کرنے کی کوشش کی تھی اور فہرست میں نام شامل کردیا تھا لیکن جب اس کی منافقانہ پالیسیوں پر انگلیاں اٹھنے لگیں تب اس نے تھوڑے سے عرصے کے لیے اپنا فیصلہ موخر کردیا، اب وہ اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور نہ ہی اپنا احتساب کرتا ہے۔ جس دن اس نے ایسا کرلیا تو اسے بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ دہشتگردی کون کر رہا ہے؟

بھارت کو اس نے کھلی چھٹی دی ہوئی ہے، اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل بھی مسلمانوں کے قتل و غارت پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے، مقبوضہ کشمیر میں ہر روز ماؤں کے جگر پاروں کو شہید کیا جا رہا ہے، وادی کشمیر خون سے سرخ ہوگئی ہے، بھارتی افواج اسلحہ کے زور پر نہتے کشمیری نوجوانوں، ماؤں بہنوں اور بچوں پر ظلم و ستم کی تاریخ رقم کر رہے ہیں، لیکن ہمارے کشمیری بھائیوں نے حوصلہ نہیں ہارا ہے، آج بھی وہ پاکستان کا پرچم لہرا رہے ہیں اور پاکستان کے نعرے بلند کر رہے ہیں پاکستانی پرچم کا کفن پہن کر شہادت کی راہوں پر گامزن ہیں خطہ کشمیر لاشوں سے پٹ گیا ہے۔

آگ اور دھوئیں کے بادلوں نے کشمیریوں کے گھروں اور ان کے سکون و چین کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے، عدم تحفظ کے احساس نے زندگی بوجھل کردی ہے، کشمیری اپنے بھائیوں کے جنازوں کو کاندھا دیتے دیتے تھک چکے ہیں لیکن حوصلہ جوان اور حصول آزادی کی شمع روشن ہے، ایسا ہی حال فلسطین کا ہے اسرائیلیوں کو فلسطین میں بسانے والا بھی برطانیہ اور امریکا تھا اور اب انھی لوگوں کے لیے زمین تنگ کردی گئی ہے جو اس ملک کے باسی تھے، ان کا وطن اور مکانات تھے۔ محض طاقت کے بل پر، دھونس، زبردستی کے تحت جبراً فلسطین پر قبضہ جاری ہے، بے شمار اسرائیلی خاندان قابض ہوچکے ہیں۔ امریکا خاموش ہے۔

یقیناً یہ یہود و نصاریٰ کی سازش ہے کہ مسلمانوں کی بستیوں  کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ انھیں اسلام سے اور قرآن پاک کی پیش گوئیوں سے سخت خطرہ لاحق ہے وہ اس بات پر مکمل طور پر یقین رکھتے ہیں کہ قران پاک میں جو کچھ درج ہے وہ سب درست اور صداقت کی روشنی سے مزین ہے۔ اسی لیے وہ مسلمانوں سے نفرت کرنے پر مجبور ہیں، لیکن افسوس اپنے آپ کو نہیں بدلتے۔

گزشتہ دنوں اسلام آباد تھانہ کوہسار کے علاقے میں امریکی سفیر کی غفلت سے عقیق نامی نوجوان جاں بحق ہوگیا اور ان کا ساتھی شدید زخمی ہوا۔ کئی سال قبل ریمنڈ ڈیوس نے قانون شکنی کی اور دو پاکستانیوں کو فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ امریکی حکومت اور دوسرے عہدیدار سفاکیت کے مقابلے میں اول نمبر پر ہیں، اگر ان کے ملک میں ایسا ہوجاتا تو قیامت ٹوٹ پڑتی۔

The post 101 حفاظ بچوں کی شہادت appeared first on ایکسپریس اردو.

مسلم لیگ (ن) اور جنوبی پنجاب

$
0
0

پانامہ کیس سے پہلے دیکھا جائے تو یہ نظر آتا تھا کہ 2018  کے انتخابات میں مسلم لیگ پہلے سے زیادہ نشستیں حاصل کرے گی۔ یہ صورتحال دیگر سیاسی جماعتوں اور بالادست قوتوں کے لیے خوش آئند نہ تھی۔

پاکستان کے اندر ان مخصوص حالات میں کچھ چیزیںتو آئین اور قانون کے تحت کی جاتی ہیں جب کہ اس ملک کے اندر بہت سے معاملات غیر تحریر شدہ قوانین کے تحت طے پاتے ہیں۔ 90 کی دہائی سے لے کر آج تک کے انتخابات کو دیکھیں تو ان انتخابات کے اندر بالواسطہ یا بلا واسطہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے دخل اندازی کی گئی۔ اصغر خان کیس کی مثال آپ کے سامنے ہے۔

اس کیس میں واضح طور پر سامنے آیا کہ آئی جے آئی بنانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے کس کس سیاستدان کو نوٹ دیے۔ آئی جے آئی اتحاد90 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو ہٹانے کے لیے بنایا گیا۔ بہر حال پاناما کیس کے بعد ن لیگ پر کڑا وقت آیا ۔ ن لیگ کا گراف مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ کے بنچ نے نواز شریف کو نا اہل کر دیا۔ جس کے بعد آئین میں نا اہل شخص پارٹی عہدہ نہیں رکھ سکتا۔

مسلم لیگ ن نے پہلے سینیٹ اور پھر قومی اسمبلی سے بل پاس کروا کر نواز شریف کو جماعت کا دوبارہ صدر بنادیا۔ اس آئینی ترمیم پر تحریک انصاف اور دیگر جماعتیں سپریم کورٹ پہنچی۔ تو سپریم کورٹ نے22 فروری 2018 کو اس آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دے کر نواز شریف کو پارٹی عہدے سے ہٹا دیا۔حال ہی میں اب تو میاں صاحب کو سپریم کورٹ نے سیاست کے لیے تاحیات نااہل قرار دے دیا ہے ۔

اسی طرح پچھلے کچھ عرصے سے پنجاب حکومت کے خلاف نیب حرکت میں آئی ہوئی ہے۔ وزیر اعلیٰ کے قریبی بیوروکریٹس پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ اس دوران بہت سے لیگی ممبران نے استقامت کا مظاہرہ کیا اور قائد گھرانے کو چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ پاناما فیصلے کے بعد یہ چہ مگوئیاں کی جا رہی تھیں کہ میاں صاحب کی نا اہلی کے بعد بہت سے اراکین اسمبلی پارٹی کو چھوڑ جائیں گے۔ ایسا نہ ہو سکا۔ پھر وقت گزرتا گیا اعلیٰ عدلیہ میں کیسز میں اضافہ ہوا اور حکمران جماعت کی قیادت اور وزراء کی پیشیاں بڑھتی گئیں۔

ن لیگ اور تحریک انصاف دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور میں جنوبی پنجاب علیحدہ صوبے کی بات نہیں ہے۔ اس لیے اس محاذ کے علیحدہ بلاک بنانے کی منطق بھی سمجھ میں آتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان اراکین کا تعلق جنوبی پنجاب کے با اثر خاندانوں سے ہے۔ وہ کسی جماعت سے الحاق کیے بغیر بھی اپنا وجود باقی رکھ سکتے ہیں۔آنے والے الیکشن کے اندر محسوس کیاجاسکتاہے بالادست قوتوں اوربڑی سیاسی جماعتوں کی کوشش قومی اسمبلی کے اندر ن لیگ کو اکثریت نہ حاصل کرنے دینے کی جانب ہو گی۔

اس کاایک ٹریلر توگزشتہ سینیٹ کے انتخابات میں سب دیکھ ہی چکے ہیں۔ایسی صورتحال کے اندرصوبائی اسمبلی کی بجائے قومی اسمبلی کے اندر جنوبی پنجاب کے آزاد امیدواران کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جائے گی ۔جب کہ دوسری طرف صوبائی اسمبلی کے اندر ن لیگ سے اکثریت چھیننا نہایٹ کٹھن عمل ہے ۔

ایسی صورتحال کے اندر نیشنل اسمبلی کے اراکین کا پارٹی کو چھوڑ کر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کے پیچھے صاف منطق دکھائی دیتی ہے اوریہ بات بھی قا بل غور ہے کہ حالیہ کچھ عرصے سے یہ بھی سامنے آرہاہے کہ پاکستان کے کچھ مقتدر حلقے اٹھارویں ترمیم سے کچھ زیادہ خوش نہیں ۔اسی طرح اٹھارویں ترمیم کوختم کرنے اورردوبدل کرنے بارے بھی آصف زرداری صاحب نے کچھ سیاسی اشارے دے دیے ہیں۔

ایسی صورتحال کے اندر مستقبل کے اندر اگر دوبارہ سے کنکرنٹ لسٹ بحال کردی جاتی ہے اورصوبوں کی خودمختاری کو پھر پرانے لیول پر لے جایاجاتاہے۔قومی اسمبلی اوروفاقی وزراء کی طاقت اوراہمیت دونوںبہت زیادہ بڑھ جائیں گی۔ساتھ ہی نیشنل لیول کے اوپر ہنگ پارلیمینٹ تشکیل دی جاتی ہے تو پھر جنوبی پنجاب کے قومی اسمبلی کے آزاد اراکین کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جائے گی ۔شاید اسی لیے جنوبی پنجاب کا سیاسی فرنٹ تشکیل پایاہے ۔

The post مسلم لیگ (ن) اور جنوبی پنجاب appeared first on ایکسپریس اردو.

کتابوں کا قرض

$
0
0

کتابوں کا قرض بہت ہوگیا ہے، لیکن طبیعت کی خرابی کی بنا پر انھیں دیکھ نہ پائی ۔ آج سوچا کم ازکم دوکتابوں کا قرض ضرور چکا دوں۔ پہلی کتاب ہے ’’ کلیات منیر نیازی ‘‘ گوکہ یہ ڈاکٹر سمیرا اعجاز کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ ہے اور عام پبلک کے لیے زیادہ کشش نہیں رکھتا۔ لیکن ادبی دنیا اور ادب کے طالب علموں کے لیے ایک بہت اہم کتاب ہے۔

منیر نیازی اپنی ذات میں انجمن تھے اور انھیں اپنی اہمیت کا بھی احساس تھا ۔ انھوں نے کالم بھی لکھے، ناول اور افسانے بھی۔ ان کا کام بہت پھیلا ہوا ہے، لیکن جس طرح ڈاکٹر سمیرا اعجاز جن کا تعلق شعبہ اردو یونیورسٹی آف سرگودھا سے ہے انھوں نے تمام کام کو یکجا کرکے جس طرح ایک ضخیم کتاب مرتب کی ہے وہ قابل ستائش ہے۔ ورنہ تو جامعات میں پی ایچ ڈی کے نام پر جو مذاق ہو رہا ہے اس کی حقیقت سب جانتے ہیں کہیں ’’پیسہ پھینک تماشا دیکھ‘‘ کا منظر ہے، کہیں صرف کتابچوں پر ڈگری عطا کردی گئی، کیسی ببلوگرافی، کہاں کے اقتباسات، تاریخیں اور رسالوں کے حوالے، نگراں خود تن آسان، نہ تحریر دیکھنے کی مشقت نہ کتابیات کی تحقیق ۔ بس کسی طرح ڈگری مل جائے اور تنخواہوں میں اضافہ ہوجائے۔

لیکن ڈاکٹر سمیرا اعجاز کا کام معیاری ہے اور یہ پی ایچ ڈی کا مقالہ کہنے کے قابل ہے۔ مصنفہ نے اپنی کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ ’’نثر اپنے مزاج اور تقاضوں کے اعتبار سے شاعری سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔ لہٰذا بہت کم ادیب ملتے ہیں جو عمدہ شعر کہنے کے ساتھ ساتھ انتہائی موثر تخلیقی جملہ لکھنے کی قدرت رکھتے ہیں ۔ منیر نیازی ان معدودے چند ادیبوں میں سے ہیں جن کی شاعری جہاں منفرد موضوعات اور اظہاریے کے نادر قرینوں کے سبب انتہائی اہم ہے، وہیں ان کی نثر بھی ان کی شاعری کی طرح نکتہ طراز اور فصاحت و بلاغت کا شاہکار ہے۔‘‘

اس مقالے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ زبان بہت سادہ سلیس اور بامحاورہ لکھی گئی ہے جوکہ ایک اضافی خوبی ہے۔ چلیے تھوڑا سا تعارف منیر نیازی کی نثر سے بھی ہوجائے تاکہ قارئین کو بھی ان کی طرز تحریرکا اندازہ ہو۔ کالم کا عنوان ہے ’’ نمبر دو مشاعرے‘‘ لکھتے ہیں ’’بلی اتنے شوق اور رغبت سے اپنی پسندیدہ اشیائے خور و نوش کے لیے اپنی قوت شامہ کو استعمال نہیں کرتی، جس شوق سے اور رغبت سے مقامی شاعر غیر مقامی مشاعروں کے لیے اپنی قوت شامہ کو استعمال کرتے ہیں۔ اور اس میں شرکت کے لیے جو جتن کرتے ہیں وہ بہت دقت طلب، شرمناک اور مضحکہ خیز ہوتے ہیں۔ مثلاً اعلیٰ سرکاری عہدوں پہ فائز دوستوں کی سفارش۔ جس جگہ مشاعرہ ہو رہا ہو وہاں کے شناسا اور رسوخ رکھنے والے حضرات سے والہانہ خط و کتاب۔‘‘

’’ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور آواز آئی ’’مبارک ہو! آپ کی لاٹری نکل آئی ہے، پانچ لاکھ کی۔آپ کو خوشی ہوئی؟‘‘

’’بے حد۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’اتنی بڑی رقم ملنے کے بعد سب سے پہلا کام آپ کیا کریں گے؟‘‘

’’دوستوں کو کہوں گا کہ میں وہ شخص نہیں ہوں جس کی لاٹری نکلی ہے۔‘‘

’’خواب و خیال‘‘۔ ’’مشاعرہ کراچی کے احباب سے ملنے کا وسیلہ بنتا ہے ۔ مشاعرے کی ہنگامہ خیز رات کی صبح کو میں نے سمندری ہوا میں لہراتی خوشبو دار پھولوں والی بیلوں کو دیکھا ،اس کھلے وسیع شہرکی تازہ ہوا میں سانس لیا، پھر وہی خواب تمنا، پھر وہی دیوار و در، پھر وہی ہری بیلوں کے نیچے بیٹھا شام و سحر۔ اس برس کے آغاز پر میں ایک دن کے لیے اس شہر آیا تھا اور ایک ماہ تک اس شہر نے مجھے اپنی چاہت کے طلسمات سے نکلنے نہیں دیا تھا۔‘‘

ذکر یاران کراچی کا۔ ’’کراچی کی طرف انھی دنوں میرا دوسرا سفر تھا۔ یہ شہر پہلے کی نسبت زیادہ رقیق اور زیادہ پرتپاک، زیادہ روشن لگا۔ کوئلوں کے کوکنے کا موسم نہیں تھا مگر جیسے بیتی ہوئی رت کی یاد دلانے کو بھی کبھی شہر کے کسی کونے سے جہاں شجر زیادہ گھنے اور چھتنار تھے کوئل میرے لیے کوکی مجھے احساس ہوا ۔ اس شہر سے دوستی کے لیے اس سے ملتے رہنا بہت ضروری ہے۔ وہ آہستہ آہستہ آپ آپ ظاہر کرتا ہے۔ اس کے عجائبات، اس کی دلکشی، اس کی صفات دیکھنے والے پر دھیرے دھیرے منکشف ہوتی ہیں۔ وہ اپنے اسرار و رموز یکدم عریاں نہیں کردیتا۔ وہ ہر خوبصورت چیز کی طرح سے بے حجابات کے پردوں میں رہتا ہے۔‘‘

’’خواب و خیال‘‘ ۔ ’’پیر صاحب گاؤں کے میدان میں یقین محکم کے مسئلے پر وعظ کر رہے تھے۔ جس آدمی کے دل میں یقین ہو وہ اللہ کا نام لے کر دریا کے پانی پر چادر بچھا کر دریا پار کرسکتا ہے۔ کپڑے کی چادر اس کے لیے کشتی بن جائے گی۔ اسی محفل میں ایک دیہاتی بھی تھا اسے دریا پار کرکے زمینوں پہ کام کرنے کے لیے جانے اور پھر واپس آنے میں بہت دقت پیش آتی تھی کبھی اس کے پاس کرائے کے پیسے ہوتے تھے تو کشتی میں جگہ نہ ہوتی تھی اور اگر کشتی میں گنجائش ہوتی تو اس کے پاس کرایہ نہ ہوتا۔ دوسرے دن صبح سویرے وہ دریا کنارے پہنچا اس نے اللہ کا نام لیا پانی پر چادر بچھائی اور اس پر بیٹھ کر دریا پار کر گیا اور شام کو اسی طرح واپس آیا۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح گاؤں اور نواحی بستیوں میں پھیل گئی۔

دوسری کتاب ایک سفر نامہ ہے ’’جنت ارضی استنبول‘‘۔ اسے اقبال مانڈویا نے لکھا ہے اور محترم سلیم فاروقی نے مجھ تک پہنچایا ہے۔ سفر نامے عموماً دلچسپ ہوتے ہیں اور قاری کی توجہ جلد حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ سفرنامہ اقبال صاحب کا پہلا سفرنامہ ہے۔ اقبال مانڈویا کا تعلق میمن برادری سے ہے لیکن جو سادہ زبان انھوں نے استعمال کی ہے اس سے کہیں پتا نہیں چلتا کہ وہ اہل زبان نہیں ہیں۔ مصنف کا مشاہدہ بہت خوب ہے۔ انداز بیاں ایسا ہے کہ مشاہدہ مجسم ہوکر پڑھنے والے کے سامنے آجاتا ہے۔

’’حسن انتظام کا یہ عالم کہ قبروں کی رو کہیں نہیں ٹوٹتی اور جو قبریں بنائی گئی ہیں وہ بھی ایک سسٹم کی آئینہ دار ہیں جس میں نظم بھی تھا اور وزن بھی۔ استنبول میں جوانوں یا بچوں کی قبر دور سے اس لیے نظر آتی ہے کہ رنگین ماربل سے آراستہ ہوتی ہے۔ ایسی قبروں پر چڑیوں کو دانہ پیش کرنے کو ملحقہ درختوں پر چھوٹی چھوٹی کھلونا نما کٹوریاں عجیب منظر پیش کرتی تھیں۔‘‘

اقتباس اور بھی دینا چاہتی تھی لیکن کالم کی گنجائش کا اپنا تقاضا ۔ لہٰذا یہیں پر ختم کرتی ہوں۔ بلاشبہ کتاب دلچسپ ہے۔ بعض جگہوں پر مصنف نے کراچی اور استنبول کا موازنہ بھی کیا ہے کہ کراچی میں کس طرح پانی کے مٹکے اور کولر غلاظت سے اٹے ہوتے ہیں جب کہ استنبول میں صفائی ستھرائی قابل دید ہے۔ سفرنامہ سادہ زبان میں لکھا گیا ہے اور پڑھنے کے قابل ہے۔

The post کتابوں کا قرض appeared first on ایکسپریس اردو.

اے اہل نظر!

$
0
0

اقبال نے کیا خوب کہا تھا:

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں

ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

اپنے اخبارات، سیاسی لیڈروں کے بیانات اور ان میں استعمال ہونے والی زبان اور ذہنیت اور میڈیا پر ہونے والے مباحثوں کو دیکھیں اور سنیں تو احساس ہوتا ہے کہ اب شاید خرد بھی خبر سے محروم ہوگئی ہے کہ کسی بھی خبر میں دور دور تک خرد کی موجودگی کا نشان نہیں ملتا اور اس سے ملتا جلتا حال ’’نظر‘‘ کا ہے، نظر والوں نے بھی اہل خرد کے ڈھنگ اپنالیے ہیں۔ نہ خود بات کی تہہ تک پہنچتے ہیں اور نہ ہی کسی کو رستہ دکھانے کے اہل ہیں۔ چند برس قبل اس صورتحال پر ایک نظم ہوئی تھی، اب چونکہ صورتحال سلجھنے کے بجائے مزید بگڑ چکی ہے اس لیے اس کو باردگر دیکھنا لازمی ہوگیا ہے کہ غیر ملکی قرضوں کی طرح یہ بوجھ بھی مسلسل بڑھتا جارہا ہے اور ہمارا ہر آنے والا بچہ اس ذہنی غلامی کا اپنے بڑوں سے زیادہ مقروض ہوتا چلا جارہا ہے۔

ہے کوئی نظر والا؟

وہ چاند کہ روشن تھا، سینوں میں، نگاہوں میں

لگتا ہے اداسی کا اک بڑھتا ہوا ہالہ

پوشاک تمنا کو، آزادی کے خلعت کو

افسوس کہ یاروں نے

الجھے ہوئے دھاگوں کا اک ڈھیر بنا ڈالا

وہ شور ہے لمحوں کا

وہ گھور اندھیرا ہے

تصویر نہیں بنتی، آواز نہیں آتی

کچھ زور نہیں چلتا کچھ پیش نہیں جاتی

اظہار کو ڈستی ہے ہر روز نئی الجھن

احساس پہ لگتا ہے ہر شام نیا تالا

ہے کوئی دل بینا! ہے کوئی نظر والا؟

میں بنیادی طور پر زندگی کے روشن پہلوؤں کو دیکھنے اور ان کے ساتھ چلنے پر یقین اور ایمان رکھتا ہوں اور اس بات کا بھی قائل ہوں کہ سب نہ سہی، قیام پاکستان سے اب تک ہم نے زندگی کے کئی شعبوں میں بہت ترقی بھی کی ہے اور تمام تر مفاد اور افراتفری کے باوجود چیزیں آگے کی طرف بڑھ رہی ہیں مگر یہ خیال بھی ہمہ وقت دامن گیر رہتا ہے کہ ہم ایک بہت تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کے شہری بھی ہیں اور ہماری تمام تر پیشرفت اس لیے بھی تسلی بخش، بروقت اور بامعنی نہیں ہوتی کہ ہمارے اردگرد کی دنیا کے ساتھ ہمارا فاصلہ گھٹنے کے بجائے بڑھتا جارہا ہے کہ یہ مقابلہ ایک سمندری اور ہوائی جہاز کی رفتار جیسا ہے لیکن اس وقت یہ تاثر مزید گہرا اور تکلیف دہ ہوجاتا ہے کہ ہمارے عوام، اہل فکر و نظر اور سیاستدان سب کے سب نہ صرف اپنے حصے کا کام ٹھیک سے نہیں کر رہے بلکہ ایک دوسرے کے رستے میں ہمہ وقت روڑے بھی اٹکاتے رہتے ہیں۔

چاروں طرف دن رات ہونے والے جلسوں میں نعرہ بازی بھی بہت ہوتی ہے، لوگ بھی کثرت سے آتے ہیں اور پنڈال بھی خوب سجتے ہیں مگر کم و بیش ہر اسٹیج سے سوائے ایک دوسرے کو گالی دینے اور طعنہ زنی کے کوئی کام نہیں ہو رہا۔ بڑے بڑے نامور اور سینئر لیڈران کرام ان پڑھ اور جھگڑالو عورتوں کی طرح ایک دوسرے کو کوسنے دیے جاتے ہیں کہ ہماری بات چھوڑو یہ بتاؤ کہ تم نے اب تک کیا کیا ہے؟

ہر کوئی دعوؤں کا ایک جیسا پلندا اٹھائے پھر رہا ہے جس کی صداقت کا تعین بھی وہ خود ہی کرتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اقامہ کیس، مجھے کیوں نکالا؟ موٹروے، میٹرو پراجیکٹ، اورنج ٹرین، شجرکاری اور مذہب کے نام پر غنڈہ گردی کے علاوہ اس ملک میں نہ کوئی موضوع ہے اور نہ مسئلہ۔ ہر کوئی اس لُڈو پر سانپ سیڑھی کا کھیل کھیل رہا ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ اس ملک کے عوام اور تمام اہل فکر ونظر تمام سیاسی لیڈروں اور جماعتوں کو اپنی طرف سے ایک منشور دیں اور اس بات کا پابند کریں کہ وہ صرف انہی موضوعات پر بات کریں اور انہی کے حل کے بارے میں اپنا نظریہ اور پروگرام بتائیں یعنی اگر وہ حکومت میں آگئے تو درج ذیل مسائل کے بارے میں ان کی پالیسی کیا ہوگی؟

-1 تعلیم

-2 صحت

-3 امن و امان

-4 خارجہ پالیسی

-5 کشمیر

-6 سی پیک

-7 سوشل سیکیورٹی

-8 پانی اور توانائی کے مسائل

-9 قومی کلچر

-10 شفاف اور بروقت انصاف

اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ صرف سیاستدانوں کے کرنے کے کام نہیں بلکہ ہم سب اس کے اسٹیک ہولڈرز میں شامل ہیں۔ عام عوام، میڈیا اور اہل فکر ونظر سب کے سب مل کر چلیں گے تب ہی بات بنے گی کہ رب کائنات کا فرمان بھی یہی ہے کہ

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

The post اے اہل نظر! appeared first on ایکسپریس اردو.

میاں صاحب کا سیاسی مستقبل

$
0
0

میاں محمد نواز شریف جب تیسری بار اقتدار سے سرفراز ہوئے تو وہ پہلے والے میاں نوا زشریف نہیں تھے۔ یوں تو وہی اسلام آباد تھا، تقریباً وہی ان کی ٹیم تھی، وہی قوم تھی اور وہی ملک تھا، سب کچھ وہی تھا مگر میاں صاحب وہ نہ تھے۔

گوشہ نشین کھوئے کھوئے سے مردم بیزار اور ایک محدود دنیا میں گم سم۔ اسلام آباد میں ہفتہ کے چند دن گزارنے کے بعد مری یا پھر لاہور کی نواحی بستی رائیونڈ میں ویک اینڈ اور پھر واپس اسلام آباد یا بیرون ملک کے کسی دورے پر، انھوں نے لاہور بھی چھوڑ دیا اور اس شہر کی ایک پر سکون آبادی ماڈل ٹاؤن میں اپنے گھر کو بھی جسے مزید پر فضاء بنانے کے لیے انھوں نے ایک بہت بڑا پارک بھی بنوایا تھا ۔

اسلام آباد سے لاہوراگرموٹر وے پر سفر کیا تو لاہور کے گرد بیرونی حلقہ بناتے ہوئے اس شہر سے کترا کر نکل گئے اور رائے ونڈ پہنچ گئے اور ہوائی جہاز سے آئے تو اپنے بھائی کی بڑے ذوق و شوق سے بنائی گئی سڑکوں کو چھوڑ کر ہیلی کاپٹر میں اڑتے ہوئے گھر چلے گئے۔ یہی نہیں سیاسی اصطلاح میںایک عوامی اور جمہوری حکمران اور لیڈر ہونے کے باوجود انھوں نے عوام کے ساتھ اپنے چند پسندیدہ ذرائع ابلاغ کے علاوہ باقی سب سے بھی قریب قریب مکمل احتراز کیا ۔

جلسہ جلوس تو دور کی بات تھی ٹی وی پر بھی وہ بڑی بے دلی کے ساتھ بے معنی تقریر کرتے دکھائی دیے بالعموم لوگ یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ اس تقریر میں کیا تھا اور اس کی کیا ضرورت تھی، یہ بات تو چند سطروں کی ایک پریس ریلیز میں بھی کہی جا سکتی تھی۔ ان کے بہی خواہ بھی ان کے اس رویئے سے خاصے پریشان رہے اور اس مخصمے میں بھی کہ کیا وجہ ہے وہ عوام سے اس قدر دور کیوں رہتے ہیں جب کہ ان کے ساتھیوں کے بھاری مینڈیٹ کے گیت گاتے گلے سوکھ گئے ۔

اخبارات میں ان کے خیرخواہ بار بار ان کا رخ عوام کی طرف کرنے کی کوشش کرتے رہے اور ان سے اصرار کرتے رہے کہ وہ اپنا زیادہ وقت دوسرے صوبوں میں بھی گزارنے کی کوشش کریں خصوصاً دور دراز علاقوں میں جہاں پاکستانیوں کا کوئی پرسان حال نہیں اور جن کی دکھی زندگیوں میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی لیکن وزیر اعظم ہاؤس کے بھاری مینڈیٹ کے نشے کی وجہ سے ان کی عوام سے دوری ختم نہ ہوسکی اور یہ نشہ تب دھیما پڑا جب میاں صاحب اقتدار سے رخصت ہو گئے حالانکہ ان کے ساتھی اس کے باوجود ان کو ستے خیراں کی ہی خبریں دیتے رہے۔

اقتدار سے علیحدگی کے بعد میاں صاحب کو عوام کی یاد ستانے لگی کیونکہ اب اس بات کی ضرورت تھی کہ عوام کی عدالت میں اپنے آپ کو پیش کیا جائے تا کہ عوام میں اپنے خلاف فیصلے کو ایک بار پھر ظالمانہ ثابت کرنے کی کوشش کر کے آیندہ الیکشن کی راہ ہموار کی جاسکے ۔ میاں صاحب ملک بھر اور خاص طور پر پنجاب میں عوامی جلسوں سے دھواں دھار خطابات کر رہے ہیں، وہ عدلیہ اور در پردہ فوج کو اپنا ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں ۔

اقتدار سے علیحدگی کے بعد وہ ایک بپھرے ہوئے سیاستدان کا روپ دھارے ہوئے ہیں، ان کے خطابات ان کی پاکستان پسند شخصیت کا ساتھ نہیں دیتے، اپنی حب الوطنی کو ان کے اپنے الفاظ نے مشکوک بنا دیا اور یہ تاثر عام ہے کہ میاں صاحب جب تک اقتدار میں ہوں وہ پاکستانی ہیں جب کہ اقتدار سے باہر ہونے کے بعد ان کو پاکستان میں سو خرابیاں نظر آنے لگتی ہیں۔ سابق وزیر اعظم نے جب سے عوام سے رابطہ شروع کیا ہے لوگ لپک لپک کر ان کے قریب پہنچے ہیں ۔

اسلام آباد میں رہنے والوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوگا کہ پاکستان کے لوگ کس قدر پیار کرنے والے ہیں ،کسی حکمران نے عوام سے پیار نہیں کیا بلکہ پیار کے ترسے ہوئے یہ لوگ آج تک کسی حکمران کی جانب سے پیار کے منتظر ہی ہیں ۔

میاں نواز شریف کوئی ان کے آئیڈیل حکمران نہیں ہیں لیکن وہ اب کسی آئیڈیل کی تلاش میں بھی نہیں ہیں ۔ انھیں کسی ایسے حکمران کی تلاش ہے جو جھوٹ موٹ کاہی سہی ان سے ہمدردی کا تھوڑا بہت اظہار ہی کر دے، ان کے تو اپنے ان کے دشمن بن گئے ہیں۔ وہ تنہا ہیں ، وہ میاں صاحب کی پالیسیوں سے خوش نہیں تھے لیکن جب انھوں نے عوام سے رجوع کیا تو عوام نے اختلافات کے باوجود ان کا بھر پور استقبال کیا۔

میاں صاحب کو اب معلوم ہو گیا ہوگا کہ ان کی اصل طاقت عوام ہیں، وہ سیاستدان نہیں جو اقتدار کے تحفظ اور ان کی پناہ میں لوٹ مچانا چاہتے ہیں جو کسی حکمران کو اپنے خفیہ مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور جب مطلب نکل جاتا ہے تو ناواقف نہیں بلکہ دشمن بن جاتے ہیں ۔سیاست کی دنیا میں اس منافقت کے لیے انھوں نے اس جملے میں جواز تراش رکھا ہے کہ سیاست میں دوستی اور دشمنی مستقل نہیں ہوتی۔

میاں صاحب کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ روائتی سیاستدان نہیں رہے اور خواہ کتنا بھی نقصان ہو جائے، وہ سمجھوتا نہیں کریں گے۔ وہ اپنے اس دعوے پر قائم رہیں اور صرف عوام سے سمجھوتا کریں ، عوام نے گزشتہ الیکشن میں ان سے سمجھوتا کیا، وہ اب عوام کا ساتھ دیں، پاکستان کے لیے کسی ایسے انقلاب کی قیادت کریں جس کی بنیاد خونریزی پر نہیں امن اور ووٹ پر رکھی جائے۔

میاں صاحب نہ انقلابی ہیں اور نہ ہی اس انقلاب کے دعویدار ہیں جس کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے اور جس کی عمارت انسانی جسموں پر تعمیر کی جاتی ہے، وہ اپنے اختیار اور اقتدار کو جس کی تکمیل ہو چکی ہے عوام کی خدمت میں پیش کر دیں تا کہ ان کی کار کردگی سے ان کی پارٹی فائدہ اٹھا سکے ۔ وہ خود تو تاحیات نااہلی کے بعد پارلیمانی سیاست سے باہر کر دئے گئے ہیں۔

سیاست میں وقت کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے، عوام ان کے سجدہ سہو کے منتظر رہے لیکن میاں صاحب کی جانب سے سجدہ سہو میں تاخیر ہو گئی جس کا خمیازہ اب ان کی پارٹی کو بھگتنا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ میاں صاحب کبھی سیاستدان تھے ہی نہیں ۔ حالات اور وقتی ضرورت نے ان کو سیاستدان بنا دیا جس کی اب ضرورت نہیں رہی۔ اب وہ میاں نواز شریف بن کر ہی سیاست کریں تو ان کے حق میں بہتر ہو گا۔ کامیابی کا کوئی راستہ بھی اسی سے نکلے گا۔

The post میاں صاحب کا سیاسی مستقبل appeared first on ایکسپریس اردو.


اماں ونی، اماں ونی

$
0
0

یہ سطریں جس وقت لکھی جا رہی ہیں ‘ اس کے چاہنے والے اسے قومی اعزاز کے ساتھ دفن کر رہے ہیں ۔37 ہزارکی گنجائش والا سویٹو اسٹیڈیم ان لوگوں سے بھرا ہوا ہے جنہوں نے اس کی شعلہ بار تقریریں سنیں ، نسلی امتیاز کے دیوسے اُسے لڑتے دیکھا ، بار بار جیل جاتے اور بد ترین تشدد کے مرحلوں سے گزرتے دیکھا ۔

وہ نسلی امتیاز اور سفید فاموں کے ظلم وستم سے اپنے لوگوں کوبچانے کے لیے سینہ سپر تھی،اس وقت بھی وہ سویٹومیں رہتی تھی اور جب سفید فاموںکا اقتدار ختم ہوا اور بیشترسیاہ فام رہنما ان علاقوں اورشہروں میں منتقل ہوگئے جو چندبرس پہلے صرف سفید فام شہریوں کے لیے مخصوص تھے، تب بھی اس نے سویٹوسے نقل مکانی نہیں کی ۔

وہ کہتی تھی کہ میں اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتی کہ جب صبح میری آنکھ کھلے تومیری نگاہ کسی دشمن پر پڑے ‘ سفید فام اقلیت نے جنوبی افریقا کی سیاہ فام اکثریت سے نسلی امتیازکو جس انتہا پر پہنچایا ‘ اس نے سیاہ فاموں کی اکثریت کے سینے میں نفرت کی ایسی آگ بھڑکائی جو اب بھی بہت سے سینوں میں جلتی ہے۔

نیلسن منڈیلا اور بعض دوسرے سیاہ فام رہنماؤںکو اس بات کی داد ملنی چاہیے جنہوںنے عفو ودر گزر اور معاف کر دینے کا رویہ اختیارکیا، ورنہ ڈر تو یہ تھا کہ جنوبی افریقا کی سفید فام اقلیت کاایک ایک فرد ذبح کر دیا جاتا ۔

کیسی عجیب بات ہے کہ برصغیر جہاں1947سے پہلے ہندو ‘ مسلمان اور سکھ تینوں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے تھے وہاں تقسیم کے وقت نفرت کا ایسا زہر ان تینوں مذاہب کے ماننے والوں کے اندر پھیلایا گیا کہ تینوں نے خون کی ندیاں بہا دیں اور مخاصمت کی بنیادرکھ دی گئی ۔ اس تناظرمیں دیکھیے توجنوبی افریقا کی سیاہ فام اکثریت ہم سے کہیں زیادہ برد بار اور انسان دوست ثابت ہوئی ۔

اس وقت سویٹوکے اسٹیڈیم میں’ ماما ونی ‘ کے نعرے لگ رہے ہیں۔ ونی کی کہانی پڑھیے تومحسوس ہوتاہے کہ کچھ لوگوں کا مقدر عجیب ہوتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کسی عظیم مقصد کے لیے دان کردیتے ہیں لیکن وہ عظیم مقصد جب حاصل ہوجاتا ہے تو وہ حاشیے پر رہ جاتے ہیں ۔ایسی ہی ایک ہستی ونی کی ہے۔ ونی کا خاندانی نام مادی کیزمیلا تھا۔ 22 برس کی عمر میں 15برس بڑے شخص سے شادی کی تو نام میں منڈیلا کا اضافہ ہوا اور وہ ونی منڈیلا ہوگئی ۔

ایک ذہین، خوش ادا اور پُرجوش ونی کی زندگی ہنگامہ خیزیوں کے سمندر میں ڈوبتی اور ابھرتی رہی۔ وہ دل جان سے افریکن نیشنل کانگریس کی تحریک آزادی میں شریک رہی۔نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے اس نے جان لڑادی۔ بقول منڈیلا، وہ ایک طاقت ور اور شعلہ خو عورت تھی، نہ ہوتی تو بارہا جیل نہ جاتی، قید تنہائی کوحوصلے سے نہ جھیلتی اور نیلسن منڈیلا اور اس کے قیدی ساتھیوں کے لیے سینہ سپرنہ رہتی۔

اس وقت سویٹوا سٹیڈیم میں لوگ ’’اماں ونی‘‘ کے نعرے لگا رہے ہیں، کچھ پھوٹ پھوٹ کر رو رہے ہیں اور کچھ کہہ رہے ہیں کہ اگر اماں ونی نہ ہوتی توہم کہاں ہوتے۔ جنوبی افریقا کے نائب صدر اور متعدد وزیر اسے خراج عقیدت ادا کررہے ہیں۔ اس کی ایک ساتھی ریٹازنگا آنسوؤں سے لبریز آواز میں لوگوں کو بتا رہی ہے کہ جب ونی پہلی مرتبہ جیل گئی تو وہ بھی اس کے ساتھ تھی۔یہ وہ وقت تھا جب دونوں شیرخوار بچوں کی ماں تھیں اور پولیس نے ان کے دودھ پیتے بچوں پر بھی رحم نہیں کیا تھا۔

ریٹا اور ونی کا عمر بھرکا ساتھ رہا ۔ لوگ ریٹا کی جدوجہد کا بھی اعتراف کرتے ہیں۔ ریٹا لوگوں کو بتاتی رہی کہ پولیس نے کتنی مرتبہ ونی کے گھر کا دروازہ گولیوں کی بوچھارسے توڑا‘کتنی مرتبہ وہ مظاہروں کے دوران گھسیٹ کر پولیس وین میں ڈالی گئی اورکتنی مرتبہ اس نے جیل میں قید تنہائی کاٹی۔

ونی کی اس جدوجہد کا اعتراف نیلسن منڈیلا نے اپنی خودنوشت ’’آزادی کا طویل سفر‘‘ میں جابجا کیا ہے۔منڈیلانے لکھا:’’ہمارے گھر پر بھی چھاپہ مارا گیا۔ اس دوران درجنوںلوگوںکو گرفتارکیا گیا۔ ونی کی بہن بھی گرفتار ہوگئی۔ پولیس ونی کوگرفتار کر کے گھسیٹ کر لے جا رہی تھی اورمیری بیٹی زینی اور زندزی اس کے دامن سے چمٹی ہوئی تھیں۔اسے پریتوریا میںقید تنہائی میں رکھا گیا۔

ایک اور جگہ منڈیلا نے لکھا: سوویٹو میںطالب علموںکے مظاہرے جاری تھے۔ مجھے خبرملی کہ ونی اور ڈاکٹر موتالانہ سیاہ فام والدین کی تنظیم میںشامل ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹر موتلانہ میرادوست تھا۔حکام جس قدرطالب علموںسے خائف تھے اتنا ہی والدین سے۔ ان مظاہروں کے شروع ہونے سے پانچ ماہ بعد تک ونی جوہانس برگ میں فورٹ جیل میں قیدوبندکی صعوبتیں کاٹتی رہی۔

نیلسن منڈیلا27 برس کی قید کاٹ کر رہا ہوئے تو اب افریقن نیشنل کانگریس اور منڈیلا کے بہت سے دوستوںکو ونی کی ضرورت نہیںتھی۔ تحریکیں چل رہی ہوں اورمردجیل چلے جائیں تویہ عورتیں ہوتی ہیں جوان تحریکوں کوزندہ رکھتی ہیں ‘انھیںآگے بڑھاتی ہیں لیکن جب آزادی کی تحریک کامیاب ہوجائے توانھیں حاشیے پر دھکیل دیا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال انقلاب فرانس کی ہے۔

’روٹی انقلاب‘ پیرس کی غریب اور سیاسی شعوررکھنے والی عورتوں نے برپا کیا تھا۔ یہ انقلاب کامیاب ہوا تواس میں سرگرم عورتوںسے کہا گیاکہ اب وہ گھر جائیںاور چولہا چکی سنبھالیں۔ یہ سن کر ان بہادرعورتوں نے کہا تھا کہ گولی کھانے کے لیے ہم تھے اوراب جب کہ پارلیمنٹ میں بیٹھنے کا وقت آیاہے تو ہمیںچولہا چکی سنبھالنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔

منڈیلا کی رہائی کے بعد ونی سے یہ تو نہیںکہاگیا لیکن منڈیلا کے چند ساتھی ونی کی شعلہ بیانی اور منڈیلا کے شانہ بہ شانہ چلنے کو پسندنہیں کرتے تھے۔ ادھر سفید فام حکومت تھی جوونی کی پُرشورخطابت اور قائدانہ صلاحیت سے پریشان تھی۔ اسی لیے ونی کے خلاف الزام اوربہتان کی ایک مہم شروع کی گئی۔

اس بارے میں خود منڈیلا نے لکھا:’’میری رہائی کے دن سے حکومت میری بیگم کی شہرت خراب کرنے کے لیے کوشاںتھی۔ چار نوجوانوں کو مبینہ طور پر ونی کی جانب سے اغوا کرایاگیا اور ان میں سے ایک کوہلاک کردیا گیا۔ ونی کے خلاف پہلے تو افواہیں پھیلائی اور پھر رسمی طور پرچارنوجوانوںکے اغوا کے ، ایک کے قتل کامقدمہ قائم کردیاگیا۔ اس کے خلاف یہ الزامات اتنی شدومدسے عائد کیے جارہے تھے کہ میرا اور ونی کا اس بات پر اتفاق رائے ہوگیا کہ اسے عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کرنی چاہیے۔

میری بیگم کے مقدمے کی سماعت جوہانس برگ کی سپریم کورٹ میں فروری میں شروع ہوئی۔ اے این سی کے دیگر رہنماؤںکے ساتھ میں نے بھی مقدمے کی کارروائی سنی۔ مجھ سے سماعت کے دوران حاضری سے اپنی بیگم کو حمایت کا یقین دلانا اور اس کی بے گناہی پراپنے ایمان کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔ جارج نزوز نے بڑے احسن طریقے سے اس کادفاع کیا وہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ اغوا اورایذارسانی کے واقعات سے ونی کا کوئی تعلق نہ تھا۔ ساڑھے تین ماہ بعد عدالت نے اُسے اغوا اور ایذارسانی کے واقعات میں ملوث قراردیا۔

اسے چھ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اس نے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی اور دوران اپیل اسے رہاکردیاگیا۔ میری پریشانی صرف اس حدتک تھی کہ عدالت کا فیصلہ جو بھی ہواس کی معصومیت پر شک کی گنجائش نہ پیدا ہو۔‘‘

ونی ایک سرشور اورطیش سے بھری ہوئی رہنما تھی۔ جدوجہدآزادی کا مشکل سفر ونی نے تن تنہاکیا۔اس دوران اس سے بعض غلطیاں سرزد ہوئیں۔اس نے کچھ لوگوں کے ساتھ بہت سخت رویہ اختیارکیا۔ اس کے حکم پر بعض نوجوانوں پر جان لیوا تشددکیا گیا۔آگے چل کر ان کے درمیان ایسی دراڑ پڑی جو پاٹی نہ جا سکی۔13اپریل 1992کو منڈیلا نے ونی سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا:

’’ کامریڈ ونی اور میں نے اپنے ملک میںآزادی کی جدوجہد کے ایک نازک موڑ پر شادی کی تھی ۔ اے این سی کے ساتھ اپنی وابستیگوںاور نسلی امتیاز کے خاتمے کی کوششوں میں ہم عمومی خاندانی زندگی نہ گزار سکے۔ ان مجبوریوںکے باوجود ہماری شادی چلتی رہی اور محبت بڑھتی رہی۔ جزیرے میں میری بیس سالہ قید کے دوران وہ میری ذات کے لیے آرام سکون اور حمایت کے مضبوط ستون کی طرح تھی۔کامریڈ ونی نے اکیلے ہی بچوںکی تربیت کا سلسلہ جاری رکھا اور حکومت کے مظالم کو بڑے صبرسے سہا۔اُس نے حکومتی ہتھکنڈوںکا بے جگری سے مقابلہ کیا۔آزادی کے لیے اُس کی جدوجہد میںکبھی لغزش نہیںآئی۔اُس کے کردار کی پختگی کی وجہ سے میرے دل میں اُس کے لیے عزت، محبت اورپیار کے جذبات میںاضافہ ہوا ہے۔ میرے دل میںاُس کی محبت کبھی کم نہ ہوگی۔ تاہم گزشتہ کچھ مہینوں سے کچھ مسائل پر ہم اتفاقِ رائے قائم نہیں کرسکے۔ ہمارے درمیان کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ ہم نے باہم مل کر علیحدگی کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ہم دونوںکی بھلائی اسی میںہے۔ میرے اس فیصلے کی وجہ ذرائع ابلاغ میںاُس پرلگائے گئے حالیہ الزامات نہیں ہیں۔کامریڈونی اور میںنے جو زندگی ایک دوسرے کی رفاقت میں بسر کی مجھے اُس پرکوئی پشیمانی نہیں۔ میرے دل میںاُس کے لیے جو پیار پہلی ملاقات سے لے کر جیل کی زندگی اور جیل سے باہر پیدا ہوا ہمیشہ رہے گا۔‘‘

یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ دونوں کی شادی جیل اور جدائی کے 30 برس کے دوران صحیح سلامت گزری لیکن آزادی کے چند برس نہ جھیل سکی۔ منڈیلا نے ونی سے علیحدگی کے بعد دوسری شادی کر لی۔ منڈیلا کی بیوہ ونی کے جنازے میں شریک تھی۔قیمتی لباس اور ہیرے کی انگوٹھیوں کے ساتھ وہ عزاداروںکی پہلی صف میںتھی۔ 81برس کی بوڑھی اوردل شکستہ ونی کے جنازے کوسرکاری اعزازکے ساتھ دفنایا جا رہا ہے‘ منڈیلا کی بیوہ جس کا تحریک آزادی میںکوئی حصہ نہ تھا،اس کے جانے کیا محسوسات ہوں گے۔

ونی جنوبی افریقا کی تاریخ میں ایک ایسی متنازعہ شخصیت رہے گی جس کے چاہنے والوں اورجسے ناپسند کرنے والوںکی کمی نہیں ۔ منڈیلا کے قریبی ساتھی اور تحریک آزادی میں شریک متعدد رہنما ونی کا احترام کرتے تھے اور بعض کا خیال ہے کہ اگراس نے باہر بیٹھ کر منڈیلا کی رہائی اور افریقن نیشنل کانگریس کی نسلی امتیازکی جدوجہد کے لیے اتنی جاںفشانی سے مہم نہ چلائی ہوتی تو جنوبی افریقا کی تاریخ وہ نہ ہوتی جوآج ہے۔

The post اماں ونی، اماں ونی appeared first on ایکسپریس اردو.

غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر

$
0
0

یہ اﷲ پاک ہی ہے جو انسان کو عزت سے بھی سرفراز کرتا ہے اور جس کی طرف سے انسان پر ذلت و رسوائی اور زوال اترتا ہے۔ جو انسانوں کو ملکوں کا اقتدار اور اختیار بخشتا ہے تا کہ انھیں آزمایا جا سکے۔

اﷲ کی عطا کردہ ہر نعمت میں دراصل آزمائش ہے، چنانچہ عقلمندوں کو جب اقتدار ملتا ہے تو وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں اور دست بہ دعا رہتے ہیں کہ یاالٰہی ہمیں راستے سے بھٹکنے نہ دینا اور ہمیں توفیق عطا فرماتے رہنا کہ ہم اپنی رعایا اور عوام کے حقوق کی حفاظت کرتے رہیں۔ مگر ناسمجھدار اور متکبر لوگوں کو جب اقتدار ملتا ہے تو ان میں رعونت اور اکڑ پیدا ہو جاتی ہے۔

وہ عوام کے حقوق غصب کرنے کے ساتھ ساتھ قومی اور عوامی خزانے کو شیرِ مادر کی طرح ہڑپ کرنا اپنا حق سمجھ لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اقتدار ہمارے اپنے زورِ بازو کا کمال ہے۔ بدقسمتی سے نواز شریف نے بھی یہی سمجھا، چنانچہ اﷲ کی طرف سے سزا کا آنا لازم ہو چکا تھا۔ 13 اپریل کی دوپہر کو پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کی طرف سے ان کے خلاف جو فیصلہ سنایا گیا ہے، یہ دراصل نواز شریف کے اپنے کیے کی سزا ہے۔ وہ اب تاحیات نااہل قرار دئیے جا چکے ہیں۔

جمعتہ المبارک کو عدالت عظمیٰ نے یہ مبارک فیصلہ آئین کے آرٹیکل 62(1) (ایف) کے تحت سنایا ہے۔ نوازشریف ویسے تو ٹھیک دو ماہ پہلے سپریم کورٹ کی طرف سے ناہل قرار دے دئیے گئے تھے لیکن یہ ابہام ابھی باقی تھا کہ آیا یہ نااہلی عارضی ہے یا مستقل؟ اب سپریم کورٹ کے پانچ معزز جج صاحبان نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ سنادیا ہے کہ سابق وزیراعظم نوا زشریف اور پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین تاحیات نااہل ہیں۔

عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے نے عوام کی اکثریت کے دل جیت لیے ہیں۔ اکثریتی عوام دراصل توقع بھی یہی کر رہی تھی کہ نواز شریف پر الزام بھی تو بڑے سنگین اور بھاری تھے۔ اس فیصلے سے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت اور اس میں تشریف فرما سب جج صاحبان کے احترام اور قد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ پاکستانی عوام کے دلوں میں جسٹس صاحبان کے بارے تکریم مزید بڑھ گئی ہے۔

یقیناً اس شاندار اور عظیم فیصلے کے ہماری سیاست اور ہمارے حکمرانوں پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ انھیں ’’کان‘‘ ہو گئے ہیں۔ وہ کرپشن کی طرف ہاتھ بڑھاتے وقت سو بار سوچیں گے۔ اس فیصلے پر ساری قوم شکرگزار ہے۔

مشہور کہاوت ہے: ’’ہر کمال کو زوال ہے۔‘‘ تو کیانون لیگ یعنی شریف خاندان نے سیاست واقتدار میں جتنا ’’کمال‘‘ حاصل کرنا تھا، کر لیا؟ جتنا ’’عروج‘‘ پانا تھا، پالیا؟ کیا اب زوال کی گھڑی آ پہنچی ہے؟ قرائن وآثار واضح ہو رہے ہیں۔ دیوار پر لکھی تحریر دھندلکوں سے نکل کر نمایاں ہو رہی ہے۔ مگر جنہیں نظر آنا چاہیے ، اُنہیں یہ زوال نظر نہیں آرہا۔

کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں ، دل جلے اور حقائق آشنا تو ببانگِ دہل یہ بھی کہہ رہے کہ شریف خاندان نے اگر اقتدار و سیاست میں کوئی عروج حاصل کیا ہے اور اگر کوئی کمال پایا ہے تو اِس کا براہِ راست فائدہ صرف اور صرف ایک خاندان اور اس خاندان کے وابستگان کو پہنچا ہے یا اس خاندان کے ریزہ چینوں نے فائدے اُٹھائے ہیں۔ ملک ،قوم اور وطن کو اس مقتدر خاندان اور اُس پارٹی سے کوئی فیض نہیں پہنچا ہے، جسے تخلیق ہی اِس نیت سے کیا گیا تھا کہ صرف اپنے خاندان کو بنانا اور سنوارنا ہے۔

نون لیگ پچھلے چار عشروں سے اِس بدقسمت ملک سے جونک کی طرح چمٹی ہُوئی ہے ۔ اس جونک نے جہاں تک ممکن تھا، قومی جسد سے خون چُوسا ہے۔ یہاں تک کہ اِس کی کرپشن کی داستانیں شرق تا غرب پھیل گئی ہیں۔ لیکن ملک کے اندر اور بیرونِ ملک دولت کے انبار لگانے اور اربوں ڈالر کی جائیدادیں بنانے والے کسی عدالت اور محتسب کے سامنے کوئی اطمینان بخش اور تشفّی آمیز جواب نہیں دے پارہے ہیں کہ یہ دولت آئی کہاںسے؟

کن ذرائع سے اِس نے بیرونِ ملک اڑان بھری؟ اپنے معلوم ذرائع سے کہیں بڑھ کر جس اسلوب میں زندگیاں گزاری جارہی تھیں، اِن کا بھی جواب نہیں دیا جارہا۔ کوئی پوچھے تو فرسٹریشن میں بڑا ملزم کہہ اُٹھتا ہے: ’’بھئی اگر ذرائع سے بڑھ کر زندگی گزاررہا ہُوں تو تمہیں کیا؟‘‘ نہیں جنابِ والا، آپ ایسا نہیں کہہ سکتے ۔آپ سے جواب نہیں بن پارہا تو فیصلے کی گھڑی تو آ پہنچی ہے۔

دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونے والا ہے۔ فرار کی سبھی راہیں مسدود کی جا چکی ہیں۔ بائیس کروڑ کا یہ ملک وہ لمحات دیکھنے کا شدت سے منتظر ہے جب کسی مقتدر اور طاقتور کا تاج بھی اُچھلے گا۔ جب واقعی کسی کا تخت ہمیشہ کے لیے گرا دیا جائے گا۔ یہ عبرتناک لمحے بس آیا ہی چاہتے ہیں۔ زندانوں کے دَر بس وا ہونے ہی والے ہیں۔ ملزمان کی چھٹی حِس بھی بتانے لگی ہے، اُن کی بائیں آنکھ بھی پھڑکنے لگی ہے، جیسے کچھ غیر معمولی ہونے والا ہے۔ جیسے لمحاتِ بد طلوع ہونے والے ہیں۔

اِسی لیے تو ’’بڑے ملزم‘‘نے عالمِ پریشانی میں یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ’’نیب‘‘ آرڈیننس کا خاتمہ کیا جانا چاہیے۔ نہیں حضورِ والا، اب یہ نہیں ہوگا۔ ’’بڑے ملزمان‘‘ کی لاتعداد بدعنوانیوں اور ایک خاندان کی کرپشنوں کی وجہ سے مسائل اور مصائب کی چکّی میں پِستے اور بلکتے بائیس کروڑ عوام ’’نیب‘‘ کے خلاف آپ کی بدنیتیوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اس ملک کے عوام نے ’’نیب‘‘ اور اس کے سربراہ سے بلند توقعات وابستہ کر لی ہیں ، جیسے اُنہوں نے اِس ملک کے قاضی القضاۃ سے بلند ترین توقعات وابستہ کر لی ہیں۔

یہ عوام ایسا نہیں ہونے دیں گے اور نہ ہی اس امر کی اجازت ہی دیں گے۔ اگر خدا نخواستہ، خدا نخواستہ ایسا ہُوا تو غصے اور طیش میں اُبلتے ہُوئے یہ عوام اُن لوگوں کے گھروں تک پہنچیں گے۔ پھر کیا ہوگا، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جب ظلم ، استحصال اور لُوٹ کھسوٹ کے ستائے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے تو پھر فیصلے عدالتوں کے کٹہروں میں نہیں بلکہ گلیوں اور کُوچوں میں ہوتے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان مگر ایک مضبوط عسکری طاقت اور ایک پائیدار عدلیہ کا حامل ملک ہے، اس لیے یہ نوبت نہیں آئے گی کیونکہ یہ دونوں ادارے انارکی کا کامیابی سے انسداد کرنے کی پوری اہلیت اور استعداد رکھتے ہیں؛جب ’’نیب‘‘ کے چیئرمین جسٹس(ر) جاوید اقبال اپنے ادارے کی سالانہ رپورٹ پیش کرنے صدر صاحب کے پاس حاضر ہُوئے۔ صدر نے ’’نیب‘‘ کی رپورٹ کو سراہا۔

لیکن بڑا ملزم اور اُس کے ساتھی اپنے ذاتی اور نجی مفادات کے لیے تو سرے ہی سے’’نیب‘‘ کی جڑ پر کلہاڑا چلا دینا چاہتے ہیں۔ ایسا کیا جانا مگر ممکن ہی نہیں کہ اِن فیصلہ کُن گھڑیوں میں یہ اقدام قومی خود کشی کے مترادف ہو گا۔ ’’نیب‘‘ اللہ کے فضل و کرم سے تاریخ ساز فیصلہ سنانے کے مقام پر پہنچ چکی ہے۔ اس کی سُن گُن پا کر یا نوشتہ دیوار پڑھ کر پرندے بھی شاخوں سے اُڑنے لگے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ جب طوفان آنے والا ہو تو اپنی فطری حِس کی بدولت چرند پرند کسی محفوظ مقام کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ نون لیگ کے ’’درخت‘‘ پر بیٹھے کئی پرندے بھی خطرے کی بُو پا کر پرواز کرنے لگے ہیں۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ نون لیگ کا ’’درخت‘‘ نہیں ڈول رہا بلکہ مقتدر نون لیگ کا جہاز ڈول رہا ہے ۔ ڈوبنے سے پہلے جہاز کی کچھ ایسی ہی کیفیت ہوتی ہے۔ یہ جہاز مگر کسی فنّی خرابی کی وجہ سے نہیں ڈُوب رہا بلکہ یہ اپنے گناہوں کے بوجھ تلے ڈُوبنے والا ہے۔

کرپشن کے گناہ۔ عوام سے مسلسل جھوٹ اور فریب کاری کے گناہ۔ وطن کی لُوٹ کھسوٹ کے گناہ۔ اقربا پروری کے گناہ۔ اقتدار اور اختیار کو اپنے ہی گھر اور اولاد کی لونڈی بنائے رکھنے کے گناہ۔ آدمی ان کے کس کس گناہ کا ذکر کرے؟کہاں تک سنوں گے، کہاں تک سنائیں؟

خطرہ بھانپتے ہوئے ان کی خانگی کیفیت اور ذہنی خلفشار ہمارے ملک کے ممتاز کالم نگار اور طرح دارشاعر جناب اظہار الحق کے ایک دلکش شعر کی مانند ہے جس میں حکمرانوں کی بے بسی اور مجبوریوں اورارکان قومی و صوبائی اسمبلی جس تیز رفتاری سے ان کے مقبول ’’بیانیہ‘‘ سے متاثر ہو کر ان سے جان چھڑا رہے ہیں کی پوری طرح عکاسی ہو رہی ہے کہ!

غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر

محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسمان جیسے

اب ان گناہوں کے بوجھ تلے دَب کر یہ جہاز ڈُوبنے لگا ہے تو ’’مسافر‘‘ چھلانگیں لگا کر، اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر ‘‘سمندر‘‘ میں کُودنے لگے ہیں۔ پہل جنوبی پنجاب کے ’’مسافروں‘‘ نے کی ہے۔ ان کی تعداد نصف درجن سے زائد ہے۔سابق وزیر اعظم اور جنوبی پنجاب کے بزرگ اور زیرک سیاستدان بلخ شیر مزاری ان جرأتمند ’’باغیوں‘‘ کی قیادت کے لیے سامنے آچکے ہیں۔ ’’جنوبی پنجاب محاذ‘‘ معرضِ وجود میں آ چکاہے۔ ان باغیوں نے نون لیگ کے قلعے میں ایک بڑا شگاف ڈال دیا ہے۔

نواز شریف اور اُن کے برادرِ خورد ، جو اب خیر سے نون لیگ کے صدر ہیں، کا دعویٰ تھا کہ اس قلعے میں کوئی مائی کا لعل شگاف نہیں ڈال سکتا لیکن اب وقت آیا ہے تو معلوم اور منکشف ہُوا ہے کہ یہ قلعہ تو ریت کی دیوار کا بنا تھالیکن اس پر جھوٹ کی ملمع کاری کی گئی تھی۔ ایک دھکا اور لگے گا تو عین ممکن ہے اس کی ساری دیواریں ہی مسمار ہو جائیں۔ ڈھے کر زمین بوس ہو جائیں، اس لیے کہ اس کی تعمیر میں اخلاص ، محبت اور اخوت کے جذبات کارفرما نہیں تھے بلکہ لالچ اور فریب اس کی تعمیر کے بڑے عناصر تھے۔

اِس جھٹکے کو نواز شریف، شہباز شریف اور اُن کا مقتدر خاندان برداشت نہیں کر پائے گا۔ باقی رہی نون لیگی وابستگان کی بات تو وہ بیچارے اس پارٹی سے اتنے ہی مخلص ہیں جتنے اس کے بانیان۔ چُوری تو کھائیں جاتی امرا والے اور عذاب سہیں کارکنان؟ ایسا نہیں ہو سکتا۔ جس رنگ ڈھنگ سے شریف خاندان رہے ہیں، اس رنگ نے دوست کم اور نفرت کرنے والے زیادہ بنائے ہیں۔

سارے ملک میں بلوچستان کے نوجوان وزیر اعلیٰ جناب عبدالقدوس بزنجو کے یہ شکوہ بھرے الفاظ گونج رہے ہیں:’’ نواز شریف تو بادشاہوں کی طرح بلوچستان تشریف لاتے تھے۔ ہم سے تو کبھی اُنہوں نے ہاتھ ملانا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔‘‘اﷲ اﷲ ، ایسی رعونت؟ ایسا تکبّر؟ تکبّر اور بڑائی تو صرف خالقِ کائنات کو زیبا ہے۔ پھر بھلا اﷲ کریم متکبرین اور متکبّر مقتدر خاندان کو مزید کیسے برداشت کرتا؟ جنہوں نے ختمِ نبوت کے خلاف سازش کی، کیا اﷲ کی طرف سے انھیں اپنے کیے کی سزا نہ ملتی؟

جنوبی پنجاب کے سات ارکانِ اسمبلی نے علمِ بغاوت بلند کرکے اسمبلیوں سے جس ہمت کے ساتھ استعفے دئیے ہیں، یہ تو دکھاوے کا ایک بہانہ ہے۔ ایک واسطہ ہے سزا کا ۔ متکبرین کو سزا دینے کا۔ جو قومیں اور ملک زلزلوں، سیلابوں ، آسمانی آفات اور سمندری سونامیوں سے تباہ ہو کر صفحہ ہستی سے مِٹ جاتے ہیں، زلزلے ، سیلاب اور سونامیاں تو محض بہانہ ہیں، ظاہری سبب ہیں لیکن دراصل یہ اﷲ کی طرف سے سرکشوں، متکبروں اور گنہ گاروں کو سزا ہوتی ہے۔

فطرت اس سزا کی برسوں پرورش کرتی ہے۔ پھر بس کسی رات کے پہر یا دن کے کسی لمحے گرفت کی گھڑی آ جاتی ہے اور سب ملیامیٹ ہو جاتا ہے۔ شریف خاندان اور نون لیگ کے خلاف جنوبی پنجاب سے زوال کی جو سرکش لہر اُٹھی ہے،اِسے محدود مت جانئے۔ یہ رفتہ رفتہ مزید پھیلے گی اور طاقتور ہو گی کہ فطرت کا یہی فیصلہ نظر آتا ہے کہ سرکشوں اور متکبروں کو اُن کے گناہوں کی حتمی سزا دے دی جائے۔

ختمِ نبوت کے خلاف سازش کرنے والوں کو اُن کے گناہ کی سزا مل کررہے گی۔شائد اب ٹاپ میں لگایا گیا گیئر ریورس نہ کیا جا سکے۔ شائد معافی تلافی کا وقت بھی گزر چکا ہے۔ یاد رکھا جائے، اَت خدا کا وَیر ہوتا ہے۔خدا کے غصے کو دعوت دینے سے پرہیز ہی کیا جانا چاہیے۔’’جنوبی پنجاب محاذ‘‘ کے باغی ارکان نے شریفوں سے جو گلے شکوے کیے ہیں، بے جا نہیں ہیں۔ اُن سے کیے گئے وعدے مقتدرین نے بار بار توڑے ہیں۔ اُن کے عوامی وسائل کو لُوٹا گیا ہے۔

جنوبی پنجاب کے وسائل پر ڈاکہ زنی کرکے سارا ’’مال‘‘ لاہور پر لگا دیا گیا، یہ شکوہ بھی غلط نہیں ہے۔ اُن سے علیحدہ صوبہ بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اقتدار پر غالب شریف برادران اپنے وعدوں کو فراموش کیے رہے۔ ساتوں باغیوں کی طرف سے جنوبی پنجاب میں جن محرومیوں کا ذکر کیا گیا ہے،کیا وہ سب جھوٹ ہیں؟

سوال یہ ہے کہ جب شہباز شریف کی پنجاب اسمبلی نے اور نواز شریف کی قومی اسمبلی نے جنوبی پنجاب کے لیے الگ صوبہ بنانے کی قرار دادیں تک منظور کرلیں تو اِن قراردادوں میں عمل کے رنگ کیوں نہ بھرے جاسکے؟ کیا یہ سب لالی پاپ تھا؟ سب ڈھونگ اور سوانگ تھا؟ ’’ کے پی کے ‘‘ کی کُل آبادی تین کروڑ ہے اور جنوبی پنجاب کی آبادی بھی اتنی ہی ہے۔ پھر یہاں نیا صوبہ کیوں نہیں بن سکتا؟

شریف برادران طاقت اور اختیار کے مزے لینے کے لیے بارہ کروڑ کی آبادی والے صوبے کو مستقل جپھا کیوں مارے رہے؟ اگر ہمارے ہمسائے میں واقع بھارتی مشرقی پنجاب کو بھارت تین حصوں میں تقسیم کرکے تین صوبوں کی شکل دے سکتا ہے تو ہم اِن خطوط پر عمل کیوں نہیں کر سکتے؟ آخر کیوں عوام کو عذاب میں مبتلا کیے جانے پر اصرار کیا جاتا رہا؟اگر ہزارہ صوبے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اِسے پسِ پُشت ڈالنے میں کیا حکمت کارفرما ہے؟

نواز شریف نے تو 2013ء کے عام انتخابات کی مہم کے دوران ہزارہ صوبے کا وعدہ بھی کیا تھا لیکن وہ جان بوجھ کر وعدہ نہ نبھا سکے۔ کیا اس لیے کہ اپنے وعدوں کی ایفائی اُن کے مزاج ہی میں نہیں ہے؟ یقیناً اِس روئیے سے مایوسی پھیلی ہے۔ نون لیگ کی’’ اعلیٰ ‘‘قیادت مگر اِن زمینی حقائق کو تسلیم کرنے پرتیار نہیں ہے۔کہتے ہیں:’’جو لوگ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں، وہ کبھی ہمارے تھے ہی نہیں۔‘‘ جب کہ چھوٹے بھائی نے اپنے چاہنے والوں کو ہدائت کی ہے کہ جنوبی پنجاب کے باغیوں پر کوئی منفی تنقید نہ کی جائے۔

برادرِ خورد کو قوی اندیشہ ہے کہ یہ تنقید کہیں دیگر پرندوں کو بھی اپنے ساتھ اُڑا کر نہ لے جائے۔ وزیر مملکت برائے اطلاعات بھی جانے والوں سے ناراض ہُوئی ہیں۔ اُن کے الفاظ مگر ایسے ہیں جو کسی بھی اعتبار سے انھیں زیب نہیں دیتے۔ وہ چونکہ ایک خاتون ہیں، ہم کچھ کہیں گے تو شکائت ہوگی لیکن اتنا تو بہر حال کہا جا سکتا ہے کہ نون لیگ کی ’’اعلیٰ‘‘ قیادت کو اس بات کا زعم تھا کہ اُن کا اعلیٰ عدلیہ اور فوج کے خلاف بیانیہ نہائت مقبول ہوا ہے۔

حالات جو سامنے آئے ہیں، لگتاہے کہ یہ بیانیہ کچھ زیادہ ہی مقبول ومحبوب ہو گیا ہے۔اتنا مقبول و محبوب کہ سابق نااہل وزیر اعظم کی زبان پر بھی اڈیالہ جیل کا نام آنے لگا ہے۔ مگر شاباش دینی چاہیے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو جو اِن مخدوش حالات میں بھی اپنے ’’وزیر اعظم‘‘ کی صفتیں بیان کررہے ہیں اور مُصر ہیں کہ اگر انھیں نااہل نہ کیا جاتا تو پاکستان کی معیشت کو اتنے بڑے بڑے جھٹکے نہ لگتے اور نہ ہی روپے کی قدر یوں ذلّت کا شکار ہوتی۔

وزیر اعظم صاحب کی اس محبت اور اس تجزئیے کی داد دی جانی چاہیے۔ کیا اُن کی باتوں پر یقین کر لیا جائے؟ اگر ایسا ہے تو اُن کے پاس اپنے ہی اُس بیانئے کا کیا جواب ہے جب اُنہوں نے اپنے مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی موجودگی میں بھری پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ روپے کی قیمت کم کرنے سے پاکستانیوں کو کوئی نقصان نہیں ہو گا مگر اب کہہ دیا گیا ہے کہ ڈالر مہنگا ہونے اور روپیہ سستا ہونے کی وجہ سے حج کے اخراجات میں فی کس 32ہزار روپے بڑھا دئیے گئے ہیں۔ یہ تو ابھی ایک مثال سامنے آئی ہے ۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

مگر وزیر اعظم اور اُن کے حواریوں کو کوئی پرواہ ہے نہ فکر۔ انھیں فکر ہے تو ’’اپنے وزیر اعظم ‘‘ کی۔ پاکستان کے معاملات اور پاکستانی معیشت سے اُن کی بے رغبتی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ امریکی انتظامیہ نے امریکا میں بروئے کار پاکستانی سفارتکاروں کی نقل وحرکت کو محدود کر دیا ہے۔ چند دن پہلے ہی یہ جان سوز خبر سامنے آئی ہے۔

ٹرمپ حکومت نے کہہ دیا ہے کہ واشنگٹن سمیت امریکا کے جس شہر میں بھی پاکستانی سفارتکار کام کررہے ہیں، انھیں اپنے آپ کو چالیس کلومیٹر کے علاقے میں رہنا ہو گا۔ اس سے باہر جانے سے پہلے مقامی پولیس یا امریکی ذمے داران کو آگاہ کرنا ہوگا اور اُن کی اجازت حاصل کرنا ہوگی۔ یہ فیصلہ ایٹمی پاکستان اور پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کی توہین اور بے عزتی ہے۔ مگر ہمارے وزیر اعظم اور صدر ِ مملکت کی طرف سے کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

پاکستان کا جو وزیر اعظم آن دی ریکارڈ یہ کہہ دے کہ امریکی ائر پورٹ پر اگر امریکیوں نے انھیں ننگا کرکے ان کی مکمل تلاشی لی ہے تو اسے وہ اپنی بے عزتی نہیں سمجھتے، ایسے وزیر اعظم سے یہ توقع رکھنا ہی عبث ہے کہ وہ اپنے ملک کے سفارتکاروں کو امریکا میں چالیس کلومیٹر کے علاقے میں محدود کرنے پر کوئی احتجاج کرے گا یا وہ اپنے ملک میں امریکی سفارتکاروں کے بارے میں بھی ویسے ہی احکامات جاری کرے گا جیسے احکامات امریکا میں پاکستان ڈپلومیٹس کے بارے میں جاری کیے گئے ہیں۔ تاکہ حساب برابر کیا جا سکے۔

اپنے وجود کا احساس دلایا جا سکے۔ مگر اتنی ہمت کوئی لائے کہاں سے؟ امریکا کی بدنیتی یہ ہے کہ وہ اس طرح کے غیر اخلاقی فیصلے کرکے پاکستان کا بازو مروڑ سکے گا اور یوں اسلام آباد میں اُس امریکی سفارتکار کو صاف چھڑا لے جائے گا جس نے پچھلے ہفتے ہی ایک معصوم پاکستانی نوجوان کو بیدردی سے اپنی بھاری بھرکم جیپ کے نیچے دے کر دانستہ مار ڈالا ہے۔اِس سانحہ کی جو ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہُوئی ہے، اُس میں صاف نظر آرہا ہے کہ امریکی سفارتکار کی گاڑی سرخ اشارے کی پرواہ نہ کرتے ہُوئے موٹر سائیکل پر بیٹھے دونوجوانوں کو روندتی آگے بڑھ رہی ہے۔ کیا یہ قتلِ عمد معاف کر دیا جائے گا؟

قاتل کو بے سزا پاکستان سے جانے دیا جائے گا؟ کچھ بھی تو نہیں کہا جا سکتا۔ ہمارے حکمران اگر بے شرمی سے لاہور میں ایک امریکی (ریمنڈ ڈیوس) کے ہاتھوں پاکستانیوں کے قتل کا سودا کر سکتے ہیں اور مقتولین کے لواحقین کو دیت لینے پر مجبور کر سکتے ہیں تو پھر یہ بھی امید رکھی جا سکتی ہے کہ اسلام آباد میں امریکی سفارتکار کے ہاتھوں ایک پاکستانی کے نئے قتل کا انجام بھی کچھ ایسا ہی ہوگا: حمیت نام تھا جس کا، گئی تیمور کے گھر سے!!

The post غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر appeared first on ایکسپریس اردو.

دس روحانی ٹپس

$
0
0

میں نے پانچ سال کی عمر میں بابے تلاش کرنا شروع کیے اور یہ تلاش آج تک جاری ہے‘ مجھے روحانیت کے اس سفر میں درجنوں لوگ ملے‘ نوے فیصد جعلی نکلے اور دس فیصد جینوئن۔ مجھے 45 سال کے اس تجربے سے جینوئن اور نان جینوئن بابوں کی پہچان ہو گئی‘ جینوئن بابے کے پاس دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا‘ آپ اس کے پاس جاتے ہیں۔

یہ آپ کی بات توجہ اور دلچسپی سے سنتا ہے اور آپ کو مسئلے کا حل بتا کر روانہ کر دیتا ہے جب کہ نان جینوئن بابوں کے پاس سیکڑوں ’’معجزے‘‘ ہوتے ہیں‘ یہ آپ کی جیب سے تالے‘ کبوتر اور تتلیاں نکال دیتے ہیں‘ یہ آپ کو بتا دیتے ہیں آپ نے صبح کیا کھایا تھا اور آپ نے کس جیب میں کتنی رقم رکھی ہے اور آپ کے والد‘ والدہ‘ بیوی اور بچوں کے نام کیا کیا ہیں وغیرہ وغیرہ۔

آپ کویہ ’’معجزات‘‘ حیران کر دیتے ہیں‘ آپ اس حیرت میں درجنوں لوگوں کو اس بابے کی طرف ’’ریفر‘‘ کر دیتے ہیں اور یوں بابے کی دکان دھڑا دھڑ چل پڑتی ہے‘ نان جینوئن بابوں کا ایک مشترکہ معجزہ ان کی درویشی ہوتی ہے‘ یہ لوگ کسی سے کچھ وصول نہیں کرتے‘ یہ پلے سے لوگوں کو کھانا بھی کھلاتے ہیں‘ چائے بھی پلاتے ہیں اور بعض اوقات انھیںگھر جانے کا کرایہ بھی دیتے ہیں۔

آپ نے اکثر سنا ہوگا فلاں پیر صاحب نے آج تک مجھ سے کچھ طلب نہیں کیا‘ وہ کسی سے کچھ نہیں لیتے‘ یہ ’’ کچھ نہ لینا‘‘ بھی ایک مارکیٹنگ ہوتی ہے‘ یہ لوگ انتہائی چالاک ہوتے ہیں‘ یہ سو ملاقاتیوں میں سے کسی ایک سے وصول کرتے ہیں اور وہ ’’وصول‘‘ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ یہ نہ صرف اس سے اپنی ضروریات پوری کرلیتے ہیں بلکہ یہ سال بھر کے لیے زائرین کے کھانے پینے کا بندوبست بھی کر لیتے ہیں لہٰذا پیر صاحب کے ’’سیلف لیس‘‘ ہونے کا تاثر ایک مارکیٹنگ ٹول ہوتا ہے۔

آپ خود سوچئے ہزار لوگ جب پیر صاحب کے ’’بے لوث‘‘ ہونے کی گواہی دیں گے تو کیا بڑی مچھلی خود تیر کر جال تک نہیں پہنچ جائے گی؟ پیر صاحبان اس بڑی مچھلی کے چکر میں ہزار چھوٹی مچھلیوں کو کھلاتے رہتے ہیں‘ وہ بڑی مچھلی جوں ہی پیر صاحب کے پاس آتی ہے‘ یہ اس سے اپنا نقصان بھی پورا کر لیتے ہیں اور ہزار دو ہزار چھوٹی مچھلیوں کے نان نفقے کا انتظام بھی کر لیتے ہیں‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ ملک کے زندہ ’’صوفیاء‘‘ کا مطالعہ کر لیں‘ آپ کو ان سب کے قریبی حلقے میں امیر لوگ ملیں گے۔

پیر صاحب کی بیٹھک اور صحن میں غریب لوگ ہوں گے لیکن بیڈ اور حجرے میں امیر اور بااثر لوگ بیٹھے ہوںگے اور یہ وہ بڑی مچھلیاں ہیں جو ’’صوفیاء کرام‘‘ کے روحانی اخراجات اٹھاتی ہیں چنانچہ پھر پیر صاحب کو دس دس روپے جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے اور جو ’’اولیاء کرام‘‘ یہ کرتے ہیں ‘وہ بے وقوف اور چھوٹے فراڈیئے ہوتے ہیں‘ نان جینوئن بابے لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے سائنسی ٹرکس استعمال کرتے ہیں‘ یہ مریدوں سے ملاقات سے پہلے انھیں ہمیشہ ’’سٹنگ روم‘‘ میں بٹھاتے ہیں۔

سٹنگ روم میں مائیک اور کیمرے لگے ہوتے ہیں‘ یہ لوگ ملاقات سے پہلے زائرین کی گفتگو سنتے ہیں‘ یہ گفتگو سے مرید کے مسئلے کا اندازہ کرتے ہیں اور پھر اسے اس کا مسئلہ بتا کر حیران کر دیتے ہیں‘ اگر ریکارڈنگ سسٹم ممکن نہ ہو تو یہ لوگ مریدوں میں اپنے جاسوس بٹھا دیتے ہیں‘ یہ جاسوس مریدوں کی سرگوشیاں سن کر پیر صاحب کو ان کا مسئلہ بتاتے ہیں اور یوں مرید پیر صاحب کی روحانیت کے قائل ہو جاتے ہیں۔

آپ کو اگر کوئی نیا ملازم یا دوست کسی پیر کے پاس لے جا رہا ہے تو آپ یہ بات پلے باندھ لیں وہ دوست یا ملازم پیر کا جاسوس ہو گا اور وہ آپ کا مسئلہ اسے ملاقات سے پہلے بتا دے گا‘ یہ لوگ بہت چالاک ہوتے ہیں چنانچہ یہ مرید کے سوالوں سے بھی ان کے مسئلے کا اندازہ کر لیتے ہیں‘ میں نے تلاش کے اس سفر میں مختلف بابوں کی ’’روحانیت‘‘ ٹیسٹ کرنے کے لیے بے شمار تجربات کیے اور ہر بار نتائج کو انجوائے کیا‘ مثلاً میں جب بھی کسی پیر کے سٹنگ روم میں بیٹھتا ہوں تو اپنے ساتھی کو غلط مسئلہ بتاتا ہوں۔

میں جب اندر جاتا ہوں تو پیر صاحب میرا وہ غلط مسئلہ مجھے بتا دیتے ہیں اور میں دل ہی دل میں ہنسنے لگتا ہوں۔نان جینوئن بابوں کے مقابلے میں جینوئن بابے کسی کو حیران نہیں کرتے‘ یہ کسی کو کچھ نہیں بتاتے‘ یہ صرف سنتے ہیں اور دوسروں کو سننے کے دوران صرف مسکراتے ہیں‘ یہ آپ سے مشورے بھی کرتے ہیں‘ یہ آپ کے فضول لطیفوں پر دل کھول کر ہنستے بھی ہیں اور ان کا دستر خوان بھی زیادہ وسیع نہیں ہوتا۔

یہ روکھی سوکھی کھاتے ہیں اور اس روکھی سوکھی میں آپ کو بھی شامل کر لیتے ہیں‘ ان کی ایک اور نشانی ان کی وسعت ہوتی ہے‘ ان کے چوبیس گھنٹے اڑتالیس گھنٹوں کے برابر ہوتے ہیں‘ ان کا دن ختم ہی نہیں ہوتا‘ یہ سو روپے خرچ کریں گے اور لاکھ روپے کے برابر اشیاء آ جائیں گی‘ سالن کی ایک پلیٹ دس لوگوں کا پیٹ بھر دے گی اور کپڑوں کے دو جوڑے دو دو سال تک چلتے رہیں گے‘ ان کا رنگ نہیں اڑے گا۔

میں نے جہاں نان جینوئن لوگوں سے بہت کچھ سیکھا وہاں میں نے جینوئن بابوں سے بھی دس کارآمد چیزیں سیکھیں‘ میں آپ کی سہولت کے لیے ان کارآمد چیزوں کو دس روحانی ٹپس کا نام دے دیتا ہوں‘ یہ ٹپس میری آج تک کی ’’روحانی تپسیا‘‘ کا نچوڑ ہیں‘ آپ ان سے اپنی زندگی کو آرام دہ اور فائدہ مند بنا سکتے ہیں‘ مثلاً میری زندگی کے تمام جینوئن بابوں کا کہنا تھا‘ وہ گھر جس کے صحن سے درخت کاٹ دیا جائے وہ گھر کبھی آباد نہیں رہتا۔

آپ جب بھی کسی گھر کو اجڑتا دیکھیں‘ آپ تحقیق کر کے دیکھ لیں اس گھر کی بربادی درخت کاٹنے سے شروع ہوئی ہو گی چنانچہ آپ کے گھر میں اگر کوئی پرانا درخت ہے تو آپ اسے ہرگز‘ ہرگز نہ کاٹیں‘ آپ کا گھر ہمیشہ آباد رہے گا‘ یہ وہ حقیقت ہے جس کی وجہ سے انبیاء اور اولیاء کرام پوری زندگی درخت لگاتے اور درختوں کی حفاظت کرتے رہے‘ دو‘ جس گھر سے پرندوں‘ جانوروں اور چیونٹیوں کو رزق ملتا ر ہے اس گھر سے کبھی رزق ختم نہیں ہوتا۔

آپ آج تجربہ کر لیں‘ آپ پرندوں‘ بلیوں‘ کتوں اور چیونٹیوں کو کھانا‘ دانا اور پانی ڈالنا شروع کر دیں آپ کے گھر کا کچن بند نہیں ہو گا‘ آپ پر رزق کے دروازے کھلے رہیں گے‘ آپ کو انبیاء اور اولیاء کے مزارات پر کبوتر‘ کوے‘ مور‘ بلیاں اور چیونٹیاں کیوں ملتی ہیں؟ یہ دراصل مزارات پر لنگر کی ضمانت ہوتے ہیں‘ تین‘ اللہ تعالیٰ غریبوں میں کپڑے تقسیم کرنے والوں کو کبھی بے عزت نہیں ہونے دیتا۔

آپ اگر چاہتے ہیں آپ کے مخالفین آپ کو بے عزت نہ کر سکیں تو آپ غرباء میں کپڑے تقسیم کرنا شروع کر دیں‘ بالخصوص آپ غریب بچیوں کو لباس اور چادریں لے کر دینا شروع کر دیں‘ آپ مرنے کے بعد تک باعزت رہیں گے‘ آپ کا بڑے سے بڑا مخالف بھی آپ کی بے عزتی نہیں کر سکے گا‘ مزارات پر چادر چڑھانے کے پیچھے بھی یہ راز پوشیدہ ہے‘ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی قبروں کو زندہ جسم سمجھتا ہے چنانچہ یہ انھیں ننگا نہیں ہونے دیتا‘ خانہ کعبہ اللہ کا گھر ہے‘ اللہ تعالیٰ نے آج تک اسے غلاف کے بغیر نہیں رہنے دیا۔

آپ نے اگر اللہ کے کسی پسندیدہ شخص کے مقام کا اندازہ کرنا ہو تو آپ انتقال کے بعد اس کی قبر دیکھیں‘ آپ کو اس کی قبر کبھی ننگی نہیں ملے گی‘ یہ پھولوں‘ پتوں اور گھاس سے ڈھکی ہو گی یا پھر اس پر چادر ہو گی اور اگر کچھ نہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے اسے سائے سے ضرور ڈھانپ رکھا ہو گا‘ اس پر درخت کا سایہ ہو گا یا پھر بادل نے اسے اپنی پناہ میں لے رکھا ہو گا‘ یہ سایہ‘ یہ چادر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس شخص کی عزت کی حفاظت ہے چنانچہ آپ لوگوں کی ستر پوشی کا بندوبست کریں۔

اللہ آپ کی برہنگی ڈھانپ دے گا‘ چار‘ آپ اگر اپنی راہ سے بھٹکی ہوئی اولاد کو راہ راست پر لانا چاہتے ہیں تو آپ غریب بچیوں کی شادیاں کرا دیں‘ آپ کی اولاد نیک ہو جائے گی‘ آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں‘ آپ غریب بچیوں کی شادی کرائیں‘ آپ انھیں گھروں میں آباد کرائیں‘ آپ اپنی اولاد پر اس کے اثرات دیکھیں گے اور یہ اثرات آپ کو حیران کر دیں گے‘ پانچ‘ آپ اگر اپنی زندگی میں شکر اور اطمینان لانا چاہتے ہیں تو آپ لوگوں کو کھانا کھلانا شروع کر دیں۔

آپ کا دل اطمینان کی نعمت سے مالا مال ہو جائے گا‘ آپ کو اولیاء کرام کی ذات میں اطمینان نظر آتا ہے‘ یہ اطمینان تواضع کی دین ہے‘ آپ بھی متواضع ہو جائیں ‘آپ کی زندگی سے لالچ کم ہو جائے گا‘ آپ مطمئن ہو جائیں گے‘ چھ‘ آپ اگر صحت مند رہنا چاہتے ہیں تو آپ غرباء کا علاج کرانا شروع کر دیں‘ آپ کی صحت امپروو ہوجائے گی‘ آپ اس کے بعد جو بھی دواء کھائیں گے وہ دوسرے مریضوں کے مقابلے میں آپ پر زیادہ اثر کرے گی۔

آپ جو بھی خوراک کھائیں گے وہ آپ پر زیادہ اثر کرے گی‘ سات‘ آپ اگر دنیاوی مشکلات کا شکار ہیںتو آپ کوئی گلی‘ کوئی سڑک بنوا دیں‘ اللہ تعالیٰ آپ کی ہر مشکل کا راستہ نکال دے گا‘ آپ کا ہر بند دروازہ کھل جائے گا‘ آٹھ‘ آپ اگر ڈپریشن کا شکار ہیں تو آپ دوسروں کے لیے ٹھنڈے پانی کا بندوبست کر دیں‘ کنواں کھدوا دیں‘ غریب کے گھر موٹر لگوا دیں یا پھر گھر کے سامنے ٹھنڈے پانی کا کولر رکھ دیں‘ آپ کا ڈپریشن ختم ہو جائے گا‘ کیوں؟

کیونکہ ڈپریشن آگ ہوتا ہے اور پانی ہر آگ کو بجھا دیتا ہے‘ نو‘ کتابیں بہتر دوست ہوتی ہیں‘ آپ اچھے دوست چاہتے ہیں تو آپ لوگوں میں کتابیں تقسیم کرنا شروع کر دیں‘ آپ لائبریری بنا دیں‘ آپ کبھی دوستوں کی کمی کا شکار نہیں ہوں گے‘ آپ کو دنیا کے ہر کونے میں دوست ملیں گے اور آخری ٹپ‘ آپ اگر طاقتور ہونا چاہتے ہیں تو آپ سادگی اختیار کر لیں‘ دنیا کا کوئی فرعون آپ کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔

اللہ تعالیٰ نے سادگی میں ایٹمی طاقت رکھی ہے‘ شاید اسی لیے تمام انبیاء اور تمام جینوئن اولیاء سادہ تھے چنانچہ فرعون ہو یا نمرود یہ ان کی طاقت کے سامنے ٹھہر نہیں سکے‘ آپ بھی آزما لیں‘ آپ کا بھی کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا۔

The post دس روحانی ٹپس appeared first on ایکسپریس اردو.

شام کا بحران مزید سنگین ہوگیا

$
0
0

شام پر امریکا اور اس کے اتحادی ممالک فرانس اور برطانیہ کی جانب سے میزائل حملوں کا عالمی سطح پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ چین‘ ایران اور روس نے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے کھلی جارحیت قرار دیا.

روس نے اس حملے کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکا کو ان اقدامات کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا جب کہ دوسری جانب سعودی عرب‘ بحرین‘ ترکی اور اسرائیل نے حملے کی حمایت کرتے ہوئے اسے درست قرار دیا ۔

ترک صدر رجب طیب اردگان نے حملے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ صدر بشار الاسد کو اس سے پیغام ملے گا کہ وہ شام میں ہونے والے قتل عام کی جواب دہی سے بری الذمہ نہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شام پر امریکی حملے کے خلاف روس کی مذمتی قرارداد کو مسترد کر دیا گیا‘ چین اور بولیویا نے قرار داد کی حمایت جب کہ 8ممالک نے مخالفت کی۔

ادھر امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر حملے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر شامی حکومت نے اپنے عوام پر دوبارہ کیمیائی حملہ کیا تو امریکا اپنے اتحادیوں کی مدد سے دوبارہ میزائل حملہ کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائے گا جس کے لیے امریکا کی تیاریاں مکمل ہیں۔

مغربی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق شام میں حکومتی فورسز نے گزشتہ ہفتے اپنے مشرقی علاقے غوطہ کے شہر دوما میں بیرل نامی کیمیائی بم پھینکے تھے جس سے بچوں اور عورتوں سمیت 100سے زائد افراد جاں بحق اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہونے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔

اس حملے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس حملے کی بشار الاسد کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ شام اور روس دونوں نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تردید کرتے ہوئے اسے من گھڑت رپورٹ قرار دیا تھا۔ اصل صورت حال کیا ہے اس کے بارے میں حقائق تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سامنے آتے چلے جائیں گے لیکن شام میں جو کچھ ہوا اسے قابل مذمت ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جس طرح عراق میں کیمیائی اور ایٹمی ہتھیاروں کا الزام لگا کر اس پر حملہ کر دیا گیا جب کہ بعدازاں وہاں ایٹمی ہتھیاروں کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا لہٰذا اس گمان کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ شام کا حشر بھی عراق جیسا کرنے کے لیے امریکی سی آئی اے نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا ڈرامہ رچایا ہو۔ بہرحال جو کچھ بھی ہے، ہر صورت میں تباہی کا نشانہ تو شام ہی کو بننا پڑ رہا ہے۔

امریکا اوراس کے اتحادی فرانس اور برطانیہ نے ہفتے کو شام پر کروز میزائلوں سے حملہ کر دیا، اس کارروائی میں بی ون بمبار سمیت متعدد لڑاکا طیاروں اور بحری جنگی جہازوں نے حصہ لیا اور شامی حکومت کی کیمیائی ہتھیاروں کی تنصیبات کو نشانہ بنایا‘ اطلاعات کے مطابق اتحادی افواج نے شامی فوج کے سائنسی تحقیقی مراکز‘ متعدد فوجی اڈوں اور چھاؤنیوں پر ٹام ہاک کروز سمیت مختلف طرح کے میزائلز داغے۔

شامی حکام کے مطابق امریکی حملے میں تقریباً سو سے زائد میزائل داغے گئے جن میں سے بڑی تعداد کو فضا ہی میں ناکارہ بنا دیا گیا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا کیونکہ روس کی اطلاعات پر ان فوجی تنصیبات کو کئی روز پہلے ہی خالی کرا لیا گیا تھا۔

اس سارے کھیل کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو اس گمان کو تقویت ملتی ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک نے شام پر حملے کی منصوبہ بندی کافی عرصہ پہلے ہی سے کر رکھی تھی اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو بہانہ بنا کر شام کو ملیامیٹ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

عراق‘ لیبیا کے بعد شام پر حملہ اس امر پر بھی دلالت کرتا ہے کہ وہ ممالک جو اسرائیل کے لیے کسی قسم کا بھی خطرہ تھے یا اس کے خلاف دھمکی آمیز رویہ اختیار کرتے تھے انھیں تباہ و برباد کر دیا گیا ہے۔ وارسا پیکٹ کے مطابق یہ طے پایا تھا کہ آیندہ یورپ میں کسی قسم کی کوئی جنگ نہیں لڑی جائے گی‘ یورپ کے ماضی کے معاہدوں اور ریشہ دوانیوں کے تناظر میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ یورپ اور امریکا نے ایشیا بالخصوص مسلم ممالک کو جنگ کا میدان بنا لیا ہے اور وہ بڑی ہوشیاری سے وہاں کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کر کے حملہ کر دیتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی مزید حملوں کی دھمکی اس امر کی مظہر ہے کہ شام میں ابھی مزید تباہی پھیلے گی اور وہاں حالات خراب ہوں گے۔ شام پر حملہ مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کے لیے خطرے کا پیش خیمہ ہے انھیں موجودہ بگڑتے ہوئے حالات کے تناظر میں اپنے دفاعی نظام کو مضبوط بنانے کی جانب توجہ دینی چاہیے۔

The post شام کا بحران مزید سنگین ہوگیا appeared first on ایکسپریس اردو.

پاک بھارت مذاکرات بحال ہونے چاہئیں

$
0
0

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز پی ایم اے کاکول میں137ویں لانگ کورس کی پاسنگ آؤٹ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری امن کی خواہش کو ہرگز ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے جب کہ دشمن جانتے ہیں کہ وہ ہمیں کھلی جنگ میں شکست نہیں دے سکتے،کشمیر میں امن کا راستہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جامع مذاکرات ہیں۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے خطاب میں مزید کہا کہ دشمن ہمیں کمزور کرنے کے لیے ہمارے عزم کو کمزور کرنے کی کوششیں کررہے ہیں تاہم ہمیں اپنی قوم کا مکمل اعتماد اور حمایت حاصل ہے، ہم نے غیر معمولی قوتوں کے ہر اقدام کو شکست دی اور انشاء اللہ ایسا کرتے رہیں گے۔

پاک فوج کے سربراہ نے مزید کہا کہ پاکستان امن پسند ملک ہے اور اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہم آہنگی و پرامن بقائے باہمی چاہتا ہے جب کہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، پاکستان نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کو مکمل طور پر مسترد کیا، قوم اور پاک فوج دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متحد ہے جب کہ ردالفساد ایک آپریشن ہی نہیں، قوم کے عزم کی علامت ہے۔

انھوں نے کہاکہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کے بنیادی حق کی مکمل سیاسی و اخلاقی حمایت کرتے ہیں اور یہی وقت ہے عالمی برادری برصغیر کے اس بد قسمت حصے میں امن کے لیے کردار ادا کرے ، ہماری بہادر افواج الحمدللہ ہر خطرے کا بھرپور جواب دینے کو تیار ہے۔

پاک فوج کے سربراہ نے انتہائی اہم نوعیت کے خارجہ اور داخلہ کثیر الجہتی موضوعات پر اظہار خیال کیا ہے‘ بلاشبہ پاکستان کے ارد گرد حالات اچھے نہیں ہیں۔ پاکستان کے دشمن گھات لگائے بیٹھے ہیں اور موقع کی تلاش میں ہیں‘ مشرق اور شمال مغرب کے خطرات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔

انھی خطرات کو مد نظر رکھتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ نے کہا ہے کہ ہماری امن کی خواہش کو کمزور نہ سمجھا جائے۔ بلاشبہ پاکستان کی مشرقی اور شمالی مغربی سرحد پر آئے روز ناخوشگوار واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ بھارتی سیکیورٹی فورسز کشمیر میں کنٹرول لائن پر جارحیت کرتی رہتی ہیں۔ بھارتی سیکیورٹی فورسز کی اس جارحیت سے پاکستانی شہریوں کا جانی و مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔

ادھر شمال مغرب سے افغانستان کوئی نہ کوئی شرارت کرتا رہتا ہے۔ گزشتہ روز بھی افغانستان کی جانب سے ہونے والی شرانگیز فائرنگ کے نتیجے میں ایف سی کے 2اہلکار شہید ہو گئے۔ یہ وہ عناصر ہیں جو پاکستان کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ غصے اور اشتعال میں آئے لیکن پاکستان نے ہمیشہ صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہی اس کی امن پسندی کا ثبوت ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اچھے تعلقات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تنازعہ کشمیر ہے‘ جب تک یہ تنازعہ حل نہیں ہو گا‘ دونوں ملکوں کے درمیان قیام امن ممکن نہیں ہے۔

پاک فوج کے سربراہ نے واضح کیا   ہے کہ کشمیر میں امن کا راستہ پاک بھارت جامع مذاکرات ہے۔یہ بالکل درست بات ہے ، بھارت کی قیادت کو بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے۔بھارت نے ہی جامع مذاکرات کا سلسلہ منقطع کررکھا ہے ، اگر جامع مذاکرات کا سلسلہ بحال ہوجائے تو اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔دونوں ملکوں کی قیادت کو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ جنگ سے کوئی مسلہ حل نہیں ہوگا۔دونوں ملکوں کے درمیان کئی جنگیں ہوچکی ہیں لیکن معاملات پھر بھی وہیں کے وہیں ہیں۔

بھارت کی قیادت اس خبط میں مبتلا ہے کہ وہ فوجی اور اقتصادی اعتبار سے بڑی طاقت ہے اور وہ طاقت کے بل بوتے پر اپنی حاکمیت قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے گا ، اب چونکہ بھارت کو امریکا اور اسرائیل کی حمایت بھی حاصل ہے اور اس کی اسٹیبلشمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ وہ کسی محدود جارحیت کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کرسکتا ہے ، ادھر بھارت افغانستان کو بھی پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے، افغان حکومت امریکا اور بھارت دونوں کے زیر اثر ہے اور وہ پاکستان کے خلاف محاذ بنائے ہوئے ہے۔

پاک فوج کے سربراہ نے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ دشمن کھلی جنگ میں ہمیں شکست نہیں دے سکتا۔بھارت اور افغانستان کو چاہیے کہ وہ خطے کے وسیع تر مفاد میں اپنی جارحانہ پالیسی میں تبدیلی لائیں۔ بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بحال کرے ، یہ اس خطے کی بہتری کے لیے انتہائی ضروری اقدام ہے۔مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر تنازعہ حل کرنے کا آپشن موجود ہو تو اسے کسی صورت میں ضایع نہیں کرناچاہیے۔

وقت آگیا ہے کہ دونوں ملکوں کی قیادت ہٹ دھرمی اور ضد کو ترک کرکے زمینی حقیقتوں کو تسلیم کریں، اپنے تنازعات کو مہذب قوموں کی طرح باہمی مذاکرات سے طے کریں،آج کا دور جنگ کا نہیں بلکہ جنگ سے بچنے کا دور ہے، جو ملک جنگ سے بچ جائیں گے ، ترقی کی منزل کی جانب وہی سفر جاری رکھ سکیں گی، جنوبی ایشیا میں ترقی کا بہت پوٹینشل ہے ، بات صرف عقل سے فیصلے کرنے کی ہے۔

 

The post پاک بھارت مذاکرات بحال ہونے چاہئیں appeared first on ایکسپریس اردو.

کوئٹہ میں دہشت گردی؛ سدباب کی ضرورت

$
0
0

کوئٹہ کے علاقہ عیسیٰ نگری میں فائرنگ سے 2 مسیحی افراد کو قتل کردیا گیا  جب کہ 3 زخمی ہوگئے۔ کوئٹہ ایک عرصہ سے شرپسندوں کی کارروائیوں اور دہشت گردی کا شکار ہے، یہ پہلا واقعہ نہیں جب اقلیتی برادری کے افراد کو ٹارگٹ کیا گیا ہو بلکہ کچھ عرصہ قبل ایسٹر کے موقع پر بھی اسی طرح کی واردات کی گئی تھی۔

بات صرف اقلیتی برادری تک ہی محدود نہیں بلکہ پاکستان میں مخصوص ذہنیت اور عقائد کے پیروکار مستقل فرقہ وارانہ وارداتوں کے ذریعے نہ صرف ملک کا امن سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں بلکہ عالمی دنیا کو یہ پیغام پہنچانے کی کوشش میں سرگرداں ہیں کہ پاکستان میں شدت پسندی اور فرقہ واریت کے جراثیم اس قدر منظم ہوچکے ہیں کہ عوام میں ایک دوسرے کے لیے تحمل و رواداری اور برداشت کا چلن ختم ہوچکا ہے۔ لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی اور رواداری کی عظیم اقدار کی پاسداری عوام کی اولین ترجیح رہی ہے، پاکستان میں تمام مذاہب اور عقائد کے لوگوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔

دہشت گرد اور شدت پسند عناصر اپنی مذموم سازشوں میں یکسر ناکام ہوں گے۔ لیکن یہ امر تشویشناک ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور بے پناہ قربانیاں دینے کے باوجود بھی ملک میں امن و امان کا مکمل قیام اور دہشت گردوں کی باقیات کا خاتمہ اب تک نہیں ہوسکا ہے۔ خاص طور پر بلوچستان انارکی اور دہشت گردی کی آگ میں مستقل جھلس رہا ہے، بلوچستان میں اسلم رئیسانی، ڈاکٹر مالک حکومت کی ناکامی کے وقت ہزارہ برادری کے افراد کو ٹارگٹ کرکے قتل کیا جاتا رہا، جب کہ ثناء اللہ زہری بھی ناکام رہے، بلوچستان کی گزشتہ کسی بھی حکومت کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمے اور امن و امان کے قیام میں سنجیدہ کوششیں عنقا رہیں۔

کچھ سیاستدانوں نے بلوچستان میں ہلاکتوں پر ردعمل میں انتہائی لاپرواہی اور معاندانہ رویے کا مظاہرہ کیا جس پر عوام نے شدید احتجاج بھی کیا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ موجودہ حکومت بھی اہداف کے حصول میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔

آخر بلوچستان کی حکومت، سرکاری اور قانون نافذ کرنے والے کیا کررہے ہیں؟ بلوچستان میں قیام امن اور دہشت گردی کا خاتمہ حکومت کی ذمے داری ہے۔ صائب ہوگا کہ حکومت، سرکاری اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمے داریوں کا ادراک کرتے ہوئے فرائض نبھائیں۔ دہشت گردی کا مکمل سدباب وقت کی اہم ضرورت ہے۔

The post کوئٹہ میں دہشت گردی؛ سدباب کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.

پاک افغان سرحد پر 2 پاکستانی ایف سی اہلکاروں کی شہادت

$
0
0

کرم ایجنسی میں ایف سی کے جوانوں پر افغان سرحد کے پار سے کی گئی فائرنگ سے 2ایف سی اہلکار شہید اور 5زخمی ہوگئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے کا کام کیا جا رہا ہے اور اتوار کو اس حوالے سے ایف سی اہلکار انتظامات کے لیے مختلف مقامات کا معائنہ کر رہے تھے کہ ان پر فائرنگ کر دی گئی، پاک فوج نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور کوشش کی کہ دوسری طرف سے کوئی افغان شہری زخمی نہ ہو۔

افغان فورسز کی جانب سے سرحدی خلاف ورزی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں اس سے پیشتر بھی متعدد بار ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں‘ پاکستان نے ایسے شر انگیز واقعات کی روک تھام کے لیے متعدد بار افغان حکام سے بات کی جس میں یہ طے پایا کہ آیندہ ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہونا چاہیے اور دونوں ممالک کو اپنے دوستانہ تعلقات مضبوط بنانے کے لیے ہر کوشش بروئے کار لانی چاہیے۔

گزشتہ دنوں پاکستانی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کابل کے دورہ کے موقع پر باہمی تعلقات مضبوط بنانے کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ افغان فورسز کی جانب سے اتوار کو پاکستانی فورسز پر فائرنگ کی وجوہات سامنے نہیں آ سکیں کہ انھوں نے ایسا کیوں اور کس کے ایما پر کیا۔ بہرحال جو کچھ بھی ہوا وہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔

افغان فورسز کی جانب سے سرحدوں پر حالات کشیدہ کرنے کی کارروائی سے خطے میں افراتفری اور انتشار میں اضافہ ہو گا۔ ایک جانب بھارت کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر آئے دن فائرنگ اور گولہ باری کر کے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا تو دوسری جانب شمال مشرقی سرحد پر افغانستان پاکستان کے لیے مسائل میں اضافہ کر رہا ہے۔ ادھر سیکیورٹی ذرایع کے مطابق بنوں میں میر علی کچوری چیک پوسٹ کے قریب ایف سی کی گاڑی پر ریموٹ کنٹرول بم حملے میں ایف سی کے 3اہلکار شدید زخمی ہو گئے۔

افغان حکام کو اس حقیقت کا ادراک کر لینا چاہیے کہ غیرملکی قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل کر پاکستان کے لیے مسائل پیدا کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ اس سے اس کے اپنے اندرونی اور خارجی مسائل میں اضافہ ہو گا۔ اگر افغان حکومت علاقے میں امن قائم کرنا چاہتی ہے تو اسے پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات بہتر بنانے کے لیے سرحدوں پر فائرنگ کے جو واقعات رونما ہو رہے ہیں ان کا فوری سدباب کرنا چاہیے۔

The post پاک افغان سرحد پر 2 پاکستانی ایف سی اہلکاروں کی شہادت appeared first on ایکسپریس اردو.


کب جاگو گے

$
0
0

جب کبھی پاکستان میں عوامی جدوجہد ہوگی تو اس کا پس منظر لکھتے ہوئے تاریخ داں بہت سے ایسے واقعات تحریر کریں گے جو اس دور میں ہر دو اعتبار سے باعث حیرت ہوں گے یا تو ان کی کم Intensity کی وجہ سے کہ وہ دور اس سے زیادہ تاریک تر ہوگا یا وہ بہت اچھا دور ہوگا اور اس دور کے واقعات اس وقت ظلم محسوس ہوں گے۔

عوامی جدوجہد 47ء کے بعد کبھی نہیں ہوئی۔ جو کچھ بھی اس نام پر ہر دور میں ہوتا رہا وہ محض دھوکا تھا جس کا ثبوت موجودہ حالات ہیں اگر عوامی جدوجہد کا کوئی ریکارڈ ہوتا تو اس ظالمانہ دور کو کون برداشت کرتا جس میں صرف عوام اور وہ بھی غریب عوام کی چمڑی ادھیڑی جا رہی ہے۔ سارے قرض عوام کے سر، مہنگائی عوام کے لیے، بے روزگاری عوام کے لیے، عدم تحفظ عوام کے لیے اور اس کے علاوہ بھی بجلی، گیس ، ٹرانسپورٹ، صاف پانی، ملاوٹ سے پاک غذا یہ سب عوام کے لیے خواب ۔

روٹی کپڑا مکان کا نعرہ کل بھی دھوکا تھا آج بھی دھوکا ہے، یہ خدا کا کام ہے بندہ نہیں کرسکتا، جو ہوا اور سیاسی، قومی بین الاقوامی وجوہات اپنی جگہ مگر دراصل مرحوم نے خود اپنے وعدے کا پاس نہیں کیا اور دوسرے کاموں میں لگ گئے، اسلامی دنیا کی بات کرنا بھی ایک مقصد تھا مگر حاصل کچھ نہ ہوا، نہ ملک کے حالات بدلے نہ عوام کی حالت۔

بھٹو صاحب کی کارکردگی کے اثرات بین الاقوامی کچھ بھی ہوں قومی ٹھیک نہیں تھے، ان کا وژن قائد اعظم کا وژن نہیں تھا قائد عوام کا وژن تھا جس میں عوام نہیں ٹیلینٹڈ کزن اور اس قبیل کے دوسرے افراد شامل تھے اور زور سندھ پر تھا۔ کوٹہ سسٹم ایک بدترین منافرت جس کے ذریعے نااہلوں کو اہلوں پر ترجیح دی گئی اور اب تک دی جا رہی ہے۔کوٹہ سسٹم کی اس سازش میں اب تک ملک کی تمام پارٹیاں شریک ہیں اور یہ ظلم جاری و ساری ہے اور صرف ایک صوبے سندھ میں ہے بقیہ علاقے اس سے آزاد ہیں۔ کمال کی بات ہے کہ پاکستان کے ایک صوبے میں یہ ظلم جاری ہے اور کوئی آواز نہیں۔

تو ہم عرض کر رہے تھے کہ قیام پاکستان کے بعد عوامی جدوجہد کا کوئی منظر نظر نہیں آیا، صرف تقریریں اور باتیں اور عوام کل بھی سو رہے تھے آج بھی سو رہے ہیں۔ کچھ جاگ عدلیہ نے پیدا کی ہے اور اسے عوام شوق اور دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ انصاف ہوتے ہوئے دیکھ کر وہ بیدار بھی ہوجائیں اور شاید ہو رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا اس کا خاصا اظہار کر رہا ہے عدالت نے بہت کام سنبھال لیے ہیں کیونکہ حکومت نے عملاً کام نظام سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مفلوج کر رکھا ہے کاغذی تشہیری اخباری مہم چلا رکھی تھی چلا رکھی ہے عوام کے پیسے سے عوام کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ ۔

سپریم کورٹ نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے 55 لاکھ سرکاری خزانے میں واپس جمع کروائے ہیں، ذرا چیک کرلیں کسی اور اکاؤنٹ سے تو ٹرانسفر نہیں ہوئے ۔ کورٹ اس مشین کو منگوالے تو بہت سی چابیاں ہاتھ آجائیں گی، قارون کے خزانے کی اور پاکستان کے عوام کا لوٹا ہوا پیسہ واپس مل جائے گا ملک قرضوں سے آزاد ہوجائے گا جس کا سود ادا کرتے کرتے عوام کی کمر ٹوٹ گئی ہے پٹرول مہنگا کرکے عوام سے پیسہ وصولا جا رہا ہے۔

ایک اخباری منظر، خبر کی صورت ملاحظہ فرمائیے۔ یکم مارچ ، اپنے ہی لوگوں کے پیسے کھانے والوں کو شرم آنی چاہیے۔ سندھ ہائیکورٹ ضلع خیرپور میں 14 کروڑ سے زائد فنڈ خرد برد کرنے کے کیس میں ریمارکس، ملوث ٹھیکیداروں اور سرکاری افسران کا بیان حلفی جمع کرانے کا حکم، سندھ ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے آبائی ضلع خیرپور میں 14 کروڑ سے زائد فنڈز خورد برد کرنے سے متعلق تمام ملزمان کا بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس احمد علی شیخ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ کو نیب کے تفتیشی افسر نے بتایا کہ ضلع خیرپور کے فیض گنج تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن میں منی واٹر سپلائی اسکیم، اسٹریٹ ڈرینیج اسکیم میں خانہ پری کرکے خرد برد کی گئی ہے مقدمے میں 60 ٹھیکیدار اور 25 محکمہ بلدیات کے سرکاری افسران ملوث ہیں چیف جسٹس نے حکم دیا کہ اپنے اپنے علاقے میں جائیں اور دوبارہ کام کروائیں ورنہ سب کو جیل بھیج دیں گے۔ آپ لوگوں نے اپنے شہر اور گاؤں تباہ کردیے اپنے ہی لوگوں کا پیسہ کھا گئے کوئی شرم ہونی چاہیے۔ عدالت نے تمام ملزمان سے کام کرانے کا بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دے دیا سماعت 9 مارچ تک ملتوی کردی۔

یہ ایک خبر دور افتادہ تحصیل کی ہے اور بداعمالی، بے ایمانی، ایمان فروشی کی ملک کی بے شمار وارداتوں میں سے ایک ایسا نمونہ ہے جیسے شیشے کے ڈیزائن والی قمیض کا ایک ننھا شیشہ ۔ سندھ کے بڑے شہروں کراچی، حیدر آباد، سکھر، میرپورخاص، لاڑکانہ سب کا یہی حال ہے اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ پیپلز پارٹی کبھی بھٹو کی پارٹی تھی اب اس پر زرداریوں کا قبضہ ہے اور پرانوں میں سے جو اس کام کے شریک ہونے پر معترض نہیں وہ اس میں ہیں باقی اللہ اللہ کر رہے ہیں۔

عزیر بلوچ اور ڈاکٹر عاصم یہاں ہیں اور احد چیمہ اور کچھ اور وہاں کام سب ایک جیسا کر رہے تھے۔ چھوٹے شہروں میں چھوٹے چیمہ اور عزیر اور عاصم ہیں، کہیں کہیں شرجیل میمن بھی ہیں سندھ پنجاب میں، اگر وفاق کے اشتہارات کا سلسلہ چیک کیا جائے تو وہاں سے بھی کوئی نکل آئے گا یا نکل آئے گی۔ ایک جسٹس صاحب پانی کے مسئلے پر اور ٹریٹمنٹ پلانٹ کے معاملے پر سندھ کے دورے کر رہے ہیں اور انتظامیہ صنعت کاروں سے مل کر برے وقت کے ٹلنے کا انتظار کر رہی ہے۔

ان لوگوں نے ایشیا کے سب سے بڑے میٹھے پانی کے ذخیرے منچھر جھیل کو مل جل کر آلودہ کردیا دونوں صوبے ملوث ہیں کون جواب مانگے گا ، نقصان سندھ کے لوگوں کا ہوا۔ پانی ضایع کرنے کا الزام الگ کیوں وفاقی حکومت ڈاؤن اسٹریم پر ڈیم ٹھٹھہ میں نہیں بناتی ۔

پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) یہ دونوں پاکستان کے شہروں اور قصبات کی تباہی کے ذمے دار ہیں، دونوں کے خلاف تفتیش نیب کے ذریعے ہوکیونکہ حکومت قومی اور صوبائی ان کی ہی رہی ہیں اور ہیں۔ سندھ کے شہر کچرے کے ڈھیر ہیں۔ سڑکوں پر گٹر کا پانی پھیلا ہوا ہے۔ اخبارات کی تصاویر اور خبروں کے مطابق ریلوے اسٹیشنزکے باہر تک گٹر کا پانی جمع ہے حیدرآباد کا تو یہ حال ہے باقی جگہ بھی بہتر نہیں ہوں گی کیونکہ ہر جگہ طاقت صوبائی حکومت کے پاس ہے اور جو کچھ اداروں کو مل رہا ہے وہ بھی مل بانٹ کر کھا رہے ہیں۔ عوام کا حال برا ہے، عوامی مقامات کا حال بدترین ہے۔

اس لیے میں نے کہا کہ عوامی جدوجہد کبھی نہیں ہوئی۔ عوام بے حد صابر یا بے حد لاپرواہ ہیں ان کو اس سے غرض نہیں کہ پڑوس کا کیا حال ہے اور حکومت اور ادارے سمجھ چکے ہیں کہ انھیں موبائل فون، نیٹ کا نشہ چڑھ چکا ہے یہ فیس بک کے شوقین راتیں کالی کر رہے ہیں لڑنے جھگڑنے اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے میں، انھیں ہوش نہیں ہے کہ شہر کا ملک کا کیا حال ہے اور انھیں کیا کرنا چاہیے فکس اٹ کچھ دن چلا مگر پھر شاید اسے Fix کردیا گیا ورنہ اور شہروں میں لوگوں میں رجحان پروان چڑھتا۔ یہ قوم گند میں بھی جینا سیکھ گئی ہے اور جی رہی ہے یہی دونوں پارٹیوں کا مقصد تھا اور ہے۔ کب جاگو گے؟

The post کب جاگو گے appeared first on ایکسپریس اردو.

نواز شریف اور کرم کا قانون

$
0
0

کائنات مقام بازگشت ہے، ہر عمل کا یکساں ردعمل ہوگا، کرم کے قانون سے مفر نہیں۔

2008 کے الیکشن کے چند روز بعد جب یکدم پرویز مشرف غیرمتعلقہ ہوئے، پیپلزپارٹی کے پھریرے لہرا نے لگے، تب کراچی کی ایک نیم گرم شام چند صحافی چائے پر اکٹھے ہوئے تھے اور یہ موضوع چھڑا تھا کس نے کس جماعت کو ووٹ دیا؟

’’میں نے شیر پر مہر لگائی !‘‘ یہ ایک سینئرکے الفاظ تھے، جس کے پیچھے اس کا اعتماد تھا۔’’کیونکہ نواز شریف نے ججزکی بحالی کا وعدہ کیا ہے، ن لیگ عدلیہ کے ساتھ کھڑی ہے۔‘‘

پرویز مشرف کی ایمرجینسی افتخار چوہدری کی مقبولیت کو کچلنے میں ناکام رہی ۔ 20 جولائی2007 کو جسٹس رمدے بینچ کے تاریخی فیصلے کے بعد بحال ہونے والے افتخار چوہدری نے تبدیلی کی علامت کی حیثیت اختیارکر لی ، اُس صدر کے مدمقابل آن کھڑے ہوئے، جس کے پی سی او پر انھوں نے کبھی حلف لیا تھا ۔

جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں بینچ پرویز مشرف کی اہلیت کیس کی سماعت مکمل کرنے کو تھا کہ ایمرجینسی لگا دی گئی۔ اعلیٰ عدلیہ کے 60ججز معطل ہوکر نظر بند ہوئے، مگر سرکارکو کچھ حاصل نہیں ہوا ۔ پی پی اور ن لیگ فاتح ٹھہرے ۔ میاں صاحب اور زرداری کے قہقہوں سے اعتماد جھلکتا تھا، وہ مجلسوں میں خود کو بھائی کہہ کر پکارتے ۔

شہادت سے قبل محترمہ بے نظیر بھٹو نے چیف جسٹس کے گھر پر جھنڈا لہرانے کا اعلان کیا تھا ، مگر این آر او کے باعث وہ اس معاملے سے پیچھے ہٹ گئیں ۔ ایسے میں 27 اکتوبر کا خونیں دن اترا، اور پاکستان کی اکلوتی ملک گیر جماعت کی سربراہ قتل کر دی گئی۔ البتہ پی پی کو ہمدردی کا ووٹ نہیں پڑا ۔ وہ بھاری اکثریت لینے میں ناکام رہی، مگر یہ کیا کم تھا کہ مشرف کی ق لیگ کو شکست ہوئی۔

پی پی کا وزیر اعظم آتے ہی الٹی گنتی شروع ہوگئی کہ فیصلہ ہوا تھا، جمہوری حکومت آنے کے تیس دن بعد ججز بحال ہوجائیں گے، مگر زرداری صاحب کے ارادے مختلف تھے۔الٹی گنتی چلتی رہی، نواز زرداری ملاقاتیں ہوئیں، بیانات داغے گئے، افتخار چوہدری نظر بندی ختم ہونے کے بعد آصف زرداری سے ملنے پہنچے، مگر ججز بحال نہیں ہوئے، وکلا تحریک میں آگے آگے رہنے والی جماعتوں کو اقتدار ملا، احتجاج میں پیش پیش رہنے والے یوسف رضا گیلانی وزیرا عظم بن گئے، مگر ججز بحال نہیں ہوئے۔

اس وجہ سے ن لیگ اور پی پی میں دوریاں پیدا ہوئیں ۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا جھگڑا اٹھا۔ سلمان تاثیر کوگورنر لگادیا گیا۔ لگتا تھا، ڈیڈلاک اتنے عرصے برقرار رہے گا کہ معطل شدہ ججزغیرمتعلقہ ہوجائیں گے، یہاں تک کہ مارچ 2009 آگیا۔ اس دن(9مارچ2007) کی یاد لے کر، جب افتخار چوہدری نے باوردی صدر کے سامنے استعفیٰ دینے سے انکار کیا تھا۔

لانگ مارچ شروع ہوا، تین صوبوں میں دفعہ 144  نافذ تھی۔ سپریم کورٹ بار کونسل کے صدر علی احمد کرد بھی بلوچستان کی سرحد تک محدود تھے، مگر پنجاب کی صورت حال الگ تھی۔ میاں صاحب آگے بڑھے، پنجاب کی انتظامیہ نے میاں صاحب کو سلوٹ کرکے وکلا کی راہ سے رکاوٹیں ہٹا دیں، حکومت پر دباؤ بڑھ گیا۔ ابھی اسلام آباد کچھ دُور تھا کہ افتخار چوہدری کو بحال کر دیا گیا۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار معطل ہونے والا چیف جسٹس تیسری بار اپنے عہدے پر بحال ہوا۔ اصل کریڈٹ تووکلا اور سول سوسائٹی کو جاتا تھا، مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس رات اگر میاں صاحب نہ ہوتے، تو شاید یہ قوم جوڈیشل ایکٹو ازم کے وہ مظاہرہ نہیں دیکھتی، جو افتخار چوہدری کے پوری قوت سے لوٹنے کے بعددیکھا۔ (اورکچھ اس سے پہلے بھی، اسٹیل مل اور دیگر کیسز میں)

کائنات مقام بازگشت ہے، کرم کے قانون سے مفر نہیں۔۔۔۔

جولائی 2009کے آخر میں افتخار چوہدری کی سربراہی میں 14 رکنی بینچ نے 3 نومبر کی ایمرجنسی کوغیرقانونی قرار دیتے ہوئے پرویز مشرف کے دوسرے پی سی او کے تحت حلف لینے والے ججز فارغ کردیے ۔ لگتا تھا ، انقلاب نزدیک ہے، یہاں تک کہ لاپتا افراد کے کیسز کی سماعت نے بھی ایک حیران کن امکان پیدا کر دیا تھا ، مگر ہر انقلاب کی طرح یہ انقلاب بھی خواب ثابت ہوا۔ علی احمد کرد ، جنھوں بحالی کے فوراً بعد افتخار چوہدری سے کہا تھا ’’ اب ہم آپ پر نظر رکھیں گے ‘‘ کچھ ماہ بعد ایک ٹی وی پروگرام میں یہ کہتے ہوئے پھٹ پڑے کہ نظام عدل میں بھی اب بھی فرعونیت قائم ہے ۔

کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا ۔ چیف جسٹس کی کورٹ میں کیس نہ لڑنے کا عہد کرنے والے اعتراز احسن نے اپنی پارٹی سے تلخیاں ختم کیں اور پی پی کے دفاع میں سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ ادھر افتخار چوہدری نے اصغر خان کیس کی ذمے داری اٹھانے سے اجتناب برتا، ان کے بیٹے ارسلان افتخار پر بدعنوانی کے سنگین الزامات عاید ہوئے۔ 2013کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات سے اُن کی لاتعلقی نے بھی عوام کو مایوس کیا، پھر اس سے بھی زیادہ پریشان کن وہ معاملات تھے، جن سے پیپلزپارٹی نبرد آزما ہوئی۔یہ واضح ہوگیا کہ کیوں آصف زرداری افتخار چوہدری کو دوبارہ چیف جسٹس بنانے کے خلاف تھے ۔

ایک سبب تووہ تجربات تھے، جن کا اُنھیں دوران قید تجربہ ہوا تھا اور دوسرا سبب یہ تاثر تھاکہ افتخار چوہدری ن لیگ کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور اس تاثرکو قوی کیا خود میاں صاحب نے ۔ جب وہ میمو گیٹ میں کالا کوٹ پہن کر عدالت پہنچے۔ جب اُن کی قیادت میں ن لیگ یوسف رضا گیلانی کو نااہل کروانے کا کیس لے کر سپریم کورٹ گئی ۔ اِس دوران میاں صاحب اوراُن کی صاحبزادی گیلانی کو راہ راست پر آنے اور سپریم کورٹ کا حکم ماننے کی نصیحتیں کرتے رہے۔

26 اپریل 2012 کو گیلانی کی نااہلی کے بعد یک دم دباؤ بڑھا دیا گیا۔ ٹیکسلا سے احتجاجی مہم کا آغاز کرتے ہوئے 12 مئی 2012 کو میاں صاحب نے کہا ’’یہ کیسا ممکن ہے کہ سپریم کورٹ حکم دے اور تم ماننے سے انکار کر دو، یہ انسانوں کی بستی ہے یا حیوانوں کی بستی، ہم اسے حیوانوں کی بستی نہیں بننے دیں گے۔‘‘

الیکشن قریب آگئے۔ ن لیگ نے وفاداریاں بدلنے والوں کے لیے چھتری کی شکل اختیارکر لی۔ الیکشن جیت کر میاں صاحب اقتدار میں آئے اور وہ چیف جسٹس، جن کی بحالی کے لیے اُنھوں نے تاریخی مہم چلائی تھی،اُسے ایکسٹنشن دینے کے بجائے دسمبر 2013 میں ریٹائرمنٹ کے بعد گھر بھیج دیا گیا۔

تو کیا کھیل ختم ہوا ؟ بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔ کائنات مقام بازگشت ہے، ہر عمل کا یکساں ردعمل سامنے آتا ہے۔

تین بار وزیر اعظم بن کر عہدے سے محروم ہونے والے نواز شریف گزشتہ دنوں اپنی تیسری ٹرم میں تیسری بار نا اہل قرار پائے، اسی عدلیہ سے جس کی بحالی میں اُنھوں نے ’’خصوصی کردار‘‘ ادا کیا تھا۔ ان ہی ججز سے، جو کبھی ان کے معتبر تھے۔ گو اب وہ انھیں پی سی او ججز کہنے لگے ہیں۔

حالیہ سانحے سے نبرد آزما ہونے کے لیے وہ جس بیانیے کے ساتھ سامنے آئے ہیں، وہ مسلم لیگ ن کے ماضی اور میاں صاحب کی سیاست سے لگا تو نہیں کھاتا،البتہ اس پورے معاملے میں انھیں یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ وہ مریم نوازکو اپنی جانشین کے طور پر پیش کرنے اور اپنی اینٹی اسٹیبشلمنٹ شبیہ بنانے میں ایک حد تک کامیاب رہے۔البتہ خاطر جمع رکھیے، کسی جنگ کا امکان نہیں ۔اینٹی اسٹیبشلمنٹ شبیہ فقط شبیہ ہے، شخصیت نہیں ۔جب آپ کی اربوں کی جائیداد ہو ، تب آپ نقصان کا نہیں ، فائدہ کا سودا کرتے ہیں، تخریب نہیں، تعمیر کا کلیہ اپناتے ہیں، لڑتے نہیں، انتظار کرتے ہیں۔

کل آپ کی باری تھی، آج کسی اور کی باری ہے ۔ اُسے اپنے باری کا بونے دیں، کرم کے قانون سے کوئی مفر نہیں ۔ بونے والا جو جوئے گا، کل وہی کاٹے گا، جیسے آپ کاٹ رہے ہیں۔

The post نواز شریف اور کرم کا قانون appeared first on ایکسپریس اردو.

اداروں کے تنازعے، پریشان عوام

$
0
0

روزنامہ ایکسپریس کے مطابق کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے درمیان الزامات کی جنگ تیز ہوگئی ہے اور سوئی سدرن کمپنی کے مطابق کے الیکٹرک کی طرف 80 ارب روپے کے واجبات کے باوجود گیس دے رہے ہیں اور ہم کے الیکٹرک کے پاور پلانٹ کو گیس فراہم کرنے کے پابند نہیں ہیں۔ کے الیکٹرک کو پلانٹ لگانے سے قبل سوچنا چاہیے تھا ہم 28 لاکھ صارفین کو بھی گیس دے رہے ہیں صرف کے الیکٹرک کو گیس کی شکایت ہے۔

دوسری طرف کے الیکٹرک کی ترجمان نے کہا ہے کہ گیس نہ ملنے سے اب طویل لوڈ شیڈنگ ہوگی۔ 60 فی صد علاقوں کو استثنیٰ ختم کر دیا ہے اور رمضان المبارک میں بجلی کے بحران میں کئی گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔

واٹر بورڈ کو بھی کے الیکٹرک سے یہ شکایت عام ہے کہ کے الیکٹرک آئے دن فراہمی آب کے پمپنگ اسٹیشنوں کی بجلی بند کردیتی ہے جس کی وجہ سے شہر میں پانی کی فراہمی معطل ہوجاتی ہے اور شہریوں کو پریشانی اور قلت آب کا سامنا رہتا ہے۔ کے الیکٹرک سوئی سدرن کمپنی کو ان کے واجبات ادا نہیں کررہی اور عدالت سے اسٹے کے باعث صرف موجودہ بل کی ادائیگی کی جارہی ہے جس کے لیے ترجمان کے الیکٹرک کا کہناہے کہ وہ باقاعدگی سے موجودہ بل ادا کررہی ہے۔

گزشتہ سال ایس ایس جی سی نے کے الیکٹرک کو 160 ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کی تھی اور 2016 کے موسم گرما میں 193 گیس فراہم کی گئی تھی اس لیے سوئی سدرن عوام کی بہتری کے لیے کے الیکٹرک کو تجارتی مقاصد کی بجائے شہری مفاد میں کے الیکٹرک کو مطلوبہ گیس فراہم کرے۔

سوئی سدرن بھی کہہ چکی ہے کہ کے الیکٹرک تجارتی ادارہ ہے اور تجارتی بنیاد پر ہی بجلی فروخت کرتا ہے اور ایس ایس جی سی بھی کے الیکٹرک کی طرح تجارتی ادارہ ہے اور اپنی پالیسی اور کے الیکٹرک کو معاہدے کے تحت ہی گیس فراہم کی جائے گی جب کہ کے الیکٹرک ترجمان کا کہناہے کہ گیس سپلائی ایگریمنٹ کے لیے تیار ہیں جو نیشنل گیس ایلوکیشن پالیسی کے تحت ہی ہوسکتا ہے۔

حیرت کی بات ہے کہ سفاکانہ تجارتی پالیسی کی بنیاد پر چلایا جانے والا کے الیکٹرک کو گیس کے معاملے میں شہری مفاد یاد آگیا ہے اور وہ چاہتاہے کہ اسے حکومتی معاہدے کے مطابق فیول سے بجلی پیدا نہ کرنی پڑے اور وہ سوئی گیس کے ذریعے اپنی بجلی سستی پیدا کرکے مہنگے داموں صارفین کو فروخت کرکے ہر ماہ کروڑوں روپے اضافی رقم بھی حاصل کرتا رہے مگر سوئی سدرن کو ان کے بقایاجات ادا کرنے کی بجائے عدالت سے حکم امتناعی لے کر گیس کے 80ارب روپے ادا نہ کرنا پڑیں اور بعد میں یہ تنازعہ شنگھائی الیکٹرک کے گلے پڑ جائے۔

موجودہ صورتحال میں کے الیکٹرک سوئی سدرن گیس پر الزام عائد کررہی ہے کہ وہ 276 ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کرنے کی پابند ہے اور ایس ایس جی کے ترجمان کا کہناہے کہ ہم کے الیکٹرک کوکیے گئے معاہدے کے تحت روزانہ صرف دس ایم ایم سی ایف گیس فراہم کرنے کے پابند ہیں اور کے الیکٹرک کی شرائط پر نیا معاہدہ نہیں ہوسکتا کیونکہ کے الیکٹرک بھی ہماری طرح تجارتی ادارہ ہے اور ہماری ترجیح ہمارے 28 لاکھ صارفین ہیں۔

دو بڑے تجارتی اداروں کے باہمی تنازعے میں دونوں کا تو کچھ نہیں بگڑ رہا اور لوڈ شیڈنگ بڑھ جانے کی سزا عوام کو مل رہی ہے ۔ دونوں کے تنازعے میں ایس ایس جی کا موقف درست لگتا ہے کہ وہ شہری مفاد میں کے الیکٹرک پر 80 ارب کے واجبات کے باوجود بھی گیس دے رہی ہے جو ایک بہت بڑی رقم ہے۔

حیرت یہ ہے کہ نیپرا کے الیکٹرک پر جرمانہ کرے تو وہ عدالت سے اسٹے لے لیتی ہے اور واجبات دینے پر بھی اسے حکم امتناعی مل جاتا ہے مگر کے الیکٹرک اپنے چند سو روپے کے بقایاجات پر صارف کی بجلی منقطع کردیتی ہے اور صارف کو کسی عدالت سے حکم امتناعی نہیں ملتا۔

جماعت اسلامی ملک کی واحد جماعت ہے جو ایک سال سے کے الیکٹرک کی ظالمانہ لوڈ شیڈنگ، ناجائز وصولی، اضافی بلنگ اور صارفین سے مسلسل زیادتیوں کے خلاف تحریک چلارہی ہے جب کہ کراچی کی نمایندگی کی دعویدار ایم کیو ایم دس سال سے حکومت کرنے والی پیپلزپارٹی اور کراچی کی دوسری بڑی دعویدار اے این پی کے الیکٹرک کے خلاف دکھاوے کے بیانات دیتی رہتی ہیں کیونکہ کے الیکٹرک نے تینوں پارٹیوں کی مبینہ سفارشوں پر ان کے خاص لوگوں کو بھارتی تنخواہوں پر ملازم رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے تینوں عملاً خاموش رہتی ہیں۔

عملی طور پر صرف جماعت اسلامی کے الیکٹرک کے مظالم کے خلاف عوام کی ترجمانی اور عدالتی کارروائی کررہی ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم نے سپریم کورٹ میں کے الیکٹرک کے خلاف زیر التوا مقدمات کی سماعت نہ ہونے پر اظہار تشویش کرتے ہوئے چیف جسٹس سے نوٹس لینے اور کے الیکٹرک کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ حقائق منظر عام پر آسکے۔

کے الیکٹرک ہمیشہ خود کو سچا۔ سوئی سدرن گیس، واٹر بورڈ ودیگر سرکاری اداروں کو غلط اور اپنے صارفین کو ہی غلط قرار دیتا ہے جس کے آگے حکومت مجبور و بے بس ہے۔ کراچی میں لوڈ شیڈنگ بڑھی شہر میں احتجاج ہوئے مگر دس سالوں میں کہیں سے بھی اس اہم مسئلے پر ایکشن ہوا نہ کے الیکٹرک کے خلاف زیر التوا مقدمات کی سماعت ہورہی ہے اور کے الیکٹرک وفاقی محتسب کے فیصلوں کو بھی نہیں مان رہی اور ایک سال قبل کیے جانے والے وفاقی محتسب کے فیصلے ماننے سے بھی انکاری ہے اور کے الیکٹرک دیگر اداروں سے اپنے مالی تنازعات کی سزا ناحق عوام کو دے رہی ہے جن کا کوئی سننے والا نہیں ہے۔

The post اداروں کے تنازعے، پریشان عوام appeared first on ایکسپریس اردو.

بچوں پر تعلیم مسلط نہ کریں!

$
0
0

’’میرا بیٹا بڑا ہوکر ڈاکٹر بنے گا‘‘۔

’’میں تو اپنے بیٹے کو انجینئر بناؤں گا‘‘۔

’’ہماری شہزادی بھی ڈاکٹر بنے گی‘‘۔

’’ہم تو اپنے بچے کو فوج میں بھیجیں گے‘‘۔

’’ہمارے بیٹے سول سروس میں چلے جائیں تو زندگی سنور جائے گی‘‘۔

یہ جملے ہمارے معاشرے میں روزانہ ہزاروں نہیں تو سیکڑوں لوگ ضرور بولتے ہیں، ہم بھی ان جملوں کو سنتے بھی ہیں اور شاید بولتے بھی ہیں۔ بحیثیت قوم یہ ہمارا مزاج بن گیا ہے کہ ہم حقائق کا سامنا بعد میں کرتے ہیں ، عملی کاموں کی طرف توجہ دیر سے دی جاتی ہے لیکن پہلے خوابوں کا طویل سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے۔

بطور والدین ہم خود سے طے کرلیتے ہیں کہ ہمارے بچوں نے بڑے ہوکر کیا بننا ہے، کون سے شعبے اور فیلڈ میں جانا ہے۔ جب ہم یہ سوچ لیتے ہیں تو پھر ہم اپنی بات کو منوانے کے لیے بچوں کو شب و روز یہی بات یاد کراتے رہتے ہیں کہ اب تم نے کچھ نہیں کرنا ، بس ہم نے جو سوچ لیا ہے ، جو تمہیں بتادیا ہے، اس پرعمل کرنا ہے اور اس فیلڈ یا شعبے میں جاکر دکھانا ہے۔ یہ اتنی بھیانک غلطی ہے جس کا اندازہ ہمیں ہوتا ہی نہیں اور اگر ہوتا بھی ہے تو اس وقت تک کافی دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ شاعر نے کہا ہے کہ

خواب کتنے بھی سنہری ہوں مگر

زندگی بیداریوں کا نام ہے

اچھے خواب دیکھنا، بڑی منزلوں کی طرف جانے کا سوچنا سب کا حق بھی اور فرض بھی لیکن زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر اگر فیصلے یا اقدامات کیے جائیں تو مقصد کے حصول میں آسانیاں ہوسکتی ہیں۔ بچے ہمارا مستقبل ہیں اور مستقبل کے معمار ہیں، ہم انھیں آگے بڑھنے، دنیا کا مقابلہ کرنے، آزمائشوں سے گزرنے کی تربیت دینی ہے۔ انھیں ہر طرح کی ممکنہ آسائشوں اور سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ انھیں مشکل حالات سے نمٹنا بھی سکھانا ہے لیکن اگر ہم ان کو پابند کردیں گے کہ ’’تم نے صرف یہی کرنا ہے جو ہم کہہ رہے ہیں‘‘ تو ہوسکتا ہے کہ آپ انجانے میں ایسی غلطی کربیٹھیں جس کا مداوا مشکل سے ہو۔

یہ اللہ کا قانون اور ہمارا ایمان ہے کہ ہر بچہ مختلف خصوصیات لے کر دنیا میں آتا ہے، اگر کوئی پڑھائی لکھائی میں بہت اچھا ہوتا ہے تو کوئی جسمانی مشقت کے کاموں میں آگے آگے ہوتا ہے۔ کوئی اپنی آواز کے ذریعے دنیا میں خودکو منوانا چاہتا ہے تو کوئی پینٹنگ کے برش سے اپنی قسمت کے صفحے پر رنگ بکھیرتا ہے۔ کسی کو کتابوں سے زیادہ قدرت کے بکھرے حسن کو تسخیر کرنے کا شوق ہوتا ہے تو کوئی نصابی کتب کو ہی اوڑھنا بچھونا بنالیتا ہے۔

ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بچے کو خالی ذہن اور بے کار دماغ کے ساتھ دنیا میں بھیجا ہو۔ ضرورت اس بات کی ہوتی ہے اور ہمیشہ رہے گی کہ والدین اپنے بچوں کی ان مثبت صلاحیتوں اور کارآمد ٹیلنٹ کو پہچانیں، جو اسے آگے بڑھانے کی ترغیب دیتے ہیں۔

بچوں کو اعلیٰ تعلیم کی منازل تک پہنچانا فرض بھی ہے اور ہر ایک کی خواہش بھی ہوتی ہے لیکن یہ بات سب کو ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اولاد کو ضخیم کتابیں یاد کرادینے سے بات نہیں بنتی، بات اس وقت بنتی ہے جب آپ اپنی اولاد کوتہذیب و اقدار سکھائیں اور اسے بتائیں کہ زندگی آسائشوں کے ساتھ اور بغیر آسائشوں کے کس طرح گزاری جاتی ہے۔ ہر حال میں زندہ رہنے کا فن سیکھنے والے ہی آگے بڑھتے ہیں۔

آئیے تعلیم کے حوالے سے کچھ اقوال زریں پڑھیں۔

٭ آپ اپنی تعلیم پر پورا دھیان دیں اور خود کو عمل کے لیے تیار کریں۔ یہ آپ کا پہلا فریضہ اور آپ کی تعلیم کا حصہ ہے۔ ہماری قوم کے لیے تعلیم زندگی و موت کا مسئلہ ہے۔ (بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ)

٭ بچے ہمارے مستقبل کی بہترین امید ہیں۔ (سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی)

٭ تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ ایک خالی دماغ کو بامقصد بنادیا جائے۔ (میلکم فوربس)

٭ تعلیم زندگی کی تیاری نہیں بلکہ خود ایک زندگی ہے۔ (امریکی فلسفی جان ڈیوی)

٭ تعلیم کی جڑیں کڑوی ہوسکتی ہیں مگر اس کا پھل بہت میٹھا ہوتا ہے۔ (ارسطو)

٭ تعلیم کا مقصد حقائق کو نہیں بلکہ اقدار کو جاننا ہے۔ (امریکی مصنف ولیم بورو)

٭ بامقصد تعلیم کسی فوج سے زیادہ بہتر انداز میں آزادی کا تحفظ کرسکتی ہے۔ (امریکی سیاستدان ایڈورڈ ایورٹ)

٭ اچھی تعلیم کا سب سے بہترین نتیجہ برداشت ہے۔ (ہیلن کیلر)

٭ تعلیم کے بغیر انسان ایسا ہی ہے جیسے بنیاد کے بغیر عمارت۔

٭ ہر انسان کے لیے تعلیم اس کے مستقبل کا پاسپورٹ ہے۔

٭ تعلیم اندھیرے سے روشنی کا سفر ہے۔

تعلیم کی اہمیت اپنی جگہ لیکن ایک اور ضروری چیز تعلیمی نظام ہے۔ پاکستان میں یوں تو بہت سے تعلیم نظام رائج ہیں اور ہر کوئی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق یا اپنی حیثیت سے بھی بڑھ کر نظام تعلیم اپنے بچوں کے لیے منتخب کرتا ہے۔ بات اس میں بھی وہی آتی ہے کہ بڑے تعلیمی ادارے، لاتعداد کتابوں سے بھرے بھاری بھرکم بستے، مختلف days منانے کے نام پر تعلیمی اداروں میں سرگرمیاں ہی status symbol نہیںہیں، اصل چیز اچھی، معیاری اور بامقصد تعلیم ہے جس پر حکمرانوں، والدین، اساتذہ سمیت سب کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو اچھی اور بامقصد تعلیم دیں، ان پر تعلیم تھوپیں نہ، اگر ایسا کیا جائے گا تو وقتی طور پر تو ہمیں خوشی بھی ملے گی، تعریفیں بھی ہورہی ہوں گی لیکن اس سے بچوں کی اصل صلاحیتیں اور ٹیلنٹ دب جائے گا اور اعلیٰ تعلیمی مدارج طے کرنے کے باوجود بچہ اپنی اصل صلاحیتوں کو استعمال نہ کرنے کی کسک لیے رہے گا جو اس کے لیے صحیح نہیں۔

ہمیں اپنے بچوں کو نصابی کتابیں یاد کرانے کے ساتھ ساتھ صبر و برداشت، تحمل، ادب، تمیز، تہذیب، دوسرے کی بات سننے کا فن، غیر متوقع بات کو برداشت کرنے کی صلاحیت ، مشکل حالات میں بھی ہنسنے مسکرانے کی عادت جیسے ہنر بھی سکھانے ہوں گے اور یہ سب کچھ اس وقت ہوگا جب آپ خود ان باتوں کو اپنے اندر پیدا کریں اور بچوں کے سامنے عملی طور پر ان صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں کیونکہ وہ آپ سے ہی سیکھتے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ قارئین میں سے اکثریت اپنے اپنے بچپن میں اس صورتحال سے گزری ہوگی اور اب ان کے بچے ان کی جانب سے صحیح فیصلہ کرنے کے منتظر ہوں گے۔ بروقت صحیح فیصلہ کرکے ہم نہ صرف اپنا مستقبل محفوظ بناسکتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی ملک و قوم کا صحیح معنوں میں نمایندہ بننے کا اہل ثابت کرسکتے ہیں، اس پر سب کو سوچنا ہوگا۔ کچھ باتوں میں کڑواہٹ ضرور ہوتی ہے، افسوس بھی ہوتا ہے لیکن اگر انسان غلطیوں سے سیکھنے اور انھیں نہ دہرانے کا تہیہ کرلے تو ہم بہت سے مثبت نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔

سب کو بحیثیت والدین اور اساتذہ یہ کوشش کرنی چاہیے کہ بچوں کو ان غلطیوں اور کوتاہیوں سے بچائیں جو جانے انجانے میں ہم سے ہوچکی ہیں۔ ماضی سے سیکھ کر اگر ہم اپنے حال پر کچھ توجہ دے لیں گے تو مستقبل یقینی طور پر بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت کی شکل میں ہمارے سامنے آئے گا۔

The post بچوں پر تعلیم مسلط نہ کریں! appeared first on ایکسپریس اردو.

کمزور جمہوریت کی ایک بڑی وجہ کمزور الیکشن کمیشن

$
0
0

پاکستان میں کمزور جمہوریت کی کئی وجوہات قرار دی جا سکتی ہیں۔ ہمارے کچھ دوستوں کے خیال میں کمزور جمہوریت کی سب سے بڑی وجہ اسٹبلشمنٹ کی  مداخلت ہے۔ جب کہ کچھ  دوستوں کا موقف ہے کہ اس گھر کو آگ لگی ہے گھر کے چراغ سے، اس لیے کمزور جمہوریت کی بڑی وجہ خود سیاسی جماعتیں ہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے اندر کی آمریت ہی انھیں کمزور کرتی ہے جس سے جمہوریت کمزور ہو تی ہے۔ بہر حال کم از کم اس بات پر اتفاق ہے کہ جمہوریت کمزور ہے۔

میری رائے میں پاکستان میں جمہوریت کمزور ہونے کی ایک بڑی وجہ کمزور الیکشن کمیشن بھی ہے۔ آج جب پاکستان میں مضبوط اداروں کی بات ہو رہی ہے۔ چیف جسٹس مضبوط اداروں کی بات کر رہے ہیں۔ عدلیہ مضبوط ہے۔ فوج مضبوط ہے۔ نیب مضبوط ہے۔ ایسے میں افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم الیکشن کمیشن کو مضبوط کرنے پر کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ ویسے تو الیکشن کمیشن کی جمہوریت میں حیثیت ایک ایمپائر کی ہے۔ اسی لیے ایمپائر کا فیصلہ حتمی اور آخری ہی ہونا چاہیے۔

جمہوری کھیل کے تمام کھلاڑیوں اور ٹیموں کو اس ایمپائر کی بات کو ہی حتمی سمجھنا اور ماننا چاہیے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں نے الیکشن کمیشن کو ایمپائر کے بجائے ریلو کٹا  بنا دیا ہے۔ جس کی کھیل میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کی اس کمزوری کی وجہ کیا ہے۔ ایک بڑی وجہ تو الیکشن کمیشن خود بھی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن کمیشن نے اس طرح کام نہیں کیا جیسے اسے کرنا چاہیے تھا۔ سیاسی جماعتوں کے اندر آمریت الیکشن کمیشن کی کمزوری ہے۔

الیکشن کمیشن کو ایسے اصول اور قواعد سامنے لانے چاہیے تھے جس سے سیاسی جماعتوں میں آمریت کو ختم کیا جا سکتا۔ تا ہم الیکشن کمیشن نے اس ضمن میں کوئی کام نہیں کیا ہے اورایک خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا ہے۔ حتیٰ کے ٹیکس ریٹرنز جمع نہ کروانے پر جن ارکان کو معطل کیا جاتا ہے ، وہ معطلی بھی اب ایک مذاق بن چکی ہے۔

اتنی بڑی تعداد میں ارکان کو معطل کیا جاتا ہے اور پھر وہ جب دل چاہتا ہے بحال ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی الیکشن کمیشن سے ایک مذاق ہی ہے۔ اب معطلی کی یہ سزا بے اثر ہو گئی ہے۔ لہذا جو ارکا ن بر وقت ٹیکس ریٹرنز جمع نہیں کراتے انھیں پارلیمنٹ کا رکن رہنے کا کوئی حق نہیں ہے، انھیں فوراً نا اہل کر دینا چاہیے تا کہ اراکین پارلیمنٹ کو یہ پتہ رہے کہ الیکشن کمیشن انھیں نا اہل بھی کر سکتا ہے۔ ان کی سیٹ بھی جا سکتی ہے۔

جہاں کمزور الیکشن کمیشن میں الیکشن کمیشن خود بھی ایک وجہ ہے وہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ الیکشن کمیشن کے حوالے سے قانون بھی کمزور ہیں۔ اس وقت الیکشن کمیشن کے فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹس میں اپیل دائر کی جاتی ہے ۔اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ جیسے ہی الیکشن کمیشن کوئی فیصلہ جاری کرتا ہے متاثرہ فریق اس کے خلاف متعلقہ ہائی کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کرلیتا ہے۔

اس وقت قانون میں اس کی گنجائش موجود ہے اور ہائی کورٹس قانون کے مطابق ہی عمل کرتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس قانون کی وجہ سے الیکشن کمیشن کی حیثیت ایک ٹرائل کورٹ کی رہ گئی ہے۔الیکشن کمیشن کے فیصلوں کی حیثیت ماتحت عدلیہ کے فیصلوں کی رہ گئی ہے۔

شاید اسی لیے سیاسی جماعتیں اور اراکین پارلیمنٹ الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو سنجیدہ نہیں لیتے ہیں۔ جیسے کہ ماتحت عدلیہ کو ایک حد تک سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ عمران خان جو پاکستان میں اداروں کو مستحکم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ وہ بھی الیکشن کمیشن کے فیصلوں کوسنجیدہ نہیں لیتے رہے ہیں۔ بلکہ جب پیش نہ ہونے پر الیکشن کمیشن نے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تو انھوں نے الیکشن کمیشن کے خلاف بیان بازی شروع کر دی۔ حالانکہ یہ وہی عمران خان ہیں  جو نواز شریف کی جانب سے سپریم کورٹ کے خلاف بیان بازی پر سیخ پا ہیں۔شاید ان کی نظر میں الیکشن کمیشن سپریم کورٹ جتنا اہم اور قابل عزت ادارہ نہیں ہے۔

اسی طرح اب جب کہ انتخابات کے قریب آنے پر الیکشن کمیشن نے سرکاری محکموں میں ہر قسم کی بھرتیوں پر پابندی عائد کی ہے، حکومت پنجاب نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ جب الیکشن کمیشن کا ہر فیصلہ فوری پر چیلنج ہو سکے گا تو الیکشن کمیشن کی ایک کلیدی حیثیت ختم ہو جاتی ہے او ر ایک سوچ بن جاتی ہے کہ کوئی بات نہیں اگر الیکشن کمیشن نے خلاف فیصلہ دے بھی دیا تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم اس کو چیلنج کر دیں گے۔ کہیں نہ کہیں اس طرح الیکشن کمیشن کی رٹ ختم ہو جاتی ہے۔

اس لیے ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے جہاں اور بہت سے اقدامات کی ضرور ت ہے وہاں الیکشن کمیشن کو مضبوط کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس قدر لولے لنگڑے الیکشن کمیشن کے ساتھ جمہوریت چل نہیں سکتی۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت سمجھتی ہے کہ ایک مضبوط الیکشن کمیشن ان کے مفاد میں نہیں ہے۔ اگر الیکشن کمیشن مضبوط ہو گیا تو سیاسی جماعتوں کی چاندی ختم ہو جائے گی۔ سیاسی قیادت کی بادشاہت ختم ہو جائے گی۔ انھیں الیکشن کمیشن کے تا بع آنا پڑ جائے گا جو انھیں کسی بھی صورت قبول نہیں ہو گا۔

میں سمجھتا ہوں کہ ملک میں جب انتخابات کے لیے ایک قانون ہے تو سیاسی جماعتوں کے لیے بھی ایک ہی قانون ہو نا چاہیے۔ یہ بھی ایک مذاق ہے کہ ہر سیاسی جماعت نے اپنی مرضی کا آئین و قانون بنایا ہوا ہے۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اپنے آئین و قانون بالکل جمہوری نہیں ہیں بلکہ یہ سیاسی جماعتوں میں شخصی آمریت کو مضبوط کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔

الیکشن کمیشن کو تمام سیاسی جماعتوں کے لیے یکساں قوانین اور قواعد بنانے چاہیے۔ تا کہ جو سیاسی جماعتیں پاکستان کے جمہوری عمل کا حصہ بننا چاہتی ہیں۔ جو انتخابی معرکہ میں شریک ہونا چاہتی ہیں۔ انھیں الیکشن کمیشن کے قوانین اور قواعد کو ماننا چاہیے۔ تا کہ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت قائم کی جا سکے۔

الیکشن کمیشن کو سیاسی جماعتوں میں ٹکٹوں کی تقسیم کا اختیار بھی سیاسی قیادت سے چھین کر کارکنوں کو دینے کے ہنگامی اقدامات کرنے چاہیے۔ یہ مرکزی پارلیمانی بورڈ اور قیادت کا اختیار سب آمریت کے شاخسانے ہیں۔ یہ جمہوریت کے قاتل ہیں۔ یہ وراثتی سیاست اور درباری سیاست کے فروغ کا باعث ہیں۔جب تک سیاسی جماعتوں میں ٹکٹوں کی تقسیم کا نظام شفاف نہیں ہوگا۔ پاکستان حقیقی جمہوریت کی طرف گامزن نہیں ہو سکتا۔ جس حلقہ میں جس جماعت نے ٹکٹ جاری کرنا ہے وہاں کے کارکنوں کی حمایت لازمی قرار دی جائے۔ ہر سیاسی جماعت کو ہر حلقہ میں موجود اپنے کارکنوں کی فہرست الیکشن کمیشن کو فراہم کرنی چاہیے۔

اس کے دو فائدے ہوںگے ایک تو سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادت کی من مرضیاں ختم ہو جائیں گی، دوسرا یہ جو الیکشن سے قبل جیتنے والے گھوڑوں کی ایک منڈی لگ جاتی ہے، وہ بھی ختم ہو جائے گی۔ جس طرح الیکشن کمیشن نے الیکشن سے تین ماہ قبل ہر قسم کے ترقیاتی کاموں اور سرکاری بھرتیوں پر پابندی عائد کی ہے۔ اسی طرح الیکشن سے کم از کم چھ ماہ قبل سیاسی جماعت تبدیل کرنے پر بھی پابندی عائد ہونی چاہیے۔

اگر کوئی رکن پارلیمنٹ انتخابات سے قبل جماعت تبدیل کرتا ہے تو اسے انتخابات میں حصہ لینے سے روک دینا چاہیے۔ تا کہ ملک میں سیاسی وفاداریاں بدلنے کی روایت بھی ختم ہو سکے۔ لیکن اس سب کے لیے ایک مضبوط الیکشن کمیشن کی ضرورت ہے۔ جس کے فیصلوں کے خلاف کوئی اپیل ممکن نہ ہو۔ اور سب اس کے تابع ہوں۔

The post کمزور جمہوریت کی ایک بڑی وجہ کمزور الیکشن کمیشن appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 22386 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>