Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22545 articles
Browse latest View live

عوامی خدمات کے دورے

$
0
0

جب بھی الیکشن قریب آتے ہیں تو حکمرانوں کو عوامی خدمات کے دورے پڑنے لگ جاتے ہیں۔اپنا سارا وقت بڑے بڑے منافع بخش پروجیکٹوں میں لگانے والی حکمران اشرافیہ اسکول اور اسپتال جیسے کم منافع بخش پروجیکٹوں پر صرف کرنا شروع کردیتی ہے۔ اسکولوں اور اسپتالوں کے فیتے کاٹنے اور میڈیا میں اس کا بھرپور پروپیگنڈا کرنا ہماری حکمران اشرافیہ کی مصروفیت بن جاتی ہے ۔

ہمارے تعلیمی نظام میں ایک کاٹج انڈسٹری بڑے زوروں سے فروغ پارہی ہے یہ کاٹج انڈسٹری ملک میں پرائیویٹ اسکولوں کے نام سے جانی جاتی ہے، یہ انڈسٹری اس قدر منافع بخش ہے کہ چھوٹے سرمایہ کاروں کا ایک طبقہ اس انڈسٹری میں کم سرمائے سے بے تحاشا منافع حاصل کر رہا ہے۔

مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے وہ لوگ جو اعلیٰ درسگاہوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کی سکت نہیں رکھتے وہ اس کاٹج انڈسٹری کا رخ کرتے ہیں۔ اس انڈسٹری کے مالکان نے بچوں کی فیسوں میں ناقابل برداشت اضافہ کردیا ہے۔ نرسری کے بچوں سے چار پانچ ہزار فیس لی جا رہی ہے اور بچوں کے ماں باپ سر پکڑے بیٹھے ہیں ۔ حکومت کی طرف سے ان بھاری فیسوں کے خلاف کارروائی کی خبریں میڈیا میں آتی رہی ہیں لیکن یہ مافیا اس قدر مضبوط ہے کہ فیسوں میں ڈبل اضافے پر نظر ثانی کرنے کے لیے تیار نہیں بے شمار ماں باپ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کروا  رہے ہیں۔

ترقی یافتہ ملکوں ہی میں نہیں بلکہ پسماندہ ملکوں میں بھی تعلیم اور صحت کو انسان کی بنیادی ضرورت میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ دونوں سہولتیں عوام کو مفت فراہم کی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں یہ سہولتیں مفت تو کیا اس قدر مہنگی ہیں کہ عام آدمی کی ان سہولتوں تک رسائی ہی ممکن نہیں۔

ہمارے ملک میں تعلیم دو بلکہ تین حصوں میں تقسیم ہے، ایک بڑا حصہ سرکاری تعلیم پر مشتمل ہے، سرکاری اسکول اصل میں اس پروپیگنڈے کا حصہ ہیں کہ عوام کو مفت تعلیم فراہم کی جارہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری اسکول بچوں کی وقت گزاری کا ایسا حصہ ہیں جو بچوں کو کھیل کود، لڑائی جھگڑوں کی سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ وہ غریب ماں باپ جو اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم نہیں دلواسکتے وہ بچوں کو بری صحبتوں سے بچانے کے لیے سرکاری اسکولوں میں داخل کرادیتے ہیں جہاں بچے لڑائی جھگڑوں اور مغلظات کے علاوہ کچھ نہیں سیکھ سکتے۔

سرکاری اسکولوں کی اس حالت زار کی وجہ یہ ہے کہ حکومتوں نے تعلیم کے لیے بجٹ میں اس قدرکم  رقم رکھی ہیں کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ماہر اساتذہ اس فنڈ میں مہیا نہیں ہوسکتے۔ اس کے برخلاف کم تعلیم یافتہ خواتین وحضرات کو سرکاری اسکولوں میں ملازم رکھاجاتا ہے اور یہ اساتذہ عموماً اسکولوں میں اپنا ٹائم پاس کرنے کے لیے آتے ہیں۔ بچوں کی طرف عدم توجہی اور اساتذہ کی غیر تربیت یافتہ صورتحال کی وجہ سے سرکاری اسکولوں میں بچے عموماً وقت گزاری کے لیے آتے ہیں دیہی علاقوں میں یہ صورتحال کس قدر گمبھیر ہے اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ دیہی علاقوں کے بیشتر اسکول وڈیروں کے مویشی خانوں میں بدل دیے گئے ہیں، یہ کوئی اتفاقی بات نہیں بلکہ حکمران طبقات اور اشرافیہ کی گہری سازش کا نتیجہ ہے جس کا مقصد غریب عوام کے بچوں کو تعلیم سے محروم کرنا تھا۔

اس سازش کا مقصد یہ ہے کہ غریب عوام کے بچے بہتر تعلیم حاصل کرکے اشرافیہ کی اولاد کا مقابلہ کرنے کے اہل نہ ہوجائیں ۔ ہمارے سرکاری اسکولوں کی حالت زار کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ خواتین اساتذہ ڈیوٹی کے دوران سلائی کڑھائی میں مصروف رہتی ہیں اور مرد اساتذہ اپنا زیادہ وقت گپ بازی میں صرف کرتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے شرمناک بات یہ ہے کہ اساتذہ کی ایک بڑی تعداد گھوسٹ کہلاتی ہے یعنی یہ اساتذہ اسکول آتے ہی نہیں بلکہ گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں یا کوئی اور ملازمت اختیار کرلیتے ہیں ۔ میڈیا میں گھوسٹ اساتذہ کے بارے میں اکثر خبریں آتی رہتی ہیں لیکن ان کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا کیونکہ یہ اساتذہ اشرافیہ کے خدام ہوتے ہیں یا پھر اپنی تنخواہوں کا ایک معقول حصہ اوپر والوں کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

عوام کے خادم حکمرانوں کو یہ توفیق نہیں کہ اس بدترین صورتحال کا جائزہ لے کر اس میں اصلاح کی کوشش کریں اور غریبوں کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقعے فراہم کریں، الیکشن کے قریب آنے کی وجہ تعلیمی سہولتیں فراہم کرنے کا  پروپیگنڈا شدت سے کیا جارہاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تعلیم کا شعبہ انتہائی پسماندہ ہے۔تعلیم کے بعد عوام کی بنیادی ضرورت علاج ہے اور اس شعبے کا عالم یہ ہے کہ سرکاری اسپتال یتیم خانے بنے ہوئے ہیں، ترقی یافتہ ہی نہیں بلکہ پسماندہ ملکوں میں بھی تعلیم کے ساتھ علاج کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے۔

کراچی جیسے ملک کے سب سے بڑے اور ترقی یافتہ شہرمیں جہاں دو کروڑ سے زیادہ انسان بستے ہیں صرف تین سرکاری اسپتال موجود ہیں جن سے ہمارے شعبہ صحت کی ترقی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ دیہی علاقوں کی اس حوالے سے ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ اسکولوں کی طرح وڈیروں نے اسپتالوں کو بھی مویشی خانوں میں بدل دیا ہے چھوٹے علاقوں کے عوام کو اپنے علاج کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے بعض وقت سانپ کے ڈسے لوگ مقامی سطح پر علاج کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے مریض کو بیل گاڑیوں میں بڑے شہر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور مریض راستے ہی میں دم توڑ دیتا ہے۔

شعبہ تعلیم میں پرائیویٹ اسکولوں کی جو انڈسٹری لگی ہوئی ہے، شعبہ صحت میں بھی پرائیویٹ اسپتالوں کی مافیا انتہائی طاقتور ہے ، غریب آدمی پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج کا سوچ بھی نہیں سکتا، الیکشن کے قریب آنے کی وجہ سے اسپتالوں کے فیتے بھی کٹ رہے ہیں دل اور دماغ کے شعبوں کا افتتاح بھی ہو رہا ہے جب تک ملک میں اشرافیہ کا راج ہے تعلیم اور علاج جیسے اہم شعبے کسمپرسی کا شکار رہیںگے کیا عوام 2018 کے الیکشن میں کرپٹ اسٹیبلشمنٹ سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کریں گے؟

The post عوامی خدمات کے دورے appeared first on ایکسپریس اردو.


لاپتہ افراد کا انسانی مسئلہ

$
0
0

ریاست اور غیر ریاستی کرداروں کے شہریوں کو لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دینا چاہئے۔انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور میں شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک آئینی خود مختار کمیشن کے قیام کے لیے آئین میں ترمیم کا عہد کرنا چاہئے۔

سندھ ہائی کورٹ نے لاپتہ افراد کے مقدمات میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے کردار کو مایوس کن قرار دیا ہے ۔صرف سندھ ہائی کورٹ میں 100کے قریب لاپتہ افراد کے لواحقین کی عرضداشتوں پر پولیس اور دیگر ایجنسیوں کی عدم دلچسپی سے معزز عدالت کے ججوں کو مایوسی کا رویہ اختیار کرنا پڑگیا ہے۔

پورے سندھ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے تحریک زوروں پر ہے، اگرچہ پورا سندھ گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ رمضان شریف کا مہینہ ہے مگر لاپتہ افراد کے لواحقین کی زندگیوں سے چین ختم ہوچکا ہے۔ بیٹیاں، بیٹے، بیویاں، بہنیں، بھائی اور ان کے ہمدرد اس خراب موسم میں بھی سڑکوں پر نعرے لگاتے، بھوک ہڑتال کرنے اور ہر تکلیف برداشت کرنے پر مجبور ہیں ۔ خفیہ پولیس اور دیگر خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار بھی اس گرمی اور روزے میں ان احتجاجی لوگوں کی نگرانی پر مجبور ہیں ۔

20 مئی کو اندرون سندھ سے آنے والے لاپتہ افراد کے خاندان والوں نے کراچی پریس کلب کی دیوار سے متصل فٹ پاتھ پر کیمپ لگایا تھا۔ بائیں بازو کی جماعتوں کے سیاسی کارکن اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے کارکن بھی اس موقع پر جمع تھے۔ سب کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے۔ اس موقع پر کچھ کارکن گرفتار بھی ہوئے مگر اگلے دن یہ لوگ اپنے گھروں کو پہنچ گئے تھے۔

حیدرآباد کے دانشوروں، ادیبوں اور سیاسی کارکنوں نے پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا اور جلوس نکالا۔ اس احتجاج کو منظم کرنے والے کارکنوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ سندھ کے تمام شہروں میں اس طرح کے احتجاج منظم کیے جائیں گے۔ گزشتہ کئی برسوں سے متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن اپنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے اسی طرح کے احتجاج کرچکے ہیں۔ اگرچہ اب ایم کیو ایم کئی دھڑوں میں بٹ چکی ہے مگر ان کے رہنما اب بھی اپنے کارکنوں کی بازیابی کی دہائی دیتے ہیں جو کئی برسوں سے لاپتہ ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ان لاپتہ افراد میں سے کچھ کی لاشیں دو سال پہلے تک ملی تھیں اور بہت سے کارکن اچانک اپنے گھروں کو پہنچ گئے مگر اب مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ بند ہوچکا، مگر لاپتہ افراد کی مکمل بازیابی کا مرحلہ پایہ تکمیل تک پہنچنا ہے۔ بلوچ کارکن تو اس صدی کے آغاز سے ہی اپنے لاپتہ افراد کی بازیابی کی تحریک چلاتے رہے ہیں۔

اب بھی کراچی اور کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بلوچ خواتین اور مرد اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ بلوچستان میں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد صورتحال خراب ہوتی چلی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان میں ڈبل کیبن سیاہ گاڑیاں خوف کی علامت بن گئی تھیں۔ ان گاڑیوں میں نامعلوم افراد آتے جن کے چہرے ڈھکے ہوتے۔ یہ مسلح افراد گھروں، بازاروں اور تعلیمی اداروں اور دفاتر سے سیاسی کارکنوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔

لواحقین پولیس اسٹیشن والوں سے پوچھتے ہیں مگر وہ مکمل طور پر عدم تعلقی کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ بلوچستان میں دیگر صوبوں سے برسوں سے آباد ہونے والے اساتذہ، صحافیوں، وکلاء، خواتین، پولیس افسران، ڈاکٹروں، دکانداروں اور حتیٰ کہ حجاموں کو ٹارگیٹ کیا جانے لگا تو لاپتہ ہونے والے افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملنے پر ان افراد کی ٹارگٹ کلنگ رکی تو مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ رک گیا۔ مگر سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ جاری رہا۔

نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد قبائلی علاقوں اور پختون خواہ میں خاص طور پر مختلف پس منظر رکھنے والے افراد کو اغواء کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ القاعدہ اور طالبان شوریٰ سے تعلق رکھنے والے بعض افراد کو ملک سے اغواء کرکے امریکا کی کیوبا کے جزیرے کی جیل میں پہنچا دیا گیا۔ قبائلی علاقوں اور پختون خواہ میں آپریشن ضرب عضب کے بعد حالات بہتر ہوئے۔ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی مگر قبائلی علاقوں خاص طور پر شمالی اور جنوبی وزیرستان میں عام شہریوں کے لاپتہ ہونے کے واقعات میں کمی نہیں آئی۔ فوج نے سوات میں آپریشن کر کے ملا فضل اللہ کے جنگجوؤں کو مار بھگایا۔ سوات کی رونقیں بحال ہوگئیں مگر لاپتہ ہونے کے معاملات جاری رہے۔

چند ماہ قبل کراچی میں ایک نوجوان نقیب اللہ محسود ماورائے عدالت قتل ہوا۔ نقیب اللہ محسود کے قتل میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دلوانے کے لیے پختون نوجوانوں میں ایک تحریک پھوٹ پڑی۔ یہ تحریک کراچی سے چلی اور قبائلی علاقوں تک جا پہنچی۔ اس تحریک کا ایک بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا اور یہ سلسلہ ختم کیا جائے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے لاپتہ افراد کی بازیابی پر ازخود نوٹس لیا تھا۔ جسٹس چوہدری کی مسلسل توجہ سے کچھ افراد کو معزز چیف جسٹس کے سامنے پیش کیا گیا تھا جو موت کے انتہائی نزدیک تھے۔  وکلاء نے معزز عدالت کو بتایا تھا کہ کچھ لاپتہ افراد کیمپوں میں ہیں، کچھ اپنے گھروں پر چلے گئے ہیں اور کچھ کے بارے میں کہا گیاتھا کہ ملک میں موجود نہیں۔ شاید افغانستان میں جہادی کیمپوں میں موجود ہیں۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سپریم کورٹ کے سابق جج اور نیب کے موجودہ چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی قیادت میں ایک کمیشن قائم کیا۔ سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج اور قانونی پیچیدگیوں کے ماہر جسٹس غوث محمد اور کے پی کے سابق آئی جی کو اس کمیشن میں شامل کیا گیا۔ اس کمیشن نے کئی مقدمات میں داد رسی کا فریضہ انجام دیا۔ پھر لاپتہ افراد کے مسئلے کی گونج انسانی حقوق کے بین الاقوامی فورمز پر گونجنے لگی۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجا۔یہ آصف زرداری کی صدارت کا دور تھا۔ صدر ، وزیر اعظم، وزیر قانون سمیت وفاق اور صوبے کے کسی نمائندے نے اس کمیشن کے اراکین کو ملاقات کا شرف نہیں بخشا مگر کمیشن کے اراکین نے چاروں صوبوں میں جا کر متاثرین کی شہادتیں جمع کیں، یوں ملک میں انسانی حقوق کے بارے میں رپورٹ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ریکارڈ کا حصہ بنی ۔

جب جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں پاکستانی مندوب بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر آواز اٹھاتے ہیں، بھارتی مندوب اس رپورٹ کا حوالہ دینے لگتے ہیں۔ 2008ء میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو کئی مری اور بگٹی قبائل کے لاپتہ افراد گھروں کو پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے مگر پھر ایسا محسوس ہونے لگا کہ گیلانی حکومت اس معاملے میں بے بس نظر آرہی ہے۔

جب 2013ء میں نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عبدالمالک بلوچستان کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تو این پی کے صدر حاصل بزنجو اور ڈاکٹر مالک لاپتہ افراد کی رہائی کے لیے خاصے متحرک نظر آئے۔ سینیٹر حاصل بزنجو نے ایک وقت یہ اعلان بھی کیا کہ اب سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں نہیں ملیں گی۔ اس دوران بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے صدر لاپتہ ہوئے۔بی ایس او کے ایک کارکن نے اپنے صدر کی بازیابی کے لیے کراچی پریس کلب کے سامنے کئی ماہ تک بھوک ہڑتال کی۔ ڈاکٹر مالک خود پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتالی کیمپ میں آئے مگر وہ نوجوان سے بھوک ہڑتال ختم کرانے کی اپیل کرنے کے علاوہ کچھ اور نہ دے سکے۔ سندھ میں گزشتہ دو برسوں کے دوران بہت سے قوم پرست کارکن لاپتہ ہوئے۔ ان میں کچھ کارکنوں نے اپنی رہائی کے بعد قوم پرست سیاست سے لاتعلقی اور مسلم لیگ فنکشنل میں شمولیت کا اعلان کیا۔

معروف صحافی، فلسفی اور انسانی حقوق تحریک کے رہنما آئی اے رحمن کا کہنا ہے کہ جسٹس جاوید کمیشن بے اثر ہوچکا۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی کا مؤقف ہے کہ ریاستی اور غیر ریاستی کرداروں کا شہریوں کو لاپتہ کرنے کا عمل انسانی حقوق کے بین الاقوامی کنونشن کے تحت فوجداری جرم قرار دیا جائے۔ کراچی میں سندھ کے وزیر داخلہ نے لاپتہ افراد کے لواحقین کے کیمپ کا دورہ کیا اور لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے کی یقین دہانی کرائی، سندھ اسمبلی میں سینئر وزیر نثار کھوڑو نے بھی اس بات کا اعادہ کیا۔ ملک میں انتخابی عمل شروع ہوچکا۔ بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کا انتخابی منشور تیار کررہے ہیں۔ یہی کام دیگر سیاسی جماعتیں بھی کررہی ہیں۔ بلاول بھٹو کو خاص طور پر شہریوں کو لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم اور اس مسئلے کے تدارک کے لیے آئین میں ایک خود مختار کمیشن کے لیے ترمیم کو اپنے منشور میں شامل کرنا چاہئے۔

The post لاپتہ افراد کا انسانی مسئلہ appeared first on ایکسپریس اردو.

براہِ کرم حاضری رجسٹر پر دستخط مت کیجیے

$
0
0

آخری امریکی انتخابی اخراجات کا تخمینہ پانچ ارب ڈالر ہے ، جبکہ مودی نے دو ہزار چودہ میں جو الیکشن جیتے ان میں بھی تمام امیدواروں نے کل ملا کے پانچ ارب ڈالر خرچ کیے۔پاکستان میں اگر الیکشن ایکٹ دو ہزار سترہ کی عینک سے دیکھا جائے تو ہر مڈل کلاسیا باآسانی الیکشن لڑ بھی سکتا ہے اور جیت بھی سکتا ہے۔

مثلاً قومی اسمبلی کے امیدوار کے انتخابی اخراجات کی حد پندرہ لاکھ سے بڑھا کر چالیس لاکھ کر دی گئی ہے ، صوبائی اسمبلی کا امیدوار پہلے دس لاکھ روپے خرچ کر سکتا تھا اب بیس لاکھ تک خرچہ کر سکتا ہے۔سب سے سستا سینیٹ کا الیکشن ہے۔یعنی سینیٹر بننے کا ہر خواہش مند اب زیادہ سے زیادہ پندرہ لاکھ روپے خرچ کر سکتا ہے۔اس مد میں گذشتہ حد دس لاکھ روپے تھی۔

الیکشن کمیشن کی حدِ اخراجات بالکل اس طرح ہے جس طرح گوشت کا سرکاری نرخ نامہ۔مٹن سات سو چالیس روپے۔بیف ہڈی والا تین سو اور بغیر ہڈی کا تین سو چالیس روپے۔یہ ریٹ کمیشنر کراچی نے پندرہ روز پہلے اٹھارہ مئی دو ہزار اٹھارہ کو طے کیے اور محلے کے بھورے قصائی نے گتے پر چسپاں کر کے دھڑلے سے تار کے ساتھ لٹکا دئیے۔

میں نے بھورے سے پوچھا کہ بھیا تو مجھے مٹن سات سو چالیس کے بجائے ساڑھے نو سو اور بیف تین سو کے بجائے ساڑھے پانچ سو میں کیوں دے رہا ہے۔  بھورے نے بگدا دستی پر مارتے ہوئے کہا میاں جی تم  صحافی ہو کر اتنے ننھے کیوں بن رہے ہو ؟ ساڑھے تین سو میں کہیں سے کتے کا لادو پوری گائے مفت میں گھر پہنچا دوں گا۔شکر کرو تم میڈیا کے ہو کوئی اور ایسی بات کرتا تو قسم اللہ کی اس کے قدموں میں یہی بگدا پٹک دیتا۔اب کام کی بات کرو کہاں کا کاٹوں۔تمہیں تو گردن پسند ہے نا ؟

لاحول ولاقوت ، کہاں سے بات کہاں نکل گئی۔ آپ نے ابھی تازہ تازہ ہوئے سینیٹ انتخابات میں دیکھ لیا ہوگا کہ کیا کیا چمتکار سننے میں نہیں آیا۔ یوں لگتا ہے کہ الیکشن اخراجات میں حلال کی کمائی سے زیادہ پھل ہے۔ورنہ کاہے کو ایک سینیٹیر کے پندرہ لاکھ میں ایسی برکت پڑ جاتی کہ وہ پندرہ کروڑ لگنے لگتے۔

اسی طرح آپ دیکھئے گا کہ پچیس جولائی کے انتخابات میں قومی اسمبلی کا امیدوار خرچ تو چالیس لاکھ کرے گا مگر لگے گا یوں جیسے چالیس کروڑ جیب سے نکل گیا جبکہ صوبائی امیدوار بیس لاکھ خرچ کر کے بھی محسوس کرے گا گویا بیس کروڑ کا کام اتر گیا۔

ثبوت یہ ہے کہ جب الیکشن کمیشن کو انتخابی اخراجات کے گوشوارے جمع کروائے جائیں گے تو ان میں سے شائد ہی کوئی گوشوارہ ایسا ہو جس میں کسی نے یہ اعتراف کیا ہو کہ معافی چاہتا ہوں اس بار چالیس لاکھ کے بجائے چالیس لاکھ انیس ہزار خرچ ہو گئے۔نیت صاف ہو تو فرشتے بھی مدد کو پہنچ جاتے ہیں اور امیدوار ایماندار ہو تو بڑے بڑے سیٹھوں ، کمپنیوں اور سمندر پار بیٹھے مخیر حضرات کی بھی جیبیں ڈھیلی  پڑ جاتی ہیں۔

خوشی کی بات ہے کہ الیکشن اور چھوٹی عید کے بزنس کا سیزن اس بار ایک ساتھ پڑ گیا ہے۔لہذا کاروبار اور پیسے کی گردش ریکارڈ سطح تک بڑھنے کا امکان ہے۔اس کا فائدہ سبھی کو ہے۔حمائیتی ووٹروں کے لیے بند ڈیرے کھل جائیں گے ، دیگیں چڑھ جائیں گی۔تنبو، قنات، کراکری، روٹی،چاول، گوشت، بے روزگار نوجوانوں کو جزوقتی ورکرز بننے کا موقع ملے گا، ہزاروں نئی موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں خریدی جائیں گی، لٹھے کی اضافی پیداوار بینروں میں کھپ جائے گی۔ پینٹرز،پرنٹنگ پریس، ڈجیٹل پرنٹرز، ساؤنڈ سسٹمز اور چئیرز سپلآئرز ، گلوکار ، موسیقار ، ڈھولی،پرائیوی سیکیورٹی کمپنیاں،پٹرول پمپ مالکان، برادریوں سے رابطہ کرنے والے فکسرز، فری لانس اور ریگولر صحافی، اشتہاری ادارے، اخبارات کے سپلیمنٹس تیار کرنے والے ، ٹی وی کی اشتہاری مہم ، فرمائشی و پروموشنل کالم ، مضامین و تقاریر کے لکھاری ، بلاگرز ، قصیدہ و ہجو گو شعرا ، انتخابی پول سروے کرنے والے ادارے ، تھنک ٹینکس۔

اس کے ساتھ ساتھ چائے کے ہوٹلوں پر ’’ اب کیا ہوگا ’’جیسے ادق مسائل پر غور کرنے والے عوام الناس کا جمگھٹا بڑھے گا تو چائے والے کا بزنس بھی بڑھے گا۔ غرض کون سا ایسا شعبہ یا فرد ہے جسے کوئی جیتے کوئی ہارے سے قطع نظر انتخابی مہم سے فائدہ نہیں ہوگا۔اور اس سب کو اگر جمع تفریق ضرب کر لیا جائے تو معیشت میں اربوں روپے کی سرکولیشن ہوگی۔ایک جمہوری مشق سے کتنوں کا بھلا ہوتا ہے۔

جیب و دامان و گریباں، بخیہ و چاک و رفو

عشق کے اک کام سے کتنے نکل آتے ہیں کام

(احمد نوید )

اس قدر ہما ہمی کے بعد ہم قومی و صوبائی اسمبلیوں کے کل ملا کے ایک ہزار سے زائد ارکان اس امید پر چنتے ہیں کہ وہ ہماری روزمرہ زندگی کی راہ میں پڑے سب نہیں تو تھوڑے سے کانٹے چن لیں۔مگر ہوتا کیا ہے ، کچھ کو اسٹیبلشمنٹ اپنے کاموں کے لیے چن لیتی ہے ، کچھ انتخابی خرچے کی بازیابی کی راہیں چن لیتے ہیں ، کچھ واقعی عوام دوست قانون سازی کرنے اور ہر اہم قومی مسئلے پر کھل کے بولنے کا ایجنڈا چن لیتے ہیں ، کچھ صرف ڈیسک بجانے کا ہنر چن لیتے ہیں اور کچھ پانچ برس تک بالکل چپ ، گم صم بیٹھنے کی یوگائی مشق چن لیتے ہیں۔ایسے ’’ نہ برا کہو ، نہ برا دیکھو نہ برا سنو ’’ٹائپ ارکانِ اسمبلی کی چپ کارکردگی دیکھ دیکھ کر کھولتے خون والے ووٹروں کا جی چاہتا ہے کہ انتخاب میں چننے کے بجائے دیوار میں چن دیتے تو کیسا اچھا ہوتا۔

ہمیں نہیں معلوم کہ کون اس الیکشن کے راستے آرہا ہے اور کون جا رہا ہے اور کتنے انتخابی اخراجات کر کے آ رہا ہے اور کتنے اخراجات کاغذ پے دکھا رہا ہے۔مگر مجھ سے پوچھا جائے کہ ہر رکنِ اسمبلی سے اگلے پانچ برس میں سب سے چھوٹی اور آسان توقع میں کیا رکھتا ہوں تو وہ یہ ہے کہ آپ جب اسمبلی کی کارروائی میں شریک نہ ہوں تو حاضری رجسٹر پر حاضری کے خانے میں ٹک نہ کریں۔ جس رکن کو غیر حاضری کے نتیجے میں چند ہزار روپے کے حاضری الاؤنس سے دستبردار ہونا نہیں آتا وہ پھر کسی ترغیب و لالچ کے آگے نہیں ٹھہر سکتا۔اگر میری یہی توقع پوری ہو جائے تو سمجھوں گا جمہوریت واقعی جڑ پکڑ رہی ہے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)

The post براہِ کرم حاضری رجسٹر پر دستخط مت کیجیے appeared first on ایکسپریس اردو.

کرپشن ایسے تو ختم نہیں ہوگی

$
0
0

پاکستان میں بدقسمتی سے ہر برسر اقتدار سیاسی پارٹی کا دامن کرپشن سے داغدار رہا ہے، یہ بیماری ملک میں اس طرح جڑ پکڑ چکی ہے کہ اب اس سے نجات حاصل کرنا ناممکن ہی نظر آتا ہے۔

جمہوری حکومتیں تو خیر شروع سے ہی کرپشن کے سلسلے میں بدنام رہی ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آمرانہ حکومتیں جو ملک سے ہر قسم کی خرابی اور خاص طور پر قومی دولت کی لوٹ مار کو ختم کرنے کی غرض سے جمہوری حکومتوں پر شب خون مار کر قائم ہوتی رہی ہیں، وہ خود بھی کرپشن کا شکار ہوکر ملک و قوم کے لیے وبال جان بنی رہی ہیں۔

اس وقت خوش قسمتی سے ملک میں جمہوریت تو قائم ہے مگر نواز حکومت پر اتنے کرپشن کے الزامات لگائے گئے ہیں کہ کہا جا رہا ہے کہ اس نے گزشتہ تمام حکومتوں کے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ صرف میاں صاحب پر ہی نہیں ان کے پورے خاندان پر کرپشن کے مقدمات قائم کیے گئے ہیں لیکن اس حکومت سے پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت پر بھی کرپشن کے مقدمات قائم کیے گئے تھے۔

آصف علی زرداری کو کرپشن میں سب سے آگے بتایا جاتا ہے۔ کرپشن کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے ہی ملک ترقی کی دوڑ میں دوسرے ترقی پذیر ممالک سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ عوام کی غربت اور پسماندگی کی وجہ سے ہی پاکستان کو دنیا کے غریب ممالک کی صف میں شامل کیا جاتا ہے۔ ملک کو ٹیکسوں کی مد میں ملنے والی رقم عوام کی فلاح اور ملک کی ترقی پر خرچ ہونے کے بجائے برسر اقتدار رہنماؤں کے گھر جا رہی ہے، وہ امیر سے امیر ترین بنتے جا رہے ہیں اور عوام غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔

ملک میں بڑھتے ہوئے کرپشن کے رجحان کو ہی دیکھتے ہوئے آج سے تئیس سال قبل ملک میں ایک نئی سیاسی پارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا جس کے منشور کا اولین نکتہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور کرپٹ لوگوں کو قومی دولت لوٹنے کی سزا دلانا تھا۔ یہ پاکستان تحریک انصاف تھی جس کے سربراہ ملک کے مایہ ناز کرکٹ کے کھلاڑی عمران خان تھے، چونکہ ان کی سربراہی میں قومی کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ جیت چکی تھی چنانچہ انھیں پورے ملک میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

ان کی پارٹی کے ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کے وعدے سے متاثر ہوکر ملک کو کرپشن سے پاک رکھنے کا جذبہ رکھنے والے لوگ جوق در جوق اس میں شامل ہونے لگے۔ یہ پارٹی اپنے بنیادی اصولوں کی وجہ سے برابر آگے بڑھتی گئی اور 2013 کے الیکشن تک اس کی مقبولیت اتنی بڑھ چکی تھی کہ اس نے الیکشن لڑا اور یہ پاکستان مسلم لیگ (ن) جیسی پرانی اور مضبوط پارٹی کے گڑھ پنجاب سے ٹھیک ٹھاک سیٹیں نکالنے میں کامیاب رہی، مگر اس وقت تک بعض سرمایہ دار قسم کے لوگ اس کی زینت بن چکے تھے۔

پارٹی میں ایسے لوگوں کے شامل کیے جانے سے کرپٹ لوگوں کا اس میں داخلہ ممنوع قرار دیے جانے کے ان کے بنیادی اصول کو دھچکا پہنچ چکا تھا، جس پر پارٹی کے اندر ہی سے تنقید کی جانے لگی مگر خان صاحب نے ان کا یہ کہہ کر منہ بند کر دیا تھا کہ آخر ہم فرشتے کہاں سے تلاش کرکے لائیں۔ اس کے بعد پارٹی اپنے بنیادی اصولوں سے بتدریج دور ہوتی گئی اور خود کو صرف اقتدار کے حصول کے لیے تیار کرنا شروع کردیا۔

اسی پارٹی میں شاہ محمود قریشی جیسے اچھی شہرت رکھنے والے لوگ بھی موجود ہیں، ان کے اعتراض پر بھی بااثر دولت مند لوگوں کو پارٹی میں خوش آمدید کہنے کا سلسلہ جاری رہا۔ 2013 کے الیکشن میں ناکامی کے بعد خان صاحب نے اپنی سیاسی حکمت عملی میں مزید تبدیلی لا کر پہلے والی شائستگی کو چھوڑ کر جارحانہ سیاست کو اپنا لیا۔

الیکشن کے ایک سال بعد انھیں شیخ رشید کے یاد دلانے پر الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہونے کا شک ستانے لگا اور انھوں نے فتح مند پارٹی کے خلاف ہر محاذ پر دھاندلی کے نعرے لگانا شروع کردیے۔ انھیں نہ جانے کس نے اس خوش فہمی میں مبتلا کر دیا تھا کہ ان کی پارٹی پورے پاکستان میں سوئیپ کر رہی تھی اور وہ ملک کے وزیراعظم بننے کا شرف حاصل کرنے والے تھے مگر انھیں فتح مند پارٹی نے دھاندلی کرکے شکست سے دوچار کرادیا ہے۔

دھاندلی کے ان کے پاس کوئی ثبوت نہ ہوتے ہوئے بھی عدلیہ نے تمام مشکوک حلقوں کے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرادی۔ جب دھاندلی میں کچھ نہ نکلا تو حکومت گرانے کے لیے طویل دھرنوں کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ پورے اسلام آباد کو یرغمال بناکر حکومتی کاروبار کو بھی روک دیا گیا۔ اس ہنگامے میں قومی اسمبلی اور قومی نشریاتی ادارے کی عمارات کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔

حکومت کو تو بہرحال نہیں گرایا جاسکا البتہ ملکی معیشت کو زبردست دھچکا پہنچا۔ سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبے کو بھی وقت مقررہ پر شروع ہونے سے روک دیا گیا۔ پھر پاناما لیکس کے آنے کے بعد وہ دھرنا اور دارالخلافہ کو لاک ڈاؤن کرنے والے احتجاجوں کو چھوڑ کر نواز شریف کے پیچھے پڑگئے اور آخر میاں صاحب کو حکومت سے ہٹوا کر ہی دم لیا، مگر اس سے ملک میں عدم استحکام کی فضا نے جنم لیا۔ اب 2018 کے انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے جو 25 جولائی کو منعقد ہوں گے۔

خان صاحب نے الیکشن میں بہرصورت کامیابی حاصل کرنے کے لیے زور و شور سے تیاریاں شروع کردی ہیں۔ اسی تیاری کے سلسلے میں پورے ملک سے ان لوگوں کی شمولیت کا سلسلہ جاری ہے جن کے خلاف ایکشن لینے کے لیے پارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس وقت پارٹی کے پرانے لوگوں اور نئے شامل ہونے والے موقع شناسوں میں محاذ آرائی جاری ہے۔

چند دن قبل پی ٹی آئی نے الیکشن میں اپنی متوقع کامیابی کی خوشی میں اپنی آیندہ وفاقی حکومت کے سو دنوں کا پروگرام عوام کے سامنے رکھا ہے۔ اس پر اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ خان صاحب کو پہلے کے پی کے حکومت کے پانچ سال کی کاکردگی کا جائزہ پیش کرنا چاہیے تھا۔

مگر چونکہ خان صاحب نے کے پی کے حکومت پر توجہ دینے کے بجائے اپنے پورے پانچ سال دھرنوں، احتجاجوں اور پانامہ کے ذریعے میاں صاحب کو نااہل قرار دلوانے میں لگا دیے ہیں چنانچہ وہ کے پی کے حکومت کی کارکردگی کا کیا ذکر کرسکتے ہیں، اس لیے انھوں نے آیندہ کے اپنے لائحہ عمل سے عوام کو متاثر کرنے کی کوشش کی ہے، مگر مستقبل کا حال تو خدا ہی بہتر جانتا ہے۔

ان پر ایک مزید الزام یہ بھی لگایا جا رہا ہے کہ ان سے پہلے سیاست میں گالم گلوچ، الزامات اور جارحیت کا نام و نشان تک نہیں تھا مگر اب تو حال یہ ہے کہ ایک ٹی وی ٹاک شو میں پی ٹی آئی کے رہنما نعیم الحق نے (ن) لیگ کے رہنما دانیال عزیز کے منہ پر زوردار تھپڑ دے مارا تھا اور بدقسمتی سے خان صاحب نے ان کی اس حرکت کی تعریف بھی کی تھی جو سوشل میڈیا پر سب نے نعیم الحق کی زبانی سنی تھی۔

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خان صاحب نے اب لگتا ہے اپنی پارٹی کے بنیادی اصولوں کو ایک طرف رکھ کر تخت اسلام آباد تک پہنچنے کا پروگرام بنا لیا ہے۔ اس سلسلے میں (ن) لیگ انھیں اسٹیبلشمنٹ سے ساز باز کرکے اس کے سہارے آیندہ انتخابات جیتنے کا پہلے سے طعنہ دے رہی ہے۔

ہوسکتا ہے عمران خان اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوجائیں مگر ان کے پرانے ساتھی جو پارٹی کی تشکیل کے وقت سے ان کے ساتھ ہیں پارٹی کے بنیادی اصولوں سے انحراف پر سخت بے چینی میں مبتلا ہیں۔

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے چونکہ ملک میں خان صاحب کی پارٹی کی کامیابی کا ماحول بنتا نظر آرہا ہے چنانچہ ان کے پاس اپنی حکومت کی کامیابی اور نیک نامی کے لیے اپنی پارٹی کے بنیادی اصولوں کو اپنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

The post کرپشن ایسے تو ختم نہیں ہوگی appeared first on ایکسپریس اردو.

کہیں سے کوئی حرفِ معتبر شاید نہ آئے

$
0
0

ملک کی سیاسی طاقتوں اور ریاستی اداروں کے درمیان مسلسل بڑھتی ہوئی محاذ آرائی ہر ہوش مند پاکستانی کے لیے بجا طور پر شدید تشویش و اضطراب کا باعث ہے، کیونکہ اس کے نتیجے میں ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ملکی منظرنامے پر نگاہ کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ وقت کی رفتار پاکستان میں اس وقت بہت ہی تیز ہے۔ ہماری 71 سالہ تاریخ میں شاید ہی کبھی لمحے اتنی تیزی سے دوڑے ہوں گے۔

اتنا ہنگامہ، اتنا سنگین سیاسی داخلی اور خارجی بحران، انگریزی اخبار کو دیا گیا نواز شریف کا انٹرویو پڑھنے کے بعد لگا کہ وہ مکمل طور پر جنگی رویے پر اتر آئے ہیں اور وہ ضد اور انتقام کے راستے پر گامزن اپنے مخالفین کو زیر کرنے کے درپے دکھائی دیتے ہیں اور اس حوالے سے وہ روایتی سیاست دانوں کو بہت پیچھے چھوڑ گئے ہیں، ان کے بھائی اور ان کی پارٹی دانتوں میں انگلی دبائے سکتے میں دکھائی پڑے اور انٹرویو کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بیانیہ کہ ’’ان کا سینہ رازوں سے بھرا پڑا ہے اور وقت آنے پر وہ زبان کھول سکتے ہیں۔‘‘ (ن) لیگ کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ان سب عوامل کی تردید کرتے رہے۔ لیکن یہ سب جو بھی ہوا بہت برا اور بہت برے وقت پر ہوا ہے۔

مہذب ملکوں میں تو ایسی صورتحال میں وزیراعظم استعفیٰ دے دیا کرتے ہیں لیکن پاکستان میں کبھی ایسا نہیں ہوتا، کیونکہ ہر مہذب جمہوری ملک نہیں ہے۔ اور یہ تلخ بات جس کرب سے ہم کر رہے ہیں وہ ہم ہی جانتے ہیں۔ 71 سال بعد قومیں پختگی اور بلوغت کا مظاہرہ کرتی ہیں لیکن ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہو پا رہا۔ طرفہ تماشا یہ کہ ادھر ادھر، کونے کھدرے، رسائل اور جرائد میں ’’غدار۔ غدار‘‘ کی گردان سننے، دیکھنے اور پڑھنے کو مل رہی ہے۔

تاریخ کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے ہم یہ جانتے ہیں کہ ایک قوم کا غدار دوسری قوم کا ہیرو ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمارے ملک میں ایک دور کا غدار دوسرے عہد کا محب وطن یا ایک دور کا سب سے بڑا محب وطن دوسرے دور کا غدار کہلایا جاتا ہے۔ جہاں آزادی کی جنگیں ’’غدر‘‘ کہلاتی ہوں وہاں ہیرو غدار اور غدار راتوں رات محب وطن ہوجاتے ہیں۔

پاکستان میں ’’غدار، غدار‘‘ کی صدائیں یا ان کی بازگشت اور سیاسی افق پر حد درجہ پھیلا اشتعال اور تو تو میں میں کا یہ کھیل اس وقت گرم ہے جب کہ امریکا، بھارت اور افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کشیدگی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں اور یہ تینوں ملک ہمارے ہاں پوری قوت سے سیاسی بنیادوں پر نفرتوں کو نہ صرف ہوا دے رہے ہیں بلکہ خوں ریزی اور بدامنی کی طرف تیزی سے لے جانے میں مصروف ہیں۔ ملکی معیشت پہلے ہی تباہی کی طرف گامزن ہے اور سفارتی محاذ پر پاکستان کو تنہائی کی صورتحال سے دوچار کردیا گیا ہے۔

اس سب کے باوجود کوئی اپنے آپ کو الیکشن سے پہلے وزیراعظم کہلوا رہا ہے، کوئی وزارت عظمیٰ چھن جانے کی وجہ سے پاگل ہو رہا ہے، کوئی وزیراعظم بننے کے لیے پاگل ہو رہا ہے، کوئی ذاتی انا کی وجہ سے پاگل ہورہا ہے، تو کوئی ادارہ جاتی مفاد کی وجہ سے آپے سے باہر ہے۔ الغرض سبھی اپنے اپنے طور پر ملک دشمنوں کا کام سہل کرنے میں مصروف ہیں لیکن اس پر بھی ہر کوئی اس زعم نما غلط فہمی کا شکار ہے کہ پاکستان کی فکر صرف اسی کو ہے۔

ملک کی موجودہ صورتحال میں جب خارجی اور داخلی مسائل سنگین صورت اختیار کرچکے ہیں اور عام انتخابات صرف چار ہفتوں کی دوری پر ہیں ایسے میں وزارت عظمیٰ کی مسند پر فائز رہنے والے نواز شریف اگر متنازعہ گفتگو نہ کرتے تو بہتر ہوتا ۔ تاہم انھیں غدار قرار دینا یا ان پر غداری کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ ہماری دانست میں انتہا پسندی ہے۔ لیکن یہ بات بڑی غور طلب، بڑی فکر انگیز ہے کہ نواز شریف پر غداری کے الزامات لگانے والوں کی اکثریت کا تعلق پنجاب سے ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ پنجاب کی رائے عامہ بدل رہی ہے۔

ایک زمانے میں پنجاب کے دانشور اور سیاست دان خان عبد الولی خان ، غوث بخش بزنجو، عطا اللہ مینگل، خیر بخش مری، نواب اکبر بگٹی، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو غدار قرار دیا کرتے تھے۔ آج پنجاب کے اہل و دانش و سیاست پنجاب کے ہی ایک پاپولر سیاستدان کو غدار قرار دے رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک مسلمہ امر ہے کہ نواز شریف نے اپنی سیاسی غلطیوں، حماقتوں اور حکمت عملیوں سے خود کو اور اپنی پارٹی کو جتنا اور جس قدر نقصان پہنچانا تھا وہ پہنچا لیا اب خاکم بہ دہن ملک کو نقصان پہنچنے والا ہے۔

غداری کے الزامات، مطالبوں اور اس کے نعروں نے آج تک ہماری تاریخ نہیں بدلی البتہ ایسے الزامات نے ہمارا ملکی جغرافیہ ضرور بدل ڈالا ہے۔ لیکن جو واقعی ڈنکے کی چوٹ پر پاکستان توڑنے کا اعلان کرتے تھے ان پر کبھی کوئی مقدمہ نہ چلا۔ پرویز مشرف کے خلاف آئین سے غداری کا مقدمہ ابھی بھی التوا کا شکار ہے، کیونکہ نواز شریف نے بطور وزیر اعظم پرویز مشرف کو خود پاکستان سے بھگایا۔ آج سیاست سے نااہل ہونے کے بعد نواز شریف خود غداری کے الزامات یا نعروں کی زد میں ہیں۔

ہمیں ان الزامات سے کوئی سروکار نہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کو حصول زر کی ہوس اور اقتدار کی وسعت کے لیے اخلاقیات کی آخری حدوں سے نہیں گزرنا چاہیے جس ملک نے انھیں عزت، بے پناہ دولت اور بین الاقوامی شہرت دی ہو اسے صرف ’’چراگاہ‘‘ نہیں سمجھنا چاہیے اور اقتدار، مال و زر، اپنی ذات اور آل اولاد کو پالنے اور بچانے کے لیے ملک کی سالمیت کو داؤ پر لگانے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ ملک یا دھرتی کو ’’ماں‘‘ کی حیثیت بھی دی جاتی ہے۔

کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے ارباب اختیار، ہمارے سیاست دان دھرتی کے احترام، اس کے تقدس، اس کے وقار اور اس کی آزادی کے تحفظ میں جان سے گزرنے کے عزم کے ساتھ ساتھ اس کی توقیر کو اپنا شعار بنائیں اس لیے بھی کہ دنیا میں کوئی نہ کوئی حق چھوڑ دینا چاہیے ورنہ دوسرے حقوق سے دستبردار ہونا پڑ جاتا ہے۔

وطن عزیز میں سیاسی طاقتوں اور ریاستی اداروں کے درمیان محاذ آرائی سے ممکن ہے کسی فریق کو کسی حد تک کوئی وقتی فائدہ حاصل ہو سکے لیکن اس صورتحال کا جاری رہنا یا وقفے وقفے سے ظہور پذیر ہونا ملک کے لیے بہرطور سخت نقصان دہ ہوگا لہٰذا ضروری ہے کہ ملک کو درپیش داخلی، خارجی یا بین الاقوامی چیلنجوں سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہونے کے معاملے کے تمام فریق افہام و تفہیم، حقیقت پسندی اور ماضی کی غلطیوں کی درستگی کی راہ اپنائیں کہ قومی بقا و سلامتی کو یقینی بنانے کا اس کے سوا کوئی طریقہ نہیں۔ لیکن کیا ہے کہ اب یہ ملکی روایت سی بن گئی ہے کہ ہر اہم واقعے یا المیے پر کچھ روز شور مچا کر بالآخر خاموشی اختیار کرلی جائے۔

شاید اسی روایت کے نتیجے میں آج ہم اس مقام تک آ پہنچے ہیں جہاں ہم سے اب اپنا ہی چہرہ پہچانا نہیں جاتا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اب ان موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے بھی بڑی یکسانیت کا احساس ہونے لگتا ہے اور ایک ہی بات کو کہتے کہتے ہم خود شرمندہ سے ہونے لگتے ہیں۔ لیکن جس معاشرے میں بہت کچھ غلط ہو رہا ہو وہاں کچھ صحیح پیش کرنے کے لیے بھی لمبی تمہید باندھنا ہی پڑتی ہے۔

The post کہیں سے کوئی حرفِ معتبر شاید نہ آئے appeared first on ایکسپریس اردو.

جمہوری پلیٹ فارم

$
0
0

وطن ِ عزیز پاکستان میں 70سالہ عمر کی حامل جمہوریت اب اپنے بچپن کی عمر سے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی ہے ۔ گذشتہ ستر سالوں میں ملک میں سب نے جمہوریت کو بچہ سمجھتے ہوئے کبھی سنجیدہ نہیں لیا بلکہ ہمیشہ لالی پوپ پر ہی چلایا ۔کبھی گود بٹھایا گیا تو کبھی آنکھیں دکھائی گئیں ، کبھی کلاس لی گئی تو کبھی گھر بٹھایا گیا۔

یوں جمہوریت سوتیلی ماں کے ہاتھوں پلنے والے ایک یتیم بچے کی مانند لعن و طعن سنتے ، سہتے اپنا بچپن گذار کر جب اپنی جوانی کی دہلیز پر پہنچی ہے تو اسے کم از کم یہ سمجھ آگیا ہے کہ کسی بھی طرح اپنے پلیٹ فارم کو برقرار رکھنا ہے ، باقی گاڑیاں اور مسافربھی آتے جاتے رہتے ہیں اورکبھی کبھی ڈاکو بھی آدھمکتے ہیں لیکن اگر پلیٹ فارم مضبوط ہے تو نظام چلتا رہتا ہے ۔

اسی سوچ کے تحت جمہوریت اور جمہوری قوتوں نے گذشتہ 10برسوں میں تین وزرائے اعظم کی قربانی دیکر بھی جمہوریت کے سب سے بڑے پلیٹ فارم یعنی قومی اسمبلی کو مضبوط بنانے کی ہر ممکن کوششں کی۔ حالانکہ اس پلیٹ فارم کی تباہی کے لیے وہاں کئی غیر جمہوری قوتوں کے نمائندوں کو بھی متعین کیا گیا تو کئی نااندیش گھر کے بھیدی خرید کر انھیں بھی اس پلیٹ فارم کے خلاف استعمال کیا گیا لیکن جمہوری قوتوں کے نمائندوں نے بھی خوب ریسلنگ کھیلی ، کئی گھونسے منہ پر کھائے ، کئی لاتیں پیٹ پر برداشت کیں لیکن ہار نہیں مانی اور رنگ (Ring) میں کھڑے رہے۔

یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ملکی تاریخ میں یہ بھی درج ہونے جارہا ہے کہ 2008ء سے 2013ء تک اور 2013ء سے 2018ء تک دو مرتبہ قومی اسمبلی نے مسلسل اپنی مدت پوری کی ہے ۔ پہلے دورانیے میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم تھی اور ن لیگ حزب اختلاف میں تھی اور اس مرتبہ یعنی دوسرے دورانیے میں ن لیگ حکومت میں تھی تو پیپلز پارٹی حزب اختلاف میں بیٹھی تھی ۔

ان کے علاوہ بھی کچھ جماعتیں تھیں جو اس پلیٹ فارم یعنی قومی اسمبلی کی مضبوطی کے لیے اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی تھیں لیکن کچھ افراد اور جماعتیں ایسی بھی وہاں براجمان تھیں جو ہمیشہ اس پلیٹ فارم سے باہر شاہراہوں پر میدان سجاکر اپنی حمایت میں فیصلے کے لیے ایمپائر کی جانب صدا ئیں لگاتی رہتی تھیں جیسے 2014اور 2017کے دھرنے وغیرہ ۔ ایمپائر اور دیگر اداروں و نادیدہ قوتوں کے بھرپور تعاون کے باوجود جمہوریت کے سب سے بڑے پلیٹ فارم قومی اسمبلی کو بچانے میں جمہوری قوتیں بمشکل کامیاب ہوئیں اور اس کی بہت بھاری قیمت بھی ادا کرنی پڑگئی۔

پہلے دورانیے میں دو وزرائے اعظم اور اس دورانیے میں ملک کا تیسری باروزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو حسب سابق کی طرح وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونے پڑے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے صدارتی فرمان استعمال ہوتا تھا اور اب عدالتی فرمان استعمال میں لایا گیا ہے۔

بہرحال 70سالہ ملکی تاریخ کی عین روایت کے مطابق ان دونوں ادوار میں بھی اس جمہوری ادارے کو اپنے مرکزی کردار یعنی وزیر اعظم کی قربانی دینی پڑی لیکن فی الحال یہی کیا کم ہے کہ اسمبلی کی تحلیل کی روایت شکنی تو کم از کم ممکن ہوئی ۔ جوکہ اس ملک میں کمزور جمہوریت کی ایک بڑی کامیابی ہے ۔

اگر اسی طرح دو یا تین مزید دورانیے مکمل ہوئے تو قوی امکان ہے کہ پھر شاید جمہوریت بھی اتنی مستحکم ہوجائے کہ نہ صرف وہ اپنے اور اپنے اداروں کے تحفظ کے قابل بن جائے گی بلکہ عالمی سطح پر بطور جمہوری ریاست کے ملک کی شہرت کو عام کرسکے گی۔

2013سے 2018تک پانچ سالہ دورانیے کی حامل یہ 14ویںقومی اسمبلی 31مئی 2018کو اپنی مدت کی تکمیل پر تحلیل ہوگئی ہے ۔ چودہویں قومی اسمبلی کی پوری ہوئی اس مدت والے پانچ سالوں کے دوران کچھ منفی تو کچھ مثبت باتیں ہوئیں۔مثبت باتوں میں ہمیں نظر آتا ہے کہ دوران ِ مدت اسمبلی نے مختلف امور پر قانون سازی کے مجموعی طور پر 189بل پاس کیے جن میں 22ویں آئینی ترمیم ، پاکستان پروٹیکشن ایکٹ ،حقوق اطفال ایکٹ ، فاٹا و پاٹا کا کے پی کے میں انضمام ، گلگت کو دیگر صوبوں کے برابر حقوق و اختیارات کی فراہمی اور انسانی اعضاء کی پیوندکاری سے متعلق قانون میں ترمیم جیسے اہم بل شامل ہیں ۔

منفی باتوں میں سب سے بڑی اور تشویش کی بات یہ تھی کہ اداروں کے ٹکراؤ کی وجہ سے ملک میں گومگو کے ایسے حالات پیدا ہوگئے تھے کہ بیورو کریسی کام نہیں کرپارہی تھی ، حکومتی اہلکار اس ڈر سے فیصلہ نہیں کرپارہے تھے کہ کل کوئی اسے پکڑ لے گا اور بچانے والا کوئی نہیں ہوگا ۔

ملک پر بیرونی قرضہ جات میں شدید اضافہ ہوا : 2013میں ملک کی جی ڈی پی کا حجم 22000ارب روپے تھا جو اس وقت 34000 ارب روپے ہوگیا ہے ، یہ قرضہ ادائیگی کے حوالے سے بذات خود ایک اژدہا کا روپ دھارچکا ہے۔ ملک میں جاری انتہاپسندی ، دہشت گردی اور بدامنی کی صورتحال پر کوئی ٹھوس و جامع قانونسازی نہ کرنے کی وجہ سے ملک ایشیائی ممالک میں سب سے غیرمحفوظ ترین ملک قرار دیا جارہا ہے ۔

ملک میں عوام کے جان و مال کی حفاظت سے متعلق قوانین پر عمل نہ کرنے پر پارلیمنٹ کی خاموشی سے ملک میں لاپتہ شہریوں کے واقعات کی وجہ سے ملکی و عالمی سطح پر ملکی جمہوری اداروں کی ساکھ کو بڑا نقصان پہنچا ہے ۔ اسی طرح حکومت کی جانب سے انتظامی اُمور میں غفلت و من مانی پر بھی پارلیمنٹ نے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی جس سے ملک میںنہ صرف بیروزگاری اور مہنگائی میں شدید اضافہ ہوا بلکہ ملک میں شدید لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھتا ہی چلا گیا ۔

اسمبلی فلور پر کھڑے ہوکر حکومت نے ابتدائی دنوں میں جوبجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ کو ختم کرنے کاوعدہ کیا تھا وہ بھی وفا نہ ہوسکا بلکہ اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ بجلی کی پیداوار بڑھانے کو صرف ڈیموں کی تعمیر سے جوڑے رکھنے کی پالیسی کو تبدیل نہ کرنے کی وجہ سے کوئلے ، گیس اور سولر و ونڈ انرجی سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوئی مؤثر قانون سازی نہیں ہوسکی ۔ اور حکومت کا انتظامی حال تو یہ تھا کہ کے الیکٹرک جیسے ادارے اسمبلی کے ہاؤس آف لیڈر اور ملک کے وزیر اعظم کو بھی خاطر میں نہیں لائے اور اپنی من مانیاں کرتے رہے ۔

قومی اسمبلی کی بیچارگی اس وقت بھی قابل دید تھی جب 2014اور 2017میں اسلام آباد میں دھرنے دیے جارہے تھے اور دھرنا دینے والے حکومت اور پارلیمنٹ کو خاطر میں ہی نہ لاتے تھے بلکہ ان کا سارا زور اسٹبلشمنٹ کی جانب سے اقدامات اور یقین دہانیوں کی طرف تھا۔ جب کہ حالیہ دورانیے میںسابقہ دورمیں 18ویں اور 20ویں ترمیم جیسے جمہوری اداروں کی مضبوطی کے بنیادی قوانین نہیں بن پائے جو کہ مستقبل میں اسمبلی اور جمہوری نظام کی مضبوطی میں مؤثر کردار ادا کرسکتے تھے ۔

اس کے علاوہ ملکی و عالمی سطح پر پیدا ہونے والے مسائل جیسے نیوز لیکس ، عالمی عدالت میں کلبھوشن کیس کی ناکامی ، کشن گنگا ڈیم پر خاموشی ، نیلم جہلم پروجیکٹ کی تباہی ، پاک ایران چین گیس پائپ لائن کا تعطل ، پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنا ، پاکستان کی فوجی امدا د بند ہونا ،صوبوں کے مابین وسائل پر کشیدگی ، ملک میں قلت ِ آب و ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے ہونے والی المناک اموات وغیرہ براہ راست تو حکومت کی نااہلی کا پتہ دیتے ہیں لیکن ان اُمور پر حزب ِ اقتدار و حزب ِ اختلاف دونوں کی جانب سے اسمبلی کے کردار کو محدود رکھنا پارلیمنٹ و جمہوریت کونقصان پہنچانے کے برابر ہے ۔کیونکہ ان ہی معاملات کی وجہ سے یہ ہاؤس کمزور ہوا اور صورتحال یہ پیدا ہوئی کہ پارلیمنٹ کے کام عدالتیں کرنے لگیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ ہاؤس یعنی قومی اسمبلی نہ صرف اپنا استحقاق برقرار نہ رکھ سکی بلکہ اپنے لیڈر یعنی وزیر اعظم کو بھی نہ بچا سکا ۔

دیکھا جائے تو ماضی میں ہمیشہ یہ ذکر عام ہوتا تھا کہ آئندہ انتخابات ہوں گے یا نہیں؟ لیکن قومی اسمبلی کے گذشتہ دو ادوار کی تکمیل سے اب یہ بات تو واضح نظر آرہی ہے کہ انتخابات ہوں گے اور وقت پر یعنی جولائی 2018کے آخری ایام میں ہونے کے امکانات ہیں ۔کیونکہ صدر مملکت کی جانب سے انتخابات کی حتمی تاریخ پر مہر ثبت کردی گئی ہے۔

ویسے بھی عالمی سطح پر تیزی سے تبدیل ہوتے حالات اورملکی سطح پر اندرونی علاقائی تضادات سے نبرد آزما ہونے کے لیے پارلیمنٹ سمیت تمام ریاستی اداروں کا مستحکم اور مشترکہ حالت میں کام کرنا لازمی نظر آتا ہے ۔ہاں البتہ کچھ قوتیں انتخابات کی منسوخی کے اشارے بھی دے رہی ہیں جیسے الیکشن کمیشن کے سیکریٹری نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی قوتیں انتخابات منسوخ کرانا چاہتی ہیں ۔

یہ بات یوں بھی عقل سلیم میں نہیں بیٹھتی کہ یہ بات کرنے والا اس کا مجاز نہیں ہے ، دوسری بات کہ جس طرح جسٹس ریٹائرڈ ناصرالملک کی بطور نگران وزیر اعظم کی نامزدگی کا معاملہ طے پایا ہے اس سے واضح نظر آرہا ہے کہ  ریاستی ادارے کسی بھی قیمت پر یہ انتخابات کرانے کا فیصلہ رکھتے ہیں اور مثبت نتائج چاہتے ہیں ،کیونکہ جسٹس ناصرالملک ماضی میں چیف جسٹس ہائی کورٹ پشاور اور سپریم کورٹ کے جسٹس ہونے کے ساتھ ساتھ  قائم مقام چیف الیکشن کمشنر اور دھاندلی کی جانچ پڑتال کرنے والی کمیشن کے سربراہ کے عہدوں پر رہنے کی وجہ سے ملکی انتظامی و انتخابی اُمور کا اچھا تجربہ  رکھتے ہیں ۔

متذکرہ بالا تمام خرابیوں کے باوجود یہ بات باعث اطمینان ہے کہ جمہوریت کی گاڑی اب نہ صرف جمہوریت کی پٹڑی پر گامزن ہے بلکہ جمہوری پلیٹ فارم پر ٹھہرنے کا ہنر بھی سیکھ چکی ہے ۔ جس سے مستقبل میں ملکی جمہوری نظام اور ملکی ناموس پر خوش آئند اثرات مرتب ہونے کے امکانات ہیں ۔ ہاں لیکن اس وقت وطن ِ عزیز کو طبقوں اور چھوٹے چھوٹے گروپوں میں بٹی سیاسی قوتوں کی نہیں بلکہ مضبوط سیاسی جماعتوں کی سخت ضرورت ہے جو عوامی مسائل کا ادراک رکھتی ہوں اور عوام کی فلاح و بہبود کی نیت کی حامل ہوںاورجو کروٹ بدلتے ملکی حالات کو  جمہوری پلیٹ فارم سے بیٹھ کر حل کرنے کی اہلیت و تجربہ رکھتی ہوں ۔

The post جمہوری پلیٹ فارم appeared first on ایکسپریس اردو.

فتنۂ مال و زر

$
0
0

ایران اور روم کسی زمانے میں طاقت اور کامیابی کا استعارہ سمجھے جاتے تھے لیکن ان کی شکست اسلام کے ہاتھوں لکھ دی گئی تھی، اب ان دونوں ملکوں کی شان و شوکت بھولی بسری داستان کی مانند تھی۔

اللہ نے اپنے آخری رسول حضرت محمدؐ سے کیا ہوا وعدہ پورا کردیا تھا کہ اہل ایمان صرف آخرت میں ہی کامیاب و کامران نہیں ہوں گے بلکہ دنیا میں بھی عظیم فتوحات سے سرفراز ہوں گے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اسلام کی روشنی نے ہر چیز واضح کردی اور مسلمان آخرکار اپنے عروج کی انتہا پر پہنچ گئے۔ ساری دنیا کی دولت ان کے قدموں میں ڈھیر تھی اور تاج و تخت ان کی ٹھوکروں میں تھے اور کچھ اہل بصیرت اس دور کو یاد کر رہے تھے، جب جب ایران کی فتح کے بعد مال غنیمت کے انبار دیکھ کر حضرت عمر فاروقؓ رونے لگے تھے۔

دربار میں سے کسی نے حضرت عمر فاروقؓ سے پوچھا کہ ’’اے امیر المومنین یہ تو خوشی کا موقع ہے اور آپ کی اشکبار آنکھیں کیا معنی رکھتی ہیں؟‘‘ حضرت عمرؓ نے غم زدہ لہجے میں جواب دیا کہ ’’میں اس لیے روتا ہوں کہ جہاں دولت کے قدم آتے ہیں وہاں ایمان سلامت نہیں رہتا، اللہ تمہیں مال و زر کے فتنے سے محفوظ رکھے۔‘‘

اور پھر ایسا ہی ہوا مسلمان عیش و عشرت بھری زندگی کا خواب دیکھنے اور اس کی تعبیر پانے کے لیے عظیم الشان محل تعمیر کرنے لگے، روپے پیسے کی کمی نہ تھی، دنیا کے سارے خزانوں کی کنجیاں مسلمانوں کے پاس تھیں، محلات اپنے حسن و جمال میں یکتا نظر آنے لگے اور اندرونی حصوں میں فانوسوں کی روشنی جگمگ کرنے لگی، لیکن دل اللہ کی یاد سے محروم ہوتے چلے گئے۔ ان کے لیل و نہار کی لذتوں میں مدہوش ہوگئے اور اپنے انجام سے بے خبر ہوکر زندگی کا پل پل گزرتا چلا گیا، دشمن کو کبھی کمزور نہیں سمجھنا چاہیے، وہ ایسے ہی وقت کی تاک میں رہتا ہے کہ وہ کب انتقام لے کر غلبہ پالے۔

لیکن غفلت کی نیند بسر کرنے والے دور اندیشی کی باتیں کب سوچتے ہیں، ایسے اعلیٰ افکار جو ضمیر کو زندہ رکھیں اور برے وقت کی پناہ مانگیں، انھی لوگوں کے ہوتے ہیں جو آندھی اور طوفانوں کے آنے سے قبل اس کی آہٹ کو سن لیتے ہیں، جس کے ہوتے ہی بارش کی آمد کی آس لگا لیتے ہیں اور گناہوں کی دلدل انھیں عذاب الٰہی کا پتا دیتی ہے۔

پھر ان حالات میں ایک بندہ خدا عیش پرستوں اور شہر بغداد کے مکینوں کو تنبیہ کرنے کے لیے پہنچ گیا اور لوگوں کو سمجھانے لگا کہ اے اللہ کے بندو! نافرمانیوں سے باز آجاؤ اور مے خانوں کو ڈھادو اور شراب کو نالیوں میں بہا دو، ورنہ یاد رکھو قدرت بہت جلد تمہیں تمہارے عبرت ناک انجام تک پہنچا دے گی، عذاب کے گن گنے جاچکے ہیں اور تم سب کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے، اگر تائب ہوگئے تو سرخرو ہوگے ورنہ ذلت تمہارا مقدر بنے گی۔

لیکن دولت کا نشہ کانوں میں سیسہ بن کر ڈھل گیا اور آنکھیں جام و مینا کے کیف سے بند ہوتی چلی گئیں، فہم و ادراک کو دھند کی چادر نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ لیکن اس مجذوب کی بات پر توجہ دینے کے بجائے اہل بغداد نے اسے دیوانہ اور اپنا دشمن جانا اور اس پر گندگی پھینکنے اور نعرے بازی کرنے لگے، اس کا مذاق اڑانے لگے اس قدر ستم ڈھائے کہ اس نے اپنی راہ لی، لیکن جاتے جاتے یہ پیغام دے گیا، عذاب لکھا جاچکا ہے۔ آگ، خون اور ذلت تمہارا مقدر بنے گی، لوگوں نے اس کی اس پیش گوئی پر مزید قہقہے لگائے اور پتھروں سے لہولہان کرنے لگے۔

جب اندھیرا دل و دماغ میں گھر کر لیتا ہے تب آواز حق سنائی نہیں دیتی ہے۔ دنیا کے خریداروں نے ہر دور میں ایسا ہی کیا ہے، خواہ وہ آدم کا زمانہ ہو یا موسیٰ کا دور پیغمبری ہو، یا پھر حضرت یونسؑ اور حضرت لوطؑ کی اپنی قوم کو ہدایات کا عرصہ ہو یا فتح مکہ سے قبل کے ایام اور واقعۂ کربلا کا عظیم سانحہ اور تعمیر پاکستان میں قائداعظم کی انتھک محنت ایثار و قربانیاں ہوں، عاقبت نااندیشوں نے سچائی سے منہ موڑ کر کذب کو اپنایا ہے۔ شہر بغداد بھی اسی قسم کی صورتحال سے دوچار تھا۔

ہلاکو خان کی سفاک فوج موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آگے بڑھتی رہی اور وہ وقت بھی قریب آگیا جب علم و حکمت کے خزانے کو آگ لگا دی گئی، وحشی لوگوں کا خون بہاتے رہے اور جشن مناتے رہے۔ ان جنگجوؤں نے بغداد کی شاندار تہذیب و تمدن کو اپنے پیروں تلے ملیا میٹ کردیا۔ نیزوں کی بارش نے بغداد کا نقشہ ہی بدل دیا، ہر سمت مسلمانوں کا خون ناحق بہہ رہا تھا۔

محض اپنی نادانی اور عاقبت نااندیشی کی بنا پر عیش و طرب کی دنیا میں گم رہنے والوں میں اتنا دم خم نہیں تھا کہ وہ مقابلے کے لیے میدان میں اترتے، ویسے بھی رقص و سرود کی محفلوں میں گم رہنے والے بہادری اور ملی و مذہبی غیرت کو بھول جاتے ہیں، جذبہ جہاد بھی دم توڑ جاتا ہے۔ تب شکست و ریخت ان کا مقدر بنتی ہے۔ بغداد کو تہہ و بالا کرنے کے بعد ہلاکو خان کا رخ نیشاپور کی طرف تھا۔

یہاں بھی قتل و غارت کا بازار سج گیا، ان حالات میں انھیں وہ پاگل دیوانہ یاد آگیا جس نے پہلے ہی باخبر کردیا تھا اس کی تلاش شروع ہوگئی، گوہر مراد ہاتھ آگیا۔ اس نے لوگوں کی فریاد کو یکسر نظرانداز کردیا لیکن ان کی گریہ و زاری نے درویش کے دل کو موم کردیا اور وہ اپنی کوٹھڑی سے نکل کر دور ویرانے میں ایک پہاڑی پر چڑھ کر عبادت میں مشغول ہوگیا۔

مجذوب کو پہاڑی پر دیکھ کر سپاہیوں نے برق رفتاری کے ساتھ تیر چڑھائے، بھرپور قوت کا مظاہرہ کیا۔ مگر ایک کمان بھی نہ کھنچ سکی، منگولوں نے گھوڑوں پر سوار ہوکر درویش کو قتل کرنا چاہا، لیکن گھوڑے اپنی جگہ سے ہل نہ سکے۔ منگول سپہ سالار نے بھی اپنی سی کوشش کی لیکن وہ بھی کامیاب نہ ہوسکا اور یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ ’’اے عظیم ساحر ہمیں معاف کردو، ہماری بھول کو درگزر کر، ہمیں اجازت دے ہم اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔‘‘

چند ہی ثانیے بعد بیجو خان جوکہ فوج کا سپہ سالار تھا، اس کی بے جان ٹانگوں میں طاقت آگئی جلد ہی منگول سپاہیوں کا قافلہ قونیہ کی حدود سے باہر نکل گیا۔ یہ درویش مولانا جلال الدین رومیؒ تھے جن کی عبادت و ریاضت، مخلوق خدا کی خدمت کی بدولت ان کی دعائیں رنگ لے آئیں اور مولانا رومی کی ذات سے کئی اہم معجزات وابستہ ہیں، بے شک جو اس دنیا کو خس و خاشاک کی مانند سمجھ کر ٹھکرا دیتے ہیں اور صرف اللہ اور اس کی خوشنودی کے لیے زندگی بسر کرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو دین و دنیا کی کامیابیوں سے سرفراز ہوتے ہیں تا قیامت ان کے نام کا ڈنکا بجتا ہے۔

ایک دور وہ بھی تھا جب مغلیہ سلطنت کا آخری چراغ ٹمٹما رہا تھا اور انگریز حکومت کی بنیادوں کو کمزور کرنے کے لیے سازشیں کر رہے تھے۔ حالات زمانہ آج کے حالات سے ہرگز مختلف نہ تھے، سرعام بادشاہ وقت کو گالیاں دی جا رہی تھیں، مہنگائی آسمان پر تھی اور خوراک منڈی میں کٹائی کے مواقعوں پر غائب کردی جاتی تھی، سوداگر منہ مانگی قیمتوں پر گندم، سبزی، ترکاری فروخت کرتے تھے، ٹیکسوں میں بے پناہ اضافہ کردیا گیا تھا لیکن کوئی پرسان حال نہ تھا۔

بادشاہ کو اقتدار کی ہوس تھی وہ اپنی مدت پوری کرنا چاہتا تھا اور انگریزوں کی بڑھتی ہوئی یلغار کو پسپا کرنے کا خواہش مند بھی تھا لیکن فوج وفادار نہیں تھی اور نہ ہی بادشاہ نے کبھی انھیں آزمایا، مجاہدین جہاد کے جذبے سے لبریز تھے، لیکن ان کے پاس قیادت نہیں تھی نتیجہ یہ نکلا شاہی خاندان کو قتل کردیا گیا اور بادشاہ کو رنگون جلاوطن کردیا گیا، شاہی خاندان کے 35 مرد و خواتین بھی ساتھ تھے، کیپٹن نیلسن ڈیوس رنگون کا انچارج تھا۔

نیلسن نے اپنے گھر کے گیراج میں تاجدار ہند بہادر شاہ ظفر کو قید کردیا اور 7 نومبر 1862 تک چار سال قید رہا اور آخر کسمپرسی اور شدید مایوسی و محرومی کے عالم میں اس دنیائے بے ثبات سے کوچ کرگیا۔ مرنے سے پہلے کھلی ہوا میں سانس لینے کی خواہش نے جنم لیا لیکن وہ بھی میسر نہ آئی۔ ماضی حال بن کر سامنے آتا ہے لیکن نادان عشرت کدہ کی دنیا سے نکل کر خارجی حالات سے غافل رہتا ہے۔

آج بھی وہی حالات ہیں، مقتدر حضرات، اقتدار کے حصول کے لیے اپنے اپنے داؤ پیچ لڑا رہے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ لوگ اقتدار کی کرسی پر کبھی براجمان نہ ہوں، جنھوں نے اس ملک کو جو اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا اسے پامال کرنے میں کسر نہ چھوڑی۔

The post فتنۂ مال و زر appeared first on ایکسپریس اردو.

تعلیم… سب کے لیے

$
0
0

رب کریم کی نعمتوں کا خزانہ اور اس کے بندوں کی خدمت اور دیکھ بھال دو ایسے معاملے ہیں کہ جن کی نہ کوئی حد ہے اور نہ حساب لیکن کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ یہ دونوں سمندر ایک ہی کوزے میں سمٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں کچھ لوگوں نے خدمت خلق کو بھی ایک ’’کاروبار‘‘ بنالیا ہے اور اس کی آڑ میں اپنے کچھ ذاتی مفادات کی آبیاری میں لگے رہتے ہیں۔ لیکن ایسی کالی بھیڑیں تو ہر جگہ ہوتی ہیں فرق صرف یہ ہے کہ بڑے اور امیر معاشرے یہ کام این جی اوز کے پردے میں کرتی ہیں اور ہمارے جیسے پسماندہ یا ترقی پذیر ملکوں میں اسے تعلیم، صحت اور مذہب کے نام پر چلایا جاتا ہے۔

لیکن غور سے دیکھا اور سمجھا جائے تو ان لوگوں کی تعداد کم اور شور شرابا زیادہ ہے کہ آج بھی بیشتر این جی اوز اور فلاحی ادارے ایسے ہیں جو سچ مچ دل و جان، ایمانداری اور محنت سے نہ صرف کام کررہے ہیں بلکہ ان کی اپنے کام سے کمٹ منٹ، تنظیم اور کریڈیبلٹی ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ بڑھتی چلی جارہی ہے۔

سو ضرورت اس امر کی ہے کہ نوسربازوں کی اس محدود اقلیت سے مایوس یا بددل ہوکر گھر بیٹھے رہنے کے بجائے ان کی نشاندہی اور ان سے گریز کا راستہ اپنایا جائے۔ اور وہ نیک دل لوگ جو اپنے اپنے دائرے میں اور اپنے اپنے طریقے سے نیکیوں کو ایک جگہ پر جمع کرنے اور بے شمار لوگوں کو انھیں کمانے کے فن میں متوجہ، متحرک اور باعمل کررہے ہیں نہ صرف ان کی مدد اور حوصلہ افزائی کی جائے اسے ایک خوامخواہ کا نزاعی مسئلہ بناکر اور اپنی ذاتی پسند ناپسند کو معیار کا درجہ دے کر اس کار خیر کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے جائیں۔ بلکہ چھوٹی موٹی غلطیوں، بدانتظامیوں اور بعض صورتوں میں اکا دکا مشکوک نوعیت کی خود غرضیوں کو نظر انداز کرکے ایسے تمام اداروں کی حوصلہ افزائی کی جائے جو اللہ کے بندوں کے راستوں سے رکاوٹیں ہٹاتے اور ان کے لیے آسانیاں فراہم کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں۔

دو چار فی صد بد اندیش لوگوں کی بدعملی یا بدنیتی کی سزا بے شمار اچھے نیک دل خدمت انسانی کے جذبے سے سرشار لوگوں اور اداروں کو دینا ایسے ہی ہے جیسے گنتی کے چند بجلی چوروں کو پکڑنے کے بجائے ہم اس علاقے کے ان ہزاروں ایماندار اور وقت پر بل ادا کرنے والے گھروں پر اضافی لوڈشیڈنگ کا جرمانہ ڈال دیتے ہیں۔ اسی طرح یہ کہنا بھی کہ غیر ملکی امداد سے چلنے والی تمام کی تمام این جی اوز کسی مخصوص ایجنڈے کے آلہ کار کے طور پر کام کرتی ہیں۔

خلاف واقعہ غلط اور گمراہ کن ہوگا کہ یہاں بھی معاملہ وہی تناسب، مبالغے اور عمومی رویے کا ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ عالمی سطح پر خدمت انسانی کے دعویدار بیشتر ادارے اگر سوفیصد مکمل نہیں تو بہت حد تک غیر جانبداریت اور شفافیت کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

بعض اوقات ہماری اور ان کی ترجیحات اور طریق کار کا فرق بھی کچھ غلطیوں یا غلط فہمیوں کا سبب بن جاتا ہے مگر دیکھنے والی بات پھر یہی ہے کہ ہماری نظر ’’خیر‘‘ کے پہلو پر رہے تو خود بخود دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوتا چلا جاتا ہے اور اچھے ادارے اپنے مسلسل عمل اور پرفارمنس کے ذریعے اس اعتماد کو حاصل کرلیتے ہیں جو ان کا حق اور اس ’’کار خیر‘‘ کے فروغ کا نقش اولین ہے۔

وطن عزیز میں انفرادی، اجتماعی اور اداروں کی سطح پر خدمت خلق، قربانی، ایثار اور تعاون کا جو منظر دیکھنے میں آتا ہے وہ بلاشبہ ہمارے معاشرے کا ایک روشن پہلو اور چہرا ہے کہ بے شمار مسائل اور خرابیوں کے باوجود اب بھی ہمارے لوگ خدا اور اس کے بندوں کی راہ میں خرچ کرنے والوں میں نہ صرف پیش پیش ہیں بلکہ اس ضمن میں انھوں نے کئی ریکارڈ اور مثالیں بھی قائم کی ہیں۔

عبدالستار ایدھی مرحوم کی ایدھی فاؤنڈیشن سے لے کر ’’اخوت‘‘ اور ’’الخدمت‘‘ فاؤنڈیشن سمیت بے شمار ایسے ادارے ہیں جنھوں نے خدمت خلق، صحت، تعلیم، یتامیٰ اور ان افتادگان خاک کے لیے بے مثال اور شاندار کام کیا ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے کسی فطری، ذہنی یا جسمانی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کی فہرست بہت لمبی اور خدمات بے شمار ہیں۔

مثال کے طور پر صرف غربت اور جہالت کی وجہ سے تعلیم سے محروم رہ جانے والے بچوں کے معاملات اور مسائل کو ہی لے لیجیے کہ اس وقت ہمارے تقریباً پچاس فیصد یعنی اڑھائی کروڑ بچے اسکول سے باہر ہیں اور باقی پچاس فیصد میں سے بھی کم و بیش آدھے بچے پرائمری اور مڈل کی سطح پر ڈراپ آؤٹ ہوجاتے ہیں۔

بالخصوص دیہات کی سطح پر یہ اعدادو شمار اور بھی زیادہ خوفناک اور دل شکن ہیں کہ تعلیم ہر انسان کے بچے کا ایک بنیادی حق ہے۔ میری زندگی کا بیشتر حصہ کسی نہ کسی طرح تعلیم سے وابستہ رہا ہے مگر اس دوران میں میرا زیادہ تر رابطہ ہائیر سیکنڈری یا اس سے اوپر کے درجوں کی تعلیم، نصاب تعلیم اور اسی طرح کے دیگر مسائل تک محدود رہا مگر اب جو گزشتہ چند برسوں سے مجھے ’’الخدمت، اخوت، غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ، الفلاح اسکالر شپ اسکیم، ٹی سی ایف اور سائٹ‘‘ وغیرہ اداروں کی معرفت تعلیم کی صورتحال اور مسائل کو گراس روٹ سطح پر قریب سے دیکھنے کا موقع ہے تو اس مسئلے کی نوعیت، شدت، نتائج اور ان اداروں سے متعلق احباب کی سوچ، محنت، وژن اور عملی کاوشوں کی جو صورتحال سامنے آئی ہے وہ بالکل ایک نئی دنیا ہے اور یہ منظر صرف ان ہی چند اداروں تک محدود نہیں بے شمار چھوٹے بڑے، عام اور گمنام ادارے اس نیک عمدہ اور تعمیری کام میں سرگرم عمل ہیں اور بہت اچھا کام کررہے ہیں یہ اور بات ہے کہ میڈیا اور معاشرتی زندگی میں ہمارا زیادہ زور ان چند کالی بھیڑوں پر ہی رہتا ہے جنھوں نے تعلیم کو کاروبار کا ذریعہ بنا رکھا ہے یا اس کی آڑ میں اپنی ’’ذاتی ترقی‘‘ کے زینے طے کررہے ہیں۔

اب ضرورت ہے کہ اس روایتی تنقید کی بے معنی عیاشی سے نکل کر اس تصویر کے روشن رخ کو دیکھا اور اجالا جائے اور ان سب لوگوں کی تحسین کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ ہر طرح کا ممکنہ تعاون کیا جائے کہ تعلیم کے فروغ کے بالواسطہ فوائد اس کے براہِ راست فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ سنی سنائی باتوں یا افواہوں پر کان دھرنے کے بجائے خود ذاتی جانچ پرکھ کیجیے اور فروعات میں الجھ کر الفاظ کی لڈو کھیلنے کے بجائے ایسے تمام لوگوں کا ہاتھ بنائیے یا ان کی حوصلہ افزائی کیجیے جو اس ملک سے جہالت کے اندھیروں کو ختم کرنے کے لیے اپنی سی کوشش کررہے ہیں۔

گزشتہ دنوں مجھے برادرم نصرالصمد قریشی کی وساطت سے عزیزی اعجاز نثار کے جوہر ٹاؤن لاہور میں قائم کردہ Management ہاؤس میں Cyte نامی ادارے کی ایک ایسی ہی تقریب میں شمولیت کا موقع ملا جو پرائمری کی سطح پر دیہاتی یا آؤٹ آف اسکول بچوں کو تعلیم کی طرف مائل کرنے کے لیے ان کے تعلیمی اخراجات، کتابوں، یونیفارم اور جوتوں وغیرہ کا بندوبست کرتے ہیں۔

تنظیم کے صدر عزیزی یاسر نے اپنی ابتدائی گفتگو کے دوران بتایا کہ کس طرح وہ خود ان ہی مراحل سے گزرے ہیں اور اس ادارے کا نام Cyte بھی اصل میں Changing Youth Through Education ایک طرح سے ان جیسے کروڑوں بچوں کے لیے ایک روشنی کی طرف کھلنے والا راستہ ہے جس پر چل کر وہ بھی ان کی طرح لینے والے سے دینے والا ہاتھ بن سکتے ہیں۔ بیرون وطن مقیم پاکستانی ہوں یا ہمارے درمیان موجود اہل دل اور اصحاب فکر و نظر ہم سب کا تعاون ہی اس دُور کی منزل کو ایک خواب سے حقیقت کی شکل دیگا جب ہمارا ہر بچہ تعلیم حاصل کرے گا اور اس کی روشنی ہر گھر کے آنگن تک پہنچ سکے گی۔

The post تعلیم… سب کے لیے appeared first on ایکسپریس اردو.


تحمل، شائستگی اور برداشت

$
0
0

دانا کہتے ہیں ’’انسان اپنی زبان میں پوشیدہ ہے‘‘ یعنی گفتگو انسان کے اندر جھانکنے کا ذریعہ ہے، سو اس کسوٹی پر جب ہم اپنی سوسائٹی کو اور سیاست دانوں کو پرکھتے ہیں تو بہت مایوسی ہوتی ہے، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا، برا بھلا کہنا، انھیں گالیاں تک دینا ایک باقاعدہ کلچر کی صورت اختیار کر گیا ہے۔

ڈپٹی اسپیکر کو جوتا دکھانے سے کس کی توہین ہوئی؟ ظاہر ہے جوتا دکھانے والی خاتون کی۔ ان کی تہذیب اور شائستگی کا بھرم کھل گیا۔ اسمبلیوں کا حال دیکھ لیجیے، مچھلی بازار لگتا ہے۔ تحمل اور برداشت کا نام و نشان نہیں۔ حالات سب کے سامنے ہیں۔ حرص، طمع اور لالچ نے ہوس کی صورت اختیار کرلی ہے۔ زیادہ سے زیادہ پیسہ بنانے کے لیے یہ لوگ کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں، پاکستانی روپے کی قیمت کم کرکے ڈالر کی قیمت بڑھنے سے انھیں فائدہ ہوگا، جو حکومت میں ہیں یا حکومت کرچکے ہیں ان کا بس چلے تو ڈالر کو بازار میں آنے ہی نہ دیں بلکہ اپنی تجوریاں بھرلیں۔

صبر و تحمل اور ایمانداری بتدریج ختم ہوئی ہے۔ برائی ہمیشہ اوپر سے شروع ہوتی ہے، جیسا کہ کہتے ہیں کہ مچھلی ہمیشہ سر کی طرف سے خراب ہوتی ہے، اسی طرح کرپشن اور بے حساب بے ایمانی بھی حکمران طبقوں سے عوام الناس میں در آتی ہے۔ کچھ سال پہلے تک رشوت چھپ کر لی جاتی تھی، لینے والا تھوڑا بہت شرماتا بھی تھا۔ لیکن آج معاملہ بالکل برعکس ہے، رشوت حق سمجھ کر لی جاتی ہے۔ جب افسران کھلے بندوں رشوت لیں گے تو اس کا ماتحت عملہ کلرک سے لے کر چپراسی تک بھی باقاعدہ مانگ کر اپنا حصہ وصول کرتے ہیں، ورنہ سائل کو کورا سا جواب مل جاتا ہے کہ ’’صاحب میٹنگ میں ہیں‘‘۔

سماج میں بالائی سطح پر ہونے والی خرابیاں بتدریج معاشرے میں منتقل ہوتی چلی جاتی ہیں اور دن بدن بڑھتی جارہی ہیں، پچھلے پندرہ بیس برسوں میں سیاست میں شائستگی اور تحمل کی جگہ بدزبانی، دشنام طرازی اور گالیوں نے لے لی ہے۔ ہر پارٹی بجائے اس کے کہ اپنا ایجنڈا پیش کرے دوسروں پر الزام تراشی سے باز نہیں آتی۔ ن لیگ، پی پی اور پی ٹی آئی کو برا بھلا کہتی ہے، پی پی، نواز لیگ اور پی ٹی آئی پر دشنام طرازی کرتی ہے۔

پی پی کی دشنام طرازی میں ایم کیو ایم سرفہرست ہے کیونکہ معاملہ کراچی کی سیٹوں کا ہے، اس لیے اردو بولنے والوں کے علاقوں میں جاکر جلسہ کرکے اور برا بھلا کہہ کر وہ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں، دوسروں کی لکھی ہوئی تقریریں کاغذ دیکھ دیکھ کر پڑھی جاتی ہیں۔ سنا ہے بچے کو اردو نہیں آتی اس لیے کوئی آنٹی یا انکل اسے رومن میں لکھتے ہیں، پھر انھیں ریہرسل کروائی جاتی ہے، لیکن جہاں دوسری پارٹیوں کو برا بھلا کہنے کی باری آتی ہے تو بچہ رواں ہوجاتا ہے، کیونکہ یہ چیز اسے وراثت میں ملی ہے۔ آہستہ آہستہ یہ خرابیاں لاشعوری طور پر عوام الناس میں بھی سرائیت کرتی جارہی ہیں۔

حال ہی میں دو سیاسی پارٹیوں کے کارکنان کے درمیان لڑائی، مارپیٹ اور دھینگا مشتی کے مناظر ٹیلی ویژن پہ سب نے دیکھے اور افسوس کیا۔ حد تو یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی آپسی لڑائی میں ماں اور بہنوں کو بھی گھسیٹا جاتا ہے۔ عجب معاشرہ ہے کہ غلطیاں اور جرائم مرد کریں اور گالیاں ماں بہنیں کھائیں۔

شائستگی اور متانت ان جماعتوں سے کب کی رخصت ہوچکی، حزب اختلاف اور برسر اقتدار پارٹی ایک دوسرے پر حملہ کرنے میں پیش پیش ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز بھی سیاسی اکھاڑا بن گئے ہیں، ہر جماعت کے پے رول پر مقرر کارکن اور وزیر ٹاک شوز میں بھی اس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ ان کا یہ پروگرام ہر جگہ دیکھا جارہا ہے، منہ سے جھاگ اڑاتے، مغلظات بکتے ہوئے انھیں اپنی عزت کا ذرا بھی پاس نہیں۔

ایسا لگتا ہے جیسے ٹاک شوز کے اکھاڑے میں مختلف سیاسی جماعتیں صرف انھیں پہلوانوں کو اتارتی ہیں جن کے بارے میں یقین ہوتا ہے کہ یہ نہ تو مخالفین کو بولنے دیںگے نہ اینکر پرسن کو سوال کا موقع دیںگے، بس ایک دوسرے پر کیچڑاچھالنے میں انھیں مزہ آتا ہے، ایک دوسرے کی ذات پر رکیک حملے، دریدہ ذہنی، دشنام طرازی ان کا وطیرہ بن گئی ہے۔

کیا جمہوریت اور کیا آمریت، اس ملک میں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ بس یونیفارم کا فرق ہے۔ الیکشن کی آمد آمد ہے اور اس موقع پر سیاسی پارٹیوں کو اپنا اپنا منشور پیش کرنا چاہیے، اس کی ابتدا عمران خان نے 100 دن کا پلان دے کر کی ہے۔ ایک دفعہ پی پی نے بھی 100 دن کا پلان دیا تھا جوکہ ایک مذاق ثابت ہوا تھا۔ نظیر اکبر آبادی کی ایک نظم ہے ’’ روٹی‘‘ اس میں ایک فقیر سے کسی نے چاند کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا اسے تو چاند میں روٹیاں نظر آتی ہیں۔

عام آدمی تو جمہوریت کے معنی بھی نہیں سمجھتا، اسے تو یہ فکر ہوتی ہے کہ روزگار ملے گا بھی یا نہیں؟ بچے کیا کھائیںگے، روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والوں نے عوام کو کیا دیا، روٹی کے بدلے گولی، کپڑے کی جگہ کفن، وہ بھی ایدھی کا دیا ہوا اور مکان کی جگہ قبریں جو چند ماہ بعد نیست و نابود ہوجاتی ہیں۔

جمہوریت کی اہمیت مسلمہ ہے لیکن عقل کے اندھوں کو پاکستان میں جمہوریت کہاں نظر آتی ہے، سارا راگ درباری اقتدار سے جڑا ہے، حکومت میں ہیں تو فوج بہت اچھی ہے، اس کے سامنے مودب کھڑے رہیں گے، ان کی بریفنگ بھی ہاتھ باندھ کر سنیں گے لیکن جب فوج کا بھی پیمانہ صبر لبریز ہوجائے اور وہ ملک کی سلامتی کی خاطر احتساب کے عمل کو جائز قرار دے تو فوراً تن بدن میں شعلے اٹھنے لگتے ہیں کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘۔

کیا آپ جنرلوں سے اور اپنے گاڈ فادرز سے لکھواکر لائے ہیں کہ جب تک زندہ رہیںگے اقتدار سے چمٹے رہیں گے تاکہ ملک کی دولت کو لوٹ سکیں، اپنے بینک اکاؤنٹ ملک سے باہر منتقل کرسکیں۔ نواز شریف صاحب کا واویلا بہت خوب، لیکن کیا وہ بتائیںگے کہ اسمبلی کے کتنے اجلاسوں میں انھوں نے شرکت کی۔

اقتدار سنبھالتے ہی بیرون ملک دورے شروع ہوگئے، اپنے ملک میں نہ بیروزگاری دور کی، نہ غربت کے خاتمے کے لیے کوئی قدم اٹھایا، یعنی مقتدر قوتوں کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہے۔ سارا وقت بیرون ملک جائیدادیں بنانے میں صرف کیا اور اب باقاعدہ اداروں سے لڑائی مول لے لی، صرف پنجاب کو پاکستان سمجھا اور ساری ترقی بھی پنجاب میں ہوئی اور ہورہی ہے۔

یہ ایک کھلا تعصب ہے جو تینوں صوبوں کے عوام کو نظر آرہا ہے۔ رہ گئے آصف زرداری تو انھوں نے اپنے بچے کے کاندھوں پر بھی بھٹو کی لاش کا بوجھ ڈال دیا ہے۔ بینظیر اور بھٹو کب تک کام آئیںگے؟ پنجاب میں ترقیاتی کام خوب ہوا اور ہورہا ہے، ہوسکتا ہے یہ گریٹر پنجاب کا کوئی سلسلہ ہو، کیونکہ پہلے بھی یہ آوازیں اٹھ چکی ہیں، لیکن سندھ میں تو دھیلے کا کام نہیں ہوا۔

کراچی جیسے میگا سٹی میں ہر طرف کوڑے کرکٹ کے ڈھیر ہیں، تینوں صوبوں کے لوگ روزگار کی تلاش میں یہاں آرہے ہیں، پلاٹوں پر قبضہ کرکے آناً فاناً کچی بستیاں آباد کررہے ہیں، کنڈے کی بجلی استعمال کررہے ہیں، جس کا لوڈ عام صارف پر پڑ رہا ہے لیکن پی پی کو اس کی ذرا برابر پرواہ نہیں، لوگوں کے پاس پینے کا پانی نہیں لیکن ٹینکر مافیا کو پانی بھرپور فراہم کیا جارہاہے۔ اسی ٹینکر مافیا سے پی پی کے ایک وزیر نے کروڑوں کمائے اور اب بھی کمارہے ہیں کہ سندھ میں پی پی کا راج ہے۔

ہوسکتا ہے بہت سے لوگ الیکشن کے نتائج کے بعد کسی اچھائی کی امید رکھتے ہوں، لیکن میرا تجزیہ یہ ہے کہ بدامنی، صبر و برداشت کا ختم ہوجانا، آپس میں جوتم پیزار، گتھم گتھا ہونا، گالی تک بات پہنچنا اس بات کی علامت ہے کہ اب پاکستان میں اچھائی اور بھلائی کی امید رکھنا حماقت ہے۔ اپنی اپنی باریاں لینے کو لوگ تیار بیٹھے ہیں۔

عوام کو دکھانے کے لیے ایک دوسرے کو گالیاں بھی دے رہے ہیں لیکن یہ پیغام بھی بھجوارہے ہیں کہ یہ بھی الیکشن کی ضرورت ہے ورنہ ہم تو ہمیشہ ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کے قائل ہیں کہ ایک باری تمہاری اور اگلی باری ہماری، چار سال تک ہم چپ بیٹھیں گے اور تم من مانی کرنا اور پھر جب ہماری باری آئے تو تم ہونٹوں کو سی لینا، ہم دونوں ایک دوسرے کی کرپشن کو تحفظ دیںگے اور پانچویں سال بھر زبان کھولیں گے اور عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے نعرے بازی کریں گے، جلسے کریں گے، توتکار کریںگے، الیکشن ہوتے ہوں تو ہوتے رہیں ہوگا، وہی جو ’’خاص لوگ‘‘ چاہیں گے، یہ سارا واویلا خاص لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا ہے کاش یہ خاص لوگ اس دفعہ ملک اور قوم کے لیے سوچیں اور لوٹی ہوئی دولت واپس لاسکیں۔

The post تحمل، شائستگی اور برداشت appeared first on ایکسپریس اردو.

حکمران جاتے جاتے بھی میرٹ کی مٹّی پلید کرنے سے باز نہیں آئے

$
0
0

غیر ملکی حکمرانوں کے طرزِ سیاست اور اندازِ حیات ہم دیکھتے ہیں تو رشک آتا ہے اور اپنے ملک کے حکمرانوں کی حرکتیں دیکھ کر شرم سے سر جھُک جھُک جاتا ہے۔ غیر ملکی حکمران عوام کا ایک ایک پیسہ قومی امانت سمجھتے ہُوئے عوام پرخرچ کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ہمارے حکمران عوام کا پیسہ ذاتی مال سمجھ کر یوں بے محابہ اور بے شرمی سے ڈکارتے اور لُٹاتے ہیں کہ ایک محاورے کے مطابق، کوئلوں پر بھی مہریں لگ جاتی ہیں۔

خبر آئی ہے کہ اٹلی کے نئے منتخب وزیر اعظم گوسیپی کونٹ وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کے بعد اپنے صدر سے ملنے کے لیے گئے تو عام ٹیکسی کرائے پر لی تاکہ اپنے عوام اور ملک کا قیمتی سرمایہ بچایا جا سکے۔ اور ایک ہمارے حکمران ہیں کہ عوام کو صاف پانی فراہم کرنے کی غرض سے اربوں روپے بجٹ میں رکھے گئے لیکن خود حکمرانوں، اُن کی آل اولاد، دامادوں اور بیووکریٹوں نے اِس مختص بجٹ سے کروڑوں روپے کی قیمتی گاڑیاں اپنی ذاتی عیاشی کے لیے تو خرید لیں لیکن عوام کو صاف پانی کایک قطرہ نہ مل سکا۔

ایسا بہیمانہ کردار رکھنے والے حکمرانوں پر اللہ کا قہر نازل نہ ہو تو پھر کیا ہو؟ کیا عوام کی بددعائیں اُن کا بیڑہ غرق نہیں کریں گی؟ حکمرانوں کے ایک زیر حراست کارندے احد چیمہ کی قیمتی گاڑی سے نقد ایک کروڑ چالیس لاکھ روپے کی رقم تو ابھی کل ہی برآمد ہُوئی ہے۔

ایک اورخبر آئی ہے کہ ملائشیا کے نئے منتخب وزیر اعظم مہاتر محمد نے چند ہفتے قبل اقتدار سنبھالا تو اپنی اور اپنے وزیروں کی تنخواہیں گزشتہ وزیر اعظم اور وزرا کے مقابلے میں بیس فیصد کم کر دیں۔ اِس فیصلے کے بارے میں پوچھا گیا تو وزیر اعظم مہاتر محمد نے کہا: ’’ہم اقتدار میں عوام کی خدمت کرنے آئے ہیں، گلچھرے اڑانے اور عیاشیاں کرنے نہیں آئے۔ ملک کے اکثر عوام غریب ہیں، ایسے میں مجھے اور میرے وزیروں کو قطعی زیب نہیں دیتا کہ سہولتوں بھری زندگی گزاریں۔ پھر ملک پر قرضہ بھی ہے؛ چنانچہ تنخواہیں کم کر دی ہیں۔ جس وزیر نے میرے ساتھ چلنا ہے، چلے ورنہ گھر چلا جائے۔‘‘

اور ہمارے (سابق) وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی صاحب کی ’’دریا دلی‘‘ کا یہ عالم سامنے آیا ہے کہ حکومت سے رُخصت ہوتے وقت، جاتے جاتے وفاقی حکومت کے تمام ملازمین کو اضافی تین بنیادی تنخواہیں دینے کا اعلان فرما گئے۔ پاکستان میں وفاقی حکومت کے ملازمین کی تعداد کئی ملین ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ عباسی صاحب کے دیالو پَن پر اگر من وعن عمل کیا گیا تو قومی خزانے سے کئی ارب روپے خرچ کرنا ہوں گے۔

مسٹر عباسی نے قومی خزانے کو جاتے جاتے یہ ٹیکہ ایسے عالم میں لگانے کی کوشش کی ہے جب ہمارے قومی خزانے کے ذخائر کی سطح تیزی سے نیچے گررہی ہے اور ہمارے پاس کُل گیارہ ارب ڈالر بھی نہیں رہ گئے۔ قومی خزانے کی نا قابلِ رشک حالت تو یہ ہے کہ پاکستاں کو اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے چین کے ترلے کرنا پڑرہے ہیں اور مصدقہ اطلاعات یہ ہیں کہ پاکستان چین کے ایک سرکاری بینک سے ڈیڑھ ارب ڈالر کا فوری قرضہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بھی تیاریاں کی جارہی ہیں۔

کیا یہ ہمارے لیے شرم کا مقام نہیں ہے کہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقتوں میں پاکستان واحد جوہری ملک ہے جسے بار بار آئی ایم ایف سے امداد اور قرضے کی بھیک مانگنا پڑ رہی ہے؟ ایسے میں شاہد خاقان عباسی نے کیوں اور کہاں کی عقلمندی کا مظاہرہ کیا ہے کہ وفاقی ملازمین کو تین اضافی تنخواہیں عطا کرنے کی ریوڑیاں بانٹنے کا اعلان کر گئے، سمجھ میں نہیں آتا۔ اُن کے پاس ذاتی پیسے کی کوئی کمی نہیں ہے۔

اگر تو وہ وفاقی ملازمین کی ’’شاندار‘‘کارکردگی(جس کا ہمیں تو دُور دُور تک کوئی نشان نہیں ملا ہے)سے خوش ہو کر اُنہیں خوش کرنا چاہتے تھے تو نیکی کا یہ کام اپنی جیبِ خاص سے بآسانی کر سکتے تھے لیکن ایسا کرنے کی ہمت نہیں کر سکے۔ قومی خزانے کو خالہ جی کا باڑہ سمجھ کو لُوٹنے اور لُٹانے کے لیے شیر ضرور بن گئے۔ معاملہ مگر اتنا سادہ بھی نہیں ہے۔ اپوزیشن خصوصی طور پر پی ٹی آئی نے شور مچایا ہے کہ وفاقی ملازمین پر اعلانیہ کی گئی یہ مہربانی بِلا وجہ نہیں ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے دراصل تین اضافی تنخواہوں کے پردے میں آئندہ انتخابات پر اثر انداز ہونے کی ’’سائنسی‘‘ کوشش کی ہے۔اپوزیشن اِسے ’’پری پولنگ دھاندلی‘‘ سے بھی موسوم کررہی ہے۔ نون لیگ چونکہ دھاندلیوں کے حوالے سے بدقسمتی سے خاص شہرت رکھتی ہے، اسلیے اِس الزام کو اتنا بے بنیاد بھی نہیں کہا جا سکتا۔

اِسے آپ ہیرا پھری کا جدید طریقہ بھی کہہ سکتے ہیں تاکہ کم از کم وفاقی ملازمین کے ووٹ تو کھرے کیے جا سکیں لیکن تاڑنے والے بھی تو قیامت کی نظر رکھتے ہیں!!جب تنقید اور طعنوں کا طوفان مچا تو شاہد خاقان عباسی نے یہ عقدہ کشائی فرمائی کہ یہ مبینہ پری پولنگ دھاندلی کی کوئی کوشش نہیں بلکہ یہ اضافی تنخواہیں صرف اُن وفاقی اداروں کے ملازمین کو دی جائیں گی جنھوں نے ’’دن رات ایک کرکے بجٹ تیار کرنے میں مدد دی ہے۔‘‘

یہ عذر یا بہانہ بھی ناقابلِ فہم اور ناقابلِ قبول ہے۔ اگر اُن خاص وفاقی ملازمین نے بجٹ سازی میں تعاون کیا ہے، کوئی ہاتھ بٹایا ہے تو یہ اُن کی سرکاری ڈیوٹی تھی، کوئی احسان یا مہربانی نہیں تھی۔ سرکار کی طرف سے اُنھیں تنخواہ اِسی مَد میں تو دی جاتی ہے۔ پھر تعاون فراہم کرنے یا مدد کرنے کا مطلب؟ صدر ممنون حسین نے 25 جولائی کو عام انتخابات کروانے کا باقاعدہ اعلان تو کردیا ہے لیکن اِن اضافی تنخواہوں کے پھڈے نے ایک نئی کہانی قبل از وقت رقم کر دی ہے۔

کل کلاں کوئی بھی انتخابی اُمیدوار اِسے بنیاد بنا کر منعقدہ انتخابات پر کئی استفہامیہ نشان لگا سکتا ہے۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ ملائشیا کے نئے منتخب وزیر اعظم مہاتر محمد نے اپنے ملک کے وسیع تر مالی مفاد میں سنگاپور کے ساتھ کیا گیا 37 ملین ڈالر کا معاہدہ توڑ دیا ہے۔ یہ معاہدہ ملائشیا کے سابق کرپٹ وزیر اعظم نجیب رزاق نے کیا تھا۔ اِس کے تحت ملائشیا کے دارالحکومت سے لے کر سنگا پور تک ایک ہائی سپیڈ جدید ریل بنائی جانی تھی۔

مہاتر محمد نے یہ کہہ کر معاہدہ منسوخ کر دیا ہے کہ’’ہم قرضے سے بنائی جانی والی اِس ٹرین کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ معاہدہ ختم کرنے کا ہم ہر جانہ دے دیں گے لیکن اتنی مہنگی ٹرین نہیں بنا سکتے۔ ہم پر پہلے ہی غیر ملکی قرضے بہت ہیں۔ایسے میں ہم اتنی مہنگی ٹرین کی عیاشی نہیں کر سکتے۔‘‘

اِس مثال کو سامنے رکھئے اور سوچئے کہ ہمارے حکمرانوں نے لاہور میں بھاری شرحِ سُود پر لیے جانے والے غیر ملکی قرضوں سے جو اورنج ٹرین بنائی ہے، یہ اربوں ڈالر کے قرضوں میں جکڑی اس قوم پر مہربانی ہے یا ظلم؟ اور لاہور، اسلام آباد اور ملتان میں غیر ملکی قرضوں سے جو میٹر وبنائی گئی ہیں، کیا یہ سب ملک وقوم کی بہتری میں ہے؟قرضوں پر عیاشیاں کرنا چہ معنی دارد؟ کاش، ہمارے پاس بھی کوئی مہاتر محمد ہوتا!!لیکن اتنی ہماری قسمت کہاں؟

پاکستان کے بیس کروڑ عوام کتنے بدقسمت ہیں کہ اُنہیں کسی طرف سے سُکھ اور سکون کی ٹھنڈی ہوا نہیں آرہی۔ دل توڑنے والا کوئی نہ کوئی سانحہ یا واقعہ آئے روز ہمارے قومی اُفق پر طلوع ہوتا رہتا ہے۔ ابھی نون لیگ کے تاحیات سپریم لیڈر اور عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے تاحیات نااہل ہونے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے قومی مفادات کو بلڈوز کرنے والے انٹرویو کے دھماکا خیز الفاظ کی دھمک اور بازگشت مدہم بھی نہیں پڑی تھی کہ مطلاطم حالات میں سابق لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی کی کتاب نے ایک نیا پتھر پھینک کر ایک اور طلاطم پیدا کر دیا ہے۔

مسٹردرانی نے سابق بھارتی سپائی ماسٹر اے ایس دُلت کے ساتھ مل کر جو متنازعہ کتاب لکھی ہے، بادی النظر میں یہ پاکستان کے قومی مفادات سے متصاد م ہے۔ بھارتی میڈیا میں اِس کتاب کے حوالے سے جشن منائے جارہے ہیں اور ہمارے ہاں صفِ ماتم سی بچھی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ بھارتی سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے نہائت ہو شیاری اور چالاکی سے پاکستان کے ایک حساس ادارے کے سابق چیف کو اپنے ڈَھب پر لا کر اپنے مطلب اور مفاد کی باتیں نکلوالی ہیں۔

پاکستان کے حصے میں نیک نام شہرت نہیں آئی ہے۔ اِس سے قبل پاک فوج کے ایک اور جنرل، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز نے بھی ایک کتاب لکھ کر پاکستان کے قومی سلامتی رازوں اور عسکری معاملات کو بٹہ لگایا تھالیکن حیرانی کی بات ہے کہ اُن کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کی گئی نہ اُن کا مواخذہ کیا گیا۔اس لیے کہ شائد جنرل (ر) شاہد عزیز سابق آرمی چیف جنرل(ر) پرویز مشرف کے قریبی عزیز تھے۔اور خود پرویز مشرف نے اپنی سوانح حیات لکھ کر کونسی پاکستان کی خدمت کی تھی؟

اُن کی کتاب بھی کئی واقعات اور اعترافات کے حوالے سے قابلِ مذمت تھی لیکن اُن سے بھی صرفِ نظر کیا گیا اور ساری قوم غصے کے ساتھ خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی۔ کیا ہمارے قومی مقدر میں ایسے ہی ریٹائرڈ جرنیلوں کے گناہ رہ گئے ہیں؟اور اب جنرل (ر) اسد درانی کی کتاب نے تو گویا لنکا ہی ڈھا دی ہے۔

موصوف نے ایک ٹویٹ جاری کرکے اپنی بے گناہی اور معصومیت کا اظہار تو فرمایا ہے لیکن اُن کی کتاب کی بنیاد پر پورے ملک میںغصے کا جو طوفان اُبل رہا ہے، اُس کی بنیاد پر پاکستانی عوام کو اُن کی کوئی بھی اور کسی بھی قسم کی کوئی ٹویٹ اور عذر خواہی قبول نہیں ہے۔ جس مکار بھارتی ہندو کے ساتھ مل کر اسد درانی نے کتاب لکھی ہے، بھارتی ’’را‘‘ کا یہ سابق سربراہ اِس سے تین سال قبل بھی ایک کتاب لکھ چکا ہے جس میں اُس نے جی بھر کر پاکستان، پاکستان کے حساس اداروں، مسئلہ کشمیر، مجاہدینِ کشمیر، نظریہ پاکستان اور بانیانِ پاکستان کو گالیاں دی ہیں۔

اسد درانی یقینا اس کتاب سے آگاہی رکھتے ہوں گے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اِس کے باوجود وہ اس مکار بھارتی کے ساتھ بیٹھ کر اپنے قومی راز شیئر کرنے پر تیار ہو گئے۔تُف ہے!!کیا وہ اتنے ہی بچے تھے کہ اُن سے یہ باتیں نکلوا لی گئیں؟ اب کہہ رہے ہیں کہ مَیں نے پاکستان کی بڑی خدمت کی اور مجھے یہ صلہ دیا جا رہا ہے؟ کونسی خدمت بھائی؟

پہلے تم نواز شریف اینڈ کمپنی میں پیسے بانٹتے رہے۔ پھر تم اپنی خاص اداؤں کی بنیاد پر قبل ازوقت اپنے ادارے سے فارغ کردیے گئے۔ تم سعودی عرب بطور سفیر بنائے گئے لیکن سعودیہ نے تمہارے کا غذات ہی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر تم جرمنی میں پاکستان کے سفیر بنائے گئے لیکن وہاں بھی اپنی خاص داستانیں رقم کیں اورواپس وطن بلوا لیے گئے۔پھر کونسی قومی خدمات کا ذکر فرمایا جارہا ہے جناب؟

پوری قوم میں اسد درانی اور اُن کی کتاب کے خلاف سخت طیش پایا جاتا ہے۔ زیادہ دکھ اِس بات پر پہنچا ہے کہ اسد درانی افواجِ پاکستان کے سابق سینئر افسر رہے ہیں۔ اُن سے اتنی سنگین اور قابلِ گرفت غلطی کی توقع نہیں تھی لیکن اُنہوں نے تو تباہی پھیر دی ہے۔ اکھنڈ بھارت اور پاک بھارت مشترکہ کرنسی کی بات تک کر دی۔پھر کہاں گیا دو قومی نظریہ؟ موصوف کئی دیگر دلشکن باتیں لکھ گئے ہیں۔

کسی دل جلے نے صحیح کہا ہے کہ اسد درانی کی اِس کتاب نے دراصل نواز شریف پر لگنے والے الزامات اور اُن کے دیے گئے ایک متنازعہ انٹرویو کی بنیاد پر اُٹھنے والے دباؤ کو ختم کر دیا ہے۔ نواز شریف اب خود کو ہلکا پھلکا محسوس کررہے ہیں کہ ایک ادارے کا سابق سینئر افسر خوب پھنسا ہے۔ہم بھی محسوس کرتے ہیں کہ اسد درانی نے کتاب میں الزامات کا طومار باندھ کر دراصل ہمارے عسکری اداروں کا مورال ڈاؤن کرنے کی ایک ناپاک سازش کی ہے۔

سارا پاکستان اِس حوالے سے یک زبان ہے؛چنانچہ افواجِ پاکستان نے اُنہیں 28مئی کو جی ایچ کیو بلا کر درست طور پر ہلایا جلایا ہے۔ فوج نے اُن کے خلاف باضابطہ تحقیقات کا حکم بھی دے دیا ہے اور اُن کا نام بھی ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کر دیا ہے۔ اُمید ہے اُن کے خلاف کارروائی اور تفتیش کا دائرہ ابھی مزید وسعت اختیار کرے گا۔ ہم یہاں جنرل قمر جاوید باجوہ کو شاباش دیں گے کہ اُنہوں نے فوری اور بروقت اقدام کیا ہے اور عوام کو یہ اُمید بھرا پیغام بھی دیا ہے کہ افواجِ پاکستان میں ہمیشہ میرٹ کا پرچم بلند رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا اور یہ بھی کہ کسی بھی سابق یا حاضر فوجی افسر کی کسی غلطی سے صَرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔

ہمیں حیرانی اِس بات پر بھی ہُوئی ہے کہ افواجِ پاکستان نے اسد درانی کی کتاب کے بعض متنازعہ مندرجات کی اساس پر انکوائری کا آغاز کیا ہے تو اِس کی زیادہ تکلیف بھارت میں بیٹھے ’’را‘‘ کے سابق سربراہ اے ایس دُلت کو ہُوئی ہے۔ اُس نے پاکستان کے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا ہے کہ ’’افواجِ پاکستان نے اسد درانی کے خلاف قدم اُٹھا کر اچھا نہیں کیا ہے۔

اِس کا معنیٰ یہ ہے کہ پاکستان کو پاک ، بھارت امن کوششیں عزیز نہیں ہیں۔‘‘اِس دریدہ دہن کو شائد معلوم نہیں ہے کہ اُس نے اور اسد درانی نے اکٹھے کتاب لکھ کر در حقیقت پاکستانیوں کو ایک بار پھر احساس دلایا ہے کہ بھارتی خفیہ ادارہ ’’را‘‘ پاکستان میں ہمیشہ فساد اور انارکی پھیلانے کی دیدہ دانستہ سازشیں کرتا رہتا ہے۔ یعنی چور چوری سے تو جا سکتا ہے لیکن ہیرا پھیری سے نہیں جا سکتا۔یہ کتاب لکھ کر پاکستان کی امن کوششوں کو ڈائنامائیٹ کیا گیا ہے۔لیکن اِس پس منظر میں یہاں ایک سوال بھی اُٹھتا ہے:افواجِ پاکستان نے تو اپنے ایک سابق سینئر افسر کے خلاف انکوائری کا حکم بھی دے دیا ہے اور ای سی ایل میں اُن کا نام بھی ڈال دیا ہے لیکن کیا اب نون لیگ جرأت کرکے نواز شریف کو بلا کر انکوائری کرے گی کہ اُنہوں نے ایک انگریزی معاصر کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں کیوں اور کس بنیاد پر پاکستان اور پاکستان کے اہم اداروں پر دل آزار الزامات عائد کیے؟

نون لیگ یہ جرأت نہیں کرے گی۔ نواز شریف اور راج دلاری کے نام بھی تو ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن کئی ہفتے گزرنے کے باوجود تاحال اس پر عمل نہیں ہو سکا ہے۔کیا اس لیے کہ نون لیگ کا وزیر داخلہ ’’اپنا‘‘ تھا اور اپنے باس کو ناراض کرنے کی اُس میں ہمت نہیں تھی؟اب تو احسن اقبال بھی وزارتِ داخلہ سے فارغ ہو چکے ہیں، کیا اب بھی کوئی یہ ہمت کر سکتا ہے؟

نون لیگ اور نواز شریف تو ہمارے عسکری اداروں کے خلاف دل میں بُغض رکھے ہُوئے ہیں لیکن یاد رکھا جائے کہ افواجِ پاکستان میں تو میرٹ کا پرچم بھی بلند ہے اور ہر کسی کا احتساب بھی فوری کیا جاتا ہے جیسا کہ ہم نے اسد درانی کے معاملے میں دیکھ بھی لیا ہے لیکن نون لیگ اور نون لیگی حکمران تو جاتے جاتے بھی میرٹ کی حرمت اور عزت پامال کرنے سے باز نہیں آئے۔ مثلاً، پیرس میں ’’یونیسکو‘‘کے لیے ڈپٹی مستقل مندوب کے عہدے پر تین سال کے لیے نیلوفر شہزاد کی تقرری۔یہ تعیناتی اور تقرری حال ہی میں فارغ ہونے والے حکمرانوں کی طرف سے میرٹ کی تازہ ترین بے حرمتی کی کلاسیکل مثال ہے۔

تقریباً دو سال قبل منسٹری آف فیڈرل ایجوکیشن اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ نے ’’یونیسکو‘‘ (پیرس) میں ڈپٹی مستقل مندوب کی تعیناتی کا عمل شروع کیا۔ دسمبر2016ء میں ایک چِٹھی کے ذریعے تمام وزارتوں سے تمام سروسز اور گروپس سے نامزدگیاں طلب کی گئیں۔ بعد ازاں اِن افسران کی شارٹ لسٹنگ کرکے ’’لَمز‘‘ کے تحت اُن کے امتحان لیے گئے۔کامیابی کے لیے60 فیصد نمبر لینا ضروری تھا۔

آخر میں بہترین صلاحیتوں کے حامل پانچ امیدوار سامنے آئے۔ منسٹری آف فیڈرل ایجوکیشن نے اِن کے انٹرویو لیے۔ وفاقی وزیرِ مملکت برائے تعلیم اِس کی سربراہی کررہے تھے۔ پھر معیار کی کڑی چھلنی سے گزار کر اِن پانچ میں سے بھی تین نام فائنل کیے گئے۔یہاں پہنچ کر میرٹ کی مٹّی پلید کرنے والوں نے ڈنڈی مار دی ۔ یوں کہ جب ان فائنل تین امیدواروں کی لسٹ وزیر اعظم پاکستان کو بھیجی گئی تو چوتھے نمبر پر آنے والی نیلوفر شہزاد کا نام بھی لسٹ میں شامل کر دیا گیا۔ یہ خاتون کسٹم سروس سے تعلق رکھتی ہیں۔

دوسرے دو امیدوار جن کے نام وزیر اعظم کو ارسال کیے گئے، اُن میں ڈاکٹر نور علی اور رضوان بشیر شامل ہیں۔ ڈاکٹر محمد بابر چوہان ایڈیشنل کمشنر (اِن لینڈ ریونیو )کا نام بھی لسٹ سے نکال دیا گیا حالانکہ وہ نہائیت پڑھے لکھے شخص ہیں۔ اُنہوں نے نیوزی لینڈ اور ہالینڈ کی جامعات سے اعلیٰ تعلیم اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کررکھی ہے۔پُر اسرا ر حالات اور کسی اَن دیکھے دباؤ کے تحت وزیر اعظم نے 19اپریل2018ء کو نیلو فرفر شہزاد کو ’’یونیسکو‘‘ پیرس کے لیے ڈپٹی پرمننٹ ڈیلیگیٹ کے عہدے پر فائز کر دیا اور یوں نون لیگی حکمرانوں نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ کبھی میرٹ کا احترام نہیں کریں گے۔

اہلیت اور قابلیت اُن کے لیے ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ سُنا گیا ہے کہ نیلوفر شہزاد کی تقرری کے عمل کے پیچھے ایک نون لیگی گورنر اور ایک نون لیگی صوبائی صدر کی سفارش بھی کارفرما تھی۔ یہ تقرری کرکے فی الحقیقت حقدار کا حق غصب کیا گیا ہے۔ اِس کا ازالہ اِسی صورت میں کیا جاسکتا ہے کہ عزت مآب چیف جسٹس جناب میاں ثاقب نثار صاحب سوؤ موٹو لیں اور حقداروں میں سے میرٹ کی بنیاد پر جس کا بھی حق بنتا ہے، اُسے وہ حق عطا فرما دیں۔ اب تو آخری اُمید جناب چیف جسٹس صاحب سے ہی رہ گئی ہے۔

The post حکمران جاتے جاتے بھی میرٹ کی مٹّی پلید کرنے سے باز نہیں آئے appeared first on ایکسپریس اردو.

قلت آب کا ذمے دار کون

$
0
0

ملک میں جب بھی پانی کی قلت ہوتی ہے اس وقت ہمیں پانی کے اپنے وہ منصوبے بھی یاد آجاتے ہیں جنھیں ہم سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے متروک یا موخر کرتے چلے آئے ہیں۔

آج کل ایک مرتبہ پھر کالا باغ ڈیم کا شور برپا ہے اور اس مرتبہ اس کا تذکرہ سیاسی کی نسبت سوشل میڈیا پر زیادہ ہے، جس کو عوام کی ایک بڑی تعداد استعمال کر رہی ہے جو کہ ہر ایک کی پہنچ میں ہے اور جہاں پر اس غریب ملک کا ہر باشندہ ایک اپنی مرضی کا اظہار بھی کھلے لفظوں میں کر سکتا ہے۔

پانی اور ڈیم دونوں لازم و ملزوم ہیں اور جہاں پر ایک کی کمی کا ذکر آئے وہیں پر دوسرے کی تعمیر کا ذکر بھی آئے گا۔ میاں نواز شریف کے پہلے دور کی بات ہے ان سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ میں کل کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا اعلان کرنے والا تھا لیکن غلام اسحاق خان نے سندھ میں فوجی ایکشن شروع کر دیا ہے اس لیے اب میں دو محاذوں پر نہیں لڑ سکتا۔

صدر ضیاء الحق جیسے طاقت ور حکمران کے گیارہ برس اسی پس و پیش میں گزر گئے مگر کالا باغ تعمیر نہ ہو سکا ۔ میاں صاحب نے جیسے ہی اس کا ارادہ کیا اس وقت آٹھویں ترمیم ان کے منتخب اقتدار کو نگل گئی اور یوں کالا باغ ہمیشہ کی طرح ایک سیاسی تنازع بنا رہا۔ اس کے بعد بھی میاں صاحب دو دفعہ بھر پور اقتدار میں آئے وہ ہمہ مقتدر وزیر اعظم بھی رہے کوئی غلام اسحاق خان یا آٹھویں ترمیم کی دفعہ 58 بھی موجود نہیں تھی وہ کچھ بھی کر سکتے تھے۔

اختیار اور اقتدار ان کے مکمل قبضے میں تھا۔ بیورو کریسی ، اسمبلیوں کے ارکان، سب سے بڑے صوبے کا اقتدار، جناب صدر اور دوسرے مقتدر ان کی حمایت میں تھے اپوزیشن عمران کی شکل میں موجود تھی پیپلز پارٹی اپنی بقا کی جنگ ہار چکی تھی غرض اقتدار میاں صاحب کے قدموں کے نیچے رہا۔

ایسا ہونا ضروری بھی تھا کہ کئی جگہوں اور ہاتھوں پر منقسم اقتدار کسی کے کام کا نہیں ہوتا ایسے اقتدار کا نہ ہونا اس کے ہونے سے بہتر ہے۔ زبردست مینڈیٹ کا بوجھ اور نشہ بھی دو آتشہ تھا آئینی طور پر مضبوط ترین پوزیشن بھی تھی۔ نظر بظاہر وزیر اعظم کوئی بھی فیصلہ کر سکتا تھا کسی بھی فیصلے پر عملدرآمد کرا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس انتظار میں ہی رہا کہ ملکی سالمیت کے اس اہم منصوبے کا نواز شریف دوبارہ کب اعلان کرنے کا ارادہ کرتے ہیں۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ اس کی مخالفت بھی ہوگی اور شور شرابہ بھی۔

جناب عمران خان کی پارٹی خیبر پختونخوا پر حکمرانی کے مزے لوٹ رہی تھی اور عمران خان خود جو کہ کالا باغ کے آبائی پڑوسی ہیں وہ اس صورتحال کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ کالاباغ ڈیم کس قدر جلد بن سکتا ہے اور اس سے پورا ملک استفادہ کر سکتا ہے اس لیے وہ بھی خیبر پختونخوا کے عوام کو بآسانی سمجھا سکتے تھے کہ اس ڈیم سے ان کو کوئی نقصان نہیں ہو گا اور اگر عمران خان ان کی سیاسی مخالفت کرتے تو عوام میں ان کا ایک ملک دوست سیاست دان کا تصور ختم ہو جاتا۔ میاں نواز شریف کے پاس سنہری موقع تھا کہ وہ اعلان کر دیتے اور سیاسی چھکا لگا دیتے مگر بوجوہ وہ تین بار اقتدار میں رہ کر بھی یہ اس بھاری پتھر کا بوجھ نہ اٹھا سکے۔ کالا باغ سیاستدانوں سے دور ہی رہا۔

کالاباغ ڈیم کے بارے میں اس قدر بحث ہو چکی ہے کہ اگر اس کو جمع کر لیا جا ئے تو کتابوں کی شکل میں ایک ڈیم بن جائے اس قومی منصوبے کے مخالفین کو بخوبی علم ہے کہ ان کی مخالفت ملک کے ساتھ کس قدر ناانصافی ہے۔ ایک دفعہ ولی خان صاحب نے واپڈا کے ایک سابق پٹھان چیئرمین کو طلب کیا۔ عالمی سطح کے اس ماہر نے ڈیم کے حق میں دلائل کا انبار لگا دیا۔

سب کچھ سننے کے بعد ولی خان نے کہا کہ تم پٹھان ہو کر بھی کالاباغ کے حمائتی ہو تو یہ ہے وہ مائنڈ سیٹ جس کی وجہ سے کالا باغ سیاسی تنازع میں الجھا ہوا ایک قومی منصوبہ ہے اور اس کی اصل مخالفت کا سبب۔ گویا یہ ڈیم آب رسانی اور بجلی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے بلکہ کوئی پنجابی، سندھی، بلوچی یا سرحدی صوبائی منصوبہ ہے۔ ہمارے سیاستدان اپنی مجبوریوں کے تحت ایسی پارٹیوں کو بھی ساتھ لے کر چلتے رہے جو کہ ملکی سالمیت کے خلاف تھیں اور ان میں سر فہرست عوامی نیشنل پارٹی تھی جو کہ مبینہ طور پر براہ راست بھارت سے احکامات وصول کرتی ہے۔

پاکستان میں ان کی قیادت صرف رہائش پذیر ہے لیکن وہ اس مٹی میں دفن ہونا بھی پسند نہیں کرتے جس مٹی کا کھاتے ہیں اور جس وطن میں سیاست کرتے ہیں۔ پہلے جناب نواز شریف نے ان کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالی اور بعد میں جناب آصف زرداری پانچ سال تک ان کے میزبان رہے لیکن ان دونوں میزبانوں نے اپنے سرحدی دوستوں سے کبھی یہ رعایت نہیں مانگی کہ وہ کالا باغ کے معاملے میں عقل سے کام لیں کیونکہ ہمارے دونوں بڑے آبی ذخیروں منگلا اور تربیلا کی جھیلیں خطرناک حد تک کم ہو چکی ہیں اس لیے کسی لاعلاج مصیبت سے بچنے کے لیے فوری طور پر کالاباغ ڈیم شروع کر دینا چاہیے۔

کالاباغ صوبوں کے مابین ایک تنازع بن جانے کی وجہ سے یوں لگتا ہے جیسے یہ آب پاشی اور بجلی کی پیداوار کا کوئی برقی منصوبہ نہیں بلکہ کوئی سیاسی اتحاد بنانے کی کی کوشش ہے۔ جس میں شرکت کا مسئلہ صوبوں کے درمیان تنازع بن گیا ہے کسی قومی تعمیری منصوبے کا متنازعہ بن جانا ایک قومی المیہ ہے اس لیے اگر میاں صاحب اس بابرکت منصوبے کی ازسر نو پہلی اینٹ ہی رکھ دیتے تو ان کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف کو اپنی دس سالہ حکومت کے آخری روز یہ نہ کہنا پڑتا کہ کل سے لوڈشیدنگ کے ذمے دار میں، نواز شریف یا عباسی صاحب نہیں۔ کل سے عوام جانے اور لوڈ شیڈنگ جانے ہم اس سے بری الذمہ ہیں۔ وما علینا الاالبلاغ

The post قلت آب کا ذمے دار کون appeared first on ایکسپریس اردو.

جبروستم کا ناظر (آخری حصہ)

$
0
0

ناظر محمود نے کراچی کی مضافاتی بستی ملیر میں جامعہ ملیہ سے میٹرک کیا۔ ان کے والد محمدرشاد 40کی دہائی میں کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ ہوئے اورآج تک ایک انسان دوست اور آزادخیال انسان ہیں۔ یہ وہ ہیں جنھوں نے ناظر کے ذہن میں حصول علم کا اور دل میںانسانوں کی دردمندی کا بیچ بویا۔ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے ماسکو کی پیٹرک لوممبایونیورسٹی گئے۔

یہ وہ دور تھا جب بیسویں صدی کا سب سے شاندار خواب غلط فیصلوں اور شہری آزادیوں کے سلب کیے جانے کی دلدل میں بتاشے کی طرح بیٹھ رہا تھا۔ وہ سماج جو انسانوں کو مساوی حقوق دلانے کے لیے قائم ہوا تھا‘ ناظر نے اسے منہدم ہوتے دیکھا۔ ماسکو سے پاکستان واپس آئے جہاں سودیت یونین کی یونیورسٹیوں سے پڑھ کر آنے والوں کے لیے روزگار کے دروازے بند تھے۔

ناظر نے برسوں ’آئی بی اے‘ ہمدرد یونیورسٹی، گرینچ یونیورسٹی اور بعض دوسرے تعلیمی اداروں میں جزوقتی پڑھایا۔ اردو میں لکھنے اور ترجمہ کرنے کی طرف انھیں ندیم اختر نے راغب کیا اور ان کی کئی تحریریں’روشن خیال‘ میں شائع کیں۔ پھر ناظر نے برطانیہ کی لیڈز اور برمنگھم یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد وہ پاکستان واپس آئے اور اب مختلف بین الاقوامی اداروں کواپنی خدمات ومہارت فراہم کرتے ہیں۔

یہ ان کا روزگارہے لیکن عشق انھیںتاریخ‘ ادب اورسماجی سائنس کے مختلف علوم سے ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ کی مشہورکتاب’وقت کی ایک مختصرتاریخ‘ کا انھوںنے ترجمہ کیا جس کی بہت پذیرائی ہوئی۔ عائشہ صدیقہ کی کتاب’ملٹری انکارپوریشن‘ کا ترجمہ بھی انھوں نے کیا۔

اپنے تعلیمی پس منظر اور تعلیم کے شعبے میں پیشہ ورانہ مہارت کی بناء پر وہ باہر کی کسی بھی یونیورسٹی سے وابستہ ہوسکتے تھے لیکن وہ ابتداء سے اس بات کے خواہاں رہے کہ ملک کے معاملات کو بہتربنانے میں اپناکردارادا کریں۔ان کی زیرنظرکتاب میں سیاست‘ ادب‘ فلم اور شخصیات کے حوالے سے جواخباری کالم شامل ہیں‘ وہ اس بات کا واضح اشارہ ہیںکہ ان کے نزدیک یہ سب سے اہم بات ہے کہ نوجوان نسل کی ذہنی تربیت کے ساتھ ہی اس کے اندر تاریخ کا شعور اجاگر کیا جائے۔

زندگی میں وہ جن شخصیات سے متاثر ہوئے ان میں کچھ اپنے اردگرد سے تعلق رکھتی ہیں اور کچھ کو انھوںنے عالمی سیاست اورادب کے کوچے سے منتخب کیا ہے۔ وہ پاکستان ٹیلی وژن کے اسلم اظہر کوخراج عقیدت ادا کرتے ہیں۔ یہ اسلم اظہر تھے جنھوں نے پاکستان ٹیلی وژن کو ایک جیتا جاگتا ادارہ بنا دیا تھا۔

جنرل ضیاء الحق جنھوں نے بھٹو کی حکومت کو برطرف کر کے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کیا‘ بھٹوکے عدالتی قتل کی کالک سے اپنا چہرہ داغ دار کیا‘ وہ پاکستان کے دھڑکتے ہوئے سماج کو بھی پھانسی دیناچاہتے تھے۔ اس کام کے لیے لازم تھا کہ وہ پی ٹی وی اور دوسرے تمام قومی اداروں پر اپنے حاشیہ نشین فائزکریں اور آزاد سوچ کا گلاگھونٹ دیں۔اسلم اظہر ان کے غیظ و غضب کانشانہ بنے۔ صرف ٹیلی وژن کی ملازمت سے ہی نہیں نکالے گئے‘ اسلام آباد بدر بھی ہوئے۔ کراچی میں اپنی شریک حیات نسرین کے ساتھ ایک بہت مشکل زندگی گزاری۔

منصورسعید اور دوسروںکے ساتھ مل کر دستک تھیٹرگروپ قائم کیا ۔ان کا سب سے بڑا کارنامہ مشہورادیب بریخت کے ڈرامے ’’گلیلیو‘‘ کا اسٹیج کیا جانا تھا جس میں اسلم اظہر نے بوڑھے گلیلیو کا کردار ادا کیا تھا۔ یہ ڈراما1986ء میں ترقی پسند تحریک کی گولڈن جوبلی کے موقع پر پیش کیا گیا اور کلیسا کے خلاف سائنس کا احتجاج تھا۔ ضیاء الحق کی آمریت کے زمانے میںیہ ڈراما لوگوں کے دلوں کی آواز تھا‘ اسی لیے کراچی کے جس تھیٹر میں یہ پیش کیا گیا‘ وہاں تالیوںکی گونج نہیںتھمتی تھی۔ ناظر محمود کی ذہنی تربیت میں اسلم اظہرکا اہم کردار رہا ہے‘ ناظر نے ان کے بارے میںبہت محبت اور عقیدت سے لکھا ہے۔

اسی طرح وہ جمہوریت کی بحالی اور آمریت سے جنگ کے محترم افراد ولی خان‘ غوث بخش بزنجو، سوبھوگیان چندانی‘ اور ابراہیم جویو کے بارے میں لکھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی خدمات بے شمار ہیں اور جنھیں اس ملک میں زنداں میں رکھا گیا اور ہر مرحلے پر ذلیل کیا گیا۔

وہ جب بین الاقوامی شخصیات کے بارے میں لکھتے ہیں تو ان لوگوں کا ذکر نہیں بھولتے جو امریکی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ تھے اور کمیونسٹ دشمنی اور سخت گیری جن کی وجہ شہرت تھی۔ برزنسکی جو عمر بھر دنیا کے مختلف ملکوں میں امریکی مداخلت کی حمایت کرتا رہا اس نے 2003ء میں اس وقت جارج ڈبلیو بش کی مخالفت کی جب صدربش جونیئرعراق کے خلاف جنگ چھیڑنے والے تھے۔

یہ بھی وقت کا ایک مذاق ہی سمجھا جائے گا کہ برزنسکی جو عمر بھر فوجی مداخلتوں کے حق میں رہا وہ آخرکار بین الاقوامی قوانین کا حمایتی ہوگیا تھا اور اس کاخیال تھا کہ معاملات کا فوجی حل نکالنے کے بجائے انھیںگفت وشنیہ کے ذریعے حل کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن قائم کرنے کی بات کرتا تھا۔

ہم میں سے اکثرلوگZygmunt Bauman سے واقف نہیں۔ وہ ایک ایسا ماہرعمر انیات تھا جس کا تعلق پولینڈسے تھا اور60ء کی دہائی میںجسے پولینڈ سے رخصت ہونے پرمجبور کیا گیا۔ وہ اپنے خیالات کے حوالے سے ایک سوشلسٹ تھا لیکن برطانیہ کے سرمایہ دار ملک میںپناہ لینے اور وہاں ایک آزاد اور مطمئن زندگی گزارنے کے باوجود وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھا جو ایسے مرحلوں سے گزرکر سرمایہ داری کے گُن گانے لگتے ہیں۔ وہ شہری آزادیوں اورانسانوں کے درمیان مساوات کاحامی تھا اورآخر تک اس کا یہی نکتۂ نظر رہا۔

ناظرابتدائی عمر سے سودیت یونین کے شیدا رہے۔ اس تناظرمیں وہ بہت سے سوویت ادیبوں کی تعریف وتوصیف کرتے نظرآتے ہیں۔وہ نوبیل انعام یافتہ بورس پاسترناک کے ناول’ڈاکٹر ژواگو‘ کاذکر کرتے ہیں‘وہیں Yevtushenka کاذکر بھی نہیں بھولتے جو 2017ء میںاس جہان سے گزرا، یہ وہ روسی ادیب تھا جس نے دوسری جنگ عظیم میں سودیت یونین کے کردار کے بارے میں سوال اٹھائے تھے۔ اس کی وہ نظم جو ’بابی یار‘ کے نام سے مشہور ہے۔

یوکرین کی ریاست کے شہر خیوا میں یہ ایک گہری اور لمبی کھائی ہے جس میں یوکرین پر قبضے کے بعد نازیوں نے ہٹلر کے حکم پر خیوا میں رہنے والے یہودیوں کوگرفتارکیا اور انھیں ٹکڑیوں میں ’بابی یار‘ لے جایا گیا‘ جہاں انھیں بے لباس ہونے کا حکم دیا گیا اور پھرانھیںمشین گنوں سے بھون کر’بابی یار‘ کی خندق میںدھکیل دیا گیا۔ یہ کام ستمبر1941ء میںصرف 3دن کے اندر کیاگیا۔ اس کے بعد نازیوں نے بہت سے کمیونسٹ افسروں اور جنگی قیدیوں کی مشترک قبریں بھی ’بابی یار‘ کی گہری خندق میں بنائیں۔

جرمن فوجوں کی جب پسپائی شروع ہوئی تو نازی بل ڈوزر لے کرآئے جن سے یہ خندق ادھیڑی گئی اورپھر مسخ شدہ لاشوں کی ہڈیاں کچلی گئیں اوران پر پٹرول چھڑک کر آگ لگادی گئی تاکہ بعد میںاس ذبح عظیم کاکوئی سراغ نہ ملے لیکن مشکل یہ ہے کہ خونِ ناحق کسی نہ کسی طوراپنا پتہ بتا دیتا ہے’بابی یار‘ کے ہلاک شدگان کی باقیات کو جب آگ لگائی گئی تو اس کا کشیف دھواں خیواشہر میں کئی دنوں تک دیکھاگیا۔ رہی سہی کسریوتشاشون کوکی نظم’بابی یار‘ نے پوری کردی۔ ہماری آج کی نسل’بابی یار‘ قتل عام کے بارے میںکچھ نہیں جانتی‘ ناظرنے بہت خوب کیاکہ اس بارے میںانھیںآگاہ کیا۔

وہ گارسیالور کا اوروکٹر جاراکا مقدمہ بھی لڑتے ہیں۔ جارا توپھربھی80ء کی دہائی کا قصہ ہے جوایک مشہور موسیقار تھا اورجب اس نے ڈکٹیٹر پنوشے کا قصیدہ گانے سے انکارکیا تو نیشنل اسٹیڈیم میں اسکی انگلیاں بغدے سے اڑادی گئیں۔ گارسیالورکا بیسویں صدی کے عالمی ادب کا ایک بڑانام ہے۔ اس نے اپنے آمر کے خلاف قلم سے لڑائی لڑی اورپھر وہ جمہوریت دشمن فوجیوں کے ہاتھوں گولی سے اڑایا گیا اور کسی گم نام قبر میں پھینک دیاگیا۔

آج اس کے قتل کو 80 برس گزر چکے ہیں اور وہ کسی خندق، کسی کھائی میں بے نام ونشان سوتا ہے۔گنٹرگراس‘ مہاشویتادیوی اورکئی دوسرے عالمی شہرت یافتہ ادیبوںکے بارے میں انھوں نے لکھا۔ ان میںسے اکثروہ ہیں جن سے ہمارے لوگ واقف نہیں۔

وہ ہمیں ایرانی فلم ساز کیارستمی اور جنگ دشمن ہیروکرک ڈگلس اور تقسیم کے بارے میںبننے والی فلم ’گرم ہوا‘کی یاد دلاتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی ’دوبیگھا زمین‘ ’مدرانڈیا‘اورکئی ان ہندوستانی فلموں کے بارے میں لکھتے ہیں جنھیں نئی نسل نہیں جانتی۔ ناظرکی کتاب کے کئی ابواب پر بات نہ ہو سکی، مختصر لفظوں میں اس سے زیادہ موضوعات سمیٹے نہیں جا سکتے۔

مجھے افسوس اس کا ہے کہ میں’اے بیوٹی فل مائنڈ‘ کے بارے میںنہ لکھ سکی جو میری بہت پسندیدہ فلم ہے اور ہمیں ایک ایسے ذہن میں جھانکنے کا موقع دیتی ہے جو ریاضی کی بھول بھلیاں میں الجھ کر کہیں اور جا نکلاہے۔ ایک سچی کہانی اس شخص کے بارے میںجسے ریاضی کا نوبیل انعام دیا گیا۔ ناظر کوان موضوعات اور معاملات پر لکھتے رہنا چاہیے، یہ قلم کا قرض ہے جو ادا ہوتا رہے تواچھا ہے۔

The post جبروستم کا ناظر (آخری حصہ) appeared first on ایکسپریس اردو.

شیان میں آدھا دن

$
0
0

دنیا کی تاریخ شیان (Xian) کے بغیر مکمل نہیں ہوتی‘ شاہراہ ریشم شیان سے شروع ہوتی تھی‘ شیان کی مسلم اسٹریٹ ہزار سال سے دنیا بھر کے سیاحوں کو حیران کر رہی ہے اور آخر میں دنیا کا آٹھواں عجوبہ ٹیرا کوٹا وارئیرز(Terracotta)‘ دیوار چین کا ایک بڑا حصہ بھی شیان میں تھا‘ یہ آثار بھی دیکھنے والوں کی آنکھوں کی پتلیاں پھیلا دیتے ہیں چنانچہ شیان طویل عرصے سے میری ’’وش لسٹ‘‘ میں شامل تھا۔

میں نے 24مئی کی صبح لہاسا سے شیان کی فلائیٹ لی‘ دو بجے شیان ائیرپورٹ اترا‘ شیان ایک طویل و عریض شہر ہے‘ آبادی ایک کروڑ 20 لاکھ ہے‘فضا میں ماضی‘ حال اور مستقبل تینوں زمانے سانس لیتے ہیں‘ محل وقوع اسلام آباد سے ملتا جلتا ہے‘ تین اطراف سرسبز پہاڑ ہیں‘ شہر کے مضافات میں باغ‘ جھیلیں اور دریا ہیں‘ باغ شہر کے اندر تک آ جاتے ہیں‘ سڑکیں کھلی‘ گلیاں صاف اور فضا معطر ہے‘ لوگ مطمئن اور خوش حال ہیں‘ ڈاؤن ٹاؤن یورپ اور امریکا کے بڑے شہروں سے ملتا جلتا ہے۔

شہر میں بس سروس بھی ہے اور زیرزمین ٹرین سسٹم بھی‘ یہ دونوں لاجواب اور جدید ہیں‘ ہمارے پورے ملک میں شیان ائیرپورٹ جیسا ائیرپورٹ نہیں‘ میں اپنا بیگ اٹھانے کے لیے کنویئر بیلٹ کے پاس رکا تو میں نے دیکھا تاحد نظر کنویئر بیلٹس تھیں اور دو تین ہزار لوگ ان سے اپنا سامان اٹھا رہے تھے‘ میں ائیرپورٹ سے باہر نکلا تو میرے پاس وقت کم تھا‘ ٹیرا کوٹا میوزیم پانچ بجے بند ہو جاتا ہے اور یہ ائیرپورٹ سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر تھا‘ میں نے فوراً ٹیکسی تلاش کی‘ اسے منہ مانگی رقم دی اور ٹیرا کوٹا میوزیم کی طرف دوڑ پڑا۔

شہر کے اندر ہائی ویز‘ فلائی اوورز اور انڈر پاسز کا جال بچھا تھا‘ پورا شہر رنگ روڈز کی آغوش میں بھی تھا‘ میں یہ جدید شہر دیکھ کر حیران ہو رہا تھا اور ساتھ ساتھ سوچ رہا تھا کیا ٹیرا کوٹا بنانے والے چینی بادشاہ نے سوچا تھا یہ شہر کبھی اتنا جدید‘ اتنا ماڈرن ہو جائے گا‘ میں نے انکار میں سر ہلا دیا‘ شیان کن شی ہونگ کا شہر تھا‘ کن شی 210 قبل مسیح میں شیان کا حکمران تھا‘ یہ چین کا پہلا باقاعدہ بادشاہ تھا‘ بادشاہ کن کو کسی نے بتا دیا انسان کی زندگی دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے۔

دنیاوی زندگی اورآخری زندگی‘ وہ دنیاوی زندگی میں بادشاہ تھا‘ اس نے سوچا اسے آخری زندگی میں بھی بادشاہ ہونا چاہیے چنانچہ اس نے مجسمہ ساز اکٹھے کیے اور اپنے آٹھ ہزار محافظ فوجیوں‘ 130گھوڑا گاڑیوں‘ 520 گھوڑوں اور اپنے تمام وزیروں اور مشیروں کے مٹی کے مجسمے بنوانا شروع کردیے‘ یہ مجسمے شاہی محل کے صحن میں سونے اور چاندی کی کانوں کے قریب بنائے جا رہے تھے۔

مجسمہ سازی کے اس کام پر سات لاکھ لوگ لگائے گئے‘ ہر مجسمہ دوسرے مجسمے سے خدوخال‘ رنگ‘ قد اور وزن میں مختلف تھا‘ بادشاہ نے گھوڑ سوار دستے کے گھوڑوں کے مجسمے بھی بنوائے‘ مجسمے جب مکمل ہو گئے تو بادشاہ نے یہ تمام مجسمے ہتھیاروں‘ چارے اور خوراک کے ساتھ زمین میں دفن کرا دیے‘ ان کے ساتھ بادشاہ کا اپنا مجسمہ بھی تھا‘ بادشاہ نے سائیٹ کے قریب اپنا مقبرہ بھی تعمیر کرا دیا‘ بادشاہ کا انتقال ہوا‘ وہ مقبرے میں دفن ہوا اور پھر وقت آہستہ آہستہ مقبرے اور ٹیرا کوٹا مجسموں کے اوپر خاک ڈالتا چلا گیا۔

یہ سب زمین برد ہو گئے اور ان پر دیہات اور شہر آباد ہوتے چلے گئے‘ ان کے اوپر درخت‘ کھیت اور کھلیان بھی پھلتے پھولتے رہے اور یوں بادشاہ کن اور اس کے محافظ سپاہی تاریخ کے حافظے میں منجمد ہو گئے‘ بادشاہ کی سلطنت بھی ختم ہو گئی اور شہر بھی تاریخ کے صفحوں میں جذب ہو گیا‘ 1974ء میں گاؤں کے ایک شخص نے کنواں کھودا اور دو ہزار دو سو سال بعد ٹیرا کوٹا وارئیرز دنیا کے سامنے آ گئے یوں دنیا کا آٹھواں عجوبہ دنیا کو مل گیا۔

میں ساڑھے تین بجے ٹیرا کوٹا پہنچا‘ اپنا بیگ دو گھنٹوں کے لیے ایک دکاندار کے پاس پچاس یوآن کے عوض رکھوایا‘ ٹکٹ لیا اور اندر داخل ہو گیا‘ یہ ایک طویل کمپاؤنڈ تھا‘ پہلی عمارت تک پہنچنے میں دس منٹ لگ گئے‘ سردست ٹیرا کوٹا کے تین گڑھے دریافت ہوئے ہیں‘ یہ تینوں حیرت کدہ تھے۔

میں عمارت میں داخل ہوتا تھا اور سامنے قطار اندر قطار مٹی کے سپاہی دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا‘ تمام سپاہی مسلح تھے‘ یہ اپنے اپنے گھوڑوں کے ساتھ کھڑے تھے اور یہ اس قدر اصلی محسوس ہوتے تھے کہ یوں لگتا تھا ابھی بگل بجے گا اور یہ حرکت کرنا شروع کر دیں گے‘ سائیٹ پر ابھی مٹی کی بے شمار ڈھیریاں موجود تھیں‘ ان ڈھیریوں کے اندر مزید سپاہی چھپے بیٹھے ہیں‘ آثار قدیمہ کے ورکرز ڈھیریاں کھود رہے تھے۔

ہال نمبر ون میں ٹیرا کوٹا وارئیرز کی بیک گراؤنڈ‘ کھدائی کی تاریخ‘ آلات اور دیگر تفصیلات درج تھیں‘ گائیڈ سیاحوں کو سب سے پہلے وہاں لے کر جاتے تھے اور پھر اصل سائیٹس پر‘مجسمے مٹی کے بنے تھے اور یہ لشکر کی طرح ترتیب کے ساتھ کھڑے تھے جسے بادشاہ حکم دے گا اور یہ دشمن پر پل پڑیں گے‘ بادشاہ کن مر گیا‘ اس کی سلطنت‘ مال و دولت اور شان وشوکت ہر چیز تاریخ کا رزق بن گئی لیکن اس کا آرٹ 22 سو سال بعدبھی زندہ ہے‘اس آرٹ نے اسے بھی زندہ کر دیا۔

ہم دنیا میں جو تخلیق کر جاتے ہیں وہ کارنامے بن کر ہمارے بعد ہماری زندگی بن جاتے ہیں‘ ٹیرا کوٹا وارئیرز اس حقیقت کی تازہ ترین مثال ہیں۔میرا ہوٹل شیان کے ’’وال سٹی‘‘ میں تھا‘ یہ شہر کا قدیم ترین علاقہ ہے‘ میں نے ہوٹل جانے کے لیے ٹیکسی کے بجائے بس اورپھر انڈر گراؤنڈ ٹرین لی‘بس میوزیم کے سامنے کھڑی تھی‘ یہ شہر کے ایک تہائی حصے سے گزر کر سینٹر تک پہنچی یوں مجھے شہر کو دیکھنے کاموقع مل گیا‘ سینٹر میں بہت رونق تھی‘ سیکڑوں سیاح پھر رہے تھے‘ میں ہوٹل کا ایڈریس دکھا دکھا کر چلتا رہا۔

لوگ ہاتھ سے آگے چلنے کا اشارہ کر دیتے تھے اور میں اسی ڈائریکشن میں چل پڑتا تھا‘ میں سامان گھسیٹتا ہوا انڈر گراؤنڈ ٹرین تک پہنچا‘ ٹکٹ کیپر کو ایڈریس دکھایا‘ کیپر نے بتایا ’’آپ چوم لو اسٹیشن پر اتر جائیں‘‘ اسٹیشن کا نام فحش تھا لیکن یہ یاد رہ گیا‘ ٹرین کے تمام اسٹیشن چینی زبان میں تھے‘ میں نے بس چوم لو کے نام پر کان لگائے رکھے‘ میرے کانوں نے جوں ہی اس سے ملتی جلتی آواز سنی میں فوراً نیچے اتر گیا‘ میرا ہوٹل اب زیادہ دور نہیں تھا۔

میرا ہوٹل مسلم اسٹریٹ اور شاہراہ ریشم کے نقطہ آغاز کے قریب تھا‘ میں نے سامان ہوٹل میں رکھا اور مسلم اسٹریٹ کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا‘ مسلم اسٹریٹ بنیادی طور پر فوڈ اسٹریٹ ہے‘ یہ گلی مسلمانوں نے ہزار سال قبل آباد کی تھی‘اسٹریٹ اور اسٹریٹ کی بغلی گلیوں میں مسلمانوں کے سیکڑوں ریستوران‘ قہوہ خانے‘ فروٹ پارلرز‘ سویٹ ڈش کارنرز اور جوس کے ٹھیلے ہیں‘ میں نے جوں ہی مسلم اسٹریٹ میں قدم رکھا میں چند قدم بعد الہ دین کے دور میں چلا گیا‘ وہ کیا اسٹریٹ تھی‘ کیا ریستوران تھے اور کیا ذائقے تھے‘ یہ لوگ خاندانی کک ہیں۔

میں نے جس سے بھی پوچھا‘ اس نے جواب دیا‘ میرے خاندان نے تین سو سال پہلے یہ کام شروع کیا تھا‘ میں آٹھویں نسل ہوں یا میرے پردادا کے پردادا ترکی سے آئے اور 1404ء میں یہاں یہ ریستوران شروع کیا‘ پتہ چلا ان ریستورانوں کی ریسی پیز بھی خاندانی ہیں‘ ایک نسل دوسری نسل کو کھانا پکانے کا طریقہ سکھا جاتی ہے اور وہ نسل اسے ورثہ سمجھ کر اگلی نسل کے حوالے کر جاتی ہے۔

ریستورانوں میں خواتین زیادہ تھیں‘ تمام کے سروں پر اسکارف تھے اور وہ السلام و علیکم کہہ کر گاہک کا استقبال کرتی تھیں‘ میں وہاں دو گھنٹے پھرتا رہا اور میں نے وہاں ان دو گھنٹوں کو بہت انجوائے کیا‘ مسلمان اسٹریٹ کی فضا ہی مختلف تھی‘ وہ کہہ رہے تھے’’ ہم نے ہزار سال سے یہاں شراب نہیں آنے دی‘‘ یہ واقعی قابل تعریف بات تھی۔شاہراہ ریشم کا نقطہ آغاز بھی میرے ہوٹل سے زیادہ دور نہیں تھا‘ میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا وہاں پہنچ گیا‘ یہ ایک پگوڈا نما عمارت تھی۔

ماضی میں یہاں سے وہ عظیم شاہراہ شروع ہوتی تھی جو10ہزارکلو میٹر کا فاصلہ طے کرتی تھی اور 47ملکوں کو ٹچ کرتی تھی‘ شیان سے تجارتی قافلے ریشم‘ مصالحے‘ چائے‘ برتن‘ ادویات‘ خوشبو‘ بارود اور قیمتی پتھر لے کر نکلتے تھے اور یہ سونا‘ چاندی‘ گھوڑے‘ ہتھیار‘ چمڑہ‘ شیشہ‘ سوتی کپڑا‘ اونٹ اور غلام لے کر واپس آتے تھے‘ مارکوپولو جیسے سیاح بھی اسی شاہراہ پر سفرکر کے چین پہنچے تھے۔

یہ شاہراہ ترکوں نے 1453ء میں استنبول کی فتح کے بعد بند کر دی جس کے نتیجے میں یورپ بحری راستے کھولنے پر مجبور ہو گیا اور یوں دنیا میں ’’کلونیل ایج‘‘ شروع ہو گئی‘ شاہراہ ریشم کی بندش نے یورپ میں صنعتی انقلاب کی بنیاد رکھی اور یورپی اپنی ضرورت کی تمام اشیاء یورپ میں بنانے لگے‘ میں رات کے پچھلے پہر وہاں پہنچا‘ آسمان پر چاند چمک رہا تھا اور زمین پر وقت ٹھہرا ہوا تھا‘ بنیاد کے دائیں بائیں ہر چیز تبدیل ہو گئی تھی‘ پگوڈا انڈر پاسز اور میٹرو اسٹیشن کے اوپر کھڑا تھا۔

سامنے ایک نوجوان گلوکار گانا گا رہا تھا اور دوسرے نوجوان اسے داد دے رہے تھے اور ٹریفک بھی رواں دواں تھی‘ پورے شہر کی روشنیاں مل کر شاہراہ ریشم کی بنیاد کو گدگدا رہی تھیں لیکن اس کے باوجود وہاں ابھی تک گئے وقتوں کی باس موجود تھی‘ وہاں ریشم اور چائے کی خوشبو بھی زندہ تھی۔

تاریخ بھی بال کھول کر وہاں بیٹھی تھی اور وہ ہرگزرنے والے کا دامن پکڑ کر کہہ رہی تھی دنیا کی ہر چیز عارضی‘ ہر چیز ناپائیدار ہے بس زوال کو استحکام ہے‘ بس موت کو ثبات ہے‘ میں نے جھرجھری لی اور ہوٹل واپس آگیا لیکن شیان وہیں پڑا رہ گیا‘ اپنی خوشبو اور اپنے رنگوں کے ساتھ۔

The post شیان میں آدھا دن appeared first on ایکسپریس اردو.

فرعون کی زندگی اور موسیؑ کے انجام کی چاہت

$
0
0

بحیثیت مسلمان ہمارے کردار کی جو مجموعی حالت ہے اس حوالے سے اکثر اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں، یہ کہا جاتا ہے کہ رمضان کے مہینے میں بھی ہر دوسرا شخص بے ایمانی کرتا نظر آتا ہے، پھل فروش سے لے کر بڑے کاروبار کرنے والے شخص تک کوئی بھی عوام کو لوٹنے میں پیچھے نہیں رہتا۔

اسی طرح سوال یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں رمضان کے مہینے میں مساجد نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں، لاکھوں لوگ تبلیغی اجتماع میں جارہے ہوتے ہیں، گھروں میں دینی محفلیں ہورہی ہوتی ہیں، حضورﷺ کی پیدائش کا دن ہو یا کربلا کے واقعہ کا، ہر گلی کوچہ کا یہ منظرہوتا ہے کہ ہم سے بڑا کوئی مسلمان نہیں، نمازیں، روزے اور لمبی لمبی داڑھیاں، رات، رات بھر ٹی وی پر اسلامی پروگرام دیکھ کر آنسو بہانے والے بھی صبح اٹھ کر معاشرے میں عملاً کچھ اور ہی کررہے ہوتے ہیں۔ عدالتوں میں اپنے ہی سگے رشتہ داروں کے خلاف قرآن پر ہاتھ رکھ کر جھوٹ بولا جاتا ہے، سگے بہن بھائی آپس میں ایک دوسرے کی مدد تو کیا کریں چھوٹے چھوٹے اختلافات کے سبب ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔

آج کے دور میں یہ بات بڑے غور و فکر کی ہے کہ درس، تبلیغ اور نماز، روزہ کے اہتمام کے باوجود بحیثیت مسلمان ہمارے کردار میں تبدیلی کیوں نہیں آرہی ہے؟ راقم کے خیال میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم جینے کے لیے تو غیر اسلامی زندگی چاہتے ہیں، جس میں ہم زیادہ سے زیادہ مال کما سکیں، عیش و عیشرت کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور اس سب کے لیے ہم کسی بھی حد سے گزر جانا پسند کرتے ہیں، لیکن مرنے کے بعد ہم اپنا انجام ایک اچھے مسلمان والا چاہتے ہیں، گویا ہم مرنے کے بعد انجام تو حضرت موسیٰ والا چاہتے ہیں مگر جینے کے لیے فرعون والی زندگی چاہتے ہیں۔ ہم میں یہ چاہت ختم ہوتی جارہی ہے کہ ہمارا جینا بھی بطور ایک اچھا مسلمان ہو اور مرنا بھی۔ اس بات کو آج سے برسوں پہلے ڈاکٹر اسرار احمد نے کچھ اس طرح بیان کیا تھا کہ

’’بحیثیت مجموعی اس معاشرے میں مسلمان جینے اور مسلمان مرنے کا داعیہ اور ارادہ مضمحل ہوچکا ہے۔ اصل شے یہ ہے کہ کسی قوم میں یہ عزم پیدا ہوجائے کہ اسے مسلمان جینا ہے، مسلمان مرنا ہے، جب یہ کیفیت پیدا ہوجائے گی تو اب خود اس کی طرف سے یہ بات ایک بالکل معروضی انداز میں پوچھی جائے گی، تلاش کی جائے کہ اسلام کیا کہتا ہے، میں مسلمان رہنا چاہتا ہوں، مسلمان مرنا چاہتا ہوں، لہٰذا مجھے معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کیا ہے؟ اﷲ کا حکم کیا ہے؟ اس کے رسولﷺ کا حکم کیا ہے؟ لیکن اگر یہ ارادہ موجود نہ ہو تو مختلف مسائل کے بارے یہ ساری بحثیں کہ قرآن کیاکہتا ہے؟ رسول ﷺ کی سنت کیا ہے؟ مختلف اماموں کا قول کیا ہے؟ محض علمی بن کر رہ جاتی ہیں، جس کی عملی اعتبار سے کوئی افادیت نہیں۔‘‘

ڈاکٹر اسرار احمد مزید لکھتے ہیں کہ ’’تاریخ اسلام میں اہل ایمان کا ایک معاشرہ وجود میں آگیا اور ان میں بحثیت مسلمان جینے اور مرنے کی امنگ پوری طرح پیدا ہوگئی تو انھوں نے آپﷺ سے زندگی گزارنے سے متعلق مختلف سوال کرنے شروع کردیے کہ فلاں مسئلے میں کیا حکم ہے اور فلاں مسئلے میں کیا حکم ہے؟ اور پھر جو بھی جواب ملا اس پر بغیر اپنی عقل لڑائے عمل کیا‘‘۔

یہ بات واقعی بڑی اہم ہے کہ آج ہم میں بحیثیت مجموعی یہ ارادہ نظر نہیں آتا ہے کہ ہم ایک مسلمان کی زندگی جینا چاہتے ہیں، ہاں مرنے کے بعد تو انجام ضرور مسلمان والا چاہتے ہیں، اسی لیے ہم مرنے کے بعد کی وہ رسوم بھی زور و شور سے کرتے ہیں جو محض دل کی تسلی کے لیے ہوتی ہے، قرآن کے پارے بھی زیادہ سے زیادہ تعداد میں پڑھواتے ہیں، خود بھی پڑھتے ہیں مگر مرنے سے پہلے ہم کبھی قرآن کھول کر پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ یہ ایک بڑی اہم بات ہے کہ ہم مسلمان کی زندگی جینے کی طرف توجہ ہی نہیں دے رہے ہیں، یہ وہ بنیادی خرابی ہے جس کے سبب ہماری زندگی کے تمام فیصلے غیر اسلامی ہوتے ہیں۔

اگر ہم فیصلہ کرلیں کہ ہم نے اسلامی زندگی جینی ہے تو پھر ہم اپنا ہر عمل شروع کرنے سے قبل اپنے آپ سے یہ سوال کریں گے کہ ہم جو کچھ عمل کرنے جارہے ہیں اس بارے میں اسلامی حکم کیا ہے؟ اور جس بارے میں ہمیں علم نہیں ہوگا، اس بارے میں عالم دین سے بھی رجوع کریں گے کہ اسلامی تعلیمات کے اعتبارسے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ مثلاً ہم لین دین ہو یا کاروبار، اس میں جھوٹ، دھوکا اور فریب کاری سے کام نہیں لیں گے، حقوق العباد ادا کریں گے اور اگر کسی معاملے میں سود کا مسئلہ درپیش ہوگا تو ہم کسی عالم دین سے بھی رائے لیں گے، وغیرہ وغیرہ۔

اسلامی زندگی جینے کا ارادہ آسان نہیں، کیونکہ اس میں اپنے نفس کی قربانی دینی پڑتی ہے، نیز اس میں عقل کو بھی دخل نہیں ہوتا کہ بس جو شریعت نے حکم دے دیا تو دے دیا، اب اس پر بلا چوں و چرا عمل ہی کرنا ہوتا ہے۔ المیہ ہمارا یہ ہے کہ ہم عقلی اعتبار سے جس جس معاملے میں فائدہ دیکھتے ہیں زندگی کے فیصلے اسی اعتبار سے کرتے چلے جاتے ہیں، یوں ہماری زندگی عملی لحاظ سے کردار سے عاری بھی بنتی جاتی ہے اور غیر اسلامی نظریات کی حامل یعنی سیکولر وغیرہ قسم کی بھی بنتی جاتی ہے۔

ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جو گھریلو اور رشتہ داری کے معاملات میں فیصلے کرتے وقت یہ سوچتے ہوں کہ ہمیں اسلام اس بارے میں کیا حکم دیتا ہے؟ اسی طرح پڑوسیوں سے تعلقات میں، کاروباری معاملات میں کتنے لوگ اس بات کو اہمیت دیتے ہیں کہ انھیں شریعت کیا حکم دیتی ہے؟ اسی طرح اولاد کے مستقبل کے لیے جب ہم فیصلے کرتے ہیں مثلاً کس اسکول میں پڑھانا ہے؟ کیسی اور کس قدر تعلیم دینی ہے؟ کس ماحول میں بچوں کو تعلیم دلوانا درست ہے؟ کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ جن غیر اسلامی ممالک میں اپنے بچوں کو پڑھائی اور بہتر مستقبل کے لیے بھیج رہے ہیں اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟

چند روز پہلے ہی کی ایک خبر کے مطابق ایک سیکولر ملک کے سفارت خانے نے مداخلت کرتے ہوئے ایک پاکستانی لڑکی کو اس کے والدین کی مرضی کے خلاف اپنے ملک واپس بلا لیا، کیونکہ لڑکی اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ بغیر نکاح کے زندگی گزارنا چاہتی تھی، جب کہ والدین اس عمل کے خلاف تھے اور اسی لیے اپنی بیٹی کو پاکستان لے آئے تھے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم فرعون کی زندگی اور انجام موسیٰ کا چاہتے ہیں، ہم کریلے کی بیل لگا کر انگور حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جب تک اپنی زندگی کے بارے میں ہم دو ٹوک فیصلہ نہ کرلیں، نہ تو اس ملک میں کوئی اسلامی انقلاب آسکتا ہے نہ ہی یہ معاشرہ سدھر سکتا ہے۔ آیئے مل کر غور کریں، بحثیت مسلم ہم اپنی زندگی کے کتنے فیصلے کرتے وقت یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے اپنے زندگی بھی بحیثیت مسلمان جینی ہے؟

The post فرعون کی زندگی اور موسیؑ کے انجام کی چاہت appeared first on ایکسپریس اردو.

سبق پڑھ پھر صداقت کا

$
0
0

ان کی عمر تیرانوے (93) سال ہے، پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے لیکن پچھلی کئی دہائیوں سے سیاست سے جڑے ہیں، ملائشیا کی اس نئی نسل نے اس بوڑھے پرائم منسٹر کو سترھویں وزیراعظم کے روپ میں دیکھا ہے جسے انھوں نے خود ہی منتخب بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد سخت محنت کرنے کے عادی ہیں، وہ اپنے ملک کو ترقی کی بلندیوں پر دیکھنے کے ہمیشہ خواہاں رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس عمر میں بھی انھوں نے آرام و سکون کے بجائے اپنے ملک کو ایک اونچے مقام پر دیکھنا چاہا اور اسی راہ کو اختیار بھی کیا۔

کہتے ہیں کہ اگر نیت سچی ہو تو منزل مل بھی جاتی ہے، یہ محض کہنے اور سننے کی بات نہیں ہے بلکہ ڈاکٹر مہا تیر محمد نے ایسا کر دکھایا ہے اور وہ ایسے منصوبوں میں دلچسپی نہیں دکھا رہے جس میں ان کے خیال میں وقت اور پیسے کا ضیاع ہے، مثلاً تیز رفتار ریل کا منصوبہ جس میں سینتیس(37) بلین امریکی ڈالرز خرچ آئے گا اور بقول ڈاکٹر مہاتیر کے وہ ہمیں ایک پائی بھی کماکر نہیں دے گا۔ ظاہر ہے کہ 2026 میں مکمل ہونے والا ہائی اسپیڈ ریل کا منصوبہ اپنی طویل دورانیے کی وجہ سے اور زیادہ لاگت کے باعث ڈاکٹر مہاتر کو وہ نتیجہ نہیں دکھا سکتا جس کی ان کی طویل العمری متحمل نہیں ہوسکتی، گو ان کے اس فیصلے کی وجہ سے مختلف حلقوں میں چہ میگوئیاں اٹھ رہی ہیں لیکن ملائیشیا کی حالیہ صورتحال بقول ڈاکٹر صاحب کہ ابھی اس قدر پائیدار نہیں ہے۔

زر کی کمی کے باعث مسائل در پیش ہیں، اس میں کسی حد تک صداقت ہے یا یہ ایک فرضی کہانی ہے لیکن ڈھلتی عمر کے اس شخص کے وژن کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں کام کرنے اور اپنے ملک کو ایک اعلیٰ مقام پر دیکھنے کی لگن ضرور ہے۔ ملائیشیا کی تاریخ میں طویل ترین وزارت کا عہدہ سنبھالنے والے ڈاکٹر مہاتیر محمد کا ریکارڈ قابل قدر ہے، انھوں نے 1981 سے لے کر 2003 تک وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا، اس کے بعد پندرہ برس تک وہ اس منصب سے دور رہے، اس غیر حاضری میں کسی نے سوچا نہ تھا کہ نوے کی عمر کے بعد بھی ان جیسے بزرگ شخص میں اس قدر جذبہ ہوسکتا ہے جو انھیں ایک بار پھر انتخابات کے ملاکھڑے میں اتار سکے گا، لیکن ایسا ہی ہوا، طویل ترین وزارت کا ریکارڈ قائم کرنے کے بعد ایک بار پھر ان کے لیے میدان سج گیا اور وہ دنیا کے معمر ترین وزیراعظم بن گئے۔

ڈاکٹر مہاتیر محمد کی تاریخ اٹھاکر دیکھیے تو 1925 میں ملائیشیا کے ایک گاؤں میں وہ اس دور میں پیدا ہوئے جب ملائیشیا برطانیہ کی ایک کالونی تھا، ان کی قوم پسماندگی کا شکار تھی۔ پڑھنے کا شوق انھیں اپنے معلم باپ سے ورثے میں ملا، دس بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہونے کے باوجود وہ لاڈلے نہیں بلکہ سخت محنتی تھے، انھوں نے محنت مزدوری بھی کی۔ چائے کیلے اور کافی کی فروخت بھی کی لیکن پڑھائی کو نہیں چھوڑا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ملائیشیا جاپان کے قبضے میں آگیا، جنگ کے بعد انھوں نے اپنی تعلیم دوبارہ شروع کی اور سنگاپور کے ایک میڈیکل کالج میں داخلہ لیا، وہ اپنی دھن کے پکے تھے لہٰذا ایک کامیاب معالج بن کر ابھرے اور اس میدان میں بھی خوب نام کمایا، لیکن اپنی قوم و ملک کی حالت دیکھ کر خدمت کا جذبہ ان میں پنپنے لگا، سیاست میں آنے کا شوق طالب علم سے ہی چرایا تھا۔

1957 تک ملائیشیا پر انگریز قابض رہے پھر جاپانیوں نے مختصر وقت کے لیے ان پر قبضہ کیا، شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے دل میں ان آقاؤں کے خلاف آگ سی بھڑکتی رہی، وہ ان کی چوہدراہٹ کے خلاف تھے لیکن جب انھیں ملائیشیا کی حکومت کرنے کا موقع ملا تو دلچسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے مغرب سے اپنے ملک کے مفاد میں بہت سے ایسے معاہدے کیے جو ملائیشیا کی ترقی و بہتری کے لیے ضروری تھے۔ 1956 تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ایک ملک کی سالانہ فی کس آمدنی 2003 تک جب کہ ڈاکٹر مہاتیر محمد رخصت ہوئے تھے 4036 ڈالرز تھی جو ان کے 2018 تک دوبارہ برسر اقتدار آنے کے بعد 9766 ڈالرز تک پہنچ چکی ہے، یہی وجہ ہے کہ ملائیشیا کو دنیا کا ترقی یافتہ ملک سمجھا جاتا ہے اور اس کے پاسپورٹس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

اگر ہم ملائیشیا کا مقابلہ پاکستان سے کرتے ہیں تو اس سفر میں ملائیشیا ہم سے بہت آگے نظر آتا ہے، جہاں مختلف سیاسی طاقتوں نے اپنے اپنے مزاج اور محرکات کے باعث ان منصوبوں کو خراج دیا جو ان کو آنے والے انتخابات میں ووٹ بینک بڑھانے کا باعث بن سکے، یہی وجہ ہے کہ ہم 1960 کے بعد سے کوئی قابل ذکر ڈیم تک نہیں بناسکے کہ جس کے ذریعے ہم اپنے قیمتی میٹھے پانی کو محفوظ رکھ سکیں۔

سیاحت کے حوالے سے ملائیشیا بہت کام ہوا ہے، ابھی حال ہی میں ایک عزیز کی ملائیشیا سے مختصر ٹرپ کے بعد واپسی ہوئی ہے، جو وڈیو اور تصاویر انھوں نے ہمیں ارسال کی تھیں اسے دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ جیسے وہ سب کسی خوبصورت جادوئی مقام کی ہو، جہاں صفائی ستھرائی اور عظیم تعمیرات و ترقی اپنی زبان خود بول رہی تھی۔ شاید اس عظیم ترقی میں اگر ڈاکٹر مہاتیر محمد کی انتھک محنت کا اثر ہے تو وہیں ان کی قوم نے بھی بھرپور اپنے قائد کا ساتھ دے کر یہ ثابت کردیا کہ ملائیشیا ایک عظیم اسلامی ترقی یافتہ ملک ہونے کے قابل ہے۔

ملائیشیا میں تعلیم کو بہت اہمیت حاصل ہے، ڈاکٹر مہا تیر محمد نے اس سلسلے میں بہت کام کیا ہے انھوں نے خواتین کی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی، آج بھی وہاں اسکولوں میں مفت تعلیم دی جارہی ہے جب کہ یونیورسٹی کے درجے تک بھی اسی طرح کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں تاکہ تعلیم کو حاصل کرنے میں اگر معاشی مسائل درپیش ہوں تو سرکار آگے بڑھ کر اس دشواری کو آسان بنادے، شاید یہی وجہ ہے کہ ملائیشیا کو ایشین ٹائیگرز کی فہرست میں اہم مقام حاصل ہے۔

یہ درست ہے کہ مہاتیر محمد کے دور کا اگر ماضی میں مطالعہ کریں تو کوئی خامیاں ہی نظر آتی ہیں جن میں ایک بڑی خامی پریس کی محدود آزادی اور عوامی احتجاجی مظاہروں کی پابندی یقیناً یہ وہی پابندیاں ہیں کہ جن کے سبب کیا کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا لیکن ملائیشیا کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ملائیشیا ہی ان دونوں ایشوز پر گرفت اسی طرح رکھی گئی کہ عوام اس کی عادی ہوگئی اس کے برخلاف جتنی تیز رفتاری اور کم وقت میں ملائیشیا نے جو مقام حاصل کیا ہے کیا وہ مقام ان ممالک کے مقابلے میں کم ہے کہ جہاں پریس اور عوام آزاد تھے۔

اب اپنے ہی ملک کی مثال لے لیجیے یہاں ہر مہینے میڈیا پر ایک ایسا ایشو اٹھتا ہے کہ جس کے لیے عوام کے منتخب نمائندے اس قدر بحث و مباحثے کرتے ہیں کہ ان کی تمام تر توانائی اسمبلی میں ڈیسک بجاتے اور ٹاک شوز میں ٹاکرا کرتے خرچ ہوجاتی ہے کیا اسی طرح آزادی سے کوئی قوم ترقی کرسکتی ہے جہاں جس پارٹی کا دل چاہتا ہے سڑک بلاک کرکے اپنے مطالبات کی فہرست جاری کردیتا ہے تو دوسری جانب وہ مظلوم عوام بھی سوالیہ نشان بنے نظر آتے ہیں جو ظلم و جبر اور سرکاری محکموں کی طبع آزمائی کا شکار بنتے ہیں تو کسی اور سے نہیں تو سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور پھر پولیس کی شیلنگ اور فائرنگ کا نشانہ بنتے ہیں آج ایک ان پڑھ ٹھیلے والے نے بھی سیکھ لیا ہے کہ سخت گرمی سے بچنے کی کیا تدابیر ہیں، مختصراً یہ کہ اس قوم میں جذبہ بھی ہے اور سیکھنے کا شعور بھی ہے بس کوئی ڈاکٹر مہاتیر محمد کی طرح سکھانے والا استاد آجائے۔

The post سبق پڑھ پھر صداقت کا appeared first on ایکسپریس اردو.


چہرے نہیں سماج کو بدلو

$
0
0

ستر سال سے چہرے بدلتے آرہے ہیں، ہمارا سماج (یعنی سرمایہ داری) جوں کا توں چلا آرہا ہے۔ اگر کسی نے سماج کو بدلنے کی کوششں کی، تو کبھی لیا قت علی خان، تو کبھی حسن ناصر، کبھی ذوالفقار علی بھٹو، کبھی نذیر عباسی اور کبھی ڈاکٹر تاج کو منظر سے ہی غائب کردیا جاتا ہے۔ نتیجتاً ہمارے سماج کی طبقاتی خلیج مزید بڑھتی گئی۔

جو کل لکھ پتی تھے آج ارب پتی بن گئے اور جو تین کمروں میں رہتے تھے، اب ایک کمرے میں منتقل ہوگئے ہیں۔ جو دو روٹی کھاتے تھے، اب ایک روٹی کھانے پر مجبور ہیں۔ ہمیں مذہب، فرقہ، نسل، قوم اور برادری میں تقسیم کرکے طبقاتی کشمکش کو نظروں سے ہمیشہ اوجھل رکھا جاتا آرہا ہے۔ مگر عوام اپنے مسائل سے دوچار ہوکر ہر جگہ اور ہر علاقے میں کہیں مزدور، کہیں کسان، کہیں کلرک، کہیں چرواہے، کہیں لیڈی ہیلتھ ورکرز، کہیں اساتذہ، کہیں طلبا، کہیں نوجوان اور کہیں خواتین اپنے حقوق کے لیے لڑتے نظر آتے ہیں۔ انھیں دبانے اور کچلنے کے باوجود ہر موقع پر اپنے مسائل پر طبقاتی جنگ میں نبرد آزما نظر آتے ہیں۔ ہمارے ملک کا نظام سرمایہ کاری، عالمی سرمایہ داری کا ہی حصہ ہے۔ عالمی سرمایہ داری انتہائی بحران کا شکار ہے۔ وہ اپنے اپنے مفادات کے لیے آپس میں الجھتے رہتے ہیں۔

حال ہی میں اسرائیل نے متنازع علاقے بیت المقدس کو دارالخلافہ بنانے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسے تسلیم کرنے پر فرانس نے مکمل طور پر اس سے اختلاف کیا ہے۔ ایران سے امریکا کے ایٹمی معاہدے کے توڑنے سے یورپ میں تیل کی قیمت بڑھ گئی، جس پر یورپی یونین کے صدر نے کہا کہ آج تیل کی قیمت بڑھی ہے، کل اجناس کی قیمتیں بڑھ جائیں گی اور لوگ سڑکوں پر آئیں گے۔

امریکی رکاوٹ پر جاپان نے امریکا کو امن کی پیشرفت میں مثبت کردار ادا کرنے کا مشورہ دیا۔ ہالی ووڈ کی معروف گلوکارہ شکیرا نے اقوام متحدہ میں معروف انارکسٹ گلوکار جان لینن کا گیت (قیاس تو کرو) گایا، جس میں دنیا کو ایک کرنے اور برابری کی بات کی گئی تھی۔ اب اسرائیل میں شکیرا نے وہی گانا گانے سے منع کردیا کہ کہیں میرا گیت اسرائیل کی حمایت میں نہ سمجھا جائے۔ ہم فلسطین پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف ہیں۔

اسی طرح اسد درانی نے پاک و ہند کی دوستی کی بات اپنی کتاب میں کی ہے، جس میں انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس عمل سے دفاعی اخراجات میں کمی آئے گی۔ میرے خیال میں یہ بات کوئی منفی نہیں، بلکہ برصغیر کے عوام کے حق میں جاتی ہے۔ ہاں مگر جب اسد درانی نے آئی جے آئی (دائیں بازو کا اتحاد) کو جتوانے کے لیے بینک سے پیسے لے کر بانٹے تھے، یہ عمل غیر قانونی اور غیر اخلاقی تھا۔ یہ حلف اٹھاتے ہیں کہ ہم سیاست میں حصہ نہیں لیں گے، وطن کے تحفظ کے لیے قسسم کھاتے ہیں۔ اس کے خلاف آج تک ان کو کوئی کوئی شوکاز نوٹس نہیں ملا۔

درانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کو کم از کم یورپی یونین جیسا اتحاد بنانا چاہیے، جہاں ایک ہی سکہ ہوگا، تجارت اور اتحاد ہوگا۔ عالمی سامراج نے یورپی یونین، نافٹا، آسیان، سارک اور خلیج تعاون کونسل وغیرہ بنایا ہے۔ مگر اس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اجناس کی قیمت کم ہوئیں اور نہ روزگار میں اضافہ ہوا اور نہ امن قائم ہوا۔ چونکہ عالمی سرمایہ داری انحطاط پذیری کا شکار ہے، اس لیے وہ خطوں کا اتحاد بنا کر اس بحران سے نجات چاہتا ہے، جب کہ یہ ناممکن ہے۔ ابھرتی ہوئی معیشت کے لیے بریکس کو تشکیل دیا گیا لیکن اس کی صوتحال بھی دگرگوں ہے۔

چین کا گروتھ ریٹ گیارہ فیصد سے گھٹ کر چھ فیصد، برازیل کا دو فیصد اور ساؤتھ افریقہ کا ایک عشاریہ پانچ فیصد جب کہ ہندوستان کا سات فیصد اور یورپی یونین کا گروتھ ریٹ دو فیصد پر آگیا ہے۔ جب یورپی یونین اور بریکس کی صورتحال پتلی ہے تو پھر جنوبی ایشیا کی یونین بننے سے کیا فرق پڑے گا۔ ہاں مگر پاکستان اور ہندوستان امن سمجھوتہ کرلیں تو فرق پڑے گا۔ تجارت، ثقافت اور معیشت میں بہتری آئے گی۔ دفاعی اخراجات لامحا لہ کم ہوجائیں گے۔

عوام کے ذہنوں سے جنگی تناؤ کم ہوکر ذہنی صحت بہتر ہوگی، دفاع پر خرچ کیے جانے والے اخراجات صحت، تعلیم و ترقی پر خرچ ہوں گے تو عوام بھی صحت مند اور تعلیم یافتہ ہوگی۔ اسد درانی کی کتاب پر بورژوا (سرمایہ دار) سیاست دان چراغ پا نظر آتے ہیں۔ پرویز مشرف جب انڈین حکومت اور عمران خان مودی سے ملاقات کرتے ہیں تو کوئی شور شرابا نہیں ہوتا، نواز شریف کے ملنے پر اعتراض اٹھائے جارہے ہیں۔ اس پر ایک سوالیہ نشان اٹھتا ہے۔ آخر ایسا کیوں؟

معروف انقلابی دانشور اور انارکسٹ رہنما کامریڈ پیٹر کروپوتکن نے کہا تھا کہ ’’جن پر تنقید نہیں کرسکتے ہیں، وہی اصل حکمران ہیں۔‘‘ وہ اکثر پردے کے پیچھے ہوتے ہیں، آج کل ان کی جھلکیاں بھی نظر آنے لگی ہیں۔ ہمارے ہاں تبدیلی کی بوچھار آئی ہوئی ہے۔ دراصل یہ تبدیلی برسوں سے آرہی ہے۔ سب سے پہلے لائل پور کا نام ایک بادشاہ کے نام پر فیصل آباد رکھا گیا، بلوچستان کو پاکستان میں شامل کیا گیا، گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ بنایا گیا، سرحد کا نام خیبرپختونخوا اور اب فاٹا کو کے پی کے میں ضم کردیا گیا۔ بات دراصل یہ ہے کہ ناموں، خطوں، ملکوں، علاقوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے یا توڑنے سے عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے، جب تک نظام کو نہیں بدلا جاتا۔

ہندوستان، برما، پاکستان اور بنگلہ دیش بن گیا۔ ان چاروں ملکوں میں بھوک، افلاس، غربت، بے روزگاری، ناخواندگی، بیماری اور بے گھری عروج پر ہے۔ لائل پور فیصل آباد بنے ہوئے برسوں ہوگئے مگر آٹا سستا نہیں ہوا۔ بلوچستان کو پاکستان میں شامل ہوئے بھی برسوں گزر گئے لیکن بلوچ عوام کے استحصال میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، سرحد کا نام خیبرپختونخوا ہوگیا، مگر بجلی، پانی، روزگار ملا اور نہ صحت۔ اب فاٹا کی باری ہے۔

جب کشمیر کے عوام کو میڈیکل کالج، انجینئرنگ یونیورسٹی، مل، کارخانے اور نہ روزگار ملا، سارے کشمیری دنیا بھر میں اور پاکستان میں مارے مارے پھر رہے ہیں، تو اب فاٹا کے باسیوں کو کیا ملے گا؟ ہاں مگر وہاں صنعتوں کا جال بچھایا جائے، زراعت کو فروغ دیا جائے، ہیروئن کی تیاری کی فیکٹریوں کو تباہ کردیا جائے تو وہاں کے عوام کو صحت، تعلیم، روزگار، معقول رہائش، گیس، بجلی اور بنیادی سماجی ڈھانچہ مہیا کیا جائے تو پھر ان کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی کمیونسٹ سماج میں ہی ممکن ہے۔

The post چہرے نہیں سماج کو بدلو appeared first on ایکسپریس اردو.

طلوع سحر تو ہوگی

$
0
0

آج ابھی صبح میں نے کرشن چندر کا افسانہ پڑھا ہے۔ افسانے کا نام ہے ’’بے وقوفی‘‘۔ چند سطریں اس افسانے کی۔

’’ایک دفعہ کا ذکر ہے میں اور میرا دوست امام دین ایک جنگل سے گزر رہے تھے۔ دوپہر کا وقت تھا۔ چاروں طرف ایک پرستانی خواب کا منظر تھا۔ فرش پر چیڑ کے نوکیلے پتوں کے گچھے ایک نرم اور گداز غالیچے کی طرح بچھے ہوئے تھے۔ پرندے ٹہنیوں پر اونگھ رہے تھے۔ چند بھیڑیں چر رہی تھیں۔ باقی ایک بڑے درخت کے نیچے آرام کر رہی تھیں۔ اس سناٹے میں چشمے کا پانی بھی سویا ہوا معلوم ہوتا تھا۔

اس چشمے کے قریب ہی ایک چرواہی اپنا ہاتھ سر کے نیچے رکھے ہوئے سو رہی تھی۔ ہمارے قدم ہمیں اس سوئی ہوئی حسینہ کے پاس لے گئے۔ یہ جنگل ایک خاموش قلعہ تھا، ایک پرستانی قلعہ۔ اور یہ خوبصورت لڑکی جنگل کی شہزادی تھی، جو غالباً سو سال سے یہیں سو رہی تھی۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا شاید ایک ہی خیال، ایک ہی لمحے، ایک ساتھ ہمارے دلوں میں پیدا ہوا اور ہم دونوں آگے بڑھے۔

قریب سے ایک بھیڑ زور سے چلائی باآآآآآآ۔۔۔۔

لڑکی نے آنکھیں کھول دیں۔ دو اجنبیوں کو اپنے قریب کھڑا دیکھ کر وہ جلدی سے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی اور اپنی پریشان لٹیں ٹھیک کرنے لگی، پھر مسکرا کر بولی ’’چشمے سے پانی پینا چاہتے ہو؟‘‘

’’ارادہ تو ہے۔‘‘ امام دین نے کہا۔

لڑکی جلدی سے بولی ’’اچھا تو پی لو۔ میری یوں ہی آنکھ لگ گئی تھی، چشمے کے کنارے بہت ٹھنڈک ہوتی ہے ناں!‘‘

گو پیاس نہیں تھی، پھر بھی پانی پینا پڑا۔ جب ہم پانی پی چکے تو لڑکی نے پوچھا ’’ہم پردیسی ہیں‘‘ امام دین نے معنی خیز نگاہوں سے لڑکی کی طرف دیکھ کر کہا ۔

’’اور دیس والوں کو پردیسیوں کا خیال ضرور رکھنا چاہیے۔‘‘

لڑکی نے بھولپن سے کہا ’’یہاں سب پردیسی ہیں۔‘‘

’’افوہ۔۔۔۔امام دین نے مجھ سے کہا ’’یہ تو معرفت کی باتیں کرنے لگی۔‘‘

بس مجھے اتنا ہی افسانہ لکھنا تھا۔ کبھی موقع لگے تو یہ مختصر سا افسانہ پڑھ لیجیے گا۔ کرشن چندر نے افسانے میں گاؤں دیہات میں رہنے والوں کی سادگی کو بیان کیا ہے کہ شہر کی چلتربازیاں دیہاتیوں میں نہیں ہوتیں۔ کرشن چندر کے افسانے کی لڑکی بھی سو سال سے وہیں چشمے کے کنارے سو رہی ہے، اور آج اس افسانے کے کئی سال بعد بھی، نیند کا یہی عالم ہے۔

تقریباً 10 سال پہلے نواب شاہ جانا ہوا۔ دو ، تین دوست بھی ساتھ تھے، ہماری بس کا ٹائر پنکچر ہوگیا، بس کی رفتار کم تھی، سو بچت ہوگئی اور رفتار یوں بھی کم تھی کہ ایک بڑا اہم گاؤں تھا، بس کو رکنا تھا۔ سواریوں کو اترنا چڑھنا تھا۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور بس سے اتر گیا۔ وہیل بدلنے کے لیے وقت درکار تھا۔ سامنے ہی ایک سگریٹ پان کا چھوٹا سا لکڑی کا کھوکھا تھا۔ ٹافیاں، ماچس اور شاید سرف، صابن بھی تھا۔ دکاندار کی عمر 40 سال کے لگ بھگ تھی۔ میں نے اس کو سلام کیا اور پوچھا ’’اس ویرانے میں یہ چھوٹی سی دکان تمہارے اور بال بچوں کا بوجھ اٹھا لیتی ہے؟‘‘ میرے سوال پر وہ ذرہ برابر پریشان نظر نہیں آرہا تھا۔ اس نے جواب دیا ’’سائیں! یہ دکان تو وقت گزاری کے لیے ہے، اصل میں ہمارے بال بچوں کا خرچہ ہمارا سائیں اٹھاتا ہے۔ اسی کی زمین پر ہمارا گھر ہے۔ وہ جب بھی شہر سے آتا ہے تو ہم اس کو سلام کرنے جاتے ہیں۔ سائیں کا منشی پورے گاؤں والوں کو بتا دیتا ہے کہ سائیں اس وقت ملاقات کریں گے۔ تو ہم اس وقت پہنچ جاتے ہیں۔ ہم وڈیرا سائیں کو ہاتھ جوڑ کر سر جھکا کر سلام کرتے ہیں اور پھر وڈیرا سائیں پانچ سو روپے کا نوٹ فرش پر پھینک دیتا ہے۔ ہم وہ نوٹ اٹھا کر وڈیرہ سائیں کو دعائیں دیتے باہر آجاتے ہیں۔‘‘ میں نے ایک اور سوال کردیا۔ ’’اور تمہارے بچے بچیوں کی شادی کا خرچہ کون۔۔۔۔؟‘‘ اس دکاندار نے کہا ’’وہ سب بھی ہمارا وڈیرا سائیں کرتا ہے۔ کھانا، جہیز کا سامان سب ہمارا سائیں کرتا ہے، نکاح کے بعد لاڑا لاڑی سائیں کو سلام کرنے اور اس کی دعائیں لینے جاتے ہیں۔‘‘

کرشن چندر کے افسانے کی لڑکی بھی صدیوں سے سو رہی ہے اور آج بھی دیہاتوں میں غریب اسی طرح سو رہے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ آج کے وڈیروں، چوہدریوں، خانوں، سرداروں، مجاوروں کو غریب کہلانے کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے، کیونکہ ٹیلی ویژن نے شہر اور گاؤں کے فاصلے مٹا دیے ہیں۔ مگر جبر، جنگ، خونخواروں کے مظالم کم نہیں ہوئے بلکہ اور بڑھ گئے ہیں۔ کلف لگے سفید کپڑے پہنے زمیندار، غریبوں کو سرعام تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور انھیں کوئی روکنے والا نہیں۔

بے نظیر کو کھو کر پانچ سال ظلم کے پیروں میں گزر گئے۔ اگلے پانچ سال میں بھی ہاریوں کے ہاتھ کٹتے رہے۔ شکاری کتے غریبوں کو بھنبھوڑتے رہے۔ اسمبلیوں کے ممبران کی موج مستیاں جاری رہیں۔ سوئس بینک کے بعد مے فیئر اپارٹمنٹ بھی قصہ کہانی بن جائے گا۔ اور خوف کے سائے یوں ہی سر پر رہیں گے۔ لگتا ہے ’رات کے بعد اک رات نئی آ جائے گی۔‘‘ الیکشن پر ہی تکیہ نہ کر بیٹھنا، اس صدیوں کے ظالمانہ نظام کو بدلنا ہے۔ ہم نے ہمت نہیں ہاری، ہم دیکھ رہے ہیں، ظالم ختم ہوں گے۔ جالب کا  شعر  اور اجازت

اٹھائیں لاکھ دیواریں طلوع مہر نے

یہ شب کے پاسباں کب تک نہ ہم کو راستہ دیں گے

The post طلوع سحر تو ہوگی appeared first on ایکسپریس اردو.

اسٹریٹ چلڈرن نہیں، اسٹیٹ چلڈرن!

$
0
0

اِس شاندار محفل میں بہت سے اخبار نویس بھی شریک تھے، ٹی وی اینکرز بھی، کالم نگار بھی اور سیاستدان بھی۔ رمضان المبارک کے دوسرے عشرے میں، جب کہ گرمی بھی عروج پر تھی اور نون لیگی حکومت کے بھی آخری دن تھے، نصف درجن کے قریب سیاستدانوں کا اس محفل میں آجانا حیرت انگیز تھا۔ خاص طور پر جب آنے والوں کو بخوبی معلوم تھا کہ وہ ایک ایسی مجلس میں شریک ہو رہے ہیں جو ملک بھر کے انتہائی پسماندہ، تہی دست اور غریب بچوں کی دلجوئی اور دستگیری کے لیے سجائی جا رہی ہے۔

تقریب کا اہتمام اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب، جسے طارق چوہدری صاحب کی صدارت میں ایک نیا رنگ رُوپ دیا گیا ہے، میں کیا گیا تھا۔ مہتمم سید ضیاء النور صاحب تھے۔ آپ عالمی شہرت یافتہ این جی او ’’مسلم ہینڈز‘‘ کے کنٹری ڈائریکٹر ہیں۔ پاکستان میں ’’مسلم ہینڈز‘‘ نے تعلیم، سماجی خدمات اور زلزلہ و سماوی آفات کے متاثرین کی اعانت کرنے میں نئی مثالیں قائم کی ہیں۔

اِس ادارے کے بانی سید لخت حسنین،بھیرہ شریف کی ایک منفرد شان کے حامل دینی ادارے کے فارغ التحصیل ہیں۔مفسرِ قرآن پیر کرم شاہ الازہری علیہ رحمہ کو وہ اپنا مرشد مانتے اور اُنہی کے قائم کردہ راستے کے ایک مخلص مسافر ہیں۔ وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ’’مسلم ہینڈز‘‘ پیرومرشد قبلہ کرم شاہ الازہری علیہ رحمہ کی دعاؤں کا ثمر اور نتیجہ ہے۔ پیر صاحب کے وصال کے بعد بھی لخت حسنین صاحب اور اُن کے برادرِ خورد، سید ضیاء النورصاحب،نے بھیرہ شریف میں اپنے مرشد کی چوکھٹ نہیں چھوڑی۔ وہ اب پیر صاحب مرحوم و مغفور کی آل اولادکے قدموں میں بیٹھنا، اُن سے ہر قدم پر فیض اور رہنمائی حاصل کرنا اپنے لیے برکت اور سعادت سمجھتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے تعلیم کے میدان میں ’’مسلم ہینڈز‘‘ کو قابلِ ذکر کامیابیوں سے نوازا ہے، شائد اس لیے کہ اُن کے اسکولوں میں زیادہ تر تعلیم غریب اور نادار طبقات سے تعلق رکھنے والوں کے لیے تقریباً مفت ہے۔ بیشتر طلبا وطالبات کے لیے مکمل طور پر مفت۔ اللہ کریم نے پھر یوں کرم فرمایا کہ آج ملک بھر میں اُن کے ادارے کے تحت تین سو جدید اسکول بروئے کار ہیں۔ اِن میں40 ہزار کے قریب طلباو طالبات زیر تعلیم ہیں۔ اسکول کے اسٹاف میں1700لوگ شامل ہیں۔ یوں اندازہ لگانا دشوار نہیں ہے کہ ادارہ مذکور کس اسٹیٹس کا حامل ہے۔

اسلام آباد نیشنل پریس کلب میں منعقدہ اِس تقریب میںنون لیگ کے سینیٹر جنرل(ر) عبدالقیوم، پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر، ایم کیو ایم کے سینیٹر میاں عتیق شیخ، جے یو آئی (ایف) کے سینیٹر مولانا غفور حیدری، پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل جاوید خان اور پختون خوا ملّی عوامی پارٹی کے سینیٹر محمدعثمان خان کاکڑموجود تھے۔ پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کے نمایاں سینیٹر صاحبان ’’مسلم ہینڈز‘‘ کی اس محفل میں شریک ہو کر گویا ثابت کر رہے تھے کہ سبھی جماعتیں اِس ادارے یا این جی او کی خدمات سے بخوبی آگاہ ہیں۔

وہاں بہت سے معزز ماہرینِ تعلیم بھی تشریف فرما تھے۔ مثال کے طور پر: قائد اعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اشرف صاحب، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل فرمان انجم صاحب اور کامسیٹس یونیورسٹی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جنید زیدی صاحب بھی موجود تھے۔مقصد یہ تھا کہ ہمت والی پاکستان اسٹریٹ چلڈرن ٹیم ماسکو سے فٹ بال ورلڈ کپ دوسرے نمبر پر جیت کر جس شان اور آن بان سے واپس پاکستان آئی ہے، اُن کی ہمت افزائی بھی کی جائے، اُن کے لیے تالیاں بھی بجائی جائیں، انھیں انعام و اکرام سے بھی نوازا جائے اور اُن کی زبانی یہ بھی سُنا جائے کہ انھوں نے غربت و عسرت کے اندھیروں اور مایوسیوں سے نکل کر کیسے اور کیونکر یہ بے مثال منزل طے کی ہے۔

سارے ملک کے تمام صوبوں اور آزاد کشمیر کے اسٹریٹ چلڈرن سے لڑکوں کا انتخاب کرکے انھیں فٹ بال کی منفرد ٹیم بنانے کی ٹھان لی۔ پاکستان میں فٹبال کے بہترین کوچ، رشید صاحب، کی خدمات حاصل کی گئیں جنہوں نے اِن چنیدہ اسٹریٹ چلڈرن کو ایسے چمکا دیا کہ وہ مغربی دنیا میں کئی فٹبال ٹیموں کے مقابل اُترے۔ پہلے سویڈن پہنچے۔ سید ضیاء النور صاحب اُن کے ساتھ ساتھ تھے۔ سب کا یہی کہنا تھا کہ آپ دوسرے نمبر پر نہیں بلکہ پہلے نمبر پر ہی آئے ہیں۔ اِس حوصلہ افزائی پرسامنے بیٹھی ٹیم کے سبھی کھلاڑیوں کے چہرے کھِل اُٹھے۔شاباشی کے الفاظ بھلا کسے اچھے نہیں لگتے؟

بتایا گیا کہ پاکستان میں اسٹریٹ چلڈرن کی کُل تعداد 17لاکھ جب کہ بھارت میں اِن کی تعداد کوئی ڈیڑھ کروڑ ہے۔ پاکستانی اسٹریٹ چلڈرن کے مقابلے میں مگربھارتی اسٹریٹ چلڈرن وہ اعزاز حاصل نہیں کر سکے ہیں جو ’’مسلم ہینڈز‘‘ کے تیار کردہ کھلاڑیوں کے حصے میں آیا ہے۔مذکورہ ادارے کے کنٹری ڈائریکٹر سید ضیاء النور نے سامعین کو بتایا کہ جب ہمارے یہ بچے ماسکو روانہ ہونے لگے تو صدرِ مملکت جناب ممنون حسین نے انھیں ایوانِ صدر مدعو کیا اور اپنے دستِ مبارک سے تمام کھلاڑیوں کو پاکستانی پرچم دیے، یہ کہہ کر کہ ’’میرے بچو، اس پرچم کی لاج رکھنا۔‘‘

یہ منظر بڑا ہی جذباتی تھا۔اب جب کہ ہمارے یہ بچے ماسکو سے اسٹریٹ چلڈرن ورلڈ کپ فٹبال کا معرکہ مار کر آئے ہیں، جناب نواز شریف، عمران خان صاحب اور بلاول زرداری صاحب کو بھی انھیں اپنے ہاں مدعو کرکے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اب تو انتخابات بھی آنے والے ہیں۔ دعوتوں سے ممکن ہے پورے پاکستان میں اِن کھلاڑیوں کے احباب ، رشتہ داروں کے ووٹ بھی دعوت دینے والوں کی طرف کھنچتے چلے جائیں۔

پاکستان کے گلی کوچوں میں بے مقصد گھومنے پھرنے والے اِن بچوں کی قسمت میں یہ تو نہیں لکھا ہے کہ وہ یُونہی ساری عمر خجل خوار اور بے نوا رہیں گے۔ وہ بھی ہمارے دیگر بچوں کی طرح کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اُن کے پوشیدہ اور خبیدہ ٹیلنٹ کو دمکایا اور چمکایا جا سکتا ہے۔ آخر میں یہ ہمارا ہی قومی اثاثہ بنیں گے۔محفل میں موجود معزز سامعین صاحبان کا یہ بھی بیک زبان کہنا تھا کہ ہمارے اِن اسٹریٹ چلڈرن کو یہ احساس دلانا ہو گا کہ وہ دراصل اسٹیٹ چلڈرن ہیں۔ ریاستِ پاکستان اُن کی ذمے دار اور سرپرست ہے۔

اگر یہ ریاستی محبت میسر آ جائے تو سماج کی بہت سی اُلجھنوں کو سلجھایا جا سکتا ہے۔ یہ محفل اُس وقت مزید کھِل اُٹھی جب ’’مسلم ہینڈز‘‘ کے کنٹری ڈائریکٹر نے اعلان کیا کہ پاکستان اسٹریٹ چلڈرن کی اِس فٹبال ٹیم( عبداللہ صاحب جس کے کپتان ہیں) کے ہر کھلاڑی کو ادارے کے سربراہ، سید لخت حسنین ،کی طرف سے ایک ایک لاکھ روپے کا نقد انعام دیا جائے گا۔ اعلان سُنتے ہی نہائت غریب والدین کے اِن ٹیلنٹڈ بیٹوں کی مسرت دیدنی تھی۔

کامسیٹس یونیورسٹی، قائد اعظم یونیورسٹی اور ہائر ایجو کیشن کمیشن کے موجودذمے داران کی طرف سے اِس اعلان کی بھی بڑی ستائش و تحسین کی گئی کہ اگر یہ بچے ایف ایس سی تک اچھے نمبروں سے پہنچ جائیں تو آگے کی اعلیٰ تعلیم کے جملہ اخراجات وہ برداشت کریں گے۔ جو پاکستانی بچے ماسکو جا کر پاکستان کے لیے میدان مار سکتے ہیں، اُن کے سامنے ایف ایس سی کا میدان مارنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔جاتے جاتے ایک خوشخبری بھی۔

شنید ہے کہ ’’مسلم ہینڈز‘‘ کے ذمے داران بھیرہ شریف میں ’’الکرم انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے نام سے ایک شاندار یونیورسٹی بھی بنانے جا رہے ہیں۔ پیر امین الحسنات شاہ صاحب کی دعاؤں سے شاہد خاقان عباسی صاحب نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے آخری ایام میں اِس کی منظوری دے دی تھی۔ ہماری طرف سے پیشگی مبارکباد!!

The post اسٹریٹ چلڈرن نہیں، اسٹیٹ چلڈرن! appeared first on ایکسپریس اردو.

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں 

$
0
0

پیر و مرشد نے کہا تھا کہ

رات دن گردش میں سات آسماں

ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا؟

یہ تو معلوم نہیں کہ مرشد کا اشارہ کن آسمان کی طر ف تھا اور وہ کونسے ’’کچھ نہ کچھ‘‘ کے منتظر تھے لیکن ہمارے ساتھ ایسا کوئی مسٔلہ نہیں ہے۔ ہمیں وہ سات آسمان بھی معلوم ہیں جو کہ گردش کر رہے ہیں گردش کا بھی پتہ ہے کہ کیسی گردش ہو رہی ہے اور اس کا بھی پتہ ہی کیا ’’کچھ نہ کچھ‘‘ ہونے والا ہے اور ہو کر رہے گا لیکن پرابلم یہ ہے کہ :

ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہیں

ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

اور یہ تو ہم آپ کو کئی بار بتا چکے ہیں کہ ہم نہ تو کچھ زیادہ ’’پشتون‘‘ ہیں اور نہ ہی خالص قسم کے مومن جو کلمہ حق بلند کرکے خود کو شہادت کے مرتبے پر فائز کر دیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج تک زندہ موجود ہیں کسی بوری میں گٹر میں یا کسی بند کمرے میں نہیں پہنچے ہیں اس کے لیے ہم اپنے لطیف چوہدری کے شکر گزار ہیں ورنہ ہم تو یوں سمجھئے کہ اب تک نہ جانے کس جہاں میں کھو چکے ہوتے۔ اب کے تو مرگ مفاجات کے ساتھ ساتھ ’’مقدسات‘‘ کی بے حرمتی کا خطرہ بھی سر پر منڈلا رہا ہے کیونکہ ان سات آسمانوں میں ایک آسمان مقدسات کا بھی ہے جس کی توہین کا الزام کسی بھی بات کے لیے لگ سکتا ہے۔

ویسے بھی ہمارے بتانے نہ بتانے سے کچھ فرق پڑھنے والا نہیں ہے کہ یہ پبلک ہے سب جانتی ہے یہ الگ بات ہے کہ اس کی یادداشت فلم گجنی کے عامر خان جیسی ہے۔ اب یہ جو رات دن گردش میں ہیں سات آسمان اور ان میں ’’ستارے‘‘ آسمانوں سے بھی زیادہ مائل بہ گردش ہیں۔ ان کے بارے میں جو بات ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ سارا میلہ سارا تام جھام صرف اس بد نصیب کی ’’چادر‘‘ چرانے کے لیے ہے جس نے ہر میلے میں ’’چادر‘‘ کھوئی۔ لیکن اس بار شاید چار دیواری سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے اور ’’چارے‘‘ سے بھی جس کی ٹانگیں ’’چار‘‘ نہیں ہیں لیکن ایسے ظالموں سے دو چار ہوا ہے جو اسے مکمل طور پر چار پایہ اور ’’چارپائی‘‘ دونوں بنا چکے ہیں وہ بھی کچھ ایسا ویسا نہیں پرانے زمانے میں تو یہ پہیلی پوچھی جاتی تھی کہ بتاؤ وہ پرندہ کونسا ہے جس کے سر پر پیر ہوتے ہیں لیکن آج کل اسے الٹا کر کہا جاتا ہے کہ وہ کونسا پرندہ ہے جس کے ’’پیر پر سر‘‘ ہوتا ہے اور وہ کون سا جانور ہے جو انڈے بھی دیتا ہے اور دودھ بھی دیتا ہے جس کی اون بھی کھائی جاتی ہے اور کھال بھی اتاری جاتی ہے وہ کھال جس کے ’’حقدار‘‘ بے شمار ہوتے ہیں اور مستحق بے قطار۔ بلکہ ہم نے آپ کو ایک گائے کا قصہ بھی بتایا تھا جو سب کچھ پیدا کر دیتی تھی اور پھر برھمن اور کشتری میں اس کے لیے پھڈا پڑ گیا اور آخر کار دونوں ساجھے دار بن گئے کہ تو دودھ اور مجھے بھی دوہنے دو اور وہ دونوں دھو رہے ہیں۔ اور یہ جن ’’سات آسمانوں‘‘ کا ہم نے ذکر کر دیا ہے کہ آج کل بڑی تیزی سے رات دن گردش میں ہیں یہ بھی اسی گائے کا جھگڑا ہے۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہم ان سات آسمانوں کا نام یا ویئر اباؤٹ آپ کو بتادیں گے تو آپ کی غلط فہمی ہے کیونکہ اس کا کوئی فائدہ ہے ہی نہیں کوئی چاہے آپ کو کتنا بھی سمجھائے آپ کریں گے وہی جو کرتے آئے ہیں۔ ہم وہ خدائی خدمت گار فیلسوف نہیں ہیں جس کو طوطوں پر رحم آگیا تھا اور اس نے طوطوں کو تعلیم دینا شروع کیا کہ ہم شکاری کے نرکل پر کبھی نہیں بیٹھیں گے اور اگر بیٹھیں گے تو پھڑ پھڑا کر اڑ جائیں گے۔ اپنے خیال میں اچھی طرح سمجھانے کے بعد وہ فیلسوف مطمئن ہوگیا کہ اب یہ طوطے کبھی شکاری کے ہاتھ نہیں لگیں گے۔ لیکن صبح جا کر دیکھا تو اس کے سارے شاگرد بلکہ فارغ  التحصیل اور کوالیفائڈ طوطے شکاری کے نرکل پر لٹک رہے اور آموختہ دہرا رہے ہم شکاری کے نرکل پر کبھی نہیں بیٹھیں گے اگر بیٹھیں گے تو پھڑ پھڑا کر اڑ جائیں گے او ر اپنے آموختے میں اتنے مصروف تھے کہ شکاری انھیں پکڑ کر پنجرے میں ڈال رہا تھا اور یہ پنجرے میں بھی آموختہ دہرا رہے تھے۔

مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا

اسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا

لیکن ان آسمانوں میں آج کل ایک نئے آسمان کا اضافہ کچھ معمول سے ہٹ کر ہے جو نہ صرف گرجتا بھی ہے بلکہ برستا بھی ہے بلکہ اپنے اندر بجلیاں بھی کھڑکاتا رہتا ہے اور ہمارے لیے سب سے بڑ معمہ یہ آٹھواں آسمان ہے کہ یہ آیا کہاں سے یا ہے بھی کہ نہیں صرف بادل ہی بادل ہیں جو گرج گرج کر بغیر برسے چلے جائیں گے اور پیاسے ویسے ہی دشت وبیابان میں رہزنوں کے ہاتھوں لٹتے رہیں گے۔ سیرابوں کے پیچھے دوڑ دوڑ کر پیاسے ہی پیاسے مرجائیں گے۔

پھر بہار آئی وہی دشت نوردی ہوگی

پھر وہی پاؤں وہی خار مغیلاں ہوں گے

سنگ اور ہاتھ وہی اور وہی ’’سر‘‘ اور داغ جنوں

وہی ہم اور وہ ہی دشت و بیاباں ہو ں گے

ہاں یہ آٹھواں آسمان تھا تو یہ پہلے بھی۔ لیکن اتنا نہیں تھا جتنا اب دکھائی دیتا ہے کیا یہ واقعی مستقل ایک آٹھواں آسمان بننے جا رہا ہے جس میں نئے ستارے اور نئے سیارے ہوں گے یا یہ ایک عارضی گردش کا زمانہ ہے کچھ سمجھ میں نہیں آتا باقی کے سات آسمان تو جانے پہچانے ہیں ان کی گردش بھی اور ستارے سیارے بھی کہ ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر نکلے ادھر ڈوبے۔

زمانہ عہد میں اس کے محو آرائش

بنیں گے اور ستارے اب آسمان کے لیے

بہر حال ایک بات جو یقینی ہے وہ یہ ہے کہ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ لیکن کالا نعاموںکو خاطر جمع رکھنا چاہیے کہ جو کچھ بھی ہو گا اس میں تمہارا کچھ بھی نہ ہوگا تمہاری قسمت میں نعروں اور نالوں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔

نالے ازل میں چند ہمارے سپرد تھے

جو واں نہ کھچ سکے تو وہ یاں آ کے دم ہوئے

آخر میں وہی ایک بات ذہن میں آتی ہے جو آج کل ہمیشہ آرہی ہے بلکہ ذہن سے نکل کر ہی نہیں دے رہی ہے کہ کیا وہ جو ایک شرم نام کی چیز ہوا کرتی تھی کیا اسے کسی ’’دنبے‘‘ کی طرح ذبح کر دیا گیا ہے۔

شرم اک ادائے ناز ہے اپنے سے ہی سہی

ہیں کتنے بے حجاب جو یاں ہیں حجاب ہیں

The post رات دن گردش میں ہیں سات آسماں  appeared first on ایکسپریس اردو.

راستہ دو

$
0
0

جمہوریت کے عشاق رائج الوقت جمہوریت کے اسرار و رموز کو سمجھے بغیر آنکھ بند کرکے جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں تو حیرت کے ساتھ سخت افسوس ہوتا ہے کہ کیا ان حضرات کو ملک بھر میں جمہوریت کے حسین مناظر نہیں نظر آرہے۔ جب کوئی جمہوریت کی بدترین صورتحال کا رونا روتا ہے تو اسے یہ کہہ کر تسلی دی جاتی ہے کہ جمہوریت کے تسلسل سے ہی جمہوریت بہتر ہوگی۔

جمہوریت کا تسلسل ہمارے ملک میں 70 سال سے جاری ہے اور ہر آنے والے دن میں جمہوریت مزید بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت کے حامی حضرات دانستہ یا نادانستہ طور پر یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہمارے ملک میں جو جمہوریت رائج ہے وہ اشرافیہ کی آمریت ہے جسے جمہوریت کا نام دے کر عوام کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت عوام سے عبارت ہوتی ہے یعنی جمہوریت میں بالادستی عوام کی ہوتی ہے اس حقیقت کا اظہار جمہوریت کے متعارف کنندگان نے جمہوریت کا مطلب ’’عوام کی حکومت ، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے‘‘ کیا ۔ ہماری جمہوریت، جمہوریت کی اس تعریف پر پورا اترتی ہے۔

اس سوال کا جواب مکمل طور پر نفی میں آتا ہے اس کی ایک بڑی وجہ عوام کی سادہ لوحی ہے عوام یہ سمجھتے ہیں یا عوام کو یہ اچھی طرح سمجھایا گیا ہے کہ جمہوریت کا مطلب ووٹ ڈالنا ہے۔ ووٹ ڈالنے کا مطلب عوام کے ذریعے ہوتا ہے عوام کا ووٹ ڈالنا جمہوریت کی تیسری شرط ہے اور بددیانت سیاستدان ووٹ ڈالنے ہی کو جمہوریت سے تعبیر کرتے ہیں، دراصل شرائط کو دانستہ گول کرجاتے ہیں۔ وہ شرائط ہیں عوام کی حکومت عوام کے لیے۔ کیا 70 سال میں کبھی عوام کی حکومت رہی ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں آتا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی شاطروں نے انتخابی نظام ایسا بنایا ہے کہ عوام اس نظام میں انتخاب لڑ ہی نہیں سکتے۔ کیونکہ انتخاب لڑنے یا انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کروڑوں کا سرمایہ درکار ہوتا ہے اور جو عوام دو وقت کی روٹی حاصل نہیں کر پاتے بھلا وہ انتخاب لڑنے پر کروڑوں روپے کیسے خرچ کرسکتے ہیں؟ اس حوالے سے انتخابی اصلاحات کا ایک ڈرامہ رچایا گیا جس میں انتخابی اخراجات کو کم کرکے غالباً 30 لاکھ کردیا گیا ہے۔ دیکھا آپ نے یہ کیسی شاندار عوامی اصلاحات ہیں کیا ان اصلاحات کے فنکاروں کو اس حقیقت کا علم نہیں کہ چائے روٹی اور پیاز روٹی سے ناشتہ کرنے والے 30 یا 40 لاکھ اکٹھے کرکے انتخابی اخراجات پورے کرسکتے ہیں؟

’’اعلیٰ حلقوں‘‘ میں کہا جاتا ہے کہ ہمارے عوام اس قابل کہاں ہوتے ہیں کہ قانون ساز اداروں میں جاکر جمہوری ذمے داریاں پوری کرسکیں؟ ہوسکتا ہے عوام ہماری جمہوریت کے اسرار و رموز سے واقف نہ ہوں تو ان کے لیے تربیتی کورس کرائے جاسکتے ہیں اس کے علاوہ کیا یہ حقیقت نہیں کہ غریبوں کے نوجوان بچے اپنی ذاتی محنت سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور وہ جمہوریت کے اسرار و رموز سے اچھی طرح واقف ہیں اور قانون ساز اداروں میں وہ اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے پوری کرسکتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جس اشرافیہ کے منہ کو جمہوریت کا خون لگ چکا ہے وہ کسی طرح بھی اس منافع بخش کاروبار سے دست بردار نہیں ہوسکتی۔ آج ذرا اپنے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیے اور میڈیا کی آواز سنیے آپ کو جمہوریت کے ایسے ایسے مناظر نظر آئیں گے کہ شرم کے مارے آپ کا سر نگوں ہوجائے گا اور جمہوریت کی اصلیت دیکھ کر آپ کے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔

ہمارے ملک کی آبادی 21 کروڑ ہے جس میں اشرافیہ کی تعداد 2 فیصد بتائی جاتی ہے اگر اس میں اپر مڈل کلاس کو شامل کرلیا جائے تو بمشکل یہ تعداد دس فیصد ہوجائے گی اور 10 سال سے ہماری جمہوریت اس دس فیصد سے طلوع ہوتی ہے۔ جب کہ 90 فیصد غریب آبادی نہ انتخابات میں حصہ لے سکتی ہے نہ قانون ساز اداروں میں پہنچ سکتی ہے 90 فیصد آبادی کے حقیقی نمایندے قانون ساز اداروں میں موجود نہ ہوں تو ایسی جمہوریت کو جمہوریت کہنا جمہوریت کی توہین ہے۔ ہمارے ملک میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور رہتے ہیں کیا ان کا کوئی نمایندہ قانون ساز اداروں میں موجود ہے ہمارے دیہی علاقوں کی 60 فیصد آبادی ہاریوں اور کسانوں پر مشتمل ہے کیا اس آبادی کی نمایندگی قانون ساز اداروں میں ہے؟ اگر نہیں ہے تو اس بھاری اکثریت کا جمہوریت میں حصہ کیا ہے؟

آج پاناما نے آف شور کمپنیوں کا جو بھانڈا پھوڑا ہے کیا یہ آف شور کمپنیاں مزدوروں ہاریوں کسانوں کی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ’’پاکستانیوں‘‘ کے 200 ارب روپے سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں، کہا جاتا ہے کہ بینکوں سے ڈھائی کھرب کا قرضہ لے کر معاف کرالیا گیا۔ کیا یہ قرضہ معاف کرانے والے غریب طبقات مزدوروں، کسانوں سے تعلق رکھتے ہیں، میڈیا میں اربوں کی کرپشن کی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ کیا یہ اربوں کی کرپشن غریب عوام مزدور اور کسان کر رہے ہیں؟ ہمارے وزرا وزارت کی ذمے داریاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی کمپنیوں میں پارٹ ٹائم جاب کرکے 18-18 لاکھ روپے ماہانہ وصول کر رہے ہیں کیا یہ مزدور ہیں کسان ہیں؟70 سال سے جمہوریت کے نام پر عوام کو دھوکا دیا جا رہا ہے۔

اس جمہوریت میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہا ہے کیا اسے ہم عوامی جمہوریت کا نام دے سکتے ہیں؟ ہماری اشرافیہ اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر غریبوں کے حقیقی نمایندے قانون ساز اداروں میں آنے لگیں تو ان کی لوٹ مار کے دروازے بند ہوجائیں گے۔ اس سازش کے خلاف ترقی پسند جماعتیں کردار ادا کر سکتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ان جماعتوں نے پردہ کرلیا ہے یا پھر انقلاب بغیر عوام کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ انقلاب عوام لاتے ہیں اور عوام کو انقلاب کے لیے تیار کرنے کے لیے عوام میں جانا پڑتا ہے۔

اگر غریب طبقات مزدور اور کسان قانون ساز اداروں میں پہنچیں اور اقتدار میں آئیں تو لوٹ مار کے امکانات اس لیے کم ہوجاتے ہیں کہ ان غریب طبقات کو نہ آف شور کمپنیوں کا پتا ہے نہ سوئس بینکوں تک ان کی رسائی ہے نہ وہ بینکوں سے اربوں روپے لے کر معاف کرا لینے کا ہنر جانتے ہیں نہ ان غریب لوگوں کو کرپشن کے جدید طریقے معلوم ہیں ویسے تو سرمایہ دارانہ جمہوریت میں کرپشن جمہوریت کا لازمہ ہوتی ہے اس حوالے سے اس حقیقت کی نشان دہی ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے لامحدود نجی ملکیت کا حق دے کر اور اسے قانونی اور آئینی تحفظ فراہم کرکے کرپشن کی ایسی راہ کھولی ہے کہ اس نظام میں کرپشن ختم ہونا ممکن ہی نہیں۔ بس ایک راستہ ہے کہ قانون ساز اداروں میں جانے کے لیے غریب طبقات ، مزدوروں اور کسانوں کو حقیقی اور بامعنی انتخابی اصلاحات کرکے غریب طبقات کو اقتدار میں آنے کا راستہ دو۔

The post راستہ دو appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 22545 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>