Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22552 articles
Browse latest View live

مائیں اتنی جلدی چلی کیوں جاتی ہیں!

$
0
0

چندسال پہلے،صرف کچھ برس پہلے،انھی دنوں میں والدہ کاانتقال ہواتھا۔اس وقت سے آج تک زندگی کامحورختم ساہوکررہ گیاہے۔کوئی گھڑی ایسی نہیں،کوئی پَل ایسا نہیں جس وقت دھیان اپنی والدہ کی طرف نہ جاتاہو۔اپنوں سے بچھڑنابھی کتناعجیب غم ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ کم ہونے کے بجائے،مزیدبڑھنے اورگہراہونے والادکھ۔طبیعت میں بھی بے حدفسوں غالب آچکاہے۔میرے لیے یہ سب کچھ بہت مشکل ہے۔بہت مشکل۔

لوگ خداکو”مقام مقدسہ”میں تلاش کرتے ہیں۔ عمرے کرتے ہیں۔حج پرجاتے ہیں۔مگرمیں تورب کوزمین پرتلاش کرتاہوں۔ حجازجانے والے بھی ٹھیک ہیں اور شائد  میرے جیسے گناہ گاربھی۔پختہ یقین ہے کہ خدا اپنے بندوں کے ذریعے عام لوگوں کے لیے آسانیاں پید اکرتا ہے۔ موجودگی کااحساس دلاتاہے۔سوچ کربتائیے کہ ماں سے بڑھ کراﷲ کی قدرت کہاں اس خوبصورتی سے موجزن ہوتی ہے۔ شائدکہیں بھی نہیں۔کہیں اورہوبھی نہیں سکتی۔

ماں جی نے بڑی مشکل اورصبرآزما زندگی گزاری۔مگرایک لحاظ سے شاندار اوربہت بامقصد۔تقسیم ہندسے پہلے ہندوستان میں خواتین میں تعلیم حاصل کرنے کاکوئی خاص شعورنہیں تھا۔لڑکیوں کو زیادہ سے زیادہ دینی تعلیم دینے کے بعدسمجھاجاتاتھاکہ ان کی تعلیم مکمل ہوگئی۔بس اب شادی کرنی ہے اور پھر گھر گھر ہستی۔ یہ طورطریقہ برصغیرمیں صدیوں سے جاری تھا۔مگرچندمسلم خواتین نے اس نظریہ کوتسلیم نہیں کیا۔ان خواتین نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اورچھ سات دہائیاں پہلے علم کی روشنی ہرجگہ پھیلانے میں مصروف ہوگئیں۔

میری والدہ انھی خواتین میں سے ایک تھیں۔میری عمرکے لوگوں کوبچپن میں یاد ہوگا کہ اکثرخواتین،حضرات اپنے نام کے بعد”ڈگری اور علیگ”کا لفظ استعمال کرتے تھے۔اس سے صرف یہ ظاہر کرنا مقصد ہوتاتھاکہ وہ علی گڑھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ پورے برصغیرمیں علی گڑھ یونیورسٹی واحدمستندتعلیمی ادارہ تھاجس میںمسلمان مردوں اوربالخصوص خواتین کوزیورِتعلیم سے آراستہ کرنے پربے حدزوردیاجاتاتھا۔

اگردیکھاجائے توپاکستان حاصل کرنے کی جدوجہدمیں علی گڑھ کے طلباء کا  لازوال کردارتھا۔مجھے آج بھی شوق ہے کہ اس عظیم درسگاہ کو جاکردیکھوں۔دیکھناشائدمناسب لفظ نہیں۔زیارت کروں۔ میری والدہ اسی یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ تھیں۔”بوٹنی” Botanyمیں ایم ایس سی کی ہوئی تھی۔کبھی کبھی بتاتی تھیں کہ علی گڑھ کے نزدیک’’بلندشہر‘‘نام کی ایک جگہ تھی۔میری ننھیال وہیں پرمقیم تھی۔ان قصبوں میں بجلی نہیں تھی۔

امی بتاتی ہیں کہ وہ لوگ لالٹین کی روشنی میں پڑھتی تھیں۔دیگر سہولتوں کاکیاذکرکرنا۔جب بجلی ہی نہیں توباقی ضروریات زندگی کیسی ہونگی۔اندازہ کیجیے کہ سترسال پہلے کی ایک مسلمان خاتون اس قدرپُرعظم تھی کہ کسی بھی سہولت کے بغیر بوٹنی جیسے مشکل مضمون میں تعلیم حاصل کی۔اگرشرح خواندگی کااندازہ لگایاجائے توتقسیم ہندسے پہلے مسلمان خواتین میں تعلیم نہ ہونے کے برابرتھی۔شائدایک یادو فیصد۔ ہندسوںمیں کیارکھاہے۔عورتوں کاکیاذکرکرنا،بنیادی طورپر مسلمانوں میں تعلیم کارجحان بے حدکم تھا۔ویسے آج بھی مسلمان تحقیق اورسائنس کے میدان سے بہت دورزندگی گزاررہے ہیں۔

پاکستان آکرحالات بالکل تبدیل ہوگئے۔ تصور کرنا محال ہے کہ اس وقت کے لوگوں نے کن کن مشکلات اور عذاب جھیلے ہونگے۔نئے لوگ،نئے معاشرے،نئی زبان اورسب سے بڑھ کرمعلوم سے نامعلوم کی طرف سفر۔ترکِ وطن کے دکھ اورتکلیف سے گزرنابذاتِ خودایک بہت بڑا سانحہ ہے۔میرے سے پہلی نسل نے مشکلات کایہ سمندربھی عبورکیاہے۔والدہ کاعلی گڑھ سے لائل پورکیسے آناہوا۔ بالکل نہیں جانتا۔مگرجب مجھے تھوڑی سی ہوش آئی تووہ کارخانہ بازارمیں واقع خواتین کے گورنمنٹ کالج میں لیکچرار تھیں۔آخری دم تک پڑھاتی رہیں۔

مختلف خواتین کے کالجوں کی پرنسپل رہیں۔تقریباًتیس پنتیس برس شعبہ تعلیم سے منسلک رہنے کے بعد ریٹائرہوئیں اورپھراپنااسکول کھول لیا۔والدہ نے اپنی برسوں کی روٹین تبدیل نہیں کی۔ پہلے کالج میں پڑھاتی تھیں۔پھراپنے اسکول میں تعلیمی کام شروع کردیے۔مجھے کیڈٹ کالج حسن ابدال اورکنگ ایڈورڈ کالج تک پہنچانے میں والدہ کاہاتھ سوفیصدسے بھی زیادہ تھا۔انتہائی فعال بامقصداورمصروف زندگی گزاررہی تھیں۔ پورے خاندان کوسنبھال رکھاتھا۔

ایک دن فون آیاکہ انھیں فالج کاحملہ ہوا ہے۔ لاہور میں تھا۔فیصل آبادتک پہنچنے کے دوگھنٹے میرے زندگی کے کٹھن ترین اوقات میں سے ایک ہیں۔اسپتال پہنچاتو والدہ ابھی تک بے ہوش تھیں۔فالج کی بدولت بدن کاایک حصہ تقریباًبے جان ہوچکاتھا۔ڈاکٹرکہہ رہے تھے کہ ان کی حالت بہت نازک ہے۔ڈاکٹرسے پوچھاکہ کیامیں انھیں لاہورلے جاسکتاہوں۔جواب انتہائی مشکل تھا۔ ہاں، مگر اپنی ذمے داری پر۔ زندگی کے مشکل فیصلوں میں سے ایک فیصلہ تھاکہ والدہ کوبیہوشی کی حالت میںلاہور لے کر جانا ہے۔ ایمبولینس میں ایک نرس اورڈاکٹربٹھایا۔خودبھی بیٹھ گیا۔

خدا کانام لے کروالدہ کے ساتھ لاہورروانہ ہوگیا۔یقین کیجیے کہ میری نظرمسلسل اپنی ماں پرمرکوزتھی۔ڈاکٹرہونے کی حیثیت سے باربارنبض دیکھتاتھااورکبھی بلڈپریشرچیک کرتاتھا۔یہ اذیت ناک سفرمیرے ذہن پرآج بھی نقش ہے۔ہرلمحہ دھڑکا لگا ہواتھاکہ اب کچھ ہواکہ اب ہوا۔اسی بے ہوشی کے عالم میں لاہورکے ایک اسپتال پہنچ گئے۔یادہے کہ پانچ چھ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے انکوچیک کیا۔

آج تک ان انجان ڈاکٹروں کاشکرگزارہوں۔بے ہوشی کئی دنوں بعدختم ہوئی۔اس عرصے میں میری بہنوں اوراہلیہ نے جس طرح والدہ کی خدمت کی، میں مرتے دم تک اس احسان کابدلہ نہیں دے سکتا۔ہوش آیا توآدھابدن فالج کی بدولت بے جان تھامگرذہن مکمل طور پر مستعدتھا۔

پہلی باراندازہ ہواکہ فالج کس طرح انسان کی زندگی کو بربادکردیتاہے۔انسان سانس تولیتاہے،مگردنیاسے کٹ کر رہ جاتاہے۔جب اسپتال سے پہلی بارگھرلے کرآیاتوفیصلہ کیا کہ انھوں نے جتنی مصروف بلکہ ریاضت والی زندگی گزاری ہے،انکوکسی طرح بھی مکمل آرام اورسکون کے چندپَل مہیا کر پاؤں۔پتہ نہیں کہ کامیاب رہایاناکام۔مگراس کے بعد ہر چیز تبدیل ہوگئی۔والدہ فیصل آبادمیں اپنے گھرمیں رہنے کی عادی تھیں۔پہلافیصلہ کیاکہ لاہورمیں اپنے گھرکو ان کا گھر بنادوں۔انھیں سب نے یقین دلایاکہ ہم سارے ان کے گھر میں رہ رہے ہیں۔

جوسہولتیں مہیاکرسکتاتھا، کوشش کرکے مہیا کیں۔مگرفالج آہستہ آہستہ انھیں اندرسے کھا رہا تھا۔ چند ہفتے لاہوررہیں۔پھرکہنے لگیں کہ فیصل آبادجاناہے۔ ضد کے سامنے ہتھیارڈال دیے۔ضدکیا،انکاحکم تھا۔بہرحال فیصل آبادگئیں توجس طرح میری بھابھی اورچھوٹے بھائی مبشرنے ان کی خدمت کی،وہ احسان بھی چکا نہیں سکتا۔میری بھابھی ڈاکٹرہیں۔اس نیک خاتون نے بہونہیں بلکہ بیٹی بنکر سب کچھ کیا۔خداہی انکواسکااَجردے سکتاہے۔امی نے فیصلہ کیاکہ زیادہ عرصے لاہوررہینگی اورپھرچندماہ بعد، فیصل آبادجایاکرینگی۔

ہرایک نے من وعن فیصلہ تسلیم کیا۔میری جہاں بھی لاہورسے باہرپوسٹنگ ہوئی،والدہ کومیں نے اپنے ساتھ رکھا۔ڈی سی نارووال اورگوجرانوالہ میں بھی میرے ساتھ تھیں۔جس صورت کومیں نے ہردم کام کرتے دیکھا تھا۔ اسے اتنی بے کسی کی حالت میں دیکھنا اَزحدمشکل تھا۔ کمرے میں جاکر کہتاتھاکہ بس ایک ماہ میں آپ مکمل صحت یاب ہوجائینگی۔اس کے بعدہم دونوں گراؤنڈمیں دوڑ لگائیN گے۔

یہ دلاسہ سن کرماں کے چہرے پرمسکراہٹ آجاتی تھی۔ہنسنے لگتی تھیں کہ ہاں بس تھوڑے دنوں کی بات ہے۔مکمل طور پر صحت یاب ہوجاؤنگی۔ کمرے سے باہرآکرمیری آنکھوں میں آنسوآجاتے تھے۔کیونکہ بطورڈاکٹرمجھے علم تھاکہ فالج کا مریض مکمل طورپرصحت یاب کبھی نہیں ہوتا۔مگرپھربھی کوشش کرنی تومکمل طورپرصائب بات ہے۔

دونوں بیٹوں،مبارزاورحمزہ کوکہہ رکھاتھاکہ اسکول سے آکرپہلاکام یہ کرناہے کہ دادی کے کمرے میں جاکران کے پیردبانے ہیں۔انھیں سلام کرناہے۔دعائیں لینی ہیں۔یہ روٹین آخری دم تک قائم رہی۔فالج کی صورتحال میں امی آٹھ سال زندہ رہیں۔کئی بارڈاکٹروں نے کہاکہ روزے نہ رکھیں۔آپ مریض ہیں۔علماء دین نے بھی یہی فرمایاکہ اس مرض میں روزے معاف ہیں۔مگرمہلک بیماری کی حالت میں بھی مسلسل روزے رکھتی رہیں۔

آخری چندسالوں میں اَزحدعبادت شروع کردی۔اسی حالت میں نمازپڑھتی رہیں۔ہروقت تسبیحات میں مصروفِ کاررہتی تھیں۔ان کے کمرے میں جاکرمجھے عجیب ساسکون ملتاتھا۔لگتاتھاکہ کسی بزرگ کے کمرے میں آگیاہوں۔والدہ اپنے کمرے سے بہت کم باہرآتی تھیں۔ایک دن شام کے وقت لاؤنج میں آئیں۔یہ غیرمعمولی بات تھی۔مجھے غورسے دیکھااورواپس چلی گئیں۔انکایہ اشارہ سمجھ ہی نہ پایا۔انھوں نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔دراصل وہ بتاناچاہتی تھی کہ یہ میری اوران کی آخری ملاقات ہے۔

امی شام کوبڑے آرام سے جہان فانی سے چلی گئیں۔میرے بالکل سامنے۔ بالکل سامنے۔بے بسی سے دیکھتا رہا۔ لاچارگی کا شدید احساس ہوا۔اس دن سے لے کرآج تک زندگی تو ہے، مگر ہرچیزبدل گئی ہے۔کوئی انتظار کرنے والا نہیں۔ کوئی کہنے وال کہ کھاناکھالیاہے کہ نہیں۔کیسے ہو۔ میری خوشیوں اورغموں کومحسوس کرنے والا اب کوئی بھی نہیں ہے۔سب کچھ بوجھل سا ہو چکا ہے۔ قدرت کا قانون ہے۔حکم ربی ہے۔مگرسوچتارہتاہوں کہ مائیں ہمیں چھوڑکراتنی جلدی کیوں چلی جاتی ہیں!

The post مائیں اتنی جلدی چلی کیوں جاتی ہیں! appeared first on ایکسپریس اردو.


کانگریس کی بھارتی سیاست میں اہمیت نہیں رہی

$
0
0

پرناب مکھرجی ایسا شخص ہے جس کے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ تعلقات اور روابط ہیں۔ پارلیمنٹ کے رکن کے طور پر وہ اعلیٰ ترین مناصب پر رہے ہیں حتیٰ کہ اپنی ایک سیاسی پارٹی بھی قائم کی جس میں ان کے چند سیاسی دوست بھی شامل تھے۔ تاہم مسٹر مکھرجی ہر لحاظ سے ایک سیلف میڈ شخص ہیں جنہوں نے سیاسی میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ انھیں آر ایس ایس نے ناگپور میں واقع اپنے ہیڈکوارٹر میں آکر کارکنوں سے خطاب کی دعوت دی جسے مکھرجی نے قبول کرلیا۔

آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت نے کہا ہے کہ پرناب مکھرجی کی طرف سے ان کی دعوت قبول کرنا ان کی شان بڑھانے کا سبب ہے۔ ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر میں کبھی مہاتما گاندھی کی تصویر نہیں لگائی گئی کیونکہ گاندھی جی اجتماعیت کے فلسفے کے قائل تھے جس کو آر ایس ایس کی فرقہ وارانہ اور ہندو راشٹرا قائم کرنے کی سوچ قبول نہیں کرتی۔ میں پرناب مکھرجی کی خصوصیات پر غور کروں تو مجھے یاد آتا ہے وہ بہت ہی منکسرالمزاج شخص تھے جنہوں نے مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دی تاکہ میں ان کی بیوی کا گایا ہوا ایک بھجن سن سکوں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب مکھرجی سیاست میں اپنا نام پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

ان کی رہائش گاہ سادہ سی تھی جس میں فرنیچر برائے نام ہی تھا۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ سادہ عادات کے حامل انسان ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جب سیاست میں ان کی اہمیت بڑھ گئی تو ان میں بہت سی تبدیلیاں آگئیں۔ ایمرجنسی کے دوران بھی میں نے ان کی رہائش گاہ کا دورہ کیا تو مجھے بہت حیرت ہوئی کہ ان کا گھر بہت سج اور سنور گیا تھا۔ ڈرائنگ روم کا فرنیچر بڑا شاندار تھا۔ تب وہ اندرا گاندھی کی کابینہ میں وزیر تجارت تھے اور سنجے گاندھی کے ساتھ ان کی خاصی قربت تھی۔ سنجے گاندھی کسی سرکاری منصب کے نہ ہونے کے باوجود تمام اختیارات رکھتے تھے۔

اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پرناب مکھرجی کا کام ان تمام احکامات پر عمل کرانا ہوتا تھا جو سنجے کی طرف سے جاری کیے جاتے۔ سنجے گاندھی کے بارے میں یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ ملک کی اصل حکومت انھی کے ہاتھ میں تھی۔ سنجے کے ایک طرف پرناب مکھرجی تھے اور دوسری طرف اس دور کے وزیر دفاع بنسی لال۔ یہ وہ وقت تھا جب پرناب مکھرجی سنجے کی طرف سے دی گئی کوئی نیلامی منظور کروا دیتے اور مخالفت میں کسی اور بولی کو منسوخ کرایا جاتا۔

یہ وہ وقت تھا جب لوگوں کی دکانوں اور گھروں پر چھاپے مارے جاتے تھے اور یہ ملک بھر میں ہوتا تھا۔ بعد میں پرناب مکھرجی کو سونیا گاندھی نے ملک کا صدر بنا دیا لیکن میرے خیال میں ان کا تقرر غلط تھا۔ وہ صاحبان اقتدار کی کی تعریفیں ہی کرتے رہتے تھے۔ جب سونیا گاندھی نے انھیں صدر مملکت کے منصب پر ترقی دیدی تو سونیا پر تنقید ہوئی۔ لیکن پرناب مکھرجی سونیا کے لیے خاص تحفہ ہی تھے جو دن کو رات اور رات کو دن کہنے پر تیار رہتے تھے۔ گویا ایک لحاظ سے وہ اندرا گاندھی کے گیانی ذیل سنگھ کی مانند تھے جنھیں اندرا گاندھی نے بڑی کوششوں کے ساتھ صدارت کے منصب پر بٹھایا تھا اور اس منصب جلیلہ پر باقاعدہ منتخب بھی کرایا۔

پرناب مکھرجی کی حکومت جمہوری قوم کے لیے ایک توہین سے کم نہیں تھی۔ اس منصب پر بیٹھ کر مکھرجی نے آئین کی خلاف ورزی کی تھی۔ جب مکھرجی راشٹر پتی بھون (ایوان صدارت) میں براجمان تھے تو میں ان سے متواتر ملاقات کرتا تھا اور مجھے بڑا افسوس ہوتا تھا کہ ان کا تاثر ملک و قوم پر مکمل طور پر منفی رہا۔ اگر وہ کوئی حساس شخص ہوتے تو وہ خود ہی یہ عہدہ چھوڑ دیتے کیونکہ ایمرجنسی کے 17 مہینوں کے دوران ان کا کردار یکسر منفی رہا تھا اور کچھ نہیں تو وہ ایمرجنسی کی مذمت ہی کر دیتے کیونکہ ایمرجنسی کے دوران ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو بغیر مقدمہ چلائے جیل میں بند کردیا گیا تھا۔

پریس پر پابندیاں لگا دی گئیں جب کہ سرکاری افسران کا غلط اور صحیح کے درمیان امتیاز ختم کر دیا تھا۔ اخلاقی اور غیر اخلاقی کا امتیاز ختم ہوگیا تھا۔ یہ سونیا گاندھی کا پختہ ارادہ تھا کہ وہ اپنے بیٹے راہول گاندھی کو ہر قیمت پر ملک کا وزیراعظم بنانا چاہتی تھیں لیکن اس موقع پر مکھرجی کی سیاسی خواہشات اس راہ میں رکاوٹ بن گئیں لیکن انھیں جلد اندازہ ہوگیا کہ سونیا کا ارادہ کچھ اور ہے لہٰذا مکھرجی نے 2014ء کا انتخاب لڑنے سے قبل از وقت ہی انکار کر دیا جس سے راہول کا راستہ صاف ہوگیا۔ سونیا نے مکھرجی کو صدارتی عہدے پر اس لیے بٹھایا کہ اس نے گاندھی خاندان کی مکمل خلوص سے مدد کی تھی۔

ایمرجنسی کی وجہ سے عوام نے اندرا گاندھی کو 1970ء کے انتخابات میں شکست سے دوچار کیا کیونکہ یہ انتخابات ایمرجنسی اٹھائے جانے کے فوراً بعد ہوئے تھے لیکن میرے نزدیک مکھرجی کو ملک کے سب سے بڑے عہدے پر بٹھانا درحقیقت قوم کے منہ پر طمانچہ مارنے کے مترادف تھا۔ میں توقع کرتا ہوں کہ سابق صدر اس زمانے کو یاد کریں گے جب وہ راشٹرپتی بھون میں بطور صدر مقیم تھے۔ تب لوگ محسوس کرتے تھے کہ اس انتخاب کے ذریعے عوام کو ذلیل و خوار کردیا گیا ہے۔ اگر اس وقت محتسب یا لوگ پال کا منصب موجود ہوتا تو وہ ان مواقع کی نشاندہی کر سکتا تھا۔

افسوس کہ ہمارے پاس کوئی ایسا ادارہ نہیں جو صدر مملکت کی کارکردگی کا جائزہ لے سکے۔ دیگر سرکاری اداروں کے سربراہوں کی نگرانی کا بھی کوئی نظام موجود نہیں۔ اس سوچ کے پیچھے غالباً یہ احساس موجود ہے کہ تنقید سے ان اداروں کی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے جوکہ جمہوری سیاست کے لیے ناگزیر ہیں۔ اسی وجہ سے صدر کے عہدے پر متمکن شخص کو بہت ہی غلطیاں کرنے کی بھی اجازت ہوتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے پرناب مکھرجی کسی احتساب سے مبرا رہے ہیں حالانکہ انھیں اپنے عہدے پر فائز رہتے ہوئے اپنی یادداشتیں تحریر کرنے کا حق حاصل نہیں تھا لیکن اس کے باوجود انھوں نے یہ کام کیا۔

پرناب مکھرجی نے فرقہ وارانہ قوتوں کے خلاف جدوجہد کے بارے میں کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی آر ایس ایس کی فرقہ وارانہ سوچ پر تنقید کی ہے لیکن سابق صدر کا آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر میں جاکر اس کے کارکنوں سے خطاب کرنا اس بات کا ثبوت نہیں کہ وہ آر ایس ایس کے فلسفے کی حمایت کرتے ہیں۔ حیرت کی یہ بات ہے کہ کانگریس نے پرناب مکھرجی کے اس اقدام کے خلاف کوئی بات نہیں کی کیونکہ کانگریس کی خاموشی سے مکھرجی کی تائید کا مطلب بھی اخذ کیا جا سکتا ہے۔ البتہ کانگریس کے ایک سابق وزیر نے ان پر زور دیا ہے کہ وہ سیکولر ازم کی حمایت کا اعلان کریں۔

یونین منسٹر نیتن گڈکری نے سابق صدر کے آر ایس ایس کے کارکنوں سے خطاب کے فیصلے کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ وہ دشمن کے کسی کیمپ کا دورہ نہیں کر رہے تھے۔ اگرچہ کانگریس کے حلقوں میں مکھرجی کے بارے میں آراء منقسم ہیں پھر بھی کانگریس کے بعض ارکان یہ تصور کرتے ہیں کہ سابق صدر آر ایس ایس کے پلیٹ فارم سے بھی اجتماعیت اور سیکولرازم کے حوالے سے کوئی مثبت پیغام دے سکتے ہیں۔

کانگریس کے ممتاز لیڈر سلمان خورشید نے مکھرجی کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں مکھرجی پر اعتماد رکھنا چاہیے کیونکہ وہ ہم سب میں سے زیادہ باشعور اور عقلمند ہیں۔ پرناب مکھرجی کے آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر کی حمایت میں یہ بہت کمزور دلیل ہے۔ کیونکہ سارا ملک جانتا ہے کہ آر ایس ایس کا فلسفہ اجتماعیت کے فلسفے سے متضاد ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سونیا گاندھی اور کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے مکھرجی کی آر ایس ایس کے ہیڈ آفس کے دورے پر تنقید کی ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو کانگریس پر عوام کی توجہ میں اور کمی آجاتی جوکہ پہلے ہی خاصی حد تک غیر متعلق ہوچکی ہے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

The post کانگریس کی بھارتی سیاست میں اہمیت نہیں رہی appeared first on ایکسپریس اردو.

ملک کی خاطر

$
0
0

31 مئی کی نصف شب دوسری منتخب قومی اور صوبائی اسمبلیاں اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد ازروئے آئین تحلیل ہوگئیں۔ اس دوران گوکہ دو جماعتوں کی وفاق میں حکومت رہی، لیکن وزرائے اعظم دونوں ادوار میں اپنی مدتیں مکمل نہ کرسکے۔ یہ بھی اس ملک کی سیاسی تاریخ کا ایک المیہ ہے۔ بہرحال وفاق اور سندھ کے لیے نگران وزیراعظم اور نگران وزیراعلیٰ کا انتخاب ہوچکا ہے۔

توقع ہے کہ اس اظہاریے کی اشاعت تک باقی تین صوبوں کے نگران سیٹ اپ کا بھی اعلان ہوچکا ہوگا۔ الیکشن کمیشن نے 25 جولائی کو اگلے عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان کردیا ہے۔ یوں بظاہر اگلے عام انتخابات کے حوالے سے میدان تیار ہوچکا ہے۔ مگر ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ آیا انتخابات اپنے وقت مقررہ پر ہوسکیں گے۔ اس بارے میں صرف عوام ہی میں نہیں بلکہ اقتدار کی راہداریوں میں بھی شکوک وشبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اس کی کیا وجوہات ہیں، ان پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلے تو یہ خبر اہمیت کی حامل ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کی راولپنڈی بنچ نے شہر سے قومی اسمبلی کے چار حلقوں (NA57, 58, 59, 60, 61) کی حلقہ بندیاں کالعدم قرار دے دی ہیں۔ جب کہ چکوال کے حلقوں کی حلقہ بندی کے خلاف 25 درخواستیں سماعت کے لیے منظور کرلی ہیں۔ جن کی سماعت چند دنوں میں شروع ہونے کا امکان  ہے۔

دوسری خبر یہ ہے کہ ایم کیوایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ اگر کراچی کی مردم شماری اور حلقہ بندیاں درست نہ کی گئیں، تو ان کی جماعت انتخابات کا بائیکاٹ کرسکتی ہے۔ اس سے قبل لندن میں موجود قیادت انتخابات کی شفافیت پر شکوک وشبہات کا اظہار کرتے ہوئے پہلے ہی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کرچکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ معاملہ طول پکڑ سکتا ہے۔

تیسری خبر یہ ہے کہ بلوچستان کی تحلیل ہونے والی حکومت کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ عام انتخابات ایک ماہ کے لیے ملتوی کردیے جائیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ بہت سے لوگ حج کی ادائیگی کے سلسلے میں سعودی عرب گئے ہوئے ہوں گے۔ دوسرے گرمی کے باعث بلوچستان سے عوام کی بڑی تعداد دوسرے علاقوں میں منتقل ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے ووٹر بہت کم دستیاب ہوگا۔ جب کہ چوتھی خبر شیخ رشیدکا بیان ہے، جس میں انھوں نے کہا ہے کہ انتخابات اس روز ہوں گے، جس کی تاریخ چیف جسٹس دیں گے۔ اب عدالت کی جانب سے بعض حلقوں کی حلقہ بندیوں کو کالعدم قرار دیا جانا، ملک کے سب سے بڑے شہر کی آبادی کے بارے میں ایک سال سے اٹھنے والے سوالات اور حلقہ بندیوں پر اعتراضات پر ارباب حل وعقد کی عدم توجہی پھر سرفراز بگٹی کا مطالبہ انتخابات کے التوا کا بہانہ بن سکتے ہیں۔

اب ذرا چند پہلوؤں پر غور کرلیا جائے۔ سول سوسائٹی، متوشش شہری اور ذرایع ابلاغ کئی برس سے مسلسل انتخابی اصلاحات کے لیے زور دیتے چلے آرہے ہیں۔ 2014ء میں ایک 31 رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی، جس کی مبہم سی سفارشات گزشتہ برس کے آخری مہینوں میں سامنے آئیں۔ اس سے قبل کہ ان سفارشات پر اکیڈمک بحث ہوتی، ایک جذباتی مذہبی مسئلہ کی بنیاد پر ہونے والے دھرنے نے پوری بحث کا رخ موڑ دیا۔ یوں انتخابی عمل میں اصلاحات کے لیے پیش کی جانے والی سفارشات میں پائی جانے والے نقائص، کمزوریوں اور خامیوں پر کھل کر گفتگو نہیں ہوسکی اور نہ ہی کوئی بہتر تبدیلی سامنے آسکی۔ نتیجتاً اگلے انتخابات کے بعد ہر شکست خوردہ جماعت انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر دھرنے، جلسے جلوسوں کا راستہ اختیار کرے گی۔ یوں اگلی حکومت کو وفاق اور صوبوں میں کھل کر کام کرنے کا موقع ملنے کے امکانات معدوم ہوتے نظر آرہے ہیں۔

اسی طرح گزشتہ برس ہونے والی مردم شماری کے حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کی جانب سے جو اعتراضات اور تحفظات سامنے لائے گئے، ان پر بھی سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ خاص طور پر کراچی کی آبادی کا مسئلہ سنگین نوعیت کا ہے۔ اسی حوالے سے اس کی حلقہ بندیاں بھی انتہائی حساس معاملہ ہے۔ لیکن کراچی کے بارے میں اسلام آباد میں بیٹھے حکمران اور منصوبہ ساز سوتیلی ماں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ یہی رویہ سندھ حکومت کا بھی ہے، جو کراچی پر اپنا حق تو جتاتی ہے، مگر اس پر ایک دھیلا بھی خرچ کرنے پر آمادہ نہیں۔

یہ تسلیم کہ 2013ء میں شروع ہونے والے آپریشن کے کچھ مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ آئے دن ہونے والی قتل و غارت گری اور ٹارگٹ کلنگ جیسے واقعات میں نمایاں حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں بھی دہرا معیار نظر آتا ہے۔ سپریم کورٹ میں جو رپورٹ جمع کرائی گئی تھی، اس میں پانچ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مسلح ونگز بتائے گئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پہلے سے یہ فیصلہ کرلیا گیا تھاکہ صرف ایک جماعت کو نشانہ بنانا ہے اور باقی جماعتوں کی منفی سرگرمیوں سے صرف نظر کرنا ہے۔

یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت نے شہرکو جرائم پیشہ افراد سے پاک کرنے کا مینڈیٹ دیا تھا۔ کسی نمایندہ سیاسی جماعت میں توڑ پھوڑ کرنے اور بدنام زمانہ افراد کو اپنی پسندیدہ افراد کی قیادت میں جبراً شامل کرانے کا مینڈیٹ نہیں دیا تھا۔ اس کے علاوہ لوگ یہ سوال کرنے میں بھی حق بجانب ہیں کہ ان کی نمایندہ جماعت کے بانی رہنما پر ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا ثبوت اگر خفیہ ایجنسیوں کو ملا ہے، تو اسے عدالت میں پیش کرنے سے کیوں گریز کیا جارہا ہے؟ دوسرے لاہور ہائی کورٹ کس قانون کے تحت ایک پاکستانی شہری کو بغیر کسی ٹرائل اب تک تحریر اور تقریر کے حق سے کیوں محروم کے ہوئے ہے؟

دوسری طرف میاں نواز شریف مسلسل یہ اعلان کررہے ہیں کہ ان کا مقابلہ عمران خان اور ان کی جماعت سے نہیں ہے، بلکہ اصل معرکہ خلائی مخلوق سے ہے۔ یہی کچھ معاملہ کراچی کے شہریوں کا ہے۔ بلوچستان کے بعد سندھ سے بھی قوم پرستوں کو غائب کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ پشتون نوجوان بھی اپنے مطالبات کی خاطر میدان عمل میں ہیں۔ ایسی صورتحال میں عام انتخابات کے شفاف ہونے کے امکانات کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں۔

اب اگر کراچی کے عوام کی نمایندہ جماعت انتخابات کا بائیکاٹ کردیتی ہے، تو ممکن ہے کہ منصوبہ سازوں کو اپنے منصوبے کے مطابق اس شہر کے مینڈیٹ کو تقسیم کرنے کا موقع مل جائے۔ مگر کیا یہ عمل اس شہر کو مزید افراتفری اور تباہی کی طرف دھکیلنے کا باعث نہیں بنے گا؟ کیا کراچی کے عوام یہ سوچنے میں حق بجانب نہیں کہ ایوب خان نے اس شہر کے باسیوں کے ساتھ جس امتیازی سلوک اور متعصبانہ رویے کی بنیاد رکھی تھی، وہ ہنوز جاری ہے؟

عرض ہے کہ اگر اس ملک اور اس کے عوام سے محبت ہے۔ اگر اس ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن دیکھنے کی خواہش ہے۔ اگر ملک کی خوشحالی کی تمنا ہے۔ تو پھر سب کچھ دیدنی ہونا چاہیے۔ نادیدہ کچھ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ جو کچھ ہو آئین اور قانون کے دائرے میں ہو۔ اس مقصد کے لیے اشرافیہ (سیاسی رہنما، اسٹیبلشمنٹ، تاجر و صنعتکار طبقات اور صحافیوں کا مخصوص ٹولہ) کو اپنی روش تبدیل کرنا ہوگی۔ فیصلے پسند و ناپسند کی نہیں میرٹ کی بنیاد پر کرنا ہوں گے۔ بصورت دیگر معاملات و مسائل کے سدھرنے کے رہے سہے امکانات بھی معدوم ہوتے چلے جائیں گے۔

The post ملک کی خاطر appeared first on ایکسپریس اردو.

اپنی اپنی مجبوری

$
0
0

میں خود اپنے شہر سے ایک اخبار ’’حیدر آباد ویکلی‘‘ ایڈٹ کیا کرتا تھا ۔ اس شہر کا جغرافیہ تاریخ سابقہ تو وہی ہے مگر “Set Up” بدلتا رہتا ہے۔ کبھی یہاں سے ناانصافی اور دھاندلیوں کے خلاف آوازیں کراچی کے ساتھ مل کر اٹھتی تھیں اور لیڈر حال مقیم لندن حیدرآباد کے رہنما کے دس نمبرکے بنگلے پر کئی روز قیام بھی کرکے گئے تھے۔

اس وقت جئے سندھ اور یہ جماعت آمنے سامنے تھی اور بے نظیر بھٹوکی سرپرستی کسے حاصل تھی۔ یہ واضح ہے اور حیدرآباد میں فائرنگ اور قتل عام بھی تب کی یادگار ہے اور شہر اور شہریوں کا جو مالی، جسمانی، ذہنی سوچ کا نقصان ہوا وہ آج تک برقرار ہے کیونکہ جب سے اب تک براہ راست ’’کوٹہ سسٹم‘‘ اور ’’ذہنی کوٹہ سسٹم‘‘ کے تحت ناانصافیوں کا سلسلہ جاری ہے ہر جگہ اور جن کی وجہ سے عام آدمی متاثر ہوا وہ عیش کرتے رہے۔ عیش کر رہے ہیں، عیش کرتے رہیں گے ہر دو جانب!

نہ یہ چھوٹی سطح کا معاملہ تھا نہ چھوٹے لوگ یہ کرسکتے تھے۔ سندھ کے امن کے خلاف یہ سازش ’’بڑوں‘‘ نے رچائی اور آج بھی بڑے ہی اسے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ کچھ شاعر، ادیب، تجزیہ کار و نگار بھی اس میں شامل رہے اور ہیں اور برملا اس کا اظہار کرتے ہیں، بھارت چلے جانے اور وہاں مسلمانوں کی چھوڑی ہوئی جائیدادوں پر قبضہ کرلینے والوں کو یاد کیا جاتا ہے اور سب کچھ چھوڑ کر یہاں آنے والوں سے عدم تعاون اور عدم اخلاص عام رویہ بن چکا ہے جس کا ہر ادارے میں مظاہرہ کیا جاتا ہے۔

ہم بہت دور نہ نکل جائیں لہٰذا واپس آتے ہیں اپنے موضوع پر، تو ہم سرکاری ملازم تھے ریڈیو میں سینئر پروڈیوسر تھے۔ اعزازی طور پر یہ اخبار ایڈٹ کرتے تھے، اخبار پر نام عبدالرزاق مٹھانی کا ہوتا تھا، چیف رپورٹر الیاس میمن تھے۔ اس زمانے میں جئے سندھ بھی کئی دھڑوں میں بٹ گئی تھی جو آج کل ایک اور جماعت کا حال ہے۔ ہمارے ایڈیٹر اپنے اخبار کے دفتر میں خود ہی جھاڑو لگایا کرتے تھے۔ منظور چیمبر میں اوپر کی منزل میں سستے کرائے پر ایک کمرہ تھا اسے ہی دو حصوں میں تقسیم کرکے دفتر اور کتابت اور Pasting کے لیے استعمال کیا جاتا تھا تو مٹھانی صاحب نے معمول کے مطابق صفائی شروع کی تو ایک لمبا چوڑا کلاشنکوف بردار شخص دفتر میں داخل ہوا اور گالی دے کر کہا، کدھر ہے ایڈیٹر؟

رزاق مٹھانی ایک غریب میمن اخبار کا شوق جو وہ محمد علی خالد کے اخبار زمین سے لائے تھے وہاں سے ہی ہم دوست بنے تھے اور میں نے ان کے شوق کو پروان چڑھایا، خیر ظاہر ہے ان کا دل تو تقریباً سینے سے باہر ہی آگیا، اس منزل پر اور کوئی دفتر بھی نہیں تھا، صبح کا وقت ساری منزلیں سنسان تو مٹھانی صاحب نے گھبرا کر کہا پتا نہیں، اس نے کہا کب آئے گا وہ؟ مٹھانی صاحب کا دوسرا جواب بھی وہی تھا پتا نہیں، اس نے پوچھا تم کون ہو؟ میں، میں نوکر ہوں، مٹھانی صاحب نے جواب دیا۔ پسینہ ان کے روئیں روئیں سے پھوٹ رہا تھا۔

وہ آدمی کرسی پر بیٹھ گیا، مٹھانی صاحب سوچ رہے تھے کہ اس کو چائے آفر کرکے چائے والے کو بلانے کا کہہ کر راہ فرار اختیار کریں اور کم ازکم شام تک لوٹ کر نہ آئیں کہ قسمت کی خرابی سے نعیم خانزادہ کاتب پہنچ گیا اور زور دار آواز میں کہا۔ السلام علیکم مٹھانی صاحب! کیا حال ہے، صفائی ہوگئی، ادھر؟ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ مٹھانی صاحب کا کیا حال ہوگا۔ کاٹو تو خون نہیں سارا خشک۔

اس آدمی نے گھور کر مٹھانی صاحب کو دیکھا، مٹھانی صاحب نے سمجھا آج وقت آ پہنچا فوراً بولے ’’سائیں آپ ناراض تھے میں نے سوچا کہ آپ سیڑھیاں چڑھ کر آئے ہیں، آرام کریں تو پھر پوچھ لوں گا کیا بات ہے‘‘ ظاہر ہے وہ آدمی اب کیا کہتا اس نے اخبار دکھاتے ہوئے کہا یہ خبر ہماری ہے اور تصویر آپ نے ہمارے مخالف گروپ کی لگائی ہے۔ نعیم خانزادہ کی آمد نے مٹھانی صاحب کو یہ حوصلہ دے دیا تھا کہ اب وہ تاریک راہ میں اکیلے نہیں مارے جائیں گے لہٰذا انھوں نے صحافتی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے الزام سلیم فوٹو گرافر پر رکھ دیا۔ سائیں یہ ہمارے فوٹو گرافر کی غلطی ہے، نعیم خانزادہ کاتب کے ساتھ Paster بھی تھا اور اخبار کی ضرورت بھی لہٰذا اس کی جان کو بھی خطرے میں نہیں ڈالا جاسکتا، رہتا بھی لطیف آباد دس نمبر میں تھا خطرناک ترین علاقہ ۔ میں بھی وہیں رہتا تھا۔

سلیم فوٹو گرافر، مجاہد فوٹو گرافر اور دوسرے ایک تقریب کی فوٹو بناکر مختلف اخبارات کو بیچا کرتے تھے تو یوں جان چھوٹی ان سے اصل تصویر لی تردید شایع کی اور پھر وہ گروپ حیدرآباد ویکلی کا مستقل خریدار بن گیا، اس کی خبریں اس اخبار میں مستقل ہوگئیں اور وہ ہر ہفتے سو کاپیاں لے کر اپنے کارکنوں میں تقسیم کرنے لگا۔

یہ تو خیر زندگی کے بہت سے دلچسپ واقعات میں سے ایک بیان کیا میں نے مگر حقیقت یہ ہے کہ میں بہت قلم برداشتہ بلکہ لوگوں کے لیے ’’قلم نابرداشتہ‘‘ ہوں اور ظاہر ہے کہ آپ سچ بولیں گے تو جھوٹے خداؤں کو تو برا لگے گا۔ آپ وہ تحریر نگار تو ہیں نہیں کہ آپ کو سرکاری خرچ پر ’’سیر‘‘ کرائی جائے اور آپ ہر ہفتے اپنا وژن تبدیل کرکے بھی بڑے لکھاری سمجھے جائیں۔ خدا اس روپ سے بچائے۔

اخبار اب خدمت خلق کم اور ’’انڈسٹری‘‘ زیادہ ہے بلکہ انڈسٹری ہی ہے اور اس کا برملا اظہار ایک اخبار کے ذمے دار عرصہ ہوا سپریم کورٹ کے باہر کرچکے ہیں ، دوسرے اخبار کے مالکان کو ایسا کہنے کا موقع نہیں ملا جب ملا یہی کہیں گے کاروبار تو فائدے کے لیے ہوتا ہے نقصان کون برداشت کرے۔ پھر بھی جو کچھ وہ چھاپ دیتے ہیں کم نہیں ہوتا اور میں اپنے لکھے کو ایڈٹ کرنے کو برا نہیں جانتا اخبار چلانا ابتدا میں مشکل اور بعد میں چاہے کچھ بھی منافع دے مشکل ترین ہوتا ہے کیونکہ آپ Best Wishes اور Welcome Vote کے پتے استعمال کرچکے ہوتے ہیں اور اب ہزاروں کارکنان کا مالک سے اخبار فروش تک پیٹ بھرنا ہوتا ہے۔

قوم جس چیز کا نام ہے، وہ پاکستان سے باہر پائی جاتی ہے۔ یہاں تو سرتاپا لاقانونیت کے دلدادہ لوگ بستے ہیں۔ کار غلط پارک کرنے پر اگر پارکنگ اصولوں کے مطابق کارروائی کی جائے تو سابق اعلی افسر کے اہل خانہ کی لاقانونیت کو سپورٹ کرنے کے لیے حاضر سروس باوردی غلام قانون پر عمل کرنے والے پر تشدد کرتے ہیں اور ’’غلط فہمی‘‘ دور کردی جاتی ہے۔

امرا کے لاڈلے کسی کو جان سے ماردیں قانون کتابوں میں رہتا ہے کوئٹہ کے کانسٹیبل کو ایک اچکزئی نے مار ڈالا کیا ہوا؟ کچھ نہیں، قاتل صحافیوں کو بے شرم کہہ کر گزر گیا کیا ہوا کچھ نہیں، گھر سے کروڑوں روپے ناجائز نکلے کیا ہوا کچھ نہیں اور کہا جاتا ہے صوبے کو حقوق نہیں ملے لوگ ایوانوں میں عیش کر رہے ہیں۔

برائیاں اور خرابیاں رگوں میں سرائیت کر رہی ہیں قوم کی اور قوم خوش ہے۔ ظالموں، لیڈروں، مذہب کے نام پر دھوکہ دینے والوں سے خوش ہے، کبھی کتاب کا ڈرامہ، کبھی پگڑیوں کے ڈیزائن کا سلسلہ اور کبھی رنگوں کا، اور یہی پارٹی پرچموں کا تو ہم ایک قوم نہیں اور ایک اسلام کے پیروکار نہیں تو انجام بھی یہی ہوگا۔ ایڈٹ کرتے رہیں آپ مجھے آخر اخبار تو چھاپنا ہے۔ غریب کارکنوں کا پیٹ تو بھرنا ہے ، مجھے کہیں ’’سیر‘‘ پر نہیں جانا میں خوش ہوں پانچویں نمبر پر خوش ترین لوگوں میں سے ایک کہلا کر۔

نوٹ: یہ کالم سپرد قلم ہوا تو ایک شعر بھی وارد ہوا عرض ہے:

کشکول زدہ قوم کا تیشہ بھی کند ہے

منزل کے راستے میں ہر اک سمت دھند ہے

The post اپنی اپنی مجبوری appeared first on ایکسپریس اردو.

سیاست و بزنس کا امتزاج

$
0
0

حاکم علی زرداری کی فیملی زمیندارگھرانے سے تعلق رکھتی ہے، وہ ملتان سے سندھ میں آکر آباد ہوئے اور خاص طور پر ان کے دادا بلاول جنھیں بالو فقیر بھی کہا جاتا تھا، وہ ایک فقیرانہ مزاج کے آدمی تھے لیکن ان کے پاس بہت ساری زرعی زمین تھی اور وہ نواب شاہ ضلع کے بڑے زمیندار تھے ۔ ان زمینوں کو آباد کرنے کے لیے پورا ایک بابو واہ (Canal) کا پانی خرچ ہوتا تھا ۔ اس زمانے میں چار آب پاشی کینال اس علاقے میں بہتے تھے جس میں بابو واہ کے علاوہ کلرا واہ، مبارک واہ اور پنتھی واہ امل ہیں ۔

اس وقت بھی بالو فقیر زرداری کا مزار نواب شاہ شہر سے 7 کلومیٹر دور ہے جہاں پر لوگ فاتحہ خوانی کے لیے اکثر جاتے رہتے ہیں، ان کی عمر 115 برس تھی۔ بالو کے خاندان میں سجاول خان، حاجی حسین، حاکم علی زرداری اور آصف علی زرداری نے جدوجہد کرکے مقام حاصل کیا۔

حاکم علی زرداری نے اپنا سیاسی کیریئر میجر ڈسٹرکٹ کونسل نواب شاہ سے 1965 سے کیا ۔ 1970 میں پی پی پی کے ٹکٹ پر اپنے علاقے سے ایم این اے منتخب ہوئے۔ 1985 میں نان پارٹی الیکشن میں حصہ لیا مگر سعید علی اصغر کے ہاتھوں شکست کھائی جب کہ 1988 میں پی پی کے ٹکٹ پر ایم این اے بن گئے ۔ انھیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنادیا گیا۔ دوبارہ 1990 کے جنرل الیکشن میں وہ ایم این اے کی سیٹ آئی جے آئی کے امیدوار سید بشیر احمد شاہ کے ہاتھوں ہار گئے لیکن 1993 والے انتخابات میں وہ کامیاب ہوگئے۔ سیاسی کیریئر کے دوران 1976میں انھوں نے پی پی پی سے استعفیٰ دے دیا اور عوامی نیشنل پارٹی (ولی خان) میں شامل ہوگئے اور انھیں سندھ صوبے کا صدر بنا دیا گیا۔

شروع ہی سے سیاست میں کافی سنجیدہ تھے اور انھوں نے اس میں متحرک ہوکرکام کیا۔ جب وہ پی پی پی کے ساتھ تھے تو جنرل پرویز مشرف اور محمد نواز شریف نے انھیں جھوٹے مقدمے میں جیل بھجوا دیا مگر انھوں نے جیل کی سختیوں کو دلیری کے ساتھ برداشت کیا۔ انھیں خاکسار تحریک کے علامہ عنایت اللہ مشرفی سے بڑی انسیت تھی اور وہ تحریک کے ممبر بھی بنے۔ انھی دنوں میں وہ یونین کونسل جمال شاہ کے چیئرمین منتخب ہوگئے ۔ صدر محمد ایوب خان کی طرف Basic Democracy جب متعارف ہوا تو اس میں بھی حصہ لیا ۔ ضیا الحق کے زمانے میں مارشل لا سمری ملٹری کورٹ کی طرف سے ان پر 7 سال سیاست میں حصہ نہ لینے والی پابندی لگائی گئی۔ انھوں نے صدر ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان الیکشن میں فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا۔

حاکم علی زرداری شاید سندھ سے پہلے سندھی تھے، جس نے کراچی میں آکر بلڈرزکی دنیا میں اپنا کام شروع کیا اور آہستہ آہستہ اس میں کامیابیاں حاصل کرتے رہے۔ انھیں فلموں سے بڑا لگاؤ تھا اور وہ اداکار چارلٹن ہسٹن اور اداکارہ صوفیہ لارین کو بڑا پسند کرتے تھے ۔ فلموں کے شوق کی وجہ سے انھوں نے ایک سندھی فلم سورٹھ بنائی جس نے باکس آفس پر بڑی کامیابی حاصل کی۔ انھوں نے کراچی میں ایک ماڈرن انداز کا سینما بمبینو اور اس کے بعد اسکالا بنایا۔ وہ سینما مالکان کی ایسوسی ایشن کے چیئرمین منتخب کیے گئے۔ انھوں نے فلم کے ڈسٹری بیوٹر کے طور پر بھی کام کیا۔ وہ خاص طور پر 1958 سے 1962 تک فلمی دنیا میں بڑے مگن رہے۔

زمیندار تو وہ تھے ہی جس کی وجہ سے مال مویشیوں سے بڑا پیار تھا اور خاص طور پر انھوں نے بڑی اچھی نسل کے اونٹ اور گھوڑے پال رکھے تھے جنھیں وہ میلوں میں اکثر ریس میں آزماتے رہتے۔ اس وقت بھی ان کے بیٹے آصف علی زرداری نے یہ شوق قائم کر رکھا ہوا ہے۔ حاکم علی زرداری کے دادا سجاول خان بھی انگریزوں کے زمانے میں سیاست کرتے رہے جس کی وجہ سے سیاست اس خاندان کو منتقل ہوتی رہی ہے ۔ ان کے چار بھائی تھے جو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

حاکم علی نے دو شادیاں کی تھیں جس میں پہلی بیوی بلقیس بیگم ہیں جو حسن علی آفندی کی نواسی تھیں ۔ دوسری شادی انھوں نے مشہور براڈ کاسٹر زیڈ اے بخاری کی بیٹی زرین بیگم سے رچائی ۔ بڑی بیوی بلقیس بیگم کی اولاد میں آصف علی زرداری اور تین بیٹیاں فوزیہ زرداری، فریال ٹالپر اور عذرا پیچو ہوہیں۔ وہ 1927 اور کہیں 1930 لکھا ہوا ہے اپنے گاؤں فتول زرداری میں محمد حسین خان کے گھر میں پیدا ہوئے تھے ۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں اور مالو سانڈ سے حاصل کی۔ اس کے بعد وہ مدرسہ ہائی اسکول نوشہرو فیروز (نوشہرو فیروز) اور لوکل بورڈ ہائی اسکول نواب شاہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد نور محمد ہائی اسکول حیدرآباد چلے گئے اور باقی تعلیم وہاں سے حاصل کی۔

انھوں نے کراچی میں دو گھر بنائے تھے اور اس کے علاوہ جو بھی ان کی پراپرٹی تھی وہ انھوں نے یہ دنیا چھوڑنے سے پہلے ہی اپنے بچوں میں تقسیم کردی تھی۔ انھیں اچھے کپڑے پہننے کا بڑا شوق تھا اور وہ چاہتے تھے کہ ان کی اولاد اعلیٰ تعلیم حاصل کرے جس کے لیے انھوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ وہ بڑے متحرک اور عقلمند سیاستدان اور بزنس مین تھے ۔

حاکم علی زرداری نے اپنے بیٹے آصف علی زرداری کو بچپن ہی سے بزنس اور سیاست کی تربیت دیتے رہے اور جب وہ بیمار رہنے لگے تو انھوں نے آصف علی زرداری کو سیاست میں عملی طور پر لے آئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آصف علی زرداری صدر پاکستان بن گئے اور کئی تاریخی کام سرانجام دیے۔

یکم مارچ 2012 کو حاکم علی زرداری کی جب طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تو انھیں انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس پاکستان میں داخل کردیا گیا۔ تقریباً دو مہینے اور کچھ دنوں کے بعد 24 مئی 2012 کو یہ دنیا چھوڑ گئے۔ ان کے جسم خاکی کو پہلے پریزیڈنٹ ہاؤس لایا گیا جہاں سے اسپیشل جہاز کے ذریعے زرداری ہاؤس نواب شاہ پہنچایا گیا اور اس جگہ کو Red Zone قرار دیا گیا کیونکہ سیکیورٹی Concern کا خطرہ موجود تھا۔

اس موقعے پر پورے ضلع بے نظیر آباد میں چھٹی کا اعلان کردیا گیا جب کہ قریبی اور نواہی شہر بند کر دیے گئے اور پورے ملک سے پارٹی کے لوگ اور دوسرے افراد پہنچنے لگے ۔ ان کی تدفین کے وقت کو بعد میں اناؤنس کیا گیا۔

بہرحال حاکم علی نے پوری زندگی کی جدوجہد میں اپنی محنت کا محور سیاست، بزنس اور سوشل کاموں کو بنایا۔ انھوں نے زرداری قوم کو متحد کرنے کے لیے آل سندھ زرداری ایسوسی ایشن بھی بنائی جس کے وہ سردار منتخب کیے گئے۔

The post سیاست و بزنس کا امتزاج appeared first on ایکسپریس اردو.

الزامات اور وجوہات کا دراز سلسلہ

$
0
0

سندھ ہائی کورٹ نے پولیس کو قتل سمیت 22 مقدمات میں ملوث ایک سات سال سے قید ملزم کے خلاف گواہوں کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دیا تو جواب میں پولیس افسر نے کہا کہ کل گواہوں کو پیش کردیں گے جس پر عدالت نے تفتیشی افسر کو کہا کہ خود بھی کچھ کام کر لیا کریں۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ پر مشتمل دو رکنی بینچ کے روبرو یہ صورتحال اس وقت پیش آئی جب ملزم کے وکیل صفائی نے کہا کہ ملزم پر کراچی کے ایک ہی تھانے میں قتل سمیت 22 مقدمات درج ہیں اور وہ 2011 سے جیل میں ہے۔

2014 میں ملزم کو سکھر جیل منتقل کردیا گیا اور ملزم کے خلاف زیادہ ترگواہ پولیس اہلکار ہیں جو عدالت میں پیش نہیں ہوتے پولیس خود گواہوں کو پیش نہیں کرتی۔ ملزم سات سال سے جیل میں ہے کیا عدالتوں نے سوچ رکھا ہے کہ غریب کو انصاف نہیں دینا؟ چیف جسٹس نے جواب میں برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالتوں کو الزام نہ دیں کل سکھر خود بھی جائیں اور کیس چلائیں۔ عدالت نے پولیس کو بھی ہدایت کی کہ ہر قیمت پر گواہ پیش کریں خواہ خود پکڑکر لانا پڑیں جس پر پولیس افسر نے بیان دیا کہ انشا اللہ کوشش کریں گے کہ کل گواہوں کو پیش کردیں۔

یہ کیس مثال ہے جس میں عدالت ملزم کے وکیل اور پولیس کے دیے گئے ریمارکس کی جو ہائی کورٹ میں چیف جسٹس کے روبرو ہوئے اور چیف جسٹس کو بتایا گیا کہ قتل سمیت 22 ملزمان میں ملوث ملزم سات سال سے جیل میں ہے اور کیس اس لیے نہیں چل رہا کہ پولیس گواہ پیش نہیں کر رہی۔ اس کیس میں وکیل صفائی نے عدالتوں پر الزام لگادیا کہ عدالتوں نے غریب کو انصاف نہیں دینا۔

جواب میں چیف جسٹس کوکہنا پڑا کہ عدالتوں پر الزام نہ لگائیں اور وکیل صفائی خود سکھر جائیں اور کیس چلائیں۔ پولیس کو بھی کیس میں کہا گیا کہ وہ خود بھی کچھ کرلیا کریں۔ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات میں تاخیر کی یہ کیس ایک مثال ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ الزامات، تاخیر کی وجوہات کا یہ سلسلہ نچلی عدالت سے اعلیٰ عدالتوں تک یوں ہی چل رہا ہے اور اگر نہیں چل رہا تو کیس نہیں چل رہا اور فیصلوں میں تاخیر کے باعث ملزمان سزا کے بغیر ہی سالوں سے جیل میں فیصلے کے منتظر ہیں۔

اس صورتحال میں عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھ رہا ہے اور انھیں سننا پڑ رہا ہے کہ غریب کو عدالتوں نے انصاف نہیں دینا۔ سالوں سے قید ملزم کے وکیل کو سات سال بعد عدالت سے اس کی شکایت کرنے کا خیال آیا کیونکہ وکیل کو اس عرصے میں وکیل کرنے والے ملزم سے فیس بھی ملتی رہی اور پولیس افسر نے سات سال میں کچھ نہ کرنے کے بعد عدالت کی ہدایت پر انشا اللہ کا سہارا لے کر کہہ دیا کہ گواہ کل پیش کردیں گے۔

سات سال سے عدالت میں کیس گواہوں کے نہ آنے کی وجہ سے نہیں چل رہا کیونکہ پولیس اپنے پیٹی بند گواہوں کو پیش نہیں کر رہی۔ وکالت بھی مفت نہیں ہو رہی ہوگی اور انصاف میں تاخیر کا الزام عدالت پر لگ رہا ہے اور وہ ملزم سات سال سے جیل میں ہے جس پر ایک ہی تھانے میں درج قتل سمیت 22 مقدمات ہیں۔

ملزم پر دہشت گردی کا الزام ہوتا تو مقدمہ دہشت گردی کی عدالت میں چلتا اور فیصلہ بھی شاید ہوچکا ہوتا مگر قتل اور دیگر الزامات کا کیس متعلقہ عام عدالت میں زیر سماعت ہے اور فیصلہ نہ ہونے پر معاملہ ہائی کورٹ پہنچا جو خود قتل کی سزا نہیں دیتی بلکہ سزاؤں اور مقدمات کی اپیلیں سنتی ہے اور فیصلہ کرتی ہے۔

گزشتہ دنوں ایک خاتون اسما نواب کی 19 سال بعد رہائی کی خبر کا بڑا چرچا رہا جس پر اس کے والدین اور بھائی کے تہرے قتل کا الزام تھا جسے ایک پولیس افسر کی جھوٹی گواہیوں کے نتیجے میں موت کی سزا ہوئی تھی اور مذکورہ پولیس افسر کے مرنے کے بعد ملزمہ کو 19 سال جیل میں رہنے کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے سے رہائی ملی۔ اس سے قبل بھی قتل کے ایک مقدمے میں ملوث ملزم کو 20 سال بعد سپریم کورٹ سے اس وقت رہائی کا حکم ملا تھا جب وہ بیس سال فیصلہ نہ ہونے کے دوران خود ہی زندگی سے رہائی حاصل کرچکا تھا جس کو 20 سال جیل میں رہنے کا تو فائدہ نہیں ہوا تھا اور مرنے کے بعد اس کا فیصلہ آیا تھا جس پر اس کے ورثا کو یہ اطمینان ضرور ہوا تھا کہ مرنے کے بعد ہی قتل کے الزام سے مرحوم بری قرار پایا تھا۔

گزشتہ دنوں چیف جسٹس پاکستان کی طرف سے کہا گیا تھا کہ مقدمات میں تاخیر کا ذمے دار عدالتوں کو قرار نہ دیا جائے کیونکہ بعض وکلا بھی فیصلوں میں تاخیر کا سبب بنتے ہیں۔ چیف جسٹس کا یہ کہنا بھی کافی حد تک درست ہے کیونکہ فیصلوں میں تاخیر وکیلوں کے مفاد میں بھی ہوتی ہے اور ملزمان بھی یہی چاہتے ہیں مگر فیصلوں میں تاخیر کا الزام عدلیہ پر لگادیا جاتا ہے۔ ملکی عدلیہ پر اٹھارہ لاکھ سے زائد مقدمات کا بوجھ ہے جو مزید بڑھایا جا رہا ہے۔ عدالتوں میں نئے نئے مقدمات لانا بعض لوگوں کا شوق ہے تاکہ شہرت ملے جب کہ سیاسی معاملات میں بھی سیاستدان خود عدلیہ کو پھنسا چکے ہیں۔

یہ بات سو فیصد درست ہے کہ نچلی عدلیہ میں مقدمات میں تاخیر کی بڑی ذمے دار خود تفتیشی پولیس اور وکلا بھی ہیں۔ پولیس جھوٹے مقدمات بناتی ہے جن میں گواہ بھی پولیس اہلکار ہوتے ہیں۔ پولیس اہلکار جو مقدمات میں گواہ ہوتے ہیں یا مدعی وہ تبادلوں کے باعث عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے۔ پولیس کے جن گواہوں کو پتا ہوتا ہے کہ وہ جھوٹے گواہ بنائے گئے ہیں اس لیے وہ جان بوجھ کر پیش نہیں ہوتے۔ عدالتوں میں پیش نہ ہونے کی پولیس اہلکاروں کی یہ بھی شکایت ہے کہ انھیں متعلقہ عدالتوں میں پیش ہونے کی چھٹی دی جاتی ہے نہ سرکاری الاؤنس جو ملتا نہیں یا خواری کے بعد ملتا ہے اور پولیس کی وجہ سے ہی ملک میں لاکھوں مقدمات التوا کا شکار چلے آرہے ہیں۔

The post الزامات اور وجوہات کا دراز سلسلہ appeared first on ایکسپریس اردو.

قومی سلامتی پر دو بیانیوں کا ٹکراؤ

$
0
0

قومی سلامتی کے سرکاری بیانیہ اور سویلین بیانیہ میں پہلی بار پنجاب سے ٹکراؤ ابھرا ہے۔ پنجاب پاکستان کا سب سے طاقتور صوبہ ہے جو آبادی کے53 فیصداور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے80 فیصد لوگوں کی نمایندگی کرتا ہے۔پنجاب میںدونوں فریقوں کے درمیان یہ تضاد دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے چلا آ رہا تھاجو اب شدید ہوگیا ہے مگر لگتا ہے کہ مزید چند سالوں تک ان دونوں کے درمیان مقابلہ رہے گا۔

لاہورکی ایک یونیورسٹی نے90 کی دہائی کے وسط میں ایک اسٹڈی کا اہتمام کیا جس کا مقصد بھارت کے ساتھ تجارت شروع کرنے کے فوائد اور نقصانات کا جائزہ لینا تھا ۔یہ اسٹڈی ایک ممتاز اسکالر ڈاکٹر اعجاز نبی نے کی تھی جو اس نتیجے پر پہنچے کہ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات معمول پر آنے سے پاکستان کوکم وبیش فائدہ ہوگا ۔اُس وقت کے صدر فاروق لغاری کی طرف سے جو اپنے منصب کے باوصف یونیورسٹی کے چانسلر تھے، یونیورسٹی کے بعض ڈائریکٹرز کوجو سرکردہ بزنس مین تھے ، طلب کیا گیا ۔ان میں سے ایک ڈائریکٹر نے بعد میں بتایا کہ لغاری نے اس اسٹڈی پر ان کی سرزنش کی۔اس ڈائریکٹر نے کہا کہ ہمیں معلوم تھا کہ وہ’’ اسٹیبلشمنٹ‘‘ کا غصہ ہم تک پہنچا رہے ہیں ۔ اس کے چند سال بعد لاہور چیمبر آف کامرس نے بھی اس قسم کی ایک اسٹڈی کی اور یہ رائے ظاہر کی کہ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بحال ہونے چاہئیں۔

حتیٰ کہ جب چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے ، مجھے اپنے ذاتی تجربے سے معلوم ہوا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا احساس تھا اور لاہور میں دوسری ایگری بزنس کانفرنس میں ایک بڑے وفد کو مدعو کیا گیا تھا۔پنجاب کی طاقت کی بنیاد میں ،کاروباری اورصنعتی برادری کے حق میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے۔اب یہ برادری صوبے کا حکمران طبقہ ہے جو بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا چاہتا ہے۔وہ زمانہ گزرگیا جب وہ کھلی منڈی میں بھارت کے ساتھ مقابلہ کرنے سے گھبراتے تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ ان کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ وہ چین کی سستی درآمدات کا ہر طرح سے مقابلہ کر رہے ہیں۔

ہمیں بھارت کے ساتھ تعلقات کے بارے میں نواز شریف کے موقف کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔90 کی دہائی میں انھوں نے واجپائی کو لاہور آنے کی دعوت دے کر تعلقات معمول پر لانے کے لیے پہلی کوشش کی تھی جس کو کارگل مہم نے تباہ کر دیا۔ اس کے بعد بھارت کے ساتھ نہ صرف تجارت بلکہ سرمایہ کاری کے تعلقات استوار کرنے کے لیے آصف علی زرداری کی کوششوں کو ممبئی حملوں سے ناکام بنا دیا گیا ۔ نواز شریف نے سخت گیر مودی کے رویہ میں نرمی لانے کے لیے دہلی میں ان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی اور پھر انھیں لاہور میں اپنی نواسی کی شادی میں شرکت کی دعوت دی،مگر پٹھان کوٹ پر حملہ نے اس عمل کو ایک بار پھر تباہ کر دیا گیا۔

اب نواز شریف کا کہنا ہے کہ عمران خان کے دھرنے کا انتظام خفیہ ایجنسیوں نے کیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ(نواز شریف) سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل6 کے تحت بغاوت کا مقد مہ دائر کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس سے قبل انھوں نے اُس وقت خفگی کا اظہار کیا تھا ۔

اس پروپیگنڈا کا مقابلہ کرنے کے لیے کہ وہ خارجہ پالیسی کو ڈھنگ سے نہیں چلاپا رہے،انھوں نے مختلف مغربی ملکوں اور امریکا میں پاکستان کا کیس پیش کرنے کے لیے 22ارکان پارلیمنٹ کو گشتی سفیر کے طور پر بھیجا ۔ میڈیا کے بعض پنڈتوں کی طرف سے جو عام طور پر جنگی معیشت سے فائدہ اٹھانے والوں کی خدمت کرتے ہیں ،اس کوشش کا بہت مذاق اڑایا گیا۔ان ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹرز نے واپس آکر بتایا کہ وہ جہاں بھی گئے انھیں بھارت کے اس بیانیہ کا سامنا کرنا پڑا کہ پاکستان، بھارت اور افغانستان میں اپنی خارجہ پالیسی کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے غیر ریاستی اداکاروں کو پناہ دیتا اور ان کی مدد کرتا ہے۔ نواز شریف نے ان معلومات اور کارگل اور پٹھان کوٹ کے واقعات کے بارے میں اپنے تجربے کی بنیاد پر قومی سلامتی کے ایک اجلاس میں تشویش ظاہر کی ، مگر ان پالیسی اختلافات کو ظاہر کرنے کے لیے انھوں نے جس وقت کا انتخاب کیا وہ جنرل راحیل شریف کی میعاد کے آخری دن تھے۔چنانچہ یہ نیوز لیکس کا موضوعی معاملہ بن گیا، جس کے بارے میں بہت کچھ کہا جا چکا ہے، وہ جلد ہی اسٹیبلشمنٹ کے شدید رد عمل سے گھبرا گئے اور اپنے وفادار وزیر اطلاعات، پرویز رشید کو قربان کر دیا ۔

انھوں نے حال ہی میں ایک انٹرویو کے دوران بڑی ہوشیاری سے غیر ریاستی اداکاروں کی سرگرمیوںکے معاملے کا ذکر کیا جو اس علاقے میں امن کے لیے خطرہ ہیں ۔ انھوں نے ممبئی حملے کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے خلاف مقدمہ چلانے میں سست پیش رفت کا بھی حوالہ دیا ۔انھوں نے اپنے نکتہ نظر کی تائید میں کہا کہ چین اور روس، کے صدور، زی اور پیوٹن نے بھی ان کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا تھا۔یہ بات دلچسپی کی حامل ہے کہ میری معلومات کے مطابق، صحافی نے ایسا کوئی سوال نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے نواز شریف کوان معاملات پر اپنے دل کی بھڑاس نکالنی پڑی ۔ بھارتی میڈیا نے فوراً اس معاملے کو اچھالنا شروع کر دیا جب کہ پاکستان میں انتہا پسند قوم پرستوں نے ان کی باتوں کو قومی مفاد کے خلاف قرار دیا ۔ بعض لوگ تو اس حد تک چلے گئے کہ انھوں نے سابق وزیر اعظم پر غدار کا ٹھپہ لگا دیا ۔بدقسمتی سے پاکستان میں یہ عام روش ہے کہ اگر آپ قومی سلامتی کے معاملات پر اصل حکمرانوں سے اختلاف کریں تو آپ کو غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔

نواز شریف نے ایک جلسہ عام میں اس بات کی تصدیق کی کہ اُس اسٹوری میں جسے عرف عام میں نیوز لیکس کہا جاتا ہے،جو کچھ بھی چھپا وہ درست تھا۔انھوں نے یہ کہہ کر صاف طور پر بتا دیا کہ وہ پاکستان کے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے غیر ریاستی اداکاروں کے استعمال کے خلاف ہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ پہلی بار یوں لگ رہا ہے کہ قومی سلامتی کی پالیسی پر سول ، ملٹری تقسیم ہے۔ پاکستان میں سیاست دان کم و بیش اس سوچ کی حمایت کرتے ہیں کہ افغان طالبان اور بھارت کو نشانے پر رکھنے والے غیر ریاستی اداکاروں کا ساتھ دینا قومی مفاد میں نہیں ہے۔وہ قومی سلامتی کو جنگی معیشت سے فائدہ اٹھانے والوں کے پس منظر میں نہیں بلکہ پاکستانی عوام کے پس منظر میں دیکھتے ہیں ۔

تاہم ،میں نواز شریف کے ان ناقدین سے جزوی طور پر اتفاق کرتا ہوں جو کہتے ہیں کہ وہ ان معاملات کو اس وقت اس وجہ سے اٹھا رہے ہیں کہ انھیں پاناما لیکس کے کیس میں سزا کا امکان نظر آ رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان پر الزامات ثابت ہوتے ہیں یا نہیں ،کیوں کہ ان کا نام پاناما لیکس میں نہیں تھا اور رقم کے جس لین دین کا حوالہ دیا گیا وہ ان کے بیٹوں اور ان کے دادا کا معاملہ تھا۔

میں ان تمام ناقدین کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ نواز شریف کے خلاف اصل فرد جرم پاناما کیس نہیں ہے ، بلکہ یہ وہ قیمت ہے جو انھیں غیر ریاستی اداکاروں کے معاملے پر اسٹیبلشمنٹ کے موقف کا ساتھ نہ دینے کی وجہ سے ادا کرنی ہے۔ میں نے اوپر جن واقعات کا ذکر کیا ہے ان سے صاف پتہ چلتا ہے کہ قومی سلامتی کی پالیسی پر سویلین اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلاف ہے۔

بنگلہ دیش کا آپریشن ہو، بلوچستان کا آپریشن ہو،افغانستان بارے جنرل ضیا کی پالیسی ہو یا جنرل بابر کی طرف سے افغان طالبان کی سرپرستی اور بھارت کے ساتھ قیام امن کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کے لیے غیر ریاستی اداکاروں کا استعمال ہوا ، ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے ہمیں قومی سلامتی کے نام پر جو کچھ دیا ،اُس نے ملک کو نقصان پہنچایا۔

The post قومی سلامتی پر دو بیانیوں کا ٹکراؤ appeared first on ایکسپریس اردو.

بھارت کی آبی جارحیت

$
0
0

آخرکار وہی ہوا جس کا بڑا خدشہ تھا۔ عالمی بینک نے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر پر پاکستان کی شکایت اور پیش کیے گئے شواہد کو ناکافی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ اس سے قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی پاکستان کا احتجاج مسترد کرتے ہوئے ڈیم کا افتتاح کر دیا۔ بھارت نے اس منصوبے کا آغاز 2009 میں کرکے اسے 9 سال کے عرصے میں مکمل کرلیا ، یہ پاور اسٹیشن پاکستانی سرحد کے قریب قائم کیا گیا ہے۔

یہ پاکستان کے حصے کا پانی استعمال کرکے 330 میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا جوکہ پاکستان کے سینے پر مونگ دلنے کے مترادف ہے۔ کشن گنگا ڈیم کی تعمیر سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے اور یہ پاکستان کے خلاف بھارت کی آبی جارحیت کے زمرے میں آتی ہے۔ پاکستان نے بھارت کی اس جارحیت کے خلاف اپنا مقدمہ عالمی بینک کے سامنے پیش بھی کیا تھا اور عالمی بینک نے 2016 میں پاکستان کے حق میں حکم امتناع پر مبنی اپنا فیصلہ سناتے ہوئے بھارت کو ڈیم کے ڈیزائن میں تبدیلی کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔

اس کے علاوہ فروری 2013 میں دی ہیگ میں قائم عالمی ادارہ انصاف نے پاکستان کے موقف کو درست قرار دیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں واقع اس ڈیم کی تعمیر سے پاکستان کی جانب دریا کے بہاؤ پر غیر معمولی اثر پڑے گا۔ لیکن بھارت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور اس نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو پاؤں تلے روندتے ہوئے پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کا سلسلہ جاری رکھا۔

بھارت جس تیزی کے ساتھ یکے بعد دیگرے ڈیموں پر ڈیم تعمیر کر رہا ہے ان کی تکمیل کے بعد پاکستان میں پانی کا بحران مزید شدت اختیارکرجائے گا اور دریا جہلم اور چناب جو پہلے ہی خشک ہوتے جا رہے ہیں مزید خشک ہوکر چٹیل میدان بن جائیں گے۔ بھارت دریائے چناب پر 850 میگاواٹ کا رتلے پن بجلی منصوبہ بنا رہا ہے جس کی تعمیر کے بعد دریائے چناب میں بھی پاکستان کی جانب پانی کے بہاؤ پر غیر معمولی اثرات مرتب ہوں گے۔

ابھی چند روز قبل بھارتی وزیر مملکت برائے ٹرانسپورٹ و پانی نتن گڈکری نے ایک تقریب کے دوران پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا تھا کہ اترکھنڈ کے دریاؤں پر تین ڈیم بناکر پاکستان جانے والے پانی کو روک لیا جائے گا تاکہ بارش نہ ہونے کے باعث پیدا ہونے والے پانی کے بحران کے وقت آب پاشی کے لیے ان ڈیموں کا پانی استعمال کیا جاسکے۔

بھارت کے آبی جارحیت کے منصوبے برسوں پہلے ہی منظر عام پر آگئے تھے۔ اس وقت پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی حکمرانی کا دور تھا۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت آئی اور پھر مسلم لیگ (ن) کی حکمرانی کا دور آگیا۔ لیکن ان میں سے کسی بھی حکومت نے پاکستان کے خلاف بھارت کی آبی جارحیت کا سنجیدگی سے کوئی نوٹس نہیں لیا اور تمام حکمران محض اپنے اقتدار کے نشے میں ہی مست رہے جس سے بھارت نے خوب خوب فائدہ اٹھایا۔ اگر ہمارے حکمرانوں نے بھارت کے ان مذموم عزائم کو بروقت عالمی سطح پر بے نقاب کیا ہوتا اور عالمی رائے عامہ کو بیدار کیا ہوتا تو یہ نوبت نہ آتی اور عالمی برادری کی حمایت معقول حد تک پاکستان کے حق میں ہموار ہوجاتی اور بھارت کو من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ حاصل نہ ہوتی۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی معاملات متنازع اور اختلاف کا باعث ہیں اور پون صدی کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک حل طلب ہیں۔ ان کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا ماحول بنا ہوا ہے جو کسی بھی وقت تصادم کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔ یہی بنیادی متنازع امور دونوں ملکوں کے درمیان اسلحے کی دوڑ کا سبب ہیں۔ پانی کا مسئلہ ان میں سے ایک ہے جو قیام پاکستان کے وقت سے ہی ووٹوں ملکوں کے درمیان جھگڑے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

اصل بدنیتی بھارت کی ہے جس نے برصغیر کی تقسیم کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور شروع سے ہی پاکستان کو کمزورکرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اثاثوں کی تقسیم میں بھی اس نے پاکستان کے ساتھ زیادتی اور بے ایمانی کی۔ بھارت کی یہی خواہش رہی کہ پاکستان اپنے پاؤں پرکھڑا نہ ہوسکے اور کسی نہ کسی طرح بھارت کا محتاج اور دست نگر رہے۔ چنانچہ پاکستان کا ناطقہ بند کرنے کے لیے اس نے کسی طرح بھارت کی طرف جاکر بہنے والے دریاؤں پر ڈیم تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی شروع کی تاکہ پاکستان کی سونا اگلنے والی زرعی زمین بنجر ہوجائے۔

پاکستان کے ساتھ بھارت کا آبی تنازع تقسیم ہند کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔ تاآنکہ 1960 میں پاکستان کو بھارت کی شرانگیزی سے بڑی حد تک نجات مل گئی اور پانی کی تقسیم کے معاملے میں بھارت کی دخل اندازی عالمی ادارے کے نوٹس میں آگئی۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت یہ طے پایا کہ دریائے سندھ کے نظام کے ساتھ جڑے ہوئے چھ دریا جو بھارت اور پاکستان کی حدود میں بہتے ہیں برابری کی سطح پر تقسیم کیے جائیں گے۔ چنانچہ اس معاہدے کے تحت تین دریا یعنی دریائے سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کی ملکیت اور راوی، بیاس اور ستلج بھارت کی ملکیت مان لیے گئے۔

اس معاہدے کے باوجود بھارت ڈنڈی مارنے سے باز نہیں آیا لیکن مجموعی طور پر پاکستان بھارت کی من مانی سے محفوظ ہوگیا۔ لیکن چونکہ بھارت کی نیت میں فتور تھا اس لیے اس نے 2005 میں مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے حصے کے دریا جہلم کے معاون دریا کشن گنگا پر جو پاکستان میں دریائے نیلم کے نام سے جانا جاتا ہے ایک پن بجلی پلانٹ تعمیر کرنے کا یک طرفہ اعلان کردیا۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت اس کا قطعی مجاز نہیں تھا۔

بھارت کی یہ حرکت سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ پاکستان نے بھارت کے اس رویے پر شدید احتجاج کیا جو صدا بہ صحرا ثابت ہوا اور بھارت کے کان پر جوں بھی نہ رینگی۔ اس کے بعد پاکستان نے اس مسئلے کو سیاسی اور سفارتی سطح پر حل کرنے کی ممکنہ حد تک کوشش کی اور بھارت کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ یہ منصوبہ سندھ طاس معاہدے کے منافی ہے اور پاکستان کے مفاد کے خلاف ہے لہٰذا اسے فوراً روکا جائے۔ لیکن ہٹ دھرم بھارت نے پاکستان کی ایک نہ سنی اور خاموشی اور ڈھٹائی سے اپنے اس مذموم منصوبے پر کام شروع کردیا۔

2010 میں پاکستان یہ مسئلہ دی ہیگ کی عالمی عدالت میں لے گیا جہاں بھارت کو منہ کی کھانی پڑی۔ عدالت نے پاکستان کے موقف کو درست قرار دیا اور بھارت کو یہ منصوبہ لپیٹنے کا حکم دے دیا۔ قانونی اور اخلاقی ہر اعتبار سے پاکستان کی پوزیشن واضح اور برحق تھی، لیکن بدقسمتی سے اس معاملے کے نگران ادارے (پاکستان انڈس واٹر کمیشن) کے حکام نے اس دوران انتہائی  نااہلی کا مظاہرہ کیا۔ بعض اطلاعات یہ بھی ہیں کہ واٹر کمیشن کے کچھ ارکان خیانت کا ارتکاب کرتے ہوئے پاکستان کا مقدمہ کمزور کرتے رہے اور حکومت پاکستان نے بھی اس معاملے میں پوری سنجیدگی کے بجائے نیم دلی کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں بھارت کو اس منصوبے کو آگے بڑھانے کا موقع ہاتھ آگیا۔ چنانچہ اسی عالمی عدالت نے 2013 میں بھارت کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے اس منصوبے کو غیر نقصان دہ قرار دے دیا۔

بھارت چناب کا پانی روکنے کے لیے بھی ایک منصوبہ بگلیہار ڈیم کے نام سے جاری کیے ہوئے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کے یہ منصوبے پاکستان کے آبی وسائل کو مفلوج کرنے کی گھناؤنی سازش کا حصہ ہیں۔ ان منصوبوں کی تکمیل سے پاکستان کے حصے کا پانی بھارت کے تصرف میں چلا جائے گا اور پاکستان کو زراعت کے ساتھ ساتھ آب نوشی کی ضرورت بھی تشنہ لبی کا شکار ہوجائے گی۔ یہ ہے بھارت کی پاکستان کے خلاف کھلی آبی جارحیت جس کا ہر صورت مقابلہ کرنا ہمارا قومی فریضہ ہے ورنہ ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہ کریں گی۔

The post بھارت کی آبی جارحیت appeared first on ایکسپریس اردو.


3 خوا 3

$
0
0

اگر آپ کی اجازت ہو تو آج ہم کو کچھ خواتین بلکہ (3خوا3 ) کے بارے میں کہنا چاہتے ہیں، ویسے اجازت نہ بھی ہو تو چلے گا کیونکہ ہم ’’ تہہ طوفان ‘‘ کیے ہوئے ہیں اور بزرگوں نے کہا کہ بہادر جب ایک طرف رخ کر لیتے ہیں تو پھر نہیں پلٹتے، چاہے آگے کنواں آئے یا کھائی۔

اس سلسلے میں سنا ہے کہ سب سے بڑا بہادری کا وکٹوریہ کراس Xاس جانور کو جاتا ہے جس کے سینگ بھی نہیں ہوتے اور خود بھی کم از کم لاہور میں تو بالکل نہیں ہوتا کہ وہاں خطرہ چھری سو چاقو والف کا ہوتا ہے ۔ان تینوں خواتین یعنی (3خوا3 ) کا تعلق ان واقعات سے ہے جو آج کل دونوں پڑوسی ملکوں میں بڑی تیزی سے وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ وہی جنسی ہراسگی یا ہراسانی جس کا دانشورانہ اور میڈیائی نام ’’ ہراسمنٹ ‘‘ہے۔سب سے پہلا بیان تو پڑوسی ملک کی ایک عفیفہ مشہورہ اور معصوم محترمہ ملکہ شراوت کا ہے ۔

اس نے اتنے ہی جارحانہ انداز میں جنسی ہراسمنٹ پر بیان دیا ہے جتنے جارحانہ انداز میں وہ کپڑوں سے سلوک کرتی ہے۔ کہا ہے کہ گاندھی کے دیس میں ان حالات پر مجھے شرم آرہی ہے، آنا بھی چاہیے لیکن اس میں ہمیں تھوڑی سی غلط بیانی بھی نظر آرہی ہے ۔ شرم تو اسے تب آئے گی جب اس سے کبھی گئی بھی ہو۔ اس کے پاس تو اتنی شرم ہمیشہ موجود رہتی ہے کہ کچھ اور شرم کے لیے گنجائش ہی باقی نہیں رہتی لیکن ٹھیک ہے، وہ کہتی ہے تو ٹھیک ہی کہتی ہوگی کیونکہ وہ ہمیشہ ٹھیک ہی کہتی ہے، ٹھیک کرتی بھی ہے اور ٹھیک پہنتی بھی ہے ۔

اور ایسا بیان صرف اسی کے منہ سے زیب دیتا ہے کیونکہ وہاں عورت کو جو ’’ مان سمان ‘‘ حاصل ہے جس کا ایک نمونہ وہ خود بھی ہے، اس کے پیش نظر واقعی گاندھی کے دیس میں ایسا ویسا نہیں ہونا چاہیے۔اور پھر خود  اس نے جو اپنے کیریئر میں عصمت و عفت بلکہ شرم و حیاکے لیے جو کام کیا ہے ایسے میں تو بالکل بھی نہیں ہونا چاہیے، وہ کتنی محنت سے لوگوں کو تفریح  فراہم کیے جا رہی ہے اور یہ مرد ویئے پھر بھی بے قابو ہو کر جنسی ہراسگی پھیلا رہے ہیں ۔

ویسے ایک بات ہے کہ بد سے بدنام برا ہو جاتا ہے ورنہ اس ملک میں جو ’’ کام ‘‘ زینت امان اور ممتاز وغیرہ نے شروع کیا تھا، اب وہ اتنے زوروں پر چل رہا ہے کہ صرف آنکھوں کی سوئیاں جو چارگرہ کپڑے پر مشتمل ہیں وہ بھی نکلا چاہتی ہیں، اس پر بھی اگریہ مر دوئیے جنسی ہراسمنٹ سے باز نہیں آرہے ہیں توتف ہے ان پر اور ان کے ’’ باپوں ‘‘ پر دادوں پر بلکہ اب تو بات اس مقام پر پہنچی ہے کہ اس کے آگے اور کوئی مقام ہے ہی نہیں ۔

ایک پرانی بات یاد آگئی، وی سی آر اورکیسٹ بازار میں تازہ تازہ وراد ہوئے تھے۔ ایک شخص ہمارے گاؤں عرب سے وی سی آر اور ایک مصری کیسٹ لے آیا تھا جو ایک مصری ڈانسر کے ’’ فن ‘‘ سے بھری ہوئی تھی ۔ اس مصری رقاصہ نے کمر سے دو چار انچ کا ایک کپڑا باندھا ہوا تھا جو سارے جسم پر واحد بیرونی شے تھی۔بہت سارے لوگوں نے وہ کیسٹ دیکھی تھی اور دیکھے جا رہے تھے۔ ایک دن ایک شخص جس نے خود بھی وہ کیسٹ دیکھی تھی ، اپنے چھوٹے بھائی کو بلا نے آ گیا ۔ جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ رقص دیکھ رہا تھا۔ اپنے بھائی کو بلانے کے بعد بیٹھک کے دروازے میں جھانکتا ہوا ، ان نوجوانوں سے بولا،اگر تم اس انتظار میں ہو کہ اس عورت کا یہ کپڑا گر جائے گا تو ہر گز گرنے والا نہیں، اس لیے اپنا وقت ضایع مت کرو۔

لیکن پڑوسی ملک والوں کا وقت ضایع نہیں ہوگا بہت جلد وہ چار گرہ کا کپڑا بھی گرنے ہی والا ہے جو اس بیان دینے والی عفیفہ کا کل اثاثہ جسم ہے۔باقی دو خواتین کا تعلق پاکستان سے ہے ، ان میں ایک تو اسپورٹسمین ہے جو ہمیں کبھی کرکٹ کی وجہ سے پسند نہیں تھی لیکن اب اس بیان کے بعد اتنی پسند آئی ہیں کہ اس بیان پر ہم اسے حج کا ثواب بھی نذر کریں تو کم ہوگا ۔ اس نے ایک اور خاتون جو خیر سے معروف اداکارہ اور ماڈل ہے کو نشانے پر لیا ہوا ہے جو آج کل جنسی ہراسمنٹ کی روک تھام میں بے حد مصروف ہے۔ اسپورٹسمین خاتون نے اپنے فیس بک پر جو کہا ہے وہ ہم ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں لیکن فیشن انڈسٹری، میڈیا انڈسٹری ، اشتہاری انڈسٹری کے نقاروں میں طوطی کی آواز طوطی بھی نہیں سنتی۔

اس محترمہ  نے تفصیل سے مرض کی اصل ’’ جڑ ‘‘ کو پکڑتے ہوئے لکھا ہے کہ کیسے کیسے اشتہاری کمپنیوں کے کنٹرول میں یہ لڑکیاں ہوتی ہیں ۔ انھوں نے  جو پتے اور نکتے کی بات بتائی ہے وہ یہ ہے کہ یہ خواتین کو ہمیشہ ایک ’’چیز ‘‘ یعنی پروڈکٹ کے طور پر دیکھتے ہیں ۔ اچھا ہوا کہ یہ محترمہ جو ہمیں پہلے بالکل پسند نہیں تھیں اور اب اتنی پسند ہیں کہ  ان کی  بلائیں  لے رہے ہیںکہ

ایں کار راز تو آئدو مرداں چنیس کنند

ہم ایک عرصے سے یہی کہے جا رہے ہیں کہ عورت بھی میڈیا کی طرح جتنی غلام آج ہے اس سے زیادہ پہلے کبھی نہیں تھی کہ ان دونوں کو آزادی کے وہم میں مبتلا کرکے کٹھ پتلی سے بھی زیادہ بے بس کر دیا گیا ہے۔

آخر ذرا عقل کے ناخن لیجیے انصاف کو ہاتھ لگائیے اور خدا لگتی کہئے کہ جب قدم قدم پر جنسی ترغیب و تحریص کے میلے لگے ہوں، وہاں بیچارہ مرد کیا کرے گا ۔ عجیب منطق ہے باقاعدہ اور نہایت زور سے جنسی دعوت دے کر جنسی ہراسمنٹ کا شور بھی مچایا جا رہا ہے ۔

درمیاں قعر دریا تختہ بندم کردہ ای

بازمی گوئی کہ دامن ترمکن ہشیار باش

بارش برسائی جارہی ہے اور خبردار ہوشیار اگر بھیگے تو کی آواز یں بھی دی جا رہی ہیں ۔

ہم اسپورٹسمین محترمہ کے معتقد ہو گئے ہیں کہ  کھلاڑی اور ملکوں ملکوں پھرنے کے باوجود اس کے اندر عورت زندہ ہے اور عورت کو ’’چیز ‘‘ یعنی پروڈکٹ سمجھنے کے خلاف ہے اور یہی اصل آزادی نسواں ہے کہ عورت بھی رہے اور انسان بھی رہے اور خود کو چیزیا پروڈکٹ  نہ بننے دے۔

The post 3 خوا 3 appeared first on ایکسپریس اردو.

سیاسی مدبرین کی ذہنیت

$
0
0

پہلی جنگ عظیم سے لے کر افغانستان کی جنگ تک دنیا کی قیادت ایسے جنگجو اور نااہل لوگوں کے ہاتھوں میں رہی، جن کو دنیا کے اجتماعی مفادات اور 7 ارب انسانوں کی اجتماعی بھلائی پر اپنی انا اور عصبیت کو اولیت حاصل رہی ہے۔ دوسری جنگ عظیم یا عالمی جنگ میں ہٹلر نے جو حماقتیں کیں اسی قسم کی حماقتیں عراق کی جنگ میں بش جونیئر نے کیں۔

دور حاضرکی بدقسمتی یہ ہے کہ امریکا کو ڈونلڈ ٹرمپ جیسا جذباتی صدر ملا ہے اور شمالی کوریا کو ٹرمپ کا چھوٹا بھائی ملا ہے۔ کہاں امریکا پر دن رات ایٹمی میزائل داغنے کی باتیں اورکہاں نہ صرف ایٹمی تجربات سے دستبرداری بلکہ ایٹمی تجربات کی سائٹس کو ختم کردینا۔ یہ متضاد سیاست جہاں ناپختہ ذہنیت کی عکاس ہے بلکہ فرعونیت کا مظہر بھی  ہے جہاں تک ٹرمپ کا سوال ہے ، امریکی جمہوریت کا ٹرمپ ایسا شاہکار ہے جس کی ماضی میں مثال ملنا مشکل ہے۔

ٹرمپ کی شخصیت کے تضادات اور جنگ پسندی محض اقتدار کا نشہ نہیں ہے بلکہ اقتدار میں آنے سے پہلے یہ تمام ’’خوبیاں‘‘ ٹرمپ کی شخصیت کا حصہ رہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے متلون مزاج رہنما کو امریکی عوام نے اپنا قائد کیوں منتخب کیا؟ اس سوال کا جواب ٹرمپ کی شخصیت میں تلاش کرنا بے سود ہے اس کا جواب سرمایہ دارانہ جمہوریت ہی دے سکتی ہے جو عوام کی برتری کی دعویدار اور رائے عامہ کی اہمیت کی حامی ہے۔

شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان مسلسل کشیدگی اور جنگی صورتحال کے بعد شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ نے یکطرفہ طور پر نہ صرف جنوبی کوریا کے صدر سے غیر مشروط امن مذاکرات کا اعلان کرکے دنیا کو حیرت زدہ کردیا بلکہ ایٹمی تجربات کے ختم کرنے کا اعلان ہی نہیں کیا بلکہ ایٹمی تجربات کی تمام سائٹس کو تباہ کرنے بلکہ اس حیرت انگیز کارروائی کا مشاہدہ کرنے کی دعوت امریکا اور اس کے اتحادیوں کے میڈیا پرسنز کو دے کر اپنی مخلصانہ کاوشوں کا بہ چشم خود مشاہدہ کرنے کی دعوت دے کر اپنے خلوص کا اظہارکیا۔

اس نئی صورتحال سے جس کا کریڈٹ شمالی کوریا کے صدر کم جونگ کو جاتا ہے۔ دنیا نے سکھ اور شانتی کا سانس لیا تھا کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان کیا کہ امن کے حوالے سے ہونے والی کم جونگ سے ملاقات منسوخ کردی اور صدر ٹرمپ نے اس کی وجہ شمالی کوریا کا غصہ اور دشمنیت بتائی۔

امریکی صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ ان کو خط لکھا ہے کہ وہ اگلے ماہ سنگا پور میں ہونے والی جوہری سربراہی کانفرنس کو منسوخ کر رہے ہیں، ٹرمپ نے اس ممکنہ تاریخی کانفرنس کی مضبوطی کی وجہ شمالی کوریا کا غصہ اور دشمنیت بتایا۔ اس سے قبل شمالی کوریا نے امریکی نائب صدر مائیک پینس کو جاہل اور بے وقوف کہا تھا۔ جس کے جواب میں ٹرمپ کا یہ خط سامنے آیا جس میں موصوف نے سنگاپور کی اہم ترین کانفرنس کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کیے گئے ڈونالڈ ٹرمپ کے شمالی کوریا کے صدر کم جونگ کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ کے حالیہ بیانوں میں جھلکنے والے غصے اور دشمنیت کی وجہ مجھے یہ غیر مناسب لگتا ہے کہ ایسے موقعے پر ہم طویل عرصے سے منصوبہ بندی کی جانے والی ملاقات کا انعقاد کریں ۔ ٹرمپ نے امریکی جوہری ہتھیاروں کی تشہیر کرتے ہوئے کہا کہ آپ جوہری صلاحیتوں کی بات کرتے ہیں لیکن آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ ہماری جوہری صلاحیت اتنی زیادہ ہے کہ میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اس کا کبھی استعمال نہ کرنا پڑے۔

مستقبل کے مذاکرات کے حوالے سے خط میں کہا گیا ہے کہ ہم مستقبل کے حوالے سے آپ کے صبر، مذاکرات کے لیے آپ کی جانب سے کی گئی کوششوں کی قدر کرتے ہیں۔ خط میں ٹرمپ کی جانب سے کم جونگ کو کہا گیا ہے کہ آپ کے اور میرے درمیان ایک بہترین رابطہ ہو رہا تھا اگر آپ اس انتہائی اہم کانفرنس کے لیے اپنا موقف تبدیل کرتے ہیں تو آپ بلا جھجک مجھے ٹیلی فون کرسکتے ہیں یا خط لکھ سکتے ہیں۔

ٹرمپ کا ارشاد ہے کہ دنیا خصوصی طور پر شمالی کوریا نے دیرپا امن اور عظیم خوشحالی کا موقع گنوا دیا۔ یہ موقع گنوانا تاریخ کا افسوسناک عمل ہے۔ ٹرمپ کے اعلان سے کچھ ہی دیر قبل شمالی کوریا نے اپنی ایٹمی تجربہ گاہ منہدم کردی تھی۔ شمالی کوریا نے کہا ہے کہ ہماری جوہری ٹیسٹ سائٹس کو تباہ کرنے کا مقصد علاقائی کشیدگی کو کم کرنا ہے۔

واشنگٹن میں موجود چینی وزیر خارجہ نے فرمایا ہے کہ امریکا کے پاس شمالی کوریا کے ساتھ امن معاہدہ کرنے اور ایک نئی تاریخ رقم کرنے کا یہ ایک بہترین وقت ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ انھیں امید ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کے درمیان طے شدہ اور منسوخ شدہ ملاقات اب بھی ہوسکتی ہے شمالی کوریا کے اعلیٰ عہدیدار پھوئے چن ہی نے کہا ہے کہ امریکا سے مذاکرات کی بھیک نہیں مانگیں گے امریکا مذاکرات کرنا چاہتا ہے یا ایٹمی جنگ چاہتا ہے۔ یہ اس پر منحصر ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے سنگاپور مذاکرات کی منسوخی کے اسباب اور شمالی کوریا کے خیالات اگر اخبارات میں درست رپورٹ ہوئے ہیں تو بلا تکلف یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دنیا کی واحد سپر پاور کے صدر اور شمالی کوریا جیسے اہم ملک کے صدر کے خیالات نہیں بلکہ کسی تھرڈ کلاس ملکوں کے سربراہوں کے درمیان تاریخی تبادلہ خیال کا نمونہ ہے۔ اسے دنیا کے 7 ارب انسانوں کی بدقسمتی کہیں یا دنیا کے ’’عظیم ملک‘‘ امریکا کی ’’شاندار سفارتکاری‘‘ کا نمونہ کہیں کہ اس قسم کی قیادتیں دنیا کی سربراہی کر رہی ہیں۔

امریکا اپنے آپ کو دنیا کی واحد سپر پاور کہتا ہے لیکن بدقسمتی سے ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کا حکم دینے والے امریکی صدر ٹرومن سے لے کر ڈونلڈ ٹرمپ تک امریکا کو جو قیادت نصیب ہوئی ہے وہ نہ صرف جنگجو ذہنیت کی حامل ہے بلکہ سفارت کاری کے حوالے سے اس قدر گھٹیا ذہنیت کی عکاس ہے کہ امریکی عوام کی پسند پر حیرت ہوتی ہے کہ کیا انھیں ڈونلڈ ٹرمپ جیسا لٹھ مار اور مجموعہ اضداد شخص کے علاوہ کوئی مدبر شخص نہیں ملا؟ دوبارہ مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا ہے دیکھیے یہ سلسلہ کہاں تک چلتا ہے۔

The post سیاسی مدبرین کی ذہنیت appeared first on ایکسپریس اردو.

چوہدری شجاعت۔ صاحب کتاب

$
0
0

کتاب اور انسان کا رشتہ روز اول سے انتہائی مضبوط چلا آرہا ہے۔ ہم جس دین کے پیر وکار ہیں، اس کی بنیاد ہی اس کتاب پر ہے جس میں کلام الٰہی بنی نوع انسان تک پہنچایا گیا ۔ رشدو ہدایت کی اس پہلی کتاب میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی روشنی میں انسان اس کے مطابق عمل کر کے اپنی زندگی کی راہیں متعین کرنے کے احکامات ہیں ۔ کئی سو سال پہلے کی یہ سچایاں آج کے جدید دور میں بھی سائنس کی روشنی میں سچ ثابت ہو رہی ہیں۔

انسانی عقل دنگ ہے کہ مسلمان جس دین کے پیرو کار ہیں ان کو آج سے کئی سو سال پہلے ہی آنے والی زندگی گزارنے کے اصولوں کے مطابق بتا دیا گیا تھا ۔ قران پاک وہ معجزہ ہے جو آج سے کئی سوسال پہلے ظاہر ہوا اور اس کی برکات جاری ہیں اور رہیںگی۔یہ دائمی ہیں ۔

انسانوں کی جانب سے مختلف موضوعات پر لکھی گئی کتابیں معلومات کا ذریعہ ہیں لیکن جو کتابیں سیاستدانوں نے لکھی ہیں ان کتابوں نے اپنے اپنے وقتوں میں پڑھنے والوں کے ذہنوں میں موجود ابہام کو دور بھی کیا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ کتاب میں مکمل سچائی کے ساتھ اور بغیر کسی مبالغے کے حقیقت بیان کر دی جائے۔پاکستان میں سیاستدانوں کی لکھی گئی کتابوں کو بھی پذیرائی ملی اور کچھ سیاستدان ایسے بھی تھے جو ملکی تاریخ کے کئی رازوں کو اپنے سینے میں چھپائے اس دنیا فانی سے رخصت ہو گئے جن میں ایک میاں ممتاز دولتانہ بھی تھے، ان کو کئی بار یاداشتیں لکھنے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ اس کے  لیے تیار نہ ہوئے ۔

میاں صاحب اکثر کہتے تھے کہ جب کوئی میرا ہم عمر مر جاتا ہے تومیںخوش ہوتا ہوں کہ وہ اس دن کو دیکھنے سے بچ گیا جب پاکستان مرے گا ۔میرے اور پاکستان کے درمیان دوڑ لگی ہوئی ہے اور میری خواہش ہے کہ میں جیت جاؤں ۔ مرحوم میاں صاحب اس قدر تو جیت گئے کہ ان کی زندگی میں وہ پاکستان تو نہ رہا جس کے لیے ان کی جماعت نے کامیاب کوشش کی تھی لیکن اس کا نام ان کی وفات تک باقی رہا۔

میں نے ایک بار میاں صاحب سے کہا کہ آپ اپنی یاداشتیں مرتب کر لیں، انھوں نے جواب میں کہا کہ جب کچھ لکھنے کی فرصت ملی تو طبیعت پر مسلسل برہمی کی کیفیت چھائی رہی ۔ ان کا اشارہ ایوب خان کے مارشل لاء کی طرف تھا۔ ایسی کیفیت میں میرے لیے لکھنا بہت مشکل تھا، ایک بار ان کو ان کے مرید خاص مرحوم چوہدری الطاف حسین جب پنجاب کے گورنر بن کر آئے اور میاں صاحب کی خدمت میں سلام کے لیے حاضر ہوئے تو انھوں نے کہا کہ قادر حسن لکھتا جائے گا آپ بولتے جائیں۔

وہ بہت خوش ہوئے اور پوچھا کہ اس کے پاس اتنا وقت ہے، سنا ہے وہ بہت مصروف ہو گیا ہے۔ یہ میری طویل غیر حاضری کا شکوہ تھا اس کے بعد میں اور الطاف صاحب پروگرام ہی بناتے رہے لیکن میری لاتعداد سستیوں میں ایک یہ بھی شامل ہے ۔لوگ چلے گئے اور ہم ان کے نقش پا دیکھتے رہ گئے۔

یہ سب باتیں چوہدری شجاعت کی کتاب پڑھنے کے بعد یادآرہی ہیں، چوہدری صاحب نے بھی آخری مارشل لاء کے بعداپنی کتاب کی طباعت کا سلسلہ شروع کیا اور یہ اب آ کر مکمل ہوئی ہے۔ ہمارے سیاستدانوں نے زیادہ تر کتابیں جیل میں رہ کر لکھی ہیں یعنی وہ جب کسی حکمران کے معتوب ٹھہرے تو جیل میں ان کے پاس اتنا وقت ہوتا تھا کہ وہ اپنی یاداشتیں مرتب کرتے جاتے اور بعد میں جیل سے رہائی کے بعد ان کو اکٹھا کر کے قلمبند کر لیتے جب کہ بعض سیاستدانوںنے جیل میں رہتے ہوئے بھی اپنی کتابیں شایع کرائیں۔

چوہدری شجاعت حسین خوش قسمت سیاستدان ہیں جنہوں نے اپنی یاداشتوں کو جیل سے باہر آزاد فضا میں رہ کر لگی لپٹی رکھے بغیر مرتب کیا اور پھر اسے اپنی زندگی میں ہی عوام کے سامنے پیش کر دیاتا کہ اگر کوئی ان کی تحریر سے اختلاف کرے تو اس کا جواب بھی دے سکیں ۔ چوہدری صاحب سے میری یاد اللہ کب سے ہے اس کا مجھے خود بھی نہیں معلوم لیکن ان کے والد محترم چوہدی ظہور الٰہی سے رشتہ ان کی آخری سانسوں تک برقرار رہا جسے ان کے بعد چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز نے خوب نبھایا ۔

میں چوہدری صاحب کی کتاب کی تقریب رونمائی میں بوجہ شرکت نہ کر سکا جس کا مجھے افسوس رہے گا ، اس کا نقصان یہ ہوا کہ کتاب ہاتھوں ہاتھ بک گئی بلکہ یوں کہیں کہ نایاب ہو گئی اور میں بھی اسی نایابی کا شکار بن گیا وہ تو بھلا ہو اقبال چوہدری صاحب کا جنہوں نے مجھے کتاب بجھوا دی ۔یہ وجہ تھی کہ کتاب پر تبصرے میں بہت تاخیرہوگئی۔ اس کتاب میں کئی ایسے واقعات بھی ہیں جن کا میں عینی شاہد تو نہیں ہوں لیکن میں بھی انھیں مقامات پر موجود تھا جب یہ فیصلے کیے جارہے تھے ۔

چوہدری صاحب نے اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے آج کے نفسا نفسی کے دور میں سچ بیان کیا ہے، ان کے اس سچ سے کس کو کتنا اختلاف ہے، یہ ابھی تک سامنے نہیں آیا، انھوں نے ممکن حد تک اپنی اور اپنے خاندان کی سیاسی جدو جہد کو اپنے قلم کے ذریعے عوام تک پہنچا دیا ہے، وہ ان خوش قسمت ترین انسانوں میں شامل ہیں جو کہ اقتدار کے اعلیٰ ایوان تک بھی پہنچے جب کہ اسی وقت ان کے کزن چوہدری پرویز الٰہی ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ تھے یعنی ان کے ان تما م دکھوں کاکسی حد تک مداواہو گیا جو ان کے سیاسی ساتھیوں نے ان کو دیے تھے۔

چوہدری پرویزالٰہی وزارت اعلیٰ کے امیدوار تھے لیکن ان کے بزرگ میاں شریف صاحب کے وعدوں کے باوجود شہباز شریف کے سر پر پنجاب کی پگ رکھ دی گئی اوریوں نواز شریف اور شہباز شریف دونوں بھائی وزیر اعظم اور وزارت اعلیٰ کے منصب پرفائز ہو گئے، اسی طرح کچھ عرصے بعد وقت تبدیل ہوا اور تاریخ کا پہیہ گھوما چوہدری شجاعت وزیر اعظم تھے اور پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب کے منصب پر فائز تھے۔صاحب کتاب چوہدری شجاعت نے خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے والد کی سیاسی میراث کو سنبھالا اور اپنے سیاسی حریفوں کاخوب مقابلہ کیا۔  وہ سیاسی میدان میں ملک کے اعلیٰ ترین منصب تک بھی پہنچے ۔

چوہدری شجاعت اب صاحب کتاب بھی ہو گئے ہیں اور امید ہے کہ وہ بہت جلد باقی ماندہ سچ بھی قوم کے سامنے رکھیں گے جس کا انھوں نے وعدہ کیا ہے لیکن یہ وعدہ وفا کرنا آسان نہیں ہے۔ خدا چوہدری صاحب کو صحت دے اور وہ اپنا وعدہ پورا کر سکیںلیکن سیاست کے کئی پہلو چوہدری ظہور الٰہی شہید کے ساتھ ہی چلے گئے۔سیاست کی کئی کتابیں گم ہو گئیں ہیں ان کو پڑھنے والے ہی چلے گئے ہیں۔

The post چوہدری شجاعت۔ صاحب کتاب appeared first on ایکسپریس اردو.

چور لے جائیں تو بھلے لے جائیں

$
0
0

اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ اس ملک کے بچپن سے ہی نادیدہ اسٹیبلشمنٹ غالب ہے، سیاستدانوں کو پوری طرح پر پھیلانے کا کبھی موقع نہیں ملا، جمہوریت کا پودا جب بھی لگتا ہے بار بار اکھاڑ کے دیکھا جاتا ہے کہ اب تک جڑکیوں نہیں پکڑی؟ جمہوریت نواز قوتوں کے مابین تخریب کار چھوڑے جاتے ہیں جن کا کام ہی نفاق پیدا کرنا اور غلط فہمیاں بڑھانا ہے، ملک و قوم سے سیاست دانوں کے کمٹمنٹ کے بارے میں تشکیک پیدا کرنے کی مسلسل کوشش کبھی ترک نہیں ہوتی، سیاسی و انتخابی عمل میں انجینئرنگ کا عمل کبھی نہیں تھمتا۔

اگر یہ درست ہے کہ جو بھی جماعت عوامی امنگوں کی آئینہ دار بننے لگتی ہے یا مقبولیت کی ایک خاص حد سے آگے نکلنے لگتی ہے اس کے پر کاٹنے، قیادت کے بارے میں افواہیں پھیلانے، اندرونی دھڑے بندیوں کی حوصلہ افزائی کرنے اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے تمام ظاہر و خفیہ وسائل یکجائی کے ساتھ حرکت میں آجاتے ہیں، بطور فرنٹ کمپنیاں جو سیاسی گروہوں اور نان اسٹیٹ ایکٹرز گودام میں رکھے جاتے ہیں انھیں حرکت میں لا کر، راتوں رات بناسپتی اتحاد ایجاد کر کے پاپولر قیادت کی راہ میں کانٹے اور ایک کے بعد ایک مقدمات کی بارودی سرنگیں بچھائی جاتی ہیں تاکہ کوئی بھی مقبول سیاستداں پسِ پردہ قوتوں کے لیے سنگین چینلج نہ بن سکے۔

اگر یقین کر لیا جائے کہ سو فیصد ایسا ہی ہے تب بھی کچھ سوالات کا جواب کس سے لیا جائے ؟

مثلاً کسی بھی سیاستدان کو ذاتی و اجتماعی ایمانداری کا وصف اختیار کرنے اور وقتاً فوقتاً اپنی یا خاندان، دوستوںاور پارٹی عہدیداروں کی خود احتسابی، پارٹی کے اندر جمہوری عمل کی تنظیمی حوصلہ افزائی اور پارٹی کو فیملی پبلک لیمٹڈ کمپنی کے بجائے میرٹ پر ایک مساویانہ شئیر ہولڈنگ کمپنی کی طرح چلانے، پارٹی اور قیادت کے انفرادی و اجتماعی اثاثوں، آمدنی و اخراجات کی سالانہ تفصیل عوامی ملاحظے کے لیے پارٹی ویب سائٹ پر ڈالنے سے کون سی خلائی مخلوق روک رہی ہے ؟

کسی بھی برسرِ اقتدار جماعت کو مرکز یا صوبے میں غیر ضروری انتظامی اخراجات میں کمی، سرکاری دوروں اور تقریبات میں سادگی اپنانے، ترقیاتی بجٹ کا ایک ایک پیسہ اچھی شہرت کے حامل اور اہل ٹھیکیداروں کے ذریعے خرچ کرنے،ایک کروڑ روپے سے اوپر کے ہر سرکاری و عوامی پروجیکٹ کا تکمیل کے بعد تھرڈ پارٹی آڈٹ کروانے، صوابدیدی رقومات کو کم ازکم استعمال کرنے یا بے جا استعمال کی حوصلہ شکنی کرنے، پولیس، صحت، تعلیم، پلاننگ، الاٹمنٹ، ریونیو اور بلدیاتی محکموں کو خود مختار بنانے اور ان محکموں کو میرٹ کی بنیاد پر چلانے اور عوام الناس کو اس میرٹ کے طفیل سکون پہنچانے اور ان محکموں کی کارکردگی کے بارے میں عوامی شکائیتوں کا سنجیدگی سے جائزہ اور ایکشن لینے سے کون سی خفیہ ایجنسی روک رہی ہے ؟ اگر کوئی ہے بھی تو اس کا نام بتایا جائے کہ ہم یہ سب کرنا چاہتے ہیں مگر فلاں فلاں آڑے آر ہا ہے۔اس کے بعد اور کون کون آڑے آنے کا حوصلہ رکھے گا ؟

جس طرح آپ چاہتے ہیں کہ ہر محکمے کا ملازم ایمانداری و تندہی سے آٹھ گھنٹے اپنی کرسی، بنچ یا اسٹول پر پایا جائے، سرکاری ٹرانسپورٹ کو ابا حضور کے فلیٹ کے طور پر استعمال نہ کرے ، خامخواہ چھٹیاں نہ کرے، فائلوں کو میز پر الماری میں جمع نہ ہونے دے۔بلاجواز کسی فائل کو لمبے عرصے کے لیے نہ روکے، سائل کو بلا رکاوٹ رسائی دے اور جو مسائل موقع پر حل ہو سکتے ہیں انھیں موقع پر ہی حل کرے۔

بالکل اسی طرح عام آدمی بھی چاہتا ہے کہ جو پانچ برس تک منتخب ہو کر اسمبلی یا حکومت میں آتے ہیں وہ ان ذمے داریوں کے ناطے ملنے والی تنخواہوں، مراعات اور اختیار کو حلال کریں، دفتر اور اسمبلی کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے آئیں،گم سم بیٹھنے، ڈیسک بجانے، بیچ اجلاس میں سے اٹھ کر چلے جانے، دورانِ اجلاس کارروائی میں حصہ لینے یا سننے کے بجائے ایک دوسرے سے گپ شپ میں گذارنے یا جسم اجلاس میں اور دماغ کہیں اور سمیت ان جملہ علتوں سے پرہیز کرتے ہوئے عوام دوست قانون سازی کی اصل ذمے داری نبھائیں، ذاتی بغض، اختلاف برائے اختلاف، بے جا اور بلاجواز تاخیری حربوں کو لیجسلییشن اور سرکاری فیصلہ سازی پر اثرانداز نہ ہونے دیں۔ میرا نہیں خیال کہ کسی بھی نادیدہ قوت کا یہ مفاد ہو کہ منتخب پارلیمنٹیریننز یہ سب نہ کریں۔

کیا یہ طرزِ عمل بھی کسی حساس ادارے کے نزدیک خطرناک ہو سکتا ہے اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں پانچ برس مکمل ہونے سے پہلے پہلے اسمبلی اور سرکار کی کارکردگی کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ شایع کر کے اپنا مدتی کھاتہ بند کریں۔تاکہ ووٹر کو پتہ چل سکے کہ کس رکنِ اسمبلی اور وزیر نے ان پانچ برسوں میں کیا کارکردگی دکھائی،کون سی کارکردگی مکمل کرنے کا وقت نہ مل پایا اور کون کون ایسا ہے جس نے پانچ برس نہیں گذارے بلکہ پانچ برسوں نے اسے گذارا۔

اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ نئے عام انتخابات میں آپ کو گھر گھر جا کر ووٹ کی خیرات نہیں مانگنا پڑے گی بلکہ خیراتی خود چل کر پولنگ اسٹیشن آئے گا اور آپ کا کشکولِ اختیار بھر دے گا۔کیا یہ طرزِ عمل اپنانے سے بھی کوئی خفیہ ہاتھ آپ کو روک سکتا ہے ؟

اگر آپ عوام کی طاقت پر صرف بیلٹ بکس کی خانہ پری کی حد تک یقین رکھتے ہیں اور اس کے بعد عوامی قوت کا پانچ برس تک کوئی تعمیری کردار نہیں دیکھتے ، اگر آپ کا مطمحِ نظر یہ ہے کہ منتخب ہوتے ہی پہلے تو میں پچھلے اور اگلے الیکشن کا خرچہ نکالوں گا۔ اس کے بعد عزیزوں ، رشتے داروں، ہمسائیوں، طاقتور پرچیوں کے حامل سفارشیوں اور پھر کہیں جا کر ایک عام دیوانے ووٹر کے مسائل کو ترجیح دوں گا، اگر آپ جمہوریت کی مالا الاپتے الاپتے دوسرے جمہوریت پسند کو اپنا نیچرل اتحادی سمجھنے کے بجائے نیچرل دشمن سمجھتے رہیں گے، اگر آپ کے خیال میں اختلاف اور دشمنی ایک ہی شے کا نام ہے۔

اگر آپ جمہوریت کی اس تشریح پر یقین نہیں رکھتے کہ ایک ایسا طرزِ سیاست ہے جو ’’ عوام کی حکومت عوام کے لیے ‘‘ کے اصول پر قائم ہے۔اگر آپ کا عملی فلسفہ یہ ہے کہ جمہوریت ایک ایسا طرزِ سیاست ہے جو ’’عوام کے ذریعے میری حکومت میرے لیے‘‘ کے اصول پر قائم ہے تو پھر ایسی جمہوریت کسی کی کٹھ پتلی یا داشتہ ہو یا لولی لنگڑی ہو یا حواس باختہ۔ میرا اس سے کیا لینا دینا۔بھینس بھینس تجھے چور لے چلے۔لے چلے تو لے چلے۔چارہ اور باڑہ تو وہ بھی دیں گے۔

جو سیاستداں اکیس کروڑ کی آبادی میں سے ایسے چار ایمان دار، غیر جانبدار اور بااصول لوگ بروقت نہیں ڈھونڈھ سکتے جو نگراں حکومت چلانے کے اہل ہوں وہ کیسے یہ شور مچانے کا حق رکھتے ہیں کہ ہم تو جمہوریت چاہتے ہیں مگر ہمیں کوئی روک رہا ہے۔تو پھر جو روک رہا ہے وہ زیادہ اہل ہوا کہ آپ؟

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)

The post چور لے جائیں تو بھلے لے جائیں appeared first on ایکسپریس اردو.

ریحام خان کی کتاب

$
0
0

ریحام کے والد نیئر رمضان ڈاکٹر تھے‘ یہ 1960ء کی دہائی میں لیبیا چلے گئے‘ ریحام خان 1973ء میں لیبیا میں پیدا ہوئی‘ ابتدائی تعلیم لیبیا میں حاصل کی اور یہ بعد ازاں پشاور آ گئی‘ جناح کالج فار وومن پشاور سے بی اے کیا اور 1993ء میں اس کی شادی کزن ڈاکٹر اعجاز رحمن سے ہو گئی‘ یہ اس وقت 19 سال کی تھی‘ یہ برطانیہ شفٹ ہو گئی‘ شادی 2005ء تک چلی‘ ڈاکٹر اعجاز رحمن سے تین بچے پیدا ہوئے‘ ریحام خان نے میڈیا اینڈ براڈ کاسٹ جرنلزم کا ڈپلومہ کیا اور یہ طلاق کے بعد صحافت میں آ گئی۔

2006ء میں لیگل ٹی وی پر پروگرام شروع کیا‘ یہ وہاں سے سن شائن ریڈیو میں آئی اور 2008ء میں اس نے بی بی سی جوائن کر لیا‘ یہ اس وقت تک مکمل طور پر پالش ہو چکی تھی‘ یہ شاندار انگریزی بولتی تھی‘ یہ کپڑے پہننے‘ میک اپ‘ پرفیوم اور چال ڈھال کی ایکسپرٹ بھی تھی‘ برطانیہ میں اس کا مستقبل بہت برائٹ تھا لیکن پھر اس نے اچانک اپنا سامان پیک کیا اور یہ پاکستان آ گئی‘ یہ پاکستان کیوں آئی؟

اس کی وجہ اس نے 2016ء میں مبین رشید کو بتائی‘ مبین رشید اس کا پروگرام پروڈیوسر اور اس کی آدھی کتاب کا مصنف ہے‘مبین رشید نے ریحام خان کی کتاب کے ابتدائی 272 صفحات لکھے ہیں‘ ریحام نے مبین کو بتایا ’’میں باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ پاکستان گئی تھی‘ عمران خان میرا ٹارگٹ تھا ‘‘ جب کہ میرے ایک اور ذریعے نے دعویٰ کیا ’’پاکستان میں میاں شہباز شریف اور عمران خان یہ دونوں ریحام خان کے ٹارگٹ تھے‘‘ ریحام بنیادی طور پر اوور ایمبیشس خاتون ہے‘ یہ نمبر ون کی لسٹ میں آنا چاہتی تھی‘ اس نے 2007ء میں لندن میں شاہ رخ خان کے ساتھ چند سیکنڈ کا اشتہار بھی کیا تھا۔

اس کو ان چند سیکنڈ کے لیے بہت محنت کرنا پڑی تھی‘ یہ بہرحال پاکستان آ گئی اور یہاں اس نے نیوز ون ٹی وی میں پروگرام شروع کر دیا‘ یہ نیوز ون سے آج ٹی وی پہنچی‘ شروع میں سات بجے کا ٹائم سلاٹ ملا‘ پھر آٹھ بجے کا ٹائم سلاٹ خالی ہوا تو یہ پرائم ٹائم میں آ گئی‘ یہ ہر صورت عمران خان کا انٹرویو کرنا چاہتی تھی‘ یہ مسئلہ نعیم الحق نے حل کیا‘ ریحام انٹرویو کے لیے عمران خان کے سامنے بیٹھی تو یہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے‘ انٹرویو ختم ہوا‘ کیمرے بند ہوئے تو خان صاحب نے اس سے کہا ’’بڑی دیر کر دی مہرباں آتے آتے‘‘ یہ وہ فقرہ تھا جس سے ریحام خان اور عمران خان کے درمیان ربط شروع ہوا اور یہ ربط آنے والے دنوں میں شادی تک پہنچ گیا۔

میں کہانی آگے بڑھانے سے قبل آپ کو یہ بتاتا چلوں ریحام خان میں مشہور نفسیاتی بیماری بائی پولر کی تمام علامتیں موجود ہیں‘ یہ جب اچھی ہوتی ہے تو یہ دنیا کو حیران کر دیتی ہے اور یہ جب پلٹا کھاتی ہے تو یہ دوسرے کو کچا کھا جاتی ہے‘ یہ شادی تک ایک ایسی حیران کن خاتون ثابت ہوئی جس کے لیے عمران خان جیسے بزرگ کنوارے دعائیں کرتے رہتے ہیں لیکن یہ شادی کے بعد دوسرے قطب تک پہنچ گئی‘یہ ناقابل برداشت ہو گئی۔

عمران خان کی شادی کا اعلان 6 جنوری 2015ء کو ہوا لیکن ریحام خان کا دعویٰ ہے ہماری شادی دو ماہ قبل اکتوبر 2014ء کے آخر میں ہوئی تھی‘ یہ دعویٰ کرتی ہے ہماری تین شادیاں ہوئی تھیں تاہم یہ تیسری شادی کی وضاحت نہیں کرتی‘ یہ شادی اپریل 2015ء تک ٹھیک چلتی رہی لیکن پھر دونوں کے درمیان جھگڑے ہونے لگے‘ جھگڑوں کا آغاز کتوں سے ہوا‘ عمران خان بھی کتے پالتے ہیں اور ریحام خان بھی لندن سے اپنا کتا لے کر آئی تھی‘ یہ دونوں کتے ایک دوسرے کے دشمن ثابت ہوئے چنانچہ دونوں میں اختلافات شروع ہو گئے‘ ریحام خان بہت جلد اپنا کتا بنی گالہ سے شفٹ کرنے پر مجبور ہو گئی۔

عمران خان کو اس کی تین عادتیںبھی بری لگتی تھیں‘ یہ خان کا موبائل فون چیک کرتی تھی‘ خان کو یہ اچھا نہیں لگتا تھا‘ خان صاحب ایک دن نماز پڑھ رہے تھے‘ سلام پھیرا تو دیکھا ریحام خان ان کا موبائل کھول کر بیٹھی ہے‘ خان صاحب غصے میں آپے سے باہر ہو جاتے ہیں چنانچہ اس دن دونوں کے درمیان خوفناک لڑائی ہوئی‘ یہ موقع اس کے بعد بار بار آتا رہا‘ عمران خان نے کئی بار اپنا موبائل دیوار پر مار کر توڑ دیا‘ ریحام خان کے بچے بھی بنی گالہ میں رہتے تھے‘ خان صاحب ان بچوں کے ساتھ بھی خوش نہیں تھے‘ خان کی بہنیں‘ جمائما خان اور دونوں بیٹے بھی اس شادی پر ناراض تھے۔

خان پر یہ بھی دباؤ تھا‘ دوسرا ریحام خان سیاست میں بلاوجہ دخل دے رہی تھی‘ یہ پارٹی کی میٹنگوں میں بیٹھ جاتی تھی‘ یہ خان کے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ٹویٹس کر دیتی تھی‘ یہ پارٹی کی خواتین کو مشکوک نظروں سے دیکھتی تھی‘ یہ انھیں بے عزت کر کے نکال بھی دیتی تھی‘ اسے جلسوں سے خطاب کا شوق بھی تھا‘ یہ زبردستی جلسہ گاہوں میں پہنچ جاتی تھی‘یہ وہاں تقریر بھی کر دیتی تھی اور یہ این اے 120 کے انتخابی جلسے میں بھی پہنچ گئی۔

عمران خان کو یہ اچھا نہیں لگتا تھا لیکن یہ رکنے کے لیے تیار نہیں تھی‘ یہ گھر نہیں بیٹھ سکتی تھی چنانچہ دونوں کے درمیان تصادم خوفناک ہوتا چلا گیا اور تیسری وجہ ریحام نے پارٹی کے لوگوں کو براہ راست حکم دینا شروع کر دیا تھا مثلاً فیس بک اور ٹویٹر پر فالورز بہت کم تھے‘ ریحام خان نے عثمان ڈار کو کہا‘ عثمان ڈار نے سیالکوٹ میں پارٹی کا سوشل میڈیا یونٹ بنا رکھا ہے‘ عثمان ڈار نے اسے ایک ملین فالورز خرید دیے‘ یہ ان دنوں فلم بھی بنا رہی تھی۔

شنید تھا ریحام نے فیصل واڈا سے فلم کے لیے رقم لی ‘ یہ پارٹی کے لیے عہدیداروں کی میٹنگ بھی بلا لیتی تھی‘ یہ کے پی کے میں دورے بھی شروع کر دیتی تھی اور یہ وزیراعلیٰ اور وزراء کو احکامات بھی جاری کر دیتی تھی‘ عمران خان کے لیے یہ بھی قابل قبول نہیں تھا چنانچہ دونوں کے درمیان لڑائیاں شروع ہوئیں اور یہ بڑھتی چلی گئیں‘ لڑائیوں کا کلائمیکس ستمبر 2015ء میں ہوا‘ ریحام خان نہانے کے لیے باتھ روم میں تھی‘یہ باہر آئی تو عمران خان جہانگیر ترین کے ساتھ مشورہ کر رہا تھا’’ میں کیا کروں‘ میری اس سے جان چھڑاؤ‘‘ ریحام خان کے بقول’’ میں آدھ گھنٹہ چھپ کر دونوں کی گفتگو سنتی رہی‘ میری برداشت جواب دے گئی تو میں باہر آ ئی اور پھٹ پڑی‘‘ یہ لڑائی خوفناک تھی۔

عمران خان نے اس لڑائی کے بعد اسے طلاق دینے کا فیصلہ کر لیا لیکن پھر لوگ درمیان میں پڑے‘ انھوں نے خان کو سمجھایا‘ آپ اسے صرف گھر تک محدود کردیں‘ طلاق نہ دیں‘یہ طلاق آپ کے امیج کے لیے بہتر نہیں ہو گی‘ان لوگوں نے نتھیا گلی میں دونوں کی ملاقات بھی کروائی ‘ معاملات سیٹل ہو گئے لیکن یہ بندوبست زیادہ دنوں تک نہ چل سکا یہاں تک کہ عارف نظامی نے 23ستمبر2015ء کو اپنے پروگرام میں دونوں کے درمیان طلاق کا دعویٰ کر دیا‘ ریحام کا خیال ہے یہ خبر جہانگیر ترین نے عارف نظامی کو دی تھی۔

ریحام خان 28 اکتوبر 2015ء کو لندن میں مبین رشید کی میڈیا کانفرنس میں مدعو تھی لیکن 28 اکتوبر کی رات اس کی عمران خان کے ساتھ خوفناک جنگ ہوئی‘ ریحام نے گھر کی بے شمار چیزیں توڑ دیں‘ یہ بنی گالہ سے نکلی‘ رات راولپنڈی کے ایک ہوٹل میں گزاری اور 29 اکتوبر کی صبح برمنگھم کی فلائیٹ لے لی‘ یہ جاتے ہوئے عمران خان کا بلیک بیری بھی ساتھ لے گئی ‘ یہ سہ پہر تین بجے برمنگھم پہنچی اور اترتے ہی عمران خان کے دوست ذلفی بخاری کو فون کیا۔

ذلفی بخاری بعد ازاں عمران خان اور ریحام کے درمیان رابطہ بنا‘ خان نے ریحام کی جیولری بھی ذلفی بخاری کے ذریعے لندن بھجوائی تھی جب کہ بنی گالہ سے ریحام کا سامان اس کا بھانجا یوسف خان لے کر گیا‘ عمران خان نے 29 اکتوبر کو نعیم الحق کے ذریعے طلاق کی خبر نشر کرا دی‘ خان کا خیال تھا ریحام لندن میں ’’نیا شوشا‘‘ چھوڑ دے گی چنانچہ طلاق کی خبراس کے شوشے سے پہلے سامنے آجانی چاہیے۔

ریحام نے ذلفی بخاری کے ذریعے وعدہ کیا ’’میں خاموش رہوں گی‘‘ لیکن پھر اس نے 15نومبر 2015ء کو سنڈے ٹائم کو انٹرویو دے کر یہ وعدہ توڑ دیا جس پر ذلفی بخاری نے اسے پیغام دیا ’’آپ اگر میری سگی بہن ہوتی تو میں تمہیں گولی مار دیتا‘‘ ریحام بار بار ’’مجھے دھمکیاں مل رہی ہیں‘‘ کا دعویٰ اس پیغام کی بنیاد پر کر رہی ہے۔

ریحام خان کی کتاب تیار ہے‘ یہ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں آئے گی‘ کیا اس نے اس کتاب میں عمران خان کے بلیک بیری کے پیغامات‘ تصویریں‘ فوٹیج اور ای میلز بھی شامل کی ہیں‘ یہ ایک بڑا سوال ہے‘ اس سوال کا جواب کتاب ہی دے سکتی ہے‘اگر بلیک بیری کا مواد کتاب میں شامل ہے تو پھر عمران خان کی ساکھ کو ٹھیک ٹھاک نقصان پہنچے گا اور ریحام نے اگر یہ مواد اپنی اگلی کتاب کے لیے سنبھال لیا ہے تو پھر عمران خان سے زیادہ عون چوہدری‘ نعیم الحق‘ مراد سعید اور جہانگیر ترین اس کتاب کا وکٹم بنیں گے۔

یہ جہانگیر ترین کے بارے میں خوفناک انکشافات کرے گی‘ میاں نواز شریف کو جنرل اسد درانی کی کتاب کے بعد ریحام خان کی کتاب کا ٹھیک ٹھاک سیاسی فائدہ ہو گا تاہم یہ حقیقت ہے یہ کتاب نواز شریف اور شہباز شریف نے نہیں لکھوائی‘یہ ریحام خان کا اپنااینی شیٹو ہے‘ کتاب اور لانچنگ کے اخراجات بھارت کا ایک برطانوی بزنس مین سنجے کیتھوریا (Sanjay Kathuria)برداشت کر رہا ہے۔

یہ تلاش کے نام سے برطانیہ میں ہوٹلوں کی چین چلاتا ہے‘ یہ شادی سے پہلے بھی ریحام کا دوست تھا اور یہ آج بھی اس کا بیسٹ فرینڈ ہے‘ یہ اس کتاب میں خصوصی دلچسپی لے رہا ہے چنانچہ یہ کتاب پاکستان سے زیادہ بھارت میں لانچ ہو گی‘ کیوں؟ وجہ صاف ظاہر ہے عورت جب زخمی ہوتی ہے تو پھر یہ ہر اس جگہ وار کرتی ہے جہاں سے دوسرے کو زیادہ سے زیادہ تکلیف ہو سکتی ہے‘ یہ کتاب ایک زخمی عورت کے انکشافات ہیں‘ مجھے محسوس ہوتا ہے یہ زخمی عورت کسی کو نہیں بخشے گی۔

The post ریحام خان کی کتاب appeared first on ایکسپریس اردو.

نرکو مادہ بنانے کا ہنر

$
0
0

پشتنی سندھی اور اصل ٹھٹہ کے رہنے والے تھے لیکن اپنی مادری زبان سندھی صحیح بول یا لکھ نہیں پاتے تھے۔ حالات کچھ ایسے رہے ہوں گے جن کے تحت ان کے بڑے ٹھٹہ سے کراچی منتقل ہوکر لیاری میں آباد ہوگئے جو آج کی طرح پہلے بھی مکرانی بلوچوں، سندھی ماہی گیروں اور شیدیوں کی بستی ہی تھی لیکن اسے سندھی آبادی والا علاقہ کہا اور سمجھا جاتا تھا۔ اندرون سندھ سے کراچی میں آکر آباد ہونے والے سندھی رہائش کے لیے اسے یوں ترجیح دیتے کہ اپنی زبان اورکلچر والے لوگوں کے ساتھ رہنے میں اجنبیت کا احساس نہیں رہتا اورآدمی خود کو اپنوں کے درمیان موجود سمجھتا ہے۔

یہ مسئلہ صرف سندھیوں کے ساتھ نہیں ہے، ہر زبان اور نسل کے لوگوں میں یہ سوچ اور رجحان مشترک ہے۔ کراچی کے اکثر علاقے جہاں اردو بولنے والوں کا گڑھ کہلاتے ہیں وہاں شہر میں دیگر زبانیں بولنے والوں خصوصاً پٹھانوں کی اکثریت والے علاقے بھی پائے جاتے ہیں۔ شیخ عبدالرحیم واحد آدمی نہیں تھے جنھیں یہ مسئلہ درپیش تھا، میں نے کراچی میں آباد بیشتر قدیم سندھیوں کو اپنی مادری زبان کی ایسی تیسی کرتے دیکھا ہے۔ عام آدمیوں کو چھوڑیں، اردو بولنے والوں کے بچوں کو سندھی پڑھانے والے سندھی لینگویج ٹیچرز تک غلط سندھی بولتے ہیں۔ جب وہ خود غلط سندھی بولتے ہیں تو ظاہر ہے بچوں کو پڑھاتے بھی غلط ہی ہیں اور یوں سندھی زبان کی ترویج و اشاعت کا منصوبہ حقیقت میں اس کی تباہی و بربادی کا باعث بنا ہوا ہے۔ پہلے کی طرح آج بھی یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے اوراس کا نوٹس لینے والا کوئی نہیں۔

’’ ڈان‘‘ کے سینئر رپورٹر اور ’’ویل سیٹ‘‘ آدمی تھے، اپنی گاڑی میں دفتر اور پریس کلب آتے جاتے تھے، محمود آباد پھاٹک کے قریب کہیں ان کا بڑا سا ذاتی گھر بھی تھا۔ اخبار سے ان کی وابستگی بہت پرانی تھی اور انھوں نے اس کے بانی ایڈیٹر الطاف حسین کا دور دیکھا اور ان کی زیر ادارت کام بھی کیا تھا۔ 1977ء میں جب فوج نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھالا تو جنرل فیض علی چشتی، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کے نمبر ٹوکی حیثیت سے سامنے آئے۔

وہ شیخ صاحب کے ذاتی دوست تھے، اب یہ تو پتہ نہیں کہ سب کیسے ہوا، دوست کی فرمائش تھی یا انھوں نے خود دوستی کو بطور جیک استعمال کرکے پٹری بدلی تھی، بہرحال وہ 1979ء میں ہمارے ایڈیٹر بن کر ’’ڈان‘‘ سے ’’ہلال پاکستان‘‘ میں آگئے۔ صرف ایک سال بعد جب حالات نے پلٹا کھایا اور ان کی جگہ میں نے بطور ایڈیٹر ذمے داریاں سنبھالیں تو پتہ چلا انھوں نے ایسا کرکے غلطی کی تھی۔ ہلال پاکستان بلاشبہ بھٹو کا اخبار تھا اور پیپلز فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے زیر اہتمام نکلنے والا مالی طور پر نہایت مستحکم اخبار تھا جس نے اپنے ملازمین کو ہرسال ایک چھوڑ چار چار بونس دینے کی روایت ڈالی تھی جس کی اخباری صنعت کی تاریخ میں پہلے کوئی مثال نہیں ملتی تھی، لیکن یہ سب ماضی کی باتیں تھیں، شیخ صاحب نے اس خیال سے کہ یہاں بڑا مال ہے اندھے کنوویں میں چھلانگ لگائی تھی۔

بھول گئے تھے کہ اب ٹرسٹ نہ صرف مشرف بہ اسلام ہوکر شیخ سلطان ٹرسٹ بن چکا ہے بلکہ غلام اسحٰق خان، خان عبدالعلی خان اور جنرل مجیب جیسے لوگوں کے کنٹرول میں ہے جو کراچی میں اپنے منظور نظر علی احمد بروہی کے ذریعے اخبارکو کسی لا وارث یتیم خانے کی طرح چلا رہے تھے اور اس سے جلد ازجلد جان چھڑانے یا اسے سرے سے بند کرنے کے درپے تھے۔ شیخ صاحب جنرل چشتی سے اپنے مراسم کی وجہ سے علی احمد بروہی کو تو گھاس نہیں ڈالتے تھے اور ان سے پوچھے بغیر سب فیصلے اپنی مرضی سے کرتے تھے لیکن بریک پر پاؤں بروہی کا تھا سو گاڑی آگے کیسے بڑھتی۔ مشکلات میں کیا گھرے، جان کے لالے پڑگئے۔

شیخ صاحب نے جتنے ہاتھ پاؤں مارے گئے وہ انھوں نے مارے، اپنے کچھ رشتے داروں اور دوستوں کو جو پہلے سے سرکاری ملازمت میں تھے، اخبار میں نوکریاں دیں، دفترکی گاڑی کو بچوں کے استعمال میں دیکر اس کی ایسی درگت بنوائی کی کباڑی مفت میں بھی نہ لے۔ بیٹا امریکا میں تھا، ماں اور بہنیں اس سے روز فون پر گپ شپ کیا کرتیں جس کا بل اخبار کے ٹیلی فون بل سے بھی زیادہ ہوتا اور جو دفترکو ادا کرنا پڑتا تھا۔ یوں ان سے ادارے کو جتنا مالی نقصان پہنچایا گیا، وہ انھوں نے پہنچایا باقی کوئی لمبا ہاتھ نہیں مار سکے۔ ہم بات کر رہے تھے غلط زبان بولنے کی، شیخ صاحب سندھی اخبار کے ایڈیٹر بن کر آئے تھے، مگراصل سندھی ہوتے ہوئے سندھی زبان سے جانکاری کا عالم یہ تھا کہ ایک منٹ کو ہکڑو منٹ کے بجائے ہکڑی منٹ کہتے، یعنی صیغہ بدل کر نرکو مادہ بنا دیتے تھے۔

سنجیدہ بات کو بھی ہنسی مذاق میں ٹال دینے کی عادت تھی سو جب کوئی ٹوکتا کہ سائیں ہکڑی منٹ نہیں ہکڑو منٹ ہوتا ہے تو ہنس کرکہتے ہاں ہاں پتہ ہے۔ ان کے دور میں اخبار ایک طرح سے ’’ڈمی‘‘ بن کر رہ گیا تھا سو اخبار کی اجتماعی سودا کار (سی بی اے) یونین نے اسے بچانے کے لیے مارشل لاء اور سنسر شپ کی پابندیاں ہوتے ہوئے ایڈونچر کرنے کا فیصلہ کیا، قرعہ فال میرے نام نکلا، میں ہر ہفتے عالمی حالات و واقعات پر مشتمل صفحہ ترتیب دیا کرتا تھا، اسی کو ایڈونچر کا ذریعہ بنایا گیا، اخبار کی اشاعت تیزی سے بڑھنے لگی، شیخ صاحب بہت خوش تھے اور اسے اپنی ایڈیٹری کی کرامت سمجھ رہے تھے۔

انھیں اصل بات کا پتہ تب چلا جب وزارت داخلہ کی جانب سے اخبار کو ضمانت طلبی کا نوٹس ملا، اور وہ بھی اس دھمکی کے ساتھ کہ کیوں نہ اس کی اشاعت بند کردی جائے۔ پوچھنے پر یونین کے فیصلے کے مطابق میں نے انھیں مختصر جواب دیا کہ سب کچھ آپ کی ہدایت کے مطابق ہوا ہے۔ پریشان ہوگئے اور بولے میں نے تمہیں کب ایسا کرنے کو کہا تھا، میں نے کہا کسی اور سے مت کہیے گا کہ آپ نے نہیں کہا تھا ورنہ لوگ ہنسیں گے کہ کیسا ایڈیٹر ہے جسے پتہ ہی نہیں کہ اس کے اخبار میں کیا چھپ رہا ہے۔

جنرل چشتی کی دوستی کام آگئی اور وہ جیل جانے سے بچ گئے لیکن پھر وہ میرے پیچھے ہاتھ دھوکر ایسے پڑے کہ کوئی دن خالی نہ جاتا تھا جب وہ مجھے چارج شیٹ نہ کرتے ہوں، یہی نہیں اس کی نقول اپنے تمام حکام بالا کو بھی بھجواتے تھے۔خدا بھلا کرے سیکریٹری تعلیم خان عبدالعلی خان کا جو اخبار کی کنٹرولنگ اتھارٹی (ٹرسٹ) کے ایڈمنسٹریٹر بھی تھے، جنہوں نے میرے خلاف لکھے ہوئے ایک شکایتی خط کے جواب میں ان سے دریافت کیا کہ اگر واقعی ایسا ہے تو کیوں نہ تمہاری جگہ اسے (مجھے) ایڈیٹر مقررکردیا جائے۔

یوں شیخ صاحب کی اکڑفوں تو ختم ہوگئی لیکن ہمارے درمیان محاذ آرائی بدستور جاری رہی۔عاشقی کے ساتھ ساتھ نوکری کا سلسلہ بھی چلتا رہا تاآنکہ بیچارے بلڈ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوگئے۔ بیٹے نے امریکا بلوالیا جہاں کچھ عرصہ زیر علاج بھی رہے لیکن ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق کوئی افاقہ نہ ہوا۔ وہیں سے استعفیٰ بھجوا دیا، واپس آئے اور جلد ہی وفات پا گئے ، وصیت کے مطابق مکلی (ٹھٹہ) میں آسودہ خاک ہیں۔

کراچی کے قدیم سندھیوں پر ہی کچھ موقوف نہیں، پیکر نقوی (پیر جی) اور ابوبکر بلوانی جیسے دوستوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے میرے مشاہدے میں آیا کہ اردو بولنے والے ہمارے بہاری بھائی بھی جنس بدلنے کا ہنر خوب جانتے ہیں اور ان کے ہاں لکھنے پڑھنے میں مذکر کو مؤنث اورمؤنث کو مذکر بنانا عام ہے۔ ابوبکر ویسے توانگریزی کریڈ کا ترجمہ نہایت تیزی سے اور بالکل صحیح کیا کرتے تھے لیکن ان کی املا میں مذکر مؤنث چیک کرنا میں نے اقبال سہوانی کے ذمے لگا رکھا تھا، اس طرح کام بھی ہوجاتا اور ان دونوں (ابوبکر اور اقبال سہوانی) کی نوک جھونک کا مزا لینا بھی مل جاتا ۔

The post نرکو مادہ بنانے کا ہنر appeared first on ایکسپریس اردو.

اقتدارکوکھانے والے

$
0
0

پاکستان میں حوروں کی خواہش لوگوں کو اتنا نہیں تڑپاتی ہے جتنا کہ اقتدار کی خواہش انھیں تڑپاتی ہے۔ اس کے لیے وہ ہر قسم کے پاپڑ بیلنے کے لیے ہرو قت تیار رہتے ہیں، اچھا خا صا آدمی بھی اس کے لیے بے وقوف بن جاتا ہے اور بچوں کی سی حرکتیں کر نے لگ جاتاہے، اس کے خواہشوں مندوں کی تعداد انگلیوں پر گنی نہیں جا سکتی۔ انسان اپنے آخری وقت میں خدا سے ملنے کا آرزو مند کم اور اس سے آخری ملاقات کا خواہش مند زیادہ رہتا ہے۔

اس کو حاصل کرنے کے لیے انسان گرگٹ سے زیادہ تیر رفتاری سے رنگ بدلتا ہے ایسی تیز رفتاری سے کہ گرگٹ بھی حیران و پریشان ہوکے رہ جاتا ہے۔ اس سے محرومی انسان کو نہ جینے دیتی ہے اور نہ ہی مرنے دیتی ہے اور شدید ذہنی دھچکوں کا باعث اور اکثر جان لیوا ثابت ہوتی ہے یہ ہی وہ دنیا کی واحد چیز ہے جس کا استعمال ہمیشہ ہی سے انتہائی بے دردی کے ساتھ کیاگیا ہے۔

آپ انسانی تاریخ اٹھا کر پڑھ لیں آپ کو اس میں ہزاروں وحشت، بربریت کے واقعات با آسانی سے مل جائیں گے جس سے آپ کے بدن میں تھر تھری مچ جائے گی لیکن دوسری طرف آگر آپ اقتدار کی تاریخ کو پڑھیں گے تو اس میں اس قدر جنونیت ، بربریت ، حیوانیت ، وحشت ملے گی کہ آپ تھوڑی ہی دیر میں اسے پڑھنا بند کردیں گے۔ دنیا کی تاریخ میں اقتدار سے زیادہ کوئی اور چیز نہیں لٹی ہے اس کو لوٹنے کے طور و طریقے مختلف زمانوں میں مختلف رہے ہیں ۔ اسے لوٹنے کا اپنا ہی ایک مزا رہا ہے جس نے بھی اسے ایک بار لوٹا وہ اسے بار بار لوٹنے کے لیے تڑپتا ہی رہا۔ زائرے (کانگو ) کی شابہ قوم میں اقتدار کے بارے میں سو چنے کے لیے ایک بہت مختلف استعارہ استعمال کیا جاتا ہے۔

اس قوم کے افراد ایک پرانی کہاوت کا حوالہ دیتے ہیں جس کے مطابق ’’اقتدار پورے کا پورا کھایا جاتا ہے‘‘ اقتدار ایک ایسی چیز ہے جو اچھی بھی ہے اور صحت مند بھی جو سرداری کے عہدے کے کھائے جانے کے بعد سردار کی کایا کلپ کر دیتی ہے۔لوبا قوم کے لیڈر جیسن نسیڈو کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس نے 1960ء میں زائرے کی آزادی کے دنوں میں اپنی ایک تقریر ایسے شروع کی تھی کہ ’’چونکہ میں نے اپنا اقتدارکھا لیا‘‘ اقتدار کے بارے میں یہ خیال نہیں کیا جاتا تھا کہ اس پر قبضہ جمایا جاتا ہے یا اسے مسلط کیاجاتا ہے بلکہ یہ سوچا جاتا تھا کہ یہ کوئی نگلنے جانے والی چیز ہے ایک ایسی ملک ہے کہ جو نگلنے والے پیٹ میں جا کر اس کی ہو جاتی ہے۔

اس لیے یہ خیال کرنا کہ صرف ہمارے لوگ ہی اقتدار کو کھانے کے اولین چیمئن ہیں بالکل غلط ہے ان سے بہت بہت پہلے زائرے کے لوگ اقتدار کو کھانے کے عادی تھے ۔ہمارے لوگ تو صرف ان کے نقال ہیں ان کی کاربن کاپی ہیں انھوں نے اقتدار کو کھانے کے طورطریقے ان ہی سے سیکھے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ زائرے کے لوگوں سے بھی زیادہ بھوکے نکلے ہیں بلکہ اس قدر بھوکے نکلے کہ انھوں نے ملک میں کوئی بھی چیز نہیں چھوڑی سارا کا سارا ملک کھاگئے اور کھانے کے بعد شور مچا رہے ہیں کہ کون ملک کھا گیا ۔ زائر ے لوگ ملک کھاتے تھے تو برملا اس بات کااظہار کرتے تھے لیکن ہمارے بھوکے تو اس جرأت کا بھی مظاہرہ نہیں کررہے ہیں ۔

ڈی جو ونل کے بقول اقتدار والے محسوس کرتے ہیں کہ ’’ ان کا جسم تک پہلے سے بڑا ہوگیا ہے حکومت پہاڑ کی چوٹی کی مانند ہوتی ہے وہاں جو ہوا سانس کے ساتھ اندر جاتی ہے اس کی باس ہی اور ہوتی ہے اور جو منظر وہاں سے دکھائی دیتے ہیں وہ ان مناظر سے بہت مختلف ہوتے ہیں جوکہ وادی اطاعت سے نظر آتے ہیں ‘‘ لیکن جب اقتدار جا رہا ہوتا ہے تو وہ نرے بدھوؤں کی طرح بڑبڑ ادھر ادھر تکتے رہتے ہیں اور یقین مانیے کہ ایسے حکمران سے زیادہ قابل ترس چیز اس دنیامیں کوئی اورنہیں ہوتی کہ جس کا اقتدار ختم ہو رہا ہو وہ فضول اشار ے کرتا رہ جاتا ہے لیکن سب اس کی سنی ان سنی کرکے آگے چل دیتے ہیں یہ بات ذہن میں رہے ہر بادشاہ کو قاتلوں سے خوف رہا ہے بھائی یا چچا زاد بھائی سے خطرہ رہا ہے کہ وہ اس کی کر سی غضب کرے گا اور امرا اور سرداروں سے یہ ڈر رہا ہے کہ وہ بغاوت کردیں گے ۔

ایک مورخ انتہائی مستحکم اور پائیدار قرار دیے جانے والی بازنطینی سلطنت کے بارے میں لکھتا ہے کہ ’’395ء تا 1453ء جو 107 فر مانروا تخت نشین ہوئے ان میں سے صرف 34 کاانتقال بستر پرہوا اور 9 جنگ یا حادثے میں مارے گئے بقیہ کو یا تو تخت سے دستبردار ہونا پڑا اور یا پھر وہ زہر، مثلے،گل گھوٹو یا پھانسی کی پرتشدد موت مرے ‘‘ 1989ء کا وہ لمحہ تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا جب نکولائی چاؤ شسکو نے بخارسٹ میں واقع مرکزی مجلس کی عمارت کی بالکونی میں کھڑے تقریر کرتے ہوئے یہ محسوس کیا تھا کہ یہ مجمع اب اس کی تقریر کے اتار چڑھاؤ پر واہ واہ کرنے کے لیے جمع نہیں ہوا بلکہ اس کے خون کے لیے غرا رہا ہے۔

ایمیل ڈر خائم کا کہنا ہے کہ ‘‘ اجتماعی احساس کسی مادی شے پر نصب ہو کر ہی خود سے آگاہ ہوسکتا ہے اب یہ شے حاکم کا جسم بھی ہوسکتا ہے کوئی عمارت ، جگہ یا پتھر بھی ہوسکتا ہے اور صلیب بھی ‘‘ اقتدار پر ستوں کو یہ بات اچھی طرح سے یاد کرلینی چاہیے کہ جب آپ ایک مرتبہ کرسی سے نیچے اتر جاتے ہیں تو آپ کا اپنے ورثے ، شہرت اور نیک نامی پر اختیار ختم ہوجاتا ہے اور پھر آپ کے کردار کی سندیں عموماً دوسرے تحریر کرتے ہیں۔

The post اقتدارکوکھانے والے appeared first on ایکسپریس اردو.


نئے کاغذات نامزدگی

$
0
0

شنید ہے کہ الیکشن خواہ جیسے بھی ہوں 25جولائی کو ہی ہوں گے، خواہ جیسے بھی ہوں سے میری مراد حلقہ بندیوں کے مسائل ہوں یا مردم شماری کے، فاٹا کے الیکشن کے مسائل ہوں یا کاغذات نامزدگی فارم میں ردو بدل کے ، بقول سپریم کورٹ الیکشن میں ایک دن کی تاخیر بھی برداشت نہیں ہوگی۔ یہ اچھی بات ہے ہونا بھی ایسا ہی چاہیے، لیکن شفاف انتخابات کے لیے ہم نے کیا کیا ہے؟ تمام سیاستدانوں نے شفاف انتخابات کے لیے تو کچھ کیا نہیں مگر اپنے مفادات کے لیے گزشتہ پانچ سالوں میں 78سے زائد بل ضرور پاس کرا لیے۔

آج جب الیکشن 2018ء کے انتخابی شیڈول کا اعلان ہو چکا ہے اور دو دن بعد 8جون کوکاغذات نامزدگی جمع کروانے کی آخری تاریخ ہے، یہ وہی کاغذات ہیں جن میں کمال مہارت سے ردوبدل کے بعد 19کے قریب ایسی شقیں نکال دی ہیں جو ایک تو عالمی اسٹینڈرڈ کے برخلاف ہیں ، مذکورہ تمام 19شقیں اسمبلیوں میں بیٹھی اشرافیہ نے اپنے مفادات کے لیے نکالی ہیں۔ حقیقت میں یہ وہی ’’کاغذات‘‘نما فارم ہیں جن کے ذریعے پاکستان کی قومی اسمبلی میں منتخب ہونے والا ہر سیاستدان اپنے کوائف عوام کے سامنے لا کرکے اسمبلی میں پہنچتا ہے۔

اندازہ لگائیں کہ عام انتخابات 2018 کے لیے تشکیل دیے گئے نئے نامزدگی فارم سے 19 شقیں ختم کی گئی ہیں۔ ان میں دہری شہریت کی شق، آخری تین سال کی انکم ٹیکس تفصیلات فراہمی کی شق، ایگریکلچر ٹیکس کی تفصیلات فراہم کرنے کی شق سمیت غیر ملکی دوروں کی تفصیلات اور فوجداری مقدمات سے متعلق شقیں شامل ہیں۔ امیدواروں کے لیے جاری کردہ نئے فارم میں یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی اور ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد سے متعلق حلف نامہ کی شق بھی ختم کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بیوی اور بچوں کے نام پر جائیدادوں کی تفصیلات اور تعلیم سے متعلق شق بھی فارم سے خارج کر دی گئی تھی۔موجودہ پیشے کی تفصیلات اور پہلے سے ممبر قومی و صوبائی اسمبلی ہونے کی صورت میں بڑے کام کی تفصیلات فراہم کرنے کی شق کے ساتھ قرضوں اورغیر ملکی پاسپورٹ ہونے سے متعلق شق بھی ختم کی گئی۔بقول اعتبار ساجد

چھوٹے چھوٹے کئی بے فیض مفادات کے ساتھ

لوگ زندہ ہیں عجب صورت حالات کے ساتھ

اب جب کہ مجھے یہ بتاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے کہ گزشتہ پارلیمنٹ میں موجود ہر پارٹی کے جید ارکان نے دو سال لگا کر الیکشن قوانین میں اصلاحات بھی کیں تو ایسی کہ الیکشن لڑنے والے کے لیے حرام خوری، ناجائز اثاثے، ٹیکس چوری اور بے نامی جرائم نہ رہیں بلکہ وہ انھیں فنونِِ لطیفہ کے زور پر الیکشن میں کامیاب ہو کر ہمارے سینوں پر پانچ سال یا زندگی بھر کے لیے مونگ دلتا رہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایسے لوگوں کو بھی پارلیمنٹ میں پہنچانے کا راستہ ہموار کر لیا جائے جو ٹیکس دینا تو دور کی بات ریٹرن فائل کرنا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اس شرط کے ساتھ ساتھ دوہری شہریت رکھنے والوں کے لیے بھی آسانی پیدا کی گئی ہے کہ وہ الیکشن لڑ تے ہوئے اپنی غیر پاکستانی شہریت کا ذکر نہ کریں جو پہلے ضروری تھا۔

ظاہر ہے دہری (دوغلی) شہریت والا تو ٹیکس کسی دوسرے ملک میں دیتا ہو گا اس لیے کاغذاتِ نامزدگی میں ٹیکس کا ذکر ختم کر دینے کا فائدہ تمام سیاسی پارٹیوں کے بیرونِ ملک بیٹھے سپانسرز کو بھی ہو گا جو الیکشن جیت گئے تو اپنی غیر ملکی شہریت ترک کرکے ہم پر حکومت کریں گے ورنہ واپس جا کر ملک و قوم کا غم کھایا کریں گے۔میں نے پاکستان کے قرب و جوار کے ممالک کے نامزدگی فارم(Nomination Form) دیکھے، تمام فارمز کا فارمیٹ تقریباََ ایک جیسا پایا، یہاں تک کہ افغانستان جیسے ممالک میں بھی منتخب ہونے والے اراکین اپنے تمام اثاثہ جات اور سالانہ آمدنی اور متوقع آمدنی تک پوچھی جاتی ہے، اُن کے عزیز اقارب کے حوالے سے پوچھا جاتا ہے، تاکہ کوئی منتخب رکن اگر کسی ذرایع سے جائیداد بناتا ہے تو وہ فوراََ پکڑا جائے اور احتسابی ادارے اس سے پوچھ گچھ کر سکیں۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی جیسی جماعتوں نے بھی اس پہلو پر غور نہیں کیا، یا پراسرار خاموشی اختیار کیے رکھی کیوں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاناما پیپرز کے معاملے کے بعد الیکشن میں کاغذات نامزدگی میں سیاستدان اپنے اثاثوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات دیتے تاکہ مستقبل میں کسی بھی قانونی کارروائی سے بچ سکیں۔ لیکن سب کچھ اُلٹ ہوگیا، کوئی سختی نہ کی گئی اُلٹا تمام جماعتوں کے نمایندگان کہہ رہے ہیں کہ کاغذات نامزدگی کا فارم الیکشن ایکٹ کا حصہ ہے، اسی کے تحت سینیٹ انتخابات 2017 بھی ہوئے تھے۔ موجودہ حالات میں میرا خیال یا تجویز ہے کہ اگر نئے نہیں تو کم از کم 2013ء کے فارمز ہی اپنی اصل حالت میں بحال کردیں تاکہ عوام کے ٹیکسوں پر راج کرنے والوں کے بارے میں عوام بھی پوری طرح جان سکیں۔

ورنہ یہ ملک مزید لٹتا رہے گا اور آپ، میں اور عوام کچھ نہیں کر سکیں گے!، سپریم کورٹ ہی یہ سب کچھ کر سکتی ہے، اُسے کرنا بھی چاہیے اس کے لیے اگر الیکشن دو چار دن التواء کا شکار ہوتے ہیں تو کوئی بات نہیں لیکن اگر شفاف انتخابات نہ ہوئے اور منتخب اراکین میں پھر کرپٹ آگئے تو پاکستان ترقی نہیں کرسکے گا بلکہ ایسا ہی رہے گا جیسا آج ہے!!!

The post نئے کاغذات نامزدگی appeared first on ایکسپریس اردو.

نگران حکومت

$
0
0

سابق چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں نگران حکومت جن مقاصد کی تکمیل کاحلف اٹھا چکی، ان میں سب سے پہلے آئین کے مطابق کار حکومت چلانا ہے۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن کو 25جولائی 2018، یا کسی بھی تاریخ،کو آزادانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے انتظامی مددفراہم کرنا، اس حکومت کے قیام کا دوسرا اہم ترین مقصدہے۔ امید ہے کہ اس دوران نگراں حکومت نہ صرف غیر جانبدار رہے گی بلکہ عمل سے بھی اپنی غیر جانب داری ثابت کرے گی۔

آئین کی کھلی خلاف ورزی، دھوکا دہی اور جعل سازی کرنے والے کرپٹ عناصر کا کڑا احتساب ہونا چاہیے۔ دوسرا اہم اقدام یہ ہونا چاہیے کہ رخصت ہونے والی حکومت نے گذشتہ تین ماہ میں جو انتہائی غیر معمولی فیصلے کیے ہیں، انھیں فوری طور پر منسوخ کیاجائے۔ مثلاً وفاقی ملازمین کو تین ماہ کی تنخواہ کی پیشگی ادائیگی۔ اگر یہ انتخابات پر اثرانداز ہونے کے لیے کھلے عام رشوت دینے کے مترادف نہیں تو اور کیا ہے؟ میں علی جہانگیر صدیقی کو ذاتی طور پر پسند کرتا ہوں، لیکن اس فیصلے کے قانونی نتائج و اثرات کے باجود امریکا میں ان کی بطور سفیر تعیناتی بھی حدود سے تجاوز ہے۔حال ہی میں ڈی ایم جی افسران کی جانب سے، شریف خاندان کے منظور نظر، باصلاحیت مگر کرپٹ ترین بیوروکریٹ احد چیمہ کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے خلاف ہونے والا احتجاج پیش نظررہے۔

احد چیمہ کی پراڈو ایک شوروم میں کھڑی پائی گئی جس سے تقریباً ڈیڑھ کروڑ کی نقدی برآمد ہوئی۔ پنجاب میں کارِ سرکار کو ’’قلم چھوڑ‘‘ ہڑتال کے ذریعے معطل کرنے کی کوشش کرنے والے عناصر کے خلاف کیاکارروائی ہوئی؟ کوئی بھی انتظامی بحران ملک میں لیبیا،شام اوریمن وغیرہ جیسے انتشارکاباعث بن سکتا ہے۔کیا ایسے بیوروکریٹس کو ان کے عہدے پر برقرار ہنے دینا چاہیے، تاکہ وہ انتخابات پراثر انداز ہوسکیں اور آیندہ منتخب ہونے والوں کا ’’کاروبار حکومت‘‘ معمول کے مطابق جاری و ساری رہے؟احتساب جمہوریت کے لیے اولین شرط کا درجہ رکھتا ہے۔قانونی پیچیدگیوں پرہی توجہ مرکوزرکھی گئی توبہت کچھ داؤپرلگ جائے گا۔ جن افسران کی غلط کاریوں کے خلاف ظاہری ثبوت بھی دستیاب ہیں، کم از کم  قانونی کارروائی کے حتمی نتائج آنے تک انھیں معطل کردینا چاہیے۔

ہمارے منتخب نمایندوں کے ساتھ تیزی سے بدعنوان ہوتے میڈیا کو بھی اسی صف میں شامل کیا جائے، جو عدلیہ اور افوج پاکستان پر کیچڑ اچھال کر اپنی تسکین کا سامان کررہا ہے۔ حکومت کی اخلاقی حیثیت درحقیقت تباہ ہوچکی، اب جمہوریت کی ساکھ بھی خطرے میں ہے۔ قومی سلامتی محض بیرونی جارحیت کے خلاف سرحدوں کی حفاظت اور داخلی انتشارسے مقابلے کا نام نہیں، سماج کے وجود کو منتشر کرنے والے خطرات کی نگہبانی کون کرے گا؟

جس بے پروائی سے میاں نواز شریف اور ان کے حواریوں نے قانون کی تذلیل کی ہے ، ایسا محسوس ہوتا ہے وہ ملک میں جنگل کاقانون لاناچاہتے ہیں۔ مسلسل انھوں نے افواج پاکستان کو نشانے پررکھ کر تصادم کی پالیسی کیوں اختیار کررکھی ہے؟ مریم نواز نے گوئبلز کے انداز میں ’’کیلبری فونٹ‘‘ سے عیاں ہونے والی جعل سازی سے نظریں ہٹانے کے لیے دروغ گوئی کا ایسا بازار گرم کیے رکھا کہ شایداب انھیں خود بھی اپنی بے گناہی کا یقین ہوچلا ہے۔ انھوں نے اور ان کے  والد نے تصادم کی جو روش اختیار کررکھی ہے وہ تباہ کن ثابت ہوگی، کہا جاتا ہے ’’ جب خدا کسی کو تباہ کرتا ہے تو اس کی عقل سلب کرلی جاتی ہے۔‘‘

نگران حکومت کو نیب کی بھرپور مدد کرنی چاہیے، اس ملک کے غریب عوام کا بہت کچھ داؤ پر لگ چکا، بدعنوانی سے بٹوری گئی دولت اب قانون کی گرفت میں آنی چاہیے، اس لیے بھی کہ منی لانڈرنگ منظم جرائم کی مالی معاونت کا ذریعہ ہے جن کی مدد سے قتل و غارت اور دہشت گردی جیسے عفریت پاؤں جماتے ہیں۔ یہ بات عوامی تشویش کا باعث ہے کہ دولت کے انبار جمع کرنے والے جرائم پیشہ عناصر سے لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں لی گئی تو خدشہ ہے کہ وہ اقتدار کی راہداریوں میں اپنی واپسی کے لیے یہی دولت استعمال کریں گے، ماضی میں ایسے سنگین خدشات درست ثابت ہوتے رہے ہیں۔ پورے عزم و ارادے کے ساتھ قانونی عمل کو مسلسل تاخیر کا شکار کرنے والے عناصر کو قانون کی گرفت میں لانے کے لیے سوچ سمجھ کرفیصلے کرنے چاہیں۔ غلط راستے کا انتخاب ، اور وہ بھی اس وقت جب غلط کو درست کرنے کی جلدی بھی ہو، صرف صورت حال کو مزید پیچیدہ کرنے کا باعث بنے گی؟

انتخابات ساٹھ روز کے اندر 25جولائی 2018 کو ہونا طے پائے ہیں، اس موقعے پر راقم کی تقریباً 25برس قبل پیش کردہ اس تجویز پر ایک نظر ڈالیے، جو ’’نوّے جمع نوّے فارمولا‘‘ کے زیر عنوان کالم میں 5دسمبر 1996کو شایع ہوئی تھی، ’’یہ انتہائی معنی خیز اقدام ہوگا اگر کم از کم منتخب ارکان کی اکثریت کا احتساب مکمل ہونے تک اسمبلی کا اجلاس اگلے 90روز میں طلب نہ کیا جائے۔ اسی طرح یا تو صدر سپریم کورٹ کو بعد از انتخابات نوے روز کی مدت فراہم کرنے کے لیے ریفرینس بھیج سکتا ہے یا نگراں حکومت خود عدالت سے یہ ریلیف حاصل کرسکتی ہے، اور اس شرط کے ساتھ کہ اس دوران صدر کی جانب سے جاری ہونے والا کوئی آرڈیننس اسمبلی کے اجلاس کے 30دن بعد تک نافذ العمل رہے گا۔

اگر احتساب کے لیے 90روز سے زیادہ کی ضرورت محسوس ہو تو یہ مدت انتہائی محدود ہونی چاہیے تاکہ نگراں حکومت کہیں اسی طرح تاریخ میں توسیع کرتی رہے جس طرح جنرل ضیا نے ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت ’’عوامی امنگوں کے مطابق‘‘ مدت کو بڑھاتے بڑھاتے خود کو مستقل کرلیا تھا۔ اقتدار میں آنے کے بعد اس کے دوام کی خواہش ضرور پیدا ہوتا ہے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ عوام کی اکثریت  مختصر وقت میں انتخابات اور احتساب دونوں کی تکمیل چاہتے ہیں۔‘‘

احتساب کے لیے بلاشبہ وقت درکار ہوتا ہے، اور اگر خزانے کی لوٹ مار کا معاملہ ہو یا قوم کو مالیاتی اداورں کے سامنے محتاج محض بنادینے کا جرم تو صورت حال مزید پیچیدہ ہوجاتی ہے، اس وقت ملک کے اہل دانش اس بحث و مباحثے میں مصروف  ہیں کہ انتخابات پہلے ہونے چاہیں یا احتساب۔ تاہم اس ملک کے لیے آئین میں جمہوری عمل کی تجدید کے لیے بیان کردہ عمل سے بڑھ کر کوئی شے اہم نہیں ۔ غیر معمولی صورت حال کے پیش نظر انتخابی تاریخ و مقام میں تبدیلی کی جاسکتی ہے، لیکن سب سے اہم بات یہ ہے انتخابات آئین کی بالادستی کے تقا ضوں کے عین مطابق ہوں اور اس بالادستی کے تسلسل کا باعث بھی۔

(فاضل کالم نگار دفاع اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار ہیں)

The post نگران حکومت appeared first on ایکسپریس اردو.

انتخابات 25 جولائی کو…

$
0
0

الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول کا اعلان کر دیا، اسلام آباد اور لاہور ہائی کورٹس نے متضاد فیصلے دیے، پھر چیف جسٹس ثا قب نثار نے دوبارہ یہ اعلان کرکے کہ انتخابات ہر صورت میں 25 جولائی کو ہونگے، ان عناصر کے عزائم پر پانی پھیر دیا جو انتخابات ملتوی کرنے کی کوشش کر  رہے ہیں ۔ ملک کی تاریخ میں جب بھی انتخابات کا مرحلہ آتا ہے توکئی عناصر انتخابات ملتوی کرنے کی تگ و دوو کرتے ہیں ۔ ان عناصر میں سے تو بعض عناصر تو وہ ہوتے ہیں ۔

جنھیں آیندہ انتخابات میں کامیابی کی امید نہیں ہوتی اور بعض وہ ہوتے ہیں جو اسٹیبلیشمٹ کی ایماء پر جمہوری نظام کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں ۔ بدقسمتی سے اس دفعہ انتخابات ملتوی کرنے کی آواز بلوچستان سے آئی اور انتخابات ملتوی کرنے کا ان لوگوں نے مطالبہ کیا جو چند ماہ قبل اپنی وفاداریاں تبدیل کرچکے تھے، تحریک انصاف بھی ان لوگوں کی ہم نوا نظر آئی ۔

پانچ سالوں کی تاریخ بھی عجیب ہے کہ عمران خان نے 2013ء کے انتخابات کے چند مہینے بعد ہی دھاندلی کے مبینہ الزام کی بنا ء پر 2013ء کے انتخابات کو منسوخ کرنے اور نئے انتخابات کا نعرہ لگایا ۔ اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے اسلام آباد کا گھیرائوکرنے نکلے اور کئی مہینے تک دھرنا دیے بیٹھے رہے۔ اگرچہ چیف جسٹس ناصر الملک نے2013ء کے انتخابات میں دھندلی کے الزامات کو مسترد کیا تو عمران خان نے بظاہر تو اس فیصلے کو قبول کیا مگر اگلے چار سال تک ملک میں جلسے جلوسوں کے ذریعے انتخابی مہم چلاتے رہے۔تحریک انصاف کے کور گروپ نے مستقبل کی پلاننگ کرنے کے دعوے شروع کر دیے۔

جیتنے کی امید لگانے والے رہنما ئوں کے ماضی کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے لیے تحریک انصاف کے دروازے کھول دیے گئے۔عمران خان نے ملک کے ہر بڑے شہر میں جلسے کیے اور ان شہروں کے متوقع امیدوار تحریک انصاف کے جلسوں میں آنے لگے۔ کچھ اضلاع میں تحریک انصاف کے نامزدہ ناموں کی فہرستیں بھی اخبارات کی زینت بنی۔ تحریک انصاف نے دو ماہ پہلے نگران وزیر اعظم کے لیے اپنے ناموں کی فہرست جاری کر دی ، مگر جب خیبر پختون خواہ اور پنجاب میں نگراں وزیر اعلیٰ کا مرحلہ آیا تو حیرت انگیز طو ر پر تحریک انصاف کی کارکردگی عیاں ہوگئی۔ اگرچہ سب سے پہلے نگراں وزیر اعلی  کے پی کے سے متفقہ امیدوار کی خبر آئی مگر عمران خان نے نامزد نگران وزیر اعلی کو اپنے گھر بلا کے اور ان کے ساتھ اپنا گروپ فوٹو جاری کر کے نگراں وزیر اعلیٰ کی ساکھ اور غیر جانبداری کو ختم کر دیا ۔

پنجاب میں ناصر کھوسہ کی نامزدگی کو واپس لے کر ثابت کردیا کہ تحریک انصاف کی قیادت کو نگراں وزیر اعلیٰ کی تقرری کی حساسیت کا احساس ہی نہیں ہے ، ایک سابق بیوروکریٹ کو نگراں وزیر اعلیٰ کے لیے نامزد کردیا گیا جو طالبان کے حامی ہیں  ۔ تحریک انصاف سے اچھی امید رکھنے والے مبصرین کو یہ امید تھی کہ کے پی کے اور پنجاب میں نگراں وزیر اعلی کے معاملات سب سے پہلے حل ہوںگے۔ اگرچہ عمران خان بار بار یہ نعرہ بلند کر رہے ہیں کہ 25 جولائی کو ان کی جماعت اکثریت حاصل کر لے گی۔ ان لوگوں نے اپنی متوقع حکومت کا100 دن کا پلان بھی پیش کر دیا ہے اور ایک کروڑ نوجوانوں کو ملازمت دینے کا بھی وعدہ کیا ہے، مگر پنجاب اور خیبرپختون خوا میں نگراں وزیر اعلیٰ کے مسئلے پر تحریک انصاف کے غیر سنجیدہ رویئے سے یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ ان کی قیادت آیندہ انتخابات سے خوفزدہ ہوگئی ہے یا پھر عمران خان کا اپنی جماعت پر کنٹرول نہیں ہے۔

ایم کیوایم کی بھی تاریخ بھی عجیب ہے ۔اس دفعہ وہ مردم شماری کے نتائج کی آڑ میںانتخابات کے بائیکاٹ کا نعرہ لگا رہی ہے۔ 90ء کی دہائی میں اور پھر نئی صدی کے پہلے عشرے میں کبھی قومی اسمبلی اورکبھی بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کرچکی ہے اور ہمیشہ وقت گزرنے کے بعد ایم کیو ایم کی قیادت یہ تسلیم کرتی رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے دبائو پر بائیکاٹ کے فیصلے غلط تھے۔ اب پھر ایم کیو ایم کے دونوں گروپ اسٹیبلشمنٹ کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ پاکستا ن کی تاریخ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیشہ اسٹیبلیشمنٹ نے انتخابات کو روکنے کی کوشش کی اور پھر اس کے خوفناک نتائج برآمد ہوئے۔ جب تیسرے گورنر جنرل غلام محمد نے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کیا اورپہلی آئین ساز اسمبلی کو توڑ دیا تو قاعدے کے مطابق انتخابات کرانے سے گریزکیا۔اس صورت حال سے برا ہ راست اکثریتی حصہ ،مشرقی پاکستان متاثر ہوا  اور وہاں کی عوام میں یہ احساس ہوا کہ انھیں حکومت کرنے کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ یہ وہی وقت تھا جب فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے حکومتی معاملات  میں مداخلت شروع کی تھی۔

صوبائی اسمبلیوں کے بلا واسطہ انتخابات کرا کے دوسری آئین ساز اسمبلی قائم کی گئی۔ برابری کا اصول قائم کر کے مشرقی پاکستان کی اکثریت کو ختم کیا گیا اور ون یونٹ قائم کر کے چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی کی بنیاد رکھ دی گئی۔1956 کے آئین کے نفاذ کے بعد جب 1958 میں انتخابات لازم ہو گئے اور یہ بات واضح ہو گئی کہ عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی اکثریت حاصل کرلیں گی اور سرکاری جماعتیں مسلم لیگ اور ری پبلکن پارٹی شکست کھا لیں گی تو فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگا کے ملک پر قبضہ کر لیا ۔ پاکستان امریکا کی غلامی میںچلا گیا ۔ عالمی بینک میں قرضوں نے ملکی معیشت کو جکڑ لیا ۔

مشرقی پاکستان کی عوام میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ ان کا بدترین استحصال ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک تقویت پانے لگی۔1977ء میں جب انتخابات میں پی پی پی کی کامیابی نظر آنے لگی تو جنرل ضیاء الحق نے انتخابات ملتوی کردیے۔ اسٹیبلشمنٹ سے طاقت پانے والے سیاستدان اورصحافی جنرل ضیاء کے ہمنوا بن گئے۔ جنرل ضیاء نے پاکستان کو افغان جنگ میں جھونک دیا ۔

مذہبی انتہا پسندی کی جڑیں گہری ہو گئیں اور پاکستان اور اطراف کے ممالک تقریبا چالیس سال گزرنے کے باوجود اس بحران سے نکل نہیں پا رہے۔آج سیاستدان  اور فوجی جنرل تجزیہ نگار اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کی افغان جنگ میں مداخلت ایک بھیانک غلطی تھی۔اگر5 جولائی1977 ء کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور پی این اے کے رہنمائوں کے درمیان دوبارہ انتخابات کے معاہدے کو جنرل ضیاء الحق سبوتاژ نہ کرتے اور ملک میں انتخابات ملتوی نہ ہوتے تو نئی منتخب حکومت پاکستان کو اس تباہی سے بچا لیتی۔

پیپلز پارٹی نے بلوچستان میں زہری حکومت کے خاتمے کے لیے قدوس بزنجو گروپ کی حمایت کی اور ان کے نمایندے کوسینیٹ کا چیئرمین بنوایا مگر آج بزنجو گروپ سب سے زیادہ انتخابات ملتوی کرانے کا داعی ہے۔ سندھ میں سابق وزیر اعلیٰ ارباب رحیم نے بھی انتخاب سے پہلے احتساب کا نعرہ بلند کردیا۔ پیپلز پارٹی کے اراکین قومی اسمبلی نے امیدواروں کے نامزدگی فارم کو مرتب کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اب بدلتی ہوئی صورتحال میں پیپلز پارٹی کی قیادت کو حقیقت کا ادراک ہوا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اور سینئر قانون دان چوہدری اعتزاز احسن کو یہ کہنا پڑا کہ کوئی سسٹم انتخابا ت کو ملتوی کرانا چاہتا ہے۔

یہ مؤقف سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور نیشنل پارٹی کے رہنما میر حاصل بزنجو وغیر ہ کا بھی ہے۔ یہ اتفاق رائے جمہوری نظام کے مستقبل کے لیے انتہائی مثبت ہے۔ سیاسی جماعتوں کے ارتقاء کا جائزہ لینے سے محسوس ہوتا ہے کہ انتخابات کے ذریعے سیاسی جماعتیں مضبوط ہوتی ہیں۔انتخابی عمل کے ذریعے سیاسی جماعتوں کا عوام سے رابطہ مضبوط ہوتا ہے۔سیاسی جماعتیں کامیاب ہوں یا ناکام ، انتخابی عمل ان کی سمت کو درست کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جدید سیاسی جماعتیںانتخابات کی برسوں منصوبہ بندی کرتی ہیں ، جو سیاسی جما عتیں دور رہتی ہیں وہ تحلیل ہوتی جاتی ہیں۔انھی وجوہات کی بناء پر سیاسی جماعتیں انتخابات میں بھر پور حصہ لیتی ہیں ۔ کسی سیاسی جماعت کا انتخابات کا ملتوی کرنے کے مؤقف کا مطلب یہ ہے کہ اس سیاسی جماعت کا عوام پر اعتبار نہیں ہے یا یہ جماعت اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہے اور ایسی سیاسی جماعت کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس کے واضح موقف سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ صورتحال کا صحیح ادراک کر رہے ہیں ۔ انتخابات کا 25 جولائی کو ہونا ہی ملک کا سب سے بڑا مفاد ہے۔

The post انتخابات 25 جولائی کو… appeared first on ایکسپریس اردو.

ہم شرمندہ ہیں

$
0
0

بنگالیوں کے سیاسی اور سماجی شعور کی میں ہمیشہ سے قائل رہی ہوں، شاید اس لیے کہ میں نے کم عمری سے بنگال کے بارے میں بہت کچھ سنا، پھر ان کی لکھی ہوئی کہانیاں پڑھیں۔ کلپنا بردھان نے بنگلہ کہانیوں کا ایک مجموعہ مرتب کیا، جس میں رابندر ناتھ ٹیگور، مہاشویتوا ادیوی، حسن عزیزالحق، تارا شنکر اور مانک باندیو پادھیائے کی کہانیاں ہیں۔یہ کہانیاں اردو میں مسعود اشعر نے ترجمہ کیں۔ ’عورتیں اور دھتکارے ہوئے لوگ‘  کے نام سے یہ کہانیاں شایع ہوئیں۔ دل کے ٹکڑے کرنے اور رگوں میں خون سرد کردینے والی کہانیاں۔ ایسی ہی ایک کہانی چالیس برس بعد ہمارے یہاںگردش کر رہی ہے۔ یہ جھرنا باسک کی کہانی ہے۔

اس جھرنا کی جو پاکستانی فلم اسکرین پر شبنم کے نام سے نمودار ہوئی اور اپنی معصومیت اور بے ساختہ اداکاری سے دیکھنے والوں کے دل جیت لے گئی۔ اس وقت کیسی بھولی بسری باتیں یاد آرہی ہیں۔ جھرنا، شبنم بنی اور اس نے ہمیں چندا، تلاش، سمندر، آخری اسٹیشن، عندلیب اور ’آئینہ‘ ایسی فلمیں دیں، یہ وہ فلمیں تھیں جنھوں نے شبنم کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا۔ انھوں نے ڈیڑھ سو سے زیادہ اردو فلموں میں کام کیا۔ چند پنجابی فلموں میں بھی وہ اسکرین پر آئیں۔ ان کے ساتھی اداکاروں اور اداکاراؤں کے دل میں ان کا احترام تھا اور ان کے چاہنے والے انھیں سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے۔ وہ مشرقی پاکستان میں پیدا ہوئیں، وہیں پلی بڑھیں، ان کا خاندان وہیں رہتا تھا۔

1970 اور 1971 کے درمیان وہاں رہنے والوں کے سر سے خون کے دریا گزر گئے۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ شبنم اور ان کے شوہر روبن گھوش اپنی جنم بھومی کا رخ کریں گے لیکن ان دونوں نے پاکستان سے اپنا ناتا نہیں توڑا۔ شبنم کے بوڑھے اور بیمار ماں باپ بنگلہ دیش میں تھے، وہ ان سے ملنے کے لیے جانا چاہتی تھیں، لیکن بنگلہ دیش کا ویزا ملنا، ان کے لیے ہفت خواں سر کرنے کے برابر تھا۔ ان دنوں شبنم اور روبن گھوش، اپنے بیٹے رونی گھوش کے ساتھ لاہور میں رہتے تھے۔ فروری 1978 میں خبر آئی کہ ان کے گھر ڈاکا پڑا ہے۔ ان کے فلمی ساتھی اور ان کے مداح، سب ہی صدمے کی حالت میں تھے۔ شبنم اور روبن نے بنگلہ دیش بن جانے کے باوجود پاکستان کی شہریت نہیں ترک کی تھی۔ اس تناظر میں لوگ اس جوڑے کے احسان مند تھے، ایسے میں یہ ڈکیتی ان کے لیے دکھ کا سبب تھی۔ لوگوں کو اس کا وہم وگمان بھی نہ تھا کہ اس ’ڈکیتی‘ کے پردے میں دراصل کیسا اندوہ ناک واقعہ ہوا ہے۔ شبنم بنگالی تھیں اور اپنے اندر یہ حوصلہ رکھتی تھیں کہ خود پر گزرنے والے ستم کے بارے میں پرچا کٹوا سکیں۔

پرچا کٹا تو ڈکیتی اس کی ضمنی شق تھی۔ اصل واقعہ تو یہ تھا کہ 4 بگڑے دل رئیس زادوں نے اسلحے کے زور پر روبن گھوش اور رونی گھوش کو رسیوں سے باندھ کر ایک طرف ڈالا اور اس کے بعد ملک کی صفِ اول کی اداکارہ کی اجتماعی بے حرمتی کی اور پھر قہقہے لگاتے ہوئے چلے گئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے فارغ التحصیل شہزادے، ان میں سے ایک کسی اعلیٰ بیوروکریٹ کا سگا بھانجا تھا۔ ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ان کی اس فتح کا پرچا کٹے گا۔ اس سے پہلے لاہور کی کئی اور اداکاراؤں کے ساتھ یہی کچھ ہوا تھا لیکن انھوں نے خاموش رہنے میں عافیت جانی تھی۔ انھیں یقین تھا کہ اتنے بااثر افراد کے بیٹوں، بھانجوں اور بھتیجوں کے خلاف کسی کی مجال نہیں ہوگی کہ وہ پرچا کاٹے۔

شبنم کے ساتھ ہونے والے ظلم کی خبر جب تھانے سے ہوتی ہوئی لاہور کے نگارخانوں تک پہنچی تو جیسے زلزلہ آگیا۔ ان کے مداحوں کے یہاں صف ماتم بچھ گئی۔ وہ بدھسٹ اداکارہ جو پیدایشی بنگالی تھی، جس نے بنگلہ دیش کا رخ نہیں کیا تھا، جو خوشامدیں کرکے اپنی جنم بھومی کا ویزا لیتی تھی کہ اپنے بیمار والدین کی چند ہفتوں کے لیے خدمت کر آئے، اس کی توہین لوگوں کے نزدیک ان کی اپنی توہین تھی۔ اتنا شور مچا کہ جنرل ضیاء الحق نے اس مقدمے میں ذاتی دلچسپی لی، اسپیشل ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلا اور ارتکاب جرم کرنے والے چاروں مجرموں کو سزائے موت سنادی گئی۔

اس موقعے پر ملک کے نہایت معزز قانون دان بیرسٹر ایس ایم ظفر نے فوجی حکمران سے درخواست کی کہ وہ سزائے موت کو عمرقید سے بدل دیں۔ ان کی منطق یہ تھی کہ چاروںافراد معزز گھرانوں کے بیٹے ہیں۔ شریف خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے انھیں سدھرنے کا موقع دیا جائے۔ جنرل ضیاء نے یہ منطق قبول کی اور وہ چاروں پھانسی گھاٹ کے بجائے جیل بھیج دیے گئے۔ اس دوران شبنم اور روبن بدترین ذہنی اذیتوں سے گزرے۔ دھمکی دی گئی کہ اکلوتا بیٹا رونی قتل کردیا جائے گا لیکن شبنم اور روبن نے پسپائی اختیار نہیں کی۔ فلم انڈسٹری کی اکثریت شبنم کی پشت پر تھی۔

اس مقدمے کی روداد بیان کرتے ہوئے ہمارے نوجوان صحافی طاہر سرور میر نے لکھا ہے کہ ایک اخبار نے شبنم کی عدالتی پیشی کا آنکھوں دیکھا حال یوں بیان کیا کہ ’’شبنم فیروزی رنگ کی پھولدار ساڑی میں ملبوس اور سفید چادر اوڑھے ہوئی تھیں، وہ اگرچہ اداس دکھائی دے رہی تھیں لیکن جاذب نظر اور پُروقار لگ رہی تھیں، عدالت کے باہر اپنی پسندیدہ اداکارہ سے اظہار یکجہتی کرنے والوں کا ہجوم تھا۔ عدالت نے پوچھا کہ کیا آپ ملزمان کو پہچانتی ہیں؟ سوال سن کر کٹہرے میں کھڑی شبنم نے سر جھکا لیا اور اس کے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے، اگرچہ اس کی آواز نہیں نکل رہی تھی، لیکن عدالت میں پھیلی خاموشی میں سب اس کی سسکیاں سن رہے تھے، اس بار عدالت نے سخت لہجے میں کہا اپنے آپ کو سنبھالیں، یہاں آپ کو قانون کے مطابق شہادت دینی ہے۔‘‘

ہمیں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی امینہ سید کا شکر گزار ہونا چاہیے جنھوں نے 2017 کے آکسفورڈ لٹریری فیسٹیول میں ان کی میزبانی کی۔ کراچی ائیرپورٹ پر فروری 2017 کی وہ تصویر ہے جس میں شبنم، امینہ سیدکے ساتھ کھڑی مسکرا رہی ہیں اور ان کے بالوں میں لگے ہوئے سفید پھولوں کی خوشبو ہم تک آرہی ہے۔ 2017 کے اس فیسٹیول میں کراچی والوں نے جس طرح ان کی پذیرائی کی، وہ دیدنی تھی۔ اس محفل میں ان سے کئی ملاقاتیں رہیں۔ ان کی آنکھوں میں ہلکی سی سرخی کے ساتھ ہی نمی رہتی تھی اور وہ مسکراتی بھی رہتی تھیں۔ ان سے اپنی دو ملاقاتوں کا ذکر ہماری صف اول کی لیکھک نورالہدیٰ شاہ نے اس طرح کیا ہے کہ دل خراش واقعے کے بعد اور پاکستان چھوڑنے سے کچھ پہلے شبنم سے ایک محفل میں ملاقات ہوئی۔ وہ جتنی دیر بیٹھی رہی آنکھوں میں آنسو اُمڈے آرہے تھے، کہنے لگی میرے بیٹے کو نوکری دینے سے انکار کردیا گیا ہے کہ تم بنگلہ دیشی ہو۔

میں بنگلہ دیشی صرف اس لیے ہوں کہ اپنی بیمار ماں کو دیکھنے ڈھاکا جاتی ہوں۔ میں نے عمر یہاں ضایع کردی، دو سال پہلے جب شبنم پاکستان آئی اور چند گھنٹے ہم مل بیٹھے تو میں نے وہ ملاقات یاد دلائی۔ ایک دم سے نم آنکھوں کے ساتھ اس نے انکار میں یوں سر ہلا دیا جیسے کہتی ہو کہ اس موضوع پر بات مت کرو چپ رہو، حالانکہ میں صرف یہ کہنا چاہتی تھی کہ اب بہت سوں کو لگتا ہے کہ انھوں نے عمر ضایع کردی، مگر تمہیں مبارک ہوکہ تم اپنے آزاد ملک میں ہو۔ اس نے ان درندوں کو شاید اس لیے معاف کردیا تھا کہ وہ اپنے نوجوان اکلوتے اور ذہین بیٹے کے ساتھ اس ملک میں سکون سے رہ سکے، جو امریکا سے پی ایچ ڈی کر کے آیا تھا، مگر حکومت پاکستان نے اس کربناک واقعے کے بدلے معافی نہ دی اور اسے بنگلہ دیشی قرار دے کر روانہ کردیا۔

’آدھی گواہی‘ کی ہماری شاعرہ نسیم سید نے بھی اس اندوہ ناک واقعے پر اپنے دلی جذبات کا کھل کر اظہار کیا اور ڈاکٹر فوزیہ نے بھی خوب خوب لکھا۔ سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے والوں کا سیلاب اُمڈ آیا۔ ان میں دو چار ایسے بھی تھے جو شبنم کو غدار کہہ رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ غدار نہ ہوتی تو پاکستان سے بنگلہ دیش کیوں جاتی اور یہ واقعہ بیان کرکے ہماری رسوائی کا سبب کیوں بنتی۔ واقعی ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے۔

سوشل میڈیا خوش رہے جس نے اپنی قوت کا مظاہرہ کیا اور یہ دکھادیا کہ گھروں میں اپنے کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھ کر بھی مزاحمت کی جاسکتی ہے۔ یہ ہماری تمام سیاسی پارٹیوں کے لیے بھی سبق ہے کہ وہ انتخابات سے ذرا پہلے دوسری پارٹیوں سے آنے والوں کو آندھی کا آم سمجھ کر اپنے دامن میں نہ سمیٹیں۔ شبنم کے ساتھ جو ظلم ہوا، اس پر ہم جس قدر بھی مذمت کا اظہار کریں وہ کم ہے، لیکن ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ہم ’’مظلوم‘‘ کو کب تک خاموش رہنے کا سبق سکھائیں گے؟ یہ خاموشی ظالموں کے ہاتھ مضبوط کرتی ہے۔ اس وقت مجھے اپنی وہ مرحوم اداکارہ یاد آرہی ہے جو بندوق کی نوک پر اٹھائی گئی تھی شہنشاہ ایران اور جنرل ایوب خان کا دل بہلانے کے لیے اور واپسی پر جس نے خودکشی کی کوشش کی تھی۔ کاش سوشل میڈیا اس دور میں بھی ہوتا۔

The post ہم شرمندہ ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

دینی جماعتوں کی سیاست کا مستقبل

$
0
0

متحدہ مجلس عمل کے حوالے سے ایک خاموشی ہے۔ سیاسی منظرنامے میں ایسے لگ رہا ہے جیسے متحدہ مجلس عمل کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ پنجاب میں یہ رائے ہے کہ پنجاب سے دینی جماعتوں کی سیاست ختم ہو گئی ہے۔ اسی طرح سندھ میں بھی دینی جماعتوں کی سیاست کا کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا۔ کراچی میں بھی جماعت اسلامی کی بحالی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ ایسے میں یہ لگ رہا ہے کہ متحدہ مجلس عمل کا سیاسی مستقبل صرف کے پی اور بلوچستان تک محدود رہ گیا ہے۔

یہ تاثر بھی عام کے متحدہ مجلس عمل صرف کے پی کے تناظر میں دوبارہ بحال کی گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اور سراج الحق کو سمجھ آگئی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر کے پی میں حکومت نہیں بنا سکتے۔ اس لیے اگر حکومت بنانی ہے تو اکٹھے ہونا ناگزیر ہے حالانکہ دونوںجماعتوںکے درمیان بنیادی نوعیت کے اختلافات تاحال موجود ہیں۔ فاٹا کے مسئلہ پر بھی دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف کھڑی تھیں۔ لیکن پھر بھی دونوں اکٹھے الیکشن لڑنے پر متفق ہیں۔ دونوں کی نظریں کے پی کی حکومت پر ہیں۔ ایک عمومی رائے یہی ہے کہ اگر جماعت اسلامی اور جے یو آئی اپنے ووٹ بینک کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو گئیں تو جیت یقینی ہے جو ایک سرپرائز ہو گا۔ متحدہ مجلس عمل کے پی کی بڑی جماعت بن کر ابھرے گی۔ انھی کی سیٹیں سب سے زیادہ ہوںگی۔ بلوچستان میںجماعت اسلامی کمزور ہے لیکن جے یو آئی کی سیٹیں ہیں۔ جے یو آئی اپنی سیٹیں جیت لے گی تو بلوچستان میں متحدہ مجلس عمل کی موجودگی ہو گی۔

لیکن اس سب کے باوجود متحدہ مجلس عمل کی پنجاب اورسندھ میں کوئی گیم نظرنہیں آرہی۔ کہا جا سکتا ہے کہ2002میں جب متحدہ مجلس عمل کو تاریخی کامیابی ملی تھی تب بھی پنجاب اور سندھ میں کوئی گیم نہیں تھی ۔ لیکن پھر بھی جماعت اسلامی نے کچھ سیٹیں جیتی تھیں۔ ایک سیٹ جے یو آئی نے گجرانوالہ سے جیت لی تھی جس کی وجہ سے پنجاب میں موجودگی کا احساس تھا۔ اسی طرح سندھ میں بھی تھا لیکن اس بار تو خطرہ ہے کہ ان دوصوبوں میں متحدہ مجلس عمل کا بالکل صفایا ہی ہو جائے گا۔ خطرہ ہے کہ ان دوصوبوں میں ان کی ایک سیٹ بھی نہیں ہوگی۔ ادھر پنجاب میں نئی دینی جماعتوں کا وجود بھی سامنے آیا ہے۔ ان نئی دینی جماعتوں کی سیاست سے اختلاف ممکن ہے۔ لیکن پھر بھی یہ حقیقت ہے کہ انھوں نے حالیہ ضمنی انتخابات میں اچھی کارکردگی دکھائی ہے جسے بہر حال نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

ان میں حافظ سعید شامل ہیں اور لبیک یارسول اللہ شامل ہیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان دو جماعتوں نے لاہور اور پنجاب میں دیگر ضمنی انتخابات میں مناسب ووٹ لے کر سب کو حیران کر دیا ہے۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ یہ دونوں جماعتیں مناسب ووٹ بینک رکھنے کے باوجود پارلیمنٹ میں پہنچنے کی اہلیت نہیں رکھتی ہیں۔ ووٹ بینک ہے لیکن اتنا نہیں ہے کہ سیٹیں جیتی جا سکیں۔ یہ درست ہے کہ حافظ سعید کی جماعت کو الیکشن کمیشن نے رجسٹریشن نہیں دی ہے لیکن پھر بھی انھوں نے ایک اور جماعت کے ذریعے انتخابی میدان میں اترنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اندر کی خبر یہی ہے کہ جماعت اسلامی اور جے یو آئی کو شائد حافظ سعید کے شامل ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن ساجد میر صاحب کو یہ قبول نہیں ہے۔ اسی طرح جے یو پی (نورانی ) کو لبیک یا رسول اللہ کے شمولیت پر اعتراض ہے۔ لیکن میں اس ساری صورتحال کو دوسری طرح دیکھتا ہوں۔

میں سمجھتا ہوں کہ متحدہ مجلس عمل کی دونوں بڑی جماعتیں جماعت اسلامی اور جے یو آئی (ف) بھی اندر سے ان دونوں جماعتوں کی شمولیت کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کو خطرہ ہے کہ ان دو نئی جماعتوں کے آنے سے ان کا متحدہ مجلس عمل پرکنٹرول کمزور ہو جائے گا۔ اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ متحدہ مجلس عمل کی گیم بس ان دو جماعتوں کے ہاتھ میں ہے ۔متحدہ مجلس عمل کے جلسوں میں ان کے کارکن اپنی جماعتوں کے جھنڈوں کے ساتھ موجود ہو نگے۔ پنجاب میں ان کا ووٹ بینک اس وقت متحدہ مجلس عمل کی باقی جماعتوں سے زیادہ ہے۔ یہ پنجاب میں تو آگے آجائیں گی۔ یہ دونوں جماعتیں جماعت اسلامی اور جے یو آئی (ف) کے مد مقابل آنے کی اہلیت رکھتی ہیں ۔

اسی لیے انہیں متحدہ مجلس عمل سے دور رکھا جا رہا ہے۔ حافظ سعید تو متحدہ مجلس عمل میں شامل ہونے کو تیار تھے۔ انھوں نے اس کے لیے کوشش بھی کی ہے۔ تا ہم متحدہ مجلس عمل کی جانب سے وہ گرمجوشی نہیں دکھائی گئی ۔ نہ ہاں نانہ کی گئی۔ بس با ت چیت میں ہی وقت گزار دیا گیا۔ جب کہ لبیک یارسول اللہ  کے ساتھ تو بات چیت کے دروازے بھی نہیں کھولے گئے۔ ویسے اب تو وقت گزر گیا ہے۔دینی جماعتوں کو اس بات احساس کرنا چاہیے کہ آہستہ آہستہ پاکستان میں دینی جماعتوں کا ووٹ بینک بھی کم ہو رہا ہے۔ ان کی سیاسی جگہ بھی ختم ہو جاتی رہی ہے۔ ایسے میں اگر دینی جماعتوں نے اپنے اندر کے اختلافات ختم نہیں کریں گے۔ تو ان کے داستان بھی ختم ہو جائے گی۔ اس لیے اب بڑے فیصلے کرنے ہوںگے۔ لیکن شائد اس کے لیے و ہ تیار نہیں ہیں۔

The post دینی جماعتوں کی سیاست کا مستقبل appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 22552 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>