Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22460 articles
Browse latest View live

دوسرا رخ

$
0
0

ساہیوال کے واقعے نے پورے ملک کو اداس کر دیا‘ میڈیا بار بار دو معصوم بچیاں اور خوف کے شکار 10سال کے بچے عمیر کو دکھا رہا ہے‘ سوشل میڈیا پر پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے ذیشان‘ خلیل احمد‘ خاتون نبیلہ اور تیرہ سال کی بچی اریبہ کی لاشیں بھی ہر حساس شخص کو خون کے آنسو رلا رہی ہیں‘ جان دینا اور جان لینا دونوں اللہ تعالیٰ کے کام ہیں‘ ہم انسان جب بھی کسی نئے انسان کو جنم دینے کا فیصلہ کریں یا ہم کسی منصب پر بیٹھ کر کسی کی جان لے رہے ہوں تو ہمیں قلم اور رائفل چلاتے ہوئے دس مرتبہ سوچنا چاہیے۔

ہم اگر کسی بچے کو جنم دے کر اس کی پرورش کی ذمے داری پوری نہیں کرتے یا پھر ہماری غفلت سے کسی کی جان چلی جاتی ہے تو ہم اللہ تعالیٰ کے غضب سے نہیں بچ پاتے‘ خدا ہمیں معاف نہیں کرتا‘ ساہیوال میں بھی یہی ہوا‘ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی فائرنگ سے تین بے گناہوں کی جان بھی گئی اور تین معصوم بچوں نے اپنی آنکھوں سے اپنے والدین کو بھی مرتے دیکھا‘ یہ دیکھنے سے بہترتھا یہ بچے بھی دنیا سے رخصت ہو جاتے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ اب نارمل زندگی نہیں گزار سکیں گے‘ ان بچوں کی تکلیف اور بے گناہوں کا خون بھی پوری زندگی مارنے والوں کا پیچھا کرتا رہے گا‘ یہ بھی اب نارمل زندگی کو ترستے رہیں گے۔

ہم فرض کر لیتے ہیں پولیس کے مطابق خلیل احمد کا دوست ذیشان دہشت گردوں کا ساتھی تھا لیکن پولیس کے پاس اس کو گرفتار کرنے کے بے شمار طریقے موجود تھے‘ یہ سڑک پر گاڑی رکوا کر اسے گرفتار کر سکتے تھے‘ یہ اسے ٹول پلازے پر بھی روک سکتے تھے اور پولیس نے جب ٹائروں پر گولی مار کر گاڑی روک لی تھی تو یہ اس وقت بھی اسے زندہ پکڑ سکتی تھی یوں سڑک پر سیکڑوں لوگوں کی موجودگی میں گاڑی کو چھلنی کر دینا یہ کہاں کا انصاف‘ یہ کہاں کی انسانیت اور یہ کہاں کا پروفیشنل ازم ہے؟ ہم اس کی جتنی بھی مذمت کریں کم ہو گی‘ بہرحال یہ واقعہ ہو گیا اور یہ حقیقت ہے انسان کچھ بھی کر لے وہ ایسے واقعات کو ’’ری ورس‘‘ نہیں کر سکتا‘ ہم سب مل کر بھی ان بچوں کو ان کے والدین واپس کر سکتے ہیں اور نہ زندگی کی سرحد پار کرنے والوں کو واپس لا سکتے ہیں لیکن ہم اس واقعے سے سیکھ بہت کچھ سکتے ہیں۔

ساہیوال کے واقعے سے پہلا لیسن ریاست کو سیکھنا چاہیے‘ حکومت قانون بنا دے فائر کا حکم ہمیشہ اوپر سے دیا جائے گا اور وہ آرڈر واضح اور قانونی ہو گا اور کوئی بے گناہ اس حکم کی زد میں نہیں آئے گا‘ دوسرا‘ دنیا کے تمام جدید ملکوں میں پولیس کے پاس مہلک اسلحہ نہیں ہوتا‘ یہ زیادہ تر شارٹ گن یا پستول کی ہلکی گولی استعمال کرتے ہیں‘ اس سے ملزم عموماً زخمی ہوتے ہیں‘ ہلاک نہیں ہوتے‘ مہلک اسلحہ صرف اسپیشل فورسز کے پاس ہوتا ہے اور وہ لوگ انتہائی ماہر نشانہ باز ہوتے ہیں‘ وہ ٹارگٹ کے علاوہ چیونٹی تک کو نقصان نہیں پہنچاتے جب کہ ہم نے عام پولیس کو بھی کلاشنکوف اور تھری ناٹ تھری دے رکھی ہیں چنانچہ یہ جب بھی فائر کرتے ہیں یہ بے گناہوں کو بھی زندگی کی سرحد سے باہر دھکیل دیتے ہیں۔

ہمارے ملک میں بے شمار نوجوان ناکوں پر موجود پولیس کی فائرنگ سے قتل ہو چکے ہیں لہٰذا حکومت کو پولیس کا اسلحہ بھی تبدیل کر دینا چاہیے‘ یہ اگر ممکن نہ ہو تو آپ انھیں ہلکی گولیاں دے دیں تاکہ یہ ملزموں کو صرف زخمی کر سکیں‘ یہ ان کی جان نہ لے سکیں اور تیسرا‘ پوری دنیا کی پولیس ملزموں کو گرفتار کرنے کی ایکسپرٹ ہوتی ہے‘ پولیس اہلکار چند لمحوں میں ملزم کو نیچے گرا لیتے ہیں اور اس کی کلائیاں پیچھے لے جا کر باندھ دیتے ہیں‘یہ ملزموں کو ’’ٹیزر‘‘ کے ذریعے کرنٹ دے کر بھی بے ہوش کر دیتے ہیں اور اب دنیا میں لیزر گنز بھی آ چکی ہیں‘ پولیس دور سے لیزر مار کر ملزم کو گرا لیتی ہے جب کہ ہمارے ملک میں آج بھی ملزموں کو گرفتار کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے‘ منت یا گولی‘ ہماری پولیس ملزم کے پیچھے بھاگ سکتی ہے اور نہ اسے دبوچ سکتی ہے چنانچہ اہلکار سارے کام رائفل سے لیتے ہیں‘ یہ لوگ اچھے نشانچی بھی نہیں ہیں‘ یہ گولی دائیں چلاتے ہیں اور بندہ بائیں مر جاتا ہے یا پھر یہ گولیوں کی اتنی بوچھاڑ کر دیتے ہیں کہ ملزم کے ساتھ ساتھ ہمسائے بھی مارے جاتے ہیں۔

ریاست کو پولیس کی اس کمزوری پر بھی توجہ دینی چاہیے اور چوتھا اور آخری سبق ہم عوام کے لیے ہے‘ پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کی تحقیقات کے مطابق ذیشان جاوید کا تعلق دہشت گرد گروپ کے ساتھ تھا‘ یہ لوگ یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے کے اغواء کے ساتھ ساتھ آئی ایس آئی کے بے شمار افسروں کے قتل میں بھی ملوث تھے‘ یہ موبائل فونز اور انٹرنیٹ کے آئی پی تک تبدیل کر لیتے تھے‘ پولیس اور خفیہ ادارے آٹھ سال سے ان کا پیچھا کر رہے ہیں‘ یہ 2018ء کے آخر میں ان کے ریڈار میں آ گئے‘ بظاہر عام‘ نیک اور غریب دکھائی دینے والے یہ لوگ اندر سے برگد کی جڑوں کی طرح دور تک پھیلے ہوئے ہیں‘ پولیس اور ایجنسیوں سے بچنے کے لیے یہ ہمیشہ بچوں‘ خواتین اور فیملیز کو استعمال کرتے ہیں۔

لوگوں سے ذاتی تعلقات استوار کرتے ہیں اور پھر ان سے لفٹ لے کر یا انھیں لفٹ دے کر ان کے خاندانوں کے ساتھ سفر کرتے ہیں اور بارود ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دیتے ہیں‘ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا ذیشان جاوید بھی ایک ایسا ہی دہشت گرد یا سہولت کار تھا‘ یہ تحقیقات کے بعد ہی ثابت ہو سکے گا تاہم پولیس اور خفیہ اداروں کا دعویٰ ہے ذیشان سہولت کار تھا‘ 19 جنوری کو گوجرانوالہ میں مارے جانے والے دو دہشت گرد لاہور میں اس کے گھر میں پناہ گزین رہے تھے۔

اس کا رابطہ 15 جنوری کو فیصل آباد میں مارے جانے والے دہشت گردوں کے ساتھ بھی تھا‘ یہ اپنی گاڑی میں خلیل احمد کی فیملی کو بورے والا لے جا رہا تھا اور ساہیوال میں مارا گیا‘ ہم عوام کو اس واقعے سے سبق سیکھنا چاہیے‘ کسی بھی شخص کو خواہ وہ ہمارا کتنا ہی پرانا اور قریبی دوست کیوں نہ ہو ہم اسے فیملی کے ساتھ سفر نہ کرائیں‘ ہم بس یا ٹرین میں سفر کر لیں‘ ہم اپنے مہمان کو کرائے پر گاڑی لے دیں لیکن ہم اسے ساتھ نہ لے کر جائیں‘ کیوں؟ کیونکہ کچھ پتہ نہیں کون کب ہمارے بچوں کو ہیومن شیلڈ بنا لے لہٰذا ہمیں بھی بہرحال چوکنا رہنا ہوگا اور یہ ساہیوال کے واقعے کا وہ دوسرا رخ تھا جو معصوم بچوں اور تین بے گناہ لوگوں کے قتل کی وجہ سے پورے ملک کی نظروں سے اوجھل ہو گیا‘ ذیشان جاوید فراموش ہو گیا اورخلیل احمد کی فیملی اور تین بے گناہوں کے قتل نے اصل کہانی پر پردہ ڈال دیا۔

ہماری زندگی میں دوسرا رخ بہت اہم ہوتا ہے‘ ہمیں چاہیے ہم جب بھی پہلے رخ کو دیکھیں‘ ہم کوشش کریں ہم دوسرا رخ بھی تلاش کریں کیونکہ یہ عین ممکن ہے اصل حقیقت دوسرا رخ ہو‘ مجھے یہ تجربہ جمعہ 18 جنوری ہی کو ہوا‘ سی پی این ای (Council of Pakistan Newspaper Editors) نے جمعہ کو اسلام آباد میں میڈیا اینڈ ڈیموکریسی پر کنونشن منعقد کیا‘ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا ایسا میڈیا کنونشن تھا جس میں ملک بھر کے پریس کلب بھی شریک تھے‘ صحافیوں کی تنظیمیں بھی‘ ملک کے نامور صحافی‘ ایڈیٹر‘ میڈیا مالکان‘ ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کے سی ای او اور اینکر پرسنز بھی اور حکومت اور اپوزیشن کے نمایندے بھی‘ ملک میں پہلی بار جمہوریت اور میڈیا پر کھل کر بات ہوئی‘ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی‘ وزیر اطلاعات فواد چوہدری‘ مریم اورنگزیب اور نیئر بخاری نے بھی کنونشن میں کھل کر بات کی‘ میڈیا کے تمام اسٹیک ہولڈرز ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے اور بے لاگ بات چیت کی‘ میں نے کنونشن میں مالکان کے کاروباری مفادات اور سیاسی ایجنڈے پر بات کی‘ میرے دوست اور گروپ ایڈیٹر ایاز خان نے اس کا بہت خوبصورت جواب دیا۔

ان کا کہنا تھا بے شک میڈیا کی انڈسٹری میں سرمایہ کار‘ صنعت کار اور تاجر آئے لیکن یہ فیلڈ آج جس خوشحالی کو انجوائے کر رہی ہے یہ صرف اور صرف ان لوگوں کی مرہون منت ہے‘ یہ لوگ صحافت میں نہ آتے تو ہم آج بھی ہونڈا سی ڈی 70 پر ہوتے‘ میں نے ان سے اتفاق کیا‘ یہ حقیقت ہے 2000ء تک صحافت صرف تین گروپوں تک محدود تھی‘ یہ لوگ خود ارب پتی تھے لیکن صحافی خون تھوک رہے تھے پھر بڑے صنعتی گروپ آئے اور صحافیوں کے دن پھرنا شروع ہو گئے‘ ٹیلی ویژن نے خوشحالی کے اس سفر کو مزید بہتر کر دیا‘ ایکسپریس کے سی ای او اعجاز الحق نے کہا‘ 2000ء تک صحافتی مالکان صحافت سے کما کر دوسرے شعبوں میں لگاتے تھے لیکن پھر ایسے لوگ آئے جنہوں نے دوسرے شعبوں سے کمایا اور صحافت میں لگا دیا‘ یہ ایک ایسا دوسرا رخ تھا جس سے زیادہ تر لوگ ناواقف تھے‘ کنونشن میں حکومت کو صحافتی برادری اور صحافتی برادری کو حکومت کا موقف سمجھنے کا موقع بھی ملا‘ شرکاء نے تسلیم کیا صحافت کا گلہ گھونٹا جا رہا ہے۔

ملک میں ایک ان دیکھا خوف موجود ہے‘ ہر شخص پریشان ہے اور یہ پریشانی صحافت کے ذریعے پورے ملک میں پھیل رہی ہے‘ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میڈیا کے کندھوں پر بیٹھ کر ایوان اقتدار میں داخل ہوئی‘ میڈیا نے جتنی عمران خان کو سپورٹ دی اتنی سپورٹ آج تک کسی دوسرے لیڈر کو نہیں ملی لیکن عمران خان نے حکومت میں آ کر سب سے پہلے میڈیا کو ٹارگٹ کیا‘ میڈیا نے حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی سسکنا شروع کیا اور یہ اب ایڑیاں رگڑ رہا ہے‘ اخبارات بند ہو رہے ہیں اور ٹیلی ویژن چینلز ڈاؤن سائزنگ کے عمل سے گزر رہے ہیں‘ یہ سلسلہ اگر چلتا رہا تو میڈیا کے لیے سانس لینا مشکل ہو جائے گا اور یہ حقیقت ہے میڈیا اور جمہوریت دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں‘ صحافت نہیں رہے گی تو پھر جمہوریت بھی ممکن نہیں ہو گی‘ اس کنونشن میں فیصلہ ہوا تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر میڈیا کو بچانا ہوگا ورنہ پھر ہمیں جمہوریت کا جنازہ پڑھ لینا چاہیے اور یہ وہ دوسرا رخ تھا جس سے سانحہ ساہیوال کی طرح زیادہ تر لوگ ناواقف تھے‘ یہ میڈیا کے بحران کو صرف میڈیا کا بحران سمجھ رہے تھے۔

The post دوسرا رخ appeared first on ایکسپریس اردو.


افغان خفیہ ایجنسی کے تربیتی مرکز پر خود کش حملہ

$
0
0

افغانستان میں گزشتہ روز اس کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے تربیتی مرکز پر طالبان کے خودکش حملے میں 126 اہلکار ہلاک ہو گئے جب کہ چاروں حملہ آور بھی مبینہ طور پر مارے گئے۔

ایک غیر ملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق افغان طالبان نے یہ حملہ کابل سے 50 کلومیٹر دور جنوبی صوبے وردک کے صدر مقام میدان شہر میں قائم ملٹری کمپاؤنڈ پر صبح کے وقت کیا۔ افغانستان کی وزارت داخلہ کے حوالے سے میڈیا نے بتایا ہے کہ طالبان کا ایک خودکش بمبار دھماکا خیز سے بھری گاڑی فوجی اڈے کا مرکزی دروازہ توڑ کر کمپاؤنڈ کے اندر لے گیا اور وہاں پہنچ کر دھماکا کر دیا۔

اطلاعات کے مطابق دھماکا اتنا زوردار تھا کہ اس کی آواز دور دور تک سنی گئی۔ واقعے کے بعد ٹریننگ کیمپ کی پوری عمارت زمیں بوس ہو گئی۔ دھماکے کے بعد تین حملہ آور فوجی اڈے میں جا گھسے جس کے بعد سیکیورٹی فورسز اور طالبان جنگجوؤں کے درمیان جھڑپ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ فائرنگ کے تبادلے میں تینوں حملہ آور بھی مارے گئے۔

افغان وزارت دفاع کے مطابق دھماکے میں ہلاک ہونے والوں میں نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) کے 8 اسپیشل کمانڈوز بھی شامل ہیں۔ افغان وزارت دفاع کے مطابق حملہ طالبان کی جانب سے کیا گیا جنہوں نے حملے کے لیے افغان فورسز سے چھینی گئی گاڑی کا استعمال کیا تا کہ چیک پوائنٹس پر آسانی سے گزر سکیں۔ دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اﷲ نے حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ افغان حکومت اسپیشل فورسز کے 90 اہلکار ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

اس کمپاؤنڈ میں 200 سے 250 اہلکار تعینات تھے۔ صوبائی کونسل کے رکن محمد سردار بختیاری کے مطابق افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے مرکز پر 150 کے قریب اہلکار تعینات تھے۔ یاد رہے کہ ایک دن قبل صوبہ لوگر کے گورنر کے قافلے پر طالبان کے حملے میں 7سیکیورٹی اہلکار جان کی بازی ہار گئے تھے۔

افغان صدر اشرف غنی نے این ڈی ایس کے مرکز پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ یہ کارروائی ملک دشمنوں کی ہے۔ یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کی باتیں ہو رہی ہیں۔ زلمے خلیل زاد اس سلسلے میں پاکستان کا دورہ بھی کر کے گئے ہیں۔ پاکستان بھی چاہتا ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو جائے لیکن افغانستان کے اندر جس قسم کی وارداتیں ہو رہی ہیں اس سے خدشات جنم لے رہے ہیں کہ کہیں طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ بغیر کسی نتیجے کے اختتام تک پہنچ جائے۔

The post افغان خفیہ ایجنسی کے تربیتی مرکز پر خود کش حملہ appeared first on ایکسپریس اردو.

بارشیں ، حادثات ، انفرا اسٹرکچر کی زبوں حالی

$
0
0

ملک میں قدرتی آفات ، شدید بارشوں ، سیلابی ریلوں، لینڈ سلائیڈز، المناک روڈ حادثات اور دیگر المیوں کا جائزہ لیں تو بنیادی سوال ملک گیر انفراسٹرکچر کی زبوں حالی کا سامنے آتا ہے۔

اس کے فقدان پر ماہرین اور میڈیا پر ہر اس موقعے پر بحث ہوتی ہے، عوامی شکایات کے انبار لگ جاتے ہیں جب موسمیاتی تقاضوں اور الرٹس کے بجائے حکومتوں کی عدم توجہی، نااہلی، بلدیاتی اداروں کی بے نیازی ، فنڈزکی کمی کی معذرت خواہی ، فرائض کی انجام دہی میں غفلت پر حیلے بہانے اور صوبائی محکموں کی بارشوں ، سیلابوں ، حادثات اور سنگین واقعات کے رونما ہونے پرکارکردگی کی قلعی کھل جاتی ہے۔

ادارے ایک دوسرے پر صورتحال کی ابتری اور شہری املاک اور تنصیبات کی تباہی، سڑکوں شاہراہوں کی ٹوٹ پھوٹ ، ندی نالوں میں صفائی سے چشم پوشی اور ہنگامی حالات کے حوالے سے مکمل ہونے والے ترقیاتی منصوبوں اور حفاظتی اقدامات بے نتیجہ ثابت ہوتے ہیں، لامحالہ سیاسی جماعتوں کے خلاف شہری شکایت کرتے ہیں، معاشرے کے فہمیدہ حلقوں کی شدید مذمت اور نکتہ چینی کا سارا ملبہ حکومتوں کی انتظامی مشیری اور نوکر شاہی پرگرتا ہے۔

حالیہ موسمیاتی تبدیلیوں ، موسلا دھار اور طوفانی بارشوں ، بین الصوبائی شاہراہوں پر ٹریفک کے ہولناک حادثات کے تسلسل اوربلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں دھماکوں ،کان میں گیس بھر جانے کے اندوہناک واقعات اورکان کنوں کی دردناک اموات میں اضافے کے تناظر میں وفاق اور صوبوں کی انتظامیہ سوالیہ نشان بن گئی ہے۔

پیداشدہ صورتحال اتنی تکلیف دہ ہے کہ ہر شخص کے لب پر یہی سوال ہے کہ حکومت مکمل انفرااسٹرکچر پر توجہ کیوں نہیں دیتی، کیوں قدرتی آفات ، فطرت کے تبدیل شدہ منظر نامے کے ادراک، معصوم مسافروں کی بسوں ،کوچز اور دیگر ہیوی گاڑیوں میں تصادم سے ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے، عارضی اقدامات ہوتے ہیں ، ہرحادثے کے بعد ریسکیوکارروائی کے تحت ایدھی ایمبولینسز جائے حادثہ پر پہلے پہنچتی ہیں، ملک کے دور دراز علاقوں کے دشوارگزار راستوں اور پختہ شاہراہوں پر جگر پاش روڈ ایکسیڈنٹس میںجاں بحق اور زخمی ہونے والوں کی اسپتال منتقلی اعصاب شکن ہوتی ہے، زخمی جائے حادثہ سے دور دراز سرکاری اسپتالوں میں منتقلی کے دوران ہلاک ہو جاتے ہیں۔

میڈیا بار بار یاد دہانی کرتا ہے، مگر صوبائی حکومتیں، وزراء اور منتخب اراکین محکمہ جاتی سطح پر ڈنگ ٹپاؤ سے زیادہ متحرک ہوتی نظر نہیں آتے، آخرکیوں اس جمود ، لاتعلقی ، بے پروائی، عدم دلچسپی کا سلسلہ جاری ہے۔ فزیکل پلاننگ کے شعبے میں ملک کے ممتاز ماہرین اکثر شکایت کرتے ہیں کہ حکومتوں کو جن مقاصد اور اہداف کی تکمیل کے لیے عوام منتخب کرتے ہیں، اس کا بنیادی محور مسائل کا حل ہے، وفاقی وصوبائی حکومتوں اور ارباب اختیار و پارلیمنٹیرینز کی اپنے حلقہ انتخاب میں عوام کو درپیش مصائب ومسائل سے نجات دلانا اور بلدیاتی، شہری دیہی ترقی اور بین الصوبائی سفری و جدید ترین مواصلاتی سہولتوں کی فراہمی ہے۔

پوری دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے، پاکستان اس سے الگ نہیں ہے، ایک نئی حکومت اور نیا پاکستان متعارف ہوا ہے، جس میں عوام کو بنیادی سہولتوں کا انتظار ہے، مگرکوئی حیران کن تبدیلی فزیکل پلاننگ ، مواصلات ، انسداد حادثات اور دیگر المناک واقعات کے سدباب کے سیاق وسباق میں انسانی ضمیرکی تسکین اور آسودگی کا باعث نہیں بنتی ۔

ہر سال کا رونا یہی ہے کہ ابر رحمت کا باعث زحمت بن جانا ۔افسرشاہانہ کاہلی، انتظامی تجاعل عارفانہ اور حکام و متعلقہ محکموں کے مجرمانہ تساہل اور عدم دلچسپی سے عوام کل بھی نالاں تھے اور آج بھی ان کی فلاح وبہبود اور ریلیف مہیا کرنے کے لیے پیکیجز، منصوبوں کی شفافیت اور واقعات وحادثات کی روک تھام کے لیے کوئی شاندار ، قابل تحسین روڈ میپ اور جدید ترین انفرااسٹرکچر کے قیام اور پھیلاؤ کا نام ونشان دکھائی نہیں دیتا۔

ملک میں ہونے والی بارشوں اور اس کے دوران اور بعد کی صورتحال ہر شہری کے لیے شکایت اور تکلیف کا سبب بنتی ہے، ادھر بارشوں کا سلسلہ چلا ، ادھر بجلی کے فیڈر ٹرپ کرگئے، کنڈے کی بجلی یا بے احتیاطی سے کرنٹ لگنے سے ہلاکتیں، مخدوش عمارتوں کے گرنے کے سانحے۔

ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بارش سے شہر کا نظام مفلوج ہو گیا، معمولات زندگی درہم برہم ، سڑکیں زیر آب آگئیں ، نکاسی آب کی ساری منصوبہ بندیاں معمولی سے بارش میں بہہ جاتی ہیں، لاہور سمیت پنجاب پختونخوا ، بلوچستان بھر میں اکثر مقامات پر پیرکو بارش اور پہاڑی علاقوں میں برف باری کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا ۔ کراچی میں پیرکو وقفے وقفے سے کبھی تیز اورکبھی ہلکی بارش کا سلسلہ جاری رہا جس کی وجہ سے موسم مزید سرد ہوگیا ۔

بارش کا پانی اہم سڑکوں پر جمع ہونے کی وجہ سے بعض مقامات پر ٹریفک جام رہا ۔ ملک کے بالائی علاقوں مالاکنڈ، ہزارہ، پشاور، مردان، کوہاٹ، راولپنڈی، اسلام آباد، کشمیر اورگلگت بلتستان میں اکثر مقامات پر، بہاولپور، ملتان، ساہیوال، ڈی جی خان، ڈی آئی خان، بنوں ڈویژن میں کہیں کہیں جب کہ سکھر اور ژوب ڈویژن میں چند مقامات پر گرج چمک کے ساتھ بارش جاری رہی تاہم مغربی ہواؤں اور بارشوں کے نئے سلسلے نے کراچی شہر میں جل تھل کردیا۔

مختلف علاقوں میں کرنٹ لگنے کے واقعات میں4 افراد جاں بحق ہوگئے،کراچی سے پنجگور جانے والی مسافرکوچ اور ٹرک میں تصادم حادثے کے بعد کوچ میں آگ لگ گئی خواتین اور بچوں سمیت 26 افرادزندہ جل گئے 6 جھلس کر زخمی ہوگئے جب کہ3 زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے، حادثے کے بعد لسبیلہ کے سرکاری اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرکے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکس کو ڈیوٹیوں پر طلب کرلیا گیا۔

بلوچستان کے ضلع دکی میںزہریلی گیس بھرنے  کوئلے کی کان میں دھماکا ہوگیا جس سے کان بیٹھ گئی ،2امدادی اہلکاروں سمیت 6افراد جاں بحق ہوگئے،امداد کے لیے جانے والے 19کارکن بے ہوش ہوگئے ۔ ضلع راولپنڈی میں موسلادھار بارش کے باعث انسداد پولیو کی 5 روزہ مہم کا آغاز نہ ہوسکا، پولیو ورکرزکی ٹیمیں بارش کے باعث باہر نہ نکل سکیں جب کہ انسداد پولیوکے فکسڈ سینٹرز پر بھی موجود عملہ پولیو ویکسین کے قطرے پلانے کے لیے بچوں کا منتظر رہا۔

عمومی شکایت کی روشنی میں  بیشتر شاہراہیں ، سڑکیں تالاب بن گئیں، بلدیاتی ادارے پیشگی انتظامات کرنے میں ناکام رہے۔ فراہمی آب کا عملہ غائب ، برساتی نالے ابل پڑے، سڑکوں کی حالت ناگفتہ بہ۔ یہ صرف کسی ایک بڑے شہر کی نہیں پورے ملک میں ناقص انفرااسٹرکچر کی دردناک داستان ہے۔

آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے، حکومتوں پر عوام کا نزلہ اس لیے گرتا ہے کہ سیاست دانوں میں ٹھنی ہوئی ہے، جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے، ان کی ترجیحات غالباً عوام کو سہولتیں مہیا کرنا نہیں باہمی کشیدگی، الزام تراشی، بیان بازی اور حکومتیں گرانے کی نورا کشی کا تماشا دکھانا ہے ۔حالانکہ وقت کا تقاضہ ہے کہ حکومت قدرتی آفات سمیت ملک میں نقل وحمل کی جدید سہولتوں کی فراہمی پر توجہ دے۔ سڑکوں پر حادثات کی روک تھام، بارشوں سے شہر و دیہات میں عوام کو لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرے۔ سیلابوں  پر بند باندھنے کے ٹھوس اقدامات کی طرف رجوع کرے۔

موسمیاتی اور ماحولیاتی چیلنجز ملک وحکومت کو درپیش ہیں، لوگ پوچھتے ہیں کہ کب یہ منظر نامہ بدلے گا،کب بسوں اورکوچز کے المناک تصادم میں معصوم شہری ہلاک ہوتے رہیں گے، کان کنوں کے حالات کارکب بہتر ہونگے۔ ہم دنیا کی بہترین شہری اور دیہی زندگیوں کے معیارکے تقابل میں کب بہترین مقام حاصل کریں گے۔ ان سوالوں کے جواب عوام کو جلد چاہئیں۔

The post بارشیں ، حادثات ، انفرا اسٹرکچر کی زبوں حالی appeared first on ایکسپریس اردو.

قلم اور رقاصہ

$
0
0

موجودہ حکومت کو جو نہیں کہنا تھا وہ کہا اور جو نہیں کرنا تھا وہ کیا ۔ سو دن کا اعلان بچگانہ تھا مگر کرکے خوامخواہ ہدف تنقید بنے، نو مسلم شاہ سے لے کر حمزہ تک سب کو مذاق کا موقع ملا اور سو دن میں ایک سال کا کام کرنا پڑا، داخلی، خارجی اور معاشی محاذوں پر سخت محنت کرنی پڑی اور کامیاب ہونا پڑا وننگ پوائنٹ سو دن تھا جو جیتنا پڑا اور کم فہم سیاستدان بشریٰ بی بی کا طعنہ دیتے رہے۔ایڈ نہیں ٹریڈ کا جھوٹ بول کر ایڈ لینے والوں کے برعکس اسے سچا کر دکھایا ۔

ایک ویڈیو ان صاحب کی ، ہم نے یوٹیوب پر دیکھی تھی جس میں ایک اسٹیج کے کنارے جو شاید دو فٹ اونچا ہوگا یہ صاحب زمین پر بیٹھے تھے اور اسٹیج پر ایک فنکارہ گا رہی تھیں اور شاید کچھ رقص کا سا انداز تھا تو ہم نے اس وقت بھی سوچا تھا کہ جس معاشرے میں قلم رقاصہ کے قدموں میں آجائے وہ معاشرہ کیا بچے گا۔

مگر پھر ایک قلم کو اور بھی فروخت ہوتے دیکھا جو سابق وزیر اعظم کی تقاریر اور سلوگن لکھا کرتا تھا اور معاوضے میں خاندان کے افراد کو بھی اعلیٰ ملازمتیں دلوائیں ذاتی فائدے کے لیے، اس قلم کے بک جانے کا بہت افسوس بھی ہوا تھا کیونکہ یہ ایک قیمتی اور قابل اعتبار قلم ہوا کرتا تھا۔ پہلا قلم تو بازار کا مال ہے جو ہر ٹھیلے پر دستیاب ہے۔ آخری الیکشن نے ثابت کردیا کہ اس سے پہلے 2013ء کا الیکشن کیا تھا کہ نتائج پورے ہونے سے پہلے تقریر نشر ہوگئی ۔

خیر یہ باتیں اب قارئین بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں لوگ جان گئے ہیں۔ پانامہ نے ’’جامہ‘‘ اتار دیا ہے اور معاملات کی حقیقت واضح ہوچکی ہے۔ بداعمال اور ملک کو لوٹنے والے پریشان ہیں اور احتساب کا شکنجہ سخت سے سخت ہوتا جا رہا ہے۔ ملک کو لوٹنے والے ہر ایک ’’پانامی‘‘ کو سزا دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ سب کچھ الجھ جائے۔ دوسروں نے ملک نہیں لوٹا قانون کی خلاف ورزی کی ہوگی ان کی باری بعد میں!

’’اک واری فیر‘‘ کا ’’فیئر ٹرائل‘‘ ایسا ہوا ہے اور ہو رہا ہے کہ دنیا دیکھ رہی ہے۔ چیونٹی کی رفتار سے مقدمات چلے اور چل رہے ہیں۔ اس سے زیادہ وقت دنیا میں ایسے مقدمات کو نہیں ملا ہوگا۔ دنیا میں کسی مجرم کو یہ تمام چوائس اور مراعات نہیں ملی ہوں گی۔ مجرم کا ’’چوائس‘‘ سے کیا تعلق مگر پاکستان میں انصاف کا اعلیٰ معیار ہے مگر خاص لوگوں کے لیے یا جو خاص رہ چکے ہوں۔ زرداری اور دوسرے بھی اب یہ مطالبہ کرسکیں گے بلکہ اپنے اپنے آبائی شہروں میں جیل قائم کرنے کا مطالبہ کرسکیں گے۔ احتساب کے علاوہ سزا میں انصاف کا مطالبہ کسی طرح بھی غلط نہیں ہوگا اس میں جیل اور گھر کا کھانا شامل ہے۔

جیلیں کافی بنانا پڑیں گی کیونکہ مجرمان آیندہ یعنی “To be Punished” کی خاصی تعداد کا تعلق مختلف شہروں سے ہے لہٰذا ’’جیل انڈسٹری‘‘ کے ترقی کے کافی امکانات ہیں۔ حکومت کو احتیاطاً ہر شہر میں ’’جیل‘‘ قائم کردینی چاہیے۔

شہریوں کے لیے تو شہر جیل ہی ہیں۔ پلوشن، ٹریفک کے قوانین پر عدم عملدرآمد، رشوت ہر جگہ، ہرگام مسجد سے اذان کے دوران بھی اس میں وقفہ نہیں، ملاوٹ، چور بازاری، من مانے کرائے اور بدتمیزی ، جرائم، پانی کی کمی نالوں میں اور زیادتی سڑکوں پر، کپڑے الگ خراب ۔

پاکستان میں ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کی بنیاد رکھی، پرویز مشرف نے ناظمین کا نظام قائم کیا۔ ایوب خان کے دور میں وہ بڑے بڑے منصوبے تکمیل پائے، جن سے ملک نے ترقی کی۔ منگلا ، تربیلا، اسٹیل مل، پاور ہاؤسز، دارالخلافے کی تبدیلی اور بہت کچھ ۔ پرویز مشرف کے دور میں ملک آئی ایم ایف کے پنجوں سے آزاد ہوا۔ نہ کرواتے وہ آزاد سب مال کھا جاتے۔ ایوب خان منگلا، تربیلا نہ بنواتا تو آج کیا حال ہوتا۔

سول اور نام نہاد جمہوری حکومتوں نے ملک لوٹا، قرضے ملک کے نام پر لے کر کھائے اور عوام کو مقروض ترین قوم بنادیا، مگرگالیاں پہلے ایوب خان اور اب پرویز مشرف کو دیتے ہیں کہ یہی سیاست کا تقاضہ ہے خود کو زندہ باد اور محب وطن کو مردہ باد، عوام سے پھر بھی ڈرتے ہیں تو کھلے عام قائد اعظم اور قائد ملت کو برا نہیں کہتے مگر خود کو ان سے بڑا لیڈر سمجھتے ہیں حالانکہ ان کے قدموں کی خاک بھی نہیں ہیں مگر مسلم لیگ جو اس وقت کی ضرورت تھی قائم کرکے اپنے اپنے نام کے لاحقے لگا رکھے ہیں۔

شہر گندگی کا ڈھیر ہیں، سڑکوں پر غلاظت ہے اور دفتروں میں رشوت کی گندگی جیبوں میں بھری ہے۔ پولیس ظالم کی طرف سے مظلوم پر مقدمہ کر رہی ہے ، وکیل مجرموں کو بے گناہ ثابت کرنے پر تلے ہیں ، محکموں میں سفارشی بھرتی ہیں نااہل کام چور، قومی ایئرلائن میں میٹرک پاس پائلٹ ہیں اورکوئی نہیں پوچھ رہا تھا ۔ اب پوچھ تاچھ ہو رہی ہے تو شور مچ رہا ہے ہر طرف ہا ہو ہے، ظالم انصاف مانگ رہے ہیں۔

موجودہ حکومت کو صحت و صفائی کے اداروں پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے، ہوا کرے صوبائی حکومت کا کام نہ کرے تو پھر وفاقی حکومت پر ہی حرف آئے گا لہٰذا کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے، زائد اور نااہل فارغ کیے جائیں محکموں پر سے بوجھ ختم کیا جائے اور نظر رکھی جائے کہ وہ اپنا کام کریں ۔ میئر ہو یا ناظم یہ اس کی ذمے داری ہے کام نہ کرے تو بدل دیا جائے اور ہر ایک کو کام کا پابند کیا جائے۔

وفاق کی اسپیشل ٹاسک فورس موجودہ تمام محکموں کی نگرانی کرے چیک کرے اور بے قاعدگیوں کو روکے تب ہی صوبائی ادارے سیاست سے بالاتر ہوکر کام کریں گے ورنہ تمام منصوبے ’’نندی پور‘‘ کے ثابت ہوں گے جو اب ایک محاورہ ہے۔ نندی پور کو صرف سنگ بنیاد رکھنے اور افتتاح کرنے کو رکھا تھا سابق حکومت نے۔ خدا کے واسطے نلوں میں پانی فراہم کیجیے پورے پاکستان کو اور سڑکوں سے گندا پانی اور دوسری گندگیاں بشمول تجاوزات ختم کیجیے پورے پاکستان میں۔ اگلے سو دن کا اب یہ مشن رکھ لیجیے۔

The post قلم اور رقاصہ appeared first on ایکسپریس اردو.

وزیر اعظم اور اُن کو دی گئی مہلت

$
0
0

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا عمرانی حکومت کے خلاف اچانک شیر وشکر ہوجانا یا اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنا، کسی مکمل اور پائیدار اتحاد اور سمجھوتے کی نشاندہی نہیں کرتا۔

اُن دونوں جماعتوں کے درمیان اُصولوں اور نظریات کی ایک بہت بڑی خلیج حائل ہے۔ وہ ہمیشہ سے ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑتے آئے ہیں۔ دونوں کے انداز فکر، طرزعمل اور معاملات کو سمجھنے میں بہت بڑا فرق ہمیشہ ہی سے واضح اور نمایاں رہا ہے۔ وہ آ ج اگر عمران خان کی حکومت کے خلاف اچانک متحد ہوگئے ہیں تو ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ وقتی اور عارضی ہے۔

حکومتی حلقوں کی جانب سے اِس پر حیران اور پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیے۔ یہ بالکل اُسی طرح ہے جیسے میاں نواز شریف حکومت کے خلاف پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی پاناما کیس کے موقعے پر شدید اختلافات اورتحفظات کے باوجودمتحد ہوگئے تھے۔

جمہوریت میں جہاں ہمیں کئی اور خوبیاں دکھائی دیتی ہیں وہاں یہ ایک خوبصورتی بھی جمہوریت کا خاصہ رہی ہے کہ ایک دوسرے کے کٹر مخالف اور دشمن کب آپس میں ایک دوسرے کے لیے دوست اور مہرباں بن جائیں اور انتہائی قریبی دوست اچانک دشمن بن کر دست وگریباں ہوجائیں ہرگز حیرانی اور اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ اِس لیے حکومتی اکابرین کی جانب سے یہ کہنا کہ کرپٹ اور ملک لوٹنے والے اپنے آپ کو بچانے کے لیے ایک ہوگئے ہیں حقائق کے ساتھ کچھ زیادہ میل نہیں کھاتا۔

حکومت وقت کے خلاف ہمیشہ ہی سے ایسے اتحاد بنتے آئے ہیں۔ آج اگر پی ٹی آئی کی جگہ پیپلز پارٹی برسراقتدار ہوتی تو مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی والے بھی اپنے تمام اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کے ساتھ ایسے ہی ہم نوالا اور ہم رکاب بن ہوچکے ہوتے۔ اِس لیے یہ کہنا کہ اپوزیشن کا موجودہ اتحاد کرپشن کے الزامات سے بچنے کے لیے کوئی مک مکا ہے ہرگز درست بات نہیں ہے۔ ویسے بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ یہاں آج تک بلا تفریق و امتیاز صاف اور شفاف احتساب کبھی ہو ہی نہیں پایا ہے۔

احتساب کے نام پر جب بھی یہاںکوئی حساب کتاب کیا گیا اُس میں صرف چند ناپسندیدہ مخصوص لوگوں ہی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احتساب کے نام پر بننے والی یہ بیل کبھی منڈھے چڑھ ہی نہیں پائی ۔ ہم آج بھی یہی کچھ دیکھ رہے ہیں ۔ یہاں جو شخص پی ٹی آئی کی چھت کے تلے پناہ میں آجائے اُس کا کوئی بال بیکا بھی نہیں کرسکتا ،چاہے اُس نے ماضی میں کتنی ہی بڑی کرپشن کی ہو ۔ اپنی پسند کے چہروں کا نقشہ جمانا اور ناپسند اور غیر مطلوب لوگوں کا راستہ مسدود کرنا ہمیشہ ہی سے مقصد رہا ہے۔کرپشن کا خاتمہ کسی احتساب کا مطمح نظر نہیں رہا ہے۔ بیس پچیس سال سے ہم یہی تماشہ دیکھتے آئے ہیں ۔احتسابی عمل کی اِسی خرابی نے یہاں کبھی کسی احتساب کو کامیابی سے ہمکنار ہونے نہیں دیا۔

پاناما لیکس سے شروع کیا جانے والا احتساب آج دو سال گزرنے کے بعد بھی کرپشن کا ایک پیسہ بھی واپس نہیں لاسکا ہے۔480 ملزمان میں سے صرف ایک شخص میاں نواز شریف کو بظاہر جزا و سزا سے عمل سے گزار کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کرکے اپنی انا کی تسکین کا سامان تو ضرور پیدا کرلیا گیا لیکن اُس شخص پر ایک پیسے کی کرپشن کا کوئی الزام ابھی تک ثابت نہیں کیا جاسکا۔ ہیروں جیسے منفرد قابل اشخاص پر مشتمل جے آئی ٹی کی جانب سے کی گئی تحقیقات کے نتیجے میں مرتب کردہ دس جلدوں کے صفحات میں کیا کچھ سامنے آیا یہ ابھی تک کسی کو بتایا نہیں گیا۔

میاں صاحب کو سزا بھی سنائی گئی توکرپشن کے کسی الزام کے تحت نہیں بلکہ دبئی میں قائم کسی فرم کا اقامہ رکھنے پر ۔ یہی وجہ ہے کہ اِس کمزور فیصلے کی وجہ سے وہ ایون فیلڈ معاملے میںنیب عدالت کے ایک دوسرے فیصلے میں مکمل بے قصور قرار دیے جاچکے ہیں۔ انھیں اب عزیزیہ ملزکے کیس میں سات سال قید کی سزا تو سنادی گئی ہے لیکن لگتا ہے اُس فیصلے کا انجام بھی پہلے والے فیصلے سے کچھ مختلف نہیں ہوگا۔

احتساب کے اِس سارے گورکھ دھندے کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنا کوئی مشکل نہیں معلوم ہوتا کہ میاں صاحب کو کرپشن یا مالی بدعنوانی کی وجہ سے محروم اقتدار نہیں کیا گیا تھا بلکہ پس پردہ کوئی اور انجانی پرخاش اور ضد تھی جس کی وجہ سے انھیں سبق سکھانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ یہ پرخاش اور دشمنی اندرونِ خانہ ہونے والے کن واقعات کے سبب بڑھتی چلی گئی یہ کچھ کچھ ہم سب لوگ بھی اچھی طرح جانتے ہیں، مگر زباں بندی کے اِس دور میں ہم یہ بات اپنی زبانوں پر لا نہیں سکتے۔اداروں کا احترام اور توہین عدالت کا خوف ہمیں ایساکرنے سے روکے ہوئے ہے۔

میاں صاحب خود آج جیل کے سلاخوں کے پیچھے ہوتے ہوئے بھی کچھ کہہ نہیں پا رہے اورکئی مہینوں سے ایک پراسرار خاموشی اختیارکیے ہوئے ہیں تو ہم جیسے کمزور اور بے بس تجزیہ نگار بھلاکس کھیت کی مولی ہیں۔ ہمت اور دلیر ی تو آصف علی زرداری ہی دکھا سکتے ہیں۔ وہ بہت کچھ کہہ کر بھی ابھی تک کسی سزا سے توکجا گرفتاری سے بھی بچے ہوئے ہیں۔

انھیں اچھی طرح پتہ ہے کہ جب ایان علی اورڈاکٹر عاصم حسین کا یہ لوگ کچھ بگاڑ نہیں سکے تو بھلا حسین لوائی اور انور مجید کا کیا بگاڑ لیں گے۔ جعلی اکاؤنٹس کی ساری کہانی بھی اصل مالکوں کا سراغ نہ لگنے کے سبب از خود ختم ہوجائے گی۔ آصف علی زرداری پر پہلے بھی بہت مقدمات بنائے گئے اور انھیں دس گیارہ سال جیلوں میں بھی رکھا گیا مگر دیکھنے والوں نے اپنی گناہ گار آنکھوں سے یہ بھی دیکھا کہ اُسی آصف علی زرداری کو سیدھا جیل سے نکال کر ایوان صدر بھی لایا جاتا رہا اور وہ کرپشن کے بے شمار الزامات کے باوجود نہ صرف کابینہ کے وزیرکے حیثیت سے اپنے فرائض منصبی سر انجام دیتے رہے بلکہ استثنائی لوازمات اور تاحیات مراعات سے مزین اِس مملکت خدادادِ پاکستان کے سب سے بڑے عہدے کی نعمتوں اور فضیلتوں سے لطف اندوز بھی ہوتے رہے۔ وہ آج بھی پر اعتماد اور مطمئن ہیں۔ اُن کا انداز بیان اور طرز تکلم بتا رہا ہے کہ احتساب کے نام پر کوئی اُن کاکچھ بگاڑ نہیں سکتا، وہ سب کی کمزوریاں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔

اُن جیسا کوئی اور شاطر اور ہشیار سیاستداں ابھی تک پیدا نہیں ہوا۔ وہ بیک وقت بہت سی خوبیوں کے واحد مالک و مختار ہیں۔عمران خان ابھی سیاست میں نئے نئے وارد ہوئے ہیں۔ 22 سال سے اگر انھوں نے جدوجہد کی تو وہ ایک ناکام اور نامراد سیاستداں کے طور پر کی تھی ۔ نادیدہ قوتوں کی طرف سے جب تک کوئی غیبی امداد اور مدد حاصل نہ ہوئی وہ عوامی پذیرائی کے محض خواب ہی دیکھتے رہے اور انتخابات میںصرف ایک دو سیٹ ہی حاصل کرتے رہے۔ یہ تو 2011ء کے بعد سے کسی انجانی قوت نے اُن کاہاتھ تھاما تو وہ اِس قابل ہوئے کہ آج اِس ملک کے وزیراعظم بن پائے۔ ورنہ بہت ممکن تھا کہ 2018ء کا الیکشن اُن کاآخری الیکشن ہوتا اوراُس کے بعد وہ ناکامیوں اورگمنامیوں کے اندھیروں میں کہیں کھو جاتے اورتاریخ انھیں آج ایک ناکام سیاستداں کے نام سے یاد کر رہی ہوتی۔

پاکستان میں اقتدار ہمیشہ کسی کی مرضی و منشاء کا تابع رہا ہے۔ جب تک خان صاحب اُن قوتوں کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے رہیں گے وہ برسراقتدار رہیں گے خواہ اس کے لیے اُن کے پاس پارلیمنٹ میں عددی اکثریت محض دو چار نشستوں ہی مشتمل کیوں نہ ہو۔ انھیں جس مخصوص ایجنڈے پر عمل کرنے کے لیے وزیراعظم بنایا گیا ہے انھیں وہ بہرحال پورا کرنا ہوگا۔اِس کام کے لیے اُن کے پاس مہلت بھی بہت تھوڑی ہے ، وہ اگر اِس مدت میں یہ کام نہ کرسکے تو یہ مہلت بہت جلد ختم بھی ہوسکتی ہے۔خان صاحب جتنی جلدی اقتدار و اختیارکے یہ پیچ وخم سمجھ لیں اُن کے لیے اتنا ہی مفید اور سود مند ہوگا۔

The post وزیر اعظم اور اُن کو دی گئی مہلت appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک کتاب، کئی چہرے

$
0
0

رمضان بلوچ لیاری کے سنجیدہ اور معتبر روشن خیال دانشوروں میں شمار ہوتے ہیں، اپنی یادداشتوں پر مبنی یکے بعد دیگرے دو کتابیں ’’لیاری کی ادھوری کہانی‘‘ اور ’’لیاری کی ان کہی کہانی‘‘ قارئین کے حوالے کیں جنھیں سنجیدہ حلقوں میں بے حد سراہا گیا ۔

’’بلوچ روشن چہرے‘‘ ان کی نئی تصنیف ہے جس میں 42 نامور بلوچ شخصیات کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے، مصنف نے اس کتاب کو ان بلوچ نوجوانوں کے نام کیا ہے جو اپنی ثقافت، تہذیب اور اقدار کا پرچم تھامے علم و آگہی اور روشن خیالی کے ساتھ درخشاں مستقبل کی جانب رواں دواں ہیں۔ 360 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو مستاگ فاؤنڈیشن کراچی نے شایع کیا ہے ۔ یہ کتاب مصنف کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو ایک مقامی رسالے میں شایع ہوتے رہے ہیں۔

مصنف نے بلوچ دانشوروں، ادیبوں، شاعروں ، سیاستدانوں اور علمی شخصیات کے متعلق اپنے ذاتی تاثرات اور کچھ یاد داشتوں کو رقم کیا ہے جن کے ساتھ کچھ لمحات گزارنے کا موقع ملا یا ان شخصیات کی فہم و فراست اور تدبر نے ان کے دور کے نوجوانوں کو گھائل کر دیا تھا۔

مصنف نے اپنی یاداشت کی بنیاد پر ان شخصیات کے بارے میں مختصر تاثرات کو ہلکے پھلکے انداز میں لکھنے کی سعی کی ہے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ ’’کراچی میں واقع روسی سفارت خانے کے شعبہ اطلاعات میں 1968ء میں جب ہمیں ٹائپسٹ کی ملازمت ملی تو ہماری دوسری ملاقات واجہ عبداللہ جان جمالدینی سے ہوئی جو روسی سفارت خانے کے شعبہ اطلاعات کی جانب سے شایع ہونے والے میگزین ’’طلوع ‘‘ کے پرو ڈکشن انچارج تھے۔

بعد کے دنوں میں اس دلآویز شخصیت کی عظمت کی کئی مثالیں سامنے آئیں۔ روسی سفارتخانے کے محکمہ اطلاعات سے ملازمت ہم نے 1973ء میں چھوڑ دی۔ کچھ عرصے بعد جمالدینی بلوچستان یونیور سٹی سے منسلک ہو گئے، جہاں انھوں نے بلوچی زبان اور لسانیت کے شعبہ کی داغ بیل ڈالی بیک وقت بلوچی، اردو، انگریزی، پشتو اور براہوی زبانوں میں تخلیقات پر ہر حلقے سے داد و تحسین حاصل کی اور کئی ایوارڈز حاصل کیے اور کئی غیر ملکی سفر بھی کیے۔ بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ کے رہائشی بلاک میں جہاں ان کی رہائش تھی وہاں بھی اپنے دوستوں اکبر جلال، اکبر سیٹھ اور رحیم بخش آزاد کے ساتھ ہم نے جمالدینی کے ساتھ ملاقاتوں کی سعادت حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا، یہ روابط کراچی میں بھی جاری رہتے تھے جب وہ یہاں تشریف لاتے تھے ۔‘‘

واجہ غلام محمد نور الدین کی پیدائش 5 مارچ 1906ء میں لیاری، گل محمد لین میں ایک متوسط طبقے کے معزز بلوچ برہان زئی خاندان میں ہوئی، پرائمری تعلیم لیاری کے واحد پرائمری اسکول جوکہ بغدادی میں واقع تھا حاصل کی ، سندھ مدرسہ اسلام میں داخلہ لیا، 1928ء میں بمبئی یونیورسٹی سے میٹرک کیا، اس زمانے میں میٹرک کرنا بڑی توپ چیز سمجھی جاتی تھی، وہ کچھ سال وارڈ راشنگ آفیسر بھی رہے بعد ازاں پی ڈبلیو ڈی میں سپرینٹنڈنٹ مقرر ہوئے، کافی عرصے تک چیف منسٹر سندھ سیکریٹریٹ کے سیکریٹری اور آفیسرانچارج بھی رہے ، 1964ء میں ملازمت سے ریٹائرمنٹ لی ۔ہندوستان، ایران اور افریقا میں بھی بلوچ قومیت کے لوگ بنیادی حقوق سے محروم تھے جن کے لیے آواز اٹھانے والوں میں واجہ پیش پیش تھے، وہ بلوچی ثقافت ، تعلیم اور سماجی بھلائی کے کاموں میںپیش پیش رہے۔

1932ء میں عبدالصمد سر بازی کے ہمراہ پندرہ روزہ اخبار البلوچ جاری کیا ،1930ء کی دہائی تک لیاری کے رہائشیوں کو حق رائے دہی حاصل نہ تھا، واجہ غلام محمد نور الدین نے واجہ محراب خان عیسیٰ خان سے مل کر جدوجہد کی جس کے بعد انگریز انتظامیہ نے یہ حق تسلیم کیا ۔1930ء میں انھوں نے کراچی میں بلوچوں کی پہلی سیاسی جماعت بلوچ لیگ کی داغ بیل ڈالی جس کے وہ بانی صدر منتخب ہوئے انھوں نے بلوچ و بلوچستان کا تاریخی جائزہ کے عنوان سے کتاب لکھی جو کہ 1951ء میں شایع ہوئی ۔

مارچ 1989ء میں یہ کتاب پھر شایع ہوئی واجہ غلام محمد نور الدین کو بلوچی، انگریزی، اردو، فارسی اور عربی زبانوں میں عبور حاصل تھا، تقسیم ہند کے بعد لیاری میں بلوچ نیشنل گارڈ کی تشکیل کی،1954ء میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ یونیسکو کے فنڈز سے لیاری کمیونیٹی ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کا قیام عمل میں آیا جس کے بانی صدر واجہ غلام محمد نور الدین تھے۔

واجہ 11 سال تک کے ڈی اے کی گورننگ باڈی کے ممبر بھی رہے اور میونسپلٹی میں گروپ چیئر مین کے انتخابات متواتر جیتتے رہے،8 سال تک فشریزکوآپریٹو سوسائٹی کے ڈائریکٹر بھی رہے اور کئی سال تک ایس ایم آرٹس کالج، ایس ایم لاء کالج اور سر عبداللہ ہارون کالج کی گورننگ باڈیزکے ممبر بھی رہے، سندھ مدرسہ بورڈ کے صدر اور لائف ٹائم ممبر بھی رہے۔ انھوں نے پوری زندگی بلوچ قوم کی بہتری کے لیے جدوجہد کی یہ انمول تارہ 27 دسمبر 1987ء کو ہمیشہ کے لیے ماند پڑگیا۔

مولانا خیر محمد ندوی ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے بیک وقت ماہر تعلیم، اسلامی اسکالر، سماجی رہنما، شاعر، ادیب، دانشور اور صحافی تھے۔ 1948ء میں انھوں نے بلوچ ایجوکیشنل سوسائٹی تشکیل دی جس کے زیر اہتمام بلوچ بوائے پرائمری و سیکنڈری اسکول کا قیام عمل میں لایا گیا، پھر وہ ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے ان کی نگرانی میں ریڈیو پاکستان کراچی سے بلوچی پروگرامز کی ابتداء ہوئی۔ 1951ء میں کراچی میں پہلا بلوچی ماہنامہ اومان شایع کیا جس کی اشاعت 1962ء تک رہی ۔

1978ء میں ماہنامہ سوغات کا اجراء کیا جو ان کی وفات تک شایع ہوتا رہا ان کی شایع شدہ اور غیر طبع کتابوں میں بلوچی معلم ، کچکول، اخلاق گلدان اور فضائل اعمال ( ترجمہ ) شامل ہیں ۔مولانا خیر محمد ندوی نے اپنی پوری زندگی سادگی میں گزاری، دینی علوم کے ساتھ ساتھ انھیں دنیا وی علوم اور بلوچی زبان و ادب پر دسترس حاصل تھا وہ اپنی وفات تک علم کے جھنڈے کو بلند کرتے رہے، 25نومبر2000ء میں وہ ہم سے بچھڑ گئے۔

اسی طرح کتاب بلوچ روشن چہرے میں دیگر چیدہ چیدہ شخصیات کی زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

The post ایک کتاب، کئی چہرے appeared first on ایکسپریس اردو.

عمران خان نوجوانوں کو ساتھ لے کر چلیں!

$
0
0

اس حقیقت سے سب بہ خوبی آگاہ ہیں کہ کسی بھی قوم کی ترقی، خوش حالی، استحکام اور بقا کا انحصار نوجوانوں پر ہوتا ہے۔ اگر نوجوانوں کے بارے میں ہی حکمران بے خبر رہیں تو اس سے بڑی بے حسی کیا ہوگی۔

جس ملک کی 60فیصد سے زائد آبادی ہی نوجوانوں پر مشتمل ہو وہاں انھیں نظر انداز کیا جانا، اُن کے لیے آگے بڑھنے کے مواقعے پیدا نہ کرنا، کھیلوں کے میدان نہ بنانا (جو کھیل کے میدان موجود ہوں انھیں پلازوں، وغیر ہ میں بدل دینا) اُن کے لیے آؤٹ ڈور تفریح ختم کر دینا، اُن کے لیے نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں نہ ہونے کے برابر رہ جانایکسر زیادتی ہوگا۔ بدقسمتی  مذکورہ بالا تمام ’’خوبیاں‘‘ پاکستان میں موجود ہیں ۔ ہمیں نہ تو علم ہے کہ پاکستان میںکتنے فیصد آبادی نوجوان ہے۔

(ہمیں 60فیصد والی بات بھی اقوام متحدہ کی رپورٹوں میں ملتی ہے) یہ آبادی کیا کرتی ہے؟کتنے فیصد پڑھ رہے ہیں؟کتنے فیصد جرائم پیشہ بن چکے ہیں اور کتنے فیصد بے روزگار ہیں۔ ان نوجوانوں کی محرومی بڑھتی جا رہی ہے اور جب نوجوانوں کی محرومی ایک حد سے بڑھ جاتی ہے تو انقلاب لے آیا کرتی ہے۔

سبز پاسپورٹ کی بے توقیری نے ان نوجوانوں کو احساس کمتری کا شکار کر دیاہے۔ تعلیمی اداروں کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ جیسا مرضی نصاب ترتیب دیں اور جو مرضی کریں۔ ان تمام کے پیش نظر موجودہ حکومت نے نیشنل یوتھ ڈویلپمنٹ انڈیکس پروگرام فوری طورپر شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس منصوبے کا نام ’’کامیاب نوجوان‘‘ رکھا گیا ہے۔ یہ منصوبہ اقوام متحدہ اور حکومت پاکستان کا مشترکہ پروگرام ہوگا۔

اس پروگرام کے تحت ملک بھر کے نوجوانوں سے متعلق ڈیٹا بیس اکٹھا کیا جائے گا۔ اس ضمن میں ملک بھر میں اضلاع اور تحصیل کی سطح پر سروے کیا جائے گا۔ تعلیم،صحت اور روزگار کے حوالے سے نوجوانوں کی ترجیحات کا تعین کیا جائے گا اور حکومت پتہ لگائے گی،کس صوبے میں نوجوانوں کو کون سے مسائل ہیں ،حکومت سروے کے دوران ہر نوجوان کی ذاتی رائے بھی لے گی۔یقینا حکومت کا یہ ایک احسن اقدام ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتااور یہ بات بھی سچ ہے کہ نوجوان ملک و ملت کا مستقبل ہوتے ہیں۔قوم کے معمار ہوتے ہیں۔کسی بھی قوم میں نوجوان قوم کا قیمتی سرمایہ تصور کیے جاتے ہیں۔

دنیا بھر میں نوجوان قوم کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیے جاتے ہیں۔اگر ریڑھ کی ہڈی ہی ناتواںہو تو پورا جسم کمزور پڑ جاتا ہے۔دنیا میں وہی قومیں ترقی کر رہی ہیں، جن کے نوجوان درست سمت پر چل رہے ہیں۔پاکستانی نوجوانوں میں قابلیت اور ذہانت کی کمی نہیں،اسی لیے بہت سے نوجوان بین الاقوامی سطحوں پر ملک کا نام روشن کرتے ہیں۔ہمارے نوجوانوںمیں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں،جو نوجوانوں کا خاصہ تصور کی جاتی ہیں۔ان میں ہمت ہے، جذبہ ہے ،یہ قابل ہیں، ذہین ہیں بہادر ہیں، اور محنتی بھی ہیں۔

لیکن المیہ یہ ہے کہ گزشتہ 35سالوں میں ہر سیاسی جماعت نے ان نوجوانوں کو اپنے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا ہے، جماعت اسلامی سے لے کر میاں برادران تک نے جس طرح نوجوان نسل کو لبھانے، پچکارنے، للچانے، گھیرنے، ہانکنے، پٹانے، خریدنے اور اسے ایکسپلائٹ کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے ہیں، اُس کی مثال نہیں ملتی،لیکن نہ تو مسلم لیگ ن کامیاب رہی اور نہ پی پی پی۔ ان کے ادوار میں طلباء تنظیمیں بھی بحال نہ ہوسکیں۔ لیپ ٹاپ اور وظیفے لٹائے جاتے رہے، میلے سجائے جاتے رہے، اسکیمیں اناؤنس کرتے رہے، مکھن مسکہ لگاتے رہے تو مجھے ان پر ترس بھی آتا ہے اور ہنسی بھی کیونکہ یہ دراصل اپنا وقت، انرجی اور پنجاب کے وسائل ہی ضایع اور برباد کرتے رہے۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ چند سال پہلے نام نہاد یوتھ انٹرن شپ پروگرام اور لیپ ٹاپ بانٹ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نوازشریف نے یوں تو بہت کچھ کہا لیکن مندرجہ ذیل ہائی لائٹس کا جواب نہیں۔ فرماتے ہیں ’’نوجوانوں نے ساتھ دیا تو پاکستان کی تقدیر بدلیں گے‘‘۔’’آیندہ حکومت پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا بستر ہوگی‘‘۔’’پہلا ہدف جنوبی ایشیا، دوسرا ہدف ایشیا اور تیسرا ہدف دُنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں پاکستان کو پہلے نمبر پر لانا ہے‘‘۔گپ بازی اور رنگ بازی کی بھی کوئی نہ کوئی حد تو ہونی چاہیے۔ افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے کہ ہم پیچھے ، مزید پیچھے اور سب سے پیچھے دھکیل دیے گئے۔

خیر علامہ اقبا ل  ؒ نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ

نہ ہو نومید‘ نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے

امید مردِ مومن ہے‘ خدا کے راز دانوں میں

نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر

تو شاہین ہے! بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

حد تو یہ ہے کہ ہم نے اپنی فلم انڈسٹری کو تباہ کر کے ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کو تقویت بخشی جس سے ہماری نوجوان نسل میں مزید بگاڑ پیدا ہوا۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگاکہ ہمارے ڈرامے کیا پیغام دے رہے ہیں ، ہر ڈرامہ نفرت کا پرچار کر رہا ہے۔ پنجاب میں ایسا لگتا ہے کہ ہر شخص دوسرے سے نفرت کرتا اور اسے مارنے پر تلا ہوا ہے۔ خیر حکومت کے اس احسن اقدام کو جس قدر سراہا جائے وہ کم ہو گا کیوں کہ آج ہمارے ہاں نوجوانوں کو سب سے بڑ ا جو درپیش مسئلہ ہے، وہ بے روزگاری ہے۔تعلیم و ہنر کا فقدان، بے روزگاری ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

لاکھوں روپے کے خرچ اور محنت سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی نوجوان ادھر ہی کھڑا رہتا ہے، جہاں وہ ڈگری حاصل کرنے سے پہلے تھا۔ نوجوانوں کی ضروریات اور بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی ہماری ریاستی ناکامیوں کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔حکومت اگرنوجوانوں کے لیے کوئی پالیسی بنا تی ہے ،تو اس کی شرائط ہی اتنی کٹھن ہو تی ہیں کہ نوجوان اس سے مستفید نہیں ہو سکتے۔ بلکہ سیاستدانوں کے لاڈلے اس سے پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔یہ سابق حکومتوں کا ہی سب سے بلنڈر ہے کہ آج کے نوجوان یہ سوچ رہے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل کیا ہے؟ یا میرا پاکستان میں مستقبل کیا ہے؟

یہ دو انتہائی اہم ترین سوال ہیں جو اکثر لوگوں کے ذہنوں میں مستقل گردش کرتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے اندر پھیلی ہوئی لاقانونیت، کرپشن اور اقرباء پروری کے باعث ذہن میں اِس طرح کے سوالات کا اُٹھنا کچھ غلط بھی نہیں ہے، اور کبھی نا کبھی انسان یہ بات سوچنے پر ضرور مجبور ہوجاتا ہے کہ اُس کو اپنے مستقبل کے سہانے خواب کسی اور ملک میں ہی سجانے چائیے۔

حکومت کے لیے حقیقت پسندی یہ ہو گی کہ ٹارگٹ ایسا ہو جو Achieve بھی ہو سکے۔ سابق حکمرانوں کی طرح قوم کو ٹرک کی بتی پیچھے لگانے کی کوشش نہ کریں کہ یہ نئی اور جدید نوجوان نسل ایسی باتوں میں نہیں آئے گی۔ یہ شیخ چلی کی Dream Selling نہیں چلے گی ۔ نوجوانوں کی ڈیمانڈ ہے کہ حکومت انھیں تفریح کے مواقعے فراہم کرے، انھیں گراؤنڈز مہیا کیے جائیں، بدقسمتی ہے کہ ہم گراؤنڈز اور سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے کھیلوں کے حوالے سے دنیا بھر میں167ویں نمبر پر آتے ہیں اور جن کھیلوں میں ہم آگے تھے۔

اُن میں بھی ہم برائے نام رہ گئے ہیں، قومی کھیل میں ٹیلنٹ نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے، کرکٹ کے حوالے سے بھی ہم پیچھے دھکیلے جا رہے ہیں۔ آج پاکستان جس طرح، جس رفتار سے روبہ زوال ہے تو کوئی اسے ریورس میں جانے سے روک کر ہماری گاڑی نیوٹرل میں ڈال کر زوال کو بریک ہی لگا دے تو میں اسے محسن سمجھوں گا اور یہ محض موجودہ حکومت ہی کر سکتی ہے۔ کیوں کہ وہ ایسے خواب نہ دکھانے پر یقین رکھتی ہے جو آنکھیں ہی جلا کر راکھ کردیں۔ لہٰذامیری ذاتی رائے میں پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں کے لوگ پیدا کیے ہیں۔

ہمارے نوجوان ہر قسم کی صلاحیتوں کے مالک ہیں لہٰذاعمران خان کو چاہیے کہ وہ ان نوجوانوں کو ساتھ لے کر چلیں۔ وزیر اعظم نوجوان کے ذریعے انقلاب لے کر آ ئیں اور ملک کی تقدیر بدل دیں، یہی وقت کا تقاضا ہے۔

The post عمران خان نوجوانوں کو ساتھ لے کر چلیں! appeared first on ایکسپریس اردو.

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کا اتحاد

$
0
0

مولانا فضل الرحمن، مخدوم محمود اور میر حاصل بزنجو کی کوششیں رنگ لے آئیں۔ آصف علی زرداری اور میاں شہباز شریف کی ملاقات ہوگئی۔ میثاق جمہوریت پر حزب اختلاف کو متحد کرنے اور پہلے سینیٹ کا کنٹرول ہاتھ میں لینے کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مشترکہ حکمت عملی اپنانے پر متفق ہوتے ہوئے وفاقی حکومت کی مخالف جماعتیں ایک دفعہ پھر متحد ہوگئیں، اگرچہ مخالف جماعتوں کے مشترکہ محاذ بنانے کی حکمت عملی پرانی ہے۔

جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے علاوہ جمہوری حکومتوں کے خلاف بھی اتحاد بننے کی اپنی تاریخ ہے مگر ہر اتحاد کے مختلف نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ جنرل ایوب خان کے خلاف اس وقت کی حزب اختلاف کی جماعتیں متحد ہوئیں جب نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ مولانا بھاشانی کی کوششوں سے ملک کے بانی محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح صدارتی انتخاب میں ایوب خان کے مقابلے میں کھڑی ہوئیں۔ اس اتحادکی خاص بات یہ تھی کہ ولی خان جو مسلم لیگ کے سخت مخالف تھے فاطمہ جناح کی حمایت پر تیار ہوئے۔

جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی نے ایک خاتون کی ملک کی صدارت کی تجویز کی توثیق کی مگر اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی کوششوں سے مولانا بھاشانی آخری وقت فاطمہ کی حمایت سے دستبردار ہوئے۔ متحدہ حزب اختلاف صدارتی انتخاب کے چار سال بعد 1968ء میں ایوب خان کو ایک سیاسی تحریک کے ذریعے اقتدار سے ہٹانے میں کامیاب ہوئی۔ جنرل یحییٰ خان کے خلاف سیاسی جماعتیں متحد نہیں ہوئیں۔ پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نو سیاسی جماعتوں نے پاکستان قومی اتحاد قائم کیا، یوں ایک  تحریک چلی مگر جب ذوالفقار علی بھٹو اور پی این اے کے رہنماؤں میں اتفاق ہوا تو جنرل ضیاء الحق اقتدار پر قابض ہوئے، پھر ایم آر ڈی قائم ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی مخالف جماعتیں بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد میں شریک ہوئیں۔

1983ء میں بحالی جمہوریت کی تاریخی تحریک چلی۔ جنرل ضیاء الحق کو اس تحریک کے دباؤ میں 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کرانے پڑے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی قائم ہونے والی حکومتوں کے خلاف بھی مخالف سیاسی جماعتوں کے اتحاد قائم ہوئے مگر پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان  لندن میں ہونے والا میثاق جمہوریت مستقبل کے سیاسی منظر عام کے لیے اہم ثابت ہوا مگر بعد میں بینظیر بھٹو نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ این آر او کر کے اپنی سیاست پر ایک سیاہ داغ لگا دیا۔

میثاق جمہوریت پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم ترین معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کی بناء پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے اور منتخب حکومت کو پانچ سال کی اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا حق دیا، یوں تاریخ میں پہلی دفعہ 2013ء کے انتخابات کے نتائج کو سب نے تسلیم کیا اور ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو پر امن طور پر اقتدار منتقل ہوا۔ اس میثاق کی بناء پر صوبوں کو خود مختاری ملی۔ پاکستان حقیقی طور پر وفاقیت کی منزل کی طرف گامزن ہوا اور آزاد الیکشن کمیشن اور عبوری حکومتوں کے قیام کا تصور عملی شکل اختیار کر گیا مگر اس میثاق میں اچھی طرز حکومت اور شفاف نظام کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی تیسری حکومت نے بد ترین طرز حکومت قائم کی۔

شفافیت کے معیار کو پس پشت ڈال دیا گیا، یوں یہ تاثر عام ہوا کہ یہ حکومت قوانین کو بے اثرکرنے اور دولت جمع کرنے کے لیے آئی ہے۔ اگرچہ میثاق جمہوریت میں عوام کے جاننے کے حق کو تسلیم کیاگیا تھا اور آئین میں آرٹیکل 19-A شامل کیا گیا تھا مگر پیپلز پارٹی کی حکومت اس پر عملدرآمد کو بھول گئی۔ میاں نواز شریف نے مقتدرہ کی آشیرباد حاصل کرنے کے لیے غیر منتخب اداروں سے رجوع کرنا شرع کیا، جب جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کیا گیا تو پارلیمنٹ کے ذریعے اداروں کے حدود کے تعین کے لیے قانون سازی پر توجہ نہ دی گئی۔

پیپلزپارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے اس کے اجلاسوں میں شرکت کو یقینی بنا کر ایک بہترین روایت قائم کی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے مقتدرہ کی مداخلت کو روکنے کے لیے کچھ نہیں سوچا۔ مسلم لیگ کے قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان کی تقاریر سے محسوس ہوتا تھا کہ وہ میاں نواز شریف سے زیادہ کسی اور ادارے کے مفادات کو اہمیت دیتے ہیں۔ میاں نواز شریف برسر اقتدار آئے تو وہ پارلیمنٹ کو بھول گئے۔

یہی روایت میاں شہباز شریف نے بھی صوبہ پنجاب میں اپنائی۔ میاں نواز شریف حکومت کا سارا زور لاہور کی ترقی پر رہا۔ ملک کے باقی حصوں پر توجہ نہ دی گئی۔ میاں نواز شریف نے بھار ت اور افغانستان سے پر امن تعلقات کے لیے بہادرانہ اقدامات کیے مگر فلاحی ریاست کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا، یوں نادیدہ قوتوں کو ان پالیسیوں کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے کا موقع ملا۔ میاں نواز شریف پارلیمنٹ کی بالادستی کو محسوس نہیں کرتے تھے۔ اس بناء پر وہ پاناما لیکس کے معاملے کو سپریم کورٹ لے گئے۔

جب سندھ پر نیب، ایف آئی اے وغیرہ کی یلغار ہوئی تو میاں نواز شریف، چوہدری نثار علی خان کی ڈاکٹرائن کے اسیر تھے۔ آصف زرداری جانتے تھے کہ یہ سب کچھ وزیر اعظم نواز شریف کی ایماء پر نہیں ہے مگر پھر بھی انھوں نے میاں صاحب کے خلاف محاذ بنا کر اپنے اثاثہ جات بچانے کی کوشش کی۔ وہ نادیدہ قوتوں کے سحر میں اس حد تک مبتلا ہوئے کہ پاناما لیکس کے معاملے پر تحریک انصاف سے بھی دو قدم آگے نکل گئے۔ انھیں یہ باور کرایا گیا کہ اگلی حکومت میں پیپلز پارٹی حصے دار ہوگی مگر 2018ء کے انتخابات نے سب کچھ بدل دیا۔ زرداری اس امید میں رہے کہ نشانہ صرف شریف خاندان ہے۔ انھوں نے بلوچستان کی حکومت کی تبدیلی میں نادیدہ قوتوں کا ساتھ دیا، سینیٹ کی چیئرمین شپ تک گنوا دی۔

تحریک انصاف نے کرپشن کو اپنا موضوع بنایا۔ عمران خان نے دس برس تک کرپشن کے مسئلے کو رائے عامہ ہموارکرنے کے لیے ہتھیارکے طور پر استعمال کیا۔ وہ خیبر پختون خوا، پنجاب اورکراچی میں رائے عامہ ہموار کرنے میں کامیاب ہوئے مگر حزب اختلاف کی خوش قسمتی یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ان کے وزراء کرپشن کا نعرہ لگا کر لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پھر وفاقی کابینہ میں وزراء میں اتفاق رائے نہیں ہے۔ سندھ میں فارورڈ بلاک بنانے اور اٹھارہویں ترمیم کو ختم کرنے کے پارلیمنٹ کے فیصلوں کو غیر منتخب اداروں میں چیلنج کرنے سے ایک مایوسی کی صورتحال ہے۔ پانچ ماہ کے تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دراصل بیوروکریسی ملک کو چلا رہی ہے۔

تجاوزات کے خاتمے کے نام پر لاکھوں خاندان روزگار سے محروم ہیں ۔ مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح بڑھنے سے عوام مایوس ہیں۔ وزیر اطلاعات کہتے ہیں کہ پرنٹ میڈیا کا کوئی مستقبل نہیں۔ انگریز دور کے قوانین کو دوبارہ نافذ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، سول سوسائٹی کو مفلوج کردیا گیا ہے۔ اختر مینگل نے جن 6 نکات کی بنیاد پر عمران خان کی حکومت کی حمایت کی تھی، ان نکات میں ایک اہم نکتہ لاپتہ افراد کی بازیابی کا تھا مگر وفاقی حکومت نے اس نکتے پر اختر مینگل کو مایوس کیا ہے۔

اس وقت فوجی عدالتوں کی توسیع کا معاملہ اہم ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ میاں شہباز شریف اور آصف زرداری اس توسیع کی حمایت کریں گے، یوں وہ اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کی کوشش کریں گے۔ شاید اسی طرح انھیں کوئی ریلیف مل سکے گا۔ حکومت کی ناقص کارکردگی کی بنا پر حزب اختلاف کے لیے خاصی گنجائش نظر آتی ہے اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ حزب اختلاف نادیدہ قوتوںکے ایجنڈے کو سنبھال لے، یہ ایک خطرناک صورتحال ہوگی۔

موجودہ حکومت کو پانچ سال حکومت کرنے کا موقع ملنا چاہیے، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہیں مگر مشکل صورتحال ان جماعتوں کو قریب لارہی ہے۔ ایک جماعت نے بھی الگ سے کوئی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی تو اتحادکمزور ہوجائے گا اور ماضی کی طرح اس کا فائدہ مقتدرہ کو ہوگا۔ دونوں جماعتوں کی قیادت کو ماضی کے تجربات سے سبق حاصل کرنا چاہیے تاکہ عوام اس اتحاد کی پشت پناہی کریں۔ ڈیپ اسٹیٹ کا فلسفہ جمہوری نظام کو مفلوج کر رہا ہے۔  عوام کے لیے جدوجہد کرکے حقیقی جمہوری ریاست قائم ہوسکتی ہے مگر تبدیلی صرف انتخابات کے ذریعے ہونی چاہیے۔

The post پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کا اتحاد appeared first on ایکسپریس اردو.


خون ِخاک نشیناں

$
0
0

دو روز سے کچھ سمجھ نہیں آرہا، نہ تو اخبار پڑھنے کو دل کر رہا ہے اور نہ ہی ٹیلی ویژن دیکھنے کو طبیعت مائل ہو رہی ہے، ذہن ماؤف ہے جب بھی میری دونوں پوتیاں ہنستی مسکراتی میرے پاس سے گزرتی ہیں یا مجھ سے اپنے معصومانہ سوال اور خواہشات بیان کرتی ہیں تو میری آنکھوں کے سامنے ان دونوں بچیوں کی تصاویر آجاتی ہیں جو ابھی کل پرسوں کے اخبار میں شایع ہوئی ہیں اور وہ دونوں معصوم بچیاں شادی کی خوشی میں خوبصورت گرم اور نرم کپڑے پہنے بیٹھی ہیں اور اس بات سے بے خبر ہیں کہ ان کی دنیا لوٹ لی گئی ہے، جن نرم اور شفیق ہاتھوں نے وہ کپڑے ان کو پہنائے تھے۔

ان کو سجایا سنوارا تھا، ان کی پونیاں بنائیں تھیں اور تیاری کے بعد پیار بھری نظروں سے ان کو دیکھا تھا وہ شفیق ہاتھ اور پیار کی وہ آنکھیں ان سے کہیں بہت دور چلی گئی ہیں اور ان شفیق ہاتھوں کا لمس وہ اب زندگی بھر محسوس نہیں کر سکیں گی۔ انھی شفیق ہاتھوں نے ان پھول سی معصوم بچیوں کو کتنے پیار اور چاؤ سے شادی میں شرکت کے لیے تیار کیا ہو گا اور ہنسی خوشی ایک دوسرے کی گود میں شرارتیں کرتے ان کا سفر جاری تھا جو شادی کے ان مسافروں کا آخری سفر شمار ہوا۔

ماں کی محبت اور چاہت اور مامتا کے انمول جذبے نے جس طرح ان معصوم بچیوں کی پیدائش سے پہلے اپنے پیٹ میں حفاظت کی ان کی خاطر اپنا آرام تیاگ دیا، ان کی پیدائش کے بعد ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں پر اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا۔

ان کے مستقبل کے لیے اپنے دل میں کیسے کیسے خواب سجائے مگر جب وقت آیا تو وہ سب خواب اور خواہشات چند لمحوں میں ان وحشی درندوں نے چکنا چور کر دیے جو ہمارے ہی ٹکڑوں پر پل رہے ہیں، عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے ان کو تنخواہیں ادا کی جا رہی ہیں تا کہ وہ عوام کے مال و جان کا تحفظ کریں لیکن جب محافظ ہی درندگی پر اتر آئیں تو عوام کیا کریں تو وہ صرف یہی فریاد کر سکتے ہیں کہ پیسے لے لو ہمیں مت مارو کیونکہ ان درندوں کو عوام جانتے ہیں کہ ان کا اوڑھنا بچھوڑنا سب پیسہ ہے، اس لیے اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے مجبور باپ نے ان درندوں سے آخری اپیل یہی کی کہ جو چاہے لے لو لیکن ہمیں مت مارو مگر اس مجبور اور بے بس باپ کی بات پر ان درندوں نے کان تک نہ دھرے اور اندھا دھند گولیاں برسا دیں جو ان بے گناہ پاکستانیوں کے جسموں کے آر پار ہو گئیں۔

ایک بچی کو سب سے زیادہ گولیاں لگیں کیونکہ وہ بچی بڑی تھی اور ماں کی نرم اور گرم آغوش اس کو اپنے اندر سمیٹے سے قاصر تھی لیکن دو چھوٹی معصوم بچیاں اور بیٹے کو ماں نے اپنی آغوش میں چھپا لیا اور خود گولیاں کھا کر اپنی جان اپنے بچوں پر نچھاور کر گئی۔ مامتا نے سردیوں کے ٹھنڈے موسم میں اپنی پھول سی بچیوں کو ان درندوں سے بچانے کے لیے اپنی گرم آغوش میں چھپا لیا۔ ماں جیت گئی درندے ہار گئے لیکن ان درندوں کو بچانے کے لیے فوراً مزید درندے میدان میں کود پڑے ہیں اور اب مختلف تاویلیں کی جا رہی ہیں، حکومت ان درندوں کو بچانے کے لیے ڈرائیور کو دہشت گرد قرار دے رہی ہے، اگر صرف ڈرائیور ہی دہشت گرد تھا تو اس کے ساتھ باقی خاندان کا کیا قصور تھا۔ حکومت متاثرہ خاندان کے لیے کروڑوں کی امداد کا اعلان کر رہی ہے کیا یہ کروڑ وں روپے ماں باپ کا نعم البدل ہو سکتے ہیں۔

کیا ان بچیوں کے دل و دماغ سے وہ منظر ختم کیا جا سکتا ہے جب ان کے سامنے ان کے بابا، ماں اور بڑی بہن کو گولیوں سے بھون دیا گیا کیا یہ منظر وہ زندگی بھر بھلا پائیں گے۔ ایسے ہی کئی سوال ہیں جو سامنے کے ہیں لیکن ان کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں۔

ہمارے وزیر اعظم اس واقعے پر صدمے میں ہیں اور افسردہ ہیں وہ اس ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں ان کی ذمے داری شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا بھی ہے ان کے مال و جان کی حفاظت بھی ہے لیکن جناب وزیر اعظم صرف صدمے سے کام نہیں چلے گا اس طرح کے صدموں سے بچنے کے لیے آپ کو عملی اقدامات کرنا ہوں گے آپ جس تحریک کے بانی ہیں اس کا نام ہی انصاف ہے اور پاکستان کے عوام نے آپ کو ووٹ آپ کی ملک کے لیے مخلصانہ شخصیت کو مدنظر رکھ کر دیے ہیں سیاست کا بازار تو چلتا ہی رہتا ہے اس میں آپ کے ساتھی بہت ہیں لیکن عوام ایسے ساتھی ہیں جنہوں نے آپ کو اس منصب تک پہنچایا ہے اور یہ ساتھی اب آپ سے اپنے ووٹوں کا حساب مانگتے ہیں۔ یہ دردناک واقعہ ہمارے وزیر اعظم اور ان کی حکومت کے لیے ایک ٹیسٹ کیس بھی ہے۔

اس سے پہلے گزشتہ حکومت میں ماڈل ٹاؤن میں جس بربریت کا مظاہرہ کیا گیا تھا اگر اس واقعے کے ملزموں کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا تو آج وقوع پذیر ہونے والے اس طرح کے کئی واقعات سے بچا جا سکتا تھا لیکن ہر اہم موقع پر مصلحتیں آڑے آ جاتی ہیں اور بڑے لوگ کٹہروں میں کھڑے ہونے سے بچ جاتے ہیں جس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ہمارے گاؤں میں جب کبھی فضاء دھندلی ہوتی تھی یعنی گرد آلود ہوتی اور یہ گردو غبار کچھ وقت کے لیے فضاء میں موجود رہتا تو ہمارے بزرگ مرد اور خواتین یہ کہتے کہ اللہ خیر کرے کہیں نہ کہیں کوئی بے گناہ قتل ہو گیا ہے جس کی وجہ سے آسمان بھی گرد آلود ہو گیا ہے۔

آج میں یہ دیکھتا ہوں کہ بے گناہوں کی ایک طویل فہرست جو قتل ہو رہے ہیں اور ان بے گناہوں کا قتل گرد آلود فضاء کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے لیکن ہم ان بے گناہ قتلوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کر رہے اور ابھی یہ بھی معلوم نہیں کہ اور کتنے بے گناہ قتل ہونے جا رہے ہیں اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کریں تا کہ پاکستان کی گرد آلود فضاؤں کا خاتمہ ہو۔

یہ خون ِ خاک نشیناں تھا رزق ِخاک ہوا۔

The post خون ِخاک نشیناں appeared first on ایکسپریس اردو.

لہو پکارے گا آستیں کا

$
0
0

دہائیوں پرانی بات ہے جب اگاتھا کرسٹی کے ناول اور اس کی مختصر کہانیاں پڑھنا لازم تھا۔ اس کے چند ناولوں کی تلخیص کی، کہانیوں کا ترجمہ کیا۔ اسی کی تحریریں پڑھ کر یہ جانا کہ قابیل سے اب تک کسی بھی قاتل کا جرم نہیں چھپتا اور ایک نہ ایک دن فاش ہو کر رہتا ہے۔

یہ بات بھی جانی کہ قاتل کو عدالت سے سزا دلانے کے لیے مقتول کی لاش اور آلۂ قتل کا برآمد ہونا بنیادی بات ہوتی ہے۔ امریکا کی شہریت اختیارکرنے والے صحافی خویشگی کے قاتلوں کو بھی یہ نکتہ معلوم تھا اور اسی لیے انھوں نے اس کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کمال منصوبہ بندی کی۔ ان کا خیال تھا کہ جب ترک پولیس جمال کی لاش کا کھوج نہیں لگا سکے گی اور نہ آلۂ قتل برآمد ہوگا تو آخرکار معاملہ داخلِ دفتر ہو جائے گا اورکچھ دنوں بعد لوگ اسے بھول جائیں گے۔

شاہی نظام میں سانس لینے والے اس قتل کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھ رہے تھے انھیں آزاد دنیا کے معاملات کا درست اندازہ نہیں تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آج کی دنیا میں صحافی اور وہ بھی امریکی اخبار سے وابستہ ایک نامی گرامی صحافی کی جان کس قدر اہم ہے، انھوں نے اس بارے میں نہیں سوچا تھا، یہ بات بھی ان کے حاشیۂ خیال میں نہیں آئی تھی کہ ترک صدر رجب اردوان اس دہشتناک جرم کو کس طرح اپنا قد وقامت بڑھانے کے لیے استعمال کریں گے، حالانکہ خود ان کے ملک میں جہاں صحافیوں اور حقوقِ انسانی کی بات کرنے والوں پر عرصۂ حیات تنگ ہے، وہاں سے جمال خویشگی کی گمشدگی اور پھر قتل پر جس قدر شوروغوغا ہوا اس نے ساری دنیا میں تہلکہ مچادیا۔

بہت مشہور محاورہ ہے کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔ یہ محاورہ جمال کے قتل پر حرف بہ حرف صادق آیا اور جس قونصل خانے میں اس کا قتل ہوا تھا، وہاں کی دیواروں نے سب راز اُگل دیے۔ یہ راز 3 ترک صحافیوں عبدالرحمن سمسک، نازف کرمان اور فرحت انلو نے چند دنوں پہلے شایع ہونے والی مشترک کتاب میں بیان کردیے ہیں۔ یہ بات شروع سے کہی جا رہی تھی کہ اسے قتل کرنے والوں کا گروہ 15 لوگوں پر مشتمل تھا اور جن کے فرائض میں داخل تھا کہ وہ گستاخ زبانوں کو سلیقے سے خاموش کر دیا کریں۔

استنبول میں بھی ان لوگو ں نے اپنی ہنرمندی دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن ترک محکمۂ خفیہ نے عمارت کی دیواروں میں اور باہر کے علاقے میں سننے والے آلات لگا رکھے تھے۔ ان آلات نے یہ راز آشکار کیا کہ اس گستاخ کے بارے میں یہ فیصلہ پہلے سے کر لیا گیا تھا کہ جب وہ اپنے پاسپورٹ پر مہر لگوانے کے لیے قونصل خانے کی عمارت میں داخل ہو گا تو اس سے کہا جائے گا کہ ہم تمہیں اپنے ساتھ لے جانے کے لیے آئے ہیں۔ تمہیں ہمارے ساتھ چلنا ہو گا اور اگر وہ جانے سے انکار کرے تو اسے قتل کر دیا جائے گا اور پھر لاش فوری طور پر ٹھکانے لگا دی جائے گی۔

ریکارڈنگ کے مطابق خویشگی جیسے ہی قونصلیٹ کی اندرونی عمارت میں داخل ہوا، دو لوگوں نے اسے بازوؤں سے پکڑ لیا جس پر خویشگی نے تیز آواز میں کہا ’’یہ تم لوگ کیا کر رہے ہو، میرے بازو چھوڑو‘‘ اس کے احتجاج پر اس سے کہا گیا کہ ’’تم ہمارے ساتھ چلو ۔ ہم تمہیں لینے کے لیے آئے ہیں ۔‘‘ اس نے جب ان لوگوں کے ساتھ جانے سے انکارکیا تو اس سے کہا گیا کہ وہ اپنے بیٹے کے نام ایک پیغام لکھ دے۔ پیغام میں اسے لکھنا تھا کہ ’’بیٹے ! میں استنبول میں ہوں اور اگر چند دنوں تک میں تم سے رابطہ نہ کر سکوں تو پریشان نہ ہونا۔‘‘

مقتول نے جب یہ پیغام لکھنے سے انکار کیا تو قاتلوں اور اس کے درمیان ہاتھا پائی شروع ہو گئی۔ چند ہی لمحوں میں انھوں نے اُسے زیر کرلیا۔ اس کے چہرے پر پلاسٹک بیگ چڑھا دیا گیا جس سے اس کا دم گھٹ رہا تھا، اس نے ہاتھ پیر مارنے کی کوشش کی لیکن اس کی ایک نہ چلی، اس کی آواز سنائی دیتی ہے۔ بعد میں وہ یہ کہہ رہا ہے کہ ’’میرا دم گھٹ رہا ہے۔ مجھے چھوڑو۔ میں دمے کا مریض ہوں۔ تم مجھے مار دو گے۔ ‘‘

ٹیپ پر بدن کے تڑپنے کی آوازیں بھی ریکارڈ ہوئی ہیں۔ اس کے بغدے سے بدن کے جوڑ توڑے جا رہے ہیں۔ پوسٹ مارٹم میں استعمال ہونے والی برقی آری کی آواز بھی آ رہی ہے۔ ریکارڈنگ میں اس کا تڑپنا اور پس منظر میں قصائیوں کے اوزاروں کی اٹھا رکھ کی آوازیں آ رہی ہیں۔

ایک شخص جس نے شاید ایسے کسی منظر کو پہلے نہیں دیکھا تھا، اس کی طبیعت خراب ہونے لگتی ہے تو دوسرا اسے تیز آواز میں ڈانٹتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اب تک کسی گرم لاش کے ٹکڑے نہیں کیے ہیں، لیکن اس مرتبہ یہ بھی کر لوں گا۔ پھر فرش پر پلاسٹک کے بچھائے جانے کی اور اس پر کسی بدن کے گرانے کی آواز آتی ہے۔ وہ شخص جو بدن کے ٹکڑے کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’ میں عام طور پر یہ کام کرتے ہوئے اپنے کانوں پر ہیڈ فون چڑھا لیتا ہوں اور موسیقی سنتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی کافی اور سگریٹ پیتا رہتا ہوں۔‘‘ اس دوران برقی آری کی آواز آتی رہتی ہے۔ لاش کے ٹکڑے کرتے ہوئے وہ شخص اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے کہ وہ ان پارچوں کو اچھی طرح پلاسٹک میں لپیٹ لیں تا کہ کسی طرح کی بدبو نہ آئے۔ اس کے بعد یہ ٹکڑے قریب کی ایک عمارت کے کنویں میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ اس کی لاش کے ٹکڑے تیزاب میں گلادیے گئے تاکہ تحقیق و تفتیش کے دوران کسی بھی طور لاش کا سراغ نہ مل سکے۔

اس ہولناک تفصیل کو پڑھتے ہوئے اگاتھاکرسٹی کا ایک ناول یاد آیا جس میں قاتل نے فریزر سے نکلی ہوئی ایک یخ بستہ بوتل کو سر پر مارکر ہلاک کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ کچھ ہی دیر میں برف پگھل گئی تھی اور آلۂ قتل معدوم ہو گیا تھا۔ اس کے قتل میں آلۂ قتل ایک پلاسٹک بیگ تھا اور بدن کے ٹکڑے تیزاب میں تحلیل کر دیے گئے یا کسی کنویں کی تہ میں گل سڑ گئے۔

کتاب لکھنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ قتل اتنی پھرتی اور صفائی سے کیا گیا کہ یہ اس سارے کام کے ختم ہونے تک صرف دس منٹ لگے۔

یہ کتاب چھپ کر آئی تو راتوں رات فروخت ہو گئی۔ آنے والے دنوں میں بھی مقتول اپنے قاتلوں کا تعاقب کرے گا۔ ہو سکتا ہے کہ آلۂ قتل اور لاش کے نہ ملنے کے سبب بعض عدالتی کارروائیاں نہ ہو سکیں لیکن یہ ضرور ہے کہ اس قتل نے دنیا میں لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ وہ ملک جہاں محکمۂ خفیہ بے لگام ہے، وہاں متعلقہ حکام کو بہت سوچ سمجھ کر ایسے معاملات کو نمٹانے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔ وہ اپنے حکمرانوں کے حکم پر سب کچھ کر گزرتے ہیں لیکن اب انھیں یہ ضرور سوچنا ہو گا کہ ایسے کسی بھی حکم کو بجا لانے کے بعد ان کا کیا ہو گا۔ اس صحافی کے قتل میں ملوث 11 اہلکاروں کی گرفتاری کی خبریں آ چکی ہیں۔

ترکی نے مطالبہ کیا تھا کہ ملزمان ترک حکومت کے حوالے کیے جائیں کیونکہ قتل ترک سر زمین پر ہوا ہے۔ آیندہ کیا ہو گا، کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن صحافیوں کو اپنے انداز میں ’’سزا‘‘ دینے والوں کو آیندہ قدرے سوچنا ہو گا کہ وہ اپنے مخالفین صحافیوں سے کس طرح نمٹیں۔

جو چپ رہے گی زبانِ خنجر تو لہو پکارے گا آستیں کا

The post لہو پکارے گا آستیں کا appeared first on ایکسپریس اردو.

پولیس اصلاحات کمیٹی کی رپورٹ

$
0
0

پاکستان کو برطانوی راج سے پولیس کا سامراجی ڈھانچہ ورثے میں ملا، امن و امان کے فروغ، معاشرتی ہم آہنگی، سلامتی اور نفاذ قانون کے بجائے برطانوی حکمرانوں کی خدمت گزاری کے لیے جس کا قیام عمل میں  لایا گیا تھا۔ 1861ء کے پولیس ایکٹ میں چھوٹی موٹی تبدیلیوں کے علاوہ کوئی بنیادی ترمیم نہیں کی گئی۔بلکہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے متعارف کروائے گئے قوانین میں بھی برطانوی دور کے قانون کی روح کو کم و بیش برقرار رکھا گیا ہے۔

ہمارے موجودہ کلچر میں کم زوروں کو با اثر سیاسی اشرافیہ کا غلام بننے پر مجبور کیا جاتا ہے، اس کے ساتھ ہی پولیس بھی طاقت ور طبقات کی آلہ کار کا کردار ادا کرتی ہے۔ پولیس سے متعلق قوانین میں کبھی بھی اس سامراجی ورثے کو مؤثر انداز میں چیلنج کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ہمارے جیسے جاگیردارانہ معاشرے میں غیرمعمولی تبدیلیوں کے بغیر ایسا کرنا ممکن بھی نہیں ہو گا۔

14جنوری 2019ء کو پولیس ریفارم کمیٹی رپورٹ کے اجرا کے موقعے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ’’ایک مؤثر فوج داری نظامِ انصاف کسی بھی معاشرے کے لیے ریڑھ کی حیثیت رکھتا ہے اور انصاف کی فراہمی عدلیہ کی اہم ترین ذمے داریوں میں شامل ہے۔

شفافیت کے ساتھ انصاف کے قیام پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت جیسے عنصر اثر انداز ہوتے ہیں، جیسا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 4 اور 25 میں قانون کے ہر کس و ناکس کے ساتھ یکساں سلوک کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ جرائم کے انسداد اور تفتیش کے ساتھ ساتھ ، پولیس شفاف عدالتی کارروائی اور از روئے ضابطہ قانونی عمل کے بنیادی حق کے تحفظ میں بھی بنیادی کردار ادا کرتی ہے، جس کی ضمانت دستور کی شق 10 الف میں دی گئی ہے۔‘‘

افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ عام شہری قانون کے مطابق اپنی شکایات کے لیے پولیس سے رجوع کرنے کے بجائے اس سے گریز کرتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والوں کو حکمراں اشرافیہ کی خدمت گزاری سے محفوظ کرنے کے لیے، سپریم کورٹ نے ’’پولیس اصلاحات کمیٹی‘‘ تشکیل دی جس کا مقصد ٹھوس تجاویز ترتیب دینا تھا۔ اس کمیٹی نے اصلاحات کے لیے یہ نکات تجویز کیے۔ (الف) شکایت کے ازالے کا نظام (ب) شہری پولیسنگ(ج)انسداد دہشت گردی کے قوانین کو مؤثر بنانا (د) پولیس کا احتساب اور (د) فوجداری نظام انصاف کا ادغام۔ ان تجاویز  میں فوج کی ملٹری سیکریٹری ( ایم ایس) برانچ کی طرز پر ’’تعیناتی/ ترقی کے نظام‘‘ جیسے اہم ترین پہلو سے صرف نظر کیا گیا ہے۔ میرٹ پر ترقی اور موزوں افراد کی تعیناتی کے لیے ایک جامع نظام کا نفاذ ہی اس کا واحد حل ہے۔

گزشتہ چھ دہائیوں میں پولیس اصلاحات پر دو درجن رپورٹس جاری ہو چکی ہیں۔ بدقسمتی سے ان میں کسی کی بھی تجاویز پر عمل درآمد نہیں ہوا اور نہ اس کی فکر کی گئی۔ ’’2002ء فوکس گروپ برائے پولیس اصلاحات‘‘ میں شامل ہونا جمیل یوسف کے اور میرے لیے پریشان کُن تجربہ رہا۔ نیم دلی سے کیے گئے اقدامات سے دیانت دار افسران کا مستقبل محفوظ ہوتا ہے اور نہ ہی نفاذِ قانون کا ہدف حاصل ہوتا ہے۔

اس تصور کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے اس وقت کے چیف جسٹس نے جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ کی زیر نگرانی ان سفارشات کا جائزہ لینے کے لیے پولیس آئی جیز پر مشتمل اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دی۔ پریزینٹیشنز میں آئی جی رینک کے سابق سینیئر افسران کی اصلاحات و تجاویز شامل کی گئی، ایک موجودہ آئی جی نے رپورٹ میں ان تجاویز پر عمل درآمد کا نقشہ وضع کیا۔

کسی بھی ملک کے نظام انصاف میں پولیس کی ناگزیریت کے پیش نظر ضروری ہے کہ قانون کے نفاذ کے لیے اس محکمے کو مکمل طور پر آزادی اور اختیار کے ساتھ کام کرنے کے قابل بنایا جائے۔ پولیس یا تو طاقت وروں کے سامنے کھڑے ہونے والے جرأت مند افسران کے انجام سے خوف زدہ ہے یا سیاسی بنیادوں پر ہونے والی ان گنت بھرتیوں اور تقرری و معطلی کی وجہ سے پوری طرح سیاسی عناصر کے زیر دست ہے۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ ناقص تربیت، ناکافی ہتھیار اور عادی بدعنوانوں کے بوجھ تلے دبی پولیس میں ایسے عناصر موجود ہیں جو دیمک کی طرح اس کی بنیادیں چاٹ رہے ہیں۔ پولیس کو جرائم میں استعمال کیا جاتا ہے، سندھ میں یہ حالات بدترین ہیں، کم سہی دیگر صوبوں میں بھی یہی صورت حال ہے۔ دوسری جانب عزت مآب چیف جسٹس نے عوام کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے والے بہادر پولیس اہلکاروں کو خراج تحسین پیش کیا۔ پولیس نظام کی تباہ حالی کے باوجود، مقننہ اور حکومت ضروری اصلاحات کرنے میں ناکام رہے ہیں جو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ سندھ کے سابق آئی جی اے ڈی خواجہ کو جن حالات کا سامنا رہا وہ اس کی بڑی واضح مثال ہے، اپنی دیانت داری اور میرٹ کے باوجود ان کی ترقی نہ ہونا اس نظام کی تذلیل کے مترادف ہے۔

پولیس بہتری کارکردگی کی پوری صلاحیت رکھتی ہے اور اپنے فرائض کی بجا آوری کے لیے محکمے کو حکومت اور بڑی سیاسی جماعتوں کی مدد کی ضرورت ہے۔ اس پر سے ہر طرح کے دباؤ کا خاتمہ ہونا چاہے۔ بدقسمتی سے پولیس حکام اکثر ایسے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں جن کی روک تھام ان کا فرض ہے، دوسری جانب جرائم پیشہ افراد قانون کی گرفت سے بچ نکلے ہیں کیوں کہ انھیں پولیس کے اندر سے مدد حاصل ہوتی ہے۔ سابق چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثار کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہیے کہ اپنی ریٹائرمنٹ سے چند دن پہلے ہی انھوں نے پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے درکار سب سے ضروری تبدیلی میں پیش رفت کو ممکن بنایا۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں۔ اس تحریر کے لیے 14جنوری 2019ء کو پولیس اصلاحات کمیٹی کی رپورٹ کے اجرا کے موقعے پر کیے گئے چیف جسٹس کے اقتباسات سے مدد لی گئی۔)

The post پولیس اصلاحات کمیٹی کی رپورٹ appeared first on ایکسپریس اردو.

صوبائی حکومت کا مسئلہ؟

$
0
0

سابقہ کالم میں 18ویں ترمیم پر بعض حلقوں کے تحفظات کا جائزہ لیا گیا تھا ‘آج اس مسئلے کا ایک الگ نقطہ نظر سے جائزہ لینے کی کو شش کریں گے ‘یہ بات بھی کی جا رہی ہے کہ صوبوں کی صلاحیت کم تھی اور ان کو اختیارات زیادہ مل گئے ہیں‘یہ دانشور اور سیاست دان صوبوں کی محبت میں یہ بات نہیں کر رہے بلکہ ان کے دل میں چور ہے۔

اصل سوال یہ ہے کہ مرکزیت پسند حضرات کو صوبوں اور خاص کر اٹھارویں ترمیم سے کیا پریشانی ہے؟میرے خیال میں چند مسائل ایسے ہیں جو مضبوط مرکز کے حامیوں کو منظور نہیں ہیں‘ان میں تعلیم کا مسئلہ خاص کر مطالعہ پاکستان اور پاکستان کا نظریاتی تشخص ‘صوبوں کاC NFایوارڈ میں حصہ بڑھانا ‘جس کی وجہ سے مرکز میں دفاع اور دیگر غیر پیداواری  اخراجات کے لیے رقم کم پڑ گئی ہے۔تیسرے ”Unity of Command”کا طریقہ کار اور فلسفہ۔

ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ملک کے حکمران طبقات کو کسی طور چین نہیں آرہا‘جمہوریت ہو تو ان کو مارشل لاء اور ٹیکنوکریٹ حکومت یاد آتی ہے ‘پارلیمانی نظام ہو تو ان کو صدارتی نظام پسند ہوتا ہے ‘بڑی مشکلوں سے صوبوںکو کچھ حقوق ‘وفاقیت کے اصولوں کے تحت ملے ہیں تو اب ان کو سالمیت پاکستان کی ضمانت ’’مضبوط مرکز اور کمزور صوبوں‘‘ میں نظر آتی ہے‘خدا ان کے دلوں کو چین نصیب کرے ‘تاکہ یہ جمہوری نظام کو چلنے دیں ۔

اس وقت پاکستان کے سیاسی اور باخبر حلقوں میں یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ نہ صرف اٹھارویں آئینی ترمیم کو ختم کیا جا رہا ہے بلکہ پاکستان میں ایک دفعہ پھر موجودہ پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام حکومت قائم کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے ‘ان تبدیلیوں کے لیے بعض حلقے جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی طرح کے ریفرنڈم کی خبریں بھی دے رہے ہیں‘بلکہ ایک دوست نے تو 2019کو پارلیمانی نظام اور اٹھارویں ترمیم کے خاتمے کا دعوے بھی کیا ہے۔بعض تجزیہ نگار تو یہ دلیل دے رہے ہیں کہ چونکہ پارلیمنٹ نے تبدیلی لانی ہے اور وہاں حکومت کو مطلوبہ دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہے اس لیے تبدیلی نا ممکن ہے ۔

یہ سادہ لوح دوست ماضی سے سبق حاصل نہیں کرتے۔یہاں کون سی تبدیلی آئینی طریقے سے آئی ہے ‘ہمارے آئینی ادارے ان آمرانہ اور غیر آئینی اقدامات کا کیا بگاڑ سکے ہیں‘ جو اب بگاڑ سکیں گے۔ایک دوست نے بڑا اچھا تجزیہ کیا ہے کہ اسٹبلشمنٹ کو ایک دفعہ پھر ملک کا نظام بدلنے کی سوجھی ہے‘تحریک انصاف کے سلیکشن کا مقصد ہی اس منزل کا حصول ہے‘ عمران خان اور ان کے وزراء اور مشیر جس طرح محنت سے مسلسل حزب اختلاف کے ساتھ محاذ آرائی کے ذریعے حالات کو بگاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں ‘ادھروزیر اعظم نے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کیا ہواہے ‘یہ سب اس لیے کہ کل کوئی عقل کل آکر اعلان کردے کہ ’’ میرے عزیز ہم وطنو!آپ نے دیکھ لیا کہ پیپلز پارٹی‘مسلم لیگ کے بعد اب تحریک انصاف کی حکومت بھی نہیں چل سکی اور نہ ہی مسائل حل کرسکی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے پارلیمانی نظام میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ مسائل حل کرسکے‘اس لیے ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں کہ ملک کے بہترین مفاد میں آئین کو معطل کرکے کچھ عرصے کے لیے نیا نظام لایا جائے اور ملک میں رائج ناکام پارلیمانی نظام کوبہترین صدارتی نظام میں بدلا جائے‘اس مقصد کے ریفرنڈم کے ذریعے عوام کی رائے معلوم کی جائے گی ‘صدارتی نظام کی مندرجہ ذیل خوبیاں ہیں‘‘۔اس اعلان کے فوراً بعد ہمارے سادہ لوح عوام سڑکوں پر نکل کر ناچیں گے اور شام کو حلوہ کی دیگیں پکائیں گے ‘یہ الگ بات کہ چند سال بعد اسٹبلشمنٹ پھر سیاسی پارٹیوں کو حکومت بنانے کی دعوت دے گی‘ جس طرح ماضی میں ہوتا رہا ہے۔خیر یہ تو بیچ میں بحث ذرا لمبی ہوگئی ‘اٹھارویں ترمیم کے سلسلے میں موجودہ حکومت کے اہم افراد کے بیانات مسلسل آرہے ہیں‘ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ’’18ویں ترمیم وفاق پر ایک بوجھ ہے‘‘۔وفاقی وزیر اطلاعات جو حکومت کے ترجمان بھی ہیں نے کہا ہے کہ 18ویں ترمیم پر نظر ثانی ہو سکتی ہے ‘اسٹبلشمنٹ کے حلقوں کی طرف سے اس ترمیم کے بارے میں منفی رائے کا اظہار کیا جا چکا ہے۔

آئیے ذرا 18 ویں ترمیم کی مخالفت کی وجوہات پر نظر ڈالیں۔18ویں ترمیم کے تحت سب سے بڑی تبدیلی جو حکمرانوں کو گراں گزری ہے وہ تعلیم کے شعبے کو مکمل طور پر صوبوں کی تحویل میں دینا ہے۔تعلیم کا شعبہ شروع سے صوبائی دائرہ اختیار میں دیا گیا تھا ‘اس عمل میں جو خامیاں تھیں وہ 18ویں ترمیم کے تحت دور کر دی گئیں‘اس میں سلیبس (Carriculum) کا شعبہ بھی صوبوں کے حوالہ کرنے کا مسئلہ سب سے زیادہ متنازع بنادیا گیا ہے‘ حکمران چاہتے ہیں کہ یکساں نظام تعلیم اور کورس کی تدوین کا اختیار ان کے پاس ہو ‘ایک ریٹائرڈ جنرل صاحب کا انٹرویو پڑھا ‘ان کا کہنا تھا کہ ’’تعلیم کا شعبہ صوبوں کو دینے سے ملک انتشار کا شکار ہوجائے گا۔

صوبے تعلیم کے کورس میںسیکولر اور نیشنل ازم جیسے مسائل لاکر ملک کا اسلامی تشخص اور نظریہ پاکستان کو ختم کردیں گے‘‘۔یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چائیے کہ موجودہ صوبے بعض استثناء کے ساتھ ان قومیتوں پر مشتمل ہیں جو ہزاروں سالوں سے  یہاں آباد ہیں‘ان صوبوں کی اپنی تاریخ ہے اور ان کے اپنے ہیرو ہیں۔پاکستان کے حکمرانوں نے قومیتوں کی تاریخ اور ان کے ہیروز کو تعلیم سے نکال دیاہے‘مطالعہ پاکستان کے نام سے جو کچھ پڑھایا جاتا ہے ‘وہ عجیب ہے۔

انگریزی سامراج اور اس سے قبل مغل حکمرانوں کے خلاف آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے قومی ہیروز کا ذکر نہیں ہے‘ صرف مسلم لیگ نے تو سامراج سے آزادی کی جنگ نہیں لڑی تھی ‘چھوٹی قومیتوں کے بہت سے رہنماء بھی اس جنگ میں شامل تھے ‘پختون علاقے جنگ آزادی کی اصلی میدان تھے لیکن سرکاری تاریخ میں‘ فقیر ایپی‘عمرا خان جندول‘حاجی  صاحب ترنگ زئی‘کاکاجی صنوبر حسین ‘خوشحال خان کا کا‘ مولانا عبدالرحیم پوپلزئی اور دیگر مجاہدین آزادی کا ذکر تو کیا باچا خان‘عبدالصمد خان اور خدائی خدمتگار تحریک کا بھی ذکر نہیں‘پنجاب کے دلا بھٹی،علامہ مشرقی، بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں سمیت بہت سے ہیروز کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ تحریک پاکستان کے رہنماؤں کو بھی تاریخ سے خارج کردیا گیا ہے جیسے کہ سندھ کے جی ایم سیّد‘بنگال کے بھاشانی اور سہروردی وغیرہ ‘آخر تاریخ کے ساتھ یہ مذاق کیوں کہ ہمیں پڑھایا گیا کہ سکندر اعظم نے ہندو راجہ پورس کو شکست دی ‘یونان کے الیگزنڈر کو خواہ مخوا سکندر بناکر ہیرو بنانے کی کوشش کی گئی۔ سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان سمیت دوسرے سامراج دشمنوں کی بہادری اور شخصیت کی تعریف بجا مگر دوسروں کو نظر انداز کرنا کیا معنی رکھتی ہے؟۔تمہی بتاؤ کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے؟‘اس کے علاوہ پاکستان کو بنانے کا بنیادی مقصد قائد اعظم نے اپنے 11اگست 1947کی تقریر میں فرما دیا تھا‘انھوں نے واضح طور پر ایک فلاحی اور سیکولر پاکستان کی بات کی تھی ‘اس تقریر کو سنسر کرکے بلیک آؤٹ کردیا گیا ہے اور خواہ مخواملک پر قرار داد مقاصد نافذ کردیا گیا۔

اب خوف ہے کہ کہیں یہ سارا سچ صوبے اپنی تعلیمی نصاب میں شامل نہ کرلیں۔مسلم لیگ کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی ‘بھار ت نوجوان سبھا ‘مزدوروں‘ کسانوں‘کرانتی دل‘خدائی خدمت گار تحریک کے علاوہ خیبرپختونخوا کے پہاڑوں اور قبائلی علاقوں میں لڑنے والے مجاہدین آزادی کو نظر اندا زکرکے یکساں نظام تعلیم کے نام پر فراڈ کیا جا رہا ہے ‘یکساں نظام تعلیم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ‘اسلامی تعلیمات ‘ سوشل اور فزیکل سائنس میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور نہ ہی مرکز نے کوئی نیا فارمولا ایجاد کیا ہے ‘اختلاف کی بنیاد نظریاتی اور تا ریخ کا تصور ہے ‘ہر قومیت کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی قومی تاریخ سے اپنی آیندہ نسل کو آگاہ کرے ‘اس سے پاکستان کی سالمیت کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا‘مرکز بڑی خوشی سے سماجی اور فزیکل سائنس کو پورے پاکستان پر نافذ کرے ’کس نے روکا ہے؟۔آخر جغرافیہ‘ اکنامکس‘سیاسیات‘ لسانی مضامین‘فزکس ‘کیمسٹری ‘بیالوجی ‘ معدنیات کے مضامین میں کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟۔

اسی طرح ملک کے حقیقی مقتدر حلقوں کی طرف سے اس ترمیم کے بارے میں منفی رائے کا اظہار کیا جا چکا ہے ‘اس ترمیم کے ذریعے کنکرنٹ لسٹ ختم کرکے بہت سے محکمے صوبوں کے اختیار میں دے کر صوبوں کے دائرہ اختیار کو بڑھا دیا گیا ہے ‘اس طرح ٹیکسوں سے وصول ہونے والی کل آمدنی سے صوبوں کو ملنے والا حصہ بڑھ گیا ہے ‘اس کی وجہ سے مرکز اور مرکز کے تحت چلنے والے چند محکمے خصوصاً دفاع‘ مالی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں‘ان کی طرف سے صوبوں کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ فنڈز ملنے کی مخالفت کی جا رہی ہے‘ حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ مرکزی محکمے اپنے اخراجات میں کمی کریں۔

خاص کر ایٹمی صلاحیت کے بعد اسلحے کی دوڑ کی کوئی ضرورت نہیں‘اب اختیارات صوبوں سے بھی نیچے تقسیم ہونا چائیے۔اس ترمیم سے جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کی طرف سے آئین کی بگڑی شکل کو بھی پارلیمانی بنایا گیا ہے ‘یہ تبدیلیاں بھی بعض عناصر کے عزائم کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں‘خاص کر صدارتی نظام کے حامی بڑے بے چین ہیں۔اب تو 1973کے آئین میں مزید وفاقیت کی ترامیم کی ضرورت ہے ‘اسی لیے نئے عمرانی معاہدے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے ‘اب جمہوریت دشمن عناصر کو آئین اور جمہوریت کے ساتھ مزید مذاق بند کرنا چائیے ورنہ 1971کے حادثے کو تاریخ کی کتابوں سے نکالنے سے حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی یاد رہے کہ صوبے مرکز کی پیداوار نہیں بلکہ ان  صوبوں کی منظوری سے پاکستان وجود میں آیا ہے‘ اس لیے بھی ماں کے حقوق زیادہ ہوتے ہیں۔

The post صوبائی حکومت کا مسئلہ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

سانحہ ساہیوال، قوم انصاف کی منتظر

$
0
0

سانحہ ساہیوال پر بنائی گئی جے آئی ٹی کے سربراہ نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں خلیل اور اس کی فیملی کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے ان کی ہلاکت کا ذمے دار سی ٹی ڈی کو ٹھہرایا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ڈرائیور ذیشان کے حوالے سے مزید تفتیش ہوگی جس کے لیے مزید مہلت درکار ہے جب کہ قانونی اور سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ملکی تاریخ میں سی ٹی ڈی کی اس درد انگیز کارروائی کا نتیجہ بلاتاخیر شفاف تحقیقات کی روشنی میں قوم کے سامنے لایا جانا چاہیے، واضح رہے مجرموں ، دہشت گردوں اور پولیس کے اشارے پر گاڑی نہ روکنے والوں کا تعاقب کرنے ، ان کی گرفتاری یا پھر مزاحمت پر ملزمان کو فائرنگ کرکے ہلاک کرنے کی ایک اضطراب انگیز بحث عوامی اور سیاسی حلقوں میں جاری ہے۔

قانونی ماہرین کا یہ استدلال کہ جب قرائنی شہادت اور عینی گواہوں کے مطابق خلیل خاندان کی کار روکی گئی اور کار کے اندر سے فائرنگ شاٹ بھی کسی نے نہیں سنا جب کہ قریبی بس سے ایک ویڈیو فوٹیج نے معروضی حقیقت بھی بتا دی ، کار میں موجود سہمی ہوئی متاثرہ ایک بچی کا بیان بھی میڈیا پر نشر ہوا تو ذیشان سمیت گاڑی کے اندر بیٹھے ہوئے لوگوں پر گولیوں کی بوچھاڑ سوالیہ نشان ہے۔ سانحے کے حوالے سے دو ایف آئی آر کے اندراج پر بھی ماہرین نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

سانحے سے متعلق معروضی حقائق کی ایک سے زیادہ وضاحت و تشریح بھی محل نظر ہے، تجزیہ کاروں نے پولیس افسران کی سزائوں کی تکمیل  کے امکان پر بھی شکوک وشبہات کا اظہار کیا ہے ، اس لیے بادی النظر میں سانحہ کو پوری قوم حکومت اور مسند انصاف کے لیے ایک غیر معمولی ٹیسٹ کیس قراردیا ہے۔ یہ کرمنل پراسیکیوشن کا بھی چشم کشا اور فیصلہ کن کیس بن سکتا ہے ۔اگرچہ پنجاب حکومت نے جے آئی ٹی کی ابتدائی سفارشات پر غفلت کا مظاہرہ ثابت ہونے پر ایڈیشنل آئی جی آپریشن پنجاب اظہر حمید کھوکھر، ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی رائے محمد طاہر اور ڈی آئی جی سی ٹی ڈی بابر سرفراز ایلپا کو فوری طور پر عہدوں سے ہٹا دیا ہے۔

اظہر حمید کھوکھر اور بابر سرفراز ایلپا کو پنجاب سے سرنڈر کرتے ہوئے صوبہ بدر کیا گیا ہے جب کہ ایس ایس پی سی ٹی ڈی جواد قمر اور ڈی ایس پی انچارج سی ٹی ڈی ساہیوال ڈاکٹر آصف کمال کو معطل کر دیا گیا ہے تاہم وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے ساہیوال میں پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے آپریشن کو سو فیصد درست قرار دے دیا ہے۔ جس پر اپوزیشن نے شدید رد عمل ظاہر کیا ہے۔ قائد حزب اختلاف شہبازشریف کی زیر صدارت پارلیمانی رہنماؤں کا مشاورتی اجلاس ہوا جس میں اظہارتشویش کیا گیا کہ حکومت سانحہ ساہیوال کے ملزمان کو بچانے کی کوششیں کررہی ہے جب کہ سانحہ ساہیوال پر وزراء تضاد بیانی کا شکار ہیں، ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کے اجلاس کے بعد وزیر قانون نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے سانحہ ساہیوال پر خصوصی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنائی اور حکومت نے تیز اور شفاف تحقیقات کا وعدہ پورا کیا، ہم انصاف کے تمام تقاضے پورے کریں گے، سانحہ پنجاب حکومت پنجاب کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے اور سانحہ ساہیوال کیس کو مثال بنائیں گے۔ تاہم انھوں واضح کیا کہ نئی پیش کی جانے والی رپورٹ کو حتمی نہیں سمجھا جاسکتا، اجلاس میں سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان، راجہ بشارت، چیف سیکریٹری، ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ، انسپکٹر جنرل پولیس اور متعلقہ ایجنسیوں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

ماہر وکلا کا یہ موقف ہے کہ جب مبینہ دہشت گرد ہاتھ آگیا تھا ، جس سے پورے نیٹ ورک کا پتا بھی چل سکتا تھا، جب کہ ذیشان کی والدہ کا بیان ہے کہ اس کا بیٹا دہشت گرد نہیں، مگر وہ تو ماں ہے، لہٰذا ذیشان کے بارے میں شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات اس سانحہ کا ٹرننگ پوائنٹ ہے، جسے پولیس اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی دھند میں نہیں چھپنا چاہیے ورنہ کیس کی سمت بدلنے کا اندیشہ پیدا جائے گا۔

یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ جب ہلاک شدگان کو ذی شان سمیت زندہ حراست میں لیا جاسکتا تھا تو ایسی بربریت اور وحشیانہ فائرنگ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ماہرین جرمیات کے مطابق ساہیوال سانحہ نے قوم کو ناقابل بیان صدمہ اور دلی غم واندوہ سے دوچار کیا ہے اور جہاں جے آئی ٹی رپورٹ حتمی نہیں ہے وہاں سانحہ کے حوالہ سے دو ایف آئی آر کے اندراج پر بھی ماہرین قانون ، سابق پولیس افسران اور کرمنل جسٹس سے متعلق حلقوں نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے متاثرین سانحہ اور ہلاک شدگان کے لواحقین کو نظر آنے والے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ سانحہ ساہیوال کی چنگھاڑ بھی یہی ہے کہ انصاف ہو چاہے آسمان ٹوٹ پڑے۔

The post سانحہ ساہیوال، قوم انصاف کی منتظر appeared first on ایکسپریس اردو.

بھارت کا شعبہ کانکنی اور انسانی حقوق

$
0
0

خطِ غربت سے کہیں نیچے زندگی گھسیٹنے والے بھارتی غیرانسانی ماحول میں روزی کمانے پر مجبور ہیں۔ خصوصاً بھارت کے شعبہ کان کنی میں مزدوروں کی حالت قابلِ رحم ہے۔ غیرقانونی کان کنی کے اعتبار سے بھارت کا نام پوری دنیا میں بد نام ہوچکا ہے۔ 2014ء میں یہاں پانچ ہزار غیرقانونی کانوں پر پابندی لگا دی گئی تھی مگر ریاستی حکومتوں کے لیے عدالتی احکامات سے زیادہ اہم مالی مفادات ٹھہرے، یوں وہ اس حکم نامے پر عمل کروانے میں ناکام ہوگئیں۔ بھارت کی ان غیرقانونی کانوں میں صرف بھارتی ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک سے بھی بھاری پیسوں کا لالچ دے کر لوگوں کو لایا جاتا ہے۔

غربت کے ہاتھوں مجبور ان لوگوں کے لیے دو ہزار روپے روزانہ کی پیشکش کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی، یوں یہ ایک مافیا کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ یہ مزدور جو یہ سوچ کر آتے ہیں کہ کچھ دن پیسے کما کر واپس لوٹ جائیں گے اور ان پیسوں سے اپنے بچوں کی رُکی ہوئی ضرورتیں اچھی طرح پوری کریں گے، لیکن افسوس وہ اس غلامی کے چنگل سے کبھی نکل نہیں پاتے۔ ان کو نہ تو طے شدہ رقم ملتی ہے، نہ آزادی۔

تنخواہ کی آس ان کو مہینوں نہیں بلکہ سالوں اندھی کانوں میں انھیں جھونک کر رکھتی ہے، اس دوران وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہوکر جان سے بھی چلے جاتے ہیں۔ ان کانوں سے معدنیات حاصل کرنے کے لییبڑے پیمانے پر بچوں سے بھی مشقت لی جاتی ہے۔ بنگلہ دیش اور نیپال سے جو مزدور یہاں لا کر فروخت کیے جاتے ہیں، ان میں بچوں اور عورتوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔

کان کنی کے حوالے سے بھارت دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ چوہے کے بلوں جیسے سوراخوں والی کانوں میں یہ محنت کش رینگتے ہوئے داخل ہوتے ہیں اور زمین سے بیس فٹ نیچے تک جا کر ’’مائیکا‘‘ حاصل کرتے ہیں۔ یوں تو بھارت کی زمین بے شمار معدنیات سے بھری ہے لیکن مائیکا وہ چمک دار دھات ہے جس کی دنیا میں تیزی سے بڑھتی طلب کا پچیس فی صد بھارت پورا کرتا ہے ۔ بہار اور جھاڑ کھنڈ ’’مائیکا‘‘ کی دولت سے مالا مال ریاستیں ہیں۔

مائیکا کا سب سے زیادہ استعمال میک اپ کی چمک بڑھانے،گاڑیوں کے پینٹ اور برقی آلات میں کیا جاتا ہے۔ 1890ء میں برطانوی دورِ حکومت میں یہاں مائیکا کے ذخائر بڑی تعداد میں دریافت ہوئے، جنھیں 1974ء میں بھارتی حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ اس وقت سوویت یونین مائیکا کے لیے بھارت کا سب سے بڑا خریدار تھا، جو اس معدن کو اسلحہ سازی میں استعمال کرتا تھا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یہاں مائیکا کی کان کنی پر پابندی لگا دی گئی لیکن اس پابندی سے کوئی فرق نہ پڑا بلکہ بڑے پیمانے پر مائیکا کی غیرقانونی کان کنی شروع ہوگئی جس میں انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیاں دیکھنے میں آئیں۔

انڈیا میں اس وقت مائیکا کی ستر فی صد کانیں غیرقانونی طور پر کھودی جارہی ہیں۔ چمک دار مائیکا کی سب سے زیادہ طلب چین اور جاپان میں ہے جہاں اس وقت میک اپ اورگاڑیوں کی سب سے زیادہ صنعتیں موجود ہیں۔ بھارت کی مائیکا کانوں میں اس وقت بیس ہزار بچے غلاموں کی طرح کام کر رہے ہیں۔

سوئزرلینڈ کی ایک این جی او نے اپنی 2018ء کی ایک تحقیق میں یہ تعداد بائیس ہزار بتائی ہے۔ اکثر مزدور بچے دب کر یا سانپوں کے کاٹنے سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ بھارتی حکومت کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق یہاں ہر چھے دن میں ایک بچہ کان کنی کے دوران ہلاک ہوجاتا ہے، لیکن بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کے خیال میں مرنے والے بچوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جنھیں رپورٹ نہیں کیا جاتا ۔

بچوں کے ساتھ ساتھ بڑے بھی اس خطرناک کام میں اکثر اپنی جان سے جاتے ہیں۔ حال ہی میں کوئلے کی کان میں پندرہ مزدور پھنس کر جان سے گئے۔ کانوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کی اموات معمول بن چکی ہیں اور ان کے لواحقین کو کوئی معاوضہ دینے کی زحمت بھی نہیں کی جاتی ۔ بھارت میں مائیکا اورکوئلے کے ذخائرکی کان کنی زیادہ ترغیرقانونی طریقوں سے کی جارہی ہے، یوں انسانی حقوق اور مزدوروں کی فلاح کے لیے بننے والے کسی قانون کا یہاں اطلاق نہیں ہوتا۔

بہار اور جھاڑکھنڈ بھارت کے دو انتہائی پس ماندہ اور غربت میں دھنسے ہوئے خطے ہونے کے ساتھ ساتھ ’’مائیکا بیلٹ‘‘ بھی ہیں۔ ان کے پاس مائیکا کی کان کنی کے علاوہ روزگار کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں۔ زندگی کی بڑھتی ہوئی ضروریات سے نمٹنے کے لیے یہ لوگ بچوں کو بھی اپنے ساتھ کام پر لگا لیتے ہیں ۔ والدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بچوں کو گھروں میں اکیلا چھوڑنا ان کے لیے زیادہ غیرمحفوظ اور پریشان کن ہے۔

ان چھوٹے چھوٹے بچوں کے نازک ہاتھ مائیکا کی کھدائی کے لیے کسی اوزار کی طرح کام کرتے ہیں اور اکثر زخمی ہوجاتے ہیں۔ چھوٹے بڑے بے شمار حادثات یہاں روزکا معمول ہیں، جن میں بچے جان سے بھی چلے جاتے ہیں ۔گزشتہ پانچ سالوں میں پینتالیس بچے ان کانوں میں موت کی آغوش میں چلے گئے۔ تھامس رائٹرز فاؤنڈیشن کے 2016ء کے اعدادوشمارکے مطابق صرف دو ماہ میں سات بچے مائیکا کی کان کنی میں جان سے گئے۔

مائیکا سے میک اپ اورگاڑیوں کی چمک بڑھانے والے اور انھیں استعمال کرنے کے جنون میں مبتلا مرد اور عورتیں شاید جانتے بھی نہیں کہ ان کے شوق کی انسانی قیمت اصل میں ہے کیا؟ لیکن دنیا جہاں کی وہ صنعتیں اس انسانی استحصال سے ضرور واقف ہیں جو مائیکا کو اپنی پروڈکٹس کی چمک بڑھانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ لہٰذا میرے نزدیک گاڑیاں اور میک اپ کی مصنوعات بنانے والی تمام کمپنیاں انسانی حقوق کی اس خلاف ورزی میں برابر کی شریک ہیں۔

بھارت میں ہر بار کی طرح اس بار بھی انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں نے وعدے کیے ہیں کہ وہ اقتدار میں آکر غیرقانونی کان کنی ختم کر دیں گی، چائلڈ لیبر پر پابندی لگائیں گی اور مزدوروں کے لیے بنائے گئے قوانین کا اطلاق کروائیں گی ۔ اس بار بھی انتخابات سے قبل یہی وعدے دہرائے جا رہے ہیں، لیکن سب جانتے ہیں کہ انتخابات میں سرخ رو ہوکر اقتدار سنبھالنے والے یہ نمایندے سب سے پہلے ایک کام کرتے ہیں اور وہ ہے وعدہ فراموشی ۔

لیکن ایک کام ایسا ہے جو کرنا وہ کبھی نہیں بھولتے۔ نفرت کی فصل کی آبیاری کا کام ۔ یہ فصل بھارت میں بارہ مہینے لہلہاتی ہے۔ اب دیکھیے ناں! تین ماہ کے اندر دو بار روہنگیا مسلمانوں کو واپس میانمار کے جہنم میں دھکیل دیا گیا، اور تو اور گزشتہ ہفتے وشوا ہندو پریشد کے کارکنان نے دہلی میں ریلی نکالی جس میں نعرے لگائے گئے۔ ’’ایک دھکا اور دو جامع مسجد توڑ دو۔‘‘

یہی بھارتی سرکارکا اصل ایجنڈا ہے اور یہی حکومتی ترجیحات ۔ اس ایجنڈے کی تکمیل کی دھن میں باقی سب جانب سے آنکھیں بند کی جاچکی ہیں۔ اب چاہے انسانی اقدار ملیا میٹ ہوں یا انسانیت رسوا، سرکار کی بلا سے۔

The post بھارت کا شعبہ کانکنی اور انسانی حقوق appeared first on ایکسپریس اردو.

آزمائش و امتحان اللہ کی سنت ہے

$
0
0

راہ حق پر چلتے ہوئے مشکلات اور مصائب لازماً آئیں گے، اگر انھیں مشکلات پیش نہ آئیں، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ جس راہ پر چل رہے ہیں، صراط مستقیم نہیں ہے کوئی اور راستہ ہے۔ جیساکہ واضح کیا گیا کہ ایمان، اعمال صالحہ، حق کی نصیحت اور صبرکی تلقین، صراط مستقیم کے چار سنگ میل ہیں، جن سے ہم نے بہرصورت گزرنا ہے، لیکن یہ گزرنا آسان نہیں۔ ان میں سے ہر مرحلے پر مشکلات اور آزمائشیں آئیں گی۔ ایمان ہی کو لے لیں۔ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ سب سے زیادہ محبت اللہ تعالیٰ سے ہو مگر بسا اوقات انسان محبت الٰہی کے امتحان میں پڑ جاتا ہے۔

ایک طرف اولاد اور بیوی کی ناجائز فرمائشیں ہوتی ہیں اور دوسری طرف احکام الٰہی کی بجا آوری کا جذبہ۔ اب اگر اس موڑ پر آدمی اللہ کے احکام کو پس پشت ڈال کر بیوی اور اولاد کے غلط مطالبات پورے کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ محبت الٰہی کے امتحان میں فیل ہوگیا ہے۔ اسی طرح کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کو ایک جھوٹ کا کلمہ کہہ لینے سے لاکھوں روپے کا فائدہ دکھائی دیتا ہے، مگر دوسری طرف جھوٹ کے گناہ کا خیال آتا ہے۔ یوں انسان آزمائش میں پڑ جاتا ہے۔ اسی طرح ایمان کی آزمائش بسا اوقات اس صورت میں ہوتی ہے کہ آدمی کا توکل و اعتماد اللہ پر ہے یا وہ مادی اسباب و وسائل پر تکیہ کرتا ہے۔

نیک اعمال کی بجا آوری بھی آسان نہیں، ان میں بھی مشکلات آتی ہیں۔ نماز کو لے لیں۔ اللہ کا حکم ہے کہ پنج وقتہ نماز اس کی شرائط اور آداب کے ساتھ ادا کرو۔ لیکن نفس کا تقاضا اس راہ میں روڑے اٹکاتا ہے۔ صبح سویرے نرم اور گرم بستر سے اٹھ کر نماز کے لیے مسجد جانا نفس پر ضبط اورکنٹرول کے بغیر آسان نہیں۔ حقوق العباد کی ادائیگی کے معاملے میں بھی قدم قدم پر امتحانات آتے ہیں۔

ایمان اور عمل صالح کے لیول پر جو امتحانات اور مشکلات آتی ہیں ان میں بنیادی کردار دو قوتوں کا ہے۔ انسان کا نفس ہے، جس کے بارے میں قرآن میں فرمایا گیا کہ یہ برے کاموں ہی کی طرف بلاتا ہے۔ اور دوسرا انسان کا ازلی دشمن شیطان ہے، جس نے تاقیامت اللہ کے بندوں کو گمراہ کرنے کے لیے اللہ سے مہلت مانگ رکھی ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ لوگ اللہ کی بندگی کریں، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں۔

نفس امارہ اور شیطان کے ساتھ ساتھ شیطانی قوتیں بھی اس کی راہ پوری قوت سے روکنے لگتی ہیں۔ راہ حق میں جلیل القدر صحابہ کرام کو بھی سخت ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت بلالؓ کے گلے میں رسی ڈال کر انھیں مکے کے پہاڑوں میں گھمایا جاتا۔ شدید گرمی کے عالم میں پتھریلے کنکروں پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھ دیے جاتے۔ ان سے کہا جاتا کہ ہمارے معبودوں کا اقرارکرلو، مگر قربان جائیں ان کی عظمت پر اس تمام تر سختی کے باوجود ان کی زبان پر احد احد ہی کی صدا بلند ہوتی تھی۔ حضرت عثمان بن عفان کا چچا انھیں کھجور کی چٹائی میں لپیٹ کر نیچے دھواں دیتا۔ حضرت حباب بن الحارثؓ کو انگاروں پر پیٹھ کے بل لٹا دیا گیا۔ ان کی پیٹھ جھلس گئی، مگر کوئی چیز انھیں راہ حق سے انحراف پر آمادہ نہ کرسکی۔

صحابہ کرامؓ سے زیادہ سچی توبہ کرنے والے اور صادق الایمان کون لوگ ہوسکتے ہیں۔ اگر صراط مستقیم پر چلتے ہوئے انھیں مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا تو کسی بھی دور میں اہل ایمان کو کوئی گروہ آزمائش اور ابتلا کے اصول سے بالاتر نہیں ہوسکتا۔

سورۃ البقرہ میں جہاں سابقہ امت مسلمہ یعنی یہود کو اللہ کی نمایندہ امت کے منصب سے معزول اور امت محمدیہﷺ کو اس منصب پر فائزکیا گیا اور اس پر شہادت علی الناس کی ذمے داری ڈالی گئی کہ اب رہتی دنیا تک اسے حق کی علمبردار بن کرکھڑا ہونا اور انسانیت تک دین حق کو پہنچانا ہے، وہیں یہ بات بھی واضح کی گئی کہ ہم تمہاری آزمائش ضرور کریں گے ’’ اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میوؤں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے۔‘‘ اور جو لوگ ان آزمائشوں پر پورا اتریں گے ان کی بابت مندرجہ بالا آیت کے آخر میں نبی اکرمﷺ سے فرمایا گیا: ’’(اے نبیﷺ) آپ صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔‘‘ اسی سورۃ میں ایک تنبیہہ بھی آئی ہے ۔

فرمایا: ’’کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ (یوں ہی) بہشت میں داخل ہوجاؤ گے اور ابھی تم کو پہلے لوگوں کی سی (مشکلیں) تو پیش آئی ہی نہیں۔ ان کو (بڑی بڑی) سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ (صعوبتوں میں) ہلا ہلا دیے گئے۔ یہاں تک کہ پیغمبر اور مومن لوگ جو ان کے ساتھ تھے سب پکار اٹھے کہ کب اللہ کی مدد آئے گی۔ دیکھو خدا کی مدد قریب ہے۔‘‘ بہرحال آزمائش و امتحان اللہ کی سنت ہے، جو اہل حق پر بہر صورت آنی ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی راہ حق کا راہی ہو اور اسے امتحانوں سے واسطہ نہ پڑے۔

بعض اوقات دنیا میں اہل حق کے دل میں یہ شیطانی وسوسہ بھی آتا ہے کہ ہم اللہ کے دین کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں حلال و حرام کی بندش کو قبول کیا ہے، نفس کو لگام دے رکھی ہے لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سب کچھ اللہ کو معلوم ہی نہ ہو۔ لہٰذا یہاں یقین دلایا جا رہا ہے کہ اہل ایمان کے کسی بھی نیک عمل کو ضایع نہیں کیا جائے گا۔ آیت 31 میں جنت کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ: ’’ان لوگوں کے لیے باغات ہیں جن کے دامن میں ندیاں جاری ہوں گی، وہاں ان کو سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور وہ پہنیں گے وہاں پر سبز کپڑے گاڑھے اور باریک ریشم کے۔ وہاں پر تخت ہوں گے جن پر وہ تکیے لگائے ہوں گے۔ کیا ہی عمدہ ہے وہ بدلہ (جو اللہ تعالیٰ انھیں عطا کرے گا) اور کیا ہی عمدہ ہے وہ آرام گاہ (جو ان کو ملنے والی ہے‘‘) یہ صرف اہل جنت کی ابتدائی مہمان نوازی ہوگی۔

جو اصل نعمتیں اللہ تعالیٰ نے اپنے وفادار بندوں کے لیے تیار کی ہیں، ایک حدیث کے مطابق نہ کسی آنکھ نے نہیں دیکھا ہے نہ کسی کان نے ان کے بارے میں سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا احساس تک گزرا ہے۔ یعنی جنت کی اصل حقیقت انسان کے تخیل سے ماورا ہے۔ سورۃ السجدہ کی ایک آیت کی رُو سے: ’’کسی نفس کو نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کچھ سامان چھپا رکھا ہے‘‘ ایک حدیث کے الفاظ ہیں کہ دنیا کی نعمتوں کی قدر و قیمت اگر مچھر کے پَر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ دیتا۔ تو جسے اللہ واقعی اپنی نعمت قرار دے رہا ہے تو وہ کیا ہوگی! ان ابدی نعمتوں کے حصول کے لیے اس چند روزہ زندگی میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفاداری ثابت کرنا شرط ہے۔

ابدی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی زندگی بس ایک عارضی وقفہ ہے ، لیکن اس میں اللہ تعالیٰ کی وفاداری ثابت کرنی ہے۔ ایمان کا حاصل یہ ہے کہ اللہ پر یقین اور توکل ہو۔ اگر توکل احباب و وسائل پر ہوجائے تو یہ شرک ہے۔ دجالی دور کا سب سے بڑا شرک یہی ہے کہ مادی اسباب و وسائل پر سارا تکیہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان پر استقامت عطا فرمائے اور صحیح راستے پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

The post آزمائش و امتحان اللہ کی سنت ہے appeared first on ایکسپریس اردو.


سندھ کا سپوت، دولھا دریا خان

$
0
0

میں سندھ کے اس سپوت کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جس نے اپنی بہادری، عقل اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوکر غاصبوں کا مقابلہ کیا اور اپنے وطن کی حفاظت کرتے ہوئے جان کا نذرانہ پیش کیا۔ اس بہادر لیڈرکا نام ہے دولھ دریا خان جس کا آبائی گاؤں سیہون شریف سے کچھ کلومیٹر دور اب بھی گاہا کے نام سے آباد ہے۔ جیساکہ ٹھٹھہ میں سما قوم کی حکومت تھی جس کے بادشاہ نظام الدین سما تھے جسے چھوٹے جام کے نام سے پکارا جاتا تھا۔اس کی حکومت سبی تک پھیلی ہوئی تھی۔

دوسرے بادشاہوں کی طرح انھیں بھی شکارکھیلنے کا شوق تھا اور وہ سیر کے بہانے اپنی حکومت کی سرحدیں دیکھنے اور عوام سے حال معلوم کرنے بھی جایا کرتے تھے ۔ایک دن گرمیوں کے موسم میں وہ شکار کھیلتے ہی گاہا گاؤں کے قریب پہنچے جہاں پر انھیں شدید پیاس نے ستایا اور انھوں نے پانی مانگا تو ایک بچے کوکہا گیا کہ وہ پانی لائیں۔ وہ پانی تو لے آئے مگر اس وقت اس نے پانی والے برتن میں کچھ سوکھے گھانس کے پتے بھی ڈال دیے۔

پیاس کی شدت سے نظام الدین نے پانی تو پی لیا اور جب کچھ دیر ہوئی تو اس نے پوچھا کہ انھیں پانی کس نے دیا تھا کیونکہ اس برتن میں کچھ سوکھی گھانس کے پتے پڑے ہوئے ہیں۔ بچے کو لایا گیا جس پر بچے نے کہا کہ ’’بادشاہ سلامت میں نے جان بوجھ کر پانی میں گھانس ڈالی تھی،کیونکہ اگر آپ وہ پانی جلدی جلدی پی لیتے تو آپ کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔ آہستہ آہستہ پانی پینے سے وہ اس نقصان سے محفوظ رہے۔‘‘

نظام الدین، بچے کی دانشمندی اور بہادری سے متاثر ہوئے اور اپنے ساتھ سندھ کے دارالحکومت ٹھٹھہ لے آئے، پرورش اپنے بیٹے کی طرح کرنے لگے اور ان کا نام دولھا دریا خان رکھا حالانکہ ان کا اصلی نام مبارک علی تھا۔

جام نندو نے دولھ دریا خان کی پرورش اپنے بیٹے اور بہادر سپاہی کی طرح کی تاکہ وہ جوان ہوکر ایک اچھا سپہ سالار بنے اور سندھ کی سرحدوں کی حفاظت کرے اور سما قوم کی حکومت برقرار رہنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ جام نندو اپنے بیٹے جام فیروز کے ہوتے ہوئے بھی دولھا دریا خان کو ساری ذمے داریاں دیتے تھے جس کی وجہ سے نظام الدین کی بیوی مدینہ ماچھی مخالفت کرتی رہتی تھی۔ اپنی اچھی فوجی اور انتظامی صلاحیت کی وجہ سے انھوں نے 50 سال تک حکومت کی اور سندھ حکومت کی سرحدیں آگے تک بڑھاتے رہے اور باہر سے ہونیوالے حملہ آوروں کو شکست دیتے رہے۔

ایک مرتبہ جب سبی پر ارغون بادشاہ شاہ بیگ نے حملہ کیا تو اس وقت سبی سندھ کا اہم حصہ تھا جہاں پر بہادر خان کو کمانڈر اورگورنر بناکر بھیجا گیا تھا۔ جب ارغون اور سندھ کی فوجوں میں لڑائی ہوئی تو 1485ء میں جاری رہنے والی لڑائی دو سال تک چلتی رہی اور آخرکار بہادر خان کو شکست ہوئی اور وہ واپس ٹھٹھہ چلے آئے۔ اس جنگ کی وجہ یہ تھی کہ کچھ تجارت کرنے والوں نے قندھارکے گورنرکوکہا کہ ’’سندھ میں بیوپارکے خیال سے جاتے ہوئے انھیں سبی میں لوٹ لیا جاتا ہے‘‘ جس پر شاہ بیگ ارغون نے اپنے بھائی کو سبی کا گورنر بنا دیا۔ شاہ بیگ ارغون قندھار کے گورنرکا بیٹا تھا۔ اس شکست پر نظام الدین کو بڑا غصہ آیا اور اس نے وزراء کؤنسل کی مشاورت سے دولھا دریا خان کوکمانڈر بناکر سبی کی طرف روانہ کیا گیا جب وہ سبی پہنچے تو انھوں نے فوجی حکمت عملی اور ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے ارغون کی فوج کو شکست فاش دے کر شاہ بیگ ارغون کے بھائی گورنر کو موت کے گھاٹ اتار دیا جس کے بعد سندھ کی حکومت سبی میں بحال ہوگئی۔

اس جیت سے نظام الدین اپنے کمانڈر دولھا دریا خان سے بڑے خوش ہوئے اور انھیں امیر الامرا، وزیر اعظم اور کمانڈر انچیف بنادیا۔ اس بات سے نظام الدین کی بیوی مدینہ خوش نہیں تھی۔ اس کے علاوہ نظام الدین، دریا خان کو بیٹا کہہ کر پکارتے تھے۔ دریا خان نے راٹھور قوم سے تعلق رکھنے والی لڑکی بھون سے شادی کی تھی، جس کا تعلق زیادہ تر اس وقت تھرپارکر سے تھا۔ یہ شادی بھی ملکہ مدینہ کے لیے دریا خان سے دشمنی کا مزید سبب بنی رہی۔ اس کے علاوہ نظام الدین نے مرتے وقت اپنے بیٹے فیروز کو بادشاہی بخش دی مگر حکومت اور انتظام کا کنٹرول دریا خان کے حوالے کیا اورکہا کہ اس کی فیملی کے نگہبان بھی وہی رہیں گے کیونکہ وہ ذہنی اور جسمانی طور پر اچھا کام کرسکتے ہیں۔ جام فیروز میں حکومتی اور انتظامی صلاحیت اچھی نہیں تھی۔

جب فیروز تخت نشین ہوئے تو خوشامدی ٹولے اور اس کی ماں نے کانوں میں زہر بھردیا کہ دولھا دریا خان اقتدار پر قبضہ کرلے گا۔ چار سال کے اندر یہ سازش چنگاری سے شعلہ بن گئی جس کے نتیجے میں دریا خان سے سارے اختیارات جام فیروز نے خود لے لیے۔اس صورتحال کی وجہ سے دریا خان 1512ء میں ٹھٹھہ چھوڑکر اپنے گاؤں گاہا چلے آئے اور وہاں رہنے لگے۔ اس گاؤں کے نزدیک مخدوم بلاول کا مدرسہ بھی تھا جس کی وجہ سے ان کی ملاقاتیں مخدوم بلاول کے ساتھ اکثر ہوتی تھیں۔ ملاقاتوں کے دوران دونوں سندھ کی سیاسی حالت اور اس کے مستقبل کے بارے میں بحث و مباحثہ کرتے رہتے تھے۔

جام فیروز کی نا اہلی کی وجہ سے سما حکومت کمزور ہوتی جا رہی تھی جسے دیکھ کر جام فیروز کے کزن صلاح الدین نے گجرات کے حکمران کو خط لکھ کر سندھ پر حملہ کرنے کی دعوت دی، وہ ایک بڑا لشکر لے کر ٹھٹھہ پر حملہ آور ہوا، جس کی وجہ سے جام فیروز تخت چھوڑ کر بھاگ گئے اور صلاح الدین کو حکمران بنایا گیا۔ جب جام فیروزکو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ اپنی ماں کو لے کر دریا خان کے پاس گئے اور اسے راضی کرکے واپس لے آئے۔ دریا خان نے علاقے کے اثر و رسوخ والے طاقتور لوگوں کو اکٹھا کیا اور بھکر کے حکمران سے بھی مدد حاصل کی اور ٹھٹھہ پر حملہ کرکے صلاح الدین کو شکست دے کر بھگا دیا اور دوبارہ جام فیروز کو حاکم بنوایا۔

کچھ عرصے کے بعد کم عقل جام فیروزکو پھر خوشامدی لوگوں نے بھڑکایا اور اس کی ماں کے دل میں بھی دوبارہ خوف کی لہر اٹھی کہ کہیں دوبارہ دریا خان طاقتور نہ بن جائے اور تخت پر قبضہ نہ کرلے اور وہ قندھارکے گورنر شاہ بیگ ارغون کو حملے کی دعوت دے آئے۔ اب 1520ء میں شاہ بیگ نے ٹھٹھہ پر حملہ کردیا۔ پھر جام فیروز اپنی ماں کے ساتھ وہاں سے فرار ہوگیا لیکن دریا خان نے اپنی عزت، سما کی حکومت کو بچانے کے لیے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

12 دسمبر 1520ء میں سموئی کے میدان میں شاہ بیگ کی فوج اور دریا خان کی سربراہی میں سندھ کے لشکر کے درمیان بڑی جنگ چھڑ گئی اور یہ لڑائی کئی دن چلتی رہی اور جب شاہ بیگ نے دیکھا کہ وہ دریا خان کو شکست نہیں دے پائیں گے اور نہ ہی اسے قتل کرسکتے ہیں تو اس نے سازش کے طور پر جنگ بندی کا اعلان کیا اور بات چیت کے ذریعے حالات کو حل کرنے کی دعوت دی۔ جب دریا خان اکیلا ان کے پاس پہنچا تو اسے دھوکے سے وارکرکے مار دیا گیا۔ یہ صورتحال دیکھ کر لوگوں میں مایوسی چھا گئی مگر پھر بھی کچھ بہادر سپاہیوں نے جس میں ان کے بیٹے بھی شامل تھے مقابلہ کرکے جام شہادت نوش کیا۔

دریا خان کا مقبرہ مکلی قبرستان میں ہے جہاں پر صرف کچھ لوگ آکر ہر سال اسے خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اس کی قبر پر پھول چڑھاتے ہیں جب کہ حکومت سندھ اور دوسرے افراد کی طرف سے نہ توکوئی تقریب منعقد ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی اس تاریخی بہادر شخصیت کو یاد کرتا ہے جو ایک المیہ ہے بلکہ نوجوان نسل تو اس سپوت کے بارے میں جانتی ہی نہیں۔

The post سندھ کا سپوت، دولھا دریا خان appeared first on ایکسپریس اردو.

تحریک انصاف اور ق لیگ میں اختلاف کی کہانی

$
0
0

مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف کے درمیان اختلافات کی خبریں زبان زد عام ہیں۔مسلم لیگ (ق) کے بیانات واضح ہیں۔ اب اختیار چوہدری برادران کے پاس ہے کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد چلانا چاہتے ہیں یا نہیں۔ ویسے یہ اختیار ہمیشہ سے ہی چوہدری برادران کے پاس ہی تھا۔ لیکن پھر بھی اب مسلم لیگ (ق) نے رسمی طور پر بھی یہ اختیار چوہدری برادران کو دے دیا ہے۔

سیدھا سوال تو یہی ہے کہ کیا چوہدری برادران یہ اتحاد توڑ دیں گے۔ میری رائے میں اس کی بنیاد پڑ گئی ہے۔ اتحاد ٹوٹنے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ کب اور کیسے کا سوال باقی ہے۔

چوہدری برادران کوئی نا تجربہ کار سیاستدان نہیں ہیں۔ سیاست ان کے گھر سے شروع ہوتی ہے اور ان کے گھر پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ انھیں اتحاد بنانے اور توڑنے کا عمل بخوبی آتا ہے۔ وہ نہ کوئی جذباتی سیاست کرتے ہیں اور نہ ہی سیاست میں جذباتی فیصلہ کرنے کے عادی ہیں۔ سوچ سمجھ کر کھیلنا ہی ان کی پہچان ہے۔ وہ مشکل حالات میں بھی تحمل اور برداشت کا دامن نہیں چھوڑتے اور اچھے حا لات میں ان کے مزاج کی نرمی بڑھ جاتی ہے۔ غصہ کی ان کی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

دوسری طرف تحریک انصاف کے اندر سیاست نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ وہاں اتحاد چلانے کا کسی کو کئی تجربہ نہیں ہے۔بدتمیزی عروج پر ہے جس میں سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ اتحادیوں کی عزت بھی محفوظ نہیں ہے۔ہوش کا کوئی ذکر نہیں بلکہ ہر معاملہ جوش سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جذباتیت اور غصہ کا دور ہے۔ تحمل اور برداشت کا کوئی نام و نشان نہیں۔ ہر کسی کو نشانہ بنانے کا رواج عام ہے۔

ایسے میں یہ اتحاد کیسے چل سکتا تھا۔ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ اتحاد پہلے دن سے چوہدری برادران کے لیے گھاٹے کا سودا تھا۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی بننا چوہدری پرویز الہیٰ کے شایان شان نہیں تھا۔ وہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے لیے بہترین امیدوار تھے۔ ق لیگ کی عددی حیثیت کا بھی یہی تقاضہ تھا کہ ق لیگ وزارت اعلیٰ سے کم پر نہ مانتی۔ لیکن بہت سی ان کہی مجبوریوں نے چوہدری برادران کو اسپیکر کا عہدہ قبول کرنے پر مجبور کر دیا۔ یہ ایک کڑوی گولی تھی۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تحریک انصاف چوہدری پرویز الٰہی کی اس قربانی پر ان کی شکر گزار ہوتی لیکن ناتجربہ کاروں کی یہ ٹیم یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی رہی ہے کہ چوہدریوں کو بہت زیادہ اکاموڈیٹ کر دیا گیا ہے۔ چوہدری پرویز الہی کا شکر گزار ہونے کے بجائے انھیں نظر اندار کرنے کی حکمت عملی شروع کر دی گئی ۔ یہ تو  چوہدریوں کی شرافت ہے کہ اب تک حکومت قائم ہے ورنہ حکومت گرانے کا فن چوہدری بخوبی جانتے ہیں۔

میرے خیال میں پنجاب میں سینیٹ کے انتخابات میں بھی تحریک انصاف نے چوہدریوں کو نظر انداز کیا ہے۔ چوہدری شجاعت کو سینیٹ کا ٹکٹ دیا جانا چاہیے تھا۔ ان کی سینیٹ میں موجودگی حکومت کے لیے بہت فائدہ مند ہو سکتی تھی۔ وہ سینیٹ کا ماحول بہت بہتر کر سکتے ہیں۔ وہ ہر ایک کے لیے قابل احترام ہے۔ اور سینیٹ میں ایسی کوئی شخصیت نہیں جو سینیٹ میں حکومت کی کمزور پوزیشن کو سنبھال سکے۔ لیکن شاید تحریک انصاف کے اندر نہ تو سیاسی سوچ ہے اور نہ ہی سیاسی سمجھ بوجھ۔

اب سوال یہ ہے کہ ق لیگ کو کیا تحفظات ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ق لیگ کو اندازہ ہو گیا ہے کہ شرافت اور رواداری سے تحریک انصاف کو بات سمجھ نہیں آسکتی۔ اس وقت قومی اسمبلی اور پنجاب کا منظر نامہ ایسا ہے کہ اگر ق لیگ آج حکومتی اتحاد سے الگ ہو جائے تو مرکز اور پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ختم ہو جائے گی۔ یہ دونوں حکومتیں ق لیگ کے ناتواں کندھوں کے ووٹوں پر کھڑی ہیں۔لیکن دیکھا جائے تو ق لیگ کو ہی حکومت میں سب سے کم حصہ ملا ہے۔ کیا کوئی سوال کر سکتا ہے کہ جب مرکز میں سب اتحادیوں کو دو دو وزارتیں دی گئی ہیں تو ق لیگ کو تو دو وزارتیں نہیں دی گئی ہیں۔ اس امتیازی سلوک کی کیا وجہ ہے۔ ایم کیو ایم کے پاس بھی دو وزارتیں ہیں۔ لیکن ق لیگ کے پاس ایک وزارت ہے۔

پنجاب کا منظر نامہ تو سارا ق لیگ پر ہی مرکوز ہے۔ مرکز میں تو دوسری جماعتیں بھی تحریک انصاف کی اتحادی ہیں لیکن پنجاب میں تو ق لیگ تحریک انصاف کی واحد اتحادی ہے۔ اور پنجاب حکومت کا سارا دارومدار ہی ق لیگ پر ہے۔ آج ق لیگ منہ موڑ لے تو تحریک انصاف کی پنجاب حکومت ختم۔ ایسے میں وزارت اعلیٰ ق لیگ کا حق بنتا تھا۔ لیکن نہ دی گئی۔ اس کے بعد آدھی وزارتیں ق لیگ کا حق تھا۔ ان کے بغیر یہ حکومت بن ہی نہیں سکتی تھی۔ بلکہ وعدے کے مطابق دو وزارتیں بھی نہ دی گئیں۔

تحریک انصاف کے ذمے داران سے جب ق لیگ سے اختلاف کے بارے میں پوچھا تو آف دی ریکارڈ بتاتے ہیں کہ دو وزارتیں مانگ رہے ہیں۔ جب ہم پوچھتے ہیں کہ کیا حصے سے زیادہ مانگ رہے ہیں تو وہ کہتے ہیں نہیں وعدہ کیا تھا لیکن حکمت عملی یہی ہے کہ ذرا ترسا ترسا کر دی جائیں۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ یہ کیا حکمت عملی ہے۔ یہ کوئی حکمت عملی نہیں بلکہ سیاسی خود کشی ہے۔ اس کو اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مارنا کہتے ہیں۔

ق لیگ کو یہ بھی گلہ ہے کہ ان کے ارکان اسمبلی کے انتخابی حلقوں میں بے جا مداخلت کی جا رہی ہے۔ ذرایع کے مطابق تحریک انصاف ایک حکمت عملی کے تحت ق لیگ کے ارکان اسمبلی کے انتخابی حلقوں میں اپنے لوگوں کو مضبوط کر رہی ہے تاکہ اگلے انتخابات میں ق لیگ سے یہ حلقے بھی چھینے جا سکیں۔ یہ کیسا اتحاد ہے جس میں ایک بڑا اتحادی اپنے دوسرے چھوٹے اتحادی کا گلا دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔اس کو جان سے مارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے میں اگر ق لیگ کو اپنے حلقے بچانے ہیں تو تحریک انصاف سے جان چھڑانی ہوگی ۔

اس وقت ملک کا سیاسی منظر نامہ بدل رہا ہے۔ مینگل اپوزیشن کی طرف جا چکے ہیں۔ ایم کیو ایم کے انداز بھی بدل رہے ہیں۔ ایسے میں ق لیگ کے ہاتھ میں ساری گیم ہے۔ آج ق لیگ یہ اعلان کر دے کہ وہ بھی جا رہی ہے۔ تو گیم ختم۔ لیکن مجال ہے تحریک انصاف کو اس کا احساس بھی ہو۔ وہ کہتے ہیں نا جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا۔ آج بھی یہی صورتحال ہے۔

چوہدری پرویز الہی کل بھی اس پوزیشن میں تھے کہ وہ اپوزیشن کی مدد سے وزیر اعلیٰ بن سکتے تھے۔ ن لیگ انھیںگھر آکر وزارت اعلیٰ دینے کے لیے تیار تھی۔ وہ زرداری کو قابل قبول ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ دیر چوہدری پرویز الہی کی طرف سے ہی ہے۔ تحریک انصاف کے ناعاقبت اندیش پنجاب میں بزدار کو تبدیل کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ انھیں یہ اندازہ نہیں اب پنجاب میں وزارت اعلیٰ تبدیل ہوئی تو چوہدری پرویز الہی ہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہونگے۔ ایسا بھی منظر نامہ بن سکتا ہے کہ چوہدری پرویز الہیٰ پنجاب کے متفقہ وزیر اعلیٰ بن جائیں ۔ پرویز الہیٰ کے وزیر اعلیٰ بننے سے پنجاب کا سیاسی درجہ حرارت کنٹرول میں آجائے گا۔ کسی بھی قومی حکومت کے اسکرپٹ میں بھی پنجاب اور مرکز میں ق لیگ کی کلیدی حیثیت ہو گی۔

ن لیگ اور ق لیگ کے درمیان برف پگھل چکی ہے۔ گلے شکوے دور ہو گئے ہیں۔ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی نہ کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ باہمی احترام کا معاہدہ ہو گیا ہے۔ سیاست پر نظر رکھنے والے اس فرق کو سمجھ رہے ہیں۔ انھیں خواجہ سلمان رفیق کے پروڈکشن آرڈر پر ن لیگ کی خوشیاں بھی نظر آرہی ہیں۔ ن لیگ کے ساتھ مل کر چوہدری نثار علی خان کا راستہ بھی روکا جا رہاہے۔ یہ صرف چوہدری نثار علی خان کا راستہ نہیں روکا گیا بلکہ چوہدری پرویز الہی کے لیے راستہ صاف کیا گیا ہے۔

The post تحریک انصاف اور ق لیگ میں اختلاف کی کہانی appeared first on ایکسپریس اردو.

بچوں کا ادبی جشن

$
0
0

میں توڑ توڑ کے خود کو بناتا رہتا ہوں
اب ایک عمر ہوئی پھر بھی بچپنا نہ گیا

کھلنڈرا سا کوئی بچہ ہے دریا
سمندر تک اچھلتا جا رہا ہے

زندگی اک دکاں کھلونوں کی
وقت بگڑا ہوا سا بچہ ہے

اس طرح کے بہت سے اشعار ذوق شعر رکھنے والوں کی نظروں سے یقیناً گزرے ہوں گے اس کے ساتھ ساتھ بچوں سے محبت کے حوالے سے بہت سی روح کو چھونے والی باتیں بھی مختلف حوالوں سے کانوں میں پڑتی رہتی ہیں مگر ایک معاشرے اور قوم کے حوالے سے (جذباتی خطابت اور مظاہر کو چھوڑ کر) بچوں کے سلسلے میں جس عمومی غیر ذمے داری کا مظاہرہ ہم لوگ کرتے ہیں وہ بھی اپنی جگہ پر کسی مثال سے کم نہیں۔ درسی تعلیم سے متعلق مسائل اپنی جگہ مگر جہاں تک صحت‘ اخلاقیات‘ جمالیات اور معاشرتی آداب کے حوالے سے تربیت کا تعلق ہے۔

اس میں ہم تیسری دنیا کے لوگ کم و بیش ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ ایسے میں بچوں کے لیے ادبی جشن کا انعقاد یقیناً ایک خوشگوار حیرت کی حامل خبر ہے کہ اس میں بچوں کی ادبی صلاحیتوں کو نکھارنے کے ساتھ ساتھ مختلف طرح کی دلچسپ اور تعمیری تفریحات کا انتظام بھی کیا گیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پورے پروگرام میں ہر ہر سطح پر ’’تربیت‘‘ کے پہلو کو اہمیت اور فوقیت دی گئی ہے۔

انگلش میڈیم کو پرائمری سطح پر ذریعہ تعلیم بنانے سے جو نقصانات ہمارے نظام تعلیم میں راہ پا رہے ہیں ان میں سے میرے نزدیک سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ ہمارے بچے اپنی زبان پڑھنے‘ سیکھنے اور بعض صورتوں میں بولنے سے بھی دور ہو گئے ہیں اور یوں وہ سارا تہذیبی خزانہ اور ماحول ان کے لیے ایک کہانی بن کر رہ گیا ہے جس کے وہ خود بھی ایک حوالے سے کردار ہیں۔ سو اپنے آپ اور اپنی تاریخ و تہذیب سے یہ بے خبری ان کو ایک ایسی دنیا میں لے گئی ہے جہاں کے آداب اگر کوئی ہیں بھی تو وہ ان کے خمیر کا حصہ نہیں ہیں۔

اس طرح کے میلے اور تقریبات اپنے پھیلاؤ اور دورانیے کی کمی کے باوجود بچوں سے زیادہ بڑوں کو اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ انھیں کیا کرنا چاہیے تھا اور وہ کیا نہیں کر رہے۔ یوں تو تقریباً ہر لٹریری فیسٹیول میں بچوں کے ادب کو شامل کیا جاتا ہے مگر خاص طور پر بچوں کی ذہنی تربیت کے لیے بہت کم مواقعے پیدا کیے جاتے ہیں۔ بیلا رضا جمیل اور ان کے ساتھیوں کا ہدف صرف اور صرف بچے‘ ان کی تربیت‘ تفریح اور ادب ہے سو میں ان کی ترتیب یافتہ تقریبات میں شمولیت کو اپنی بیشتر مصروفیات پر ترجیح دیتا ہوں کہ یہ لوگ نئی اور پرانی نسل اور سابقہ اور موجودہ نظام ہائے تعلیم کے درمیان ایک پل بنانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں جو میرے نزدیک وقت اور اس مسئلے کے حل کی سب سے بڑی ضرورت ہیں۔

اتفاق سے اس بار کا یہ ادبی میلہ چلڈرن لائبریری کمپلیکس لاہور میں سجایا گیا (واضح رہے کہ اس سلسلے کا پہلا میلہ جو 2011ء میں ہوا اس کا وینیو بھی یہی ادارہ تھا) اس ادارے اور اس کی عمارت کے ساتھ میرا ایک ذاتی اور جذباتی تعلق یوں بھی بنتا ہے کہ میں 2000ء سے 2004ء تک اس ادارے کا پراجیکٹ ڈائریکٹر رہ چکا ہوں۔ اس زمانے کے بہت سے لوگ اب کسی نہ کسی وجہ سے وہاں نہیں ہیں مگر جو اب تک ہیں ان سے مل کر بہت اچھا لگا، اکثر کی شکلیں اور حلیے بہت بدل چکے ہیں اور کچھ کے نام بھی ذہن سے اتر گئے ہیں مگر ان کی محبت کے اظہار اور چہروں پر بکھری خوشی کو دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ انسانی رشتوں میں یہ باہمی محبت اور خوشگوار یادیں ہی سب سے زیادہ معنی رکھتی ہیں۔

اس دوران میں وہاں خصوصی بچوں کے لیے بنایا گیا وہ حصہ بھی مکمل اور فنکشنل ہو چکا ہے جس کا سنگ بنیاد میری موجودگی میں رکھا گیا تھا۔ اگرچہ فی الوقت بیلا جمیل اینڈ کمپنی نے ہر طرف بینر‘ پوسٹر اور اسٹالز وغیرہ لگا رکھے تھے جس کی وجہ سے عمارت کا حلیہ خاصا بدلا بدلا نظر آ رہا تھا مگر یہ جان اور دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اس میں نہ صرف کئی نئے شعبوں کا اضافہ کیا گیا ہے بلکہ عمومی طور پر اسے زیادہ سے زیادہ بچوں کے لیے قابل استعمال بنانے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔

جہاں تک اس بچوں کے ادبی جشن کا تعلق ہے‘ اس کے ضمن میں بہت سے پروگرام عمارت کے اندر اور باہر بیک وقت چل رہے تھے۔ سردی اور بارش کے متوقع خطرات کے باوجود بہت بڑی تعداد میں بچے نہ صرف وہاں موجود تھے بلکہ مختلف اسکولوں کی بسیں اس میں مسلسل اضافہ بھی کرتی چلی جا رہی تھیں۔

پروگرام کی انچارج بیلا رضا جمیل اور چلڈرن کمپلیکس کی ڈائریکٹر ڈاکٹر عائشہ نے افتتاحی اجلاس میں اور باتوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے ادب کہانی نویسی اور لکھنے کی تربیت کے حوالے سے ترتیب دیے گئے مختلف پروگراموں کی تفصیل بتائی جو بہت دلچسپ اور خیال افروز تھی جب کہ میں نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہم اور توجہ طلب بات بچوں کی اردو اور اپنی مادری زبانوں کے رسم الخط سے آگاہی اور ان میں لکھنے کی مشق ہے اور یہ کہ انگریزی کو ذریعہ تعلیم کے بجائے صرف ایک زبان کے طور پر پڑھایا جائے تاکہ بچوں کا ذہن مختلف اشیا اور تصورات کا براہ راست ادراک کر سکے اور یہ کہ ان کو سوال کرنے اور اپنے دماغ سے سوچنے کی تربیت دی جائے جس کا بہترین اور موثر ترین طریقہ وہی زبان ہو سکتی ہے جس کا تعلق ہماری اپنی تاریخ‘ جغرافیے‘ تہذیب اور معاشرت سے ہو اور یہ کہ وہ علم‘ زبان اور کتاب سے محبت کرنا سیکھ سکیں۔ سینئر اور محترم شاعرہ زہرہ نگاہ نے اس CLF یعنی چلڈرن لٹریری فیسٹیول کے لیے خصوصی طور پر ایک ترانہ لکھا ہے جو بچوں کی ادب سے محبت کا بھرپور اور مکمل ترجمان ہے اس کا کچھ حصہ اس طرح سے ہے کہ

ہمیں کتاب چاہیے‘ ہمیں کتاب چاہیے

جو زندگی بدل دے ہم کو وہ نصاب چاہیے

ہمارے ذہن و فکر کو جو علم کا دیا ملے

تو اس کی روشنی میں ہم کو ایک راستہ ملے

وہ راستہ کہ جس پہ چل کے ملک جگمگا اٹھے

جو زندگی بدل دے ہم کو وہ نصاب چاہیے

جہاں کو امن و آشتی کے گیت ہم سنائیں گے

محبتوں کے‘ پیار کے‘ دیے سدا جلائیں گے

جو نیند سے جگائے ہم کو ایسا خواب چاہیے

جو زندگی بدل دے ہم کو وہ نصاب چاہیے

ہمیں کتاب چاہیے‘ہمیں کتاب چاہیے

The post بچوں کا ادبی جشن appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان پیپلز پارٹی تاریخ کے آئینہ میں

$
0
0

اقبال یوسف پیپلز پارٹی کے ان روشن خیال جیالوں میں سے ہیں جو جمہوریت، انقلاب ، تبدیلی اور عوام کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی 50 سالہ ارتقائی داستان لکھتے ہوئے انھوں نے اپنی اس گراں قدرکتاب کے فلیپ پر شہید بھٹو کے آخری خط کا عکس چھاپا ہے جو ڈسٹرکٹ جیل پنڈی میں قید بے نظیربھٹو کے نام تھا۔ کتاب کے مطابق اس خط میں ذوالفقار علی بھٹو نے لکھا تھا۔

’’میری سب سے پیاری بیٹی، تمہارے دادا نے مجھے فخرکی سیاست سکھائی ۔ تمہاری دادی نے مجھے غربت کی سیاست کا سبق دیا ۔ میں دونوں باتوں کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہوں تاکہ ان دونوں کا انضمام ہوسکے۔ میں تمہیں صرف ایک پیغام دیتا ہوں۔ یہ پیغام آنے والے دن کا پیغام ہے اور تاریخ کا پیغام ہے۔ صرف عوام پر یقین کرو۔ ان کی نجات و مساوات کے لیے کام کرو۔اللہ تعالی کی جنت تمہاری والدہ کے قدموں کے نیچے ہے اور سیاست کی جنت عوام کے قدموں تلے ہے۔‘‘

اقبال یوسف کا کہنا تھا کہ 30 نومبر2016کو پاکستان پیپلز پارٹی اپنے قیام کی 49 ویں سالگرہ اور 50 واں یوم تاسیس منا رہی تھی، اسی طرح 30 نومبر2016 سے 30 نومبر2017 تک یہ عرصہ پی پی کا گولڈن جوبلی سال رہا۔ وہ اپنے کتاب کے ابتدائی باب میں اس بات کا اعترف کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کا دوسرا نام بھٹو ہے۔

اقبال یوسف نے انکشاف کیا کہ ون یونٹ سابق وزیراعظم فیروزخان نون کے تخیل کا نتیجہ تھا، 25 نومبر 1954کو ایک اور سابق وزیر اعظم محمد علی بوگرا نے ریڈیو پاکستان سے اپنی تقریر میں اس تجویز کو دہرایا جب کہ صوبہ سرحد نے اس کی منظوری کا اعلان کیا اور 30 نومبر کو پنجاب اسمبلی نے اس کی ہمہ گیر حمایت کی۔ سندھ میں وزیراعلی سندھ عبدالستار پیرزادہ رکاوٹ بنے تو انھیں برطرف کرکے ایوب کھوڑو کو وزیراعلیٰ بنایا گیا اور 11 دسمبر1954کو صوبہ سندھ کو ون یونٹ میں ضم کرنے کی قرارداد سندھ اسمبلی میں پیش ہوئی ۔

سینئر صحافی محمود شام لکھتے ہیں کہ اقبال یوسف کی پی پی سے وابستگی اور وفاداری کا منظر مجھے کبھی نہیں بھولتا جس نے اپنی جوانی اور بھیگی راتیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے گذاریں۔ صاحب کتاب پیپلز پارٹی کے اعلیٰ عہدوں پر رہے، سندھ کے سیکریٹری جنرل،کراچی کے صدر، وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر، ان تمام مناصب پر ہوتے ہوئے سرکاری گاڑیوں، دفاتر اور عملے کے باوجود اقبال یوسف سے پارٹی کارکن جب چاہے مل سکتے تھے،کوئی دربان راستہ نہیں روکتا تھا، وہ کبھی لیاری میں مصروف دکھائی دیتے،کبھی رنچھوڑ لائن ، کبھی لیاقت آباد میں ۔

پیپلزپارٹی کی عہد ساز اور تحیر خیز سیاسی جدوجہد بلاشبہ ملکی تاریخ کا اہم باب ہے، بھٹو نے پارٹی کی بنیاد رکھی ، ملک کے قابل قدر سیاسی مفکرین ، دانشوروں ، سیاسی رہنماؤں اور بے لوث کارکنوں کو اکٹھا کیا ، ایوبی آمریت کو للکارا ، تیسری دنیا اور مشرق وسطیٰ سمیت ملکی سیاسی اشرافیہ اور سپر پاورزکو پاکستان کی سیاسی اہمیت اور حمیت کے حوالے سے خبردار کیا کہ وقت اب سامراجی گماشتوں کے زیادہ دیر قبضے میں نہیں رہے گا۔

بھٹو تاریخی عوامل، فرسودہ و استحصالی سیاسی و سماجی نظام، درد انگیز ملکی زمینی حقائق ، سیاسی گڑگڑاہٹ ، غریب و مظلوم عوام کی بے بسی اور برصغیرکی سیاسی جدلیات کا گہرا شعور رکھتے تھے، جن لوگوںنے بھٹو کے مضامین پر مبنی کتاب ’’آزادی ٔ موہوم‘‘ myth of independence پڑھی ہے وہ جانتے ہونگے کہ قوم نے ایک خلاق ذہن سیاست دان کو کس سج دھج سے سر مقتل جاتے دیکھا۔ اقبال یوسف نے پی پی کے جس قائد کی داستان ان پچاس سالہ ارتقائی ادوار میں بیان کی ہے وہ پیپلز پارٹی اور عوام کے درمیان گہرے رشتوں کی انمٹ کہانی ہے، پی پی کی تاریخی جدوجہد اور قربانیوں کوکوئی ذی شعور اہل قلم بہ یک جنبش قلم یا کوئی ناطقہ اسے لفظی تکرار اور پی پی سے بغض  للہی کے تناظر میں نظر انداز نہیں کرسکتا۔

زیر نظر کتاب میں اقبال یوسف پیپلز پارٹی کی اساسی دستاویزات کی سنجیدگی، سیاسی و سماجی تبدیلی کے لیے انقلابی جوش وجذبوں کے ان گوشوں کو منظر عام پر لائے جو سیاست کے طالب علموں کے لیے فکری اثاثوں کی حیثیت رکھتے ہیں، قارئین کتاب کے مطالعے کے بعد خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مصنف نے محنت ، عرق ریزی، باریک بینی ، لگن اور ریاضت سے 50 سالہ تاریخ کی ترتیب وتدوین،تالیف وتخلیق میں کتنا خون جگر صرف کیا ہے، کتاب کے ابواب بتاتے ہیں کہ پی پی کی سیاسی جدوجہد محض ایک آمرکے ہٹانے کی مہم جوئی نہیں تھی، بلکہ پی پی نے ایک کہنہ سسٹم کو جو عوام کی امنگوں اور ان کے خوابوں کو چاٹ رہا تھا اسے زمین بوس کرکے ایک نئے عہد کا آغاز کرنا تھا۔ یہ انقلاب زمانہ تھا ، پی پی تبدیلی کی علامت بن کر نمودار ہوئی ۔ ملک میں غیر معمولی ارتعاش کی حامل صورتحال رجعت پسندوں کے لیے دائمی ہزیمت و پسپائی کی کال تھی۔

اقبال یوسف نے تین نسلوں پر محیط سیاسی سفرکا نقشہ کھینچا ہے، وہ ایلین راوی نہیں، پارٹی کے ضمیر میں موجود ایک مستقل خلش کی طرح واقعات وحادثات کی ریکارڈنگ کرتے نظر آتے ہیں جن کی معروضیت متنازع نہیں، سیاسی کارواں کے ہر مرحلے کی تفصیل مضبوط حوالوں سے مزین ہے۔ جوکردار ان واقعاتی تسلسل کا حصہ رہے ہیں وہ بھی چونک اٹھے ہیں کہ کون ان کے ماضی کی شاندار سیاسی تاریخ کے بندکواڑ کھول رہا ہے۔

ممتاز شاعر اسلم گورداس پوری نے تخلیقی اور سیاسی سفر پر اپنے انداز سے خامہ فرسائی کی ہے، ان کا انداز نظر بھی قیمتی ہے، تاہم اقبال یوسف کا ٹاسک مختلف ہے۔ وہ مورخ کی سی جہاں دیدگی کے ساتھ ملک کی ایک غیر روایتی سیاسی جماعت کے قائدکی ولولہ انگیز قیادت میں سیاسی کایا پلٹ کے داستان گو ہیں۔

اس کہانی کے حقیقی واقعات اخباری تراشوں، معتبر حوالوں ، پارٹی دستاویزات تک رسائی، تحقیقی شفافیت صائب ہے، جب کہ پارٹی رہنماؤں سے حاصل ہونے والی بیش بہا معلومات ، انکشافات اور واقعات کی صحت وصداقت کے ناقابل تردید مسلمات بھی متوازن ہیں۔ یوسف اقبال کی تحقیقی کاوش ان کی کتاب ’’کراچی پیپرز ‘‘ سے نمایاں ہوئی جس میں ایم کیو ایم کے قیام ،اس کی شہر قائد پر غیر مرئی حکمرانی اور حیدرآباد ، لطیف آباد سمیت اندرون سندھ نیٹ ورک کی مضبوطی کے شواہد اور تفصیلات چونکا دینے والے تھے۔ان کی اس کتاب کے بارے میں کہا گیا کہ کراچی کو آج کوئی جاننا چاہے کہ اس کے عروج وزوال اور انتشارکے کیا اسباب ہیں تو کراچی پیپرز ہی سب سے زیادہ معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے پچاس سال اس اعتبار سے ایک تاریخی سند کا درجہ رکھتی ہے۔کتاب کے ادوارکی ترتیب قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث بنتی ہے، پوری داستان ایک ناول کی دلچسپی لیے انتہائی سلیس اور دلنشین طرز اسلوب کی جملہ خوبیاں لیے ہوئے ہے۔

پارٹی کے قیام ، اس سے متعلق بنیادی دستاویز، جدوجہد کے آغاز، ایوبی آمریت کا خاتمہ ، یحییٰ خان کے مارشل لاء،جنوری 1970 سے انتخابی جدوجہد ، انتخابات میں کامیابی اور پھر سقوط ڈھاکا کے دل ہلادینے والے واقعات کے سیاق وسباق میں ملکی سیاست کے پر آشوب منظر نامہ کی عکاسی کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ شکستہ پاکستان، انقلابی اقدامات ،73 کے متفقہ آئین کی تیاری و منظوری، آئین کے نفاذ، تعمیر نو، اقتصادی ترقی، سے لے کرضیاالحق کی تقرری، سازش کے آغاز،  حکومت مخالف تحریک ،5 جولائی1977کے مارشل لاء، پی پی حکومت کے خاتمہ، اپنوں کی بے وفائی،کوڑے ، پھانسی اور قید وبند کی سزاؤں، بھٹوکے عدالتی قتل، بیگم نصرت بھٹو ، بے نظیربھٹوکی قربانیوں، اسیری اورجلاوطنی کے واقعات وحقائق جمع کیے گئے ہیں۔

شاہنواز بھٹو کے قتل، غیر جماعتی انتخابات ، محترمہ بے نظیرکی 1986میں فقیدالمثال واپسی، بے نظیر کی شادی، جنرل ضیا کے طیارے کے حادثے میں ہلاکت ، غلام اسحاق خان اور مرزا اسلم بیگ کی حکومت،1988کے انتخابات اور بے نظیر کی عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم کا اعلان کتاب کے اہم ابواب میں سے ہیں۔ کتاب کراچی میں قتل و غارت،آئی جے آئی کی حکومت کے قیام، بے نظیرکی حکومت کے خلاف آئی جے آئی کی تحریک ،آئی جے آئی حکومت کے خاتمہ، 1993 کے انتخابات، بے نظیر کی دوسری بار وزرات عظمیٰ ، مرتضیٰ بھٹوکی وطن واپسی، قتل ، صدر فاروق لغاری کی بے وفائی سمیت نواز شریف کا دوسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونا ، بے نظیرکی پھر سے جلاوطنی، پرویز مشرف کا اقتدار پر قبضہ، نواز شریف کی گرفتاری، جیل اور جدہ جلاوطنی، میثاق جمہوریت ، NRO ، بے نظیر کی وطن واپسی، سانحہ کار ساز ، بے نظیرکی شہادت اور 2018 کے انتخابات کتاب کو دی اینڈ تک پہنچاتے ہیں۔

حقیقت میں پیپلز پارٹی کے پچاس سال موجودہ سیاسی سیٹ اپ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اس چشم کشا کتاب کی ورق گردانی سے پی ٹی آئی حکمراں جماعت اور سیاست کے طالب علموں پر یہ راز کھلے گا کہ پیپلز پارٹی ، ملکی سیاست کے کتنے ’’بروٹسوں‘‘ سے برسرپیکار رہی ہے۔

The post پاکستان پیپلز پارٹی تاریخ کے آئینہ میں appeared first on ایکسپریس اردو.

بھارتی حکمرانوں کا ذہنی افلاس

$
0
0

کائنات میں ہماری دنیا یعنی کرہ ارض جیسے کروڑوں نہیں بلکہ اربوں سیارے ہیں ، کائنات میں ہمارے نظام شمسی جیسے کروڑوں نظام شمسی ہیں جن کی عمرکا اندازہ کرہ ارض کی عمرکے تناظر میں کیا جاسکتا ہے۔

میں اپنے کالموں میں وقتاً فوقتاً کرہ ارض نظام شمسی اور کائنات کا ذکر کرتا رہتا ہوں پاکستان کی بائیس کروڑ اور دنیا کی 7 ارب آبادی میں مشکل سے 4-3 فیصد آبادی ایسی ہوگی جو کائنات دنیا نظام شمسی وغیرہ کے بارے میں جانتی ہو باقی 90 فیصد سے زیادہ آبادی اس حوالے سے ناخواندہ ہے۔ پسماندہ ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے اس حوالے سے کس قدر نالج رکھتا ہے اس کا اندازہ اس ناگوار حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ لاکھوں پاکستانیوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ پاکستان کی آبادی کیا ہے؟ بڑے شہروں کے نام کیا ہیں اور بڑے شہر کتنے ہیں۔

کائنات کے علم کے ساتھ ہماری ذہنی پسماندگی جڑی ہوئی ہے، ہماری بہت ساری روایات رسم و رواج حتیٰ کہ بعض عقائد بھی کائنات کے علم سے لاعلمی کی وجہ ہماری زندگی کا حصہ بنے ہوئے ہیں، مثلاً زمین گول ہے یا چپٹی ۔ چاند کے دھبے کیا ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ آج اصل میں ہمارے کالم کا موضوع بھارتی حکمرانوں کا ذہنی افلاس ہے، اس موضوع کے انتخاب میں عقائد و نظریات کا براہ راست کوئی تعلق نہیں لیکن بات نظریات کی آتی ہے تو پھر سیکولرزم ہمارے سامنے آتا ہے جو بھارت کا فکری مرکز ہے۔

سیکولرزم کا عمومی مطلب حکومت کی مذاہب اور عقائد سے غیر جانبداری لیا جاتا ہے۔ لیکن یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ بھارت ہر آنے والے دن زیادہ مذہبی ہو رہا ہے۔ بھارت کی ابتدائی حکومتوں میں روشن خیال رہنما تھے لیکن آہستہ آہستہ ان کی جگہ لینے والے مذہبی اور مذہبی انتہا پسند ہوتے چلے گئے اور اب بھگوان کی کرپا سے کٹر مذہبی ہوتے جا رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بھارت ایک کٹر مذہبی ملک بنتا جا رہا ہے۔

بھارت کی اسی مذہبیت اور سامراجی ذہنیت کی وجہ 70 ہزار کشمیری جان سے گئے۔ یہ کشمیری اس لیے جان سے گئے کہ وہ مسلمان تھے۔ یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کو مذہبی تفریق کی وجہ سے قتل کر رہا ہے مذہبی تفریق کی وجہ سے نفرت کرتا ہے۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی حکمران کشمیر کو سیکولرزم کے لیے بھارت کے زیر تسلط رکھنا ضروری سمجھتے ہیں اور کشمیری مسلمانوں کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک نے 8 لاکھ فوج کشمیر میں لگا رکھی ہے۔

بعض حوالوں مثالوں کو ان کی غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر بار بار دہرانا پڑتا ہے۔ بھارت ایک سیکولر ملک ہے اور پاکستان ایک مذہبی ملک ہے لیکن بھارتی عوام کا کردار مذہبی اور پاکستان کے عوام کا کردار سیکولر ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ پاکستان کے ہر انتخابات میں پاکستانی عوام لبرل جماعتوں کو لبرل رہنماؤں کو منتخب کرتے ہیں اور بھارتی عوام عموماً مذہبی جماعتوں کو منتخب کرتے ہیں اور بی جے پی بھارت کی کٹر مذہبی جماعت آج بھی بھارت کی حکمران پارٹی ہے اور بھارت میں ہندوتوا کی دعویدار ہے جس سے بھارت اور بھارتی عوام کے کٹر پن کا اندازہ ہوسکتا ہے۔

متحدہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی صرف 12 فیصد تھی اور ہندو 88 فیصد تھے، کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ 12 فیصد آبادی ایک ہزار سال تک 88 فیصد پر حکومت کرتی رہی۔ بادشاہت کو ایک بدتر اور غیر منطقی نظام کہا جاتا ہے لیکن اس بدتر اور غیر منطقی نظام میں کون سا جادو تھا کہ اس نے 12 فیصد کو ایک ہزار سال تک 88 فیصد پر حکومت کرنے کا موقعہ عطا کیا۔ اس ایک ہزار سالہ نظام میں مذہبی منافرت مذہبی حوالوں سے قتل و غارت کا کلچر مضبوط نہ تھا۔ اب ہم 71 سالہ جمہوریت گزار رہے ہیں اور اس جمہوریت کا حال یہ ہے کہ مذہبی تفریق مذہبی منافرت انتہا پر ہے اس ایک ہزار سال تک متحد رہنے والے ملک کی ابتدا 22 لاکھ انسانوں کے وحشیانہ قتل سے ہوئی۔

نفرتوں کا عالم یہ تھا کہ ایک مذہب کے ماننے والے دوسرے مذہب کے ماننے والوں سے اس قدر شدید نفرت کرتے تھے کہ حاملہ ماؤں کے پیٹوں سے بچوں کو نکال کر مار دیتے تھے۔ شاہی دور میں لوگ پڑھے لکھے نہیں تھے جاہل تھے کہا جاتا ہے کہ جہالت سو بیماریوں کی ماں ہوتی ہے لیکن دور حاضر کی تعلیم اور تعلیم یافتہ آبادی سو بیماریوں کی ماں بن گئی ہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ تعلیم کوئی خراب چیز ہے جس سے دور رہنا چاہیے لیکن اس حقیقت کو کیا کہیں کہ تعلیم خصوصاً جدید علم نے انسانی زندگی میں انقلاب پیدا کردیا ہے اور دنیا کو ایسی ایسی ناقابل یقین کامیابیاں دلائی ہیں جن پر یقین کرنا مشکل ہے لیکن اس کے جلو میں جو تباہیاں آئی ہیں وہ اس قدر شرمناک ہیں کہ ترقی کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔

بھارت کی انتہا پسندی کے فلسفے نے بھارت کا سیکولر چہرہ بگاڑ دیا ہے۔ بھارت کا سیکولرزم جنوبی ایشیا کے لیے حوصلہ افزا ہوسکتا تھا اور ہونا چاہیے تھا لیکن بی جے پی کی مذہبی انتہا پسندی اور مسئلہ کشمیر کی وجہ سے نہ صرف سیکولرزم کو سخت نقصان پہنچا بلکہ مذہبی انتہا پسند طاقتیں مضبوط ہوتیں پاکستان کا موقف چونکہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے منطقی ہے لہٰذا خط میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ کا الزام کم ازکم اس حوالے سے پاکستان پر عائد نہیں ہوتا۔

میں نے باضابطہ ایک مدلل مثال کے حوالے سے وضاحت کی تھی کہ عام انتخابات میں ہندوستان میں عام آدمی کا ووٹ مذہبی انتہا پسند طاقتوں کو جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں بی جے پی جیسی انتہا پسند حکومتیں اقتدار میں آجاتی ہیں جب کہ پاکستان میں 71 سال کے دوران ایک بار بھی مذہبی انتہا پسند طاقتیں اقتدار میں نہ آسکیں حالانکہ مذہبی جماعتوں نے انتخابات جیتنے کے لیے بار بار اتحاد کیے لیکن عوام نے ان اتحادوں کو مسترد کردیا۔

ہم نے دونوں ملکوں کی مذہبی سیاست کے حوالے سے کچھ حقائق پیش کیے جس کا مقصد دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان مذہبی منافرت پھیلانے کی کوششوں کو ناکام بنانا تھا۔ اس حوالے سے اصل مسئلہ اب بھی کشمیر ہے اگر بھارتی حکمران طبقہ چاہتا ہے اور اسے دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان دوستی اور بھائی چارہ منظور ہے اور وہ اس کی اہمیت سمجھتا ہے اور خطے پر اس کے منفی اثرات کو روکنا چاہتا ہے تو اسے کشمیر کا مسئلہ بہرحال حل کرنا چاہیے۔

The post بھارتی حکمرانوں کا ذہنی افلاس appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 22460 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>