Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22447 articles
Browse latest View live

ایک مہنگائی توڑ نسخہ

$
0
0

ایک اچھے شہری ہونے کے ناتے ہمارا بھی فرض بنتاہے کہ اپنی پیاری راج دلاری ہماری غم گساری حکومت کا کچھ ہاتھ بٹائیں جب وہ ہمارے لیے اتنا کام کرتی ہے یہاں وہاں جہاں تہاں اور نہ جانے کہاں کہاں سے مانگ تانگ کر ہمیں پیٹ بھر کھلاتی ہے، پلاتی ہے اور سلاتی ہے ہمارا طرز زندگی اونچا کرنے کے لیے بڑی محنت مشقت اور ہمت وشجاعت کے ساتھ مہنگائی بڑھاتی ہے اتنے زیادہ خدمت گار ہمارے لیے پالتی ہے پوستی ہے اور پھر آخر میں کوستی ہے۔

ہمارا اشارہ صرف موجودہ یا کسی اور خاص حکومت کی طرف نہیں ہے کیونکہ یہ کان نمک ہے اور ہمہ خانہ آفتاب۔ اگلے سے پچھلا دوقدم آگے ہوتاہے اور پچھلا اگلے سے چار قدم آگے ہوتاہے پشتو میں ایک کہاوتی نما شعر ہے،

گل د کدو گل دے یو چہ لٹوم ترے لاندے بل دے

یعنی یہ کدو کے پھول ہیں ایک کے نیچے دوسرا اور دوسرے کے نیچے تیسرا اس لیے ہماری نظر میں سب کے سب ایک جیسے ہیں اور سب کے ساتھ تعاون کرنا ہمارا فرض ہے۔

اور پھر موجودہ انصاف دار حکومت کے ساتھ تو زیادہ سے زیادہ تعاون کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ انصاف میں بہت زیادہ مصروف ہے اتنی مصروف کہ سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ہے، بیانات دینے سے اور انصاف کرنے سے کرپشن کی ایسی کی تیسی کرنے سے۔

چنانچہ ہمیں بھی چاہیے کہ کچھ نہ کچھ تو اس کا بار ہلکا کریں بہت اونچے معاملات تک تو ہماری رسائی نہیں ہے لیکن کم ازکم اس مہنگائی کم بخت، بدبخت اور دل سخت کی تو ایسی تیسی کرسکتے ہیں۔اور کریں گے انشااللہ۔اگر ہمارے اس زرین مشورے پر کسی نے عمل کیا جو ہم دینے والے ہیں۔

لیکن یہ مشورہ دینے سے پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی کوالی فیکشن یا اہلیت اور حیثیت بلکہ ’’سی وی‘‘ پیش کریں کیونکہ اس وقت ہم جہاں ہیں وہاں یہ نہیں دیکھا جاتاکہ ’’کیا‘‘کہاجارہاہے بلکہ یہ دیکھاجاتاہے کہ ’’کون کہہ رہاہے‘‘ اس موضوع پر ہمارا پشتو شعر بھی ہے کہ

برقہ الفاظ ھم ددے وخت دبنیادم غوندے شول

چہ خولہ بدلہ شی پخپلہ خپل تاثیر بدل کڑی

یعنی ’’الفاظ‘‘ بھی آج کل ’’انسانوں‘‘ پر گئے ہیں کہ منہ بدلتے ہی اپنے معنی وتاثیر بدل دیتے ہیں سو اپنی کوالی فیکشن واضح کرنے کے لیے بتائے دیتے ہیں کہ اگلے وقتوں میں ہم بڑے’’نادان‘‘ ہوتے تھے، اتنے نادان کہ  شراب سیخ پر اور کباب شیشے میں ڈالا کرتے تھے۔لیکن پھر آہستہ آہستہ خدا ایکسپریس والوں کو جزائے خیر دے کہ ان کی وجہ سے ہمیں دانا دانشوروں اور بینا منوروں کی صحبت نصیب ہوئی۔

اور جب اردگرد اڑوس پڑوس اور چاروں طرف خربوزے ہی خربوزے ہوں اور بڑی تیزی سے رنگ بھی پکڑرہے ہوں تو بیچ میں کچے خربوزے بھی کچھ نہ کچھ ’’سرمہ دنداسہ‘‘ تو کرنے لگتے ہیں بلکہ اس کے لیے تو ہمارے پاس بابائے ناصحاں حضرت شیخ سعدی کی سند بھی ہے کہ میں نے حمام میں ملنے والے ایک خوشبودار مٹی کے ٹکڑے سے پوچھا کہ یہ اتنی خوشبو تمہارے اندر کہاں سے آگئی تو اس نے کہا کہ میں ہوں تو وہی مٹی کا ٹکڑا۔لیکن ’’گل بدنوں‘‘ کے استعمال نے میرے اندر بھی خوشبو بھر دی۔

کمال یارمن درمن اثرکرد

وگرمن ہماں خاکم کہ نیستم

یہ تو علمی دلیل تھی لیکن ایک فلمی دلیل بھی ہمارے پاس ہے فلم سن آف سردار میں ایک گوری لڑکی سے کہتاہے کہ پہلے میں بھی بہت گورا تھا لیکن پھر بیمار ہوگیا اور پھر آہستہ آہستہ ’’کم گورا‘‘ ہوگیا،حالانکہ تھا وہ کلوٹا۔

تو ہم بھی بجائے خود وہی ہیں جو پہلے تھے لیکن دانا دانشوروں کا ’’جمال‘‘ ہمارے اندر بھی سرایت کرگیاہے اور اب اس پوزیشن میں ہیں کہ اپنی تو کیا امریکی، روسی، چینی، جاپانی، بھارتی حکومتوں تک کو زرین مشورے دے سکتے ہیں لیکن ابھی ہم اتنی بلند پرواز نہیں کرنا چاہتے اور اپنے مشوروں کو اپنے عوام تک ہی محدود رکھیں گے۔

سب سے بڑا مسئلہ ہمارے عوام کالانعام مثل چوسا ہوا آم کو درپیش ہے وہ اس کم بخت مہنگائی کا ہے جو ہمیں پکاپکا یقین ہے کہ کسی بیرونی یا تیسرے ہاتھ کی لائی ہوئی ہے جو اس سے پہلے بھی کئی وارداتوں میں ملوث رہاہے اور حکومت کو مطلوب ہے۔ وہ تو ہمیں یقین ہے کہ حکومت کے لائق فائق ادارے ایک دن ضرور اسے پکڑ کر کیفر کردار تک پہنچادیں گے۔بلکہ شاید اس بیرونی پاتھ کے ماسٹرمائنڈ کو پکڑا بھی جاچکاہے صرف اس پر ثابت کرنا باقی ہے کہ وہ تیسرا ہاتھ اسی کے پاس ہے اور یہ کوئی مشکل بات  نہیں ہے قانون اور انصاف نافذ کرنے والے ادارے لگے ہوئے ہیں۔

خیروہ تو حکومت اور اداروں کاکام ہے اور وہ اسے اچھی طرح سرانجام بھی دے رہے ہیں ہمیں صرف وہی کرنا ہے جو کرسکتے ہیں اور وہی کرنے جارہے ہیں۔

یہ جو کم بخت مہنگائی آج کل ہمارے اوپر دندنا رہی ہے اس کا علاج بہت آسان بلکہ کم خرچ بالانشین ہے ہمارے مشورے پر اگر عمل کیاگیا تو دوچار دن میں اس کے کھانے اور دکھانے کے سارے دانت ٹوٹ جائیں گے اور جب دانت ہی نہیں رہیں گے تو ہمیں چبائے گی کیسے؟

یہ نسخہ ہم نے اپنے ایک بزرگ اینڈ گزرگ کے نسخے سے اخذ کیاہے وہ کہاکرتے تھے کہ اگر ہم نے اس نسخے کو اپنے بیٹے کی مدد سے استعمال کیا تو بڑا تیربہدف پایا۔

ہم اسے ساتھ لے کر بازار نکل جاتے تھے انگور بیچنے والے سے انگور کا نرخ پوچھتے وہ سو روپے بتاتا۔تو ہم اپنے بیٹے سے کہتے کہ یہ سو روپے پکڑ،اور آگے خربوزے والے کے پاس پہنچتے وہاں دوسو روپے بچا بلکہ کمالیتے تھے یوں بازار کا چکر مکمل ہوتا تو ہم ہزار ڈیڑھ ہزار روپے کماچکے ہوتے کہ بچانا بھی تو کمانا ہوتاہے اگر ہم وہ تمام چیزیں خریدلیتے تو زیادہ سے شام کو تھوڑا سا منہ چلاتے اور بس اور پھر مہنگائی کے تھپڑ کھاکر کچھ کھانا۔ابھی تو جو نسخہ ہے وہ یہ ہے کہ کھانا کھانا ہی چھوڑ دیں، آپ تھوڑا سا اس پر عمل کریں آپ کا کچھ بھی نہ بگڑے گا بلکہ مزید کمائی ہوگی لیکن مہنگائی کی ایسی کی تیسی ہوجائے گی آزماکر دیکھیے ایسا بہت کچھ نکل آئے گا جسے نہ خریدنے سے کیا مرجائیں گے۔

The post ایک مہنگائی توڑ نسخہ appeared first on ایکسپریس اردو.


’’اگلے پانچ سال بھی ہمارے ہیں‘‘

$
0
0

’’ہم نہ صرف یہ پانچ سال پورے کر لیں گے بلکہ ہم اگلے پانچ سال بھی لے لیں گے‘‘ ان کے لہجے میں یقین تھا‘ میں ان کے یقین پر حیران رہ گیا کیونکہ مجھے یہ لوگ مارچ کا مہینہ نکالتے بھی نظر نہیں آ رہے‘ میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا ’’لیکن جناب حالات بہت خراب ہیں‘ بیورو کریسی کام نہیں کر رہی‘ ترقیاتی کام بند ہو چکے ہیں‘ مارکیٹ کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے‘ معیشت کا پہیہ رک گیا ہے‘ ڈالر کے پاؤں میں ابھی تک استحکام نہیں آیا‘آپ ساڑھے پانچ ماہ میں دوسرا بجٹ لے آئے ہیں‘ نیسلے پاکستان میں خوراک کی سب سے بڑی کمپنی ہے‘ یہ 32 سال میں پہلی بار بحران کا شکار ہوئی۔

اس نے ساڑھے بارہ سو لوگ نکال دیے ہیں‘ ان کے دودھ جمع کرنے کے 1700 کولیکشن سینٹر تھے‘ یہ کم ہو کر ساڑھے گیارہ سو ہو گئے ہیں‘ نیسلے 80 فیصد مشینری اورخام مال درآمد کرتی ہے‘ ڈالر کے عدم استحکام کی وجہ سے یہ تمام درآمدات 20 فیصد مہنگی ہو چکی ہیں چنانچہ کمپنی کو دودھ میں گھاٹا پڑ رہا ہے‘ یہ مہنگا دودھ خرید کر سستا بیچ رہی ہے‘ نیسلے اگر دودھ کی قیمت بڑھاتی ہے تو لوگ کھلے دودھ کی طرف چلے جائیں گے اور یوں مارکیٹ کمپنی کے ہاتھ سے نکل جائے گی چنانچہ کمپنی مسلسل نقصان برداشت کر رہی ہے‘ کمپنی کے ملازمین نے بھی میڈیا ملازمین کی طرح دفتروں اور فیکٹریوں کے سامنے دھرنے دینا شروع کر دیے ہیں۔

یونی لیور اور شیل کے حالات بھی خراب ہو رہے ہیں لیکن آپ فرما رہے ہیں یہ پانچ سال بھی آپ کے ہیں اور اگلے پانچ سال بھی‘‘ وہ میری گفتگو کے دوران مسلسل مسکراتے رہے‘ میں خاموش ہوا تو وہ بولے ’’ آپ کو بہت جلد میری باتوں پر یقین آ جائے گا‘‘ میں تھوڑا سا تپ گیا اور میں نے ان سے عرض کیا ’’جناب ملک چلانے کے لیے ایک دو صنعتیں کافی ہوتی ہیں‘ حکومت ایک‘ دو یا تین صنعتوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے‘ یہ صنعتیں مدہانی کی طرح پورے معاشرے کو بلونا شروع کر دیتی ہیں‘ پیسہ سرکولیٹ ہوتا ہے‘ یہ ہر شخص تک پہنچتا ہے اور لوگ خوشحال اور مطمئن زندگی گزارنے لگتے ہیں‘ مثلاً آپ جنرل پرویز مشرف کے دور کو لے لیجیے‘ شوکت عزیز نے ملک میں ٹیلی کام انڈسٹری اور الیکٹرانک میڈیا کو کام کرنے کا موقع دیا‘ یہ دونوں انڈسٹریز آئیں‘ اربوں ڈالر پمپ ہوئے‘ ایک نئی خوشحال کلاس پیدا ہوئی اور اس خوشحال کلاس نے لاکھوں لوگوں کے چولہے جلادیے‘ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں ریئل اسٹیٹ کی انڈسٹری پیدا ہوئی‘ کنسٹرکشن دنیا بھر میں مدر انڈسٹری کہلاتی ہے۔

ایک گھر میں اینٹ سے لے کر لائٹ تک ہزار مصنوعات استعمال ہوتی ہیں‘ یہ ہزار مصنوعات 60انڈسٹریز پیدا کرتی ہیں گویا آپ اگر صرف ریئل اسٹیٹ یا کنسٹرکشن انڈسٹری کا پہیہ چلا دیںتو یہ60 صنعتوں کوایکٹوکردے گی‘ یہ 60 صنعتیں ہزار مصنوعات پیدا کریں گی اور ان مصنوعات کا ٹریکل ڈاؤن افیکٹ پورے ملک تک پہنچے گا‘ آصف علی زرداری نے ٹیلی کام اور الیکٹرانک میڈیا میں ایک تیسری انڈسٹری ریئل اسٹیٹ کا اضافہ کر دیا جس کے نتیجے میں ملک میں خوشحالی آ گئی‘ میاں نواز شریف آئے اور انھوں نے میگا ترقیاتی منصوبے شروع کر دیے‘ موٹرویز‘ میٹروز‘ پل‘ بجلی کے کارخانے اور سی پیک جیسے پراجیکٹ شروع ہوئے‘ یہ بھی ملک کی گروتھ میں اضافہ کرنے لگے چنانچہ ملک بھی مستحکم ہوگیا۔

لوگ بھی مطمئن ہو گئے اور عالمی ادارے بھی پاکستان کی تعریف کرنے لگے لیکن پھر آپ لوگ آئے اور آپ نے یہ چاروں شعبے بند کر دیے‘ ریئل اسٹیٹ انڈسٹری اپنی تاریخ کے بدترین دور میں داخل ہو گئی‘ ملک ریاض کا زیادہ تر وقت وکلاء اور سپریم کورٹ میں گزرنے لگا‘ یہ شخص پاکستان کا ورلڈ ٹریڈ سینٹر تھا‘ یہ گرا تو پوری ریئل اسٹیٹ انڈسٹری گر گئی‘ اس کا اثر 60 صنعتوں پر پڑا اور ملک بے روزگاری کے گڑھے میں جا گرا‘ رہی سہی کسر ڈالر کی قیمت میں اضافے نے پوری کر دی‘ ڈالر مہنگا ہو گیا‘ ہماری انڈسٹری نوے فیصد خام مال باہر سے منگواتی ہے‘ یہ خام مال مہنگا ہو گیا‘ گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھی شروع ہو گئی‘ ایف بی آر نے بھی ڈنڈا کندھے پر رکھ لیا اور نیب بھی استرے لے کر باہر آ گئی چنانچہ پورے ملک کی معیشت جام ہو گئی‘ آپ آج مزدور سے لے کرسیٹھ تک کسی سے پوچھ لیں وہ حکومت کو گالی اور بددعا دے گا لیکن آپ کہتے ہیں یہ پانچ سال بھی ہمارے ہیں اور اگلے بھی‘ میں آپ کی بات پر کیسے یقین کر لوں؟‘‘ ۔

وہ میری گفتگو سنتے رہے اور ہنستے رہے‘ میں خاموش ہوا تو وہ بولے ’’عمران خان نے ابھی اپنے کارڈ شو نہیں کیے‘ یہ کارڈ جس دن شو ہو گئے آپ کو میری بات کا یقین آ جائے گا‘‘ میں مزید تپ گیا اور میں نے عرض کیا ’’جناب پورے ملک میں اس وقت کوئی کام نہیں ہو رہا‘ بیورو کریسی فائل پر دستخط کرنے کے لیے تیار نہیں‘ حکومت جب بھی کوئی منصوبہ ان کے سامنے رکھتی ہے تو افسر احد چیمہ اور فواد حسن فواد کو یاد کر کے کانوں کو ہاتھ لگا دیتے ہیں‘ وفاقی کابینہ نے نومبر میں جو فیصلے کیے تھے ان پر اڑھائی ماہ بعد بھی عمل نہیں ہو سکا‘ آج تاجر‘ صنعت کار اور بیورو کریٹس کھلے عام کہتے ہیں آپ نے اگر ملک چلانا ہے تو پھر آپ کو ایف بی آر اور نیب دونوں بند کرنا ہوں گے ورنہ کوئی شخص اس ملک میں کام نہیں کرے گا۔

حکومت کی حالت یہ ہے اس نے پانچ ماہ میں دو ہزار دو سو چالیس ارب روپے کا قرضہ لے لیا‘ یہ کشکول لے کر پھر رہی ہے‘ اب تک صرف سعودی عرب نے دو ارب ڈالر قرضہ دیا اور وہ بھی ہم دو ماہ میں کھا گئے‘ ملک پر روز 15 ارب روپے کا نیا قرض چڑھ رہا ہے لیکن حکومت کو کوئی پرواہ نہیں‘ وزراء کے تکبر اور غیرسنجیدگی پر پوری دنیا حیران ہے‘ یہ سارا دن اپنی سیلفیاں بنا کرسوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے رہتے ہیں اور قوم کو حکم دیتے ہیں آپ ان پوسٹوں کو تبدیلی سمجھیں لہٰذا لوگ حکومت سے تنگ آ چکے ہیں‘ یہ کسی بھی دن پھٹ پڑیں گے اور وزراء کو بھاگنے تک کا موقع نہیں ملے گا لیکن آپ فرما رہے ہیں یہ پانچ سال بھی آپ کے ہیں اور اگلے بھی‘ کیسے‘ مگر کیسے؟‘‘ میں بولتا چلا گیا اور وہ مسلسل ہنستے چلے گئے‘ میں خاموش ہوا تو وہ بولے ’’تمہیں بہت جلد میری بات کا یقین آ جائے گا‘‘ میں نے غصے سے ان کی طرف دیکھا اور پھر عرض کیا ’’جناب آپ اپنی نالائقی‘ ناتجربہ کاری اور تکبر کے ذریعے پورے ملک کو ڈھلوان پر لے آئے ہیں۔

یہ اب تیزی سے نیچے گر رہا ہے‘ لوگوں کو اب میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری اچھے لگنے لگے ہیں‘ آپ کے بیانات عدلیہ اور نیب دونوں کو متنازعہ بنا چکے ہیں‘آپ ساہیوال کے واقعے کو دیکھ لیجیے‘ یہ ملک اب گورن ایبل نہیں رہا‘ آپ نے اگر ایک سال پورا کر لیا تو ملک میں خوراک کے لیے فسادات شروع ہو جائیں گے‘ لوگ نیب‘ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نعرے لگانے لگیں گے لیکن آپ اس کے ساتھ ساتھ اگلی باری پر بھی نظریں جما کر بیٹھے ہیں‘ کیسے؟‘‘ وہ مسکرائے اور میرا ہاتھ دبا کر بولے ’’میں نے صبر کے ساتھ آپ کی گفتگو سن لی‘ آپ اب میری بات بھی سن لیں‘ عمران خان چھ ماہ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن دے دیں گے‘ یہ نومبر 2019ء میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔

یہ ایکسٹینشن کے بعد نومبر 2022ء تک بری فرج کے سربراہ رہیں گے‘ عمران خان ان کے ساتھ بہت کمفرٹیبل ہیں‘ جنرل باجوہ کرکٹ کو بہت پسند کرتے ہیں‘ یہ عمران خان کو بھی ہیرو سمجھتے ہیں‘ یہ اپنے ہیرو کو کبھی زیرو نہیں ہونے دیں گے‘ ملک میں پہلی بار سول اور ملٹری دونوں ایک پیج پر ہیں‘ یہ دونوں بیک وقت ایک سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں‘ یہ اتحاد اور یہ اتفاق ملک کو پٹڑی پر لے آئے گا‘‘ وہ سانس لینے کے لیے رکے تو میں نے جلدی سے سوال داغ دیا ’’لیکن جہاں تک میرا خیال ہے جنرل باجوہ جنرل کیانی جیسی غلطی نہیں کریں گے‘ یہ ایکسٹینشن لے کر مخالفین کو ’’ہم نہ کہتے تھے‘‘ جیسا پروپیگنڈا نہیں کرنے دیں گے چنانچہ ان کے انکار کے ساتھ ہی آپ کے خوابوں کا سارا محل بھی دھڑام سے گر جائے گا‘‘ ان کے چہرے پر غصے کے آثار آ گئے اور وہ گرم لہجے میں بولے ’’وزیراعظم کو اگر انکار کا ذرا سا بھی شک پڑا تو یہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کو تین سے چار یا پانچ سال کر دیں گے‘ اس کے بعد انکار کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی چنانچہ سول اور ملٹری دونوں طاقتیں مل کر ملک کو چلا لیں گی‘‘۔

میں نے ان سے عرض کیا ’’لیکن آپ اپوزیشن کا کیا کریں گے‘ ملک میں پہلی بار اتنی مضبوط اپوزیشن آئی‘ یہ آپ کو چلنے نہیں دے گی‘‘ میرا سوال سن کر انھوں نے قہقہہ لگایا اور بولے ’’اپوزیشن کا بندوبست ہو چکا ہے‘ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف دونوں ریٹائرمنٹ لے رہے ہیں‘ یہ سیاست کو خیرباد کہہ کر ملک سے چلے جائیں گے ‘ بلاول بھٹو اور میاں شہباز شریف ان کی جگہ لے لیں گے اور حکومت کو ان دونوں سے کوئی خطرہ نہیں چنانچہ یہ پانچ سال بھی ہمارے ہیں اور اگلے پانچ سال بھی‘‘ میں نے عرض کیا ’’لیکن سر آپ کی پرفارمنس؟ آپ اگر پرفارم نہیں کریں گے تو لوگ آپ کو اگلی بار کیوں ووٹ دیں گے‘‘ وہ اٹھے‘ کمرے کا ایک چکر لگایا اور بولے ’’انسان بڑی دلچسپ چیز ہے‘ یہ شکنجے میں کسا ہو اور اگر اس شکنجے کو تھوڑی دیر کے لیے کھول دیا جائے تو یہ شکنجہ بنانے اور لگانے والوں کو بھی دعائیں دینے لگتا ہے‘ ہم الیکشن سے پہلے شکنجہ کھول دیں گے اور ووٹ لے لیں گے لہٰذا یہ پانچ سال بھی ہمارے ہیں اور اگلے بھی‘‘ میں نے ان سے ہاتھ ملایا اور کہا’’آپ لوگ نہیں سدھر سکتے‘‘ اور میں باہر آ گیا۔

The post ’’اگلے پانچ سال بھی ہمارے ہیں‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

نواز شریف اور آصف زرداری اتحاد کی نئی راہ؟

$
0
0

پاکستان کے قیام کے بعد بڑی مدت تک ملک اچھی حکمرانی سے محرومی نہ ہوتا ، توآج پاکستان میں کم از کم تنخواہ 50 ہزار روپے ماہانہ ہوتی، بجلی، پانی اورگیس کا بحران نہ ہوتا، صاف ستھری سڑکیں اورگلیاں ہوتی، ہر طرف درختوں کی بہار ہوتی، جنگلات کا خاتمہ نہ ہوتا ، زرعی پیداوار ضروریات سے زیادہ ہوتی، برآمدات سے بڑے پیمانے پر زرمبادلہ حاصل ہوتا، انفارمیشن ٹیکنالوجی میں پاکستان دنیا میں اپنا لوہا منوا چکا ہوتا، بہترین تعلیمی ادارے، صاف ستھری اور آرام دہ ٹرانسپورٹ سے لوگ مستفیض ہوتے، صنعت اور تجارت میں ہم بہت آگے ہوتے، ہماری آبادی 15کروڑ سے زیادہ نہ ہوتی، پولیس اور عوام میں زبردست تعاون ہوتا، ٹریفک کے قوانین کا احترام ہوتا، مجموعی طور پر قانون کی حکمرانی ہوتی ، پاکستان دفاعی،سیاسی اور معاشی طور پر ایک انتہائی طاقتور ملک ہوتا، جو تنخواہ لوگ آج حاصل کر رہے ہیں اس کے مقابلے میں ہر شخص کی آمدنی 3گنا ہوتی ، بد عنوانی اور رشوت ستانی یا ناجائز آمدنی کے راستے مکمل بند ہوتے، بد قسمتی سے ہم مجموعی طور پر اچھی حکمرانی سے محروم رہے۔

دشمن نے بھی ہماری کمزوریوں سے خوب فائدہ اٹھایا اور ہمیں انتشار سے دوچارکرتا رہا ۔ آج ملک کی معیشت و سیاست جس نہج پر پہنچ چکی ہے وہ ہماری ماضی کی مسلسل غلطیوں کا نتیجہ ہے اب ملک میں تین بڑی جماعتیں پاکستان کی پارلیمانی سیاست پر حاوی ہیں۔

عمران خان کی تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں اتحادی جماعتوں سے مل کر معمولی اکثریت سے حکومت قائم کی، پنجاب میں بھی یہی صورت ہے۔ جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کو اب بھی امید ہے کہ آنے والے وقت میں وہ عمران خان کی حکومت کو گرا دیں گے۔ اسی امید میں وہ اقتدار کے حصول کی مختلف راہوں کی تلاش میں ہے، تاکہ نواز شریف کو بدعنوانی کے مقدمات سے بری کرا کے اپنی مرضی کا وزیرِ اعظم لایا جائے۔

پیپلز پارٹی کے سربراہ اور سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپورکے خلاف جاری تحقیقات کے نتیجے میں امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ انھیں آنے والے دنوں میں گرفتارکیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کو خدشہ لاحق ہے کہ وہ سندھ حکومت سے بھی محروم ہو سکتی ہے ۔ ان حالات کے پیش نظر پارٹی میں مختلف آپشن پر غور کیا جا رہا ہے ۔ پی پی چیئرمین بلاول بھٹو نے اسلام آباد پر چڑھائی کی دھمکی دے دی ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ عمران خان کی وزارت عظمیٰ کو ختم کرسکتے ہیں ۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) بھی سابق وزیر اعظم نواز شریف کو بچانے کے لیے سر گرم ہے۔

اسی لیے ایک وسیع اپوزیشن اتحاد تشکیل دینے کا عمل پایہ تکمیل کو پہنچ رہا ہے۔ دوسری جانب غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق مفاہمت کا ایسا فارمولا تلاش کیا جا رہا ہے جس میں رقوم کی ادائیگی کے بعد نواز شریف کو مقدمات سے رہائی مل جائے۔ اسی طرح آصف زرداری کے معاملے میں بھی معاملات طے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔

مسلم لیگ (ن) نواز شریف کے لیے اور پیپلزپارٹی آصف زرداری کے لیے اعلیٰ عدالت سے دیانت داری کا سرٹیفکیٹ چاہتی ہے۔ یہ شرط مفاہمتی معاہدے میں اہم رکاوٹ ہے ، جب کہ جس رقم کی ادائیگی کی پیش کش کی جا رہی ہے اسے ناکافی قرار دیا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اس کی تردید کر چکی ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں جو کچھ سامنے نظر آتا ہے۔ پس پردہ اس کے برخلاف ہوتا ہے لہذا ان اطلاعات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔

پیپلز پارٹی نے اعلیٰ قیادت کی ممکنہ گرفتاری سے پیدا ہونے والے حالات سے نمٹنے کے لیے صف بندی شروع کر دی ہے، بلاول بھٹو جار حانہ بیانات دے رہے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کا ایک اہم حلقہ جو اداروں سے محاذآرائی کا مخالف ہے وہ بلاول کے جارحانہ بیانات کو پارٹی کے لیے خطرہ تصورکر رہا ہے۔

اس سیاسی منظرنامے میں در پردہ ایک کوشش یہ بھی ہے کہ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان موجودہ حکومت کے خلاف تحریک کا مشترکہ لائحہ عمل طے ہو جائے تاکہ اپوزیشن کا ایک بڑا اتحاد بنا کر عمران خان کی حکومت کو نکال باہر کیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) کو خدشہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ کسی بھی مفاہمت کا پنجاب میں منفی اثر ہوگا اور اس کی عوامی حمایت پر منفی اثرات ہوں گے۔ اس کے علاوہ قابل عمل مفاہمتی فار مولا بھی سامنے نہیں ہے۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے پر اعتماد بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے بعض رہنما حکومت سے رابطہ بھی رکھے ہوئے ہیں اور انھیں تعاون کی یقین دہانی بھی کرانے سے گریز نہیں کرتے، پیپلز پارٹی کے لیے یہ بات زیادہ پریشان کن ہے ۔ وہ سندھ حکومت کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ کسی بحرانی صورت میں سندھ حکومت کی تبدیلی کا امکان برقرار ہے ۔ آنے والے دنوں میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مفاہمت کرکے پی پی سندھ حکومت کو بچانے اور مرکز میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر حکومت قائم کرنے کی کوشش کرسکتی ہے۔ جس کی کامیابی کا فی الحال امکان نہیں ہے۔

پاکستان کی سیاست کے دو اہم کردار نواز شریف اور آصف علی زرداری اقتدار میں شراکت کا فار مولا طے کرنے کے بعد عمران خان کی حکومت کے خاتمے کی تحریک کوکیسے کامیاب بنا سکتے ہیں یہ ابھی غیر واضح اور قبل از وقت ہے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ نواز شریف اور آصف زرداری کا دوبارہ اقتدارکس طرح ممکن اور قابل قبول ہو گا؟ دونوں جماعتیں اگر حکومت کو گرانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں ۔ ایسی صورت میں قبل از وقت انتخابات بھی ہوسکتے ہیں۔

نئی صف بندی ہوسکتی ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کے مزید گروپ بن سکتے ہیں اور پیپلز پارٹی میں بھی بڑی بغاوت ہوسکتی ہے۔ تحریک انصاف اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر بھاری اکثریت سے دوبارہ اقتدار میں آسکتی ہے، لیکن پاکستان کی سیاست میں انتخابی عمل دو دھاری تلوار بھی بن جاتا ہے۔ نتائج سارا کھیل بگاڑ سکتے ہیں ۔ نئی سیاسی صف بندی بھی ہوسکتی ہے۔ اس وقت سیاسی رسہ کشی کا یہ کھیل جاری ہے اس کھیل میں عوام کے اصل مسائل نظر انداز ہو رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تینوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے اہم رہنماؤں کو مسائل کی شدت کا احساس نہیں ہے ۔ ملک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی موجودہ وسائل کی نسبت خطرے کے نشان سے آگے جا چکی ہے اور بہبود آبادی کا کوئی موثر نظام موجود نہیں ہے۔

شہروں میں کچی آبادیاں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ جہاں غربت جرائم ، منشیات اور گندگی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ دیہاتوں میں پسماندگی ہے۔ صفائی ، صحت اور تعلیم کا موثر نظام نہیں ہے۔ ملک بھر میں صاف پانی کی کمی کی وجہ سے گندے پانی سے پیدا ہونے والی خوفناک بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔ جنگلات اور زرعی اراضی کم ہو رہے ہیں، زرعی پیداوار میں کمی ہو رہی ہے، زرعی مصنوعات اور دیگر برآمدات تیزی سے کم ہو رہی ہیں۔ شہروں میں ٹریفک کا دباؤ بڑھ رہا ہے، بے ہنگم ٹریفک نے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کر رکھا ہے۔

غیر قانونی ذرایع سے دولت حاصل کرنے والے امراء پورے نظام پر حاوی ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ پیشہ ور افراد طاقتور اور امیر لوگوں کے سامنے بے بس ہیں ۔ اندرون خانہ دشمن قوتیں جدید جنگی حکمت عملی کے تحت سرگرم ہیں جو ان مسائل کی شدت میں اضافہ اور ہر اس سرگرمی کو تیز کرنا چاہتی ہیں۔ جس سے انتشار بڑھے، ملک اندر سے کمزور ہوکر خانہ جنگی کے ذریعے بکھرجائے، سوائے چند فکرمند لوگوں کے کسی کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ ہم مجموعی طور پرکس کیفیت میں ہیں۔ اس بے حسی سے نکلنا ہوگا ، بہتری کی راہ تلاش کرنی ہوگی، چاہے وہ انتہائی مشکل اورکٹھن کیوں نہ ہو۔ بے حسی ہم سب کو برباد کر سکتی ہے۔

The post نواز شریف اور آصف زرداری اتحاد کی نئی راہ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

پرائیویسی اور دور جدید کا انسان

$
0
0

جدید ایجادات نے انسان خصوصاً نئی نسل کو اپنا دیوانہ بنا لیا ہے، ہماری اکثریت اس کی صرف خوبیوں سے ہی واقف ہے، بہت کم لوگوں کو یہ پتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی نے انسان کے لیے بہت سے مسائل بھی کھڑے کردیے ہیں۔ ان ہی مسائل میں سے ایک مسئلہ انسان کی نجی معلومات یا پرائیویسی بھی ہے، جو نہ صرف غیر محفوظ ہوچکی ہے بلکہ سرمایہ دار اس سے خوب فائدہ حاصل کررہے ہیں۔

’’پرائیویسی اینڈ دی نیو ٹیکنالوجی‘‘ کے عنوان سے Simpson Garfinkel کا ایک مضمون امریکی اخبار ’’ دی نیشن ‘‘ میں شایع ہوا۔ اس میں سمپسن نے نئی ٹیکنالوجی کے باعث شہریوںکی ذاتی معلومات اورخفیہ معلومات کو چرانے اور ان سے لاحق خطرات کا تذکرہ کیا ہے، مضمون نگارکے مطابق لوگ ٹیلی فون خریدتے ہوئے، اسپتال میں علاج کرانے کے لیے، سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ کھولتے ہوئے یا کسی بینک، کاروباری ادارے میں کام کی غرض سے معلومات فراہم کرتے ہیں جہاں ان کی یہ معلومات محفوظ نہیں رہتیں۔

یہ معلومات حاصل کرنیوالے ادارے آگے کسی اور ادارے کوفروخت کردیتے ہیں جہاں اس کاغلط استعمال بھی ہوتا ہے۔ آپ کا میڈیکل ریکارڈ جو آپ کے کسی اسپتال میں علاج کرانے پر اسپتال نے محفوظ کیا ہوتا ہے، آپ کو اسپتال ای میل کے ذریعے یہ اطلاع بھی دیتا ہے کہ آپ کا میڈیکل کا ریکارڈ آپ کی اجازت کے بغیرکسی ریسرچر کو فروخت کردیا گیا ہے۔

سمپسن کے مطابق جیسے جیسے ہم جدید دور میں داخل ہوتے جائیں گے، پرائیویسی ہمارے لیے سب سے اہم حق قرار دیا جائے گا مگراس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ ایک فرد اپنی تمام نجی معلومات یا معاملات چھپا لے بلکہ یہ ہوگا کہ کونسی معلومات چار دیواری میں محدود اورکونسی تفصیلات سر عام کرناضروری ہے۔

جدید معاشرے میں جدید ٹیکنالوجی عام ہے مگر لوگوں نے ان کو اپنانے میں خوشی سے فیصلہ نہیں کیا اور ابتداء میں اپنی پرائیویسی کو افشاں ہونے یا آگے منتقل ہونے سے روکنے کی ہر ممکن کو شش کی۔ مثلاًموجوددہ دور میں پرائیویسی کاخوف صرف انٹرنیٹ تک محدود نہیں بلکہ اب ہماری ایک ایک حرکت، بول چال ، چلنا پھرنا سب کچھ زیر نگرانی ہے، سب کچھ ایک جگہ جمع ہو رہا ہے۔

مثلاً نیو یارک میں میٹروکارڈ کا نظام جس کے ذریعے مسافر با آسانی کرایہ ادا کرسکتے ہیں، یہ کارڈ ایک سوئیپ کے ذریعے مسافرکی تفصیلات اورموجودگی کی اطلاع دے دیتا ہے اور محفوظ بھی کرتا رہتا ہے۔ بقول اٹارنی جنرل ایلیٹ اسپیٹزر، نیویارک، جدید ٹیکنالوجی بے شمار فوائد لے کر آئی ہے مگر اس کے ساتھ ہمیں اس نے ایک دائرے میں لاکھڑا کیا ہے جہاں ہماری عادتیں، حرکات ، ہر بات زیرنگرانی ہے اور اسے محفوظ کیا جارہا ہے۔

بہت سے لوگوں کاخیال ہے کہ جدید معاشرے کے لیے یہ لازمی ہے مگر تنقید نگاروں کاخیال ہے کہ یہ پرائیویسی کی موت ہے۔ لوگوں کی ایک تعداد نے کریڈٹ کارڈ تک استعمال نہیںکیا اور نقد خریداری ہی کوترجیح دی کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی ذاتی معلومات کسی اور تک منتقل ہو۔

انیس سو نوے میں  Lotus اور Equifax نامی کمپنیوں نے ملک کر ایک سی ڈی روم تیارکیا جس کو ’’ لوٹس مارکیٹ پلیس: ہاؤس ہولڈ‘‘ کا نام دیا گیا جس میں لوگوں کو اپنا نام، پتہ اوردیگر معلومات درج کرانا تھیں مگرامریکی عوام نے اس کوقبول نہیں کیا اور جب تیس ہزار سے زائد لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ اس ڈیٹا بیس سے ان کی معلومات افشاں ہو رہی ہیںتو امریکا میں یہ پروجیکٹ ختم کر دیا گیا۔ سمپسن کہتا ہے کہ آج ٹیکنالوجی کے اس دور میں ان اداروں کو جو حق آزادی دی گئی ہے وہ عوام کی ذاتی طور پر آزادی کونقصان پہنچا رہی ہے۔

اب تک یہ پالیسی نہیں بنائی گئی ہے کہ ان معلومات کا اختیارعوام ہی کے پاس ہو ۔آج ٹیکنالوجی فرد کی ہرطرح کی آزادی کا دم گھوٹ رہی ہے، آپ اس کو ڈیجیٹل کی خود مختاری کی آزادی کا حق کہیں یا پرائیویسی کا حق کہیں، لیکن ہمارے مستقبل کا تعین ہماری اس آزادی کو (جوکہ تقریباً مٹ رہی ہے) بہتر بنانے میںہی ہے۔ نئی ٹیکنالوجی نے ہمیں ایک الیکٹرانک مچھلی کے پیالے میں بند کردیا ہے جس میں ہماری ساری عادتیں ، پسند نا پسند اور ہمارے تمام تر افعال کو دیکھا اور محفوظ کیا جا رہا ہے۔

فوکس نیوز چینل نے اپنی نیوز میں گوگل استعمال کرنے والوں کی معلومات کی منتقلی سے متعلق ایک رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ کس طرح ایک فرد کی (جو موبائل فون استعمال کرتا ہے) تمام معلومات گوگل تک پہنچ جاتی ہے۔

خبر میں ایک رپورٹر اپنے ہاتھ میں دو جدید موبائل فون لیے ہوئے ہے۔ جس میں نہ توکوئی سم ہے نہ ہی کوئی وائی فائی کنکشن ہے اور ایک فون کو ’’ فلائٹ موڈ ‘‘ پر بھی کردیا گیا ہے ، یعنی یہ بالکل کسی ڈبے کی طرح غیر فعل نظرآتے ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیںہے۔ رپورٹرکہتا ہے کہ اس کے باوجود گوگل سب کچھ معلومات محفوظ کر رہا ہے۔ یہ بتانے کے لیے رپورٹر دونوں موبائل اپنے جیب میں رکھتا ہے اور پھر مختلف جگہوں پرجاتا ہے۔ پھر ۱۴ گھنٹے کے سفرکے بعد ان فونزکو چیک کرتا ہے۔

اس رپورٹر کا کہنا ہے کہ گوگل کا بزنس ماڈل ’’سر وائیلنس‘‘ کا کام صارفین کا ڈیٹا جمع کرنا اوراسے استعمال کرتے ہوئے اشتہار دیکھانا ہے۔ اب رپورٹرز اپنی ایک مڈل ڈیوائس کو وائی فائی سے اپنے دونوں فون کنکٹ کرتا ہے اورکہتا ہے کہ اس دوران ان موبائل کا ڈیٹا گوگل کو جائے گا۔

ہم ساتھ ساتھ اس کا ریکارڈ اپنے پاس بھی کاپی کرتے ہیں۔ جو فون فلائٹ موڈ پر نہیں تھا اس نے ریکارڈ کیے ۱۲۱ مقامات، ۱۵۲ سرگرمیاں اور ۱۵۲ بائیو میٹرک ریڈنگ ۔ یہ فون جیسے ہی کنکٹ ہوا، اس نے گوگل کو تین سو کلو بائیٹ کا ڈیٹا بھیج دیا۔ حتیٰ کہ اس فون نے رپورٹرزکی بالکل درست لوکیشن کا بھی بتا دیا۔ میٹا ڈیٹا میں ہر، ہر لمحے اور ہر ہر جگہ کا ریکارڈ موجود ہے کہ کب کب اورکہاں کہاں گئے۔کب پیدل چل رہے ہیں،کب گاڑی میں ہیں اورکب گاڑی سے اتر رہے ہیں ۔ اب اس کے بعد دوسرے فون کا جائزہ لیا گیا اس میں بھی کوئی سم نہیں لگی ہوئی تھی بلکہ یہ فلائٹ موڈ پر بھی تھا ۔اس نے دوسرے موبائل سے بھی زیادہ ڈیٹا ریکارڈ کیا اور آن ہوتے ہی گوگل کو منتقل کر دیا۔

اس کے ڈیٹا میں تمام معلومات سو فیصد درست تھیں ۔گوگل آپ کی تمام معلومات ریکارڈ کرتا ہے، ان مقامات کی بھی جس کی پرائیویسی کی توقع کی جاتی ہے مثلاً سرکاری ادارے ، چرچ اور اسپتال میں آپ کا وزٹ ۔ رپورٹرکا کہنا ہے کہ پیچیدہ یورزر ایگریمنٹ اور مفت سوفٹ وئیر کے ذریعے گوگل آپ سے پرائیوسی چھین لیتا ہے۔

فوکس نیوزکوگوگل نے بتایا کہ جو صارفین اپنی معلومات دینا نہیںچاہتے یا ٹریک ہونا نہیں چاہتے ان کو اپنی لوکیشن ہسٹری بند رکھنی چاہیے لیکن ایسا کرنا آپ کی سوچ سے کہیں زیادہ مشکل ہے کیونکہ گوگل کی اپیپس میں کچھ ایسے آپشن ہوتے ہیں جن کے لیے آپ خود بخود سر ویلینس کے لیے سائن کرلیتے ہیں ۔ سیلی کون ویلی آپ کی پرائیویسی فروخت کر رہی ہے۔ فوکس نیوزکے رپورٹرکا کہنا ہے کہ جب آپ مفت آئن لائن سروس استعمال کر رہے ہوتے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ آپ کسٹمر نہ ہوں بلکہ پروڈکٹ ہوں، نہایت قابل غور ہے۔ یوں اس جدید عہد میں انسان کی پرائیویسی ہی گروی نہیں ہے بلکہ وہ خود بھی سرمایہ داروں کے ہاتھوں پروڈکٹ بن چکا ہے۔

The post پرائیویسی اور دور جدید کا انسان appeared first on ایکسپریس اردو.

انصاف و قانون، انسانیت کا قتل

$
0
0

٭ … پہلا منظر

پہلا گھر میں ایک بڑی گہماگہمی کا عالم تھا، سب تیاریوں میں لگے ہوئے تھے، بچوں کے چہرے بھی خوشی سے دمک رہے تھے، یہ سب اس لیے تھا کیونکہ عزیزکی شادی میں شرکت کے لیے دوسرے شہر جو جانا تھا ، بچے سیر وتفریح اور نئی جگہ پر خوب مزے کرنے کے منصوبے سوچ رہے تھے، ایک دوسرے کو بتا رہے تھے تو بڑوں کے ذہنوں میں شادی کی تقاریب میں شرکت کے ساتھ ساتھ سخت سرد موسم ، لمبا سفر اور بچوں کی صحت کے معاملات بھی تھے ، اپنی چیزوں کو مد نظر رکھ کر جانے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں اورگھر میں اس طرح کی گفتگو ہو رہی تھی ۔

’’ ارے بھئی! راستے کے لیے کچھ کھانے پینے کی چیزیں بھی رکھ لینا بچے مانگیں گے، بار بار گاڑی روکنا نہیں پڑے گی۔‘‘

’’سنیں ، بچوں کے اضافی گرم کپڑے رکھ لیتی ہوں، ضرورت پڑسکتی ہے۔‘‘

’’ کافی دنوں بعد سب سے ملاقات ہوگی، اچھا رہے گا۔‘‘

’’ بابا ! میں آپ کے ساتھ آگے بیٹھوںگی ۔‘‘

’’ مما ! میں کھڑکی والی سائیڈ پر بیٹھوں گا، ابھی بتارہا ہوں ۔‘‘

’’ کوشش کریں گے کہ شادی سے نمٹتے ہی گھر کے لیے روانہ ہوجائیں تاکہ وقت پر گھر پہنچ جائیں۔‘‘

’’ بیٹا ! خیر سے جاؤ خیر سے واپس آؤ، ہم لوگوں اور اپنے پوتے پوتیوں کے بغیر گھر بہت سونا سونا ہو جاتا ہے، تم سب کا بہت انتظار رہے گا۔‘‘

٭… دوسرا منظر

سب کے چہرے پر خوشی ہے، آج ان کے بیٹوں نے پولیس میں ملازمت ملنے کی ’’خوشخبری‘‘ جو سنائی تھی ، سب ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے۔ ملازمت پانے والے نوجوان پر بہت خوش تھے ۔ وہ اپنے ماں باپ اور دیگر رشتے داروں سے بڑے پرعزم لجھے میں کہہ رہے تھے کہ ’’اللہ نے ہمیں ملک و قوم کی خدمت کا موقع دیا ہے، اب ہم خوب محنت سے کام کریں گے، عوام کے خادم بن کر رہیں گے ۔‘‘

مذکورہ بالا دونوں مناظر ہمارے معاشرے کی روز و شب کی کہانی ہے، کسی نہ کسی شہر ، قصبے یا گاؤں میں ایسی ہی کیفیت اور جذبات ہوتے ہیں جب کسی خوشی کے موقعے پر ہمیں دوسرے شہر جانا ہو یا اپنے گھرکے کسی نوجوان کو سرکاری یا غیرسرکاری اچھی ملازمت ملے۔

مگر ہفتہ 19جنوری 2019 کو ساہیوال کے قریب یہ دونوں مناظرکچھ اس طرح یکجا ہوئے کہ ایک تیسرا انتہائی دردناک، المناک ، افسوسناک اور قابل مذمت منظر سامنے آگیا ۔ دوپہر کے وقت پولیس کے کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں نے لاہور سے آنے والی گاڑی کو ساہیوال کے قریب روکا ، انتہائی ’’رحم دلی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 3 بچوں کوگاڑی سے اتار دیا اور پھر گاڑی میں سوار 2 مردوں ، خاتون اور 13سالہ بچی پر اس طرح گولیوں کی بارش کردی جیسے دنیا کے سب سے بڑے ’’ دہشت گرد ‘‘ اس کار میں سوار ہیں اور اگر انھیں زندہ چھوڑ دیا تو بہت نقصان ہوجائے گا۔

پھرالمیہ صرف یہ نہیں ہوا کہ صرف چار لوگ پولیس اہلکاروں کی گولیوں کا نشانہ بنے بلکہ سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے خلیل اوراس کے پورے گھر کو گولیوں سے چھلنی کر دیا ۔ جو چلے گئے وہ توچلے گئے اوران کا نقصان کبھی پورا نہیں ہوگا لیکن مقتول خلیل کے بیٹے،دوکمسن بیٹیوں کی زندگیاں اتنے بڑے امتحان میں ڈال دی گئی ہیں جو شاید دنیا کا سب سے مشکل امتحان کہا جاسکتا ہے۔ جن بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ اوربہن کوظالمانہ طریقے سے قتل کردیا جائے تو ان کی زندگیوں میں کیا بچے گا؟

میں تو سمجھتا ہوں کہ ساہیوال کے قریب مرکزی شاہراہ پر دن کی روشنی میں پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں بلکہ انصاف وقانون، انسانیت، طرز حکومت اور اداروں کی بحالی کے دعوؤں کے جنازے اٹھ گئے ہیں۔

اس واقعے کے حوالے سے بہت سے سوال میڈیا میں اٹھائے جا رہے ہیں، عوام کے ذہنوں میں ہیں، لوگ ایک دوسرے سے اس پر بات بھی کر رہے ہیں، اس کے حکومت اور اپوزیشن کے رہنما بھی اپنی اپنی پالیسی کے تحت اس سانحے پر بیان بازی کرکے اپنا ’’فرض‘‘ ادا کر رہے ہیں اورخود کو بری الذمہ قرار دینے کی بھرپورکوششیں بھی جاری ہیں لیکن اصل نقصان کو اس گھرکا ہوگیا ہے جو زندگی بھر نہ اس واقعے کے زخم لے کر چلیں گے، اٹھتے بیٹھتے انھیں اس واقعے کی دل سوز یادیں تنگ بھی کریںگی اور پریشان بھی ہر واقعے پر مذمتی بیانات ، ذمے داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے نعرے، واقعے کے خلاف احتجاج ومظاہرے، سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے پرالزامات اورپوائنٹ اسکورنگ ایک معمول کی شق نظرآنے لگی ہے، یہ سب کچھ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کوئی دوسرا سانحہ رونما نہ ہوجائے، نیا واقعہ سامنے آتے ہی پرانے واقعے کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔

خلیفہ چہارم حضرت علی ابن ابی طالب کے خطبات، اقوال اورنصیحتوں سے بھرے مجموعے ’’نہج البلاغہ‘‘ میں ایسے ہی حالات کے حوالے سے حضرت علیؓ کا ایک قول رقم ہے کہ ’’گناہ تیز رفتار سرکش گھوڑوں کی مانند ہوتے ہیں جن کی باگیں بھی سواروں کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں۔‘‘

ایک اور موقعے پر حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ ’’ دولت ، اقتدار اور اختیارملنے سے لوگ بدلتے نہیں بلکہ بے نقاب ہوجاتے ہیں۔‘‘

واقعی اگر زندگی میں اپنے چھوٹے سے منصب اوراختیارکو سب کچھ سمجھ کر لوگ بے قابو ہوجائیں تو ایسا ہی کچھ ہوتا ہے جیسا سانحہ ساہیوال میں ہوا ، اگر پولیس اوردیگر اداروں کو بے لگام کرنا مقصود ہے تو پھر عام آدمی کا گھر سے نکلنا انتہائی مشکل ہوجائے گا۔ یہ تو سانحہ ساہیوال چند روز قبل کی بات ہے، ہمارے ملک کی تاریخ کے صفحات تو ایسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں اور بے گناہوں کے خون سے رنگین ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن بھی ایسی ہی ’’ پولیس گردی ‘‘ کی بھیانک مثال ہے۔ کاش حکمراں ان واقعات کی مکمل روک تھام کے لیے ایسی قانون سازی کرلیں جن پر عمل بھی ہو اور جس کے بعد کسی کے گھر والے اپنے پیاروں کی راہ تکتے نہ رہ جائیں۔ آخر میں سانحہ ساہیوال میں ’’ دہشت گردوں ‘‘ کی گاڑی میں سے زندہ بچ جانے والی ’’دہشت گرد بچی ‘‘ کا ’’اقبالی بیان ‘‘ جو ہمارے دوست منصور ساحر نے پوری قوم کے جذبات و احساسات کو اسموکر قلمبند کیا۔اس منظوم احساسات کی چند سطریں نذر قارئین ہیں

ہے اقبالی بیاں میرا کہ دہشت گرد ہوں میں بھی

قبیلہ ہے جو مظلوموں کا ، اُس کی فرد ہوں میں بھی

بہت چھوٹی ہوں مت مارو، یہ دیکھو گڑگڑاتی ہوں

کیے ہیں جرم جو میں نے، پولیس کو سب بتاتی ہوں

گئی تھی باغ میں اک دن تو تتلی میں نے اغوا کی

وہ تتلی دو منٹ تک حبس بے جا میں بھی رکھی تھی

وہاں جب پھول توڑا تھا تو میں نے ڈانٹ کھائی تھی

گری تھی جیب سے بھائی کی جو ٹافی، چُھپائی تھی

بہن کی تھی جو گڑیا میں نے اُس کے بال کاٹے ہیں

پری جو لال تھی ناں ، میں نے اُس کے پر بھی نوچے ہیں

سہیلی تھی جو میری ، اُس کو پانی سے بھگویا تھا

تو اُس نے بھی مرا پہلے، کلرکا بکس کھویا تھا

میں چُٹیا کھینچ کے اپنی بہن کی بھاگ لیتی ہوں

جو فیڈر ہے مرا، اُس کا نپل بھی کاٹ لیتی ہوں

میری باتوں کو سن کو روپڑے ہیں کیوں پولیس انکل؟

لیں ! آنسو پونچھ لیں، ماما کا میرے پاس ہے آنچل

میں وعدہ کر رہی ہوں اب شرارت چھوڑ دوں گی میں

میں بچی ہوں مگر بچپن سے بھی منہ موڑلوں گی میں

مجھے مت ماریے گا جان سے ، میں پھول جیسی ہوں

میں بے بس قوم کی اجڑی ہوئی مظلوم بیٹی ہوں

The post انصاف و قانون، انسانیت کا قتل appeared first on ایکسپریس اردو.

احوال ایک ادبی تقریب کا

$
0
0

کوئی زیادہ وقت نہیں گزرا جب کتب بینی کا رواج عام تھا، بلکہ ایسے لوگ بھی اکثریت میں تھے جوکہ پڑھنے کا گویا جنون کی حد تک لگاؤ رکھتے تھے یہ کوئی زیادہ دورکی بات نہیں کہ لوگ اپنے پیاروں کو ان کے ذوق کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں کتب تحفے میں دیا کرتے تھے پھر معلومات کے دیگر ذرایع جب انسان کی دسترس میں آنے کے باعث کتب بینی ناقدری کا شکار ہوتی چلی گئی ۔

حد تو یہ ہے کہ عصر حاضر میں جب کہ ملک کی آبادی 22 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے مگر جو کتاب چھاپی جاتی ہے اس کتاب کی کاپیوں کی تعداد ہوتی ہے پانچ سو، جن میں ڈیڑھ سوکاپیاں مفت میں تقسیم ہوجاتی ہیں جب کہ دیگر تین سو پچاس کاپیاں بھی چند ماہ بعد فٹ پاتھوں پر ردی کی قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں ،البتہ یہ ضرور تھا کہ 1970 سے قبل جب موجودہ پاکستان کی آبادی فقط ساڑھے پانچ کروڑ تھی تو اس وقت چھاپی جانے والی کتاب کی جو کاپیاں مارکیٹ میں آتیں ان کی تعداد ہوتی گیارہ سو جب کہ اخبارات و جرائد کے ساتھ بھی پڑھنے کے معاملے میں کوئی قابل ستائش رویہ نہیں رہا ۔

بہرکیف ان تمام تر حقائق کے باوجود چند لوگ ایسے بھی ہیں جوکہ ادیب تخلیق کر رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ لوگوں میں ذوق مطالعہ پھر سے بیدار کیا جائے، ایسے ہی ادبا میں ایک نوجوان و باصلاحیت نام سامنے آیا ہے وہ نام ہے راحت عائشہ صاحبہ کا جن کی ادبی خدمات کے صلے میں اس برس صدر مملکت عارف علوی نے انھیں صدارتی ایوارڈ اپنے دست مبارک سے عطا فرمایا۔ یہ ایوارڈ 12 ربیع الاول کے مبارک دن راحت عائشہ کو عطا کیا گیا۔ قابل فخر امر ہے یہ ایوارڈ راحت عائشہ کو نوجوانی میں عطا ہوا۔

راحت عائشہ جوکہ پیشے کے اعتبار سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں یہی باعث ہے کہ انھوں نے اب تک جتنا ادب تخلیق کیا ہے وہ بچوں کا ادب ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں وہ اپنی تحریروں سے بھی نئی نسل کی تربیت کر رہی ہیں یوں اکثر بچوں کے رسائل میں ان کی تحریریں چھپتی ہیں مگر زیادہ تر وہ نونہال و بچوں کی دنیا کے لیے خصوصیت سے لکھتی ہیں جب کہ اب تک دو کتب پیٹر کا بھوت و گمشدہ چابی بھی تحریر کرچکی ہیں۔ آخرالذکر وہ کتاب ہے جس پر انھیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ چنانچہ اسی سلسلے میں ایک تقریب کا اہتمام کے ایم سی آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کی جانب سے کیا گیا۔ نظامت کے فرائض علی حسن ساجد صاحب نے ادا کیے۔

دعوت خطاب کے سلسلے کا آغاز ہوا اور سب سے پہلے سلیم فاروقی صاحب نے اظہار خیال فرمایا کہ بچوں کے لیے ادب لکھنا بچوں کا کھیل نہیں ہے بلکہ یہ مشکل ترین امر ہے کہانی و انسان کا گہرا تعلق ہے اچھی کہانیاں اذہان پر گہرے نقوش چھوڑتی ہیں اور انسان کی عمر کے ساتھ کہانیاں بھی بڑی ہوتی ہیں۔ راحت عائشہ کو لکھنے کا ڈھنگ آتا ہے۔ متنجن کے نام پر منجن نہیں بیچتیں چنانچہ خوش قسمت ہیں وہ نونہال جن کی وہ استانی ہیں، جب کہ دوسرے مقرر تھے شنگھائی سے تشریف لانے والے زبیر صدیقی جنھوں نے اپنی خوبصورت گفتگو کا آغاز یوں کیا کہ اپنی زبان سے پیارکرنا چاہیے۔

اس سلسلے میں انھوں نے اپنی مثال دی اور اپنی دو کمسن صاحبزادیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے خاندان کے ساتھ چین میں مقیم ہوں، اس کے باوجود اپنی بچیوں کو میں اردو لکھنا پڑھنا سکھا رہا ہوں میری کوشش ہے کہ اپنی بچیوں میں ادبی لگاؤ پیدا کروں جب کہ یہ امر قابل ذکر ہے کہ زبیر صدیقی پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں اور چین کے شہر شنگھائی میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔انھوں نے خوب صورت انداز گفتگو میں راحت عائشہ کو خراج تحسین پیش کیا۔ ممتاز صحافی حمیرا اطہر نے انھیں یوں خراج تحسین پیش کیا کہ وہ تمام موضوعات پر لکھتی ہیں اور خوب لکھتی ہیں۔ انھوں نے کتاب پیٹر کا بھوت کا خصوصیت سے تذکرہ کیا۔ مزید یہ کہ خوش قسمت ہیں راحت عائشہ کہ انھیں اپنے والدین و قریبی عزیزوں کی معاونت حاصل ہے۔

آصف علی بیگ نے اپنے خیالات کا یوں اظہار فرمایا کہ بلاشبہ بچوں کے لیے لکھنا ایک تو مشکل امر ہے دوم یہ کہ بچوں کا ادب تخلیق کرنے پر پذیرائی بھی نہیں حاصل ہوتی البتہ ان تمام حقائق کے باوجود راحت عائشہ جیسے لوگوں کا بچوں کا ادب لکھنا بلاشبہ قابل تحسین ہے۔ عقیل عباس جعفری نے فرمایا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ادب کو محفوظ کیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں بھی موجودہ وسابقہ ادوار میں لکھے گئے ادب سے استفادہ حاصل کرسکیں۔ شکیل الرحمن نے ایک نظم کے ذریعے راحت عائشہ صاحبہ کی ستائش کی اور اس امر پر زور دیا کہ محض تعلیم معصوم نونہالوں کی تربیت کے لیے کافی نہیں بلکہ بچوں کی تربیت کے لیے خصوصی توجہ کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت بچوں کی کتب کے ذریعے بھی پوری کی جاسکتی ہے۔

انھوں نے موجودہ نصاب تعلیم پر بات کرتے ہوئے فرمایا کہ اشد ضرورت ہے کہ موجودہ تعلیمی نصاب میں ادب کو شامل کرنا ضروری ہے تاکہ نئی نسل کو خواجہ میر درد، اسد اللہ غالب کے بارے میں بھی معلومات حاصل ہوسکیں۔ علی حسن ساجد نے اپنے خیالات کو خوبصورتی سے یوں پیش کیا کہ عصر حاضر میں ادیب بے قدری کا شکار ہے یہی باعث ہے کہ جو بھی ادیب اس دنیا سے کوچ کر جاتا ہے اس ادیب کے ادبی ورثے کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے کہ وہ ورثہ گلی میں پھیری والے ردی فروش کے سپرد کردیا جاتا ہے۔پھر وہی ورثہ شاہراہوں کی فٹ پاتھوں پر زمین پر رکھ کر فروخت ہو رہا ہوتا ہے۔

چنانچہ نہایت ضرورت اس امر کی ہے کہ کم سے کم نامور ادبا کا ادبی ورثہ محفوظ کیا جائے ضروری ہے خصوصی لائبریریاں قائم کی جائیں جہاں یہ ادبی ورثہ محفوظ طریقے سے رکھا جاسکے تاکہ لوگ اس سے استفادہ کرسکیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ عجب اتفاق ہے کہ جب بھی ماہ دسمبر آتا ہے ہمیں کوئی نہ کوئی بچوں کا ادیب داغ مفارقت دے جاتا ہے۔ اس برس افق دہلوی ، ابصار عبدالعلی، گزشتہ برس مسعود احمد برکاتی و دو برس قبل کمال احمد رضوی کا انتقال اسی برس ہوا جب کہ قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری جنھوں نے بچوں کے لیے 11 کتب تخلیق کیں ان کا انتقال بھی ماہ دسمبر میں ہوا۔ علی حسن ساجد نے عصر حاضر کے ادبا کو دعوت دی کہ وہ بچوں کے لیے ادب تخلیق کرکے بچوں کی تربیت میں اپنا کردار ادا کریں۔ انھوں نے مزید کہا کہ آخر فیض احمد فیض نے بھی تو بچوں کے لیے لکھا۔

آخر میں راحت عائشہ نے تمام حاضرین کا ان کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا اور نئے عزم کے ساتھ لکھنے کا عہد کیا پروگرام کے آخر میں میئر کراچی وسیم اختر کی جانب سے راحت عائشہ کو علی حسن ساجد نے شیلڈ پیش کی۔ آخر میں ہم اتنا ضرور عرض کریں گے کہ ادب سے ناتا قائم رکھیں، زندہ قومیں کتاب سے رشتہ قائم رکھتی ہیں بصورت دیگر زوال ان کا مقدر بن جاتا ہے۔

The post احوال ایک ادبی تقریب کا appeared first on ایکسپریس اردو.

26 جنوری: بھارت کے لیے یومِ جمہوریہ، کشمیریوں کے لیے یومِ سیاہ

$
0
0

بھارت ہر سال 26 جنوری کو ’’یومِ جمہوریہ‘‘ کا جشن مناتا ہے۔ اِس سال بھی وہ اپنا 70 واں یومِ جمہوریہ منا رہا ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے جب بھارتی آئین باقاعدہ بروئے کار آیا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت میں جس شخص (ڈاکٹر امبیدکر)نے ملکی آئین کی تشکیل و تدوین کی، بھارتیوں نے کبھی اُس کا نام عزت و احترام سے نہیں لیا، محض اس لیے کہ وہ اونچی ذات کا ہندو نہیں بلکہ ’’دَلت‘‘ تھا۔ یومِ جمہوریہ کے جشن میں بھارت ہمیشہ کسی اہم سیاسی و مقتدر غیر ملکی شخصیت کو بطورِ مہمانِ خصوصی مدعو کرتا ہے۔

امریکی صدر، مغربی و عرب ممالک کے سربراہان بھی اس جشن میں شریک ہو تے رہے ہیں۔ اس بار بھی وزیر اعظم نریندر مودی کی کوشش یہی تھی کہ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، اس جشن میں شریک ہوں لیکن امریکی صدر نے ہامی ہی نہیں بھری۔ ٹرمپ نے گزشتہ دنوں مودی صاحب کا جن منفی الفاظ میں ذکر کیا ہے، مودی کا اِس شخص سے دل کھٹا ہو گیا ہے۔

اِس بار کا بھارتی یوم ِ جمہوریہ ویسے بھی مودی جی کو زہر لگ رہا ہو گا کہ نئے انتخابات سر پر کھڑے ہیں اور کئی بھارتی سیاسی جماعتیں ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر متحد ہو کر بی جے پی اور مودی جی کو شکست ِ فاش دینے کا عہد کر چکی ہیں۔ 19جنوری2019ء کو کلکتہ میں 20 سیاسی جماعتوں پر مشتمل جو متحدہ اجتماع ہُوا ہے، اس نے بھارتی وزیر اعظم کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔

’’الجزیرہ‘‘ نے لکھا ہے کہ اس اجتماع میں پانچ لاکھ سے زائد لوگ شریک ہُوئے۔ سب کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا: ’’مودی ہٹاو، بھارت بچاؤ‘‘ ۔ مغربی بنگال کی مشہور وزیر اعلیٰ، مماتا بینر جی، اس اجتماع میں مرکزی کردار ادا کر رہی تھیں اور انھوں نے عوام کے اس سمندر سے مخاطب ہوتے ہُوئے کہا تھا: ’’مودی کی سیاسی شخصیت اور اقتدار کی Expiry Dateکنارے آ لگی ہے۔‘‘

ابھی پچھلے ماہ مودی اور اُن کی پارٹی کو تین بھارتی ریاستوں میں صوبائی انتخابات کے دوران جس شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس نے بھی نریندر مودی کے اعصاب پر گہرے منفی اثرات ڈالے ہیں۔ انھوں نے پانچ سال پہلے اقتدار میں آتے ہی وعدہ کیا تھا کہ وہ ہر سال دو کروڑ ملازمتیں فراہم کریں گے لیکن پانچ سال گزر گئے ہیں اور وہ دس کروڑ میں سے ایک کروڑ نوکریاں بھی نہیں دے سکے ہیں۔بھارت کا متوسط اور زیریں متوسط طبقہ مودی جی سے سخت متنفر اور مایوس ہے۔ گویا کہا جا سکتا ہے کہ نئے سال کا نیا یومِ جمہوریہ مودی جی کے لیے اطمینان اور خوشیوں کا سندیسہ لے کر طلوع نہیں ہُوا ہے۔

چھ سات عشرے قبل جب پاک ، بھارت تعلقات خوشگوار تھے، پاکستان سے بھی کئی لوگ بھارتی یومِ جمہوریہ کا جشن دیکھنے دِلّی جاتے تھے ۔ پاکستان میں متعین سابق بھارتی ہائی کمشنر ٹی سی اے رگھوان اپنی مشہور تصنیف The People Next Door : The Curious History of India,s Relations With Pakistanمیں لکھتے ہیں کہ 1955ء کے بھارتی یومِ جمہوریہ کے جشن میں پاکستان کے گورنر جنرل ملک غلام محمد بطورِ چیف گیسٹ شریک تھے۔

پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں، پاک بھارت جنگوں اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی استبدادی و ظالمانہ ہتھکنڈوں نے باہمی تعلقات کو سخت زک پہنچائی ہے ۔ ہمارے کشمیری بہن بھائی بھارتی زیادتیوں اور مظالم سے تو اتنے متنفر ہو چکے ہیں کہ اب وہ گزشتہ برسہا برس سے بھارتی یوم ِ جمہوریہ کو ’’یومِ سیاہ‘‘ کے طور پر مناتے ہیں۔

بھارت سے مکمل مقاطعہ کرتے ہیں ۔ہر کشمیری اس روز بھارت سے خود کو کامل طور پر الگ کرکے رکھتا ہے۔ بھارت سے لاتعلق ہو کر بیٹھتا ہے۔ دُنیا بے حسی اور بے شرمی سے سُنے، نہ سُنے لیکن کشمیر کا ہر فرد 26 جنوری کو اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہُوئے دُنیا کو بتاتا اور باور کرواتا ہے کہ بھارت سے ہمارا قطعی کوئی ناتا، کوئی تعلق نہیں ہے، بھارت ہمارے لیے اجنبی اور غیر ہے اور ہم بھارت کے لیے اجنبی اور غیر ہیں۔ کشمیر اور بھارت دریا کے دو ایسے کنارے ہیں جو کبھی باہم ہو سکتے ہیں نہ یکجا۔

اجنبیت اور غیریت کے اس دریا کو بھارتی قابض اور استبدادی افواج نے اپنے مظالم سے کشمیریوں کے خون سے سرخ کر دیا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کشمیر کے کسی شہر، کسی قصبے، کسی گاؤں، کسی کوچہ و بازار سے کسی شہید کا لاشہ نہیں اُٹھتا۔ اور جب سے گجرات کا قصاب المعروف نریندر مودی بھارتی سنگھاسن پر براجمان ہُوا ہے، مقبوضہ کشمیر میں خون کی ہرروز ندیاں بہائی گئی ہیں۔

بھارتی پیلٹ بندوقوں کے چھروں سے مجبور و مقہور کشمیریوں کی آنکھوں کا نور چھینا گیا ہے۔ نہیں معلوم ان کی تعداد کتنی ہے! کشمیری اس وحشت اور درندگی سے ذبح کیے گئے ہیں کہ اب تو کشمیریوں نے اپنے شہدا کی تعداد بھی گننا اور شمار کرنا چھوڑ دیا ہے۔ نریندر مودی کے اس سفاک دَور میں مظلوم کشمیریوں کو راہ پر لانے اور اُن کی مزاحمت توڑنے کے لیے بھارتی افواج نے ایک نیا حربہ اور ہتھکنڈہ استعمال کیا ہے: کشمیریوں کے گھروں کو نذرِ آتش کرنا، یہ بہانہ کرکے کہ گھروں میں مجاہد و مزاحم کشمیری نوجوان پناہ لیے ہُوئے ہیں۔

سچی بات یہ ہے کہ ہم یہاں پاکستان میں بیٹھ کر کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے متنوع ظلم و ستم کے عشرِ عشیر کا بھی اندازہ نہیں کر سکتے۔ وہاں ہمارے تصورات سے بھی زیادہ تیزظلم کی چکی چل رہی ہے۔ یوں بھارت اور کشمیر کے درمیان اجنبیت و نفرت کی دیوار اتنی بلند ہو چکی ہے کہ بھارتی چاہیں بھی تو اسے مسمار نہیں کر سکتے۔ ایسے میں کشمیری 26 جنوری کو یومِ سیاہ کیوں نہ منائیں؟ وہ اگر اور کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم  یہ تو کر سکتے ہیں کہ بھارتی یومِ جمہوریہ کے موقعے پر گھروں اور دکانوں کے دروازے مقفل کر کے آنسو بہا لیں۔ گریہ اور سینہ کوبی کر سکیں۔

ہمارا سیلوٹ اور سلام ہے جبر کے سامنے ڈٹے کشمیری بھائی بہنوں کو۔ سب کشمیری اس بھارتی یومِ جمہوریہ پر بھی بھارت کا مقاطع کرتے ہُوئے سیاہ پرچم لہرا رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت کوئی عوامی اور منتخب حکومت بروئے کار نہیں ہے۔ کشمیر پر صدارتی راج کا جبریہ جھنڈا پھڑ پھڑا رہا ہے۔ ساری کشمیری حریت پسند قیادت پابجولاں ہے۔ ہمارا عقیدتوں بھرا سلام ہے انھیں بھی ۔ سید علی شاہ گیلانی،مسرت عالم، آسیہ اندرابی، پروینہ آہنگر،میر واعظ عمر فاروق، یاسین ملک ،شبیر احمد شاہ، عاشق حسین فکتو، محمد عباس انصاری، ذاکر رشید بھٹ، غلام احمد گلزار، حکیم عبدالرشید، محمد یاسین عطائی ایسے کشمیری لیڈروں کی ہمتوں کی داد دینی چاہیے۔ ان میں سے کوئی شدید بیمار ہے لیکن پھر بھی قابضین نے انھیں قید کر رکھا ہے۔

کوئی گھر میں نظر بند ہے۔ کوئی کشمیر سے باہر کسی نا معلوم جیل کی تاریک کوٹھڑی میں مقید ہے۔ سب ستم کے باوجود حریت پسندوںکے استقلال میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریکِ حریت کو کچلنے کے لیے سات لاکھ بھارتی فوج کے علاوہ بارڈر سیکیورٹی فورس اور انڈین ریزرو پولیس فورس بھی تعینات ہے لیکن بھارت اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں پھر بھی ناکام ہو رہا ہے۔ جموں اینڈ کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ، جموں اینڈ کشمیر ڈسٹربڈ ایکٹ، ٹاڈا، آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ، پوٹا، نیشنل سیکیورٹی ایکٹ، آفیشل سیکرٹ ایکٹ وغیرہ ایسے درجنوں سخت قوانین محض کشمیریوں کو غلام رکھنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔

کشمیری اخبارات کی آزادی سلب کرنے کے لیے علیحدہ سے کئی قوانین وضع کیے گئے ہیں۔ نامور کشمیری اخبار نویس ڈاکٹر شجاعت بخاری دن دیہاڑے شہید کر دیے گئے مگر آٹھ مہینے گزرنے کے باوجود ابھی تک قاتلوں کا سراغ نہیں مل سکا ہے۔ ایسی خوں آشامی کی موجودگی میں کشمیری26 جنوری کو بھارتی یومِ جمہوریہ کے جشن میں کیوں اور کیونکر شریک ہو سکتے ہیں؟ دارالعلوم دیوبند کی انتظامیہ نے بھی کوئی پانچ دن پہلے اپنے طلبا کو اِن الفاظ میں نوٹس جاری کیا تھا: ’’یومِ جمہوریہ آ رہا ہے، طلبا غیر ضروری سفر سے اجتناب کریں ۔‘‘ اِسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی یومِ جمہوریہ بھارتی مسلمانوں کے اعصاب پر کتنا بھاری ہے۔

The post 26 جنوری: بھارت کے لیے یومِ جمہوریہ، کشمیریوں کے لیے یومِ سیاہ appeared first on ایکسپریس اردو.

خان ایک ’’ماسٹر‘‘ تھا

$
0
0

عنوان سے کہیں یہ نہ سمجھیے گا کہ یہ کسی ایسے خان کی کہانی ہے جو ’’ماسٹر‘‘ تھا وہ تو اکثر ہوتے ہیں۔یہ دراصل اس کہانی کا عنوان یا ابتدائیہ ہے جو مسلسل بیس سال تک سنائی گئی، پھر بھی ختم نہیں ہوئی بلکہ اس سے زیادہ شروع بھی نہیں ہوئی کہ ’’خان ایک ریچھ تھا‘‘

لیکن اس کہانی کی کہانی سنانے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس کے سارے کردار فرضی ہیں اور اس کا کسی سے مطابقت محض اتفاقیہ ہوگی کیونکہ ایسی اور بھی بہت ساری کہانیاں ہیں۔ جو ستر ستر سال سے چل رہی ہیں۔ اور اس سے آگے کبھی نہیں بڑھیں کہ ’’خان ایک ماسٹر تھا‘‘ ساتھ ہی یہ وضاحت بھی ذہن میں رہے کہ کہانی کا ہیرو ’’ریچھ‘‘ نہیں ہے اور خان بھی نہیں ہے بلکہ کہانی سنانے والا اس کا ہیرو ہے اور کہانی کا راوی گل ملوک بڑا زبردست داستان گو اور قصہ خوان تھا حالانکہ اس کا تعلق قصہ خوانی بازار سے نہیں بلکہ ’’قبضہ خان‘‘ سے تھا۔ قصہ خان کا نام تو کچھ اور تھا لیکن جب اس نے گل ملوک کو اس کی شہرت کے بنا پر اپنے ہاں مستقل رکھ لیا اور صرف خان جو قصہ سنانے  کے لیے مخصوص ہوگیا تو لوگ خان کو بھی قصہ خان کہنے لگے۔

ایسا اکثر ہوتا ہے کہ بعض خان حضرات کسی خاص کام یا نشانی یا عادت کی وجہ سے مشہور ہو جاتے ہیں جیسے ایک زمانے میں نوابزادہ عبدالغفور خان ہوتی جو ایوب خان کے دور میں مرکزی وزیر خوراک تھے تو پہلے تو لوگ انھیں گوگو خان کہنے لگے کیونکہ ان کی گاڑی میں گوگو (سائرن نما) بجتا تھا لیکن جب چینی کی قیمت میں چار آنے سیر کا اضافہ ہو گیا ، آٹھ آنے سیر کے بجائے بارہ آنے سیر ہو گئی تو ان کی عرفیت بھی چینی چور خان ہو گئی، مطلب یہ کہ ’’خان‘‘ کا نقش قدم یوں بھی ہوتا ہے اور یوں بھی۔ کچھ لوگ صفت کے خان ہو جاتے ہیں جیسے باچا خان، جندول خان، سوات خان اور کچھ لکڑ خان، واوچے خان، ککے خان، والی بال خان، فٹ بال خان اور کرکٹ خان ہو جاتے ہیں اور ڈبل بیرل خان بھی۔

یوں ہماری کہانی کا خان صاحب بھی قصہ خان مشہور ہو گیا تھا جس نے گل ملوک قصہ خوان کو عوامی ملکیت سے نکال کر اپنی پراپرٹی بلکہ ’’منقولہ‘‘ جائیداد بنا لیا تھا۔

گل ملوک پیشے کے لحاظ سے کوچوان تھا۔ چونکہ ہمیں بھی قصے سننے کا شوق تھا اس لیے اکثر گل ملوک کے تانگے میں بیٹھ کر یونہی بلا مقصد کسی طرف چل دیتے۔ گل ملوک سیٹ سے نیچے تانگے کی کشتی میں بیٹھتا یا اس سے بھی آگے بانس پر بیٹھ جاتا کیونکہ قصہ سنانے کے ساتھ وہ گھوڑی کو چابک کے ذریعے ’’ڈرائیو‘‘ بھی کرتا تھا۔ اس گھوڑی کا نام ’’جڑوبہ‘‘ تھا یعنی ’’دلدل‘‘ میں چلنے والا۔ وہ واقعی دلدل ہی میں چلتی تھی اور ادھر ادھر کے پیدل لوگوں کو آگے بڑھنے دیتی تھی۔

اکثر تو کہانی قسط وار ہوتی لیکن کبھی کبھی کہانی دلچسپ ہوتی تو یہاں وہاں کے دوچار پھیرے بھی اس سے کرا لیتے۔ رات کو وہ کبھی یہاں کبھی وہاں قصہ سنانے پر مدعو ہوتا لیکن برا ہو قصہ خان کا جس نے اس عوامی پراپرٹی کو اپنے نام رجسٹر کرا لیا۔گل ملوک بھی خوش تھا، کہ کسی جنھجھٹ کے بغیر تانگے سے دگنی آمدنی کی سبیل ہو گئی۔

اس کی ڈیوٹی صرف اتنی تھی کہ رات کو جب خان اپنے کام سے فارغ ہو جاتا تو گل ملوک کی ڈیوٹی شروع ہو جاتی، خان بہت زیادہ موٹا تھا اس لیے زیادہ چل  پھر بھی نہیں سکتا تھا، اوپر سے سارا کام اس کے بیٹوں نے سنبھال لیا تھا۔ بیوی بھی داغ مفارقت دے چکی تھی، اس لیے ڈیرے ہی  کے ایک کمرے میں اس کی رہائش تھی۔ جہاں وہ تقریباً دنیا کے سارے نشوں سے شغل کرتا تھا اور رات کو گل ملوک کی کہانی سنتا۔ جو اس سے شروع ہوتی کہ۔۔خان ٰ ایک ریچھ تھا۔

ہوتا یوں تھا کہ خان اپنے بستر پر لیٹ جاتا گل ملوک بھی پائنتی میں بیٹھ کر خان کے پیر دبانے لگتا اورخان  ایک ماسٹر تھا شروع کرتا اور فقرے کے ختم ہوتے ہی خان خراٹے لے کر سو جاتا تھا۔ اس بیس سال کے عرصے میں بقول گل ملوک وہ دو تین بار ہی اس سے آگے بڑھا ہو گا۔ بات خان ایک ماسٹر تھا پر ختم ہو جاتی اور وہ آرام سے اتر کر اپنے گھر چلاآتا۔

خان ٰایک ماسٹر تھا سے آگے جو فقرے آگے بڑھے تھے ، اس کے بارے میں گل ملوک کا کہنا ہے کہ ایک دو بار ایسا ہوا ہو گا کہ جب میں ایک ماسٹر تھاکہہ دیتا اور خان صاحب کا خراٹہ بلند نہ ہوتا، تو پھر خان ایک بہت بڑا ماسٹر تھا سے تو خراٹے یقیناً شروع ہو جاتے لیکن بعض اوقات اس سے بھی کام نہ چلتا تو خان ایک بہت بڑا سفید ماسٹر تھا تک بات پہنچ جاتی۔ گل ملوک کبھی کبھی آہ بھر کر کہتا، ایسا ماسٹر دنیا میں اور کہیں پیدا نہیں ہو گا جس کی برکت سے کسی نے بیس سال تک اتنی کمائی کی ہوگی۔ وہ کہتا کہ مجال ہے جو ان بیس سالوں میں کہانی اس سے آگے ایک لفظ بھی بڑھی ہو کہ خان ایک بہت بڑا سفید ماسٹر تھا۔

ہم نے پہلے بھی وضاحت کی ہوئی ہے کہ اس کہانی کے کرداروں کے ساتھ کسی کی مطابقت محض اتفاقیہ ہوگی لیکن دوبارہ یاد دہانی کرانا ضروری ہے کہ اسے کسی اور نام یا مقام سے مشابہہ مت بنائیے،کیونکہ ایسے واقعات عام ہوتے ہیں۔ لندن میں ایک ڈراما دس بارہ سال تک اسٹیج ہوتا رہا ہے اور سنا ہے کہ کہیں کسی ملک میں ایک کہانی ستر سال سے چل رہی ہے اور اس میں ماسٹر بھی وہی ہے جو کہانی سنانے والا البتہ کبھی کبھی اس کا رنگ اور سائز بدل دیتاہے اور سننے والا بھی وہی ہے اور ویسے ہی کہانی کے شروع میں خراٹے لینے لگتا ہے لیکن ہمیں اس سے کیا ہماری کہانی میں تو صرف بیس سال سے چل رہی ہے  لیکن ستر سال پرانی والی کہانی سے اس کی مطابقت محض اتفاقیہ ہو گی۔ نوٹ فرما لیجیے۔ ایک ماسٹر جو صرف رنگ بدلتا ہے سننے والا بھی وہی اور سنانے والا بھی وہی اور خراٹے والا بھی وہی۔

The post خان ایک ’’ماسٹر‘‘ تھا appeared first on ایکسپریس اردو.


یہ دیس

$
0
0

پاکستان جیسے پسماندہ ملکوں میں جہاں عوام اپنی چیزوں کو اپنا نہیں سمجھتے ایماندار اور عوام دوست سیاستدانوں، ماہرین معاشیات، صحافیوں، شاعروں، ادیبوں، دانشوروں، مفکروں کی ذمے داری ہے کہ وہ مختلف آسان طریقوں سے غریب عوام کو یہ بتائیں، سمجھائیں کہ یہ ملک ان کا ہے، وہی اس کے مالک ہیں۔ لیکن حیرت اور افسوس کی بات ہے 71 سال گزر جانے کے باوجود وہ اس ملک میں غلاموں کی طرح رہ رہے ہیں۔

کوئی شہری یا دیہی وڈیرہ اگر کسی غریب سے با وجہ یا بلاوجہ ناراض ہو جاتا ہے تو علاقے کے ایس پی کو فون کر دیتا ہے کہ مسمی مذکورکی دھول جھٹکی جائے۔ پھر کیا ہے مسمی مذکور غریب کی دھول اس طرح جھٹکی جاتی ہے کہ مسمی مذکور کئی دن تک کھٹیا پر پڑا رہتا ہے۔

اس خوفناک ماحول میں اگر کوئی زندہ دل شاعر یہ دیس ہمارا ہے کہتا ہے تو بے چارے عوام ایڑیاں اٹھا اٹھا کر دیکھتے ہیں کہ یہ کون پاگل آگیا ہے جو یہ دیس ہمارا ہے کا نعرہ لگا رہا ہے جب کہ بے چارے عوام نسلوں سے یہی سنتے آرہے ہیں کہ یہ دیس، وڈیروں کا ہے، یہ دیس نوابوں، سیٹھوں، صنعتکاروں، حکمرانوں کا ہے تو پھر یہ شاعر صاحب بڑے ترنم سے گا رہے ہیں یہ دیس ہمارا ہے۔ اس دیس کا پتا پتا ہمیں دل سے پیارا ہے۔ ہوسکتا ہے شاعر سچ کہہ رہا ہو ہو سکتا ہے یہ دیس ہمارا ہے یعنی غریب عوام کا ہو لیکن غریب تو نسلوں سے یہی سنتے آرہے ہیں کہ یہ دیس ’’دیس کے رکھوالوں‘‘ کا ہے، دھنوانوں کا ہے۔

حکمرانوں ، جاگیرداروں، دھنوانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ غریبوں کے دیس میں نہیں رہتے۔ جہاں جھونپڑیاں ہیں کچے مکان ہیں یہ دھنوان 71 سال سے اس دیس کے مالک ہیں لیکن اب دھنوانوں کا ستارہ گردش میں ہے ان کمبختوں نے اتنا کھا لیا ہے کہ ان کے پیٹ پھیل گئے ہیں اور اس پھیلاؤ کی وجہ ٹریفک کو پیدل چلنے والوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ اب اس 71 سالہ کراچی سے کشمیر تک پھیلے ہوئے پیٹ کی چھٹائی کی ضرورت ہے۔ ہماری میونسپلٹی نے باہر نکلے ہوئے گھر چھجے وغیرہ گرا کر شہروں کی بے ترتیبی اور بدصورتی کو کم یا ختم کرنے کی کوشش کی۔ متاثرین نے بڑی چیخ و پکارکی بڑا واویلا مچایا لیکن لگتا ہے اس بار حکام شہرکو انکروچمنٹ سے صاف کرکے ہی چھوڑیں گے۔

ادھر عدلیہ اور وہ مل کر دھنوانوں کے بڑھے ہوئے پیٹوں کو نارمل بنانے یا کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کٹائی کے خلاف وہ ہاہاکار مچی ہوئی ہے یا مچائی گئی ہے کہ الامان الحفیظ۔ سارا میڈیا اس ہاہاکار سے بھرا ہوا ہے۔سریا لگی گردنیں جھک تو نہیں سکتیں کیونکہ یہ 71 سال سے اکڑی ہوئی ہیں، جہاں پوائنٹ آف ڈس آرڈر پر میں اس بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ ’’سریا لگی گردن‘‘ کی اصطلاح اور ولی عہدوں کی اصطلاح راقم الحروف کی ایجاد کردہ ہے جو دریاؤں پہاڑوں میدانوں اور پارلیمنٹوں میں استعمال کی جا رہی ہے لیکن حال یہ ہے کہ مصلح کو کوئی نہیں جانتا کوئی نہیں پوچھتا ؟

دانا کہتے ہیں کہ رشوت جسے انگریزی میں کرپشن کہتے ہیں اگر آٹے میں نمک کے برابر ہو تو نظرانداز کردی جاتی ہے لیکن اگر خود آٹا ہی بن جاتی ہے تو پھر وہی ہوتا ہے جو نظر آرہا ہے۔ غریب آدمی لیتا ہے تو وہ رشوت کہلاتی ہے اور غریب آدمی ہزار دو ہزار دے دلا کر جان چھڑا لیتا ہے لیکن امیر آدمی لیتا ہے یا کھاتا ہے تو وہ کرپشن کہلاتی ہے اور عام طور پر پکڑ میں نہیں آتی اور سو پچاس سال اتفاقاً یا پیٹ پھٹنے کے قریب آکر پکڑی جاتی ہے تو بہت خطرناک ہوجاتی ہے، پھر قصر سلطانی کی گنبد پر شاہین نظر نہیں آتا جیلوں کی مہاڑیوں پر بسیرا کرتا ہے۔

ہماری عادت ہے نہ اخلاق اسے درست سمجھتا ہے کہ اگر کوئی تکلیف میں ہو تو اس کا مذاق اڑایا جائے لیکن بڑے دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر عوام ایسی تکلیف میں ہوں کہ موت کو زندگی سے بہتر کہنے لگیں تو پھر۔۔۔۔۔۔ ہمارے سابقہ دیس میں ایک ڈیزل کار چلتی تھی یا چلتا تھا چونکہ وہ ڈیزل کار ریلوے لائن پر چلتا تھا یا چلتی تھی لہٰذا اسے ایک دن میں 24 خون معاف ہوتے تھے۔ ایک دن ہم نے اسٹیشن ماسٹر سے پوچھا جناب اس ڈیزل کار کو 24 خون کیوں معاف؟ جواب ملا اس میں صاحب لوگ سفر کرتے ہیں اور صاحب لوگ ’’جس میں‘‘ سفر کرتے ہیں اس کے سامنے آنا منع ہے جو لوگ آتے ہیں وہ موت کے منہ میں جاتے ہیں اور دن میں 24 خون یوں معاف ہوتے ہیں۔

پاکستان جیسی لٹیرا شاہی میں عوام 71 سال سے رہ رہے ہیں۔ لیکن آج تک ان کی ہمت نہیں کہ پاکستان کو اپنا گھر کہہ سکیں کیونکہ یہ گھر اشرافیہ کا ہے، وہی اس کی مالک ہے اگر مالک نہ ہوتی تو اس طرح اربوں روپوں کو باپ کی جاگیر سمجھ کر اس پر قبضہ کرتی نہ ملک کے اندر اور ملک کے باہر اربوں ڈالر کی جائیداد خریدتی۔ سوال یہ ہے کہ ہماری اشرافیہ کسی غلط فہمی کی وجہ سے اپنے آپ کو اس ملک کا مالک سمجھتی ہے یا کسی غلط فہمی کی وجہ سے ایسا سمجھتی ہے؟

وجہ کچھ بھی ہو اس ملک کی مالک اشرافیہ ہے، عوام اس ملک کے کرائے دار ہیں اگر محنت کی شکل میں دن رات کرایہ دار ہیں اگر محنت کی شکل میں دن رات کرایہ ادا نہ کریں تو پھر۔۔۔۔۔! ہر جمہوری ملک میں اگر اس ملک کے مالک عوام ہوں تو انھیں انتخابات لڑنے کا اختیار ہوتا ہے وہ صدر اور وزیر اعظم گورنر اور وزیر بنتے ہیں لیکن 71 سال سے صرف ووٹر ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر عوام اپنے آپ کو اس ملک کا مالک سمجھتے تو اپنے آپ کو صرف ووٹر نہیں سمجھتے۔

اب دیکھیے کچھ عوام پر مہربان اور عوام کا دکھ سمجھنے والے بندے بندوں کو خدا بنانے کی کوشش یا دعویٰ کر رہے ہیں یہ بہت بڑا کام ہے اور اس کام کے لیے سب سے پہلے یہ دیس ہے مزدوروں کا، کسانوں کا، غریبوں کا، کی حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا ورنہ آئے بھی وہ گئے بھی وہ ختم فسانہ ہوگیا۔۔۔۔ہوجائے گا۔

The post یہ دیس appeared first on ایکسپریس اردو.

رشتہ ادب اور سیاست کا

$
0
0

ایک دور تھا جب تصویرکشی کے آلات موزوں نہ تھے اور نہ آواز کے ساتھ ان کا ملاپ، اس قدر موزوں جتنا کہ آج ہے تو پھر نوک قلم سے کلام کو نہ صرف محفوظ رکھا جاتا تھا بلکہ قلمکار خود اپنی کلا اور دیگر فنکاروں کے فن پاروں کو محفوظ کرلیتے تھے۔

قدیم دور میں مانا کہ کیمرے نہ تھے اور نہ ہی تصویرکشی کے آلات مگر تراشی اور اصنام گری کے فنکاروں کی کمی نہ تھی۔ بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ ہر دور میں قلمکار اور فنکاروں کے بے مثال نمونے موجود ہیں۔ جوں جوں علوم و فنون نے ترقی کے مدارج طے کیے، یہاں تک کہ مغربی جمہوریت نے شہنشاہی کی ناک میں نکیل ڈال دی اور آج جہاں بھی بادشاہی موجود ہے یہ بھی مغربی ممالک کی نظر اندازی کے سبب کیونکہ آمروں کے گرد ان کا ایٹمی حصار ہے۔

خواہ یہ براہ راست ہو یا کوئی خفیہ واسطہ۔ بہرصورت اگر اردو شاعری میں نظم کے سفرکو دیکھیں تو ہم ہر دورکا جائزہ لے سکتے ہیں یعنی شاعرکس نظر سے سماج کو دیکھتا ہے یا اس کا عوام سے کیا رشتہ ہے۔ نظیرؔاکبر آبادی نے تقریباً 95 برس کی طویل عمر پائی وہ میرؔ سے چھوٹے اور غالبؔ سے بڑے تھے اور اسباب فکر وعمل میں قلندرانہ اوصاف رکھتے تھے۔

ان کو میرؔ اور غالبؔ کے کلام سے کوئی واسطہ نہ تھا بلکہ اگر ان کے کلام کا عمومی جائزہ لیں تو کہیں کہیں ان کے کلام میں بلھے شاہ کا انداز محسوس ہوتا ہے۔ اور انھی کی سی سماجی اصلاح کی لذت محسوس ہوتی ہے جو پنجابی زبان کے عارفانہ کلام کے بزرگ شاعر ہیں۔ نظیرؔ کے کلام میں زرکثیر رکھنے والوں کے لیے بڑے بڑے پیغامات ہیں۔ آئیے ان کے چند اشعار کا جائزہ لیں جو انسان کے انجام کار پر روشنی ڈالتے ہیں۔ نظم بنجارہ کے چند اشعار:

ٹک حرص و ہوس کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا

قذاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کے نقارہ

کیا بدھیا بھینسا بیل شترکیا گوئی پلا سر بھارا

کیا گیہوں،چانول،موٹھ مٹر ،کیا آگ دھواں،کیا انگارا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا

بالکل وہی انداز جو بابا بلھے شاہ کا حق پرستی، سفر آخرت پھر دنیا کی رنگ رلیوں کا دور دورہ کیا معنی۔ درحقیقت نظیرؔ اکبر آبادی کی شاعری کا عوامی شعور 1955ء اور 1960ء کے لگ بھگ پیدا ہوا جب 1949ء میں جنوب مشرقی ایشیا میں آزادی چین اور کوریا کی جنگ اور کیوبا کی آزادی اور خود مختاری کے تصور نے اور ویتنام کی جنگ سے لوگوں میں آگہی پیدا ہوئی، یہ شعورکہیں جاکے ایک صدی بعد پیدا ہوا جب انسانی حقوق کا تصور آشکارا ہوا یا یوں کہیے کہ شاعری میں انسانی کے نئے پہلو بیدار ہوئے۔

یعنی انسان کیا ہے؟ اس کی ضروریات کیا ہیں؟ حقوق حکمرانی کس کو ہے۔ بادشاہت کیوں؟ انسان بہ حیثیت انسان برابر ہے صرف اللہ ہی اکبر ہے۔ خلافت انسان ہی کو حکمرانی بخشتی ہے پھر جمہوریت جس میں لامتناہی دولت کے انبار مگر انسان ہے کہ اپنا سفر طے کرتا ہی رہا۔ سلطانی جمہورکا دور بھی آیا یہ سفر قصیدے، منقبت کے سفر کے ساتھ جاری رہا۔ بعد میں 1930ء سے علامہ اقبال نے جدید دنیا کے سفرکو جاری رکھا۔ باقاعدہ طویل اور نظریاتی نظمیں جب کہ میرؔ، غالبؔ، ذوقؔ کے کلام میں روایتی عشق کا سفر جاری تھا، مگرگاہے بہ گاہے اس دورکے دریچے جب بھی کھلتے۔ روز و شب کے جلوؤں کے درمیان انسانی جدوجہد کا عکس نظر آتا رہا۔ مثلاً مشہور شعر:

سفر ہے شرط مسافر نواز بہترے

ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے

(آتش)

جیساکہ بیان کیا گیا ہے کہ نظموں کا باقاعدہ دور کا آغاز علامہ اقبال کا عطیہ ہے۔ بعدازاں شاعر انقلاب جوشؔؔ ملیح آبادی نے اردو ادب میں طویل انقلابی نظموں کا آغاز کیا۔ اس کے بعد اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا۔ اس نے نظموں میں نئے تجربات کا آغاز کیا اور ترقی پسند تحریک نے ادب برائے زندگی کے تصور سے لوگوں کو آگاہ کیا۔ انسانی زندگی میں بھوک، افلاس، غربت کا وجود ایک نئے انداز میں ترقی پسند ادب نے پیش کیا۔ جیسے فیض احمد فیضؔ کا یہ شعر:

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

ایسے اشعار نے عوام کو شعور کی دیگر راہیں دکھائیں اور سیاسی زندگی میں ایک ہلچل مچادی۔ افسانہ، ناول، نظم و نثر نے حکومتوں سے اختلاف رائے کے نئے دروازے کھول دیے جو صدیوں سے بند تھے۔ بلکہ تھیٹر، فلم اور گیت کی دنیا نے بھی انسانی ضروریات کو اپنے کلام کی شکل میں پیش کیا۔ ان میں ساحرؔ لدھیانوی، حسرتؔ جے پوری، مجنوںؔ گورکھپوری اور دیگر شعرا نے نہ صرف اپنی ضروریات زندگی کو گیتوں سے پورا کیا بلکہ عوام میں انقلابی شعورکے شعلے روشن کیے ہیں گوکہ انقلاب میں مایوسی کو بھی لے کے چلے ہیں کبھی کبھی ساحرؔ لدھیانوی بھی۔ ان کا یہ شعر ملاحظہ کریں:

تنگ آ چکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم

ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم

مگر شاعر کو پھر بھی یہ احساس ہے کہ وہ دنیا سے بیزاری کو شعوری طور پر ٹھکرانا نہیں چاہتا، یہاں قاری کو وہ ہراساں کرنے سے گریزاں ہے۔ تاج محل پر ساحرؔ لدھیانوی کا یہ شعر گوکہ پیغام ضرور رکھتا ہے مگر متنازعہ ہے کیونکہ محبت غریب کی ہو یا امیر کی وہ ایک سچائی ہے ملاحظہ کیجیے:

یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارا یہ محل

یہ منقش در و دیوار یہ محراب یہ طاق

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر

ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

گوکہ شاعر نے امارت ماند کرنے کے لیے اس کے خالق کا تمسخر اڑایا ہے مگر حسن کی مضبوطی نے پھر بھی محرابوں کے حسن کا تذکرہ پھر بھی نمایاں کیا۔ لیکن شاعر نے بادشاہ کی عشرت سے اسے تعبیر کیا ہے جو شاعر نے غریبوں کی تضحیک خیال کیا مگر اس خیال سے عام آدمی متفق نہیں۔ لیکن مجموعی طور پر ادب برائے زندگی کا تاثر عوام کو پرکشش لگتا رہا۔

یہاں تک کہ ایک زمانہ 1960ء اور آنے والے 15 برسوں تک نیشنل عوامی پارٹی کے شروع ہونے سے قبل حبیب جالبؔ ہی جلسوں کی ابتدا اپنی خوش لحن آواز اور پراثر کلام سے کیا کرتے تھے، جب تک ان کی حیات نے وفا کی وہ باضمیر شاعر عوام کا ترانہ سناتے رہے۔ عام طور پر 1970ء کے بعد جو جلسے ہوتے تھے ان میں دستور نظم عوام کے اصرار پر سناتے تھے کیا کلام اور کیا حسن آواز کا، جیسے کوئی دریا آبشارکی شکل میں آگے بڑھ رہا ہے۔ ابتدا میں کئی بار دیپ ایک لمبی تان میں ادا کرنے کے بعد فرماتے تھے دستور سنیے:

دیپ جن کے محلات ہی میں جلیں

چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلیں

مجمع دم بخود رہ جاتا تھا، یہ تھا عوام اور شاعر کا رابطہ۔ ہر دور میں حکمران شعر و ادب کی اہمیت کو سمجھتے رہے ہیں یہ بہادر شاہ ظفر ہوں یا بینظیر بھٹو (اپریل1989ء سمجھتے رہیں) ان کو ادبا اور شعرا کی اہمیت کا علم تھا اور آج کی دنیا میں بھی ان کی اہمیت سے انکار مشکل مگر پاکستان میں شاعروں اور ادیبوں کو مقام ملنا مشکل نظر آتا ہے۔ آج کل میڈیا کانفرنسوں کا دور ہے مگر یہ ادب جیسی توانا حقیقت نہیں۔ عہد بہ عہد کسی حد تک ادب اور سیاست کے رشتے کی اہمیت اور انسانی شعور پر ادب کے اثرات سے انکار مشکل ہے۔

The post رشتہ ادب اور سیاست کا appeared first on ایکسپریس اردو.

قرضے معاف کرانے والے آزاد کیوں؟

$
0
0

کسی ملک کو لاغر،کمزور، بے بس،لاچارومجبور کرنے کی سزا کیا ہونی چاہیے، اس پر ہم نے شاید ابھی تک سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک وقوم کو لوٹنے والے آج بھی مزے سے سینہ تان کے گھوم پھر رہے ہیں اور انھیں کوئی چھونے والا بھی نہیں ہے۔ اس روئے زمین پر شاید ہی کوئی دوسرا ایسا ملک ہوگا جسے اس بے دردی سے لوٹا گیا ہے ۔ اس کی کوئی مثال ہمیں دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ملک دولخت ہونے کے بعد 1971ء سے 1991ء تک 2.3 ارب روپے معاف کرائے گئے۔

1991ء سے 2009ء تک84.6 ارب روپے معاف کرائے گئے اور 2009ء سے 2015ء تک345.4 ارب روپے معاف کرائے گے۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں سابق حکومت نے قرض معاف کرانے والوں کی فہرست سینیٹ میں پیش کی تو معلوم ہوا کہ پچھلے 25 سال  میں 988 سے زائد کمپنیوں اور شخصیات نے 4 کھرب، 30 ارب 6 کروڑ روپے کے قرضے معاف کرائے۔ ان میں 19 کمپنیاں یا افراد ایسے ہیں جنہوں نے ایک ارب روپے سے زیادہ کا قرضہ معاف کرایا۔قرضے معاف کرانے والوں میں سیاستدان، کاروباری افراد اور ریٹائرڈ سرکاری لوگ تک شامل رہے۔

قرض معاف کرانے والے ان بابوؤں کی یاد اُس وقت آگئی جب گزشتہ روز وزیر خزانہ اسد عمر نے ’’اصلاحاتی بجٹ‘‘ پیش کرتے ہوئے سابقہ حکومتوں کے معاشی کردار پر روشنی ڈالی کہ میرے دائیں جانب والوں کے پاس پچھلے دس اور پانچ سال حکومت تھی، یہ عوام کے لیے کیا چھوڑ کر گئے؟ خود قرضے لے کر معاف کراتے رہے اور ملک کو کنگال کر دیا۔ آج سے دو سال پہلے معاشی ماہرین نے خطرے کی نشاندہی کی، حکومت کو آگے الیکشن نظر آ رہا تھا اس لیے انھوں نے بجائے اصلاح کے الیکشن خریدنے کی کوشش کی۔

انھوں نے اپنا بنایا بجٹ خسارہ ہی 900 ارب سے زیادہ بڑھا دیا، اب وہ پیسہ کہاں سے آئے گا؟ کیا سوئس بینک سے آئے گا؟ اب وہ قرضہ عوام نے ادا کرنا ہے۔ بجلی کے نظام میں ایسی تباہی لائے کہ ملکی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوئی، ایک سال میں ساڑھے 400 ارب کا خسارہ ہوا، گیس کے نظام میں کبھی خسارہ نہیں ہوا انھوں نے وہ بڑھا کر ڈیڑھ سو ارب تک پہنچا دیا، اسٹیل مل، پی آئی اے، ریلوے سب کا خسارہ اپنی جگہ ہے، یہ قوم کو ڈھائی سے تین ہزار ارب کا مقروض کر گئے، اس صورتحال پر شرمندہ ہونے کے بجائے اپوزیشن ڈیسک بجاتے اور شور مچاتے رہے ،بقول شاعر

ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام

بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا

یہ بات تو طے ہے کہ قرضے معاف کرانے والوں اور کرنے والوں میں سب سے اہم کردار ہمارے سیاستدانوں کا ہے جو کہ جمہوریت کے نام پر نہ صرف ہمارے اوپر خاندانی آمریت مسلط کیے ہوئے ہیں، بلکہ بیوروکریسی اور کاروباری افراد کے کچھ لوگوں کے اکٹھ سے ہمارے خون پسینے اور محنت کی کمائی پر آئے روز شب خون بھی مارتے رہتے ہیں اور اس تمام تر استحصال کے باوجود ہر بار برسر اقتدار بھی آتے رہے اور ابھی بھی اقتدار میں آنے کے لیے کئی قسم کے نام نہاد ’’الائنس‘‘ بنا رہے ہیں۔

کیوں کہ بقول شخصے کرسی کی یاد، کرپشن کی عادت اور پروٹوکول کی تڑپ انسان کو جینے نہیں دیتی۔بہرحال قرضے معاف کرانے والوں کی لسٹ دیکھ کر انسان ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ ایک ایسا ملک جو ہرسال اپنی ضرورت کے لیے عالمی اداروں کے سامنے دامن پھیلائے نظر آتا ہے اور مہنگے ترین قرضے حاصل کرنے کی تگ و دو کرتا رہتا ہے، وہی ملک اپنے ان امیروں کو کس قدر فیاضی سے اتنے بڑے حجم کے قرضے بیک جنبش قلم معاف کرنے کے حکم صادر فرما دیتا ہے۔ عام طور پر بینک چند ہزارروپے کا قرض معاف کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے، بلکہ جو لوگ قرض پر گاڑیاں لیتے ہیں، وہ اگر ایک دو قسطیں ڈیفالٹ کر جائیں تو بینکوں سے وابستہ لوگ اِن کی گاڑیوں پر بھی قبضہ کر لیتے ہیں۔ دوسری طرف یہ دریا دلی کہ کھربوں روپے کے قرض ڈکارنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔

رہی بات موجودہ ’’اصلاحاتی بجٹ‘‘ کی تو مجھے اسد عمر سے یا موجودہ حکومت سے غرض نہیں، غرض اس سے ہے کہ عوام کو ریلیف ملنا چاہیے، اس ملک کو گھمبیر معاشی حالات سے باہر نکلنا چاہیے، اس ملک کے عوام کو خوشحال ہونا چاہیے۔ اس لیے موجودہ حکومت نے اس مذکورہ منی بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کی حقیر سی کوشش کی ہے کہ  انھوں نے قرضہ حسنہ اسکیم میں گھروں کے لیے قرضوں کی اسکیم کا اعلان کیا ہے اور ٹیکس 39 سے کم کرکے 20 فیصد کردیاہے،حکومت نے نان فائلر پر 1300 سی سی تک گاڑیاں خریدنے کی بندش ختم کر دی ہے۔

شادی ہالوں پر بھی ٹیکس میں کمی کرنے کا اعلان کیا ہے، نیوز پرنٹ کی امپورٹ کو ڈیوٹی فری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کسان اور تاجر وں کو مراعات دی ہیں۔ آٹو کی وینڈر انڈسٹری کو مراعات دے کر بجلی کے بحران پا قابو پانے کی کوشش کی ہے یا گاڑیاں مہنگی کرکے امیروں سے ٹیکس وصول کرکے غریبوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ حکمران جانتے ہیں کہ یہ عوام کے لیے کافی نہیں ہے، مگر دیر آئد درست آئد کے مصداق حکومت نے قرض حسنہ کے حوالے سے جو اعلان کیا ہے اُس پر شرح سود نہ ہونے کے برابر رکھ کر چھوٹے کاروبار کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ میرے خیال میں حکومت نے اس حوالے سے بنگلہ دیش اور ملائشیا ماڈل کو ذہن میں رکھا ہوگا کیوں کہ وہاں بھی بہت سے قرض حسنہ کی اسکیمیں متعارف کرائی جاتی ہیں جس سے مڈل مین فائدہ اُٹھاتا ہے۔ لیکن بینکوں کی جانب سے دیے جانے والے قرضوں کی شرح سود ابھی زیادہ ہونے کی وجہ سے کاروباری حضرات پریشان دکھائی دیتے ہیں۔

حالانکہ بھارت میں شرح سود 11 فیصد اور بنگلہ دیش و سری لنکا میں یہ شرح 9 اور ساڑھے 9 فیصد سے بھی کم ہے کہ لیکن پاکستان میں یہ شرح 20 فیصد کے قریب ہے۔ اس لیے کاروباری حضرات پاکستان میں کاروبار کا آغاز کرنے کے بجائے بنگلہ دیش کو ترجیح دے رہے ہیں۔ خیر آنے والے دنوں میں حکومت کو اس جانب بھی توجہ دینا پڑے گی اور بالواسطہ ٹیکسوں کو کم کرنا پڑے گا کہ عام آدمی کی زندگی خوشحال ہو سکے۔ آپ پاکستان میں ٹیکسوں کی بڑھتی ہوئی شرح کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جو لوگ پاکستان میں موٹر سائیکل خریدنے کی سکت نہیں رکھتے امریکا یورپ یا عرب ممالک میں جا کر فوراََ گاڑی خرید لیتے ہیں۔ وہاں گھر کے قرض آسان شرائط پر مل جاتا ہے۔

بہرکیف حکومت نے موجودہ بجٹ میں معیشت کے حوالے سے جن نقائص کی نشاندہی کی ہے، انھیں دور کرنا ہو گا، اور قرض معاف کرانے والوں کے خلاف بھی اس ملک میں کوئی قانون بننا چاہیے، کیوں کہ انھی کرپٹ افراد کی وجہ سے آج ملک مشکل حالات میں ہے، آج ہم ہم قرضوں کا سود اتارنے کے قابل بھی نہیں، ڈالر مہنگا کیوں نہ ہو کہ جب روزانہ منی لانڈرنگ ہو رہی ہو، روزانہ ایک مافیا مارکیٹ سے ڈالر خرید کر باہر بھجوائے اور باہر سے واپس منگوا کر منافع کمائے، ڈالر مہنگا کیوں نہ ہو جب حکمران اتنے سخی کہ ڈیلیں ڈالروں میں، اپنی کمیشن سمیت سب ادائیگیاں ڈالروں میں، ڈالر کیوں مہنگا نہ ہو جب اپنے مگرمچھوں کے 2 سو ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہوں اور جب 10 ارب ڈالر کی دبئی میں جائیدادو ں کے علاوہ صرف دو سال مید 4 ہزار دو سو 48 ارب کی متحدہ عرب امارات میں پاکستانی مزید سرمایہ کاری کر لیں۔

ان کے ادوار میں تو یقین مانیں حکمران جائیدادیں بنا تے رہے، عوام بھنگڑے ڈالتے رہے، ملک تباہ ہوتا رہا، اورصورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ 5 فیصد طبقہ اشرافیہ بن گیا اور 95 فیصد کو ناکوں، فاقوں، دھماکوں سے ہی فرصت نہیں ملتی رہی، 5 فیصد کی روز عیدیں، شبراتیں، 95 فیصد مخلوق مسکرانا بھول گئی، 5 فیصد سوئس بینکوں، سرے محلوں اور ایون فیلڈ ہاؤسز کی مالک، 95 فیصد بھوکے ننگے چھت کو ترس ترس کر قبروں میں اترے رہے اور بظاہر ایک دوسرے کے مخالف 5 فیصد اندر سے یوں سیانے کہ ذرا سا کٹھن لمحہ، تھوڑا  سا مشکل وقت آئے یا بات اولادوں، جائیدادوں کی طرف جانے لگے تو جمہوریت، سویلین بالادستی کی بکل مار کر سب ایک ہوجاتے رہے جب کہ 95 فیصد جہالت ایسی منقسم کہ بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا، باپ بیٹے کا نہیں اوربیٹا باپ کو نہ پہچانے، یہ 5 فیصد کی خوش بختی کہ انھیں مفت میں 95 فیصد کمی کمین، مزارع ملے رہے اور اب جب کہ ان پر گرفت مضبوط ہو رہی ہے تو یہ شوشے بازیاں کرکے ایک بار پھر قوم کا دھیان بٹانے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ دیکھو ’’تبدیلی‘‘ نے ملک برباد کر دیا۔ دیکھو ملکی معیشت کا ان پانچ مہینوں میں کچومر نکال دیا وغیر ہ وغیرہ ۔ لہٰذاوزیر اعظم عمران  خان سے گزارش ہے کہ جیسے تیسے کرکے ان لوگوں سے پیسے نکلوائیں جنہوں نے ملکی معیشت پر شب خون مارا ہے۔ ان سے سود سمیت رقوم واپس لی جائیں ورنہ ان پر پاکستان میں ہر قسم کی سرگرمیوں کو معطل کرکے ان کی جائیدادیں بحق سرکار ضبط کر لی جائیں تاکہ اس ملک کے عوام کو کچھ تو ریلیف مل سکے!!!

The post قرضے معاف کرانے والے آزاد کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

سو موٹو اور جوڈیشل ایکٹوازم

$
0
0

میرے کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ اگر اس وقت سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار چیف جسٹس ہوتے تو اب تک سانحہ ساہیوال پر سو موٹو لے چکے ہوتے۔ انھوں نے آئی جی، سی ٹی ڈی کے ذمے داران اور حکومت پنجاب کے تمام افسران سمیت وزیر اعلیٰ کو عدالت میں کھڑا کیا ہوتا۔ کوئی بعید نہیں تھا کہ انھوں نے وفاقی حکومت کو بھی ساتھ کٹہرے میں کھڑا کیا ہوتا اور چیف جسٹس ڈرائیونگ سیٹ پر نظر آتے۔

ان کے ریمارکس ہی ہیڈلائنز بنتے ہیں۔ متاثرین کے معاوضہ کا تعین بھی سپریم کورٹ ہی کر رہی ہوتی ۔ ایک ایسا منظر بن جاتا ہے جس میں ایسا نظر آتا ہے کہ ملک میں سپریم کورٹ کے سوا کوئی ادارہ نہیں ہے۔ لیکن موجودہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس کھوسہ نے منظر نامہ ہی بدل دیا ہے۔ سانحہ ساہیوال پر اب حکومت بھی متحرک نظر آرہی ہے۔

پارلیمنٹ بھی متحرک نظر آرہی ہے۔ اپوزیشن بھی متحرک نظر آرہی ہے۔ پاکستان ایک زندہ معاشرہ نظر آرہا ہے۔ لوگ سوال کر رہے ہیں۔ حکومت جواب دے رہی ہے۔ اپوزیشن پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ سے باہر بات کر رہی ہے۔ پارلیمانی کمیٹی بنانے کی بات ہو رہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت کے تمام ادارے متحرک ہیں۔ ساری اکائیاں اپنا کام کر رہی ہیں۔ اب بھی یہی نظر آرہا ہے کہ ذمے داران کو قرار واقعی سزا ملے گی۔

کیا ایسا نہیں ہے کہ جب کسی معاملہ پر سپریم کورٹ از خود نوٹس لے لیتی ہے تو ریاست کے تمام ادارے مفلوج ہو جاتے ہیں۔ ساری اکائیاں مائنس ہوجاتی ہیں۔ پارلیمنٹ بے اثر ہو جاتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی غیر فعال ہوجاتی ہیں۔ تفتیش کرنے والے ادارے غیر ضروری دباؤ میں آجاتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ریاست ہی بے اثر ہو جاتی ہے۔

اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ سانحہ ساہیوال سے چیف جسٹس پاکستان کے اس موقف کو تقویت ملتی ہے کہ سو موٹو صرف ایسی ناگزیر حالت میں لینا چاہیے جب قانون میں کوئی اور ریلیف میسر نہ ہو۔ جب قانون میں راستے موجود ہوں تب سپریم کورٹ کو از خود نوٹس کے اختیارات کو استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اس طرح باقی ادارے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے سانحہ ساہیوال پر سو موٹو نہ لے کر چیف جسٹس پاکستان نے باقی اداروں کو اپنا کام کرنے کا موقع دیا۔یہی درست آئینی اور قانونی طرز عمل ہے۔

ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ پاکستان میں گڈگورننس ڈنڈے سے نہیں آسکتی۔ گڈ گورننس معاشرتی شعور کے نتیجے میں آتی ہے۔ گڈ گورننس ایک سوچ کا نام ہے۔ ایک ذمے داری کا احساس ہے۔ یہ معاشرہ کے دباؤ کے نتیجے میں آتی ہے۔ دنیا کے جن ممالک میں گڈ گورننس کے اعلیٰ معیار قائم ہیں۔ وہاں یہ معیار کسی سوموٹو کے بار بار استعمال کے نتیجے میں نہیں قائم ہوئے۔ بلکہ وہاں کے معاشرتی شعور اور عوامی دباؤ کے نتیجے میں گڈ گورننس آئی ہے۔ اس لیے اگر عوام کی آواز کو سامنے آنے دیا جائے۔ معاشرتی شعور کو بڑھنے دیا جائے تو ملک میں گڈ گورننس کے اعلیٰ معیار قائم ہو سکتے ہیں۔

اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو سو موٹو اختیارکا بار بار استعمال ایک شارٹ کٹ تو ہوسکتا ہے۔ یہ مسئلہ کا مستقل حل نہیں ۔یہ بیماری کا علاج نہیں لیکن کسی ایک موقع پر درد کم کرنے کی دوا تو ہوسکتی ہے، یہ انصاف کا متبادل نہیں ہے۔ جلد از جلد انصاف کی فراہمی کے لیے جیوڈیشل ریفارمز بھی جیوڈشیل ایکٹوزم کی ہی ایک شکل ہیں۔یہی وقت کی ضرورت ہے۔

اگر ہم ماضی میں جائیں تو قصور میں معصوم بچی زینب سے زیادتی کے کیس میں عدالت میں سو موٹو لیا تھا۔ لیکن ملزم کسی سو موٹو کے نتیجے میں گرفتار نہیں ہوا تھا بلکہ عوامی اور معاشرتی دباؤ کے نتیجے میں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے تفتیشی اداروں نے گرفتار کیا تھا تا ہم اس کی گرفتاری کے بعد جتنا جلد اس مقدمہ کی سماعت مکمل ہوئی اور ملزم کیفر کردار تک پہنچا وہی اس کا سب سے مثبت پہلو تھا۔ میری رائے میں اس طرح کے ہولناک مقدمات سمیت تمام مقدمات میں جلد از جلد انصاف کی فراہمی ہی عدلیہ کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ اگر عدلیہ یہ فیصلہ کرے کہ سانحہ ساہیوال کے مقدمہ کی سماعت زینب کیس کی طرح چند دنوں میں مکمل کی جائے گی۔ اپیلوں کی سماعت بھی چند ہفتوں میں مکمل ہوگی اور ملزمان چند ماہ میں ہی اپنے انجام تک پہنچیں گے۔ تو یہ جیوڈیشل ایکٹوزم کی مثبت شکل ہوگی۔

محترم چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اعلان کیا ہے کہ سپریم کورٹ میں زیر التوا فوجداری اپیلوں کا فیصلہ اگلے تین ماہ میں مکمل ہو جائے گا۔ یہ بہت ہی خوش آیند ہے۔ زیر التوا مقدمات کا جلد از جلد فیصلہ ہی اصل جیوڈیشل ایکٹوزم ہے۔ یہی بہترین سو موٹو ہے۔ میری رائے میں چیف جسٹس پاکستان کو فوری طور پر چاروں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کا اجلاس بلانا چاہیے۔ انھیں چیف جسٹس صاحبان کے ساتھ مل کر کوئی ایسا راستہ تلاش کرنا چاہیے کہ کس طرح موجودہ وسائل میں مقدمات کو جلد از جلد نبٹایا جا سکتا ہے۔ ہائی کورٹس میں زیر التوا مقدمات کی تعداد کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک مزید وسائل کی ضرورت ہے اس ضمن میں بھی عدلیہ کو قابل عمل تجاویز اور ڈیمانڈ سامنے لانی چاہیے تاکہ ان پر بحث ہو سکے۔

آج ملک میں جیوڈیشل ایکٹوزم کی ایک نئی شکل سامنے آئی ہے۔لیکن جلد از جلد انصاف کی فراہمی ہی جیوڈیشل ایکٹوزم کی بہترین شکل ہے۔ سوموٹو کی جگہ مقدمات کو نبٹانے کی بات ہو رہی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ عدلیہ کو اپنے اندر احتساب کے عمل کو بھی تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ سپریم جیوڈیشل کونسل کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ ماتحت عدلیہ کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ عدلیہ میں ہڑتالوں کے کلچر کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے لیے تو ایک نئے چارٹر آف گورنمنٹ کی تو ضرورت ہے لیکن بار اور بنچ کو ایک نئے کوڈ آف کنڈکٹ پر متفق ہونے کی بھی ضرورت ہے۔ تاریخ پر تاریخ کا کلچر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن سو موٹو کا خاتمہ بھی خوش آیند ہے۔

The post سو موٹو اور جوڈیشل ایکٹوازم appeared first on ایکسپریس اردو.

نئی امریکی پیش کش

$
0
0

امریکا نے پاکستان کو افغان جنگ کو ختم کرنے میں مدد فراہم کرنے پر مفت تجارتی معاہدہ (ایف ٹی اے)کی پیش کش کردی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک بیان میں سینیٹر گراہم نے کہا اگر ہم اسلام آباد کو طالبان کو امن مذاکرات کی میز تک لانے پر مفت تجارتی معاہدہ پیش کریں تو افغان جنگ کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

افغان امن مذاکرات کی کامیابی کے لیے امریکا کی بے تابی اور بے قراری اپنی جگہ برقرار ہے اور وہ اس سلسلے میں ہر حد تک جانے کو تیارہے ۔امریکا فوج کی ایک مخصوص تعداد اور فوجی اڈے افغانستان میں رکھ کر طالبان سے امن مذاکرات کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے، یہ بات اب طے ہے کہ امریکا افغانستان سے کسی صورت نکلنا نہیں چاہتا ، یہاں رہ کر وہ ایشیا کے لیے واچ ڈاگ کا کردار ادا  کرسکتا ہے ۔

یہاں سے نکلنے پر امریکا کی عالمی تھانیداری متاثر ہوتی ہے اور افغان جنگ میں شکست کا داغ الگ سے اس کے ماتھے کا جھومر بنتا ہے ۔موجودہ افغان حکومت سو فی صد اس حق میں ہے کہ امریکی فوجی یہاں قیام کریں ۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو امریکی سترہ تک یا 79ء سے اب تک  پینتیس، چالیس سال میں افغان فوج کی تربیت مکمل نہ کرسکے۔

ان سے تربیت لینے کا کیا فائدہ؟ افغانستان میں امریکی شکست کی ذمے داری کسی طور پاکستان پر نہیں ڈالی جاسکتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان ایک خانہ جنگی میں مبتلا ملک ہے جہاں مختلف دھڑے اور منظم گروپ موجود ہیں جو اپنے اپنے مفادات سے وابستہ ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات خراب کرنے کے خواہاں نہیں ہیں۔امن مذاکرات کے لیے ان تمام طالبان دھڑوں کو رابطے میں لانا ہوگا،چین، فرانس،جرمنی، روس،ایران کے اپنے مفادات طالبان سے وابستہ ہیں۔

دوسری جانب واشنگٹن کے سفارتی حکام کے مطابق پاکستان کے لیے ایف ٹی اے کی پیش کش صرف اس وقت ممکن ہے جب واشنگٹن افغان جنگ میں معاہدے پر اسلام آباد کی کوششوں سے مطمئن ہوگا۔

ری پبلکن سے تعلق رکھنے والے امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے رکن لنزسے گراہم کو ڈونلڈ ٹرمپ کا کانگریس میں قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے اورامریکی میڈیا کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ اپنے خیالات کو عوامی سطح پر زیر بحث لانے کے لیے ان کا استعمال کرتے ہیں۔

بہرحال پاکستانی قیادت کو اس موقعے پر انتہائی دانشمندی، تدبر، فراست اور دوراندیشی پر مبنی فیصلہ کرنا ہوگا جو پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرسکے ۔ پاکستان میں امن، افغانستان کے امن واستحکام سے منسلک ہے اور پاکستان شورش زدہ افغانستان میں قیام امن کے لیے افغانیوں کی اپنی قیادت سے ان کے شروع کردہ مفاہمتی عمل کا حامی ہے۔

The post نئی امریکی پیش کش appeared first on ایکسپریس اردو.

گڈ گورننس کی سمت پیش رفت

$
0
0

ملک کے سیاسی، عدالتی اور انتظامی افق پر غیر معمولی فیصلوں کے عندیے مل رہے ہیں جو بادی النظر میں ادارہ جاتی سطح پر ان ناگزیر اقدامات اور غیر روایتی فیصلوں کی بنیاد بنیں گے۔

مبصرین کی نگاہ میں ایک طرف گڈ گورننس کی اشد ضرورت اجاگر ہوئی ہے تاکہ حکومت خارجہ امور ، دوست ملکوں سے مالی امداد کے حصول اور سفارتی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ داخلی سیاسی کشمکش، دباؤ اور معیشت کی درست سمتی پر مکمل توجہ دے سکے جب کہ وفاقی حکومت کے اہم فیصلوں سے دباؤ کی شکار بیوروکریسی اور ریاستی اداروں کو بھی متحرک ہونے کا موقع ملے گا، وفاقی کابینہ کے فیصلہ کے مطابق پاکستان کو دنیا بھر کے لیے اوپن ملک بنایا جائے گا، وفاقی کابینہ نے میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام ، ای او بی آئی کے پنشنرز کی پنشن میں 10 فیصد اضافے کا فیصلہ بھی کیا۔

کابینہ نے واقعے ساہیوال کا تفصیلی جائزہ لیا اور پولیس اصلاحات اور انصاف کی فراہمی پر اہم پیش رفت کی ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ پہلے مرحلہ میں 100 ماڈل پولیس اسٹیشنز بنیں گے۔ اجلاس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی شرکت کی۔

عدلیہ کے بعض مقدمات اور ساہیوال سانحہ کے سیاق وسباق میں چشم کشا ریمارکس اور پولیس کی کارکردگی پر سخت برہمی کا اظہار ایک انتباہ ہے، عدلیہ نے استفسار کیا کہ پولیس نے5 سال کی بچی کو بھی نہیں چھوڑا، کیا وہ دہشتگرد تھی؟ یہ سوال انتظامی ضمیر کے لیے کسی للکار سے کم نہیں۔ ساہیوال سانحہ میں انصاف سب کو نظر آنا چاہیے۔

عدالت عظمیٰ نے شہر قائد کی زبوں حالی کا جائزہ لیتے ہوئے قراردیا کہ کراچی کی صورتحال پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا،کراچی رجسٹری میں شہر میں غیر قانونی تجاوزات اور امن و امان کی صورت حال سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس گلزار احمد نے ایڈووکیٹ جنرل سے کہا کہ پولیس کا رویہ اور کارکردگی شرمناک ہے، کوئی دوسری فورس لائیں، یہ لوگ، اگر فیملی گاڑی میں سفر کررہی ہے اسے بھی ماردیتے ہیں، عوام کے ٹیکسوں پر پلتے ہیں مگر عوام کے لیے کچھ نہیں کرتے۔

واضح رہے سپریم کورٹ نے کراچی میں غیر قانونی تعمیرات گرانے کے بھی سخت احکامات جاری کیے۔ادھر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خاتون کے ساتھ زیادتی کے مقدمہ میں سیشن کورٹ اور ہائیکورٹ کے فیصلوں پر سوال اٹھاتے ہوئے آبزرویشن دی کہ جج کا کام انصاف کرنا ہوتا ہے، جو انصاف نہیں کرسکتے وہ گھر چلے جائیں۔

ماہرین قانون کے فہمیدہ حلقوں کے مطابق انصاف کی فراہمی ،عام آدمی کے بنیادی حقوق کی پامالی، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے غیر انسانی اور جابرانہ طرز عمل کا نوٹس لیتے ہوئے عدلیہ نے جن زمینی حقائق کا ذکر کیا ہے وہ عوام کے لیے داد رسی کو یقینی بنانے اور غریب و بے بس افراد کو مسند انصاف پر فائز ججز کی طرف سے انصاف کی جانب پیش قدمی ہے۔ سانحہ ساہیوال نے پوری قوم کے اعصاب جھنجھوڑ کر رکھ دیے ہیں۔

دریں اثنا چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سردار محمد شمیم خان نے سانحہ ساہیوال کی تفتیش مکمل نہ کرنے پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے جے آئی ٹی کے سربراہ کو ریکارڈ سمیت آیندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم دیدیا جب کہ کیس کی اہمیت کے پیش نظر مزید سماعت کے لیے دو رکنی بنچ بھی تشکیل دیدیا، چیف جسٹس ہائیکورٹ کی سربراہی میں جسٹس صداقت علی خان پر مشتمل دو رکنی بنچ 4 فروری کو کیس کی سماعت کریگا، چیف جسٹس سردار شمیم نے سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کرانے کی درخواست پر سماعت کی۔

آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی عدالت میں ریکارڈ سمیت پیش ہوئے، چیف جسٹس نے آئی جی سے استفسار کیا کہ ابھی تک کیا انویسٹی گیشن ہوئی ہے۔ آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ گولیاں چلانے والوں کو گرفتار کر لیا گیا اور معاملے پر جے آئی ٹی بھی بنا دی گئی ہے جب کہ واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی کے افسران کو معطل بھی کر دیا گیا ہے، انھوں نے آیندہ جعلی پولیس مقابلے نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی ، دریں اثنا نقیب اﷲ قتل کیس میں بڑی پیش رفت سامنے آگئی.

مقتولین کا قتل ماورائے عدالت قرار دیتے ہوئے انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے بی کلاس کی رپورٹ منظور کرلی ، بی کلاس رپورٹ کے مطابق نقیب اﷲ، صابر، نذر جان اور اسحاق کو داعش اور لشکر جھنگوی کے دہشت گرد قرار دیکر ویران مقام پر قتل کیا گیا۔ انکوائری کمیٹی اور تفتیشی افسرنے جائے وقوعہ کا معائنہ کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پولٹری فارم میں گولیوں کے نشان اور نہ ہی دستی بم پھٹنے کے آثار ملے۔ حالات و واقعات اور شواہد کی روشنی میں یہ مقابلہ بے بنیاد تھا۔ لہذا امید کی جانی چاہیے کہ پولیس اصلاحات ، معیشت کے استحکام، انصاف کی جلد فراہمی، کراچی میں کنکریٹ جنگل کے سدباب اور عام آدمی کے معیار زندگی میں بہتری کے لیے وفاقی وصوبائی حکومتیں بھرپور توجہ دیں گی۔

The post گڈ گورننس کی سمت پیش رفت appeared first on ایکسپریس اردو.

ہمیں تم سے پیار ہے عمر شریف

$
0
0

کسی انسان کا صاحب اولاد ہونا اس کی خوش قسمتی سمجھا جاتا ہے اور اگر وہ صاحب کتاب بھی ہوجائے تو اس کی قدر دانی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے کیونکہ کتابیں انسان کو اس کے مرنے کے بعد بھی زندہ رکھنے کا باعث بنتی ہیں۔ ’’ہمیں تم سے پیار ہے‘‘ یہ گزشتہ دنوں نیو جرسی کے مقامی ہوٹل میں اس کتاب کی رونمائی کی تقریب منعقد کی گئی تھی۔

یہ کتاب معروف صحافی و رائٹر عارف افضال عثمانی کی کاوشوں کا نچوڑ ہے، ان کا یہ اقدام قابل تعریف ہے کہ انھوں نے ملک کے لیجنڈ ڈرامہ، ٹی وی اور فلم کے فنکار عمر شریف کے بارے میں ایک خوبصورت کتاب لکھی اور عمر شریف سے اس محبت کا اظہار کیا جس کا وہ بجا طور پر حقدار ہے۔

اس کتاب میں پاکستان اور ہندوستان سے متعلق فلم، ٹی وی اور اسٹیج اور ادب کی تقریباً سو مشہور شخصیات نے اپنے اپنے انداز میں عمر شریف کی شخصیت اور فن کو سراہا ہے اور سب نے ہی اسے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمر شریف ایک عظیم فنکار ہے، ایک انمول شخصیت کا حامل ہے جس نے خاص طور پر اسٹیج ڈرامے کو ایک نئی زندگی دی بلکہ ڈرامے کی دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ یہ وہ فنکار ہے جس کے ڈرامے برصغیر میں پہلی بار ویڈیو کی صورت میں منظر عام پر آئے ہیں اور اس کے ڈراموں نے ہر جگہ اپنی بے مثال کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں۔اس کے ڈراموں نے نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان کے شایقین کو بھی اپنے سحر میں جکڑ کے رکھ دیا ہے ۔

عمر شریف کے بارے میں ایک عوامی رائے یہ بھی ہے کہ عمر شریف اسٹیج ڈراموں کا بے تاج بادشاہ ہے، عمر شریف کی کہانی محمد عمرکے نام سے شروع ہوتی ہے جب یہ کراچی کے گنجان علاقے لیاقت آباد میں 1955ء میں پیدا ہوا تھا ۔ ابھی یہ پانچ سال کی عمر تک پہنچا تھا کہ اس کے والد کا انتقال ہو گیا تھا پھر والدہ نے نامساعد حالات کا سامنا کرتے ہوئے محمد عمر کو ماں اور باپ دونوں کا پیار دیا اور اسے کسی قسم کی محرومی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ اسے بچپن ہی سے فلمیں دیکھنے کا شوق تھا۔ یہ ماں کا لاڈلہ تھا ماں اس کی ہر ضد پوری کرتی تھی یہ شہر میں ہونے والے ڈرامے اور فلمیں دیکھنے کا شوقین ہو گیا تھا۔ کبھی کبھی تو یوں بھی ہوتا تھا کہ ماں نے اسے کچھ پیسے دیے کہ وہ بازار جاکر گوشت اور سبزی وغیرہ لے کر آ جائے عمر شریف وہ پیسے لے کر گھر سے جاتا اور پھر کوئی نہ کوئی فلم دیکھنے چلا جاتا تھا۔

اور پھر وقت تیزی سے گزرتا چلا گیا۔ایک دن عمر شریف مصری نژاد امریکن ایکٹر عمر شریف کی فلم ’’چنگیز خان‘‘ دیکھ کر آیا اس فلم نے اس کے دل ودماغ پر بڑا اثر کیا۔ اس نے وہ فلم کئی بار دیکھی۔ پھر عمر شریف کی فلم ’’ لارنس آف عریبیہ‘‘ دیکھی اور اس نے اس دن اپنا نام محمد عمر سے عمر شریف رکھ لیا تھا۔ اور اس دن سے ایک نئے عمر شریف نے جنم لیا، پھر یہ مختلف ڈراموں اور فنکشنوں میں جانے لگا اور بعض فنکشنوں میں بیک گراؤنڈ میوزیشن کے طور پر بھی اپنی خدمات انجام دینے لگا۔ اسے بچپن سے کتابیں پڑھنے کا بڑا شوق تھا۔ بڑے بڑے افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں کو پڑھتا تھا۔ پھر اس نے شاعری بھی شروع کر دی۔ نظمیں لکھیں اور کئی ڈرامے لکھے ۔

ایک دن اس نے اسٹیج آرٹسٹ معین اخترکو اپنا لکھا ہوا ڈرامہ ’’بائیونک سروینٹ‘‘ باقاعدہ اداکاری کر کے سنایا۔ معین اختر نے وہ ڈرامہ بڑا پسند کیا اورکہا ’’یار! یہ تو زبردست آئیڈیا تمہارے دماغ میں آیا ہے، میں اسے ضرور اسٹیج پر لاؤں گا۔ میں خود یہ ڈرامہ کروں گا۔‘‘ عمر شریف نے منہ لٹکاتے ہوئے کہا ’’مگر معین بھائی! یہ ڈرامہ تو میں خود کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ معین اختر نے سمجھایا ’’تم ابھی نئے ہو، تم یہ ڈرامہ اگر اکیلے کرو گے تو ناکام بھی ہو سکتے ہو۔ میرے ساتھ مل کر کرو، تمہارا بھی نام ہو گا اور ڈرامہ بہت کامیاب ہو گا۔‘‘ اور اس طرح عمر شریف معین اختر کی گڈ بک میں آگیا۔

پھر کئی ڈرامے عمر شریف نے لکھے اور معین اختر کے ساتھ اور فرقان حیدر کے ساتھ مل کر کیے۔ معین اختر اسٹیج سے پھر ٹیلی ویژن کی طرف چلا گیا اور فرقان حیدر کے ساتھ عمر شریف کراچی کے اسٹیج پر چھاتا چلا گیا۔ پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ معین اختر نے عمرشریف کے بارے میں کہا ’’اب اسٹیج کو عمر شریف کی ضرورت ہے، میری نہیں ہے۔‘‘ اور عمر شریف اسٹیج کی دنیا کا بلند قامت اداکار ہے عمر شریف کے ڈراموں نے شائقین کو اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا تھا عمر شریف کا نام بکنے لگا تھا اور اس کی شہرت کے ڈنکے سارے پاکستان میں بجنے لگے تھے پھر اس کے ڈراموں کو پہلی بار ویڈیو کے روپ میں مارکیٹ میں لایا گیا۔ یہ ڈرامے پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی بے تحاشا پسند کیے جانے لگے اور وہ وقت آگیا تھا جب عمر شریف اپنی ماں کی دعاؤں سے ملک کا سب سے عظیم اسٹیج اداکار کا ٹائٹل حاصل کر چکا تھا۔ اس کے ڈراموں نے فلموں کی مقبولیت کو بھی مات کر دیا تھا۔

پھر یہ لاہور کی فلم انڈسٹری پہنچا اور اس نے اس فلم انڈسٹری کو بھی فتح کر لیا۔ اس کی ایک دیرینہ آرزو تھی کہ وہ بین الاقوامی شہرت یافتہ خاموش فلموں کے زمانے کے اداکار چارلی چپلن کا کردار ادا کرے، اس نے لاہور میں ’’چارلی‘‘ کے نام سے فلم پروڈیوس کی اور چارلی کا مرکزی کردار بھی بڑی خوبصورتی کے ساتھ ادا کیا۔ اس فلم کی ہیروئن اداکارہ شکیلہ تھی، جب عمر شریف فلم ’’چارلی‘‘ کی ریلیز کے بعد کراچی آیا تو اس کے اعزاز میں کئی تقریبات ہوئیں۔ ان میں سے ایک شاندار تقریب کا انعقاد میں نے بھی اس کے اعزاز میں کیا تھا۔

عمر شریف نے آدم جی کے اسٹیج پر میرا لکھا ہوا اور پروڈیوس کیا ہوا ڈرامہ ’’مقدر کا سکندر‘‘ بھی کیا تھا جو سال میں دو بار ا اسٹیج کیا گیا تھا اور بڑا پسند کیا گیا تھا۔ عمر شریف کے جن ڈراموں کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی ان میں بکرا قسطوں پر، بڈھا گھر پر ہے، ماموں مذاق نہ کر، منی بد نام ہوئی، ولیمہ تیار ہے نے عوام میں بڑی پذیرائی حاصل کی۔ عمر شریف کے ڈراموں کے ویڈیوز نے امریکا، یورپ، کینیڈا اور ہندوستان میں بڑی دھوم مچائی ہے، انڈیا کی بعض مشہور فلموں کو بھی مقبولیت کے حساب سے عمر شریف کے ڈراموں نے پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ عمر شریف کو بے شمار ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا ہے اور حکومت پاکستان کی طرف سے بھی ستارہ امتیاز دیا گیا ہے۔ آج عمر شریف کی پیاری ماں کا لاڈلہ آج سارے پاکستان کا لاڈلہ فنکار ہے۔ عمر شریف نے صدقہ جاریہ کے طور پر اپنی ماں کی محبت میں ’’ماں اسپتال‘‘ بنایا ہے جہاں غریب مریضوں کو علاج کی سہولتیں حاصل ہیں۔

پچھلے دنوں نیو جرسی میں کتاب ’’ہمیں تم سے پیار ہے‘‘ کی تقریب رونمائی میں امریکا کی کئی ریاستوں سے عمر شریف کے چاہنے والوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی تھی نیو جرسی کے پرل بینکوئٹ ہال میں عمر شریف کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے متعدد ادیبوں، شاعروں، کالم نگاروں اور کئی سیاسی جماعتوں کے لوگوں نے بھی شرکت کی جس میں خاص طور پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے والوں میں عارف افضال عثمانی، آفتاب قمر زیدی، بشیر قمر، احتشام رضا کاظمی، ڈیلس سے خاص طور پر آئے ہوئے اسٹیج پروڈیوسر اور ڈائریکٹر فرقان حیدر، اویس نصیر، پاکستان سے آئے ہوئے علی رضا، اے آر وائی کے آصف جمال اور راقم نے بھی عمر شریف کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ عمر شریف کو اس تقریب میں آنا تھا مگر وہ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے نہیں آسکے تھے۔ عمر شریف ہمارے ملک کا قیمتی سرمایہ ہے، ہمارے ملک کا فخر ہے۔ عمر شریف! ہمیں تم سے پیار بھی ہے ہمیں تم پر ناز بھی ہے جگ جگ جیو!

The post ہمیں تم سے پیار ہے عمر شریف appeared first on ایکسپریس اردو.


وی آئی پی کلچر برقرار کیوں

$
0
0

نئے پاکستان کے حکمرانوں نے وی آئی پی کلچر ملک سے ختم کرنے کے بڑے بڑے دعوے کیے تھے مگر عمل دکھاؤے کا کچھ دنوں ہوا جو اب اپنی پرانی ڈگر پر آتا جا رہا ہے، جس کا ثبوت گورنر سندھ کا 21 گاڑیوں کے ساتھ سکھر کا دورہ ہے اور وفاقی وزرا میں وزیر اعظم کے برعکس وی آئی پی کلچر کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے ۔

وزیر اعظم کی تقلید کی بجائے اکثر وزیر، مشیر اور معاونین خصوصی اپنے سربراہ کی طرح نظر نہیں آرہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی سادگی کا تو ان کے دورہ ترکی کے دوران وہاں کے صدر نے بھی اعتراف کیا ہے جو خود سوٹ میں ملبوس ہوتے ہیں۔ نئے پاکستان کے دعویدار عمران خان کا ایک نعرہ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ اور سادگی کا فروغ تھا جس پر وہ اکثر عمل بھی کر رہے ہیں۔

انھیں کسی غیر ملکی سرکاری دورے میں بھی سوٹ میں ملبوس نہیں دیکھا گیا جس کا عوام پر اچھا تاثر قائم ہو رہا ہے اور ان کے مخالفین بھی وزیر اعظم عمران خان کی سادگی کا اعتراف کر رہے ہیں مگر ان کی کابینہ کے ارکان اپنے وزیر اعظم کی سادگی سے متاثر ہوتے نظر آتے ہیں اور نہ ان کی تقلید کر رہے ہیں کیونکہ ان کے لیے سوٹ پہننا ہی اقتدار میں آنے کا واحد مقصد رہ گیا ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سوٹ میں نظر آنے کی انفرادیت ان کی شناخت ہے اور شاید ان کی کوئی ذاتی حیثیت نہیں ہے جب کہ وزیراعظم کی ذاتی حیثیت دنیا مانتی ہے۔

گزشتہ دنوں کراچی کینٹ اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں مسافر شالیمار ٹرین پٹری پر اور ایک سرکاری کار پلیٹ فارم پر موجود تھی جو جنرل منیجر ریلوے کے لیے پلیٹ فارم پر لائی گئی تھی جو شاید جسمانی طور پر معذور تھے یا اپنی وی آئی پی حیثیت دکھانا چاہتے ہوں جب کہ ان کی وجہ سے شالیمار ٹرین لیٹ اور مسافر پریشان ہوئے مگر جنرل منیجر ریلوے کا وی آئی پی پروٹوکول ختم ہوا، نہ بڑے بڑے دعوے کرنے والے اور عوامی کہلانے والے وزیر ریلوے نے جنرل منیجر کے وی آئی پی بننے کا کوئی نوٹس لیا۔

پنجاب، کے پی کے ، بلوچستان اور انتظامی صوبے گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ کو یہ اعزاز ضرور حاصل ہے کہ وہ قومی لباس کو اہمیت دے کر وزیر اعظم عمران خان کی پیروی کر رہے ہیں۔ انھیں قومی لباس میں ان کے افسران، صوبوں کے معززین اور ملک بھر کے عوام پہچانتے ہیں کہ وہ وزرائے اعلیٰ ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ سوٹ میں ہی وزیر اعلیٰ کا دبدبہ نظر آئیں، صرف سندھ کے وزیر اعلیٰ ہی سوٹ کے شوقین نظر آتے ہیں اور انھیں محسوس ہوتا ہو گا کہ شلوار قمیض میں وہ سندھ کے وزیراعلیٰ نہیں لگیں گے۔

2008ء سے 2013ء تک پیپلز پارٹی کے دور میں صدر آصف زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے درمیان نئے نئے اور مہنگے سوٹ پہننے کا مقابلہ رہتا تھا اور پاکستانی حکمران بیرون ملک کی ایک مشہور کمپنی سے 5 لاکھ روپے مالیت تک کا مہنگا سوٹ بنوا کر پہننا اپنی شان سمجھتے تھے اور کمپنی کا کہنا تھا کہ دنیا میں قیمتی سوٹوں کا آرڈر انھیں پاکستان سے زیادہ ملتا ہے۔

چوہدری سرور میڈیا رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے دور میں پنجاب کی گورنری چھوڑ کر تبدیلی کی دعویدار تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے اور سیاست شروع کی تھی تو انھوں نے قومی لباس پہننا شروع کر دیا تھا اور موصوف اپنے دوسرے گھر برطانیہ جاکر ہی سوٹ کا شوق پورا کرتے ہوں گے کیونکہ شاید سوٹ گنجے پن کی خامی چھپا دیتا ہے۔ موصوف گورنر پنجاب بننے کے بعد واحد گورنر ہیں جودو گورنر ہاؤس استعمال کر رہے ہیں اور ان کے وی آئی پی طرز زندگی کو نمایاں کرنے کے لیے 111سرکاری اہلکار متعین ہیں جو سب گورنروں سے زیادہ اور تبدیلی حکومت کی سادگی کا واضح ثبوت ہے اور شاید چوہدری سرور اپنا یہی شوق پورا کرنے کے لیے دوبارہ گورنر بنے ہیں۔

صدر مملکت عارف علوی سابق صدر ممنون حسین سے عمر میں کم ہیں مگر سابق صدر کی طرح سوٹ پہننے کے شوقین ہیں جن کا دعویٰ تھا کہ وہ پہلے صدور سے مختلف نظر آئیں گے مگر وہ بھی اپنے وزیر اعظم عمران خان کی طرح سادگی اختیار کرنے کو تیار نہیں ہیں اور کوئی سابق صدور جنرل ضیا اور غلام اسحق نہیں بن رہا۔ وزیر اعظم عمران خان تو وزیر اعظم ہاؤس میں نہیں رہ رہے جب کہ ان کے صدر مملکت اور تمام گورنر حسب معمول ایوان صدر اور گورنر ہاؤس ہی میں رہ رہے ہیں۔

فرق صرف یہ پڑا ہے کہ ایوان صدر اور گورنر ہاؤسز ہفتے میں مخصوص وقت کے لیے عوام پر کھولے جاتے ہیں کہ اب وہ قریب آکر اپنے حکمرانوں کی رہائش گاہیں دیکھ لیں مگر باہر سے کیونکہ اندر کی شاندار رہائش، دفاتر اور وی آئی پی رہن سہن دیکھنے پر اب بھی پابندی ہے وہ باہرکا ہی نظارہ کر سکتے ہیں اور کڑھ سکتی ہے۔ ماضی میں سابق فوجی صدر جنرل ضیا الحق کو لوگوں نے سائیکل پر اپنے آفس آتے دیکھا اور ان کی سادگی، قومی لباس اور انھیں شیروانی یا فوجی وردی میں ملبوس شخصیت دیکھی اور بعد میں جونیجو حکومت میں کچھ عرصہ بڑے افسروں کو چھوٹی کاروں میں سفر کرتے دیکھا مگر اب وزیر تو کیا ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی بھی ایک گاڑی میں سفر نہیں کرتے۔

ملک بھر میں وی آئی پی کلچر مسلسل فروغ پا رہا ہے اور وزرا اور اعلیٰ افسران میڈیا پر قومی لباس میں آنا پسند نہیں کر رہے جس سے وزیر اعظم عمران خان کی سادگی کی پالیسی کی حوصلہ افزائی نہیں ہو رہی اور اب تو وزیر ریلوے وی آئی پی ٹرین چلانے کا اعلان کر چکے ہیں تاکہ سفری امتیاز اور زیادہ نمایاں ہو سکے۔

وزیر اعظم کو اب اپنے وزرا کو سختی سے ہدایت کرنی چاہیے کہ وہ سوٹ پہننے کا وی آئی پی کلچر چھوڑ کر سادگی اختیارکریں اور عوامی نظر آئیں تو شاید افسروں پر بھی کچھ اثر ہو سکے۔

The post وی آئی پی کلچر برقرار کیوں appeared first on ایکسپریس اردو.

ڈیووس کے افق پر پاکستان

$
0
0

عالمی اقتصادی فورم ڈاکٹر کلاز شواب کے تخیل کا نتیجہ ہے، 1970سے ڈیووس میں اس منفرد عالمی فورم کے اجلاس منعقد ہورہے ہیں جن میں دنیا بھر سے زعما حکومت، معیشت، ٹیکنالوجی، میڈیا اور کلچر سے متعلق موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں، اس فورم میں عالمگیریت سے جنم لینے والے ایسے مسائل اور خطرات زیر بحث آتے ہیں جن سے نمٹنا ملکی و قومی حکومتوں کے بس سے باہر ہوچکا ہے۔

پوری دنیا سے کاروبار، حکومت، سول سوسائٹی، اکیڈیمیاں، فن و ثقافت اور میڈیا جیسے شعبوں سے تعلق رکھنے والی3000 نمایاں شخصیات اس سال بھی اس سوئس قصبے میں جمع ہوں گی اور اس بار عالمگیریت کے تصور کو مزید بہتر کرنے پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ ہزاروں کی افرادی قوت اس اجلاس کا انتظام و انصرام کرتی ہے۔ اجلاس کے مقام سے پچاس کلومیٹر دور تک ہوٹل کے کمروں کا کرایہ عام دنوں سے دس سے پندرہ گنا زیادہ ہوجاتا ہے۔

اس برس کے اجلاس میں چوتھے صنعتی انقلاب کے عہد میں عالمگیریت کے ڈھانچے کی صورت گری کو بنیادی موضوع رکھا گیا ہے اور اسے Globalization 4.0 کا عنوان دیا گیا ہے۔ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں افراد کے باہمی تعلقات اور فرد کے معاشرے سے تعلق کے تانے بانے کو بدلتے دیکھ رہے ہیں اور تبدیلی کی یہ لہر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ ہم ’’چوتھے صنعتی انقلاب‘‘ کے عہد میں زندہ ہیں، جس میں اقتصادیات، کاروبار، معاشرے اور سیاست میں محض تبدیلیاں نہیں آرہیں بلکہ ان شعبوں کی از سر نو صورت گری ہورہی ہے۔ اس تناظر میں صرف موجودہ اداروں میں اصلاحات کافی نہیں بلکہ ان کے بنیادی نقشے ہی کو عالمی تغیرات سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس عہد میں پیدا ہونے والے نئے مواقعے کے ضیاع سے محفوظ رہنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔

ڈیووس اجلاس میں تواتر سے شریک ہونے والوں کے لیے گزشتہ 17برسوں سے باقاعدگی کے ساتھ منعقد ہونے والی ’’پاکستان بریک فاسٹ‘‘ ایک مقبول تقریب بن چکی ہے۔ پاتھ فائنڈر گروپ (گزشتہ چار برسوں سے مارٹن ڈو گروپ کے اشتراک کے ساتھ)کے زیر اہتمام ہونے والی اس تقریب میں صرف سربراہ مملکت ہی کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو نہیں کیا جاتا۔ 2011، 2012اور 2013میں مسلسل تین مرتبہ عمران خان کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا اور اس بار جب وہ وزیر اعظم بن چکے ہیں انھوں نے اس میں شرکت نہ کرنے کا انتخاب کیا ہے۔

پاکستان کو جس اقتصادی بحران کا سامنا ہے اس کے پیش نظر عمران خان کے لیے اہم ہے کہ وہ اپنی ذات سے متعلق پیدا ہونے والے کسی بھی منفی تاثر کو زائل کریں۔ عمران خان اپنی مقبولیت کے بل پر بھی ملک کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ بہر حال، مشہور عالم  شاٹزائپ ہوٹل میں ایک پُرہجوم عشائیے کے دوران وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے پاکستان کے حالات کا ایک جامع جائزہ پیش کیا۔ بلوچستان کے منتخب وزیر اعلیٰ کی عالمی سطح پر پاکستان کی نمایندگی سے پاکستان میں اس صوبے کے نظر انداز ہونے کا تاثر زائل ہونے میں مدد ملے گی اور پاکستان کے لیے مستقبل میں بلوچستان کی اہمیت بھی اجاگر ہوئی۔  وزیر اعلیٰ کو حاصل متاثر کُن معلومات میں سینیٹر انوار الحق کاکڑ اور کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کی معاونت بھی شامل ہے۔

23جنوری کو پینوروما ہوٹل میں وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے اور 24جنوری کو حال ہی میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ’’پاکستان پویلین‘‘ کا افتتاح کیا۔ عالمی اقتصادی فورم کے شرکا نے اس کا دورہ کیا اور غیر رسمی انداز میں پاکستان میں ثقافت، سماجی تعمیر وترقی، خواتین کے حالات، خیراتی منصوبوں اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت سے متعلق معلومات حاصل کی۔ ’’پاکستان بریک فاسٹ‘‘ کی تقریب میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بہت خوبی سے پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور اس کے بلاتفریق نفاذ سے متعلق کیے گئے اقدامات کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ علی الصبح اس تقریب میں شریک ہونے والوں نے پاکستان میں گورننس اور قانون کی حکمرانی سے متعلق پاکستان میں آنے والی بہتری کو سراہا۔ 23اور 24جنوری کو پاکستان پویلین میں سرمایہ کاری سے متعلق دوپہر اور شام کے اوقات میں ہونے والی ملاقاتوں میں یہ تاثر مزید پختہ ہوا۔

اگرچہ اس بار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، برطانوی وزیر اعظم تھریسامے اور فرانس کے صدر میکرون سمیت کئی اہم لیڈر اپنے ممالک میں بڑھتے ہوئے مسائل کے باعث اس اجلاس میں شریک نہیں ہوسکے، تاہم اس بار بھی عالمی اقتصادی پالیسی تعمیر وترقی، ٹیکنالوجی میں پیش رفت، سائبر سیکیورٹی، معاشی اور مالیاتی نظام، مستقبل کے خدشات سے تحفظ، مقامی اور عالمی سطح پر اداروں میں اصلاحات سمیت کئی دیگر موضوعات پر متعدد اجلاس منعقد کیے گئے۔ اس برس مرکزی موضوع یہ رہا کہ عالمی لیڈر سماجی سطح پر چیلنجز کو بحرانوں کی شکل دینے والے عدم اعتماد، جھوٹ، جعلی خبروں جیسے مسائل کا مقابلہ کرکے کس طرح اعتماد اور شفافیت کا تاثر بحال رکھ سکتے ہیں۔

عالمی اقتصادی فورم میں ’’باہم مربوط دنیا کے مابین باہمی تعاون‘‘ کی اہمیت پر زور دیا گیا۔ اس سے مراد ہے کہ ’’ صنعت اور جغرافیائی سرحدیں بے معنی ہورہی ہیں۔ باہمی تعاون سے متعلق نقطہ ہائے نظر کے مقاصد ، ڈھانچہ اور نتائج ماضی کے مقابلے میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ اس میں فریقین کے جغرافیائی تنوع، صنعت پر مرکوز توجہ، قلیل مدتی اور لچکدار معاہدوں اور فریقین کے اپنی اقدار وضع کرنے جیسے عناصر شامل ہوچکے ہیں۔‘‘

گزشتہ برس ڈیووس میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بہت خوبی سے پاکستان کی نمایندگی کی اور بلاول زرداری کی موجودگی سونے پر سہاگا تھی۔ اسباب جو بھی رہے ہوں، عمران خان جیسے لیڈر نے یہ موقع ضایع کردیا۔ ان کی ڈیووس میں موجودگی ہمارے اس اعتماد میں اضافہ کرتی کہ ہم دنیا کے مرکزی دھارے سے کٹے نہیں۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

The post ڈیووس کے افق پر پاکستان appeared first on ایکسپریس اردو.

طالبان کا ایجنڈا

$
0
0

خیبر پختون خوا میں طالبان کے سائے اب بھی گہرے ہیں، اگرچہ صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت ہے مگر حقائق سے محسوس ہوتا ہے کہ ایم ایم اے کی حکومت ہے ۔ ایک غیر سرکاری تنظیم نے خواتین کی سائیکل ریس کا اہتمام کیا ، مذہبی انتہاپسندوں نے واویلا شروع کر دیا۔

انھیں خواتین کے سائیکل چلانے میں فحاشی اور عریانی نظر آنے لگی، یوں حکومت خوف کا شکار ہوئی۔ خیبر پختون خوا  کے محکمہ کھیل نے خواتین کی سائیکل ریس سے فاصلے بڑھائے اور یہ ریس ملتوی کردی گئی۔گزشتہ عام انتخابات میں ایک پاکستانی سکھ کو اتنی دھمکیاں ملیں کہ وہ پشاور چھوڑ گئے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے سائیکل ریس پر پابندی لگاتے ہوئے سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت کی پیروی کی تھی۔ پرویز مشرف دور میں جب پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو لاہور میں خواتین کی میراتھن ریس کے انعقاد پر پابندی لگادی گئی۔

انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر کی قیادت میں جب خواتین نے میرا تھن ریس میں حصہ لینے کی کوشش کی تھی تو اسے روکنے کے لیے پولیس کی مدد لی گئی۔ جن لوگوں نے 40 ء اور 50ء کی دھائی کا ہندوستان دیکھا ہے وہ بتاتے ہیں کہ شہروں میں خواتین سائیکلوں پر سوار ہوتی تھیں ، اپنے تعلیمی اداروں میں جاتی تھیں۔ جو خواتین کام کرتی تھیں وہ سائیکلوں کو بطور سواری استعمال کرتی تھیں۔ ان خواتین میں ہندو اور مسلمان سب شامل ہوتی تھیں۔ یہ سلسلہ صرف دہلی، کلکتہ، بمبئی اور لاہور کا نہیں بلکہ کراچی، پشاور اور کوئٹہ وغیرہ کا بھی تھا۔

پھر 60ء اور 70ء کی دہائی تک یہ دور جاری رہا۔ بھارت میں خواتین کی برابری کی حیثیت پر خصوصی توجہ دی گئی۔ وہاں خواتین کے سائیکلوں کے استعمال کو ان کی اقتصادی اور سماجی آزادی کے تصور سے منسلک کیا گیا۔ جب بھارت میں شہر پھیلنے لگے اور نئی آبادیاں قائم ہوئیں تو پھر ٹرام اور بسوں کے نئے نظام کے قائم ہونے کے باوجود خواتین کی ڈرائیونگ کی اہمیت کو محسوس کیا گیا۔ اب خواتین چھوٹے اسکوٹر چلاتی نظر آئیں۔

بھارت میں خواتین کے اسکوٹر چلانے کے بہت سے مثبت نتائج سامنے آئے۔ خواتین کی تعلیم حاصل کرنے کی شرح بڑھ گئی۔ تعلیم یافتہ خواتین روزگار کی طرف زیادہ متوجہ ہوگئیں۔ خود اسکوٹر استعمال کرنے سے وہ بس اسٹاپس پر طویل قطاروں میں وقت ضایع کرنے سے بچ گئیں ۔ بسوں، ٹرام اور ریل گاڑیوں کا بوجھ ہلکا ہوا۔ خواتین کے اسکوٹر چلانے سے اہل خانہ کو بہت سی آسانیاں حاصل ہوئیں۔ یہ خواتین اپنے رشتے داروں کا سہارا بن گئیں، یوں گھر کے کام کاج کے لیے مردوں پر سے بوجھ کم ہوا۔ جب زیادہ خواتین سڑکوں پر متحرک نظر آئیں تو جنسی ہراسگی کے واقعات میں فرق پڑا ۔

ہمارے ملک میں خواتین کی آزادی کے تصور کو حقیقی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ ملک کے بانی محمد علی جناح خواتین کی آزادی کو ضروری جانتے تھے۔ محمد علی جناح نے 20ویں صدی کے آغاز پر کم سن بچیوں کی شادی پر پابندی کے قانون کی حمایت کی تھی، یہ وہ وقت تھا جب تمام ہندو اور مسلمان مذہبی رہنماؤں کے دباؤ پر اس قانون کی مخالفت کررہے تھے۔ پھر انھوں نے خواتین کی پسند کی شادی کی بھرپور حمایت کی۔ بمبئی ہائی کورٹ نے جناح کی رتی سے پسند کی شادی کے مقدمے میں تاریخی فیصلہ دیا جو آج بھی پسند کی شادی کے مقدمات میں نظیر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

جناح صاحب پہلے مسلمان رہنما تھے جنہوں نے اپنی اہلیہ رتی کو اپنی سیاسی تحریک میں شامل کیا۔ رتی نے جناح صاحب کے ہمراہ اس وقت کے معروف اخبار بمبئی کرانیکل پر سنسر لگانے اور اس کے انگریز ایڈیٹر کو ہندوستان بدر کرنے کے خلاف احتجاجی ریلی میں شرکت کی۔ رتی جدید لباس پہنتی اور جناح صاحب کے ساتھ تقریبات میں شرکت کرتیں۔ بعض رجعت پسند مسلمان رتی کے لباس پر اعتراضات کرتے مگر محمد علی جناح نے ان اعتراضات کو کبھی اہمیت نہ دی۔

بانی پاکستان نے اپنی ہمشیرہ فاطمہ کو اپنا ساتھی بنایا۔ فاطمہ پاکستان کی تحریک میں اپنے بھائی کی ہم رکاب رہیں۔ تاریخ دان لکھتے ہیں کہ فاطمہ نے تحریک پاکستان کے دوران ہندوستان میں ہونے والے بڑے جلسے جلوسوں میں شرکت کی۔ فاطمہ جناح 1964ء میں جنرل ایوب خان کی آمریت کو چیلنج کرنے کے لیے صدارتی انتخاب میں مقابلہ پر آئیں۔ جنرل ایوب خان کے دور میں عائلی قوانین کے ذریعے خواتین کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا۔ منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو دور میں خواتین کی بہبود کے لیے قانون سازی ہوئی۔

خواتین کو اہم عہدے دیے گئے مگر جنرل ضیاء الحق کا دور خواتین اور غیر مسلم شہریوں کے لیے بدترین دور تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے امتناعی قوانین کے ذریعے خواتین اور غیر مسلم شہریوں کے حقوق کم ترکرنے کی کوشش کی۔ خواتین کو گھروں میں مقید ہونے اور خواتین کوگھریلو کام کاج تک محدود ہونے کا درس دیا جانے لگا۔ مذہبی جنونیت کو سوویت یونین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جانے لگا۔

افغانستان میں سوویت یونین کو تو شکست ہوئی مگر مذہبی انتہاپسندی نے افغانستان اور پاکستان کے معاشروں کی ساخت کو تباہ کردیا۔ افغانستان میں ڈاکٹر نجیب اﷲ کی حکومت کے خاتمے کے بعد مجاہدین کا ایک بدترین دور  شروع ہوا اور طالبان اقتدار میں آئے۔ طالبان کا دور انسانیت کی بربادی کا دور تھا۔ اس دور میں خواتین سے تعلیم اور روزگارکا حق چھین لیا گیا۔ طالبان کی رجعت پسند پالیسیوں کے اثرات پاکستان پر پڑے۔ نائن الیون کے بعد جب القاعدہ اور طالبان کے جنگجو قبائلی علاقوں میں متحرک ہوئے تو انھوں نے خواتین کے اسکولوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا۔

جب ملا فضل اﷲ نے سوات میں شریعت نافذ کی تو خواتین کوگھروں میں بند کر دیا گیا ۔ ملالہ یوسفزئی کا صرف ایک ہی جرم ہے کہ اس نے طالبان کے دور میں سوات میں خواتین کے ساتھ روا رکھے گئے ناروا سلوک کو بی بی سی کی اردو سروس کی ویب سائٹ پر گل مکئی کے فلسفی نام سے منتقل کیا، یوں ملالہ پر قاتلانہ حملہ ہوا ۔ پشاور میں خواتین کی سائیکل ریس کی مخالفت کرنے والی مذہبی جماعتیں ملالہ کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے میں ملوث رہیں۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف ان رجعت پسند قوتوں کی ہم نوا رہی۔ اگرچہ وزیر اعظم عمران خان برطانیہ کے نظام کو آئیڈیالائزکرتے ہیں۔

وہ خواتین کی برابری کے تصورکے بھی حامی ہیں اور ان کی جماعت میں خواتین بھاری تعداد میں شامل رہیں مگر ان کی جماعت نے مذہبی رجعت پسندانہ بیانیہ کی نفی کبھی نہیں کی۔ تحریک انصاف کی خیبر پختون خواہ کی قیادت میں ایک مذہبی جماعت سے علیحدہ ہونے والے کئی رہنما شامل ہیں۔ یہ رہنما اسی سوچ کو تحریک انصاف میں ساتھ لائے۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے اس رجعت پسندانہ سوچ کی نفی کی کوشش نہیں کی۔ وہ شہباز شریف پر خوب حملے کرتے ہیں مگر پنجاب میں شہباز شریف حکومت نے خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف جامع قانون نافذ کیا اور موٹر سائیکل سوار خواتین کی پولیس میں ایک نئی فورس تشکیل دی گئی۔ سابقہ حکومت میں پنجاب کے مختلف شہروں میں خواتین پولیس اہلکاروں کو موٹرسائیکل دستہ میںشامل کیا گیا۔ پنجاب حکومت کی اس وقت یہ پالیسی تھی کہ خواتین کو مکمل طور پر بااختیار بنانے کے لیے انھیں موٹرسائیکل فراہم کرنی چاہیے۔

تحریک انصاف کی حکومت کی تبدیلی لانے کے نعرے کو سن کر یہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ حکومت خواتین کو اسکوٹر چلانے کے لیے قرضوں کی جامع اسکیم تیار کرے گی مگر پشاور میں خواتین کی سائیکل ریس پر پابندی سے محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ایم ایم اے کے سائے میں زندگی گزار رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صنفی ناہمواری کے لیے کوئی جامع اسکیم ابھی تک واضح نہیں ہوئی۔ اب پختون خوا میں خواتین کی سائیکل ریس پر پابندی لگا کر طالبان کے ایجنڈے کو پورا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عمران خان کی حکومت اور مذہبی رہنماؤں کی ایک جیسی پالیسیاں خواتین اور ترقی کے لیے خطرناک ہیں۔

The post طالبان کا ایجنڈا appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک اور بجٹ

$
0
0

گزشتہ کئی برسوں سے ہم سرابوں کے پیچھے بھٹک رہے ہیں ایک طرف اگرشاہانہ حکومتی اخراجات کا کوئی اندازہ نہیں تو دوسری طرف عوام کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ زندگی جیسی قیمتی چیز کو ختم کر دینا ایک معمول بنتا جارہا ہے۔ ہرروز اخبارات میں خود کشی کی خبر چھپتی ہے جس کی بنیادی وجہ معاشی بدحالی اور افلاس کا وہ مقام ہوتا ہے۔

جہاں انسان تمام حوصلے ہار جاتا ہے اور اس کے سامنے زندگی ختم کر دینے کے سوا کوئی دوسرا حل نہیں ہوتا۔ ان خبروں کو پڑھ کراپنے اوپر طاری کرب وبلا کی کسی کیفیت میں سوچتا ہوں کہ اگر میرے بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا نہ ملتا ، بیماری میں ان کا علاج کرانے کی سکت نہ ہوتی ، شام کو جب گھر لوٹتا تو جیب خالی ہوتی اور میرے بچے اپنی ماں سمیت مجھے جن نظروں سے دیکھتے ان کو دوچار دن سے زیادہ برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے میںبچوں کی تفریح و تعلیم اور مناسب لباس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

ہمارے ہاں دولت کے انبار ہیں مگر وہ سب ایک مخصوص طبقہ تک محدود ، وہ طبقہ اسے اڑا رہا ہے اسے بیرونی ملکوں میں جمع کر رہا ہے اور زہریلا سانپ بن کر اس پر بیٹھا پھنکار بھی رہا ہے ۔ جو بھی حکمران آتا ہے وہ اسی طبقے کی خوشنودی کے لیے آتا ہے اور اپنے مفادات اس سے وابستہ کر لیتا ہے کیونکہ ان کے مفادات کی حفاظت وہی کر سکتا ہے جو اس ہنر کو جانتا ہو، غریب کے ساتھ ہاتھ ملائے گا تو پلے سے الٹا کچھ دینا پڑے گا ۔

حضور پاکﷺ نے فرمایا تھا کہ غربت کفر کے قریب لے جاتی ہے تواس ہادی برحقﷺکی طرف سے یہ ایک وارننگ تھی کہ غربت و افلاس کفر یعنی انکار کے قریب لے جاتا ہے اوراس کی دہلیز پر کھڑا کر دیتا ہے ۔ ڈرئیے اس وقت سے جب نادار، مفلس اور بے کس و بے بس طبقے میں جرات کفر و انکار پیدا ہو جائے ۔

تاریخ میں جب بھی انکار کی جرات پیدا ہوئی اس نے تاریخ ہی بدل ڈالی ۔ کچھ عرصہ پہلے ایرانیوں کے اندر انکار کی جرات پیدا ہوئی اورامریکا کا نمایندہ حکمران نہ صرف بے وطن ہوا بلکہ دنیا بھر میں قبر کی جگہ کی تلاش میں مارا مارا پھرا۔ مجھے ایک کارٹون یاد آرہا ہے، مصر کا حکمران شہنشاہ آریہ مہر کو ساتھ لیے مصر میں گھوم رہا ہے اور ایک اہرام کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ بس یہی جگہ اب دستیاب ہے۔ عراق میں امریکا جس کروفر کے ساتھ داخل ہوا دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ کس طرح وہاں سے جان بچا کر نکلا کیونکہ عراقیوں نے اس کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔

امریکا ظلم و ستم کے باوجود عراق پر اپنا تسلط مضبوط نہیں کرسکا ، کچھ ایسے ہی حالات افغانستان کے ہیں امریکی بالآخر یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ وہ افغانستان سے طالبان کو ختم نہیں کرسکتے اور اب وہ طالبان سے مذاکرات کے لیے پاکستان کا سہار ا لینے پر مجبور ہیں اور یہ مذاکرات طالبان کی شرائط پر ہو رہے ہیں۔ یہ سب اس وجہ سے ہے کہ یہاں کے باشندوں میں جرات انکار پیدا ہو چکی ہے لیکن مسلمانوں کی واحد ایٹمی قوت پاکستان کے بارے میں کچھ عرض کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہے ۔

یہاں امریکا کی مدد سے ایک ایسا معاشی نظام حکومت قائم کر دیا گیا جس میں عام انسانوں کی معاشی فلاح کا کوئی پروگرام نہیں کیونکہ امریکا کو پاکستانی عوام سے کوئی سروکار نہیں وہ صرف پاکستان کی اشرافیہ سے ہی معاملات کرنا چاہتا ہے ۔ترقی کے بلند و بانگ دعوے ہیں لیکن یہ صرف دعوے ہی رہے ہیں ان میںحقیقت کچھ نہیں ہے۔ پاکستانیوں کو تو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ۔ حکومت کے غلط نظام کی وجہ سے رشوت عروج پر ہے اور عام آدمی کے لیے انصاف ایک افسانوی چیز بن چکا ہے جس میں پینے کے لیے صاف پانی تک میسر نہیں۔

غربت برائیوں کی جڑ ہے اور آج کی سرمایہ دارانہ دنیا میں مساوات اور عدل و انصاف کا ایک ایسا نظام قائم کر دیا گیا ہے جو خوش حالی کی طرف بڑھتے قدموں کو واپس گھسیٹ لیتا ہے کیونکہ مغرب کو یہ منظور نہیں کہ کوئی اسلامی ملک اور اس میں اسلام کے نام کی معاشی حکومت کامیاب ہو جائے ۔ ہماری ششماہی حکومت نے معاشی اصلاحات کے نام سے منی بجٹ عوام کوپیش کیا ہے عوام کے لیے سہولتیں بڑھا دی گئی ہیں اور بڑے لوگوں کے لیے سہولتوں میں کمی کی گئی ہے بڑی گاڑیوں کی قیمتوں اور پر تعیش اشیا پر ڈیوٹی میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔

کسانوں کے لیے زرعی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی بھی کی گئی ہے ۔ مقامی صنعتوںپر ٹیکسوں کا بوجھ بھی کسی حد تک کم کیا گیا ہے ۔ اخبارات کے لیے نیوز پرنٹ پر ڈیوٹی کا مکمل خاتمہ کر کے حکومت نے میڈیا سے تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو حکومت نے کسی حد تک عوام کو ٹیکسوں کے بوجھ سے آزاد کرنے کی کوشش کی ہے۔

عوام جو کہ مہنگائی کے بوجھ تلے دبتے جارہے تھے یہ منی بجٹ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا کہا جا سکتا ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ غیر ملکی قرضوں میں جو بے تحاشہ اضافہ ہوتا جارہا ہے اس کی وجہ سے ملکی معیشت مسلسل دباؤ کی شکار ہے جس کے اثرات عوام پر پڑ رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی معیشت میں بہتری کے لیے حکومت کو ایسی پالیسیاں بنانی پڑیں گی جن سے ملک میں صنعتوں کا پہیہ چلنا شروع ہو جائے کیونکہ جب تک ملک میں صنعتوں کا پہیہ نہیں چلے گا عام آدمی کے حالات نہیں بدلیں گے ۔

مقامی صنعتوں سے ہی روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور حکومت کا کروڑوں نوکریوں کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو گا لیکن اس کے لیے حکومت کوصنعتکاروں کو اعتماد میں لینا ہو گا تا کہ وہ اپنے سرمائے کو پاکستان میں ہی گردش میں لائیں اور ملک میں مصنوعات کی تیاری شروع کریں، اب تو یہ عالم ہے کہ عام استعمال کی چھوٹی سے چھوٹی اشیاء بھی درآمد کی جارہی ہیں جس کی وجہ سے مقامی صنعتیں بند ہو گئی ہیں اور ان سے منسلک لوگ بیروزگار ہو گئے ہیں ۔ معاشی نظام کو درست سمت میں نہ چلانے کی سزا ہم بھگت رہے ہیں اور اب مزید سکت نہیں رہی کہ عوام حکومت کے مزیدظلم و ستم کا شکار رہیں ۔ منی بجٹ درست سمت میں ایک اچھی کوشش ہے اور حکومت کو ایسی کوششیں تسلسل کے ساتھ جاری رکھنی ہوں گی۔

The post ایک اور بجٹ appeared first on ایکسپریس اردو.

مسجد قبۃ الصخرۃ کا مسئلہ

$
0
0

انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو یہ اعزاز اس کی کس خوبی کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ انسان کی کرہ ارض پر قیام کی معلوم تاریخ 15 سو سال ہے اور بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ انسان کی یہ معلوم تاریخ جنگوں، نفرتوں ،عداوتوں ، تعصبات اور دشمنیوں سے بھری ہوئی ہے۔ کیا اشرف المخلوقات کا خطاب پانے والی یہ مخلوق جب عملاً جنگل کے جانوروں سے بدتر وحشی ہے تو پھر اسے اتنا بڑا اعزاز ’’اشرف المخلوقات‘‘ یعنی کرہ ارض پر بسنے والی تمام مخلوقات میں ممتاز اور برتر کیوں کہا گیا ہے؟ آج دنیا کے کسی حصے میں چلے جائیں وہاں انسان انھی ’’خوبیوں‘‘ سے آراستہ نظر آئے گا۔

انسان کا منطقی ورثہ امن، محبت، رواداری اور معاشی انصاف ہونا چاہیے تھا لیکن انسان میں یہ خوبیاں سرے سے پائی ہی نہیں جاتیں مستثنیات کے علاوہ تمام انسان ان ’’خوبیوں‘‘ کے مالک ہیں جن کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے۔دنیا میں اسرائیل غالباً واحد ملک ہے جو اپنی خون آشام تاریخ کے ساتھ زندہ ہے۔ ویسے تو فلسطین کے خلاف اسرائیل ہمیشہ ہی ’’مصروف‘‘ رہتا ہے لیکن بعض وقت وہ حد سے تجاوزکرتی ایسی حرکتیں کرتا ہے جس کا واحد مقصد فلسطینیوں کو مشتعل کرنا ہوتا ہے ۔18 جنوری 2019 اس حوالے سے ایک شرمناک دن تھا جب یہودی آباد کار مسلمانوں کے قابل احترام مقام قبلہ اول پر دھاوا بول کر  مسجد قبۃالصخرۃ میں گھس گئے اور اپنے طریقہ عبادت کے مطابق اس فلسطینی مسجد میں عبادت کی۔

اسرائیل کی اس زیادتی کے جواب میں بیت المقدس میں فلسطینی نوجوانوں نے اسرائیلی چوکی پر پٹرول بم پھینکا۔ ایک فلسطینی صحافی کو گرفتار کرلیا گیا۔ اسرائیل کی وحشت و بربریت کا اندازہ اسرائیل کے اس اقدام سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ اس نے ایک فلسطینی قیدی ماہر عبداللطیف کو 36 سال سے اپنی جیل میں قید کر رکھا ہے۔ عبادات عموماً ہر مذہب کے لوگ اپنے طریقہ عبادت کے مطابق ذہنی تسکین کے لیے کرتے ہیں، اس زیادتی کے خلاف فلسطینیوں نے ایک احتجاجی ریلی نکالی اسرائیلی فوج نے ریلی کی قیادت کرنے کے جرم میں مسجد اقصیٰ کے ڈائریکٹر الشیخ عمر الکوانی کو گرفتار کرلیا۔

اس قسم کے ظلم کا سلسلہ 70 سال سے جاری ہے اور لاکھوں فلسطینی اسرائیل کے ظلم سے شہید ہوچکے ہیں اور لاکھوں دربدر ہیں۔ہر قوم کا ایک طریقہ عبادت ہے اور ہر مذہب کے ماننے والے ذہنی تسکین کے لیے اپنے طریقہ عبادت کے مطابق عبادت کرتے ہیں۔ یہودی آبادکاروں نے اپنی عبادت گاہوںمیں عبادت کرنے کے بجائے فلسطینی عبادت گاہ مسجد قبۃالصخرۃ میں زبردستی گھس کر اپنے طریقے سے عبادت کی جس کا ایک مقصد عوام میں نفرتیں بڑھانا اور مذہب کی جڑیں مضبوط کرنا ہے۔ عبادت اور عبادت گاہیں ہر مذہب کے ماننے والوں کے لیے ایک حساس جگہ ہوتی ہیں اس لیے امن پسند قومیں دوسروں کی عبادت گاہوں کا احترام کرتی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کی ہر قوم کے لیے ایک ملک ہونا ضروری ہے کیونکہ ملک نہ صرف انسان کی شناخت کا حوالہ ہے بلکہ مہذب معاشروں میں دنیا کے کاروبار زیست کے لیے بھی ملک کی اہمیت سے انکار نہیں۔ اس پس منظر میں اگر اسرائیلیوں نے ملک حاصل کیا ہے تو یہ کوئی نئی بات ہے نہ انوکھی بات ہے۔

نئی اور انوکھی بات یہ ہے کہ اسرائیل کی ساری تاریخ فلسطینیوں کے ساتھ ظلم و ستم کی تاریخ ہے۔ ہم نے بڑے واضح انداز میں کہا ہے کہ ملک انسانوں کی ناگزیر ضرورت ہے لیکن اس حوالے سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ اسرائیلیوں نے اپنے ملک کی تعمیر فلسطینیوں کی لاشوں پر کی۔ یہ رواج کہ کسی ملک کی بنیادوں میں خون بھرا جانا چاہیے دنیا کا ایسا شرمناک رواج ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اسرائیلی نسلاً عرب ہیں اور عرب بھی انسان ہیں اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اسرائیلی عوام اور اپوزیشن اسرائیل کو اپنی سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن اسرائیل اس حوالے سے اس قدر ڈھیٹ ہے کہ نہ اس پر فلسطینیوں کی آہ و بکا کا کوئی اثر ہوتا ہے نہ دنیا کی سخت مذمت اس پر کوئی اثر کرتی ہے۔

دنیا میں جنگیں اور نفرتیں صرف انفرادی یا گروہی یا ملکوں کا اجتماعی ہی کلچر نہیں بلکہ ان کے پیچھے ایسے اسرار ہیں جس پر عام انسانوں کی نظر نہیں جاتی جنگیں علاقائی تنازعات یہ سامراجی ملکوں کی ضرورت ہیں۔ اس حوالے سے صرف ایک مسئلہ ہتھیار کی تیاری اور تجارت کو لے لیں سامراجی ملک ہتھیاروں کی فروخت سے اربوں ڈالر کما رہے ہیں اگر ہتھیاروں کی تیاری اور علاقائی جنگیں ختم ہوجائیں تو سامراجی ملکوں کا دیوالیہ نکل جائے گا لہٰذا نہ علاقائی تنازعات ختم ہوسکتے ہیں نہ ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت ختم ہوسکتی ہے۔

جنگوں ہتھیاروں کی تیاری و تجارت اس قدر مستحکم ہے اور اس کی ڈیمانڈ کا عالم یہ ہے کہ غریب سے غریب ملک بھی اربوں ڈالر کا اسلحہ اپنے تحفظ کے لیے خریدتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلحہ اور اس کی خرید وفروخت، سرمایہ دارانہ نظام کی نارمل ایکٹیویٹی میں شامل ہیں اور جنگوں کو بھی دنیا کے لیے ناگزیر بنادیا گیا ہے۔ بلاشبہ عام آدمی اس اسرارکو سمجھ نہیں سکتا لیکن کیا دنیا کے سیاستدان  گدھے اور عقل سے اس قدر پیدل ہیں کہ وہ ہتھیاروں کی تیاری اور فروخت جنگوں کی ضرورت کو نہ سمجھ سکیں؟ اس کے پیچھے بھی ایک گہری اور منظم سازش ہے غریب سے غریب ملک بھی اربوں کا اسلحہ خرید رہا ہے۔ اسلحے کی خریداری پر خرچ ہونے والا اربوں ڈالر کا سرمایہ اگر اسلحے کی خریداری سے بچ جائے تو عوام کے معیار زندگی میں اضافہ اور خوشحالی آسکتی ہے۔کیا سرمایہ دار طبقہ کمائی کے اس سادہ طریقے کو ترک کرکے مشکل راستوں کی طرف جائے گا؟

سامراجی ملکوں نے حالات ایسے پیدا کیے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام مضبوط ہو رہا ہے ہم نے اپنی بات کا آغاز ایک فلسطینی مسجد پر یہودی آبادکاروں کی فلسطینی مسجد میں عبادت سے کیا تھا۔ عبادت گاہوں کو خدا کا گھر کہا جاتا ہے خدا کے گھروں کو خدا کی عبادت سے روکا نہیں جاسکتا لیکن سامراجی ملکوں نے عوام کے درمیان نفرتیں پیدا کرنے کے لیے عبادت کو بھی تقسیم کرکے عبادت گاہوں کو نفرتوں کے مراکز میں بدل دیا ہے جہاں انسان خدا کی عبادت کم اور خداؤں میں اختلافات اور دشمنیاں زیادہ پیدا کرتا ہے۔ کیا دانشور طبقہ ان حقائق کو سمجھتا ہے؟

The post مسجد قبۃ الصخرۃ کا مسئلہ appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 22447 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>