Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22460 articles
Browse latest View live

اسلام برگ

$
0
0

اوڈیسی اکیڈمی(Odyssey Academy) بچوں کاایک اسکول ہے۔نیویارک کی گریس کاؤنٹی میں واقع یہ درسگاہ کافی عرصے سے قائم ہے۔وہی بچوں کی زوردار آواز،اساتذہ کاشرارتوں سے روکنااوروہی بھرپورزندگی کے آثار۔اسکول میں وہی زندگی ہے جوامریکا کے کسی بھی اسکول میں ہوسکتی ہے۔

چندہفتے پہلے ایک کلاس کے شروع ہونے میں تھوڑاساوقت تھا۔بچے اوربچیاں ٹیچرکاانتظارکررہے تھے۔ایک طالبعلم نے بستے سے تصویرنکالی اورڈیسک پر ساتھ بیٹھے ہوئے بچے کودکھانے لگا۔الفاظ تھے کہ یہ تصویر اسکول میں قتلِ عام کرنے والے ایک نئے طالبعلم کی بھی ہو سکتی ہے۔تصویردکھاکردوبارہ بستے میں رکھ لی۔جملہ غیرمعمولی تھا۔امریکا میں اسکولوں میں قتلِ عام کی وارداتیں کافی حد تک عام ہیں۔تمام ترکوششوں کے باوجودیہ تواترسے مختلف ریاستوں میں ہوتی رہتی ہیں۔ان تمام کاطریقہ کار تقریباً یکساں ہے۔اسکول کے بچوں میں سے کوئی مقامی شدت پسند،اسلحہ اورایک جنونی کیفیت۔

تصویردیکھنے والے بچے نے یہی جملہ اسکول کی سیکیورٹی کوبتادیا۔حفاظت پرمتعین افرادفوری طورپرمقامی پولیس کے پاس گئے۔قانون نافذکرنے والے اداروں نے ضابطہ کی کارروائی مکمل کی اوردونوں بچوں کاانٹرویوکرناشروع کردیا۔ ابتدائی پوچھ گچھ میں غیرمعمولی معلومات مل گئیں۔ تصویر دکھانے والابچہ ایک مقامی گروہ کے ساتھ کام کررہا تھا جو باقاعدہ دہشت گردی کی ایک بھیانک واردات کوعملی جامہ پہنانے میں مصروف تھا۔اس میں اٹھارہ سے بیس برس کے چار نوجوان ملوث تھے۔گھروں پر چھاپے سے چوبیس بندوقیں برآمدہوئیں جوتمام لائسنس شدہ تھیں۔

ساتھ ساتھ تین خود ساختہ بم بھی نکلے۔بچے سمیت تمام لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ گھروں کی تلاشی،تفتیش اورگرفتاریاں،باقاعدہ قانونی کارروائی مکمل کرنے کے بعدعمل میں لائی گئی۔اس میں عدالت سے جاری شدہ سرچ وارنٹ اورعدالت ہی سے جاری شدہ گرفتاری کے احکامات بھی تھے۔یہ منصوبہ تھاکیا۔دراصل نیویارک کے150میل کے فاصلے پرایک چھوٹی سی جگہ ہے جسکانام کیٹ سکل ماؤنٹین(Catskill Mountain)ہے۔ زیادہ ترسیاہ فام لوگوں پرمشتمل ہے۔تیس سال پہلے یہ ایک پاکستانی صوفی بزرگ سیدمبارک علی شاہ گیلانی سے متاثر ہوئے اور”اسلام برگ”کے نام سے ایک نوآبادی بنالی۔یہ اپنے پاکستانی مرشدکے احکامات کے مطابق اسلامی رسومات اداکرتے ہیں۔مسجدبھی بنائی گئی۔یہ سیاہ فام مسلمان اسلام برگ میں اپنے ذاتی مذہبی رجحانات کے عین مطابق زندگی گزاررہے ہیں۔

تین دہائیوں سے ان امن پسندلوگوں نے کوئی ایک حرکت نہیں کی جس سے مقامی انتظامیہ کوکوئی شکایت ہو۔اوڈیسی اکیڈمی کاطالبعلم اور اس کے چارنوجوان ساتھی اسی مسلمان بستی پربموں سے حملہ کرناچاہتے تھے اورمقامی مسلمانوں کوعبرتناک سبق سکھاناچاہتے تھے۔یہ نوجوان امریکی قوانین کے مطابق دہشت گردی کی ایسی واردات کی منصوبہ بندی کررہے تھے جس میں مقامی مسلمانوں کی جان جاسکتی تھی۔منصوبہ بندی کرنے والے تمام افراداس وقت گریس کاؤنٹی کی پولیس کی حراست میں ہیں۔اسلام برگ کوتباہی سے بچانے سے پہلے مقامی پولیس نے تمام قانونی تقاضے پورے کیے۔گھروں پرریڈکرنے سے پہلے عدالت کے سامنے تمام حقائق رکھے۔جج کومطمئن کیاکہ وہ امریکی شہریوں کوقتلِ عام سے محفوظ رکھ رہے ہیں۔

ٹھوس شواہدپیش کرنے کے بعد گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔خلاف ضابطہ کوئی حرکت عمل میں نہیں لائی گئی۔اجازت کے بغیرکسی بھی انسان کی شخصی آزادی اورانسانی حقوق کوپامال نہیں کیاگیا۔یہ ایک ایسے ملک کااندرونی قصہ ہے جوپوری دنیامیں جنگ کی کیفیت میں ہے اوریہ خوفناک جنگ مسلمانوں کے خلاف ہورہی ہے۔ تمام ترمعاملات کے باوجود،امریکا کے اندرپولیس یاریاستی ادارے کوئی ایسی حرکت نہیں کرسکتے جو قوانین کے دائرے سے باہرہو۔کسی کوبغیراجازت نقصان پہنچانے کاسوچ بھی نہیں سکتے۔یہ بھی درست ہے کہ چندمقامات پرپولیس نے اپنی حدودسے تجاوزکیا۔مگرتھوڑے ہی عرصے میں ایسے تمام عناصر کو گرفتارکرکے قرارواقعی سزادی گئی۔امریکا طویل عرصے سے دہشت گردوں کاٹارگٹ ہے۔مگروہاں کے اداروں نے 9/11کے بعدپورے ملک میں دہشت گردی کاکوئی بڑا واقعہ نہیں ہونے دیا۔

دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان بھی ایک عذاب میں مبتلاہے۔لاتعدادشہری اورعسکری اداروں کے افراد شہید ہو چکے ہیں۔کوئی ان کی تعدادایک لاکھ بتاتاہے توکوئی سترہزار۔ مگرسچ یہ ہے کہ ہمارے ملک اورشہریوں نے دہشت گردی کی جنگ میں بے حدجانی اورمالی نقصان اُٹھایاہے۔مالی نقصان اس قدرزیادہ ہے کہ لکھتے ہوئے بھی خوف محسوس ہوتا ہے۔  محتاط جائزے کے مطابق یہ نقصان بیس ارب ڈالرسے بھی زیادہ ہے۔غیرمتعصب جائزے کے مطابق پاکستان نے دہشتگردی کوختم کرنے کے عمل میں حددرجہ اعلیٰ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔یہ کوئی معمولی بات نہیں۔اس اژدہے کا سر کچلنے کے لیے فوج،فضائیہ،پیراملٹری فورس،خفیہ اداروں اور پولیس نے حددرجہ محنت کی ہے۔اس غیرمعمولی کامیابی کو نظر اندازکرناحددرجہ ناانصافی ہوگی۔

مگرسوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ کیاہم نے ایسے بہترین ادارے ترتیب دیے ہیں جو اس عفریت کاجدیدتقاضوں کے مطابق مقابلہ کر پائیں۔ اسی سوال کوساہیوال کے سانحہ کے تناظرمیں دیکھنااَزحدضروری ہے۔ساہیوال کے اندوہناک واقعہ میں مارے جاناوالاشہری القاعدہ کے ساتھ منسلک تھاکہ نہیں۔اس کی بیوی اوربچے ہیومن شیلڈکے طورپراستعمال ہورہے تھے کہ نہیں۔ان کی گاڑی اور گھرسے جیکٹیں اوراسلحہ برآمدہو پایا یا نہیں۔مارے جانے والے شہریوں کی منصوبہ بندی کامیاب ہوپائی یا نہیں۔

یہ تمام سوالات موجودہ صورتحال میں قابل توجہ نہیں رہے۔ سوال صرف ایک ہے کہ کیاہمارے ادارے اس درجہ غافل اورغیرتربیت یافتہ ہیں کہ ہرقانون سے بالاترہوکرکسی بھی جگہ پرخون کی ہولی کھیل سکتے ہیں۔کیا عدم توازن کااس درجہ شکارہیں کہ جامع منصوبہ بندی کے بغیرکسی بھی مقام پرکسی بھی شہری کوقتل کرسکتے ہیں۔یہ سوال حددرجہ اہم بھی ہے اوراس پربات کرنی ضروری بھی ہے۔

ہم لوگ حالت جنگ میں ہیں۔یہ جنگ کیسے شروع ہوئی۔اس میں کون کون سی شخصیات نے کیاکرداراداکیا۔دہشت گردی کے سانپ کو کس کس سیاسی اورمذہبی جماعت نے دودھ پلایا۔ان سوالات پربحث لاحاصل ہے۔سادہ مگر پیچیدہ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں دہشت گردوں کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے کام لے کر پالاپوساگیاہے۔یہ معاملات دہائیوں سے چل رہے تھے۔ کے پی کے قبائلی علاقے،جنوبی پنجاب، سندھ اوربلوچستان کے متعدد علاقوں میں شدت پسندی جڑپکڑرہی تھی۔مگرہم خاموشی سے صرف دیکھ رہے تھے۔

مخصوص سوچ رکھنے والے افراد کی مساجد اور مدارس کے ساتھ مہیب اسلحہ خانے وجود میں آرہے تھے۔مگرہم چپ کے روزہ سے تھے۔ ہمارے قبائلی علاقوں میں ہرسطح کے ملزم اورمجرم پناہ لے رہے تھے، مگرہم انھیں گرفتارنہیں کرسکتے تھے۔قتل،اغوا برائے تاوان کے ملزم تمام تر وارداتیں کرنے کے بعد قبائلی علاقوں میں چلے جاتے تھے اورہم مجبوری سے صرف تماشہ دیکھتے رہتے  تھے۔ بعض مدارس کے اندر شدت پسندی پرمشتمل تدریس بلاروک ٹوک کے جاری وساری تھی مگرریاست صرف اورصرف تماشائی تھی۔ ویسے اکثرمدارس میں نصاب میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی۔بے شمار معاملات کومسلسل نظر انداز کرنے کے بعدجب عسکری ادارے بذات خودحملوں کا شکار ہوئے اس وقت ہم خوابِ خرگوش سے جاگے ہیں اور دہشت گردوں کے خلاف موثرجنگ کااعلان ہواہے۔

ہمیں یہ احساس ہوناچاہیے کہ جنگ کے دوران حالات حددرجہ غیرمعمولی ہوتے ہیں۔انسانی حقوق کواس طریقہ سے برقرارنہیں رکھاجاسکتاجس طرح امن کے دوران ہوتا ہے۔مگراس کایہ مطلب بھی نہیں کہ اس دورانیہ میں عام شہریوں کی جان اورمال محفوظ نہیں ہوتے۔یہ ایک باریک توازن ہے جسے کامیاب ریاستیں حاصل کرچکی ہیں۔ مگر ہمارے جیسے عجیب وغریب مفروضے پالنے والے ملک اس توازن کو ہرگز ہرگزحاصل نہیں کرسکے۔ اگرہم اپنی کوتاہیوں سے مکمل طورپر پردہ پوشی کرینگے تو ہمارے ادارے غلطیاں درغلطیاں کرتے چلے جائیں گے۔ساہیوال جیسے واقعات تواترسے ہوتے جائیں گے۔دہشت گرد بھی لوگوں کوقتل  کریں گے اورہمارے ادارے بھی کمال کوتاہی سے بے گناہ لوگوں کی جان لیتے جائینگے۔ان معاملات کوسنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔

پرکھنے کی ضرورت ہے۔نیم تربیت یافتہ اہلکاروں کے ہاتھوں میں مہلک اسلحہ دیکرچین کی نیندنہیں سویاجاسکتا۔ضرورت ہے کہ ارباب اختیارانتہائی ٹھنڈے طریقے سے دہشت گردی کے خلاف لڑنے والوں کی منظم اورمسلسل تربیت کی جانب غورکریں۔یہ نہیں ہوسکتاکہ ہم ہرمعاملہ کودلیل کی بنیادکے بغیرصرف بیانات سے حل کرنے کی کوشش کریں۔ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے۔ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔اداروں کوجدیدخطوط پر استوارکرنے کی ضرورت ہے۔امریکی پولیس اگراسلام برگ کوبروقت اقدام سے محفوظ رکھ سکتی ہے،توہم کیوں اس میں ناکام ہو رہے ہیں۔دہشت گردی کی جنگ میں عوامی رائے عامہ اور مدد کے بغیرکوئی کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ ہاں، اس خوفناک جنگ میں ناکامی کوئی آپشن نہیں ہے!معاملہ صرف اور صرف توازن کاہے!

The post اسلام برگ appeared first on ایکسپریس اردو.


پھٹ پڑے وہ سونا کہ جس سے ٹوٹیں کان

$
0
0

وزیرِ خزانہ اسد عمر نے تئیس جنوری کو جو دوسرا منی بجٹ پیش کیا اس میں تاجروں، صنعت کاروں ، سرمایہ کاروں اور اسٹاک بروکرز کے لیے خاصی مراعات کا اعلان کیا گیا ہے۔ مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو ، معیشت کا پہیہ رواں ہو ، نیا روزگار پیدا ہو، ملک قرضوں کے گھن چکر سے نکل کر پاؤں پر کھڑا ہو اور غربت جھٹک کر اگلے دس برس میں متوسط ترقی یافتہ ملکوں کے کلب میں قدم رکھ سکے۔

ممکن ہے یہ سب اہداف اسی طرح حاصل ہوجائیں جیسا کہ موجودہ حکومت کو امید ہے۔مگر معیشت کا پہیہ چلنا، صنعت و حرفت کی ترقی ، زرِ مبادلہ کے اضافی ذخائر کا جمع ہونا اور بہی کھاتے میں فی کس آمدنی کا دگنا ہو جانا کیا یہ سب اس کی ضمانت ہے کہ خوشحالی میں سب کا حصہ برابر ہو گا اور ریاستی آمدنی بڑھنے کے سبب عدم مساوات بھی قدرے کم ہو گی اور کچھ علاقے ضرورت سے زیادہ ترقی نہیں کر جائیں گے اور کچھ علاقے بالکل ہی پیچھے نہ رہ جائیں گے ؟

آیے! معاشی ترقی کی دو مثالیں دیکھتے ہیں اور پھر کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پہلی مثال تھائی لینڈ کی ہے جس کا شمار گزشتہ دو دھائیوں سے ایشیا کے ابھرتے ہوئے معاشی ٹائیگرز میں ہو رہا ہے۔اس وقت سات کروڑ آبادی والے تھائی لینڈ کی معیشت کا حجم ایک اعشاریہ بتیس ٹریلین ڈالر ہے۔یہ ایشیا کی آٹھویں بڑی معیشت ہے۔اس کی کرنسی بھات دنیا کی دسویں مضبوط کرنسی ہے۔ سالانہ قومی آمدنی کا بانوے فیصد صنعتی اور سروس سیکٹر سے آتا ہے۔عالمی بینک کہتا ہے کہ سماجی و معاشی ترقی کے اشاریوں کے اعتبارسے تھائی لینڈ کا شمار انتہائی کامیاب معاشی مثالیوں میں ہوتا ہے۔

مگر اس چکا چوند میں کسی معاشی جادوگر کو دکھائی نہیں دیتا کہ اس قدر سنہری اعداد و شمار کے باوجود تھائی لینڈ کا شمار معاشی عدم مساوات کی شکار ریاستوں میں سب سے اوپر کیوں ہے۔ریاست کی سڑسٹھ فیصد پیداواری دولت ایک فیصد آبادی یعنی سات لاکھ افراد کے کنٹرول میں ہے۔ جب کہ چھ کروڑ ترانوے لاکھ تھائی شہریوں کے کنٹرول میں صرف تینتیس فیصد وسائل ہیں۔نوے فیصد سے زائد کاروبار، سروس سیکٹر اور صنعت ان چند خاندانوں اور کمپنیوں کے کنٹرول میں ہیں جن کا اٹھنا بیٹھنا ، رشتہ ناطہ ، فائدہ نقصان فوج اور شاہی اسٹیبلشمنٹ سے جڑا ہے۔ کنٹرولڈ ملکی سیاست ریڈ شرٹس کے غریبوں اور یلو شرٹس کے متوسط طبقے میں بانٹ دی گئی ہے۔مگر کاغذ اور عالمی معاشی روزنامچوں میں تھائی لینڈ ایک جیتا جاگتا معاشی معجزہ ہے۔

تھائی لینڈ ذرا دور ہے مگر بھارت تو ہماری گردن پر ہر وقت گرم سانسیں چھوڑتا رہتا ہے۔اس وقت بھارت چھٹی عالمی اور تیسری بڑی ایشیائی معیشت ہے۔سال دو ہزار اٹھارہ انیس کے لیے بھارتی معاشی نمو میں آٹھ فیصد سے زائد اضافے کی پیش گوئی ہے جو کہ چین کے معاشی نمو کے آنکڑے سے بھی ایک فیصد زائد ہے۔ یہی رفتار رہی تو اگلے دس برس میں بھارت چین کے بعد ایشیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بن جائے گا۔

مگر برطانوی خیراتی ادارے آکسفام کی تازہ سالانہ رپورٹ بتاتی ہے کہ اس وقت بھارت کی پچاس فیصد آبادی جتنے اثاثے کی مالک ہے اتنے ہی اثاثے کے مالک صرف نو بھارتی ارب پتی ہیں۔ صحت و صفائی کے شعبوں میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے مجموعی طور پر جتنا بجٹ اس سال مختص کیا ہے۔اس کا حجم صرف ایک صنعت کار مکیش امبانی کی ذاتی دولت سے بھی کم ہے۔

بھارت میں اس وقت ایک سو انیس ارب پتی ہیں جن کی مجموعی ذاتی دولت کا اندازہ چار سو چالیس ارب ڈالر ہے۔دو ہزار سترہ سے اب تک ان ارب پتیوں کی دولت میں ایک سو پندرہ ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔

بھارت کی ایک فیصد آبادی باون فیصد قومی دولت کنٹرول کرتی ہے اور دس فیصد آبادی مجموعی طور پر ستتر فیصد دولت کنٹرول کرتی ہے۔جب کہ بھارت کی دس فیصد غریب ترین آبادی (ساڑھے تیرہ کروڑ ) پچھلے پندرہ برس سے روزمرہ اخراجات کے لیے بھی قرض ادھار پر زندہ اور اس میں اکثریت کسانوں کی ہے۔معاشی و سماجی زبوں حالی کے ہاتھوں بھارت میں جتنی خود کشیاں ہوتی ہیں ان میں سے ستر فیصد اسی نچلے دس فیصد غریب ترین طبقے میں ہوتی ہیں۔مگر ریاستی اسٹیبلشمنٹ ہو کہ میڈیا یا عالمی ادارے سب کے سب ’’شائننگ انڈیا ’’ کے گیت میں ہم آواز ہیں۔جو ٹیڑھا سوال اٹھائے وہ حاسد۔

اس وقت سوئٹزرلینڈ کے تفریحی مقام ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فورم کا سالانہ اجتماع ہو رہا ہے جہاں اس کرہِ ارض کی دولت کے مالک ، سیاسی گرو ، صنعت و کارپوریٹ سیکٹر کے زار اور ترقی پذیر ممالک کو ترقی کے گر بتانے والے کنسلٹنٹس ہر سال کی طرح سر جوڑ کے بیٹھے ہیں کہ کس طرح اس کرہِ ارض کی ماحولیات کو سدھارا جائے ، ترقی کو بے بس طبقات تک لے جایا جائے وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔

ایسے مواقعے پر آکسفام اور اس جیسے کچھ اور ادارے جنھیں ڈیوس کی پارٹی میں آنے کی اجازت نہیں۔وہ اپنے جلے پھپھولے متوازی رپورٹیں شایع کر کے پھوڑتے رہتے ہیں۔مثلاً تری اور غربت کے خاتموں کے شاندار دعوؤں کے بیچ کوئی تو اس کا بھی جواب دے کہ یہ کیسی دنیا ہے جو ہر سال اتنی ترقی کر رہی ہے جو سات ہزار برس کی مجموعی ترقی سے بھی زیادہ ہے تو پھر ایسی دنیا میں تو جہالت، بیماری ، بے گھری ، جنگوں اور بے روزگاری کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔

مگر ایسا کیوں ہے کہ دو ہزار سترہ میں اس دنیا کے چوالیس افراد کے پاس جتنی دولت تھی وہ دنیا کی آدھی آبادی کے زیرِ استعمال وسائل کے برابر تھی۔ لیکن اس سال یہ چوالیس کم ہو کر چھبیس رہ گئے ہیں۔ یعنی اب چھبیس افراد کے پاس پونے چار ارب نفوس کے برابر دولت ہے۔پچھلے دس برس میں ارب پتیوں کی تعداد دگنی ہو چکی ہے مگر انھی دس برس میں دنیا کی آدھی آبادی کی آمدنی میں اضافے کے بجائے گیارہ فیصد کمی ہوئی ہے۔ ایک جانب اگر چار سو ارب پتیوں کی مجموعی آمدنی روزانہ ڈھائی ارب ڈالر کے حساب سے بڑھ رہی ہے تو دوسری جانب ساڑھے تین ارب افراد روزانہ ساڑھے پانچ ڈالر فی کس پر منجمد کیوں ہیں۔

یقیناًپاکستان بھی ترقی کر جائے گا۔اس کی معیشت بھی مستحکم ہو جائے گی۔اسے بھی قرضوں سے نجات مل جائے گی۔اس کی قومی پیداوار میں بھی سالانہ آٹھ نو فیصد اضافے کا خواب پورا ہوگا۔مگر یہ بائیس کروڑ لوگوں کی ترقی ہو گی یا بائیس لوگوں کی ؟ ہو سکے تو اس بارے میں سوچنے کے لیے کچھ قیمتی وقت نکالیے گا۔یہ درخواست میں عام آدمی سے نہیں اسٹیبلشمنٹ اور ان کے حاشیہ بردار ارب پتیوں اور کارپوریٹ اداروں کے کارٹیل سے کر رہا ہوں کہ جن کے پاس خدا کا دیا سب کچھ ہے سوائے سماعتوں کے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)

The post پھٹ پڑے وہ سونا کہ جس سے ٹوٹیں کان appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی…غیردانشمندانہ فیصلہ

$
0
0

تحریک انصاف کی حکومت میڈیا پر کنٹرول سخت کرنے کے اپنے ایجنڈے پر آگے بڑھی ہے‘ جمعرات کو وفاقی کابینہ نے پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کی منظوری دے دی ہے۔ اس اتھارٹی کے قیام سے اب حکومت ایک ہی پلیٹ فارم سے ملک کے تمام میڈیا کو کنٹرول کرنے کے قابل ہوجائے گی۔

تحریک انصاف کی حکومت نے یہ فیصلہ میڈیا تنظیموں اور صحافیوں کی سخت مخالفت کے باوجود کیاہے جو میڈیا کے بارے میں اس کے مخصوص مائنڈ سیٹ کو ظاہر کرتا ہے ۔کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای)نے پرنٹ میڈیا اور دیگر سے متعلق اداروں کو تحلیل کر کے ’’میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی‘‘ کے نام سے ایک نئے ادارے کے قیام کی وفاقی کابینہ کی منظوری کو پرنٹ میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کے مترادف قرار دیا ہے۔

ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ میڈیا کی ریگولیشن کے نام پر پرنٹ میڈیا کو کنٹرول کرنے کے عزائم پر مبنی کسی بھی قانون اور اقدام کو پاکستان میں کبھی پذیرائی، مقبولیت اور حمایت نہیں ملے گی۔ سی پی این ای کا مؤقف ہے کہ پاکستان میں پرنٹ میڈیا سے متعلق قوانین کو آئینی تقاضوں اور عوامی امنگوں کے مطابق اسے مزید بہتر کرنا اگرچہ وقت کا تقاضا ہے تاہم کسی بھی قسم کے فارمولے، فیصلے یا قوانین بنانے سے قبل متعلقہ فریقوں کی مشاورت انتہائی ضروری اور ناگزیر ہے۔ میڈیا سے متعلق کسی بھی قسم کی قانون سازی اور بنیادی فیصلہ سازی کے لیے ایڈیٹروں، صحافیوں اور ناشرین سمیت متعلقہ فریقوں سے مشاورت انتہائی ضروری ہے۔ سی پی این ای کا واضح مؤقف ہے کہ پرنٹ میڈیا کے لیے خصوصی قوانین کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور پرنٹ میڈیا کو عام قوانین کے تحت ہی اپنا کام کرنے دیا جائے۔

انھوں نے یاد دلایا ماضی میں بدنام زمانہ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس کی منسوخی اور پرنٹ میڈیا کی آزادی کے لیے سی پی این ای، پی ایف یو جے، جمہوریت پسند سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کی ایک طویل جدوجہد رہی ہے۔ علاوہ ازیں اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل سمیت میڈیا کی ہر کیٹیگری کے اپنے مخصوص مسائل، نوعیت اور طریقہ کار ہوتے ہیں، کسی بھی ایک قانون کے تحت میڈیا کی ہر کیٹیگری کو ہینڈل کرنا زمینی حقائق کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہوگا۔ سی پی این ای کے رہنماؤں نے مزید کہا ہے کہ پاکستان میں اگرچہ پرنٹ میڈیا کی آزادی کچھ زیادہ مثالی نہیں ہے تاہم موجودہ محدود آزادیاں بھی پاکستان کے عوام اور خصوصاً جمہوریت پسند سیاسی کارکنوں، سول سوسائٹی اور صحافیوں کی قربانیوں اور طویل جدوجہد کے مرہون منت ہیں اور اسی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان کے آئین میں اظہار، آگہی اور اطلاعات تک رسائی کے حقوق کو پاکستان کے تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے آئین میں ان کی بجا آوری کی ضمانت دی گئی ہے جس کے تحت ان بنیادی حقوق کی تکمیل اور بجاآوری تمام ریاستی اور حکومتی اداروں اور ان کے اہلکاروں کا بنیادی فریضہ ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کا یہ اقدام اس لیے بھی غیردانشمندانہ ہے کیونکہ جب یہ سمجھا جاتا ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دو مختلف چیزیں ہیں اور دونوں کی اپنی الگ الگ خصوصیات ہیں‘ حقیقت یہ ہے کہ جمہوری معاشروں میں جہاں24گھنٹے چلنے والے الیکٹرانک میڈیا کے لیے تو شاید کسی قسم کے ضابطہ اخلاق یا ضوابط کی ضرورت محسوس ہوتی ہو لیکن مسلمہ جمہوری معاشرے اخبارات کو اظہار رائے کی آزادی کے اصول کے تحت اپنے Contants کی جانچ پڑتال خود کرنے کے لیے اپنے ضابطہ اخلاق متعین کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔

بدقسمتی سے حکومت کا سارے میڈیا کو ایک ہی پلیٹ فارم سے کنٹرول کرنے کا فیصلہ ایک آمرانہ مائنڈ سیٹ کو ظاہر کرتا ہے جو جمہوری طور پر منتخب کردہ حکومتی سیٹ اپ کے شایان شان نہیں ہو سکتا۔جمہوریت میں میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون قرار دیا جاتا ہے۔ سی پی این ای‘ پریس کونسل آف پاکستان‘ اے پی این ایس اور پی ایف یو جے پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کی پہلے ہی مخالفت کر چکی ہیں لہٰذا یہ کہنا کہ صحافیوں کی تمام تنظیموں کو اعتماد میں لے کر یہ فیصلہ کیا گیا ہے‘ درست نہیں ہے۔گزشتہ دنوں سی پی این ای کے زیر اہتمام اسلام آباد میں منعقد ہونے والے میڈیا کنونشن میں تمام میڈیا پریکٹیشنرز نے شرکت کی تھی جس میں یہ اتفاق پایا گیا تھا کہ پرنٹ میڈیا کے لیے کسی خاص قانون اور ضابطے کی ضرورت نہیں کیونکہ پرنٹ میڈیا میں سیلف سنسر شپ  پہلے ہی خاصا مضبوط ہے لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ میڈیا کے حوالے سے کوئی ادارہ بنانے یا کوئی قوانین و ضوابط بنانے سے پہلے میڈیا انڈسٹری کے تمام اسٹیک ہولڈرز سے تفصیلی مشاورت کرے اور کسی بھی یکطرفہ اقدام سے پرہیز کرے۔

The post پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی…غیردانشمندانہ فیصلہ appeared first on ایکسپریس اردو.

امریکا طالبان مذاکرات میں خوش آیند پیشرفت

$
0
0

امریکا اور طالبان قطر میں چھ روزہ مذاکرات کے بعد افغانستان میں 17 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے  لیے معاہدے کے ایک ڈرافٹ پر متفق ہوگئے ہیں جس کے تحت غیرملکی فوجیں 18 ماہ میں افغانستان سے نکل جائیں گی۔ طالبان افغانستان کی سرزمین القاعدہ یا داعش کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مفادات پر حملوں کے  لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیںگے۔ اس معاہدے کے حوالے سے فریقین نے ابھی کوئی باضابطہ اعلامیہ جاری نہیں کیا، نہ ہی امریکا نے اس کی تصدیق کی ہے۔

امریکی خصوصی نمایندہ زلمے خلیل زاد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کیا ہے کہ افغان امن عمل سے متعلق اہم معاملات پر خاطر خواہ پیشرفت حاصل کرلی ہے لیکن تمام امور پر اتفاق رائے تک کچھ حتمی نہیں ہوگا، حالیہ ملاقاتیں پہلے کی نسبت زیادہ سود مند رہی ہیں۔طالبان ذرایع کا کہنا ہے کہ معاہدے کا بنیادی نکتہ جنگ بندی ہے جس کی ابھی ٹائم لائن طے نہیں کی گئی۔امریکا اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات میں جنگ بندی کے حوالے سے ہونے والی یہ پیشرفت خوش آیند ہے جس کے خطے پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔

قطر کے شہر دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے لیے افغان طالبان کی قیادت ملا عبدالغنی برادر نے کی جنھیں پاکستان میں 8سال تک قید میں رہنے کے بعد گزشتہ سال ہی رہا کیا گیا تھا۔ 11ستمبر 2001ء میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے بعد امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا‘ 17سال سے افغانستان کی سرزمین پر جاری اس جنگ میں جہاں ملا عمر کی قیادت میں طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا وہاں اسامہ بن لادن سمیت طالبان اور القاعدہ کے اہم رہنما بھی اس جنگ کی نذر ہو گئے‘ اگرچہ طالبان اور القاعدہ کی کابل پر حکومت ختم ہونے کے بعد انھیں اس جنگ میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا مگر ان کا وجود کسی نہ کسی صورت قائم رہا اور وہ غیرملکی قابض افواج کے خلاف مسلسل گوریلا جنگ لڑتے رہے جس سے افغان اور نیٹو فورسز کو بھاری جانی اور مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔

امریکا نے طالبان کے خاتمے کے لیے ڈرون طیاروں سے لے کر ڈیزی کٹر سمیت ہر قسم کے خوفناک ہتھیار استعمال کر لیے مگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اس جنگ کے خوفناک اور مہیب اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوئے جس نے پاکستان کی سلامتی اور امن و امان کی صورت حال کو شدید دھچکا پہنچایا جس کے آفٹر شاکس اب تک جاری ہیں۔ امریکا اور طالبان کے درمیان وقفے وقفے سے مذاکرات کا سلسلہ گزشتہ کئی سال سے چل رہا ہے‘ گزشتہ برس دسمبر میں پاکستان کی معاونت سے ابوظہبی میں بھی افغان امن مذاکرات ہوئے‘ ماسکو میں بھی ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پاکستان‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ چین اور روس کے علاوہ طالبان کے وفد نے بھی شرکت کی۔

امریکا نے اس جنگ میں کیا حاصل کیا اور اس خطے کو کتنا نقصان پہنچایا ،یہ حقائق بھی جلد منظر عام پر آ جائیں گے مگر اب 17سال سے جاری اس جنگ کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات میں ہونے والی اہم پیشرفت اس امر کی غماز ہے کہ امریکا نے اپنی شکست تسلیم کر لی اور وہ اس طویل تھکا دینے والی جنگ سے جان چھڑانا چاہتا ہے۔ اس جنگ میں امریکا کو بھی بھاری مالی اور جانی نقصان اٹھانا پڑا اور افغانستان میں خطیر اخراجات کے باعث اس کی معیشت بھی دباؤ میں رہی۔  طالبان امریکا کے درمیان دوحہ میں بہت سے معاملات طے پائے ہیں لیکن ابھی بہت سے معاملات طے ہونے باقی ہیں مگر یہ بات اب واضح ہے کہ افغانستان میں قیام امن کا راستہ زیادہ دور نہیں‘ اگر افغانستان سے غیرملکی فوجوں کا مکمل انخلا ہو جاتا ہے  تو افغانستان ایک بار پھر امن کے راستے پر چل نکلے گا۔

مختلف خبروں سے یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ امریکا کی جانب سے جنگ بندی کے مطالبے پر افغان طالبان نے موقف اختیار کیا کہ پہلے امریکا اپنے انخلا کی ٹائم لائن دے اور ساتھ ہی اس امر کو بھی یقینی بنائے کہ امریکا خطے کے دیگر ممالک بالخصوص پاکستان کے لیے خطرات پیدا نہیں کرے گا۔ امریکا اور طالبان کے درمیان طے پانے والے اس معاہدے کے خطرات سب سے زیادہ موجودہ افغان حکومت محسوس کر رہی ہے اور اس امر کا بھی امکان ہے کہ وہ اپنی شرائط منوانے کے لیے مزاحمت کرے گی کیونکہ افغان نشریاتی ادارے یہ موقف اختیار کر رہے ہیں کہ مذاکرات کا مقصد اصلاحات کا نفاذ ہے نا کہ افغانستان پر طالبان کا مکمل کنٹرول۔ صدر اشرف غنی اور دیگر سیاستدان اس سال جولائی میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے اپنی نامزدگیوں کا اعلان کر چکے ہیں اس لیے وہ افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کی مخالفت کر رہے ہیں۔

اگر 18ماہ میں غیر ملکی فوجیں افغانستان سے نکل جاتیں اور سیز فائر ہو جاتا ہے تو پھر امن عمل کے باقی معاملات پر بھی کام شروع ہو جائے گا۔بہرحال اب یہ طے ہو چکا ہے کہ افغانستان میں طالبان کو ایک قوت تسلیم کرتے ہوئے حکومت میں شریک کیا جائے گا۔ افغانستان میں قیام امن سے پاکستان اور پورے خطے میں دہشت گردی کا خاتمہ بھی ممکن ہونے سے یہاں امن و امان کی صورت حال بہتر ہو گی اور ترقی کے نئے دور کے باب وا ہوں گے۔

The post امریکا طالبان مذاکرات میں خوش آیند پیشرفت appeared first on ایکسپریس اردو.

وفاقی اور صوبائی کشیدگی

$
0
0

ملک میں نئی حکومتوں کے قیام کو ابھی پانچ ماہ ہی گزرے ہیں کہ وفاق اور دوسرے بڑے صوبے سندھ میں درمیان پیدا کرائی جانے والی کشیدگی میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہورہا ہے مگر کوئی مسئلے کے اہمیت اور حساسیت کو محسوس نہیں کررہا اور خاص طور پر وفاقی حکومت یہ احساس نہیں کر رہی کہ یہ 2008ء نہیں بلکہ 2019ء ہے جس میں 18ویں ترمیم کے بعد صوبے وفاق کے پہلے کی طرح محتاج اورکمزور نہیں بلکہ اہم معاملات میں آئینی خود مختاری ملنے کے بعد بااختیار ہونے کے ساتھ اب آئینی طور پر مضبوط ہیں۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ سابق صدر آصف زرداری کو پتا چل گیا تھا کہ آیندہ ملک پر پیپلز پارٹی کی حکومت نہیں ہوگی، اس لیے انھوں نے رضا ربانی کے ذریعے آئینی ترمیم باہمی طور پر ایسے منظورکرائیں جن پر پارلیمنٹ میں بحث کی ضرورت ہی نہ پڑی اور اب یہ باتیں سپریم کورٹ میں بھی سنی گئیں کہ کس طرح لوگوں کو مطمئن کرکے پارلیمنٹ میں انھیں بولنے کا موقع دیے بغیر صوبائی خود مختاری دلائی گئی اور وفاق کے اختیارات کم کرائے گئے تھے۔

2008ء میں بھی ملک میں مخلوط حکومت پیپلز پارٹی کی بنوائی گئی تھی جس میں پہلے دوسری بڑی پارٹی مسلم لیگ ن بھی شامل تھی جسے پنجاب کی حکومت مجبوری میں دی گئی تھی مگر ججز بحالی اختلافات پر صدر آصف زرداری نے تحریری معاہدے سے بریت کا اظہار کردیا جس پر مسلم لیگ ن وفاقی حکومت سے الگ ہوگئی تھی اور صدر زرداری نے اپنے پسندیدہ اور ہوشیار شخص کو پنجاب کا گورنر بنایا تھا۔

جس کے مشورے پر چند ماہ بعد ہی پنجاب میں گورنر راج لگا کر ن لیگ کی حکومت ختم کی گئی تھی مگر عدلیہ بحالی کے بعد عدلیہ نے گورنر راج ختم کرکے حکومت بحال کردی تھی جس کے بعد ہی صدر زرداری نے سندھ کو بااختیار بنانے کی منصوبہ بندی کرلی تھی اور 2013ء سے2018ء تک سندھ پیپلزپارٹی نے اپنی دوسری مدت مکمل کرلی تھی ۔ وزیراعظم نواز شریف نے باہمی مخالفت کے باوجود سندھ حکومت ختم کرنے یا پی پی میں فارورڈ بلاک بنوانے سے گریز کیا تھا جس کی وجہ سے سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنی دوسری مدت بھی کامیابی سے مکمل کر لی تھی۔

سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کی جگہ اب پی ٹی آئی دوسری بڑی پارلیمانی جماعت ہے اور ایم کیو ایم دوسری اور جی ڈی اے تیسری بڑی پارٹی ہے جو وفاق میں حکومت میں شامل ہیں مگر ایم کیو ایم وفاقی حکومت سے مطمئن نہیں ہے جس کی وجہ سے اس نے سندھ حکومت کی تبدیلی کے متعلق ابھی اپنا فیصلہ ظاہر نہیں کیا۔ جی ڈی اے اور پی ٹی آئی نے سندھ میں حکومت کی تبدیلی کی کوشش شروع کی ہوئی ہے ۔ وفاقی وزراء اور پی ٹی آئی کراچی کے رہنما وزیر اعلیٰ سندھ کو اپنا ٹارگٹ بناکر ان سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں اور وفاقی وزیر اطلاعات نے اپنے حالیہ کراچی کے دورے میں مراد علی شاہ پر الزامات لگاتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ مستعفی نہ ہوئے تو وفاقی حکومت کچھ ضرور کرے گی۔

وفاق سندھ میں گورنر راج براہ راست خود لگا سکتا ہے یا پی ٹی آئی اور جی ڈی اے اندرون سندھ کوشش کرکے پیپلزپارٹی میں فارورڈ بلاک بنواسکتے ہیں مگر ان میں جام صادق جیسا رہنما موجود نہیں جنہوں نے پی پی میں رہ کر کام دکھایا تھا اور نگراں وزیراعلیٰ رہنے کے بعد سندھ میں مخلوط حکومت بنوائی تھی۔ اس وقت سندھ میں مرحوم پیر پگاڑا جیسی قد آور قومی سیاسی شخصیت موجود تھی جو اب جی ڈی اے میں موجود نہیں اور موجودہ قیادت سندھ میں کچھ زیادہ موثر نہیں جو اپنی پارٹی کے اہم رہنماؤں امتیاز شیخ ، اسماعیل راہو اور جام مدد علی تک کو اپنے ساتھ شامل نہیں رکھ سکی تو وہ پیپلزپارٹی میں گروپ کیسے بنوا سکے گی۔

پی ٹی آئی گھوٹکی اور شکار پور کے مہروں اور نوشہرو فیروز کے جتوئیوں پر انحصار کررہی ہے جب کہ آصف زرداری کے راز دار اور پرانے ساتھی ذوالفقار مرزا اپنی بیگم کو وفاقی وزیر بنوا کر کیوں چپ اور خاموش ہیں۔ سندھ میں ہم جی ڈی اے اور پیپلزپارٹی میں تقسیم ہیں جب کہ اندرون سندھ کوئی بھی اہم رہنما پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب نہیں ہوا تھا اور پی ٹی آئی کراچی ہی میں اکثریت لے سکتی تھی۔ سندھ حکومت سے بے شمار شکایات کے باوجود سندھ میں پی پی میں بظاہر کوئی دراڑ نہیں ہے مگر خفیہ طور رابطے ضرور ہورہے ہیں اور آصف زرداری بھی اب سندھ میں پارٹی رہنماؤں سے ملنے کے لیے دورے کررہے ہیں اور وفاق کو دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔

وفاقی حکومت سندھ میں گورنر راج لگانے سے اب عدلیہ کی وجہ سے خوفزدہ ہے ۔ سندھ حکومت کی طرف سے وفاقی حکومت پر سندھ کے فنڈز نہ دیے جانے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں مگر وفاق کو نہ جانے کیوں سندھ میں تبدیلی کی جلدی ہے جس سے وفاق اور سندھ میں سیاسی کشیدگی بڑھ رہی ہے، سندھ میں مسلم لیگ ن اور جے یو آئی سندھ ایوان سے باہر ہیں اور ایم کیو ایم تماشا دیکھ رہی ہے کیونکہ اسے پتا ہے کہ اس کے بغیر سندھ میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی ۔

The post وفاقی اور صوبائی کشیدگی appeared first on ایکسپریس اردو.

پیرس کمیون سے پیلی جیکٹ تک

$
0
0

1871ء میں فرانس کے شہر پیرس میں’’پیرس کمیون ‘‘ جوکہ دنیا کا پہلا مزدوروں کا انقلاب اور اقتدار تھا۔خواہ یہ 200 رکنی اسمبلی صرف 70دن ہی قائم کیوں نہ رہی۔ جس میں 194انارکسٹ اور6 مارکسٹ شریک تھے۔ مزدورطبقے نے یہ کر دکھایا کہ 70دن میں کوئی بھوکا مرا،کوئی بے روزگار رہا،کوئی لاعلاج رہا،کوئی ڈاکہ پڑا ،کوئی چوری ہوئی ،کسی نے خودکشی کی، عصمت فروشی ہوئی اورنہ کسی کا قتل ہوا ۔اسی کمیون نے فیڈریشن کی بنیاد ڈالی، جس میں اختیارات نچلی سطح کی کمیون کے پاس آیا اور فیڈریشن رابطے کی ایک کڑی تھی،جب کہ آج کی فیڈریشن ایک بے جان گھوڑا ہے جس میں نچلی سطح کے اختیارات نام نہاد ہے اور سارے اختیارات ایک مطلق مرکزکے پاس ہے۔

پھر1886ء میں امریکا کے صنعتی شہر شکاگو میں 8گھنٹے کی ڈیوٹی سمیت دیگر مطالبات پر مبنی مزدورطبقے نے ہڑتال اورمظاہرہ کیا۔اس تحریک میں 6 انارکسٹوں کو پھانسی پہ لٹکا دیا گیا، لیکن اس کے اثرات پوری دنیا پہ پڑے۔آج قانون دنیا بھر میں 8 گھنٹے کی ڈیوٹی ہے ۔یعنی ہفتے میں 48گھنٹے جب کہ فرانس میں مزدوروں نے ہڑتال کرکے چند برس قبل ہفتے میں 35گھنٹے کی ڈیوٹی کروا لی۔

پھر انارکسٹوں کی پیش قدمی میں 2011ء میں وال اسٹریٹ قبضہ تحریک جس کا نعرہ تھا ’’ہم ننانوے فیصد ہیں‘‘ ۔88ملکوں کے 900 شہروں میں یعنی نیویارک سے نیوزی لینڈ تک ہڑتالیں اورمظاہرے ہوئے۔ ان کا کوئی رہنما تھا اور نہ کوئی جماعت ۔ پھر1968 ء میں فرانس سمیت دنیا بھر میں ابھرنے والی عوامی تحریک انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ اس تحریک کے دوران لانڈھی،کراچی کے مل ایریا میں مزدوروں نے ملوں، فیکٹریوں اورکارخانوں پر قبضہ کرکے انتظامیہ (مل نوکرشاہی) کو ملوں سے نکال دیا اور سارے کام مزدورخود ہی کرتے تھے۔

پاکستان کے لیبر لاز میں درج ہے کہ ان قبضوں اور ہڑتالوں کے دوران پاکستان کی تاریخ میں مزدوروں نے سب سے زیادہ پیداوار دی۔ ان ہڑتالوں کے دوران ریاست خلاء میں معلق تھی ۔ اب یہ تحریک 191، نومبرکے وسط میںڈیزل پر ٹیکس میں اضافے کے خلاف پھر فرانس میں ہی شروع ہوئی اور پورے ملک میں پھیل گئی ۔ اس پیلی جیکٹ کی تحریک میں اکثریت محنت کشوں کی ہے۔ اسے کوئی جماعت چلا رہی ہے اور نہ کوئی لیڈر۔ حکمران خود پریشان ہیں کہ وہ کس سے بات کریں۔

کچھ جگہوں پر مظاہرین نے خود کوکمیٹیوں میں منظم کیا ہے، لیکن جو مطالبات مختلف گروپوں، سماجی پر تین یا زائد افراد اٹھا رہے ہیں، ان میں محنت کشوں کی تنخواہوں ، پنشنوں اور دیگر مراعات میں چالیس فیصد تک اضافہ ، نئے روزگارکی تحقیق،کرایوں میں کمی اور نئے گھروں کی تعمیر ، ماحولیات کے تحفظ اور صحت کی سہولیات کے حوالے سے فرانس کی افریقہ سمیت دیگر تمام جگہوں سے فوجی مداخلت کا خاتمہ اور نیٹو سے علیحدگی وغیرہ شامل ہیں ۔ اس تحریک میں بائیں بازو خاص کر انارکسٹ پیش پیش ہیں۔

اس کے علاوہ کچھ مغربی ممالک میں دائیں بازو کے نیم فسطائی اور مہاجرین مخالف گروہوں نے بھی پیلی جیکٹ کا نمونہ استعمال کرنے کی کوشش کی ہے ، مگر ان کی تعداد بہت کم ہے اور تحریک کا عمومی جھکاؤ بائیں بازوکی طرف ہے اور مطالبات کی نوعیت بھی طبقاتی ہے۔ اس تحریک کا پھیلاؤ دنیا بھر میںدیکھنے میں آرہا ہے۔ مختلف خطوں میں عوام نے اپنے معاشی اور طبقاتی مسائل کی بنیاد پر تحریک سے متاثر ہوکر اپنے ہاں مظاہرے اور ریلیاں شروع کردی ہیں۔ ان ممالک میں بیلجیئم ، تیونس،اردن، مصر، سوڈان، بارسلونا، بلغاریہ ،کینیڈا ، جرمنی،عراق، اٹلی، اسرائیل، لبنان، ہالینڈ ، پرتگال، پولینڈ، روس، تائیوان اور پاکستان وغیرہ شامل ہیں۔ مضحکہ خیزخبر مصر میں سننے میں آئی جہاں فوجی آمر السیسی نے پیلی جیکٹوں کی فروخت پر ہی پابندی عائدکردی ہے۔

فرانسیسی صدر میکرون نے 10 دسمبر 2018کی شام کو خطاب کرتے ہوئے فیول ٹیکس میں اضافے کو موخرکرتے ہوئے 10ارب یورو مالیت کی مراعات کا اعلان کیا ۔ان مراعات میں ماہانہ بنیادی تنخواہ میں 100یورو اضافہ، پینشن میں اضافہ ، اوور ٹائم تنخواہوں پر ٹیکس میں کمی اور بجلی کے ریٹ مارچ 2019 تک نہ بڑھانا شامل تھا ۔ میکرون نے کاروباری حضرات کوکرسمس پر مزدوروں کو بونس دینے کی ہدایت بھی کی تھی، لیکن اس نے اپنی صدارت کے آغاز میں امیروں کو ٹیکسوں میں جو چھوٹ دی تھی، اس کی واپسی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی ۔ میکرون کی نیو لیبرل معاشی پالیسیوں نے فرانس میں لاکھوں لوگوں کو خط غربت کی لکیر تک پہنچا دیا ہے۔ مظاہرین میں تمام محکوم سماجی پرتوں کے لوگ شامل ہیں ۔

10دسمبر 2018ء کو اس تحریک میں 100اسکولوںکے طلبہ کی شمولیت سے تحریک کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا تھا۔ فرانسیسی نوجوان بھی پے درپے نیو لیبرل اصلاحات پر بہت مشتعل ہوئے ہیں، جن کی وجہ سے یونیورسٹی تک پہنچنا، ان کے لیے تقریبا ناممکن ہوگیا ہے۔ فرانس میں غربت اور امارت کی خلیج میں اضافہ ہورہا ہے ۔کچھ مظاہرین نے میڈیا کو بتایا کہ ’’اس قسم کی پر تشدد کارروائیاں کرنا ہمیں پسند نہیں ہے، لیکن ہمیں نتائج چاہئیں‘‘ واضح رہے کہ مظاہرین نے جن عمارتوں کو آگ لگائی وہ سب عمارتیں اور جائیداد امیروں کی ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کا غصہ امیروں کے خلاف ہے۔ صدر میکرون کے بارے میں تمام لوگوں کا خیال ہے کہ وہ فرانس کے عوام کا نہیں بلکہ امیروں کا نمایندہ ہے ۔ تازہ ترین سروے کے مطابق صدر میکرون کی مقبولیت 24 فیصد سے بھی کم ہوچکی ہے ۔

اب تک حکومت کے سات وزراء کو مستعفی ہونا پڑا۔ دوسری طرف 70فیصد فرانسیسی عوام اس تحریک کے حق میں ہیں۔ پولیس نے عوام پر بدترین تشدد کیا ۔کئی جگہوں پر پولیس نے مظاہرین کی طرف ہمدردی کا رویہ اپنایا جس کے بعد حکومت کو پولیس والوں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا اعلان کرنا پڑا تاکہ ان کی ہمدردی خریدی جاسکے ۔ تحریک ک پھیلاؤ نے متوسط طبقے کے وکلاء اور اساتذہ کو بھی اپنے ساتھ جوڑ لیا ہے ۔ مظاہرین میں بڑی تعداد محنت کشوں کی ہے جن میں ایک دن میں تین لاکھ محنت کش شریک ہوئے، یاد رہے کہ فرانس میں چلنے والے پیلی جیکٹ ہڑتال کوگیارہواں ہفتہ ہوگیا جس کا ایک بڑا اثر برازیل میں بھی نظر آیا جس کے نتیجے میں برازیل میں چالیس لاکھ کی ریلی میں چالیس فیصد لوگوں نے پیلی جیکٹ پہن کرشرکت کی۔

اس پیلی جیکٹ تحریک کے اثرات پاکستان پر بھی پڑے ہیں۔لاہور میں کچھ نوجوانوں کو پیلی جیکٹ میں مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ دراصل عوام کی ان بار بار بغاوتوں سے سماج متحرک ہوتا ہے جو اپنی منزل مقصود ، انقلاب کی جانب پیش رفت کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاستیں اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔ چند لوگوں کے پاس دولت کا انبار ہے تو دوسری طرف اربوں لوگ غربت کے شکار ہیں۔ لاکھوں لوگ اس کرہ ارض پر روزانہ بھوک، افلاس، بیماری، حادثات اور جنگوں میں مر رہے ہیں۔ یہ ساری دولت چند ہاتھوں میں مرکوز ہونے میں ریاست ہی مدد گار بنتی ہے۔کچھ ریاستیں اگر عوام کی بھلائی میں اضافہ کردیں تو اس سے طبقاتی تفریق اور مسائل ختم نہیں ہوتے، ہاں مگرکچھ کم ضرور ہوجاتے ہیں۔

The post پیرس کمیون سے پیلی جیکٹ تک appeared first on ایکسپریس اردو.

پروڈکشن آرڈر۔۔بادشاہ سلامت کی ایک رعایت یا قانونی حق؟

$
0
0

اس حکومت کا ایک ہی نعرہ ہے کہ کسی بھی کرپٹ کو کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔کسی بھی مخالف کو کوئی این آر او نہیں ملے گا بلکہ سختی کی جائے گی۔ تحریک انصاف کا یہ بھی موقف ہے کہ انھیں کرپشن اور کرپٹ لوگوں کے خلاف ووٹ ملے ہیں۔کرپشن کے خلاف جنگ ان کا اساسی نظریہ ہے۔ اسی لیے بار بار اعلان کیا جاتا ہے کہ کسی کو این آر او نہیں ملے گا بلکہ سختی کی جائے گی۔ اس  تناظر میں یہ سوچنا بھی جرم ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کسی بھی ملزم یا مجرم کے ساتھ کوئی رعایت کر رہی ہو گی بلکہ مجھے تو یہی امید ہے کہ سب کے ساتھ سختی کی جا رہی ہوگی اور انھیں عبر ت کا نشان بنایا جا رہا ہوگا۔

ایسی صورتحال میں اپوزیشن رہنماؤں کے پروڈکشن آرڈر کیا حکومت کی طرف سے کوئی رعایت ہیں یا یہ قانون کے تحت مجبوری ہے۔ ایک طرف حکومت کے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر اب دوبارہ قومی اسمبلی میں شہباز شریف کے چمچوں نے وزیر اعظم کی شان میں گستاخی کی تو ان کے پروڈکشن آرڈر منسوخ کر دیے جائیں گے۔

میرا ان حکومتی عہدیدار سے سادہ سا سوال ہے کہ بھائی اگر پروڈکشن آرڈر کوئی رعایت ہیں توکیوں دی گئی ہے؟ کیا آپ نے اس لیے ووٹ لیے ہیں کہ اپنی سیاسی ضروریات کے تحت نیب زدگان کو رعایتیں دی جائیں؟ کیا یہ آپ کا کرپشن سے لڑنے کا فلسفہ ہے؟ اگر یہ رعایت ہے تو یہ این آر او نہیں تو اور کیا ہے۔ پھر کیوں اور کس کی اجازت سے شہباز شریف اور خواجہ سعد رفیق کو این آر او دیا گیا ہے؟ کیا اس پر آپ کا محاسبہ نہیں ہونا چاہیے۔کیا این آر او اس بات سے مشروط ہے کہ بادشاہ سلامت وزیر اعظم کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کی  جائے گی۔ کیا حکومت پروڈکشن آرڈر کو ڈنڈے کے زور پر اپنا احترام کرانے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہتی ہے۔کیا یہ اپوزیشن کو کنٹرول کرنے کا کوئی ہتھیار ہے یا بلیک میلنگ پوائنٹ ہے۔

ویسے پروڈکشن آرڈر کسی گرفتار رکن اسمبلی کا قانونی حق ہے جس سے کوئی انکار ممکن نہیں تو اس کی منسوخی کی بات کرنا ہی غیر قانونی بات ہے۔ اگر پاکستان کے قانون اور آئین میں جہاں ارکان پارلیمنٹ کو قانون کے سامنے جوابدہ بنایا گیا ہے وہاں انھیں اپنے فرائض ادا کرنے کے لیے پروڈکشن آرڈر کی سہولت بھی دی گئی ہے۔ یہ ایک خوبصورت بیلنس ہے کہ ایک طرف ارکان پارلیمنٹ قانون سے بالاتر بھی نہیں ہیں اور دوسری طرف اپنا کام کرنے کے لیے آزاد بھی ہیں۔ اب ماضی کی مثالیں دی جا رہی ہیں کہ تب پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیے گئے تو ماضی میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ کب کب اپوزیشن رہنماؤں کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے گئے۔اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم ماضی کی کونسی مثالیں لینا چاہتے ہیں اور کونسی نہیں۔ اگر ماضی میں کبھی قانون کی خلاف ورزی ہوئی ناانصافی ہوئی ہے تو کیا ہم نے قانون کی اس خلاف ورزی اور نا انصافی کی پیروی کرنی ہے یا قانون پسندی اور انصاف کی پیروی کرنی ہے۔

اسی تناظر میں پبلک اکاؤنٹس کی چیئرمین شپ کا بھی معاملہ ہے۔ بھائی اگر یہ بھی رعایت ہے تو کیوں دی گئی ہے۔ اگر یہ این ا ٓر او ہے تو کیوں دیا گیا ہے۔ اگر یہ قائد حزب اختلاف کا حق ہے تو چیخ کیوں رہے ہیں۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ غصے نے اس حکومت کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج کر دی ہے۔ ان کی حالت ایسے بچے کی ہے جسے کھیلنے کے لیے کھلونا مل تو گیا ہے لیکن اس کو اس سے کھیلنا نہیں آتا۔ وہ غصہ میں کھلونے کو کبھی زمین پر مارتا ہے، کبھی دیوار پر مارتا ہے۔ وہ حکومت نامی کھلونے سے اکیلے نہیں کھیل سکتا۔ اسے کھیلنے کے لیے اپوزیشن کی مدد کی ضرورت ہے لیکن اس بچے میں کسی کے ساتھ مل کر کھیلنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ یہ تھوڑی دیر اپوزیشن کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کرتا ہے (پروڈکشن آرڈر اور پبلک اکاؤنٹس کی چیئرمین شپ دیتا ہے )لیکن پھر اس کو غصہ چڑھ جاتا ہے کہ کھلونا تو میرا ہے (حکومت تو میری ہے) یہ اپوزیشن کیوں مزے لے رہی ہے، اس لیے کھلونا توڑنا شروع کردیتا ہے یا کھیل ختم کردیتا ہے۔

کھیل ختم کرنے کی تازہ مثال منی بجٹ پیش کرنے کے بعد یک دم قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنا ہے۔کوئی پوچھ سکتا ہے کہ اگر منی بجٹ پر قومی اسمبلی میں بحث نہیں کرانی تھی، قومی اسمبلی سے منظور ہی نہیں کرانا تھا تو اس کو قومی اسمبلی میں پیش ہی کیوں کیا گیا۔ بس بادشاہ سلامت کئی ماہ بعد قومی اسمبلی میں آئے اور اپوزیشن ارکان نے ان کی شان میں گستاخی کر دی۔ علیمہ خان کے معاملے پر نعرے بازی کی گئی۔ بادشاہ سلامت ناراض ہو گئے۔ انھوں نے کھیل ہی ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ کوئی بادشاہ سلامت سے یہ نہیں پوچھ سکتا کہ حضور جان کی امان مل جائے تو عرض ہے کہ اس طرح کھیل ختم کرنا (قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنا) غیر پارلیمانی ہے۔کھیل کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ حکومت اپوزیشن چور کو سمجھتی ہے۔ اس لیے اپوزیشن کے ساتھ یہ سلوک کر رہی ہے۔ لیکن کیا کوئی یہ سوال کر سکتا ہے کہ بھائی یہ آپ کے اپنے اتحادی کیوں ناراض ہیں۔ یہ ق لیگ تو اب چور نہیں ہے۔ آپ کی اتحادی ہے۔ یہ کیوں ناراض ہے۔ ق لیگ کے تو کوئی پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیے گئے۔ یہ کیوں ناراض ہیں۔ مینگل سے تو آپ نے معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدہ پر کیوں عمل نہیں کر رہے۔ ایم کیو ایم کو تو وزارتیں دی گئی ہیں۔ ان پر بھی منی لانڈرنگ کے الزام ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ کھیل کے کوئی اصول ہی نہیں ہیں۔ جو ساتھ مل جائے وہ اچھا جو مخالفت کرے وہ برا۔ جب دل چاہے کھیل شروع جب برا لگ جائے کھیل ختم۔

قومی اسمبلی کا اجلاس اصل میں اس لیے ملتوی کیا گیا ہے کہ حکومت کے بادشاہی مزاج کی وجہ سے اس کے اپنے اتحادی ان سے ناراض ہیں۔ حکومتی ارکان اسمبلی بھی ناراض ہیں۔ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں بجٹ قومی اسمبلی سے نامنظور ہی نہ ہو جائے۔ اس لیے میدان سے بھاگنا ہی واحد راستہ تھا۔ اب اپوزیشن کو گالیاں دے کر سیاسی منظر نامہ دھندلا کیاجائے گا۔  ہر طرف چور چور کی گونج ہو گی، اتحادیوں میں مزید وزارتیں بانٹی جائیں گی۔ ناراض ارکان کو فنڈز دیے جائیں گے جیسے پنجاب میں دیے گئے ہیں۔ پھر دوبارہ سے کھیل شروع کر دیا جائے گا۔ لیکن یہ دھاندلی نہیں ہے۔ بادشاہ سلامت کا کھیل اور کھلونا ہے جب ان کا دل چاہے جیسے دل چاہے گا کھلیں گے۔

اس حکومت نے اس ملک اور امور مملکت کو ایک کھیل بنا دیا ہے۔ ایک سال میں دو دو بجٹ۔ ایک دن کچھ ایک دن کچھ۔ ایک دن یہ اعلان اب آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔ دوسرے دن یہ اعلان آئی ایم ایف کے پاس جانا ناگزیر ہے۔ ایک دن جمہوریت کے مفاد میں پروڈکشن آرڈر جاری کردیتے ہیں دوسرے دن منسوخ کر دیتے ہیں۔کبھی احتساب جاری رکھنے کا اعلان کبھی نیب کے خلاف بیان بازی۔ کبھی مراعات نہ لینے کا اعلان۔ کبھی ٹیکس چوروں کے لیے تحفظ کے حکم نامے۔ کھیل جاری ہے، دیکھتے جائیں اور سر دھنتے جائیں۔

The post پروڈکشن آرڈر۔۔بادشاہ سلامت کی ایک رعایت یا قانونی حق؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

چیف جسٹس صاحب کا مشورہ اور ماقبل

$
0
0

احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا کہ

عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن

یہ اور بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ

ہمارے عام کلچر میں مرحوم یا ریٹائرڈ فرد کے بارے میں کچھ لکھنا خاص کر برائی اور تنقید کرنے کو برا سمجھا جاتا ہے۔مردہ اور ریٹائرڈ فرد کی عزت ہمارے اوپر لازم ہوتی ہے ‘حالانکہ بعض افراد پر ان کی زندگی میں تنقید کرنا مشکل ہوتا ہے اور بعض افراد کے خلاف اختیار کے حامل ہونے کے دوران تنقید کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ان میں جنرلز‘ججزاور کہیں کہیں جرنلسٹ بھی شامل ہوتے ہیں‘آج میراسابقہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے دور پر کچھ لکھنے کا ارادہ ہے‘ کیونکہ ان کے دور کے بارے میں لکھنا شاید ذاتی مسئلہ نہ ہو بلکہ پورے نظام کا سوال ہے،کوشش کروں گا کہ راستے کے خطرات اور محترم لطیف چوہدری کی خطرناک سنسر سے بچ کر منزل تک پہنچ جاؤں ۔

پاکستان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے موقعے پر ان کے اعزاز میں ریفرنس کا انعقاد کیا گیا۔اس موقعہ پر نئے چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ نے اپنے خطاب میں اعلان کیا کہ وہ بھی ’’ڈیم بنائیں گے اور قرض ادا کرنے کی کوشش کریں گے‘‘۔اس اعلان کی تفصیل بعد میں ‘پہلے سابق چیف جسٹس کے عہد میںعدلیہ کے کردار کا ایک جائزہ۔ مسئلہ ہے کہ چیف جسٹس (ر)ثاقب  نثار کا دور صرف عدلیہ تک محدود نہیں تھا ‘ان کا کردار پورے ملک کے نظام پربغیرکسی دباؤ اور رکاوٹ کے چھایا رہا۔ مستقبل کے نظام کے لیے ان کے دور کا جائزہ لینا ضروری ہے کیونکہ ان کے دور کے دور رس اثرات ملک کے ہر شعبے اور ہر فرد پر چھائے رہیں گے۔ ان کی طاقت کا انحصار آئین کے آرٹیکل 184-(3)کے تحت حاصل از خود نوٹس یا suo-motu کے اختیار پر تھا۔

اصل اور اہم سوال یہ پیدا ہوگا کہ اس آرٹیکل کے استعمال کا فائدہ کیا ہوا؟۔کیا اس کے استعمال سے عدلیہ کی آزادی اور معاشرے کو فائدہ ہوا کہ نقصان؟۔کیا ان کے اقدامات سے عدلیہ کا قانون کے ایک غیر جانبدارادارے کا تصور ابھرا کہ نہیں؟۔کیا ان کے اقدامات سے آئین کے تقسیم اختیارات کے اصول کو تقویت ملی کہ نقصان ہوا؟۔کیا ان کا عمومی رویہ عزت دینے والا تھا یا توہین آمیز تھا ۔ کیا ان کا رویہ ایک جج کا تھا ۔کیا انھوں نے اپنے بعد ملک اور اداروں کو مضبوط بنانے کے لیے بہترین حالت میں چھوڑا ہے کہ خراب حالت میں۔اعلیٰ عدلیہ کے جج کی حیثیت سے ثاقب نثار کا امیج ایک ایسے جج کا تھا جو قانون کو جاننے والا سنجیدہ مزاج کا جج ہے۔جو ہر مسئلہ قانون کے مطابق حل کرنا چاہتا ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے جسٹس افتخار چوہدری کی طرف سے suo motto اختیارات اور قانون کے بے تحاشا استعمال کی مخالفت کی تھی ۔ جب انھوں نے چارج سنبھالاتو عام امید یہی تھی کہ وہ عدلیہ میں اصلاحات‘عدلیہ کے نظام کو ٹھیک کرنے والے اقدامات کے علاوہ ایسے اقدامات اٹھائیں گے جن سے اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ پر مقدمات کا بوجھ کم ہوگا لیکن ان کے آخری دس مہینوں نے عجیب ماحول پیدا کردیا۔پاناما کیس کے بعد ان کے اقدامات اور ریمارکس سے یہ تاثر پیدا ہوتا رہے کہ مسلم لیگ کی حکومت ہر معاملے میں نا اہل تھی۔انھوں نے اعلان کیا تھاکہ آئین کے آرٹیکل 184(3)کی حدود کا تعین ان کے دور میں ہی ہوگا لیکن ایسا نہیں ہوسکا ۔امریکی سپریم کورٹ کے ایک جج نے کہا ہے کہ ’’ایک جج کی کسی مقدمے میں کوئی ترجیح نہیں ہوتی ان کی ترجیح بلکہ واحد ترجیح صرف قانون کی حکمرانی ہوتی ہے ‘‘ایک دوسرے جج چارلس ہیو گز نے مزاح کے طور پر کہا تھا کہ ’’ ہم ایک آئین کے تحت ہیں لیکن آئین وہی ہوتا ہے جو جج کہتا ہے‘‘۔لیکن قانون کے میدان میں اس رویے کو انتہائی خودغرضانہ اور ناپسندیدہ کہا جاتا ہے۔

ان الفاظ کے معنی ایک خاص حد سے زیادہ نہیں پھیلائے جا سکتے ہیںاور وہ بھی اس حد تک جہاں تک قانون کی تشریح اجازت دیتی ہے۔ایک مقدمے میں انھوں نے قرار دیا تھا کہ حکومت کا مطلب وزیر اعظم نہیں بلکہ پوری کابینہ ہوتی ہے ‘صرف وزیر اعظم کے حکم کو حکومتی حکم نہیں سمجھا جا سکتا ‘وزیر اعظم حکومت کے نام پر کوئی اقدام اکیلے نہیں کر سکتا۔ ان کے اس طرح کے حکم سے تو سپریم کورٹ کے اندر چیف جسٹس اور ججوں کی حیثیت کا تعین بھی ہوگیا تھا‘ان کو بھی پوری سپریم کورٹ کو فیصلوں میں شریک کرنا چاہیے تھا لیکن اس کے باوجود وہ اکیلے ہی فیصلے کرتے رہے۔

اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے صوابدیدی اختیارات کا بے دھڑک اور مسلسل استعمال نہ صرف آئین کے آرٹیکل 10اے۔(Due process) کی رو سے مطابقت نہیں رکھتا بلکہ یہ عمل ماتحت عدالتوں کے دائرہ کار کو محدود کردینے کا باعث بنتا ہے ‘اس کی وجہ سے کئی مرتبہ متاثرہ افراد اپیل کے حق سے بھی محروم رہ جاتے ہیں‘یہ عجیب قانونی پوزیشن ہے کہ ایک ڈاکو‘چوراور دہشت گرد کو تین اپیلوں کا حق ہوتا ہے جب کہ تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والے شخص کو اپیل کا حق نہیں مل سکا ۔جناب ثاقب نثار ٹی وی پر چھائے رہے ‘ایسا لگتا تھا جیسے انتظامیہ اور پارلیمنٹ کی کوئی وقعت اور اہمیت نہیں‘ساری حکومت ان کے حکم کے مطابق چل رہی تھی ‘لیکن مسائل اپنی جگہ موجود رہے ‘آج بھی اسپتال بری حالت میں ہیں حالانکہ ان کے اچانک دورے کیے گئے تھے۔

صوابدیدی اختیارات کے تحت کسی مسئلے کو تو وقتی طور پر اہمیت مل جاتی ہے لیکن یہ عمل مستقل طور پر حل کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہوتا ‘بلکہ بعض اوقات تو صورت حال مزید خراب ہوجاتی ہے ۔ہمارے جیسے ملکوں میں جہاں آئین تحریری طور پر موجود ہے، وہاں عدلیہ کا اختیار ہے کہ وہ قوانین کی تشریح و تعبیر ایک مستحکم اور قابل گمان انداز میں کرے لیکن یہ بات نا مناسب ہوگی کہ وہ عملًا قانون سازی کرنے لگ جائے یا ایسا لگنے لگے کہ عدلیہ اپنے متعین اختیارات سے تجاوز کر رہی ہے۔اس عمل سے آئین کی تقسیم اختیارات کی اسکیم ناکام ہو کر ایک شخصیت میں انتظامی‘قانونی اور تشریح کے تمام اختیارات مرتکز ہوجاتے ہیں اور جمہوری روح کے بجائے آمرانہ روح بروئے کار آجاتی ہے۔

سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں سینئر سرکاری افسران کو عدالت میں توہین آمیز رویے کی شکایت رہتی تھی کیونکہ وہ اکثر اوقات میڈیا کی موجودگی میں کیس سنتے‘ جس سے بعض اوقات افسران اور دوسرے سیاستدانوں کو محسوس ہوتا کہ شاید ان کا میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے ،اسی طرح محترم ثاقب نثار بھی خبروں کی سرخیوں میں رہتے ‘شاید یہ  بات کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کو ملنے والی کوریج پاکستان کے ہر حکمران اور سیاستدان سے بھی زیادہ تھی ۔جسٹس افتخار چوہدری اور جسٹس ثاقب نثار دونوں عام سائلین کے مسائل کے حل کے لیے بامقصد جوڈیشل اصلاحات لانے میںکامیاب نہیں ہو سکے۔

اب سب سے بہترین ‘دانشمندانہ اور سلجھاؤ کی باتیں نئے چیف جسٹس محترم جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کی ہیں‘ ایسی ٹھوس باتیںکبھی کبھار سننے میں آتی ہے ‘ شکر ہے کہ  انھوں نے ریاستی اداروں کے درمیان دھینگا مشتی‘کے پس منظر میں جس دانائی کے ساتھ پاکستان کے اہم اور بنیادی مسائل کا تجزیہ کیا ہے ‘اس پروہ بلاشبہ تحسین کے مستحق ہیں‘ان کی تجاویز اور مشوروں کے بارے میں آیندہ کالم میں تجزیہ کریں گے۔

The post چیف جسٹس صاحب کا مشورہ اور ماقبل appeared first on ایکسپریس اردو.


این آر او ، کیسا جادو؟

$
0
0

عمران خان نے 6 مہینے میں ایسا کوئی کام نہیں کیا، جسے تحریک انصاف فخر کے ساتھ عوام میں پیش کرے، عوام تحریک انصاف کی اس مایوس کن کارکردگی کو غور سے دیکھ رہے ہیں لیکن وہ نہ اس کارکردگی سے مایوسی کا اظہارکر رہے ہیں نہ اس کارکردگی کے خلاف سڑکوں پر آ رہے ہیں۔

حالانکہ ’’ایماندار‘‘ اپوزیشن کی جانب سے بہت کوشش کی گئی کہ عوام سڑکوں پر آئیں لیکن خدا جانے ان سرپھروں کو کیا ہوگیا ہے کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ کیا اس کی وجہ وہ 10 سالہ جمہوری کارکردگی ہے جس کا ڈنکا ساری دنیا میں بج رہا ہے؟ عمران خان نے جب اقتدار سنبھالا ملک کھربوں روپوں کے اندرونی اور بیرونی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے رفاہ عامہ کے اداروں سے قرض لیا۔ یہ قرض مجموعی طور پر اتنا لمبا چوڑا اور اونچا ہے جتنی لمبی چوڑی اور اونچی ہماری جمہوریت ہے۔ سابق قرض کا پورا نقشہ عوام کی آنکھوں میں اور حال کے قرضوں کا حال یہ ہے کہ سابقہ حکومتوں میں یہ قرضے جیب (بینک) میں چلے جاتے تھے، اب صورتحال یہ ہے کہ عباسی صاحب کی ایل این جی ادھار لی جا رہی ہے۔ ایل این جی ادھار لینا بڑی  بات ہے لیکن ہمارے عوام اس کا دفاع اس طرح کرتے ہیں کہ چوری کرنے سے ادھار لینا بہتر ہے۔

عوام نے اس ملک کا 1947 سے 2018 کا دور دیکھا ہے الامان الحفیظ۔ عام زبان میں عام لوگ کہتے ہیں کہ ’’متحدہ ہندوستان‘‘ سے پہلے مغل امپائرکا جو دور تھا اور جب ہم فخر سے مسلمانوں کا ایک ہزار سالہ دور کہتے ہیں اب سلجھے ہوئے لوگ کہتے ہیں ہم ہزار سالہ زریں دور تک تو نہ آسکے لیکن نئے مغل امپائر کو اپنی نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور سیاست کے پالنے میں شہزادوں کو اقتدار کے لیے مچلتے دیکھ رہے ہیں۔

کہ ٹی وی پر چند سابق لیگی وزراء کے جھرمٹ میں  نواز شریف کو آتے دیکھا ماشا اللہ چہرے پر وہی تازگی تھی۔ چند منٹ کے وقفے سے چھوٹے میاں کی سواری بھی برآمد ہوئی وہی رعب و دبدبہ جو دور اقتدار میں تھا۔  ہمارا خیال ہے انسان کو اگر مستقبل کا حال معلوم ہو تو وہ بہت ساری ناقابل بیان مشکلات سے بچ سکتا ہے ہمارے سائنسدانوں نے مصنوعی انسان بنا لیے لیکن ابھی تک مستقبل بینی جیسی چھوٹی سی تحقیقی میں کامیابی حاصل نہ کر  سکے۔ ہر انسان کے دماغ میں پیش بینی یا مستقبل بینی کی ایک بڑی طاقت ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ دولت کی بے انتہا خواہش ہو تو باریک بینی ’’بہ یک بینی دو گوش‘‘ بن جاتی ہے۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ’’ ہوس ‘‘ ہے وہ بھی اتنی لمبی چوڑی کہ اربوں روپے بھی اس میں سما نہیں سکتے اس بیماری نے سیاسی شرفا کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔

صرف چند ماہ پیشتر ان آقاؤں کے آگے پیچھے مشتاقان دید کا ایک ہجوم لگا رہتا تھا۔ خواتین کی دلی خواہش ہوتی تھی کہ وہ ایک بار سر کی نظر میں آجائیں فائدہ ہو یا نہیں دیدار کی برکت سے بھی بہت کام ہوتے ہیں۔ یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ خواتین کو ہماری ان آن ہماری شان نے جیلوں تک پہنچادیا۔ ایک زمانہ تھا جب خواتین کا جیل جانا قابل فخر بات ہوتی تھی لیکن وہ جیل کے مسافر اربوں روپوں کی کرپشن کے الزام میں نہیں پکڑے جاتے تھے وہ نالائق حکومتوں اور نالائق قیادتوں کے خلاف ہڑتالیں کرکے احتجاج کرکے اور گدی چھوڑ دو کے نعرے لگا کر جیلوں میں جاتے تھے۔

وہ بناسپتی قیادت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے لیکن اب سیاست میں اہل سیاست نے قدم قدم پر حکمرانوں سے کمپرومائز کا ایک ماڈرن فارمولا نکالا ہے جس کا نام نامی اسم گرامی NRO رکھا گیا ہے ان تین لفظوں میں پتا نہیں کیسا جادو ہے کہ سزائے موت کے قیدی نہ صرف پلک جھپکتے میں چھوٹ جاتے ہیں بلکہ قصر سلطانی کے گنبد پر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم ایک عبوری دور سے گزر رہے ہیں لیکن اتنا اندازہ بہرحال دیوانے بھی کر رہے ہیں کہ اس بار NRO کی برکت سے فائدہ اٹھانے کے چانس کم ہیں لیکن دنیا کے باخبر لوگ کہتے ہیں کہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس امکان نے ہمارے سیاستدانوں کے سارے اندازوں سارے منصوبوں کو ملیا میٹ کردیا ہے اکہتر سال کا عرصہ بہت عرصہ ہوتا ہے اس عرصے میں دنیا کے بہت سارے ملک پسماندگی کے حصار سے نکل کر ترقی کے دور میں داخل ہوگئے ہیں۔ لیکن ہماری ترقی کا عالم یہ ہے کہ ترقی تو گئی دال لینے یہاں صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کے سر پر قرض کے پہاڑ کھڑے ہوئے ہیں اور بے چارے عوام ’’صم بکم‘‘ کھڑے ہوئے ہیں۔

یہ جغرافیہ یا ریاضی کا کوئی بہت بڑا سوال نہیں ہے کہ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں۔ آج پاکستان کا جو حشر ہوا ہے اس کا اندازہ ان حقائق سے لگایا جاسکتا ہے کہ لٹیروں کے پاس جو کھربوں روپے رکھنے کی جگہ نہیں رہی تو انھوں نے حاتم کی قبر پر لات مارتے ہوئے اربوں روپے ایسے غریب طبقات کے اکاؤنٹس میں ڈال دیے جنھوں نے کبھی اتنی بڑی رقوم کو دیکھا نہ سنا۔ ان حالات کو دیکھ کر ہمیں اندھیر نگری چوپٹ راج یاد آرہا ہے۔ کیا پاکستان کی تاریخ میں کبھی اتنی بڑی کرپشن عرف لوٹ سیل لگی ہے؟ جو عمائدین بہتی گنگا میں نہا رہے تھے اب اسی گنگا میں ڈوبنے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔

صورت حال کو سنبھالنے کی جتنی کوششیں کی جا رہی ہیں وہ اور الجھتی چلی جا رہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں ہاتھ ڈالتے ہیں وہاں ایک اور زیادہ بڑا کھڈا نکل آتا ہے بعض سابق ڈھیٹ وزرا جو حال حال تک احتساب کا اور حکمرانوں کا مذاق اڑاتے تھے اب ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں لیکن خوفزدہ مصنوعی ہنسی سے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ’’سب ٹھیک ہے‘‘۔ لیکن لگتا ہے سب ٹھیک نہیں بلکہ شاید کچھ بھی ٹھیک نہیں۔ میں اس مسئلے کو ایک اور حوالے سے دیکھتا ہوں۔ میں کہتا ہوں ایک بھی کرپٹ بندہ کرپٹ نہیں کرپٹ پورا سرمایہ دارانہ نظام ہے اور کاغذ قلم ہے تو نکال کر لکھ لو جب تک یہ نظام قائم ہے انسان کرپٹ  ہی رہے گا۔

ہمارے حکمران طبقے کی تاریخ لوٹ مار کا عالم دنیا نے دیکھا دولت چوری کی دولت جب گھروں بینکوں اور لاکروں میں نہیں سمانے لگی تو ان غریبوں کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے ڈالنے لگے جنھوں نے پانچ ہزار کا نوٹ نہیں دیکھا۔ آج یہ ہوس ذلت بے شرمی بن کر جگمگا رہی ہے احتساب ہو رہا ہے لیکن دل جلوں کا کہنا ہے کہ اگر احتساب اس قدر نرم رہا تو پگھل جائے گا۔

عمران خان ایسے میدان میں کھڑے ہیں جہاں ہر طرف غنیم دانت پیستے کھڑا ہے لیکن پاکستان کے دوست ممالک جس قدر ہمدردی سے پاکستان کی مدد کر رہے ہیں شاید اس سے پاکستان اس تاریخی کرائسس سے باہر نکل آئے لیکن پورے پاکستان میں کرپشن کا منہ سختی سے بند نہ کیا گیا تو یہ بھی دوبارہ اس تیزی سے ابھرے گی کہ پھر اس کا منہ بند کرنا شاید ممکن نہیں رہے گا۔

The post این آر او ، کیسا جادو؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

سانحہ ساہیوال

$
0
0

آج کل میڈیا میں سانحہ ساہیوال موضوع بحث ہے۔ عوام سمیت اپوزیشن اس کی مذمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ۔لیکن پوچھنے والے پوچھتے ہیں کہ ہماری سابقہ حکومت کے خادم اعلیٰ جن کی زبان پر ایک ہی ورد ہوتا تھا کہ وہ پولیس کلچر تبدیل کردیںگے ۔

لیکن مجا ل ہے کہ پنجاب پولیس ذرہ برابر بھی تبدیلی ہوئی ہو، اگر تبدیلی ہوئی تو صرف وردی میں جس پر حکومتی خزانے سے عوام کے اربوں روپے ضایع ہوگئے۔کہنے والے اُ س وقت بھی کہتے رہے کہ وردی تبدیل نہ کروا ان کا مائنڈ سیٹ تبدیل کرو۔ حالت یہ ہے کہ جو نیم خواندہ جس کا زیادہ تر دیہی علاقوں سے تعلق ہوتا ہے جب انھیں پولیس کی ملازمت مل جاتی ہے تو وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ انھیں نوکری نہیں ملی انھیں لائسنس(To Kill) عوام کو قتل کرنے کا اختیار مل گیا ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ انھیں پتہ ہوتا ہے کہ دو دوران ملازمت چاہے جتنے بھی بند ے بھی مار دیں کوئی انھیں ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا ۔ زیادہ سے زیادہ انھیں وقتی طور پر تبدیل کردیا جائے گا۔انکوائری ہوگی جس کا نتیجہ آخر کار اُ ن کے حق میں ہی آئے گا ۔

پاکستان کے ننانوے فیصد عوام کو ماضی کے حوالے سے آج بھی یقین ہے کہ سانحہ ساہیوال کا ارتکاب کرنے والے اہلکار آخر کار بچ جائیں گے۔کچھ دے دلا کر متاثرین کا منہ بند کردیا جائے گا اور میڈیا ایک نئی بریکنگ نیوز کی تلاش میں ہوگا۔ عوام کی یادداشت تو ویسے بھی کمزور ہوتی ہے وہ بھی آخر کار بھول بھال جائیں گے ۔ جب قائدہ اعظم ، لیاقت علی خان، محترمہ فاطمہ جناح کے قاتلین پکڑے نہیں جاسکے ۔ اُ س کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ،مرتضیٰ بھٹو، بینظیر بھٹو کے حقیقی قاتل آج بھی گمنام ہیں۔

لیکن فرنٹ پر رہنے والے اہلکاروں کو ترقیوں سے نوازا گیا ۔ سانحہ ساہیوال میں قتل ہونے والے فرد کے بھائی نے پنجاب بیوروکریسی کی پھرتیاں دیکھ کر فوراً ہی کہہ دیا تھا کہ اسے انصاف کی کوئی توقع نہیں ۔جب پولیس ہی اس سانحہ کی تفتیش کرئے گی تو نتیجہ زیرو ہی نکلے گا ۔ ہمارے ملک میں شروع سے ہی یہ المیہ چلاآرہا ہے کہ جب تھانے میں پولیس تشدد سے کوئی ناحق مارا جاتا ہے تو اُس کے اپنے ساتھی اہلکار ایسی تفتیش کرتے ہیں کہ اُن کا پیٹی بھائی صاف بچ جاتا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ شہریوں ریٹائرڈ دیانتدار ججوں اور افسروں پر ایسا ادارہ مستقل پر قائم ہو جو مجرم اہلکار کو قرار واقعی سزا کم از کم عمر قید یا سزائے موت دے۔ کیونکہ جان کا بدلہ جان ہے اس طرح کی سخت ترین سزائیں ہی ماورائے عدالت جیسے گھناؤنے جرائم کا خاتمہ کرسکتی ہیں۔ اس بات پر بھونڈی دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تو پولیس فورس کے مورال پر بُرا اثر پڑے گا۔یہ بھی خوب کہی کہ فورس کے مورال پر بُرا اثر نہ پڑے لیکن عوام کا مورال نفسیاتی طور پر تباہ ہو جائے، اُ س کی خیر ہے ۔’’ مشہور قول ہے کہ کفر کے معاشرے جو انصاف پرمبنی ہو ں قائم رہ سکتے ہیں لیکن ظلم سے نہیں‘‘ وجہ صاف ظاہر ہے ظلم پر مبنی معاشروں سے عوام رفتہ رفتہ لاتعلق ہوتے جاتے ہیں، اس طرح وہ حکمران جو ظالموں کی سرپرستی کرتے ہیں نہ صرف خود تباہ ہوتے ہیں بلکہ آخر کار ایسے ملک ٹوٹ بھی جاتے ہیں۔

سانحہ ساہیوال کے مدعی کی جانب سے درج کرائی گئی FIR میں 16 نامعلوم افراد کو نامزد کیا گیا ہے جس میں 10 اہلکار باوردی جب کہ6 اہلکار سادہ کپڑوں میں ملبوس تھے۔FIR کے مطابق مقتولین کو ایلیٹ فورس کی ایک گاڑی نے جس میں CTD اہلکار سوار تھے انھیں اسلحہ کے زور پر اغواء کیا اور انھیں اپنی من پسند جگہ قادر آباد اڈے کے قریب مین جی ٹی روڈ پر لے گئے اور مقتولین کی گاڑی پر دانستہ طور پر سوچی سمجھی اسکیم کے تحت فائرنگ کردی۔

ہمارے دوست سنیئر تجزیہ کار کے مطابق اس سانحہ کے ذمے دار 2 افراد ہیں ۔پہلا شخص وہ مخبر ہے جس نے غلط اطلاع دی ،دوسر اشخص وہ ہے جس نے گاڑی میں سوار افراد کو قتل کرنے کی اجازت دی ۔ یقین واثق ہے کہ مہینوں پر طویل انکوائری کے بعد یہ بے قصور قرار پائیں گے جس کے بعد انھیں ترقیوں سے نوازا جائے گا۔ اگر اُ س گاڑی میں کوئی دہشت گرد بھی تھا تو اُسے منزل پر پہنچنے کے بعد باآسانی گرفتار کیا جاسکتا تھا ۔ اُس پر سونے پر سہاگہ جائے وقوعہ کو فوری طور پر پانی سے دھو دیا گیاتاکہ شواہد مٹائے جا سکیں۔

بینظیر بھٹو کی قتل گاہ کو بھی فوراً پانی سے دھو دیا گیا تھا۔ غیر ذمے داری کی انتہا یہ کہ فوری فرانزک تحقیقات بھی نہیں کی گئیں۔اب یہ دو بڑے قانونی سقم ہیں جس میں ملوث (دہشت گرد) اہلکار بالاآخر عدالتی کارروائی میں چھوٹ جائیں گے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ سانحہ ساہیوال کے قتل عام میں ملوث اہلکاروں کے ناموں کے بغیر FIR کا اندراج بدنیتی اور انصاف کے قتل عام کا آغاز ہے ۔ یہ عمل پولیس کی طر ف سے ملوث اہلکاروں کو بچانے کے لیے قانونی سہولت کاری قرار دیا گیا ہے۔

سانحہ ساہیوال پر اپوزیشن شدید تنقید کررہی ہے ۔ راؤ انوار کو بہادر بچہ کہنے والے کو جو نہ صرف نقیب اللہ محسود بلکہ سیکڑوں بے گناہوں کا قاتل ہے زیب نہیں دیتا۔ پہلے تو بہادر بچہ کہنے والے کو یہ وضاحت دینی چاہیے کہ انھوں نے راؤ انوار کے کس کارنامے پر اُسے بہادر بچہ کہا۔ دوسرا سابقہ خادم اعلیٰ جن کے دور میں بہت سے مقابلے ہوئے جو تھانہ کلچر بدلنے کے دعویدار تھے وہ پنجاب میں پورے10سال بلاشرکت غیرے حکمران رہے۔ آیندہ شاید کسی کو بھی ایسا موقعہ نہ دیا جائے، وہ کس منہ سے سانحہ ساہیوال کی مذمت کررہے ہیں۔

سندھ حکومت آزمائشی دور میں داخل ہونے والی ہے۔پہلا مہینہ فروری ہے ۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی مدت پوری کرسکیں گے یا نہیں۔اہم مہینے مارچ ،اپریل ہیں ۔فوری طور پر اہم تاریخیں 31-30 جنوری تا2 فروری ہیں۔

The post سانحہ ساہیوال appeared first on ایکسپریس اردو.

مٹی

$
0
0

عرصے کے بعدتاندلیانوالہ جانے کااتفاق ہوا۔ شاید چارسال سے زیادہ یااس سے بھی طویل وقت گزرنے کے بعد۔ویسے وقت کی سب سے ظالم بات یہ ہے کہ گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ڈھلتی ہوئی عمرمیں تودن،لمحوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔مہینے چندگھنٹے بن جاتے ہیں اورسال بس پل جھپکتے ہی بسرہوجاتے ہیں۔وقت گزرنے کے آثار انسانی چہروں پرجھریوں کی شکل میں نظرآتے ہیں۔ذہن میں خوشی اورغمی کی خندقیں بناکرخاموش ہوجاتے ہیں۔ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے کہ فیصل آبادنام کا کوئی شہرہی نہیں تھا۔

لائل پورشہرانگریزوں نے آباد کیاتھا۔آبادکاروں کا شہر۔ پھر سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل کے شہیدہونے کے بعد شہرکوانھی کے نام سے منسوب کردیاگیا۔ویسے یہ عجیب وغریب  سرکاری حرکت صرف ہمارے جیسے ملکوں میں ہی ہوسکتی ہے۔

درست ہے کہ سعودی عرب سے ہمارے اَزحد بہتر تعلقات ہیں۔مگرمجھے یادنہیں پڑتاکہ دنیا کے کسی ملک نے کسی پاکستانی لیڈرکے مرنے کے بعد اپنے کسی شہرکانام اس کے نام سے تبدیل کیا ہو۔ کیا بھٹوصاحب اورجنرل ضیاء کے دنیا سے گزرجانے کے بعدہمارے بہترین دوست ممالک نے اپنے شہروں کانام تبدیل کیاتھا۔خیر،اب اس بحث کا کوئی جواز نہیں۔ ذاتی طورپرمیں فیصل آبادکا نہیں بلکہ لائل پورکے نام میں زیادہ اُنسیت محسوس کرتاہوں۔ممکن ہے کہ فیصل آباد کے نئے باسیوں کویہ جذباتی وابستگی درست نہ لگے لیکن شہروں اورملکوں پران کے ناموں کی حددرجہ تاثیرہوتی ہے۔ یہ تاثیرانسانوں پر بھی ہوتی ہے۔لائل پور،فیصل آباد بن گیا۔اب کچھ نہیں ہوسکتا۔شایدہونابھی نہیں چاہیے۔

گزشتہ دن محسوس ہواکہ وسطی پنجاب میں اب روایتی قصبے ختم ہوچکے ہیں۔اب چھوٹے چھوٹے شہروں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ایسے شہرجنکی آبادی یورپ کے درمیانے درجے کے شہروں سے بھی حد درجہ زیادہ ہے۔گمان ہے کہ تاندلیانوالہ کی آبادی اب چارپانچ لاکھ ہوگی یاشایداس سے بھی زیادہ۔ مگرنصف صدی قبل،یہ ایک چھوٹاساقصبہ تھا۔ اختصارکے ساتھ تاندلہ منڈی کہاجاتاتھا۔شہرکے عین درمیان میں غلے کی ایک وسیع وعریض منڈی تھی۔ اردگرد پکی دیوارتھی اوراس میں لوہے کے دروازے لگے ہوئے تھے۔

کناروں پرآڑتھیوں کی دکانیں موجودتھیں۔دکانوں کے سامنے پختہ فرش پر غلہ اور بوریاں موجودہوتی تھیں۔  شاید آپ کے ذہن میں یہ سوال ہوکہ بچپن میں اس قصبے میں رہا ہوں۔ بالکل نہیں۔میں لائل پورمیں پیداہوا۔ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعدکیڈٹ کالج حسن ابدال چلا گیا۔ تاندلیاوالہ سال میں صرف دویاتین بارآنے کا اتفاق ہوتا تھا۔وہ بھی چنددنوں کے لیے۔تقسیم کے بعدمیرے دادا، راؤ اختر پاکستان آئے تو خاندان سمیت تاندلہ منتقل ہوگئے۔ راؤ اختر، حد درجہ سخت گیرانسان تھے۔اس طرح کے لوگ اب کم نظرآتے ہیں۔ ویسے اُس وقت بھی بہت کم تھے۔ ان کومقامی زبان میں ’’راٹھ راجپوت‘‘یاراٹھ رانگڑ کہا جاتا ہے۔ راؤ اختر کی ذہن میں مکمل تصویر موجود ہے۔ انتہائی بارعب شخصیت، درمیانے درجے کی داڑھی اور لمبی لمبی مونچھیں۔ہاتھ میں اکثرایک عصاہوتا تھا۔

کُرتے پاجامہ میں زیب تن،یہ انسان رعب اور دبدبے کی ایک اچھی مثال تھا۔ مالی حالات مہاجرین کے کیا ہونگے۔جوزرعی زمین ملی،اس پر محنت کی اور خدا نے راستے آسان کردیے۔جب بھی عید پر جانے کا اتفاق ہوتاتھا تو داداجی،ہمیشہ اپنے بڑے سے مکان کی بیٹھک میں لوگوں سے گھرے ہوتے تھے۔ان کی حیثیت ایک سرپنچ کی تھی۔عام لوگوں کے مسائل حل کرنا، مسافروں کے لیے گھرسے باہر رہنے کامناسب انتظام کرنا اور مقامی سیاست میں عمل دخل ہمیشہ سے انکاوطیرہ رہا تھا۔ یاد ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں بی ڈی کا نظام شروع ہوا تھا۔ راؤ اختر بی ڈی ممبرتھے۔اَنااوردبدبے کا یہ عالم تھاکہ لائل پور کے ڈپٹی کمشنر، تاندلہ کی میونسپل کمیٹی کے دورے پر آیا،وہاں آکر کہاکہ شہرکے بی ڈی ممبران کو بلایا جائے۔کمیٹی کے عملہ نے مشورہ کیاکہ راؤاخترنہیں آئینگے۔

کیونکہ اکثرافسران ملاقات کے لیے ان کے گھرجاتے ہیں اور انھیں ایک دودن پہلے بتانا پڑتا ہے۔ڈپٹی کمشنرنیاتھا۔یقین ہی نہ آیاکہ ضلع میں ایک ایسا معتبرشخص بھی ہے جواس کے بلانے پربھی نہیں آتا اور اسے پہلے بتانا پڑتا ہے۔خیرکمیٹی سے ہر کارہ ڈرتے ڈرتے ہمارے آبائی مکان  پرآیا۔ راؤ اختر دوپہرکوآرام کررہے تھے۔ بڑی مشکل سے بتایا کہ ڈپٹی کمشنرصاحب ملاقات کے لیے بلارہے ہیں۔ دادانے یہ کہہ کرانکارکردیاکہ یہ میرے آرام کرنے کاوقت ہے۔ اگر صاحب ملناچاہتے ہیں تو دوپہرکے بعدگھرتشریف لے آئیں۔جب یہ جواب ڈی سی کو پہنچاتووہ اَزحدحیران ہوا۔ ملنے کے لیے خود آیا اور اس کے بعدیہ ملاقات،ذاتی تعلق میں بدل گئی۔ دراصل روایتی بزرگ تقریباًایک جیسے ہوتے تھے۔

اولادکے ساتھ سختی کارویہ روا رکھناعام تھا۔میرے والدیعنی راؤ حیات سب سے بڑے تھے۔وہ بھی دادامرحوم کے سامنے انتہائی احتیاط سے گفتگو کرتے تھے۔ چچا سلیمان، چچا عبدالرحیم، چچا اسلم اور چچا اکرم تو باقاعدہ داداسے گھبراتے تھے۔ ویسے چچا سلیمان انتہائی مدہم اورشائستہ طبیعت کے مالک تھے۔ ہرایک سے بڑی محبت اورخلوص سے پیش آتے تھے۔چچااسلم،فیصل آبادکے نامور وکیل بنے۔جوانی میں انتقال ہوگیا۔جب تک زندہ رہے پنجاب بار کونسل کے ممبررہے۔اس الیکشن میں انھیں کبھی شکست نہیں ہوئی۔ چچا عبدالرحیم جوانی میں سیلانی طبیعت کے مالک تھے۔بچوں سے خوب شرارتیں کرتے تھے۔ تاندلیا نوالہ سے سمندری منتقل ہوگئے اوروہاں بہت اچھی وکالت کی۔ اب پیرانہ سالی کا شکار ہے اوراکثربیماررہتے ہیں۔چچااکرم ماشاء اللہ صحت مند ہیں۔ کل کی تقریب انھی کے ایک بیٹے کا ولیمہ تھااورسب سے چھوٹی بیٹی کی بارات تھی۔

تاندلیانوالہ جاکرترقی کاایک بھرپوراحساس ہوا۔ ستیانہ روڈسے آئیںتوخوشگوارحیرت ہوتی ہے۔انتہائی خوبصورت سڑکیں اورہرطرف دکانیں ہی دکانیں۔تحصیل کے سرکاری اسپتال کے سامنے سے گزراتومعلوم ہواکہ یہ بھی کافی حد تک بہترطریقے سے کام کررہاہے۔سرکاری ایمبولینس بھی موجود تھی اورایمرجنسی وارڈمیں ڈاکٹربھی۔یہ کہنا تومبالغہ آرائی ہوگی کہ وہ ایک بہت اچھااسپتال ہے۔ مگر موجودہ حالات میں ابتدائی طبی امدادکے لیے ایک اچھی کوشش ہے۔نہرکے ساتھ ساتھ زندگی کے بھرپورآثارتھے۔جب شادی گھر پہنچا تو جدیدطرزکی ایک عمارت سامنے موجودتھی۔

وسیع وعریض ہال اور بہت اعلیٰ فرنیچردیکھ کراحساس ہواکہ اب شادیوں کی تقاریب منعقد کرنا کتناآسان اور بہتر ہوچکا ہے۔ ہاں، نہر کے ساتھ اسکولوں سے چھٹی کاوقت تھا۔ درجنوں کی تعدادمیں طلباء اورطالبات گھر جارہے تھے۔اسکولوں کی چھٹی کے وقت ہرطرف بچے ہی بچے تھے۔ویسے بڑھتی ہوئی آبادی ہمارا ایک بہت بڑامسئلہ ہے۔ہرطرف انسانی سرہی سر نظر آتے ہیں۔نوجوان نسل کے لیے روزگارکیسے مہیا کرینگے۔ اس جہت پر سوائے خاموشی کے اورکچھ نہیں ہے۔ حقیقت تویہ ہے کہ اتنی کثیرآبادی کوباعزت روزگار دیناتقریباًناممکن ہے۔مگریہ سچ تسلیم کرنابے حدمشکل کام ہے۔ ہمارے جیسے معاشروں میں سچ بولناویسے ہی ایک مشکل عمل ہے۔یہاں سچ بولنے  والے، اکثرمشکلات کا شکار نظرآتے ہیں۔جھوٹ کی وادی میں،حقیقت اورسچ کے پیڑ لگانا بہت مہنگاپڑتاہے۔

شادیوں کاایک خوبصورت پہلویہ بھی ہے کہ خاندان کے ہرفردسے ملاقات ہوجاتی ہے۔چچا اکرم کابڑا بیٹا شہزاد، امریکا سے آیا ہواتھا۔حددرجہ انکساری سے بات کرتا ہے۔ امریکا کی شائستگی اس کی شخصیت میں جھلکنے لگی ہے۔ ہاں، پھوپھامجاہدسے بھی نشست رہی۔انھیں مجاہد بھائی کہتا ہوں۔ اسکول میں مجھ سے تین سال سینئر تھے۔ اس لیے رشتے داری سے زیادہ دوستی ہے۔بھائی مجاہدایک وجیہہ انسان ہیں۔ سمندری میں ایسے بسے کہ پھرباہرنکل کرنہیں دیکھا۔ ان کے ساتھ دوستی اوربے تکلفی کانایاب رشتہ ہے۔ انکابیٹااب میونسپل کمیٹی کا چیئرمین ہے۔بھائی مجاہدکی اولادانکاروایتی اندازمیں دلی ادب کرتی ہے۔ ویسے شایدابھی ہم ان خوش قسمت خاندانوں میں سے ہیں،جن میں چھوٹے اپنے بڑوں کی بھرپور عزت کرتے ہیں۔یہ روایت اب کافی حد تک ختم ہوتی جارہی ہے۔

بھائی مجاہدنے بھی اپنی طرزکی شاہانہ زندگی گزاری ہے۔بچپن سے لے کرآج تک،ایک ملازم ہروقت ان کی اردل میں موجود ہوتاہے۔وہ روبوٹ کی طرح مجاہدبھائی پر نظر رکھتا ہے۔پانی کاگلاس پکڑاناہو،کھانے کی پلیٹ پہنچانی ہو، طعام کے بعدبرتن اُٹھانے ہوں۔یہ سب کام ان کا ملازم احسن طریقے سے سرانجام دیتاہے۔کل بھی، نیلی ٹوپی پہنے ہوئے ایک خدمت گارموجودتھا۔گاڑی میں بھی ڈرائیور کے ساتھ بیٹھتاہے۔بھائی مجاہد ایک بڑے زمیندارہیں۔ویسے بھٹوکی ریفارمزمیں ان کے والدکی کافی زمین،سرکارنے ضبط کرلی تھی۔مگر آج بھی بھائی مجاہدکے پاس کافی آبائی رقبہ ہے۔ تیس برس پہلے وہ بھی سمندری کی میونسپل کمیٹی کے چیئرمین رہے ہیں۔مگرکل کی بات لگتی ہے۔

قاسم،ہشام،طاہر،عمران،سب سے ملاقات رہی۔ چچا عبدالرحیم کابڑابیٹا،آصف،امریکا سے صرف اورصرف کاشف کی سیاست کوسہارادینے کے لیے نوسال پہلے سمندری آگیا۔جب میںسیکرامینٹو (Sacramanto) گیا تو آصف کافی بہترزندگی گزاررہاتھا۔سیکرامینٹوسے سمندری آنابے حد دشوارفیصلہ تھا۔ مگر راؤ کاشف ایم پی اے بن چکا تھا۔اس کی مصروفیت کے پیش نظر، مقامی سطح پرایک منجھے ہوئے فردکی ضرورت تھی جوشہرمیں لوگوں کے ساتھ ہر وقت رابطے میں رہے۔آصف نے جس محنت سے کام کیا، وہ کم ازکم میرے لیے باعث حیرت بھی تھی اورباعث تسکین بھی۔ میرے چچا ذاد بھائی راؤکاشف،دس سال مسلسل سمندری سے ایم پی اے رہا۔جتنی ترقی اس نے اپنے حلقے میں کروائی، وہ پورے صوبے کے لیے مثالی ہے۔

سڑکوں کا جال، اسٹیڈیم، اسپتال کی ترقی اور دیگر معاملات حددرجہ ایماندارانہ طریقے سے انجام دیے۔وہ چند سیاستدانوں میں سے ہے۔جنکی ایمانداری ضرب المثل ہے۔ جب میں واپس آرہا تھا تو فضا میں اپنے دادا، والد اور چچا کی اَن دیکھی تصویر ڈھونڈ رہا تھا۔ اس مٹی میں میرے عزیز ترین رشتے مٹی اوڑھے سورہے ہیں۔اس مٹی سے کم ازکم میں تو ناتا نہیں توڑ سکتا۔ شایدعمرگزرنے کے ساتھ ساتھ مٹی بے حد اہم ہوجاتی ہے!

The post مٹی appeared first on ایکسپریس اردو.

گلاں کرنیاں سوکھیاں تے قول نبھانے اوکھ

$
0
0

جناب عمران خان وزیر اعظم منتخب ہونے سے قبل اپنے اعلانات اور بیانات کے سبب عوامی توقعات بہت بلند سطح پر لے گئے تھے ۔ مبالغے کی حد تک بلند ۔ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالتے ہی انھیں اور اُن کے ساتھیوں کو ادراک و احساس ہُوا کہ ملک کی حقیقی اقتصادی صورتحال کی موجودگی میں وہ اُن عوامی توقعات کو پورا نہیں کر سکتے جو اُن کے اپنے اعلانات کی اساس پر پیدا ہو گئے تھے ۔

یہ ادراک و احساس اگر حکومت سنبھالنے سے قبل پیدا ہوتا تو زیادہ مناسب ہوتا ۔ اِسے غفلت بھی کہا جا سکتا ہے، عدم واقفیت بھی اور لاعلمی بھی۔ وطنِ عزیز میں فوری طور پر جو شدید مالی و معاشی بحران پیدا ہُوا ، اِس نے خان صاحب کے اوسان تو خطا نہیں کیے لیکن انھیں ہیجانی و پریشانی کی کیفیت میں ضرور مبتلا کیا ۔ عوامی اور دانشوروں کی سطح پر بھی مایوسی نے پنجے گاڑ دیے۔کچھ عالمی میڈیا نے بھی مایوسی اور پژمردگی پھیلانے میںیورشیں اور یلغاریں کی ہیں ۔

مثال کے طور پر برطانیہ سے شایع ہونے والے ’’دی اکانو مسٹ‘‘ کی تازہ ترین رپورٹ۔ سراسر منفی اور لایعنی رپورٹ۔ وزارتِ اطلاعات نے درست اقدام کیا ہے کہ اس رپورٹ کے جملہ مندرجات کو فی الفور مسترد کر دیا ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ مذکورہ برطانوی جریدہ وقیع اور معتبر کہلاتا ہے لیکن اتنا بھی با اعتبار نہیں ۔یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ وطنِ عزیز میں وزیر اعظم عمران خان کو بوجوہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کی طرف سے وہ محبت اور تعاون نہیں مل رہا جس کی نئے حکمران توقع کررہے تھے ۔ شیخ رشید احمد اور اسد عمر نے اس کا برملا اظہار بھی کیا ہے۔ اقتدار سنبھالنے سے قبل پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ تو میڈیا کی آنکھ کا تارہ اور ڈارلنگ تھے ۔ یہ حالات کیوں اور کیونکر پیدا ہُوئے ہیں ، حکومت کو یقینا اس کا علم ہے ۔ یہ علیحدہ امر ہے کہ وہ تجاہلِ عارفانہ کا مظاہرہ کرے ۔

ملک کی اقتصادی صورتحال، اپوزیشن کے مسلسل حملے اور میڈیا کے عدم تعاون نے جو فضا پیدا کی، عمران خان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید ڈھیری ڈھا کر بیٹھ جاتا ۔ انھوں نے مگر ہمت نہیں ہاری۔ سعودی عرب،چین، ملائشیا، ترکی، قطر اور متحدہ عرب امارات کے طوفانی اور ہنگامی دَورے کیے ہیں۔ اس کے مثبت اثرات بھی سامنے آرہے ہیں ۔کہیں سے تیز تر اور کہیں سے رفتہ رفتہ ۔ دو مسلمان برادر ممالک نے تو فوری طور پر خاناحب اور پاکستان کی نقد دستگیری فرمائی ہے ۔ اگرچہ اس مالی اعانت پر بھی پوری پاکستانی قوم کو سُود ادا کرنا پڑے گا لیکن اس کے باوصف ہم سب ان مسلمان حکمرانوں کے شکر گزار ہیں ۔ دوست آں باشد کہ گیرد دستِ دوست۔ خزانے کا بیٹھا ہُوا سینہ کچھ اوپر اُٹھا ہے ۔

نئی مالی اعانتوں کے اثرات ابھی عوام تک منتقل تو نہیں ہُوئے ہیں لیکن خان صاحب کو نیا اعتماد ضرور ملا ہے ۔اس کا کچھ اظہار حالیہ مِنی بجٹ میں بھی ہُوا ہے ۔ عالمی سطح پر بھی عمران خان کو مثبت توجہ ملی ہے ۔ مثلًا امریکی جریدے’’ فارن پالیسی‘‘ کے تازہ شمارے (22جنوری)کے ٹائٹل پراُنکی تصویر اور نام۔ مذکورہ میگزین نے ’’گلوبل تھنکرز لسٹ 2019ء‘‘ کے زیر عنوان عالمی سیاسی، مذہبی، معاشی، سماجی مفکرین کی فہرست شایع کر دی ہے ۔ اس میں وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان کے نام کے بھی چرچے ہو رہے ہیں ۔

جریدے کے سرورق پر خان صاحب کی فوٹو بِل گیٹس اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ چھپی ہے۔ ’’فارن پالیسی‘‘ میگزین پچھلے ایک عشرے سے ایسی فہرست شایع کرتا آرہا ہے جو کسی بھی شخصیت کو دُنیا بھرکی توجہ اپنی طرف منعطف کرنے کا باعث بنتی ہے ۔ اس فہرست میں عمران خان کے نام آنے سے پاکستانیوں کے معاشی دکھ تو ختم نہیں ہوں گے لیکن پاکستانی عوام کو یک گونہ مسرت ضرور ہُوئی ہے ۔ بی بی سی نے اس پر تبصرہ کرتے ہُوئے بجا ہی لکھا ہے :’’پاکستان کے لیے فارن پالیسی کی یہ فہرست اس  لیے بھی اہم ہے کیونکہ اس سال اس میں پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان بھی شامل ہیں ۔‘‘فارن پالیسی میگزین نے جناب عمران خان کے بارے میں جو الفاظ رقم کیے ہیں ۔ وہ بھی قابلِ توجہ ہیں:A former cricket star , finaly got the job he had long coveted – Prime Minister….His reward was an incredibly difficult to do – list , starting with Pakistan,s looming fiscal and debt crises .  ابتدا میں عمران خان کو جن اقتصادی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا ، یہ بحران آہستہ آہستہ کم ہو رہے ہیں ۔

ساتھ ہی خان صاحب کو یہ بھی احساس ہو رہا ہوگا کہ ساحل پرکھڑے ہو کر طوفانی لہروں سے نبرد آزما کشتی بان پر تنقید کرنا تو آسان ہے لیکن خود آبی موجوں سے لڑنا کارِ دیگر و دشوار است ۔ پنجابی شاعری کے شیکسپئر، وارث شاہ، نے(رانجھے کی زبانی ہیر سیال سے مخاطب کرتے ہُوئے)سچ ہی تو کہا تھا : گلّاں کرنیاں سوکھیاں تے قول نبھانے اوکھ یعنی باتیں کرنا تو آسان ہوتا ہے لیکن اپنے قول اور کیے گئے وعدے نبھانے مشکل۔ نواز شریف پر کڑی تنقیدیں کرنا تو نہائت آسان تھا لیکن اب خان صاحب کو خود بھی حکمران بن کر حالات کی سختیوں اور سنگینیوں کا یقینی احساس ہو رہا ہوگا۔عمران خان صاحب کو آج ویسے ہی حالات اور تنقیدات کا سامنا ہے جیسے حالات پر خان صاحب اپنے سیاسی حریف، نواز شریف ، کو ہدفِ تنقید بنایا کرتے تھے ۔

وہ نواز شریف کو امریکی صدر ( بارک اوباما) سے ملاقات کے دوران پرچی کے ذریعے بات چیت کرتے ہُوئے طنز و تعریض کرتے تھے لیکن پچھلے ہفتے جب وہ قطرکے حاکم،شیخ تمیم بن حماد الثانی، سے ملاقات کرنے اُن کے محل (دیوانِ امیری) پہنچے تو ویسی ہی پرچی ہمارے وزیر اعظم صاحب کے ہاتھ میں بھی تھی ۔ ماڈل ٹاؤن کے خونی سانحہ کی اساس پرعمران خان شدت سے نواز شریف اور شہباز شریف پر یلغار کرتے رہے ہیں اور اب ویسا ہی حادثہ پنجاب کے علاقے ساہیوال میں ہُوا ہے تو قومی اسمبلی کے فلور پر شہباز شریف اُن سے ویسے ہی مطالبے کرتے سنائی دے رہے ہیں جیسے مطالبات وہ شریف برادران سے کیا کرتے تھے۔

نواز شریف بطورِ وزیر اعظم بھارت سے دوستی چاہتے تھے تو عمران خان اور پی ٹی آئی اُن پر پِل پڑتے تھے اور آج عمران خان بھی بھارت سے دوستی کی خاطر ویسے ہی اقدامات کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کبھی اپنی حلف برداری کی تقریب میں بھارتیوں کو مدعو کرتے ہیں اور کبھی بھارت سے دوستی کے لیے کرتار پور کوریڈور کھولتے دیکھے جا رہے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے اسلام آباد کی ایک ہائی پروفائل تقریب میں بھی بھارتی جج مدعو تھے ۔ یہ مناسب اور مستحسن مظاہر ہیں۔ بھارت ایسے بڑے اور طاقتور ہمسائے کو نظر انداز کرنا اور اُس سے دُوری رکھنا اچھا عمل نہیں کہا جا سکتا ۔

سوال مگر یہ ہے کہ جب نواز شریف اس دُوری کو قربت اور نزدیکی میں بدلنے کے لیے کوشاں تھے تو خان صاحب اور اُن کے سنگی ساتھی کیوںانھیں ہدفِ طعن بناتے تھے؟ اب منظر کھلا ہے تو خان صاحب اور اُن کے ساتھیوں کو بھارتی ہمسائیگی کی اہمیت کا احساس بھی ہونے لگا ہے ۔ یہ احساس پہلے ہوجاتا تو پاکستانی عوام کا وقت اور پیسہ، دونوں بچ سکتے تھے۔ اب خان صاحب یہ اقدامات کررہے ہیں تو اُن کے نام اور کام کی وقعت اور اہمیت میں اضافہ ہورہا ہے ۔ مثلاً:وطنِ عزیز میں رائے عامہ کا جائزہ لینے والے معروف ادارے ’’ گیلپ اینڈ گیلانی‘‘ نے 26جنوری 2019ء کے تازہ ترین جائزے میں کہا ہے کہ پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی (51فیصد) وزیر اعظم عمران خان سے خوش ہے۔ اِس خوشی میں شاید ہم بھی شامل ہیں۔ ہماری طرف سے خان صاحب کو مبارکباد ۔

The post گلاں کرنیاں سوکھیاں تے قول نبھانے اوکھ appeared first on ایکسپریس اردو.

آبی وسائل کا استعمال اور غلط منصوبہ بندی

$
0
0

ورلڈ بینک کی نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اپنے وسیع آبی وسائل کے باوجود بہت تھوڑا اقتصادی فائدہ حاصل کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اگر ماحولیاتی آلودگی کا جائزہ لیا جائے تو خسارہ اور زیادہ گراں بار ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں پانی کی صورتحال پر ورلڈ بینک کی رپورٹ کا عنوان ہے پاکستان پانی سے کیا حاصل کررہا ہے اور پانی کو پیداواری طور پر کس طرح زیادہ بہتر طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پانی کا سب سے زیادہ استعمال آبپاشی کے لیے کیا جاتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں سالانہ جی ڈی پی کے لیے صرف 22 ملین ڈالر کی یافت ہوتی ہے۔

پاکستان کی چار بڑی فصلوں میں کپاس، گندم، گنا اور چاول شامل ہیں جوکہ پانی کی مجموعی مقدار میں سے 80 فیصد استعمال کرلیتی ہیں حالانکہ وہ مجموعی جی ڈی پی میں صرف 5 فیصد حاصل کرتی ہیں۔ اسی وجہ سے پانی کا بڑا حصہ دیہی آبادی کے لیے مختص کردیا جاتا ہے جب کہ صنعتی مقاصد اور شہری آبادیوں کے استعمال کے لیے پانی  انھیں نہیں دیا جاتا اور پانی کا بڑا حصہ زراعت کے لیے مختص کرنے کو معمول کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پانی کا بڑا حصہ ڈیمز نہ ہونے کے باعث ضایع کردیا جاتا ہے۔

اہم پیداواری مقاصد کے لیے پانی کی جو مقدار مختص کی جاتی ہے اتنی بڑی مقدار کی زراعت کے لیے ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ جب تک ہمارے پیش نظر ’’ڈیمز‘‘ کی تعمیر انتہائی اہمیت کے درجے پر رہے گی کاشتکاری کے لیے سیلابی انداز سے پانی کا ضیاع جاری رہے گا۔ پانی کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ پانی کو زیادہ سوچ سمجھ کر اور اقتصادی اعتبار سے استعمال کیا جائے یعنی یہ دیکھ کر کہ کتنے استعمال میں کتنا فائدہ حاصل ہوا ہے۔ اس اعتبار سے پانی استعمال کیا جائے نہ کہ کھیتوں کی آبپاشی میں سیلابی کیفیت پیدا کر دی جائے۔ جہاں تک پانی کی کفایت کا تعلق ہے تو اس امر کو سرے سے ملحوظ ہی نہیں رکھا جاتا جو پانی کے کثیر مقدار میں ضیاع کا باعث ہے۔ 2000ء میں پانی کے استعمال کے لیے ٹیلی میٹرک سسٹم نافذ کیا گیا تھا مگر اس کی طرف پوری توجہ نہیں دی جا رہی جو کہ خسارے کا باعث ہے۔

The post آبی وسائل کا استعمال اور غلط منصوبہ بندی appeared first on ایکسپریس اردو.

سید عبداللہ شاہ مرحوم

$
0
0

ایک ایسا انسان جو صبح سویرے اذان کے وقت اٹھ کر پہلے نماز پڑھتا، پھر قرآن پاک کی تلاوت کے بعد ناشتہ کرکے اپنے کام میں لگ جاتا، وزیر اعلیٰ کی حیثیت میں۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے بتاتے تھے کہ ہم یہ نہیں جانتے کہ شاہ صاحب کس وقت آرام کرتے ہیں۔ یہ ان کا معمول تھا کہ رات دیر تک فائلیں دیکھتے رہتے پھر سوجاتے۔ فجرکی نماز پڑھنے کے بعد بہت ہی مختصر وقت آرام کرکے تیار ہوجاتے اور میٹنگزکا ایک تانتا بندھا رہتا اور وہ ہر مسئلے کو خود دیکھتے اور سوالات اور جوابات سے مطمئن ہوکر خود فیصلہ کرتے۔ عام لوگوں سے ملنے کا بھی ان کا وہ طریقہ تھا جو ان کے لیڈر بھٹو کا تھا اور وہ عوام کے گھروں تک پہنچ کر مسائل حل کرتے، یہ میں ذکر کررہا ہوں ، سندھ کے سابق وزیراعلیٰ سندھ سید عبداللہ شاہ مرحوم کا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت جب تک بھٹوکے زیر سایہ رہی،کھلی کچہریوں کا سلسلہ جاری رہا جس پرعمل وزیر اعلیٰ اور باقی وزرا بھی کرتے تھے، ایک تو عوام کے مسائل جلدی حل ہوجاتے تھے اور رشوت کو بھی پنپنے کا موقعہ نہیں ملتا تھا۔ اس ضمن میں سید عبداللہ شاہ نے کھلی کچہری کا سلسلہ بینظیرکے دور بھی جاری رکھا اور انھوں نے عوام کے لیے اپنے دروازہ کھلے رکھے مگر مجبوراً انھیں ملک چھوڑکر جانا پڑا، جس کی وجہ سے صوبہ سندھ ایک اچھے، قابل اور مخلص سیاسی شخصیت سے محروم ہوگیا ۔

انھوں نے اپنے سیاسی کیریئرکا آغاز 1961ء سے بلدیاتی انتخاب میں حصہ لے کرکیا اور جب ذوالفقارعلی بھٹو نے 1967ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد ڈالی تو وہ اس میں شامل ہوگئے اور 1970ء کے عام انتخابات میں ایم پی اے منتخب ہوگئے اور 1977ء والے الیکشن میں بھی وہ پی پی پی کی ٹکٹ پر دادو سے ہی ایم این اے منتخب ہوئے۔ پی پی پی کی حکومت ختم ہونے کے بعد سید عبداللہ شاہ نے بھی مارشل لا کے دور میں بڑی تکالیف برداشت کیں ، مگر پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا ۔انھوں نے 1985ء میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات میں حصہ لیا مگر انھیں کوڑل شاہ جو ان کا کلاس میٹ بھی تھا اور پڑوسی بھی اس کے ہاتھوں شکست ہوئی۔

یہ الیکشن تھا ہی ایسا کہ جس میں پی پی پی کے لوگوں کو جان بوجھ کر ہرایا گیا۔جب 1988ء کے انتخابات جماعتی بنیاد پر ہوئے تو عبداللہ شاہ نے اپنی شکست کا بدلہ لے لیا اور وہ ایم پی اے منتخب ہوگئے۔ بھاری اکثریت سے وہ سندھ اسمبلی کے اسپیکر بن گئے۔اس کے بعد 1990ء کے عام انتخابات کے بعد انھیں سینیٹر بنایا گیا اور انھیں کئی کمیٹیوں کا چیئرمین بنایا گیا۔ جیساکہ پارٹی نے محسوس کیا کہ سید عبد اللہ شاہ کی سب سے زیادہ ضرورت سندھ میں ہے، اس لیے انھیں ایم پی اے کی سیٹ دے دی گئی اور یہ زمانہ تھا 1993ء کا۔ بینظیر بھٹو نے انھیں صوبہ سندھ کا وزیر اعلیٰ بنا دیا۔ اس وقت صوبے کی مالی پوزیشن کچھ اچھی نہیں تھی مگر دن رات محنت کرکے صوبے کو اس صورتحال سے باہر نکال لائے۔

یہ منصب سنبھالنے کے بعد انھوں نے سندھ کی ترقی اور نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے پر زیادہ توجہ دی اور لوگ ان کے کام سے مطمئن ہوئے جس کی وجہ سے پارٹی کے اندر ان کی پوزیشن مزید مستحکم ہوئی۔ جامشورو سے سیہون جاتے ہوئے سفر میں بڑی دشواری سامنا کرنا پڑتا تھا، جسے حل کرنے کے لیے انھوں نے ایک بہترین سڑک بنوائی، اس کے علاوہ دریائے سندھ پر جامشورو اورکوٹری کو اور حیدرآباد کو ملانے کے لیے ایک پل بنوایا جس سے کراچی سے آنے اور جانے والے مسافروں کو سہولت میسر آگئی۔

شاہ صاحب اپنے سیاسی کیریئر کے دوران ڈپٹی اسپیکر اور وزیر بھی رہ چکے ہیں اورانھیں وزیر خوراک کا قلمدان دیا گیا تھا۔ وہ 1993ء سے 1996ء تک وزیر اعلیٰ کے منصب پر کام کرتے رہے۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران شاہ صاحب نے بہت کام کیا اور لوگوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا جس کی وجہ سے ضلع دادو کو ’’ ویتنام‘‘ کا خطاب ملا۔ انھوں نے ضلع دادوکی بنجر زمین کو سرسبز بنانے کے لیے ایک آبپاشی کا منصوبہ مکمل کیا اور علاقے میں خوشحالی لائے۔

دنیا کی بہترین جھیل منچھرکو اور وہاں پر رہنے والے لوگوں کے لیے کئی اسکیمیں شروع کیں جس میں وہاں پر رہنے والے مچھیروں کو رہنے کے لیے گھر، اسکول، صحت کے مرکزکی سہولیات ملیں۔ سندھ کے اندرونی علاقوں میں رہنے والوں کے لیے کراچی میں روزگارکے مواقعے پیدا کیے اور بھٹائی آباد، سچل اور شانتی نگر جیسے علاقے آباد کرنے میں ان کی کوششیں شامل ہیں۔کراچی میں عرصے سے کوشش ہو رہی تھی کہ اخبار مارکیٹ بنائی جائے اور اس خواب کو پورا کرنے میں عبداللہ شاہ کا ہاتھ ہے۔ انھوں نے بڈوجیل پر لوگوں کو صحت، تعلیم، پینے کا پانی اور امن قائم کرنے اور ڈاکوؤں کو بھگانے کے لیے منصوبے شروع کیے جو ان کے جانے کے بعد ابھی تک نامکمل پڑے ہیں جس پر اربوں روپے خرچ ہوئے، اب ان کے بیٹے سید مراد علی شاہ کو چاہیے کہ اسے پورا کریں جیسا وہ جامشورو اور سیہون روڈ کو ڈبل کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ عبداللہ شاہ چاہتے تھے کہ گورکھ ہل اسٹیشن اور رنی کوٹ کو بین الاقوامی معیار پر لائیں مگر زندگی نے ساتھ نہیں دیا اور سیاسی حالات ان کے خلاف چلے گئے مگر اب قدرت نے ان کے بیٹے کو یہ سارے کام پورے کرنے کا موقع فراہم کیا ہے، انھیں یہ نامکمل منصوبے جنگی بنیادوں پر دوبارہ شروع کرنے چاہئیں۔ شاہ صاحب نے چاہا تھا کہ پوری دنیا سے آنے والے قلندر شہباز پر حاضری دینے میں سفری سہولتیں پاسکیں جس کے لیے انھوں نے ایک جدید طرز پر سہولتوں سے آراستہ ایک ایئرپورٹ قائم کروایا تاکہ نہ صرف ایک مالی فائدہ ہو بلکہ آنے والے زائرین کو آنے اور جانے کی سہولت مل سکے، مگر یہ بڑا منصوبہ پتہ نہیں کیوں کامیاب نہیں ہوا جسے دوبارہ شروع کیا جانا چاہیے۔

شاہ صاحب بڑے سادہ، ملنسار اوراپنے کلچر سے پیارکرنے والے انسان تھے، جنھیں اوطاق میں بیٹھ کر سندھی کلام اور موسیقی چنگ، بانسری اور مٹکے پر دھنیں سننے کا بڑا شوق تھا۔اوطاق میں کچہری کے دوران شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری سکھڑوں کی زبان سے سن کر مزہ آتا تھا۔ سندھ کے فنکاروں کی بڑی قدرکرتے تھے اور ان کی کسمپرسی والی حالت میں مالی اور اخلاقی مدد بھی کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جب وہ چائنا گئے اور وہاں پر سندھی موسیقی سنی تو بہت خوش ہوئے جس کے لیے انھیں بتایا گیا کہ یہ موسیقی چائنا میں سندھ سے آئی ہے جس پر انھوں نے ان فنکاروں کو سندھ آنے کی دعوت دی۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے پرانے دوستوں کو نہ بھولتے اور انھیں ملاقات کے لیے سی ایم ہاؤس بھی بلواتے تھے۔

شاہ صاحب کی انگریزی بڑی زبردست تھی، وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ جب اپنے شہر یا گاؤں جاتے تو غریب لوگوں سے ضرور ملتے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر چاول کی روٹی، لسی اور ساگ پلی ضرور کھاتے۔ وہ چارپائی پر بیٹھ کر اچھا محسوس کرتے تھے۔ انھیں غریبوں پر رحم کھانا پسند تھا اور وہ کامیڈی کرنے والے فنکاروں سے ملاقاتیں کرتے اپنی طبیعت کو مزاح میں ڈھال کر بڑے خوش ہوتے تھے۔ وہ نہ صرف بہادر تھے بلکہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں کرتے اور اس میں وہ بڑی محنت اور ذہن سے کام لیتے تھے۔ شاہ صاحب نے پی پی کے لیے بڑی مشکلات سے مقابلہ کیا۔ سید مراد علی شاہ کے والد عبداللہ شاہ کا جنم 1925ء ضلع دادوکے گاؤں وہاڑ میں ہوا، انھوں نے پرائمری تعلیم اپنے گاؤں سے اور میٹرک پر ماندھر داس پائلٹ اسکول دادو سے پاس کیا، ایل ایل بی، ایس ایم لا کالج کراچی سے پاس کرکے لا کی پریکٹس شروع کر دی۔ وہ 1997ء سے 2007ء تک Exile میں رہے اورکینسر کے مرض کی وجہ سے وہ 4 اپریل 2007ء کو انتقال کرگئے۔ ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔

The post سید عبداللہ شاہ مرحوم appeared first on ایکسپریس اردو.

نیو برانڈ ورلڈ

$
0
0

مجھے بچپن ہی سے سائن بورڈ پڑھنے کا شوق تھا، میں جہاں بھی جاتا سڑکوں کے کنارے اور عمارتوں پر لگے سائن بورڈ مجھے بیحد پرکشش دکھائی دیتے۔کراچی شہر میں گولیمار بس اسٹاپ کے قریب ایک بڑا سا الیکٹرک سائن بورڈ لگا ہوا تھا جو رات کے وقت روشن ہوکر عجیب جادوئی منظر پیش کرتا تھا۔ اس منظر میں ایک ہاتھ سے سکہ گرتے ہوئے نظر آتا تھا جو نیچے ایک تھیلی میں جا کرگرتا تھا، میں حیرت سے اسکو دیکھتا اور سوچتا تھا کہ بار بار ایک سکہ اس تھیلی میں گر رہا ہے، یہ اتنے سارے سکے کہاں جاتے ہونگے؟ یہ سوال میری چھوٹی سی عقل میں گھومتا رہتا تھا پھر جب بڑے ہوگئے تو اس کا راز بھی جانا لیکن بڑے ہونے کے بعد ایک سوال پھر کسی اور طریقے سے ان سائن بورڈ کو دیکھ کر ذہن میں آیا۔ اب سوال یہ تھا کہ یہ سائن بورڈ جن کو اب بل بورڈ بھی کہا جانے لگا ہے۔

ان پر اتنا خرچہ کیوں کیا جاتا ہے؟ شہر میں بجلی کی کمی ہو، لوڈ شیڈنگ زندگی عذاب بنا دے مگر پھر بھی رات کو یہ بل بورڈ خوب چمکتے دکھائی دیتے ہیں اور بعض توکسی ایل ای ڈی ٹی وی کی طرح اشتہار بھی پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ کون ان پر اس قدر پیسہ خرچ کرتا ہے اورکیوں؟ اس کا جواب راقم کو چند روزقبل ملا جب Naomi Klein, کا ایک مضمون No Logo: Taking Aim at  the Brand Bullies, پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔

مصنف نے اس میں لکھا کہ آج کی انتہائی مشہور مصنوعات بنانیوالی کمپنیاں مصنوعات تیار نہیںکر رہی بلکہ اس کی تشہیر میں مصروف عمل ہیں یعنی بجائے مصنوعات کے برانڈ پرکام کیا جا رہا ہے، یہ کمپنیاں مکمل طور پر مختلف طریقے کار استعمال کرکے اور چیزوں کو نئے نئے طریقوں کے ذریعے تشہیرکرکے اپنے مال کے نام برانڈ کوبہتربنانے میں لگی ہوئی ہیں ۔ ایک اور اہم بات جو بڑی اہم ہے مگر لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس جانب دھیان نہیں رکھتی۔ اس کا کہنا ہے کہ بحیثیت عام آدمی میں نے اب تک اشتہاری بورڈز میں لوگوں کے لیے کوئی بہتری نہیں دیکھی۔ ہر منظرہی خوش کرتا ہے،آدمی جب کسی بل بورڈ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے، اپنے آپ کوحقیرسمجھتا ہے۔ یہ جملہ پڑھ کر میں شدید حیرت میں مبتلا تھا کیونکہ میرے ایک ساتھی نے ایک روز چائے پیتے ہوئے اپنی پریشانی کاذکرکیا کہ وہ جب بھی اپنی بیگم کو کہیں لے کر جاتا ہے،ان کی بیگم کسی نہ کسی اشتہاری بورڈ کو دیکھ کرکہتی ہیں، ’’سنیے فلاں برانڈ کے کپڑوں پر 50فیصد سیل لگی ہے۔

کل آفس سے جلدی آجائیں، چل کے دیکھتے ہیں، سنیے یہاں بغیر ایڈوانس کے ایل ای ڈی قسطوں پر مل رہی ہے ،کیا خیال ہے قسطوں پر نہ لے لیں؟‘ مصنف کا مضمون پڑھ کر اب زیادہ اندازہ ہو رہا تھا کہ واقعی یہ برانڈ اور ان کے یہ بل بورڈ ہماری زندگیوں کو کس قدر مشکل اور مصیبت سے دو چارکردیتے ہیں، ہمیں احساس کمتری کا شکارکردیتے ہیں اور ہم اپنے آپکو بڑا بنانے کے لیے دوڑ تے رہتے ہیں جب کہ ملٹی نیشل کارپوریشن ہماری اس انسانی کمزوری سے فائدہ اٹھا تے رہتے ہیں ۔Naomi Klein اپنے مضمون میں لکھتا ہے کہ ملٹی نیشنل کار پوریشن کی دن دگنی رات چوگنی ترقی اور اس کے نتیجے میں معاشرے پر ان کے اثرات پچھلے پندرہ برسوں سے بہت زیادہ ہوئے ہیں جب سے انھوں نے یہ نظریہ اپنایا ہے کہ کارپوریشن سب سے پہلے برانڈ بناتی ہے۔

80ء کی دہائی میں جو کساد بازاری آئی اور دنیا کے بہت زیادہ طاقتور مصنوعات بنانے والے بھی ناکامی کا شکار ہوئے تو ایک سوچ یہ بھی ابھری کہ کاروبار کرنے کا یہ اندازجس میں تنہا کاروبارکرنا، ہزاروں ملازمین مستقل نوکریوں پر رکھنا ، مصنوعات بنانے والے کے لیے ایسا سفر شروع کرتا ہے جو منافعے کے بجائے سوائے ذمے داریوں کے اورکچھ نہیں چنانچہ پھر انفرادی کاروبارکے بجائے کارپوریٹ سطح کا کاروباری انداز اختیارکیا جانے لگا اور یہ رحجان بھی بعد میں سامنے آیا کہ ایسی کمپنیاں بنائی جائیں جن میں کام کرنیوالے ملازمین کم ہوں اور انتہائی طاقتور برانڈ ہو جوکہ باقی مصنوعات کے مقابلے میں بہتر دکھائی دے چنانچہ اب یہ تصور حقیقت بن چکا ہے کہ اشتہار میں خرچہ کرنا سیل کی کامیاب حکمت عملی سے کہیں زیادہ کامیاب ہے۔

جتنا زیادہ خرچہ کرینگے اتنا ہی کمپنی کی اہمیت میں اضافہ ہوگا۔ مصنف کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیںکہ اس کے بعد اشتہارات کی دنیامیں کافی زیادہ پیسے کا اضافہ نظرآرہا ہے۔یوں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ برانڈ اور اشتہارات نے عوام کی زندگیوں پر وہ اثرات مرتب کردیے ہیں کہ لوگ اب بے چین رہتے ہیں کہ وہ فلاں فلاں برانڈ کی اشیاء حاصل کریں تاکہ ان کا معیار زندگی بھی بلند لگے۔ لوگوں میں یہ بے چینی بلاسبب نہیں ہے یہ اس ماحول کے سبب ہے کہ جس میں مارکیٹنگ کی حکمت عملیاں، برانڈڈ اشیاء اور ان کے اشتہارات لوگوں کا دن رات پیچھا کر رہے ہوتے ہیں مثلاً آج لوگوں کے ذہنوں میں کسی سپر مارکیٹ سے خریداری کرنا بھی ایک بڑے وقارکا کام محسوس ہوتا ہے چنانچہ وہ کوشش کرتے ہیں کہ جوبھی خریداری کرنی ہو وہ یہاں سے کریں۔

جب وہ ان بڑے بڑے سپر اسٹور یا مارکیٹ میں داخل ہوتے ہیں تو پہلی نظر ان کی بڑے بڑے برانڈ پر پڑتی ہے۔ خوبصورت ماحول اور اشتہارات کی چکا چوند ان کو متاثرکرتی ہے۔ اب یہاں ان کی انسانی نفسیات سے پورا پورا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ آنیوالے لوگوں کو فوراً ہی باسکٹ کی سہولت فراہم کردی جاتی ہے جس میں گود کے بچے کو بیٹھانے کی سہولت بھی ہوتی ہے، مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپکو سہولت ملے اور آپ زیادہ سے زیادہ خریداری کریں یعنی بڑی باسکٹ میں صرف ایک دو آئٹم ڈالیں گے تو شرم آئیگی آپ خود سے ہی کوشش کرینگے کہ دو چار زائد ہی اشیاء خرید لی جائیں، اسی طرح ان اسٹورز میں بچوں کی اشیاء مثلاً بسکٹ ، چاکلیٹ وغیرہ نیچے کے حصوں میں رکھی جاتی ہیں تاکہ بچوںکے ہاتھ آسانی سے پہنچ جائیں اور وہ بڑوں کی اجازت سے پہلے خود ہی اپنے ہاتھوںسے زیادہ سے زیادہ چیزیں اٹھا کر باسکٹ میں ڈال لیں اور بڑے منع کرتے ہوئے شرمائیں۔

ضرورت کی لازمی اشیاء مثلاً پتی، چینی وغیرہ اندر کی طرف رکھی جاتی ہیں اور جو اشیاء لوگوں کی لازمی ضرورت نہ ہوں وہ سجا کر سامنے رکھی جاتی ہیں تاکہ جب تک آ پ اپنی ضرورت کی اشیاء لینے اندر پہنچیں، کئی غیر ضروری اشیاء خود بخود خرید لیں۔ اسی طرح تمام سپر اسٹورز میں اندر آنے کا راستہ الگ اورجانے کا دوسری جانب ہوتا ہے تاکہ جب لوگ اندر آجائیں تو باہر جاتے جاتے قریب قریب تمام ہی اشیاء ان کی نظروں کے آگے سے گزریں، اس طرح تو آنیوالا وہ اشیاء بھی خرید لے گا جس کو خریدنے کا ارادہ ہی نہیں ہوگا۔ اسی طرح ان اسٹورز میں کہیں بیٹھنے کے لیے کوئی کرسی وغیرہ نہیں ہوگی تاکہ آپ بیٹھ کر وہاں وقت نہ گزار سکیں، جتنا وقت بھی وہاں رہیں بس خریداری کرتے رہیں۔

ہاں کھانے کے لیے ریسٹورانٹ کی طرز پر سہولت ہوگی صرف وہاں آپ بیٹھ سکتے ہیں مگر اس کی بھی آپ قیمت ادا کر رہے ہونگے یعنی کھانا کھانے کی قیمت! گھڑی بھی ان بڑے اسٹورز میں نظر نہیں آتی تاکہ یہاں آنیوالا بے فکر ہوکر خریدار ی ہی کرتا رہے۔ کہنے کو یہ سب معمولی سے باتیں معلوم ہوں گی لیکن غورکریں تو ان کے اثرات ہماری نجی زندگیوں میں بھی مسائل کھڑا کر رہے ہیں۔ آیے ! ایک لمحے کو غور کریں۔

The post نیو برانڈ ورلڈ appeared first on ایکسپریس اردو.


مجبور عوام اور بیوروکریسی

$
0
0

ملک کی انتظامی مشینری کی باگ ڈور کے حامل وہ افراد ہیں جن کی ملازمتیں ہمیشہ ایسی رہیں جو جوائننگ سے پنشن تک اقتدار میں رہتے چلے آرہے ہیں اور بسا اوقات انھی افراد کو ریٹائرمنٹ کے بعد کانٹریکٹ پر بھی لیا جاتا رہا ہے جب کہ سیاسی لوگ ایک محدود مدت کے لیے آتے اور چلے جاتے ہیں۔

سول سروس اور سول سرونٹ یہ وہ الفاظ ہیں جو ہر خاص وعام کی زبان پر رہتے ہیں۔ حقیقت میں ان الفاظ کے اصل معنی نہ سمجھنے کی کوشش کی گئی اور نہ عوام کو سمجھانے کی۔ ان تمام کے لغوی معنی سروس یعنی خدمت، سرونٹ کے معنی خادم کے ہوتے ہیں۔ عوام کی خدمت کے لیے جو ادارے قائم کیے گئے ان کی افادیت کا عوام کو صحیح طور پر علم ہی نہیں کیونکہ عوامی خدمات کی ذمے داری جن سرکاری عہدیداروں کے سپرد کی جاتی رہی وہ خادم کے بجائے آقاؤں کا رول ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔ آگہی سے بے بہرہ عوام ان آقاؤں کے آگے پیچھے دوڑتے پھر رہے ہیں۔

اس کے لیے آپ ان متعلقہ مقامات کا نظارہ کرکے دیکھ لیجیے جہاں عام آدمی کا براہ راست رابطہ ان اداروں سے پڑتا ہے تو ان کے اعلیٰ افسران سے ملاقات بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں مثلاً پولیس اسٹیشن جہاں کسی مقدمے میں ایک عام آدمی ایف آئی آر درج نہیں کروا سکتا، عدالتوں کے فیصلوں میں طوالت، سرکاری اسپتال جہاں غریب آدمی علاج کا منتظر لیکن بڑے ڈاکٹر سے ملاقات ناپید، ریلوے اسٹیشن جہاں آسانی سے صرف قلی سے ملاقات ہوسکتی ہے کیونکہ ٹکٹ کی کھڑکیوں کے پیچھے کام کرنیوالے عوام کو سہولت دینے کے بجائے ٹکٹ بلیک کرنیوالوں کی معاونت کر رہے ہوتے ہیں اور اعلیٰ افسران کے بند کمروں میں رہنے کے سبب ان کی معاملات سے صرف نظر رہتی ہے۔

نادرا دفاتر میں اپنی شناخت کے لیے رات 2 بجے سے لگنے والی لمبی لمبی قطاریں اپنا احوال خود بتا رہی ہوتی ہیں، ڈومیسائل رجسٹری آفس، سوئی گیس و الیکٹرک، بجلی کا حصول کتنا ہے سب جانتے ہیں۔ پانی کی سپلائی صرف ٹینکر مافیا کے لیے اور عوام کی خدمت مہنگے ترین داموں میں واٹر بورڈ کے بجائے یہی مافیا کر رہی ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ عوام کو سہولت پہنچانے والے دیگر محکموں کی بھی کم و بیش ایسی ہی صورتحال ہے ملک کے اس نظام کو بگاڑنے میں کوئی ایک حکومت ذمے دار نہیں کیونکہ حکومتیں آتی رہیں اور جاتی رہیں لیکن اول تا آخر بے ہنگم نظام جوں کا توں۔کچھ نہیں 50/60 سال سے متواتر یہی منظرنامہ چل رہا ہے۔ اب کیونکہ تبدیلی کی بات ہو رہی ہے تو میرے خیال میں ارباب اختیارکی پہلی ذمے داری یہ بنتی ہے کہ اپنی نگرانی میں سپریم کورٹ کے ماضی میں کیے گئے فیصلے جس پر آج تک عمل نہ ہوسکا۔

اس کے مطابق سارے دفتری اموروقانون سازی اردو زبان میں کی جائے سو اب اس عمل کے ذریعے پورے عوام جن میں اعلیٰ اور ادنیٰ سرکاری عہدیداران بھی شامل ہیں انھیں آسان قومی زبان میں بات سمجھ میں آجانی چاہیے کہ حقدار اپنے حق کو سمجھ لے اور ذمے دار اپنے فرائض کی انجام دہی کو۔ نظام درست نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ 1973ء کے آئین کو بنے تقریباً 45 برس گزرچکے ہیں جب کہ ہمارے آئین اور تعزیرات پاکستان میں بھی اچھی چیزیں برطانوی عہد سے مستعار لی گئی تھیں لیکن اس طویل عرصے میں بہت ساری تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن میں اول تو یہ کہ برق رفتاری سے آبادی میں اضافہ ہوا لیکن اسی رفتار سے وسائل نہ بن سکے نہ بڑھ سکے۔ دوم حالات کے پیش نظر آئین میں ضرورت کے مطابق وہ ترمیمات نہیں لائی گئیں۔

جس سے ایک عام آدمی کو سہولتیں میسر آسکتیں اور یوں طلب اور رسد کا توازن بگڑتا چلا گیا۔ یہاں ایک اہم ترین نکتے کے پس منظر میں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس نے اس نظام کے ڈھانچے کو بالکل ہی ہلا کے رکھ دیا اور وہ یہ ہے کہ پاکستان بننے کی ایک سے ڈیڑھ دہائی کے بعد ہر نئی آنیوالی حکومت نے اپنی کرسی مضبوط کرنے کے لیے بیورو کریسی کو قوم پرستی کے تحت تشکیل دینا شروع کردیا یہی وہ غلطی تھی جس سے عوام کے خادم آقا بننا شروع ہوگئے کیونکہ انھیں حاکموں کی سرپرستی حاصل ہوگئی تھی۔

یاد رہے کہ (وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور انتہائی طاقتور بیورو کریسی کے خاندان کے افراد نے اپنے کسی نہ کسی گھر کے فرد کو بیوروکریٹ بنانے کی سعی آج تک جاری ہے) یہی نہیں بلکہ حاکم اور ان کی بیوروکریسی ایک دوسرے کے باہمی تعاون سے ایک طاقتور طبقہ بن گئے جب کہ حاکم کا اختیار اپنی آنی جانی کے سبب نسبتاً کبھی بلندی توکبھی نشیب کا شکار رہا۔وزیر کی وزارت سیکریٹری کے اختیار میں، قانون ساز پارلیمنٹیرین سیکریٹری سے نچلی سطح کے افسران کے بس میں۔ باقی رہے عوام تو کمزور طبقے کے طور پر آگے پیچھے دوڑتے رہے اور آج تک دوڑ رہے ہیں۔ انھی طبقاتی بنیاد کے سبب قوموں میں درجہ بندیاں پیدا ہونا شروع ہو گئیں کچھ ایسی بھی ہیں جسکے نتائج بہت واضح نظر آئے جیسے کہ: 1۔ایک پارٹی کے دور حکومت میں لاہور اور اس کے گردونواح میں بسنے والے تخت شاہی پر بیٹھے رہے اور اپنی حکومت کے جھنڈے گاڑے جب کہ جنوبی پنجاب جس میں چاہے سرائیکی پٹی والے ہوں یا دیگر اپنی ایڑیاں رگڑتے ہی نظر آرہے ہیں۔ 2۔ دوسری پارٹی کے دور حکومت میں حکمرانوں کو نہ صرف خود سب کچھ میسر رہا بلکہ اپنی بنائی ہوئی بیوروکریسی میں اوپر سے لے کر نچلی سطح تک تمام سرکاری دفاتر میں نہ صرف اپنوں سے آباد کیے جسکے نتیجے میں اسی صوبے میں بسنے والی دوسری قومیتوں کوکوٹہ سسٹم کے ذریعے دوسرے اور تیسرے درجے کا ایسا شہری بنا دیا۔

جن کے لیے ملازمتوں کے اشتہارات میں باقاعدہ طور پر تحریرکیا جاتا ہے کہ شہری ڈومیسائل رکھنے والے درخواست دینے کی زحمت نہ کریں اور یوں نہ صرف لوگوں کو بیروزگارکیا گیا بلکہ تعلیمی اور تدریسی درسگاہیں بھی حاکموں اور بیوروکریسی میں بیٹھے آقاؤں اور ان کے خاندانوں کے لیے وقف کردیں۔ یہی طبقاتی جنگ ہے جس نے وفاقی سوچ کو کمزور کیا اور میرٹ کو دھچکا پہنچایا۔ اس سے ملتی جلتی صورتحال دوسرے دو صوبوں میں بھی نظر آتی ہے کہ جب کے پی کے اور بلوچستان میں ہزارہ کے لوگوں کو نظراندازکیا گیا تو دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں۔ ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی جماعتیں اقتدار میں آکر محض نوکر شاہی کی تیار رپورٹس پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ کرنے کے بجائے خود اپنی جماعتوں میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹیاں بنائیں جو ملک میں کسی بڑے فیصلے کو کرنے سے پہلے غوروخوض کریں۔ محض وفاق کا چند مخصوص بیوروکریٹ کی محدود سوچ کے آگے ہتھیار ڈال دینا ملک کے کروڑوں عوام کے ساتھ زیادتی کے برابر ہوتا ہے۔ وفاق چاروں صوبوں بشمول کشمیر،گلگت بلتستان و دیگر سرحدی رقبے کا اجتماعی کسٹوڈین ہے لہٰذا ایسی صورت میں وفاقی کسٹوڈین کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ان علاقوں میں اپنی سرکاری رٹ صوبوں کی رضامندی کے ساتھ قائم رکھے جیسا کہ آئین میں بتایا گیا ہے۔

کسی بھی صوبے میں قائم سرکاری اثاثہ جات ریاست کی مشترکہ ملکیت ہوتے ہیں۔ محض سرکاری افسران کی رپورٹس پر فیصلے کرنے کے بجائے حکومتی ارباب و اختیار زمینی حقائق کا جائزہ لیں،کراچی جسے بین الاقوامی سطح پر پہچانا جاتا ہے ،اس شہر سے سرکاری کارپوریشنز، مالیاتی ادارے، مختلف اتھارٹیز و دیگر اداروں کو یہاں سے منتقل کرنا صوبے اور شہروں کے حقوق کو چھیننے کے مترادف ہو گا ایسے فیصلے قوم میں مایوسی پیدا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹی وی چینلز پر آتی ہوئی بریکنگ نیوزکی ہیڈلائنز میں کوئی مثبت خبر آ بھی جائے تو بے یقینی کا یہ عالم ہے کہ عوام ایک دوسرے کو خالی نظروں سے بے آسرا ہوکر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

The post مجبور عوام اور بیوروکریسی appeared first on ایکسپریس اردو.

نئے صوبے بنانے کا کوئی اصول ہونا چاہیے

$
0
0

صرف پنجاب کی تقسیم ایک غیر منصفانہ اقدام ہے۔یہ پنجاب دشمنی ہے۔ پاکستان میں اگر نئے صوبے بننے ہیں تو اس کا کوئی انصاف پر مبنی فارمولہ اور اصول ہونا چاہیے۔ صرف پنجاب کی سیاسی برتری کو توڑنے کے لیے پنجاب کی تقسیم کوئی دانشمندانہ بات نہیں ہے۔ دوسرے صوبوں کی قوم پرست جماعتیں اور ان کی قیادت پنجاب میں سیاسی حصہ نہ ملنے کی وجہ سے پنجاب کی تقسیم کی بات کرتی رہی ہیں۔ لیکن کیا پنجاب کی سیاسی قیادت نے دوسرے صوبوں سے سیاسی حصہ نہ ملنے کی وجہ سے ان صوبوں کی تقسیم کی بات کی ہے۔ میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ پنجاب کی تقسیم کا نعرہ لگانے والی سیاسی جماعتوں کے پاس پنجاب میں نا کامی کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی میں پنجاب کی تقسیم کا بل پیش کر دیا ہے۔ انھوں نے پنجاب کے دو نہیں تین حصے کرنے کا آئینی ترمیمی بل ایوان پیش کیا ہے۔ جب تقسیم ہو ہی رہی ہے تو دو حصہ ہوں یا تین کیا فرق پڑتا ہے۔ جب گھر کا بٹوارا ہو ہی گیا ہے۔ تو کتنے حصہ ہوئے ہیں کیا یہ اہم ہے۔ میری رائے میں تو پنجاب کی تقسیم کا نعرہ لگانے والی سیاسی جماعتوں کو اپنے مقاصد پنجاب کی تقسیم کے بعد بھی حاصل نہیں ہونگے۔ بلکہ وہ پہلے سے زیادہ پریشان ہونگے۔ تقسیم کے بعد وہ کہیں گے ہائے پنجاب کی تقسیم ہماری سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی۔

فاٹا کو تو الگ صوبہ نہیں بنایا گیا ۔ حالانکہ فاٹا کو کے پی میں ضم کرنے کے بجائے نیا صوبہ بنا کر ملک میں نئے صوبے بنانے کی بنیاد رکھی جا سکتی تھی۔ جنوبی پنجاب کے قیام یا پنجاب کی تقسیم کے لیے پنجاب میں کبھی کوئی باقاعدہ تحریک نہیں چلی ہے۔ یہ ہمیشہ سے ایک سیاسی نعرہ رہا ہے جس کو پنجاب کے بجائے پنجاب کے باہر سے پنجاب مخالفت میں حمایت ملی ہے۔ لیکن کے پی میں ہزارہ صوبے کے قیام کے لیے تو باقاعدہ تحریک چلتی رہی ہے۔ لوگوں نے کے پی کی تقسیم اور ہزارہ صوبے کے قیام کے لیے جانوں کی قربانی دی ہے۔

لیکن کوئی آج ہزارہ صوبہ کے قیام کی بات نہیں کر رہا۔ کیونکہ ملک میں کے پی مخالفت کا کوئی ماحول نہیں۔ پنجاب کی سیاسی قیادت کو دوسرے صوبوں کی مخالفت کی عادت نہیں ہے۔ اسی طرح پنجاب سے زیادہ سندھ کی تقسیم ناگزیر ہے۔ آج اندرون سندھ اور سندھ کے شہری علاقوں کی تقسیم نے ملک کے لیے معاشی مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ کراچی کی محرومیاں جنوبی پنجاب سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ جنوبی پنجاب کی فرضی محرومیوں نے تو پاکستان کے لیے کوئی مسائل نہیں پیدا کیے ہیں لیکن کراچی کی حقیقی محرومیوں نے پاکستان کی معیشت کے لیے شدید مسائل پیدا کیے ہیں۔

کراچی کی محرومیوں کی وجہ سے پاکستان کا نقصان ہو رہا ہے۔ کراچی پاکستان کا دروازہ ہے۔ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے۔ پاکستان کی معیشت چلتی کراچی سے ہے۔ آج کراچی اور حیدر آباد پر مشتمل الگ صوبہ بنا دیا جائے تو یہ پاکستان کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ہوگا۔ لیکن سیاسی مفاد سے بالائے طاق آپ جونہی سندھ کی تقسیم کی بات کریں۔ سندھ کی دیہی قیادت رونا شروع کر دیتی ہے۔ سندھ کی تقسیم کو ماں کی تقسیم کہنا شروع کر دیا جاتا ہے۔

بھائی کوئی اس سندھی قیادت سے جان کی امان حاصل کر کے سوال کر سکتا ہے کہ سندھ کی تقسیم ما ں کی تقسیم ہے تو پنجاب کی تقسیم کیا ہے۔ اگر پاکستان میں نئے صوبے ملکی مفاد کو سامنے رکھ کر بنائے جانے ہیں تو سب سے پہلے سندھ کی تقسیم ناگزیر ہے۔ کراچی کو الگ صو بہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اندرون سندھ کی قیادت سندھ پر حکومت کرنے کی اہل نہیں ہے۔ آج کراچی کا چپہ چپہ الگ صوبہ مانگ رہا ہے۔ کراچی کو الگ صوبہ بنانے سے نہ صرف وہاں کی محرومیاں ختم ہونگی۔ کراچی کا پیسہ کراچی میں لگ سکے گا بلکہ پاکستان بھی ترقی کرے گا۔ پنجاب کی تقسیم کے لیے سب سے بڑی دلیل یہی دی جاتی ہے کہ پنجاب اتنا بڑا ہے۔ جنوبی پنجاب کے دو ر دراز کے اضلاع سے لوگوں کو اپنے کام کے لیے لاہور آنا پڑتا ہے۔ لیکن بلوچستان کی تقسیم کے لیے اس دلیل کو نہیں مانا جاتا۔ کیا بلوچستان اتنا بڑا نہیں ہے؟

کوئٹہ سے بیٹھ کر اس پر حکومت عملی طور پر نا ممکن ہے۔ ڈیرہ غازی خان اور لاہور کا فاصلہ تو سب کو بتایا جاتا ہے۔ لیکن کوئی تربت اور کوئٹہ کا فاصلہ کسی کو بتانے کو تیار نہیں۔ آج گوادر پر بلوچوں کے حق کی بہت بات کی جا رہی ہے۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ گوادر بلوچستان کا حصہ نہیں تھا۔ یہ حکومت پاکستان نے قیام پاکستان کے بعد خریدا تھا۔ کیا اس بنیاد پر گوادر وفاق پاکستان کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ گوادر اور تربت پر مبنی الگ صوبہ نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن جونہی آپ بلوچستان کی تقسیم کی بات کریں بلوچ قوم پرست لڑنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ بلوچستان کی تقسیم کی بات بلوچوں کے خلاف سازش قرار دی جاتی ہے۔ آپ پنجاب تقسیم کر لیں۔ لیکن آ ج قومی اسمبلی میں پنجاب کی عددی برتری سے پریشان قوتیں اس کی تقسیم کی بعد سینیٹ میں بھی پنجاب کی برتری سے پریشان نظر آئیں گی۔

اگر کوئی اس بھول میں ہے کہ پنجاب کی تقسیم صرف عارضی ہوگی تو یہ ممکن نہیں۔ آئین پاکستان کے تحت سینیٹ میں تمام صوبوں کی برابر نمایندگی ہے۔ اس وقت پنجاب اور بلوچستان کی نمایندگی برابر ہے۔ حالانکہ دنوں صوبوں کی آبادی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ لیکن جب پنجاب کی تقسیم ہوگی اور اس کے تین حصہ بن جائیں گے تو تینوں صوبوں کی سینیٹ میں الگ الگ برابر سیٹیں ہونگی۔ اس طرح قومی اسمبلی کی طرح سینیٹ میں بھی پنجاب کی برتری واضح ہے۔ اسی لیے میں کہہ رہا ہوں کہ آج پنجاب کی تقسیم پر تالیاں بجانے والے کل خون کے آنسو روئیں گے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کی تقسیم کے ذہنی طور پر خلاف رہی ہے۔ لیکن ملک کے عمومی ماحول میں اس میں اتنی سیاسی جرات نہیں رہی ہے کہ کھل کر پنجا ب کی تقسیم کی مخالفت کر سکے۔ اس لیے جب بھی جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کاا علان کیا گیا ہے ن لیگ نے بہاولپور صوبہ کی بات کی ہے۔ اب بھی جنوبی پنجاب کے ساتھ بہاولپور صوبہ کی ترمیم پیش کی گئی ہے۔

کیونکہ ن لیگ جانتی ہے کہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی بات کرنے والے کوئی پنجاب سے محبت نہیں کرتے۔ اگر جنوبی پنجاب نے الگ صوبہ بننا ہے تو بہاولپور کو بھی الگ صوبہ بنایا جائے۔ لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ پنجاب مخالف قوتوں کو پنجاب کی تین حصوں میں تقسیم کسی بھی طرح قبول نہیں ہوگی۔ تحریک انصاف کو علم ہے کہ پنجاب کی تقسیم سے پنجاب میں اس کی حکومت ختم ہو جائے گی۔ اسی لیے تحریک انصاف کی حتی الامکان کوشش ہو گی کہ پنجاب کی تقسیم کور وکا جا سکے۔ اس لیے پہلے سو دن میں جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا نعرہ لگانے والی تحریک انصاف اب اس سے بھاگ رہی ہے۔ اسی لیے جنوبی پنجاب کو الگ انتظامی حیثیت دینے کی بات کی جا رہی ہے۔ جنوبی پنجاب کو الگ انتظامی حیثیت دراصل جنوبی پنجاب صوبے سے راہ فرارہے۔ اور ن لیگ تحریک انصاف کو بھاگتا دیکھ کر اب پنجاب کی تقسیم پر سیاست کرنا چاہ رہی ہے۔ جو اپنی جگہ ایک افسوسناک حقیقت ہے۔

میری رائے میں اگر پنجاب کی سیاسی قوتیں کسی لمحہ پر پنجاب کی تقسیم پر متفق ہو بھی گئیں تو کوشش کی جائے گی نئے صوبوں کو سینیٹ میں الگ نمایندگی نہ دی جائے۔ اور نئے صوبوں کو سینیٹ میں پنجاب کے حصہ میں سے ہی حصہ دیا جائے۔یہ غلط ہوگا۔ اس کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ اگر پنجاب کی تقسیم کرنی ہے تو نئے صوبوں کو بالکل الگ صوبے قرار دینا ہوگا۔ ان کی صوبائی اسمبلیاں الگ ہونگی۔ ان کی سینیٹ میں نمایندگی الگ ہوگی۔ باقی سب سیاست ہے۔ پنجاب دشمنی ہے۔ جس کا کسی کے پاس کوئی علاج نہیں ہے۔ اس لیے اگر نئے صوبے پنجاب کی مخالفت کے بجائے پاکستان کے مفاد میں بنانے ہیں تواس کا کوئی اصول ہونا چاہیے۔

The post نئے صوبے بنانے کا کوئی اصول ہونا چاہیے appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک ٹیکسی میٹر کی ایجاد

$
0
0

گناہ ٹیکس کے بعد ’’ثواب ٹیکس ‘‘ کے بارے میں آپ نے پڑھ تو لیاہوگا یعنی کہ اب زیر زمین پانی پر بھی ایک روپے فی لیٹر کا ٹیکس لگے گا۔ فی الحال تو ہمیشہ کی طرح اس کے ساتھ ’’صنعتی مزدوروں کے لیے‘‘ کی دمُ چپکائی گئی لیکن آپ تو جانتے ہیں کہ ’’صنعتی لوگ‘‘ نیٹ کی طرح ہوتے ہیں اور ٹیکس کا مقام والی بال کا ہوتاہے کہ نیٹ سے ٹکرا توجاتاہے لیکن پھر اور زور کے ساتھ پلٹ کر اس نشانے پر لگتا ہے جو پیدائشی ہدف اور انوری کا خانہ ہے۔

کیوں نہ ٹھہریں ہدف ناوک بیداد کہ ہم

آپ اٹھالاتے ہیں جو تیر خطا ہوتاہے

پانی ٹیکس پر ثواب ٹیکس کا لیبل اس لیے لگتاہے کہ پانی پلانا ہمیشہ کار ثواب کہلاتارہاہے یہاں تک کہ ماں باپ کو کسی اور کام کے لیے نہیں کہاجاسکتاہے لیکن پانی پلانے کا حکم دیاجاسکتاہے۔کہ اس میں ماں باپ کے حصے میں ثواب آتاہے اور یہ بھی کہاگیاہے کہ

نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا

پل بنا چاہ بنا مسجد وتالاب بنا

اس پر ایک لطیفہ بھی دم ہلارہاہے اس سے بھی نمٹ چلیں کہتے ہیں شادی کے سلسلے میں ایک بارات کسی دوسرے شہر یاگاؤں اتری تھی خوب مرغن چرغن کھانے کے بعد جب باراتی ایک مقام پر سوگئے تو پیاس تو ان کو لگنا تھی چنانچہ ایک مشرف نام کا شخص پانی پینے کے لیے گھڑے کے پاس گیا۔پانی چکھنے کے بعد جب وہ سلور کا کٹورا گھڑے کے اوپر رکھ رہاتھا تو آواز ہوئی اس پر ایک آواز آئی کون؟

اس نے کہا ’’ مشرف‘‘

آواز نے کہا۔’’تھوڑا پانی تو پلادے ثواب کے لیے‘‘

اس نے پلادیا لیکن کٹورا رکھتے ہوئے دوسری آواز آئی۔’’کون‘‘؟

اس نے کہا مشرف۔تھوڑا پانی پلا ثواب کی خاطر۔  اس نے وہ ثواب بھی کمالیا۔لیکن اس کے بعد تو جیسے ثوابوں کا تانتا بندھ گیا یہ پانی پلاتا رہا ثواب کماتا رہا۔آخر یہاں تک کہ ثوابوں سے ناک ناک تک بھر گیا۔پھر کوئی پکارا کون؟ تو اس نے کہا مشرف ہوں ثوابوں کا مارا۔

خیر یہ ہمارا اصل موضوع نہیں ہے، اصل موضوع قہرخداوندی چشم گل کا وہ فرزند ارجمند ہے جسے سائنس وٹیکنالوجی سے شغف ہے اور ہر وقت کوئی نہ کوئی چیز ایجاد کرنے میں لگا رہتاہے،پہلے اس نے اپنی گونگی بہری ماں بقول علامہ بریانی نعمت عظمیٰ کے لیے ایک ایسا ’’گن‘‘ ایجاد کیا تھا جس کے ذریعے وہ اس کے باپ چشم گل چشم کو جواب دے سکتی تھی۔ اس گن میں گولہ بارود کے بجائے ہنسنے اور رونے کی آوازیں لوڈ کی ہوئی تھیں جو نعمت عظمیٰ چشم گل چشم کے بے تکے اشعار پر چلاتی، ایک دور مار آلہ کے طور پر اس سے پلاسٹک کا چھرا نکلتا تھا جو زور سے ’’مخاطب‘‘ کو لگتاتھا۔

لیکن جب چشم گل چشم عرف سوائن فلو نے شکایت کی کہ یہ بہت ناانصافی ہے ماں کا حق تو اس نے ادا کردیا اب باپ کو بھی کوئی دفاعی آلہ ایجاد کرکے دینا چاہیے۔

لیکن لڑکا بڑا ذہین ہے اس نے باپ کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے تمام شوہروں کے لیے ایک زبردست روغن ایجاد کیا جسے جسم پر ملنے کے بعد کوئی زنانہ ہتھیار ہرقسم کے جھاڑو، چپل اور زبان کے شوہر پر کارگر نہیں ہوتا تھا اس کانام اس نے ’’روغن تحفظ شوہراں‘‘ رجسٹر کیا اور یہ بہت ہی بیسٹ سیلر ثابت ہوا۔

یہی سے اس نے اپنی ذہانت کو کمرشلائز کرتے ہوئے طرح طرح کی چیزیں ایجاد شروع کردیں مثلاً ناک،ماتھے یا چہرے پر گریلو تشدد کا نشان مٹانے کا مرہم۔شرم پروف گولیاں۔اور ضمیر کو سلانے والے کیپسول وغیرہ۔

ہمیں جب فرصت ہوتی ہے اس کے کباڑخانے جسے وہ لیبارٹری کہتاہے جاکر اپنی سائنسی معلومات اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ روز گئے تو باقی ہر لحاظ سے ایڈ نہیں دکھائی دے رہاتھا، کپڑے پہننے کا فرق تھا، انہماک کا اندازہ اس سے لگا کہ ہم گئے بٹھ گئے کھنکارے کھانسے لیکن وہ۔ عالم آب جوں آئینہ میں ڈوبا ہی رہا۔ بڑی مشکل سے اپنی طرف متوجہ کیا تو بولا، چچا میں ایک زبردست ایجاد لانچ کرنے والا ہوں۔پوچھا کیا؟ تو وہ بولا۔میری یہ ایجاد حکومت کے بہت کام آئے گی، ہوسکتا ہے مجھے اس پر کوئی انعام یا ایوارڈ بھی مل جائے۔

نرا سائنس دان تھا وہ جو یہ نہیں جانتا تھا کہ ایوارڈز اور انعامات کارناموں پر نہیں بلکہ ’’ناموں‘‘ پر ملاکرتے ہیں لیکن ہم نے اسے اس غلط فہمی میں ہی رہنے دیا کہ ہم بھی تو سالہاسال اس غلط فہمی میں رہے تھے۔

اس نے بتایا کہ اخبار میں پانی ٹیکس کی خبر پڑھ کر اسے یہ آئیڈیا سوجھا ہے کہ بات نکلی ہے تو اب دور تلک جائے گی آیندہ عین ممکن ہے کہ ہوا اور دھوپ تک یہ ٹیکس کا سلسلہ دراز ہوجائے پھر یقیناً حکومت کو کسی ایسے’’میٹر‘‘ کی ضرورت پڑے گی جو ان چیزوں کا ناپ تول کر سکے۔ یونہی اندازے سے کب تک یہ سلسلہ چل پائے گا۔

ہم تو اس کی ذہانت بلکہ پیش بینی پر عش عش کر اٹھے پھر ہم عش رش کرتے رہے اور وہ تفصیلات بتاتا رہا۔اس کا مطالعہ بھی بہت گہرا تھا بولا،اس سے پہلے تاریخ میں ایسی بہت سی حکومتیں گزری ہیں جو عوام کے کھائے پیے پر ٹیکس لاگو کرتی تھیں لیکن ان کے پاس کوئی سائنسی طریقہ نہیں تھا بس یونہی الل ٹپ وصولی کرتی رہتی تھیں۔

مثلااس نے تاریخ الٹاتے ہوئے کہا کہ ایک زمانے میں یہاں ایک ایسی حکومت گزری تھی جو فصلوں پر عشر لیتی تھی گندم وغیرہ تو لوگ کچا نہیں کھاتے لیکن مکئی کے بھٹے بھوننے کا ارتکاب ضرور کرتے تھے اور حکومت کے اہل کار ان کا منہ کھول کر دانتوں کا معائنہ کرتے تھے اور اگر بھٹے کا ثبوت مل جاتا تو بھاری جرمانہ دینا پڑتا تھا۔ اس کے بعد جب سکھوں کا دور آیا تو انھوں نے جانچ کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے یہ طریقہ نکالا کہ اپنے ساتھ مری ہوئی مکھیاں رکھتے تھے جس پر بھٹے کا شبہ ہوتا اسے زبردستی مکھی کھلاتے اور یوں اپنا کھایا اگل کر اپنا بھانڈا خود ہی پھوڑ دیتاتھا۔

لیکن یہ سب طریقے غیر سائنسی تھے سائنسی طریقہ ہر شخص کو میٹر لگانا ہے اور اس کے لیے وہ ایک ایسا میٹر بنانے میں لگاہوا تھا جو اگر ایک بار کسی کو لگادیاجائے تو وہ نہ اس میں گڑ بڑ کرسکتا ہے اور نہ کنڈے وغیرہ لگانے کا چانس ہے اس لیے وہ ایک ایسا میٹر بنانے کی کوشش میں تھا جو کسی گولی یا کیپسول سے زیادہ حجم کا نہ ہو اور ایک مرتبہ بچپن میں یا بلوغت پر اس کو کھلایا جائے تو عمر بھر کے لیے کافی ہو اور یہ بھی کہ اس کا رابطہ کسی مرکزی میٹر یا ٹرانسمیٹر سے بھی جوڑا جاسکے۔

The post ایک ٹیکسی میٹر کی ایجاد appeared first on ایکسپریس اردو.

انقلاب فرانس کی طرف

$
0
0

حکومتوں کو ہر چند سال کے بعد پولیس اصلاحات کے دورے پڑتے ہیں ان دوروں کا کچھ فائدہ ہو نہ ہو اخباروں میں خبریں چھپتی ہیں اور آٹومیٹک رشوت کے ریٹس میں اضافہ ہو جاتا ہے یہ پریکٹس عشروں سے جاری ہے اور اس کا فائدہ کسی کو ہو نہ ہو اہل معاملہ کو ضرور ہو رہا ہے۔

اس حوالے سے پہلی بات یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں بلکہ گندگیوں میں رشوت عرف کرپشن سرفہرست ہے اور یہ بات یاد رکھیے کہ رشوت یا کرپشن کو کوئی مائی کا لال ختم نہیں کرسکتا کیونکہ رشوت عرف کرپشن اور سرمایہ دارانہ نظام کا چولی دامن کا ساتھ ہے جہاں سرمایہ دارانہ نظام ہے وہاں رشوت لازمی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مجبوری رشوت کی ماں ہے لیکن ہم اس فلسفے سے قطعی متفق نہیں کیونکہ نچلے طبقات میں کسی حد تک مجبوریاں انسانوں کو کرپشن کی طرف لے جاتی ہیں اور سرکار رشوت کو آمدنی کا سپلیمنٹری سمجھ کر اسے وصول کرنے کی آزادی دے دیتی ہے۔

رشوت عام غریب آدمی جیسے کلرک، پولیس کا سپاہی سے اوپر تک جاتی ہے، اس کام میں جو مہارت رکھتا ہے وہ گھر بھی بنا لیتا ہے گاڑی بھی لے لیتا ہے اور اگر صاحب ذوق ہے اور بچوں کو سمندر میں تیرانا چاہتا ہے تو بچوں کو اعلیٰ تعلیم بھی دلواتا ہے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے کی نظر میں چھوٹی رقمیں جچتی ہی نہیں۔ غریب کی اولاد خواہ بی اے کرے یا ایم اے وہ مرتبے کی آخری سیڑھی ہی پر فروکش رہتی ہے کیونکہ اس سے آگے جانا طبقاتی نظام کے شایان شان نہیں۔پسماندہ ملکوں میں ایک ظلم یہ ہوتا ہے کہ آمدنی اور خرچ میں زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے۔

اس فرق کو اخلاقاً بھی ختم ہونا چاہیے لیکن غریب ملکوں کی معیشت اور امیروں کا اخلاق اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ غریب کے ناشتے میں انڈے، مکھن، ڈبل روٹی، دودھ، جوس جیسی صحت اچھی کرنے اور عادت خراب کرنے والی چیزیں شامل ہوں لہٰذا ان چیزوں کو غریب کے دسترخوان تک پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ ویسے بھی جو پیٹ روٹی دال، پیاز روٹی، چائے روٹی کے عادی ہوں وہ انڈے، مکن، جام جیلی، ڈبل روٹی کو ہضم کر ہی نہیں سکتے اگر ان بدنصیب پیٹوں میں دال روٹی کی جگہ انڈے مکھن پہنچانا ہو تو پورے پیٹ کا نظام بدلنا پڑتا ہے جیسے ڈیزل پر چلنے والی گاڑیوں کو پٹرول پر چلانا ہو تو انجن میں رد و بدل کرنا پڑتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کھانے، کپڑے وغیرہ کی یہ تفریق صدیوں سے قائم ہے خاص آدمی ایک چیز دو بار کھا لیتا ہے تو وہ بور ہو جاتا ہے بور ہونے کا احساس پیٹ کو نہیں ہوتا دماغ کو ہوتا ہے۔ کیا اس نسلوں سے چلی آرہی بوریت کو دور کرنے کی خواہش نہیں ہوتی؟ ہونی چاہیے لیکن اس فرق کو پیدا کرنے اور برقرار رکھنے والوں کو بھی اندازہ تھا کہ اگر اس یکسانیت کی بوریت بڑھ جائے تو پھر دال روٹی سے بے زار غریب ڈائننگ ٹیبلوں کی طرف مارچ کرنے لگیں گے۔

اس خوف و خطرے سے بچنے کے لیے ان مہاپرشوں نے کئی طریقے ڈھونڈ رکھے ہیں جن میں قسمت سب سے موثر طریقہ ہے۔اس کے علاوہ اس فرق کے بانیوں نے کئی ایک تیر بہدف طریقے بھی ایجاد کر رکھے ہیں مثلاً کوئی بھوکا روٹی چوری کرلے تو اسے فوری گرفتار کرلیا جاتا ہے کیونکہ چوری کرنا قابل دست اندازی پولیس ہے لیکن بھوکا رہنا قابل دست اندازی پولیس نہیں ہے ان روٹی چوروں کے لیے تھانے کچہری جیل سزا کی قسم کے لوازمات رکھے گئے ہیں۔ کیونکہ چوری جرم ہے اور جرم بہرحال جرم ہوتا ہے۔ روٹی کے ساتھ قانون ہے انصاف ہے اور ترنت فیصلوں کا ایک نظام ہے کہ عام آدمی عبرت پکڑے۔

بعض عقل کے پیدلوں کو اس حوالے سے یہ شک یا اعتراض ہے کہ ہمارے ملک کے محترمین نے بینکوں سے دو کھرب کے قرضے لے کر معاف کرا لیے یہ قرض معاف کرانے والے نہ مجبور ہیں نہ غریب نہ اندھے نہ لنگڑے۔ پھر انھوں نے اتنے بھاری قرض کیوں معاف کرائے۔ اور اتنے بھاری قرض کیوں معاف کیے گئے؟ بھوک سے تنگ آکر ایک شخص ایک روٹی چراتا ہے تو اسے فوری انصاف ملتا ہے بینکوں سے کھربوں کے روپے چرانے والوں سے انصاف دور بھاگتا ہے برسوں دور عشروں دور یہ کیسی دنیا ہے یہ کیسا انصاف ہے؟ یہی قانون ایک بھوکے سے روٹی چھین لیتا ہے یہی قانون امرا شہر کو دو کھرب کے قرض یا ایڈ فراہم کرتا ہے اور بھول جاتا ہے۔ ایسا کیوں؟ ایسا اس لیے کہ روٹی چور نے روٹی چھیننا نہیں سیکھا، جب روٹی چور روٹی چھیننا سیکھے گا تو روٹی امیروں کے بینک قرض کی طرح قانون کی نظروں سے اوجھل ہوجائے گی۔

مسئلہ یہ ہے کہ یہ جو انسانوں کی تقسیم ہے کیا یہ قدرت کا کوئی عطیہ ہے دنیا میں 7 ارب انسان رہتے ہیں جن میں ہندو بھی ہیں، مسلمان بھی، سکھ بھی، عیسائی بھی چونکہ یہ مسئلہ مذہب سے تعلق رکھتا ہے لیکن غریب اور امیر کی تقسیم تو انسانوں کی ہوتی ہے یہ کس قدر ظلم اور ناانصافی ہے کہ ایک شخص وہ ہے جو اربوں کی دولت پر سانپ بنا بیٹھا ہے دوسری طرف اربوں انسان ہیں جو صبح سے شام تک صرف دو روٹی کے لیے سخت محنت کرتے ہیں کیا یہ ناانصافی نہیں ہے ؟ اگر ناانصافی ہے تو پھر اس کے خلاف غریب طبقات کو سخت مزاحمت کرنا چاہیے۔

ان ناانصافیوں کے خلاف پولیس کے قانون میں کوئی سخت قسم کی کلاز ہونی چاہیے۔ ہمارا پولیس کا نظام دنیا کے بدترین نظام میں سے ایک ہے اس میں اصلاحات کی بات ایک مذاق لگتی ہے۔ پولیس ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ہوتی ہے لیکن وہاں کی پولیس عوام کی خدمت اور رہنمائی کے لیے ہوتی ہے بلاوجہ پکڑ کر رشوت وصول کرنے کے لیے نہیں ہوتی۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں تھانے نیلام ہوتے ہیں اور اس کے خریدار عام طور پر تھانے دار ہی ہوتے ہیں۔ انقلاب فرانس سے قبل فرانس میں تھانے بکتے رہے ہیں یا نہیں البتہ جج کے عہدے ضرور فروخت ہوتے تھے اس ابتری اور ظلم ہی کے نتیجے میں انقلاب فرانس کا واقعہ ہوگیا۔ کیا ہمارا ملک بھی انقلاب فرانس کی طرف جا رہا ہے؟

The post انقلاب فرانس کی طرف appeared first on ایکسپریس اردو.

ہمارا فلم کلچر، ایک سوال

$
0
0

جب ’’ فال آف دی رومن ایمپائر‘‘ کی عکس بندی ہو رہی تھی تو برطانیہ کے عہد آفریں اداکار سر ایلک گینس سے کسی فلمی نامہ نگار نے پوچھا ’’ بتائیے سر اداکاری کیسی رہی‘‘ گینس نے سین کے لیے جمع سیکڑوں رتھوں پر طائرانہ نظر ڈالتے اور مسکراتے ہوئے کہا کہ ’’گھوڑوں کی اس یلغار میں اداکاری کیسی مائی ڈیئر؟‘‘ یہی ایلک گینس اداکاری کے فن کو مسرت آمیز کرب happy agonyکہتے تھے۔ یہی سوال فلم ’’اگنی اینڈ ایکسٹیسی‘‘ کے سیٹ پر چارلٹن ہیسٹن سے پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ’’اداکاری میرے لیے ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے۔‘‘ مائیکل کین نے اداکاری کو مکمل رد عمل سے تعبیر کیا، جب کہ میل گبسن نے نہ معلوم کس ترنگ میںکہا کہ ’’ اداکاری جھوٹ ہے۔  بہترین اندازکی دروغ گوئی، مجھے پیسے اسی کام کے ملتے ہیں‘‘ اگرگبسن کی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ’’بریو ہارٹ‘‘ دروغ گوئی کا شاہکار ہے توسوچیے اس بندے نے سچ پر مبنی فلم بنائی ہوتی تو اس کا کیا لیول ہوتا ۔

یوں بہر حال فن اداکاری کی تعریف کا ایک دلچسپ دبستان کھل گیا اور اسی آرٹ اور کرافٹ کو برصغیر میں اہل فن اور پارسی تھیٹر مالکان نے فروغ بخشا جو انڈین فلم انڈسٹری کی جدید ترین شکل میں آج موجود ہے اور اسی بمبئی فلم کلچر کے ایک منقسم حصے کے طور پر پاکستان کی فلمی صنعت نے نامساعد حالات میں اپنی ایک الگ شناخت بنائی، فلم اسٹوڈیوز قائم ہوئے، دنیا بھر میں اداکاری کا فن ان ملکوں کی سماجی زندگی، ثقافت اور ان کی تہذیب کے وسیع تر تناظر میں پھلتا پھولتا چلا گیا۔

امریکا نے ہالی ووڈ کوگلوبل ٹیلنٹ کا مرکز بنا دیا، مارلن منرو وہاں کی ملکہ بنی،  صوفیہ لورین،الزبیتھ ٹیلر، ویوین لی،جولی کرسٹی اور نہ معلوم کتنی گل رخ حسینائیں اٹلی اور انگلستان ، جرمنی، فرانس وغیرہ سے وہاں پہنچیں ، ہر ملک کے معروف اداکار،اداکارائیں ، ہدایتکار، فلم ساز ، موسیقار، کیمرہ مین ، تدوین کار اور دیگر ٹیکنیشنز فن فلم سازی کو عروج پر لے گئے۔ آج بالی ووڈ ، لالی ووڈ میں مسابقت و مشترکہ فلم سازی کے معاہدے ہوتے ہیں، بھارت اور پاکستان کے مابین سیاسی، عسکری، سفارتی اور عوامی رابطہ اور میل ملاپ پر درجنوں پابندیاں ہیں مگر برصغیر کی فلمی ثقافت کی منقسم فنی اور فکری اقدار اور تخلیق کی یلغار روکے نہیں رک رہی، ہم اس مسئلے پرگفتگو تک کو سیاسی سطح پر سیکیورٹی ایشو قراردے کر دو طرفہ فلم کلچرکا سوال ہی گول کر دیتے ہیں۔

مگر اس کالم میں ہمارا موضوع فن اداکاری ہے ۔ فلم سازی اور دیگر فنون لطیفہ سے وابستہ باکمال آرٹسٹوں کے ہمہ جہتی ورثہ پر بات ہوتی رہے گی کیونکہ دلیپ کمار اور امیتابھ بچن بطور کیریکٹر ایکٹراور سپر اسٹار بھارت کے فلمی افق پر آب و تاب سے جگمگاتے رہے، اسی طرح پاکستان میں سدھیر، سنتوش، اعجاز، اسلم پرویز، لہری ، نذر ، رنگیلا ، صبیحہ، نیر سلطانہ، شمیم آرا، وحید مراد ، ندیم، علاؤالدین، طالش، قوی، طلعت حسین، سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کے بعد کی جواں سال نسل تھیٹر ، ٹی وی ، ویڈیو اور بڑے اسکرین پر اپنی صلاحیتوں کے جلوے بکھیر رہی ہے۔ لیکن بنیادی سوال فن اداکاری کا ہے۔ جارج برنارڈ شا نے کہا تھا کہ روزگار کے استثنیٰ کی بات درست ہے مگر کیا بات ہے کہ ہر شخص اداکار بننے کے جنون میں گرفتار ہے، میں یہ بات سمجھ نہیں سکا۔ یہ کسک اور خلش فن اداکاری کے جذب وجنوں کے باب میں ایک عالمگیر موضوع ہے ۔

روسی نژاد امریکی ہدایت کار رچرڈ بولس لیوسکی نے اپنی کتاب ’’ایکٹنگ ‘‘ میں چھ دلفریب اور فکر انگیز ابواب اس فن کی نزاکتوں ، جذبات و حسیات، تخلیقی انفرادیت، انسانی رویوں اورگراں قدر انسانی مشاہدہ اور جذبات کے حافظے پر رقم کیے ہیں۔ یہ کتاب اداکاری پر مختصرکتاب ہونے کے باوجود ایک سندکا درجہ رکھتی ہے، یوں تو کانسٹنٹائن سٹانسلیوسکی کی ضخیم کتاب ’’مائی لائف ان آرٹ‘‘ تھیٹر آرٹ پر مایہ ناز تصنیف ہے لیکن رچرڈ بولسلویسکی نے اداکاری کی ایک امیچر طالبہ کے ساتھ مکالمہ کی شکل میں جو فنکارانہ نکات بیان کیے ہیں وہ اداکاری کا شوق و ذوق رکھنے والوں کے لیے ایک نصاب سے کم نہیں ۔ دنیا کے ایک مشہور اداکار کا قول ہے کہ اداکاری میں اداکارکی انٹیلی جنس،انٹیلکچوئل وسعت نگاہ یا دانشورانہ مہارت و ہنرمندی سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ وہ اداکاری کے فن میں اپنی روح ، جبلت اور محسوسات پر کس قدر گرفت رکھتا ہے۔

کتاب اس بات پر بھی بحث کرتی ہے کہ اداکارکی ڈائیلاگ ڈلیوری شاندار اور فطری ہونی چاہیے مگر بولسلیوسکی اس اسکول آف تھاٹ سے تعلق رکھتا ہے جہاں اداکار کسی اکیڈمی کی فرمائشی پروڈکٹ یا تراش خراش کے بعد مارکیٹ کیا جانے والا ڈائمنڈ نہیں ہوتا، طالب علم لڑکی کے اس سوال پرکہ ’’سنا آپ ڈرامیٹک آرٹ سکھاتے ہیں، بولسلیوسکی بے ساختہ کہتا ہے کہ ’’آرٹ سکھایا نہیں جاتا، اس کے لیے آپ میں فن کی تڑپ ہوتی ہے خون جگر سے نمود کا دھارا اور فطری صلاحیت کا ہونا شرط ہے، یہاں پاکستان کے در نایاب ضیاء محی الدین کا ادارہ ’’ ناپا ‘‘ قدرے مخالف مگر زرخیزانتہا پر ہے۔

ضیا نے اپنی اکیڈمی سے بیش بہا لڑکے لڑکیوں کی تراش خراش میں زبردست کامیابی حاصل کی ہے ، گزشتہ دنوں اسی ادارے کے ایک فارغ التحصیل فنکار محسن علی میرے پاس آئے، بطور فلم پروڈیوسر ان کے آئیڈیاز قابل قدرتھے، اسی طرح دیگر نوجوان ہونگے جو پیدائشی اداکارکے مفروضوں پر ہنستے ہونگے، مگر ایک چیز جس کا نام ریاضت ہے وہ دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے، تقریباً تمام بڑے اداکار بغیر ریاض، محنت اور تپسیا کے اسٹیج یا فلم میں نام پیدا نہیں کرسکتے تھے، تھیٹر وہ جگہ ہے جہاں سے اداکارکندن بن کر نکلتا ہے، اس میں جذبات کی تہذیب اور فن سے کمٹمنٹ جنم لیتی ہے، تھیٹر محسوسات کی شائستگی اور نکھار کا پلیئنگ فیلڈ ہے۔ ہاں البتہ بعض استثنائی سیاق وسباق میں فنکار آغوش مادر سے شاید فن کا ڈی این اے لے کر دنیا میں آتے ہیں۔

یہ میتھڈ اور میڈنس کی جنگ ہے، بڑی بحث ہوتی رہی ہے، پیپرز آن ایکٹنگ اور فلم کریٹیسزم نامی کتابوں میں اداکاری اور دیگر پرفارمنگ آرٹ کے حوالے سے نقادوں نے بڑی عرق ریزی سے اداکاری کے تخلیقی ،جمالیاتی ، حساتی، مشاہداتی اور مکالماتی فلاطونیت پر روشنی ڈالی ہے، لہذا نئے اداکاروں کے لیے ان کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے۔ بولسلیوسکی کا کہنا تھا کہ مجھے ایسا اداکار چاہیے جو جرمن اور فرنچ رومانویت میں فرق کرسکے، جو علم الابدان پر دسترس رکھتا ہو۔

ایک ہدایتکارکا کہنا ہے کہ ’’جہاں ادیب کا قلم گنگ ہوجاتا ہے وہاں سے اداکاری شروع ہوتی ہے‘‘ یہ ہے وہ فرق جس کی نشاندہی ہدایت کار صداکاری کی بنیاد پر اداکاری کا محل تعمیر کرنے پر والوں کو صائب مشورہ دیتے ہوئے کرتے ہیں، اداکار کے لیے وہ کردار چیلنج بن جاتے ہیں جب مکالمے سے زیادہ انسانی احساست ،آنکھ، چہرے  کے ایکسپریشنز، حرکات وسکنات اور مینر ازم سے کہانی آگے بڑھتی ہے۔ بن حر 1956کے دور کی فلم ہے ، جب ولیم وائلر کے لیے جدید ترین کیمرے ، ٹیکنالوجی، بلند وبالا کرینیں نہیں تھیں ، ڈیجیٹلائزیشن کے وہ حیران کن بصری و صوتی آلات نہیں تھے۔

چنانچہ بن حر کا ری میک بنا تو قدیم وجدید کے تخلیقی اور فنی معیار نے قطع نظر جدید ساز و سامان اور ویژل ایفیکٹ کے تجربات کے اداکاری کے معیار اورکردار کی ادائیگی کے بے عیب ، لازوال اور پختہ  ساختیات کا معاملہ اٹھایا اور اس حوالے سے پرانی بن حر کی جمالیاتی سر بلندی پر مہر تصدیق ثبت کردی اور ثابت کردیا کہ اداکار پرانی فلموں میں انسانی جذبات پر انحصار کرتا تھا، مشینوں کا مرہون منت نہیں تھا ، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے ایکٹر سے اس کے اندرکے تخلیقی جی نئیس کو دبا کر اسکرپٹ کا غلام بنادیا اور اس میں اداکاری کے پوائنٹ آف ویو سے اظہارکی آزادی بھی تکنیکی تقاضوں سے آلودہ ہوگئی، وہ فلمیں بننا بند ہوئیں جو انسانی احساسات سے جڑی ہوئی تھیں، فیمیلی اسٹوریزکا سفر رک گیا، بھارت نے تو جو فلم کلچر دیا وہ اس کی تہذیبی وسعت اور تاریخی و سماجی بندھنوں سے ماورا تھا۔

انڈین فلمیں ماضی کی رومانی کہانیوں اور گھریلو موضوعات سے منہ موڑ کرگلیمر اور ماردھاڑ، بیہودہ ڈانس، جنسی مناظر سے آلودہ ہوئیں، مگر وہاں فلم کلچرکے پیچھے فلم انڈسٹری کی اپنی مربوط تاریخ کے عصری اور قدیم شعوری ورثہ کوکوئی نقصان نہیں پہنچا بلکہ فلم سازی نئی جدتوں سے آشنا ہوئی، مغرب میں فلموں کے عجیب الخلقت کرداروں، مونسٹرز اور مشینی بلاؤں نے ناظرین پر حملہ کردیا ہے، سیکس، بے ہنگم تشدد ، قتل عام ،کہانی میں ڈیجیٹل چمتکاری، کیمرہ ٹرکس اور تدوین کے طلسماتی ٹمپو اور ردھم نے فلم بینی کا مزاج اور ذوق تبدیل کر دیا ، تاہم جسے فلم کلچرکہتے ہیں وہ کیا شے ہے، اس کی آفرینش کیسے ہوگی؟ہمارا کوئی  فلم کلچر ہے کہ نہیں؟

The post ہمارا فلم کلچر، ایک سوال appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 22460 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>