Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22369 articles
Browse latest View live

اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جئے جاتے ہیں

$
0
0

جسے راہ اعتدال کہتے ہیں اور جو معمول کی زندگی کی ضامن ہے اب ہمارے بیچ سے ندارد ہے۔ ہماری اجتماعی زندگی تو بہت پہلے سے راہ اعتدال سے ہٹی نظر آ رہی تھی۔ اب ہمارے موسموں نے بھی راہ اعتدال کو سلام کر لیا ہے اور بے اعتدالی کی روش پر اتر آئے آپ۔ قیامت ہے کہ یہ مئی کا مہینہ ہے اور موسم ہم سے تقاضا کر رہا ہے کہ گرم کپڑے پہن کر گھر سے نکلو۔ دن میں دھوپ مگر مری مری سی۔ اور ادھر شام پڑی اور مینہ برسنے لگا۔ فطرت کے ساتھ ہم جو کچھ کر رہے ہیں اس سے اس کے مزاج میں درہمی آنی ہی تھی مگر یہ درہمی جو اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں اسی حد تک رہے تو بھی غنیمت ہے۔

سن ستاون کی قیامت سے پہلے غالبؔ کی نظر آسمان پر رہتی تھی۔ اپنے خطوں میں اس نے ستاروں کی بدلی ہوئی چال کو دیکھ کر تشویش کا اظہار کیا اور دوستوں کو لکھا کہ آثار اچھے نہیں ہیں۔ ہمیں آسمان کی طرف دیکھنے کی فرصت نہیں ہے۔ زمین پر اتنا کچھ ہو رہا ہے اس سے ہی ڈرے ہوئے ہیں۔ آسمان ہمیں اور کیا ڈرائے گا۔ ہمارے ارد گرد کیا کچھ ہو رہا ہے۔ سیاست کے بازی گر اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ موت اپنا کھیل کھیل رہی ہے۔ نظیرؔ اکبر آبادی نے جانے کیا کچھ دیکھ کر یہ کہا تھا کہ ع

قزاق اجل کا لُوٹے ہے دن رات بجا کر نقارہ

نظیرؔ نے کہا تھا۔ ہم بھگت رہے ہیں۔ تشدد کی لہر کب سے اٹھی ہوئی تھی مگر یہ لہر تھمنے ہی میں نہیں آ رہی۔ اونچی ہوتی ہی چلی جا رہی ہے۔ لیجیے اردو کے آوارہ شعروں میں سے ایک شعر یاد آیا۔ جانے کس نے کس عالم میں کہا تھا کہ کہیں لکھا گیا ہو یا نہ لکھا گیا ہو۔ زبان زد خاص و عام اس طرح کہ اجتماعی حافظہ کا حصہ بن گیا؎

آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں

سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں

آجکل کا سماں یہی ہے۔ صبح و شام خبریں آتی رہتی ہیں کہ فلاں کے گولی لگ گئی۔ ڈھیر ہو گیا۔ فلاں کے گولی لگی۔ زندگی باقی تھی۔ بچ نکلا۔ ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلائو۔ گولیاں چل رہی ہیں۔ لوگ کھیت ہوتے چلے جا رہے ہیں مگر کوئی کوئی موت اس طرح واقع ہوتی ہے کہ واقعہ کراچی میں ہوا اس کی دھمک لاہور تک محسوس ہوئی۔ ابھی پچھلے دنوں کراچی میں پروین رحمن قزاق اجل کی زد میں آ گئیں۔ لاہور تک اس کی دھمک محسوس ہوئی۔ صاحب دل حیران و پریشان کہ وہ بی بی تو خدمت خلق میں لگی ہوئی تھی۔ کسی کے لینے میں نہ دینے میں۔ کس کا کیا بگاڑا تھا کہ زد میں آ گئی۔ ابھی دو چار دن پہلے ملتان سے خبر آئی کہ راشد رحمن گولی کا نشانہ بن گئے۔ ملتان سے لاہور تک سنسنی پھیل گئی  کہ ارے وکیل اپنا فریضہ انجام دے رہا تھا۔ اسی عالم میں دن دہاڑے مارا گیا۔

ہمارے ارد گرد یہ کچھ ہو رہا ہے مگر اہل سیاست اپنے کھیل میں مصروف ہیں۔ اقتدار کی‘ جنگ زوروں پر ہے۔ تماشائی تماشہ دیکھ رہے ہیں اور چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ فلاں لیڈر نے کیا کہا۔ فلاں پارٹی کے تیر انداز جواب میں کیا تیر چلائیں گے؎

یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین

پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

اقتدار کی جنگ عجب طرح کا ڈرامہ ہے۔ فریقین عوام کے مسائل ہی کا علم لے کر میدان میں کودتے ہیں مگر جب رن پڑتا ہے تو سب مسائل پیچھے جا پڑتے ہیں۔ بس پھر حریف ہدف ہوتا ہے۔ باقی معاملات جو بھی ہیں قومی غیر قومی وہ سب معطل۔ بس ایک دوسرے سے بھڑے ہوئے ہیں۔ ویسے اس وقت ہماری قومی زندگی میں جو جنگ برپا ہے وہ اس قسم کی ہے جسے جنگ مغلوبہ کہتے ہیں۔ کون کس سے بھڑا ہوا ہے کچھ پتہ نہیں چل رہا۔

پھر دور سے دیکھنے والے بھی اپنے سارے غم بھول جاتے ہیں اور تماشائی بن جاتے ہیں۔ سیاست کا تماشہ بھی عجب تماشا ہے۔ حریف بیشک چت ہو جائے مگر ہارتا نہیں ہے۔ کپڑے جھاڑ کر پھر کھڑا ہو جاتا ہے۔ پھر دو دو ہاتھ کرنے پر آمادہ ہے۔ الیکشن کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ اس مرحلہ میں آ کر  دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔ شاید پہلے کبھی ایسا ہوتا ہو۔ اب ایسا نہیں ہوتا۔ ہارنے والا چپ ہو کر نہیں بیٹھتا۔ الزام لگاتا ہے کہ بے ایمانی ہوئی ہے۔ ووٹ جعلی پڑے ہیں۔ گنتی میں گھپلا کیا گیا ہے۔ لیجیے پھر معرکہ آرائی شروع ہو جاتی ہے۔

اصل میں وہ اور ملک ہیں اور قومیں ہیں جہاں جمہوریت صاف ستھرا کھیل ہے۔ الیکشن ہوئے۔ معرکہ پڑا۔ آخر میں جو فیصلہ ہوا اسے فریقین نے قبول کر لیا۔ ہارنے والے اب اپوزیشن بننے پر قانع ہیں۔ معرکہ آرائی پانچ سال کے لیے ملتوی۔ جب پھر الیکشن کا مرحلہ آئے گا تب قسمت آزمائی کریں گے۔

مگر ہم ان ملکوں میں ہیں جہاں جمہوریت بے صبری ہے۔ اگلے الیکشن تک کا انتظار کون کرے۔ پھر کیا کیا جائے۔ مڈٹرم الیکشن کا مطالبہ۔ پھر ہو جائے تحریک گرم۔ لیجیے پھر ہنگامہ گرم ہو گیا۔ تب ہی تو علامہ اقبالؔ نے جمہوریت کو اک طرز تماشہ بتایا ہے۔ جہاں اس دنیا میں اور سو قسم کے تماشے ہیں ایک تماشہ جمہوریت کے نام کا بھی سہی۔ ایسے معاشروں اور ملکوں میں چَین نام کی چیز عنقا ہوتی ہے۔ بس مستقل اک تماشہ لگا رہتا ہے اس رنگ سے کہ ع

ہم بچھاتے ہی اٹھاتے رہے بستر اپنا

عالم ناپائیدار میں ایک ناپائیداری برنگ جمہوریت بھی سہی۔ اور ہمارے احوال پر غور کرو ع

اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جئے جاتے ہیں


بھارت کی فکری اساس

$
0
0

بھارت کی فکری اساس نہ علاقائی ہے نہ نظریاتی ہے نیز اس کا اقتصادیات اور سیاسیات سے بھی کوئی خاص تعلق واسطہ نہیں ہے جب ہم آزادی کی جدوجہد کر رہے تھے تو ہمارا دعویٰ جمہوریت‘ اجتماعیت اور مساوات پر مبنی ملک کا قیام تھا۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو معاشرے کے لیے سوشلسٹ نمونے کو اختیار کرنا چاہتے تھے لیکن وزیر اعظم من موہن سنگھ کے نزدیک آزاد مارکیٹ کا قیام ترجیح تھی تاہم اس خیال پر ان کی پارٹی بطریق احسن عمل نہیں کر سکی حالانکہ وہ ایک سے زیادہ بار اقتدار میں رہی ہے۔

ان نظریاتی اقدار کو ایک طرف دھکیل دیا گیا۔ مثالیت پسندی کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ حتیٰ کہ نوجوانوں کی زیادہ دلچسپی ماضی کی اعلیٰ اقدار کے بجائے اچھی ملازمتوں کے حصول پر رہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نئے حکمران بھی جمہوری طریقے سے منتخب ہو کر آئے لیکن انھوں نے لوک سبھا کے انتخابات کو محض اقتدار کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ انھیں اس بات کی کوئی خاص پرواہ نہیں تھی کہ وہ اقتدار تک کس ذریعے سے پہنچتے ہیں۔ ایک عام اندازے کے مطابق مختلف انتخابی امیدواروں نے اقتدار میں آنے کے لیے پانچ لاکھ کروڑ روپے کا خرچہ کیا جو کہ انھیں کارپوریٹ سیکٹر کی طرف سے فراہم کیا گیا تھا۔

ظاہر ہے کہ نیا وزیر اعظم اور اس کے رفقائے کار اس روش کو تبدیل کرنے کے لیے کچھ نہ کر سکے کیونکہ انھیں کامیاب کروانے کے لیے بوریاں بھر بھر کر رقوم صرف کی گئی تھیں۔ مزید برآں انھیں قومی جدوجہد کے دوران کیے گئے وعدوں کا بھی کوئی خاص پاس نہیں۔ مجھے اس بات پر قطعاً حیرت نہیں ہوتی کہ نئی نسل کو برطانیہ کی وحشیانہ حکمرانی سے آزادی کے دوران دی جانے والی قربانیوں کا کوئی علم ہی نہیں۔ جلیانوالہ باغ میں قتل عام کو کتنے لوگ یاد رکھے ہوئے ہیں جس میں برطانوی حکمرانوں نے سفاکانہ طور پر  بے گناہ   شہریوں کو قتل عام کا نشانہ بنایا جن میں ہمارے آبائو اجداد بھی شامل تھے جنہوں نے اپنی تمام تر توجہ آزادی کے حصول پر مرکوز کر رکھی تھی۔

میرا ایک دوست جو کہ لندن میں قیام پذیر ہے اس نے درست طور پر یہ تجویز پیش کی ہے کہ ان بے گناہ مقتولوں کی یاد میں قومی تعطیل منائی جانی چاہیے جنہوں نے اپنی جان بچانے کے لیے کنوئیں میں چھلانگ لگا دی تھی اور وہ جو برطانوی فوجیوں کی اندھا دھند فائرنگ کے سامنے ڈٹ کر کھڑے رہے تاآنکہ ان کی بندوقوں کی گولیاں ختم ہو گئیں۔آخر نئی آنے والی حکومت اپنے آبائو اجداد کی قربانیوں کا قرض کس طریقے سے چکائے گی؟ ہم برطانوی حکام سے وہ مال و دولت اور اثاثے واپس نہیں لے سکتے جو وہ ہمارا استحصال کر تے ہوئے یہاں سے لوٹ کر لے گئے تھے لیکن ہم کم از کم اپنی وراثت کی ان علامات کو تو واپس لے سکتے ہیں جو وکٹوریہ اور البرٹ عجائب گھروں کے تہہ خانوں میں گرد آلود ہو رہی ہیں۔

مجھے یاد پڑتا تھا کہ جب لندن میں نہرو سینٹر کھولا گیا (جس کے لیے پیسے نئی دہلی نے دیے تھے) تو میں نے کیوریٹر سے پوچھا کہ بھارتی لوگوں کو برطانوی راج کی یاد گاروں پر کب تک رسائی حاصل رہے گی تو اس خاتون نے جواب دیا کہ پینتیس سال بعد انھیں صرف %5 اشیا کو دیکھنے کی اجازت ملے گی۔لندن میں بھارتی ہائی کمشنر کی حیثیت سے میں نے کوشش کی کہ کوہ نور ہیرا بھارت کو واپس دلوایا جائے۔ یہ انمول ہیرا ایک زمانے میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے خزانے کا سب سے قیمتی اثاثہ تھا۔ اس کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ اس کو حیدر آباد میں گولکنڈہ کی کانوں سے نکالا گیا تھا۔ تو برطانوی دفتر خارجہ کے اعلیٰ حکام کا جواب یہ تھا کہ اب یہ ہیرا برطانوی تاج میں نصب کیا جا چکا ہے لہذا…۔ جب میں بھارت کی راجیہ سبھا (ایوان بالا) کارکن تھا تو میں نے اس مسئلے کو وہاں بھی اٹھانے کی کوشش کی۔

لیکن مجھے سخت دھچکا لگا جب اس وقت کی بی جے پی حکومت کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے مجھ سے استدعا کی کہ اس معاملے کو نہ اچھالوں کیونکہ اس طرح برطانیۂ عظمیٰ کے ساتھ بھارت کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ تاہم مجھے اب بھی امید ہے کہ نئی آنے والی حکومت اس غلطی کو درست کرے گی جو کہ میں نے خاموش رہ کر کی تھی۔نئے حکمرانوں کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہو گا کہ وہ بھارت کے تمام قیمتی اثاثے واپس لینے کی کوشش کریں جن کا بھارت نو آبادیاتی دور سے پہلے مالک تھا۔ کتنے لوگوں کو بدنام زمانہ رابرٹ کلائیو کا نام یاد ہو گا جو بنگال کا پہلا گورنر جنرل تھا یا اس کے جانشین وارن ہیسٹنگز کا نام جس نے بھارت کا بے پناہ استحصال کیا اور یہاں سے حاصل کی گئی ناجائز دولت کی برطانیہ میں بھاری سرمایہ کاری کی۔

لارڈ کلائیو نے صاحب ثروت  بنگالیوں سے تین لاکھ پائونڈ کی رقم نچوڑی تا کہ وہ برطانیہ کے ہائوس آف لارڈز کی رکنیت خرید سکے۔ علاوہ ازیں اس نے وہاں بے پناہ جائیدادیں بھی خریدیں۔ لندن کا مشہور سمر سیٹ ہائوس کلائیو کی دولت سے ہی تعمیر کیا گیا تھا۔ جب اس کا مواخذہ کیا جانے لگا تو اس نے احساس جرم سے مغلوب ہو کر خود کشی کر لی۔ وہ اپنے  جرائم کا بوجھ اپنے ضمیر پر مزید برداشت نہ کر سکا۔ مواخذے کی کارروائی اس کے جانشین وارن ہیسٹنگز کے خلاف بھی کی گئی تھی۔

برطانوی نو آبادیاتی حکمرانوں کے پاس بھارت  پر قبضہ کرنے کے لیے سب سے زیادہ موثر ہتھیار مقامی برادریوں میں منافرت کے جذبات کو ہوا دے  کر ان کو تقسیم کرنا تھا تا کہ وہ ثالثی کا کردار ادا کر نے کے بہانے اپنی حکومت کا جواز پیدا کر سکیں اور یہ ظاہر کر سکیں کہ وہ مختلف مذاہب کے لوگوں میں امن پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب بھی لوک سبھا کے انتخابات میں بعض سیاسی پارٹیوں نے ہندوئوں اور مسلمانوں میں خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان سیاسی پارٹیوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگرچہ مغرب میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہو چکی ہیں لیکن اس کے باوجود غیر ملکی حکومتوں میں ایک سے زیادہ کی اب بھی یہ کوشش ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے ہمارے ملک میں پھر قدم جما سکیں۔ ہمارے پاس ان سب کے لیے بہت قیمتی خزانے اب بھی موجود ہیں۔ یاد رہے کہ ہمارے ملک کو ایک زمانے میں سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا۔

اپنے ملک میں اتحاد پیدا کرنے کے لیے اور عام آدمی کو سیاسی عمل پر اعتماد پیدا کرنے کے لیے ہمیں انھی عزائم کو یاد کرنا ہو گا جس کا دعویٰ ہم جدوجہد آزادی کے دوران کرتے رہے ہیں۔ وہ یہ کہ ہماری تمام برادریاں جن کا تعلق مختلف مذاہب یا مختلف ذات پات سے ہے وہ سب قانون کی نظر میں برابر ہیں جیسا کہ ہمارے آئین تحریر کیا گیا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ لوک پال بل (محتسب کا ادارہ) جو کہ پارلیمنٹ میں زیر سماعت ہے اسے دونوں ایوانوں سے بالاتفاق منظور کر لیا جائے گا تا کہ بڑی سے بڑی شخصیات کا بھی احتساب ممکن ہو سکے۔ اور جو انتخابات میں شکست کھا گئے ہیں ان کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہ کی جا سکے اور نہ ہی انھیں ہراساں کیا جائے۔

نئی حکومت کی سب سے بڑی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ خط غربت سے نیچے بھوک، افلاس اور بے بسی کی زندگی بسر کرنے والے تیس کروڑ عوام کو کس طرح ان نامساعد  حالات سے نکالا جا سکتا ہے۔ ایک اندازہ یہ ہے کہ یہ تیس کروڑ عوام جن کی تعداد تمام یورپی ممالک کی مجموعی آبادی کے برابر ہے وہ رات کو بھوکے سوتے ہیں۔ یہ ایسی چیز ہے جس نے مساوات کے تصور کو شکست دے رکھی ہے جس کا کہ آزادی کے موقع پر وعدہ کیا گیا تھا۔ اب یہ نئے حکمرانوں پر ہے کہ وہ کس طرح اصلاح احوال کرتے ہیں۔ ان کے اقدامات سب کو نظر آنے چاہئیں۔ ایک ایسا عمل ہونا چاہیے جس میں کرپشن کو قطعی طور پر برداشت نہ کیا جائے جو کہ حکومت کے ہر محکمے میں نمایاں ہے اور سیاسی جماعتیں بھی اس سے مبرا نہیں ہیں۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

ممبئی اور کراچی ایک اتفاق

$
0
0

دنیا میں جہاں کہیں بھی پارلیمانی نظام ہو، یا صدارتی انتخاب، لوکل باڈی اور میئر کا ہونا لازم ہے یہ نیویارک ہو یا ماسکو، بیجنگ ہو یا ممبئی مگر صد افسوس کہ جمہوریت کا طبل بجانے والی پارٹیاں جمہوریت کے پانچ برس پورے کرنے والی جمہوریت کی دعویدار جب کبھی لوکل باڈی کا نام آتا ہے تو ان کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔

پاکستان میں یہ عمل کسی اور وجہ سے نہیں بلکہ اس کے پس پشت محض کرپشن سے خصوصاً کراچی جیسا شہر جو آبادی کے اعتبار سے دنیا کے کئی ملکوں سے بڑا ہے مگر یہاں پر بلدیاتی انتخاب کا عمل معدوم ہے کیونکہ کراچی میں بدانتظامی اور کرپشن ایک بڑی منڈی ہے ملک کے دو لیڈروں قائد اعظم اور لیاقت علی خان کو حکومت کرنے کا موقع نہ ملا ایک تو بانی پاکستان دوسرے رہنما خان لیاقت علی خان قائد اعظم تو علالت کے باعث چل بسے گو کہ ان کی موت پر بھی اور ایمبولینس کی آمد پر بھی محترمہ فاطمہ جناح کو تحفظات تھے اور لیاقت علی خان کو تو ہزاروں کے مجمع میں شہید کر دیا گیا۔ جمہوریت پر یہ پہلا حملہ تھا کیونکہ وہ ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسی کو یکسر بدلنا چاہتے تھے۔

ملک کے لیے بالکل آزاد خارجہ پالیسی بننے کو تھی جو مغربی ممالک کے دباؤ سے آزاد، اور نہ معاہدہ وارسا کی گرفت پر کاربند، نہ نیٹو، کراچی جس کی وسعت کا انھیںاندازہ تھاکیونکہ دارالسلطنت ہونے کے ساتھ ساتھ یہ کاروباری مرکز کی شکل دھار چکا تھا۔ شاید اس بات کا علم کم ہی لوگوں کو ہو گا کہ خان لیاقت علی خان کی نگاہ بلند کراچی کے مخصوص زمینی خدوخال کی بنا پر اس کو اٹلی کے شہر وینس کے طرز پر بسوں کا لوڈ کم کرنا چاہتے تھے۔ آیندہ کی بڑھتی ہوئی حد نگاہ تک جسے وہ دیکھ رہے تھے کراچی کے تمام نالوں اور ندی کا مکمل زمینی سروے کرا کے آبی سفر کرانے کا منصوبہ تھا۔ پورے شہر میں ہر نالے پر بند باندھنے کا اہتمام تھا۔

نالے کی گہرائی پانی کے اعتبار سے 15 تا 20 فٹ ہونی تھی اگر آپ کراچی سے گزرتی ہوئی ندیوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ حسن اسکوائر، لیاقت آباد، سہراب گوٹھ، گوجر نالہ کی ندی، اور سائٹ حبیب بینک کی ندی ملیر ندی شہر کے وسط سے گزرتی ہوئی یہ آبی گزرگاہیں پورے کراچی کو کور کرتی ہیں۔ اس پانی میں مچھلیوں کی افزائش ندی نالوں کی صفائی ہونی تھی ذخیرہ آب برسات سے اور شہر میں ٹراموے کا جال ہونا تھا اس کے علاوہ ریلوے کا اہتمام تو آنے جانے والے لوگوں کو ذاتی ٹرانسپورٹ کا استعمال کم سے کم ہوتا کیونکہ یہ ندیاں پورے شہر سے گزرتی ہیں اس طرح ماحولیاتی حالات بھی مزید بہتر ہو جاتے مگر صد افسوس آنے والی حکومتوں نے اپنی جیب بھرنے کے علاوہ کچھ نہ کیا یہ آبی سروس ایک وسیع ملازمتوں کا بندوبست تھا۔

چھوٹے جدید اسٹیمر، کشتیاں بالکل مشکل نہ تھا کیونکہ لیاری کی آبادی اور ان دنوں بنگالیوں کی کثیر آبادی کراچی میں مقیم تھی جو مچھلی اور مرغیوں کے فارم کا کام کرتی تھی۔ بنگلہ دیش کے قیام کے باوجود سندھ میں پولٹری فارمنگ میں آج سندھ میں بنگالی ملازمین کراچی، بدین، گھارو، ٹھٹھہ، چوہڑ جمالی تک اور دیگر علاقوں میں وہ اس کام میں مصروف ہیں پھر کشتی رانی میں بلوچ کافی ہیں، ممبئی آبادی کے بوجھ تلے دبا جا رہا ہے حکومت کی بہترین ریلوے کارکردگی اور سمندر کے اوپر سے پل تعمیر کرنے کے منصوبے کے باوجود ان کے میئر (Mayor) کی منصوبہ بندی ممبئی کو آلودگی سے نہ بچا سکی کیونکہ ممبئی شہر کو انگریز کی منصوبہ بندی نے زیادہ اہمیت کا حامل بنا دیا تھا۔

حالانکہ انگریز حکومت نے ابتدا میں کلکتہ کو اہمیت دی تھی آپ کو یاد ہو گا کہ فورٹ ولیم کالج وہیں قائم تھا مگر وہاں کمیونسٹ پارٹی کی کارکردگی بہتر تھی اس لیے انگریز حکومت اور آنے والی حکومتوں نے مشرقی بنگال سے سرمایہ اور تجارتی مراکز ممبئی منتقل کیا۔ مگر ایسا نہیں کہ وہاں کے بلدیاتی نظام کو مفلوج کر دیا ہو مگر کراچی اور ملک کے دوسرے حصوں میں بلدیاتی نظام کو نظرانداز کیا جاتا رہا جس سے ملک میں شہری آبادی صاف پانی، سیوریج اور سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ کے نظام کو بہتر نہ بنایا جا سکا کیونکہ آنے والی اسمبلیاں تمام رقوم کو اپنے پاس رکھنے اور خرچ کرنے کی عادی بن چکی ہیں اور جعلی منصوبہ بندی کے پروگراموں کی تشہیر میں مبتلا ہیں۔

آپ ذرا غور فرمائیں کہ ملک کا پہلا وزیر اعظم کس درجے کی دور اندیشی رکھتا تھا کہ وہ کراچی کو وینس بنانا چاہتا تھا تو ملک کے دوسرے حصوں کو کس مقام پر پہنچانا چاہتا تھا اب آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ اتنا خفیہ منصوبہ اور اس کا انکشاف 60 سال بعد کس طرح اور کس حوالے یا بنیاد پر  کیا جا رہا ہے، لہٰذا راجہ صاحب آف محمود آباد  جب بھی لندن سے کراچی آتے اور اپنے باتھ آئی لینڈ کے مکان میں قیام کرتے تو والد مرحوم پروفیسر مجتبیٰ حسین سے ملاقات کرتے اور سیاست دوراں پر گفتگو ہوتی لہٰذا پاکستان کی تحریک میں جو لوگ شامل تھے ان کا موازنہ آج کے لیڈروں سے کرنا بے سود ہے وہ لوگ ملک پر اپنی دولت خرچ کرتے تھے اور آج کے حاکم ملک کی دولت باہر جمع کرنے میں مصروف ہیں لیڈر سے لے کر میئر تک کا ایک ہی ہدف ہے غرق کرو پاکستانیوں کو اور ہمنوا بن کر مغرب کا جیو۔

بلدیاتی انتخاب میں حلقہ چھوٹا ہوتا ہے۔ لہٰذا اس بات کے امکانات کافی ہوتے ہیں کہ صوبائی اسمبلی میں انتخابی نتائج کچھ اور ہوں کیونکہ پاکستانی پارٹیاں کاغذ کے اس کھیل میں مہارت رکھتی ہیں۔ مگر چھوٹے حلقے میں کاغذ کا یہ کھیل آسانی سے نہیں ہو سکتا، پھر جب معاشرہ زوال پذیر ہو، اسکول، کالج کے امتحانات میں نقل اور رقم کا ملاپ ہو گیا ہو جعلی ڈگری اور اسمبلی کے ممبران پھر ۔۔۔۔ تو اس معاشرے کی بدحالی کہاں تک جا کے رکے گی اور رہے سہے جو بلدیاتی انتخابات ہوئے بھی اس کا احوال بھی کچھ اچھا نہ رہا، لفٹر خریدے گئے وہ ناقص۔ شہر میں کیمرے نصب کیے گئے وہ بھی ناقص۔ شہر میں پل گرنے کا کوئی احتساب نہ ہوا، شہر کی پانی کی پائپ لائنیں خراب ہو چکی ہیں، گٹر لائنیں چوک ہو چکی ہیں، حیدر آباد کی اسٹیشن روڈ بالکل برباد ہوچکی ہے کیونکہ شہری ترقی، صفائی ستھرائی کا نہ کوئی ذمے دار ہے اور نہ کوئی جوابدہ۔

برسات اب قریب ہے، پھوار پڑ بھی رہی ہے، دن میں کئی بار ہوائیں رخ بدلتی ہیں مگر زیادہ دیر کے لیے نہیں۔ آیندہ چند ہفتوں میں ایسا بھی ہے کہ مون سون کی ہوائیں اپنے دوش پر مشکیزہ لے کر چلیں اور پورا ملک آب آب ہو جائے۔ زمینیں آباد ہو جائیں۔ زمین میں چھپے مینڈک شور مچائیں، تتلیاں، ٹڈیاں، پھول، پودے جھوم اٹھیں مٹھی کی مٹی جو بوند بوند کو ترستی ہے اس کا چہرہ نکھر آئے مگر ہماری نااہلی کی بنا پر کہیں ایسا نہ ہو کہ سیلاب چلے اور وہ پانی جو بند میں بندھا ہونا چاہیے تھا وہ بستیاں تاراج کر کے سمندر میں چلا جائے۔

اس موقعے پر ایک اہم مسئلہ جو کراچی کو درپیش ہے اس کو یاد دلاتا چلوں کہ کراچی میں لیاری ایکسپریس کا منصوبہ جس کا بڑا شور مچا تھا آخر کار اس پر عملدرآمد ہو گیا سڑکیں بن گئیں مگر ہنوز آباد نہیں مگر اس منصوبے نے لیاری ندی کے بہاؤ پر گہرے زخم لگائے ہیں ندی ملبے کے ڈھیر بن گئی ہے کناروں پر آبادی کا پھیلاؤ بہار کالونی سے لے کر سہراب گوٹھ، حسن اسکوائر جس کا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے جو کچھ کراچی میں 30 جون 1977ء کو ہوا تھا دس بارہ گھنٹے مسلسل تیز بارش ہوئی اور رات کو ملیر ندی کے کناروں پر آبادی رات کو بہہ گئی۰ وہاں سے لے کر ریکسل کا علاقہ، لیاری ندی، دھوبی گھاٹ کا علاقہ اتفاق کی بات ہے مجھے ایک شخص جو اس بہاؤ سے بچ گیا مگر سارا گھر بہہ گیا اس نے بتایا کہ لسبیلہ پل کے ایک سے 2 فٹ پانی چل رہا تھا۔

بہار کالونی، مسان روڈ، ڈرگ روڈ سے لوگ ڈوب کر ہلاک ہوئے، مرنے والوں کی تعداد 2500  کے لگ بھگ تھی 30 جون کی وہ رات ان پہ بھاری تھی زمین کے اوپر سے پانی جگہ جگہ نکل رہا تھا جب کہ لیاری ندی ملبے سے پٹ چکی ہے تو اس کا اب کیا حال ہو گا کہ نکاسی آب کا عمل کیسے ہو گا اگر تیز برسات ہوئی اور دیر تک تو شہر کون سا سماں پیش کرے گا۔ اتفاق کی بات ہے ممبئی میں 30 جون 1977ء لگا تار 24 گھنٹے بارش ہوئی وہاں کراچی کے مقابلے میں نکاسی آب بہت بہتر ہے مگر وہاں بھی ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنے۔

معہ برادران، فرزندان و دختران

$
0
0

ہمارے ملک میں اسمبلیوں کے اندر اور اسمبلیوں کے باہر حکمرانوں پر سخت تنقید تو ہوتی ہے لیکن چونکہ یہ تنقید حکمرانوں کی بد عنوانیوں کی تفصیل اور لوٹ مار کے حقائق کے بغیر ایک رسمی سی تنقید ہوتی ہے جس کی وجہ سے عوام اس کا نوٹس سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مثلاً حکمرانوں پر اربوں روپوں کی لوٹ مار کے الزامات تو لگائے جاتے ہیں لیکن اس لوٹ مار کی تفصیلات اور مستند حوالے نہیں دیے جاتے اس لیے نہ عوام پر اس کا کوئی خاص اثر ہوتا ہے نہ  خواص ہی ان الزامات کا سنجیدگی سے جائزہ لیتے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ الزامات کو صحیح ثابت کرنے اور عوام میں اس کے خلاف رد عمل پیدا کرنے کے لیے لوٹ مار، بد عنوانیوں کے مستند اعداد و شمار حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، چونکہ سیاسی اشرافیہ اور حکمران طبقات اب یہ دھندے غیر معمولی احتیاط، مکمل رازداری اور ممکنہ تحفظات کے ساتھ کر رہے ہیں اس لیے لوٹ مار کی ان وارداتوں کے ثبوت حاصل کرنے کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی ہے، بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس فرینڈلی تنقید اور الزام تراشی کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ چونکہ تنقید کرنے اور حکومت پر الزام لگانے والوں کو یہ احساس بھی رہتا ہے کہ کل کلاں کو اگر وہ اقتدار میں آئیں تو پھر ان کو بھی با ثبوت الزامات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ہر رکن اسمبلی کو اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام کروانے کے لیے بجٹ سے کروڑوں روپے دیے جاتے ہیں، لیکن کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ ان بھاری رقوم کا استعمال کس طرح ہو رہا ہے، کتنا روپیہ ترقیاتی کاموں پر لگایا جا رہا ہے کتنی رقم بد عنوانیوں کا شکار ہو رہی ہے۔ مرکز اور صوبوں کے بجٹ میں اربوں روپے مختلف ترقیاتی پروگراموں کے لیے مخصوص کیے جاتے ہیں لیکن ان کے غلط یا صحیح استعمال کا کسی کو کچھ پتہ نہیں چلتا جو لوگ ان خطیر رقومات کا ترقیاتی استعمال کرتے ہیں اگر وہ حکومت کو اس کی تفصیلات سے آگاہ بھی کرتے ہیں تو اس کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا کہ ان کی فراہم کردہ تفصیلات درست ہیں یا غلط۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی بینک اور ترقی یافتہ ملکوں کی طرف سے قرضوں اور امداد کی شکل میں اربوں ڈالر ملتے ہیں، لیکن کیا یہ اربوں ڈالر کا استعمال درست ہو رہا ہے؟ اس کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔

اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان اربوں ڈالر کے استعمال کے حوالے سے ہمارے پاس کوئی کڑا غیر جانبدار بے خوف ہر قسم کے دبائو سے آزاد مانیٹرنگ نظام سرے سے موجود نہیں جو نام نہاد سسٹم موجود ہے ان میں چونکہ اسی طبقے کے لوگ شامل ہوتے ہیں لہٰذا یہ سسٹم کرپشن کو روک تو نہیں سکتا البتہ اسے تحفظ ضرور فراہم کر سکتا ہے۔ ایک تازہ مثال اس حوالے سے یہ دی جا سکتی ہے کہ ہمارے برادر ملک سعودی عرب نے از راہ عنایت ہمیں ڈیڑھ ارب ڈالر بطور تحفہ عنایت کیے جو متنازعہ ہونے کے باوجود پاکستان کے خزانے میں آ گئے لیکن اس بھاری رقم کا استعمال اس طرح ہو رہا ہے کہاں ہو رہا ہے کون کر رہا ہے، اس کا کسی کو پتہ نہیں۔

حال ہی میں آئی ایم ایف سے اربوں ڈالر کے قرضوں کی قسطیں ملی نہیں لیکن یہ اربوں ڈالر کہاں خرچ ہو رہے ہیں اس کا بے چارے عوام کو کچھ پتہ نہیں، ہمارے محترم وزیر خزانہ نے یورو بانڈ کی فروخت سے بھی بھاری سرمایہ حاصل کیا لیکن اس کے خرچ کی تفصیلات سے عوام نا واقف ہیں۔ چین ہمارے ملک کے مختلف منصوبوں میں اربوں ڈالر لگا رہا ہے کیا اس کا استعمال شفاف ہو رہا ہے؟ اس قسم کے سوالات اس لیے اٹھ رہے ہیں کہ ان کھربوں ڈالر کے استعمال کی مانیٹرنگ کے لیے ہمارے ملک میں کوئی با اختیار آزاد اور غیر جانبدار ادارہ موجود نہیں جو نام نہاد ادارے موجود ہیں ان پر عوام قطعی اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں۔

یہ مسئلہ صرف ہمارے ہی ملک کا نہیں بلکہ تمام ترقی پذیر ملکوں میں ایسی ہی اربوں ڈالر کی کھلی لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے اس کی ایک ظاہری وجہ تو یہی ہے کہ کسی ملک میں آزاد اور با اختیار مانیٹرنگ سسٹم موجود نہیں اس کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم جس نظام میں زندہ ہیں اس کے خمیر ہی میں کرپشن شامل ہے، قرض اور امداد کی ابتدا سے خرچ اور استعمال تک ہر جگہ ہر قدم پر کرپشن موجود ہے اور اس کی گہرائی اور گیرائی کا عالم یہ ہے کہ کوئی ملک کوئی حکمران کوئی سیاسی ایلیٹ اس لوٹ مار سے بچی ہوئی نہیں جس طرف آنکھ اٹھائیں تیری تصویر ہے۔

اس حوالے سے ہم ایک اور دلچسپ پہلو کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں ہمارے ملک کا شاید ہی کوئی ایسا قومی ادارہ ہو جس پر اربوں روپوں کی کرپشن کے الزامات نہ ہوں ایک ادارے کے سربراہ پر 86 ارب روپوں کی کرپشن کا الزام لگا اور میڈیا میں یہ خبریں بھی آئیں کہ اس شخص کو ملک کی رولنگ پارٹی کے ایک معتبر عوامی رہنما نے ملک سے فرار کرایا۔ بڑی مشکلوں سے بڑی مدت کے بعداسے عرب امارات سے گرفتار کر کے ملک میں لایا گیا۔ اب اس کا کیس چل رہا ہے، بندہ مذکور ضمانت پر ہے۔ ہماری عدلیہ 2007ء کے بعد آزاد ہو گئی ہے جس کا مشاہدہ پاکستان کے عوام قدم قدم پر کر رہے ہیں لیکن ہم اپنی اس نا اہلی کو تسلیم کرنے میں ذرا برابر شرم محسوس نہیں کرتے کہ ہم اس کے مفہوم سے نابلد ہیں۔کوئی ایسی مہم چلائی جانی چاہیے تاکہ ہمیں بھی اس کا مفہوم و معنی معلوم ہو سکے۔

ہماری سیاسی ایلیٹ اور جمہوری بادشاہ اپنے اقتدار کو موروثی بنانے کے لیے کیسی کیسی شاندار ترکیبیں استعمال کر رہے ہیں اس پر خواص کی نظر بھی نہیں جا رہی ہے بے چارے عوام بادشاہوں اور ان کے ولی عہدوں کے کارناموں پر عش عش کر رہے ہیں عوام کی دولت بیرونی امداد اور مالیاتی اداروں سے جو اربوں ڈالر مل رہے ہیں ان سے اربوں روپوں کے پروجیکٹ شروع کیے جا رہے ہیں لیکن ان پروجیکٹوں کے فیتے ہمارے جمہوری بادشاہوں کی آل اولاد کاٹ کر ان پروجیکٹوں کو اپنے نام کر رہی ہے اور اپنے ناموں کی تختیاں لگوا رہی ہے۔

یعنی ’’حلوائی کی دکان پر دادا جی کا فاتحہ‘‘ حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ان پروجیکٹوں پر ان عوام دوست زندہ اور مرحوم لوگوں کے نام کی تختیاں لگتیں جنھوں نے اپنی ساری زندگی اس استحصالی نظام کو بدلنے کی جد و جہد میں گزار دی تو شاعروں، ادیبوں، دانشوروں کے ناموں کی تختیاں لگتیں۔ جمہوری بادشاہوں نے حصول دولت کے جو نئے نئے طریقے ایجاد کیے ہیں کہا جا رہا ہے کہ ان میں ایک محفوظ طریقہ یہ ہے کہ بیرونی ملکوں کے دوروں کے دوران نجی کاروبار کے اربوں ڈالر کے منصوبوں کو بھی فائنل کیا جا رہا ہے جس کی کسی کو ہوا لگنے نہیں دی جا رہی ہے۔جب غیر ملکی حکمران ہمارے حکمرانوں کو سرکاری دورے کی دعوت دیتے ہیں تو کیا دعوت نامے میں ’’حکمران معہ برادران، فرزندان و دختران‘‘ بھی لکھتے ہیں۔؟

غلطیوں کا ازالہ صرف معافی سے ممکن

$
0
0

جیو اور جنگ کی مینجمنٹ اور اس سے منسلک اپنے آپ کو اعلیٰ درجے کا دانشور سمجھنے والے چند مخصوص اینکرز اور تجزیہ نگار حضرات اپنے ساتھ ہونیوالے شدید عوامی ردعمل اور برتاؤ پر گریہ، آہ و بکا اور غیر مدلل چیخ و پکار کرنے کے بجائے ’’میڈیا کی آزادی اور باخبر ذرایع‘‘ جیسے استثنا اور استحقاق لیے ہوئے لفظوں کی آر میں ماضی بعید اور ماضی قریب مین معزز اشخاص اور اداروں کو رسوا اور بے عزت کرنیوالے رویے کا ادراک کریں اور احساس کریں کہ کس طرح ان کی غفلت اور غیر ذمے دارانہ تجزیاتی انداز نے صرف الزامات اور اپنی ذاتی پسند و ناپسند کے معیار پر قائم متعصبانہ Perception کے ہتھیار سے کتنے لوگوں کے عزت و وقار کو مجروح کیا۔ کتنے لوگوں کو ان کے جرم ثابت کیے بغیر قوم کے سامنے مجرم بناکر پیش کردیا۔

اسی کا شہر، وہی مدعی وہی منصف

ہمیں یقین تھا ہمارا قصور نکلے گا

دولت، شہرت اور فرمانبردار افرادی قوت کا ہمیشہ سے ہی یہ خاصا رہا ہے کہ یہ جب کسی ادارے کو حاصل ہو جائے تو وہ اس زعم میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ ’’وہ اب سب کچھ کرسکتا ہے‘‘ مگر نہیں ایسا کچھ نہیں ہوتا چونکہ ایک انسان دولت، شہرت اور افرادی قوت کی بنیاد پر ’’بہت کچھ کرسکتا ہے مگر سب کچھ نہیں کرسکتا۔‘‘اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا رونا رونے کے بجائے اپنی غلطیوں کا صدق دل اور کھلے ذہن سے تجزیہ کیجیے پچھلے دس بارہ سالوں میں اپنائی جانیوالی روش کا جائزہ لیجیے۔سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لیجیے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ادارے کا رویہ انتہائی متعصبانہ نہیں رہا؟ حزب اختلاف کا دور ہو یا حزب اقتدار کا دور ملک کی سب سے بڑی پارٹی کی کردار کشی کرنے اسے رسوا کرنے اور اسے بدنام کرنے کی باقاعدہ عملی اور ابلاغی جدوجہد نہیں کی گئی؟

کیا محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی عظیم قائد اور ان کے شوہر سابق صدر آصف علی زرداری کو بغیر کسی ثبوت کے ایک بدعنوان ترین شخص بناکر پیش کرنے کی کوشش نہیں کی گئی؟ کیا بالواسطہ طور پر انھیں میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی سازش میں شامل کرنے کی کوششوں کو تقویت دینے اور اس الزام کو ہوا دے کر عوام میں انھیں غیر مقبول بنانے کی مبالغہ آرائی نہیں کی گئی؟کیا میمو گیٹ کے معاملے پرسابق صدر آصف علی زرداری کو ’’غدار‘‘ قرار دلوانے کی شعوری کوشش نہیں کی، کیا منصور اعجاز کو ہر قیمت پر پاکستان آکر گواہی اور ثبوت فراہم کرنے کی یقین دہانیوں کی بھرپور کمپین نہیں چلائی گئی؟

19 جون 2012 کو اس وقت کے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کو بار بار یہ بات یاد نہیں دلوائی گئی کہ کروڑوں ووٹوں سے منتخب شدہ وزیر اعظم نے آپ کی توہین کی ہے اور اب ہر صورت انھیں توہین عدالت کا مجرم قرار دے کر عدالت عالیہ کا وقار بلند کیا جائے کیا یہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا؟ کیا اس ادارے نے کبھی اپنے اس انتہائی غیر ذمے دارانہ رویے اور برتاؤ کا تجزیہ کیا جس نے پیپلز پارٹی سے وابستہ کروڑوں افراد کے دلوں کو زخمی کردیا۔ کیا پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت جو ایک عظیم لیڈر کی شہادت کے نتیجے میں انھیں ملا تھا کیا۔کیا پچھلے پانچ سالوں میں کوئی ایک بھی تجزیاتی پروگرام ٹیلی کاسٹ کیا گیا جس میں پیپلز پارٹی کے عوامی بھلائی سے متعلق کسی اقدام یا کسی مثبت پہلو کو اجاگر کرنے کی خفیف سی کوشش کی ہو؟

ارسلان افتخار کے معاملے پر اپنا سارا وزن چیف جسٹس آف پاکستان کے پلڑے میں نہیں ڈالا؟

پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ ہونے کا اعزاز رکھنے کے باوجود ملکی تحفظ کے سب سے اعلیٰ ادارے کے خلاف ایسے بے بنیاد الزامات عائد کردیے جن الزامات کو عائد کرنے سے پہلے ہماری سالمیت کے دشمن بھی دس بار سوچتے ہیں۔ مگر افسوس صد افسوس کہ ایسے الزام عائد کرکے دشمن کے ایجنڈے کی تکمیل کردی اور ہماری انتہائی مشکل ترین حالات سے نبرد آزما پاکستان کی بقا کی جنگ میں مصروف عظیم فوج کو مزید مشکلات سے دوچار کردیا۔ عقل، دانش اور فہم مشکل حالات کو صبر حوصلے اور قربانی کے ساتھ نمٹنے کا سبق دیتی ہے۔

گواہ اور ثبوت کے بغیر الزام محض الزام رہتا ہے جو ہمیشہ الزام لگانے والے کے لیے رسوائی اور پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ معلومات سے متعلقہ ذمے دار ادارے ’’افواہ‘‘ کو کبھی بھی ’’خبر‘‘ کا درجہ دینے سے گریز کرتے ہیں۔ تدبر، فہم و فراست اور حقیقت کے متلاشی صاحب قلم لوگ ریٹنگ بڑھانے کے مقصد کے حصول کی خاطر اپنے قلم کی حرمت کو پامال نہیں ہونے دیتے وہ مبینہ سے ’’مصدقہ‘‘ کا کٹھن سفر طے کرکے ہی اپنے ملک و قوم کو حقیقت اور سچائی سے آشنا کرنے کا عظیم کام کرتے ہیں۔ ملک و قوم کی بقا اور ان کی فلاح اور بہبود کے لیے قائم کیے گئے آئینی اداروں کا نہ صرف تحفظ کرتے ہیں بلکہ ان کی آبیاری اور نشو و نما میں اپنی دانش اور شعور کو استعمال کرکے اپنا قومی فریضہ نبھاتے ہیں۔

میری دانست میں مصلحت حالات کا تقاضا ہے کہ ماضی میں کی ہوئی مجرمانہ انداز فکر سے دست بردار ہوکر قوم سے اور ملک کے جغرافیے کی حفاظت پر معمور قوم کے ان عظیم سپوتوں سے اپنی غلطیوں پر غیر مشروط معافی مانگی جائے اور اپنی ذہنی اور ابلاغی صلاحیتوں کو پاکستانی فوج کے امیج اور حوصلوں کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے۔ ان کے موقف کو سپورٹ کیا جائے اور قوم کو ان کے مسائل پر تنقید اور صرف تنقید کے بجائے ان کے مسائل کو حل کرنے کی تدابیر بتائی جائیں تاکہ قوم مایوسی کے اندھیروں سے نکل سکے۔

یاد کریں وہ وقت جب جنرل پرویز مشرف کے دور میں آپ کے ادارے کو بند کرنے کی کوشش کی گئی تو پوری پاکستانی قوم آپ کے ساتھ کھڑی تھی۔ اور وقت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ آج پوری قوم آپ کے اس ادارے کا بائی کاٹ کرکے ایسے بند کرنے کی خواہاں ہے۔ اب حکومت وقت کے سایہ تلے کسی ریلیف کی کوشش کرنے کے بجائے قوم سے معافی مانگیں اور اپنی پرانی مغرورانہ، ’’اور ہم سے بہتر کوئی نہیں‘‘ کے خود ساختہ اور پرفریب تصور سے باہر نکلیں۔ اور عوام کو اپنا ہم نوا بنائیں چونکہ جن لوگوں کے ساتھ قوم کھڑی ہو وہ ادارے نہ کبھی بند ہوتے ہیں اور نہ ہی کبھی ختم ہوتے ہیں ’’امن کی آشا‘‘ جیسے پروگرام ان ملکوں کے ساتھ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتے جو ہمیں مستقبل میں ’’پیاسا‘‘ اور ’’بھوکوں‘‘ مارنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوں۔

تجویز:- اداروں میں ایک دوسرے سے سیکھنے کا عمل قوم کے لیے ہمیشہ سود مند رہتا ہے مشورہ ہے کہ ’’ایکسپریس ٹی وی چینل‘‘ پر موجود جاوید چوہدری ، معید پیرزادہ ، ایاز خان  جیسے فہم و فراست کے مالک اینکر حضرات سے ’’ٹی وی ٹاک شوز‘‘ کو نشر کرنے کے سلیقے سیکھیے تاکہ مستقبل میں آپ کے ادارے کو ایسی صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ میری اس رائے کو منفی نہیں مثبت انداز میں لیجیے گا۔

انتخابی دھاندلیاں کب تک؟

$
0
0

وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ جہاں جیت جائیں وہاں انتخابات منصفانہ قرار دیے جاتے ہیں اور جہاں ہار جائیں وہاں انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگا کر احتجاج شروع کیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم نے یہ بات تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے حالیہ بیانات کے جواب میں کہیں کہ جو عام انتخابات گزرنے کے ایک سال بعد بھی عام انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات عاید کرنے میں مصروف ہیں اور چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔

سپریم کورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ سیاستدان دھاندلی والے حلقوں میں الیکشن ٹریبونلز کو فیصلے نہیں کرنے دے رہے اور فیصلوں کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کرکے وقت ضایع کر رہے ہیں۔ کہیں دوبارہ گنتی کے فیصلے کو چیلنج کردیا جاتا ہے تو کہیں انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کا عمل رکوا دیا جاتا ہے۔

گزشتہ سال ہونے والے عام انتخابات پر اعتراضات ایک سال بعد بھی جاری ہیں اور اس سلسلے میں عمران خان پیش پیش ہیں۔ ملک بھر میں عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کے معاملات الیکشن ٹریبونلز میں زیر سماعت ہیں اور جن حلقوں میں دوبارہ گنتی کا عمل مکمل ہوا ہے وہاں ووٹوں کے تھیلے ہی مکمل نہیں پائے گئے اور بعض پولنگ اسٹیشنوں کے ووٹوں کے تھیلے ہی غائب کردیے گئے ہیں جس سے کامیاب امیدوار کی کامیابی ویسے ہی مشکوک ہوجاتی ہے مگر بعض ریٹرننگ افسران نے تھیلے غائب ہونے کو اہمیت نہیں دی اور تھیلے غائب ہونے کی رپورٹ الیکشن کمیشن کو دے کر کامیاب امیدوار کی جعلی کامیابی کا نوٹیفکیشن منسوخ کرایا۔

حال ہی میں حلقہ NA-202 شکار پور کے 21 پولنگ اسٹیشنوں پر سپریم کورٹ کے حکم پر دوبارہ پولنگ ہوئی اور پولنگ کے دوران پیپلز پارٹی کی طرف سے ابراہیم جتوئی پر دھاندلی اور پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے کے الزام عاید کیے جاتے رہے اور ری پولنگ کے ٹی وی پر آنے والے نتائج میں ابراہیم جتوئی کو دوبارہ کامیاب ہوتے ہوئے بتایا گیا مگر رات کو پی پی کے آفتاب میرانی جو بری طرح ہار رہے تھے کامیاب قرار دے دیے گئے۔

یہی کچھ اس حلقے میں 2008 کے الیکشن میں بھی ہوا تھا جہاں پہلے ابراہیم جتوئی کامیاب ہوئے اور ری پولنگ میں ہار گئے کیونکہ ری پولنگ دونوں بار پی پی کی سندھ حکومت میں ہوئی اور الزام لگایا گیا کہ تمام سرکاری وسائل آفتاب میرانی کے لیے استعمال ہوئے جس کے باوجود پی پی دھاندلی کے الزامات لگا رہی تھی اور اب ہارنے والے ڈاکٹر ابراہیم جتوئی سندھ حکومت پر دھاندلی کے الزامات لگا رہے ہیں۔

انتخابی دھاندلیوں کی ایک مثال حلقہ پی پی 256 مظفر گڑھ کی ہے جہاں 11 مئی کی رات تک آزاد امیدوار چوہدری عامر کرامت جیت رہے تھے مگر صبح (ن)لیگ کے امیدوار کی کامیابی ظاہر کی گئی جس کے بعد چوہدری عامر کی درخواست پر پورے حلقے میں دوبارہ گنتی کی درخواست پر الیکشن ٹریبونل بھاولپور نے 14 پولنگ اسٹیشنوں کے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لیے ایک کمیشن ریٹائرڈ سیشن جج کی سربراہی میں بنایا تو دو پولنگ اسٹیشنوں کے تھیلے ہی غائب تھے اور سات تھیلوں کی سرکاری سیل ٹوٹی ہوئی تھی اور دوبارہ گنتی میں چوہدری عامر کرامت کے 165 ووٹ بھی زیادہ نکلے مگر کمیشن کے سربراہ نے رپورٹ الیکشن ٹریبونل کو نہیں بھیجی اور چوہدری عامر کی اپیل مسترد کردی گئی جس کے خلاف وہ اب سپریم کورٹ جا رہے ہیں۔

14 پولنگ اسٹیشنوں کی دوبارہ گنتی میں ووٹوں کے دو تھیلے غائب اور سات تھیلوں کی سیل ٹوٹی ہوئی ملنے کے بعد سرکاری امیدواروں کی کامیابی سوالیہ نشان بن جاتی ہے مگر الیکشن ٹریبونل کوئی کارروائی کرنے سے قاصر رہا جو دھاندلی کا واضح ثبوت ہے۔

جمہوریت کے لیے عام انتخابات کرائے جاتے ہیں مگر ابتدا ہی غلط حلقہ بندیوں سے ہوتی ہے۔ مخالفین کے ووٹ انتخابی فہرستوں سے خارج اور اپنے لوگوں کے جعلی ووٹ درج کرائے جاتے ہیں دوسرے علاقوں میں رہنے والوں کے ووٹ متوقع امیدوار اپنے حلقوں میں درج کروا کر دھاندلی کی راہ اختیار کرتا ہے۔ مرضی کے علاقوں میں پولنگ اسٹیشن بنوائے اور مرضی کا انتخابی عملہ وہاں تعینات کرایا جاتا ہے اور اس طرح پولنگ سے قبل ہی آدھی کامیابی حاصل کرلی جاتی ہے۔ پولنگ میں جعلی ووٹ ڈلوائے جاتے ہیں۔ انتخابی عملے کی ملی بھگت سے مخالفین کو ووٹ ڈالنے کا موقع نہیں دیا جاتا یا ان کے ووٹ بعد میں مسترد کرا دیے جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں مسترد ووٹوں کا نیا ریکارڈ قائم ہوا جس کی وجہ سے جیتنے والے ہار گئے اور ہارنے والے جیت گئے۔ پولنگ اسٹیشنوں پر قبضوں، مخالف پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکلوا دینے، فائرنگ و ہنگامے کرواکر اپنے حامیوں کی جعلی ووٹنگ ڈلوانا، ووٹ خریدنا اب کوئی نئی بات نہیں بلکہ دھاندلیوں کے جدید طریقے بھی اختیار ہونے لگے ہیں اور پریزائیڈنگ افسروں اور ریٹرننگ افسروں کے ذریعے الیکشن کے نتائج تبدیل کرائے جاتے ہیں اور الیکشن ہی چوری کرادیا جاتا ہے اور جس کا جہاں بس چلتا ہے وہاں دھاندلی کراکر کامیابی حاصل کرلی جاتی ہے۔

پریزائیڈنگ افسروں سے مرضی کے نتائج حاصل کرکے کامیابی حاصل کرلی جاتی ہے اور راتوں رات وہ کچھ ہوجاتا ہے جس کا حقیقی جمہوری ملک میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ 2013 کے الیکشن میں غیر متنازعہ شخصیت چیف الیکشن کمشنر تھی مگر دھاندلیوں کی جس قدر زائد شکایات گزشتہ سال ہوئیں اتنی ماضی میں کبھی نہیں ہوئیں اور تقریباً ہر پارٹی نے دھاندلیوں کے الزامات لگائے اور یہ سلسلہ ایک سال بعد بھی جاری ہے۔

وزیر اعظم کا یہ کہنا درست ہے کہ جہاں پارٹیاں خود جیتیں وہاں دھاندلی کے الزام نہیں لگتے جہاں ہاریں وہاں دھاندلی کی بات کی جاتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جمہوریت کے دعویدار پاکستان میں اپنی شکست کو بہت کم تسلیم کرتے ہیں اور کامیاب ہونے والا اپنی کامیابی حقیقی سمجھتا ہے۔ انتخابی دھاندلیاں روکنے کے لیے سیاسی جماعتیں خود مخلص نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن کو بااختیار نہیں بنایا جاتا۔ عدلیہ کے ریٹرننگ افسر بھی اب قابل اعتماد نہیں رہے۔

ہر پارٹی میں سرکاری ملازمین کی بھرمار ہے جو انتخابی عمل میں جانبدار ہوکر اپنے اپنے امیدواروں کے لیے دھاندلی کرتے اور کراتے ہیں۔ انتخابی ضابطہ اخلاق پر عمل نہیں ہوتا۔ نگراں حکومتیں خود جانبدار ہوتی ہیں تو منصفانہ انتخابات کیسے ممکن ہوسکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ 1970 کے علاوہ ہر عام انتخابات پر انگلیاں اٹھتی آ رہی ہیں اور مایوس عوام کا اعتبار الیکشن سے اٹھتا جا رہا ہے گزشتہ سال ٹرن آؤٹ جتنا زیادہ تھا شکایتیں بھی اتنی ہی زیادہ ہوئیں تو سب پارٹیاں مل کر انتخابی دھاندلیاں روکنے کے لیے متحد ہوکر کوئی لائحہ عمل کیوں اختیار نہیں کرتیں؟

ملکہ کا خواب

$
0
0

ملکہ کا لفظ دیکھ کر آپ کے ذہن میں ’’ملکہ ترنم‘‘ کا خیال آیا ہوگا۔ جی نہیں وہ تو سریلے پن کی ملکہ تھیں جو قصور میں پیدا ہوئیں اور جس کا نام اﷲ وسائی تھا۔ ان ہی کی ایک ہم نام نور جہاں تھیں جو جہانگیر کی ملکہ رہ چکی ہیں اور جن کا مقبرہ لاہور میں ہے۔ جہانگیر جب شہزادہ سلیم تھے تو ان کی بے باکی نے انارکلی کے دل میں ملکہ بننے کا خواب جگایا۔ وہ سپنا بکھر گیا۔ ان ہی بکھرتے خوابوں کی آج ہم بات کررہے ہیں جو خوب صورت، ذہین اور بادشاہوں کے قریب رہنے والی نوجوان خواتین نے جاگتی آنکھوں سے دیکھے ۔ یقین جانیں ملکہ کا خواب تو ایک بہانہ ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ آج انسانوں اور خاندانوں کے عروج و زوال پر گفتگو کرنی ہے۔

ملکہ زبیدہ ہارون الرشید کی ملکہ تھیں۔ ان کے اپنے ذاتی خواب تو پورے ہوگئے لیکن وہ اپنے بیٹے امین الرشید کو خلیفہ نہ بنا سکیں۔ اسی طرح جیسے نور جہاں اپنے سگے بیٹے کو بادشاہ نہ بناسکیں۔ مامون الرشید اور شاہ جہاں اپنی اپنی مشہور مائوں کے معروف سوتیلے بیٹے تھے۔ ان دونوں کی مائیں تو ہارون اور جہانگیر کی محبوب ملکائیں تھیں لیکن یہ دونوں اپنی اپنی سوتیلی مائوں کے خوابوں کو چکنا چور کرکے اقتدار کی مسند تک بیٹھ ہی گئے۔

شہنشاہ ایران کا نام بہت کم نوجوانوں نے سنا ہوگا۔ جب ایران کے نوجوان اب اپنے بادشاہ سے اتنے زیادہ واقف نہیں تو  پاکستانی طالب علموں سے کیا تقاضا کرنا۔ جب ان کی اکثریت  ناہید مرزا کو نہیں جانتی تو انھیں ملکہ فرح پہلوی کی کیا خبر ہوگی، شاہ ایران کی وہ ملکہ جس نے تخت کو وارث عطا کیا تھا۔ رضا شاہ نے دوسری شادی بھی اسی لیے کی تھی خوش حال ملک کے طاقت ور بادشاہ کے بیٹے کی کس شاندار انداز میں پرورش ہوئی ہوگی، کس طرح شہزادے کو امور سلطنت سنبھالنے کی تربیت دی گئی ہوگی۔ شاندار اساتذہ اور اعلیٰ ترین درسگاہیں شہزادے کو برطانیہ اور جاپان بھجوایا گیا، مقصد یہ تھا کہ وہ صدیوں پرانی بادشاہتوں کے رسوم و رواج سے واقف ہوجائیں۔

رضا شاہ پہلوی خود بھی ڈھائی ہزار سالہ ثقافت کے علم بردار تھے۔ چودہ سو سال پہلے کے حجاز و نجد سے رشتہ جوڑنے کے بجائے انھیں اس سے ایک صدی قبل کی تہذیب پسند تھی۔ فارس، وکسریٰ کی تہذیب۔ جب شہزادہ امور مملکت کو سنبھالنے اور فرح پہلوی مادر ملکہ بننے کو تیار ہوئیں تو ایران میں خمینی انقلاب آگیا۔ ایک ماہ قبل بھی امریکی دانشور کہتے تھے کہ کچھ نہ ہوگا۔ یوں بڑی مشکل سے مصر کے صدر انوارالسادات نے شاہی خاندان کو پناہ دی کہ مستقبل کا ’’بادشاہ‘‘ ان کا داماد تھا۔ یہ تھا ملکہ فرح پہلوی کا خواب جو ایران میں آنے والے انقلاب کی ٹھوکر سے بکھر کر رہ گیا، صدر سادات کی بیٹی کا سوچیں جو مصر و ایران کی بیک وقت ملکہ بننے کے خواب دیکھ رہی تھیں۔

ہندوستان کی نور جہاں اور بغداد کی زبیدہ کے خوابوں سے ہوتے ہوئے ہم فارس کی ملکہ فرح کی بات کرچکے ہیں۔ اب ایک بار پھر ہندوستان میں چلتے ہیں اور وہاں سے پاکستان کی جانب آئیںگے۔ نئے زمانے کی نہ کوئی ملکہ ہے اور نہ برصغیر میں بظاہر کوئی شہزادے ۔ آج کل مغلیہ خاندان تو نہیں لیکن برسر اقتدار طبقے کے لوگ بالکل شاہی خاندانوں کے سے انداز سے اٹھتے بیٹھتے ہیں، چلتے پھرتے ہیں اور کھاتے پیتے ہیں۔ ابن خلدون نے کہا تھا قومیں(اور خاندان) انسانوں کی طرح ہوتی ہیں۔ ان پر بچپن، جوانی اور بڑھاپے کے بعد موت آتی ہے، ہم برصغیر کے چند بڑے سیاسی خاندانوں کی بات کرتے ہیں۔ ہندوستان کے نہرو اور پاکستان کے بھٹو و شریف خاندان موجودہ دور پر گفتگو سے پہلے آیئے مغلیہ خاندان کے آخری زمانے کو تاریخ کے جھروکے سے جھانکتے ہیں۔

شہزادہ فرخ کی عمر بیالیس سال تھی اور وہ بہادر شاہ ظفر کے ولی عہد تھے۔ بادشاہ نے 65 سال کی عمر میں شادی کی تو ملکہ زینت محل ان کی چہیتی قرار پائیں، شاید ملکہ کو زبیدہ اور نور جہاں کی تاریخ معلوم ہو، وہ باخبر ہوکر مامون الرشید شاہ جہاں جسے سوتیلے بیٹوں کی بدولت ان دونوں ملکائوں کے سگے بیٹے تخت و تاج سے محروم ہوچکے تھے۔ ہارون اور جہانگیر کی محبوب ہونے کے باوجود زبیدہ و نورجہاں اپنے سگے بیٹوں کو اقتدار نہ دلاسکیں۔ ملکہ زینت بیگم نے اپنے بیٹے جواں بخت کو ولی  عہد بنوایا اور شہزادہ فرخ کی بہادر شاہ ظفر نے چھٹی کروادی۔

یہ جلاوطنی اور محرومی اقتدار سے چند سال پہلے کی بات ہے۔ گیارہ سالہ ولی عہد کی شادی دس برس کی زمانی بیگم سے ہوگئی۔ سوچیں کہ اس چھوٹی سی شہزادی نے ملکہ بننے کے کیا کیا خواب نہ دیکھے ہوںگے۔ 1857 آیا اور جنگ آزادی لڑی گئی جسے انگریز غدر کہتے ہیں۔ مقدمے چلانے اور سزا سنانے کے بعد بیاسی برس کے بادشاہ کو رنگون میں جلا وطن کردیا گیا اس کے ساتھ بیس سالہ ولی عہد اور اس کی اٹھارہ سالہ بیوی یا مستقبل کی ملکہ بھی تھی۔ تاریخ نے شاید ہی کسی ملکہ کے سپنے اتنی بے دردی سے بکھیرے ہوںگے جس بے دردی سے زمانی بیگم کے خواب بکھیر دیے۔

دنیا میں پانچ بادشاہ رہ جائیںگے۔ چار تاش کے اور ایک برطانیہ کا۔ یہ بات کسی انگریز نے کہی ہے یہ اس حد تک سچ ہے کہ دنیا میں وراثتوں کا زمانہ جمہوری دور کے سبب گہنا تو گیا ہے لیکن کم یا ختم نہیں ہوا ۔ صرف انداز بدل گئے ہیں، برصغیر پاک و ہند میں سیاسی خاندان ووٹ کے ذریعے اقتدار میں آکر اپنی بادشاہتیں قائم کرتے ہیں، یہاں ملکہ عالیہ تو نہیں ہوتیں لیکن ’’خاتون اول‘‘ کی حیثیت ملکہ کی سی ہوتی ہے۔ برطانیہ اور امریکا میں فرسٹ لیڈی کی اہمیت اس کا واضح ثبوت ہے۔ جب ملتی جلتی بادشاہتیں ہیں، ملتے جلتے شاہی خاندان ہیں، ملتی جلتی وراثتیں ہیں تو ملتی جلتی ملکائیں بھی ہوںگی۔ جب سب کچھ ہوگا تو ملتے جلتے خواب بھی ہوںگے اور ان کا بکھرنا بھی ملتا جلتا ہی ہوگا۔ کس طرح؟ آیئے بھارت کے نہرو خاندان کی شاہی زندگی جھانکنے کے لیے نئی دہلی چلتے ہیں۔

اندرا گاندھی کا اقتدار سوا نیزے پر تھا۔ پاکستان ڈھاکہ کو کاٹ کر انھوں نے بڑی کامیابی حاصل کی تھی، ان کا بیٹا سنجے گاندھی ایک شہزادہ تھا اور اس کی بیوی مانیکا کی حیثیت مستقبل کی ملکہ جیسی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب راجیو گاندھی پائلٹ تھے اور ان کی اطالوی بیوی سونیا ایک گھریلو خاتون تھیں۔ اچانک سنجے گاندھی ایک ہوائی حادثے میں ہلاک ہو گئے، اندرا گاندھی کو تخت کی حفاظت کے لیے ایک وارث کی ضرورت تھی۔

پائلٹ راجیو نے اپنی فلائٹ کو ٹیک آف کیا اور ماں کے کہنے پر اپنا طیارہ دہلی کے سیاسی رن وے پر کھڑا کیا، سکھوں ’’گولڈن ٹیمپل‘‘ کی بے حرمتی کے بدلے میں اندرا کو ماردیا، راجیو نے ہمدردی کے وہ ووٹ لیے جو نہرو اور اندرا کو بھی نہ ملے تھے، اب جیٹھانی سونیا گاندھی ملکہ قرار پائیں اور شہزادہ راہول مستقبل کا بادشاہ، ملکہ بننے کا خواب تو دیورانی نے دیکھا تھا چھوٹی بہو، مانیکا کا سپنا بکھر گیا، انسانوں، خاندانوں اور قوموں کے اتار چڑھائو بالکل موسموں کی طرح ہوتے ہیں، کبھی گرمی و سردی تو کبھی بہار و خزاں۔

بھٹو کا اقتدار اپنے عروج پر تھا۔ آئین و ایٹمی پروگرام دے کر انھوں نے بڑی کامیابی حاصل کی تھی، لاڑکانے کے گھر نام ’’المرتضیٰ‘‘ اور 70 کلفٹن کا بنگلہ بڑے بیٹے کو دے کر وراثت کا اشارہ کیا، مرتصیٰ بھٹو نے غیر ملکی خاتون سے شادی کی تھی، غنویٰ بھی مستقبل کی ملکہ ہی تھیں، انتخابات میں دھاندلی کے الزام پر تحریک چلی اور بھٹو اقتدار و زندگی سے محروم ہوگئے، بے نظیر نے آئینی تو مرتضیٰ نے غیر آئینی جد وجہد کا راستہ چنا، یہ اہم ٹرننگ پوائنٹ تھا جس نے تاریخ کا رخ بدل دیا۔ بے نظیر اپریل 86 میں پاکستان آئیں، ڈھائی سالہ جد وجہد اور انتظار کا پھل ملا۔ بلاول ایک مقبول پارٹی کے چیئرمین جب کہ ذوالفقار جونیئر اور غنویٰ بھٹو کے خواب تقریباً بکھرچکے ہیں۔

بلاول ہوں یا راہول یا بڑے سیاسی خاندانوں کے ’’شہزادے‘‘، ان کی شریک حیات جو بھی ہوں وہ خاتون اول یا ملکہ بننے کے خواب دیکھیںگی۔ بے رحم تاریخ بتاتی ہے کہ کبھی تو ملکہ کا سپنا پورا ہوجاتا ہے لیکن اکثر ادھورا بھی رہ جاتا ہے ملکہ کا خواب۔

انتخابات اور بھارت

$
0
0

ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب بھارت میں الیکشن کی گہما گہمی کی شروعات ہوئی تھیں ایک مشہور بھارتی صحافی نے شنکر اچاریہ سے ایک سوال کیا تھا عوام کے سامنے نہ سہی لیکن ڈھیروں کیمروں کی زد میں شنکر جی اس سوال پر ایسے بھنائے کہ اس صحافی کے منہ پر ایک تھپڑ رسید کرڈالا، سوال یہ تھا کہ اگر نریندر مودی بھارت کے وزیر اعظم بن گئے تو آپ کیسا محسوس کریں گے؟

اس سوال کی تلخی اتنی شدید تھی کہ جواب دینے والے کا ہاتھ اٹھ گیا اور جواب دیا گیا کہ ایسا محسوس کروں گا۔۔۔۔ویسے تو یہ ان کے اپنے دل کی آواز تھی لیکن ساتھ ساتھ ایک صحافی کے منہ پر اس کار گزاری کی رپورٹ نے پورے ملک میں ان کے خلاف صدائیں بلند کروا دیں، یہ درست ہے کہ نریندر مودی کی تاریخ اور حال اتنا داغ دار ہے کہ مستقبل کا سوچ کر بھی جھرجھری سی ابھرتی ہے بہرحال شنکر جی کی حرکت غلط تھی۔

آنے والے وقتوں میں بھارت کا مستقبل کیا ہوسکتا ہے؟ یہ ایک گمبھیر سوال ہے اور اس کا جواب وہاں بسنے والے مسلمانوں کے لیے زیادہ تکلیف دہ ہے اس لیے کہ ہردوسری صورت ایک نئی شکل کے ساتھ بد سے بدتر نظر آرہی ہے ساتھ ساتھ پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر بھی شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں حالیہ کانگریس کی حکومت نے ایک ہاتھ میں شکر تو دوسرے ہاتھ میں خنجر والی مثال قائم کی تھی امن دوستی اور سکھ کی آشا کے سیلاب میں کیا کچھ ڈوب چکا ہے وہ سب کے سامنے ہے لیکن اس کے پیچھے پھر اسی مظلوم عوام کی تمنائیں، آرزوئیں اور ظالم پیٹ کا سوال ہے جو اب خود ایک سوالیہ نشان بن کر ہماری نظروں کے سامنے جھول رہا ہے چند مخصوص طبقوں کی خواہشات کیسے کیسے کھیل کھیلتی ہیں اور اس سے کتنے مظلوم بے گناہ اثرانداز ہوتے ہیں اب احساس ہو رہا ہے لیکن ان کے درد کی شدت کہیں بہت دور سسک رہی ہے اس پر بحث پھر کبھی سہی۔

بی جے پی پرانی کہانی کو عوام کے ذہنوں سے محو کرنے کی ازحد کوششیں کرچکی ہے لیکن اب تک تو محسوس یہ ہو رہا ہے کہ لوگ پرانے زخم بھولے نہیں ہیں ،2002 کے گجرات کے فسادات میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی تھی جس پر آواز اٹھانیوالے سہم کر کونوں کھدروں میں دبک کر بیٹھ گئے تھے لیکن ایک فرض شناس ہندو پولیس افسر نے ایسے میں اپنے فرائض کو یاد رکھا لیکن اسے اس کی ایمانداری مہنگی پڑی اور اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ یہ ایک ایسی حقیقی ڈرامائی آگ اور خون سے بھری کہانی تھی جس کا انت شاید اس بار ہوجائے اور تیسری بار بھی بے جے پی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔

لیکن جو اوپر والے نے لکھا ہوتا ہے وہ ہی ہوتا ہے 2000 میں ایک رپورٹ کیمطابق بھارت میں انتہا پسند ہندو تنظیموں کو باقاعدہ آتشیں اسلحے کی تربیت دی جانے لگی ہے، بجرنگ دل نامی بدنام تنظیم نے اپنے زہریلے مقاصد کے لیے باقاعدہ ایک فورس قائم کی تھی جس کا نام ’’خانگی فورس‘‘ تھا اس میں شامل ہونے والے ہندو نوجوانوں کو بندوق اور پستول چلانے کی مہارت دینے کا عزم کیا گیا۔ اس خبر کے بعد ہی بھارت میں اقلیتوں پر حملوں کا سلسلہ پھیل گیا، ان جنونیوں کے اقلیتوں پر حملوں کے خلاف اس وقت کی حکومت کو توجہ دلانے کے لیے ’’انسانی حقوق قومی کمیشن‘‘ قائم کیا گیا جس کی رپورٹ کے مطابق ’’کمیشن کو سالانہ پچاس ہزار شکایات موصول ہو رہی ہیں، صرف اپریل 99 سے مارچ 2000 تک کمیشن کو پچاس ہزار 634 شکایات موصول ہوئیں۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا عروج دیکھا گیا اور ان میں اترپردیش کی ریاست سر فہرست رہی جہاں سب سے زیادہ پولیس والوں کی ہلاکتیں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات رونما ہوئے، ان تمام واقعات میں وہ واقعات سرفہرست ہیں جو بجرنگ دل نے بی جے پی کی آشیرواد میں سرانجام دیے تھے، لیکن تیسری بار بھی الیکشن میں سینہ ٹھونک کر قدم رکھنے والے بی جے پی کی نظریں اب بھی وزارت کے اہم منصب پر ہیں وہ چاہتی ہے کہ انتخابات وہ جیتے، نریندر مودی جو پہلے مسلم اقلیت کو اس دھرتی کا بوجھ سمجھ کر اتار پھینکنا چاہتے تھے لیکن اب الیکشن کے حوالے سے اس حساسیت کو بخوبی جان چکے ہیں۔

مسلم فسادات میں اب تک جتنا نقصان مسلمان اٹھا چکے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے لیکن نریندر مودی 2002 کے گجرات کے واقعے پر نظریں پھیر لینے کا مذاق ظاہر کرکے عوام کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے وہ جان چکے ہیں کہ ووٹ کی گنتی کا اس اقلیت کی موجودگی اور پسندیدگی کا بہت اہم ہاتھ ہے لیکن وہ اپنی ذاتی رنجش اور انا کو بھلانے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں، کبھی ہاں کبھی ناں کی گردان انھیں آگے بڑھاتی نظر نہیں آتی۔

بھارت کی سیاست میں خواتین کا کردار بھی خاصا اہم نظر آتا ہے الیکشن میں آنے والے انتخابی حلقوں پر مقبولیت کا گراف دیکھتے شاید کہا جاسکتا ہے کہ خواتین بھی ماہر سیاستدانوں کی طرح اتار چڑھاؤ کے گر جان چکی ہیں لیکن اس بار نریندر مودی، راہول گاندھی اور اروند کیجری وال اہم منصب پر تیار بیٹھے ہیں 2009 کے الیکشن میں سونیا گاندھی کی پکی پکائی روٹی پر من موہن سنگھ نے حق جمالیا تھا اسے ان کی قسمت کا کرشمہ کہہ لیں یا سونیا گاندھی کی بدقسمتی لیکن اپنے پورے دور حکومت میں من موہن سنگھ نے جس رویے کو اختیار کر رکھا تھا شاید سونیا بی بی اس پر پورا اتر نہ سکتیں۔

اس لحاظ سے 2009 میں کانگریس کا فیصلہ صحیح ثابت ہوا لیکن اب ماں کے مقام پر نوجوان راہول گاندھی آچکے ہیں، حالانکہ یہ سونیا گاندھی ہی تھیں جنھوں نے کانگریس کی ڈوبتی ناؤ کو سہارا دے کر قابل کیا تھا جس نے انتہائی تیزی سے بلندی کی جانب سفر کیا اور حکومت کی کمان سنبھال لی لیکن اب راہول گاندھی اپنی والدہ کی محنتوں کا ثمر پانا چاہتے ہیں، اندرا گاندھی کے دونوں صاحبزادے جن حالات میں دنیا سے رخصت ہوئے تھے اس نے ان کی بیگمات کو کسی نہ کسی حوالے سے سیاسی میدان میں اترنے کے لیے راضی کر ہی لیا۔

سونیا کی کانگریس اور مانیکا گاندھی کی بی جے پی میں شمولیت نے واضح کر دیا تھا کہ دونوں خواتین کی سوچ اور نظریوں میں کتنا تضاد ہے، ورون گاندھی نے ایک انتخابی جلسے میں جس انداز سے مسلمانوں کی دل آزاری کی تھی اس نے اس بات کا پول کھول دیا کہ موصوف کے عزائم بھارت کے ایک بڑے اقلیتی عنصر کے بارے میں کیا ہیں یوں 2009 میں ہی ورون گاندھی پورے ملک میں اس حوالے سے خاصے بدنام ہوگئے۔ اور بی جے پی اندرا گاندھی کی فیملی سپورٹ کے باوجود جیت نہ سکتی تھی۔

ایک کے بعد ایک شکست نے بی جے پی کے بھڑکتے جذبوں کو سرد نہ کیا اور اب تیسری بار بھی وہ بہت کچھ سوچ کر میدان میں اترے تو ہیں۔ نریندر مودی ایک ایسی متنازعہ شخصیت بن چکے ہیں جن کا داغ دار دامن مشرق سے لے کر مغرب تک اپنی بدنام کہانیوں کے باعث خاصا مشہور ہے لیکن سیاست کا چسکا کرسی کا نشہ سب کچھ بھلا کر آگے اور بہت آگے جانے کی دوڑ میں کھڑا کر دیتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات بھارت کے 2014 کے الیکشن کے بعد کس جانب رخ کرتے ہیں کیا وہ تمام مبصرین کی رائے کے برخلاف خوش دلی سے دوستی کا ہاتھ بڑھائیں گے۔ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی بات کریں گے۔ مسلمان اقلیتی فرقے کو اس کا جائز حق دلائیں گے۔ بہت بڑے اور بھاری سوالات ہیں اور جواب؟


زندوں میں کیا شمار کروں۔۔۔۔۔

$
0
0

پاکستان اسلام کا قلعہ ہے، اسلام کا گہوارہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ آج کل پاکستان میں یہ تاثر اس برق رفتاری سے چھا رہا ہے کہ کیا ماضی میں ’’نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاک کاشغر‘‘پھیلا ہوگا۔ ہر شخص کی شلوار یا پتلون ٹخنوں سے اوپر اورداڑھی بڑھ گئی،خواتین کی اکثریت جب اسکارف اور عبایا میں ملبوس نظر آنے لگی تو ہم خوش ہوگئے کہ اللہ کا بڑا احسان اور شکر ہے کہ ہمارے علمائے دین اور مذہبی جماعتوں کا دیرینہ مطالبہ الحمد للہ پورا ہوگیا اور مملکت خداداد میں اسلامی نظام مکمل طور پر رائج ہوگیا ہے۔ مگر خدا سمجھے ذرایع ابلاغ کو ہمیشہ حقیقت کے دشمن بنے رہتے ہیں۔

ہر امید پر پانی پھیرنا اور ہر خوش فہمی کو غلط فہمی قرار دینا گویا ان کا فرض اولین ہے۔ اخبارات پر نظر پڑی تو مساجد،گرجا، امام بارگاہوں میں بم دھماکے، نماز جنازہ پر خودکش حملوں اور خواتین ہی نہیں بلکہ معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی، نوجوانوں اور ننھے بچوں کا اغوا کے علاوہ بھتہ خوری اور قتل عام کی خبروں سے بھرے ہوئے تھے۔ ہم حیران کہ اسلامی نظام حکومت میں تو ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ اسلام تو خواتین کی عزت اور حفاظت کی ذمے داری مردوں پر عائد کرتا ہے، قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ’’ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے‘‘ پھر آخر یہ سب کیا ہے؟ شاید یہ خبریں کسی اور ملک بلکہ کافر ملک کی ہوں گی۔ چنانچہ دوبارہ اخبار اٹھایا بغور پڑھا۔

ارے یہ تو لاہور کی خبر ہے، اور یہ شیخوپورہ کی، یہ کراچی کی، کچھ پنڈی و اسلام آباد اور خیبرپختونخوا  کی مگر یہ سب علاقے تو ہمارے اپنے پاکستان کے ہیں۔ پھر ہمیں یاد آیا کہ ہماری کلاس میں ایک مذہبی گھرانے کے صاحبزادے کو خلفائے راشدین کے نام بھی ترتیب سے یاد نہ تھے، اس کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ پہلا غزوہ بدر تھا یا احد۔ ارے ہاں  یاد آیا کہ ایک دن ٹی وی پر ایک ٹاک شو میں ایک مولوی صاحب بڑے جوش و خروش سے نظام اسلام کے نفاذ پر گفتگو فرماتے ہوئے یہود و ہنود کو للکار رہے تھے انھوں نے جوش خطابت میں فرمایاکہ ہم غزوہ بھارت لڑنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ ہم بری طرح چونک گئے کہ غزوہ اور اب؟ عالم صاحب کے لیے تو ہم سمجھ گئے کہ جوش خطابت میں زبان لڑکھڑا گئی ہوگی۔

مگر اینکر کو کیا ہوا کہ حضرت سے پوچھا تک نہیں کہ آپ بھلا غزوہ کیسے لڑ سکتے ہیں؟ مگر پھر یہ سوچ کر کہ اینکر بے چارا تو امریکا، برطانیہ یا جرمنی کی کسی یونیورسٹی سے کوئی اعلیٰ سند لے کر آیا ہوگا، تمام عمر انگریزی ذریعہ تعلیم سے استفادہ کے باعث وہ بھلا ’’غزوہ‘‘ کے معنی و مطلب سے کیا واقف ہوگا؟ پھر ہم نے سوچا کہ ہم کون سے ایسے عالم فاضل ہیں ہوسکتا ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ ہم خود ’’غزوہ‘‘ کا مطلب غلط جانتے ہوں۔ چنانچہ اردو ڈکشنری نکالی اور ’’غزوہ‘‘ کے معنی تلاش کیے تو ہمارا شک دور ہوگیا الحمد للہ ہمیں واقعی درست معنی معلوم تھے یعنی وہ جہاد (جنگ) جس میں رسول مقبولؐ بذات خود شریک ہوئے۔ جب اس طرف سے اطمینان ہوگیا تو ہماری پریشانی دوچند ہوگئی کہ یہ عالم صاحب غزوہ کیسے اور کیونکر لڑیں گے۔ بات آئی گئی ہوگئی کہ عالم کی بات علما جانیں ہم جاہل کیا جانیں اگر کچھ غلط ہوتا تو کوئی دوسرا عالم ضرور اس پر کوئی حرف اٹھاتا۔

گزشتہ ماہ پھر اخبار میں ایک تین کالمی خبر نظر سے گزری کسی مذہبی و سیاسی جماعت کی اعلیٰ شخصیت کا بیان تھا۔ حافظ صاحب نے ارشاد فرمایا تھا کہ ’’غزوہ‘‘ بھارت حیدر آباد دکن اور کشمیر میں لڑا جائے گا اور ہم اس کو رفتہ رفتہ پورے بھارت میں پھیلائیں گے۔ ظاہر ہے کہ ’’غزوہ‘‘ کافروں کے ساتھ ہی لڑا جاسکتا ہے اور بھارت سے تو ہمارا ازلی بیر چل رہا ہے پھر وہ لاکھ خود کو سیکولر کہیں مگر ہے کافر (ہندو) ملک اب اگر اسلام کے محافظین ان سے جہاد نہ کریں گے تو پھر وہ علما، محافظ دین رسولؐ یا حافظ قرآن پاک کیسے ہوسکتے ہیں؟ ہماری علمی استطاعت ہے ہی کیا کہ ہم منہ اٹھا کر کہہ دیں کہ آپ جہاد تو قیامت تک لڑسکتے ہیں مگر ’’غزوہ‘‘۔۔۔۔۔اتنے بڑے بڑے علما کہہ رہے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔ لہٰذا ہمیں خاموش ہوکر ’’غزوہ بھارت‘‘ کی کامیابی کے لیے دعا کرنی اور خوشخبری کا انتظار کرنا چاہیے۔

اکثر کالموں اور ملکی دانشوروں کے بیانات میں پڑھتے اور سنتے ہیں کہ ’’یہ تماشا دکھائے گا کیا سین‘‘ تو سمجھ نہیں آتا کہ آخر جلدی کیا ہے؟ جب تماشا یا ڈرامہ دیکھنے بیٹھے ہیں تو ذرا سا صبر بھی کریں اب ڈراما نگار نے جو لکھا ہوگا اور ہدایتکار نے اس کو جس طرح جس حساب سے پیش کرنا ہوگا اسی طرح سین یعنی منظر ایک کے بعد دیگرے آئیں گے۔ آخر لکھنے والے نے بھی محنت کی ہے اور یقیناً اس کو اتنی عقل ہے کہ وہ جو لکھے اس کے ناظرین کے حسب ذوق، حسب لیاقت و صلاحیت ہو اور وہ ان کی ذہنی سطح کو مدنظر رکھ کر لکھے بھلا، کوئی لکھنے والا کب یہ چاہے گا کہ اس کا شاہکار لوگوں کے سروں پر سے گزر جائے یعنی ابلاغ نام کی کوئی چیز اس تماشے میں نہ ہو۔

یوں تو وطن عزیز میں چند پڑھے لکھے باشعور معاملے کی تہہ تک بڑی سرائیت سے پہنچنے والے بھی موجود ہیں مگر لکھنے والا محض ان چند افراد کے لیے تو اتنی محنت نہیں کر رہا وہ تو اکثریت کے لیے ہی اپنا تماشا پیش کرنا چاہتا ہے لہٰذا سب حالات کو مد نظر رکھ کر اور ہدایتکار نے بھی تمام سین (مناظر) حسب ذوق ناظرین ہی ترتیب دیے ہیں مانا کہ اکثریت زیادہ پڑھی لکھی نہیں مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ وہ باشعور بھی نہیں اللہ کا بڑا فضل و کرم ہے کہ 65,66 سال کی مسلسل پٹائی نے ان کو بڑا باشعور بنادیا ہے لہٰذا ہم ایسے باشعوروں کی خدمت میں عرض کریں گے کہ عجلت اچھی چیز نہیں صبر سے ہر سین کو دیکھیں اور اگلے سین کا تجسس کے ساتھ انتظار کریں۔ کیونکہ یہ پورا تماشا بڑا پرتجسس ہے اور یہی تجسس کسی تماشے (ڈرامے) کی کامیابی ہوتا ہے۔

اب یہ دوسری بات ہے کہ دانشوروں کی ساری دانشوری ایسے ہی موقعوں پر کھل کر سامنے آتی ہے جب وہ پچھلے منظر کو بھول کر اگلے پر اپنی دانشورانہ رائے کا اظہار کرنے لگتے ہیں تو صورتحال بقول پیرزادہ قاسم کچھ یوں ہوجاتی ہے :

عجب تماشہ ہے دانشوری کے پیکر میں

کسی کا ذہن کسی کی زباں لیے پھریے

خواب سوتے میں دیکھے جاتے ہیں، مگر کھلی آنکھوں خواب دیکھنے پر بھی کوئی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی۔ جب چاہیں اور جیسے چاہیں خواب دیکھیے بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ انسان کی خواہشات اس کے خواب ہی دلیل زیست ہیں بلکہ پیرزادہ قاسم  نے تو خواب دیکھنا زندگی کی علامت قرار دیا ہے فرماتے ہیں:

میں ایسے شخص کو زندوں میں کیا شمار کروں

جو سوچتا بھی نہیں خواب دیکھتا بھی نہیں

خواب جب حقیقت بن جاتے ہیں تو یہ سائنسی ایجادات اورکارنامے قرار پاتے ہیں۔ مثلاً ہماری قدیم داستانوں کی اڑن طشتری ہوائی جہاز ہی نہیں بلکہ دوسرے سیاروں کی مخلوق کو زمین پر لانے کے بجائے زمینی مخلوق حضرت انسان کو دوسرے سیاروں پر پہنچانے کے لیے راکٹ اور خلائی گاڑی کی حقیقت میں ڈھل گئی ہے۔ بات ہو رہی تھی خواب دیکھنے کی ایک خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا جو ان کی وفات کے تقریباً نو سال بعد شرمندہ تعبیر ہوا مملکت خداداد پاکستان کی صورت میں۔ مگر ہر خواب ہمیشہ سچا نہیں ہوتا بلکہ کچھ خوابوں کی تعبیر الٹی بھی ہوسکتی ہے۔ جیسے ہمارے کپتان صاحب نے جو خواب کھلی آنکھوں سے دیکھا تھا اسی مملکت پاکستان کے وزیر اعظم بننے کا اور نیا پاکستان تعمیر کرنے کا تو یہ ضروری نہیں کہ ہر خواب شرمندہ تعبیر بھی ہوجائے۔

’’اے بسا آرزو کہ خاک شدی‘‘ اس خواب کی تعبیر اگر کسی سیاسی سیانے سے پوچھ لیتے تو سال بھر ایک ہی نقطے پر اٹک جانے اور ایک ہی غم میں گھلنے سے تو کم ازکم بچ جاتے مگر کیا کریں کہ شاید چاپلوس اور مکھن باز سیانے نے اس خواب کو جلد ہی حقیقت بن جانے کی خوشخبری سناکر خان صاحب کو مزید خوابوں میں مبتلا کردیا اور خود جانے کہاں جا چھپا کہ اب خان صاحب اپنا سارا غصہ اس پر اتار بھی نہیں سکتے بلکہ عوام، میڈیا، الیکشن کمیشن اور جانے کس کس پر غصہ اتر رہا ہے۔ بہرحال کچھ بھی ہو خان صاحب اس خواب کی متوقع تعبیر سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں کسی بھی قیمت پر۔ وہ اگر کسی بھی صورت، کسی بھی طرح وزیر اعظم بن جائیں تو سب مسائل خودبخود حل ہوجائیں گے بلکہ کوئی مسئلہ رہے گا ہی نہیں اور پاکستانی عوام چین کی بانسری بجائیں گے۔ امن کے گیت گائیں گے۔

یوم نکبہ ، یوم واپسی! منزل فلسطین

$
0
0

یوم نکبہ سے مراد ’’بد ترین تباہی اور بربادی کا دن‘‘، یہ اصطلاح سر زمین فلسطین میں اس روز استعمال ہوئی کہ جس دن غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے انبیائے علیہم السلام کی سر زمین فلسطین پر اپنا ناجائز تسلط قائم کیا اور فلسطین میں بسنے والے لاکھوں انسانوں کو بے دردی سے قتل عام کا نشانہ بناتے ہوئے لاکھوں فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کر دیا گیا۔

15مئی 1948ء کی بات ہے کہ جب عالمی استعماری قوتوں امریکا، برطانیہ اور فرانس سمیت دیگر یورپی ممالک کی ایماء پر فلسطین میں ایک غاصب ریاست کا قیام وجود میں لایا گیا اور اس ریاست کو ’’اسرائیل ‘‘ کا نام دیا گیا، اس ریاست کے بنانے والوں اور اس کے قیام کے لیے استعماری قوتوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنے والوں کا یہ نظریہ تھا کہ یہودی جو دنیا کی سب سے عظیم اور برتر قوم ہیں اور دنیا کے تمام وسائل پر انھی کا حق ہونا چاہیے تو ان کے رہنے کے لیے بھی ایک ایسی الگ تھلگ جگہ یعنی ریاست ہونی چاہیے جہاں وہ اپنی حکومت کا قیام عمل میں لا سکیں، اور اسی نظریے کی تکمیل 1948ء میں 14مئی کو وقوع پذیر ہوئی اور پھر اگلے ہی روز ان تمام شدت پسند یہودیوں (صیہونیوں ) نے سر زمین فلسطین پر بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ ایسا بدترین سلوک انجام دیا کہ تاریخ آج بھی شرمندہ ہے۔

1948ء کو 15مئی کے دن شدت پسند یہودیوں (صیہونیوں ) یا پھر اس طرح سمجھ لیجیے کہ صیہونی تحریک کے دہشت گردوں نے پورے فلسطین میں ایک کہرام بپا کر دیا اور فلسطینیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنا شروع کیا ، صیہونیوں کی ایک تنظیم جس کا نام ہگانہ ہے کا ذکر اس حوالے سے کافی اہم ہے کہ جس کے دہشتگردوںنے ہزاروں نہتے اور معصوم فلسطینیوں کو صرف اور صرف ایک ہی روز میں بد ترین مظالم کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔

ہگانہ کے دہشت گردوں نے مظلوم فلسطینیوں کو نہ صرف مہلک ہتھیاروں ، خنجروں اور تلواروں سے قتل کیا بلکہ اس دہشت گرد صیہونی تنظیم نے فوجیوں کے ساتھ مل کر فلسطین کے علاقوں میں پانی کی سپلائی لائنوں میں زہریلے مواد تک ملا دیے تا کہ زہریلا پانی پی کر فلسطینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں، اور اس کام میں ہگانہ تنظیم کے دہشتگردوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی صیہونی فوج کے اعلیٰ عہدیدار بھی ملوث رہے۔

بہر حال مسلم امہ کے قلب ’’فلسطین‘‘ پر اسرائیل نامی خنجر گھونپ دیا گیا اور ایک ہی روز  میں اسرائیلیوں نے فلسطینیوں پر ایسے مظالم کا سلسلہ شروع کیا جس کا انجام ہزاروں فلسطینیوں کی موت کے ساتھ ہوا اور نتیجے میں سات لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو صرف ایک ہی دن میں فلسطین سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا اور اس طرح یہ لاکھوں فلسطینی بے کسی اور بے بسی کے عالم میں اپنے ہی وطن سے تارکین وطن ہونے کے بعد فلسطین کے پڑوسی ممالک شام، مصر ، لبنان اور اردن کی طرف رخ کر گئے۔

فلسطین میں صیہونیوں کے ہاتھوں ہونے والی اس تباہی اور بربادی کو فلسطین کے باسیوںنے ’’نکبہ‘‘ کا نام دیا نکبہ یعنی ’’تباہی اور بد ترین بربادی‘‘ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں فلسطینی گزشتہ پینسٹھ برس سے پندرہ مئی کو ’’یوم نکبہ‘‘ کے عنوان سے مناتے ہیں یعنی ’’تباہی اور بربادی کا دن‘‘ کے عنوان سے منایا جاتا ہے۔

دوسری طرف صیہونیوں نے اس دن کو اپنی آزادی اور اپنے وطن کے قیام کا دن قرار دے رکھا ہے اور اس دن کہ جس دن انھوں نے خود ہی اپنے ہاتھوں سے لاکھوں فلسطینیوں کو ظلم اور بربریت کا نشانہ بنایا تھا اس دن خوب جشن اور رنگ رلیاں منائی جاتی ہیں اور پورے قابض علاقے میں کہ جس کو اسرائیل کا نام دیا گیا ہے میں جشن اور رونق کا سماں ہوتا ہے ۔

تاریخ میں دنیا کے اندر کئی ایک ایسے واقعات ہوں گے کہ جس میں ڈاکوئوں کی جانب سے لوٹ لیے جانے کا ذکر ملتا ہو گا ،یا پھر عالمی سطح پر کچھ ایسی چوریاں بھی ہوں گی کہ جس کا ذکر تاریخ میں موجود ہو گا لیکن یہ کیسی چوری اور ڈکیتی تھی کہ جس پر پوری دنیا خاموش تماشائی بنی رہی اور مظلوم فلسطینی عوام کو صیہونی درندوں کے رحم و کرم پر ہی رہے۔

یوم نکبہ کے بعد منظر عام پر آنے والی رپورٹس میں لکھا گیا کہ یوم نکبہ کے روز جہاں مختلف نوعیت کے مظالم کا ارتکاب کیا گیا وہاں کئی ایک ایسے واقعات بھی سامنے آئے کہ صیہونیوں نے فلسطینیوں کو ان کے گھر خالی کرنے کا حکم دیا اور گھر چھوڑ کر جانے کا کہا تو فلسطینیوں نے اپنے گھر کو چھوڑنے سے انکار کر دیا جس کے بعد صیہونی دہشت گردوں نے گھر کے بڑوں کو گھر سے نکال کر بچوں کو گھروں میں بند کر دیا اور پھر پورے گھروں کو یا تو مسمار کر دیا یا پھر زہریلے آتش گیر مادے کے ذریعے نذر آتش کر دیا گیا، اور اس طرح کے واقعات میں درجنوں نہیں سیکڑوں معصوم کم سن اور شیر خوار بچے صیہونی درندگی کا نشانہ بنے۔

اس مرتبہ یہ دن منائے جانے کا انداز شاید کچھ تبدیل ہو رہا ہے کیونکہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ شعور اور آگہی میں اضافہ بھی بڑھ رہا ہے اور اب فلسطینیوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اپنے وطن واپس جائیں گے، کیونکہ فلسطین ،فلسطینیوں کا وطن ہے اور اس وطن پر کسی ایسی قوم کو حق حاصل نہیں کہ جسے دنیا کے دوسرے ممالک سے لا کر اس سرزمین پر قابض کر دیا گیا ہو، جیسا کہ  1948ء اور اس سے قبل کیا گیا تھا، بہر حال فلسطینیوں کا فیصلہ ہے کہ وہ ہر صورت سر زمین فلسطین کو واپس لوٹیں گے۔

وہ تمام فلسطینی کہ جنھیں صیہونیوں نے ان کے وطن ، گھروں اور ان کی زمینوں اور کھیتوں سے بے دخل کر کے نکال باہر کیا ہے اوراب انھی فلسطینیوں کا اعلان ہے کہ وہ اپنے وطن لوٹ رہے ہیں اور دو برس قبل کی بات ہے کہ فلسطینیوں نے ٹھیک یوم نکبہ کے روز ایک ایسی کوشش لبنان سے ملحقہ فلسطین کی سرحد پر کی تھی کہ جہاں صیہونی افواج کا قبضہ ہے لیکن اس برس فلسطینیوں نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ ’’یوم نکبہ‘‘ کو ’’یوم واپسی ‘‘ کے طور پر منائیں گے اور ان کا ایک ہی نعرہ ہو گا ’’منزل فلسطین‘‘۔

جی ہاں ! ہمارا بھی نعرہ یہی ہے جو فلسطینیوں کا ہے، ’’منزل فلسطین‘‘ ’’یوم نکبہ یعنی یوم واپسی‘‘، دنیا بھر کے با ضمیروں کو چاہیے کہ وہ فلسطینیوں کی اس مہم اور اس مقصد کو زیادہ سے زیادہ اپنی حمایت سے کامیاب بنانے کی کوشش کریں تاکہ فلسطین سے بے گھر کیے جانے والے لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے وطن واپس لے جانے میں مدد گار ثابت ہو سکے۔کیونکہ فلسطین، فلسطینیوں کا وطن ہے ، اور تمام وہ فلسطینی کہ جو دنیا کے کسی بھی ملک میں جلا وطنی کی زندگی گذار رہے ہیں فلسطین لوٹ آئیں اور اسی طرح یہ تمام شدت پسند یہودی (صیہونی) جس ملک سے بھی فلسطین لائے گئے تھے واپس اپنے ممالک کی طرف پلٹ جائیں۔

شفاف انتخابات اور قوانین

$
0
0

تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کا نیا الیکشن کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ شفاف انتخابی عمل سے منسلک ہے۔ عمران خان نے بائیو میٹرک نظام کے نفاذ، اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے اور نگراں سیٹ اپ میں شامل کسی فرد کو ایک سال تک سرکاری عہدے نہ دینے کے لیے مطالبات قانون سازی کے ذریعے ہی پورے ہو سکتے ہیں۔ عمران خان اگر شفاف انتخابات کو حکومت کو ختم کرنے کے لیے استعمال کریں گے تو سارا فائدہ اسٹیبلشمنٹ کو ہو گا۔

2008ء میں جو قومی اسمبلی منتخب ہوئی تھی اس اسمبلی نے آئین میں کی گئی 18 ویں اور 19 ویں اور 20 ویں ترامیم منظور کر کے ایک خود مختار الیکشن کمیشن اور انتخابات کے انعقاد کے لیے نگراں حکومتوں کے قیام کو یقینی بنایا تھا۔ آئین میں کی گئی ترمیم کے تحت الیکشن کمیشن کے سربراہ کے تقرر کے لیے وزیر اعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف کے درمیان اتفاق کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔ اس طرح چاروں صوبوں کے چیف جسٹس کو الیکشن کمیشن کے ایک ایک نمایندے کی تقرری کا اختیار دیا گیا تھا، یوں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور چوہدری نثار علی خان کے اتفاق سے جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا تھا۔

عمران خان نے بھی فخرالدین کی حمایت کی تھی۔ جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم نے شفاف انتخابات کے لیے تندہی سے کام کیا۔ الیکشن کمیشن نے گزشتہ سال پہلی دفعہ یومِ ووٹ منایا۔ اس موقعے پر ہونے والی تقریبات میں صوبائی الیکشن کمشنروں اور اسلام آباد میں جسٹس فخر الدین جی ابراہیم نے واضح کیا تھا کہ انتخابی فہرست میں ووٹروں کی تصاویر چسپاں ہوں گی اور نادرا انتخابی فہرستوں کو مکمل کر کے انتخابی فہرستیں کمیشن کے حوالے کرے گا۔ کمیشن نے انتخابی فہرستیں انٹرنیٹ پر شایع کرنے کے علاوہ SMS سروس بھی شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ہر فرد SMS کے ذریعے اپنا نام ووٹر لسٹ میں درج ہونے کی تصدیق کر سکتا تھا۔

6 ہفتے قبل پولنگ اسٹیشنوں کی فہرست کے اجراء، ووٹروں کے انگوٹھوں کی تصدیق کے بائیو میٹرک سسٹم کے نفاذ، انگوٹھوں پر نہ مٹنے والی سیاہی لگانے، کیمروں کے ذریعے پولنگ اسٹیشنوں کی نگرانی، ووٹنگ کے بعد ہر امیدوار کے کاؤنٹنگ ایجنٹ کو نتائج کی فراہمی اور پولنگ اسٹیشن کے دروازے پر نتائج کے اعداد و شمار Counting Sheets کے چسپاں ہونے کے اعلانات کیے گئے تھے مگر گزشتہ مئی کا دوسرا ہفتہ انتخابات کی شفافیت پر بہت سے سیاہ نشانات چھوڑ گیا تھا۔ صوبائی الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل کو مکمل کرنے کے انتظامات پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی۔ جب ووٹر لسٹیں سامنے آئیں تو اس میں بہت سی فاش غلطیاں نظر آئیں۔

کراچی میں برسوں سے آباد لوگوں کے نام ان کے آبائی علاقوں کی فہرستوں میں شامل کر دیے گئے، یوں ان لوگوں کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی۔  پولنگ اسٹیشنوں کی فہرست 6 ہفتے پہلے جاری نہیں کی گئی۔ انتخابات سے چند دن قبل یہ فہرستیں جاری ہوئیں۔ سپریم کورٹ نے امیدواروں پر پابندی عائد کی تھی کہ وہ ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن تک لانے کے لیے ٹرانسپورٹ فراہم نہیں کریں گے۔ یہ فیصلہ ہوا تھا کہ پولنگ اسٹیشن ووٹروں کے گھروں کے قریب بنائے جائیں گے۔

الیکشن کمیشن کے حکام نے سپریم کورٹ کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے ووٹروں کے گھروں کے قریب پولنگ اسٹیشن قائم کیے مگر ایسی عمارتوں میں اسٹیشن بنائے گئے جہاں جانا ممکن نہیں تھا۔ ایک ہی عمارت کی مختلف منزلوں پر علیحدہ علیحدہ اسٹیشن بنے، کراچی میں تو اسکولوں کی بعض عمارتوں میں 6 سے 12 اسٹیشن قائم کیے گئے۔ یوں 11 مئی کو ووٹروں کے ہجوم نے سارے انتظامات دھرم بھرم کر دیے۔ گزشتہ انتخابات میں ریٹرننگ افسران نے نااہلی اور غیر سنجیدگی کا ثبوت دیا۔ انتخابات سے قبل سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو اچانک ریٹرننگ افسروں کو ہدایات دینے کا شوق پیدا ہوا۔

اگرچہ ریٹرننگ افسر کے فرائض انجام والے ایڈیشنل سیشن جج ان کے ماتحت نہیں تھے مگر موصوف نے ریٹرننگ افسروں کو آئین کے آرٹیکل 63 اور 64 پر سختی سے عملدرآمد کی ہدایات کیں۔ یوں ریٹرننگ افسروں نے پانچواں کلمہ یاد نہ ہونے، وضو کے طریقے وغیرہ بیان نہ کرنے پر امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کرنے کا سلسلہ شروع کرنے پر انتخابی عمل کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی مگر چاروں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی بصیرت سے یہ معاملہ طے ہوا۔ ان ریٹرننگ افسروں نے اپنے عملے کے انتخاب میں بھی دلچسپی نہیں لی۔ بہت سے لوگوں کے نام پریزائیڈنگ اور پولنگ افسروں کی فہرست میں شامل ہوئے مگر سفارشوں اور بعض جگہوں پر پیسے لے کر ان لوگوں کو الیکشن ڈیوٹی سے مستثنیٰ قرار دیدیا گیا۔

یوں انتخابی عملے کی کمی کی وجہ سے پولنگ اور گنتی کے مراحل میں مشکلات پیدا ہوئیں۔ اسی طرح ان افسروں کی نااہلی سے بیلٹ بکس، مہریں، بیلٹ پیپرز اور دوسرا متعلقہ سامان بہت دیر میں پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچا۔ یہی وجہ تھی کہ ملک کے بیشتر پولنگ اسٹیشنوں میں دیر سے پولنگ شروع ہوئی۔ کراچی میں تو بعض پولنگ اسٹیشنوں میں 3 بجے پولنگ کا عمل شروع ہوا۔ کراچی میں پولیس، رینجرز اور فوج نے اپنے فرائض انجام نہیں دیے۔ یوں گنتی کے وقت پولیس اور رینجرز والے لاپتہ ہو گئے، اسی طرح مسلح گروہوں کو پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے کا موقع ملا۔ صدارتی انتخابات کے وقت سپریم کورٹ کے یکطرفہ فیصلے سے شفاف انتخابی عمل پر ایک اور دھچکہ لگا۔

یہ واضح ہو گیا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم تنہا رہ گئے ہیں اور الیکشن کمیشن کے چاروں صوبوں کے نامزد اراکین ان سے تعاون کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یوں چیف الیکشن کمشنر کی کمانڈ مضبوط نہ ہونے کی بناء پر الیکشن کمیشن انارکی کا شکار ہوا جس کی بناء پر انتخابی عمل کی شفافیت ایک سوال بن گئی۔ جب شکست خوردہ امیدواروں نے انتخابی عرضداشتیں الیکشن ٹریبونل میں داخل کیں اور انگوٹھوں کی کمپیوٹر کے ذریعے تصدیق کا مسئلہ آیا تو پتہ چلا کہ الیکشن کمیشن نے مقناطیسی سیاہی فراہم نہیں کی تھی، اس بناء پر کمپیوٹر ووٹروں کے انگوٹھوں کی تصدیق سے قاصر رہا۔

اس صورتحال سے دلبرداشتہ ہو کر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین نے استعفیٰ دیدیا تھا۔ اصولی طور پر تو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں فخر الدین جی ابراہیم کے استعفیٰ کی وجوہات پر بحث ہونی چاہیے تھی تا کہ مستقبل کے لیے مؤثر اقدامات ہو سکیں ۔ جسٹس فخرالدین جی ابراھیم کا کہنا ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بے جا مداخلت سے وہ فرائض انجام نہ دے سکے۔ یہ الزام الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد بھی عائد کرتے ہیں۔ آئین میں کی گئی ترمیم کے ذریعے جب الیکشن کمیشن اور چاروں اراکین کے اختیارات برابر ہیں تو یوں واحد کمانڈ نہ ہونے کی بناء پر کمیشن انارکی کا شکار ہوا۔ اس صورتحال کے تدارک اور چیف الیکشن کمشنر کو مکمل طور پر بااختیار بنانے کے لیے قانون میں ترمیم ضروری ہے۔

بھارت کی طرح الیکٹرانک ووٹنگ مشین، ووٹروں کی تصدیق کے لیے بائیومیٹرک مشین کے استعمال، پولنگ اسٹیشنوں کی سیٹلائٹ کے ذریعے نگرانی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال سے ووٹنگ کے عمل میں تیزی پیدا کر کے بین الاقوامی معیار کی شفافیت کا معیار حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بھارت میں چیف الیکشن کمشنر کو لامحدود اختیارات  حاصل ہیں، وہاں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر سیاسی رہنمائوں پر پابندیاں عائد کر دیتا ہے۔

بھارتی الیکشن کمیشن نے انتخابات کے دوران نئے چیف آف آرمی اسٹاف کے تقرر پر پابندی لگا دی تھی، اس طرح بینکوں کو پولنگ کے دوران اپنے گاہکوں کو کیش دینے کی ممانعت کر دی تھی اور شراب فروخت کرنے پر پابندی تھی۔ اس طرح بھارتی عدالتیں الیکشن کمیشن کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتیں، نئے انتخابی قوانین میں چیف الیکشن کمشنر کو یہ تمام اختیارات بڑھائے جا سکتے ہیں اور ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کے لیے فوجداری اختیارات دیے جا سکتے ہیں۔

پولیس اور رینجرز کو پریذائڈنگ افسر کے احکامات کی لازمی پابندی کے لیے ضوابط کی بناء پر مسلح گروہوں کو پولنگ اسٹیشن پر قبضے سے روکا جا سکتا ہے۔  اگر عمران خان شفاف انتخابات میں سنجیدہ ہیں تو انھیں قومی اسمبلی میں ایک انتخابی قانون کا مسودہ پیش کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم نواز شریف کو انتخابی قوانین میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کے سربراہوں کی ایک گول میز کانفرنس منعقد کرنی چاہیے۔

اگر تحریکِ انصاف نیا الیکشن کمیشن کے قیام کے مطالبے کو موجودہ قومی اسمبلی توڑنے، وسط مدتی انتخابات کرانے یا وزیر اعظم نواز شریف کو ہٹانے کے لیے استعمال کرنا چاہئیں تو شفاف انتخابات کے لیے قانون سازی نہیں ہو سکے گی۔  اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر مسلم لیگ ن کی حکومت کو ہٹایا گیا تو مستقبل میں آنے والی منتخب حکومت عسکری اسٹیبلشمنٹ کی محتاج ہو گی یوں ملک 15 سال بعد پھر ایک نئے بحران کا شکار ہو جائے گا۔

معاشی استحصال

$
0
0

بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ ختم ہونے کے بعد جب بجلی بحال ہوئی تو ٹی وی آن ہو گیا، ٹی وی پر صدر مملکت ممنون تقریر فرما رہے تھے،غالباً چنیوٹ کی ایک یونیورسٹی کیمپس کی کوئی تقریب تھی، موضوع علم کی اہمیت ہی ہو سکتا ہے، تقریر اختتام پر تھی، ہم اتفاق سے تقریر کے چند آخری جملے ہی سن سکے۔

لیکن یہ جملے اتنے اہم اور اپنے اندر اتنی معنویت رکھتے تھے کہ ہم ہمہ تن گوش ہوگئے صدر صاحب فرما رہے تھے کہ غربت اور امارت خدا کی عنایت کردہ ہوتی ہے وہ جس کو چاہے زیادہ دولت دے دیتا ہے، جس کو چاہے کم یہ سب خدا کے فیصلے ہوتے ہیں، جن میں انسان کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اگر انسان قناعت پسند بن جائے اور جس کو جو مل رہا ہے اس پر قانع ہو جائے تو  زندگی بڑی پرسکون ہو جاتی ہے اور دنیا امن کا گہوارہ بن جاتی ہے، ہو سکتا ہے صدر صاحب کی تقریر کے الفاظ میں تھوڑا بہت فرق ہو لیکن مفہوم بالکل وہی تھا جس کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے۔!

نواز شریف  ہی نہیں بلکہ پارلیمانی جمہوریت کے ہر وزیر اعظم کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایسے صدر کا انتخاب کرے جو محض نمائشی ہو کیونکہ پارلیمانی جمہوریت میں صدر کا عہدہ محض رسمی ہوتا ہے جس کا کام اہم قومی دنوں پر عوام سے خطاب (رسمی اور نان پولیٹیکل)، سفارت کاروں سے اسناد سفارت وصول کرنا اور پارلیمنٹ کے منظور کردہ بلوں پر دستخط کرنے تک محدود ہوتا ہے وہ امور سلطنت سے دور رہتا ہے اور اس کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہوتا۔

اس حوالے سے نواز شریف کے منتخب کردہ سابق صدر رفیق تارڑ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے محدود صدارتی اختیارات کا استعمال بھی بہت کنجوسی سے کرتے تھے،  لیکن جب ہم موجودہ صدر  ممنون  حسین کی کارکردگی پر نظر ڈالتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ ممنون صاحب صدر کے نمائشی اختیارات اور فرائض سے ہٹ کر بہت زیادہ فعال کردار ادا کر رہے ہیں ملک کے اندر اور باہر اہم دورے کر رہے ہیں اور ملک کے اہم مسائل پر کھل کر اظہار خیال کر رہے ہیں جو ایک اچھی روایت ہے۔

ہم نے صدر کی غیر معمولی کارکردگی کا ذکر اس لیے برسبیل تذکرہ کر دیا کہ میاں صاحب کی دریا دلی کا اندازہ ہو سکے، صدر مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما رہے ہیں اور ان کے نظریات پر مسلم لیگ (ن) کی چھاپ ایک فطری بات ہے لیکن چنیوٹ کے یونیورسٹی کیمپ میں محترم نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، ہم بڑی معذرت کے ساتھ اس سے اختلاف کرتے ہیں کہ غربت اور امارت خدا کی عنایت کردہ ہوتی ہے اور ہمیں اس پر قناعت کرتے ہوئے اپنی زندگی کو مطمئن اور دنیا کو پر امن بنانا چاہیے۔

ہمارے قومی کلچر کا یہ عجیب و غریب اعجاز ہے کہ ہم اپنی بہت ساری کمزوریوں کو چھپانے کے لیے خدا کا نام غلط طور پر استعمال کرتے ہیں جس کی تفصیل اتنی لمبی چوڑی ہے کہ اس مختصر کالم میں اس کا احاطہ ممکن نہیں لیکن چونکہ صدر محترم نے ایک ایسی ہی بات کر دی ہے جو خدا کے اختیارات کی غلط تاویل ہے۔ لہٰذا ہم اس کا مختصراً جائزہ لینا ضروری سمجھتے ہیں۔ بلکہ یہ مسئلہ اس قدر اہم ہے کہ اسے دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ کہنا غلط نہ ہو گا۔ کیوں کہ اس مسئلے کا براہ راست تعلق دنیا کے سات ارب انسانوں کی عذاب ناک زندگی سے ہے۔

دنیا میں غربت اور امارت اگرچہ  ہزاروں سال پرانی ہے اور عوام کا معاشی استحصال کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ ہوتا رہا لیکن اس غربت اور امارت کو باضابطہ نظریاتی اور ادارتی شکل جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام میں دی گئی اور جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام خدا نے عوام پر مسلط نہیں کیے بلکہ یہ دونوں نظام ان ظالمانہ استحصالی قوتوں کے پیدا کردہ ہیں جو غریب کو ہمیشہ غریب رکھنا چاہتے ہیں۔ ماضی میں جب جاگیردارانہ نظام بہت مضبوط تھا اور پاکستان میں آج بھی مضبوط ہے جاگیردارانہ نظام بادشاہتوں کا متعارف کردہ ایک طفیلی نظام ہے، بادشاہی نظام میں انسانوں کو رعایا کے طور پر متعارف کرایا گیا۔

اس نظام میں رعایا کے کوئی حقوق نہیں ہوتے تھے، رعایا کا کام محض بادشاہ کی اطاعت اور وفاداری ہوتا تھا اس رشتے کو مضبوط کرنے کے لیے بادشاہوں نے ایک زمینی اشرافیہ تخلیق کی جسے جاگیردار کا نام دیا گیا اور معاشرے میں اس  طبقے کو اس قدر معزز بنا دیا گیا کہ ہاری اور کسان جو جاگیردار کی لاکھوں ایکڑ زمینوں کا سینہ چیر کر رات دن مشقت کر کے دولت کے انبار لگاتے ہیں اس دولت میں ان کا حصہ صرف غربت ہوتی ہے۔

بادشاہ، جاگیرداروں کو جو ہزاروں ایکڑ زمین از راہ عنایت عطا کیا کرتے تھے یہ ان کی خدمات کا معاوضہ ہوتی تھی اور وہ خدمات عوام سے بہ جبر ٹیکس وصول کرنا ضرورت کے وقت غریب عوام کو پکڑ کر فوج تیار کرنا اور رعایا پر بادشاہ کا کنٹرول برقرار رکھنا تھا اور اس کے لیے نظریاتی مدد مسجدوں سے فراہم کی جاتی تھی کہ غربت اور امارت خدا کی دین ہوتی ہے جس میں انسان کا کوئی دخل نہیں ہوتا اس پُر فریب فلسفے کا اصل مقصد غربت کے معماروں کو عوام کی نظروں سے اوجھل رکھنا اور انھیں عوام کے قہر و غضب سے بچانا ہوتا تھا۔ آج خود ہمارے ملک پر نظر ڈالیں آبادی کا 60 فی صد سے زیادہ حصہ غربت کے عذاب میں گرفتار نظر آئے گا کیونکہ ان کی محنت کا حاصل  جاگیرداروں کی نذر ہو جاتا ہے، کیا اس غربت اور امارت کو خدا کا عطیہ کہا جا سکتا ہے۔

ایک مل یا کار خانے میں ہزاروں مزدور کام کرتے ہیں ان کی محنت سے اربوں روپے حاصل ہوتے ہیں لیکن ان محنت کشوں کو اتنا معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا کہ وہ دو وقت کی روٹی کھا سکیں، ان کی محنت کا سارا حاصل سرمایہ دار صنعت کار اچک لیتا۔ کیا اس غربت اور امارت کو ہم خدا کا عطیہ کہہ سکتے ہیں؟ کھیتوں، کھلیانوں ملوں، کارخانوں میں محنت کشوں کی محنت سے جو دولت پیدا ہوتی ہے اگر اس کی تقسیم منصفانہ ہو تو پھر غربت کا نام و نشان نہیں رہے گا۔ یعنی اصل مسئلہ غریب کی محنت سے حاصل ہونے والی دولت کی منصفانہ تقسیم کا ہے جسے  اشرافیہ نے خدا اور قسمت کا نام دے کر عوام کو صبر و شکر کے ایسے دلدل میں دھکیل دیا جہاں سے وہ اس وقت تک باہر نہیں آ سکتا جب تک وہ اس سحر سے نہیں نکلتا۔

جاگیر دارانہ نظام کے بعد اس استحصال کی جگہ سرمایہ دارانہ نظام نے لی۔ اس نظام میں غربت اور امارت کے درمیان فاصلہ اتنا بڑھا کہ دنیا 98/2 میں تقسیم ہو کر رہ گئی۔ یہ طبقاتی تقسیم خواہ وہ جاگیردارانہ نظام کی پیدا کردہ ہو یا سرمایہ دارانہ نظام کی۔ دو فیصد استحصالی طبقات کے ہاتھوں میں قومی دولت کا 80 فی صد حصہ جمع کر دیتی ہے اور محض 20 فی صد دولت میں 80 فی صد عوام کو زندگی گزارنا پڑتی ہے جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ غربت ہی کی شکل میں نکلنا ہے۔

آج ترقی یافتہ ملکوں کے سروں کے مطابق ہر سال لاکھوں غریب بھوک کی وجہ سے مر رہے ہیں، لاکھوں بچے دودھ اور مناسب غذا کے فقدان کی وجہ سے موت کا شکار ہو رہے ہیں، لاکھوں خواتین زچگی کے دوران ناقص اور کم غذا کی وجہ سے موت کا شکار ہو رہی ہیں، لاکھوں انسان علاج کی سہولتوں سے محرومی کی وجہ سے جان سے جا رہے ہیں، ابھی پچھلے دنوں تھر میں بھوک کی وجہ سے سیکڑوں بچے بڑے موت کا شکار ہو گئے۔ کیا ان المیوں کو ہم خدا کی مرضی اور قسمت کے کھیل کا نام دینے میں حق بجانب ہیں؟

ہمارے صدر مملکت ایک ذہین اور تعلیم یافتہ انسان ہیں۔ صدر محترم طبقاتی استحصال اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی غربت اور امارت کے فرق کے محرکات سے یقینا پوری طرح واقف ہوں گے۔ اگر وہ غربت اور امارت کو خدا کی مرضی اور قسمت کا کھیل کہیں تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔؟ غریب غربت کے خلاف جد و جہد سے لا علم رہے گا اور اس کی یہ لا علمی امارت کے استحکام کا ذریعہ بن جائے گی۔

ہو سکتا ہے عوام کی سادہ لوحی سے یہ طبقاتی استحصالی نظام جس کا خدا اور قسمت سے کوئی تعلق نہیں کچھ اور طول پکڑ جائے لیکن میڈیا اور اہل قلم کی کوششوں سے سادہ لوح عوام غربت اور امارت کے فرق اور وجوہات کو سمجھ رہے ہیں اگر انھیں ریاستی طاقت سے دبا کر رکھنے کی کوشش کی گئی تو ساری دنیا یا تو انقلاب فرانس کی اتباع کرنے پر مجبور ہو جائے گی یا پھر مشرق وسطیٰ کے راستے پر چل پڑے گی۔ یقینا صدر محترم ان تلخ حقائق کا ادراک رکھتے ہوں گے۔

چند خوش کن خبریں

$
0
0

آج بروز جمعرات 15 مئی 2014ء کے اخبارات اس پاکستان کے نہیں تھے جو کل تک تھا یا پرسوں تک جو خبریں آج کے اخباروں میں موجود تھیں ایسی خبریں مدتوں بعد دیکھنی پڑھنی نصیب ہوئیں یا ایک ساتھ تو شاید یہ خبریں ہماری قسمت میں نہیں تھیں۔ اب میں ان خبروں کی صرف سرخیاں پیش خدمت کرتا ہوں حسب عادت ان پر تبصرے کی ضرورت نہیں یا گنجائش نہیں کہ یہ خبریں خود ہی سب کچھ ہیں۔ تبصرے تجزیے سب ان خبروں میں موجود ہیں۔

٭کراچی آپریشن کے فیصلہ کن مرحلے کی منظوری۔ وزیر اعظم نواز شرف کی صدارت میں سیاسی و عسکری قیادت کا اجلاس۔ آپریشن کی مشترکہ نگرانی اور کوئی دبائو قبول نہ کرنے کا فیصلہ۔ عسکری اور سیاسی قیادت کا ہر حال میں امن قائم کرنے کا فیصلہ۔ آپریشن کا ردعمل آ سکتا ہے اس کے لیے تیار رہنا ہو گا، وزیر اعظم۔ یہ خبر جاری ہے اور سابق صدر آصف زرداری نے کہا کہ وہ اس کے لیے وزارت داخلہ کی ہر مدد کے لیے تیار ہیں۔

٭ آرمی چیف نے کہا ہے کہ ہمیں آگے بڑھنا ہے سیاسی جماعتوں اور جمہوریت میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی، امن کے لیے حکومتوں سے مکمل تعاون اور ہر ممکن مدد کریں گے۔

٭سپریم کورٹ:اربوں روپے بے مصرف پڑے ہیں حکومت جگہ جگہ بھیک مانگ رہی ہے۔ لوگ فاقوں سے مر رہے ہیں اور گندم چوہے کھا رہے ہیں۔ جمہوریت اس طرح نہیں چلتی۔

٭کراچی میں امن کے لیے فوج کا مورال کم نہیں ہونے دیں گے۔ آپریشن میں سیاسی دبائو قبول نہیں ہو گا۔

٭شیخ رشید احمد نے بتایا کہ دہشت گردوں نے اسلام آباد میں پہاڑوں سے اتر کر پارلیمنٹ ہائوس اور وزیر اعظم ہائوس تک آنے کی مشق کر لی ہے۔ ہماری سیکیورٹی فورسز اس طرح کی غیر روایتی صورت حال کا مقابلہ نہیں کر سکیں گی۔ طالبان کا کوئی مایوس گروپ کسی بڑی شخصیت کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

٭ ان تمام خبروں میں ایک بات مشترک ہے کہ حکومت اور فوج دونوں قومی ادارے ملک کے تحفظ اور سلامتی کے لیے متفق اور یک زبان ہیں۔

یہ تمام خبریں جو ایک دن میں ایک ساتھ چھپی ہیں اور دوسرے دن بھی کسی طرف سے کوئی وضاحت وغیرہ نہیں۔ قوم کے لیے بڑی خوش خبری ہیں اب قوم ان خبروں میں جو ارادے ظاہر کیے گئے ان کا انتظار کرے گی اور میڈیا کے خواتین و حضرات بھی فی الوقت خاموش رہیں گے کیونکہ یہ کاروباری نہیں قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔

اب میں ایک ایسی خبر کا ذکر کرتا ہوں جو میری محرومی کی خبر ہے۔ قوم مذکورہ خبروں سے خوش رہے لیکن میں اس خبر سے غمزدہ ہوں خبر کی سرخی یہ ہے کہ وینا ملک پاکستان میں ایک پروگرام کرنے کے بعد اچانک غائب ہو گئی ہیں بمعہ اپنے شوہر کے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ وینا ملک جیو کے مارننگ شو میں اپنی شادی کی تقریب کے دوران گائی جانے والی ایک متنازعہ قوالی پر شدید عوامی ردعمل کے پیش نظر اپنے شوہر سمیت غائب ہو گئی ہیں۔ اس شو کے بعد سخت خطرناک حالات کی وجہ سے اپنے شوہر اسد کو لے کر غائب ہو گئی۔ اس خبر پر میرا تبصرہ صرف اتنا ہے جو ایک فارسی شاعر کے اس مصرعے میں بیان کیا گیا کہ

روئے گل سیر ندیدم کہ بہار آخر شد

ابھی پھول کو جی بھر کر دیکھا ہی نہیں تھا کہ بہار ختم ہو گئی اور بہار کے ختم ہوتے ہی پھول بھی مُرجھا گیا۔ وینا ملک نے اپنی مشہور زمانہ بے باکی سے بڑی شہرت حاصل کی اور اس شہرت میں ایک دولت مند نوجوان کو بھی اپنے جسم  کے خدوخال کا شکار کر لیا لیکن وہ یہ اندازہ نہ کر سکی کہ وہ پاکستانی ہے جہاں بہت پابندیاں ہیں اور جسم کی یہاں وہ موج نہیں جو بھارت میں ہے۔ میں اپنی عمر کے دوستوں کے ہمراہ پروگرام بنا رہا تھا کہ اس پاکستانی حسینہ کا نظارہ کیا جائے یہ کیا بات ہوئی کہ حسینہ ہماری اور مزے کوئی اور لوٹے لیکن اپنی اپنی قسمت ہمارے ہاں ہمیں یہ نظارے نصیب نہ ہو سکے اور ہم دوسروں کا منہ دیکھتے رہ گئے۔

یہ تو ایک غیر اسلامی دنیا کی خبر تھی اب ایک خالص اسلامی خبر ملاحظہ فرمائیے اور اس کی تصویر بھی چھپی ہے۔ جناب وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے جامعہ اشرفیہ کے فضلا کو پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دی ہیں۔ کوئی چھ سات علماء یہ اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کا ایک مشہور و معروف اور قابل احترام دینی تعلیم کا ادارہ ہے۔ یہاں لاہور میں اس ادارے کی بنیاد حضرت مفتی احمد حسن  نے رکھی تھی جو امرتسر سے ہجرت کر کے لاہور تشریف لائے تھے یہاں انھوں نے نیلا گنبد مسجد اور اس سے ملحقہ عمارت میں تعلیم و تدریس کا یہ ادارہ قائم کیا اور جو روایت ہم تک پہنچی ہے، اس میں چندہ لینے سے منع کیا گیا تھا۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ دین کی تدریس دنیاوی خرخشوں سے پاک ہو اور اس بات کا ذکر کرنے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ علماء نے حکمرانوں اور دولت مندوں سے ہمیشہ دوری اختیار کی جس کی لا تعداد ایمان افروز مثالیں موجود ہیں مگر جس طرح آج جامعہ اشرفیہ چندہ وصول کرتی ہے اسی طرح وہ صاحبان اقتدار اور دولت مند لوگوں کی خدمت میں بھی حاضر ہوتی ہے۔ لگتا ہے ہماری قسمت میں بس یہی کچھ ہے جو مل رہا ہے۔

لگتا تو نہیں پر شاید

$
0
0

تحریک انصاف کے سیاسی دشمن اور اخباری ناقدین ہوشیار باش۔ اب یہ جماعت عمران خان کے وارفتہ مداحین کا محض ایک ہجوم ہی نہیں رہی۔ اس کے تجربہ کار سیاسی لوگوں میں سے اب چند افراد ’’خودمختارانہ انداز‘‘ میں بھی عمل پیرا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ مقصد ان کا عمران خان کے خلاف بغاوت وغیرہ برپا کرنا ہرگز نہیں۔

وہ اپنے رہنما کی محبت میں اب بھی بہت پُر خلوص ہیں۔ ان میں اتنی طاقت ابھی پیدا نہیں ہوئی کہ وہ کپتان کے ان ’’بے ساختہ‘‘ نظر آنے والے فیصلوں کو روک سکیں جو تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین لوگوں کو ’’غیر سیاسی‘‘ یا جمہوریت کے خلاف ’’سازش‘‘ دکھا کر پیش کرتے ہیں۔ ہاں اس بات کی لگن اب بہت نمایاں نظر آنا شروع ہو گئی ہے کہ ایسے فیصلوں کے بارے میں پھیلائے منفی تاثر کی نفی کی جائے اور عمران خان کے فیصلوں کو ہر صورت کوئی مثبت نظر آنے والی Spin  فراہم کی جائے۔

تحریک انصاف میں اُبھرتے اس رحجان کا اظہار سب سے پہلے جاوید ہاشمی کی اس طویل تقریر کے ذریعے ہوا جو انھوں نے قومی اسمبلی کے ایک اجلاس کے دوران 11 مئی کے اسلا م آباد والے جلسے سے قبل فرمائی تھی۔ جاوید ہاشمی کی اس تقریر سے پہلے یہ تاثر بڑی تیزی سے پھیل رہا تھا کہ نواز شریف حکومت کے عسکری قیادت کے ساتھ چند سنگین معاملات پر بڑھتے اختلافات کے ان دنوں میں عمران خان نے 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف دھرنے رچانے کا منصوبہ ’’اچانک‘‘ کسی ’’اشارے‘‘ کی بدولت بنایا ہے۔ مقصد کچھ اس طرح کے حالات بنانا ہے جو بالآخر 5 جولائی 1977ء کے ذریعے ضیاء الحق کے ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کا باعث ٹھہرے۔

جاوید ہاشمی نے اپنی تقریر کے ذریعے بھرپور طریقے سے ہمیں یہ سمجھانا چاہا کہ ان کی جماعت نے کئی ماہ پہلے سے یہ طے کر رکھا تھا کہ اگر 2013ء کے انتخابات میں سرزد ہونے والی ’’دھاندلیوں‘‘کے خلاف کوئی خاطر خواہ اقدامات نہ کیے گئے تو 11 مئی 2014ء کے روز ان انتخابات کے ایک سال مکمل ہو جانے پر بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔ دھرنے کے فیصلے کو ایک سوچا سمجھا فیصلہ قرار دینے کے بعد ہاشمی صاحب نے سب سے زیادہ اصرار اس دعوے پر کیا کہ تحریک انصاف کے احتجاج کا ہدف قبل از وقت انتخاب کا حصول ہرگز نہیں۔ ان کی اصل خواہش ہے تو محض اتنی کہ آنے والے انتخابات کو صاف، شفاف اور منصفانہ بنانے کے لیے تمام سیاسی جماعتیں باہم ملکر کسی فول پروف نظام کی تلاش شروع کر دیں۔

ایمانداری کی بات ہے میں نے جاوید ہاشمی کی اس تقریر کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اپنے سنکی ذہن میں یہی سوچتا رہا کہ ہاشمی ایک بہادر آدمی والا ’’باغی‘‘ہے۔ جو دل میں آئے کہہ ڈالتا ہے۔ مجوزہ دھرنے کے بارے میں اس کی باتیں اپنی جگہ مگر تحریک انصاف کے پرجوش کارکن جو انٹرنیٹ پر ہمہ وقت طوفان اٹھائے رکھتے ہیں ’’باغی‘‘ کے اس عزم کو کیسے ہضم کر پائیں گے کہ ’’اگر اس پارلیمان کو کسی غیر جمہوری قوت نے نقصان پہنچانے کی کوشش کی کہ وہ اس کے تحفظ کے لیے نواز شریف کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے‘‘ نواز شریف کے چند چاہنے والوں کی جانب سے جاوید ہاشمی کی اس تقریر کی والہانہ پذیرائی نے میرے شکوک و شبہات کو مزید تقویت فراہم کر دی۔

اتوار کا دھرنا گزر جانے کے مگر تین دن بعد مجھے تحریک انصاف میں ان دنوں شامل ایک پرانے کرم فرما کا ٹیلی فون آ گیا۔ انھوں نے حکم دیا کہ میں اسی جماعت کے ایک سرکردہ رہنما کے اسلام آباد والے گھر میں رات کے کھانے کے لیے حاضر ہو جائوں۔ پیر سے جمعہ کے دوران اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات کی وجہ سے میں دوپہر یا شام کی دعوتوں میں شریک ہونے کا وقت نہیں نکال پاتا۔ اپنے اس کرم فرما کی بات ڈالنا مگر ممکن نہ تھا۔ لہٰذا کافی تاخیر سے کئی گھنٹے پہلے سے سجی اس محفل میں شریک ہو گیا۔

وہاں میزبان اور میرے کرم فرما کے علاوہ تین بڑے سینئر صحافی بھی موجود تھے۔ ان تینوں کا میرے شعبے میں بڑا مقام ہے۔ ان کی دیانت پر بدترین نقاد بھی اُنگلی نہیں اٹھا سکتے۔ البتہ ان کا شمار ان صحافیوں میں ضرور کیا جاتا ہے جنھیں ’’سُرخے یا جیالے‘‘ سمجھتے ہوئے اکثر ’’غداروں‘‘ کی صفوں میں دھکیلنے کی کوششیں ہوا کرتی ہیں۔

میرے اس دعوت میں پہنچنے سے پہلے اور پھر کافی دیر بعد تک ہم چاروں صحافی اس بات پر بضد رہے کہ عمران خان کی حالیہ ’’پھرتیوں‘‘ کا سبب کسی نہ کسی صورت وہ حالات بھی ہیں جو نواز حکومت نے کچھ معاملات پر سختی سے ڈٹ جانے کی وجہ سے اپنے لیے پیدا کیے ہیں۔ میزبان اور میرے کرم فرما نے ہمارے تندوتیز سوالوں کا مگر بڑی خندہ پیشانی سے سامنا کیا اور ہر ممکن مگر قطعی مہذب اور ٹھوس دلائل کے ساتھ ہمارے شکوک و شبہات کو غلط ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے۔ بات مگر پھر بھی جم نہیں پا رہی تھی۔

بالآخر ہمارے میزبان نے گویا ’’ترپ‘‘ کا پتّا چل دیا۔ حقیقت چاہے کچھ بھی رہی ہو مگر تحریک انصاف کے اس سرکردہ رہنما نے ایک ایسا سوال کر دیا جس کا جواب کم از کم میں بھرپور ہاں میں دینے پر مجبور ہو گیا۔ سوال یہ تھا کہ عمران خان کے اسلام آباد والے جلسے نے کینیڈا میں بیٹھے ایک قادری کے 60 شہروں میں بیک وقت رچائے میلے کو Overshadow نہیں کر دیا جس کا واضح مقصد اس ملک میں جانے پہچانے آئینی اور جمہوری نظام کی ساکھ کو مکمل طور پر تباہ کرنا تھا۔

قادری شو کا عمران خان کے جلسے سے تقابل کرتے ہوئے ہمارے میزبان نے بعد ازاں بڑی مہارت سے یہ کہانی بننا شروع کر دی کہ تحریک انصاف کسی اور کے ’’اشاروں‘‘ پر جمہوری نظام کا تیا پانچہ کرنے سڑکوں پر نہیں نکلی۔ انتخابی نظام کو صاف اور شفاف بنانے کی جدوجہد کرتے ہوئے عمران خان اور ان کی جماعت تو بلکہ جمہوری نظام کو مزید توانا اور جاندار بنانے کی ایک پُر خلوص مہم چلا رہے ہیں۔

میزبان کی جانب سے یہ خوشگوار Spin سنتے ہوئے میرے شکی ذہن میں ’’لگدا تا نئیں پر شید‘‘ والا فقرہ کئی بار گونجا۔ میں لیکن اس کا اظہار نہ کر پایا۔ ہمارے میزبان اپنی کہانی کو درست ثابت کرنے میں چاہے وقتی طور پر سہی پوری طرح کامیاب ہو گئے۔

کپتان! ذرا سوچنا

$
0
0

عمران خان ہمارا ہیرو ہے۔ اس کی ولولہ انگیز قیادت میں ہم نے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا، وہ فاتح بن کر اپنے وطن لوٹا تو اہل وطن راہوں میں بچھ گئے، پھر اس نے کہا ’’میں اپنی والدہ کے نام پر شوکت خانم کینسر اسپتال بناؤں گا‘‘ ساری دنیا سے انتہائی ماہر لوگ آئے اور انھوں نے کینسر اسپتال کے منصوبے کو ناممکن قرار دیا۔ مگر فولادی عزم والے کپتان نے کسی کی نہ سنی اور سر اٹھاکر کہا ’’شوکت خانم کینسر اسپتال ضرور بنے گا۔‘‘

1992 کے ورلڈ کپ میں کپتان نے کہا تھا ’’ابھی بھی ہم ورلڈ کپ سے باہر نہیں ہوئے‘‘ جب کہ ہماری ٹیم آگے پیچھے میچ ہار کے ٹورنامنٹ سے باہر ہوچکی تھی، اور ہماری بقا کسی معجزے کی مرہون منت ہوکر رہ گئی تھی۔ اور پھر کپتان کی اللہ نے سن لی، بارش نے ہمیں یقینی شکست سے بچاکر ایک قیمتی پوائنٹ دلا دیا۔ اگلا معجزہ بھی ہوگیا ، ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے میچ کا نتیجہ ہماری ٹیم کو ٹورنامنٹ میں واپس لے آیا اور پھر نوجوان بولر وسیم اکرم، نوجوان بلے باز انضمام الحق نے تجربہ کار کھلاڑی جاوید میانداد کے ساتھ مل کر ہر حالت میں کپ جیتنے کا جنون پورا کردیا۔

کپتان نے قوم کو اتنی بڑی خوشی دی تو قوم بھی کپتان کی خواہش پر تن من دھن لٹانے کے لیے میدان عمل میں کود گئی۔ اسکولوں کے بچوں نے کپتان کو سب سے زیادہ پیسہ جمع کرکے دیا۔ فاتح کپتان دنیا میں جس بھی ملک میں گیا، جھولیاں بھر بھر کے لوٹا، اور پھر ایک اور ناممکن کام کپتان کے جنون کا شکار ہوگیا شوکت خانم اسپتال بن گیا۔ عوام کے علاوہ حکومت نے بھی اسپتال بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ غرض کہ شوکت خانم کینسر اسپتال کے لیے چھوٹا بڑا ہر دروازہ کپتان کے لیے کھلا تھا۔

خود سر، جنونی، ضدی، ہٹ دھرم، بڑے بڑوں کو خاطر میں نہ لانے والے کپتان کی ہر ادا پر عوام و خواص فریفتہ تھے۔ ایسا ہی عمران خان سب کو اچھا لگتا تھا۔ پھر ایکا ایکی کپتان نے ایک اور بھاری پتھر کو ہاتھ لگادیا، اس بار کپتان کے چاہنے والوں کو ذرا تشویش سی ہوئی، سب کا ماتھا ٹھنکا۔

نہیں نہیں کپتان! یہ نہ کرنا…یہ تمہارے شایان شان کام نہیں ہے۔

مگر وہ عمران ہی کیا جو بھاری پتھر پر ہاتھ نہ ڈالے۔ وہ عمران ہی کیا جو ناممکن کو ممکن نہ بنائے۔ سو کپتان ملک سدھارنے کے لیے چل پڑا۔ اس نے اپنی جماعت کا نام پاکستان تحریک انصاف رکھا۔ کئی سال گزرگئے لوگوں کو کپتان کی سیاست سمجھ میں نہیں آرہی تھی، مگر کپتان کا جنون اسے آگے بڑھاتا رہا۔ نئے راستے، نئی منزلیں، چلتے چلتے کپتان سے کچھ غلطیاں بھی ہوئیں، جس کا اس نے کھلے دل سے اعتراف بھی کیا۔ بڑے آدمی کی یہ بھی ایک پہچان ہوتی ہے کہ وہ اپنی غلطیوں، خامیوں کا معترف ہوتا ہے اور پھر کپتان نے اپنے جنون کے ذریعے پورے ملک میں انقلاب کی جوت جگادی۔

خیبرپختونخوا سے کراچی کے ساحل تک اور بلوچستان کے پہاڑوں، سبزہ زاروں میں کپتان کے نعرے گونجنے لگے۔ خصوصاً نوجوان لڑکے لڑکیاں بے خوف و خطر کپتان کے ساتھ سڑکوں پر، میدانوں میں، جہاں کپتان بلاتا، لاکھوں کی تعداد میں جمع ہونے لگے۔ لاہور میں مینار پاکستان پر ایک بڑا جلسہ ہوا، جسے بلاشبہ لاہور کے چار پانچ بڑے جلسوں میں شامل کیا جاسکتا ہے کراچی میں بھی کپتان کو لاہور والا عروج ملا۔

اہل کراچی نے ایسی شان، آن اور بان سے جلسہ سجایا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ اور جب 11 مئی 2013 کا دن آیا، تو پہلی بار۔۔۔۔ہاں ہاں پہلی بار یہ منظر سب نے دیکھا کہ پولنگ اسٹیشنوں کے باہر ووٹ ڈالنے والوں کی قطاروں میں نوجوان لڑکے لڑکیاں بہت بڑی تعداد میں کھڑے ہوئے تھے۔ یہ کپتان کا جنون ہی تھا کہ الیکشن کے نتائج نے کپتان کی تحریک انصاف کو ملک کی دوسری بڑی جماعت بنادیا تھا۔ کراچی میں بھی شہر کی سیاست لرز کر رہ گئی۔ اور صوبہ خیبر پختونخوا میں کپتان اپنی حکومت بنانے کا حقدار ٹھہرا۔

الیکشن 2013 ختم ہوا اور کپتان نے ٹیسٹ کیس سمجھ کر صوبہ خیبر پختونخوا میں مستقل ڈیرے ڈال دیے۔ کپتان کے صوبے میں بہت بڑے بڑے مسائل تھے۔ سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی تھا اور دیگر مسائل، بے روزگاری، غربت، تعلیم، بیماری، گندگی، ٹوٹی سڑکیں اور اپنی عادت کے مطابق کپتان دن رات کام سے لگ گیا۔ اب اس کے ساتھ جاوید میانداد کی جگہ تجربہ کار جاوید ہاشمی تھا، سلیم ملک اور معین خان کی صورت جہانگیر ترین اور خورشید قصوری تھے۔

نوجوان وسیم اکرم، انضمام الحق کی جگہ اسد عمر، ولید اقبال تھے۔ وہ 1992 تھا اور یہ 2013۔ کپتان نے اپنی ٹیم کو لیا اور صوبہ خیبرپختونخوا میں ڈیرے ڈال دیے۔ اب کپتان کبھی اپنی ٹیم کے ساتھ مانسہرہ کی غریب بستیوں میں نظر آتا تو کبھی بنوں، مردان کی سڑکوں پر۔ اپنی ٹیم کے ساتھ ریت کے ڈھیر پر بیٹھا انجینئر اور مزدوروں کے ساتھ صلاح مشورے میں مصروف نظر آتا۔ کبھی کہیں دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کے جنازے اٹھائے کپتان اور اس کی ٹیم کے لوگ نظر آتے۔

لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ کپتان اپنی صوبائی حکومت کے وزرا پر شیر کی نظر رکھتا تھا مجال ہے جو کوئی ذرا بھی ہیرا پھیری کرجائے۔ کراچی، لاہور، ملتان، راولپنڈی ، اسلام آباد سے کپتان کے ووٹرز بلاوے بھجواتے تھے کہ ایک آدھ دن کو ہمارے شہر آجائیں اور کپتان جواباً کہتا تھا ’’صوبہ خیبر پختونخوا کے لوگ بڑے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں، جہاں میری جماعت کی حکومت بنی ہے میں ان لوگوں کو چھوڑ کر نہیں آسکتا، یہ صوبہ میرے لیے ایک امتحان ہے، مجھے اور میری ٹیم کو اس امتحان میں کامیاب ہونا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ پورے صوبہ خیبرپختونخوا کو پیرس بنادوں۔ تعلیم، اسپتال جگہ جگہ موجود ہوں، غربت، بے روزگاری کا خاتمہ ہوجائے، دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے، اس کے لیے مجھے اسی صوبے میں رہنا ہے۔ میں کہیں نہیں آؤں جاؤں گا۔

اور پھر کپتان تصویروں میں نظر آتا، حویلیاں کے ٹوٹے پھوٹے کواڑوں کے اندر رہنے بسنے والوں کے ساتھ بیٹھا ہے۔ ان کو تسلی دے رہا ہے۔ انصاف اور فوری انصاف عوام کو کیسے مہیا کیا جائے، اس بارے میں اپنی ٹیم کے ساتھ سوچ بچار میں مبتلا، کبھی ایبٹ آباد کے نالے پر پل کی تعمیر کے مراحل میں سیمنٹ بجری کا تناسب دیکھتے ہوئے، کبھی کسی تھانے میں کہیں مظلوم کی پکار پر موجود۔

سارا پاکستان کپتان سے خوش، اس کے جنوں پر خوش۔

میں کپتان اور اس کی ٹیم کی کارکردگی میں محو تھا کہ میرے بیٹے نے مجھے جگادیا ’’پشاور میں خودکش حملہ، پانچ افراد موقعے پر ہی شہید، کئی زخمی‘‘ میں بھی ٹی وی دیکھ رہا تھا اور اپنے کپتان کو اس کی ٹیم کو میری آنکھیں ڈھونڈ رہی تھیں، مگر مجھے کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔ سینئر کھلاڑی مخدوم جاوید، مخدوم شاہ محمود، خورشید محمود، اعظم سواتی، پرویز خٹک، اور نوجوان کھلاڑی اسد عمر، ولید اقبال، کوئی بھی نہیں تھا۔ جلد ہی میں خواب کی کیفیت سے باہر آگیا اور اب ٹی وی پر کپتان تقریر کر رہا تھا۔

پارلیمنٹ کے عین سامنے ڈی چوک پر۔ اور میں سوچ رہا تھا ’’کاش میں خواب ہی دیکھتا رہتا‘‘۔ کپتان کہہ رہا تھا ’’اب اگلے جمعہ فیصل آباد میں سونامی آئے گی‘‘ کپتان! تمہیں کیا ہوگیا؟ تم بھی سیاست کے مکر، فریب میں آگئے، کپتان! اپنے جنون کے ساتھ اپنے صوبے خیبر پختونخوا لوٹ جاؤ۔ وہاں انتہائی دکھ اور تکلیف میں مبتلا لوگوں کو تمہاری ضرورت ہے، اور یاد رکھو! اسلام آباد کی حکمرانی کا راستہ بھی تمہارے لیے خیبر پختونخوا سے ہی جاتا ہے۔ جاؤ! واپس چلے جاؤ! سیاست نہیں جنون میں مبتلا رہو۔ فنا کانپور کا شعر لکھ کر بات ختم کرتا ہوں:

غیرت اہل چمن کو کیا ہوا!

چھوڑ آئے آشیاں جلتا ہوا

کپتان! ذرا سوچنا۔۔۔۔!


کیا عورت صرف مظلوم ہے؟

$
0
0

علم ودانش سے محبت رکھنے والا کون پاکستانی ہوگا جو پروفیسر شاہدہ قاضی کے نام سے واقف نہیں۔ ابلاغیات کی تدریس ان کی پہچان ہے لیکن ان کی فکر اور علم اس شعبے تک محدود نہیں، ایک سچے دانشورکی طرح وہ ان مسائل پر بھی نظر رکھتی ہیں جو بہ ظاہر چھوٹے اور غیرسنجیدہ نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت یہ مسئلے بہت اہم ہوتے ہیں جس کا اندازہ مجھے پروفیسر شاہدہ قاضی کی جانب سے سماجی رابطے کی مشہور اور سب سے زیادہ مقبول سائٹ فیس بک پر کی گئی ایک پوسٹ سے ہوا۔

پروفیسر شاہدہ قاضی نے ایک ٹی وی ڈرامے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنی پوسٹ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس ڈرامے میں ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو جوانی میں بیوہ ہوجاتی ہے۔ ایک ایسی لڑکی جو دو بچوں کی ماں ہے اور شوہر کے انتقال کے بعد اپنے ماں باپ کے گھر بچوں کے ساتھ رہنے لگتی ہے پھر اس کی زندگی میں مسائل شروع ہوجاتے ہیں۔ ہر شخص اس کی زندگی، احساسات اور خوشیوں کا دشمن بن جاتا ہے۔ وہ ایک انٹر پاس لڑکی ہے، ایک چھوٹی موٹی نوکری کرلیتی ہے لیکن دوسری شادی کی تلوار اس کے سر پر لٹکی رہتی ہے جب کہ وہ اپنے بچوں کی خاطر دوسری شادی نہیں کرنا چاہتی۔ اس کہانی اور کردار کو عورتوں کے لیے ہمت شکن کہا گیا ۔

لمحہ بھر کے لیے پروفیسر شاہدہ قاضی کی طرح یہ سوال میرے دل و دماغ میں گونجنے لگا۔ کیا عورت اتنی ہی مظلوم ہے۔ کیا آج کی عورت اتنی ہی بے اختیار ہے کہ اس کی زندگی کے ساتھ کوئی کچھ بھی کرتا رہے۔ وہ اپنے حق اور زندگی کے لیے کیا کچھ نہیں کرسکتی ہے، وہ بھی ایک شہری عورت جو دیہات کی ناخواندہ اور پسی ہوئی خواتین کے مقابلے میں کہیں زیادہ عقل و شعور رکھتی ہے لیکن سیلف میڈ عورت کی حیثیت سے میں اس سوچ کو رد کرتی ہوں، عورت زندگی ہے، عورت شعور کا دوسرا نام ہے، پھر کیسے اسے کچلا جاسکتا ہے۔ یہ صرف ایک ٹی وی ڈرامے کا حال نہیں ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والے 80 فی صد ڈرامے عورت سے متعلق مایوس کن حقائق کی منظر کشی کررہے ہیں۔

اس بات سے کون انکاری ہے کہ ٹی وی ڈرامے ہماری زندگیوں پر کس حد تک اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہم جو کچھ بھی دیکھتے ہیں لاشعوری طور پر وہ ہمارے ذہن میں بیٹھ جاتا ہے اور جب اس طرح کے حالات ہمارے سامنے آتے ہیں جنھیں اپنے لاشعور میں سجائے گئے اسٹیج پر ہم پہلے ہی بٹھا چکے ہیں، تو ہم ویسا ہی ایکشن دیتے ہیں۔ یہ انسانی نفسیات ہے۔

پاکستان میں ڈراما انڈسٹری نے تیزی سے ترقی کی ہے، پاکستانی ڈرامے نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں دیکھے جاتے ہیں لیکن آج کل جو کلچر ہمارے ڈراموں میں دکھایا جارہا ہے وہ ہمارا کلچر تو نہیں ہے بلکہ ایک گھنائونا مذاق ہے جو ہم سے اور ہماری آنیوالی نسلوں سے کیا جا رہا ہے۔ میں آج اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کسی ٹی وی ڈرامے کو دیکھنے کا تصور نہیں کرتی کیوں کہ اکثر ڈرامے فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھے نہیں جا سکتے ۔

میڈیا پر جو کچھ دکھایا جائے گا وہ دیکھنے والوں کے ذہنوں پر اثرانداز ہوگا، یوں ہم معاشرے کی سوچ کو بھی اسی طرح سے بدل سکیں گے جس طرح ہم بدلنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے میڈیا نے عمومی طور پر ہمارے معاشرے کی سوچ کو مثبت انداز میں بدلنے کے بجائے منفی سوچوں کو پروان چڑھایا ہے۔ آپ بتائیے کیا وہ زبان ہم اپنے گھروں میں استعمال کرتے ہیں وہی ہے جو زبان آج کل ٹی وی ڈرامے دکھا رہے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ یہ تو زبان کے وہ چٹخارے ہیں جنھیں ہمارے نوجوان کچھ وقت کے لیے اپناتے ہیں اور پھر یہ ان کی اپنی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔

فلم ہو یا ڈراما تفریح کے یہ ذرایع اپنے اندر دلچسپی کے پہلو رکھنے کی وجہ سے ناظرین کی بھرپور توجہ حاصل کرتے ہیں خاص کر ٹی وی ڈرامے کی رسائی گھر گھر تک ہے، اس لیے اس کے اثرات بھی گہرے، دور رس اور دیرپا ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں کتابیں پڑھنے اور ان کے ذریعے شعور کی سطح بلند کرنے کا کلچر ناپید ہے۔ ہماری عورتوں کی اکثریت کی تفریح ٹی وی ڈراموں اور زیادہ سے زیادہ خواتین کے ڈائجسٹوں تک محدود ہے جن میں چھپنے والا مواد اپنی قارئین کو حقائق سے دور رومان اور خوابوں کی دنیا میں لے جاتا ہے۔

ڈائجسٹ پڑھنے کا رجحان تو خیر اب بہت کم ہوگیا ہے مگر کون سا گھر ہے جہاں ٹی وی نہ دیکھا جاتا ہو اور جس کی خواتین اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ ڈرامے دیکھنے میں نہ صرف کرتی ہوں۔ بات ڈراما دیکھ کر ’’ٹائم پاس‘‘ کرلینے ہی پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کے کرداروں کے افعال اور اعمال پر بڑی سنجیدگی سے تنقید اور تبصرے ہوتے ہیں، کرداروں کے دکھوں کا غم منایا جاتا ہے اور ان کی خوشیوں پر اظہارِ مسرت کیا جاتا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٹی وی ڈراما کس طرح اپنے دیکھنے والوں خاص طور پر ناظر خواتین پر اثرات مرتب کرتا ہے اور ہمارے یہاں یہ ڈرامے کس قدر محویت کے ساتھ دیکھے جاتے ہیں۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ٹی وی ڈراما ایک نہایت طاقت ور ذریعہ ہے جس میں دکھائے جانے والے حالات، واقعات کرداروں کے عمل اور ردعمل ناظرین کے ذہنوں اور سوچ کو متاثر کرتے ہیں۔ ہمارے جیسے ملک میں جہاں ناخواندگی، تعلیم کی کمی اور ذہنی پسماندگی عام ہے، وہاں ڈرامے ذہنوں کو کس طرح متاثر کرتے ہیں اور کر رہے ہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ ٹی وی ڈرامے کے اس طاقت ور اور موثر ذریعے کو لوگوں خصوصاً خواتین میں شعور اجاگر کرنے، ان کی ہمت بڑھانے اور انھیں حوصلہ دینے کے لیے استعمال کیا جائے کیونکہ افراد کی تربیت عورت ہی کے ہاتھ میں ہے لیکن اس کے برعکس ڈراموں میں عورتوں کو محض مظلومیت کی نشانی بناکر پیش کرنا نہ حقائق کے مطابق ہے اور نہ ہمارے معاشرے کے لیے کسی طور بھی سود مند ۔

تحریک پاکستان کا بے تیغ سپاہی

$
0
0

ابھی تک شعر میرے ذہن میں گونج رہا ہے اور بازگشت دور دور تک سنائی دے رہی ہے۔

ہے مشق سخن جاری، چکی کی مشقت بھی

اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی

چہ خوب است، ذہن شعروسخن کی آبیاری کر رہا ہے۔ نازک خیالات رقم ہورہے ہیں۔ داستان حسن و عشق کے دھنک رنگ چاروں سمت روح وجسم کے لیے موسم بہار کا اہتمام کر رہے ہیں اور وہی ہاتھ جو قلم سے جہاد کر رہا ہے جس کا عمل آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے اسی ہاتھ میں چکی تھما دی جاتی ہے۔ جسم کو مقید کردیا جاتا ہے اور قید و بند کی صعوبتوں کے توسط سے آزادی کے متوالوں پر پہرے بٹھا دیے جاتے ہیں لیکن روح کو آزادی کے جذبے کو کون سلب کرسکتا ہے۔ تخلیق کار تو اپنے جذبے رقم کرتا رہتا ہے۔

سوری آزادی کے متوالے نے بھی دن بھر چکی پیسی جن لوگوں نے حسرت کے ہاتھوں کے نشان دیکھے ہیں وہ گواہ ہیں ان کی عظمت اور سچائی کے۔ اسی نظریے سے محبت کے جس کو تکلیف کے ہر لمحے میں عزم و حوصلے سے تازگی ملی۔ چکی کی مشقت کے ساتھ ساتھ حسرت نے غزل کی آبرو کا بھی خیال رکھا اور اس کو ایک نیا رنگ و آہنگ دے کر دل کی دوشیزگی کو مزید نکھارا۔ بلا شبہ یہ ایک کمال تھا۔ حسرت نے برطانوی گورنمنٹ کے زمانے میں وہ سزا کاٹی جو واقعی آزادی کے مجاہدین کو دی جاتی تھی۔ وہ سختیاں برداشت کیں جن کی ہمت صرف ان لوگوں میں تھی جو منزل مقصود کے لیے مخلص تھے۔ نہ ہی ان کی جیلیں شاہانہ ہوتی تھیں اور نہ ہی قید و بند نمائشی۔ نہ ہی گھر کے لذیذ کھانے اور نہ ہی فرمائشی پروگرام۔ ہائے زمانہ کتنا بدل گیا ہے اور تو اور قید و بند کے انداز بھی بدل گئے ہیں۔ چکی تو بے چارا غریب پیستا ہے۔

امیروں کی اسیری کے تو رنگ ہی منفرد ہوتے ہیں۔ قربانی لوگ کل بھی دیتے تھے اور آج بھی دے رہے ہیں لیکن قربانی کے معنی و مفہوم بدل گئے ہیں یا پھر ہم قربانی کی اصل روح تک نہیں پہنچ سکے۔ قربانی اور عشق کا ایک گہرا تعلق ہے اور شاید یہ تعلق کمزور پڑچکا ہے۔ عشق اپنی معنویت کھوچکا ہے اور ہر خاص و عام نے اسے اس طور اپنایا کہ یہ اپنی قدر کھوتا جارہا ہے۔ رہی قربانی بیچاری کہ ہر شعبہ، ہر گوشہ اور ہر مقام پر اسی قدر قربانی دی جا رہی ہے، پانی جاری ہے کہ اس کا اصل رنگ و چہرہ ہی دھندلا گیا ہے۔ تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھو کیا دن تھے، کیسی کیسی شخصیات تھیں با کردار لوگ، با حوصلہ رہنما، قافلے رواں دواں، قربانیوں کے گہرے رنگ، مال و متاع لٹاتا قافلہ، سر زمین پاک کے شیدائی جن کے جذبوں کے آگے پہاڑ ریزہ ریزہ تھے اور دریا بے معنی۔ حال گواہ ہے کہ اب وہ لوگ نایاب ہیں۔

حسرت کے ساتھ بے شمار نقوش ذہن کے افق پر ابھرنے لگے۔ ادب ہو، سیاست، صحافت ہو یا معاشرت، معاشرے و سماج کے تمام طبقات نے اپنا اپنا کردار ادا کیا لیکن ہم نے کیا کیا؟ ہمارا کردار کیا ہے؟  پہلے تو سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ہمارا کوئی کردار ہے بھی یا نہیں۔ مثبت و منفی کا فیصلہ تو بعد میں ہوگا۔ پہلے کوئی شخصیت یا کردار تو ہو۔ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے عمل کی جگہ کردار و شخصیت بھی ہم سے چھن گئے ہیں۔ باقی کیا بچا شاید کچھ بھی نہیں۔ خیر ایسا بھی نہیں ہے، امید ابھی باقی ہے، بیچاری ایک کمزور سی امید کتنا بڑا مضبوط سہارا ہوتی ہے۔ ہماری آنکھوں میں خوابوں کو زندہ رکھتی ہے۔

سوچتی ہوں کہ شاید تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرائے، تاریخ پاک و ہند کے وہ رہنما جنھوں نے لرزہ خیز لمحات میں جنم لیا تھا اور قیامت انگیز لمحوں میں اپنا مقام بنایا تھا۔ دوبارہ جنم لیں۔ وہ لوگ جو اپنے لیے نہیں دوسروں کے لیے سوچتے تھے جنھوں نے اپنے خزانے نہیں بھرے بلکہ اپنے خزانے مملکت اسلامیہ کے لیے لٹادیے لیکن پھر اسی خیال سے کانپ جاتی ہوں کہ جب تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی تو کیا میر صادق و جعفر دوبارہ جنم نہ لیں گے پھر اپنی بے وقوفی پر ہنسی آتی ہے۔

دوبارہ جنم تو وہ لے گا جو مرچکا ہو لیکن جو مرے ہی نہیں کسی نہ کسی صورت میں آج بھی زندہ ہیں اور معاشرے میں حسب فطرت اپنا کردار ادا کررہے ہیں یہ دوسری بات ہے کہ ہم بہرے اور گونگے ہونے کے ساتھ ساتھ اندھے بھی ہو چکے ہیں اسی لیے پہچان کھو بیٹھے ہیں۔ کیا ہم واقعی اپنی پہچان کھو بیٹھے ہیں یا پہچان کا شعور بھی کھودیا ہے نہیں اگر ایسا ہوتا تو ہم حسرت کی اسیری اور دور حاضر کی اسیری میں فرق نہ کر پائے، خیر اب فرق رہ بھی کیا گیا۔ اب تو رہائی میں اسیری کا رنگ غالب آتا جارہا ہے اور اسیری پر رہائی کا شبہ ہونے لگتا ہے کس قدر قربتیں ہوگئی ہیں، اسیری اور رہائی کے درمیان اسیری میں رہائی کے مزے اور رہائی میں اسیری کی بندشیں، ہم بھی کبھی کبھی لفظوں کے ہیر پھیر میں الجھ جاتے ہیں، بقول شاعر:

اظہار القضات کے پردے میں اور بھی

وعدہ عقدہ ہائے شوق کو پیچیدہ کرچلے

صاحب پیچیدہ گفتگو عام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی اور ہمیں لفظوں کے جال بچھانے کی عادت سی ہوگئی ہے، خیر عادتوں کا کیا ہے۔ عادتیں تو بنتی بگڑتی رہتی ہیں۔ اب دیکھیں نا جب الیکشن کا زمانہ ہوتا ہے تو ہر شخص عاجزی کا پیکر، پرخلوص، انکسار پسند نظر آنے لگتا ہے، قوم کے درد میں مرمٹنے کو تیار، ہر قربانی کے جذبے سے سرشار لیکن بعد از انتخاب الزامات کی بھرمار، نفرت، جنگ جھگڑا، لڑائی اور اپنے اپنے مفاد کی من پسند رستے۔ کاش! ہاں یہ لفظ کاش اکثر ہماری زندگی اور سوچ میں شامل ہوجاتاہے۔ اسی لمحے میں بھی سوچ رہی ہوں کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم اپنے قول و فعل کے معاملے میں مستقل مزاج ہوجائیں۔ جیسے حسرت تھے، بے باک سیاسی لیڈر اور تحریک آزادی کا مخلص سپاہی ان کی صحافت اور سیاست بے داغ تھی۔

ہائے بے داغ سیاست اور ہماری مادی دنیا۔ ایسا لگتاہے کہ جیسے بے داغ سیاست کا تصور ایک نایاب خواب بنتا جارہاہے۔ کاش! یہ خواب حقیقت بن جائے۔ہماری طبیعت کا رنگ بھی عجیب ہے، بات ہوتی ہے سیاست کی، بات ہوتی ہے تو موضوع ادب کی طرف چلا جاتاہے۔ ادب کی گفتگو ہے تو سماج درمیان میں آجاتاہے۔ سمجھ کے مسائل ہوں تو رخ مذہب کی طرف ہوجاتاہے۔ لیکن صنف غزل کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر رخ اور رنگ کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے، غزل کی آبرو کو سنبھال کر رکھنے والے اسی شاعر ناقد ادیب صحافی اور صوفی لیڈر اور آزادی کے صحافی نے شاعری میں سیاسی موضوعات اور تلخ حقائق کو سلیقہ کے ساتھ بیان کرکے ادب کو تاریخ سے قریب کردیا۔ تاریخ رقم کرنے میں ادب کے اہم کردار کو نظر انداز کرنا اب مشکل ہے۔غلامی کے دور میں آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے وہ اپنے عزم اور حکم کے ساتھ سینہ سپر رہے۔

نیو ورلڈ آرڈر کی ریشہ دوانیاں

$
0
0

بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکا دنیا کی سیاسی، اقتصادی، عسکری، فلاحی اور مذہبی دنیا کی ڈوریں ہلا رہا ہے۔ تجارت، بینکاری، فلاحی، ثقافتی، تعلیم و صحت اور سائنسی تحقیق سے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان سب کاموں کی آڑ لے کر شیطانی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا، دنیا سے اسلام کا خاتمہ کرکے نئے نظام ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کو دنیا میں نافذ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

یہود مخالف قوتوں کو تباہ کرنا، ہالی ووڈ، عالمی میڈیا اور آئی ایم ایف و ورلڈ بینک کے ذریعے دنیا کی دولت کو قبضے میں کرنے کے لیے جو مشنری استعمال ہو رہی ہے اسے اب ترقی پذیر ممالک، خاص کر اسلامی ممالک اچھی طرح سمجھنے لگے ہیں، لیکن ان کے شکنجے سے نکلنے کے لیے ان کے پاس ایسے ذرایع نہیں ہیں جس بنا پر وہ اپنی گرتی معیشت کو سنبھالتے ہوئے اپنی مملکت کو گروی رکھنے سے بچا سکیں۔

جدید ٹیکنالوجی کے مالک راک فیلرز سمجھے جاتے ہیں۔ جانوروں پر تحقیقات، جراثیمی اور وبائی امراض پھیلانے کے طریقے، خاندانی منصوبہ بندی، نیشنل جیوگرافک، عالمی ادارہ صحت اور خلائی تحقیقاتی ادارے ’’ناسا‘‘ وغیرہ میں راک فیلرز انتہائی موثر کردار ادا کرتے ہیں۔ ان اداروں کو بڑی بڑی رقوم فراہم کی جاتی ہے۔ خلائی، عسکری، جنیاتی میدانوں میں جدید ٹیکنالوجی انھی کی تجربہ گاہوں سے نکل کر انھی فیکٹریوں میں تیار ہو کر امریکی حکومت کو فروخت کردی جاتی ہے۔ ہم کسی ٹیکنالوجی مثلاً ڈرون طیارے یا بینک کے بارے میں سنتے ہیں کہ یہ امریکا کی ملکیت ہیں تو اس سے مراد یہ نہیں کہ یہ واقعی امریکی حکومت کی ملکیت ہونگے بلکہ دیکھا یہی گیا ہے کہ یہ ان یہودیوں کی ملکیت ہوتے ہیں جو وہاں کے چپے چپے کے مالک ہیں۔جیسے دنیا کی بڑی اسلحہ ساز فیکٹری کے مالک راک فیلر ہیں۔

جنگ اول 1914-1918 اور جنگ عظیم دوئم 1939-1945 دونوں میں اتحادیوں کو تیل اور اسلحہ اسی خاندان کی کمپنیوں نے فراہم کیا۔ وسط ایشائی ریاستوں کے غیور مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لیے روس کے اندر کمیونسٹ انقلاب کے لیے رقم فراہم کرنیوالا ڈیوڈ راک فیلر تھا۔ افغانستان پر امریکی حملہ اور قبضہ اس تمام آپریشن کی نگرانی اسی خاندان کا ایک بائیس سالہ نوجوان کر رہا تھا۔ طالبان کی پسپائی کے بعد سب سے پہلے کابل آنیوالا یہی نوجوان تھا، جو اپنے ذاتی طیارے سے وہاں پہنچا۔ ڈیوڈ راک فیلر نے اپنی خود نوشت 2002 میں شایع کی۔

اس میں وہ لکھتا ہے کہ ’’لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم (راک فیلر خاندان) امریکا کے سیاسی اور اقتصادی اداروں پر قابض ہیں، بعض لوگوں کو اس بات کا یقین ہے کہ ہم ’’خفیہ کبالہ‘‘ کا حصہ ہیں جو امریکا کے مفادات کے خلاف کام کر رہا ہے، مجھے اور میرے خاندان کو ’’بین الاقوامیت کا حامی‘‘ تصور کرتے ہیں نیز وہ یہ تصور بھی کرتے ہیں کہ ہم دنیا میں اوروں کے ساتھ مل کر ایک ایسا بین الاقوامی، سیاسی اور اقتصادی ڈھانچہ کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو (موجودہ سے) زیادہ مکمل ہوگا، اگر یہی الزام ہے تو میں مجرم ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے۔‘‘جان ڈی راک فیلر کے بیٹے نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر کے لیے زمین چندے میں دی۔

نیلسن راک فیلر نے امریکی اور بین الاقوامی سیاست کو یہودیوں کی لونڈی بنانے کے لیے 1921 میں سی ایف آر CFR قائم کیا، اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے قیام میں اس کا بنیادی کردار تھا۔ اسی نے اقوام متحدہ کے دفاتر کے لیے نیویارک میں جگہ دی۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر ڈیوڈ راک فیلر نے بنوایا تھا۔ ڈیوڈ خود آرکیٹیکٹ ہے، اس نے دنیا میں ایسے ڈیزائن متعارف کرائے جو قدیم یہودی ثقافت کی نشانیاں ہیں۔ گھروں کے اندر فرش، دیواروں پر چھ اور آٹھ کونے والا ستارہ، سانپ کی طرح بل کھاتی سیڑھیاں، شیطان کا سینگ شیلڈ اور اس طرح کے بہت سارے ڈیزائن جو فن تعمیر میں استعمال کیے جاتے ہیں۔

گوانتاناموبے، بگرام اور ابو غریب جیل میں دوران حراست مجاہدین اور عام مسلمانوں پر جو وحشیانہ تشدد کیا گیا اس کے پیچھے جے راک فیلر کا ہاتھ تھا۔ سی آئی اے نے تشدد کے نئے طریقے کے بارے میں صرف دو لوگوں کو بریف کیا جن میں ایک جے راک فیلر بھی تھا، تشدد کے ان مناظر کی ویڈیو سی آئی اے نے بنائی تھیں، جو ضایع کردی گئیں۔ اس کے لیے تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی تو جے راک فیلر نے اس کمیٹی کو ختم کرادیا، اس نے کہا ’’یہ انٹیلی جنس کمیٹی کی ذمے داری ہے۔‘‘نسل انسانی کو تباہ کرنے کے لیے جتنے پروگرام چل رہے ہیں ان کے منصوبہ ساز راک فیلرز ہیں۔

یہ خاندان ترجیحی بنیادوں پر دنیا کی حکومتوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے ملکوں میں اس پالیسی کو بزور طاقت نافذ کریں۔ راک فیلرز خاندان کا دنیا کے غریب اور اسلامی ممالک پر بڑا اثر و رسوخ ہے۔ اسی بنا پر اسلامی ممالک اپنی کوئی پالیسی نہیں بنا پاتے کیونکہ معاشی طور پر انھیں انھی مالیاتی اداروں کے دست نگر ہونا پڑتا ہے جو راک فیلرز خاندان کی ملکیت ہیں۔ ہمارے اسلامی ممالک، صرف نام کی حد تک اسلامی ہیں جب کہ ان کی مکمل معاشی پالیسی یہودیت کے نظام ربوبیت پر قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود اسلامی ممالک اپنے زر خرید کرایے کے فوجی مہیا کرنیوالوں کے آقا بننے کے باوجود اس جاہل کی طرح ہیں جس میں سمجھ بوجھ تو بہت ہے لیکن جب لکھنے کا مرحلہ آتا ہے تو وہ مجبور ہوجاتا ہے اور تحریر کے لیے پڑھے لکھے کا محتاج بن جاتا ہے۔

اسلامی نظام معیشت کو تباہ کرنے کے لیے صرف یہ ایک راک فیلرز خاندان ہی نہیں بلکہ اس جیسے متعدد خاندان ہیں جنھوں نے چالاکی سے کام لیتے ہوئے عالمی مقتدر اداروں پر اپنا باطنی قبضہ کر رکھا ہے۔راک فیلرز، یہودی ہونے کے باعث مسلمانوں سے خصوصی عدوات رکھتے ہیں، اس خاندان نے خلافت عثمانیہ سے لے کر فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام تک میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ عرب حکمرانوں کو اپنے سحر میں جکڑ کر بیت المقدس پر قبضہ، بوسنیا کے مسلمانوں کے خون سے ہولی، عراق میں درندگی، افغانستان میں دنیا کا ہر اسلحہ استعمال کیا۔ ابو غریب اور گوانتاناموبے کے پنجروں میں انھی کے حکم سے انسانیت کی تذلیل کی جاتی ہے۔

مسلم امہ جب تک امت واحدہ نہیں بنتی اور تفرقوں کا شکار رہے گی، اس کی اسی طرح تذلیل کی جاتی رہے گی اور اس کے وسائل پر راک فیلرز جیسے لوگ قبضے کرکے مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر اپنے مقاصد پورے کرتے رہیں گے۔ راک فیلرز کے عالمی سیاست میں اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے ہمیں اپنی بنیاد صرف قرآن پر رکھنی ہوگی۔ تفرقوں اور فروعی اختلافات کو بالاتر رکھ کر یہودیت کے نظام ربوبیت سے اپنی معیشت کو باہر نکالنے کے لیے اسلامی نظام تعلیم و معیشت کو لاگو و رائج کرنا ہوگا۔ یہی واحد حل ہے۔

آؤ برصغیر کو زندہ کریں

$
0
0

بات ہوگی آج مودی سرکار کی۔ گاندھی اور جناح کے گجرات کی۔ کس طرح اپنے ابا کے چائے کے ٹھیلے پر بیراگیری کرتا ہوا ایک لڑکا طویل ترین وزیر اعلیٰ گجرات کی ریاست میں ریکارڈ قائم کرنے کے بعد اب دلی پر راج کرنے کو جا رہا ہے۔ وہ اس طرح ہندوستان کو اندر سے کھوکھلا کرنے جا رہا ہے، شاید جس طرح ہٹلر نے جرمنی کو کیا تھا۔ بہت کچھ ایک جیسا ہے ان دونوں میں، وقت مگر بدلا بدلا سا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ داستان رقم کروں، میں جانا چاہتا ہوں بہت دور تاریخ کے ان اوراق میں جب امیر خسرو ہندوستان میں انسان تراشنے جا رہے تھے، جب کبیر بانی لکھ رہے تھے اور میرا بھجن گاتی تھی۔ ادھر ویدوں کا ہندوستان تھا۔

قدیم سندھ کی پنجاب سے اتنی رفاقت نہیں تھی، بس ایک دریا تھا جو بہتا ہوا وہاں سے گزر کے یہاں آتا تھا۔ اکبر نے 1592 میں پہلے بنگال اور پھر ٹھٹھہ پر حملہ کرکے مرزا جانی سے سندھ لے کے اسے ہندوستان کے ملتان صوبے سے ملا دیا تو سندھ کا گورنر بھی ملتان میں بیٹھتا تھا۔ باقی سارا سندھ گجرات، راجستھان سے راجپوتوں و ٹھاکروں سے جڑا ہوا تھا۔ اکبر کو سندھ سے لگاؤ تھا، وہ خود یہاں پیدا ہوا تھا۔ بھٹائی کو گجرات سے پیار تھا۔ ہر سال اونٹوں پر بیٹھ کر بہت دنوں کے لیے تھر کے راستے گجرات کو نکل پڑتے تھے۔ ’’شاہ جو رسالو‘‘ میں گجرات کے شہر کھنبات کے نام سے پورا ایک باب رقم کیا۔

ہندوستان کو اہنسا سکھائی تو سندھ نے سکھائی، کیوں کہ اکبر نے عظیم ہندوستان کو پہلی مرتبہ بتایا کہ ریاست اور مذہب دو الگ حقیقتیں ہیں اور ان کو گڈمڈ کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ وہ بنیادیں اس طرح ہندوستان میں مسلمانوں کی سلطنت کی ڈالیں جو ڈیڑھ صدی تک بڑے اطمینان کے ساتھ مسلمانوں کا دور چلتا رہا۔ مگر پھر اورنگزیب مذہب کو اس طرح بیچ میں لائے جس طرح ضیا الحق پاکستان میں لائے اور ہندوستان بکھر گیا۔ اسی ہندوستان کے جب دولخت ہوئے تو یہی گجرات تھا جس نے اس طوفان کی قیادت کی۔

ولبھ بھائی بھی گجرات سے تھے۔ وہ امیر خسرو نے جو کلاسیکل موسیقی کی داغ بیل ڈالی وہ ہندوستان نہ جانے کہاں رہ گیا۔ ’’پیار نہیں سر سے جس کو وہ مورت انسان نہیں‘‘۔ وہ روی شنکر کا ستار، وہ ہری پرساد کی بانسری، وہ بسم اﷲ خان کی شہنائی، وہ ذاکر حسین کا طبلہ، وہ پروین سلطانہ کا ’’خیال‘‘ گانا، وہ بھیرویاں، وہ تان سین، وہ استاد بڑے غلام علی نہ جانے کیا ہوئے۔ وہ قرۃ العین حیدر کا ہندوستان، وہ اس کا پاکستان۔ آئی تو تھی مگر ایوب کی آمریت آئی تو واپس دلی کو چل پڑی۔

کون جانے خسرو کیا تھے، مسلمان تھے یا ہندو تھے، بس ایک بات تھی کہ وہ انسان تھے اور موسیقی کے سہارے انسان تراشنا چاہتے تھے۔ برصغیر سے وہ حساس من جو امیرخسرو پیدا کرنے جا رہے تھے، جو کبیر نے ایک آفاقی انسان برصغیر کے لیے مانگا تھا، جس کینوس پر ٹیگور نے رنگ بھرے تھے۔ جو فیضی کا انسان تھا۔ بلا، باہو، فریدہ، امرتا پریتم کا انسان تھا، وہ نہ جانے کہاں رہ گیا؟ اب برصغیر میں انسان نہیں تراشے جاتے۔ انسانوں کے قاتل تراشے جاتے ہیں، نفرتوں کا بازار لگایا گیا ہے۔ یہاں کلاشنکوف اور وہاں خنجر گھونپ خوب چلتے ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی سانس سینے میں دبکی ہوئی ہے اور یہاں مسلمانوں میں تفریق کردی گئی ہے، کوئی شیعہ، کوئی بریلوی ہے تو کوئی دیوبندی، وہ ایک دوسرے کو مسلمان نہیں مانتے۔ میرا برصغیر کس ڈگر پر چل پڑا ہے۔

بسم اﷲ خان مرحوم شہنائی تو بجاتے تھے مگر تھے وہ دل سے کانگریسی، روی شنکر ہو یا کوئی اور کیسے انتہا پرست ہوسکتے ہیں۔ اور تو اور ایک مسلمان ہندوستان میں کس طرح مودی کی RSS کا حمایتی ہوسکتا ہے۔ وانسوانی میں راہول گاندھی کا جلسہ تھا، اس میں بسم اﷲ خان کے بیٹے نے جو خود شہنائی نواز تھے، شہنائی بجائی تو مودی بہت برہم ہوئے اور کہا کہ ’’جب ہمارا وہاں جلسہ تھا تو تم نے ہماری دعوت کیوں قبول نہیں کی اور شہنائی کیوں نہیں بجائی؟‘‘ اور پھر جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ان کو ملیں۔ بسم اﷲ خان صاحب کے بیٹے نے کہا وہ ہمارا سیاسی و انسانی حق ہے کہ ہم کہاں گائیں گے اور کہاں نہیں کہ وہ بھی اپنے ابا کی طرح کانگریسی ہیں۔

کہتے ہیں ہٹلر ناکام مصور تھے، مصور نہ بن سکے تو انتقام پر اتر آئے۔ جرمن بھی نہیں تھے، آسٹریا سے تعلق تھا، اور وہ جرمنی کا حصہ تھا (آج کل الگ ملک ہے)۔ شراب خانوں کی وہ کلاس جہاں غریب لوگ جایا کرتے تھے تقریر کے فن سے بہت خوب واقف تھے۔ غریبوں کو جنگی جنون و نفرتوں کی خبریں سناتے تھے، اور یہودیوں کے خلاف اکساتے تھے۔ جب بولتے تھے تو سناٹا چھا جاتا تھا۔

سارے شرابیوں جو نچلے طبقے سے تھے، بہت سے ان میں چوری چکاری بھی کرتے تھے مسلح رہتے تھے، ان کے ہر دل عزیز تھے۔ شادی کی مگر فوری ہی علیحدگی اختیار کی، یوں کرتے کرتے 1933 میں جرمنی کے چناؤ میں جیتے، صدر ہینڈسبرگ کو اسے چانسلر کرنا ہی پڑا۔ وہ جرمنی کے آئین میں ترامیم اکثریت ہونے کی وجہ سے کراتے گئے اور صدر ہینڈسبرگ دستخط کرتے گئے۔ ہینڈسبرگ رحلت کرگئے، اور پھر ایسا بھی ہوا یہ قانون بھی پاس ہوگیا کہ اب قانون بنانے کے سارے اختیار ہٹلر کے پاس ہیں (جس طرح ظفر علی شاہ کیس میں آئین میں ترامیم کرنے کا اختیار جنرل مشرف کو دیا گیا تھا)۔

اور پھر سارے مسلح نازی، جو لٹیرے بھی تھے، جیلوں میں سزائیں کاٹ رہے تھے، ان کو ہٹلر نے جیل سے رہا کردیا۔ ہٹلر نے بھی PPO جیسا قانون بنایا اور اسے اپنے مخالفین کے خلاف غداری کا الزام لگانے کے لیے استعمال کیا، یہاں تک کہ خود اپنی پارٹی کے پارلیمانی نمائندوں کو بھی نہ چھوڑا۔ ادھر آزاد ہوتے نازی پھر سے مسلح ہوئے۔ یہودیوں کا گھیرا تنگ کیا۔ جرمنی کے پڑوسی یہ سب ہوتا ہوا دیکھ رہے تھے اور اسے جرمنی کا اندرونی معاملہ سمجھ رہے تھے۔ جب چیکوسلواکیہ پر قبضہ کیا تب بھی برداشت کیا اور جب پولینڈ پر کیا تو دنیا اٹھ گئی۔ ہٹلر خود جرمنی میں آئی ہوئی خطرناک افراط زر کی وجہ سے بھی مقبول ہوئے۔ قوم سے وعدے کرنے میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا۔ ان کو احساس ہوا کہ وہ دنیا کی سپر قوم ہیں اور انھیں دنیا پر حکمرانی کرنے کا حق ملا ہوا ہے اور وہ یہ حق چھین کر لیں گے۔

مودی بھی کہتے ہیں لفاظی میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ اعلیٰ مقرر ہیں۔ RSS کے پرچارک تھے۔ ان کے شاگرد تنظیم کے رہنما بنے۔ ولبھ بھائی پٹیل کا اپنے آپ کو روحانی اولاد سمجھتے ہیں۔ ہندوستان میں اپنی مقبولیت کے لیے مسلمانوں سے نفرت کو ہوا دی۔ پورے گجرات میں آگ لگادی۔ وہ یہی بی جے پی ہی ہے لیکن اس بی جے پی کے اندر انتہا پرست RSS کے مرکزی رہنما ہیں۔ یہ وہ RSS ہے جس کی بنیادیں ڈالنے والوں میں اسی سندھ سے تعلق رکھنے والے ایل کے ایڈوانی بھی ہیں۔

مودی نے شادی کی مگر بیوی کے ساتھ رہ نہیں پائے۔ دو سال ہمالیہ کے پہاڑوں میں سنیاس بھی کیا۔ واپس آئے، اب کے چائے کے ٹھیلے پر کام بھی کیا۔ بالکل بہت ہٹلر کی طرح پاپولر ہوئے، اپنی زہر آلود تقاریر سے ہندوستان کے لوگوں میں مقبولیت بھی حاصل کی۔ ہندوستان کے آج سیکولرزم کو پہلی بار کوئی خطرہ لاحق ہوا ہے تو وہ مودی سے ہوا ہے اور اگر جیت گئے جس کے قوی امکان ہیں تو پورے برصغیر میں نئے سرے سے نفرتوں کی آگ بھڑکنے کے قوی امکانات ہیں۔

ٹھیک ہے وہ تاریخ کے ایک بڑے بحران سے گزر رہے ہیں۔ لیکن وہ ہٹلر کی طرح بنیادوں کو ہلا نہیں سکے گا۔ مودی ہٹلر نہیں بن سکتا۔ اور اب کی بار دنیا بھی وہ دوسری عظیم جنگ والی نہیں ہے۔ہاں مگر وہ جو امیر خسرو  ایک برصغیر کا انسان راگ کے ذریعے حساس کرنا چاہتے تھے، وہ کبیر، وہ میرا بائی، بلا، باہو والا برصغیر وہ انسان پیدا نہیں کرسکا۔ ایک ایسا انسان جو دنیا کے انسان بنانے کے کام کا ہر اول دستے والا کام کرے گا۔

ڈر ہے کہ کہیں اس پاکستان میں جو ماتم کی گھڑی ہے، مسلمان، مسلمان کی جان لینے پر تلا ہوا ہے۔ ہر طرف خون کی پچکاریاں ہیں، وہ طبلہ وہاں ٹوٹا پڑا ہے، وہ شہنائی، وہ بانسری خون میں لت پت ہے اور امیر خسرو کا ستار پھر بھی درد کی تندوں کو سجائے بج رہا ہے، کوئی کتھک ناچ کر رہا ہے، تو اس کے پیروں میں پازیب سے لہو ٹپک رہا ہے۔ یہ کیا ہوا ہے کہ دل میرا رشید رحمان کے قتل سے بھر گیا ہے اور آنکھ ہے کہ آنسو نہیں روتی۔ برصغیر جل رہا ہے، اٹھو اب گاندھی، جناح تمہارا گجرات بنجر ہوگیا ہے۔ اٹھو اب پھر امیر خسرو کے راگ سے برصغیر کو زندہ کریں اور انسان تراشنے کا پھر سے دھندہ کریں۔

تنخواہوں میں اضافہ، معیشت پر اثرات

$
0
0

لوگ اپنی آمدنی کا زیادہ تر حصہ اشیائے صرف اور دیگر ضروریات پر خرچ کردیتے ہیں۔ ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی غربت، تقسیم آمدن میں عدم مساوات اور مہنگی خوراک کے باعث محدود آمدن والا تنخواہ دار طبقہ شدید مشکلات سے دوچار ہے چونکہ مہنگائی عروج پر ہے لہٰذا اشیائے صرف اور ضروریات زندگی کے لیے دونوں کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے باعث مصنوعات و پیداوار بن بکے بھی پڑی رہتی ہیں جس سے پیداواری عمل بھی متاثر ہوتا ہے اور بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

اگر لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہوتا چلا جائے تو ایسی صورت میں مصنوعات و پیداوار کی طلب میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور لوگ بھی برسر روزگار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کساد بازاری کی صورت میں حکومت ترقیاتی کاموں کی صورت میں سرکاری اخراجات میں اضافہ کردیتی ہے جس سے لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اکثر ممالک سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کردیتے ہیں جس سے اشیائے صرف مصنوعات اور دیگر پیداوار کی طلب بڑھتی ہے لہٰذا ان اشیا کی رسد کو پورا کرنے کے لیے پیداواری اور صنعتی عمل کو تیز کیا جاتا ہے۔ آمدن میں اضافے کے باعث کچھ لوگوں کی بچت میں اضافہ ہوکر بالآخر سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوتا ہے جس سے روزگار کے مواقعے بڑھتے ہیں اور معاشی ترقی کی شرح بڑھتی ہے۔

اگر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں قلیل نہیں بلکہ نمایاں اضافہ کیا جائے تو ایسی صورت میں ملک بھر میں تنخواہ دار طبقے کی اجرتوں، مزدوری اور تنخواہ میں اضافہ ہوکر لوگوں کی آمدن بڑھ جاتی ہے جس سے معاشرے میں آمدن کی تقسیم میں عدم مساوات کو کم کیا جاسکتا ہے کیونکہ تنخواہ دار طبقے کی آمدن میں اضافے سے جہاں مصنوعات کی طلب بڑھتی ہے، ان کی طرف سے تعلیمی اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے، صحت کی سہولیات کی خاطر رقوم خرچ کی جاتی ہے۔ اس طرح پورے ملک کی معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

جہاں تک سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا تعلق ہے گزشتہ عشرے کی بات ہے جب وزیر خزانہ بجٹ تقریر کے بعد گویا ہوئے کہ افسوس حکومت مالی مشکلات کے باعث سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کرنے سے قاصر ہے البتہ ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ جب اعلان کردہ اضافے کی رقم یکم اگست کو ملازمین وصول کرتے ہیں تو یہ رقم انتہائی قلیل ترین ہوتی ہے اور یہ اضافی رقم بھی مختلف مدوں کی صورت میں ان کی جیب سے فوراً واپس بھی چلی جاتی ہے مثلاً بجلی کے نرخوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ گیس کے نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی جب بھی ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے اس کے ساتھ ہی کرایے کی شرح بھی بڑھا دی جاتی ہے اور دیگر مصنوعات و خدمات کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا جاتا ہے جب کہ حکومت نے ہاؤس رینٹ جو ملازمین کے لیے ان کے اسکیل کے مطابق مقرر کر رکھا ہے سالہا سال گزرنے کے باوجود اس میں اضافہ نہیں ہوپاتا۔ بعض ملازمین جن کو ہاؤس رینٹ تقریباً ڈھائی ہزار روپے ملتا ہے۔ آج کے دور میں کسی بھی شہر میں کم ازکم دو تین کمرے کا مکان کا کرایہ ہی 5تا 7ہزار روپے یا اس سے بھی زائد ہے جب کہ حکومت ملازمین کو میڈیکل الاؤنس کے طور پر ایک ہزار روپے دیتی ہے۔ اس وقت ایک اسپیشلسٹ کی فیس بھی ایک ہزار روپے سے زائد ہے۔ ایسی صورت میں دواؤں کے اخراجات، کسی بھی بیماری کی تشخیص کے لیے ہزاروں روپے کے ٹیسٹ کرائے جاتے ہیں۔

نیز سرکاری ملازمین کے لیے تعلیمی اخراجات ان کے لیے شدید مشکلات کا باعث بنتا چلا جا رہا ہے۔ چند عشرے قبل جب گورنمنٹ اسکولوں کا معیار بہت بلند تھا اب پرائیویٹ اسکولوں میں ان کا معیار بہتر ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ان اسکولوں کی فیسوں میں بے انتہا اضافہ کردیا گیا ہے جوکہ فی بچہ دو تین ہزار سے شروع ہوکر آٹھ، نو ہزار روپے ماہانہ تک جا پہنچا ہے۔ ہر سرکاری ملازم کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلوائے۔ حکومت ملک میں شرح خواندگی بھی بڑھانا چاہتی ہے۔

اس کے ساتھ ہی معیار تعلیم میں بھی اضافہ کرنا چاہیے۔ 1970 کی دہائی سے قبل یہ کہا جاتا رہا ہے کہ سرکاری ملازم کی تنخواہ ایک تولہ سونے کی قیمت کے بقدر ہونا چاہیے اس وقت سونا تقریباً ڈیڑھ سو روپے تولہ تھا اور ملازمین کی تنخواہیں بھی کم ازکم سو روپے سے زائد تھی لیکن آج یہ اسٹینڈرڈ تسلیم کر لیا جائے تو بات 50 ہزار روپے تک جا پہنچتی ہے لیکن وہ کون سا پیمانہ مقرر کیا جائے کہ ملازمین کو انصاف کے مطابق تنخواہ مل سکے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ سرکاری ملازمین کی مختلف تنظیمیں تنخواہوں میں اضافے کے سلسلے میں اپنے مطالبات حکومت کو پیش کرتی چلی آئی ہیں جس میں ’’ایپکا‘‘ تنظیم گزشتہ کئی عشروں سے جدوجہد کر رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ تنخواہوں میں اضافے کے سلسلے میں ان کے مطالبات کو بھی مدنظر رکھا جائے۔

ایپکا کے ایک عہدیدار کے مطابق اگر صرف مہنگائی کے تناسب کو مدنظر رکھا جائے تو کم ازکم 35 فیصد اضافہ ہونا چاہیے لیکن یہاں پر پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مکان کرایہ جو کہ اکثر ملازمین کو 8 تا 10 ہزار روپے ادا کرنا پڑتا ہے پھر بچوں کی فیس کی مد میں بھی ہر ماہ کئی ہزار روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں نیز بیماری کی صورت میں اخراجات الگ ہیں۔ حکومت کے بعض ملازمین جوکہ ’’ہائر تک‘‘ کی سہولیات حاصل کر رہے ہیں کیونکہ اس سہولت کے حصول کے مراحل اتنے مشکل ہیں کہ ہر ملازم یہ سہولت حاصل نہیں کر پاتا۔ نیز سرکاری مکانوں کی تعداد اتنی قلیل ہے کہ ہر ملازم کو کوارٹر یا مکان دستیاب نہیں ہوپاتا۔

سالہا سال گزرنے کے باوجود سرکاری مکانوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا جاتا۔ سرکاری مکانوں کی تعمیر کے لیے رقوم مختص کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں نمایاں اضافے کے معیشت پر اثرات کا جائزہ لیں تو پاکستان میں تنخواہ دار طبقہ جو کہ پہلے ہی مہنگائی، بچوں کی فیس میں اضافے، بڑھتے ہوئے صحت کے اخراجات، کرایہ مکان میں مسلسل اضافے کے باعث کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہا ہے اور غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس میں کمی لانے کے لیے ضروری ہے کہ تنخواہ دار طبقے کی اجرت، یا ان کی تنخواہوں میں اضافہ ہو۔ نجی ادارے اس سلسلے میں مسلسل تساہل سے کام لیتے ہیں البتہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرتے ہیں۔

اس اضافے میں ہر ایک کا معیار الگ ہے البتہ ملک میں مجموعی طور پر سرکاری ملازمین ہوں یا پرائیویٹ اداروں کے ملازمین ان سب کی تنخواہوں میں اضافے سے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ اشیائے صرف کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ ضروریات زندگی کی ہر شے کی مانگ میں اضافہ ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے ملکی مصنوعات کی پیداوار میں اضافہ کرنا پڑتا ہے جس سے کارخانے رواں دواں ہوتے ہیں۔ پیداواری عمل تیز کیا جاتا ہے۔ طلب میں اضافے کے باعث نئے کارخانے قائم کیے جاتے ہیں۔ لوگوں کے لیے روزگار کے مواقعے بڑھتے ہیں، طلب میں اضافے کے باعث وہ پیداوار جو بن بکے پڑی رہتی تھی اب ان کی رسد میں مزید اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح معاشرے میں مجموعی طلب بڑھنے کے باعث مجموعی اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔

اس طرح خرچ کے نتیجے میں عاملین پیدائش کو اپنا اپنا حصہ ملتا ہے اور ملک میں معاشی سرگرمیوں میں تیزی آتی ہے اور معاشی ترقی کی شرح بڑھتی ہے البتہ یہاں پر ضروری ہے کہ تنخواہوں میں اضافہ قلیل نہ ہو کیونکہ اس سے قبل حکومتیں دعویٰ کرتی رہتی ہیں لیکن بجٹ کے اعلان کے موقعے پر انتہائی قلیل اضافہ کیا جاتا ہے جس سے معیشت پر مثبت اثرات مرتب نہیں ہوتے نیز سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں نمایاں اضافہ کرنے کے علاوہ حکومت کونجی اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں میں نمایاں اضافے کے لیے ترغیب دینا ہوگی کم ازکم اجرت میں مزیداضافہ کرنا ہوگا تاکہ ملک کے تنخواہ دار طبقے کی آمدن بڑھے کیونکہ اس وقت تنخواہ دار طبقہ ہی مسلسل غربت کی جانب بڑھتا چلا جا رہا ہے جس کے باعث ملک میں شدید کساد بازاری پائی جاتی ہے اور معاشی ترقی کی شرح گر گئی تھی۔

Viewing all 22369 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>