Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22362 articles
Browse latest View live

علم یا دولت

$
0
0

ارشد ملک اس ہائی اسکول میں بحیثیت نائب قاصد ملازم رہا جہاں سے میں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ عرصہ گزر چکا جب میں آخری بار ایک اسپورٹس کی تقریب میں اپنے اس اسکول میں مدعو ہوا اور مجھے وہاں ارشد ملک بھی ملا جس نے بتایا کہ وہ دو سال بعد سروس سے ریٹائر ہو جائے گا اور تب اس کا بڑا بیٹا گریجویشن کر چکا ہو گا تب وہ مجھ سے ملنے آئے گا۔ میں نے اس کی خواہش ملاقات کو خاص اہمیت نہ دی لیکن خوش دلی سے اسے ملنے کے لیے آنے کی دعوت زوردار طریقے سے دی۔

وقت گزرتے پتہ ہی نہ چلا اور ایک روز وہ میرے دفتر آ گیا اور کہنے لگا کہ میں اس کے بیٹے کو سرکاری ملازمت دلوانے میں بھرپور مدد کروں۔ جس بات پر مجھے حیرت ہوئی وہ اس کا اصرار تھا جس کے مطابق اس نے صرف چار محکموں کی نشاندہی کرتے ہوئے یوں سمجھئے کہ شرط عائد کر دی کہ اس کے بیٹے کو چاہے نائب قاصد ہی بھرتی کروا دوں لیکن ملازمت انھی محکموں میں سے کسی ایک میں ہو۔ اس نے کہا کہ گریجویٹ بیٹے کے لیے اس نے بطور انسپکٹر انکم ٹیکس و ایکسائز یا کسٹم انسپکٹر کی خواہش پال رکھی ہے۔ یہ نہ ہو تو اسے پولیس یا محکمہ مال میں ملازمت دلوا دی جائے۔ ان چار محکموں میں اگر اچھی آسامی فی الحال مشکل ہو تو وہ اسے نائب قاصد کی آسامی مل جانے پر بھی راضی ہے۔

اپنے اسکول کے اس نائب قاصد کے لیے میرے دل میں بڑا احترام تھا اور اگرچہ سرکاری نوکری دلوانے کے لیے مجھے بھی کسی گرو کو پکڑ کر منت سماجت ہی کرنا تھی لیکن جن چار محکموں کا انتخاب اس نے کیا تھا سچی بات ہے میری پوزیشن اور عہدے کی وہاں تک رسائی ناممکنات میں نظر آتی تھی۔ چند محکموں کے وزیر میرا احترام کرتے تھے اس لیے میں نے اسے محکمہ تعلیم، زراعت اور لوکل گورنمنٹ کو بھی اپنی فہرست میں شامل کرنے کا مشورہ دیا جس پر وہ قریباً ناراض ہو گیا اور بولا کہ ’’سر اگر آپ میری مدد کرنے سے انکار کرنا چاہتے ہیں تو سیدھی طرح ناں کر دیں۔ میری بے عزتی تو نہ کریں میں نے تو ایک دو نہیں چار محکموں کا نام آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے۔‘‘

میری پہلی توجہ اس امر پر گئی کہ جو شخص محکمہ تعلیم میں نائب قاصد بھرتی ہوا اسی عہدے سے ریٹائر ہوا وہ اپنے بڑے لڑکے کو کوئی ہنر سکھا کر یا کسی قسم کا کاروبار کروا کر ترقی کی نئی اور مختلف راہ دکھا کر مالی لحاظ سے آسودہ کیوں نہیں دیکھنا چاہتا کیوں اسے بھی مہینے کی پہلی تاریخ کا تنخواہ دار بنانے پر مصر ہے۔ ارشد ملک اپنے بیٹے کو ترقی اور خوشحالی کا کوئی بہتر کیریئر تجویز کر سکتا تھا۔ و ہ اسے کولہو کا بیل ہی بنانے کی تگ و دو تک کیوں محدود رکھنا چاہتا ہے جب کہ وہ خود 35 سال کی ملازمت کے باوجود ایک پانچ مرلے کا مکان تک نہیں بنا سکا۔

اس سوچ کے فوراً بعد میں نے ان محکموں کی بابت غور کیا اور اگرچہ میں محکموں کے بجائے ان میں ملازمت کرنے والوں کی نیکی بدی، اچھائی برائی کا جائزہ لینا احسن سمجھتا ہوں مجھے ارشاد ملک کی سوچ یا پلاننگ کا ادراک ہو گیا کہ اپنے لڑکے کو کسٹم، انکم ٹیکس، پولیس یا محکمہ مال ہی میں کیوں ملازمت دلوانے کے لیے بضد ہے۔ اس کے باوجود میں نے ارشد ملک سے وضاحت چاہی کہ ملک اور صوبے میں درجنوں محکموں میں سے مذکورہ چار محکموں ہی پر اس کی نظر انتخاب کیوں اٹک کر رہ گئی ہے۔ ارشد ملک نے کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے باری باری اپنی ترجیح کی وضاحت کی۔

اس کے کئی رشتہ داروں اور دوستوں کی بھی کئی محکموں میں ملازمتیں تھیں۔ اس کا چچازاد بھائی محکمہ انکم ٹیکس میں چپراسی یعنی نائب قاصد ملازم ہوا۔ ابھی وہ ملازمت ہی میں تھا کہ اس نے اپنا دس مرلے کا مکان بنا لیا۔ اپنے بیٹے کو موٹرسائیکل لے دیا اور خود ویگن پر دفتر آتا جاتا۔ اس نے اپنی بیٹی کی شادی بھی محکمہ کے ملازم سے کی اور ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے چار رکشے خرید کر کرایہ پر چلانے کا ارادہ کر رکھا تھا۔ دوسرا واقعہ اس نے اپنے دوست کا سنایا کہ اس نے اگرچہ بڑی سفارشوں سے محکمہ کسٹم میں ملازمت حاصل کی لیکن اس کا رہن سہن بڑے ٹھاٹھ باٹھ کا ہے اور اس نے ایک جنرل اسٹور میں رشتہ دار کے ساتھ کاروباری پارٹنر شپ بھی کر رکھی ہے جہاں سے اسے معقول آمدنی ہوتی ہے اور دونوں میاں بیوی اکثر اکٹھے شاپنگ کے لیے اچھے اسٹورز میں جاتے ہیں۔

پھر اس نے پولیس کانسٹیبل دوست کا ذکر کیا کہ اس کے گھر کے ہر فرد کے پاس دو دو موبائل فون ہیں۔ گھر میں اچھے پکوان کھائے جاتے ہیں۔ اس کے لڑکے دن بھر موٹرسائیکل بھگائے پھرتے ہیں جیسے ان کا اپنا پٹرول پمپ ہو اور کانسٹیبل شام کو ڈیوٹی سے واپسی پر بھرا ہوا پھل وغیرہ کا تھیلا لاتا ہے اور اکثر ان کے گھر دوستوں کی محفل جمتی ہے۔

اب اس نے چوتھے کریکٹر کی کہانی بیان کرنا شروع کی کہ محکمہ مال کے ادنیٰ ملازم کے پاس بھی دو مربع زمین اور دو مکان ہیں اور وہ کم حیثیت شخص کو تو سرکاری کام کے لیے بھی وقت نہیں دیتا۔ اس کا ایک لڑکا دبئی میں رہتا ہے اور دوسرے بچوں کی تو شان ہی نرالی ہے۔

میں نے ارشد ملک کی بات بڑے غور سے سنی اور اس سے کہا کہ یہ چار وں افراد جن کی ادنیٰ ملازمتوں اور خوش حالی کا ذکر تم نے کیا ان سب کے اعلیٰ افسر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں گے۔ تم نے ساری عمر ایک تعلیمی ادارے میں گزار دی اور اب اپنے بیٹے کے لیے ایسی ملازمت کے خواہاں ہو جس کے نتیجے میں تمہارے گھر میں پیسے کی ریل پیل ہو جائے۔ تم نے تعلیمی ادارے میں پینتیس سال گزارنے کے باوجود کبھی نہ سوچا کہ بچوں کو اچھی ہنر مند تعلیم دلواتے تا کہ وہ زندگی میں باوقار کیریئر کی ابتدا کرتے۔

اب تم شارٹ کٹ کے ذریعے امیر ہونا چاہتے ہو۔ اوروں کو چھوڑو میں خود تمہارے اسکول میں تمہارے سامنے تعلیم حاصل کر کے نکلا۔ سوچو کہ اگر دولت حاصل کرنے کا طریقہ ناجائز ذرائع ہو تو کوئی ملک معاشرہ یا فرد ترقی نہیں کر سکتا۔ جاؤ اپنے گریجویٹ بچے کو محکمہ تعلیم میں بھرتی کروانے کے لیے اسے استاد بنانے والی مزید تعلیم دلواؤ اور میرا پیغام دینے کے علاوہ اسے وہ کچھ کرنے کی ترغیب دو جو تم 35 سال تک نہ کر سکے۔ ناجائز ذرائع سے دولت مند ہونے والے سے ایک اچھا استاد بدرجہا بہتر انسان ہوتا ہے۔


ایک میلہ کرسی نشیناں کا

$
0
0

یہ تو ساری دنیا کو لگ پتہ گیا ہے کہ مملکت ناپرسان میں ان دنوں ایک عظیم الشان میلہ برپا ہے یہ ایک بہت ہی پرانا روایتی میلہ ہے جس کے نام تو ایک ہزار ایک اور بھی ہیں لیکن اس کا اصلی تے وڈا نام ’’میلہ کرسی نشیناں‘‘ ہے اس میں ہر طرح کے مقابلے ہوتے ہیں کرتب باز کرتب دکھاتے ہیں اور ہنر باز ہنر کا مظاہرہ کرتے ہیں تب کہیں جا کر کسی ایک کو ’’ایوارڈ‘‘ ملتا ہے جو ایک کرسی کی شکل میں ہوتا ہے۔

کرسی ویسے تو لکڑی کی ہوتی ہے لیکن سونے چاندی اور جواہرات کی کرسیاں بھی اس کے سامنے سر جھکائے رہتی ہیں، یوں تو یہ میلہ کرسی نشیناں مملکت کے کونے کونے میں برپا ہوتا ہے اور ہر سائز و حجم کی کرسیاں بطور ایوارڈ تقسیم ہوتی ہیں لیکن سب سے بڑا میلہ مملکت ناپرسان کے دارالحکومت انعام آباد میں منعقد ہوتا ہے یہاں ملنے والی کرسی تمام کرسیوں کی باوا آدم اور اماں حوا ہوتی ہیں اور جسے مل جاتی ہے اسے گویا سب کچھ مل جاتا ہے:

جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آ گیا

سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگ جاں ہو گئیں

اس میلے کی اور اس کرسی کی اپنی تاریخ ہے جس کے بارے میں ایک قصہ بیاں کیا جاتا ہے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس کہانی کا ایک نیا اور جدید ورژن بھی ہے چنانچہ آج ہم اس کہانی کے دونوں حصوں کو ملا کر آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں تا کہ آپ کو اچھی طرح پتہ لگ جائے کہ یہ میلہ کرسی نشیناں کیا ہے یہ کرسی کون ہے اور اس کے دعوے دار کتنے ہیں اور یہ نصیب کسے ہوتی ہے، اس کہانی کی ابتداء ایک جنگل سے ہوتی ہے جہاں چار مسافروں کو رات پڑ گئی ان میں ایک ترکھان تھا دوسرا درزی تیسرا سنار اور چوتھا جادوگر تھا ان چاروں نے طے کیا کہ چاروں میں سے ایک جاگ کر ایک پہر کے لیے پہرہ دے گا پہلی باری ترکھان یعنی بڑھئی کی لگی۔

باقی تینوں سو گئے تو بڑھئی نے نیند بھگانے اور وقت گزارنے کے لیے لکڑی کے ایک کندے پر کام شروع کر دیا اور اپنی باری ختم ہونے تک لکڑی کی ایک لڑکی بنا ڈالی، درزی نے اپنی باری پر لکڑی کی لڑکی کو دیکھا تو اس کے لیے لباس تیار کرنے لگا ادھر اس نے لکڑی کی لڑکی کو ملبوس کیا اور ادھر اس کی باری ختم ہوئی تیسری باری سنار کی تھی وہ کیسے آرام سے بیٹھ سکتا تھا چنانچہ اس نے خوب صورت گہنے تیار کر کے لکڑی کی لڑکی کو پہنا دیئے، جادوگر نے اتنی خوب صورت لکڑی کی لڑکی دیکھی تو ایک مخصوص عمل کر کے اس میں جان ڈال دی، اتنے میں سارے جاگ گئے تھے اپنے سامنے اتنی خوب صورت لڑکی دیکھ کر سب کی نیت خراب ہو گئی اور ہر ایک اس پر اپنا حق جتلانے لگا۔

کوئی بھی اپنے دعوے سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں تھا چنانچہ چاروں جنگل سے نکل کر ایک بستی میں پہنچے اور ایک تھانے میں اپنا مقدمہ لے گئے، تھانے کا ایس ایچ او جو اس زمانے میں کوتوال کہلاتا تھا موجود تو اس زمانے میں تھا لیکن اصل میں جدید دور کے محکمہ پولیس سے ڈیپوٹیشن پر وہاں تبدیل ہو کر آیا تھا، اس کے کانوں کے درمیان ایک بڑا سا سوراخ تھا چنانچہ ان چاروں کی کہانی ایک کان میں انٹر ہوئی اور دوسرے سے نکل گئی البتہ اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں چونکہ سوراخ نہیں تھا اس لیے وہ لڑکی ان میں جا کر بس گئی، جس سے اس کی آنکھیں پہلے پھیل گئیں پھر لال ہوئیں اور پھر آگ برسانے لگیں۔

ان چاروں کو پولیس ڈکشنری کی تمام گالیاں چپکاتے ہوئے بولا کہ یہ لڑکی کسی بڑے گھر کی ہے جسے تم اغوا کر کے لائے ہو اب یہ لڑکی سرکاری تحویل میں رہے گی اور اگر تم ایک منٹ کے اندر فرار نہیں ہوئے تو میرا یہ ڈنڈا خود ہی تم سے اعتراف جرم کروا لے گا، وہ چاروں شاید بھاگ جاتے لیکن اس وقت تھانے میں کچھ اخبار والے گھس آئے، چنانچہ تھانیدار کو مجبوراً اس کیس کا اندراج کرنا پڑا… یہ کیس جب قاضی شہر کی خدمت میں پیش ہوا تو قاضی صاحب لکڑی کی لڑکی کو دیکھ کر مراقبے میں چلے گئے اس سے پہلے کہ قاضی صاحب کی فوتیدگی مراقبے کی حالت میں ہی ہو جاتی پیش کار نے اسے جگا دیا لڑکی کو دیکھ کر قاضی صاحب نے پہچان لیا کہ یہ تو اس کے گھر کی نوکرانی ہے جو کئی دن سے لاپتہ ہے۔

شکر ہے کہ آج اغوا کاروں سمیت مل گئی، قاضی صاحب لکڑی کی لڑکی کو اپنے زنان خانے اور اغوا کاروں کو زندان خانے پہنچانے کا حکم دینے ہی والے تھے کہ ٹی وی چینل کے کئی نمائندے نئی اسٹوری کی تلاش میں گھس آئے اور لکڑی کی لڑکی کو براہ راست ٹیلی کاسٹ کرنے لگے، کیس قاضی صاحب کے ہاتھ سے نکل چکا تھا چنانچہ فیصلہ کرنے کے لیے بادشاہ کی خدمت میں پیشی ہوئی بادشاہ نے لکڑی کی لڑکی کو ہو بہو اپنی ایک کنیز پایا اور حکم صادر کیا کہ لکڑی کی لڑکی کو شاہی حرم میں جمع کر کے رسید لی جائے اور ان چھ ملزموں کے سر اسی وقت فاونٹین پن کیے جائیں، یہی وہ وقت تھا جب لکڑی کی لڑکی جو اب تک بالکل خاموش تھی اچانک کھل کھلا کر ہنسنے لگی اچھی طرح ہنسنے کے بعد جب اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تو ایک شعر گانے لگی:

اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے

جس نے ڈالی بری نظر ڈالی

اور اس کے ساتھ ہی وہ لڑکی سے لکڑی کا کندہ بن گئی، ملزموں کو تو دھکے دے کر بھگایا گیا لیکن لکڑی کا کندہ وہیں پڑا رہ گیا آخر ایک دن بادشاہ کو اس لکڑی کا استعمال سوجھ گیا اس نے ایک ماہر فرنیچر ساز کو بلوا کر اس لکڑی کی لڑکی یا لکڑی کے کندے سے ایک کرسی تیار کروائی اور پھر اس کرسی پر براجمان ہو گیا لیکن ابھی اس نے کرسی نشین ہو کر اس پر بری نظر بھی نہیں ڈالی تھی کہ اس کا ایک بھائی پیچھے سے آیا… بادشاہ کا سر بال پن کیا اور اس کے دھڑ کو گرا کر کرسی پر بیٹھ گیا، پورے دربار نے نہیں سنا تھا لیکن چند درباریوں کا بیان ہے کہ کرسی ایک بار زور سے ہنس پڑی تھی اور پھر بھوں بھوں کر کے رونے لگی تھی:

مجھے تو گردش حالات پہ رونا آیا

رونے والے تجھے کس بات پہ رونا آیا

وہ دن آج کا دن اس کرسی کا جو اصل میں لکڑی کی لڑکی ہے یہی سلسلہ ہے کتنے آئے اور اس پر بیٹھے اور پھر اٹھ گئے یا اٹھا دیئے گئے آخر کار کافی عرصہ گزرنے پر لوگوں نے سوچا کہ اس کم بخت لکڑی کی لڑکی یا کرسی کے لیے خون خرابہ بہت ہو گیا اب کوئی ایسی صورت نکالنی چاہیے کہ کرسی نشینوں کا شوق بھی پورا ہو اور خون خرابہ بھی نہ ہو، ایک مصیبت اس کرسی کے ساتھ یہ تھی کہ چونکہ یہ بنیادی طور پر لکڑی کی لڑکی ہے اس لیے بیک وقت صرف ایک ہی آدمی اس پر بیٹھ سکتا ہے جب کہ یہاں بیٹھنے والے بے شمار ہیں، یعنی:

کرسی او کرسی ایسی تو کرسی

ہر کوئی چاہے تم پر بیٹھنا اکیلا

چنانچہ اس کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ کچھ عرصے کے بعد ایک میلہ منعقد ہوتا ہے… میلہ کرسی نشیناں… اس میلے میں دنیا کے بڑے بڑے ہنر باز، کرتب باز اور نوسر باز اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں جوجیت جاتاہے وہ کرسی پر بیٹھ کر مقدر کا سکندر بن جاتا ہے، لیکن بات یہاں پر ختم نہیں ہو جاتی، کیونکہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے اور یہ میلہ کرسی نشیناں جنگ اور محبت دونوں کا مجموعہ ہوتا ہے کرسی کی محبت اور حریف سے جنگ کا مجموعہ اس لیے اس میں وہ کچھ بھی جائز ہو جاتا ہے جو جنگ اور محبت میں بھی جائز نہیں ہوتا، کیوں کہ اس میلے اورمقابلے میں حصہ لینے والوں کے درمیان ایک اور اصول بھی کار فرما ہے اور وہ اصول پڑوسی ملک کے کنگ خان کے ایک قول زرین پر مبنی ہے کہ ’’جو ہار کر بھی جیت جاتا ہے وہی بازی گر کہلاتا ہے‘‘ آپ تو جانتے ہیں کہ بازی گر فارسی میں کھلاڑی کو کہتے ہیں اور کھلاڑی کا عقیدہ ہوتا ہے کہ جو ہار کر بھی کبھی نہ ہارے اور جو جیت کر بھی جیتنے والے کو جیتنے نہ دے وہی کھلاڑی ہوتا ہے۔

چنانچہ میلہ کرسی نشیناں میں نہ کھیل امپارٹنٹ ہے نہ اصول نہ جنگ نہ محبت… صرف اس بات کی اہمیت ہے کہ ہارنے پر خود کو ہارا ہوا نہ سمجھو اور جیتنے پر جیتنے والوں کو جیتنے مت دو… کیوں کہ اہمیت کھیل کی نہیں شور کی ہے اور جو زیادہ شور مچائے گا وہی سکندر کہلائے گا، اسی لیے تو ایک بزرگہ عارفہ صوفیہ نے کہا ہے کہ

پتنگ باز کرسی سے، پتنگ باز بلما سے

آنکھوں آنکھوں میں الجھی ڈور

کہ مچ گیا شور… کہ بو کاٹا

اچھی حکومت

$
0
0

حال ہی میں دنیا کے پچاس ملکوں سے اعدادوشمار حاصل کرکے ایک تجزیہ مرتب کیاگیا ہے جس میں مختلف علاقوں اور معاشروں میں پائے جانے والی خوشی ومسرت کے مختلف درجوں اور ان کے تعین میں اہم کردار ادا کرنے والے عوامل کا جائزہ لیاگیا ہے۔ اس تجزیے کو جسے کہ ہم اب تک کیا جانے والا بہترین تجزیہ قرار دے سکتے ہیں کے مطابق عوام کی خو شی و خوشحالی پر اچھی حکومت جس قدر زیادہ اثرات مرتب کرتی ہے وہ ان اثرات سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہیں جوکہ اچھی تعلیم اچھی آمدن اور بہترصحت سے مرتب ہوتے ہیں کیونکہ یہ سب چیزیں خود معیار حکومت کی مرہون منت ہوتی ہیں۔

اچھی حکومت اور بری حکومت کے درمیان فرق کی بہترین عکاسی معروف مصور آمبرو جو لور نیزیٹی نے اپنی تصویری تخلیقات میں کی تھیں جو اس نے سی اینا میں پلا زوپبلکو کی فرمائش پر جدید دور کے آغاز میں تیار کی تھیں ۔ان تصاویر میں اچھی اور بری حکومت کی تمثیل پیش کی گئی جن دیواروں پر اچھی حکومت کو پیش کیا گیا ان میں کلاسیکی خوبیوں سے متصف ایک حکمران دکھایاگیا جس میں سے دو ڈوریاں نکل کر شہریوں کے ہاتھوں سے گذرتی چلی جاتی ہیں۔ (جس سے ایک رضا کارانہ سیاسی نظام دکھانا مقصود ہے ) اور پھر یہ ایک ایسی شخصیت کی طرف چلی جاتی ہے جو عدل وقضا کی نمائندگی کرتی ہے۔

مزید برآں اس میں ایک خوشحال قصبے کو دکھایا گیا جس کے بازار مال سے لدے ہوئے ہیں اور لوگ ہنسی خوشی اپنے اپنے کام کی طرف رواں دواں ہیں ۔دیواروں سے پرے ایک خوبصورت مضافاتی منظر ہے یہ ایک فلاحی نظام کا وژن ہے جو حکام اور رعایا کے درمیان اشتراک انصاف اور ہم آہنگی پر مبنی ہے۔ اس کے مقابل میں بری حکومت کی تمثیل دکھائی گئی اس تصویر میں ایک شیطان صفت مورکھ کو حکومت کرتے دکھایاگیا ۔ عدل کا کوئی پرسان حال نہیں اور بیماری قتل وغارت اور قحط نے ملک کا ستیا ناس کیا ہوا ہے یہ تصاویر ایک فلسفہ اورایک وژن پیش کر رہی ہیں۔

فلسفہ ان میں یہ ہے کہ ریاست کی حکومت کا مطمع نظر فلاح عامہ ہونا چاہیے بجائے  اس کا مرکز بادشاہ یا شہنشاہ کی ذات ہو ان تصاویر میں اس اصول کی عکاسی بھی کی گئی ہے کہ ریاست کی آزادی کاانحصار اس کے شہریوں کی آزادی پر ہوتاہے ۔ لیکن یہ دیکھے کہ پھر آنے والے دنوں نے لور نیزیٹی کی اچھی حکومت کی تمثیل کا کس بے دردی سے مذاق اڑایا ، کیا کہ چند ہی سال بعد اس کے شہر کو طاعون نے آن لیا جس میں وہ بھی مارا گیا اور اس کا بیشتر خاندان بھی ۔سی اینا پر بیرونی حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے پیچھے سی اینا کے پرانے حریف فلورنس کا ہاتھ تھا پھر اس جمہوریہ کی جگہ آمریت وجود میں آگئی۔

وہ فلاحی نظام جس کی تصویر کشی لور نیزیٹی نے اتنے پیار سے کی تھی ملیامیٹ ہوگیا اور جمہوری و فلاحی حکومت کا تصور آئندہ کئی صدیوں تک ایک ناقص نظرئیے کے طور پر دیکھا جاتا رہا لیکن سی ینا کے باسیوں نے یہ جان لیا تھا کہ انھوں نے اس قدیم مسئلے کا حل ڈھونڈ لیا ہے کہ اچھی حکومت کے خد و خال کیسے ہونے چاہییں۔ اس مسئلے کو دو ہزار برس سے زائد عرصے تک فلسفہ سیاسیات میں ایک مرکزی مسئلے کی حیثیت حاصل رہی ہے اور اس سلسلے میں غور وفکر اور خیال آرائیاں عیسائیوں اور بودھیوں کی تحریروں میں بھی ملتی ہیں اور مسلمانوں کی تصنیفات میں بھی اور آزاد خیال،اشتراکی اور قدامت پسند دانشوروں کی کتابوں میں بھی۔

ان تحریروں میں ایک خاص بات جو ہماری توجہ اپنی طرف کھینچتی ہے وہ یہ ہے کہ زمانے گزرے مگر دلائل کے ناک نقشے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی کہ اچھی حکومت کا دارو مدار بہترین افراد کے ہاتھ میں بہترین پالیسیاں دے کر انہیں حکمران بنانے پر ہے۔ ’’ارتھ شاستر ‘‘ سنسکرت کی یہ عظیم کتا ب150  سے لے کر 400 قبل مسیح کے دوران کسی وقت لکھی گئی تھی اسی کتاب کے مندرجات سے متاثر ہوکر میکاولی نے ’’پرنس ‘‘ لکھی ۔ اس کتاب کے مصنف کا فلسفہ یہ ہے کہ بادشاہ کو ہرحال میں رعایا کا بھلا سوچنا چاہیے، بادشاہ کو نظم و ضبط کا پابند ہونا چاہیے اس کا فرض ہے کہ جہاں دیدہ افراد سے بہتر حکمرانی کے اطوار سیکھے ۔ اور کسی بھی حال میں عوام کی بھلائی اور سلامتی کے لیے ہر وقت مستعد رہے ۔صوفیائے کرام کی کتابوں اور ارشادات میں بھی بار بار اسی انسان دوستی پر زور دیاگیا ہے ۔

مولانا روم نے مثنوی میں اس بات کو واضح کر نے کے لیے ایک حکایت لکھی ہے ۔ فرماتے ہیں ۔ حضرت ابراہیم ؑ کی عادت تھی کہ جب تک کوئی مہمان دستر خوان پر موجود نہ ہوتا کھانا نہ کھاتے۔ ایک دفعہ کئی دن تک کوئی مہمان نہ آیا۔ ایک دوپہر کو آپ گھر سے نکل کر مہمان کا انتظار کررہے تھے ۔ سخت گرمی کا موسم تھا۔ لو چل رہی تھی اور تپش کے مارے ہر ذی روح کا براحال تھا ۔ دیکھتے کیا ہیں کہ دور ایک بوڑھا گرتا پڑتا چلا آرہا ہے ۔ اس کے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں ۔ اس کا جسم گردوغبار سے اٹا پڑا ہے ۔ ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئی ہیں۔

حضرت ابراہیم ؑنے بڑے شوق سے مہمان کا استقبال کیا اور خوشی خوشی اسے مکان کے اندر لے گئے ۔ دستر خوان چنا گیا اور آپ نے بسم اللہ کہہ کر لقمہ توڑا۔ مہمان نے اللہ کا نام لیے بغیر کھانا شروع کردیا۔ حضرت ابراہیم ؑکو تعجب ہوا اور پوچھنے پر اس نے کہا کہ میں تو اللہ کو مانتا نہیں ہوں ۔ حضرت ابراہیم ؑ کا اتنا سننا تھا کہ غصے سے بے تاب ہو گئے اور اسے اسی حال میں بے کھائے پئے گھر سے باہر نکال دیا۔ مولانا روم فرماتے ہیں کہ اس کے بعد فوراً ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی اور حضرت ابراہیم ؑ سے کہا گیا میں تو اپنے اس بندے کو ساٹھ سال تک کھانا پانی دیتا رہا اور اس کی ہر ضرورت کو پورا کیا لیکن تم سے یہ بھی نہ ہو سکا کہ میرے بندے کو ایک وقت کاکھانا ہی کھلاسکتے۔

اسی مضمون کی رسول اللہ ﷺ سے ایک حدیث بھی مروی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایک بندے سے پوچھے گا کہ میں بھوکا تھا تو نے مجھے کھانا نہ دیا ۔ بندہ حیران ہو کر کہے گا کہ اے باری تعالیٰ ! تو تو بھوک سے بے نیاز ہے ۔ تجھے کھانے کی کیا حاجت ۔ پھر ارشاد ہوگا کہ میں پیاسا تھا تو نے مجھے پانی نہ پلایا اور پھر پوچھے گا میں ننگا تھا تو نے مجھے کپڑا نہ پہنایا ۔ ہر سوال کے جواب میں بندہ کہے گا کہ اے میرے رب ! تجھے ان چیزوں کی کیا ضرورت ؟ تو تو ان سب سے بے نیاز ہے۔

اس وقت خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ میرا ایک بندہ بھوکا تھا تو نے اسے کھانا نہ کھلایا ۔ وہ پیاسا تھا تو نے اسے پانی نہ دیا ننگا تھا تو نے اسے لبا س نہ پہنایا ۔کیا ہم اپنی حکومت کو اچھی حکومت کہہ سکتے ہیں کیا یہ ہر شہری کی بنیادی ضروریات پوری کررہی ہے یہ وہ سوال ہے کہ جس کا جواب ہاں میں ہر گز نہیں ہوسکتا، دنیا کے تمام خوشحال ، آزاد، ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں نہ صرف یہ کہ آنکھیں رکھتی ہیں بلکہ کان ، عقل اور ماں کا ممتا بھرا دل بھی رکھتی ہیں اور وہ اپنے ایک شہری جی ہاں صرف ایک شہری کی تکلیف ، مصیبت ، اور پریشانی پر تڑپ جاتی ہیں جب کہ ہماری حکومت نہ صرف یہ کہ اندھی واقع ہوئی ہے بلکہ بہری ، عقل سے پیدل بھی واقع ہوئی ہے اور ظلم تو یہ ہے کہ وہ سوتیلے باپ کا دل بھی رکھتی ہے۔

یہ دنیا بھر کی وہ واحد حکومت ہے جو اپنے ہی شہریوں سے لا تعلق بنی ہوئی ہے جسے اپنے شہریوں کی تکلیفوں پر یشانیوں اور مصیبتوں سے کوئی بھی سروکار نہیں ہے جسے اپنے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا ہے اور نہ ہی سنائی دیتا ہے۔ ایک بات تو حکمرانوں تم اچھی طرح ذہن نشین کرلو ، لوگوں کا یہ وقت تو جیسے تیسے گذر ہی جائے گا آج نہیں تو کل خدا حالات بدل ہی ڈالے گا لیکن تم یہ سوچو کہ تم خدا کا سامنا کیسے کروگے ۔ خدا کے سوالات کا کس منہ سے جواب دو گے۔

آج نہیں تو کل تمہیں انصاف  کے کٹہرے میں کھڑا ہونا ہی ہے اگر تم یہ سمجھے بیٹھے ہوکہ تمہیں کبھی بھی اپنے اعمال کا حساب نہیں دینا ہے تو تم ایک اور عبرتناک غلطی کے مرتکب ہورہے ہو یہ عیش و آرام یہ شان و شوکت ایک دن ختم ہو جانا ہے ہو سکتا ہے تمہیں آج یہ نصیحت بہت بری لگے لیکن جلد ہی تمہیں اپنی شرمناک غلطیوں کا احساس ہو ہی جانا ہے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس وقت بہت دیر ہو چکی ہواور معافی اور شرمندگی کا دروازہ بند ہوچکا ہو۔ اور یہ کروڑوں ،بلکتے ، سسکتے ، تڑپتے انسان تمہارے خلاف گواہی دے رہے ہوں۔

نئے موسم کی خوشبو اور۔۔۔۔؟

$
0
0

ان دنوں دو کتابیں بعنوان ’’نئے موسم کی خوشبو‘‘ اور ’’ہم کہ جھٹلائے گئے‘‘ میرے مطالعے میں رہیں۔ اول الذکر کے تخلیق کار  عمربرناوی ہیں جب کہ دوئم کے  نجیب عمر ہیں۔ یہ دونوں کتابیں بے حد اہمیت کی حامل ہیں ان میں دینی دنیاوی معلومات کا خزانہ موجود ہے۔ ہم پہلے ’’نئے موسم کی خوشبو کے حوالے سے بات کریں گے مذکورہ شعری مجموعہ 737 صفحات پر مشتمل ہے اگر کتاب میں وزن تو شاعری بھی اپنے اندر انفرادیت اور وزن رکھتی ہے، ہر شعر قابل تعریف اور داد کا مستحق ہے۔

عمر برناوی نے بے حد تحقیق، لگن اور جستجو سے اسے تخلیق کیا ہے اور شاعری کے پیراہن میں قرآنی و دینی واقعات اور تاریخ مغلیہ کے اور دوسرے بہت سے ان موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے، جن کا پڑھنا، سمجھنا اور غور و فکر کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ نئے موسم کی خوشبو عقیدت و محبت سے پڑھنے کی متقاضی ہے، شاعر کی شاعری میں بہار کا رنگ بھی نمایاں ہے اور موسم خزاں کی داستان بھی درج ہے۔  بہرحال ’’نئے موسم کی خوشبو‘‘ عمر برناوی  کی ایک قابل تحسین کاوش ہے۔مختلف موضوعات پر انھوں نے معلومات کے روشن در وا کیے ہیں واقعہ معراج کو بے حد خوبصورتی و نفاست کے ساتھ اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیے۔

دسواں نبوت کا تھا سال یہ…بیاں جس کا کرتا ہوں احوال یہ

نبیؐ جا کے لیٹے تھے اک رات حطیم…سو یہ رات تاریخ میں ہے عظیم

تو جبرئیل و میکائیل آئے وہاں…کہ کعبے میں لیٹے تھے حضرتؐ جہاں

کہا آ کے چلیے ہے واں انتظار…بلاتا ہے تم کو پروردگار

ہے براق حاضر‘ ہوں اس پر سوار…چلے سوئے اقصیٰ یہ اب تینوں یار

گئی لے کے بندے کو جو راتوں رات…کعبے سے اقصیٰ‘ وہ ہے پاک ذات

نبی نے کیا قافلوں کو سلام…گزرتے ہوئے تھا سفر تیز گام

ہجرت مدینہ، پیغمبروں کے واقعات، غزوہ احد و غزوہ بدر، برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کا ذکر اور معراج کا سفر کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آسمانوں کی سیر کی اور اللہ تعالیٰ نے جنت اور جہنم کے مناظر بھی دکھائے اور پانچ نمازوں کا تحفہ بھی شب معراج کو ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا گیا جہاں جہاں شاعر محترم نے استعاروں کی زبان میں بات کی ہے وہاں انھوں نے اس کی وضاحت بھی حواشی کے ذریعے کردی ہے۔

انگریزوں نے پورے سو سال ہندوستان پر نہ کہ حکومت کی بلکہ لوٹ مار، ظلم و تشدد، آبرو ریزی جیسے مظالم اور سفاکی کی داستان رقم کردی لیکن افسوس کہ تاریخ سے کسی نے سبق نہیں سیکھا اور آج بھی غلام در غلام انگریزوں کی غلامی میں لگے ہوئے اور ان کے قصیدے پڑھ رہے ہیں اس کتاب میں منظوم تاریخ اسلام درج ہے۔ انبیا کرام کے واقعات، غزوات اور تاریخ پاک و ہند سے مزین ہے۔ یہ ایک قابل تحسین کاوش ہے۔

نئے موسم کی خوشبو کا نیا انداز ہے اب کے…گری تھی برق خرمن پر زمانے لد گئے کب کے

’’کہ ہم جھٹلائے گئے‘‘  نجیب عمر کی بہترین کوشش ہے اور دین سے محبت و عقیدت کا منہ بولتا ثبوت ہے مصنف نے قرآنی واقعات کو آسان الفاظ میں لکھ کر اپنے تمام قارئین کو بہتر طریقے سے سمجھانے کا موقع فراہم کیا ہے۔

فی زمانہ مسلمان، نام کے مسلمان رہ گئے ہیں انھیں نہ شوق و لگن ہے کہ وہ قرآن کریم کو ترجمے سے پڑھیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو قرآنی تعلیمات دینے کی کوشش کریں، آج لوگوں کی اکثریت فیشن اور مغربی طرز حیات اپنانے میں لگی ہوئی ہے، ان حالات میں مذکورہ کتاب اس بات کی دعوت رہی ہے کہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مذہب اسلام سے استفادہ کیا جاسکے ایک سو اٹھاون صفحوں میں قرآن پاک کے 37 واقعات کو مضامین کی شکل میں درج کردیا گیا ہے۔ موضوعات اس قدر پرکشش ہیں کہ پڑھنے والے کو مزید اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔

’’ابتدائے آفرینش‘‘ سے ابن مریم علیہ السلام پر ’’کہ ہم جھٹلائے گئے‘‘ کا اختتام ہوا ہے۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ آیات اور اس کا ترجمہ بھی شامل مضامین ہے، ابتدا ہی اللہ کے کلام سے ہوتی ہے۔ سورۃ الاعراف کے ایک واقعے کو یہ عنوان دیا ہے کہ ’’سورج کو تھمنا پڑا‘‘ یہ عنوان ایسا ہے کہ اسے پڑھ کر ضرور یہ خواہش جاگے گی کہ ایسا کون سا واقعہ تھا، جب سورج اپنا سفر روک دیتا ہے۔ ذکر حضرت یوشع بن نون کا ہے، حضرت موسیٰ کے بعد نبوت کا تاج ان کے ہی سر پر سجایا گیا، حضرت موسیٰ کی شدید خواہش تھی کہ بیت المقدس ان کی زندگی میں فتح ہو، چنانچہ حضرت موسیٰ نے اس صالح اور بہادر نوجوان کو امیر جیش مقرر کیا ان کی سربراہی میں بنی اسرائیل کے نوجوان بصد شوق جنگ کے لیے تیار ہوگئے کہ بیت المقدس کو دشمنوں سے آزاد کرالیا جائے۔

ایک موقع پر بنی اسرائیل کے لوگ دشمنوں کو قتل کرتے ہوئے شہر میں داخل ہوئے جنگ ہوتے ہوتے جمعہ کا دن اور عصر کا وقت ہوگیا مغرب کے ساتھ سبت یعنی ہفتے کا دن شروع ہوگیا۔ سبت کے احترام میں بنی اسرائیل کو جنگ کی اجازت نہ تھی، حضرت یوشع علیہ السلام نے دعا کی اور سورج سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تو بھی اللہ کے امر کا پابند اور میں بھی اس کے حکم کا محتاج لہٰذا اسی سے درخواست کرتا ہوں کہ تجھے غروب ہونے سے روکے، تاکہ ہم سبت کی آمد سے قبل بیت المقدس میں اپنا پرچم لہرائیں۔

کہا جاتا ہے کہ کائنات میں حضرت یوشع کے علاوہ کسی کے لیے سورج نہیں تھما اسی کتاب میں حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں بھی مفید معلومات حاصل ہوتی ہیں کہ انھوں نے کس طرح قلم کو ایجاد کیا اور لوگوں کو لکھنا سکھایا۔ غرض ہر مضمون قرآن کے حوالے سے لکھا گیا ہے اور بے حد دلچسپ انداز میں اور مختصر ہے۔ آج کی مصروفیات کے دور میں یہ کتاب ایک بہترین تحفہ قارئین کے لیے ہے۔

مقصد حیات اور یقین کامل

$
0
0

آپ کے ذہن میں خیالات کی جتنی لہریں پیدا ہوتی ہیں وہ ذہن کل کے ذریعے تمام کائنات میں سرائیت کرجاتی ہیں۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ آپ کا ہر خیال تمام ماحول پر اثر انداز ہو کر اشیا اور اشخاص دونوں کو متاثر کرتا ہے، تاآنکہ درخت تک آپ کے خیالات کی لہروں کے اثرات قبول کرنے اور ان سے متاثر ہوتے ہیں۔ اگر خیال صحت مند اور تعمیری ہوگا تو اس کے اثرات بھی مفید اور اطمینان بخش ہوں گے اور اگر خیالات کی نوعیت تخریبی اور منفی ہوگی تو اس کے اثرات خود آپ کے لیے تباہ کن ہوں گے اور دوسرے کمزور دماغوں کو بھی زہر آلود کردیں گے۔

سب سے پہلے آپ کو اپنے ذہن میں کسی ایسے مقصد حیات کا تعین کرنا چاہیے جو ولولہ بخش اور حوصلہ افزا ہو۔ ایسا مقصد حیات جو آپ کے لیے اور دوسروں کے لیے نقصان رسا نہ ہو، مثلاً جائز ذرائع سے دولت کمانے کی آرزو، یہ آرزو ہرگز بری نہیں بشرطیکہ زر اندوزی اور کسب دولت کا مقصد ضرورت مندوں کی امداد ہو، ان کا استحصال نہ ہو۔ اگر آپ استحصالی جذبے کے ساتھ زر اندوزی میں مبتلا ہیں تو خود کو بھی تباہ کررہے ہیں (روحانی حیثیت سے بھی جسمانی حیثیت سے بھی) اور اس معاشرے میں بھی زہر گھول رہے ہیں جس کے آپ رکن ہیں۔ آپ اپنی زندگی کا ایسا نصب العین متعین کریں جو آپ کے لیے،گھر والوں کے لیے، محلے والوں کے لیے، شہر، وطن اور قوم کے لیے اور پوری انسانیت کے لیے منفعت بخش اور مسرت آفریں ہو۔

قدیم یونانیوں نے اپنا مقصد حیات، مسرت حیات کو قرار دیا تھا۔ کسی شخص کو ذاتی طور پر مسرت اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک اس کے ماحول میں، معاشرے میں خوشی اور خوشحالی کے پھول کھلے ہوئے نہ ہوں۔ یونانیوں کی مسرت حیات کا مقصد راحت ذاتی اور عشرت شخصی نہ تھا، مسرت اجتماعی تھا۔ آپ بڑے تاجر بننا چاہتے ہیں، آپ کی کوشش یہ ہے کہ آپ اعلیٰ درجے کے سائنس داں تسلیم کیے جائیں، آپ کی تمنا یہ ہے کہ آپ کو درجہ اول کا شاعر و ادیب یا سیاست داں تسلیم کیا جائے، یہ آرزوئیں، یہ خواہشیں اور یہ تمنائیں فطری اور طبعی ہیں، ان کے حصول کی کوشش گناہ نہیں ثواب ہے، شر نہیں خیر ہے۔ مگر ان خواہشوں کے ساتھ اجتماعی بہبود کا مقصد بھی پیش نظر رہنا چاہیے۔ صرف اسی طرح ایک حیوان کی سطح سے بلند ہوکر آپ انسان کامل کی سطح تک پہنچ سکتے ہیں۔

جس طرح آپ کا ذہن ’’ذہن کل‘‘ کی وساطت سے تمام مخلوقات کے ذہنوں سے جڑا ہوا ہے، اسی طرح آپ کی روح بھی، روح مطلق کی وساطت سے کائنات کی تمام ارواح سے مربوط ہے۔ آپ کی روحانی کیفیت دوسروں کی روحوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، آپ کا ذہن دوسروں کے ذہن کو بھی مسرت و سعادت بخش سکتا ہے، یا اپنے غلط تاثرات سے دوسرے ذہنوں کو زخمی اور مجروح بھی کرسکتا ہے۔ لہٰذا آپ کا مقصد حیات ایسا ہونا چاہیے جو نوع انسانی کے لیے مفید و صحت بخش ہو۔

اپنے مقصد حیات کی سمت مقرر کرلینے کے بعد (مثلاً مجھے دولت مند بننا ہے) وہ ہدف اور نشانہ بھی مقرر کرلیجیے جس کو آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں، مثلاً آپ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ مجھے ایک یا دو سال کے اندر بہرقیمت پانچ، دس لاکھ روپے جمع کرنے ہیں، تو اپنے ذہن میں دو سال کی مدت اور دس لاکھ روپے کی دولت کا تصور نہایت مضبوطی سے قائم کرلیجیے۔ اور پھر جائز طریقے سے دولت کے حصول کا ایک لائحہ عمل تیار کریں جس پر عمل پیرا ہو کر آپ اپنا مقصد پاسکتے ہیں۔

درحقیقت اصل شے ہے یقین۔ آپ کو یہ یقین ہونا چاہیے کہ آپ قدرت کے بحر بیکراں کا ایک قطرہ ہیں۔ اور اس قطرے کی جو خواہش ہے، خود بحر بیکراں کی خواہش و آرزو بھی وہی ہے۔ آپ یقین کامل سے اپنے لیے جو کچھ چاہیں گے، قدرت کی طرف سے وہی عطا ہوجائے گا۔ آپ کے اندر ایک ایسی پراسرار غیبی قوت موجود ہے جو آپ کی خاطر ہر کام سرانجام دے سکتی ہے اور جو ہر وقت آپ کی مدد کے لیے آمادہ اور بے چین رہتی ہے۔ اس غیبی قوت سے کام لینے کا طریقہ کیا ہے؟

آپ کی کامیابی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ زندگی میں آپ کا کوئی نصب العین ہو، اور آپ کی یہ خواہش کسی ایسی چیز کے لیے ہونی چاہیے جس کے حصول سے آپ کو انتہا درجے کی مسرت نصیب ہو۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی زندگی کامیابی اور خوشحالی سے مالا مال ہو تو ایک سفید کاغذ پر اہمیت کے لحاظ سے وہ چیزیں نمبر وار لکھیں جو آپ درحقیقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس بات سے قطعاً نہ گھبرائیں کہ آپ کی فہرست لمبی ہورہی ہے۔ آپ اپنی صحیح اور حقیقی خواہش کو یکے بعد دیگرے لکھتے چلے جائیں۔ ہر روز اس فہرست میں جی چاہے تو تبدیلیاں کریں، حتیٰ کہ آخر میں آپ کی نہ تبدیل ہونے والی خواہشوں کی فہرست بن جائے۔ آپ ان تبدیلیوں کے سبب حوصلہ نہ ہاریں، کیونکہ شروع شروع میں اپنی خواہشوں کا تعین کرتے وقت ایسا ضرور ہوتا ہے۔

دوسری بات یہ کہ جوں جوں آپ کامیاب ہوتے چلے جائیں گے، نئی نئی خواہشیں دل میں پیدا ہوں گی اور نئی نئی کامیابیاں حاصل ہوں گی۔ کامیابی حاصل کرنے کے چار اصول اٹل ہیں۔ (1) صبح، دوپہر اور شب میں تین مرتبہ باقاعدگی کے ساتھ اپنی فہرست مقاصد کو کامل یکسوئی اور مضبوط توجہ کے ساتھ پڑھیں۔ (2) ان تین اوقات کے علاوہ جب بھی آپ کو موقع ملے، ان چیزوں پر توجہ مرکوز کریں اور اپنے ذہن میں اس فہرست کو غور اور انہماک کے ساتھ دہرائیں۔

(3) سونے سے پہلے آنکھیں بند کرکے عالم تصور میں یہ دیکھیں کہ آپ کو وہ چیزیں حاصل ہوچکی ہیں جن کی آپ نے خواہش کی تھی، مثلاً اگر آپ دولت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو عالم تصور میں یہ دیکھیے کہ آپ کے ہاتھوں میں نوٹوں کی گڈیاں ہیں اور پھر اس تصور کے ساتھ سوجائیں۔ (4) جب تک آپ کو اس عمل کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل نہ ہوجائیں، آپ ان تمام باتوں کو راز میں رکھیے اور کسی سے ان کا ذکر نہ کیجیے۔ اس عمل کے دوران آپ اپنے لاشعور (جو حیرت انگیز قوتوں کا مخزن ہے) اور اس ذہن کل پر پورا بھروسہ کریں جو پوری کائنات کی سمجھ بوجھ کا منبع اور سرچشمہ ہے۔ اس میں کوئی شبہ ہی نہیں کہ یہ ذہن کل ہر مرحلہ دشوار میں رہنمائی کرکے آپ کو منزل مقصود تک پہنچادے گا۔

اور سب سے آخری مرحلہ حقیقی عمل کا ہے۔ یہ سب کیسے ہوگا؟ صرف خیالی کامیابی تک پہنچنا آپ کا مقصود نہیں بلکہ حقیقی کامیابی حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس سلسلے کی مزید وضاحت اگلے کالم میں پیش کریں گے۔

دوسرے جائیں جہنم میں !

$
0
0

ایک خوبصورت کمرے میں نہایت شاندار اے سی شدید گرمی میں زبردست ٹھنڈک پیدا کر رہا تھا۔ اے سی کی ٹھنڈک سے لطف اندوز ہونے والے چند لوگ اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے ۔وہ اللہ کی مخلوق کے کمالات کا ذکر کر کے اس کی عظمت ورفعت کے قصیدے بھی پڑھ رہے تھے۔ باہرریگستان جیسی شدید گرمی تھی لیکن اس کمرے کے اندر نخلستان سے زیادہ سرد موسم تھا۔

مجلس میں شامل ایک شخص نے سوال کیا کہ یہ درست ہے کہ آپ کے کمرے کا ماحول نہایت خنک ہے لیکن آپ صرف دیوار کے اس طرف کا منظردیکھ رہے ہیں۔ ایک منظر دیوار کی دوسری طرف بھی ہے۔میرا سوال یہ ہے کہ دیوار کے ادھر ٹھنڈک ہے مگرکس قیمت پر؟ اس کمرے کی گرمی اے سی کھینچ کر کہاں پھینک رہا ہے؟ اے سی میں جو توانائی استعمال ہو رہی ہے وہ توانائی اس کرہ ارض کے اندر کتنی گرمی پیدا کر رہی ہے؟ اس گرمی کے نتیجے میں کرہ ارض کے ماحول پر کیا اثرات پڑ رہے ہیں؟

سائنس دانوں ہی کا کہنا ہے کہ زمین کی ماحولیات تیزی سے تباہ ہو رہی ہے۔موسم بدل رہے ہیں، گلیشیئر پگھل رہے ہیں، سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے ۔کروڑوں لوگ اس صدی کے اختتام تک صرف اے سی کی پیدا کردہ گرمی کے باعث بے گھر ہوجائیں گے۔ اور ہم لاعلمی یا بے حسی کے باعث اے سی کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ بے شمار علاقے پانی میں ڈوب جائیں گے، مالدیپ صفحہ ہستی سے غائب ہوجائے گا، مالدیپ آج کل آسٹریلیا میں زمین کا ٹکڑا خریدنے کے لیے مذاکرات کر رہا ہے تاکہ اس ملک کو محفوظ براعظم میں منتقل کر دے۔

کیا آپ ان تبدیلیوں، مسائل، مشکلات، اثرات، مضمرات سے واقف ہیں؟ اگر نہیں تو اس گفتگو کا کیا فائدہ جو صرف افادہ پرستی کے فلسفے کی تائید کرتی ہے یا نتائجیت پرستی کے تحت محض اپنا مفاد دیکھتی ہے۔ اے سی دنیا کے دو فی صد لوگ استعمال کرتے ہیں مگر اس کی پیدا کردہ گرمی کے اثرات دنیا کے 98فی صد غریبوں پر، ماحولیات پر، موسموں پر، کاروبار پر، فصلوں پر، پانی کے ذخیرے پر پڑ رہے ہیں۔ لیکن ہم بحیثیت مجموعی دیوار کی دوسری طرف دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے، اور اپنے ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر سوچنے سمجھنے کی ہمت ہی نہیں کر پاتے۔

مسئلہ صرف اے سی ہی کا نہیں۔ فریج جو مجھے ٹھنڈا پانی مہیا کرتا ہے، فریزر جس میں قربانی کا پورا بکرا محفوظ کر کے اگلے چھ ماہ تک یہ سڑا ہوا زہر آلود گوشت میں کھاتا رہتا ہوں اور یہ دعویٰ بھی کرتا رہتا ہوں کہ میں رسالت مآبؐ کا امتی ہوں جن کی کنیت ’’قاسم‘‘ تھی بانٹنے والے تقسیم کرنے والے، جو کبھی خود اپنے لیے بچا کر نہیں رکھتے تھے اور بیت المال میں جو کچھ آتا تھا وہ تقسیم کیے بغیر گھر جانا پسند نہیں کرتے تھے یہ ان کی امت ہے جو سنت ترک کر کے اپنے معدے میں زہریلے گوشت اتار رہی ہے۔

یہ کار جس کے اندر بیٹھ کر میں اے سی چلاتا ہوں پھر ایک سو یا اسی کلومیٹر کی رفتار سے سگنل فری کوریڈور کے اندر سے دوڑاتے ہوئے بالائے زمین پلوں سے گزرتے ہوئے اس کے ذریعے دس منٹ میں اپنے دفتر پہنچ جاتا ہوں ،یہ کار مجھے اندر بیٹھ کر اچھی لگتی ہے کیوں کہ میں اس کے اندر بیٹھنے کی استعداد رکھتا ہوں ۔ لیکن یہ کار ماحول میں دھواں چھوڑ کر جو آلودگی پھیلا رہی ہے جس سے ماحولیات، موسم، دنیا، انسان، انسانیت، سب کچھ تباہ ہو رہے ہیں کیا میں اس کا اندازہ کرسکتا ہوں؟

یہ ہوائی جہاز جو دس ہزار کاروں میں استعمال ہونے والا ایندھن ایک پرواز میں استعمال کرلیتا ہے، جس کی آلودگی کا کوئی ٹھکانہ نہیں مگر مجھے لمحوں میں یہاں سے وہاں لے جاتا ہے دھواں جہاز کے اندر تو نہیں آتا یہ باہر کا مسئلہ ہے۔ باہر سے میرا کیا تعلق میں تو دیوار کے صرف اس طرف دیکھتا ہوں دیوار کی دوسری طرف کا مسئلہ میرا نہیں سارتر کے الفاظ میں دوسرے جہنم میں جائیں ۔ اور اس سے بھی اہم تر سوال یہ ہے کہ آج میری سوچ اتنی خود غرضانہ کیوں ہو گئی ؟

جن اقوام اور سائنس دانوں نے فریج، کار، فریزر، اے سی ایجاد کیے ان کو خود اندازہ نہیں تھا کہ اس سے نکلنے والی گیس اس فطری قدرتی دنیا، اس حسین کائنات، اس میں آباد اللہ کی مخلوقات اور خود اس انسان کے لیے کتنی تباہ کن ہیں۔ آپ ایجاد کرسکتے ہیں لیکن اس کے سنگین نتائج کا اندازہ آپ کے بس میں نہیں ہوتا یہ اگلے تین سو برسوں میں تجربات کے بعد معلوم ہوتا ہے تو ایسے تجربات کرتے رہنا کیا عقل مندی ہے؟ ڈائنامیٹ ایجاد کرنے والے الفریڈ نوبل نے زمین ہموار کرنے کے لیے یہ ایجاد کی تھی مگر کیا اس ایجاد کا مقصد حاصل ہوسکا اس کے خطرناک استعمالات دیکھ کر اس نے نوبل انعام کی روایت ڈالی مگر کیا اس انعام نے امن قائم کر دیا؟

سائنس اور سرمایہ مقاصد کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتے۔ ڈائنامیٹ، وسائل، سائنس، سرمایہ پہلے مقاصد کے حصول کا ذریعہ تھے اب خود مقاصد بن گئے ہیں۔ آزادی کا حصول ان کے بغیر ممکن نہیں سمجھا جاتا۔آج اصل مقصد آزادی کا حصول ہے لہٰذا یہ ذرائع بھی وسائل نہیں اصلاً مقاصد ہی ہیں۔ سائنس کی پھیلائی ہوئی آلودگی کا علم تین سو برسوں کے بعد 1970ء میں ہوا اس کی تفصیل ’’ڈیولپ منٹ ڈکشنری‘‘کے مضمون ’’انوائرمنٹ‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔

گاڑی، فیکٹری، طیارہ، فریج، اے سی، فریزر وغیرہ جیسی اشیاء کے استعمال سے نکلنے والی’’سی ایف سی‘‘ گیسوں نے اوزون لہر کو تباہ کر دیا اس کا علم 1985ء میں تین سو سال کے بعد مغرب کو ہوا اوراوزون لہر کی مرمت بھی نہیں کی جاسکتی۔ اس کے نتیجے میں سورج کی گرمی چھن کر آنے کے بجائے براہ راست زمین پر آرہی ہے اس سے یورپ میں جلد کا سرطان عام ہوا، دنیا بھر میں فصلیں اور نسلیں تباہ ہو رہی ہیں کیا ہم اسے جان سکے؟ تفصیلات کے لیے ’’الگور‘‘ کی کتاب ’’این انوائر منٹ ٹرتھ‘‘دیکھیے۔ امریکا کے مشہور تاریخ داں ’’جیرڈ ڈائمنڈ‘‘اپنی کُتب میں بتاتے ہیں کہ دنیا کی تمام بڑی تہذیبوں کا خاتمہ اسراف کی ثقافت وسائل کے بے تحاشہ استحصال اور تمتع فی الارض میں مسلسل انہماک کے باعث ہوا۔ عصر حاضر میں ’’حدتِ ارضی‘‘ کا سبب بھی یہی مسرفانہ طرز زندگی ہے۔

تسخیر کائنات کے نام پر تدفین کائنات کا عمل جاری و ساری ہے۔ کائنات کے وسائل پر قبضہ کر کے خواہش نفس کے غیر فطری تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے جس سے نہ صرف کرۂ ارض بلکہ اس کرہ پر آباد پوری نسل انسانی تباہی کے خطرے سے دو چار ہے۔ اسراف و تبذیر نے اس کائنات کے وجود کو مشکوک بنا دیا ہے۔ تیزی سے تباہ ہوتا ہوا یہ کرۂ ارض ہمارے ’’کنزیومر ازم‘‘ کا براہِ راست نتیجہ ہے مگر یہی معیار ہر ایک کو مطلوب بھی ہے۔

’’ڈیویلپ منٹ ڈکشنری ‘‘ترقی، ماحولیات معیار زندگی سائنس اور ٹیکنالوجی کے نام پر پیدا کردہ دہشت گردی کے چہرے سے نقاب اٹھاتی ہے۔ جدید سائنس و ٹیکنالوجی نے اس کرۂ ارض کو رہنے کے قابل نہیں چھوڑا ہے آلودگی نے بحر و بر ارض و سماء میں انسان کے لیے بے شمار قیامتیں پیدا کر دی ہیں ایسی قیامتیں جن کی آمد سے ہر انسان لاعلم ہے اور اس کے مصائب سے چھٹکارا پانا اس کے لیے محال کیا ان مباحث کو پڑھنا سمجھنا بڑے بڑے مفکرین کے لیے آج بھی ممکن ہے؟

امریکا کا مالیاتی فراڈ… (دوسرا حصہ)

$
0
0

معاشی غلام ملکوں کے حکمران ہمیشہ غیرملکی سرمایہ کاری کو عوامی معاشی مسائل کے حل کا ذریعہ قرار دے کر اس کی آڑ میں کمیشن کھاتے ہیں اور بڑے گھپلے کرتے ہیں۔ کرائے کے بجلی گھروں کی مثال سامنے ہے۔ پہلی جنگ 1914 سے لے کر 1928 تک امریکا نے یورپی ملکوں کے ’’کرنسی ایکسچینج بحران ‘‘ کو استعمال کرکے پورے یورپ میں کاغذی ڈالر معیشت میں داخل کردیے۔ ان ڈالروں کی آمدنی امریکا کی طرف منتقل ہوتی گئی۔ ڈالر یورپی معیشت میں گردش کر رہے تھے ان کا نفع امریکا منتقل ہو رہا تھا۔

جاپان میں یہ چیز خاص طور سامنے آئی کہ بالادست طبقے کے پاس افراط زر بڑھتا یا اکٹھا ہوتا گیا اور عوام قلت زر کا شکار ہوگئے۔ عوامی قوت خرید میں کمی کے نتیجے میں کساد بازاری پیدا ہوتی گئی۔ امریکا نے مالیاتی منصوبہ بندی کرکے یورپی ملکوں کی کرنسیوں کو ڈالر کا قیدی بنالیا تھا۔ امریکی ڈالر یورپی معیشت میں “Currency Devaluation Minus Economic Development” کے ذریعے ان ملکوں کی ایکسپورٹ کو کم کرتا گیا، اس سے امریکی ایکسپورٹ بڑھتی گئی۔ امریکی قید سرمایہ داری کو امریکا نے آزاد منڈی کہا۔ لیکن یہ درحقیقت آزاد منڈی نہیں تھی، یہ امریکی کاغذی ڈالر کی غلام منڈیاں تھیں۔ امریکی کاغذی ڈالر FDI کی شکل میں یورپی ملکوں کی منڈیوں سے مقامی نفع کو امریکا کی طرف منتقل کر رہی تھی۔

معاشی غلام یورپ پر قرضوں کے سود امریکا کو منتقل ہو رہے تھے اور کرنسیوں کی قیمتوں میں ڈالر کے مقابلے مقامی صنعتی کلچر کا خاتمہ، ملکی لاگتیں بڑھنے سے امریکی اشیا سستی ہوکر ان ملکوں میں امپورٹ ہوکر نفع امریکا لے جا رہی تھیں۔ یہ تمام باتیں اکٹھی ہوکر ان ملکوں میں معاشی بحران پیدا کرنے کا سبب بن گئیں اور سب سے بڑا جرم ان ملکوں میں موجود ڈالر ٹریڈرز نے یہ کیا کہ انھوں نے ڈالر ٹریڈنگ میں مقامی کرنسیوں کی شکل میں زیادہ سے زیادہ نفع لینے کے لیے ڈالر بلیک کرکے اور بھی مقامی کرنسیوں کی قیمتوں کو ڈالر کے مقابلے میں کم کرنے کا کردار ادا کیا جو خود امریکا بھی یہی چاہتا تھا۔ 1914 کے ’’یورپی کرنسی ایکسچینج بحران‘‘ میں امریکا نے تیز رفتاری سے ان ملکوں کی تجارت کی ضرورت ڈالر بنادیا تھا۔

کتاب International Currency Experience by league of Nations 1944 کے صفحے 235 پر 1924 میں 24 ملکوں کے پاس ڈالر فارن ایکسچینج ریزرو 845.0 ملین ڈالر تھے۔ بڑھتے بڑھتے 1928 میں 2520.0 ملین ڈالر ہوگئے۔ عالمی معاشی بحران امریکی غیر پیداواری اخراجات کے بوجھ کی شکل میں ہر ملک کی معیشت و مالیت میں ڈالر کی شکل میں موجود تھا۔ 1929 میں یورپی ملکوں نے ڈالروں کو واپس سونے کے عیوض کرنا شروع کردیا تھا۔ جوں جوں امریکا سے کاغذی ڈالروں کے عوض سونا نکلتا گیا توں توں امریکی حکومت کے لیے پریشانی بڑھتی گئی۔ کیونکہ پھیلائے گئے کاغذی ڈالروں کے عوض سونا امریکا ادا نہیں کرسکتا تھا، امریکی حکومت نے ڈیفالٹر ہونے سے بچنے کے لیے ’’مالیاتی گولڈ فراڈ پلان‘‘ “Monetary Gold Fraud Plan” فوراً ترتیب دیا۔

کتاب International Economy by John Parke Young 1963 کے صفحے 741 پر درج ہے کہ امریکی صدر روز ویلٹ نے 20اپریل 1933 کو سونے کی ایکسپورٹ پر فوراً پابندی لگادی تھی۔ اور MGEP پر عمل کرتے ہوئے 22 اکتوبر 1933کو صدر نے سونا خریدنے کا اعلان کیا اور 25 اکتوبر 1933 کو 31.36 ڈالر فی اونس سونا خریدنا شروع کیا۔ 26 اکتوبر کو 31.54 ڈالر فی اونس، 27 اکتوبر 1933 کو 31.76 ڈالر، 28 اکتوبر 1933 کو 31.82 ڈالر، 16 جنوری 1934 کو 34.45 ڈالر اور 31 جنوری  1934 کو 35.0 ڈالر فی اونس سونے کی قیمت مقرر کردی گئی۔ امریکی MGFP کے نتیجے میں جو کاغذی ڈالر واپس امریکا آرہا تھا وہ آنا بند ہوگیا۔

بلکہ الٹا امریکا سے ملک میں اور بیرونی ملکوں میں موجود ڈالر ٹریڈرز نے سونا خریدنا شروع کردیا اور امریکا بھیجنا شروع کردیا اور 1934 میں تمام شکل بدل گئی۔ امریکی سونے کی امپورٹ جمپ مار کر 1187.0 ملین ڈالر (یہ اعداد و شمار متذکرہ کتاب کے صفحے 136 سے ہی پیش کیے گئے ہیں) اور مسلسل سونے کی امپورٹ 1943 تک بڑھتی گئی۔ 1934 سے 1943 تک امریکا نے کاغذی ڈالر کے عوض 17323.0 ملین گولڈ ڈالر حاصل کرلیا تھا۔

ڈالر کی قیمت میں سونے کے مقابلے میں 69 فیصد کمی کا اثر تمام ان کرنسیوں پر منفی پڑا جن کی قیمتیں ڈالر کے مقابلے میں کم تھیں، امریکا نے اس مالیاتی، معاشی بحران کا رخ اپنی طرف سے موڑ کر واپس تمام دنیا کی معیشتوں کی طرف کردیا جو کاغذی ڈالروں کے بدلے سونا مانگ رہی تھیں۔ ان ملکوں کو دھوکا ان کے اپنے اندر ملکوں میں موجود ڈالر ٹریڈرز نے دیا، جو ڈالر ٹریڈنگ کرکے اپنے اپنے ملکوں کی کرنسیوں کو زیادہ سے زیادہ نفع کی شکل میں حاصل کر رہے تھے۔

’’کتاب انٹرنیشنل کرنسی ایکسپیرینس‘‘ کے صفحے 240 پر دیے گئے گولڈ ملین ریزرو ڈالر امریکا کے پاس 12969.0 ملین ڈالر تھے اور کتاب International Financial Statistics December 1949 Volume II Number 12. by IMF. USA کے صفحے 1 سے 128 تک تمام ملکوں کے پاس 1943 میں 8406.63 ملین ڈالر گولڈ ریزرو تھا۔ امریکا کا گولڈ ریزرو ملین 12969.0 ڈالر میں امپورٹ کردہ 17323.0 ملین ڈالر گولڈ جمع کردیا جائے تو امریکا کے پاس ٹوٹل گولڈ 30292.0 ریزرو ملین ڈالر تھا۔ اس طرح امریکا MGFP کا ہتھکنڈا استعمال کرکے پوری دنیا سے 260 فیصد زیادہ گولڈ ریزرو ملین ڈالر حاصل کرچکا تھا۔ اس کے بعد جب امریکا دوسری عالمی جنگ میں شریک نہیں ہوا تھا امریکا نے 1940 میں سیکریٹری آف اسٹیٹ Hull کو تجارتی و مالیاتی امور کے لیے Inter Departmental Group کا سربراہ مقرر کیا۔

اس گروپ کی سربراہی میں ’’ٹریژری ڈپارٹمنٹ آف مانیٹری ریسرچ‘‘ کے ہنری ڈی وائٹ نے دسمبر 1941 (امریکا دوسری عالمی جنگ میں 7 دسمبر 1941 کو شریک ہوا تھا) کو ایم میمورنڈم Proposal for a Stabilization Fund of the United and Associated Nations” کے نام سے پیش کیا۔ اسی پرپوزل کے ساتھ (ورلڈ بینک) Bank for Reconstruction and Development کا پلان بھی پیش کیا۔ امریکا نے برطانیہ کو ساتھ ملاکر 27 دسمبر 1945 کو IMF کو 15 دسمبر 1923 والے EEE کی جگہ قائم کرلیا تھا۔IMF کے EEE کی طرز پر مالیاتی آپریشن پوری دنیا میں 91 سال گزرنے کے بعد بھی جاری ہیں۔ امریکی مالیاتی سسٹم نے دنیا کو دو حصوں میں نیٹو، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کی چھتری تلے بانٹ دیا ہے۔ اکثریتی ممالک سامراجی امریکی بلاک کے معاشی غلام ملک ہیں۔ دوسری طرف سامراجی بلاک ہے۔

امریکا کے کاغذی ڈالر نے 1930 کا عالمی معاشی بحران پیدا کیا، امریکا نے مالیاتی گولڈ فراڈ پلان MGFP کے ذریعے خود کو ڈیفالٹر ہونے سے بچا لیا تھا اور پوری دنیا میں جنگی جارحیت، سرمایہ کاری، فارن ایکسچینج ڈالر ریزرو کو رکھنا IMF کے پلیٹ فارم سے لازمی قرار دے کر دنیا کی معیشتوں میں کئی سو کھربوں ڈالر داخل کردیے۔ امریکا نے ڈالر کرنسی ایکسپورٹ کرنے کا طریقہ واضح کیا۔ کاغذی ڈالر کو جنس کے درجے پر لے جاکر کاغذی ڈالر کی صنعت کو پوری دنیا میں پھیلاکر تمام ملکوں کے فطری پیداواری ذرائع میں رکاوٹیں CDMED کی شکل میں کھڑی کردیں، ان تمام منفی امریکی اقدامات کے نتیجے میں یورپی ملکوں میں مالیاتی و معاشی عدم استحکام اور بے چینی بڑھنے کے نتیجے میں مارچ 1971 کو فرانس نے امریکا سے 28 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کے عوض سونے کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔

اس کے ساتھ ہی نیدرلینڈ، سوئٹزرلینڈ، بیلجیم اور آسٹریا نے بھی ڈالروں کے عوض سونے کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔ امریکا سونے کی ادائیگی کرنے میں ناکام ہوگیا اور امریکی صدر نکسن نے 15 اگست 1971 کو ڈالروں کے عوض سونے کی ادائیگی پر پابندی لگا دی، اور الٹا یورپی ملکوں کو بدمعاشی دکھاتے ہوئے ان کی اشیا کی ایکسپورٹ پر امریکا میں سرٹیکس 10 فیصد لگادیا۔         (جاری ہے)

دیدہ دلیری

$
0
0

گذشتہ دنوں اخبارات میں مانسہرہ میں ایک ایف ایس سی کی طالبہ کے ساتھ درندگی کی ایک انوکھی اور لرزہ خیز واردات نے ملک بھر کے اندر جوان بچیوں کے والدین کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اب لوگ باقاعدہ طور پر دعا مانگ رہے ہیں کہ خدا انھیں راہ راست پر لائے جو مختلف مقامات اور علاقوں میں اپنے تمام تر کروفر کے ساتھ امن قائم رکھنے ، قانون کی عملداری اور انصاف کی فراہمی جیسی ذمے داریوں کو نبھانے کیلیے مامور کیے گئے ہیں۔خبر کیمطابق ’’مانسہرہ میں نودولتیوں کی بگڑی اولادوں نے سیکنڈ ائر کی طالبہ اپنی ہی سہیلی کو ملی بھگت سے دن دہاڑے چلتی گاڑی میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔

پولیس نے تینوں ملزموں کو ساتھی لڑکی سمیت گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق مانسہرہ میں ایف ایس سی کی طالبہ مسماۃ (پ) آخری پرچہ دینے کے بعد امتحانی سینٹر سے باہر نکلی تو ساتھی طالبہ مسماۃ (الف) نے اسے گھر چھوڑنے کے بہانے گاڑی میں زبردستی بٹھا لیا اور دروازے لاک کردیے۔ گاڑی میں موجود قاری نصیر ، محمد فیضان عرف فیضی اور حسین نے کالے شیشوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی اور اس دوران گاڑی کو مختلف سڑکوں پر دوڑاتے رہے۔ پولیس نے چاروں ملزموں کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا ہے جنھیں 24 گھنٹے حراست کے بعد عدالت میں پیش کیا گیا۔

لڑکی نے پولیس کو درخواست دیتے ہوئے بتایا کہ آخری پرچہ دینے کے بعد جب کالج سے باہر آئی تو اس کی ساتھی طالبہ نے کہا کہ میرے کزن کی گاڑی ہے آئو تمہیں گھر تک چھوڑ آتے ہیں اور مجھے گاڑی میں بٹھا کر اور گاڑی کے دروازے لاک کردیے اور میرے ساتھ زیادتی کرتے رہے۔ پولیس نے طالبہ کی درخواست پر چار افراد کے خلاف مقدمہ درج کرکے ملزمان کو گرفتار کرلیا جب کہ متاثرہ لڑکی کو طبی امداد کیلیے اسپتال منتقل کردیا گیا۔ خبر کے مطابق ملزموں کا تعلق مانسہرہ کے بااثر خاندانوں سے ہے۔ ملزم قاری نصیر مدرسے کا مہتم ہے ملزم حسین سابق ناظم یوسی جبوڈی کا بیٹا ہے اور تیسرا ملزم فیضان دونوں کا دوست ہے۔

ڈی سی او ڈاکٹر خرم رشید نے بتایا کہ ملزمہ غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث تھی اور اپنے ساتھیوں سے مل کر ایسی وارداتیں کرتی رہی ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق ملزموں نے میڈیا کے سامنے طالبہ سے چلتی گاڑی میں زیادتی کا اعتراف کرلیا ہے۔ ملزم قاری نصیر نے کہا ہے کہ جرم پر اتنا نادم ہوںکہ زندہ رہنا نہیں چاہتاـ‘‘۔ہم بحیثیت قوم لاتعداد مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں اور حالات دن بدن بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے ہیں قوموں پر آرام اور آزمائشوں کی ابتلائیں آتی ہیں اور جو قومیں مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہوں وہ اِن ابتلائوں اور آزمائشوں سے سرخرو ہوکر نکل آتی ہیں۔

جن قوموں کی بنیاد کھوکھلی ہوں وہ قومیں ان آزمائشوں کے دوران حوصلہ اور ہمت کے فقدان کے باعث اخلاقی طور پر پستیوں کی عمیق گہرائیوں میں گر جاتی ہیں اور اپنی شناخت گنوا بیٹھتی ہیں۔ نو دولتیے کون لوگ ہوتے ہیں؟ آج ہمارے معاشرے کی شناخت نودولتیوں کی مرہون منت ہے۔ جو خاندان اس وقت نامی گرامی ہیں عرصہ چالیس پچاس سال پہلے بالکل عام سمجھے جاتے تھے ۔ فارسی میں ایک مثل مشہور ہے کہ ’’مالِ حرام بُود و بجائے حرام رفت ‘‘ حرام کا مال تھا حرام کی جگہ خرچ ہوگیا۔

دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں جو شخص بھی ارب پتی ہوتا ہے اس کی دولت کے حصول کے بارے میں ملک اور قوم کے ہر شخص کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیسے ارب پتی بنا کیونکہ ساری کی ساری معیشت ایک ایک پائی کے حساب کتاب سے چلتی ہے اور تمام آمدن اور اخراجات تحریر میں لائے جاتے ہیں لین دین کے سارے معاملات تحریراً ہوتے ہیں اور جہاں جہاں ٹیکس نافذ ہوتا ہے وہ دولت مند حضرات وخواتین خوشی خوشی نہ سہی لیکن باقاعدگی سے ادائیگی کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح ان ملکوں کے مروجہ قوانین کے مطابق کاروبار زندگی مال حرام کے بجائے مال حلال سے چلتا ہے اور معاشرتی سکون اور استحکام قائم رہتا ہے۔

ہمارے ہاں کل تک گلیوں محلوں میں چھوٹی موٹی بدمعاشیاں کرنے والے چوری چکاریوں کیلیے جانے پہچانے ہوئے لوگ ، ایک دوسرے کے خلاف ہلڑ بازیوں، لڑائیوں اور دنگا فسادیوںکیلیے مشہور لوگ دیکھتے ہی دیکھتے ارب پتی بن گئے ہیں اور اب تو کروڑ پتی ہونا گھاٹے کا سودا شمار ہونے لگا ہے کیونکہ ارب پتی بننا ان لوگوں کے لیے جو پاکستان کے اندر بظاہر کامیاب زندگی گذارنے کا گُر جانتے ہیں نہایت آسان ہوگیا ہے کسی زمانے میں کسی نے کیا خوب کہا تھا۔

کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے

ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے

وہ ماں باپ جو ظلم، زیادتی، دھونس دھاندلی اور رشوت خوری سے کمائی ہوئی دولت کے ذریعے بچے پالتے ہیں ان سے اچھائی کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ قاری نصیر کی قسمت دغا دے گئی وگرنہ وہ ساری عمر کبھی بے نقاب نہ ہوتا کیونکہ اس قماش کے لاتعداد افراد  پکڑے نہ جانے کی وجہ سے باعزت طور پر اب بھی دندناتے پھرتے ہیں اور لوگوں کی عزتوں کے ساتھ کھیلنے کے شغل میں مشغول رہتے ہیں۔یہ انھی انفرادی سطح پر کرتوتوں کا نتیجہ ہے کہ اجتماعی سطح پر لوگوں کو ذبح کرنے کے بعد کٹے ہوئے سروں سے فٹ بال کھیلا جاتا ہے۔ پولیو ٹیکے لگانے سے اور بچیوں کی تعلیم سے خرابی کا خطرہ ہے۔

آزادی نسواں پر آواز اٹھانا معاشرتی انتشار بن جاتا ہے ایسا کیوں ہے۔ایسا صرف اس لیے ہے کہ ایسا شخص عورت سے ہمہ وقت خوف زدہ رہتا ہے، وہ عورت کو سانس لیتی ہوئی لاش سے زیادہ اہمیت دینے سے گریزاں رہتا ہے کیونکہ اس سے اسے اپنی اوقات ظاہر ہوجانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ نائیجیریا میں پچھلے دنوں وہاں کے دہشت گرد بھائیوں نے ایک اسکول سے تقریباً 250 بچیوں کو اغوا کرلیا ہے اور ایک خبر کے مطابق اب ان بچیوں کو شادی کے خواہش مند دہشت گرد بھائیوں کو نیلام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ایک اور خبر کے مطابق یہ اغوا انھوں نے اپنے قیدی ساتھیوں کو جیل سے چھڑانے کیلیے کیا ہے دروغ برگردنِ راوی۔

بہرحال اب پاکستان میں حکومت وقت کو چاہے کہ وہ مرکزی حکومت ہو یا صوبے کی حکومت بچیوں کے اسکولوں کی حفاظت کیلیے فوری طور پر موثر اقدامات اٹھا لیں کیونکہ نائیجیریا کے دہشت گرد بھائیوںکی دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔مانسہرہ کے واقعے نے اس قماش کے لوگوں کو اور زیادہ دیدہ دلیری عطا کردی ہے۔ اس واقعے کی مذمت میں کسی مذہبی جماعت نے ایک لفظ تک نہیں کہا ، صرف مانسہرہ کے شہریوں نے اجتماعی ریلی نکالی اور قاری نصیر پر سیاہی اور گندے انڈے پھینک کر اپنی بھرپور نفرت کا اظہار کیا ۔ بعض سیاسی جماعتوں کے مقامی نمائندوں اور لیڈروں نے اس بہیمانہ واقعے کے خلاف احتجاج کیا۔کیا اس چھوٹے سے احتجاج سے معاملات درست ہو جائیں گے۔

خدا ہم سب کا حامی وناصر ہو۔ آمین


ایک نئی سیاسی صف بندی

$
0
0

کیا پاکستان میں حزب اختلاف کی سیاست ایک نئی سیاسی صف بندی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ کیونکہ پاکستان میں حزب اختلاف پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر موجود ضرور ہے ، لیکن اس کا مجموعی تاثر اتنا ہی برا ہے جتنا حکومت کی حکمرانی کا ہے ۔حزب اختلاف کا کام حکومت کے مقابلے میں ایک متبادل حکومت کا ہوتا ہے ، جو حکومت کو بھی اور لوگوں کو بھی آئینہ دکھاتا ہے ۔لیکن ہماری حزب اختلاف عمومی طور پر ایک تقسیم شدہ سیاست کے دائرہ کار میں قید نظر آتی ہے۔

ماضی میں یہ کام بڑی خوبصورتی سے نواب زادہ نصر اللہ مرحوم کیا کرتے تھے۔سیاسی لوگوں میں ایک دوسرے کے درمیان فاصلے اور اختلاف کے باوجود ان کو کسی مشترکہ ایجنڈے پر ایک کرنے کا ملکہ نواب زادہ نصر اللہ مرحوم کو ہی حاصل تھا۔اب ہماری حزب اختلاف کی سیاست ان کے بغیر سیاسی طور پر یتیم نظر آتی ہے ۔

لیکن اب جو سیاسی حالات میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اس میں کچھ حکومت مخالف نئی سیاسی صف بندی کے امکانات کے پہلو سامنے آئے ہیں۔ 11مئی کو ایک بڑے جلسہ سے پہلی بار تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے تمام جماعتوں کی مدد اور اشتراک کے ساتھ بڑی جدوجہد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عمران خان کی سیاست عملا سولو فلائٹ کے گرد گھومتی ہے۔ وہ دیگر جماعتوں کی سیاسی طاقت کو نظر انداز کرکے خود تن تنہا سیاسی میدان میں فاتح کے خواہش مند ہیں ۔ لیکن اب لگتا ہے کہ انھیں اندازہ ہوگیا ہے کہ معاملہ سولو فلائٹ سے حل نہیں ہوگا، اس کے لیے مشترکہ طور پر حکومت مخالف جماعتوں کے درمیان نئی حکمت عملی یا طریقہ کار کو حتمی شکل دے کر حکومت پر دباؤ کی سیاست کو بڑھانا ہوگا۔

فوری طور پر وہ انتخابی دھاندلی اور انتخابی اصلاحات کو بنیاد بناکر آگے بڑھنے کے خواہش مند ہیں۔ اگرچہ انھوں نے اس بات کی تردید کی کہ وہ مڈٹرم انتخابات کے حامی ہیں یا حکومت کو قبل از وقت تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔لیکن جو اشارے اور چارٹر آف ڈیمانڈ انھوں نے پیش کیا ہے وہ محض مطالبات ہی نہیں بلکہ قبل از وقت انتخابات یا کسی اور طرز کی تبدیلی بھی پیدا کرسکتے ہیں ۔ممکن ہے کہ یہ خواہش عمران خان کی نہ ہو، لیکن جو حالات میںکروٹ ہے وہ کوئی ’’غیر معمولی اقدام ‘‘  بھی ہوسکتا ہے ۔

پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم ، اے این پی اور جے یو آئی سب انتخابی دھاندلیوں کو روکنے اور انتخابی اصلاحات کے حامی نظر آتے ہیں ۔لیکن ان مسائل کے حل کا جو طریقہ کار عمران خان یا ڈاکٹر طاہر القادری دے رہے ہیں وہ جمہوری عمل کے تسلسل کے لیے خطرہ ہیں ۔ پہلی بات تو یہ کہ ابھی ابتدائی طور پر کوئی بڑی تحریک نہیں چل رہی ۔ اس لیے گیند تو ابھی بھی حکومتی کورٹ میں ہے کہ وہ تحریک انصاف کی ڈیمانڈ پر کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔

حکومت کا یہ موقف بجا کہ مسئلہ سڑکوں پر نہیں پارلیمنٹ میں حل ہوگا۔لیکن حکومت کو نئی سیاسی صف بندی یا کسی بھی تحریک سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔ حکومت کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ مستقبل میں انتخابی دھاندلیوں کو روکنے اور الیکشن کمیشن کے عمل کو منصفانہ اور شفاف بنانے کے لیے اقدامات کو بروئے کار لائے ۔ اس میں جتنی تاخیر ہوگی اس کا فائدہ حکومت مخالف جماعتیں ہی اٹھاکرسب کو اپنی طرف متوجہ کرسکتی ہیں ۔

لیکن حکومت اس نئی سیاسی صف بندی میں خوف زدہ نظر آتی ہے ۔ بالخصوص تحریک انصاف کی جانب سے محض چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ حکومتی حلقوں میں خوف کی صورت اختیار کرگیا ہے ۔حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ ان چار حلقوں کو دوبارہ گنتی میں لے جاتی ہے تو اس کے نتائج کی تبدیلی کی صورت میں سارے انتخابی مینڈیٹ کی صحت متاثر ہوگی ، اس کا فائدہ حکومت مخالف قوتوں کو ہوگا جو مڈٹرم انتخابات کا مطالبہ کرسکتی ہیں ۔ لیکن دوسری صورت بھی حکومت کے حق میں نہیں، کیونکہ اگر فوری طور پر ان چار حلقوں کا مسئلہ عملا حل نہیں ہوتا تو اس کے نتیجہ میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ)ق( سمیت دیگر جماعتیں اپنی تحریک میں شدت پیدا کرسکتی ہیں ۔کیونکہ ان چار حلقوں کے معاملے میں جتنی بھی تاخیر ہوگی وہ لوگوں میں اس رائے کو مضبوط کرے گی کہ انتخابی عمل اور اس کے نتائج مشکوک ہیں ۔

اگرچہ حکومت اور اس کے حامی عناصر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس نئی سیاسی صف بندی اور ممکنہ تحریک کے پیچھے اصل طاقت ’’ پس پردہ ‘‘ قوتوں کی ہے ۔ان کے بقول عمران خان ، چوہدری برادران اور ڈاکٹر طاہر القادری تنہا نہیں بلکہ وہ عملی طور پر ’’ اشاروں کی سیاست ‘‘ کررہے ہیں ۔حکومتی ترجمان بضد ہیں کہ پس پردہ قوتیں بعض ناکام سیاسی جماعتوں کی مدد کے ساتھ جمہوری عمل کی بساط کو لپیٹنے کا ارادہ کرچکی ہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو کچھ حکومت کررہی ہے اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جو حالات حکومت مخالف تحریک کے لیے نمودار ہوئے ہیں وہ سیاسی تنہائی میں نہیں ہوئے ، اس کی کچھ سیاسی وجوہات ہیں ۔ حکمران طبقات ہمیشہ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈال کر ’’ پس پردہ قوتوں ‘‘ پر بندوق چلا کر خود کو محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ غلطیاں حکومت سے بھی ہوتی ہیں، اس کا اعتراف بھی کیا جانا چاہیے ۔

اس لیے آنے والے دنوں میں حکومت مخالف تحریک کا کوئی امکان پیدا ہوتا ہے یا نئی سیاسی صف بندی ہوتی ہے تو یہ حیران کن بات نہیں ہوگی۔ سیاست میں کل کے مخالفین آج کے دوست ہوسکتے ہیں ۔ اس لیے تحریک انصاف، جماعت اسلامی ، مسلم لیگ)ق(، ایم کیو ایم ، جے یو آئی سمیت کچھ قوم پرست جماعتیں کسی نئے اتحاد کا حصہ بنتی ہیں تو یہ فطری امر ہوگا۔ہمارے دوست اصغر عبداللہ نے اپنے تجزیہ میں درست لکھا ہے کہ عمران خان اور چوہدری برادران آہستہ آہستہ ایک ہی پیج پر پہنچ رہے ہیں ، اور ان کے بقول یہ حزب اختلاف کی سیاست میں نیک فال ہے ۔ البتہ اس طرح کے اتحادوں کی تشکیل میں کیونکہ ماضی میں پس پردہ قوتیں اپنا حصہ ڈالتی رہی ہیں ، انھیں اس عمل سے دور ہی رہنا چاہیے۔حکومت مخالف جماعتوں کو بھی کسی اور سہارے کی بجائے سیاسی قوتوں کے درمیان اشتراک کار کے عمل کو ہی تلاش کرکے لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا چاہیے۔

عمران خان اگر واقعی اپنی حکومت مخالف تحریک میں شدت پیدا کرنا چاہتے ہیں تو انھیں اپنی صوبائی حکومت کی قربانی دینی ہوگی۔ چوہدری پرویز الہی کی بات اپنے اندر وزن رکھتی ہے کہ عمران خان ’’ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر ‘‘ کی سیاست سے باہر نکل کر ایک صوبائی حکومت تک اپنے آپ کو محدود کرنے کی بجائے قومی سیاست کی طرف توجہ دیں ۔کیونکہ پاکستان کی سیاست میں یہ تجربہ ناکام ہوگیا ہے کہ ایک ہی وقت میںآپ حکومت اور حزب مخالف کے طور پر بھی اپنا حق ادا کرسکیں ۔لیکن کیا عمران خان ایسا کرسکیں گے یا صوبائی حکومت کو اپنی سیاسی مجبوری بناکر تضادات پر مبنی سیاست ہی کو تقویت دیں گے۔

مزدور اپنے حقوق کے منتظر……

$
0
0

ماہ رواں کی ابتدا مزدوروں کا عالمی دن منا کر کی جاتی ہے۔ ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی یکم مئی کو مزدورں کا عالمی دن انتہائی جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا، بیشتر ممالک میں اس حوالے سے خصوصی تقریبات کا مناسب اہتمام کیا گیا۔ پاکستان میں بھی اس روز عام تعطیل تھی، اس موقع پر مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں اور تنظیموں کی جانب سے مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے پروگرامات کا انعقاد ہوا، سیاسی رہنمائوں نے بھی ہر سال کی طرح اس ضمن میں اپنے دھواں دھار بیانات جاری کیے۔

حکومتی وزراء اور شخصیات نے مزدوروں کے حقوق کی فراہمی کو ممکن بنانے کے لیے سرکاری سطح پر اقدامات کا اعادہ کیا، انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی کسی سے پیچھے نہ رہیں، مزدوروں سے اظہار یکجہتی کے لیے سیمینارز منعقد کرائے گئے، ریلیاں نکالی گئیں، مذاکرے ہوئے، ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا، واک کا انعقاد ہوا، حتیٰ کہ بڑے ہوٹلوں میں پرتکلف عشائیے بھی دیے گئے، شہداء مزدوروں کی یاد میں چراغ بھی جلائے گئے، مگر ان باتوں کا کوئی عملی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ مزدور آج بھی اپنے حقوق کے لیے کوشاں ہے، بے تحاشا مسائل اس کے دامن سے لپٹے ہوئے ہیں، وہ مراعات تو کجا اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہے۔

اس سال بھی ملک میں 6 کروڑ سے زائد مزدوروں کی اکثریت کی نگاہیں امید اور آس لگائی رہیں کہ شاید اس مرتبہ ریاست کی جانب سے ان کو حقوق کی فراہمی کے حوالے سے اقدامات کا اعلان ممکن ہوگا، مگر وہ ہی ڈھاک کے تین پات کے مصداق دہرے استحصال کا شکار مزدور بنیادی حقوق سے محروم رہے۔ اس ضمن میں سرکار نے ہمیشہ کی طرح خاموشی اختیار کیے رکھی، تاہم سندھ میں پہلی بار زراعت پر بھی صنعتی تعلقات ایکٹ 2013 لاگو ہونے سے کسانوں اور ہاریوں میں امید کی کرن پیدا ہوئی ہے۔ لیکن اس سے قطعی طور پر انکار ممکن نہیں ہے کہ بین الاقوامی ادارہ محنت (آئی ایل او) کے 28 کنونشنز پر دستخط اور پھر اس کی توثیق کرنے کے باوجود آج بھی پاکستان میں ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔

کیا یہ ستم ظریفی نہیں ہے کہ ملک بھر میں صرف 2.8 فیصد مزدور یونین سازی کے حق سے مستفید ہورہے ہیں جس میں عوامی شعبے کا حصہ 65 فیصد سے زائد ہے۔ کیا ظلم نہیں ہے کہ گھروں پر کام کرنے والے 1 کروڑ 20 لاکھ مرد اور خواتین مزدوروں کے لیے سرے سے کوئی قانون ہی موجود نہیں تو وہ قانونی مراعات کیوں کر حاصل کر سکتے ہیں۔ نجی شعبے میں کام کرنے والے 90 فیصد پیداواری اداروں میں فیکٹری ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ نہ ہونا کسی المیہ سے کم نہیں۔ ملکی لیبر قوانین پر عمل درآمد کیسے ممکن ہے جبکہ 95 فیصد مزدوروں کو سوشل سیکیورٹی کارڈ کی سہولت ہی میسر نہیں۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ آج ملک میں 90 فیصد سے زیادہ غیر ہنر مند مزدور سرکاری اعلان کے مطابق کم از کم 10 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ سے محروم ہیں۔

پاکستان کے مزدور10 ستمبر 1948 کو منظور ہونے والے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیہ کے تحت ملنے والے انسانی حقوق سے آج بھی محروم ہیں۔ دوران کام مزدور کو آئینی و قا نونی تحفظ بھی حاصل نہیں، بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت، اداروں میں تالہ بندی، توانائی کے بحران اور چھانٹیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ مزدوروں اور ان کے اہل خانہ پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے، جس سے ملک میں دہشت گردی کو فروغ ملنے کا بھی امکان بتدریج بڑھ رہا ہے۔ مزدور جہاں دو وقت کی روٹی کے لیے دن رات سرگرداں ہے، وہیں اسے سر چھپانے کا بھی آسرا میسر نہیں ہے۔

مزدوروں کے لیے رہائشی اسکیمیں ایک خواب بن کر رہ گئی ہیں، مزید برآں ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کے مسائل اس کی پریشانیوں میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں، دوران کام زخمی ہونے والے مزدورں کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی، جبکہ ناقص عدالتی نظام کے سبب مزدور بھی انصاف کے حصول کے لیے ایڑیاں رگڑتا نظر آرہا ہے۔ کیا اسے ناانصافی تصور نہیں کیا جائے گا کہ قلیل تنخواہ کے عوض روزانہ 12 سے 14 گھنٹے کام لے کر اس کا استحصال کیا جارہا ہے۔ ٹھیکے داری، کنٹریکٹ، روزانہ اجرت اور فی ٹکڑا کی بنیاد پر کام کرنے والے مزدور کسی غلام سے ہرگز کم نہیں۔

قرض فراہم کرنے والے عالمی اداروں کی شرط پورا کرنے کے لیے مجبور ہو کر ملک میں آزادی اظہار کا قانون بنانے والی ریاست نے اب یورپی یونین کی پارلیمنٹ سے 10 برس کے لیے ملنے والی GSP+ (جنرل سسٹم آف پریفرنس پلس) کی خصوصی حیثیت کے سبب آئی ایل او کے بنیادی مزدور معیارات کو لاگو کرنے کا وعدہ کرلیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس ضمن میں کس قدر عمل ہوتا ہے لیکن پبلک سیکٹر میں اداروں کی نجکاری کی منصوبہ بندی مزدوروں کے لیے موت کا پیغام ہے۔ اس ضمن میں ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آیا ٹریڈ یونینز صنعتی اداروں میں درست سمت میں کام کررہی ہیں۔

آئی ایل او کے کنونشنز پر ریاست کے عمل درآمد اور اس حوالے سے اس کے اقدامات پر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد وفاق سے صوبوں کو منتقل کیے جانے والے اداروں اور محکموں کے معاملات بھی توجہ طلب ہیں۔ اسی حوالے سے مزدوروں کو مروجہ قانونی مراعات جن میں کارکنان کے بچوں کو تعلیمی اسکالر شپس کا نہ دیا جانا، دنیا سے چلے جانے والے مزدوروں کی بیوائوں کو ڈیتھ گرانٹ 5 لاکھ روپے کی عدم ادائیگی، زیادہ اوقات کا ر میں خدمات کی انجام دہی پر اوور ٹائم سے محروم رکھا جانا، اقلیتی کارکنان، خواتین کارکنان، نوجوان کارکنان اور معذور کارکنان کے حقوق کی عدم ادائیگی بھی کسی المیے سے کم نہیں۔

مجبور خواتین کارکنان کو جنسی طور پر ہراساں کیا جانا بھی فکر انگیز ہے۔ سن کوٹہ کے قانون پر سختی کے ساتھ عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے، اس طرح مزدور کا بچہ اپنے قانونی حق کے حصول کے ساتھ اپنے گھرانے کی معاشی کفالت کی ذمے داری بھی ادا کرسکتا ہے۔ کسی کارکن کے لیے ڈیویڈنٹ کی رقم حاصل کرنا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے، اس مراعت سے محرومی یا تاخیر سے مزدور مالی مشکلات اور پریشانی کا ہوجاتا ہے۔

ہمیں اس امر کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ آج مزدور کو کس قدر بنیادی حقوق حاصل ہیں، ہم سب کو مل کر یہ سوچنا ہوگا کہ موجودہ پرآشوب دور میں مزدور کو جینے کا حق مل بھی رہا ہے یا نہیں۔ کہیں وہ تعصب کا شکار تو نہیں ہورہا، اسے تشدد کا نشانہ تو نہیں بنایا جارہا، قانون کی نظر میں مساوی درجہ کے حامل مزدور کی آزادانہ نقل و حمل تو متاثر نہیں ہورہی، دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح مزدور طبقہ کو بھی جمہوری عمل میں شامل کرنے کے ساتھ سماجی تحفظ بھی مل رہا ہے یا نہیں۔

سب سے بڑھ کر لازمی اور اہم ترین بات یہ ہے کہ قوانین کے مطابق صنعتی اور تجارتی اداروں میں کارکنان کی رجسٹریشن کے حق پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تاکہ وہ اپنی ٹریڈ یونین قائم کرکے نہ صرف ریفرنڈم کا جمہوری حق حاصل کریں بلکہ بعد ازاں اجتماعی سودے کاری ایجنٹ کی حیثیت سے اپنے آئینی اور قانونی حقوق کے لیے چارٹر آف ڈیمانڈ منظور کروائیں، لیکن اس کے لیے ضرورت اس امرکی ہے کہ مزدور تمام تر تعصبات، مذہب، رنگ و نسل اور زبان کے علاوہ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، جس کے لیے بے باک اور نڈر قیادت کی ضرورت ہے، جو اپنی مدبرانہ سوچ سے قومی مفاد اور ملکی استحکام میں اپنا کردار ادا کرے۔

آئندہ برس مزدوروں کا عالمی دن زیادہ شان و شوکت سے منانے کے بجائے ضرورت ہے کہ مزدوروں کو ان کے حقوق کی فراہمی کے لیے عملی اقدامات کی کوشش کی جائے۔ ریاست اور آجر مل کر مزدوروں کی مشاورت سے ان کی فلاح و بہبود اور معاشی و معاشرتی ترقی کے لیے مطلوبہ قوانین کو نافذ اور رائج کرنے کا اہتمام کریں، اس ضمن میں سیاسی جماعتوں اور میڈیا کا کردار اور ذمے داری انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو مزدور ملک کی ترقی اور تعمیر میں ایک نئے جذبے کے ساتھ شریک ہوگا اور پاکستان امن و سلامتی اور شادمانی کا گہوارہ بن جائے گا۔

چند اچھے لوگ

$
0
0

ہمارے معاشرہ اور سیاست میں اب صرف ہیجان رہ گیا ہے۔ آپ کو ہر جانب خود ساختہ ماہرین کے بیانات اور ٹی۔ وی شوز نظر آئینگے جس میں وہ ایسے باتیں کرتے ہیں جس میں وہ جج، جیوری اور جلاد، سب کچھ خود نظر آئینگے۔  جذباتیت، اونچی آواز، دلیل کے بغیر گفتگو اور سطحی تجزیے، یہ وہ ملغوبہ ہے جو ہر طرف دیکھنے کو مل رہا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ میں قطعاً غلط ہوں! مگر مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے اکثر اینکر پرسنز اور ان کے سامنے بیٹھے ہوئے مہمان، کسی تیاری کے بغیر آ جاتے ہیں۔ تجزیہ کی بنیاد صرف اور صرف سنجیدہ مطالعہ ہے۔ David Frost نے دنیائے صحافت کے بہترین انٹرویوز کیے تھے۔ آپ اس کی آواز کا اتار چڑھائو اور مہذب ہونے کا عنصر ملاحظہ فرمائیں۔ آپ اس کی تحقیق اور مطالعہ سے حیران رہ جائینگے۔ وہ اونچی آواز میں کبھی نہیں بولا۔ اس کا لباس اس کی سنجیدگی کے مطابق نظر آتا تھا۔ مگر ہم اپنے ٹی۔ وی ٹاک شوز اور ان کے اینکر پرسنز کے متعلق جتنی کم بات کریں، اتنا ہی بہتر ہے۔

اس جہالت کا شعوری نتیجہ ہیجان اور جذباتیت ہے کیونکہ اسے پیدا کرنے کے لیے صرف غیر سنجیدگی چاہیے مگر میںمایوس نہیں ہوں۔ ہر قوم ایسے مشکل وقت سے گزر کر آگے نکلی ہے۔ میں سیاست پر قطعاً لکھنا نہیں چاہتا حالانکہ میرے خاندان میں تقریباً چالیس سے پینتالیس برس سے صرف الیکشن اور سیاست در سیاست ہے۔ میں سیاست دانوں میں رہتا اور زندگی گزارتا ہوں۔ درون خانہ کئی داستانیں میرے سامنے رو پذیر ہوئی ہیں۔ مگر لکھنے کو جی نہیں کرتا۔ میں اپنے موضوع سے ہٹتا جا رہا ہوں۔

گوجرہ میں گورنمنٹ کالج کے ایک استاد مولوی غلام رسول صاحب تھے۔ بنیادی طور پر وہ اردو کے پروفیسر تھے۔ مگر عربی اور فارسی پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ 1988ء میں میرا ان سے پہلا تعارف ہوا۔ مجھے فارسی اور عربی سیکھنے کا شوق تھا۔ دوسری وجہ یہ کہ نئی نئی اردو غزل کہنا شروع کی تھی۔ میں مولوی صاحب سے اصلاح لیا کرتا تھا۔ مولوی صاحب خود شعر نہیں کہتے تھے یا یوں کہیے کہ بہت کم کہتے تھے مگر ان میں غزل موزوں کرنے کی خداداد صلاحیت موجود تھی۔مولوی غلام رسول اب اس دنیا میں نہیں، خدا انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔

میں گوجرہ اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر دو سال تک رہا۔ اس فیلڈ پوسٹنگ میں میرا اصل موضوع “عام آدمی”  ہی رہا۔ اور یہ موضوع آج بھی قائم ہے۔ میں علم و ادب سے تھوڑا سا ہٹ کر عرض کروں۔ صرف اس لیے، کہ آپ کو اندازہ ہو کہ پرانے افسر کس طرز کے تھے اور ان کی اکثریت کس طرح میرٹ پر چلنے کی بھر پور کوشش کرتی تھی۔ مجھے ایک دن دفتر میں فون آیا کہ وزیر اعلیٰ کے سیکریٹری فرید الدین احمد بات کرینگے۔ مجھے قطعاً اس عہدہ کی اہمیت کا علم نہیں تھا۔ آپریٹر نے فون ملایا۔

فرید صاحب نے میرا نام لے کر انتہائی شائستہ طریقہ سے میرا حال پوچھنا شروع کیا۔ پھر کہنے لگے کہ کل آپ صبح نو بجے لاہور میرے دفتر آ سکتے ہیں۔ مجھے ان کے دفتر کا علم نہیں تھا۔ انھوں نے بڑے تحمل سے 7 کلب روڈ کا راستہ سمجھایا۔ میں اگلے دن نو بجے ان کے دفتر پہنچ گیا۔ مجھے آج تک یاد ہے۔ فرید صاحب نے بغیر بازوئوں کا ایک خوبصورت سویٹر پہنا ہوا تھا۔ مجھے بٹھا کر کہنے لگے کہ ابھی تھوڑی دیر میں ایک وفاقی وزیر آئینگے۔ ان کا ایک ذاتی مسئلہ ہے۔ اور یہ کیس آپ کے والد کی عدالت میں ہے۔ میرے والد اس وقت سیشن جج تھے۔ فرید صاحب کہنے لگے، یہ کام آپ نے سن لینا ہے مگر آپ نے اپنے والد کو سفارش نہیں کرنی۔

میں نے جواباً کہا کہ سر میں اپنے والد کے سامنے کرسی پر بیٹھنے کی جرات نہیں کر سکتا، کام کہنا تو خیر میرے تصور سے ہی باہر ہے۔ اور بطور اسسٹنٹ کمشنر مجھے اپنے والد سے جوتے کھانے کا کوئی شوق نہیں۔ فرید صاحب نے بڑی خوبصورت بات کی۔ کہنے لگے میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ وفاقی وزیر کی بات سن لینا، مگر سفارش ہر گز نہ کرنا۔ اور اگر اس وزیر نے وزیر اعلیٰ کو تمہاری شکایت کی تو میں سنبھال لونگا۔ خیر بالکل ایسے ہی ہوا۔ یہ وہ لوگ تھے جو سول سروس کی پہچان تھے۔ مجھ سے کسی نے بھی بعد میں کچھ نہیں پوچھا۔ فرید صاحب نے وزیر اعلیٰ سے خود بات کر لی تھی۔

اس وقت وزیر اعلیٰ میاں نواز شریف تھے۔ میں اس دور کے نواز شریف کو آج کے وزیر اعظم کے تناظر میں دیکھتا ہوں، تو حیرت ہوتی ہے کہ زمانہ لوگوں کو کس طرح تبدیل کرتا ہے۔ فرید الدین کافی عرصہ وزیر اعلیٰ کے سیکریٹری رہے۔ سیالکوٹ کے ایک ایم۔پی۔اے نے ان سے بد تمیزی کی تو وہ دفتر سے گھر آ گئے۔ نواز شریف کے والد، میاں شریف خود چل کر فرید صاحب کے گھر گئے مگر وہ دوبارہ اپنے دفتر نہیں گئے۔ انکو اپنی عزت اور قدر کا بہت خیال تھا۔ تھوڑے عرصے بعد انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔

آج کی سول سروس میں ایسے لوگ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ آج تو افسر ہر اس سازش میں شریک ہوتے ہیں جن سے ان کے ساتھیوں کو تکلیف پہنچے۔ آپ غور کیجیے۔ آج کے اہم عہدوں پر فائز افسران میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے لوگوں کو بے عزت کرنا اور تکلیف پہنچانا۔ یہ اَمر اب پنجاب سے نکل کر وفاقی حکومت تک پہنچ چکا ہے۔ میری معلومات ہیں کہ وزیر اعظم کو اب اپنے ارد گرد کے افسروں کے منفی رویوں کے متعلق بہت کچھ پتہ چل چکا ہے، مگر وہ کسی مصلحت کی وجہ سے خاموش ہیں۔

خیر بات شعر و ادب سے شروع ہوئی اور سول سرو س کے ریگستان تک پہنچ گئی ہے۔ واپس اپنے موضوع پر آتا ہوں۔ بہاولپور کے کمشنر مرتضیٰ بیگ برلاس تھے۔ یہ1991-92ء کی بات ہے۔ جب میں اس شہر میں سرکاری پوسٹنگ پر پہنچا تو میں انکو بالکل نہیں جانتا تھا۔ میں ان کی شکل تک سے واقف نہیں تھا۔ مجھے یہ بھی علم نہیں تھا کہ وہ ایک سکہ بند شاعر ہیں۔ خیر آہستہ آہستہ جب مجھے برلاس صاحب کی شخصیت کے ادبی پہلوئوں کو جاننے کا موقعہ ملا۔ یہ میرے لیے ایک جہان حیرت تھا۔

میری دانست میں، برلاس صاحب کو سرکار کی نوکری کا سب سے بڑا نقصان یہ پہنچا کہ شعراء نے انکو سرکاری ملازم گردانا اور سرکاری بابوئوں نے انکو صرف شاعر سمجھا۔ خیر، برلاس صاحب، ایک بہترین شاعر تھے۔ مجھے ایسا کوئی مہینہ یاد نہیں جب انھوں نے بہاولپور میں کوئی خوبصورت اور یاد گار مشاعرہ منعقد نہ کروایا ہو۔ وہ دنیا جہان سے شاعروں کو ڈھونڈ نکالتے تھے۔ انکو بہالپور آنے کا زاد راہ مہیا کرتے تھے۔ ان کے رہنے کا انتظام کرتے تھے۔ اور پھر سرکٹ ہائوس میں مشاعروں کی نشست ہوا کرتی تھی۔

انھوں نے پاکستان کے ہر چھوٹے اور بڑے حصے سے نامور اور گمنام، یعنی ہر طرز کے شعراء کو دعوت دی۔ ان کی عزت کی اور ہر خاص و عام کو موقعہ دیا کہ وہ اچھے شاعروں کا کلام سن سکیں۔ ایک بار انھوں نے احمد پور شرقیہ میں ایک بین الاقوامی سطح کا مشاعرہ منعقد کیا۔ دہلی کے مشاعروں کی روایت کے مطابق نواب صلاح الدین سے اس کی صدارت کروائی۔ یہ نشست شام ڈھلے شروع ہو کر صبح تین بجے تک چلتی رہی۔ نواب صاحب اپنے روائتی لباس اور ترکی ٹوپی میں جم کر پوری رات بیٹھے رہے۔ پاکستان کا ہر شاعر تو موجود ہی تھا مگر امریکا، برطانیہ اور مشرق وسطیٰ تک سے مختلف شعراء مدعو کیے گئے تھے۔

ان مشاعروں کے علاوہ ہر ہفتے کوئی نہ کوئی شخصی نشست کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا۔ ایک یا دو شاعروں کو بلا کر سرکٹ ہائوس میں ان سے کلام سننے کے علاوہ ہر صاحب محفل ان سے سوال و جواب کا ایک خوبصورت سلسلہ روا  رکھتا تھا۔ یہ ایک نئی روایت تھی کہ حاضرین مجلس ان بڑے لوگوں سے ذاتی سطح پر گفتگو کریں اور ان سے غیر رسمی جوابات حاصل کریں۔ یہ ایک ایسی خوبصورت روایت تھی جسے برقرار رہنا چاہیے۔ میں نے احمد ندیم قاسمی، امجد اسلام امجد، منیر نیازی، سلیم کوثر، قتیل شفائی، فیضان عارف، نوشی گیلانی اور بے شمار بلند پایہ شعراء اکرام کو ان مشاعروں میں کئی بار سنا۔

ایک دفعہ کمشنر ہائوس میں ہندوستان سے آئے ہوئے ایک مزاحیہ شاعر کو سننے کا موقع ملا۔ میں ان کا نام بھو ل گیا ہوں۔ یقین کیجیے، ایک چھوٹی سے نشست میں مزاح اور قہقہوں کا ایک سیلاب تھا۔ کئی خواتین و حضرات تو ہنستے ہنستے بے حال ہوگئے۔ برلاس صاحب، لاہور میں گارڈن ٹائون میں ایک پانچ مرلے کے مکان میں رہتے ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کو وہ مقام اور قدر و منزلت نہیں ملی جو کہ ان کا جائز حق ہے۔

پتہ نہیں! میں ان لوگوں کے متعلق کیوں لکھ رہا ہوں! ان بڑے لوگوں کو یاد رکھنے کا وقت کسی کے پاس نہیں! یہ زمانے کی گرد میں گم ہو چکے ہیں یا قافلہ زیست میں گردش کا سفر مکمل کر رہے ہیں۔ جب میں اپنے اردگرد کے ماحول سے مایوس ہوتا ہوں، تو ان اور ان جیسے لوگوں کو یاد کرتا ہوں۔ پھر مجھے اپنے اردگرد توازن کا احساس ہوتا ہے۔ مجھے معاشرہ میں زندگی کی رمق بھی محسوس ہوتی ہے! یہ نفیس شخص ہی ہمارے بے ربط معاشرہ کا حسن ہیں۔ مگر یہ نایاب ہیرے اتنے کمیاب کیوں ہیں! یہ صرف گنتی کے افراد کیوں ہیں! ہو سکتا ہے ان کی تعداد بہت زیادہ ہو؟ مگر میری نظر سے تو گزرے ہیں صرف چند اچھے لوگ!

200 ارب ڈالر کس کے ہیں؟

$
0
0

سعودی عرب نے پاکستان کو ’’تحفے‘‘ میں جب صرف ڈیڑھ ارب ڈالر دیے تو نہ صرف ہمارے حکمرانوں کی باچھیں کِھل گئیں بلکہ ڈالر ایک سو سے اوپر سے گر کر سو کے نیچے آ گیا۔ اس اقتصادی معجزے سے اندازہ ہوا کہ ڈیڑھ ارب ڈالر کی کیا اہمیت ہوتی ہے، اگرچہ اس خطیر رقم کا نہ عوام کی غربت پر کچھ اثر پڑا نہ یہ پتہ چلا کہ یہ ڈیڑھ ارب ڈالر کہاں گئے؟ کس طرح استعمال ہوئے؟ کس نے استعمال کیے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ کائنات میں پائے جانے والے بلیک ہول کی طرح جس میں زمین سے بڑے سیارے گم ہو جاتے ہیں سرمایہ دارانہ نظام میں بھی ایک سے ایک بلیک ہول موجود ہیں جن میں اربوں کھربوں ڈالر گم ہو جاتے ہیں۔

ایسا ہی ایک بلیک ہول سوئس بینکوں کا نظام ہے۔ ماضی میں پاکستانی اشرافیہ کے اربوں ڈالر اس بلیک ہول میں گم ہو گئے اور اب تازہ اطلاعات کے مطابق ’’پاکستانیوں‘‘ کے 200 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں موجود ہیں۔ کائنات کے بلیک ہول کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اپنی عمر پوری کرنے والے بڑے بڑے سیارے گم ہو جاتے ہیں اور یہ پتہ نہیں چلتا کہ انھیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا، اس کے برخلاف سرمایہ دارانہ نظام کے بلیک ہول کی خوبی یہ ہے کہ ان میں گم ہونے والے اربوں ڈالر صرف ان عوام کی نظروں سے گم ہو جاتے ہیں جو اس دولت کے اصل مالک ہوتے ہیں اور اس دولت کے غاصبوں کے اختیار میں ہوتے ہیں۔

200 ارب ڈالر کی یہ خبر کوئی ہوائی نہیں ہے بلکہ حکومت نے قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور سرمایہ داروں کے سوئس بینکوں میں جمع 200 ارب ڈالر، جسے واپس لانے کی حکومت کوششیں کر رہی ہے، معلوم ہوا ہے کہ جن ’’اکابرین‘‘ نے 200 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں جمع کر رکھے ہیں ان کے نام اور اکاؤنٹ نمبر حاصل کرنے کی حکومت کوشش کر رہی ہے۔ اس حوالے سے ان قوانین میں ترامیم لانے کے لیے 26 اگست کو مذاکرات ہوں گے جن کے مطابق سوئس بینک ان اربوں ڈالروں کے مالکوں کے نام اور اکاؤنٹ نمبر راز میں رکھنا ان بینکوں کی اخلاقی اور قانونی ذمے داری ہے، جس سے سرمایہ دارانہ اخلاقیات کا اندازہ ہو سکتا ہے۔

ہمارے پارلیمانی سیکریٹری برائے خزانہ رانا افضل خان نے انکشاف فرمایا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک کے 32 ہزار ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ سوئس بینکوں میں بھارتی اشرافیہ کے 1.4 ٹریلین ڈالر جمع ہیں، جنھیں بھارتی حکومت واپس لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ گزشتہ سال تحقیقاتی جرنلسٹس کے عالمی ادارے نے ایسی 10 ہزار کمپنیوں کے اکاؤنٹس کی تفصیل جاری کی تھی جنھوں نے اربوں ڈالر کی ناجائز کمائی سنگاپور اور کرسپیئن جزائر کے سیف بینک میں چھپا رکھے ہیں۔ خود ہمارے ملک کے حوالے سے سوئس بینک کیس اس قدر مقبول ہوا کہ بچہ بچہ سوئس بینک کی کارکردگی سے واقف ہوا اور اس حقیقت سے بھی واقف ہوا کہ ایک وزیر اعظم کی قربانی لے کر ہماری عدلیہ نے دوسرے وزیر اعظم سے سوئس حکومت کو جو ’’تاریخی خط‘‘ لکھوایا تھا وہ بھی اسی بلیک ہول میں گم ہو گیا۔

اس حوالے سے جو سب سے اہم سوال ابھرتے ہیں ان میں پہلا سوال یہ ہے کہ یہ 200 ارب ڈالر اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کی محنت کی کمائی ہیں یا اشرافیہ کی بدعنوانیوں کی کمائی ہے؟ ظاہر ہے ہر ملک کی قومی دولت کے پیدا کنندہ عوام ہی ہوتے ہیں لیکن اس عوامی دولت کو کھلی کرپشن اور منافع جیسے بند کرپشن کے نام پر لٹیرے طبقات ہتھیا لیتے ہیں۔ چونکہ ملکی بینکوں میں ان بھاری رقوم کو رکھنا خطرات کو دعوت دینا ہوتا ہے لہٰذا یہ لٹیرے طبقات اس کمائی کو غیر ملکی بینکوں میں رکھتے ہیں۔

ہماری ترقی یافتہ دنیا غربت کو کم کرنے کے لیے جو عالمی کانفرنسیں کرتی ہے ان پر خرچ کی جانے والی رقوم کو اگر کسی غریب ملک کی غربت دور کرنے پر صرف کیا جائے تو بلاشبہ ایسے غریب ملک کی غربت دور ہو سکتی ہے لیکن چونکہ امیر ملکوں کے حکمرانوں کا مقصد صرف غربت کم کرنے کا پروپیگنڈا کرنا ہوتا ہے اس لیے غربت دور نہیں ہوتی۔

سرمایہ دارانہ نظام کے عیاروں نے اس نظام سے فیضیاب ہونے والوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے جو حفاظتی اقدامات کر رکھے ہیں ان میں سب سے اہم حق ’’لامحدود نجی ملکیت کا حق‘‘ ہے۔ اس حق کو قانونی اور آئینی تحفظ بھی فراہم کیا گیا ہے۔ اس نظام کا دعویٰ تو یہ ہے کہ یہ نظام ہر شخص کو زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے اور لامحدود نجی ملکیت کا حق بھی دیتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ 90 فیصد عوام کے پاس اس کے دو ہاتھ ہی اس کی نجی ملکیت ہوتے ہیں جن کی مشقت سے وہ اتنی دولت پیدا کرتا ہے کہ مٹھی بھر بدعنوان اور کرپٹ لوگ 200 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں اور 200 ارب ڈالر تخلیق کرنے والے دو وقت کی روٹی سے محتاج ہوتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زرعی معیشت سے جڑی 60 فیصد آبادی جو ہاریوں کسانوں پر مشتمل ہوتی ہے کیا وہ سوئس بینکوں میں اپنا سرمایہ رکھنے کے قابل ہوتی ہے؟ وہ کروڑوں مزدور جو ملک کے کارخانوں، ملوں میں کام کرتے ہیں کیا وہ سوئس بینکوں میں اپنی کمائی رکھنے کے قابل ہوتے ہیں؟ مڈل اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے وہ لاکھوں ملازمین اور چھوٹے کاروباری اس قابل ہوتے ہیں کہ اپنا سرمایہ سوئس بینکوں میں رکھیں؟ اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کے پاس اتنا سرمایہ ہوتا ہے کہ وہ سوئس بینکوں میں رکھ سکیں؟

الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں ذہنی مشقت کرنے والے لاکھوں صحافی کیا اس قابل ہوتے ہیں کہ اپنی بچت کو سوئس بینکوں میں رکھ سکیں؟ وکیلوں، ڈاکٹروں کے پاس اتنی رقم ہوتی ہے کہ وہ اسے سوئس بینکوں میں رکھ سکیں؟ ہزاروں اہل فکر اور ایماندار دانشور اتنے مال دار ہوتے ہیں کہ وہ اپنا سرمایہ سوئس بینکوں میں رکھ سکیں؟ معاشرے اور ملک کے ان معماروں کی جسمانی اور ذہنی مشقت سے اربوں کھربوں ڈالر کا جو سرمایہ پیدا ہوتا ہے وہ ان چوروں، ڈاکوؤں، لٹیروں، بدعنوانوں اور کرپٹ عناصر کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے۔

پاکستان کا شمار دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں ہوتا ہے جہاں کی آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے ہے اور اجتماعی خودکشیاں کر کے زندگی کے عذابوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا ایسے غریب ترین ملک کے مٹھی بھر بے ایمانوں، بددیانتوں، ضمیر فروشوں اور قوم و ملک فروشوں کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ لوٹ مار اور بدعنوانیوں کے ذریعے حاصل کیے جانے والے 200 ارب ڈالر کو سوئس بینکوں میں جمع کریں؟ کہا جا رہا ہے کہ یہ دو سو ارب ڈالر تو ایک مٹھی بھر گروہ کا اندوختہ ہیں، اس سے کئی گنا زیادہ رقوم کئی اور بدعنوان طبقات نے غیر ملکی بینکوں میں جمع کر رکھی ہیں۔

خبروں کے مطابق ہماری حکومت ان 200 ارب ڈالر کو واپس لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم نے اپنی انتخابی مہم کے دوران زرداری کے اثاثے باہر سے واپس ملک میں لانے کے وعدے کیے تھے، چھوٹے میاں زرداری کو علی بابا چالیس چور کا خطاب دیتے تھے اور پیپلز پارٹی کے قائدین جواباً میاں برادران کے بھاری اثاثے بیرون ملک سے پاکستان لانے کی باتیں کرتے تھے۔ کیا یہ وعدے پورے ہوئے؟

مجھے یاد ہے ایک عرصے تک بینک کے نادہندگان سے 2 کھرب روپے واپس لینے کا بہت چرچہ رہا ، ہمارے سابق چیف جسٹس تو مُصر تھے کہ وہ ہر قیمت پر بینک نادہندگان سے 2 کھرب روپے واپس لائیں گے۔ کیا یہ خواب پورا ہوا؟ اگر نہیں ہوا تو پھر 200 ارب ڈالر کو واپس لانے کا خواب کیسے پورا ہو گا؟ یہ 200 ارب ڈالر اور ایسی کئی بھاری رقوم جو لٹیروں نے بیرونی ملکوں میں جمع کر رکھی ہیں، اس وقت واپس آئیں گی جب اس ملک کے اٹھارہ کروڑ غریب عوام کو یہ احساس ہو گا کہ یہ 200 ارب ڈالر ان کے ہیں اور اس کے حقیقی مالک وہ ہیں۔

جمہوریت: عوام اور خطرات

$
0
0

11 مئی کو انتخابات ہوئے ایک سال ہو گئے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان نے احتجاجی جلسے کیے جس میں انھوں نے حکومت پر شدید تنقید کی جب کہ حکومتی پارٹی اس موقعہ پر اپنا دفاع کرتی رہی۔ ایک سال گزرنے کے باوجود ان کے پاس ایسا کچھ نہیں تھا کہ وہ عوام کے پاس جاتے۔ انتخابات سے قبل برسراقتدار پارٹی نے جو وعدے کیے عوام ان کے پورا نہ ہونے پر مایوسی کا شکار ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور مہنگی بجلی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ اوپر سے لوڈشیڈنگ کا عذاب ۔ غریب و متوسط طبقے آج بھی سابق صدر پرویز مشرف کے دور کو شدت سے یاد کرتے ہیں کیونکہ ان کے دور میں آج کی نسبت بہت کم مہنگائی تھی۔

بقول عوام کے وہ خوشحال تھے۔ دو وقت کی روٹی کھاتے تھے۔ پیسے بھی ان کے پاس تھے۔ غریب کیا امیر لوگ بھی مشرف کے دور کو یاد کرتے ہیں۔ پراپرٹی کاروبار اپنے عروج پر تھا چاہے اس کی وجوہات کچھ بھی تھیں۔ اس کاروبار سے ہر طبقے کے لوگوں نے فائدہ اٹھائے۔ عوام کا مشرف دور کو شدت سے یاد کرنا حکمرانوں کے لیے تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ جب عوام کے پیٹ خالی ہوں اور وہ شدید قسم کے معاشی مسائل کا شکار ہوں تو نہ انھیں جمہوریت سے سروکار ہوتا ہے نہ آزاد عدلیہ، نہ آزاد میڈیا سے کیونکہ ان اداروں کے نام پر حکمران گروہ اپنے مفادات کا تحفظ کر رہے ہوتے ہیں اور جب حقائق سامنے آتے ہیں تو وقت گزر چکا ہوتا ہے۔

مشرف کے خلاف جو تحریک چلی‘ اس میں سی آئی اے کے کردار سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مرحوم پیر پگاڑا نے پیش گوئی بھی کی تھی۔ مشرف حکومت کے خاتمے میں تین سے چار افراد شامل تھے۔ آنے والا وقت ان چہروں سے نقاب اتار دے گا۔ ہم جیسے ملکوں میں تبدیلیاں خود بخود نہیں آ جاتیں نہ اچانک آتی ہیں۔ خاص طور پر پاکستان جیسے ملک کا محل وقوع جس میں تبدیلی کے نتیجے میں برصغیر سے لے کر مشرق وسطیٰ تک متاثر ہو رہا ہو۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر پاکستان میں پتہ نہیں ہلتا۔ باقی معاملات میں انھوں نے مقامی حکمرانوں کو کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے۔ اب آپ مصر کو دیکھ لیں کہ مصر میں اخوان المسلمون کے ذریعے تبدیلی لائی گئی۔

مصر میں تبدیلی کا اثر پورے مشرق وسطیٰ پر پڑا اور اس حد تک پڑا کہ عرب بادشاہتوں کو اپنا وجود خطرے میں نظر آنے لگا۔ اخوان المسلمون سے بھی بعض غلطیاں ہوئیں لیکن اسی مرحلے پر مصری فوج نے اقتدار سنبھال لیا۔ اب مغربی مفادات کا تحفظ مشرق وسطیٰ میں جنرل السیسی کریں گے۔ جو ’’جنرل ضیاء الحق کی طرح پنج وقتہ نمازی اور پرہیزگار ہیں۔‘‘ اس کے لیے عرب بادشاہتوں نے السیسی آمریت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے اربوں ڈالر کی بارش کر دی۔ کیونکہ السیسی کی مضبوطی میں عرب بادشاہتوں کی مضبوطی شامل ہے۔ اس ضمن میں اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا گیا۔ سیکڑوں سال سے بادشاہتیں آمریتیں ہمارے خون میں رچی بسی ہوئی ہیں۔ چنانچہ مشرف کے ڈکٹیٹر ہونے کے باوجود عوام آج بھی اسے یاد کرتے ہیں۔

پاکستان کی تاریخ اور آج کے زمینی حقائق تو یہی کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے کوئی تبدیلی آئی تو عوام اسے پھر خوش آمدید کہیں گے۔ کیونکہ جمہوریت کے نام پرجمہور کا اقتدار کہیں نظر نہیں آتا اور آخر کار خاندانی بادشاہتیں قائم ہو جاتی ہیں۔ جس میں اقتدار خاندان، برادری اور دوستوں میں مرکوز ہو جاتا ہے۔ بے روزگاری اور غربت اپنے عروج پر ہے۔ بجلی کی قیمت دوگنی ہوگئی ہے۔ آٹا غریب عوام کی پہنچ سے باہر ہو گیا ہے اور عوام مہنگائی کے سیلاب میں غرق ہو رہے ہیں۔

سابق چیف جسٹس کی بحالی کے لیے یہ دلیل دی جاتی تھی کہ ان کی بحالی کے بعد گوالا دودھ میں پانی نہیں ملائے گا جب کہ آج یہ صورتحال ہے کہ ماتحت عدالتوں میں کرپشن اپنے عروج پر ہے۔ عدالتی اخراجات نے غریب لوگوں کے گھر بار زیور، مویشی تک بکوا دیے ہیں۔ مجھے جیل سے سزائے موت کے قیدیوں کے اکثر ٹیلیفون آتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ ان میں اکثر بے گناہ ہیں جنھیں ان کے طاقتور دشمنوں نے پولیس کے نظام میں رائج خامیوں کی مدد سے سزائے موت دلوا دی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جیلوں میں قید 75 فیصد سزائے موت کے قیدی بے گناہ ہیں جنھیں ناجائز طور پر ان مقدمات میں پھنسا دیا گیا ہے۔ غربت اور اعلیٰ حکام تک رسائی نہ رکھنا ان کا جرم بنا دیا گیا ہے۔ پولیس اور ماتحت عدلیہ ان غریبوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے ہر شخص کو اس کا علم ہے۔ ان حالات میں ڈاکٹر طاہر القادری نظام کی تبدیلی کا خاکہ پیش کرتے ہوئے جب یہ اعلان کرتے ہیں کہ تمام عدالتوں میں غریبوں کے لیے مفت سرکاری وکیل ہوں گے۔ فوجداری مقدمہ فوری درج ہو گا اور 3 دن کے اندر چالان مکمل کرنے کے بعد ایک ماہ میں فیصلہ اور تین ماہ میں اپیلیں مکمل سن کر حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔

بے گھروں کو مفت گھر بیروزگاروں کو روزگار۔ میٹرک تک مفت تعلیم اور بے زمین کاشتکاروں کو سرکاری اراضی دیں گے تو کیوں نہ غریب عوام ان کی طرف کھنچے چلے جائیں۔ اب آپ لاکھ دہائی دیں کہ جمہوریت خطرے میں ہے‘ وہ آپ کی آواز پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسی جمہوریت سے باز آئے جس سے ٹوٹے کان۔ جمہوریت نے کون سی ان کی زندگی آسان بنائی ہے۔ ہر نیا آنے والا دن بڑھتی ہوئی مہنگائی کی شکل میں ان کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہو رہا ہے۔ جمہوریت کے ٹھیکیداروں اور ان کے ہمنوائوں کی جمہوریت سے کتنی وابستگی ہے، اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ حکمرانوں نے پچھلے6 سال میں بلدیاتی انتخابات ہی نہیں ہونے دیے۔ آج بھی ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔

مجھے تو اس دفعہ خطرہ اس بات کا ہے کہ مصر میں آمریت مستحکم ہونے کی صورت میں اگر پاکستان میں جمہوریت کا بوریا بستر لپیٹا گیا تو یہ طویل مدت تک بحال نہ ہو سکے گی۔

…جون جولائی میں پاک فوج کے حوالے سے طاقتور وقت کا آغاز ہو جائے گا۔

سیل فون:… 0346-4527997

چترال چلیں

$
0
0

جس طرح ایک عرب شاعر نے کہا تھا کہ: ’’جب زمان حال کے حقائق میرے پیروں میں کانٹوں کی طرح چبھنے لگتے ہیں تب میرا دل مجھے کہتا ہے کہ ماضی کے ان راستوں پر نکل جائوں جہاں محبت کی مہک اور حسن کی ٹھنڈی چھائوں ہمیشہ چھائی رہتی ہے‘‘۔

بہت آسان ہے کہ بھارت میں آنے والی اس تبدیلی کے بارے میں لکھا جائے جو صرف ہمارے ہی نہیں بلکہ بھارتی میڈیا کا بھی سب سے بڑا موضوع بنا ہوا ہے۔ میرے دل میں اس حوالے سے یہ خواہش شدت کے ساتھ مچل رہی ہے کہ میں اس بھارت کے بارے میں لکھوں جو وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ ایک ایسے گلیشیئر کی طرح پگھل رہا ہے جس کا وجود شاید کچھ وقت کے بعد ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوجائے۔

میں سمجھتا ہوں کہ سیاست میں سرمائے کی مداخلت سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں بہت زیادہ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں جس طرح بی جے پی نے تاریخی کامیابی حاصل کی ہے، اس فتح سے کہیں زیادہ اہم ہے اس کانگریس کی شکست جس کی لیڈر شپ نے گزشتہ صدی کے دوراں ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھا تھا جو معاشرہ مثالی ہو۔ مگر کہاں ہے وہ خواب؟ اس خواب کے سینے میں نتھورام گاڈسی کی گولی پیوست ہوگئی۔ اس خواب کی خاک نہرو کے جلے ہوئے جسم کی طرح اب بکھر چکی ہے اور کوئی کچھ بھی کرے مگر دنیا کی کوئی بھی طاقت گزرے ہوئے وقت کو واپس نہیں لاسکتی۔ مرزا غالب نے کہا تھا کہ:

مہرباں ہوکے مجھے چاہو بلالو جس وقت

میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آنہ سکوں

اب تو وہ سارے انقلابی اور آدرشی لوگ جو کبھی بھارت کی پہچان تھے، ماضی کی ایک اداس یاد بن گئے ہیں۔ بی جے پی کی فتح پر جشن منانے والے بھارت میں اگر کسی خبر کو اہمیت مل رہی ہے تو وہ بالی ووڈ کے ان اداکاروں کی خبر ہے جو ’’مودی فائیڈ‘‘ بن گئے ہیں۔ اب وہ بھارت اپنا توازن کیسے قائم رکھ پائے گا جو پہلے سے ڈگمگا رہا تھا۔ وہ بھارت جس کے نظریاتی باپو گاندھی نے لکھا تھا کہ ’’کسی بھی معاشرے میں تہذیب کا پیمانہ اس صورتحال سے ناپا جائے جو صورتحال مذکورہ معاشرے میں اقلیت کی ہوا کرتی ہے‘‘۔ آج ایک طرف بھارت کی ہندو اکثریت جشن منا رہی ہے اور دوسری طرف بھارت کی ایک بڑی اقلیت مسلمانوں کی صورت سہمی دکھائی دے رہی ہے اور گاندھی کا فلسفہ اس دوا کی طرح نظر آرہا ہے جس کے استعمال کی مدت ختم ہوجائے۔

کل گاندھی نے اپنی جیون کتھا پر ’’سچ کی تلاش‘‘ کے الفاظ لکھے تھے لیکن آج اگر گاندھی نیا جنم لے کر آئے تو اسے اپنی دوسری سرگزشت کا عنوان ’’بھارت کی تلاش‘‘ ہی لکھنا پڑے گا۔ مگر یہ باتیں ہمیں مایوس کرتی ہیں۔ ان باتوں پر سوچ کر دل اداس ہوجاتا ہے۔ کیا ہمارے گرد مایوسیوں کے سائے کم ہیں کہ ہم مزید مایوسیاں برآمد بھی کریں۔ ہمیں امپورٹیڈ اداسیوں سے بچنا چاہیے۔

یہ سوچ کر جب اخبارات میں موضوعات تلاش کرنے بیٹھا تب ’’ایکسپریس ٹریبیون‘‘ میں شایع ہونے والی ایک خبر نے میری ساری مایوسی ختم کردی۔ وہ خبر تھی چترال میں بہار کی آمد پر منائے جانے والے اس روایتی جشن کی خبر، جس کو دیکھنے سے تو ہم محروم رہے مگر تصورات کی آنکھیں اس وقت بھی کاغذ کی اسکرین پر ابھرتے ہوئے وہ مناظر دیکھ رہی ہیں جس میں حسین وادی کے پس منظر میں کیلاش قبائل کے روایتی لباس پہننے والی لڑکیاں اپنے سروں پر تاج سجا کر اور ہاتھوں میں اخروٹ کی شاخیں لہرا کر بہار کی آمد کا استقبال کر رہی ہیں۔

ہمیں جدید ٹیکنالوجی نے موسموں سے محروم کردیا ہے۔ اب ہم موسم کے تبدیل ہونے کا اندازہ شاخوں سے گرتے ہوئے پتوں اور شاخوں پر کھلتے ہوئے پھولوں سے نہیں بلکہ ایئرکنڈیشنر کے چلنے اور نہ چلنے کے حوالے سے کرتے ہیں۔ یہ روش ہماری زندگیوں پر جسمانی اور روحانی طور پر کس قدر اثرانداز ہوتی ہے؟ اس سوال کی گہرائی میں جانے کے بجائے میں آپ کا ذہن فرانس کے اس عظیم مفکر کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں جس نے ’’انقلاب فرانس‘‘ کی ناکامی کے بعد دل شکستہ ہونے والے فرانسیسی ادیبوں اور دانشوروں کو صدا دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’Back to nature‘‘ یعنی فطرت کی طرف واپس آئو۔

ابن انشا صرف ایک رومانوی شاعر نہیں بلکہ ایک بہترین نثر نگار بھی تھے۔ ان کے ایک سفرنامے کا عنوان ہے ’’چلتے ہو تو چین کو چلیے‘‘ مگر اب تو مائوزے تنگ کا ملک بھی معاشی ترقی کی راہ پر اس منزل سے دور ہوتا جا رہا ہے جو منزل ’’سرخ کتابوں‘‘ میں تحریر کی گئی تھی۔ اس لیے میں آپ کو چین چلنے کی دعوت دینے کے بجائے اپنے ملک کی حسین اور فطرت کی دولت سے مالا مال وادی چترال چلنے کی گزارش کرتے ہوئے صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ اگر موسموں کا حسن دیکھنا ہو اور حسین موسموں کا ہاتھ پکڑ کر چلنے والے انسانوں کا پرامن اور خوبصورت مزاج دیکھنا ہو تو اس چترال کی جانب چلیں جو دہشتگردی کے اس دن بدن بڑھتے ہوئے دوزخ میں ایک ایسی جنت کی طرح ہے، جہاں سے آپ کو کوئی نہیں نکال سکتا۔

وہ چترال جو بدامنی کے سائے میں رہتا ہے مگر اس نے اپنی وہ سادگی نہیں فراموش کی، جو اس کی پہچان ہے۔ وہ لوگ جو آج بھی فطرت کے ساتھ ایک خوبصورت توازن قائم کیے بیٹھے ہیں۔ وہ لوگ جو اس دور میں بھی اچھائی کی راہ سے نہیں بھٹکے۔ وہ لوگ جو آج بھی اپنی تاریخی روایات کے امین ہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ رہنے کا لطف تو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا مگر ان کو دیکھ کر جو مسرت محسوس ہوتی ہے وہ بھی ناقابل بیان ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں جو بھی حسین ہوتا ہے اسے اپنی خوبصورتی پر ایک فطری غرور سا محسوس ہوتا ہے مگر یہ صرف چترالی لوگ ہیں، جو خوبصورت ہونے کے باوجود بہت سادہ اور معصوم ہیں۔

ایسے معصوم حسن کے جلوے ہمارے ملک میں آج بھی موجود ہیں مگر ہم انھیں میڈیا کی مرکزی خبر بنانے کے بجائے وہ پہلو تلاش کرتے ہیں جو ہمارے لیے بین الاقوامی بدنامی کا باعث بنتے جا رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنے ملک کی سیاسی بے یقینی، معاشی بحرانوں میں گھری ہوئی زندگی کو موضوع بنانے کے بجائے اپنے ان پردہ دار اور پاکیزہ موضوعات کی تلاش کرنی چاہیے جن میں ایک موضوع وہ چترال بھی ہے جو موجودہ دور میں بھی چالاکی، مکاری اور عیاری سے بہت دور ہے۔

وہ چترال ہمیں ہوائوں میں لچکتی ہوئی ڈالیوں کے ہاتھوں سے اپنے طرف بلاتا رہتا ہے اور اس کے حسین مناظر ہمیں دعوت دیتے ہیں کہ ہم آئیں اور یہاں آکر اپنے زندگی کے دکھوں کو بھول جائیں۔ وہ چترال ہمیں اس حوالے سے بھی بہت عزیز ہونا چاہیے کہ وہ مقام صرف حسن کے سلسلے میں نہیں بلکہ تاریخ کے اس بچھڑے ہوئے قافلے کی یاد بھی دلاتا ہے جسے ہم نے فراموش کردیا مگر وہ موسموں، گلوں اور برفاب پہاڑوں کی چوٹیوں سے ہمیں اب بھی یاد دلاتا ہے کہ ہم نے اپنی ترقی کا رخ ٹھیک سے طے نہیں کیا۔ اگر ہم فطرت کے ساتھ سمجھوتہ کرلیتے اور موسموں کے ساتھ چلنا سیکھ جاتے تو آج ہمارا قومی امیج وہ نہ ہوتا جو ہے۔

مگر ہماری قومی زبان میں کہتا ہے کہ ’’صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹ آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے‘‘ کہ عجیب صبح کو ہم بھی اپنا راستہ بھول بیٹھے مگر بھنبھور کی شام ہمیں فطرت کے گھر کی طرف ایک محبت کرنے والی ماں کی طرح بلارہی ہے۔ ہمیں اس صدا پر اپنا راستہ تبدیل کرنا چاہیے۔

انتخابی معاملات

$
0
0

آپ کے گھر کے آس پاس مٹھائی کی کتنی دکانیں ہیں؟ پرانی کتنی ہیں اور نئی کتنی کھلی ہیں؟ کراچی کے حوالے سے تجربہ ہے کہ جب بھی مٹھائی کی دکانیں ایک ساتھ کھلتی ہیں تو ایک چل جاتی ہے اور دوسری بند ہوجاتی ہے۔ برنس روڈ، حسین آباد اور عید گاہ کے حوالے سے بے شمار لوگ چشم دید گواہ ہوںگے۔ ان بند دکانوں کو کسی اور نے خریدا اور بعد میں جوتے، حلیم اور فرنیچر کی دکانیں کھل گئیں۔ کیا کسی ناکام دکاندار نے کامیاب پر حملہ کیا؟ اس کی دکان بند کروانے کے لیے غنڈے بھیجے؟ چمکتی دمکتی دکان کے گاہکوں پر فائرنگ کروائی؟ سب نے اسے قدرت کا فیصلہ یا اپنی تدبیر کی خامی سمجھ کر قبول کرلیا۔ کیا ہمارے ملک کے سیاست دان دکانداروں سے کچھ سبق حاصل کریںگے کہ کوئی دھاندلی نہ کرے۔

ایک موکل اپنے ہی کاروبار کی دوسری دکان لے رہے تھے۔ وہ پوچھ رہے تھے کہ نئی دکان کس کے نام لینی چاہیے؟ جس سے خرید رہے ہیں اسے پے منٹ کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ قانونی سوالات کے بعد ایک وکیل کی کاروباری جوابات کی حد ختم ہوگئی۔ ان سے کہا کہ آپ چالیس برسوں سے اس مارکیٹ میں ہیں۔ اپنے ہی کسی دکاندار ساتھی سے مشورہ کرلیں۔ ان کا جواب تھا کہ ہماری پیشہ ورانہ رقابت ہوتی ہے، ممکن ہے کوئی مناسب مشورہ نہ ملے۔ کاروباری شخص نے کہاکہ جب کوئی گاہک مارکیٹ میں فریج، ٹی وی یا جنریٹر لینے آتا ہے تو تمام دکانداروں کی اس پر نظر ہوتی ہے۔ ایک جیسا مال اور تقریباً ایک جیسی قیمت ہوتی ہے، گاہک سے محروم رہ جانے والے دکاندار افسوس کرتے ہیں۔ یہاں سے حسد کی آگ جنم لیتی ہے، کیا محسوس کیا آپ نے؟ اس جلا دینے والی آتش کے باوجود کوئی دکاندار کسی کے خلاف ناجائز حربہ استعمال نہیں کرتا۔ کوئی انجینئرڈ ٹیکنیک استعمال نہیں کرتا۔

ڈاکٹروں اور وکیلوں کی صورت حال مختلف ہوتی ہے، کسی ایک بلڈنگ میں درجنوں وکلا ہوں لیکن موکل اس کے دفتر میں جاتا ہے جو پہلے سے وہ سوچ کر آتا ہے۔ یہی صورت حال ڈاکٹروں کی ہوتی ہے۔ کان کا مریض آنکھوں کے اسپیشلسٹ کے پاس نہیں جائے گا۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ تمام پروفیشنلز فرشتے ہوتے ہیں۔ بے شک پیشہ ورانہ رقابت ہوتی ہے لیکن وہ حدود کے دائرے میں رہتی ہے۔ کسی اور وکیل یا ڈاکٹر کے بارے میں کوئی موکل یا مریض رائے پوچھے تو اچھے لوگ منفی رائے دینے سے گریز کرتے ہیں۔ کوئی کمپیوٹرائزڈ حربہ استعمال نہیں کرتا۔

ملکہ برطانیہ کو ایک بیکری کے بسکٹ پسند آئے۔ انھوں نے شاہی محل کے لیے اس دکان کو چن لیا۔ یہ اس بیکری والے کے لیے اعزاز کی بات تھی۔ اس نے اپنی دکان کے باہر بورڈ لگایا کہ ’’برمنگھم پیلس میں بسکٹ و کیک ہماری بیکری سے جاتے ہیں ’’یہ بات یقیناً قریب کے انڈے ڈبل روٹی والے کے لیے ناپسندیدہ تھی۔ اس نے کیا کیا؟ اس نے بھی ایک بورڈ لگوایا ’’خدائے تعالیٰ شاہی خاندان کی صحت کو اپنے حفظ و امان میں رکھے‘‘ یہ دانش مندانہ تحریر طنز سے بھرپور تھی۔ جو یقیناً پیچھے رہ جانے پر غم و غصے کا اظہار تھی لیکن اس میں تہذیب و شائستگی نظر آتی ہے۔

کالم کا عنوان ہے ’’انتخابی معاملات‘‘ لیکن ہم مٹھائی والوں، ڈاکٹروں، وکیلوں اور لندن کے بیکری والوں کی پیشہ ورانہ رقابت کو لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ ہم لمحہ بہ لمحہ اپنے مقصد کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں 70 کے علاوہ کوئی انتخاب آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہوئے۔ پچاس کے عشرے میں ’’جھرلو‘‘ کی اصطلاح ایجاد ہوئی تو 77 میں دھاندلی، نوے کے عشرے میں انجینئرڈ اور کمپیوٹرائزڈ تو نئی صدی کے انتخابات میں ٹھپے اور پنکچر لگانے جیسی بات کہی گئی ہے۔ انتخابی نظام کی خرابی پر کئی کتابیں تحریر کی جاسکتی ہیں لیکن اصل بات کچھ اور ہے۔

کیا الیکشن کمشنر طاقت ور ہو تو پاکستان میں دھاندلی نہیں ہوگی؟ ریٹرننگ افسران ایماندار ہوں تو آنکھوں میں دھول نہ جھونکی جائے گی؟ پریذائیڈنگ افسران اور عملہ تربیت یافتہ ہو تو ٹھپے نہیں لگیںگے؟ میڈیا اور کارکنان اگر پولنگ اسٹیشن پر موجود ہوں تو پنکچر نہیں لگیںگے؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ پورا کھیل آٹھ آدمیوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اگر یہ آٹھ آدمی فیصلہ کریں تو کتنا بھی کمزور انتخابی نظام ہو، کسی کو کوئی شکایت نہیں ہوگی۔ ان آٹھ آدمیوں میں سے اکثریت کرتی کیا ہے؟ پہلے یہ لطیفہ سنیے پھر ان کی بات کرتے ہیں۔

ایک دکاندار کا بیٹا اپنے پڑوسی دکاندار کی بوری سے مال نکال کر اپنے باپ کی بوری میں ڈال رہا تھا۔ نقصان اٹھانے والا کہتا ہے کہ اپنے بیٹے کو سمجھائو، فائدہ اٹھانے والا کہتا ہے کہ یہ لڑکا پاگل ہے۔ دوسرا جواب دیتا ہے کہ پھر تمہاری بوری خالی کرکے میری بوری کیوں نہیں بھر رہا؟ پہلا دکاندار جواب دیتا ہے کہ اتنا بھی پاگل نہیں ہے۔ ان آٹھ آدمیوں کی اکثریت انتخابات والے مہینے میں خصوصاً اس اہم دن اپنے امیدواروں اور کارکنوں کو روک دے کہ دوسرے کی بوری سے مال نہیں نکالنا تو مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔

مسلم لیگ ن کی قیادت،پیپلز پارٹی کی قیادت، عمران خان، الطاف حسین، سراج الحق، مولانا فضل الرحمن، چوہدری شجاعت اور اسفندیار، اگر طے کریں کہ ہم عوام کا فیصلہ قبول کریںگے اور الیکشن والے دن ہماری جانب سے کوئی قابل اعتراض حرکت نہ ہوگی۔ اگر یہ آٹھ سیاسی رہنما طے کریں تو نہ کسی قانون سازی کی ضرورت ہے، نہ انمٹ سیاسی کی اور نہ تربیت یافتہ عملے کی۔ اگر کوئی دکان خالی ہو تو کسی کو حق نہیں کہ سامان چرائے۔ 70 میں مشرقی پاکستان بھی ہمارے ساتھ تھا۔ فون اور گاڑیوں کی سہولتیں آج کی سی نہ تھیں۔ اس کے باوجود منصفانہ انتخابات ہوگئے۔ معاشرہ ایماندار ہو تو چوکیداروں کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

سیاست دانوں کو بار بار دکانداروں کی مثالیں کیوں دی گئی ہیں؟ اس لیے کہ تاجروں کا مقصد زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہوتا ہے۔ جب وہ اپنے حریف سے اکثر فیئر گیم کھیلتے ہیں تو ہمارے آٹھ سیاست دان کیوں اس نکتے پر اکٹھے نہیں ہوجاتے۔ بھٹو جیسے مقبول رہنما کی حکومت اور جان دھاندلی کے الزام کی بدولت گئی۔ ہمارے سیاست دان طے کریں کہ اگر پاکستان کا بالغ انسان کہے گا تو ہم ایوان میں جائیںگے ورنہ خاندان میں واپس چلے جائیںگے۔ یاد رکھیے اگر یہ نہ ہوا تو معاملات زیادہ خراب ہوسکتے ہیں۔ دنیا بھر کے لوگوں اور قوانین میں خامیاں ہوں گی لیکن وہاں کے سیاست دانوں نے طے کیا ہے کہ ہم فیئر پلے کھیلیں گے۔ یہ طے نہ کرنے پر ’’آپریشن فیئر پلے‘‘ کا خطرہ رہتا ہی ہے۔ کیا یہ آٹھ سیاست دان درست کریںگے انتخابی معاملات؟


لگام کی ضرورت ہے…

$
0
0

جواد جی… آپ نے فیس بک پر لکھا ہے کہ ٹیلی وژن کے خبروں کے نجی چینلز پر پابندی لگا دینی چاہیے جو کہ عوام کے ذہنوں میں اشتعال، انتشار اور بے حیائی پھیلا رہے ہیں! آپ کی بات سے مکمل تو نہیں مگر قدرے اتفاق کیا جا سکتا ہے، آ پ کے اسی اسٹیٹس پر کسی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے آپ کے اسٹیٹس سے متاثر ہو کر سرکاری چینل لگا لیا… ان کی تو تین چوتھائی ذہنی پریشانیاں رفع ہو گئیں۔

انھیں سرکاری ٹیلی وژن دیکھ کر علم ہوا کہ اس روز ملک میں کوئی قتل ہوا تھا نہ ہنگامہ، نہ کہیں سی این جی کے لیے طویل قطاریں لگی تھیں نہ کسی نے اس پر کوئی احتجاج کیا تھا، نہ کوئی جلسہ ہوا تھا نہ دھرنا، نہ کوئی دھماکہ نہ فائرنگ اور نہ ہی کوئی اور واردات… حوا کی بیٹی کا کہیں اغوا ہوا تھا نہ کسی نے اس کے چہرے پر ذرا سی غلطی پر تیزاب پھینکا تھا، کہیں رشتے کے تنازعے پر کسی کی بچی کو گولیوں سے بھونا گیا تھا نہ کسی کی غلطی پر اس پر پنجائت میں کتے چھوڑے گئے تھے…

راوی چین لکھ رہا تھا اور نیرو بنسی بجا رہا تھا، جانے آپ میں سے کبھی کسی نے سرکاری ٹیلی وژن دیکھا کہ نہیں، مگر یقین کریں کہ اس پر ماجرا کچھ ایسا ہی ہے۔ ہم جو کہتے ہیں نا کہ اتنے سال پہلے امن تھا، اتنی بے حیائی نہ تھی، اتنی وراداتیں نہ تھیں… اصل میں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ تو تھا مگر ایسے بے لگام اور شتر بے مہارچینل نہ تھے، جن کا کوئی ضابطہء اخلاق ہے نہ ان میںکام کرنے والے لوگوں میں شعور کہ ان کو دیکھنے والا طبقہ کون ہے اور نہ صرف ملک بلکہ دنیا بھر میں ان پر پاکستان کا ایک منفی تاثر بنتا ہے۔

ٹیلی وژن شام کو شروع ہو کر رات دس یا گیارہ بجے تک ختم ہو جاتا تھا، اس پر بصیرت سے شروع ہو کر فرمان الہی تک ہر پروگرام کا ایک وقت مقرر تھا، بچوں ، بڑوں، بزرگوں ، نوجوانوں کے لیے اس چھ گھنٹے پر محیط نشریات میں اسلامی پروگرام، خبریں ( اردو اور انگریزی) ، ڈرامے، موسیقی ، حالات حاضرہ پر پروگرام، مزاحیہ پروگرام، سائنسی اور معلوماتی پروگرام اور ایک انگریزی کا پروگرام بھی ضرور ہوتا تھا۔ یہ وہ دور ہے کہ جب پاکستان ٹیلی وژن نے اپنی تاریخ کے بہترین ڈرامے دیے ہیں۔ خبریں پڑھنے والے تحمل سے اور لہجے کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ جب خبر پڑھتے تھے تو سننے والوں کو بھی بھلا لگتا تھا۔ہم نے سوائے چند اہم دنوں کے کبھی ٹیلی وژن پر کسی حکمران کی تصویر نہ دیکھی، باقی لیڈر تو کسی گنتی کھاتے میں ہی نہ ہوتے تھے۔

کیا اس دور میں آپ میں سے کسی نے سنا کہ کس فوجی افسرکا کہاں تبادلہ ہوا ہے؟ چیف آف آرمی اسٹاف یا کسی اور سینئیر افسر کو کبھی کسی نے ٹیلی وژن پر دیکھا ؟ فوج سے متعلق خبریں انتہائی رازداری کے زمرے میں آتی تھیں، اداروں کی عزت اور وقار کا خیال رکھا جاتا تھا، مگر اب… خبریں پڑھنے والے ہانپ رہے ہوتے ہیں، کانپ رہے ہوتے ہیں، جوش جذبات اور ’’ بریکنگ نیوز‘‘ کو زیادہ سنسنی خیز بنانے کے لیے… خبریں پڑھنے والے کم اور ڈرامائی تاثرات پیش کرنے والے زیادہ بیٹھے ہیں۔

ہر چینل ایک ایک پارٹی کے لیڈر کو پکڑ کر اینکر نامی ایک مداری کے ہاتھ میں ان کی رسیاں پکڑا دیتا ہے جو ان رسیوں کو کھینچتا، ڈھیلا چھوڑتا اور کسی کسی مقام پر کاٹ بھی دیتا ہے… بندروں کی طرح اچھل اچھل کر، مرغوں کی طرح چونچیں لڑاتے ہوئے یہ لیڈر کسی طور نہ مہذب لگتے ہیں نہ ہی اپنے نمایندے۔ ہم پچھتا پچھتا کر تھگ گئے ہیں کہ ہم کن لوگوں کو لیڈر سمجھتے ہیں، کیسے نا اہل لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں…

یہ تو ان تمام چینلز کی کمائی کا ذریعہ ہے اور بلا شبہ تمام نہیں تو زیادہ تر چینل کسی نہ کسی خاص پارٹی، شخص، ملک، ایجنسی، ملک دشمن طاقت، حکومت، اپوزیشن، کسی ایجنڈے کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں اوران پر بولنے والی زبانیں … ان بکے ہوؤں کی ہیں جو جانتے ہوئے بھی اس ملک کی جڑیں کاٹنے والوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ حکومت ’’بے چاری ‘‘ کبھی کسی کی زبان بند کرواتی ہے اور کبھی کسی کی، ایک کی زبان بند کروانے کے لیے دوسرے کے منہ میں ’’ چارہ ‘‘ ڈالتی ہے تو کوئی اور اسے دیکھ کر منہ کھول لیتاہے ، اس کھیل سے تو اب حکومت بھی تھک گئی ہو گی… اصل میں یہی کھیل ہر حکومت کھیلتی چلی آ رہی ہے، کوئی دو فریقین بنا لیے جاتے ہیں، ایک ادارہ… بمقابلہ ایک اہم شخص!!! ہم کھیل دیکھتے اور خوف زدہ ہوتے رہتے ہیں ۔

بہت سنجیدگی سے کہہ رہی ہوں جواد جی… واقعی کڑی لگام ڈالنے کی ضرورت ہے!!! اشتعال اور انتشار ایک چیز ہے، اس سے کہیں دور رس فرائض ہمارا میڈیا انجام دے رہا ہے۔ بے حیائی کے خلاف بھی ہم اپنے گھروں میں بچوں کو کچھ نہ کچھ سمجھا لیتے ہیں، اس سے کہیں بڑھ کر یہ میڈیا جو کام کر رہا ہے وہ پورے معاشرے کی اقدار کے بگاڑ کا ہے۔ مذہب… اخلاقی اقدار اور سیاست ایک معاشرے کے اہم ترین ستون ہوتے ہیں۔ہمارے ملک کے اس دور کے میڈیا نے ان تینوں کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں، ہمیں اپنے ڈراموں اور صبح کے شوز دیکھ کر علم ہی نہیں ہوتا کہ کس قسم کا لباس ہمارے مذہب کے ضابطہء اخلاق کے مطابق ہے، کوئی بھی یہ پروگرم دیکھ کر نہیں کہہ سکتا کہ ہمارے پروگرام ہمارے مذہب کی عکاسی کرتے ہیں۔

اخلاقی اقدار… ان کا تو دیوالیہ کر دیا گیا ہے، ہمارے ہاں ہر چینل تھوک کے حساب سے ڈرامے بنا اور دکھا رہا ہے، ہم میں سے کوئی بھی کرن کہانی، تیسرا کنارا، شہ زوری، وارث، جھوک سیال، انکل عرفی اور ایسے درجنوں ڈراموں کو کبھی بھول نہیں سکتا، ان میں سادگی، بے ساختگی، ہلکا پھلکا مزاح۔ چھوٹے چھوٹے مسائل کو سہل انداز میں ان کے حل کے ساتھ پیش کر کے اپنے ناظرین کے دماغوں کو گرفت میں لے لیا جاتا تھا، بھولا جا سکتا ہے کہ کس طرح ’’ وارث ‘‘ ڈرامے کے لیے سر شام بازار بند ہو جاتے تھے۔اچھوتے موضوعات پر پیش کی جانے والی ٹیلی فلمز… یہ سب ماضی ہوا مگر ان کا تاثر ہمیشہ قائم رہنے والاہے۔

رہی بات سیاست کی… سیاست تو اب رہ ہی فقط ٹیلی وژن پر گئی ہے، ’’ نامور‘‘ سیاسی لیڈر، اب یا تو ٹیلی فون کے ذریعے خطاب کرتے ہیں کہ ان کے ٹھکانے سرحدوں کے پار ہیں، اور پھر ہر ٹیلی وژن چینل کو یہ ٹیلی فونک خطاب براہ راست دکھانا ہوتا ہے کیونکہ اسی میں ان کی بقا کا راز ہے۔ کوئی ٹیلی وژن کو اس لیے استعمال کرتا ہے کہ لوگوں کو ان مقصد کے لیے گھروں سے باہر نکال کر سڑکوں پر لے آیا جائے جو مقاصد ان کے اپنے اذہان میں بھی واضع نہیں، بعد ازاں ان مقاصد کی کوئی نہ کوئی ’’ڈیل ‘‘ ہو جاتی ہے۔ کوئی تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہوئے دیوانہ وار یوں بولتا ہے کہ اسے چھوٹے بڑے کی تمیز رہتی ہے نہ کسی کے مرتبے کا احساس، مرا تب تو اللہ تعالی ہی دیتا ہے اور اسی کو دیتا ہے جس کے نصیب میں لکھا ہوتا ہے، یوں چیخنے چلانے والا یوں ہی محسوس ہوتا ہے جیسے ہم بچپن میں کہتے تھے کہ جو جھوٹا ہوتا ہے وہ سب سے زیادہ بلند آواز میں بولتا ہے۔

سب سے بڑا نقصان جو آج کل کے تمام ذرایع ابلاغ نے ہم سب کا کیا ہے کہ ایک ایسی نسل کی تخلیق کر دی ہے جن کی کوئی اخلاقی اقدار نہیں ہیں، انھیں ڈراموں اور صبح کے شوز میں بتایا جاتا ہے کہ ہمارے مذہب کے مطابق اخلاقی اقدار کسی چڑیا کا نام تھا جو پھر سے اڑ چکی ہے، آپ اسکول یا کالج میں پڑھتے ہیں تو سب سے پہلا فرض عشق کا سبق پڑھنا ہے… کوئی آپ کو ترچھی نظر سے دیکھے تو اس کی آنکھیں نکال دو، کوئی تھپڑ مارے تو اس کا بھر کس نکال دو اور کوئی آپ کے تھپڑ کے جواب میںآپ کو تھپڑ مارے تو اسے تو قتل ہی کر دو… ( ہم یہ کچھ ہوتا ہوا دیکھ ہے ہیں) دنیا کی ہر لڑکی اور عورت پر ہر مرد کا پورا حق ہے کہ وہ اسے بری نظر سے دیکھے، چھوئے یا اس کی عزت کی دھجیاں بکھیر دے، خواہ وہ مرد اس کے گھر کا ملازم ہو، اسکول کا کوئی گارڈ، ڈرائیور، استاد ، ٹیوٹر، پڑوسی، رکشے یا وین والا، دکاندار ، ان کے والدین یا بھائیوں کے دوست، حتی کہ محرم رشتے دار بھی۔ یہ ڈرامے یہ بھی سکھاتے ہیں کہ اسکول سے فارغ ہو کر جب آپ کالج پہنچ جائیں تو آپ ماں باپ کو جس طرح چاہیں دھوکہ دینے کے لیے آزاد ہیں، نشہ کریں، گھٹیا اور ممنوعہ فلمیں دیکھیں، سگریٹ پئیں، ڈیٹ پر جائیں، ہر اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ کریں، پڑھائی کو آخری آپشن کے طور پر اپنے ایجنڈا میں رکھیں۔

ملازمت میں دھوکہ، سفارش اور رشوت سب جائز ہے، شادی جب چاہیں اور جیسے جی چاہے کریں، گھر سے بھاگ کر، والدین کی مرضی کے خلاف… جیسے بھی ہو!! بیوی سے دل اکتا جائے تو ارد گرد منہ ماریں، شادی شدہ عورتیں بھی جب چاہے اور جیسے چاہیں ، دوسرے مردوں سے تعلقات رکھیں اور دھڑلے سے ناجائز تعلقات قائم کریں۔

کیا معاشرے کا چہرہ مسخ نہیں ہو چکا ہے، کیا ہمارا میڈیا یہ دکھا رہا ہے کہ ہمارے ہاں اخلاقی گراوٹ عروج پر ہے؟ اگر ایسا ہے بھی تو میڈیا کے اہم ستون اپنا فرض سمجھیں، آپ سب اہل قلم اس خطرے کو پہچانیں، قلم کی کیا اہمیت اور طاقت ہے کہ جس کی قسم خود رب عز و جل نے کھائی ہے۔ اپنے قلم کو، اپنے علم کو اور اپنی صلاحیتوں کو معاشرے کے سدھار کے لیے استعمال کریں نہ کہ معاشرے کا ننگا وجود پورے عالم کو دکھائیں۔ اس ملک میں بہت کچھ برا ہو رہا ہو گا، مگر مجھے پورا یقین ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ ایسا اچھا بھی ہو رہا ہو گا جسے ڈھونڈنے کے لیے چراغ کی نہیں بلکہ نیت اور نظر کی ضرورت ہے۔ آپسیں جنگ سے نکلیں اور مل کر اس بگڑے ہوئے میڈیا کی درستگی اور ایک بہترین معاشرے کی تخلیق میں اپنا حصہ ڈالیں!!! اللہ ہم سب کو بہترین انسان اور اچھے مسلمان بنائے، آمین!!!

نوٹ۔ گزشتہ ہفتے کے میرے کالم ، ’’ اور کتنا صبر کریں مہاراج ‘‘ میں ایک درستگی فرما لیں ، میٹرو بس کے منصوبے کا تخمینہ میں نے سہواً پچاس کروڑ لکھ دیا تھاجو کہ اصل میں پچاس ارب روپے ہے۔ شکریہ

خطے کی معیشت پر سامراجی حملے

$
0
0

ماضی میں جن اداروں کی نجکاری کی گئی، جن میں شوگر ملز، کھاد بنانے والی فیکٹریاں، گھی ملز اور سیمنٹ فیکٹریز وغیرہ خسارے میں نہیںجارہے تھے بلکہ ملک کو سالانہ سیکڑوں ارب روپے کما کر دے رہے تھے۔ ان اداروں کی نجکاری کی وجہ سے ملک اس خطیر رقم سے مستقل طور پر محروم ہوگیا اور اب 7 سو ارب روپے ملکی خزانے کے بجائے نجی مالکان کی جیبوں میں جمع ہورہے ہیں۔ یہ دعویٰ کہ نجکاری کا شکار کیے جانے والے اداروں کے مزدوروں کو نہیں نکالا جائے گا، بہت بڑا جھوٹ ثابت ہوا۔

ہر نجکاری کے بعد متعلقہ شعبے کی مصنوعات کو مہنگا کردیا گیا۔ جو ادارے سرکاری شعبے میں اربوں روپے ٹیکس ادا کیا کرتے تھے ملکی خزانہ اس سے بھی محروم ہوگیا۔ ملک کے اہم اداروں میں ایسے عناصر کو بھاری تنخواہوں اور مراعات دے کر کلیدی عہدوں پر پہنچادیا گیا، جس سے ان اداروںکا چہرہ داغ دار بنایا جاسکے اور ان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جا سکے۔ ابھی بھی آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن سالانہ اربوں روپے سرکار کو منافع کما کر دے رہا ہے، اس کے باوجود نجکاری کرنا، اداروں کو سامراجی جھولی میں ڈالنے کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے؟

افغانستان میںسامراجی ممالک قیمتی معدنیات کے ذخائر پر تسلط کے لیے ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں۔ امریکا کے ساتھ ساتھ ایران، چین اور ہندوستان کی ریاستیں بھی اس چال بازی اور پراکسی جنگ میں براہ راست ملوث ہیں۔ 13 جون 2010 کو نیویارک ٹائمز میں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے مختلف علاقوں میں 1000 ارب ڈالر سے زائد مالیت کی معدنیات موجود ہیں۔ پینٹاگون کی ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق افغانستان لیتھیم کا سعودی عرب ہے۔ لیتھیم جدید بیٹریوں میں استعمال ہونے والا معدنی عنصر ہے۔ اس کے علاوہ لوہے، تانبے، سونے اور کوبالٹ کے بھی ذخائر موجود ہیں۔ چین نے افغانستان کے صوبے لوگار میں واقع دنیا کے سب سے بڑے تانبے کے ذخائر میں آئناک پر 2008 سے 2010 تک 3.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔

اس مقصد کے لیے وزیر معدنیات کو 30 ملین ڈالر کی رشوت دی گئی تھی تاہم اسکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد وزیر کو برطرف کردیا گیا۔ 2012 میں چین نے دریائے آمو کے پیندے میں کان کنی کرنے کے لیے حامد کرزئی اور جنرل رشید دوستم کو بھی اسی طرح نوازا۔ اس معاہدے کے بعد لاکھوں بیرل تیل اور گیس کے ذخائر ہتھے چڑھے ہیں۔ اپنے ملک میں خط غر بت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 80 کروڑ افراد پر نظر ڈالنے کے بجائے ہندوستانی ریاست نے افغانستان کو 2 ارب ڈالر کی امداد دی ہے۔ افغانستان میں لوہے کی کان کنی پر ہندوستانی کمپنیاں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کررہی ہیں۔

اس بربادی اور خوں ریزی کا آغاز 3 جولائی 1979 کو امریکی سی آئی اے کے خفیہ آپریشن سائیکلون کے ساتھ ہوا تھا۔ سوشلسٹ انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی پی ڈی پی اے کی حکومت گرانے کے لیے امریکی سامراج خلیجی بادشاہتوں اور پاکستانی ریاست نے مجاہدین پیدا کیے۔ آج ان مجاہدین کے کئی دھڑے مختلف سامراجی قوتوں کے لیے خون ریزی کر رہے ہیں۔ افغانستان کے عوام اگر سامراج سے نفرت کرتے ہیں تو مذہبی انتہاپسندی سے بھی بیزار ہیں۔ افغانستان کے انتخابات دراصل سامراجی جکڑ کو جمہوری دستانہ پہنانے کی کو شش ہے۔

ہیومین رائٹس واچ کے مطابق افغان پارلیمنٹ کے 80 فیصد ممبران منشیات کے دھندے میں ملوث جنگی سردار ہیں۔ خواتین کے حقوق کی آواز بلند کرنے والی بے باک رکن پارلیمنٹ ملالائی جویا کے الفاظ میں افغان پارلیمنٹ ڈرامہ ہے۔ امریکی سامراج کے اپنے نمایندوں نے 2009 کے انتخابات کو دھاندلی کی انتہا قرار دیا تھا۔ حالیہ انتخابات کے بارے میں مشہور جریدہ اکنامسٹ لکھتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے سابقہ سربراہ کے مطابق افغانستان کا ہر انتخاب فراڈ ہوتا ہے۔ دنیا میں ہیروئن کی کل پیداوار کا 90 فیصد افغانستان میں پیدا ہوتا ہے۔

اس کاروبار پر زیادہ تر انتہا پسند اور ان کے حلیف جنگجو سرداروں کا قبضہ ہے۔ سامراج کی جمہوریت ہو یا طالبان کی وحشت، افغان عوام کی نمایندگی کہیں نہیں ہے۔ لیکن یہ سمجھنا کہ افغانستان کے عوام رجعتی قوتوں سے ہار مان بیٹھے ہیں، ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ سرمایہ داری اور جاگیرداری کو اکھاڑ دینے والا جنوبی ایشیا کا پہلا انقلاب اپریل 1978 میں افغانستان میں ہی ہوا تھا۔ پھر افغان عوام ایک بار انگڑائی لے کر اٹھیں گے اور سامراجی غلامی سے نجات حاصل کرکے اشتمالی سماج کی جانب پیش قدمی کریں گے۔

ادھر ایران پر عالمی سامراج اور اندرون ملک میں سرمایہ دار محنت کش عوام پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ ایرانی محنت کشوں کے لیے تنخواہ میں 25 فیصد اضافے کا تحفہ دیا گیا۔ سپریم لیبر کونسل نے اس سال کے لیے کم سے کم تنخواہ 48 لاکھ 70 ہزار تمن سے بڑھا کر 60 لا کھ 90 ہزار تمن کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ ایران میں افراط زر سرکاری طور پر 40 فیصد ہے۔ مرکزی بینک کے مطابق غذائی اجناس، جو محنت کش گھرانوں کے اخراجات کا بہت بڑا حصہ ہے، کی قیمتوں میں 54 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سب سے بڑھ کر اعتدال پسند حکومت نے توانائی کی قیمتوں میں فوری اضافہ کردیا ہے۔

پانی کی قیمت میں 20 فیصد، بجلی 23 فیصد اور گھریلو استعمال کی قدرتی گیس کی قیمتوں میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ روحانی کے وعدوں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ ملکی قوانین پر عمل پیرا ہوگا جن کی رو سے کم سے کم اجرت افراط زر کی شرح کے مطابق ہو۔ پچھلے سال احمدی نژاد کی حکومت نے کم سے کم اجرت میں 25 فیصد اضافہ کیا تھا جب کہ افراط زر کی شرح 30.5 فیصد تھی۔ اس فیصلے کے تھوڑے عرصے بعد مزدور رہنمائوں نے حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کیا اور مطالبہ کیا کہ دونوں چیزوں کی شرح کے درمیان فرق کی رقم کو ادا کیا جائے۔ مزدور رہنما علی اکبر عیوضی کے مطابق عدالت نے مزدوروں کے حق میں فیصلہ دیا لیکن نئی حکومت یہ رقم ادا کرنے سے کترا رہی ہے۔

یہ ہمارے لیے کوئی حیرت کی بات نہیںہے۔ حسن روحانی ایران کے سرمایہ دار طبقے کے نمایندہ ہیں، جن کے مفادات مزدوروں کے مفادات سے متصادم ہیں۔ ان اقدامات کو ہمیں روحانی کی ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم میں شرکت کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے، جہاں انھوں نے عالمی اقتصادی طاقتوں سے ایران میں سرمایہ کاری کرنے کی استدعا کی۔ پاکستان ہو، افغانستان یا ایران، نجکاری، سامراجی کاسہ لیسی اور سرمایہ داری مسائل کا کوئی حل نہیں۔ اس خطے میں سرمایہ داری کا خاتمہ کرکے ایک امداد باہمی کا نظام قائم کرکے عوام کو ان کے دکھوں سے نجات دلائی جاسکتی ہے۔

نیوکلیئر پاور پلانٹ اور ڈیڑھ کروڑ انسانی زندگیاں

$
0
0

روشنیوں کے شہر کراچی سے 40 کلومیٹر دور پیراڈائز پوائنٹ پر دو بڑے نیوکلیئر پاور پلانٹ K-3 اور K-2 کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے۔ یہ پلانٹ چین حکومت کی ٹیکنیکل مدد سے تعمیر ہوں گے جن سے 2200 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔ واضح رہے کہ پاکستان میں پہلے ہی تین نیوکلیئر پلانٹ چل رہے ہیں۔ سنگ بنیاد کی تقریب میں وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ ان کا خواب ہے کہ اس منصوبے سے پاکستان لوڈشیڈنگ فری ہوجائے۔

اس منصوبے پر تنقید بھی کی جارہی ہے۔ گزشتہ ہفتے اپلائیڈ اکنامکس ریسرچ سینٹر جامعہ کراچی کے زیر اہتمام سینٹر ہٰذا میں ایک پینل ڈسکشن سیشن بھی منعقد ہوا جس میں دونوں نقطہ نظر رکھنے والے ماہرین نے اظہار خیال کیا۔ اس منصوبے کی حمایت میں کینپ کے پروجیکٹ ڈائریکٹر اظفر منہاس اور میرین لائف کے ایکسپرٹ اظہر معیشت اﷲ جب کہ مخالفت میں PILER کے رکن ڈاکٹر علی ارسلان اور فشر فوک فورم کے صدر محمد علی شاہ نے اظہار خیال کیا۔ اس پروگرام کا اہتمام ڈاکٹر ثمینہ خلیل اور ڈاکٹر مونس احمر نے کیا تھا۔

نیوکلیئر پاور پلانٹ کے حق میں اظفر منہاس اور اظہر معیشت اﷲ نے جس طرح دلائل دیے اور حاضرین کو آگاہی دی، اس سے محسوس ہوتا تھا کہ نیوکلیئر پاور پلانٹ کے کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے، یہ مکمل طور پر ماہرین کے کنٹرول میں ہوتا ہے، حتیٰ کہ اس کو دہشت گردی اور حادثات کی صورت میں بھی تابکاری پھیلنے کے خطرات وغیرہ سے مکمل طور پر محفوظ کردیا گیا ہے۔ میرین لائف کے ایکسپرٹ نے تو اپنی پروجیکٹ بریفنگ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان ایٹمی پاور پلانٹ کے لیے جو پانی سمندر سے حاصل کیا جاتا ہے اور واپس سمندر میں ڈالا جاتا ہے جیساکہ کینپ میں ہو رہا ہے وہ قطعی ماحول دوست ہے اور اس کے اثرات ساحلی اور میرین حیاتیات و نباتیات پر منفی نہیں پڑتے۔ اس کے لیے باقاعدہ انھوں نے کی جانے والی اسٹڈی کے حقائق و اعداد و شمار بھی پیش کیے۔

ان کی بریفنگ کے بعد میرا ذہن ذرایع ابلاغ سے جاری ہونے والی ان خبروں کی طرف جا رہا تھا کہ جس میں گاڑیوں اور فریج کے استعمال تک کو ماحولیات کے ماہرین نے کائنات کا دشمن قرار دیا تھا اور اوزون کی سطح کو نقصان پہنچانے کا بھی ذمے دار قرار دیا تھا۔ میرا ذہن یہ قبول کرنے سے قاصر تھا کہ جب ایک جانب گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں اور حرارت اور گھر میں استعمال ہونے والے فریج بھی اوزون کی سطح کو نقصان پہنچا رہے ہوں اور ماحول کو آلودہ کر رہے ہوں، ایسے میں بھلا نیوکلیئر پاور پلانٹ اس قدر بے ضرر اور ماحول دوست کیسے ہوسکتا ہے کہ اس کے کچھ بھی منفی اثرات نہ ہوں؟

مذکورہ سوالات جو میرے ذہن میں کھلبلی مچا رہے تھے اس فورم سے اظہار خیال کرنے والے اور دوسرا نقطہ نظر رکھنے والے محمد علی شاہ اور ڈاکٹر علی ارسلان کی جانب سے اٹھائے گئے نکات نے بہت حد تک جوابات دے دیے۔ ان دونوں شخصیات کا موقف تھا کہ ماضی میں چرنوبل کا خوفناک حادثہ اور ماضی قریب (2011) میں فوکوشیما کے حادثات نے انسانوں کو کیا کچھ نقصانات نہیں پہنچائے، ان حادثات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں بجلی کے حصول کے لیے ایسے خطرناک ذرایع کو استعمال میں لانے کے بجائے دیگر ذرایع سے بجلی کا حصول تلاش کرنا چاہیے۔ فوکوشیما کے ساحل پر قائم نیوکلیئر پاور پلانٹ کے ریکٹرز کے پمپس کو سونامی نے ایک ہی جھٹکے سے تباہ کردیا تھا۔ یوں ہونے والی تباہی سے تابکاری کے ذخائر تباہ ہوئے اور ماحول میں پھیل گئے، خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تابکاری اثرات ہزاروں یا لاکھوں برسوں تک پھیلتے رہیں گے۔

محمد علی شاہ مذکورہ منصوبے کی مخالفت میں دلائل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ فوکوشیما کا حادثہ ایک قدرتی آفت کی وجہ سے ہوا تھا، اسی طرح کا دوسرا حادثہ ایک اور نیوکلیئر پاور پلانٹ میں ہوا تھا جو انسانی غلطی یا مشین فیل ہوجانے کی وجہ سے ہوا تھا۔ چرنوبل نیوکلیئر پاور پلانٹ جو سابق سوویت یونین کی ریاست یوکرین میں اپریل 1986 میں ہوا اس کا سبب بھی انسانی غلطی تھی جس کے سبب دھماکا ہوگیا اور اس کی تابکاری کے مادے کے پھیل جانے سے بڑی تباہی ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق 4,000 افراد ہلاک ہوئے، کئی برسوں تک تمام شہر مکمل طور پر خالی کرالیے گئے۔ 30 کلومیٹر تک علاقے کو متاثر قرار دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ مذکورہ علاقہ ہزاروں سال تک متاثر رہے گا۔

محمد علی شاہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوکوشیما کے حادثے کی وجہ سے عالمی نیوکلیئر پاور پلانٹ انڈسٹری پر بہت برا اثر پڑا ہے۔ جس کی وجہ سے متعدد ممالک متبادل ذرایع کے بارے میں غور کرنے لگے ہیں۔ مثلاً فوکوشیما حادثے کے فوراً تین ماہ بعد جرمنی نے اپنے جاری 17 نیوکلیئر پاور پلانٹس میں سے 8 کو ہمیشہ کے لیے بند کردیا، باقی 9 پلانٹس کو 2022 تک بند کردیا جائے گا۔ اٹلی کی پارلیمنٹ نے گزشتہ نیوکلیئر پاور پلانٹس کی تعمیر کے تمام ٹھیکے کینسل کرنے کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ سوئٹزر لینڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کے جاری 5 نیوکلیئر پاور پلانٹس اپنی مدت پوری کرنے کے بعد مزید نئے پلانٹس قائم نہیں کیے جائیں گے۔ جاپان دنیا کا جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہونے کے باوجود نیوکلیئر حادثے سے نمٹنے کے قابل نہیں ہوسکا تو پھر پاکستان ایسے حادثات کا سامنا کیسے کرسکتا ہے؟

اسی طرح ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کراچی کی ساحلی پٹی پر قائم کرنے والے پاور پلانٹ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ چائنا نیشنل نیوکلیئر کارپوریشن منصوبہ بندی کر رہی ہے کہ وہ اپنے ایسے ریکٹر پاکستان کو فروخت کرے جو دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں چلتے، اس کا تجربہ بھی چین نے اپنے ملک میں نہیں کیا۔ چین کی دلچسپی یہ ہے کہ پاکستان یہ پلانٹ خرید لے تاکہ اس تجربے کی بنیاد پر چین کے لیے نیوکلیئر کی عالمی مارکیٹ کھل سکے۔ کسی حادثے کے نتیجے میں ڈیڑھ کروڑ آبادی کا شہر کراچی ختم ہوسکتا ہے جب کہ پورے سندھ کے ساحلی علاقے کے ماہی گیروں کا روزگار تباہ ہوجائے گا۔

مذکورہ پروگرام میں مستقبل میں ممکنہ خدشات اور نقصان کے بارے میں جو تفصیل بیان کی گئی ہے ان کا یہاں احاطہ کرنا ممکن نہیں تاہم راقم کا خیال ہے کہ کوئی بھی منصوبہ شروع کرتے وقت تمام حقائق کو سامنے رکھنا چاہیے اور تمام کی گئی تنقید کا بھی ازسرنو جائزہ لینا چاہیے۔ انسانی زندگی بجلی سے زیادہ اہم نہیں، جب انسان ہی نہ ہوں گے تو بجلی کس کے لیے؟ یہ بھی سوچیں کہ صرف سستی بجلی کے نام پر انسانی زندگیوں کا رسک کیوں لیا جائے؟

آئیے! ہم سب مل کر اس اہم مسئلے پر غور کریں کیونکہ یہ چند انسانوں نہیں ڈیڑھ کروڑ آبادی والے شہر کے باسیوں کا بھی مسئلہ ہے اور اس ملک سے وابستہ ہر شخص کے مفادات سے بھی منسلک مسئلہ ہے۔ ہمیں ترقی اور آسانی کی دوڑ میں مسائل کو سامنے رکھنا چاہیے، اس منصوبے کی ابھی ابتدا ہے اور ابھی ہم سب کے پاس غور کرنے کا بھی وقت ہے، آئیے اس کو ’’کور ایشو‘‘ کے طور پر لیں۔

انمول رشتے

$
0
0

زندگی تیز تیز چل رہی ہے لیکن جب تک کوئی چیز حرکت کرتی نظر نہیں آتی دل اس کے چلنے، اس کی رفتار پر شک کرتا ہے۔ میں نے دیکھا نہیں تو مانوں کیسے؟ دنیا چل رہی ہے یعنی گھوم رہی ہے۔ ہم میں سے کسی نے بھی دنیا کو اپنی آنکھوں سے گھومتے نہیں دیکھا ہے، پھر بھی اس پر یقین اس لیے ہے کیونکہ اسکول کے پہلے دن سے سب ہمارے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ دنیا گھوم رہی ہے۔

اگر کوئی ہم سے پہلی کلاس میں بغیر زبردستی کیے ہماری رائے پوچھتا تو ہم اس بات پر ڈٹ جاتے کہ دنیا ہرگز نہیں گھوم رہی۔ یہی انسان کی فطرت ہے، اسی لیے کئی جگہ تاریخ کے صفحوں پر یہ لکھا گیا ہے کہ وہ شخص کہ جس نے پہلی بار یہ دریافت کیا تھا کہ دنیا گھوم رہی ہے اس زمانے کے عالموں سمیت حکمرانوں نے اسے پاگل قرار دے کر پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔

دنیا کی سب سے تیز رفتار کار کا نام ’’فراری‘‘ ہے۔ تیز رفتار چلنے کے باوجود فراری بنانے والوں نے کار کی سیٹ، ٹائرز اور پوری باڈی کو ایسے ڈیزائن کیا ہے کہ ایک اچھی سڑک پر دو سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی گاڑی میں بیٹھے مسافر کو رفتار تیز محسوس نہیں ہوتی، بس کچھ ایسی فراری سی ہی ہے زندگی ہماری۔ یہ تیزی سے گزر جاتی ہے اور ہمیں محسوس بھی نہیں ہوتا۔

بچپن میں گھر میں کئی لوگ تھے مجھے پیار کرنے والے ماں باپ، دادا دادی، بہن بھائی، کئی انمول رشتے، میں نے وقت پر کھانا کھایا ہے سے لے کر امتحان کا پرچہ دینے جانے سے پہلے مجھے ’’گڈلک‘‘ کے لیے دہی اور چینی کھلانا اور پھر مجھ سے زیادہ میرے اچھے رزلٹ کے لیے دعا کرنا، ابا کا راتوں کو جاگنا کہ میری طبیعت خراب تھی اور امی کا میرے لیے ہر وہ چیز پکانا جو مجھے پسند تھی، دادی کا مجھے کہانی سنانا، جس کی وجہ سے یہ دنیا وہیں آنگن میں بیٹھے بیٹھے میرے لیے جادوئی دنیا بن جاتی اور دادا کا مجھے کئی سال کا تجربہ ہر شام کچھ باتیں بتاکر سونپ دینا۔

مجھے ہر قدم ساتھ چلانے والے میرے بہن بھائی جن کی وجہ سے مجھے کبھی بھی اکیلے ہونے کا احساس نہیں ہوا، میرے ساتھ کھیلتے، پڑھائی میں مدد کرتے اور کوئی شرارت کرتے پکڑا جاؤں تو سزا سے بچاتے۔ یہ سب تھا میرے پاس میرے بچپن میں اور میں۔۔۔۔ میں نے وقت کے وہ حسین لمحے یہ سوچتے گزار دیے کہ اگر میرے پاس میرا اپنا کمرہ ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا۔ اگر مجھے اپنی سائیکل شیئر نہیں کرنی ہوتی تو زیادہ مزہ آتا، اسی طرح کی کئی چھوٹی چھوٹی پریشانیوں میں میری بچپن کی چھوٹی سی عمر ’’فراری‘‘ پر سوار گزر گئی۔

وہ جس سے آدھی سے زیادہ دنیا کے نوجوان محروم ہیں وہ تعلیم مجھے نصیب ہوئی۔ کالج، اسکول اور پھر یونیورسٹی کتنے ہی قابل اساتذہ سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا مجھے۔ اپنے لڑکپن اور نوجوانی میں مختلف بیک گراؤنڈ سے آنے والے ٹیچرز دنیا بھر کا تجربہ اور مشاہدہ کلاس روم میں ہمارے لیے لے آتے اور میں وہیں کلاس روم میں بیٹھے بیٹھے ان ٹیچرز کے ذریعے دنیا کے بارے میں اتنا کچھ سیکھ لیتا جو کسی بھی انسان کا محض اپنے تجربے کی دنیا پر سیکھنا ناممکن ہے۔

ایک دریا تھا میرے پاس علم کا جس میں ہاتھ ڈال کر اپنی تعلیم کی پیاس بجھانے کے لیے جتنا علم چاہتا سمیٹ لیتا اور دریا کے پانی میں کمی نہیں آتی۔ کئی سال ہر روز مجھے زندگی نے وہ دن دکھایا جس میں کوئی اور ذمے داری نہیں تھی میرے اوپر، میں صرف ایک طالب علم تھا جو زندگی میں جتنا چاہتا سیکھ سکتا تھا اور میں وہ سارے ہی دن اس فکر میں گزارتا رہا کہ اگر سبق یاد نہیں کیا تو ٹیچر ڈانٹیں گے یا پھر کہیں اسائنمنٹ کی تاریخ نہ نکل جائے اور ہر جماعت کو ایک بوجھ سمجھنا جسے پار کرنا ایک مجبوری اور مصیبت ہوتی۔ وہ سال جو مجھے لگتے تھے کہ کبھی ختم نہیں ہوں گے ’’فراری‘‘ پر سوار میری زندگی نے انھیں پلک جھپکتے گزار دیا۔

میں آزاد تھا اگر ماضی میں ایک بھرپور بچپن اور لڑکپن کے دن تھے تو ابھی آدھی سے زیادہ زندگی میرے آگے تھی۔ میں کچھ بھی کرسکتا تھا دنیا میں۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتے بڑے خواب دیکھ کر اور بہت سی محنت سے لوگ حکیم محمد سعید بنتے ہیں۔ حالات موقع اور حدود کا سہارا کمزور لوگ لیتے ہیں، ہر زمانے میں نوجوانوں کو بھی کسی نہ کسی مشکل کا سامنا ہوتا ہے، زیادہ تر لوگ ان مشکلوں کو بہانہ بناتے ہیں زندگی میں کامیابی حاصل کر پانے کی۔

جب ایک بارہ سالہ لڑکا یہ ٹھان لیتا ہے کہ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کا کپتان بنوں گا تو دنیا کی کوئی طاقت اسے نہیں روک پاتی۔

میں بھی اسی عمر میں تھا جہاں میں چاہتا تو علامہ اقبال کے شعر ’’خودی کو کر بلند اتنا‘‘ کے سہارے کچھ بھی کرسکتا تھا اور میں مشکلوں سے ڈرتا ’’اگر مگر‘‘ میں آگے بڑھنے کے بجائے زندگی کے ہر موڑ پر بریک لگاتا گیا لیکن اس بریک کا زندگی کی ’’فراری‘‘ پر اثر نہیں پڑا اور وہ اپنی رفتار کا رنگ میرے بالوں کی سفیدی میں دکھانے لگی۔

انسانی زندگی میں سب سے انمول چیز ہوتی ہے رشتے۔ کسی بھی کمائی، کسی بھی کامیابی سے زیادہ ضروری رشتے۔ کچھ رشتے ماضی ہوئے تو کچھ رشتے حال ہوئے، بیوی بچے کتنے نئے نام اور چہرے دنیا کے سب سے اہم لوگوں میں شامل ہوگئے وقت کے گزرتے بہائو میں۔ میرا خیال رکھنے والی بیوی جو میری بات کسی بھی اور سے پہلے سمجھ جاتی، میری ہر ضرورت اور آرام کا خیال رکھتی، میری بیٹی جو اپنے ابو کے لیے ساری دنیا کی خوشیاں سمیٹ کر اس ایک چپاتی میں لے آتی جو روز رات وہ میرے لیے کھانے کی میز پر مسکراتے ہوئے رکھتی۔

میں مضبوط تھا کیوں کہ میرا بیٹا میرے ساتھ تھا، کسی بھی بھاری چیز کو ہلانا مشکل تھا تو فوراً بیٹے کو آواز دینے پر کبھی میں نے خود کو کمزور نہیں بلکہ مضبوط محسوس کیا۔ یہ سب ہی مجھے میری زندگی میں ملا اور میں۔۔۔۔ اپنا زیادہ تر وقت اس پریشانی میں گزارتا رہا کہ ہر مہینے کا خرچہ کیسے چلے گا؟ بیٹی کی شادی کی فکر، بیٹے کی بہتر نوکری لگ پائے گی یا نہیں۔ سب ہی دیر سویر ہوگیا اور ساتھ ہی ’’فراری‘‘ پر سوار میری زندگی کے اس قیمتی وقت کو میں نے مشکل زندگی سوچتے گزار دیا۔

زندگی چل رہی ہے، اس سچ کا مجھے بغیر دیکھے یقین ہوگیا ہے کہ یہ کسی بھی لمحے رکتی نہیں۔ ایک ایک سانس انسان کے لیے اﷲ تعالیٰ کی نعمت ہوتی ہے۔ ان سانسوں کے لیے کتنے لوگ ترستے ہیں، مجھے اﷲ تعالیٰ نے زندگی کے کئی سال عطا کیے ایک بھرپور زندگی، کتنی خوشیاں تھیں زندگی میں، کتنے قہقہے کتنے لمحے ایسے جیے میں نے اس زندگی میں جو دنیا کے کسی بھی خزانے سے نہیں خریدے جاسکتے۔ اور میں کہ جب زندگی ختم ہونے کے قریب ہے تو سوچتا ہوں مجھے زندگی نے کئی چیزیں کرنے کا موقع نہیں دیا۔

امریکا کا مالیاتی فراڈ (آخری حصہ)

$
0
0

لیکن حقیقت یہ تھی 1972 میں بیرونی ملکوں میں سڈنی لنس کے مطابق 82 ارب ڈالر FDI، ملٹری اخراجات کی مد میں لگے ہوئے تھے۔ اگر اس میں بیرونی ملکوں کے پاس فارن ایکسچینج ریزرو ڈالر 1 کھرب 2 ارب 91 کروڑ 13 لاکھ 30 ہزار بھی شامل کرلیے جائیں تو ٹوٹل 1 کھرب 84 ارب 91 کروڑ 13 لاکھ 30 ہزار ڈالر ہوتے ہیں۔ اور امریکا کے پاس پورے ملکوں کو دینے کے لیے صرف گولڈ ریزرو 1971 میں 10 ارب 10 کروڑ رہ گیا تھا۔ امریکی صدر نے 15 اگست 1971 کو امریکی ڈالروں کے عوض سونے کی ادائیگی پر بندش لگا کر اس بات کو ثابت کردیا تھا کہ امریکا ڈیفالٹ ہوچکا ہے۔

اس کے بعد یورپی ملکوں اور امریکا میں ’’مالیاتی یا کرنسی وار‘‘ اندرون خانہ ہوتی رہی۔ اس کے نتیجے میں امریکا نے یورپی کرنسیوں کی قیمتوں کو ڈالر کے مقابلے میں 1971 سے 1975 کے دوران زیادہ کردیا۔ اس کے بعد یورپی ملکوں نے امریکا کے ساتھ مل کر نیٹو اور آئی ایم ایف کی چھتری تلے معاشی غلام ملکوں میں ملٹی نیشنل کمپنیاں تیزی سے پھیلانی شروع کردیں۔ امریکا آئی ایم ایف کے پلیٹ فارم سے معاشی غلام ملکوں کی کرنسیوں پر Currency Devaluation Minus Economic Development سے حملے بڑھاتا گیا۔ اس کے نتیجے میں ان ملکوں کی تجارت، بجٹ اور صنعتی کلچر ختم ہوتا گیا۔

امریکی سامراج نے ان ملکوں کے حکمرانوں کو تجارتی خسارے سے نکلنے کے لیے مہنگے قرضے لینے کی طرف راستہ دکھایا اور 1990 کے بعد بجٹ خسارے سے نکلنے کے لیے ملکی پیداواری نفع بخش اداروں کی نج کاری کرنے کی راہ پر ڈال دیا۔ اس طرح سامراج کا یہ پلان ہے کہ معاشی غلام ملکوں میں افواج اور انتظامی اداروں کا خاتمہ ہو۔

یہ اس طرح کر رہا ہے کہ اداروں کو خساروں میں بدل کر نجکاری کرانا، حکومتی آمدنی کو کم کرنا، ریاست کو ناکام ریاست بناکر غیر علانیہ سامراجی حکومت قائم کرنا، کم سے کم ڈالر خرچ کرکے زیادہ سے زیادہ مقامی کرنسی کے ملکی غداروں یا باغیوں کو ملک کے خلاف استعمال کرنا جیسے مصر اور اب شام اور یوکرین، پاکستان میں امریکا مداخلت کرکے حالات کو خراب کر رہا ہے۔ اگر حقائق کا تجزیہ کیا جائے اور عالمی مالیاتی اعداد و شمار کو دیکھا تو امریکی برتری Superiority ایک دھوکا اور فریب ہے۔ امریکا نے کئی کھربوں کاغذی ڈالر پوری دنیا میں پھیلا دیے ہیں کہ ان کے نتیجے میں پوری دنیا میں معاشی بحران بڑھتا جا رہا ہے۔

اگر کوئی شخص مارکیٹ سے ڈالر خریدتا ہے تو اسے اس کے بدلے مقامی کرنسی یا سونا دینا پڑتا ہے۔ امریکا اور امریکی اداروں سے دوسرے ملکوں کو ڈالر مفت نہیں جاتا ہے۔ اگر کوئی ملک مالیاتی اداروں سے قرضہ لیتا ہے تو امریکا پہلے اس کے بدلے سونا طلب کرتا ہے۔ اگر سونا نہ ہو تو سامراجی شرائط کے بدلے: 1۔ غیر ملکی صنعتی یا زرعی اشیا کے داخلے پر ڈیوٹی کم کی جائے جیسے معین قریشی نگران وزیراعظم نے جولائی 1993 سے اکتوبر 1993 کے دوران امپورٹ ڈیوٹی 50 فیصد کم کردی تھی۔ 2۔ حکومتی کردار پیداواری شعبوں میں کم کیا جائے۔ 3۔ مقامی کرنسی کی قیمت میں ڈالر کے مقابلے میں کمی کی جائے۔ 4۔ حکومتی بجٹ کو خسارے سے نکالنے کے لیے حکومتی سرپرستی میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کی جائے۔ 5۔ زیادہ سے زیادہ حکومتی اداروں پر ملازمین کا بوجھ کم کیا جائے۔ 1990 میں اسی سامراجی حکم پر سرکاری اداروں میں بھرتی پر پابندی لگادی گئی تھی۔ 6۔ سامراجی منڈیوں کو ملک میں داخلے کو آسان بنایا جائے۔ اس طرح CDMED سے معاشی غلام ملکوں میں ملٹی نیشنل کمپنیاں پھیلتی گئیں۔ دوسری طرف سے سامراجی ملکوں کی امپورٹ ان ملکوں میں بڑھتی گئی۔

اگر عالمی مالیاتی اعداد و شمار جو ڈالروں کی شکل میں امریکا سے باہر بیرونی ملکوں میں استعمال ہورہے ہیں اور امریکی کل مالیاتی اعداد و شمار کا آپس میں موازنہ کیا جائے تو ہمارے سامنے یہ شکل آتی ہے۔ 2009 میں امریکا دنیا کے سامنے مالیاتی اعداد و شمار کے مقابلے میں 88 کھرب 61 ارب 37 کروڑ 72 لاکھ ڈالروں سے ڈیفالٹر ہوچکا تھا۔ 2010 میں 157 کھرب 77 ارب 98 کروڑ 74 لاکھ سے پوری دنیا کا ڈیفالٹر تھا۔ 2011 میں 217 کھرب 32 ارب 52 کروڑ 28 لاکھ ڈالر سے ڈیفالٹر ہوچکا تھا۔

اگر حقائق کا مزید تجزیہ کیا جائے تو سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں معاشی غلام ملکوں کے سرمایہ دار حکمرانوں کا وہ سرمایہ اس حوالے میں شامل نہیں کیا گیا جو ان ملکی غداروں کے سوئس بینکوں میں چھپا ہوا ہے۔ میرے اندازے کے مطابق یہ سرمایہ کاغذی ڈالر اندازاً 40 کھرب ڈالر بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ جیسے پاکستان کے Securiteis and Exchange Commission of Pakistan کے پاس 2013 میں 2166 ایکسچینج کمپنیاں رجسٹرڈ تھیں، 2014 میں 2490 کمپنیاں ہوگئیں۔ حکومتی مرکزی و دیگر متعلقہ بینکوں کے علاوہ ان پرائیویٹ SECP کے تحت کام کرنے والی کمپنیوں کے پاس جو ڈالر ریزرو ہیں ان کا شمار مندرجہ بالا اعداد و شمار میں نہیں کیا گیا۔

معیشت کے اصول کے مطابق منصوبہ بند معیشت میں جب غیر ملکی مالیاتی مداخلت بڑھتی ہے تو منصوبہ بند معیشت غیر یقینی کا شکار ہوکر خسارے میں چلی جاتی ہے۔ امریکی کاغذی کئی سو کھربوں ڈالر 128 معاشی غلام ملکوں کی معیشت میں داخل ہیں۔ یہ ڈالر ان ملکوں کے وسائل تجارت، ملٹی نیشنل کمپنیوں، قرضوں کی شکل سامراج کو منتقل کر رہے ہیں۔ ان ملکوں میں اسی نسبت سے غربت بڑھتی جا رہی ہے۔

عالمی مالیاتی تناؤ یا کرنسی وار کے نتیجے میں یکم نومبر 2013 کو امریکا نے جاپان، یورپین مرکزی، بینک آف انگلینڈ، کینیڈا اور سوئٹزرلینڈ کے مرکزی بینکوں نے آپس میں معاہدہ کیا کہ عالمی مالیاتی بحران کا مل کر سامنا کریں گے۔ یاد رہے کہ ان ہی ملکوں کی زیادہ ملٹی نیشنل کمپنیاں معاشی غلام ملکوں میں ہیں اور ان ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں کو ڈالر کے مقابلے میں فوقیت بھی حاصل ہے۔ اسی طرح ساؤتھ کوریا اور ملائیشیا نے 21 اکتوبر 2013 کو کرنسی تبادلے کا معاہدہ کیا۔ 13 اکتوبر 2013 کو ساؤتھ کوریا اور انڈونیشیا نے کرنسی تبادلے کا معاہدہ کیا۔ ساؤتھ کوریا نے یو اے ای سے کرنسی تبادلے کا معاہدہ کیا۔

اس طرح امریکی ڈالر کو Dominator کے طور پر استعمال کرکے کرنسیوں کے باہمی تبادلے سامراجی کاغذی ڈالر کو مزید تقویت دینے کے مترادف ہیں۔ اگر پوری دنیا کے ممالک کھربوں ڈالر امریکا کو واپس کرتے ہیں تو امریکا پورے امریکی گردشی ڈالروں کے بدلے اشیا بھی دینا چاہے تو ناممکن ہوگا۔ 1971 کے مالیاتی بحران کے بعد یورپ و امریکا نے سونے کی قیمتیں ڈالر کے مقابلے میں بڑھاکر اپنے آپ کو محفوظ کردیا لیکن امریکی چھتری آئی ایم ایف تلے امریکا نے معاشی غلام ملکوں کی معیشت پر سڈمڈ لگا لگا کر ان کو معاشی طور پر تباہ کردیا۔ امریکا اور یورپی ملکوں نے مل کر 128 ملکوں کو ڈالر کا قیدی اور تنہائی کا شکار بنایا ہوا ہے۔ جو ممالک ڈالر کی قید سے آزادی چھین لیں گے وہی معاشی خوشحالی حاصل کرسکیں گے۔

معاشی غلام ملکوں میں سامراجی بلاک سستے وسائل لوٹ رہا ہے۔ آج معاشی غلام ملکوں کو سامراج سے معاشی آزادی چھین لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ عوام یہ دیکھیں کہ پاکستان میں ہر جگہ دہشت گردوں نے بم دھماکے کیے، کوئی جگہ نہیں چھوڑی اور ان کا یہ تاثر کہ وہ امریکا دشمن ہیں، امریکی نواز حکومت پر حملے کرتے ہیں۔ کبھی غور بھی کیا کہ امریکا دشمن دہشت گردوں نے کسی سامراجی ملٹی نیشنل کمپنی پر حملہ کیا؟

Viewing all 22362 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>