Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22460 articles
Browse latest View live

عوام کے صبر کا پیمانہ

$
0
0

ویسے تو سرمایہ دارانہ جمہوریت جہاں جہاں نافذ ہے وہاں کرپشن اور بدتمیزیاں عام ہیں لیکن اس حوالے سے پاکستان کچھ زیادہ ہی آگے جا رہا ہے ۔ 71 سالہ دور میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بہت سی ناخوشگوار باتیں ہوتی رہی ہیں لیکن موجودہ حکومت کے اکابرین کے ساتھ بد اخلاقی بدزبانی اور توہین آمیز رویوں کا جو سلسلہ جاری ہے وہ نہ اتفاقی ہے نہ اس میں چند افراد ملوث ہیں یہ ایک منظم سازش کا حصہ ہے جس کا مقصد حکمرانوں کو بے توقیر اور بدنام کر کے عوام کی نظروں سے گرانا ہے۔

جمہوریت میں اختلاف رائے کو جمہوریت کا حسن کہتے ہیں لیکن جب اختلاف رائے حکومتوں کے خلاف منظم اور منصوبہ بند ہوتا ہے تو یہ اختلاف رائے جمہوریت کے حسن کے بجائے جمہوریت  کے چہرے پر کوڑھ کا داغ بن جاتا ہے اور عوام میں جمہوریت کے حوالے سے بدظنی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

ملک کے وزیر اعظم کے خلاف مخالفین جو زبان استعمال کر رہے ہیں وہ سڑک چھاپ لوگ بھی نہیں کرتے۔ وزیر اعظم ملک اور جمہوریت کا مان ہوتا ہے لیکن ہماری  جمہوریت کے حکما وزیراعظم کے خلاف جو زبان جو رویے اختیار کر رہے ہیں وہ کوئی اتفاقی بات ہے نہ بے مقصد ہے، یہ ایک منظم اور مربوط پروگرام کا حصہ ہے جس کا مقصد مڈل کلاس کو بد نام کرنا ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک مڈل کلاس پارٹی برسر اقتدار آئی ہے جسے اشرافیہ کسی قیمت پر برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اشرافیہ موجودہ حکومت کی اس قدر دشمن کیوں بنی ہوئی ہے؟

اس کا منطقی جواب یہ ہے کہ اشرافیہ کی موجودہ حکومت سے بد ظنی یا دشمنی کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ اشرافیہ کسی مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی حکومت کو اپنے لیے توہین سمجھتی ہے کیونکہ اشرافیہ کی پرتعیش زندگی پر ایک ملنگ حکومت کا اقتدار قابل قبول نہیں سمجھا جاتا۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اس حکومت نے اشرافیہ کے متبرک شاہوں اور شہنشاہوں کو اربوں روپوں کی کرپشن کے الزامات میں اس قدر خوار کر دیا ہے کہ عوام اشرافیہ کے نام سے الرجک ہو رہے ہیں۔ اس پر ظلم یہ کہ ان شاہوں اور شہنشاہوں کو متعلقہ اداروں نے گرفتار کر کے عوام میں اور زیادہ بے آبرو کر دیا ہے۔

توہین اور توہین کی اس تکنیک نے حکومت خاص طور پر وزیر اعظم کو عوام میں اس قدر قابل اعتبار بنا دیا ہے کہ اپوزیشن کی لاکھ کوششوں کے باوجود عوام کے دلوں سے حکومت خاص طور پر وزیر اعظم کا اعتبار ختم کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ ملک میں سابقہ حکومتوں کے لیے ہوئے 24 ہزار ارب قرضوں کی وجہ مہنگائی کا آسمان پر پہنچنا فطری ہے۔ اشرافیہ مہنگائی کے نام پر عوام کو مشتعل اور حکومت سے متنفر کرنے کہ ہر طرح سے کوشش کر رہی ہے لیکن وہ عوام کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی، عوام بلاشبہ مہنگائی سے سخت پریشان ہیں لیکن وہ جان رہے ہیں کہ ایک دس ماہی حکومت کا یہ کام نہیں ہو سکتا بلکہ اس مہنگائی کی ذمے دار وہ دس سالہ حکومتیں ہیں جنھوں نے 24 ہزار ارب کے قرضے لے کر ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔

عوام میں اس شعور کی وجہ اشرافیہ سخت ہراساں ہے کہ وہ عوام جو حکمرانوں کی ایک کال پر بغیر سوچے سمجھے سڑکوں پر آ جاتے تھے، وہ عوام آج سر پر مہنگائی کے پہاڑ رکھ کر بھی سڑکوں پر آنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ وہ جان گئے ہیں کہ اس مہنگائی کی ذمے دار موجودہ حکومت نہیں بلکہ ماضی کی اشرافیائی حکومتیں ہیں جنھوں نے اتنی کرپشن کی ہے کہ کرپشن کے اربوں روپے اپنے بینکوں میں رکھنے کی گنجائش نہیں رہی تو انھوں نے یہ بھاری رقمیں فالودہ بیچنے والوں، غریب طبقات کے ان اکاؤنٹس میں سازشانہ طریقوں سے اس طرح منتقل کر دیے کہ بے چارے اکاؤنٹس ہولڈروں کو اس کی خبر نہ ہوئی۔ پاکستان کی تاریخ اشرافیہ کی لوٹ مار سے عبارت ہے لیکن جو لوٹ مار پچھلے دس سالوں میں ہوئی ہے اس کا عشر عشیر بھی 71 سالوں میں نہیں ہوا۔

اونٹ کی پکڑ دنیا میں بہت مشہور ہے لیکن نیب کی پکڑ نے اونٹ کی پکڑ کو بھی مات دے دی ہے۔ احتسابی ادارے ہمارے ملک میں اس لیے بدنام تھے کہ وہ کچھ لے دے کر معاملات نیچے ہی نیچے نمٹا دیتے تھے یا اشرافیہ کے تعلقات خوف اور اختیارات سے اس قدر خوف زدہ رہتے تھے کہ کسی کو ان کی طرف آنکھ اٹھانے کی ہمت نہ ہوتی تھی بلکہ احتسابی اداروں کو اشرافیہ اپنی جیبوں میں رکھے رہتی تھی، ملکی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ احتسابی ادارے اشرافیہ کے سامنے ڈٹ گئے ہیں اور بلاامتیاز مجرموں کے گلے میں رسی ڈال رہے ہیں۔

احتسابی اداروں کے اس رویے نے اشرافیہ کو اس قدر مایوس کیا ہے کہ وہ ان اداروں کو بدنام کرنے کی ایک منظم مہم چلا رہے ہیں لیکن اشرافیہ کے کرتوت نے عوام کو اس قدر بدظن کر دیا ہے کہ وہ کچھ سننے کے لیے تیار نہیں اور عوام کے اس رویے سے اشرافیہ سخت مایوس ہے اور مایوسی کے عالم میں حکومت کے خلاف طرح طرح کے الزامات کے علاوہ حکمرانوں کی ایسی توہین کر رہی ہے کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ حکومت کے خلاف جگہ جگہ پروپیگنڈے کے جو الاؤ جلائے جا رہے ہیں یہ اشرافیہ کی مایوسی کے ثبوت ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اس قدر توہین آمیز پروپیگنڈے کے باوجود عوام ٹس سے مس ہونے کے لیے تیار نہیں اور اصل میں عوام کے اس رویے ہی کی وجہ اشرافیہ سخت مایوسی کا شکار ہے۔

ہم نے اپنی 50 سالہ قلمی زندگی میں کبھی کسی حکومت کے حق میں تعریف کے دو بول نہیں لکھے کہ اشرافیائی حکومتیں اس قابل ہی نہیں رہیں کہ ان کے حق میں لکھا جائے ملک میں پہلی بار ایک دبنگ مڈل حکومت آئی ہے جس کا سربراہ کہتا ہے کہ بھلے حکومت چلی جائے میں عوامی دولت کے لٹیروں کو نہیں چھوڑوں گا۔ لیکن عوام کے برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے مہنگائی نے عوام کو ادھ موا کر دیا ہے اب حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ مگرمچھوں سے لی جانے والی بھاری رقوم کو مہنگائی کم کرنے میں استعمال کرے اشرافیہ سے حاصل ہونے والی بھاری رقوم کو عوام کی بھلائی میں استعمال کرے ورنہ عوام  کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا اور عوام حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔

The post عوام کے صبر کا پیمانہ appeared first on ایکسپریس اردو.


الٹا گھومتا معیشت کا پہیہ

$
0
0

جس طرح اب قرطاس کی جگہ لفظ کاغذ کا استعمال عام ہوگیا ہے اسی طرح میثاق کی جگہ دستاویزی معاہدے یا ایگریمنٹ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ مگر گزشتہ ماہ کے آخری دنوں میں آصف علی زرداری نے جس خوبصورتی سے اپنا مدعا حکومت کو بیان کیا اس کا اعتراف تو کرنا ہی ہوگا۔ بقول ان کے حکومت ان کے خلاف معاملات و مقدمات کو چھوڑ کر سیدھی سادی بات میثاق معیشت کرکے معاملات کو فوری طور پر حل کرنے کے لیے بات چیت کا دروازہ کھول دے۔ کیونکہ طویل المیعاد مقدمات وقت کا زیاں ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ اس بیان نے حکومت کی صفوں میں گفتگو کے دروازے کھول دیے ہیں اور ساتھ ہی فی الحال کوئی رابطے کا بیان سامنے نہیں آیا لیکن حکومتی حلقوں کی طرف سے سخت رویے میں کمی دیکھی جا سکتی ہے۔ جب کہ دوسری جانب مخالف پارٹیاں اپنی زورآوری کی نمائش میں پیش پیش ہیں۔ وہ اپنے اتحاد اور قوت کا نمائشی شور و غوغا مچائے ہوئے ہیں۔ تا کہ حکومت ان سے بات چیت کے دروازے جلد کھولے کیونکہ انھیں بھی معلوم ہے کہ معیشت کا بیڑا جو غرق ہوا ہے۔ اس میں ان کا کس قدر ہاتھ ہے۔ مخالف پارٹیاں اور حکومتی رہنما دونوں اپنی پوزیشن سے پوری طرح آگاہ ہیں۔

کیونکہ تحریک چلانے کے لیے اس کے مقاصد عوام کے سامنے پیش کرنا ضروری ہیں۔ کیونکہ اپوزیشن اور حکمرانوں کو اپنے اپنے موقف سے آگاہ کرنے کے لیے عوام کے پاس جانا ضروری ہے۔ مگر دونوں عوام کے قریب جانے سے گریزاں ہیں لہٰذا نہ تحریک چلے گی اور نہ ہی حکومت اتنی مضبوط ہے کہ ہلکی پھلکی تحریکوں کو بھی برداشت کرسکے گی۔ صورتحال یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے یہ اعلانات ہوتے ہیں کہ بہترین کاروباری مواقع پاکستان میں موجود ہیں۔ حالانکہ ہر روز ڈالر روپے کو چاروں خانے چت کرکے فتح مند ہو رہا ہے۔

ایسی صورت میں ایسے ملک میں کون سرمایہ کاری کرے گا بلکہ خطرات یہ ہیں کہ صنعتیں کس طرح اپنا وجود برقرار رکھ سکیں گی کیونکہ گیس اور فیول کے چارجز ہر روز بڑھ رہے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو رفتہ رفتہ موجودہ صنعتیں بھی تباہی کے دہانے تک پہنچ جائیں گی۔ اور پاکستان امپورٹڈ اشیا کی ایک بہت بڑی مارکیٹ بن جائے گا۔ ملک میں موجود سپر اسٹور اس کام میں امپورٹڈ کاروباری افراد کے ساتھی بنے ہوئے ہیں۔ سوئیٹنر سے لے کر شیمپو تک سپر اسٹور میں امپورٹڈ مل رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ وقت قریب آ پہنچا ہے جب ہوم میڈ پروڈکٹس کا دیس نکالا ہوجائے گا جس کے عوض بیروزگاری کی ایک بڑی فوج تیار ہو جائے گی۔ دوسری جانب اسٹاک مارکیٹ بھی ایسے جھٹکے کھاتی رہے گی جیسے کہ معاشی زلزلہ آن پہنچا ہے۔

اگر صورتحال میں محض ٹیکس وصولیابی کو ہی بنیادی مقصد کے طور پر اہم پوزیشن دی جاتی رہی اور انڈسٹری کے استحکام کے لیے کوئی کام نہیں کیا گیا تو پھر قرضوں کی واپسی کا عفریت اس موقعے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں نہ حزب موافق کچھ کرسکے گی اور نہ ہی حزب مخالف۔ مسٹر زرداری نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ حساب کتاب کا قلم دان بند کیا جائے اور بات چیت کے ذریعے مسئلے کو حل کیا جائے۔ جس کو انھوں نے میثاق معیشت کا نام دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مسٹر زرداری کی اس تجویز کا حکومت کس انداز میں جواب دیتی ہے۔

کیونکہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی سیاسی اور معاشی قوت سے محروم ہیں اور دونوں کو ہی عوام کی حقیقی حمایت حاصل نہیں ہے۔ البتہ مولانا فضل الرحمٰن چونکہ ایک مذہبی لیڈر بھی ہیں وہ بڑھ بڑھ کر حکومت کو ڈپٹ رہے ہیں اور یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ پشتون قوم کے بڑے رہنما ہیں۔ ان کی مذہبی حیثیت تو مسلم ہے مگر سیاسی اور اقتصادی معاملات پر ان کی گرفت مضبوط نہیں۔ کیونکہ ان کی پارٹی نے سیاسی اور اقتصادی معاملات پر کوئی تحریک نہیں چلائی ہے بلکہ ملک کے غریب طبقات کے لیے ان کی جدوجہد ناکافی رہی ہے۔ اس موقعے سے جہاں اور لوگوں نے اپنی اپنی آرا پیش کیں تو یہاں سوشل میڈیا نامی جو مبصرین ہیں وہ بھلا کیوں دور رہتے۔ انھوں نے قیاس آرائیوں کا مینار کھڑا کردیا ہے۔

بقول ان کے مولانا فضل الرحمٰن دینی مدارس کے طلبا کو احتجاج کے لیے منظم کر رہے ہیں جب کہ ایسا ممکن نہیں کیونکہ احتجاج کے لیے عوامی معاملات کو سرفہرست رکھنا ضروری ہے۔ بجلی اور گیس کئی کئی بار قیمتوں کے حصار سے باہر نکل چکے ہیں۔ لوگوں کی قوت برداشت جواب دے چکی ہے خصوصاً غریب اور متوسط طبقات کسی بہتر وقت کی تلاش میں ہیں لیکن ان کا اعتماد ان پارٹیوں پر بالکل نہیں جن کو پی ٹی آئی نے مہنگائی کا اصل محرک قرار دیا ہے۔

سیاسی حلقوں میں یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ میثاق معیشت کا مطلب کچھ لے دے کر سیاسی لیڈروں کو آزاد کردیا جائے جس کو نئے قسم کا این آر او کہا جا رہا ہے بلکہ سوشل میڈیا نے تو مبالغہ آرائی کی حد کرتے ہوئے یہ عندیہ دیا ہے کہ ہر لیڈر پچاس سے سو ارب ڈالر لوٹانے پر تیار ہے مگر مشکل یہ ہے کہ وہ کس طریقے سے لوٹائے کسی ملک کے حاکم کو واسطہ بناکر ایسا کیا جاسکتا ہے۔ لیکن حقیقتاً یہ باتیں محض باتوں کی شکل میں ہیں مگر یہ بات تو سامنے آچکی ہے کہ آل پارٹیز کمیٹی کوئی ایسی قوت نہیں ہے جو عوام کو حکومت کے خلاف کھڑا کرسکے۔ بجٹ کے مسئلے کو ہی لے لیں۔

اپوزیشن نے جو دنگل سجایا تھا وہ نورا کشتی کا ایک مظاہرہ تھا لہٰذا کسی تحریک کا کوئی امکان نہیں۔ البتہ خفیہ گفت و شنید، لین دین کے امکانات ہمہ وقت موجود ہیں۔ اس لیے عوام بھی اس تحریک سے لاتعلق ہیں۔ مگر روزافزوں گیس اور بجلی کے ریٹ میں اضافہ پاکستان کو ایسے ملک کی شکل کی طرف لے جا رہا ہے جہاں صنعتیں ترقی نہ کرسکیں گی بلکہ بند ہوتی چلی جائیں گی کیونکہ مصنوعات کی قیمت امپورٹڈ آئٹم سے کہیں زیادہ ہوگی۔

لہٰذا ملک امپورٹڈ مصنوعات کی زد میں آجائے گا۔ اور بے روزگاری کا طوفان خود حکومت کے گرد گھیرا ڈال کر اس کے زوال کا باعث بن جائے گا۔ پاکستان جس منزل سے گزر رہا ہے اس میں کنفیوژن کے سوا اور کچھ نہیں۔ ایسے حالات پیدا ہوگئے ہیں کہ روپیہ نحیف تر اور ڈالر عظیم تر ہوتا چلا جائے گا۔ اپوزیشن رہنماؤں اور کسی حد تک موجودہ حکومت کی دین ہے لہٰذا جو تحریک چلا رہے ہیں ان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ عمران خان کی حکومت عوام کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوگئی ہے کہ موجودہ کساد بازاری اپوزیشن رہنماؤں کی دین ہے لہٰذا تحریک کچھ عرصے تک تو ممکن نہیں مگر یہ شاید کوئی اور چلائے۔

جہاں تک زرداری صاحب کی تجویز میثاق معیشت جو حکومت کو دی گئی تھی اس کا جواب چند جملوں میں عمران خان نے یہی دیا ہے کہ پیسے لوٹا دو اور ملک سے باہر چلے جاؤ۔ این آر او نام کی کوئی چیز اب ممکن نہیں ہے۔ بس اب صورتحال یہی ہے کہ معیشت کا پہیہ جس تیزی سے الٹا گھوم رہا ہے اس کو قابو کرنا نہ حکومت کے اختیار میں ہے اور نہ اپوزیشن کے۔

ایک یہی راستہ رہ گیا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ سوشلسٹ نظام کے کچھ حصے ملاکر ہی ملک خودکفالت کی راہ پر چل سکتا ہے۔ جس میں اولین حل زرعی اصلاحات کا ہے جس کا آزمانا باقی رہ گیا ہے۔

The post الٹا گھومتا معیشت کا پہیہ appeared first on ایکسپریس اردو.

وزیر اعظم کی حلوہ خور ٹیم

$
0
0

کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میںایک ملک میں انتقال اقتدار کا عجیب طریقہ رائج تھا‘اس زمانے میں حفاظت کی خاطر شہروں کے گرد فصیل ہوا کرتے تھے ‘ جب بادشاہ فوت ہوجاتا ‘تو صبح شہر کے بڑے دروازے کے کھلتے ہی جو مسافر پہلے شہر میں داخل ہوتااس کو تاج پہنا کر بادشاہ بنا لیا جاتا۔

ایک دن خدا کا کرنا کیا ہوا کہ بادشاہ سلامت فوت ہوگئے ‘رواج کے مطابق صبح سویرے تمام وزراء اور امراء سلطنت جمع ہو کر ‘شہر کے بڑے دروازے کے کھلنے کا انتظار کررہے تھے ‘جب دروازہ کھلا تو صرف ایک فقیر باہر بیٹھا  تھا‘ لوگوں نے دوڑ کر اس کو کندھوں پر اٹھا لیا‘ڈھول بجنے لگے اور ’’بادشاہ سلامت زندہ باد‘‘کے نعروں میں فقیر کو شاہی محل پہنچا دیا گیا۔

وزیر با تدبیر نے انھیں بادشاہ بننے کی مبارک باد دی اور ان کو بادشاہی کے طور طریقے بتائے‘ ملازم شاہی خلعت لے کر آیا‘ اس نے ملازم کو اپنی فقیری کی گدڑی اورکشکول دے کر سنبھال کر رکھنے کی تاکید کی ‘شاہی خلعت زیب تن کیا ‘چونکہ رات کا بھوکا تھا اس لیے حکم صادر کیا کہ ناشتے لے آؤ مگر اس میں حلوہ ضرور ہو‘ اس طرح وقت گزرتا گیا۔فقیر چونکہ جنم جنم کا بھوکا تھا اور اسے حلوہ بہت پسند تھا ‘اس لیے قسم قسم کے حلوے کھانے کی فرمائش کرتا رہتا‘صبح حلوہ‘ دوپہر حلوہ‘ شام حلو ہ اور رات کوحلوہ۔

ایک دن وزیر نے ان سے کہا کہ بادشاہ سلامت دشمن سرحد پر فوج جمع کر رہا ہے‘ ہمارے جاسوسوں نے اطلاع دی ہے کہ ان کے ارادے اچھے نہیں ہیں‘ بادشاہ سلامت نے نوکر کو آواز دی ’حلوہ لے آؤ۔وزیر نے ان سے پھر پوچھا کہ ان حالات میں کیا حکم ہے‘بادشاہ سلامت نے کہا کہ وزیر صاحب ان معاملات میں جو تمہارے دل میں آئے کرو‘مجھے صرف حلوہ کھانے دو‘ہفتے کے بعد وزیر نے کہا کہ دشمن کی فوج نے سرحد پار کرکے ہمارے شہروں پر قبضے کرنا شروع کر دیے ہیں۔

بادشاہ سلامت نے سنی ان سنی کرکے نوکر کو آواز دی‘حلوہ۔ چند دنوں کے بعد خبر آئی کہ دشمن کی فوجیں شہر پر شہر فتح کرتے ہوئے دارالحکومت کی طرف بڑھ رہی ہیں‘ فقیر نے آواز دی‘حلوہ۔ایک دن وزیر نے پریشانی کے عالم میں کہا کہ بادشاہ حضور دشمن نے شہر پر قبضہ کر لیا ہے اور اب اس کی فوج محل کی طرف آرہی ہیں۔اس نے نوکر کو حکم دیا کہ جلدی سے حلوہ لے آؤ اور میری گدڑی اور کشکول بھی لے آؤ‘ حلوہ کھانے کے بعد گدڑی پہنی اور کشکول ہاتھ میں لے کر عقبی دروازے کی طرف بھاگا‘وزیر اور مصاحبین نے آواز دی حضور کہاں جارہے ہیں‘اس نے جواب دیا کہ حضور گیا بھاڑ میں‘ میں تو حلوہ کھانے کے لیے یہاںٹہرا تھا‘اب جب دشمن آرہا ہے تو میں یہاں کیا کروں گا‘اب تم جانو اور تمہارا ملک۔ پاکستان بھی ہمیشہ حلوہ کھاکر بھاگنے والے مشیروں اور وزیروں کے قبضے میں رہا ہے۔

اس کہانی کے بعدجنرل مشرف دور کی 7جنوری کی ایک اخباری خبرملاحظہ کیجیے۔’’پاکستان کے دوسرے سب سے زیادہ عرصہ وزیر اعظم رہنے والے شوکت عزیزصاحب اتوار کو لندن کے لیے روانہ ہوگئے ‘ان کی جلدی واپسی کا کوئی پروگرام نہیں ہے‘انھوں نے وزارتی کالونی میں اپنی رہائش گاہ چھوڑ دی ہے‘ تمام بل ادا کردیے اور اپنے اسٹاف کو الوداع کہا‘ان کی اہلیہ بیگم رخسانہ عزیز بھی ان کے ہمراہ تھیں‘وہ لندن میں اپنی بیٹی کی قیمتی رہائش گاہ میں قیام کریں گے۔

وہ دو ہفتے کے بعد سوئیٹزر لینڈ میں ورلڈ اکنامک فورم (WEF)کے اجلاس میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرینگے‘شوکت عزیز کا خلیج کے علاقے میں قیام کا ارادہ ہے‘وہ اپنی ایک سرمایہ کار کمپنی قائم کرنا چاہتے ہیں‘اس کمپنی کا مرکزی دفترمتحدہ عرب امارات میں ہوگا‘وہ اگلے مہینے انتخابات میں اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے بھی پاکستان میں موجود نہیں ہونگے‘کیونکہ ڈیواس (Devas) کانفرنس میں شرکت کے بعد وہ اگلے ماہ سعودی عرب جائیں گے۔ شوکت عزیز صاحب جاتے ہوئے پارٹی کے کسی رہنما سے بھی نہیں ملے‘حالانکہ انھوں نے ان کو وزیر اعظم منتخب کیا تھا‘ انھوں نے بیرون ملک جانے سے قبل صرف صدر مشرف سے ایک دن قبل الوداعی ملاقات کی۔‘‘ ماضی کی اس حلوہ خور فقیر کی کہانی اور شوکت عزیز کے متعلق اس اخباری خبر میں کیا بہت زیادہ مماثلت نہیں پائی جاتی۔؟

خیبر ٹی وی کے ایک مشہور مزاحیہ پروگرام میں اظہار قاضی روپ بدل بدل کر بہت اچھے خاکے پیش کرتا تھا‘ ایک خاکے میں وہ نشئی بنا ہوا ہے‘ایک آدمی سے سوال کرتا ہے تو اس کو دھتکارتا ہے‘یہ جواب میں کہتا ہے کہ دیکھو میں کسی دن پاکستان کا وزیر اعظم بن جاؤں گا‘وہ آدمی ہنسا اور کہا کہ یہ منہ اور مسور کی دال ۔ وہ کہتا ہے کہ دیکھو میرے پاس شناختی کارڈ بھی ہے، اگر معین قریشی بغیر کسی شناختی کارڈ کے پاکستان کا وزیر اعظم بن سکتا ہے تو آخر میں تو پاکستان کا جائز شہری ہوں میں کیوں نہیں بن سکتا؟۔

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

جنگ عظیم کے بعد جب سامراجی ممالک کو نوآبادیات پر فوجی قبضہ قائم رکھنا ناممکن لگا تو عالمی سرمایہ داری نے آ ج دنیا کے غریب اور ترقی پذیر ممالک کو مختلف مالیاتی اداروں کے بندھنوں میں جکڑ رکھنے کے لیے ادارے بنائے‘ یہ مالیاتی ادارے جنگ عظیم دوم کے خاتمے‘ جرمنی اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک کی شکست‘ سوویت یونین کی تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے سرمایہ داری کے متبادل سوشلسٹ  نظام کے خطرے کو بھانپتے ہوئے دنیا کو اپنے دائرہ اثر میں رکھنے کے لیے سامراجی ممالک نے بنائے تھے ان ادارو ں کو عام طور پرآئی ایف آئیز (International Financial Institutions-IFI) کہتے ہیں۔

ان میں اہم ترین جنگ عظیم کے خاتمے کے قریب 1944ء میں صدر روزویلٹ کی بلائی گئی ’’برٹین ووڈز کانفرنس‘‘ کے نتیجے میں بنائے گئے‘ان میں عالمی بینک‘IMFاور GATT (جنرل ایگریمنٹ آن ٹریڈ اینڈ ٹیرف) کے مالیاتی ادارے شامل ہیں‘ان عالمی اداروں کے علاوہ 60ء کی دہائی میں علاقائی ترقی کے نام پر مختلف مالیاتی ادارے بنائے گئے‘جن میںانٹر امریکن ڈیولپمنٹ بینک(IDP)افریقن ڈیولپمنٹ بینک (AFDP)ایشین ڈیولپمنٹ بینک (ADP) وغیرہ شامل ہیں‘ان آئی ایف آئیز نے امیر ملکوں کو مزید امیر اور غریب ممالک کو مزید غربت کے اندھیروں میں دھکیلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہر ترقی پذیر ملک لازمی طور پر ان میں سے کسی نہ کسی مالیاتی ادارے کا مقروض ہوتا ہے اور یہ ادارہ سود کی شکل میں اس کے بدن سے دولت کا آخری قطرہ بھی کھینچنے کے چکر میں ہوتا ہے‘سرمایہ داری نظام نے اپنی ارتقائی دور سے ہی عوام کو لوٹنے کے لیے ادارے بنائے ہیں۔

موجودہ حکومت نے اسد عمر کو وزیر خزانہ بنایا لیکن حکومتی اور پارٹی سطح پر کوئی بھی سپورٹ اس کو نہ دی‘ پارٹی کے اندر ان کی مخالفت ‘جہانگیر ترین کی مضبوط لابی کر رہی تھی اوراس کے علاوہ جنرل مشرف کے معاشی ٹیم کے دو مشیر عشرت حسین اور رزاق داؤد کو ان کے کندھوں پر سوار کر دیا‘ شاید اسد عمر میں پاکستانی عوام کے ہمدردی کے جراثیم موجود تھے ۔عجیب بات تو یہ ہے کہ ملک کے معاشیات کی ریڑھ کی ہڈی یعنی FBRکا چارج شبر زیدی کے حوالے کردیا گیا‘ موصوف بڑی بڑی کمپنیوں کے ٹیکس مشیر رہے ہیں‘ ٹیکس بچانے کے طریقے بتانے والے کو ٹیکس بڑھانے پر لگا دیا‘‘ باقر رضوی کون ہے کہاں سے آیا ہے؟۔ ملک کے 22کروڑ عوام کی معاشی زندگی کی رسی ان لوگوں کے ہاتھوں میں دے دی ‘ان لوگوں یا ماہرین کا کوئی تعلق عوام سے نہیں ہے ‘ان کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا۔رزاق داؤد صاحب نے مہمند ڈیم کا ٹھیکہ حاصل کیا اور عمران خان کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی ‘یہ سب ماہرین کسی کو بھی جوابدہ نہیں ہیں۔

صدر ایوب کے وزیر خزانہ شعیب خان سے لے کر آج تک ملکی معیشت ہمیشہ سامراجی اداروں کے ملازموں  کے ہاتھ میں رہی۔اسحاق ڈار شاید واحد با اختیار دیسی وزیر خزانہ تھے اور حقیقت یہ ہے کہ انھوں سے سب سے اچھے طریقے سے معاشی نظام کو چلایا‘موجودہ معاشی ٹیم کی قابلیت کے قصے تو بڑے مشہور تھے‘انھوں نے بڑے آسان طریقے سے پیسے پیدا کرنے کا فارمولا استعمال کیا‘ نہ پیداوار بڑھائی‘نہ برآمدات پر توجہ دی‘نہ کاروبار کو وسعت دینے کا فارمولا بنایا‘ نہ بزنس سرکل کو اعتماد میں لیا بلکہ کلہاڑی اٹھائی اور ہر طرف گھمائی جو بھی سامنے آیا اس کو کاٹ دیا‘معاشی مسائل کو حل کرنے کا بہترین اور آسان ترین طریقہ‘عوام کی چمڑی اتارو‘جو بھی دو پیسے کماتا ہے اس سے بھتہ لو‘ڈر تو یہ ہے کہ یہ معاشی پہلوان تو شوکت عزیز اور معین قریشی کی طرح چلے جائیں گے لیکن غریب عوام کے آیندہ نسلوں کو بھی مقروض کردیں گے‘ان کا تو ایک ہی نعرہ ہے کہ حلوہ لاؤ اور جب بحران آئے گا تو کہیں گے کہ ہماری گدڑی لے آؤ۔

The post وزیر اعظم کی حلوہ خور ٹیم appeared first on ایکسپریس اردو.

کھانے اچھے کھلاتا ہے

$
0
0

مرحوم میاں تقویم الحق کاکا خیل ایک بے مثل عالم، اسکالر اور دانشور تو تھے ہی لیکن بہت کم لوگوں کو علم ہو گا کہ وہ اخروٹ کی طرح باہر سے سخت اور اندر سے بہت نرم اور میٹھے بھی تھے، خاص خاص مواقع پر یا خاص دوستوں میں شوخی اور مزاح کے ایسے ایسے شگوفے چھوڑتے تھے کہ جو کہاوتوں کی شکل اختیارکر لیتے تھے۔

ان کی علمیت اور اثر پذیری کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ایک مرتبہ اکادمی ادبیات پاکستان کے ایک کئی روزہ سیمینار میں جب انھوں نے خوشحال خان خٹک پر اپنا مقالہ پڑھا تو ان کے بعد ’’سجاد حیدر‘‘ کی باری تھی جو مشہور شاعر ادیب اور ریڈیو پاکستان کے سابق کنٹرولر تھے۔ لیکن انھوں نے اسٹیج پر آ کر مقالہ پڑھنے کے بجائے کہا کہ میاں صاحب کے مقالے کے بعد میرا مقالہ سنانا سورج کے سامنے دیا جلانے کی طرح ہو گا۔

اس لیے میں میاں صاحب اور ان کے مقالے کے احترام میں مقالہ نہیں سناوں گا۔ میاں صاحب کے مزاحیہ تبصرے چند لفظی  ہوتے تھے لیکن اثر پذیری میں تقریروں پر بھاری ہوتے۔ ایک محفل میں کچھ نوجوان ان سے استفادہ کر رہے تھے۔ موضوع شعر و ادب کا تھا کہ درمیان میں ایک نوجوان نے ایک اور بڑی ہستی کے بارے میں پوچھا جو شاعر، ادیب، محقق، دانشور سب کچھ تھے اور تھوڑے ہی عرصے میں بہت نیچے سے ابھر کر ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی چھا گئے تھے۔ تقریباً ہر بڑی پوسٹ پر ڈائریکٹر، چئیرمین یہاں تک کہ کئی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر اور ملکی سطح کی کونسلوں کے چیئرمین بھی بنے تھے۔ نوجوان نے میاں صاحب سے ان کے بارے میں پوچھا کہ وہ کیسے شاعر و ادیب ہیں؟۔ میاں صاحب نے مختصر جواب دیتے ہوئے کہا، بڑے اچھے کھانے کھلاتا ہے۔

تھوڑی دیر بعد نوجوان نے اپنا سوال پھر دہرایا، میاں صاحب میں نے پوچھا ہے کہ وہ کیسے شاعر و ادیب ہیں۔ میاں صاحب نے پھر کہا۔ کھانے بڑے اچھے کھلاتا ہے۔ لیکن نوجوان کی تسلی نہیں ہو رہی تھی اس لیے گفتگو کے ایک وقفے میں پھر پوچھا، میاں صاحب آپ نے بتایا نہیں کہ فلاں صاحب کیسے شاعر و ادیب ہیں۔ میاں صاحب مسکرا کر بولے۔ کیوں نہیں بتایا میں نے کہا نا کہ بڑے اچھے کھانے کھلاتا ہے۔ اور کیا بتاوں؟

آموزی کے لیے نہیں سنایا ہے کہ ’’اچھے کھانے‘‘ کھلانا بھی ایک بہت بڑی صفت ہے لیکن نہ جانے لوگ اور پھر خاص طور پر سیاسی اور سرکاری درباری لوگ اس صفت سے کیوں عاری ہوتے جا رہے ہیں۔ معاملہ بچت کا بھی نہیں ہے جیسا کہ ہاتھی کے دانتوں کی طرح دکھایا جا رہا ہے۔ ایسی بچت ہم نے ایک مرتبہ پہلے بھی دیکھی تھی کہ جب ایم ایم اے کو خلاف توقع بہت زیادہ ’’شکار‘‘ ملا تھا اور انھوں نے جناب اکرم خان درانی کو وزیراعلیٰ منتخب کیا تھا۔ درانی صاحب نے دوسرے تیسرے دن جب کہ ابھی ان کی نوخیز داڑھی نے تازہ تازہ جنم لیا تھا، چند صحافیوں کو بلوایا تو اس ڈنر میں سادگی کی انتہا تھی۔

ون ڈش ڈنر ہی سمجھ لیجیے۔ اور ہم اس ’’ابتدائے عشق‘‘ کو دیکھ کر خوش بھی بہت ہوئے تھے۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوا کیسے ہوا کتنا کتنا کہاں کہاں ہوا اس کی تفصیل ہمیں تو معلوم نہیں شاید اکرم درانی اور حاجی غلام علی جانتے ہوں گے۔ ہم بھی سارا سال تاجروں دکانداروں اور ہر قسم کے ’’فروشوں‘‘ سے زیادہ رمضان کا انتظار کرتے تھے کہ اس مبارک مہینے میں انجن اتنا تازہ دم ہو جاتا تھا کہ دوسرے رمضان تک چلتا رہتا تھا۔ لیکن اس مرتبہ راہ تکتے تکتے آنکھوں کے ڈیلے تھک گئے لیکن دل کے دروازے پر ٹھک ٹھک نہیں ہوئی۔

کھانے کے سلسلے میں بہت کچھ مشہور ہے۔ اس کے فوائد اور ویئر اباوٹ کون نہیں جانتا۔ یہاں تک کہ بزرگوں نے کہاہے کہ ’’دل‘‘ تک جو راستہ جاتا ہے وہ پیٹ کے گیٹ وے سے جاتا ہے اگرچہ بزرگوں نے اپنی طرف ڈنڈی مارتے ہوئے ’’مرد‘‘ کے دل اور پیٹ کی بات کی ہے لیکن ایسا کوئی دل نہیں ہے جس تک پہنچنے کے لیے واحد راستہ پیٹ سے ہو کر نہ جاتا ہو۔ اور کھانا کھانے والوں کو ہم یہ تسلی بھی دیتے ہیں کہ ہم نہ نمک حرام ہیں نہ شکر حرام اس لیے بلا خوف و خطر ہمیں کھلا سکتے ہیں۔

کچھ نہ کسی سے بولیں گے

چپکے چپکے ٹھونس لیں گے

ایک کہانی دم ہلا رہی ہے، اس سے بھی نمٹ لیتے ہیں۔ پرانے زمانے کی پشتون روایات میں سے ایک روایت بھی تھی کہ جس گھر میں غمی ہو جاتی تھی اور بے تحاشا مہمان آنے لگتے تھے تو گاؤں محلے کے لوگ اپنی استطاعت کے مطابق ایک دو یا چار پانچ دس مہمان لے جا کر اپنے ہاں خاطر تواضع کرتے تھے تا کہ غمی والے گھر پر بوجھ نہ پڑے۔ ایسی ہی ایک سچوئیشن میں ایک صاحب آ کر بولے کہ میری صرف ایک مہمان کی استطاعت ہے اور مہمان بھی ایسا ہونا چاہیے جس کی ماں سو روپے میں بیاہی گئی ہو۔

اس زمانے میں لڑکی کا باپ لڑکے والوں سے معاوضہ وصول کرتا تھا جو لڑکی کی صفات کے مطابق ہوتا تھا اور ’’ولور‘‘ یا ’’ورور‘‘ کہلاتا تھا۔ یہ اچھا تھا یا برا اس پر بحث نہیں کریں گے لیکن کم از کم جہیز سے اچھا تھا کہ آخر پلی پلائی ایک عدد عورت اس کے حوالے کی جاتی تھی لیکن جہیز میں تو ’’لڑکی‘‘ والوں سے جہیز یوں مانگا جاتا ہے جسے وہ غلاظت کی ٹوکری ہو اور غلاظت اٹھانے والے اسے ٹھکانے لگانے کا معاوضہ وصول کر رہے ہوں، خیر اس شخص کی شرط پر ایک نوجوان اٹھا کہ ہاں میری ماں سو روپے کے عوض بیاہی گئی ہے۔

وہ شخص اسے لے گیا اور تھوڑی دیر بعد ایک رومال میں مکئی کے ایک دو بھنے ہوئے ’’بھٹے‘‘ پیش کرتے ہوئے بولا ، یہی میری استطاعت ہے اور میں اس لیے ایسا مہمان چاہتا تھا جو مجھے بعد میں رسوا نہ کرے اور لڑکے نے ایسا ہی کیا ۔کسی کو کچھ نہیں بتایا کہ میں نے کیا کھایا ہے۔ اپنے گھر پہنچ کر اپنے باپ کے پوچھنے پر بتا دیا اور باپ نے کہا، بے شک تمہاری ماں کے سو روپے دیے تھے لیکن ان میں سے ایک روپیہ کھوٹا نکلا تھا اور اگر وہ ایک روپیہ بھی پورا ہوتا تو تم مجھے بھی نہ بتاتے۔ اس سے یہ نتیجہ ہرگز مت نکالیے گا کہ یہ ’’بھٹوں‘‘ کے لیے حسن طلب ہے۔

The post کھانے اچھے کھلاتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

معاشی بریک تھرو کے امکانات و توقعات

$
0
0

مشیرخزانہ حفیظ شیخ نے ایمنسٹی اسکیم سے حاصل ہونے والے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو تاریخ کی کامیاب ترین اسکیم قراردیا ہے ۔ ان کے مطابق ایمنسٹی اسکیم میں ایک لاکھ سے زائد افراد پہلی بارٹیکس نیٹ کا حصہ بنے، ایک لاکھ 37 ہزار افراد نے فائدہ اٹھایا اور 70ارب روپے جمع ہوئے جب کہ تین ہزار ارب کے اثاثے ظاہرکیے گئے۔

اسکیم کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مستقبل میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اورلوگ اپنے کالے دھن کو سفید بناتے ہوئے معیشت میں جائز مقام حاصل کرسکیں، آئی ایم ایف سے ہرسال 2 ارب ڈالر ملیںگے اور 8جولائی تک آئی ایم ایف کی پہلی قسط ایک ارب ڈالر مل جائے گی، اس قرض پر شرح سود3 فیصد ہے، اسٹیٹ بینک کو زیادہ خودمختاری دی ہے، تاکہ وہ انٹرنیشنل بینک کے طور پر ابھرے، دیگر بین الاقوامی اداروں نے بھی پاکستان کو فنڈز ریلیز کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے، ایشیائی ترقیاتی بینک اس سال 2.1 ارب ڈالر دیگا۔

یہ خوش آیند پیش رفت ہے کہ غیر یقینی ایمنسٹی اسکیم کی مشروط کامیابی اور آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرضہ کی منظوری کے نتیجہ میں معیشت نے سنبھالا لیا ہے، ایمنسٹی اسکیم کے اختتام، ایکشن کے آغاز اور اربوں کی بے نامی جائیدادیں منجمد ہوچکی ہیں اور غیر حقیقی صورتحال میں معنوی تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے، اقتصادی استحکام، بہترین منیجمنٹ اور سرمایہ کاری کے امکانات کے ساتھ جاری بحرانی کیفیت کے سدباب میں مدد ملی ہے۔

مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے وزیرمملکت برائے ریونیو حماد اظہر اور چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کے ہمراہ وزارت خزانہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایاکہ رجسٹرڈ ہونے والوں میں زیادہ تعداد نئے لوگوںکی ہے جو کہ اس سے پہلے ٹیکس نظام میں نہیں تھے، کوشش ہے کہ آگے بڑھیں اورایف بی آرکے نظام کو ٹھیک کریں، اس اسکیم میں تین ہزار ارب روپے کے اثاثے ڈکلیئرکیے گئے ہیں۔ مشیر خزانہ کا کہنا تھاکہ آئی ایم ایف نے 6ارب ڈالرکی منظوری دی ہے، پیکیج سے معیشت میں استحکام آئے گا۔

مشیر خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف بورڈکے کسی رکن نے پیکیج کی مخالفت نہیں کی،آئی ایم ایف کا فنڈ بجٹ سپورٹ کے لیے ہوگا، ملک ایک مشکل صورتحال میں ہے۔ تاہم مشیر خزانہ کو ان اطلاعات کے حوالہ سے قوم اور تاجربرادری کو مطمئن کرنا ہوگا کہ آئی ایم ایف نے ایمنسٹی اسکیم کے مقاصد کے برعکس بیانیہ کیوں جاری کیا ۔ پاکستان میں ریزیڈنٹ نمایندہ ٹریسا دابان سانچیز نے اپنے اخباری بیان میں کہا تھا کہ آئی ایم ایف ایمنسٹی اسکیم کو سپورٹ نہیں کرتی کیونکہ یہ قانون پسند ٹیکس دہندگان کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔

بہرحال مالیاتی فنڈ بورڈ کے کسی رکن کا پیکیج کی مخالفت نہ کرنا ایک مثبت طرز عمل ہے جس سے آئی ایم ایف کے پیکیج سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھے گا، ای ڈی بی 3.2ارب ڈالر اضافی پاکستان کو دینے کا سوچ رہا ہے۔ حکومت کو 31ہزار ارب کا قرض ورثے میں ملاہے، بزنس سیکٹر کو اس بجٹ میں مراعات دی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ قرضہ واپس کرنے کے لیے کئی فیصلے کیے گئے ہیں، چین قطراور یواے ای سے ڈپازٹس حاصل کیے ہیں۔

اس موقع پراظہار خیال کرتے ہوئے وزیرمملکت حماد اظہر نے کہا کہ جہاں بھی بے نامی جائیداد ہے پکڑیںگے، قانون کا بلاتفریق نفاذکیا ہے، پی ٹی آئی کا ہوکسی اور جماعت کا سب پر قانون کا اطلاق ہوگا۔ ایمنسٹی اسکیم سے ملکی معیشت کو دستاویزی بنانے میں مدد ملے گی۔ چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کاکہنا تھا کہ انڈسٹری کو ہراساں نہیں کرنا چاہتے، صنعتکاروںکو مہذبانہ طریقے سے کہیں گے کہ ریٹرنزجمع کرائیں، ہمارے پاس پنجاب میں پراپرٹی کا سارا ڈیٹا آ گیا ہے۔

میڈیا سے گفتگو میںشبر زیدی نے بتایاکہ سیاست دانوں پر ایمنسٹی اسکیم کا اطلاق نہ ہونے کیوجہ سے انھیں بے نامی جائیدادیں رکھنے پر نوٹس جاری کیے لہذا جن لوگوںکی بے نامی جائیدادیں منجمدکی گئی ہیں وہ درخواستیں دیکرکلیئرکروا سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے انھیں ثابت کرنا ہوگا کہ ان کی جائیدادیں بے نامی نہیں ہیں، جو بے نامی جائیدادیں ہونگی ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔

شبر زیدی کاکہنا تھاکہ بے نامی جائیدادوں اوران ڈکلیئر میں فرق ہے لہٰذا غیرظاہرکردہ جائیدادیں لوگوںکے اپنے نام ہیں مگر گوشواروں میں ظاہرنہیںکی گئیں وہ ٹیکس ادا کرکے ظاہرکرسکتے ہیں۔ سیاستدانوںکی بے نامی جائیدادیں اس لیے اٹیچ ہو رہی ہیںکیونکہ ان پر ایمنسٹی اسکیم کا اطلاق نہیں تھا۔

اس ضمن میں بھی بعض حقائق کا کلیئرہونا ضروری ہے۔میڈیا کے مطابق ایمنسٹی اسکیم سے آف شور کمپنیوںمیں پڑے 7.5 ارب ڈالر کے حصول میں حکومت کی دلچسپی ختم ہوگئی، بتایاجاتا ہے کہ قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین اسد عمر کی سربراہی میں اجلاس میں ایف بی آر کے ڈائریکٹر جنرل انٹرنیشنل  ٹیکسز محمد اشفاق نے بتایا کہ جنوری کے بعد سے ایف بی آر نے آف شور اکاؤنٹس رکھنے والوں کو نوٹس جاری نہیں کیے۔

ایک میڈیا رپورٹ میں کہا گیا کہ محمد اشفاق نے اجلاس کو یہ کہہ کر حیرت زدہ کردیا کہ جب حکومت ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجرا کرنے کی باتیں شروع کیں تو ہم نے نوٹسز کا اجرا روک دیا تھا ،ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر ابتدائی طور پر ٹیکس کے مقاصد سے ان لوگوں کی آمدنی کا اندازہ نہیں لگا سکا تھا، اس پر سابق وزیرخزانہ اور چیئرمین قائمہ کمیٹی اسد عمر نے صوررتحال پر خفگی کا اظہار کرتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کو ذاتی طور پر اجلاس میں پیش ہونے کی تاکید کی۔

ادھر تازہ ترین حقائق کے مطابق آئی ایم ایف نے نئی شرائط کے ساتھ کہا ہے کہ ریونیو ہدف میں سالانہ 2 ہزار ارب کا اضافہ ہوگا اور روپے کی قدر مارکیٹ طے کریگی، مہنگائی کو مانیٹرنگ پالیسی کے ذریعے کنٹرول جب کہ گیس اور بجلی کی قیمتوں میں سیاسی مداخلت نہیں کی جائے گی ، منی لانڈرنگ، دہشتگردی کی مالی معاونت روکی جائے گی۔

مزید برآں مالیاتی فنڈ نے قرضے کی تفصیلات بھی جاری کی ہیں، یقین ظاہر کیا جارہا ہے کہ عالمی ادارے 38 ارب ڈالر دیں گے، اصلاحات کے سلسلے میں ایشیائی بینک کی مشاورتی خدمات لینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے،بعض ذرایع کے مطابق بے نامی اثاثوں سے متعلق  نوٹس اور میڈیا پر نام  نہ ظاہر ہونے سے تفتیشی افسران کو شدید مشکلات درپیش ہیں۔

مارکیٹ ذرایع نے اطلاع دی ہے کہ آئی ایم ایف پیکیج ملنے سے روپیہ مزید مستحکم ہوا ہے،انٹر بینک میں ڈالر کی قدر میں ایک روپے 5 پیسے کی کمی سے قیمت 156 روپے56 پیسے رہی جب کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 157 روپے پر بند ہوا۔ ایک اطلاع بھی مارکیٹ میں گردش کرتی رہی کہ ایف بی آر ملازمین کی نجی پریکٹس پر پابندی لگ گئی ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے بیروزگاری، غربت ، بھاری بھرکم ٹیکسوں،ضروری اشیائے کے داموں پر عدم کنٹرول اور بے تحاشا مہنگائی پر حکومت کی معاشی پالیسیوں کی کامیابیوں کا ڈھکوسلا قرار دیا۔

ذرایع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض منظوری کے باوجود اسٹاک مارکیٹ میں مندی ، 5  ارب کا نقصان ہوچکا، ملک  کے کئی صنعتی سیکٹرز میں ہڑتالیں جاری ہیں،کاروباری سرگرمیاں سکڑتی جارہی ہیں ، تاجر کاروبار بند کرنے پر مجبور ہیں،دکاندار ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں، انڈسٹری سے وابستہ لوگ کل کی امید پر زندہ ہیں، مگر ضرورت ایک اقتصادی پیش قدمی اور معاشی نشاۃ ثانیہ کی ہے۔مگر اس افق پر سوائے دھمکیوں، نعرہ بازی ، محاذ آرائی اور چپقلش و یکطرفہ احتسابی کارروائی کے کچھ نظر نہیں آتا۔ ریلیف کی تو کوئی بات بھی نہیں کرتا۔

 

The post معاشی بریک تھرو کے امکانات و توقعات appeared first on ایکسپریس اردو.

دامن پر کوئی چھینٹ نہ۔۔۔!

$
0
0

اچھی حکمرانی کا مطلب عوام کی بہتری کے خلاف تمام اقدامات سے آہنی ہاتھ سے نمٹنا ہے اور یہ بات سمجھنے کے لیے کسی ارسطوئی عقل کی ضرورت نہیں کہ ان اقدامات کو روبہ عمل لانے کے لیے ایک ایماندار، محب وطن اور محنتی حکومتی ڈھانچہ ناگزیر ہے۔

اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی خود مختاری ہے جس کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے کی بجائے پچھلی حکومتوں کے طریقہ کار کو ہی اپنایا گیا ہے جس میں عوام کی روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمت میں اضافہ اور طبقہ اشرافیہ پر معمولی ٹیکس یا ٹیکس چھوٹ شامل ہے۔ سیمنٹ اور سریے کی قیمتوں میں بلاجواز اضافہ ہوا ہے بجائے لائن لاسزکم کرنے کے جو 25 سے 30 فیصد ہے اور بجلی چوری روکنے کے بجائے بجلی کی قیمت بڑھا دی گئی ہے۔ یہی طریقہ کار گیس کی قیمت بڑھا کر اختیارکیا گیا ہے جب کہ پچھلے دنوں جو زائد بلوں کی مد میں کروڑوں کی زائد وصولی کی گئی تھی اس کی ریکوری کر کے اس سے بچا جاسکتا تھا۔

ایماندار اور قابل ماہرین معیشت اور سائنسدانوں کی موجودگی میں آئی ایم ایف کو مسیحا مان کر ان کی پالیسیاں اختیار کی جا رہی ہیں۔ کیمرون میں ماہرکیمیا ’’چارکوٹے کوواما‘‘ نے کچرے سے پائیدار سیمنٹ بنانے کا ڈاکٹر عطا الرحمن انعام حاصل کیا۔ اس سیمنٹ کی تیاری میں شیشے کی پرانی بوتلیں، چاول کی پھوگ اور گنے کا چھلکا استعمال ہوگا اور اس کی دوسری خوبی یہ ہے کہ عام سیمنٹ کی تیاری میں 1500 درجے سینٹی گریڈ کی حرارت استعمال ہوتی ہے جب کہ اس کی تیاری میں صرف 700 درجے سینٹی گریڈ حرارت کا استعمال ہوگا اور اس طرح اس کی لاگت میں کمی غریب ممالک کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں مگر سیمنٹ مافیا حکومت کی گود میں بیٹھی ہے اور شوگر مافیا حکومت سے سبسڈی لے کر عوام کے لیے اس کی قیمت بڑھا رہی ہے۔

حکومت کی طرف سے کفایت شعاری اختیار کرنے کی بڑی دھوم ہے مگر ایک اخباری اطلاع کے مطابق وفاقی وزرا کے بنگلوں کی تزئین و آرائش کے لیے متعلقہ محکمے کی جانب سے پندرہ لاکھ کا بجٹ مختص ہے مگر اس کو بڑھا کر ساڑھے پانچ کروڑ کرنے کا مطالبہ سامنے آگیا ہے اور وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس نے اس کو منظور کرتے ہوئے وزارت منصوبہ بندی سے مزید فنڈ مہیا کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اس رقم میں تو نیا بنگلہ بمعہ پلاٹ بن سکتا ہے یا ’’چھپر‘‘ میں صرف تزئین و آرائش بمعہ کفایت شعاری!

قانون کی کسمپرسی کا یہ عالم ہے کہ آپ باوجود ایک عرصہ گزرنے کے، کرپٹ مافیا کو جیل بھجوانے کے ایک دھیلا وصول نہیں کرسکے! اور وہ اور ان کے کارندے سڑکوں پر اور اسمبلیوں میں دندناتے پھر رہے ہیں اور اس طرح تمام حکومتی اقدامات میں منصوبہ بندی اور دانش کا فقدان نظر آتا ہے۔ تعلیم کا حال یہ ہے کہ 25 سے 30 سال کے نوجوانوں کی اکثریت رکھنے کے باوجود ہم ان کی صلاحیتوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا پا رہے۔ حالیہ بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص بجٹ کی رقوم میں نمایاں کمی کردی گئی ہے۔ ممتاز سائنسدان، ماہر تعلیم اور دانشور، ڈاکٹر عطا الرحمن ایک عرصے سے ان تمام معاملات پر حکومت کی توجہ دلاتے رہے ہیں اور سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی پر مبنی پالیسی اختیار کرنے کی اپیلیں کرتے رہے ہیں مگر موجودہ حکومت بھی ان پر عمل پیرا ہونے میں ناکام ہے انھیں ایک اہم عہدہ ضرور دے دیا گیا ہے مگر ایک معقول فنڈ حکومتی ذرایع سے دیے بغیر ان کی پالیسیوں پر عمل درآمد ممکن نہیں۔

انھوں نے اپنے ایک حالیہ اخباری کالم میں بڑے دکھ سے اس امر کا ذکر کیا ہے کہ 2018-19ء کے سالانہ بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص صرف ایک ارب روپے خرچ کیے گئے لیکن اس سے تین سو گنا رقم یعنی 300 ارب روپے لاہور میں اورنج ٹرین کے منصوبے پر خرچ کیے جب کہ سبسڈی کی مد میں ایک خطیر رقم کی ادائیگی ہمیں مسلسل کرنا ہے۔ سرکاری اسکولوں کے مزید قیام اور انھیں بہترین سہولتوں اور بہتر اساتذہ کے تقرر کے بعد پرائیویٹ اسکول مافیا سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے مگر حالت یہ ہے کہ یہی محکمہ سب سے زیادہ کرپشن کا شکار ہے جو تھوڑا بہت فنڈ ملتا ہے وہ بھی کھا پی لیا جاتا ہے۔ ہزاروں روپے لے کر جعلی نااہل افراد کی بھرتیاں کی جاتی ہیں جس میں اعلیٰ حکومتی عہدیدار ملوث ہیں اور آزاد گھوم رہے ہیں اگر کسی پر کیس بن بھی گیا تو ریکوری نہیں ہو رہی ۔

دوسری طرف امیر ترین امریکی شہریوں نے حکومت سے ایک خط کے ذریعے مطالبہ کیا ہے کہ ان پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جائے۔ انھوں نے ممکنہ صدارتی امیدواروں سے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں درکار قانون سازی کی حمایت کریں۔ ان لوگوں کو پتہ ہے کہ امیر لوگوں کے بجائے غریبوں پر زیادہ ٹیکس لگایا گیا تو حالات مزید ابتری کی طرف جائیں گے۔ فرانس میں پیلی جیکٹ والوں کے مظاہرے ایک عرصے سے جاری ہیں کہیں امریکا میں بھی عوام ٹیکسوں میں ناانصافی کے خلاف نہ اٹھ کھڑے ہوں۔ اسی طرح جرمنی میں امیر تاجروں نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی آمدنی پر جو ٹیکس کاٹا جاتا ہے وہ کم ہے اسے بڑھا کر 30 فیصد تک کردیا جائے اس کی وجوہات بھی وہی ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان سے زیادہ ٹیکس وصول ہوگا تو یہ آمدنی متوسط اور غریب طبقے کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوگی اور اس طرح ایک طرف تو ان کے کاروبار میں ترقی ہوگی دوسرے عوامی احتجاج سے محفوظ رہیں گے۔ کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سرمایہ داروں، تاجروں اور مختلف کارٹیلز میں ان واقعات کے لیے کوئی سبق ہے؟

بلاشبہ حکومت نے کچھ اچھے اقدامات بھی کیے ہیں۔ ان میں ملک کی تقریباً 60 فیصد غیر دستاویزی معیشت کو دستاویزی بنانے کا عمل سرفہرست ہے۔ اسی طرح ایمنسٹی اسکیم سے بھی ایک قابل ذکر تعداد کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور ان کے سرمایہ کو ملک میں انویسٹ کرنے سے بہتری کی امید ہے لیکن مسئلہ وہی ترجیحات کا ہے۔

اسپیڈی کورٹس کے ذریعے کرپشن کے پیسوں کی واپسی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ کیونکہ موجودہ عدالتی نظام فرسودہ اور طاقتور کو قرار واقعی سزا دینے میں ناکام ہے۔ مہنگے وکیلوں کی قانونی موشگافیاں اورکیسوں کی طوالت اور اصل دستاویزات اور ثبوتوں کا گم ہوجانا اورگواہوں کا غائب ہوجانا انصاف کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔ سول بیورو کریسی میں بہت بڑی اور فوری اصلاح بہت ضروری ہے ہر شعبے میں قابل ترین اور ایماندار افسروں (جن کی پاکستان میں کوئی کمی نہیں) کا تقرر، پولیس کے محکمے کی ازسر نو تنظیم، ہر حکومتی شعبے میں حقیقی کفایت شعاری، چیک اور بیلنس سسٹم، وزیروں، مشیروں کی فوج ظفر موج کا خاتمہ اور اپنے شعبے میں ماہر وزیروں کا تقرر اور ملک کے تمام قدرتی وسائل سے ایماندارانہ استفادہ بہت ضروری ہے۔

حقیقی صورتحال کے مطابق اسمبلیوں سمیت کسی حکومتی شعبے میں عوامی نمایندگی نہیں۔بین الاقوامی حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں دشمن تاک میں ہے سیاسی انتشار اور معاشی زبوں حالی پر عوام کو ریلیف دیے بغیر قابو نہیں پایا جا سکتا جس کی وجہ سے ملکی سالمیت کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ تحریک انصاف اگر اپنی پارٹی کو منظم اور محنتی اور بے لوث کارکنوں پر مشتمل نہیں ہوتی اور ہر شعبہ کے ماہرین کے تھنک ٹینک بناکر اسے عوامی نمایندگی کی سطح تک نہیں لے جاسکتی تو اس سے ہر توقع بیکار ہے۔

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو!

The post دامن پر کوئی چھینٹ نہ۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.

کیا قوم کو سوال کرنے کا حق ہے؟

$
0
0

فرائض کے بغیر حقوق کا تصور کسی بھی معاشرے میں ممکن نہیں یعنی حق کے ساتھ فرض کی ادائیگی لازم و ملزوم ہے، ٹیکس وصول کرنا ہر حکومت (ریاست) کا حق ہے مگر اس کے بدلے عوام (ٹیکس دہندہ) کو زندگی کی بنیادی و ضروری سہولیات مہیا کرنا بھی ہر ریاست کے اولین فرائض میں شامل ہے۔

دور جدید میں ترقی یافتہ ممالک میں ہی نہیں ترقی پذیر ممالک میں بھی عوام بخوشی یا حکومتی جبر سے ٹیکس ادا کرتے ہیں تو حکومت انھیں، تعلیم، صحت، روزگار اورکاروبار وغیرہ کی مکمل سہولیات فراہم کرتی ہے۔ تعلیم و صحت تو تقریباً لازمی اور ہر طبقے کے لیے یکساں قرار دی جاتی ہے۔ مہذب معاشرے میں ہر بچے کو بنیادی تعلیم مفت اور لازمی مہیا کرنا حکومت کی اولین ذمے داری ہوتی ہے اور صحت کے مقابلے میں بھی پہلے مریض کو ہر طرح کا تحفظ دینا پھر اس کی سہولت و حیثیت کے مطابق اخراجات کے بل وصول کرنا ہے یعنی ’’انسانی زندگی کا تحفظ پہلے‘‘ اس تناظر میں جب ہم اپنے ملکی حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو انتہائی مایوسی ہوتی ہے کہ صحت کے شعبے میں صورتحال بیحد تشویش ناک ہے۔

آئے دن غلط تشخیص اور علاج کے باعث اموات اور معذور ہونے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ معمولی سے لے کر سنجیدہ آپریشن (موت و زندگی کی کشمکش میں مبتلا افراد کے) میں پہلے رقم وصول کرلی جاتی ہے پھر علاج، لاکھوں روپے ادا کرنے کے بعد بھی ورثا کو مریض کی میت تھما دی جاتی ہے۔ بعض صورتوں میں تو معمولی مرض میں مبتلا اپنے قدموں سے چل کر اسپتال آنیوالا غلط دوا یا انجکشن کے باعث منٹوں میں چٹ پٹ ہوجاتا ہے اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔ آئین پاکستان میں ابتدائی (پہلی تا میٹرک) معیاری تعلیم لازمی اور مفت ہر طبقے کے بچے کا بنیادی حق ہے مگر عالم یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں میں بھی تعلیم مفت نہیں، معیار کی تو بات ہی نہ کیجیے۔ ان دونوں شعبوں کی کارکردگی پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’انسانیت منہ چھپانے پر مجبور ہے۔‘‘

موجودہ حکومت ملکی استحکام کے لیے سر توڑ کوشش کر رہی ہے، ہر خرابی کو گزشتہ حکمرانوں کے سر ڈال کر خود ہر ذمے داری سے بری الذمہ ہوتی جا رہی ہے مگر ملکی استحکام خاص کر معاشی استحکام کے لیے جو طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے وہ ایک عام آدمی ہی نہیں ماہرین معاشیات کی بھی سمجھ سے بالاتر ہے یعنی بلا کوئی بنیادی سہولت مہیا کیے، گزشتہ حکومتوں کے ڈسے ہوئے کو ریلیف دیے بغیر ہر چیز پر ٹیکس اور شرح ٹیکس میں بیحد اضافہ کرنے کو ہی تمام مسائل کا حل سمجھ لیا گیا ہے پھر یہ سب کچھ غربت دور کرنے یا ملکی نظام درست کرنے کے لیے نہیں بلکہ قرض کا سود ادا کرنے کے لیے قوم کے ہر فرد کی جیب کاٹی جا رہی ہے، قرض کا محض سود ادا ہو نہیں پا رہا مزید بے تحاشا قرض قوم پر لادا جا رہا ہے، عام شہری کو پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت تک میسر نہیں، پٹرول، کرایوں میں بے پناہ اضافے کے بعد تو امید بھی نہیں کی جاسکتی کہ فی الحال یہ سہولت عوام کو حاصل ہوسکے گی حالانکہ یہ تمام وعدے انتخابات سے قبل ووٹر کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے شد و مد سے کیے گئے تھے مگر حکمران اور ان کے ’’ماہرین‘‘ شاید ’’وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا‘‘ کے پکے سچے قائل ہیں۔

حکومت کے رویے سے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ووٹ دینے تک تمام افراد قوم بیحد معزز، محترم اور قابل احترام تھے مگر اقتدار حاصل ہوتے ہی 22 کروڑ افراد مجرم، چور، بے ایمان اور غداران وطن ہوگئے، صرف وہ چند افراد جو اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہیں سچے، لائق اور محب وطن ہیں، ان کی عقل، صلاحیت اور اپنے اپنے شعبوں میں مہارت کی مثال ملک تو کیا دنیا بھر میں کہیں ملنا مشکل ہے۔ ایسے میں یہ سوچنا کہ کچھ عوامی مفاد اور ضروریات کو مد نظر رکھ کر بھی اقدام کیے جائینگے عبث ہے۔ جب ہر شخص چور ڈاکو بلکہ ملک دشمن ہو تو پھر ان کے لیے کچھ کرنا بھی غداری کے زمرے میں ہی آئیگا۔ ملکی صورتحال کچھ ایسی ہے کہ حکومت و عوام کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں، عالمی اداروں کے علاوہ دوست ممالک سے بھی بڑی بڑی رقوم بطور قرض لی جا رہی ہیں اور ملک میں بھی مالیاتی ایمرجنسی کا نفاذ محسوس ہو رہا ہے جو گزشتہ حکومتوں کی لوٹ کھسوٹ سے بھی بڑھا ہوا ہے۔

فرق صرف یہ ہے کہ وہ خاموشی سے اداروں اور ترقیاتی منصوبوں کے نام پر لوٹ رہے تھے (مگر عوام کو کچھ دے بھی رہے تھے) عام آدمی صورتحال سے بے خبر اپنی سرگرمیوں میں مست تھا مگر اب لگتا ہے کہ پوری قوم کو صرف اپنی جمع پونجی جو اس نے اپنی خواہشات اور ضروریات کو نظرانداز کرکے اپنے بچوں کی تعلیم، شادی یا روزگار اور اپنے آخری وقت کو باآسانی بسر کرنے کے لیے ساری زندگی ترس ترس کر جمع کی تھی کو بچانے کے لالے پڑ رہے ہیں۔

بیچارا ریڑھی والا جو ملک کے کسی طرح کے وسائل کو اپنے کام میں استعمال نہیں کرتا سوائے اس سڑک کے جو اس حال میں ہو کہ اکثر اس کی ریڑھی کسی ناہموار جگہ پر الٹ جائے اور اس پر جو سبزی ترکاری یا پھل وہ میلوں پیدل چل کر گلا پھاڑ پھاڑ کر فروخت کرتا ہے وہ کسی گڑھے میں یا گندے پانی سے بھری سڑک پر پھیل جاتے ہیں انھیں دوبارہ جمع کرکے صاف کرکے وہ جب دیکھتا ہے تو آدھے سے زیادہ مال خراب اور ناقابل استعمال ہوچکا ہوتا ہے اپنی جان پر کھیل کے گلی گلی پیدل چلچلاتی دھوپ اور کڑاکے کی سردی میں پورے دن کے بعد مشکل سے سو پچاس روپے کماتا ہے جس میں بیمار ماں یا بچے کی دوا کے علاوہ کئی افراد کے کھانے کا بندوبست بھی کرتا ہے یہی نہیں ہم نے ’’جان پر کھیل کر‘‘ اس لیے لکھا کہ خود ہم نے کئی بار اوباش لڑکوں یا پولیس اہلکاروں کو اس سے زبردستی پھل یا اس کی دن بھر کی کمائی چھینتے دیکھا ہے فی الحال تو قومی مفاد میں ان کے لیے رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی ہے، آگے دیکھئے کہ ان کے سو پچاس روپوں پر بھی کم ازکم دس فیصد ٹیکس نہ لگا دیا جائے۔ حیرت ہے کہ ہمارے ماہرین معاشیات کو کسی دانشور نے بھکاریوں، گداگروں پر ٹیکس عائد کرنے کا مشورہ کیوں نہیں دیا حالانکہ ان کے پاس سے تو خاصا مال برآمد ہو سکتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں کیا خامی یا خوبی ہے؟ مگر مسئلہ یہ ہے کہ سوال کرنے کا حق تو قوم کو دیا ہی نہیں گیا۔ اس قدر بدترین معاشی صورتحال اور دھڑا دھڑ جہاں جہاں سے ممکن ہو رہا ہے قرض لیا جا رہا ہے تو کیا قوم کو یہ حق نہیں کہ سوال کرے کہ آخر اتنا قرض کس مد میں خرچ ہو رہا ہے اور کن شرائط پر لیا جا رہا ہے؟ کیا ملک کو عالمی اداروں کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے۔ آیندہ ہماری خودمختاری اور آزادی کی صورتحال کیا ہوگی؟ جب قوم کے ہر فرد کو قرض کا صرف سود ادا کرنے کے لیے ہر شے پر ٹیکس اور ہر شے کی قیمت میں ناقابل برداشت اضافے کا بوجھ اٹھانا ہے تو اس کو معلوم بھی ہونا چاہیے کہ وہ یہ سب برداشت تو کرے مگر ملکی صورتحال کے بارے میں اور ان شرائط کے بارے میں اس کو آگاہ تو کیا جائے جن پر یہ قرض لیا جا رہا ہے۔ کیا ہم ایک بار پھر عالمی اداروں یا ترقی یافتہ ملکوں کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالنے جا رہے ہیں؟

جناب وزیر اعظم آپ جو بھی کریں قوم کو اعتماد میں لے کر ورنہ حالات بہت خطرناک ہو جائیں گے اگر قوم کا اعتماد مجروح ہوا تو۔ تاجروں اور صنعتکاروں کو اپنے مشورے میں شامل کیجیے اگر یہ مایوس ہوئے تو لاکھ کوشش کے باوجود قومی معیشت کا پہیہ جام ہونے سے کوئی روک نہ سکے گا اور اس کا نتیجہ سب جانتے ہیں۔ سود ہی ادا کرتے رہیں گے قرض سے نجات ممکن نہ ہوسکے گی۔ اپنے وسائل پر بھروسہ کیے بنا اور صنعتوں میں اضافے کے بغیر۔ تجارت کا فروغ بھی ملکی معیشت کے لیے بے حد اہم ہے۔

The post کیا قوم کو سوال کرنے کا حق ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

زنبیل والے

$
0
0

اردو ادب کی کلاسیکی داستانیں عجب دل آفرینی اور سحر پذیری کی حامل ہیں۔ الف لیلیٰ ہزار داستان ، داستانِ امیر حمزہ ، طلسم ہوشربا، طلسم نور افشاں، قصہ چہار درویش،آرائشِ محفل قصہ حاتم طائی وغیرہ اپنے پڑھنے والے کو ایک عجیب سحر انگیز خیالی دنیا میں لے جاتی تھیں اور لے جاتی ہیں۔

خیر اب تو مطالعے کے رجحان میں مایوس کن حد تک کمی آجانے کی وجہ سے نئی نسل بس شاید ان داستانوں اور ان کے کرداروں کے ناموں سے ہی کسی قدر واقف ہوگی پڑھنے کا اتفاق تو باید و شاید ہی کسی کسی کو ہوا یا ہوتا ہوگا۔کسی نے کیا خوب لکھا ہے کہ اردو ادب چاہے ہزار رنگ بدلے ان طلسمی داستانوں کے کھینچے ہوئے دائرے سے باہر نہیں آسکتا۔ ان ہی قدیم داستانوں کو مغربی دنیا کے ذہین نقالوں نے اپنے اپنے انداز میں مشرف با انگریزی کرکے بڑا نام بنایا اور دام بھی کمائے ہیں۔

پچھلے دنوں ایک انگریزی فلم سیریز ایونجرزکا بڑا چرچہ رہا جوکامکس پر بنائی گئی ہالی وڈ کی ایک فلم سیریز ہے۔ اس کا آخری حصہ پچھلے ماہ اینڈ گیم کے نام سے ریلیز ہوا اور اتنا کامیاب ہوا کہ دنیا بھر میں کمائی کے اعتبار سے ہالی وڈ کی دوسرے نمبر کی فلم قرار پایا۔ میں نے اس سیریز کی چند فلموں کو دیکھا اور احباب سے کہا کہ یہ تو طلسم ہوشربا کو سائنس کا تڑکہ لگا کر اور جدیدیت کا بہروپ دے کر فلمایا گیا ہے تو دوست احباب بڑے خفا ہوئے اور گفتنی و ناگفتنی باتیں کرنے لگے۔ تنگ نظری اور احساس کمتری کے طعنے دینے لگے چنانچہ ہم چپ رہے ہم ہنس دیے منظور تھا پردہ ترا۔

بات ذرا دور نکل گئی تو آمدم برسرِ مطلب جن لوگوں نے طلسم ہوشربا اور داستانِ امیرحمزہ وغیرہ پڑھی ہیں، چاہے اصل زبان یعنی قدیم ودقیق اردو میں یا مرحوم مقبول جہانگیر کی سلیس تلخیص کی صورت میں تو وہ ان داستانوں کے مشہور ترین کردار عمرو عیار سے ضرور واقف ہوں گے۔ عمرو عیار کا کردار ان داستانوں کا دلچسپ ترین اور اہم ترین کردار ہے۔ اس کردار کی کچھ صفات اور خصوصیات ایک اور مشہورِ زمانہ جاسوسی کردار جو ابنِ صفی مرحوم نے تخلیق کیا تھا عمران سیریز والے علی عمران کے کردار میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ گر چہ دونوں کرداروں میں غضب کی مشابہت ہے لیکن دونوں ایک دوسرے سے بیحد مختلف بھی ہیں اور یہ ابن صفی مرحوم کے کمالِ فن کی دلیل ہے۔ تو جناب !عمرو عیار کے پاس ایک عجیب سی چیز ان داستانوں میں دکھائی گئی جسے زنبیل کہتے ہیں۔

زنبیل ایک ایسی چھوٹی سی تھیلی تھی جس میں دنیا جہان کی چیزیں ،مثلا مال و دولت زر و جواہر ڈالتے چلے جائیں وہ کبھی نہیں بھرتی تھی۔ اور جب عمرو عیار کوجیسی ضرورت ہوتی تو دنیا بھر کی اشیاء اس میں سے نکال لیتا تھا۔ زنبیل کے بارے میں جب پڑھا کرتے تھے تو سوچا کرتے تھے کہ یار مصنف نے ایک خیالی اور طلسمی سی چیز ان داستانوں کی دیگر طلسماتی اشیا کی طرح بنادی ہے۔ عملی دنیا میں ایسی کسی چیزکا ہونا ناممکن ہے یا شاید یہ کوئی استعاراتی سی چیز ہے، لیکن فی زمانہ دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں ہمیں پتہ چل گیا کہ یہ کوئی فرضی چیز نہیں بلکہ اس کا وجود ہے اور یہ عملا وطن عزیز میں زیر استعمال اور رو بہ عمل بھی ہے۔

دیکھیں نا فرض کریں کہ اگر قیام پاکستان سے لے کر اب تک کے زمانے کے لیے ایک ماہرینِ معاشیات اور ریاضیات کی ایک ہنر مند آڈٹنگ کمیٹٰی بنائی جائے اور انھیں مین فریم یا سپر کمپیوٹرز بھی برائے حساب کتاب دیے جائیں اور کہا جائے کہ بھیا ذرا پکا حساب نکالو اور آڈٹ کرو کہ آغاز سے لیے گئے قرضہ جات ، امداد اور ملکی آمدنی اور ملک وقوم پر لگائی گئی خرچ کی گئی ،کاغذوں میں نہیں بلکہ حقیقی اور دکھائی دینے والی، رقم کا فرق تو ذرا نکالیں تو مجھے یقین ہے کہ اتنا بڑا فرق سامنے آئے گا کہ ایک دفعہ تو میں فریم یا سپر کمپیوٹر بھی زور سے ٹوں ٹوں ضرورکرے گا۔ اب یہ تقریبا اٹھارہ ہندسوں کی رقم کہاں گئی جو فرق میں سامنے آئے گی تو سادہ سا جواب ہے زنبیل میں۔

اب اگر پوچھا جائے کہ وہ زنبیل کہاں ہے اور کس کے پاس ہے تو یہ ہمارا کمال فن ہے کہ بے چارے عمرو عیار کے پاس تو بس ایک ہی زنبیل تھی لیکن ہمارے فرزندانِ قوم تو ایک نہیں کئی کئی زنبیلیں لیے پھر رہے ہیں، تبھی تو یہ ملک جو نعمتوں اور خزائن سے مالامال ہے آج در درکا بھکاری بنا ہوا ہے۔ زنبیلوں والے سارا میلہ لوٹ کر لے گئے اور ابھی بھی تاک میں لگے ہیں کہ کب موقع ملے تاکہ اور مزید زنبیل بھرائی شروع کی جائے۔ ویسے تو چھوٹی بڑی زنبیلیں سب ہی عیاروں کے پاس ہیں لیکن چند طبقات تو اس معاملے یعنی زنبیل بھرائی میں خصوصی مہارت کے حامل ہیں۔

نام کیا لینا کہ سب ہی جانتے ہیں کہ کون کون سے معشوق ہیں اس پردۂ زنگاری میں۔ اور زنبیل بھرائی میں ان کی مستعدی مہارت اور کمالِ فن اس درجے کا ہے کہ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ان حضرات والا تبارکو دنیا کے کسی بھی خوشحال ترین ملک میں مثلا امریکا ، یورپی ممالک یا عرب ریاستیں کہیں بھی مطلوبہ ٹولز کے ساتھ چھوڑ دیا جائے تو یہ اپنی کامل مہارت سے صرف چند برس میں اس ملک کو عالمی بھکاری نہ بنادیں تو کہیے گا۔ اور اس سے بھی بڑھ کر کمال فن کی انتہا یہ ہے کہ وہ یہ سب کرنے اور اپنی زنبیل بھرنے کے باوجود معزز، بہی خواہان قوم ، درد مند اور مظلوم بھی بنیں رہیں گے۔

کیا بات ہے جی۔ یہ بالکل اسی طرح کی بات ہے کہ ایک مرتبہ دو آدمیوں نے مل کر کاروبار شروع کیا ایک کے پاس پیسا تھا اور دوسرے کے پاس تجربہ کچھ عرصے کے بعد جب دونوں الگ ہوگئے تو پیسہ لگانے والے کے پاس تجربہ آچکا تھا اور تجربہ کار کے پاس پیسہ۔ تو بلکل اسی طرح جب ہمارے یہ ہنر مندان کسی خوشحال اور معاشی طور پر مظبوط ترین ملک پر چھوڑے جائیں گے اور انھیں تھوڑی سی بھی اسپیس مل جائے گی تو کچھ عرصے بعد وہ ملک کرپشن سے نپٹنے کے اقدامات اور زنبیل بھرائی روکنے کے وسیع تجربے سے لیس ہوچکا ہوگا اور بے چارہ اپنی خوشحالی ہمارے ہنرمندوں کی زنبیل میں ڈال کر بد حال ہو چکا ہوگا۔

وہ ہمی ہیں جو تیرا درد چھپا کر دل میں

کام دنیا کے بدستورکیے جاتے ہیں

تو یہ ہماری ہی ہمت اور حوصلہ اور کسی حد تک سادگی اورمشرقی وضع داری ہے کہ سالوں سے ان سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی،کاروباری اور شعبہ ہائے دیگران سے متعلق زنبیل والوں کو نہ صرف جھیل رہے ہیں بلکہ ان کی زنبیلوں کو اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کی خوشحالی کو گروی رکھ کر بھر بھی رہے ہیں۔ اچھا زنبیل کی ایک خاصیت تو بتانا بھول ہی گیا طلسمی داستانوں کے مطابق کوئی کتنا بھی بڑا ساحر، جادوگر ،جن،دیو، عفریت، بلا یا زورآور آجائے وہ عمرو عیارکی مرضی کے بغیر زنبیل سے کچھ نکال یا نکلوا نہیں سکتا تھا۔ تو ہمارے حاملینِ زنابیل(زنبیل کی جمع) بھی یہی صفت رکھتے ہیں۔ بڑے بڑے زورآور بڑے بڑے دعوے کرنے والے مجال ہے کہ زنبیل سے ایک اشرفی بھی نکال سکیں۔ کوشش تو بہت ہو رہی ہے پر دیکھیں کیا گزرے گی قطرے پہ گہر ہونے تک۔

ویسے کچھ خاص امید نہیں ہے کیونکہ یہ زنبیل والے چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے کے قائل اور اس پر عامل ہیں اور ظاہر ہے کہ جوچیز زنبیل میں چلی گئی تو وہ تو گویا نظروں سے غائب ہی ہوگئی نا اب جو چیز موجود تو ہو پرنظر ہی نہ آئے تو پھر اس کا حصول توکارِ دارد ہی ٹھہرا نا۔ اب یہی راستہ رہ گیا ہے کہ صاحبان، زنبیل کی خوب خوشامد درآمد منت سماجت کی جائے دہائیاں دیں جائیں التجائیں کی جائیں تو شاید وہ رحم کھاکر اپنی زنبیلوں سے کچھ تھوڑا بہت حاتم کی قبر کو لات مار کر عطا کردیں، ورنہ زنبیل والوں سے کچھ مل جانا کچھ نکل آنا تو ایں خیال است و محال است وجنوں کے مصداق ہی ہے۔

The post زنبیل والے appeared first on ایکسپریس اردو.


انصاف کے کٹہرے میں !

$
0
0

اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کو قبول نہیں کیا۔ انتخابات میں ’’دھاندلی‘‘کا واویلا اور وزیر اعظم کے لیے ’’سلیکٹڈ‘‘ کی پھبتیاں دراصل اس حکومت کو بے اعتبار کرنے کے سیاسی حربے ہیں۔

یہ سب کچھ اس وقت کیا جارہا ہے جب انتخابات میں دھاندلی ثابت نہیں کی جاسکی۔ لیکن پاکستان میں منصفانہ رویوں کی توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے کہ ہمارے ہاں رائج طرز جمہوریت کو اقتدار تک پہنچنے کے لیے محض ایک رسم سے زیادہ حیثیت حاصل نہیں ، جمہوریت کو سیاسی نظام کی بنیاد کے طور پر کبھی قبول ہی نہیں کیا گیا جب اسی طرز کا نظام کسی بھی ملک میں استحکام اور عوام کی زندگی میں بہتری لاسکتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت حکمران اشرافیہ کے انتہائی محدود طبقے کے جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی ہے، جمہور کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔

اسی لیے عوام کی اکثریت کو تعلیم سے دور رکھا گیا تاکہ ان میں نہ تو اپنے حقوق کا شعور پیدا ہواور نہ ہی وہ ان کا مطالبہ کرنے کے لیے مزاحمت کے قابل ہوسکیں۔ تعلیمی نظام کو سرکاری اور نجی شعبوں میں بانٹ دیا گیا جس میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے برائے نام سرکاری ادارے عوام کے لیے ہیں اور نجی شعبہ اشرافیہ کا خدمت گزار ہے۔ اسی تقسیم نے آج تک اختیار و اقتدار کو دہائیوں سے روایتی جاگیرداروں اور قبائلی اشرافیہ تک محدود کیے رکھا ہے۔

اشرافیہ کے لیے اقتدار اپنی دولت میں اضافے کا ذریعہ ہے اور انھیں صرف اپنے تعیشات اور اثرو رسوخ کے پھیلاؤ سے غرض ہے، ملکی ترقی یا قومی تعمیر ان کے لیے کبھی اہم نہیں رہے۔ انڈسٹرلائزیشن کے لیے تعلیم یافتہ اور ہنر مند افرادی قوت درکار ہوتی ہے جب کہ ہم صارفین کی معیشت میں تبدیل ہوچکے ہیں جس کی بنیادیں ہی قرض پر کھڑی ہیں۔ قرضوں کے لیے آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے بین الاقوامی اداروں کی حوصلہ افزائی نے ہمارے حکمران طبقے کو مزید راہیں دکھائیں۔ اسی لیے جو پاکستانی معاشرہ حقیقی معنوں میں صنعتی پیداوار سیکھنے کے مرحلے میں تھا اسے محض خریداروں کی منڈی میں تبدیل کردیا گیا۔

ملک کے لیے حاصل کی گئی بھاری بھرکم قرض کی رقم حکمرانوں کی جیب میں جاتی رہیں۔ بیرونی قرضوں کے ہولناک حجم کے باعث یہ نوبت آچکی ہے کہ ملکی دفاع، صحت عامہ، تعلیم اور غربت میں کمی جیسے سماجی شعبوں ،انفرااسٹرکچر، زراعت، صنعت میں سرمایہ کاری ہمارے لیے ممکن نہیں رہی اور ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے بھی مزید قرضے درکار ہیں۔

حکمران لوٹ کا مال پُرتعیش طرز زندگی پر صرف کرتے ہیں جس کے لیے مہنگی درآمداتی اشیا خریدتے ہیں لیکن ان کی دولت کا بڑا حصہ آف شور اکاؤنٹس اور بیرون ملک جائیدادوں میں منتقل ہوجاتا ہے۔ ملک قرضوں پر چل رہا ہے اور اس کے زیادہ تر شہری غربت کی لکیر پر یا اس سے بھی نیچے زندگی بسر کررہے ہیں تاہم مٹھی بھر اشرافیہ کرپشن کے مال سے مزے اُڑا رہی ہے۔ دہائیوں تک اس لوٹ مار کا حساب نہیں لیا گیا اور اب حکومت قرضوں اور کرپشن کے اس گٹھ جوڑ کو توڑنے کے لیے دیانت دارانہ کوششیں کررہی ہے۔ احتساب کی جاری مہم نہ صرف معیشت کو درست راہ پر ڈالنے اور لوٹی گئی قومی دولت ملک میں واپس لانے کے لیے ناگزیر ہوچکی تھی بلکہ سماجی انصاف کے نفاذ کے لیے کرپٹ عناصر کو سزائیں بھی دینا ہوں گی۔

گزشتہ کچھ عرصے سے جعلی بینک کھاتوں کے ذریعے دھوکا دہی اور ٹیکس چوری سے بنائی گئی دولت بیرون ملک منتقل کرنے کے ایک انتہائی اہم مقدمے میں تحقیقات جاری ہیں۔ جعلی بینک اکاؤنٹس سے متعلق معلومات اس وقت سامنے آئیں جب ایک خفیہ ادارے نے ایک ممتاز منی چینجر سے تحقیقات کا آغاز کیا حالانکہ اس کارروائی کا مذکورہ معاملے سے کوئی براہ راست تعلق نہیں تھا۔ دسمبر 2015میں ایف آئی اے نے مخصوص بینک اکاؤنٹس سے متعلق تحقیقات کا آغاز کیا جن کے ذریعے کروڑوں روپے منتقل کیے گئے تھے۔ تفتیش کاروں نے ایسے 29اکاؤنٹس کی نشان دہی کی جن میں مجموعی طور پر 35ارب روپے جمع کروائے گئے۔ لیکن یہ محض دیگ کے چند دانے ثابت ہوئے۔ 2018میں تحقیقات کو تیز کرنے کے لیے ایک جے آئی ٹی تشکیل دی گئی۔ اس جے آئی ٹی نے ابتدائی مرحلے ہی میں 11500بینک اکاؤنٹس اور 924کھاتے داروں کی نشاندہی کی۔

تحقیقات کے اہم موڑ پر سابق صدر پاکستان آصف زرداری اور ان کے اہل خانہ کا نام اس معاملے میں سامنے آیا۔ میسز لینڈ مارک اور نیشنل گیس پرائیویٹ لمیٹڈ(این جی ایس)سے متعلق انکشافات سامنے آئے جو کہ پہلے ہی اربوں روپوں کی منی لانڈرنگ کے لیے استعمال ہونی والی کمپنیوں میں اضافہ ثابت ہوا۔ میسز لینڈ مارک آصف زرداری کی ملکیت ہے اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور اور عذرا پیچوہو اس میں شراکت دار ہیں۔ ان کمپنیوں کی تفصیلات ایک کمپیوٹر ہار ڈسک سے حاصل ہوئیں۔ یہ ڈسک کھوسکی میں اومنی گروپ کی شوگر میل پر ایف آئی اے کے چھاپے کے دوران حاصل کی گئی تھی۔

زرداری خاندان ضلع نوابشاہ میں بسنے والے سندھی بلوچ زرداری قبیلے کا سربراہ ہے۔ یہاں اس قبیلے کے پاس ہزاروں ایکڑ زمین ہے جس میں کاشت بھی کی جاتی ہے۔ 1985تک اس قبیلے کے افراد کی تعداد 70ہزار بتائی جاتی تھی جو آج کئی گنا بڑھ چکی ہوگی۔ یہی وہ قوت ہے جو زرداری خاندان کے اثر و رسوخ کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے استعمال ہوئی۔ بھٹو خاندان اور دوسرے بڑے جاگیردار خاندان کے مابین رشتے داری نے مال بنانے اور اسے ملک سے باہر لے جانے کے نئے مواقعے پیدا کیے۔ ایسے بارسوخ خاندان کے لوگوں کو عدالت کے کٹہرے تک لانا چھوٹی موٹی کام یابی نہیں۔

منشیات کے کاروبار کے الزامات میں مسلم لیگ ن کے رانا ثناء اﷲ کی گرفتاری بھی انتہائی اہم ہے۔ حال ہی میں اینٹی نارکوٹیکس فورس(اے این ایف)نے چند منشیات فروشوں کو گرفتار کیا جن سے بہت کچھ معلوم ہوا ۔ شریفوں کے لیے یہ گرفتاری بہت بڑا دھچکا ہے۔ رانا ثناء اﷲ ان کی سیاسی بادشاہت کا اہم ترین مہرہ ہے۔

آج نیب اور عدالتیں زرداری کے خلاف جو کارروائی کررہی ہیں وہ کوئی ذاتی انتقام نہیں، یہ اقدامات ملکی معیشت کی بنیادیں ہلا دینے والی کرپشن اور منی لانڈرنگ کے خاتمے کے لیے ناگزیر ہوچکے تھے۔ کئی چور ابھی تک کھُلے گھوم رہے ہیں جنھیں انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔ لیکن یہ آسان کام نہیں۔ کرپشن کے انتہائی مضبوط ڈھانچے کو توڑنے کے لیے فیصلہ کُن اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس کے لیے جعلی کھاتوں کے ذریعے رقوم کی منتقلی جیسے راستے بند کرنے سمیت کئی دیگر اقدامات کرنا ہوں گے۔

ریاست دیانت داری سے کمائی گئی دولت اور ٹیکس منی کی حفاظت کی ذمے دار ہے، لوٹ مار سے بنائے گئے اثاثوں کا تحفظ اس کا کام نہیں۔ حکمران طبقے کے ہزاروں افراد کو غلط بیانی اور جھوٹ بولنے پر سزائیں دی جاسکتی ہیں اور اسی صورت میں ان سے لوٹی ہوئی دولت نکلوائی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں عدل و انصاف بحال کرنے کے لیے ایسے بے باکانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔

(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

The post انصاف کے کٹہرے میں ! appeared first on ایکسپریس اردو.

بھارت کو افغان حکومت کے راستے پر چلنا چاہیے

$
0
0

پاکستان اور افغانستان دونوں پڑوسی کے علاوہ ہم مذہب بھی ہیں لیکن بدقسمتی سے دونوں ملکوں کے درمیان ہمیشہ سیاسی اختلافات رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ خارجی تعلقات میں افغانستان کا بھارت کی طرف جھکاؤ ہے۔

بدقسمتی سے بھارت کا حکمران طبقہ اپنے روایتی اور اقتصادی مفادات کے حوالے سے بھارت کی طرف زیادہ جھکاؤ رکھتا ہے بلکہ دنیا جن حوالوں، گروپوں میں بٹی ہوئی ہے، افغانستان کا حکمران طبقہ ہمیشہ پاکستان مخالف گروپ سے زیادہ قریب ہے۔ افغانستان بنیادی طور پر ایک قبائلی ملک ہے ، دوستی اور دشمنی کے حوالے سے افغانستان کی سیاست ہمیشہ سے پاکستان دشمنی پر استوار ہے۔ داؤد کے دور حکومت کے بعد افغانستان میں ترقی پسندوں اور رجعت پسندوں کی تفریق بھی شدید رہی نور محمد تراکئی کا شمار اس ترقی پسند حلقے سے رہا ہے جو روس سے سیاسی قربت رکھتا ہے۔

اس حوالے سے افغانستان میں بڑی شدید گروہ بندی رہی ہے۔ نور محمد تراکئی کا تعلق روس نواز حلقے سے ہے اس اختلاف کی شدت کا عالم یہ رہا ہے کہ افغان سرزمین اپنے ہی بیٹوں کے خون سے سرخ ہوتی رہی ،اس خون میں نور محمد تراکئی کا خون بھی شامل ہے اس گروپ بندی میں پاکستان کا کردار عموماً غیر جانبدارانہ رہا ہے لیکن افغانستان کی خارجہ پالیسی کا جھکاؤ چونکہ روس نواز گروپ سے رہا ہے اور بھارت اس گروپ کا ایک اہم ملک ہے لہٰذا پاکستان کے افغانستان سے تعلقات عموماً کشیدہ رہے ہیں۔

عمران خان کی کوشش رہی ہے کہ وہ پڑوسی ملکوں سے دوستی رکھے۔اس حوالے سے افغان صدر  ڈاکٹر عبدالغنی کا دورہ پاکستان ایک خصوصی اہمیت رکھتا ہے جس کا اندازہ اس مشترکہ اعلامیے سے ہوسکتا ہے جو دونوں ملکوں کے سربراہوں عمران خان اور ڈاکٹر اشرف غنی کی ملاقات کے بعد جاری کیا گیا ہے۔ مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے سربراہوں کی ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ باہمی اعتماد اور ہم آہنگی پر مبنی تعلقات کو خطے میں امن و استحکام اور خوشحالی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ ٹرانزٹ ٹریڈ رابطے بڑھائے جائیں گے اور توانائی منصوبے جلد مکمل کیے جائیں گے۔

دونوں ملکوں کے رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ دہائیوں پرانے تنازعات کے حل کے لیے انٹرا افغان مذاکرات کے علاوہ دونوں ملکوں کے حکمرانوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ماضی کو بھلا کر مشترکہ ایجنڈے پر مل کر آگے بڑھا جائے۔ وزیر اعظم عمران خان نے افغان امن عمل کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ملک اپنے تعلقات کو خطے میں امن و استحکام اور اپنے عوام کی خوشحالی کے لیے استعمال کریں گے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے مسائل کا حل صرف پرامن مذاکرات ہیں اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ افغانستان میں امن کے لیے پاکستان نے مذاکراتی عمل کا پورا ساتھ دیا۔ پاکستان افغانستان کی آزادی خود مختاری اور سالمیت کا احترام کرتا ہے۔

افغان عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ روس کی افغانستان میں مداخلت کی وجہ سے خطے میں دہشت گردی فروغ پاتی رہی اور افغانستان اور پاکستان اس وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ امریکا بہادر کی روایتی خودغرضی افغانستان میں بھی بروئے کار آئی جب روس افغانستان سے چلا گیا تو امریکا نے ’’مجاہدین‘‘ کو اکیلا چھوڑ دیا۔ اپنی منزل سے ناآشنا مجاہدین گم کردہ منزل بن کر بے سروپا عمل میں مصروف ہوگئے۔ اس نامعلوم منزل اور راستوں کی دشواریوں میں مجاہدین ایسے گم کردہ راہ بن گئے کہ دوست اور دشمن میں تمیز کھو بیٹھے۔ ضیا الحق کی حماقتوں کے شکار ان مجاہدین نے خود پاکستان کے لاکھوں بے گناہ عوام کو دہشت گردی کی بھٹی میں جلادیا۔

ہندوستان پاکستان پر الزام لگاتا ہے کہ اس نے دہشت گرد پیدا کیے اگر اس الزام کو تسلیم کیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لاکھوں پاکستانی کس کے ستم کا شکار ہوئے۔ یہاں اس دلچسپ حقیقت کی نشان دہی ضروری ہے کہ بھارت پاکستان پر دہشت گردی کے فروغ اور حمایت کا الزام لگاتا ہے لیکن خود بھارت دہشت گردی سے محفوظ ہے۔ جب کہ افغانستان اور پاکستان دونوں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور آج تک ہو رہے ہیں کیا بھارتی حکمران طبقے کے پاس اس المیے کا کوئی جواب ہے؟

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان پاکستانی عوام کو مہنگائی میں مبتلا کرکے جو اہم اور بنیادی کام کر رہے ہیں وہ نہ صرف پاکستان میں سیاسی اور اقتصادی استحکام لائے گا بلکہ خلوص کے ساتھ دونوں ملک خطے میں امن اور خطے کے عوام کی خوشحالی کا مشن پورا کریں تو بلاشبہ یہ خطہ جنگوں دہشت گردیوں اور عدم استحکام سے نجات حاصل کرلے گا۔ اپنی سربراہی ملاقات میں وزیر اعظم عمران خان اور ڈاکٹر اشرف غنی نے کہا کہ ٹرانزٹ ٹریڈ اور دو طرفہ تجارت کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان رابطوں کا فروغ ضروری ہے دونوں رہنماؤں نے دو طرفہ تجارت ٹرانزٹ ٹریڈ رابطوں میں اضافے کے لیے مشترکہ کوششوں کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان اور افغان صدر اشرف غنی نے تجارت کے فروغ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے مشترکہ اقتصادی کمیشن کی خدمات حاصل کرنے پر اتفاق کیا۔ ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے خطے کی مجموعی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان عشروں سے کشیدہ صورتحال اور تنازعات حل طلب ہیں۔ عمران حکومت نے اس سکوت کو توڑتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدہ صورتحال کو مذاکرات کے ذریعے دور کرنے کا عہد کیا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان بھی عرصے سے ڈیڈلاک کی کیفیت برقرار ہے۔ کیا ان دو پسماندہ ملکوں کو اس ڈیڈلاک سے نکلنا چاہیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بھارت کو افغانستان کے راستے پر چلنا چاہیے۔

The post بھارت کو افغان حکومت کے راستے پر چلنا چاہیے appeared first on ایکسپریس اردو.

ہارس ٹریڈنگ، ماضی کی طرف سفر

$
0
0

پاکستان جمہوری عمل میں پیچھے کی طرف سفر کرنے لگا ہے۔ مسلم لیگ کے چند اراکین و قومی و صوبائی اسمبلی کی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات ماضی کی ہارس ٹریڈنگ کی یاد دلارہی ہے۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری کا دعویٰ ہے کہ مزید منتخب اراکین اسمبلی اپنی قیادت کو چھوڑ کر تحریک انصاف سے رجوع کریں گے۔ وفاقی وزراء اس صورتحال کی ذمے داری مسلم لیگ ن کی قیادت اور خاص طور پر میاں نواز شریف پر عائد کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ منتخب اراکین اپنی قیادت کے رویہ سے مایوس ہیں۔ فواد چوہدری دعویٰ کرتے ہیں کہ میاں شہباز شریف صدر ہونے کے باوجود بے اثر ہیں اور مریم نواز کی پالیسی نے میاں نواز شریف کو جیل پہنچا دیا ہے اور میاں شہبازشریف سے اختیارات  چھین لیے ہیں۔ منتخب اراکین مایوسی کا شکار ہیں۔ ان کے پاس برسر اقتدار جماعت سے رابطوں کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

سیاسیات کے استاد فلسفی اور پنجاب کے سابق نگراں وزیر اعلیٰ ڈاکٹر حسن عسکری صاحب نے سیاسیات کے علم آئین کے تقدس اور جمہوری نظام کے عدم استحکام جیسے اہم نکات کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک ٹاک شو میں کہا کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کو اپنے حلقوں میں کام کرانے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس برسر اقتدار حکومت سے رابطے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ سندھ کے گورنر عمران اسماعیل جادوگر ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان ہدایات جاری کریں تو سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت تقسیم ہوجائے گی۔ ایک سینئر صحافی کو جب ایک وفاقی وزیر نے مسلم لیگ ن کے منتخب اراکین کی وزیر اعظم سے ملاقات کی خبر دی تو اس صحافی نے پوچھا کہ ان اراکین کو کتنی رقم دی گئی ہے تو وزیر موصوف خاموش ہوگئے۔

پاکستان کے آئین اور پولیٹیکل پارٹنر ایکٹ کے تحت کوئی منتخب رکن اپنی وفاداری تبدیل کرتا ہے تو اس کو اپنی نشست سے محروم ہونا پڑے گا مگر مسلم لیگ ن کے منتخب اراکین کی وزیر اعظم سے ملاقات اور ان کے حکومت سے تعاون کے فیصلے پر قانون تو حرکت میں نہیں آئے گا مگر برطانیہ کی پارلیمانی روایات کا قدم قدم پر حوالہ دینے والے تحریک انصاف کے قائد سیاسی اخلاقیات کے مطابق ان ملاقاتوں کا کوئی جواز فراہم کرسکیں گے؟ پاکستان میں جمہوری اداروں کے استحکام اور منتخب اراکین کی وفاداریاں تبدیل کرنے کی سیاہ تاریخ ہے۔

مسلم لیگ نے لیاقت علی خان کے قتل کے بعد خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم اور ایک سینئر بیوروکریٹ غلام محمد کو گورنر جنرل مقرر کیا۔ غلام محمد نے فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان کی حمایت سے مسلم لیگ میں توڑ پھوڑ کی۔ آئین ساز اسمبلی کے منتخب رکن خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف کیا اور امریکا میں تعینات پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرا کو وزیر اعظم مقرر کیا۔

وزیر اعظم محمد علی بوگرا نے گورنر جنرل کے اختیارات ختم کرنے کے لیے آئین ساز اسمبلی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا تو کراچی پولیس کو ہدایت کی کہ اسمبلی کا اجلاس منعقد نہ ہوسکے اور محمد علی بوگرا کو وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف کردیا۔ پھر ون یونٹ کے قیام کی منظوری کے لیے سندھ اسمبلی کے اراکین کی وفاداریاں تبدیل کی گئیں۔ میرغلام علی تالپور کو گرفتار کرکے تھرکے گاؤں میں مٹھی میں نظر بند کیا گیا۔

گورنر جنرل اسکندر مرزا نے راتوں رات ریپبلک پارٹی قائم کی۔ خدائی خدمت گار تحریک کے سربراہ ڈاکٹر خان صاحب اور مسلم لیگ کے بہت سے رہنماؤں کو ریپبلک پارٹی میں شامل کیا گیا اور برابری کا اصول نافذ کرکے مشرقی پاکستان کی اکثریت کو ختم کیا گیا۔ اسکندر مرزا ریپبلک پارٹی اور مسلم لیگ اور عوامی لیگ کے رہنماؤں کو لڑا کر اقتدار پر قابض رہے۔ اس لڑائی میں مارشل لاء نافذ کیا اور ایوب خان کے لیے اقتدار کا راستہ مکمل طور پر کھل گیا۔

ایوب خان کو مارشل لاء ختم کرنے اور اپنی حکومت کو سویلین بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی تو چوہدری خلیق الزماں کی تجویز پر وہ خودساختہ طور پر مسلم لیگ کے صدر بن گئے اور مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں کے اراکین کو ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ میں شامل کیا گیا۔ ایوب خان کی مخالف مسلم لیگ کونسل کہلائی۔ صدارتی انتخابات میں دھاندلی کر کے فاطمہ جناح کو شکست دی گئی اور ذرایع ابلاغ سے یہ تاثر دیا گیا کہ کنونشن مسلم لیگ ہی سب سے بڑی جماعت ہے مگر جب 1968ء میں ایوب خان کی آمریت کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی تو کنونشن مسلم لیگ بکھر گئی۔

یحییٰ خان نے جب مارچ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے خلاف آپریشن شروع کیا اور عوامی لیگ کی قیادت کلکتہ منتقل ہوئی تو حکومت نے عوامی لیگ کے کچھ اراکین قومی اسمبلی کے بارے میں اعلان کیا کہ یہ اراکین ایکشن کی حمایت کررہے ہیں مگر بعد میں یہ دعویٰ جھوٹا ثابت ہوا ۔ 1973ء کے آئین کے نفاذ کے ساتھ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ نافذ کیا گیا تاکہ منتخب اراکین اپنی وفاداریاں تبدیل نہ کریں مگر جب بھٹو حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی کی بلوچستان میں حکومت کو برطرف کیا اور نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کردی تو بلوچستان کے بعض اراکین اسمبلی دباؤ میں آکر پیپلز پارٹی کی حکومت کی حمایت پر مجبور ہوئے مگر پولیٹیکل پارٹرایکٹ کی بناء پر وہ اپنی سیاسی جماعت تبدیل نہیں کرسکے۔

جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کیا اور منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کا مقدمہ چلا تو مولانا کوثر نیازی نے پیپلز پارٹی سے علیحدگی اختیارکر کے پروگریسو پیپلز پارٹی قائم کی۔ پیپلز پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے اراکین یاسین وٹو، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے قریبی عزیز نواب صادق قریشی پیپلز پارٹی سے علیحدہ ہو کر نئی جماعت میں شامل ہوئے مگر سیاسی تاریخ میں غائب ہوگئے۔ 1985ء سے 1999ء تک مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے ہارس ٹریڈنگ کی پالیسی اختیار کی۔ میاں نواز شریف کو وزیر اعلی بنانے کے لیے اراکین صوبائی اسمبلی کو چھانگا مانگا لے جایا گیا۔

1988ء میں پیپلز پارٹی کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تاریخ میں پہلی دفعہ قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی۔ سابق وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی نے اس امید پر کہ پیپلز پارٹی کے اراکین اپنی وفاداری تبدیل کریں گے اس تحریک اعتماد میں جوش و خروش سے حصہ لیا۔ کہا جاتا ہے  کہ اراکین اسمبلی کی خریداری کے لیے اسامہ بن لادن نے خطیر رقم مہیا کی ، یہ عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوگئی۔ پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت میں سرحد کے مسلم لیگی اراکین کو پیپلز پارٹی کی حمایت کرنے پر خریدا گیا تو شیرپاؤ وزیر اعلیٰ بنے۔ یہ مقدمہ سپریم کورٹ تک گیا۔

پرویز مشرف نے 2002ء میں عام انتخابات کرائے تو پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں مگر پیپلز پارٹی کے اراکین کو توڑ کر پیپلز پارٹی پیٹریاٹ قائم کی گئی مگر 2008ء میں یہ جماعت لاپتہ ہوگئی۔ پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان میثاق جمہوریت ہوا تو دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ منتخب اراکین کی خریدو فروخت سے جمہوری نظام کمزور ہوتا ہے۔ اس بناء پر مستقبل میں دونوں جماعتیں منتخب اراکین کی خرید و فروخت نہیں کریں گی تاکہ سیاسی نظام مستحکم ہو۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے میثاق جمہوریت کا پاس کیا اور یہ عہد کیا کہ ہر منتخب حکومت اپنی آئینی میعاد پوری کرے گی اور دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی حکومت گرانے کی کوشش نہیں کریں گے۔

اس میثاق کی بناء پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی مگر اب تحریک انصاف کی حکومت اراکین اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ برسراقتدار جماعت کے اراکین قومی اسمبلی کا کہنا ہے کہ وفاقی بجٹ کے حق میں ووٹ دینے کے لیے ان پر دباؤ کے لیے ان کے ضلع کے سول اور پولیس افسران کو دباؤ کے لیے استعمال کیا گیا۔ سیاست کے طالب علموں کا کہنا ہے کہ جب بھی کسی جماعت کے اراکین کی وفاداریاں تبدیل  ہوتی تھیں اس وقت بھی وفاقی اور صوبائی وزراء نے وہی دلائل دیے جو فواد چوہدری اور دیگر وزراء دے رہے ہیں۔ بظاہر تو یہ حکومت کے اقتدار کو مضبوط کرنے کی کوشش تھی مگر عملاً اس طریقہ کار سے جمہوری نظام کو کمزور کرنے کا عمل شروع ہوگیا۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ کے رہنما رانا ثناء اﷲ کی منشیات مقدمہ میں گرفتاری نے ذوالفقار علی بھٹو دور میں مسلم لیگ ن کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے والد چوہدری ظہورالٰہی کی بھینس چوری میں گرفتاری کی یاد تازہ کردی۔ سیاسیات کے طالب علم کہتے ہیں کہ ملک میں فاشزم کے سائے گہرے ہورہے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کو ملک کی سیاست سے سبق سیکھنا چاہیے اور اس حقیقت کو محسوس کرنا چاہیے کہ دباؤ یا لالچ کی بناء پر قریب آنے والے اراکین کسی کے وفادار نہیں ہوتے بلکہ یہ اپنے مفاد کے لیے جمہوری نظام کوکمزور کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کو تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان ہونے والے میثاق جمہوریت سے ملک کی سیاسی فضاء بہتر ہوئی تھی اور جمہوری نظام مستحکم ہوا تھا۔ جاوید ہاشمی سمیت کئی اراکین اسمبلی نے اسمبلی سے استعفیٰ دیا تھا پھر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔ مگر اب پھر 50ء کی دھائی کی تاریخ دھرانے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے وفاق کو شدید نقصان پہنچے گا۔

The post ہارس ٹریڈنگ، ماضی کی طرف سفر appeared first on ایکسپریس اردو.

ہم ایک دوسرے کے لیے عذاب ہیں!

$
0
0

سول سروس میں میرے سے پانچ سال سینئر افسرکے ساتھ ایک سانحہ پیش آگیا۔جب بلوچستان میں ڈی سی تھے توایک سڑک بنوائی گئی۔ اس وقت ضلع کونسل کے انچارج بھی تھے۔ٹھیکیدارکی کوتاہی کی بدولت سڑک کی تعمیرمیں کئی نقائص رہ گئے۔بلوچستان کے ایک ادارے نے تحقیق کی۔ اس طرح افسر مصیبت کاشکارہوگیا۔انھیں گرفتارکرلیا گیا اور کوئٹہ جیل منتقل کر دیاگیا۔ اس حادثے سے پہلے انھیں بالکل نہیں جانتا تھا۔ صرف نام سن رکھاتھا۔

ضمنی بات کرتا چلوں۔ اس افسرکاتعلق لاہورسے تھا۔ابتدائی تعلیم کے لیے ایچیسن کالج میں پڑھتا رہا تھا۔حددرجہ لائق انسان۔ذاتی محنت کی بدولت اسکول میں ہمیشہ بہترین نمبرحاصل کرتا رہا۔یہی صورتحال گورنمنٹ کالج لاہوراورپنجاب یونیورسٹی میں رہی۔ دونوں جگہ ہمیشہ اول پوزیشن حاصل کی۔مقابلہ کاامتحان یعنی سی ایس ایس دیاتواس میں بھی اول پوزیشن حاصل کی۔ عرض کرنے کامقصدیہ کہ کمال ذہین آدمی تھا۔

بات کوئٹہ کی ہورہی تھی۔کوئٹہ جیل میں دوڈھائی مہینہ قید رہا۔بلوچستان میں انھوں نے ہراچھی پوسٹنگ کررکھی تھی۔ گرفتاری سے پہلے وسیع حلقہ احباب تھا۔جب ضمانت پر باہر آیاتوپورے شہراورتمام دوستوں کی نظریں بدلی ہوئی تھیں۔ زیرِعتاب انسان سے تولوگ ہاتھ تک نہیں ملانا چاہتے۔اس کے ساتھ بھی بالکل یہی ہوا۔مشکل وقت تھاکہ فیملی اسلام آبادمیں تھی اورکوئٹہ میں ان کے پاس رہنے کے لیے کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔

ایک دن اتفاق سے ملاقات ہوئی توباتوں باتوں میں کہنے لگاکہ آج کل ٹھہرنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔یہ دراصل میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔ اس زمانے میں، اکیلاکوئٹہ رہتاتھا۔سرکاری گھر ملا ہوا تھا۔ دونوں بیٹے اوراہلیہ لاہورمیں تھے۔وجہ صرف یہ کہ پورے پاکستان میں کسی بھی پوسٹنگ کے دوران بچوں کوتعلیم کے تسلسل کی وجہ سے کبھی لاہور سے باہرمنتقل نہیں کیا۔ خیر گھر میں اکیلاہونے کی بدولت، سینئر افسرمیرے پاس آگئے اور کافی عرصہ رہے۔ آہستہ آہستہ ان سے دوستی ہوگئی۔وطیرہ بن گیاکہ وہ اسلام آبادچلے جاتے تھے۔ کیس کی پیشی کے لیے کوئٹہ آجاتے تھے۔

ویسے ان پرمقدمہ بالکل جھوٹا بنایا گیا تھا۔بعدمیں اس میں باعزت بری ہوگئے تھے۔مشکل ترین وقت میں انھیں نزدیک سے جاننے کا وافر موقعہ ملا۔ان کی بذلہ سنجی اورشائستگی سے حددرجہ متاثر ہوگیا۔ ایک شام کو دونوں،بالکل اکیلے بیٹھے ہوئے تھے۔وہ گہری سوچ میں تھے۔کہنے لگے،میری ایک بات سنوگے۔بتانے لگے کہ کوئٹہ جیل کی سی کلاس میں ڈھائی مہینے رہے۔جیل میں جتنے قیدی تھے،ان سے بات چیت کرنی شروع کردی۔قیدیوں نے انھیں اپنی جگ بیتی سنانی شروع کردی۔جیل میں مقیم تقریباً تمام قیدی فرداًفرداً اپنے ساتھ ہونے والے واقعات سناتے رہے۔گہری سوچ سے نکل کرکہا،کہ ڈاکٹر،جیل سے بدترجگہ کوئی نہیں ہے۔

اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ وہاں پر سزا یافتہ لوگ اَسی فیصدکے لگ بھگ لوگ مکمل طورپربے گناہ ہیں۔انھیں دشمنی، تعصب اور نظام کے جبرنے سزادلوائی ہے۔انکاجرم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ گفتگوجاری رہی۔ اور ہاں،پھانسی چڑھنے والے ستر فیصد لوگ قاتل نہیں ہوتے۔ وہ بھی بے گناہ ہوتے ہیں۔ مگر نظامِ عدل میں انصاف نہ ہونے کی وجہ سے،بے گناہ ہونے کے باوجودپھانسی لگ جاتے ہیں۔دراصل ڈاکٹر،ہم اندازہ نہیں کرسکتے کہ یہ نظام اورہم تمام لوگ ایک دوسرے کے لیے دنیاوی عذاب ہیں۔ خداتوگناہ اورثواب کی ناپ تول کرکے جہنم اور جنت کافیصلہ کرے گا۔

مگراس ملک میں بالخصوص،ہم ایک دوسرے کے لیے حددرجہ عذاب درعذاب ہیں۔ہم کسی کو آسان زندگی دینے کے قائل ہی نہیں ہیں۔میں خاموش ہوگیا۔ بتانے لگے۔کوئٹہ جیل میں انھیں جاکرپہلی بار،اپنے سماج کے اس بھیانک پہلوکااندازہ ہوا،جس نے ان کی بعینہ زندگی اور سوچ کادھارابدل دیا۔ان کی یہ بات اس قدر نایاب، مختلف اورحیرت انگیزتھی کہ میرے ذہن میں مستقل طور پر گھر کر گئی۔اپنی سوسائٹی کودھیرے دھیرے،اس عذاب کے کلیہ کے ذریعے پڑھناشروع کردیا۔آپ یقین نہیں کرسکتے۔ اس افسرکی بات اگرسوفیصددرست نہ تھی تونناوے فیصدمکمل طور پر سچ تھی۔سچ یہی ہے کہ ہم تمام لوگ انجانے میں اور جانتے ہوئے بھرپورطورپرایک دوسرے کے لیے باعثِ آزار ہیں۔

اس نکتہ کوسامنے رکھتے ہوئے نظام کے کسی حصہ کوبھی دیکھیے۔آپکواس تلخ حقیقت کاادراک ہوجائے گا۔چلیے، نظامِ عدل سے شروع کرلیجیے۔چندروزقبل محترم چیف جسٹس نے ایک تقریرمیں کہاکہ جوبھی خوشی کی خبرآتی ہے،وہ صرف عدلیہ کی جانب سے ہی آتی ہے۔ہوسکتاہے کہ ان کے پاس حقائق اور ان کاتجزیہ بہت زیادہ ہو۔مگرنظامِ عدل کے ناکام ہونے کے ثبوت بہت زیادہ ہیں۔سول جج صاحبان سے لے کر اوپر تک جج صاحبان اس درجہ ناقص نظام میں کام کر رہے ہیں کہ فیصلہ تو دورکی بات،انصاف کامعیارحددرجہ تنزلی کاشکار ہوچکا ہے۔

طوالت،سائلین کے جسموں سے روح اورعزتِ نفس نکال دیتی ہے۔لوگ زندہ لاشوں کی طرح دہائیوں ایک عدالت سے دوسری اوراس کے بعدتیسری یا چوتھی عدالت تک پہنچتے پہنچتے رُل جاتے ہیں۔مگرفیصلہ نہیں ہوپاتا۔ ہاں ایک اوربات،آج تک دنیاکی کسی عدالت میں پاکستان ججزکے کیے ہوئے فیصلوں کوبطورمثال پیش ہوتے نہیں دیکھا۔لندن کی کرائون کورٹ کے فیصلے پڑھیے۔آپ کو ان فیصلوں سے سیکھنے کا حد درجہ میٹریل ملے گا۔زبان و بیان سے لے کرفیصلے کے بنیادی مضمون پربھی حددرجہ محنت ہوئی نظر آجائے گی۔

مگر ہمارے بدقسمت نظام میں فیصلوں کا معیار اکثراوقات اس درجہ پست ہوتاہے کہ انسان پریشان ہوجاتا ہے۔نظام عدل میں ہر چیز ہے،مگرانصاف نہیں ہے۔عدالتوںکااسٹاف جس میں بیلف، ریڈر،نائب کورٹ، اسٹینو، تاریخ دینے والابابو،اس نظام عدل کی بنیاد ہیں۔یہ جج سے بھی حددرجہ اہم ہیں۔ اکثر کسی بھی عدالت کے اہلکار،آپکے ساتھ ہیں توآپ عدالت میں پیش ہوں،یا نہ ہوں،آپکے  مقدمہ کوعدالتی بابو،لسٹ میں اس درجہ نیچے رکھے گا،کہ آپ کے کیس کی کبھی باری نہیں آئے گی۔آپ کا مخالف، پورادن ہونقوں کی طرح کمرہ عدالت کے باہربینچ پربیٹھے بیٹھے سوکھ جائے گا۔مگرشام کوکیس التوامیں ڈالنے کی بدولت، نامراد اپنے ٹھکانے پرواپس چلاجائے گا۔

آنکھیں بندکرکے غور کیجیے۔ کیایہ نظامِ عدل اوراس سے منسلک لوگوں کی اکثریت عام لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث نہیں ہے۔بالکل ہے۔ کرسی پر بیٹھے ہوئے بابو، جو چاہیں کرسکتے ہیں۔آپکے مقدر کو برباد کر سکتے ہیں۔آپکی پگڑی کواس طرح اُچھال سکتے ہیں کہ پوری زندگی کسی کومونہہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔یہ تماشہ اس ملک میں ہر روزتسلسل سے ہوتا ہے اورہوتا رہے گا۔ سائلین عذاب کا شکار رہیں گے اوران کی بات سننے والاکوئی نہیں ہوگا۔

صرف نظامِ عدل تک بات محدودکرنی حددرجہ ناانصافی ہوگی۔ملک کی بیوروکریسی کی مثال سامنے رکھیے۔اگرکسی سرکاری دفترمیں کام پڑگیاتوآپ اس حدتک ذلیل کردیے جائیں گے کہ کئی باراپناجائزکام چھوڑڈالیں گے۔دفاترکے چکرلگاتے لگاتے،جوتیاں ہی نہیں،آپکی روح کے پیچ وخم گھس جائیں گے۔مگرکام نہیں ہوپائیگا۔اگریقین نہیں آتا تو پاکستان کے کسی بھی دفترکے باہرکھڑے ہوئے سائلین سے پوچھیے کہ آپ کب سے یہاں انتظارکررہے ہیں اورافسرسے کتنی بار ملے ہیں۔ انتہائی بے چارگی سے اکثریت جواب دیگی کہ وہ سالہاسال سے آرہے ہیں۔مگرایک دوبارہی افسرسے ملنے کا شرف حاصل ہواہے۔

اگلی بارآئے تواسکاتبادلہ ہوچکاتھا۔ذلت کایہ سفران آدمیوں کے لیے ہمیشہ کی طرح جاری رہتا ہے۔ بے جواز میٹنگز، دارالحکومت کے پھیرے اوراس کے ساتھ ساتھ بے تحاشہ اللے تللے،اپنی جگہ پر۔مگرعام لوگوں کی افسران تک رسائی حددرجہ مشکل ہے اورجائزکام ہونابھی ناممکن ہے۔ہاں ایک اور بات، ہر دفتر کے باہر،ٹائوٹوں کی کھیپ نظرآئیگی جوپیسے لے کر آپکاکام کروانے کادعویٰ کرینگے۔ان میں سے اکثریت فراڈئیے ہوتے ہیں۔وہ پیسے بٹورکرغائب ہوجاتے ہیں ۔

پوری سرکاری زندگی میں صرف ایک افسردیکھاہے جو اسسٹنٹ کمشنرسے لے کرچیف سیکریٹری پنجاب تک بغیر چٹ کے ہرایک سے ملتاتھا۔جوگرمیوں میں اپنے دفتر کا اے سی اس لیے بندرکھتاتھاکہ عام آدمی کے لیے اے سی کی سہولت موجودنہیں ہے۔ دفترآنے کے لیے چھوٹی گاڑی استعمال کرتا تھا۔ صرف اس لیے کہ بڑی گاڑی میں سرکاری پٹرول کاخرچہ بہت زیادہ ہوتاتھا۔دفتری اوقات کے بعد، اپنی چالیس سال پرانی فوکس ویگن گاڑی استعمال کرتا تھا۔ جسے وہ خود چلاتا تھا اور خودصاف کرتاتھا۔

بطورچیف سیکریٹری، پنجاب کی ہرتحصیل میں بذاتِ خوداوراپنی پوری ٹیم کولے کر گیا اورتحصیل کے معاملات کوبہترکرنے کی کوشش کی۔اس کے علاوہ وہ کافی کام کرتارہا۔جیسے پنجاب کی سول سیکریٹریٹ میں سے تجاوزات ہٹاکراسے بالکل نیاچہرہ دیدیا۔مگرمحترم شہباز شریف،اس انسان دوست چیف سیکریٹری سے اس قدر نالاں ہوگئے کہ انھیں دوسال کے لیے اوایس ڈی بناکر رکھا۔ اس چیف سیکریٹری کولوگوں کے مسائل حل کرنے کی کڑی سزادی گئی۔اس ملک میں جوبھی لوگوںکی بہتری کے لیے کام کریگا، اسے قرار واقعی سزادی جائے گی۔

پورے ملک کے کسی بھی کونے میں چلے جائیے۔عوام آپ کوبنیادی ضروریات کے لیے ترستے نظرآئیں گے۔ جمہوریت اورجذباتی تقاریر،پلیٹ میں ڈال کرکسی بھوکے کاپیٹ نہیں بھر سکتی۔یہ صرف اورصرف بے مقصدنعرے ہیں۔ جسکے پیچھے ذاتی مفادات کے تاج محل بنے ہوئے ہیں۔کسی بھی طرح کی بنیادی تبدیلی توخیراب ممکن نہیں ہے۔مگرایک دوسرے کے لیے مسلسل عذاب بننے کی حقیقت کوجھٹلانابھی شائداب ممکن نہیں۔یہی کامیاب اورناکام ریاست میں فرق ہوتا ہے۔ کامیاب ریاستیں لوگوں کے مسائل حل کرتی ہیں۔ ناکام ریاستیں،لوگوں کے مسائل کوبڑھاتی اور پیچیدہ کرتی ہیں۔ فرق صرف سوچ کاہے جوہمارے جیسے ملک میں شائدکبھی نہ بدلے!

The post ہم ایک دوسرے کے لیے عذاب ہیں! appeared first on ایکسپریس اردو.

غازی یا شہید

$
0
0

وادیٔ سون سکیسر کا ایک اور جوان وطن عزیز پر قربان ہو گیا اور شہادت کے عظیم ترین منصب پر فائز ہو گیا ۔ میں اپنے رب سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے چند ایسے الفاظ عطا فرمادے کہ میں شہیدوں کو ان کے بلند رتبہ کے مطابق خراج عقیدت پیش کر سکوں لیکن یہ اتنا بڑا رتبہ ہے کہ اسے موت بھی نہیں آ سکتی۔ اس اعزاز کے سامنے الفاظ کی کیا وقعت رہ جاتی ہے کہ اسے ان میں بیان کیا جائے۔ میری کسی شہید سے ملاقات ہو گئی تو میں عرض کروں گا کہ آپ اپنے مبارک قدموں سے میرے پورے جسم کے اوپر سے گزر جائیں تا کہ میں آگ سے محفوظ رہوں۔

خدا کے نام پرحاصل کیے گئے وطن کی حفاظت کرتے ہوئے شہادت پانے والوں سے بڑا ولی اور کون ہو سکتا ہے جس جسم پر ان کا سایہ بھی پڑ جائے وہ دونوں جہان کی آفتوں سے محفوظ ہو جائے۔ میں نے ایک بیوہ کی زبان سے سنا کہ مجھے تو اپنے شہید شوہر آس پاس چلتے محسوس ہوتے ہیں ۔ اس پر کسی نے اس بیوہ سے کہا کہ وہ چاہئیں تو آپ کو دکھائی بھی دے سکتے ہیں ۔موت تو ہرانسان کو آتی ہے لیکن شہادت کی جاوداں زندگی کی موت صرف ان کو جن کو خدا اس اعزاز کے لیے منتخب فرما لیتا ہے۔ وادیٔ سون کے موضع سورکی کے بہادر سپوت سپاہی محمد طیب حسین ان شہدا میں شامل تھے جنھوں نے چند دن قبل بھارتی جارحیت کے نتیجے میں کشمیر سیکٹر میں جام شہادت نوش کیا۔ بھارت دن بدن ہمیں بہت مقروض کرتا جارہا ہے کوئی نہ کوئی مرد مومن یہ قرض ضرور چکائے گا۔ ہندو کا تادیر مقروض رہنا بہت مشکل ہے۔

میں وادیٔ سون کو شہیدوں کی وادیٔ کہتا ہوں اس لیے کہ اس کا کوئی گائوں ایسا نہیں جسے کسی شہید کے مسکن ہونے کا اعزاز حاصل نہیں اور کتنے ہی مستقبل کے شہدا ہیں جو اس وقت ملک کے مختلف محاذوں پر داد شجاعت دے رہے ہیںاور اپنے خالق سے زندگی کا سودا طے کرنے میں مصروف ہیں۔ایسا کئی بار ہوا ہے کہ کوئی غازی واپس لوٹ آیا اس کا سودا نہ ہو سکا مگر وہ پھر روانہ ہو گیا تاآنکہ اس کی یہ تجارت نفع بخش ثابت ہو گئی ۔

وادیٔ سون کا بارانی پہاڑی علاقہ غریب لوگوں کا وطن ہے ۔ انگریزوں نے یہاں سے فوجی بھرتی کرنے کے لیے اس علاقے کو ہر طرح کی ترقی سے محروم رکھا اور صرف فوج کی نوکری کو کھلا رکھا۔ پاکستان بننے کے بعد روزگار کے بے شمار دروازے کھل گئے اور فوج کی نوکری میں کوئی خاص کشش باقی نہ رہی لیکن یہاں کے بہادر اور نیک دل مسلمانوں میں نوکری کی جگہ ایک اور کشش نے جگہ بنا لی اور وہ تھی ملک کی حفاظت۔ ان کے جد امجد سلطان محمودغزنوی کے ہندوستان پر کسی حملے میں اس کے ساتھ ان علاقوں میں وارد ہوئے جو اب پاکستان میں ہیں۔

عجیب اتفاق ہے کہ محمود غزنوی کے سترہ حملوں میں سے وہ اس حملہ کے ساتھ لشکر میں شامل ہوئے جس کی گزر گاہ پاکستان کے علاقے تھے چنانچہ وہ دین کی تبلیغ کے لیے ہند کے کفرستان میں رک گئے اور قرآن کی تعلیم وتدریس کے حوالے سے ’’اعوان قاری‘‘ کہلائے ۔ یہ ان کی قرآنی تدریس کا ایک عوامی خطاب تھا جو اب تک باقی ہے۔ محمود غزنوی فتوحات کے نتیجے میں حکومتیں قائم کرنے والا فاتح نہیں تھا اس نے ہندوستان کو بار بار تسخیر کرنے کے باوجود کسی دوسرے فاتح کی طرح یہاں حکومت قائم نہیں کی۔ لاہور میں بھی حملوں کے راستے کو محفوظ کرنے کے لیے حکومت قائم کی تھی۔

یہی مزاج ان کے لشکریوں کا بھی تھا چنانچہ قطب شاہ کی جو اولاد یہاں بس گئی وہ اپنا تاریخی جنگی مزاج نہ  بدل سکی۔ قرآن کی تعلیم دیتی رہی اور جہاد فی سبیل اللہ کا سبق بھی۔ کوئی نو صدیاں گزرنے کے بعد اسے ایک ایسا وطن ملا جس کی حفاظت کی خاطر اسے اپنے بزرگوں کا پرانا سبق یاد آیا۔ عجیب حسن اتفاق ہے کہ قطب شاہ کی اولاد کے سامنے صدیوں کے بعد وہی ہندو تھے جن کے بتوں کو توڑنے کے لیے سلطان محمود غزنوی نے بار بار ہند پر لشکر کشی کی تھی اور ان کے بزرگ ان لشکروں میں شامل تھے۔ دنیاوی ترقیاتی منصوبوں تعلیم اور آزادی کے بعد وادیٔ سون کے باشندوں کو روزی روٹی کے کئی راستے مل گئے لیکن فوجی زندگی زندہ رہی۔

پاک فوج میں بہت بڑی تعداد میں ان کی موجودگی ان کی تاریخ اور کلچر کو زندہ رکھے ہوئے ہے اور جب بھی پاکستان کو کسی محاذ پر ضرورت پڑی تو یہاں کے غیر فوجی بھی اس نئے محاذ پر پہنچ گئے کیونکہ وہ جہاد کے کئی محاذوں پر جہاد میں جاں فگن رہے۔ ان جہادوں کی برکت سے آج وادیٔ سون کی کوئی آبادی ایسی نہیں جس پر اس کے کسی شہید کا مبارک سایہ موجود نہ ہو۔ یہ سایہ مسلسل پھیلتا جارہا ہے۔ دین و وطن کے لیے جان کی قربانی اعوانوں کا پرانا تاریخی شیوہ ہے۔ وہ نہ تو تاجر ہیں نہ صنعت کار وہ صرف غازی یا شہید ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ وہ کہیں بس ٹرک چلا رہا ہو کسی دفتر کا چپڑاسی یا چوکیدار ہو کسی اخبار میں کالم لکھ رہا ہو یا رپورٹنگ کر رہا ہو یا کسی اسمبلی میں دھاڑ رہا ہو لیکن اس کا کوئی نہ کوئی قریبی جوان کسی نہ کسی محاذ پر دشمن کے پنجے میں پنجا پھنسا کر ضرورکھڑا ہو گا۔ ایک مسلمان کی اس کے سوا اور کوئی زندگی نہیں ہے۔ آنحضرتﷺ نے ایک پختہ مکان دیکھ کر فرمایا کہ مسلمان کا مال اینٹ روڑے پر خرچ کرنے کے لیے تو نہیں ہوتا۔ دوسرے الفاظ میں وہ اسلحہ خریدنے اور گھوڑے تیار کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ حضورﷺ کا مقصد بھی یہی تھا۔

میں اپنی وادی کے بہادر غازیوں اور شہیدوں پر فخر کرتا ہوں۔

The post غازی یا شہید appeared first on ایکسپریس اردو.

فسطائیت کی چودہ نشانیاں 

$
0
0

امریکی کانگریس کی ڈیموکریٹ رکن الیگزینڈریا اوکاسئیو کارتیز نے حال ہی میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے میکسیکو کی سرحد پر غیرقانونی تارکینِ وطن کو قید رکھنے کے لیے بنائے گئے حراستی مراکز کو کنسنٹریشن کیمپ قرار دیا تو اس کے ردِعمل میں واشنگٹن میں قائم ہالوکاسٹ میموریل میوزیم  کی سربراہ سارہ بلوم فیلڈ نے خفا ہو کر کہا ہے کہ کنسنٹریشن کیمپ کی اصطلاح تیس اور چالیس کے عشرے کے ان نازی جرمن کیمپوں سے جڑی ہوئی ہے جو ساٹھ لاکھ یہودیوں کی قتل گاہ تھے۔ان کیمپوں سے تارکینِ وطن کے حراستی مراکز کا موازنہ زیادتی ہے۔

سارہ بلوم فیلڈ کے اس بیان کی ہالو کاسٹ اور نسل کشی سے متعلق دنیا بھر کے ڈھائی سو محققین اور اساتذہ نے ایک اجتماعی خط میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ غیر علم دوست بیان ہالوکاسٹ میوزیم کی انتظامیہ کو زیب نہیں دیتا۔ اتنا جامد موقف اختیار کرنے کے نتیجے میں دنیا بھر میں ماضی اور حال میں ہونے والے نسل کشی کے واقعات پر علمی و غیرجانبدارانہ انداز میں تحقیق مشکل اور ناقص ہوتی چلی جائے گی۔

خط میں حیرت ظاہر کی گئی ہے کہ جس ہالوکاسٹ میوزیم کی لابی میں فسطائیت سے خبردار کرنے کے بارے میں پوسٹر لگا ہوا ہے۔اس میوزیم کی جانب سے اتنا بے لچک موقف سمجھ سے بالاتر ہے۔اس پوسٹر میں معروف سیاسی محقق ڈاکٹر لارنس برٹ کے ایک مقالے سے فاشزم کی چودہ نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔

ایک) جنونی قوم پرستی کا مسلسل پھیلاؤ اور ریاستی سرپرستی

دو ) انسانی حقوق کی گفتگو سے بیزاری

تین) اکثریتی گروہ کو متحد کرنے کے لیے مخصوص دشمنوں کی نشاندہی اور اس کے پردے میں اقلیتوں کو ہدف بنانے کی پالیسی

چار ) عسکریت کی بالا دستی اور اس کی شان و شوکت بڑھا چڑھا  کے پیش کرنا۔

پانچ ) مردانگی کا مسلسل پرچار اور دیگر جنس کو کمتر سمجھنے کے رجحان کی حوصلہ افزائی۔

چھ ) ذرایع ابلاغ پر مکمل کنٹرول

سات) قومی سلامتی کے نام پر مسلسل ڈر پھیلاتے رہنا ( یعنی ہم تمہارا تحفظ نہیں کریں گے تو کالا بھوت آ جائے گا )۔

آٹھ ) مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے مذہب کا سرکاری سطح پر استعمال۔

نو ) سرمایہ دار کا تحفظ

دس ) مزدور قوت کو کچلنا

گیارہ ) فنون اور عقلیت پسندی سے نفرت و بیزاری

بارہ ) جزا اور سزا  پر زور اور سزائیں دینے کا جنون

تیرہ ) اقربا پروری اور بدعنوانی

چودہ ) انتخابی جعلسازی

گویا یہ وہ آئینہ ہے جس میں دیکھ کر کوئی بھی جانچ سکتا ہے کہ جس ریاست یا معاشرے میں وہ رہ رہا ہے اس میں فسطائیت کے کتنے جراثیم ہیں اور اس سے پہلے کہ یہ جراثیم  جسم کو مکمل لپیٹ میں لے لیں ان سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔

جنوری دو ہزار سترہ میں ’’ واشنگٹن منتھلی ’’نامی ویب سائٹ پر مارٹن لانگ مین کا ایک مضمون خاصا وائرل ہوا۔ اس مضمون میں لانگ مین نے دعویٰ کیا کہ ٹرمپ کے امریکا میں فاشزم کی چودہ میں سے بارہ ابتدائی علامات موجود ہیں اور اگر ان پر دھیان نہ دیا گیا تو مرض بے قابو ہوتا چلا جائے گا۔

دو ہفتے پہلے نئی بھارتی لوک سبھا میں ترنمول کانگریس کے ٹکٹ پر پہلی بار منتخب ہونے والی رکنِ اسمبلی ماہووا موئترا  کی پہلی تقریر نے ایوان سے لے کر ذرایع ابلاغ تک بجلی دوڑا دی۔انھوں نے گنواتے ہوئے کہا کہ بھارت میں اس وقت فاشزم کی چودہ میں سے سات نشانیاں ( ایک ، دو ، چھ ، سات ، آٹھ ، گیارہ ، چودہ ) پوری طرح نظر آ رہی ہیں۔

ماہووا کی اس تقریر نے انتخابات کے بعد جامد اور بور بھارت میں تازہ بحث چھیڑ دی۔لبرل میڈیا نے اس تقریر کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور بی جے پی کے حامی میڈیا نے ماہووا پر الزام لگایا کہ یہ ان کے اپنے خیالات نہیں بلکہ مارٹن لانگ مین کے مضمون سے چرائے گئے ہیں۔چنانچہ مارٹن کو ٹویٹ کرنا پڑا کہ ’’ ان دنوں میں انٹرنیٹ پر بھارت میں بہت مشہور ہو گیا ہوں۔کیونکہ ایک سیاستدان پر میرے مضمون سے سرقے کا الزام لگا ہے۔یہ ایک بہت ہی بچگانہ الزام ہے۔ لگتا ہے دائیں بازو کے احمق بھلے کسی بھی ملک میں ہوں سوچتے ایک ہی طرح سے ہیں ‘‘۔

فاشزم کی نشانیاں صرف امریکا اور بھارت کی حد تک نہیں ہیں۔یورپ میں ہنگری ، آسٹریا ، اٹلی اور ہالینڈ میں انتہائی دائیں بازو کا زور ، اسرائیل ، فلپینز اور برازیل میں انتہائی دائیں بازو کے رہنماؤں کا اقتدار میں رہنا یا آنا۔برطانیہ میں بریگزٹ کی مہم کا انتہائی دائیں بازو کے ہاتھ میں ہونا اور بریگزٹ کے سرخیل بورس جانسن کے اگلا برطانوی وزیرِ اعظم بننے کے قوی امکانات ، گلوبلائزیشن اور اقتصادی لبرلائزئشن کے بعد سرمایہ دار دنیا کا دوبارہ اقتصادی دیواروں کے پیچھے پناہ  لینا ، تارکینِ وطن اور پناہ کے لیے سرگرداں مصیبت زدگان سے بیزاری اور انھیں روکنے کے لیے قوانین میں سختی۔

اس پس منظر میں روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے جاپان میں جی ٹوئنٹی اجلاس سے پہلے برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کو انٹرویو میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان پر بھی کان دھرنے کی ضرورت ہے۔

فرماتے ہیں ’’ لبرل نظریہ اپنی عمر پوری کر چکا ۔لوگ اب تارکینِ وطن ، کھلی سرحد اور کثیرالثقافت معاشرے کے مخالف ہو رہے ہیں۔اینجلا مرکل نے دس لاکھ سے زائد پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحدیں کھول کے فاش غلطی کی ہے۔جب کہ ٹرمپ میکسیکو کی طرف سے منشیات اور پناہ گزینوں کی آمد روکنے کے لیے قابلِ تعریف اقدامات کر رہے ہیں۔مگر لبرل کہتے ہیں کہ چونکہ پناہ گزینوں اور تارکینِ وطن کے بھی حقوق ہیں لہذا وہ بے فکری سے قتل ، ریپ اور لوٹ مار کر سکتے ہیں۔ہر جرم کی سزا ہے۔اکثریت یہی سمجھتی ہے۔لہذا لبرل نظریہ اکثریتی مفادات سے متصادم ہونے کے سبب بے اثر ہو چکا ہے ‘‘۔

کے جی بی کا ایک سابق افسر جو شخصیت پرستی ، جی حضوریوں کو وسائل پر تصرف اور مشرقی یوکرین اور کرائمیا پر قبضے اور شام میں بھرپور فوجی مداخلت کے نتیجے میں پانچ ملین شہریوں کو تارکینِ وطن بنانے کا سبب بن چکا ہو اور اپنی ریاست میں ہر اختلافی آواز کو کچل کے رکھا ہو اور بیرونِ ملک مقیم مختلف رائے رکھنے اور آواز بلند کرنے والے صحافیوں اور سوچنے والوں کا قلع قمع جائز سمجھتا ہو۔اس کے نزدیک اگر لبرل ازم کی یہی تشریح ہے تو کچھ غلط نہیں۔ وہ اگر بظاہر بعد المشرقین ہونے کے باوجود اینجلا مرکل کو غلط اور ٹرمپ کو درست کہتا ہے تو کیسی حیرت ؟

اقلیت کے جینے کے حق کی پامالی کی قیمت پر اکثریتی ، نسلی، مذہبی یا علاقائی گروہ میں اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کے لیے ہر ہتھکنڈا استعمال کرنا ہی اگر پاپولر ازم ہے تو پھر فاشزم کیا ہے اور جمہوریت کیا ہے ؟ شائد پوتن بھی بھول چکے ہیں  کہ دو کروڑ روسی فوجی اور شہری ہٹلر کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے کیوں مرے تھے۔پوتن کی باتیں سن کر لگتا ہے کہ یہ شہری شائد روس کو فاشزم سے بچانے کے لیے قتل نہیں ہوئے بلکہ قتل کیے گئے۔آج اگر ہٹلر ہوتا تو اسے ٹینکوں کی ضرورت نہیں تھی۔سوشل میڈیا کی ٹرول سپاہ کافی تھی۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے  bbcurdu.com پر کلک کیجیے)

The post فسطائیت کی چودہ نشانیاں  appeared first on ایکسپریس اردو.

حق اور سچ

$
0
0

تمام ہی اسلامی ممالک ، مغربی ممالک کے رحم وکرم پر ہی جی رہے ہیں۔ وہ انھیں جیسا چاہتے ہیں استعمال کرتے رہتے ہیں اور اسلامی ممالک کے مغرب نواز حکمران بھی مغرب کے مفاد میں ہر وہ کام کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں جس سے وہ ان سے خوش رہیں تاکہ ان کی نوکری پکی رہے وہ اپنی حکمرانی جاری رکھ کر اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں۔

اب ایسا ماحول بھی بن چکا ہے کہ کوئی مسلم رہنما مغرب کے خلاف جانے کا سوچ تک نہیں سکتا اور جس نے ایسا سوچا یعنی ان کے احکامات سے روگردانی کی اس کے اقتدار کو پھر کوئی نہیں بچا سکتا اور اس کا مقدر ذلت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ایسے حکمرانوں کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ صدام حسین، کرنل قذافی، بشارالاسد اور حالیہ معزول ہونے والے سوڈانی صدرعمرالبشیر اس فہرست میں شامل ہیں۔ صدام اور قذافی کو تو ایسی سزا دی گئی کہ اقتدار بھی جاتا رہا اور جان بھی گئی۔

بشارالاسد کو البتہ مغرب ابھی تک اپنی مرضی کے مطابق سزا نہیں دے پایا ہے، اس لیے کہ بشارالاسد نے ایران اور روس کا دامن تھام لیا ہے تاہم مغرب اپنے مجرم کو سزا دیے بغیر چین سے نہیں بیٹھتا۔ ایسے گمبھیر حالات میں یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ دو ایسے مسلم حکمران بھی ہیں جو مغرب کے احکامات سے مسلسل روگردانی کرتے چلے آرہے ہیں اور وہ اس لیے کہ انھوں نے مغرب کی مدد سے حکمرانی حاصل نہیں کی بلکہ اپنے عوام کی حقیقی خدمت کرکے اقتدار حاصل کیا ہے چنانچہ وہ مغرب کے بجائے صرف اپنے عوام پر انحصار کر رہے ہیں اور ان کے سہارے اقتدار پر موجود ہیں۔ مغرب انھیں اپنا دشمن خیال کرتا ہے اور ان کے اقتدار کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ ایسے دبنگ مسلم حکمران اس وقت صرف دو ہی ہیں ایک مہاتیر محمد اور دوسرے رجب اردگان۔

چند سال قبل ایک اور دبنگ مسلم رہنما مصر کے صدارت کے عہدے پر فائز تھے جنھیں پوری دنیا محمد مرسی کے نام سے جانتی ہے۔ چند دن قبل ہی اس مرد مجاہد کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس شخص نے مغرب کا غلام بننے کے بجائے اپنے عوام اور اپنے عقائد کا غلام بننا پسند کیا تھا۔ مرسی کو صرف ایک سال مصر پر حکمرانی کا موقع میسر آسکا تھا انھوں نے اس مختصر سی مدت میں مغرب کو بتا دیا تھا کہ ایک مسلمان حکمران اپنی رعایا کا تو خادم بن سکتا ہے مگر غیروں کی غلامی کو کسی طور پر بھی قبول نہیں کرسکتا اور کسی بھی صورت اپنے دینی اصولوں کو پس پشت نہیں ڈال سکتا خواہ اقتدار رہے یا چلا جائے۔

مرسی نے اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی حکومت چلائی اور مغرب کے اسلام اور مسلم دشمن رویے کی کھل کر مذمت کی۔ گوکہ ان کا دور حکومت بہت مختصر تھا مگر مسلم حکمرانوں کی مغرب نوازی کو آئینہ دکھانے کے لیے کافی تھا۔ آپ نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں مغربی ممالک پر واضح کردیا تھا کہ مصر ایک خود دار مسلم ملک ہے وہ صرف اسلامی نظریات کے تحت آگے بڑھے گا۔ وہ خود اور مصری عوام اس ملک کا دل سے احترام کریں گے جو اسلام کی دل سے قدر کرے گا اور وہ اس ملک سے محتاط رہیں گے، جو اسلام دشمنی پر کمربستہ ہوگا۔

خاکوں سے متعلق آپ نے مغربی ممالک کو متنبہ کیا تھا کہ وہ ایسی حرکتوں کے مرتکب افراد کا گھیراؤ کریں اور آزادی اظہار کا لیبل لگا کر ان کی حمایت سے باز رہیں۔ آپ نے نائن الیون کے واقعے کو مسلمانوں کے خلاف کھلی سازش قرار دیا تھا۔ انھوں نے اسے مسلمانوں کے خلاف امریکی اور اسرائیلی ڈرامے کا نام دیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی امریکی حکومت ان کے خلاف ہوگئی تھی۔ مصر ایک سرسبز و شاداب ملک ہے۔ یہاں صدیوں سے لوگ آباد ہیں۔ یہ کئی تہذیبوں کا گہوارا رہا ہے۔

اس ملک پر کئی حکمرانوں نے حکومت کی مگر سب نے ہی عوام کو اپنا غلام سمجھا۔ یہی سرزمین فرعون کا بھی مسکن تھی ان کا دور اقتدار کافی طویل تھا وہ خدا کے منکر ہی نہیں خود کو خدا کہلاتے تھے۔ حضرت موسیٰؑ نے انھیں راہ حق کی طرف لے جانا چاہا مگر انھوں نے اپنی مغروریت اور مطلق العنانی کے نشے میں اپنے سوا کسی کو رب ماننے سے انکار کردیا تھا بالآخر انھیں عذاب الٰہی نے پکڑ لیا اور تباہ و برباد ہوگئے۔ اس کے بعد بھی کبر و غرور سے لبریز حکمران اس سرزمین پر حکومت کرتے رہے اور یہاں کے وسائل کو عوام پر خرچ کرنے کے بجائے اپنی عیاشیوں پر لٹاتے رہے۔

اخوان المسلمون نے مصرکے مغرب زدہ حکمرانوں کو غیروں کے نقش قدم پر چلنے کے بجائے حق و سچ کا راستہ اختیار کرنے کا پیغام دیا مگر حکمرانوں نے مغرب کی ریشمی رسی کو ایسی مضبوطی سے تھام رکھا تھا کہ وہ اسے چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے تاہم عوامی طاقت نے برسوں سے چل رہی آمرانہ حکومتوں کا صفایا کردیا اور عوامی ووٹ کے ذریعے ڈاکٹر محمد مرسی مصر کے پہلے جمہوری صدر بن گئے۔

مرسی نے اقتدار میں آکر مغرب سے مکمل چھٹکارا حاصل کرنے کا منصوبہ بنالیا تھا ساتھ ہی آمروں کا راستہ روکنے کا بھی بندوبست کرلیا تھا۔ ہر ملک میں کچھ کالی بھیڑیں ہوتی ہیں مصر میں ایسے لوگوں نے مغرب کے اشارے پر مرسی کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کردی گوکہ اس کا کوئی جواز نہ تھا مگر اس کے ذریعے مغرب مرسی کو اقتدار سے باہر کرنا چاہتا تھا۔

مصری فوج پہلے ہی مرسی کے خلاف صف آرا تھی کیونکہ انھوں نے انھیں اقتدار سے بے دخل کیا تھا۔ مرسی نے حسنی مبارک کے زمانے کے تمام فوجی جرنیلوں کو عہدوں سے ہٹا دیا تھا۔ مرسی نے مصری فوج کا نیا کمانڈر انچیف مقرر کیا یہ فتح ایسی تھی جس پر مرسی کو پورا اعتماد تھا کہ وہ دشمنوں کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے مگر مغرب کی تھپکی پر انھوں نے مرسی کے خلاف شب خون مارا۔ ان کی حکومت کا راتوں رات خاتمہ کردیا اور انھیں جیل میں ڈال دیا گیا۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ مصر کی سرزمین حضرت موسیٰ کے زمانے سے ہی حق و سچ سے بغاوت کرنے والے گروہوں کی مسکن رہی ہے۔ مصر میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو فرعون کو اپنا جدامجد اور رہنما مانتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں،ہمارے ہاں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو راجہ داہر کو اپنا پیشوا مانتے ہیں۔ کاش کہ ان لوگوں نے تاریخ سے کچھ سبق لیا ہوتا کہ ظالم و جابر حکمرانوں کو تو خود ان کی رعایا نے اپنا حکمران تسلیم نہیں کیا تھا۔ وہ ان کے ظلم و ستم سے اتنے تنگ تھے کہ انھیں دوسروں کی مدد حاصل کرکے ان سے نجات حاصل کرنا پڑی۔

افسوس اس بات پر ہے کہ ویسے تو مغربی ممالک بہت جمہوریت پسند بنتے ہیں مگر اسلامی ممالک میں وہ جمہوریت کش عامرانہ حکومتوں کو ہی پسند کرتے ہیں۔ یہ مغرب کی دو رنگی دراصل اسلام دشمنی کے علاوہ ان کی پست ذہنیت کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ یہ دراصل ان کی ایک چال ہے کہ مسلمانوں کو پستی کی جانب دھکیلا جائے۔

مرسی کے زوال کے اصل نکتے پر اگر غورکیا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ اگر انھوں نے مغربی ممالک کی مرضی کے مطابق حکومت کی ہوتی اور اسرائیل کے وجود کو چیلنج نہ کیا ہوتا تو وہ آج بھی برسر اقتدار ہوتے اور مغرب ان کی ہر طرح مدد کر رہا ہوتا۔ مغرب کو اسرائیل کا وجود اتنا عزیز ہے کہ وہ اس کے کسی دشمن کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ لیبیا، عراق، شام صرف اسرائیل دشمنی میں تباہ ہوچکے ہیں ۔

اب ایران کی باری ہے شاید اس کے بعد ترکی کو بھی نہ بخشا جائے اس لیے کہ رجب اردگان کھلم کھلا اسرائیل کے وجود کے خلاف ہیں۔ دراصل یہ مرد مجاہد مرسی کی طرح حق و سچ پر ڈٹا ہوا ہے اور چونکہ ترک عوام اس کے ساتھ ہیں اس لیے شاید مغرب ایک دفعہ اسے ہٹانے کی ناکام کوشش کرنے کے بعد اب دوبارہ اس کے خلاف ایسی گھناؤنی سازش کرنے سے باز رہے گا۔

The post حق اور سچ appeared first on ایکسپریس اردو.


نیا پاکستان اورفرسودہ نظام ِ سیاست

$
0
0

ہمارے پاکستان کے ستارے بھی ہمیشہ گردش میں رہے ہیں ۔ استحکام اور مستقل خوشحالی کی تو اس نے کبھی جھلک بھی نہیں دیکھی ۔ کبھی بیرونی خطرات میں گھرا رہا تو کبھی اندرونی سازشوں کا شکار رہا ہے ۔

مطلب یہ کہ ملکی سالمیت اور قومی اتحاد پر ہمیشہ غیر یقینی کی تلوار لٹکتی رہی ہے ۔ جس کی وجوہات میں معاشی عدم استحکام اور انتظامی نااہلی و لاپرواہی بھی شامل ہیں لیکن اس کی بنیادی وجہ یہاں کا فرسودہ نظام ِ سیاست ہے ۔ جس میں ملکی اقتدار کا دائمی و عارضی حصول ہی تمام طرفین کی منزل ِ مقصود نظر آتا ہے اور اُس تک پہنچنے کی بنیادی ضرورت ملک و ملت کی خدمت و ترقی و تعمیر نہیں بلکہ ذاتی و گروہی مفادات کا حصول اور تحفظ رہا ہے ۔

ویسے تو اِس مملکت ِ خداداد کے نام میں اسلام اور جمہوریت دونوں ہی شامل ہیں لیکن عملی طور پر اس ملک میں نہ تو اسلام کا بنیادی فلسفہ امن و سلامتی نظر آتا ہے اور نہ ہی جمہوریت کے اولین اُصول- ایک دوسرے کو اور ایک دوسرے کی مخالف رائے کو برداشت کرنے کے جمہوری رویے نظر آتے ہیں ۔ وطن ِ عزیز کے قیام کے روز ِ اول سے اختلافِ رائے پر آمرانہ روش اختیار کی گئی ہے ۔ جس کے تحت یہاں اقتدار میں آنے کے بعد مخالفین کو کچلنے یا پھر انھیں خرید کر اپنے ساتھ ملانا ہی اقتدار کی مضبوطی کی علامت سمجھا گیا ہے ۔

حالانکہ 70سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ باوجود ایک دوسرے کو کچلنے کے کسی بھی جمہوری حکومت نے اپنا آئینی دورانیہ پورا نہیں کیا بلکہ مسند نشینی ہمیشہ عدم استحکام کا شکار رہی ہے ۔ جب کہ ان رویوں کی وجہ سے آمریت مضبوط ہوتی رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں منتخب حکومتیں تو اپنی 5سالہ آئینی مدت بھی پوری نہیں کرپاتیں لیکن مارشل لا کے تحت قائم غیر جمہوری حکومتیں من چاہے طویل عرصہ تک مسند نشین رہ لیتی ہیں ۔

اداروں سے لے کر انفرادی سطح تک آج پاکستان کی اکثریت آمرانہ طرز عمل کی باسی نظر آتی ہے ۔ جس وجہ سے ہر فرد ، گروہ ، جماعت اور ادارہ خود کو درست ، اہل اور محب ِ وطن سمجھتا ہے جب کہ باقی تمام افراد ، گروہ ، جماعتیں اور ادارے اُنہیں غلط ، نااہل اور غدار نظر آتے ہیں ۔ اسی سوچ کے تحت پاکستان بنانے کی قانونی بنیاد فراہم کرنے والا جی ایم سید بھی غدار ٹھہرا تو ملک کے پہلے ڈکٹیٹر کو للکارنے والی بانی ِ پاکستان کی ہمشیرہ و مادر ِ ملت فاطمہ جناح بھی غدار قرار پائی۔ پھر ایک طرف مجیب شیخ اور بھٹو خاندان اسی انفرادی و اداراتی آمریت کا نشانہ بنے تو دوسری طرف عوامی لیگ، پی پی پی اور چھوٹے صوبے گروہی و قومی آمریت کے نشانے پر رہے ۔

یہ تو تھی ملک پر دائمی طور پر براہ ِ راست قابض رہنے والی مقتدر قوتوں کی روش ، لیکن اس ملک میں سب سے زیادہ بھیانک صورتحال اُس سیاسی و جماعتی آمریت کی روش کی وجہ سے رہی ہے، جو نیم جمہوری آمریت کے طور پر ملک کی مسند نشین رہی ہیں ۔ اپنی کمزور جمہوری روایات کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے وجود کو اور ایک دوسرے کی رائے کو نہ تو برداشت کرتی ہیں اور نہ ہی اِس لولے لنگڑے جمہوری سیٹ اپ میں ایک دوسرے کا کوئی کردار دیکھنا چاہتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اقتداری پاور میں آنے کے بعد مخالف جماعتوں کے وجود کے درپے ہوجاتی ہیں ۔

ویسے تو اُنہیں تمام حزب ِ اختلاف ہی بدعنوان اور قومی غدار نظر آتے ہیں لیکن اپنی عددی اکثریت پوری کرنے کے لیے اُنہی میں سے کچھ افراد یا ارکان کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے وہ’’ ہارس ٹریڈنگ ‘‘اور’’ لوٹا کریسی ‘‘ جیسی غیر سیاسی و غیر اصطلاحی حرکات پر مبنی فرسودہ پالیسی پر اُتر آتی ہیں اور پھر ان کی طرف آنیوالے افراد یا ارکان پاک و صاف اور ملک و ملت کی ترقی کے لیے اہم بن جاتے ہیں ۔

یوں تو لوٹا کریسی اور ہارس ٹریڈنگ کا یہ کاروبار ہمارے ملک میں عرصہ دراز سے چل رہا ہے بلکہ کامیابی سے چل رہا ہے ۔ اس کاروباری نظام کا کمال یہ ہے کہ کسی بھی تانگہ پارٹی کو ملک کی بڑی اور اکثریتی جماعت بناکر اقتدار کی مسند پر براجمان ہونے کا اہل بناتا ہے لیکن یہ نظام 1990میں جام صادق کے دور میں بڑے پیمانے پر پھیلتا نظر آیا تھا۔ یہ اسی کی بدولت تھاکہ کوئی بھی نشست نہ ہونے کے باوجود جام صادق سندھ اسمبلی میں حکومت سازی کے لیے اپنی اکثریت ثابت کرتے نظر آئے ،پھر آئی جے آئی بنانا ہو یا ق لیگ یہی لوٹا کریسی اور ہارس ٹریڈنگ کی ہی بدولت ممکن ہوسکتا تھا اور ممکن ہوا بھی بلکہ کامیابی سے چلا بھی۔

آج کے حکومتی سیٹ اپ پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ حکومتی جماعت پی ٹی آئی میں اکثریت ایسے ہی افراد کی ہے جو ماضی میں ہر حکومتی سیٹ اپ میں شامل رہے ہیں ۔ کبھی پی پی پی تو کبھی ن لیگ مطلب یہ کہ ہارس ٹریڈنگ کے یہ ’’ہارس ‘‘ ہر دور میں اپنا شہ سوار تبدیل کرلیتے ہیں لیکن میدان ِ اقتدار میں برابر موجود رہتے ہیں ۔ اس ہارس ٹریڈنگ والے فرسودہ نظام کی عجیب بات یہ ہے کہ ہر دور میں حزب اختلاف میں رہنے والی جماعتیں اس نظام کا شکار ہوتی رہی ہیں لیکن پھر وہی جماعتیں حزب اقتدار کا حصہ بننے کے بعد اس کاروبار میں خود بھی خرید و فروخت کرتی نظر آتی ہیں ۔ یہ کاروبار ملک میں پہلے سے کمزور جمہوریت کو مزید کمزور کرنے کا باعث ہے ، کیونکہ یہ کاروبار جمہوری اُصولوں اور رویوں کو ختم کرکے اُن کی جگہ موقع پرستی اور بدعنوانی کو فروغ دیتا ہے ۔ جس وجہ سے جمہوری قوتوں کی کردار کشی ہوتی ہے اور غیر جمہوری قوتیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جاتی ہیں ۔

2018کے انتخابات سے قبل ایسی ہی بدعنوانیوں کے خلاف پی ٹی آئی نے محاذ شروع کرکے ملک میں تبدیلی کا نعرہ لگایا ۔ تاثر یہ دیا جانے لگا کہ 70سالہ خرابیوں کو دور کرکے ملکی سیاسی نظام میں استحکام اور شفافیت پر مبنی ’’نیا پاکستان ‘‘ بنایا جائے گا۔ 70سال سے آمریتی و نیم آمریتی اور نیم جمہوری حکمرانوں کی جتنی کوتاہیاں ، لاپرواہیاں اور کم ظرفیاں و خرابیاں تھیں ، پی ٹی آئی نے اُن سب پر آواز اٹھائی اور نہ صرف آواز اٹھائی بلکہ اس کی تبدیلی کے لیے کنٹینروں کے ذریعے ملکی نظام کو جام کردیا ۔ جس وجہ سے عوام میں پھر یہ اُمنگ اور یقین پیدا ہوگیا کہ اس بار ملک نہ صرف حقیقی جمہوری راہ پر گامزن ہوگا بلکہ ملک و ملت کی ترقی کی نئی اور مثبت راہیں بھی کھلیں گی۔

لیکن آج پی ٹی آئی کے اقتدار کو تقریباً ایک سال گذرنے کے بعد کی صورتحال اس امید پر پانی پھیرتے اور اُس یقین کو توڑتے بلکہ پامال کرتی نظر آتی ہے ۔ مہنگائی کا جن بے قابو ہوکر عوام بُو ، عوام بُو کی صدائیں لگاتا ہوا عوام کو نگلنے کے لیے بے چین گھوم رہا ہے ،تو دوسری طرف اقتداری طرز عمل بھی کسی تبدیلی کا پتا نہیں دے رہا بلکہ تبدیلی سرکار کی طرز ِ حکمرانی بھی نئے پاکستان کے سہانے سپنے کی تعبیر نہیں بلکہ ڈراؤنے خواب کی تلخ و بھیانک تعبیر بن کر سامنے آئی ہے ۔

لوگ نئے پاکستان میں ایک طرف اپنے ہونٹوں سے نوالہ تک چِھن جاتے دیکھ رہے ہیں تو دوسری طرف وہی بدعنوانی پر مبنی فرسودہ سیاسی و جمہوری نظام کو مزید قوت کے ساتھ فعال ہوتے دیکھ کر اُن کے من میں یہ انومان اور سوال گردش کررہے ہیں کہ آخر نئے پاکستان میں جام صادق والا 30سالہ پرانا و فرسودہ نظام ِ سیاست کیوں ؟ کہیں تبدیلی کی یہ تیز سفیدی کڑی دھوپ کی لُو بن کر اُن پرمحض معاشی اور سیاسی ہیٹ اسٹروک حملہ کے لیے تو نہیں ؟ لوک فہم پر مبنی عوام کی روح اِس صورتحال میں حکومت کو سندھ کے ایک صوفی بزرگ ’’قادر بخش بیدل ؒ ‘‘ کے اس شعر کے پس منظر میں دیکھ رہے ہیں :

من میلا ، تن اُجلا ، ہے کبڈی رنگ ،

اچھا بے چارہ کَولا ، اندر باہر ایک ہی رنگ!

دنیا کے دیگر ممالک میں حزب اختلاف کو ملکی ترقی و تعمیر میں شریک رکھنے کے لیے شیڈو گورنمنٹ کا طریقہ رائج ہے ، جس کے تحت حزب اختلاف بھی عین حکومت کی طرز پر اپنی شیڈوکابینہ بناتی ہے، جس میں وزیر اعظم سمیت تمام محکموں کے شیڈو وزراء ہوتے ہیں ، بس فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ اُن کے پاس قانون و اقدامات نافذ کرنے کے لیے Counter Sign کے اختیارات نہیں ہوتے ، لیکن باقی تمام اُمور اُن کی دسترس میں ہوتے ہیں ۔ جس وجہ سے ایک تو ملک میں شفافیت کا نظام قائم رہتا ہے دوسرا یہ کہ حزب اختلاف کی حکومتی اُمور میں تربیت بھی ہوتی رہتی ہے جوکہ اقتدار میں آنے کے بعد ملکی اُمور کو بہتر طور پر سرانجام دینے کے اہل ہوتے ہیں ۔ لیکن ہمارے یہاں حزب اختلاف کو ملک کا ناپسندیدہ جُز یا بیکار عُضو قرار دیکر کاٹ پھینکنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

سندھ حکومت کو گرانے کی مسلسل کوششیں پی ٹی آئی کی اسی غیر جمہوری و عدم برداشت والی روش کا واضح پتہ دیتی ہیں ۔اب تک کی اطلاعات اور حکومتی دعوؤں کے مطابق حزب اختلاف کے 31ارکان اسمبلی کے حکومت سے معاملات چل رہے ہیں جب کہ کئی ارکان کو گھیرنے کے لیے بھی کوششیں بلکہ کارروائیاں ہورہی ہیں ۔ کسی کو دھونس تو کسی کو ڈھیلا دکھایا جارہا ہے ۔ مطلب یہ کہ خوف و لالچ کا کاروبار عروج پر ہے ۔ جس میں سب سے مضحکہ خیز واقعہ رانا ثناء اللہ کا ہے کہ ملک کے سب بڑے صوبے کا وزیر داخلہ رہنے والا شخص اور ملک کی قدآور سیاسی شخصیت کے حامل منتخب عوامی نمائندے کو جکڑا بھی گیا تو منشیات کے کیس میں اور بڑی بات ہے کہ موقع پر منشیات کی برآمدگی بھی دکھائی گئی ہے ، حالانکہ آج تک تو ہماری پولیس منشیات کے اڈوں پر مارے گئے کسی چھاپے میں بھی اتنی منشیات برآمد نہیں کرپائی ہے ۔ عوام یہ سوال کرنے پر بھی حق بجانب ہیں کہ پی پی پی اور مسلم لیگ ن میں رہنے کے دوران کرپٹ ارکان ِ اسمبلی ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے پی ٹی آئی کی صفوں میں شامل ہونے کے بعد کیسے دودھ سے دُھلے بن جاتے ہیں ؟ کیا وہ سابقہ جماعتوں میں ملک و عوام دشمن اور پی ٹی آئی میں آنے سے ملک و عوام دوست بن جاتے ہیں ؟

مسلم لیگ و پی پی پی کی قیادت کی دھڑا دھڑ گرفتاریاں ، اُن کی کردار کشی پر مبنی مہم اورپراڈکشن آرڈر سمیت اُن کو میسر دیگرآئینی و قانونی حقوق و سہولیات کو انتقامی طور پر ختم کرنے کے لیے ملکی قوانین میں ترامیم ذاتیات و ذاتی خواہشات کا ایسا عجیب طرز عمل ہے ، ذاتی خواہشات کو قانون نہیں بنانا چاہیے بلکہ قوانین ایسے ہونے چاہئیں جو ملک کے لیے مجموعی طور پر فائدہ مند و انسانی حقوق کے تحفظ کے تمام لوازمات پورے کرتے ہوں ۔پھر دیکھا جائے تو آصف زرداری ملک کے سابقہ صدر اور ملک کی ایک بڑی عوامی جماعت کے سربراہ و قومی اسمبلی کے رکن بھی ہیں ۔ اس لیے عوام یہ سوال اٹھانے پر بھی حق بجانب ہیں کہ اگر اقتدار پر غیر آئینی و غیر جمہوری طریقے سے قبضہ کرنے والے غیر منتخب سابقہ صدر کو ملکی قانون میں تمام سہولیات میسر ہیں تو پھر ایک منتخب سابقہ صدر کو وہ سہولیات و حقوق کیوں میسر نہیں ؟ اگر غداری کے مقدمے میں لگائے گئے الزامات پر مشرف کو انٹرویو دینے کا حق ہے تو پھر محض کرپشن کے الزامات کے مقدمات کی بناء پر آصف زرداری کو انٹرویو دینے کا حق کیوں نہیں ؟ اور کیوں اُن کا انٹرویو آدھے میں روک کر نہ صرف صدارتی عہدے کی تضحیک کی گئی بلکہ میڈیا کی آزادی کو بھی مذاق بنادیا گیا ۔

موجودہ حکومت کی سابقہ حکمرانوں کے خلاف کارروائیاں اب احتساب کے دائرہ سے نکل کر انتقام کی حدود میں داخل ہوگئی ہیں ۔ جس کے لیے صرف حزب اختلاف سے آوازیں نہیں اُٹھ رہیں بلکہ ملکی عدلیہ کو بھی یہ محسوس ہورہا ہے ۔ ایک کیس میں ایک جج نے وفاقی حکومت پر بھی ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ’’ حکومت سے ٹی وی پر تقریر کرانی ہو تو کرالو مگر یہ کام نہیں کرے گی ‘‘ ۔اِن ریمارکس نے خود حکومت کی اہلیت پر بھی سوالیہ نشان لگادیا ہے ۔ جہاں تک بات ہے اثاثوں کی تو موجودہ اسٹیٹسکو کے غیر منصفانہ عوامل کو ثابت کرنے کے لیے صرف ایک ہی بات کافی ہے کہ عمران خان کی بنی گالہ کی کروڑوں روپے کی 6کنال 16مرلہ زمینی جائیداد کو صرف 50لاکھ کا بتایا گیا ہے اور الیکشن کمیشن سے لے کر FBRتک تمام اداروں نے اُس پر ’’آمَنا صدقنا‘‘ بھی کرلیا ہے ۔

ملکی سیاسی تجزیہ کار اس ہارس ٹریڈنگ کو تشویشی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایک طرف موجودہ ملکی داخلی حالات میں شدید عدم استحکام ہے تو دوسری طرف عالمی قوتوں کا بھی خطے میں مفاداتی کھیل عروج پر ہے ، پھر معاشی کشیدہ صورتحال اور ایسے میں ارکان کی خرید و فروخت کا یہ کاروبار ملک میں سیاسی بھونچال پیدا کرکے عدم استحکام میں مزید اضافے کا باعث بنے گا۔ایسی صورتحال پر آخر عوامی رد عمل ظاہر ہونا شروع ہوگا جس پرحکومت کا قابو پانا مشکل ہوگا اور یہ صورتحال ملک و ملت کی سالمیت اور ترقی و تعمیر کے لیے کسی صورت اچھی نہیں ہوگی ۔

The post نیا پاکستان اورفرسودہ نظام ِ سیاست appeared first on ایکسپریس اردو.

نئے اور پرانے پاکستان میں تفریق ناگزیر ہے

$
0
0

عالم اور جاہل ایک دوسرے کی ضد ہیں ، بالکل اسی طرح امیر اور غریب بھی متضاد حالات سے دوچار ہیں اور رہے سفید پوش تو ان کی تو دنیا ہی علیحدہ ہے اپنی عزت کا بھرم رکھنے کے لیے مرنا پسند کریں گے لیکن کسی سے اپنا حال ہرگز نہیں سنائیں گے، آج جب کہ مہنگائی کا طوفان بڑھتا چلا جا رہا ہے اور غربا و ناداروں کے گھروں میں فاقہ کشی کا دورانیہ بڑی تیزی سے بڑھا ہے۔

یہ زمانہ افلاس کے عروج کا ہے، مہنگائی تو سابق جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کے بعد سے ہی بدمست ہاتھی کی طرح گزر رہی تھی، چولہا ٹھنڈا رہنے لگا تھا لیکن کچھ نہ کچھ میسر آ ہی جاتا تھا لیکن اب وہ بھی نہیں۔

پی ٹی آئی کی حکومت کے دوررس منصوبے اپنی جگہ اور پاکستان کا استحکام اور وقار میں اضافہ قابل تعریف لیکن گرانی نے لوگوں کو جیتے جی مار دیا ہے، ٹیکسوں کی بھرمار جو امیر وغریب کے لیے یکساں ہے، غریب کی آمدنی ہی کتنی ہے،گھرکا دال دلیا چل جائے تو بڑی بات ، بچت اور اپنی بے شمار ضروریات کو پس پشت ڈال کر بچوں کی تعلیم اور علاج و معالجے کا سلسلہ چلتا ہے اور بہت سے گھرانوں میں اتنا بھی آسرا نہیں کہ بچوں کے تعلیمی اخراجات وہ بھی سرکاری اسکولوں کے برداشت کرسکیں ، وہ مجبوراً اپنے بچوں کو اسکولوں سے اٹھاکر مکینک اور درزی کا کام سیکھنے پر لگا دیتے ہیں تاکہ کچھ آمدنی میں اضافہ ہو۔

وزیر اعظم عمران خان کو مشاورت کے ذریعے اس بات پر ضرور غورکرنا چاہیے کہ پاکستان ترقی کی راہ پر چلنے کے لیے تیاری کر رہا ہے۔ خوشحال اور ترقی یافتہ ہے نہیں۔ ہمارے ملک میں بے شمار لوگ بے روزگار ہیں وہ چھوٹا موٹا کاروبارکرتے تھے تو تجاوزات کے خاتمے میں ان بے چاروں کا روزگار بھی جاتا رہا، ان کے لیے کوئی متبادل جگہ فراہم نہیں کی گئی، برسہا برس اپنے گھروں میں رہنے والوں کو دربدرکردیا گیا، ان کے لیے بھی متبادل جگہوں کی ضرورت ناگزیر تھی۔گزشتہ حکومتوں نے توکچھ کام ہی نہیں ،کیا اسی وجہ سے پسماندگی، جہالت اور جرائم کو خوب فروغ ملا، آج جرائم پیشہ افراد اغوا، ڈکیتی اسی طرح کر رہے ہیں جس طرح سابقہ ادوار میں تھی۔

پی ٹی آئی کو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور لوگوں نے ووٹ دیے تھے تاکہ ملک سے بددیانتی، اقربا پروری کا خاتمہ ہو اور ہر شخص کو سکون اور خوشحالی نصیب ہو لیکن شاید منصوبہ بندی میں سقم رہ گیا ہے کہ آج نئے پاکستان میں رہتے ہوئے بھی مایوس ہیں اور پرانے پاکستان سے بھی بدظن، جہاں حکمران اور ان کی اولادیں، عزیز و اقارب دونوں ہاتھوں سے دولت لوٹ رہے تھے اور سونے چاندی کے مینار بنا رہے تھے۔ اسی حوالے سے سورۃ الماعون میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’کیا تم جانتے ہو اس شخص کو جو جھٹلاتا ہے دین کو (قیامت) وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا ہے۔‘‘

ہوس زر نے لوگوں کے ایمان میں دراڑیں ڈال دی ہیں اسی لیے وہ مرتے دم تک دولت اکٹھا کرتے ہیں۔ سورۃ الہمزہ میں دولت کے پجاریوں کا ذکر وضاحت کے ساتھ آیا ہے اور سزا کے بارے میں بھی بتا دیا گیا ہے۔ ابتدا میں طعنہ دینے اور عیب جوئی کرنے والوں کا ذکر ملتا ہے اور پھر دولت کے پجاریوں کا جو مال جمع کرتا ہے اور پھر اس کو گن گن کر رکھتا ہے اور وہ اس قدر غافل ہے اس کی عقل پر تعیشات زندگی نے پردہ ڈال رکھا ہے جب وہ یہ گمان کرتا ہے کہ گویا اس کا مال اس کے ساتھ ہمیشہ رہے گا ہرگز نہیں یقینا وہ حطمۃ میں ڈال دیا جائے گا اسی سورۃ میں اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں سے سوال کر رہا ہے جو دولت کے نشے میں چور چور ہیں جنھیں اجالے، اندھیرے کی تمیز نہیں ہے، اور آپ کیا جانیں ’’حطمۃ‘‘ کیا ہے؟

پھر اپنے سوال کا جواب باری تعالیٰ نے خود دیا ہے ’’وہ اللہ تعالیٰ کی آگ ہے جو اس کے حکم سے بھڑکا دی گئی ہے، جو دلوں تک جا پہنچے گی، وہ ان کو چاروں طرف سے گھیر لے گی، بڑے بڑے لمبے ستونوں میں۔‘‘ یہ بے ایمانی، غبن، چوری، ڈکیتی کس کام کی؟ جس کا مقصد حصول زر ہے، یہ روپیہ پیسہ روز محشر انسان کو آگ اور سانپ، بچھوؤں سے بچانے کا سبب نہیں بن سکتا ہے پھر جانتے، بوجھتے دوزخ کی آگ اپنے کالے دھن سے خریدتے اور سونے کے محل تعمیر کرتے وقت اللہ کے غضب کا احساس برے کاموں اور دنیا پرستی سے کیوں نہیں روکتا ہے۔

جتنے بھی بادشاہ، وزرا اور صاحب اقتدارگزرے ہیں، ان کا انجام بھی عبرت ناک ہوا۔ دولت کام نہ آئی۔ بددیانت لوگ اپنے لیے تو جہنم خریدتے ہی ہیں جاتے جاتے اپنی اولاد اور دوسرے عزیزواقارب کو بھی آگ کے گڑھے میں دھکا دے جاتے ہیں۔ اپنوں اور اپنی اولاد سے محبت کا یہ تقاضا ہرگز نہیں ہے، حرام لقمہ کھانے والے ہوش وخرد سے بے گانہ اور فریب دنیا کے شیدائی بن جاتے ہیں۔

پاکستان میں بھکاریوں کی بھی فوج ظفر موج شاہراہوں اور گلی کوچوں میں گھومتی اور بھیک مانگتی نظر آتی ہے۔ چھوٹے معصوم بچے، جن کی عمریں تین سال سے زیادہ نہیں ہوتیں، انھیں بھی بھیک مانگنے کا گر سکھا دیا گیا ہے۔ صوبائی حکومتوں کو جرائم اورگداگری کی مذمت کرنی چاہیے تھی لیکن صاحب اقتدار بے خبر ہیں، ان کی تو اپنی حفاظت اور دولت کا انبار خطرے میں پڑگیا ہے اور جس پر ہر روز عدالتی کارروائی ہوتی ہے۔ لیکن اپنا جرم ماننے کے لیے کوئی تیار نہیں، پیشیاں بھگتتے ہیں لیکن خزانے کی واپسی کے امکانات پر روشنی ڈالنا توکجا ذکرکرنا بھی مناسب نہیں سمجھا جاتا، اب اندرونی معاملات کیا ہیں وہ حکومت اور عدالتیں ہی جان سکتی ہیں کہ موسم خزاں کی لپیٹ میں کون کون آنے والا ہے۔

پی ٹی آئی حکومت کے ہر چیز پر لگائے گئے ٹیکس عوام میں بداعتمادی پیدا کر رہے ہیں ۔ ان ٹیکسوں کے خاتمے کی اشد ضرورت ہے، نان فائلر کے لیے دو گنا ٹیکس ہے انھیں مخصوص مدت دیں چونکہ قانونی کاموں کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ متوسط طبقے کے لوگ پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل سے بچنے کے لیے بڑے جتن کرکے گاڑی خرید پاتے ہیں، ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے، پٹرول بھی بہت مہنگا ہوچکا ہے اور اب جب کہ وہ وقت آچکا ہے جب سعودی عرب سے تیل کی ترسیل شروع ہوجائے گی دوسرے ممالک بھی زر تعاون کر رہے ہیں اور مسلسل اس عمل میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ سب کچھ ہمارے محترم وزیر اعظم کی نیک نامی اور اصول پسندی کے تحت ممکن ہوا ہے۔

سب سے زیادہ چینی کا استعمال مزدور طبقہ ہی کرتا ہے وہ میٹھی چائے دن میں کئی بار پیتا ہے۔ ایک دو چمچوں پر اکتفا نہیں بلکہ چار پانچ ٹی اسپون ایک کپ چائے میں اسے چاہئیں اور اسی چینی پر ٹیکس لگ گیا اور پچاس روپے کلو والی چینی اسی، پچاسی روپے فی کلو ہوگئی ہے۔ بجلی اور پانی کے مسائل بھی جوں کے توں ہیں انھیں حل کرنے کی ضرورت ہے۔ واٹر بورڈ کی غفلت آئے دن معصوم بچوں کوکھلے گٹر میں دھکا دے دیتی ہے اورکسی کے گھر کے معصوم پھول پل بھر میں مرجھا جاتے ہیں ۔کراچی کے حالات میں بھی تبدیلی لانے والا فی الحال کوئی سامنے نہیں آرہا ہے۔ ہم نیتوں پر شبہ نہیں کر رہے ہیں تاخیر بہت ہوگئی ہے لہٰذا اب کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نئے اور پرانے پاکستان میں تفریق نظر آئے۔

The post نئے اور پرانے پاکستان میں تفریق ناگزیر ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

مہمان، بارش اور بیٹی!

$
0
0

’’ بیوی بات ہو سکتی ہے آپ سے ؟ ‘‘ صاحب کی آواز پر میں نے اپنی کتاب کے مسودے کی پروف ریڈنگ کرتے ہوئے سر اٹھا کر انھیں سوالیہ نظر سے دیکھا۔ دماغ میں فوراً صبح سے لے کر اس وقت تک کے واقعات ناچ ناچ کر نظروں کے سامنے سے گزرنے لگے مگر کوئی قابل گرفت چیز یاد نہ آئی۔ صاحب کے اس فقرے کا مطلب ہوتا ہے کہ کوئی غلطی ہوئی ہے اور اب اس پر چینی چڑھا کر ڈانٹ پڑنے والی ہے۔

میرا فقرہ، ’’ بات سنیں صاحب ! ‘‘ کا مطلب ہوتا ہے کہ کوئی تمہید باندھ کر مالی امداد مانگنا مطلوب ہوتی ہے مگر صاحب کے اس فقرے میں موضوعات کی وسعت ہے کہ میرے لیے گھر چلانے والے معاملات کا ایک وسیع ذخیرہ ہے اوراس میںسے کسی بھی بات میں غلطی کا امکان تھا۔

’’ جی؟؟‘‘ میں نے پنسل اور کاغذات کا پلندہ ہاتھ سے رکھ دیا۔

’’ کل آپ نے… ‘‘ آغاز ہوا تو میں اور بھی پریشان ہو گئی کہ کل سے جو کچھ پک رہا تھا اس کا مواد تو اور زیادہ ہو گا اور مسئلہ کوئی اتنا گھمبیر ہے کہ کل سے سوچا جا رہا تھا کہ بات کی جائے یا نہیں، میرے چہرے پر سوالیہ کے ساتھ تفکر کے تاثرات بھی شامل ہو گئے۔

’’ جانتی ہیں نا آپ کہ مہمان رحمت ہوتے ہیں… آپ نے ان کی خاطر مدارات بھی کر دی مگر ساتھ ہی انھیں جتلا بھی دیا کہ…اللہ تعالی کو یہ بات کتنی بری لگی ہو گی! ‘‘

’’ معذرت خواہ ہوں کہ آپ کو میرا رویہ اتنا برا لگا کہ آپ نے رات بھر اس کی پرورش کی مگر آپ کہہ چکے ہوں تو میں بھی کچھ وضاحت کردوں ؟ ‘‘ میں نے اسی لہجے میں کہا جس لہجے میں درباری کہتے ہیں ، ’’ جان کی امان پاؤں تو عرض کروں ! ‘‘

’’ جب آپ نے ان کے لیے کھانا بھی جلد ازجلد تیار کر لیا اور اچھا خاصا کر لیا تو کھانے کے بعد بطور سویٹ ڈش آپ وہ فقرہ نہ کہتیں تو اچھا ہوتا ! ‘‘ نرم لہجے کی ڈانٹ کی اپنی ’’ تاثیر ‘‘ ہوتی ہے اور اسے شوہروں سے بہتر اور کوئی نہیں جانتا۔

’’ صاحب درجنوں سالوں کا ساتھ اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مہمان کو کبھی زحمت نہیں سمجھا کہ ہمارے مذہب میں مہمان ، بارش اور بیٹی کو رحمت کہا گیا ہے مگرجب حالات نارمل نہ ہوں ، کسی پر مشکل وقت ہو تو مہمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں ۔ میں نے کسی کو گالی دی نہ ماتھے پر بل ڈالے نہ لوٹ جانے کا کہا، ایک فقرہ جو آپ کو نا مناسب بلکہ برا لگا وہ یہی تھانا کہ وہ کم از کم اپنے گاؤں سے نکلتے ہوئے، تب نہ سہی تو دو گھنٹے پہلے اور وہ بھی نہ سہی تو میری والدہ کو اسپتال سے دیکھ کر نکلتے ہوئے جب ان کا ارادہ بنا کہ وہ ہماری طرف آئیں تو اس وقت وہ ایک فون کال کر دیتے… ‘‘ کون نہیں جانتا کہ اس وقت ہم کن حالات میں ہیں، کس نوعیت کی مشکل ہے اور کسی کا اس وقت آنا جب کہ میں تیار ہو کر والدہ کے لیے مائع خوراک لے کر اسپتال جانے والی تھی، عین اس وقت، جب میں نے بیرونی دروازے کا رخ کیا تو وہ ملازم کے ساتھ اندر آ رہے تھے۔

دن کے پونے دو بجے اگر آپ کے ہاں تین چار گھنٹے کی مسافت والے گاؤں سے پانچ مرد مہمان آ جائیں ، یہ بھی معلوم ہو کہ وہ اسپتال سے ہو کر آئے ہیں اور انھوں نے کھانا نہیں کھایا ہو گا۔ میں نکل رہی تھی، رک گئی، ذہن میں گھوڑے دوڑائے کہ کیا کیاجائے کہ ہم دن میں دو میاں بیوی گھر پر ہوتے ہیں، میرا نفلی روزہ تھا، یوں بھی معمول میں ہمارے ہاں دوپہر کے کھانے کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ ان کے آتے ہی میں نے فرج چیک کیا اور روشنی کی رفتار سے گوشت کا سالن بنایا، انھیں کھانا پیش کیا۔ والدہ کا کھانا لیجانے میں تاخیر نہ ہو اس کے لیے اسی بھائی کو بلوا کر دوبارہ اسپتال بھیجا جو اسی وقت اپنی ڈیوٹی پوری کر کے واپس لوٹا تھا۔ صرف ان سے اتنا کہہ دینا کہ ایک فون کال کر دیتے تو بہتر ہوتا۔ ان میں سے چند باہر کے ملکوں میں برس ہا برس سے رہ رہے ہیں ، ایک ایسے ہیں جو اپنا اسکول چلاتے ہوئے قوم کے مستقبل کی ایسی تعمیر کر رہے ہیں ۔

برا تو آپ کو اور ان کو تب لگتا جب میں اپنے معمول میں مداخلت پر احتجاج کرتے ہوئے کھانا لے کر اسپتال چلی جاتی اور سوچتی کہ کون سا وہ بتا کر آئے ہیں، یا پھر ایک دن پہلے کی بنی ہوئی سبزی اور دال ان کے سامنے رکھ دیتی اور بعد میں آپ اس بات پر ڈانٹتے کہ ان کے سامنے گوشت کیوںنہیں رکھا کہ ہمارے ہاں تواضع کا مطلب فقط گوشت کھلانا ہوتا ہے ۔ میں نے روزے کی حالت میں ، شکر دوپہر میں ایمرجنسی میں نہ صرف ان کے لیے تازہ سالن بنایا ، اپنی ماں سے ملنے بھی نہ جا سکی تھی اس روز، انھیں انتہائی نرمی اور تمیز سے یہ کہنا کہ وہ ایک فون کال کر کے اطلاع کر دیتے ، اس لیے تھا کہ آیندہ وہ اس بات کا خیال رکھیں گے!! ‘‘

’’ ہاں جیسے آپ کے کہہ دینے سے وہ اپنی روش بدل دیں گے!! ‘‘

’’ چلیں اگر وہ اپنی روش نہیں بدلیں گے تو میں اپنی روش کیوں بدلوں، مجھے معاشرے کی اصلاح کا جنون ہے سو اس کے لیے مجھ سے جو ہو سکتا ہے وہ میں کرتی رہوں گی!! ‘‘

’’ پھر بھی مہمان… ‘‘ وہ گویا ہوئے۔

’’ رحمت ہوتے ہیں!! ‘‘ میں نے ان کا فقرہ اچکا، ’’ مجھے پورا یقین ہے اس بات پر کہ مہمان ، بارش اور بیٹی اللہ کی رحمت ہوتے ہیں ۔ بارش جیسی رحمت بھیجتے ہوئے بھی اللہ تعالی ہمیں پہلے سے اطلاع کرتا ہے کہ ہم اپنی تیاری کر لیں ۔ کسی نے کہیں جانا ہے تو چھتری ساتھ لے لے، کپڑے دھو کر دھوپ میں پھیلانے ہیں کہ نہیں، کوئی گندم یا دالیں دھو کر سکھاتا ہے کوئی مسالہ جات، کسی نے بستروں اور بے موسم کے کپڑوں کو دھوپ لگوانا ہے تو وہ ایک نظر آسمان کو دیکھ لے۔ اب تو موسم کی apps ہمیں الرٹ کر دیتی ہیں مگر جب یہ سب کچھ نہیں تھا تو انسان اپنی عام نظر سے دیکھ کر مطلع صاف یا ابر آلود ہونے پر فیصلہ کر لیتا تھا ۔ بارش سے پہلے بادل آتے ہیں، بادل جمع ہونے میں کافی وقت لیتے ہیں، گرج چمک سے اطلاع ہو جاتی ہے کہ بارش کافی ہو گی تو اسی حساب سے ہم اپنے گھروں کی کھڑکیاں ، دروازے، نالیاں اور پرنالے چیک کرلیتے ہیں۔ جتنی بھی تیز رفتاری سے بارش آئے مگر کبھی بے بادل نہیں برستی۔

بیٹی جسے دنیا کی سب سے بڑی رحمت کہا جاتا ہے، یا بیٹا جسے نعمت کہا جاتا ہے… یعنی کوئی بھی اولاد دیتے وقت اللہ تعالی ہمیں کم از کم دو سو ستر دن پہلے بتا دیتا ہے کہ ہم اس کے لیے تیار ہو جائیں ۔ رزق اس کی نعمت ہے، فصلوں اور پھلوں جیسی اپنی ساری نعمتیں وہ ہمیں پہلے سے بتا کر دیتا ہے۔

مہمان بھی اس کی رحمت ہیں ، اس میں کسے شک نہیں مگر ظاہر ہے کہ اس نے ہمیں شعور دیا ہے کہ ہم جب کہیں مہمان ہونا چاہیں تو اس سے متعلقہ ہمارے کچھ فرائض ہیں۔ اللہ تعالی نے ہمیں ذہن دیا ہے ، مہمانوں کی اطلاع دینے کے لیے کوئی صور اسرافیل جیسا نظام نہیں رکھا ہے بلکہ مہمان پر ہی لازم ہے کہ وہ میزبان کے حقوق کا خیال رکھے اور میزبان کے حقوق ہیں کہ

… اسے آنے والا پیشگی اطلاع دے کر آئے۔

… اس کی مصروفیت کے بارے میں دریافت کرے کہ اسے کوئی ذاتی مصروفیت تو نہیں ۔

… اگر آپ فون کریں اور کوئی فون کا جواب نہ دے تو اسے اس بات پر ہرگز محمول نہ کریں کہ آپ کی طرف سے سمجھو اطلاع ہو گئی ہے۔ یہ اسی طرح ہے کہ جس طریقے کی سنت میں وضاحت کی گئی کہ اگر تم کسی کے گھر جا کر دستک دو اور تین بار دستک دینے پرکوئی جواب نہ آئے تو واپس لوٹ جاؤ۔ یہ نہیں کہ فون کال یا پیغام کا جواب نہیں آیا تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے پھر بھی ضرور جانا ہے۔

… کسی کے گھر کے قریب جا کراچانک خیال آ جائے کہ چلو گزرتے ہوئے ہوتے چلتے ہیں تو بھی انھیں کال کر کے چیک کرلیں کہ وہ گھر پر ہیں کہ نہیں، فارغ ہیں کہ نہیں اور یہ کہ آپ ان کے کسی پروگرام میں مخل تو نہیں ہو رہے ہیں۔ اگر وہ موجود ہوں اور آپ کو خوش آمدید کہہ رہے ہوں تو بھی یوں ہی باہر وقت گزار لیں اور انھیں تھوڑا وقت دے دیں کہ وہ آپ کی میزبانی کے لیے تیار ہو سکیں۔

کوئی کتنا اچھا میزبان ہے، اس کاانحصار اس بات پر ہے کہ آپ کتنے اچھے مہمان ہیں۔ اللہ نے اگر مہمان کو رحمت کہا ہے تو اسے رحمت ہی رہنے دیں ، اس کی ’’ ر ‘‘ میں ایک نقطے کا اضافہ نہ کریں ۔ شکریہ!!

The post مہمان، بارش اور بیٹی! appeared first on ایکسپریس اردو.

مالیاتی ڈسپلن اور ترقی

$
0
0

خیر سے بجٹ پارلیمنت سے پاس ہو گیا اور پھر یوں جو لائی کے مہینے میں آئی ایم ایف کے بورڈ نے بھی پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالر کی امداد منظور کر لی۔ انھی دنوں میں یہاں ایمنسٹی اسکیم متعارف ہوئی، اپنے تمام بے نامی اثاثہ جات کو ظاہر کرنے کے لیے وہ بھی اپنے اختتام کو پہنچی، جس کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد لوگ مزید فائلر بنے۔

یوں لگتا ہے کہ اب ڈالر 160-165 کے ارد گرد بہت مہینوں تک اپنا سفر جاری رکھے گا۔ ہماری معاشی مشکلات کسی طرح بھی کم نہیں  ہو رہیں مگر جو معاشی بے راہ روی تھی اس کی بہت حد تک حوصلہ شکنی ضرور ہوئی ہے۔

ہمیں ٹیکس کی مد میں بہت سی آمدنی درکار ہے اور بہت سارا ڈالر بھی، امپورٹ بل کم کر  کے ہمیں ایکسپورٹ بڑھانا ہے ۔ جو تارکین وطن بیرون ملک مقیم ہیں اور ہر سال لگ بھگ بیس ارب ڈالر کی ترسیلات ہمیں  بھیجتے ہیں اس کا حجم بڑھا کر یہ ہدف حاصل کرنا ہوں  گے۔ یونہی یہ ملک دو چار سال تک بحرانی صورتحال سے گزرے گا۔ اگر اس کریک ڈائون کی وجہ سے جو ہم نے کرپشن کے حوالے سے اٹھایا ہے یا اور بہت سے عوامل اگر ان کی وجہ سے معیشت مزید سکڑ تی ہے تو خدشہ یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا بھیانک economic depression  ہو گا ۔ اس لیے بہت محتاط انداز میں آگے بڑھنا ہے کہ معیشت بھی پھلے پھولے اور ڈاکیومینٹڈ بھی ہو۔

آئی ایم ایف کے چھ ارب ڈالر کی اتنی بڑی حیثیت نہیں جو بذات خود آئی ایم ایف کا ہمارے ساتھ ہماری معیشت کے لیے کھڑا ہونا اہم ہے، اس سے ہماری معیشت پر دنیا کا بھروسہ بڑھے گا جو ہمارے لیے بیرونی کاروبار میں مددگار ثابت ہو گا۔ جس کی بنیاد پر نہ صرف ہمیں بین الاقوامی سطح پر مزید قرضہ ملے گا بلکہ ہمارے defaulters  ہونے کے امکانات بھی کم ہوںگے۔

عین اس وقت جب آئی ایم ایف کا بورڈ ہماری امداد منظور کر رہا تھا۔ امریکا کی حکومتی ترجمان نے بلوچ لبریشن آرمی کو دہشت گرد قرار دے دیا ۔ اس سے یہ تاثر جڑ رہا ہے کہ جس طرح امریکا اور پاکستان کے تعلقات تاریخی اعتبار سے اب کی بار بہت ہی نچلی سطح پر آ گئے تھے اس میں آہستہ آہستہ بہتری آتی جا رہی ہے۔ ایک طرف پاکستان چین کا اعتماد بھی بحال رکھنا چاہتا ہے تو دوسری طرف مغرب کو بھی یہ باور کروانا چاہتا ہے کہ وہ ان سے دور نہیں گیا۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم اپنے خطے میں بہت سی بڑی مشکلات سے دو چار ہیں ۔ ہمارے ہندوستان کے ساتھ تعلقات جس سطح پر بگڑے ہیں ان سے بہت سے لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے وہ اپنے بھی ہیں اور غیر بھی۔ پاکستان اس خطے کا بہت ہی اہم ملک ہے اور ایٹمی طاقت بھی ۔ اس ریاست کا ماڈریٹ ہو کہ ابھرنا خود اس ریاست کی ضمانت ہے اور یہ بات اب ہم اچھی طرح محسوس بھی کر رہے ہیں۔ خود ماڈریٹ ریاست کا nexus ہماری معیشت کی بہتری سے جڑا ہوا ہے اور ساتھ ساتھ اس کو نیشنل سیکیورٹی کے تناظر میں بھی دیکھنا ضروری ہے۔

ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ہماری اندرونی سطح پر جو اقتدار کی رسہ کشی ہے وہ ابھی تک سمت نہیں لے سکی ۔ ملک کے فطری اقتدار اور طرز عمل میں خود یہاں کا کلاس اسٹرکچر ذمے دار ہے ۔ نہ بھرپور مڈل کلاس ہے جو یکساں  دیہی اور شہری علاقوں میں موجود ہو اور اس کا سیاسی کردار بھی بنتا ہو۔ آج شریف اور زرداری خاندان کے ساتھ جو سلوک روا ہے اس میں یہاں کی کلاس اسٹرکچڑ کی بناوٹ اور کچھ خود ان کی کارکردگیوں کا عمل دخل ہے۔ اور دوسری طرف ہماری اسٹیبلشمنٹ جو افغان جہاد کے بعد ایک طاقتور حیثیت میں ملک کی سیاست میں ابھری تو سہی  مگر اس کے اتحادی اور ان کا بیانیہ ملک کی پیداواری عمل میں رکاوٹ بن گئے۔

اس کی مثال کچھ اس طرح بھی دی جا سکتی ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں جب ہٹلر کی فوجیں سویت یونین میں داخل ہوئیں تو اسٹالن نے ملک کی وہ فیکٹریاں جو غیر جنگی سامان پیدا کرتی تھیں ان کو بھی اسلحہ بنانے کے کام سے لگا دیا۔ خیر ایسا تو یہاں نہیں ہوا مگر ہم نے بھی جہادی پیدا کرنے کے لیے ان کو انفراسٹکچر بنایا۔ عین اس وقت جب بنگلا دیش اپنی گارمینٹس فیکٹری کو پروان چڑھا رہا تھا ۔ آج بنگلا دیش کے چالیس ارب ڈالر کی ایکسپورٹ سے بتیس ارب ڈالر گارمینٹس انڈسٹری دیتا ہے ۔ جہاں نوے فیصد کام کرنے والے ورکرز خواتین ہیں۔ ایک ایسا ملک جو نہ کپاس اگاتا ہے نہ کپڑا بناتا ہے بس صرف گارمنٹس بناتا ہے جس کا اسی فیصد خام مال باہر سے آتا ہے۔

آج ہم اس بات کو شدت سے محسوس کر رہے ہیں کہ ہمارے ہاں صحیح انداز کی پلاننگ نہیں ہے ۔ نہ پلاننگ کرنے والے دماغ ہیں اور اگر کوئی مثبت سوچ رکھتا بھی ہے اور کو ئی اچھا مشورہ دیتا بھی تو اس کی بات نگار خانہ میں طوطی  کے مانند رہ جاتی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نے اپنے دیہی پاکستان کو بہت متحرک بنانا ہے اور اس کے لیے لینڈ ریفارمز کے علاوہ وہاں کی صحت و تعلیم و شفاف پانی اور نکاسی آب کا موئثر نظام دینا ہو گا۔ یہ بات بہت ہی فراخدلی سے ہمیں ماننی ہو گی کہ ملک کے اس ڈگر تک آ جانے میں ہماری اشرافیہ ہی ذ مہ دار ہے، اور یہی اشرافیہ ہے جس کے مفادات کی ترجمانی ملک کے دونوں ادوار یعنیٰ آمریت اور جمہوری زمانوں میں ہوئی ہے۔

اس وقت جو سب سے اہم مسئلہ اس ملک کو درکار ہے وہ balance of payment  کے حوالے سے ہے اور دوسرا اہم مسئلہ budget deficit   کے حوالے سے ہے۔ ہمیں اس کے لیے اپنی import item میں سے غیر ضروری یا لگژری کے حوالے سے اشیاء پر ڈیوٹی بڑھانی ہے تو دوسری طرف لانگ ٹرم پلاننگ کی تحت ایکسپورٹ انڈسٹری کے لیے ایک جامع منصوبہ اور ان کو اتھارٹی کے تحت قانون سازی کر کے چلانا ہے۔ یقینأ روپے کی قدر گرنے سے آیندہ دنوں میں ایکسپورٹ کے حوالے سے بہتر نتائج نکلیں گے ۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی صورت میں یہ انداز ہ لگایا جا رہا ہے کہ ہمیں اٹھتیس ارب ڈالر اور بھی قرضہ دنیا کی فانائنشل اداروں سے مل سکتے ہیں جس سے ہم لگ بھگ ستائیس ارب ڈالر آیندہ دو سال  میں واجب الادا قرضے ادا کر سکتے ہیں۔

آج ایک دم سے ایک لاکھ مزید فائلر بن گئے اور اس طرح ہر سال ایک لاکھ اور بھی بنیں گے۔ ہمارا tax to GDP ریٹ کا تعلق ہمارے Budget Deficit  سے ہے۔ اس کے بہتر ہونے سے ہمارے قرضے لینے کا عمل سست رفتاری پکڑے گا اور اس طرح مجموعی قرضوں کا حجم کم ہو گا۔

جہاں تک کرپشن کا پیسہ واپس لینے کا عمل ہے وہ سیاسی ہے اس سے خاطر خواہ نتائج نہیں نکلیں گے۔ اس سے یہ ہو سکتا ہے کہ کرپشن کم ہو مگر پیسا واپس لانا آسان نہیں۔ مگر اس حوالے سے کم از کم یہ ضرور ہو گا کہ شفافیت بڑھے گی۔ جو پروجیکٹس ہیں ان میں بڑی بڑی کمیشن نہ ہو۔

لب لباب یہ ہے کہ fiscal Dsicpline  کو ہماری قومی سلامتی کا اہم ستون سمجھنا ہو گا۔ اداروں کو اپنے مینڈیٹ سے کام کرنا اور ان کا آپس میں ٹکرائو میں نہیں آنا تو خود نیشنل لیڈر شپ پیدا کرنے کے لیے زمین کا ہموار کرنا پاکستان کی بقاء کا ذمے دار ہے۔

ان تمام باتوں میں سب سے اہم بات جس کا اثر آہستہ آہستہ نظر آئے  گا وہ ہے ترقی کی معنیٰ کو وسیع اور جامع انداز میں دیکھنا ۔ ایک ترقی انسانی وسیلوں کی ہوتی ہے اور دوسری انفرا سٹرکچر کے حوالے سے ۔ ہم نے انسانی وسیلوں کی ترقی کے حوالے سے ان بیس تیس سالوں میں وہ انڈیکٹر جو نوے کی دہائی میں قدرأً بہتر تھے وہ آج اس سے بھی بدتر ہو چکے ہیں۔ یقیقنا پاکستان کا تابناک مستقبل دہلیز پر آن کھڑا ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ مستقبل مزاجی سے آگے بڑھنا ہے۔ یہاں فرد نہیں بلکہ اداروں کے مفادات ملک کے مجموعی طور پر بہتر پاکستان کے ضامن ہوںگے۔

The post مالیاتی ڈسپلن اور ترقی appeared first on ایکسپریس اردو.

خوابوں کا شہر ویانا

$
0
0

میں ان دنوں مشرقی یورپ کے دورے پر ہوں۔ اس ہفتے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا اور کچھ دوسرے علاقوں میں جانے کا موقعہ ملا۔ ویانا جانے کے لیے ہم نے ہنگری کے دارالحکومت بڈاپسٹ سے ریل کے ذریعے سفر کیا۔

بڈاپسٹ سے ویانا تک 300 کلو میٹر مسافت اڑھائی گھنٹے میں طے کرتی ہے۔ ایک فرد کا دو طرفہ کرایہ صرف 38 یورو ہے جو پاکستانی روپے میں تقریبا ً4400 روپے بنتا ہے۔ سیاحت کے لیے دو افراد کے لیے متوسط رہائش چھ سے سات ہزار پاکستانی روپے فی کمرہ ہے۔ پورے شہر میں میٹرو ریل، بس اور ٹرام پر ایک ہی ٹکٹ یا پاس استعمال ہوتا ہے جس کی یومیہ لاگت چھ ہزار پاکستانی روپے ہے۔ ویانا کے میوزیم، محلات اور پارک سیاحوں کے لیے دلچسپی کے حامل ہیں۔

ویانا آسٹریا کا دارالحکومت اور ملک کی 9 ریاستوں میں سے ایک ریاست ہے۔ اس کی آبادی اٹھارہ لاکھ ہے۔ یورپی یونین کے ممالک میں یہ آٹھواں بڑا شہر ہے۔ پہلی جنگ عظیم سے قبل ہنگری اور آسٹریا ایک ہی مملکت شمار کیے جاتے تھے۔ برلن کے بعد دنیا بھر میں سب سے زیادہ جرمن زبان یہاں بولی جاتی ہے۔ اسے گزشتہ صدی کے دوران اسے دو عالمی جنگوں (پہلی اور دوسری جنگ عظیم) کا سامنا بھی رہا۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس پر بیک وقت امریکا، برطانیہ، سوویت یونین اور فرانس کا قبضہ رہا۔

جمہوریہ آسٹریا برِ اعظم یورپ کے وسط میں خشکی سے گھرا ہوا (لینڈ لاکڈ) ملک ہے۔ اس کی کل آبادی تقریباً 87 لاکھ ہے۔ آسٹریا کے شمال میں جرمنی اور جمہوریہ چیک ، مشرق میں سلواکیا اور ہنگری، جنوب میں سلوانیا اور اٹلی جب کہ مغرب میں سوئٹزر لینڈ ہے ۔ آبادی کی اکثریت جرمن زبان بولتی ہے۔ دیگر مقامی زبانوں میں کروشین، ہنگری اور سلوین ہیں۔ آسٹریا کو فی کس آمدنی کے اعتبار سے دنیا کا 12 واں امیر ترین ملک مانا جاتا ہے۔ آسٹریا 1955 سے اقوامِ متحدہ کا رکن ہے۔ 1995 میں یہ یورپی یونین کا رکن بنا۔

عالمی منظر نامے میں ویانا کا تذکرہ ہمہ وقت رہتا ہے۔ یہ شہر دنیا بھر کا مقبول ترین کانفرنس سینٹر بھی ہے۔ اقوام متحدہ اور اوپیک تنظیم کے اہم دفاتر بھی یہاں ہیں۔ یہاں کی ثقافتی اہمیت کی بناء پر ویانا کو 2001ء میں اقوام متحدہ نے عالمی وراثت قرار دیا ہے۔ اس خوبصورت شہر کی عمارتوں اور ٹرانسپورٹ کا نظام مثالی اور خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس شہر کو خوابوں اور میوزک کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ آسٹریا کے زیادہ تر حصے کا موسم سرد رہتا ہے اور اس پر مغربی مرطوب ہواؤں کا اثر رہتا ہے۔

اس شہر میں بیک وقت پندرہ قوموں کے افراد آباد ہیں۔ جن میں جرمن، ترک، سربین، ایرانی، روسی، چینی، پولینڈ، رومانیہ اور بلغرایہ کے لوگ بھی شامل ہیں۔ ویانا میں سب سے زیادہ آبادی سرب اور ترک ہے جب کہ تیسرے نمبر پر جرمن آباد ہیں۔

مسلمانوں کی آبادی چھ فی صد اور یہودی پانچ فی صد ہیں۔ یہاں آباد 32 فی صد لوگوں کا کوئی مذہب نہیں۔ آسٹریا میں اسلام سو سال سے سرکاری طور پر ایک تسلیم شدہ مذہب ہے۔ اس وقت آسٹریا میں تقریباً پانچ لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں جو کہ ملک کی کل آبادی کا چھ فیصد ہیں۔ پاکستانیوں کی بھی قلیل تعداد یہاں آباد ہے۔ آسٹریا کی اسلامی برادری کے مطابق اس وقت ملک میں ساٹھ ہزار مسلمان بچے مذہبی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ تعلیم جرمن زبان میں فراہم کی جاتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ساٹھ سے ستر لاکھ سیاح سالانہ ویانا آتے ہیں۔ اس شہر کو دنیا کا اسمارٹ ترین شہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں کے میوزیم اور Operas کو دیکھے بغیر اس شہر کو سمجھنا مشکل ہے۔ شہر میں چودہ یونیورسٹیاں اور درجنوں پارک ہیں۔ شہر کے بیچوں بیچ ٹرام، میٹرو اور سیاحوں کی بسیں خو ش نما منظر پیش کرتی ہیں جن پر ایک ہی ٹکٹ پر سفر کیا جا سکتا ہے۔ شہر بھر کی تمام پر کشش جگہیں تقریباً دو سے تین مربع کلو میٹر پر پھیلی ہوئی ہیں۔ جن کو با آسانی ٹرام، بس، سائیکل یا بگھی پر دیکھا جا سکتا ہے۔ رہائش، خوراک اور سیاحت کے اعتبار سے یہ شہر قطعی طور پر مہنگا نہیں۔ ایک مناسب بجٹ میں اس شہر کی پر لطف سیاحت کی جا سکتی ہے۔

دنیا کے پہلے ماہر نفسیات Sigmund Freud کا تعلق بھی اسی شہر سے تھا۔ تاریخی حوالے بتاتے ہیں کہ یہ شہر پانچ سو قبل مسیح میں دریائے ڈینیوب کے کنارے آباد ہوا۔ رومن دور میں بھی اس شہر کو ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔20 ویں صدی کے آغاز میں یہ آسٹرو، ہنگرین سلطنت کا دارلحکومت تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ویانا جرمن اور آسٹرین ری پبلک کا دارلحکومت بھی رہا۔1919 میں یہ شہر آزاد ملک آسٹریا کا دارلحکومت قرار پایا۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران 1945میں سوویت یونین نے ویانا پر حملہ کر کے شہر کا محاصرہ کر لیا۔ سوویت قبضہ چھڑانے کے لیے امریکا اور برطانیہ نے یہاں ہوائی حملے کیے جن سے بڑی تباہی ہوئی۔ گیارہ روزہ جنگ کے بعد بھی سوویت قبضہ قائم رہا۔ آسٹریا کو جرمنی سے الگ کر کے ری پبلک کا درجہ دیا گیا۔ آسٹریا 1955 تک سوویت یونین کا حصہ رہا۔

دنیا کی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ ہے کہ آسٹریا بیک وقت چار ممالک کے قبضے میں رہا۔ ویانا شہر اور آسٹریا کے مختلف حصوں پر سوویت یونین، امریکا، برطانیہ اور فرانس قابض رہے۔ اسی بناء پر Four soldiers in a jeep کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ بالآخر 1955 میں ایک معاہدے کے تحت آسٹریا کو آزاد جمہوریہ قرار دیا گیا۔

The post خوابوں کا شہر ویانا appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 22460 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>