Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22426 articles
Browse latest View live

’’غفران امتیازی، لیاقت علی عاصم،نثار ناسک ‘‘

$
0
0

گزشتہ چند کالم دورہ چین کی نذر ہو گئے اور یوں یکے بعد دیگرے اس دوران میں تین پیارے انسانوں اور اچھے دوستوں کی رحلت پر اُن کو یاد کرنے اور اُن کی قبروں پر لفظوں کے دو پُھول چڑھانے کا موقع ہی نہ مل سکا، جو اُن کا حق اور ہم پیچھے رہ جانے والوں کا فرض بنتا ہے۔

اس ایک مختصر سے کالم میں ان تینوں معتبر اور نامور تخلیق کاروں کی کئی خدمات اور ذاتی یادوں کا احاطہ کرنا تو کسی صورت بھی ممکن نہیں کہ ان میں سے ہر ایک ، ایک سے زیادہ کتابوں کا حق دار ہے، سو یہ چند سطریں اگر اُن کی ایک جھلک بھی محفوظ کر سکیں تو یہ بھی بہت غنیمت ہو گا۔

غفران امتیازی پاکستان ٹیلی وژن کی اُن چند شخصیات میں سے ایک تھے جنھیں بلاشبہ اس کے معماروں کا درجہ دیا جا سکتا ہے کہ یہ کم و بیش ابتداء سے ہی اس تاریخ ساز ادارے سے منسلک ہو گئے تھے اور جن کی ساری زندگی اسی کے حوالے سے نہ صرف گزری بلکہ انھیں اس عمارت کے بنیادی ستون بننے کا شرف بھی حاصل ہوا ۔ غفران بھائی سے میری پہلی ملاقات پنڈی ٹی وی کے اُس عارضی اسٹیشن میں ہوئی جہاں سے پی ٹی وی کی نشریات اسلام آباد ٹی وی اسٹیشن کے آغاز سے قبل دکھائی جاتی تھیں۔

وہاں کے اسکرپٹ ایڈیٹر یونس منصور مرحوم نے اُن سے میرا تعارف کرایا۔ انھوں نے نہ صرف میری شاعری کے بارے میں بہت اچھے کلمات کہے بلکہ ٹی وی اسکرپٹ رائٹنگ کے حوالے سے بھی کئی ایسی باتیں کیں جنہوں نے بطور اسکرپٹ رائٹر میرے لیے ایک بہترین تربیت گاہ کا کام کیا۔ وہ ’’حوّا کے نام‘‘ نامی اُسی سیزیز کے بھی ایگزیکٹو پروڈیوسر تھے جس میں میرے دو ابتدائی کھیل ’’برزخ‘‘ اور ’’موم کی گڑیا‘‘ ساحرہ کاظمی (اُس وقت ساحرہ انصاری) کے زیر ہدایات پیش کیے گئے ۔ یہاں سے اُن سے ایک ایسا تعلقِ خاطر قائم ہوا جو ہمیشہ تازہ اور سر سبز رہا۔

کوئی دو برس قبل جب انھوں نے مجھے اپنی آپ بیتی کے حوالے سے کچھ لکھنے کے لیے کہا تو جیسے چار دہائیاں خوشبو کی طرح چاروں طرف پھیل گئیں وہ ایک بہت دھیمی طبیعت کے انسان تھے اور اُن کی گفتگو میں ایک خاص طرح کی عاجزی اور انکساری تھی جس سے قطعاً یہ اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ اپنے کام کے سلسلے میں اس قدر سخت مگر اور اصول پرست ہوں گے کہ بڑے سے بڑا اداکار بھی اُن کی ریہرسل میں دیر سے آنے کا رسک نہیں لے سکتا تھا ۔ ٹی وی ڈرامے کے حوالے سے اگرچہ بہت سے پروڈیوسرز نے بہت نام کمایا ہے مگر یاور حیات کے بعد غالباً غفران امتیازی دوسرے آدمی تھے جنھیں اس کے حوالے سے درسگاہ کا مقام دیا جا سکتا ہے۔ ایسے مخلص کردار اور باہنر لوگ اب ہمارے معاشرے میں صرف یادوں میں ہی زندہ نظر آتے ہیں۔

لیاقت علی عاصم سے پہلی بالمشافہ ملاقات دبئی کے کسی مشاعرے میں تقریباً تیس برس قبل ہوئی تھی اور اگر چہ اس درمیان میں لمبے وقفے بھی آتے رہے مگر وہ جب بھی ملے اُن کی آنکھوں میں وہی محبت کی روشنی اور کلا م میں وہی مخصوص تازگی تھی جس نے پہلی ملاقات میں ہی دل کو چُھو لیا تھا۔ اُس وقت بھی اُن کی صحت کوئی بہت زیادہ اچھی نہیں تھی لیکن بعد کی ملاقاتوں میں وہ ہر بار پہلے سے بھی زیادہ کمزور نظر آئے، یہ اور بات ہے کہ شعر پڑھتے وقت اُن کی آواز کی گرمی اور گونج میں کبھی کوئی کمی نہیں آئی، اُن کو مصرعہ بنانے اور شعر کو سجانے کا وہ ڈھنگ آتا تھا جو اُن کے بیشتر ہم عصروں میں انھیں سے منفرد اور ممتاز کرتا تھا چند شعر دیکھئے:

عشق بارِ دگر ہُوا ہی نہیں

دل لگایا تھا دل لگا ہی نہیں

ایک سے لوگ ایک سی باتیں

گھر بدلنے کا فائدہ ہی نہیں

ورنہ سقراط مر گیا ہوتا

اُس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں

……

کوئی آس پاس نہیں رہا تو خیال تیری طرف گیا

مجھے اپنا ہاتھ بھی چُھو گیا تو خیال تیری طرف گیا

کوئی آ کے جیسے چلا گیا کوئی جیسے جا کے گیا نہیں

مجھے اپنا گھر کبھی گھر لگا تو خیال تیری طرف گیا

……

شام سے آنکھ چراتے ہوئے منظر کے قریب

ایک خورشید نکلتا ہے مرے گھر کے قریب

……

نہ کرے چشم خوباں پیش بینی

کوئی حالت نہیں دل کی یقینی

برا مت مان جانے دے مرے دل

یہ دنیا ہے ہمیشہ کی کمینی

پناہِ عشق میں محفوظ گزرا

قیامت خیز دورِ بے یقینی

نثار ناسک مرحوم کو عوامی شہرت اور پہچان گو جنید جمشید مرحوم، شعیب منصور اور اُن کی ٹیم کے بے مثال قومی گیت ’’دل دل پاکستان‘‘ سے ملی مگر ادبی حلقوں میں وہ اس سے بہت پہلے اپنا نام اور مقام کا بنا چکا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے اوریئنٹل کالج میں ایم اے اُردو کے دوران اُس کا یہ شعر ہمارے حلقہ یاراں میں بہت مشہور اور مقبول تھا۔

میں سازشوں میں گھِرا اک یتیم شہزادہ

یہیں کہیں کوئی خنجر مری تلاش میں ہے

اسلام آباد کی ادبی محفلوں اور درجنوں مشاعروں میں ا س سے ملاقاتوں کا سلسلہ اگرچہ گزشتہ نصف صدی پر پھیلا ہوا ہے مگر اتفاق سے حالیہ چند برسوں میں یہ بوجوہ ایک بے ارادہ سے تعطل کا شکار ہو گیا اُس کی بیماری اور آخری دنوں میں تنگ دستی کی خبریں تو ملتی رہیں مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ حالات اس قدر خراب ہیں۔ اب اُس کی رحلت کی خبر ملی ہے تو بار بار اس بات پر شرمندگی ہو رہی ہے کہ ہم لوگ ایک ہی برادری سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک دوسرے سے کیسی افسوسناک دُوری پر رہتے ہیں اور ایسی بے معنی مصروفیتوں میں اُلجھے رہتے ہیں جن کا احساس اُس وقت ہوتا ہے جب توجہ کا وقت گزر چکا ہوتا ہے اور اُس کی گرد میں صرف جانے والوں کی یادیں باقی رہ جاتی ہیں۔ کیسا بانکا اور صاحبِ نظر شخص تھا ان شعروں کا خالق نثار ناسک۔

ہم کو آزادی ملی بھی تو کچھ ایسے ناسکؔ

جیسے کمرے سے کوئی صحن میں پنجرہ رکھ دے

ماں مجھے بھی صورتِ موسیٰ بہا دے نہر میں

قتلِ طفلاں کی منادی ہو چکی ہے شہر میں

دست و پابستہ کھڑا ہوں پیاس کے صحرائوں میں

اے فرات زندگی تُو نے یہ کیا بخشا مجھے

میں اکیلا حرف تھا کاغذ کی کشتی میں سوار

میری ہی تنہائیوں کا بوجھ لے ڈوبا مجھے

چند کرنیں جو مرے کاسے میں ہیں ، ان کے عوض

شب کے دروازے پہ بھی دینا پڑا پہرا مجھے

میں نے ساحل پر جلا دیں مصلحت کی کشتیاں

اب کسی کی بے وفائی کا نہیں کھٹکا مجھے

The post ’’غفران امتیازی، لیاقت علی عاصم،نثار ناسک ‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.


’’شامِ غریباں‘‘

$
0
0

سیاست کا بے رحم پہیہ اپنی پوری رفتار سے گھوم رہا ہے، یعنی اہل سیاست اپنی اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں، حکومت اپنا کام کیے جا رہی ہے۔ مہنگائی بڑھنے کے ساتھ ساتھ حکومت مخالفین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔

بڑے سیاسی مخالف پابند ِسلاسل ہیں۔ جب کہ چھوٹے اپنی سیاسی صفیں درست کرنے کی کوشش میں ہیں۔ لیکن ابھی تک کسی ایک رہنماء کی سربراہی میں اپوزیشن متحد نہیں ہو پا رہی۔ اور فیصلہ یہ کیا گیا ہے کہ اپوزیشن کے آیندہ ہر اجلاس کی صدارت کسی نہ کسی ایک جماعت کا رہنما کرے گا۔ اپوزیشن کے اس کمزور اتحاد سے حکومت کو ریلیف مل رہا ہے ۔ جیل سے آصف زرداری اور میاں نواز شریف کی کمزور آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔

لیکن میں بطور اخبار نویس اس وقت کو یاد کر رہا ہوں جب بھلے وقتوں میں کوئی سیاسی رہنما جیل جاتا تھا تو وہاں سے وہ اخبار نویسوں سے رابطہ رکھنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کرتے تھے۔ کیونکہ اس وقت موبائل فون یا ٹیلی ویژن کا دور نہیں تھا۔ عموماً پابند سلاسل رہنما اپنے کسی ملنے والے کے ذریعے کوئی پیغام بھیج دیتے تھے جو خبر بن جاتا تھا، یا پھر کسی کتاب کا تحفہ بھیج دیتے ۔

ہمارے سیاستدانوں کی کئی شہرہ آفاق کتب انھوں نے اپنی اسیری کے دوران لکھیں ۔ ہماری جانب سے ’’رفتید ولے نہ از دل ما‘‘ والا معاملہ رہتا۔ وہ ہمیں پھر بھی اپنی یاد کسی نہ کسی طرح دلاتے رہتے ۔ کبھی خط لکھ کر اور کبھی کسی تحفے کے ذریعے۔ شاید ان پابند لوگوں کے دلوں میں شک ہوتا تھا کہ ہم لوگ جو بظاہر آزاد پھرتے ہیں اپنی کھلی مصروفیات میں ان قیدیوں کو بھول جاتے ہیں جو ہماری آزادی کے لیے قید ہیں۔ عموماً نوابزادہ نصر اللہ خان اپنی اپوزیشن کی سیاست کی وجہ سے اکثر نظر بند رہتے ۔

ائر مارشل اصغر خان بھی اپنی سیاست کے آغاز میں حکومتی نظر بندی کا شکار رہے ان کے علاوہ دوسرے کئی سیاسی رہنما بھی اکثر حکومتی جبر کا شکار رہتے تھے۔ لیکن یہ دونوں سرکردہ رہنما ایسی شخصیات تھیں جن کی یاد ان کے تحفوں اور یاد دہانیوں کی محتاج نہیں تھی۔ نواب صاحب برسات کے اس موسم میں ہمیں ویسے بھی ہر سال یاد آتے ہیں۔ ان کا معمول تھا کہ برسات کے دنوں میں جب آم کی فصل اترتی تھی تو لاہور کی زندگی میں ایک توانا اور شائستہ آواز ضرور بلند ہوتی تھی ۔

یوں تو یہ آواز لاہور کی سیاسی زندگی کا ایک مستقل جزو بن گئی تھی لیکن بعض موسم اس آواز کے لیے ایک ایسی محفل کو بھی ساتھ لاتے جو لاہور کی ختم ہو جانے والی ادبی اور علمی محفلوں کی طرح اس سیاسی محفل کو یاد گار بنا دیتے۔ نہ صرف لاہور بلکہ دور دور سے سیاسی کارکن، رہنماء ، اخبار نویس اور سیاست سے محض علمی دلچسپی رکھنے والے اہل ذوق بھی اس محفل میں شریک ہوا کرتے ۔ کچھ ایسے لوگ بھی دیکھے جاتے جو ترک سیاست کے بعد اپنی پرانی یادیں تازہ کرنے ادھر آ نکلتے ۔ ان محفلوں میں سیاسی زندگی کے کئی نازک مسائل بھی طے ہوا کر تے اور سیاست کے نئے رخ بھی متعین ہوتے ۔

علم سیاست پر درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رہتا اور کسی تازہ سیاسی مسئلے پر گفتگو ہوتی تو ماضی کی کتاب سیاست کے اوراق الٹنے لگتے۔ جب پرانے سیاستدانوں کو کسی ایسے ہی مسئلہ کا سامنا کرنا پڑا تھا اور انھوں نے کس طرح اس مشکل پر قابو پایا تھا۔ مثلاً کسی سیاسی حریف یا حکومت وقت سے مذاکرات کا سوال سامنے آیا اور حمایت اور مخالفت میں آرائیں آنا شروع ہوئیں تو دنیا کی معلوم سیاسی تاریخ کے ان تمام مذاکرات کا تذکرہ شروع ہو گیا جو کہیں بھی کسی ایسے موقع پر منعقد ہوئے تھے۔

قریبی احباب نے گپ شپ اور سیاسی گفتگو والی اس شام کی محفل کو ’’شام غریباں‘‘ کا نام دے رکھا تھا جو رات گئے تک برپا رہتی تھی ۔ اس محفل کے میزبان نوابزادہ صاحب ہوا کرتے تھے اور مہمان وہ سب لوگ جنھیں سیاست اور آموں سے رغبت ہوتی تھی ۔ رات کا کھانا بھی بازار سے آتا تھا یا کبھی وہیں کوئی ورکر نما باورچی تیار کر دیتا اور کبھی کوئی شریک محفل اپنے ساتھ بالٹی گوشت لیتا آتا لیکن آم نواب صاحب کے باغ کے ہوا کرتے اور اس باغ کے ہر پودے کی ایک تاریخ تھی اور شجرہ نسب تھا اور اس کے پھل کا ایک جدا گانہ ذائقہ تھا ۔ شرکاء محفل کو اس باغ کی اس ان دیکھی ’’امبی‘‘ سے عشق ہو گیا تھا جس کے پھل کی تعریف میں نواب صاحب گم ہو جاتے تھے اور اس کے آم چوس کر اہل محفل ان کی خوشبو پر حیرت کا اظہار کرتے تھے ۔ مرزا غالبؔ کی بد قسمتی کہ وہ اس ’’امبی‘‘ کا پھل نہ چکھ سکے۔

گزشتہ برسوں کی طرح جب بھی لاہور کا آسمان بادلوں سے بھر جاتا ہے اور برسات شروع ہو جاتی ہے تو مجھے وہ ’’شام غریباں‘‘ یاد آ جاتی ہے جو اب رفتہ رفتہ خواب و خیال ہوتی جا رہی ہیں اور کون کہہ سکتا ہے کہ نئے میر محفل اب کون ہوں گے کیونکہ ذوق رکھنے والے لوگ تو گزر گئے ۔ نئی محفلیں کون آراستہ کرے گا اور نہایت احترام کے باوجود بے تکلفی کی کیف ِ اعلیٰ رکھنے والی یہ فضا کب قائم ہو گی۔ اب تو رفتہ رفتہ وہ آزاد لوگ بھی کسی بیڑی کے مسافر کی طرح تتر بتر ہوتے جا رہے ہیں جو ان محفلوں کے مستقل شرکاء اور ان کی جان ہوا کرتے تھے۔

یہ محفل جو دنیاوی جاہ و حشم سے یکسر خالی سیاسی فقیروں اور درویشوں کی محفل تھی ہم نے رات کی تاریکی میں بچتے بچاتے سلطان وقت کے پیغامبر بھی حاضری دیتے دیکھے ۔ وزیر مشیر بھی دیکھے اور محتسب اور کوتوال بھی۔ مغل اعظم اکبر کے دربار کی شاہانہ شان و شوکت میں دن رات رہنے والے فیضی نے بھی کوئی ایسی ہی درویشانہ محفل دیکھ لی تھی کہ اس کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا :

دریں بارگاہِ ادب سروراں

جوئند تاج از برہنہ سراں

عجیب ماجر ا ہے کہ برہنہ سر لوگوں کی اس بارگاہ ادب میں سردار اپنے لیے تاج تلاش کرنے آتے ہیں حالانکہ فیضی ہی کے بقول یہ محفل تو وہ محفل تھی کہ:

در مجلس سر بازاں عمامہ نمی گنجد

سر کی بازی لگانے والوں کی مجلس میں عمامہ و دستار کی گنجائش کہاں۔ بہر حال میں لاہور کی اور اس ملک کی سیاسیاست عالیہ کی اس یاد گارمحفل کو یاد کرتا رہتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ نکلسن روڈ کے اس حصے سے نہ گزروں جہاں کے ایک مکان میں نواب صاحب ڈیرہ ڈالتے تھے اور شام غریباں کی مجلس برپا ہوتی تھی۔

The post ’’شامِ غریباں‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک اورنگوتان ماں

$
0
0

جنوب مشرقی ایشیا کے کسی ملک سے آنے والے پام آئل کے قطرے جب اپنے فرائنگ پین میں ڈالیں اور اسے چولہے پر گرم کر لیں تو اس اورنگوتان ماں کے دل میں لگی آگ کو یاد کر لیں جو سماٹرا کے جنگلوں میں اپنے بچے کے ساتھ پیڑوں پر بسیرا کرتی تھی۔

اس لحیم شحیم اورنگوتان ماں کے سینے سے اس وقت بھی اس کا بچہ لپٹا ہوا تھا جب علاقے کے گھنے اور بلند و بالا پیڑوں کو کاٹنے کے لیے لوگ آن پہنچے۔ انھیں یہ علاقہ صاف کرنا تھا، پیڑوں کی کٹائی چھٹائی کرنی تھی تاکہ یہاں پام کے پیڑوں کی کاشت ہو سکے۔ پام کے پیڑ جو زرمبادلہ کمانے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ان کی کاشت کے لیے وسیع رقبہ درکار ہے اور اس رقبے کو حاصل کرنے کے لیے ان جنگلوں کی کٹائی لازمی ہے جن پر صدیوں سے بڑے بڑے سرخ بالوں والے لحیم شحیم اورنگوتان بندروں کا قبضہ ہے۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ ان پیڑوں پر زندگی بسر کرتے آئے ہیں۔

مائیں اپنے بچوں کو سینے سے لگائے ہوئے جھولتی ہیں، زقند لگاتی ہیں اور ایک پیڑ سے دوسرے پیڑ پر پہنچ جاتی ہیں۔ علاقے کے لوگ اورنگوتان نسل کے ان نایاب بندروں کے ستھرائو سے بہت ناراض ہیں اور انھوں نے انھیں بچانے کے لیے ایک تنظیم بنائی ہے۔ یہ تنظیم 2012 سے قائم ہے اور اس نے کچھ اورنگوتان بچائے بھی ہیں۔ ان ہی میں سے ایک ’’امید‘‘ نام کی ایک مادہ اورنگوتان تھی جو کچھ دنوں پہلے ماں بنی تھی۔ چند دنوں پہلے ان نایاب بندروں سے جنگل کو صاف کرنے والے آئے اور انھوں نے اپنے نیزوں اور پیلٹ گنوں کا استعمال شروع کیا۔ ’’امید‘‘ اپنے بچے کو سینے سے لپٹائے پیڑوں پر ادھر سے ادھر بچتی رہی۔

اس کوشش میں اس کی دونوں آنکھیں پیلٹ گنوں کے چھروں سے ضایع ہو گئیں اور اس کے پھیپھڑوں اور بدن کے بالائی حصے میں پیلٹ گن کے 74 زخم آئے۔ ان تمام کوششوں کے باوجود وہ اپنے بچے کو نہ بچا سکی اور خود اندھی ہو گئی۔ چھروں کے زخمی اور نیزوں سے اس کا بدن بے طرح زخمی ہوا۔ اب وہ وٹرنری سرجنوں کے رحم و کرم پر ہے۔ اس کی دیکھ بھال کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ نابینا اورنگوتان ماں اپنے سینے سے لپٹے ہوئے بچے کو ٹٹول کر ڈھونڈتی ہے، اسے نہیں پاتی تو سسک سسک کر روتی ہے، اس کی چھاتیوں سے دودھ بہتا رہتا ہے۔ وہ ایک ماں ہے اور مائیں اپنے بچھڑ جانے والے بچوں کے لیے اسی طرح تڑپتی ہیں۔

اس موقع پر وہ تمام مائیں یاد آئیں جن کے بچے ان سے جدا کر دیے گئے۔ کچھ مار دیے گئے اور سیکڑوں مفقود الخبر ہیں۔ اپنے بچے کے لیے ’’امید‘‘ کی بے قراری دیکھ کر دنیا کی تمام مائوں کو یاد کرنے کے ساتھ ہی ان بیٹوں کا بھی خیال آتا ہے، جن کی مائوں کے عشق نے انھیں بے قرار رکھا۔

65 برس پہلے کی بات ہے جب ’’بانگ درا‘‘ سے اقبال کی مشہور نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ پڑھائی گئی۔ جذبوں کا جمال، لفظوں کا جاہ و جلال، ایک طویل نظم جس میں درد اور آہِ سرد کے مقامات تھے۔ اقبال جو لفظوں کے جوہری تھے۔ انھوں نے اپنی والدہ محترمہ کے غم میں کیسے لعل و گہر لٹائے۔

جب ترے دامن میں پلتی تھی وہ جانِ ناتواں

بات سے اچھی طرح محرم نہ تھی جس کی زباں

اور اب چرچے ہیں جس کی شوخئیِ گفتار کے

بے بہا موتی ہیں جس کی چشم گوہر بار کے

عِلم کی سنجیدہ گفتاری، بڑھاپے کا شعور

دنیوی اعزاز کی شوکت، جوانی کا غرور

زندگی کی اوج گاہوں سے اُتر آتے ہیں ہم

صحبتِ مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم

بے تکلُّف خندہ زن ہیں، فکر سے آزاد ہیں

پھر اُسی کھوئے ہوئے فردوس میں آباد ہیں

کس کو اب ہو گا وطن میں آہ ! میرا انتظار

کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار

خاکِ مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آئوں گا

اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آئوں گا!

تربیت سے تیری مَیں انجم کا ہم قسمت ہوا

گھر مرے اجداد کا سرمایہ عزت ہوا

دفترِ ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات

تھی سراپا دِین و دنیا کا سبق تیری حیات

عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی

میں تری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی

وہ جواں، قامت میں ہے جو صورتِ سروِ بلند

تیری خدمت سے ہوا جو مجھ سے بڑھ کر بہرہ مند

کاروبارِ زندگانی میں وہ ہم پہلو مرا

وہ محبت میں تری تصویر، وہ بازو مرا

تجھ کو مثل طفلکِ بے دست و پا روتا ہے وہ

صبر سے نا آشنا صبح و مسا روتا ہے وہ

تُخم جس کا تو ہماری کِشتِ جاں میں بو گئی

شرکتِ غم سے وہ اُلفت اور محکم ہوگئی

اردو کے شعری ادب میں یہ ایک یادگار نظم ہے۔ یہ ایک ماں کی عظمت اور اس سے جدائی کے غم میں بے قرار بیٹے کی کیفیات کو عیاں کرتی ہے۔

’’اُمید‘‘ کا جو بچہ مار دیا گیا، اگر وہ زندہ ہوتا اور کئی انسانی خصوصیات رکھنے کے ساتھ ہی زبان میں بھی مہارت رکھتا تو کیا وہ اپنی ماں کا مرثیہ نہ لکھتا؟۔ وہ مارا گیا، اس کی ماں کی آہ و بکا کیا لفظوں میں نہ ڈھلتی؟ سماٹرا کی جنگلوں میں ’’اُمید‘‘ کی گریہ و زاری ہمیں اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ ’’ماں‘‘ دو پایہ ہو یا چوپایہ۔ وہ انسان ہو یا انسان ہونے کے قریب تر ہو، ایک جیسی صفت رکھتی ہے۔ رڈ یارڈ کپلنگ نے اپنی کسی کہانی میں لکھا ہے کہ ’’رب الارباب‘‘ چونکہ ہر مقام پر موجود نہیں ہو سکتا تھا، اسی لیے اس نے ’’ماں‘‘ کی تخلیق کی۔

ہم سب ’’ماں‘‘ کی نگرانی میں زندگی بسر کرنے والے خوش نصیب ہیں، خواہ ہماری عمریں 60 اور 70 برس کی کیوں نہ ہو جائیں۔ مائیں خطہ ارض کے ہر کونے میں پائی جاتی ہیں، وہ کسی دور میں پیدا ہوئی ہوں اور ان کی نسل، ان کی زبان اور ان کی تہذیبی شناخت کچھ بھی ہو، ’’اولاد‘‘ ان کے لیے سب سے بڑا خزانہ ہے۔ اس میں انسان اور غیر انسان کی کوئی تخصیص نہیں۔ اپنے بچے سے محبت ان کی جین میں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بندریا اپنے بچے کو مر جانے کے بعد بھی سینے سے چمٹائے پھرتی ہے۔

اس تناظر میں دیکھیے تو دنیا بھر کی ان مائوں کا درد و الم عرش کے پائے ہلا دیتا ہے جن کے بیٹے اور بیٹیاں کسی اندھی گولی کا شکار ہوئے یا جو ’’اعتراف جرم‘‘ کروانے کے لیے دنیا کی مختلف عقوبت گاہوں میں بدترین تشدد کا شکار ہوئے۔ وہ جو مار دیے گئے اور جن کی رخصت کی خبر آ گئی۔ ان پر ان کی مائوں اور ان کے گھر والوں کو رو پیٹ کر صبر آ گیا۔ لیکن وہ جن کی کوئی خبر نہیں آتی، ان کے لیے کیسے قرار آئے؟

ہمیں نہیں معلوم کہ سماٹرا کے جنگلوں میں رونے والی والی نابینا اورنگوتان ماں کب تک اپنے بچے کی یاد میں آنسو بہائے گی اور ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ اپنے بچوں کے لمس اور ان کے بدن کی خوشبو سے محروم ہو جانے والی مائیں اپنے غم و اندوہ کی آگ کو صبر کے کس پانی سے ٹھنڈا کریں گی۔ ہم کچھ نہیں جانتے لیکن ہم اورنگوتان ماں ’’امید‘‘ کے لیے اور تمام ناامید مائوں کے لیے بس دعا کر سکتے ہیں کہ ان کے پہلو سے نوچ لیے جانے والے لوٹ آئیں یا ان کی مائوں کو ان کی قبر کا سراغ مل جائے۔

The post ایک اورنگوتان ماں appeared first on ایکسپریس اردو.

’’موت بھی برداشت کر سکتا ہوں‘‘

$
0
0

حاجی حبیب 80 سال کے متحرک بزرگ ہیں‘ یہ حبیب رفیق گروپ کے سربراہ بھی ہیں اور پاکستان میں روس کے اعزازی قونصلر بھی‘ حاجی صاحب نے پوری زندگی حیات کے مختلف شیڈز بھی دیکھے اور بااثر اور عالم لوگوں کی صحبت میں بھی رہے لہٰذا یہ معلومات اور تجربات کا بہت بڑا خزانہ ہیں‘ یہ چند روز قبل اسلام آباد تشریف لائے اور مجھے ان کے ساتھ چند گھڑیاں گزارنے کا موقع ملا‘ یہ بار بار عبدالحمید عدم کے شعر بھی سناتے رہے اور اپنی زندگی کے تجربات بھی شیئر کرتے رہے۔

حاجی صاحب نے گفتگو کے دوران امریکا کے سابق صدر باراک حسین اوباما کے بارے میں ایک دل چسپ واقعہ سنایا‘ واقعہ کچھ یوں تھا‘ اوباما جوانی میں گھر سے سوٹ کیس لے کر اپنے ایک پاکستانی دوست صادق سے ملنے کے لیے نیویارک آئے‘ اوباما نے فون کیا‘ صادق نے بتایا میں جاب پر ہوں‘ آپ گھر کے سامنے بیٹھ جائیں‘ میںتھوڑی دیر میں آتا ہوں ‘ اوباما ساری رات سوٹ کیس فٹ پاتھ پر رکھ کر اس کے اوپر بیٹھے رہے‘ صادق صبح کے وقت آیا اور انھیں ناشتے کے لیے ریستوران لے گیا‘ یہ صدارتی الیکشن کا زمانہ تھا‘ اخبارات الیکشن کی خبروں سے بھرے ہوتے تھے۔

ریستوران کی میز پر اخبار پڑا تھا اور اخبار میں صدارتی امیدواروں کی تصویریں چھپی تھیں‘ اوباما نے اخبار اٹھا کر صادق سے کہا ’’میں سوچ رہا ہوں میں صدارتی الیکشن لڑوں اور امریکا کا پہلا سیاہ فام صدر بنوں‘‘ صادق نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ’’تم پہلے ناشتہ کر لو‘ صدارتی الیکشن کا فیصلہ ہم بعد میں کریں گے‘‘حاجی حبیب صاحب رکے اور پھر فرمایا ’’یہ خواہش 90ء کی دہائی میں دیوانے کا خواب تھی‘ کیوں؟

کیوں کہ باراک حسین اوباما غریب اور بے آسرا بھی تھے‘ سیاہ فام بھی اور ان کی رگوں میں مسلمان پروفیسر کا خون بھی تھاچناں چہ کہا جاتا تھا امریکی مر جائیں گے لیکن یہ کسی سیاہ فام کو صدر نہیں بنائیں گے لیکن آپ اللہ کی کرنی دیکھیے‘ اس واقعے کے15برس بعد باراک حسین اوباما امریکا کے صدر بن چکے تھے‘ ‘ حاجی صاحب رکے اور فرمایا ’’ہمیں ہر وقت اپنے بارے میں نیک اور اچھا سوچنا چاہیے‘ ہمیں کیا پتا اللہ تعالیٰ کس وقت ہماری کون سی خواہش سن لے اور ہماری کون سی مراد پوری ہو جائے‘‘۔

میں نے حاجی صاحب کی بات سے اتفاق کیا‘ ہماری زندگی میں روزانہ دو فیصلہ کن گھڑیاں آتی ہیں‘ پہلی نیک خواہشات کی قبولیت کی گھڑی ہوتی ہے اور دوسری بری خواہشات کی منظوری کا وقت‘ ہندوجوتشی پہلی گھڑی کو شبھ گھڑی اور دوسری کو منحوس گھڑی کہتے ہیں‘ ہندوجوتشی صدیوں سے لوگوں کی کنڈلیاں جوڑ کر شبھ اور منحوس گھڑیاں نکالتے آ رہے ہیں‘یہ لوگوں کو شبھ گھڑی میں اچھے اور نیک کاموں کا مشورہ دیتے ہیں اور منحوس گھڑی میں برے‘ ہندو آسٹرولوجسٹ صدیوں کی پریکٹس سے اس نتیجے پر بھی پہنچ گئے ہیں انسان کا سایہ جب سات فٹ لمبا ہو جاتا ہے تو وہ گھڑی اس کے لیے منحوس ہوتی ہے۔

یہ چند سیکنڈکا دور ہوتا ہے لیکن اس کے اثرات صدیوں تک چلتے ہیں‘ انسان قبولیت کی گھڑیوں میں منہ سے جو بھی لفظ نکالتا ہے وہ پورا ہو جاتا ہے‘ ہندوستان کے پرانے بادشاہوں نے اپنے دربار میں جوتشیوں کا پورا سکواڈ رکھا ہوتا تھا‘ یہ اسکواڈ روز ان کی شبھ اور منحوس گھڑیوں کا تعین کرتا تھا اور بادشاہ ان گھڑیوں میں بڑے فیصلے کرتے تھے‘ آسمانی مذاہب بھی اس فلاسفی کو مانتے ہیں‘ آپ بنی اسرائیل کی قدیم کتابیں پڑھ لیں‘ بائبل کا مطالعہ کر لیں یا پھر احادیث دیکھ لیں‘ آپ کو جگہ جگہ اچھے گمان کی تلقین ملے گی ’’ اچھا سوچو اور اچھا کہو‘ تم کسی کے بارے میں برا نہ چاہو اور تم اگر کسی کے بارے میں برا کہو گے تو وہ پلٹ کر تمہاری طرف آئے گا‘‘ وغیرہ وغیرہ‘ یہ کیا ہے؟

یہ منحوس اور شبھ گھڑیوں کی آسمانی تاویلیں ہیں‘ میرے استاد کہا کرتے تھے ‘ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں سورج اور چاند کے اوقات کی طرح دعائوں اوربددعائوں کی ریکارڈنگ کا سسٹم بھی بنا رکھا ہے‘ یہ سسٹم وقت مقررہ پر چلتا ہے اور وقت مقررہ پر بند ہو جاتا ہے‘ ہم اس ریکارڈنگ سسٹم میں جو ریکارڈ کر دیتے ہیں وہ ریکارڈ ہو کر اللہ کی بارگاہ میں پہنچ جاتا ہے اور قدرت کے کارندے اس پر کام شروع کر دیتے ہیں‘ نماز اور نماز کے دوران دعا‘ مسلسل تسبیحات اور ان تسبیحات کے درمیان مسلسل دعائیں‘ ہر اچھی یا بری خبر پر کلمہ خیر اور لوگوں کو دیکھ اور سن کر اور ان کے ذکر پر اچھے الفاظ کی ادائیگی یہ سب قدرت کے اس نظام کی موجودگی کا ثبوت ہیں۔

ہمارے بزرگوں نے تجربات سے سیکھا انسان کو قدرت کے ریکارڈنگ سسٹم میں اچھی باتیں ریکارڈ کرانی چاہئیں‘انسان کو اچھے پھل ملیں گے اور ہم اگر برا سوچیں گے یا برا چاہیں گے تو ہمارے ساتھ برا ہو گا‘آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ کسی بھی کامیاب شخص سے مل لیں‘ وہ آپ کو بتائے گا میں نے فلاں دن آسمان کی طرف دیکھ کراللہ سے یہ کامیابی مانگی تھی اور پھر اللہ تعالیٰ نے میرے لیے کامیابی کے راستے کھول دیے۔

آپ تازہ ترین مثال ملاحظہ کیجیے‘ 29 جون کوپاکستان افغانستان کے خلاف میچ ہار رہا تھا‘ گیندیں کم تھیں اور رنز زیادہ‘ افغانستان کے اسپنرز میچ پر حاوی تھے‘ پاکستان کے جس بیٹس مین نے بھی چھکا لگانے کی کوشش کی وہ اپنی وکٹ گنوا بیٹھا‘ وہاب ریاض نویں نمبرپر بیٹنگ کے لیے آئے‘ افغانستان کے بیسٹ بولر راشد خان بائولنگ کر رہے تھے‘ وہاب ریاض نے راشد خان کو پہلے چوکا لگایا اور پھر اس کے اگلے اوور میں اسے چھکا جڑ دیا ‘میچ پاکستان کے ہاتھ میں آگیا‘میچ کے بعد وقار یونس نے وہاب ریاض سے پوچھا‘ آپ بیٹنگ کے لیے جا رہے تھے تو بڑی نازک صورت حال تھی‘آپ کی انگلی بھی ٹوٹی ہوئی تھی‘ اس وقت آپ کے دماغ میں کیا چل رہا تھا۔

وہاب ریاض نے جواب دیا‘ جب میں بیٹنگ کے لیے میدان میں جا رہا تو میں نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا ‘یا اللہ میری عزت رکھنا اور اس نے میری عزت رکھ لی‘ سوال یہ ہے پاکستانی وہاب ریاض اور افغانی راشد خان دونوں مسلمان تھے‘ اللہ نے صرف وہاب ریاض کی عزت کیوں رکھی؟ کیوں کہ وہ قبولیت کی گھڑی تھی اور وہاب ریاض نے قبولیت کی اس گھڑی میں اللہ سے عزت مانگ لی تھی اور اللہ نے اسے عزت دے دی جب کہ راشد خان اس وقت گیند رگڑتا رہ گیا‘ آپ اسی طرح کسی دن ناکام‘ برباد اور ہزیمت کے شکار لوگوں کے بارے میں بھی ریسرچ کر لیں۔

آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے یہ لوگ آج جس صورت حال کا شکار ہیں یہ صورت حال کسی دن ان کے منہ سے نکلی تھی‘ یہ کسی دن اپنے منہ سے بولے تھے ’’جائو مجھے پکڑ لو‘ جائو مجھے پھانسی لگا دو‘ جائو مجھے جیل میں پھینک دو‘ جائو مجھے نکال دو یا پھر میں زمین پر بھی لیٹ لوں گا‘ میں فٹ پاتھ پر بھی بیٹھ جائوں گا اور میں پھانسی بھی چڑھ جائوں گا‘‘وغیرہ وغیرہ‘ یہ لوگ جس وقت یہ کہہ رہے تھے وہ منحوس گھڑی تھی‘ ان کی خواہش قدرت کے ریکارڈنگ سسٹم میں ریکارڈ ہوئی اور قدرت نے انھیں وہ دے دیا جس کی انھوں نے خواہش کی ‘ آپ کسی دن شریف فیملی کا مطالعہ بھی کر لیں‘ آپ ان کے پانچ برس کے پرانے بیانات نکال کر دیکھ لیں‘ آپ کو یہ لوگ اور ان کے ساتھی بار بار یہ کہتے ملیں گے ’’یہ ہمیں پکڑ لیں‘ یہ ہمیں جیلوں میں ڈال دیں‘ یہ ہمارا حساب لے لیں۔

یہ ہمیں پھانسی چڑھا دیں اور یہ ہماری تلاشی لے لیں‘‘وغیرہ وغیرہ اور آج کیا ہو رہا ہے‘ آج ان کی تلاشی بھی ہو رہی ہے‘ حساب بھی اور یہ جیلوں میں بھی ہیں‘ یہ کیا ہے؟ یہ منحوس گھڑیوں میں منحوس باتوں کا نتیجہ ہے‘ یہ قدرت کی پکڑ ہے‘ آپ کو آصف علی زرداری کے یہ الفاظ بھی یاد ہونگے ’’چیئرمین نیب کی کیا مجال ہے‘‘ اور یہ آج اس مجال کا شکار بن چکے ہیں‘ آپ کو خواجہ سعد رفیق کے لوہے کے چنے بھی یاد ہوں گے‘ یہ چنے بھی اس وقت قدرت کے دانتوں میںہیں اورمیں نے کل ٹیلی ویژن پر وزیراعظم عمران خان کو بھی یہ کہتے سنا ’’میں تو موت بھی برداشت کر سکتا ہوں‘‘ آپ یقین کیجیے میرے منہ سے توبہ توبہ نکل گئی اور میں نے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ سے ان کی زندگی کی دعا کی‘ مجھے محسوس ہوا یہ لفظ ہمارے وزیراعظم کی جان لے لیں گے ۔

کاش ہم جان سکیں ہمارے لفظ گولی ہوتے ہیں‘ یہ بم ہوتے ہیں‘ دنیا میں جس طرح گولیاں اور بم چلنے کے بعدواپس نہیں آتے لفظ بھی واپس نہیں آتے چنانچہ ہمیں بولتے ہوئے‘ منہ سے برے الفاظ نکالتے ہوئے دس مرتبہ سوچنا چاہیے‘ ہم کس وقت اپنے کس لفظ کا نشانہ بن جائیں‘ ہم نہیں جانتے‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ تاریخ دیکھ لیں‘ جان ایف کینیڈی کھلی گاڑی میں بیٹھ جاتا تھااورکہتا تھا ’’کیا کوئی شخص دنیا کی سپر پاور کے صدر کو گولی مارے گا‘ یہ ہمت کون کریگا؟‘‘ اور پھر کیا ہوا‘ وہ کھلی گاڑی میں گولی کا نشانہ بن گیا‘ بھٹو صاحب اکثر اپنی تقریروں میں کہتے تھے’’مجھے چوک میں لٹکا دینا‘‘ اور پھر وہ پھانسی بھی لگے اور ان کا پھانسی گھاٹ چوک بھی بنا۔

حسنی مبارک کہتا تھا’’ پکڑ لو مجھے‘ ڈال دو مجھے جیل میں‘‘ اور پھر وہ پکڑے بھی گئے اور جیل میں بھی ڈالے گئے‘ صدام حسین کہتا تھا’’ مجھے لٹکا دینا‘‘ اور پھر وہ لٹکے اور کرنل قذافی کہتا تھا ’’میں اگر اپنی قوم کو سپر نیشن نہ بنا سکا تو میری لاش پر پیشاب کر دینا‘‘ اور پھر دنیا نے اس کی لاش بھی دیکھی اور لوگوں کو اس پر پیشاب کرتے بھی دیکھا اور آخری مثال‘ یہ واقعہ بینظیر بھٹو کی دیرینہ ساتھی ناہید خان نے کسی محفل میں سنایا تھا‘ ان کا کہنا تھا آصف علی زرداری کے دوست انھیں اہم پوزیشن پر دیکھنا چاہتے تھے‘ یہ لوگ میرے پاس آئے‘ میں نے ان کا پیغام بے نظیر بھٹو کو دیدیا‘ وہ اس وقت کسی ذہنی خلجان کا شکار تھیں‘ وہ چونک کر بولیں ’’اوور مائی ڈیڈ باڈی‘‘ میں خاموش ہو گئی لیکن اللہ کی کرنی دیکھئے۔

بینظیر بھٹو شہید ہو ئیں اور ان کی ڈیڈ باڈی پر زرداری صاحب پارٹی کے چیئرمین بھی بنے اور صدر بھی چنانچہ میری وزیراعظم اور ان کے ساتھیوں سے درخواست ہے‘ آپ منہ سے بات نکالنے سے پہلے دس مرتبہ سوچ لیا کریں‘ ہم کس وقت قبولیت کی گھڑی میں بیٹھے ہیں ہم نہیں جانتے‘اللہ ہمیں کب پکڑ لے !ہم یہ بھی نہیں جانتے‘ دنیا میں اگر فرعون اپنے لفظوں کے ہاتھوں سے ذلیل ہو سکتا ہے تو پھر ہم اور ہماری سلطنتیں کیا حیثیت رکھتی ہیں۔

صرف اللہ ہے اور اللہ کے سوا کچھ نہیں‘ اللہ کی زمین پر اگر سکھ سے رہنا چاہتے ہیں تو پھر اللہ سے ڈر کر رہیں‘ اللہ سے توبہ کرتے رہیں‘ دنیا اور آخرت دونوں میں بچ جائیں گے ورنہ تاریخ عبرت اور عبرت ناک کہانیوں کا خوف ناک قبرستان بھی ہے اور انسان خواہ سپرمین بھی ہو وہ موت کو برداشت نہیں کر سکتا‘ غرور صرف خدا کو سوٹ کرتا ہے‘ غرور نہ کریں‘ مارے جائیں گے۔

The post ’’موت بھی برداشت کر سکتا ہوں‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

سری لنکا کے صدر کا دلیرانہ اقدام

$
0
0

امریکا نے سری لنکا کے ساتھ ایک ڈیل کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس کے تحت امریکی فوجی جہازوں کو سری لنکا کی تمام بندرگاہوں پر لنگر انداز ہونے اور اپنے فوجی ساز و سامان کو اتارنے اور چڑھانے کی اجازت دیدی جائے تاہم سری لنکا کے صدر نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس قسم کے معاہدے کی ہر گز اجازت نہیں دیں گے۔

سری لنکا کے صدر ’’میتھری پالا سری سینا‘‘ نے کہا ہے کہ امریکا سری لنکا کے ساتھ جس قسم کا معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ امریکی جنگی جہازوں کو سری لنکا کی تمام بندرگاہوں پر لنگر انداز ہونے اور فوجی سازوسامان کو اتارنے چڑھانے کی اجازت دیدی جائے، سری لنکا اس قسم کے معاہدے کے حق میں نہیں ہے۔ امریکا کا کہنا ہے کہ دونوں ملک اپنے فوجی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی بات چیت کر رہے ہیں۔ صدر میتھری  سینا کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے مغرب نواز وزیراعظم رانیل وکری میسنگھا کے ساتھ پہلے ہی اختلاف کا شکار ہیں۔

سری لنکن صدر کا کہنا ہے کہ وہ کوئی ایسا معاہدہ نہیں کر سکتے جس سے سری لنکا کی آزادی اور خود مختاری کے متاثر ہونے کا خطرہ ہو۔سری لنکن صدر نے اس خیال کا اظہار جزیرے کے جنوبی علاقے میں ایک عوامی ریلی سے خطاب کے دوران کیا۔ انھوں نے کہا کہ فی الوقت بہت سے معاہدے زیر غور ہیں لیکن ان میں سے بعض ہمارے وطن عزیز کے مفاد میں نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا ہم ایسے کسی معاہدے کو قبول نہیں کر سکتے جس سے ہمارے ملک کے مفادات کے لیے کسی قسم کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہو۔ سری لنکن صدر نے کہا کہ بعض قوتیں سری لنکا میں فوجی اڈے قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن میں انھیں سری لنکا آنے اور ہماری خود مختاری اور آزادی کے خلاف کام کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتا۔

انھوں نے کہا کہ اگر کوئی ملک ہم سے دو طرفہ مفاد کے تحت ہمارے ساتھ کوئی معاہدہ کرنا چاہتا ہے اس پر ضرور تبادلۂ خیال ہو سکتا ہے۔سری لنکن صدر نے کہا کہ میں ایسا کوئی معاہدہ نہیں کر سکتا جس سے ہماری خود مختاری کے لیے کسی قسم کا کوئی خطرہ پیدا ہو جائے۔

انھوں نے کہا کہ ان کے صدارتی عہدے کی مدت جنوری میں ختم ہو رہی ہے۔ لہٰذا اس وقت تک ان کے ملک کے مفاد کے خلاف کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ واضح رہے بحرہند میں موجود اس جزیرے کی آبادی دو کروڑ نفوس سے تھوڑی زیادہ ہے تاہم یہ ایک جمہوری ملک ہے ۔ سری لنکن صدر نے ان ممالک کا نام نہیں لیا جو ان کے بقول ان کے ملک کی آزادی اور خود مختاری کے منافی کوئی معاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سری لنکا کے صدر کے انکار کے بعد امریکا نے سری لنکا کو اسلحہ کی فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے چنانچہ اس ملک کو چین کی طرف جانے کے لیے مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔

The post سری لنکا کے صدر کا دلیرانہ اقدام appeared first on ایکسپریس اردو.

سعودی عرب سے پاکستانی قیدیوں کی رہائی کا انتظار

$
0
0

سعودی عرب کے انتہائی طاقتور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے دورۂ پاکستان کے موقع پر پاکستانی حکومت اور عوام کے لیے دل کشا اعلان کیا تھا کہ سعودی عرب میں پاکستان کے دو ہزار سے زائد جو قیدی جیلوں میں پابند سلاسل ہیں، ان کو رہا کر دیا جائے گا۔ پاکستان میں سعودی ولی عہد کے اس اعلان کا زبردست خیر مقدم کیا گیا اور ان قیدیوں کے گھرانوں میں خوشی اور اطمینان کی لہر دوڑ گئی کیونکہ انھیں اپنے زیر حراست عزیزوں کی آزادی کی کوئی امید اور توقع ہی نہیں تھی۔ لہٰذا سعودی ولی عہد کی طرف سے ان کی رہائی کے اعلان نے ہزاروں گھروں کی امیدیں جگا دیں۔

سعودی عرب میں پاکستانیوں کی گرفتاری کی بڑی وجہ بالعموم اوور اسٹے Overstay ہوتا ہے یعنی سعودی مملکت میں قیام کی مدت میں دو چار دن کا اضافہ ہو گیا اور یہ اضافہ بھی عموماً نادانستگی میں ہوتا ہے۔ زیادہ تر لوگ کسی بڑے جرم کی وجہ سے قید نہیں ہوتے کیونکہ اس مقدس سرزمین پر جرائم کرنے کے امکانات ویسے بھی بہت محدود ہوتے ہیں۔ زیادہ سنگین جرم ہو تو قید کے بجائے ویسے ہی جلاد کے حوالے کیا جاتا ہے لہٰذا ایسے مجرموں کا قید خانوں میں ہجوم نہیں ہوتا لیکن پاکستان کی سینیٹ کمیٹی کے ایک پینل نے انکشاف کیا ہے کہ ابھی تک کسی قیدی کو رہا نہیں کیا گیا۔

میڈیا کی اطلاع کے مطابق یہ اعلان پاکستان کے دفتر خارجہ نے چند روز قبل حقوق انسانی پر قائمہ کمیٹی سے بریفنگ میں کیا۔ البتہ یہ بات ضرور سامنے آئی ہے کہ قیدیوں کی رہائی کا عمل جلد شروع کر دیا جائے گا۔ سعودی ولی عہد نے پاکستانی قیدیوں کی رہائی کا اعلان فروری میں دورۂ پاکستان کے موقع پر کیا تھا جسے پاکستان میں حقوق انسانی کے حوالے سے بہت حوصلہ افزا اعلان سمجھا گیا لیکن لگتا ہے کہ ہمارے متعلقہ حکام کی طرف سے اس حوالے سے مناسب پیروی نہیں کی گئی۔پاکستان کے حکام کو اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ کوششیں کرنی چاہیے تاکہ ایسے قیدی جو جرمانہ کی عدم ادائیگی یا دیگر معمولی الزامات کے تحت قید ہیں، ان کی رہائی عمل میں آسکے۔

The post سعودی عرب سے پاکستانی قیدیوں کی رہائی کا انتظار appeared first on ایکسپریس اردو.

تبدیلی مہنگی پڑگئی

$
0
0

پاکستانی قوم سے نہ جانے ایسی کیا غلطیاں سر زد ہوئی ہیں کہ ہر بارکوئی نہ کوئی اس کی سادگی یا کم شعوری سے فائدہ اٹھا کر اسے ایک کھائی سے نکالنے کا وعدہ کرکے اسے مزید اندھیری کھائی میں دھکا دے دیتا ہے۔ انتخابات سے پہلے، دوران انتخابات اور اب بجٹ میں عوام کو زخم دینے کے بعد بھی وہی گھسے پٹے تبدیلی کے نعرے پر جھوٹی تسلی اور نام نہاد تبدیلی کے نام پر بہلایا جارہا ہے ۔ عوام اپنے تئیں بہت سوچ بچار کے بعد موجودہ حکومت کو اقتدار میں لائے کہ جہاں دوسری پارٹیوں نے تیس برس باری، باری حکومت کی ہے وہاں اب اگر پانچ سال کے لیے تبدیلی کو بھی آزمایا جائے توکیا حرج ہے۔

آنکھوں میں تبدیلی کے خواب لیے ،کانوں میں دل کش سیاسی نعروں کو سماتے ہوئے میرے ملک کے غریب عوام نے بڑی چاہ سے کپتان کو اور اس کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیا لیکن بہت جلد یہ تمام خواب وسپنے اور امیدیں اس وقت دم توڑ گئے جب حکومت نے لوٹی ہوئی پاکستانی دولت کو چوروں اور لٹیروں سے واپس لینے کے بجائے وصولی غریب عوام سے شروع کی۔ غریب عوام معیشت اور بجٹ کی بھول بھلیوں کی بجائے اپنے لیڈرکی ان باتوں ، وعدوں ، یقین دہانیوں اور نعروں پر اعتماد کرتے رہے ہیں جو ان سے کیے گئے تھے۔

اب عوام کوبہت جلد یہ احساس دلایا گیا ہے کہ بند آنکھوں میں سپنے تھے، سپنوں میں دن اپنے تھے ، جب آنکھ کھلی تو ہم نے دیکھا ، سپنے آخر سپنے تھے ۔ جو ظلم وستم غریب عوام کے ساتھ ہوتا رہا ہے اس سے بھی بڑھ کر مہنگائی کی جو قیامت خیز سونامی تبدیلی لائی ہے اس سے غربت جو تباہی پھیلانے والی ہے مراعات یافتہ طبقے کو اس کا احساس ہی نہیں ہے کیوں کہ انھیں ٹیکس سے چھوٹ حاصل ہے ، ملک کے غریب عوام ازل سے ٹیکس دیتے چلے آرہے ہیں اور ملکی معیشت غریب عوام کے ٹیکس سے چلتی رہی ہے اور چل رہی ہے، یہ الگ بات ہے کہ ان پیسوں کو غریب عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کے بجائے ذاتی تجوریاں بھری گئیں۔

موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے دیے ہوئے بجٹ میں غریب عوام پر ٹیکسسزکا جو ناقابل برداشت بوجھ لاد دیا ہے، اس کا خمیازہ حکومت کو بھی بھگتنا ہوگا، عوام کی نفرت کی صورت میں۔ غریب عوام پر ٹیکس پہلے بھی لگتے رہے ہیں ، ہر بجٹ پر عوام سے یہی کہا جاتا رہا ہے کہ معیشت کی ترقی کے لیے عوام کوکڑوی گولی نگلنی ہوگی اور عوام نگلتے ہی رہیں گے لیکن اس بار ٹیکسز نے غریب عوام کی چیخیں نکال دی ہیں، ان کے کھانے کے لقمہ پر بھی ٹیکس لگا دیے گئے ہیں، باقی بچی ہے سانس اس پربھی ٹیکس غیر محسوس طور پر لگا دیا گیا ہے ،جب پیٹ میں دو وقت کی روٹی میسر نہ ہو تو فاقہ کشی موت بن جاتی ہے اور اس بار یہی کیا گیا ہے ۔ غربت کے خاتمے کی یہ جدید ٹیکنیک ایجاد کی گئی ہے، جب ملک میں غریب نہ ہونگے تو لامحالہ یہ اونچے محل بھی نہیں رہیں گے کیونکہ یہ عالی شان محل غریبوں کے دم سے آباد ہیں ۔

ٹیکسز کے بوجھ تلے دبے ہوئے غریب عوام کا کہنا ہے کہ ٹیکس لگا دینا اگر حکومت کی مجبوری ہے تو سب سے پہلے ان مراعات یافتہ طبقہ پر لگاؤجو ماہانہ لاکھوں روپے کماتے ہیں جنھیں سرکاری مراعات بھی حاصل ہیں اور وہ کسی بھی قسم کے ٹیکسز دینے سے آزاد ہیں ، یہ کیسا انصاف ہے ؟ لیکن حکومت ایسا نہیں کرسکتی ، کیونکہ وہاں پر جل جانے کا اندیشہ ہے ،جس سے حکومت کی ہوا نکل سکتی ہے، ساری تبدیلی بھول جانی پڑے گی،کیا یہی انصاف ہے؟ لگتا ہے کہ کپتان کو بھی غریبوں سے نام نہاد ہمدردی تھی جو اب ظاہر ہوتی جا رہی ہے۔

ذرا سوچیے، یہ کیسی تبدیلی ہے کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کا اعلان کیا جاتا ہے، تو دوسرے ہی لمحے ان پر ماہانہ بارہ فیصد ٹیکس عائدکر دیا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی تنخواہوں میں سرے سے اضافہ ہی نہیں کیا گیا ہے بلکہ ان پر دو فیصد ٹیکس عائد کرکے انھیں یہ احساس دلایا جارہا ہے کہ تم نے جو نیا پاکستان مانگا تھا وہ یہی ہے اب تم چیخو یا چلاؤ یہی ہے کپتان کا نیا پاکستان جہاں غریب سرے سے ہی نہیں رہیں گے۔کپتان کی سیاسی نعروں میں سے صرف ایک ہی نعرہ سچ ثابت ہو رہا ہے کہ ’’میں ان کو رلا دوں گا ‘‘ واقعی غریب عوام رونے پر مجبورکردیے گئے ہیں، لیکن ڈرو ان کے آنسوؤں سے ، ان کی آہوں اور بددعاؤں سے جو پہلے ہی سابقہ حکومتوں کو لے ڈوبے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں عوام پر جو ٹیکس لگا دیا جاتا ہے وہ رقم واپس عوامی سہولت کے نام پر عوام کو ہی لوٹا دی جاتی ہے لیکن ہمارے یہاں ان رقوم سے ذاتی تجوریاں بھری جاتی رہی ہیں۔

عوام بیچارے منہ تکتے رہ جاتے ہیں، چور چور کے نعرے بلند ہوتے رہے ہیں لیکن سزا کسی کو بھی نہیں ہوئی ہے سب وقت کے ساتھ بے گناہ ثابت ہوتے رہے ہیں، خدارا ! اس کھیل کو بندکیا جائے اور اپنی ساری توجہ غریب عوام کی زندگی پر دیں کہ وہ چند ہزار روپے کی تنخواہ پر کیسے گزارہ کرسکتے ہیں جہاں قدم قدم پر ٹیکسز کی بھرمارکردی گئی ہے۔ اوپر سے ناجائز منافع خوری ہے، بازاروں میں جانا غریب عوام کی دسترس سے باہر ہے ، جہاں ہر لمحے چیزوں کی قیمتیں بڑھتی رہتی ہیں ۔کم ازکم مدینے کی ریاست میں ایسا کچھ نہیں ہوتا تھا ۔ بلکہ اس ریاست میں بھوکے پیاسے کتے کی ذمے داری بھی خلیفہ وقت پر تھی ، یہ کیسی مدینے کی ریاست ہے کہ عوام نے نہ کچھ کھایا نہ کچھ پیا ، گلاس توڑا کسی اور نے اور بارہ آنے وصول کیے جا رہے ہیں بے چارے غریب عوام سے ؟ ہائے! کیسے کیسے وعدے کیے گئے تھے نئے پاکستان کے لیے سب کے سب یوٹرن میں بدل گئے ۔

کیا کسی کو احساس ہے کہ یہ بارہ مہینے چالیس سال سے مہنگے پڑ رہے ہیں ، غریب عوام کو ؟ ٹھنڈے کمروں سے باہر نکل کر بازاروں میں نکل جائیں اور چیزوں کی قیمتیں معلوم کریں اور پھر ان قیمتوں کو غریب عوام کی قلیل آمدنی سے موازنہ کریں کہ آخر کس طرح غریب اس مہنگائی کے سونامی میں زندہ رہ سکتے ہیں ؟ آپ کہتے ہیں کہ گھبرائیں نہیں،کیوں نہ گھبرائیں یہاں تو زندہ رہنا محال ہوتا جارہا ہے ۔زندگی کی باقی ضروریات کوکیسے پورا کیا جائے جب کہ زندہ رہنے کے لیے روٹی ہی میسر نہیں ہے ۔ وزیر اعظم صاحب ! مدینے کی ریاست کی طرح باہر نکل کرغریبوں کے گھروں میں جھانکیے کس نے کھانا کھایا ہے اورکس نے نہیں ۔ فائلوں میں سب اچھا اچھا لکھا ہوگا مگر حقیقت اس سے بھیانک ہوتی جارہی ہے، بجٹ کے آغاز ہی میں غریب کا خاتمہ دکھائی دینے لگا ہے۔اس سے پہلے کہ غربت سب کچھ ہڑپ کرلے غریب عوام پر لادے گئے ٹیکسز پر نظرثانی کریں اور آئی ایم ایف والوں سے کہہ دیں کہ پاکستان کے عوام غریب ہیں ان کی قلیل آمدنی بھاری بھرکم ٹیکسزکی متحمل نہیں ہوسکتی ، یہ جیتے جی مرجائیں گے تو پھر میں کن پر حکومت کروں گا ۔

پچھلی حکومتوں نے بھی یہی کہا تھا کہ ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں کہ ہم یا تو مزید قرضے بڑھنے دیں یا قیمتیں بڑھائیں ۔سو حکومت وقت نے بیک وقت دونوں راستے اپنا لیے ہیں۔ قیمتیں بھی بڑھا دی ہیں اور قرضے بھی بڑھا دیے ۔روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی ہے ،جوکہ مہنگی پڑ گئی۔ جب تک غریب عوام میں سکت ہے یہ سب کچھ سہتے رہیں گے تاوقتیکہ ان کے صبرکا پیمانہ لبریز نہ ہو۔ مجھے تو ڈر سا لگ رہا ہے کہ سونامی جیسی مہنگائی اور اژدھا جیسی بے روزگاری ملک میں انارکی کا سبب نہ بنے جہاں کوئی طاقت بھی کام نہیں آئے گی ۔ اللہ پاک ہمارے وطن عزیز پر رحم کرے اوراسے سدا آباد رکھے اور حکمرانوں کو غریبوں کی حالت زار دیکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

The post تبدیلی مہنگی پڑگئی appeared first on ایکسپریس اردو.

342 میں صرف20 ارکان

$
0
0

قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے دوران یہ بھی نیا ریکارڈ ہوا کہ اجلاس میں صرف 20 ممبران اسمبلی موجود تھے ، جن میں دس حکومتی اور دس اپوزیشن کے ارکان تھے۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی کے ممبران کی تعداد 342 ہے اور قومی اسمبلی کے اجلاس پر پانچ کروڑ روپے خرچ کیے جاتے ہیں اور قومی اسمبلی کے صرف 20 ممبران ملک کے اکیس کروڑ سے زائد لوگوں کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں۔

اسمبلیوں میں ارکان کا یہ حال صوبائی اسمبلیوں سے زیادہ صرف قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ہی ہے ، جن کے ایوان اسلام آباد میں ہیں اور اسلام آباد ہی ملک کا صدر مقام یعنی دارالحکومت ہے ، جہاں صدر مملکت، وزیر اعظم، وفاقی وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی کے دفاتر اورگھر بھی ہیں اور اسلام آباد کو ملک کا خوبصورت شہر قرار دیا جاتا ہے اور پارلیمنٹ کی خوبصورت عمارتوں میں وہ ایوان موجود ہے جو دیکھنے میں آرام دہ اور خوبصورت بھی ہے مگر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کا خوبصورت ایوان میں دل نہیں لگتا اور اسی لیے وہ اپنے گھروں سے دور دراز کا سفرکرکے اسلام آباد آتے تو اجلاسوں میں شرکت کے لیے ہیں ، مگر ان کا زیادہ وقت وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی وفاقی سیکریٹریوں اور سرکاری دفاتر میں گزرتا ہے اکثر ارکان دور دراز سے سرکاری خرچ پر جہازوں میں اور بعض اپنی آرام دہ کاروں میں آتے ہیں اور ان میں ایک بھی ایسا نہیں ہے جو مرحوم عبدالستار ایدھی کی طرح بس میں سفر کرکے کراچی سے اسلام آباد آتا ہو اور مجلس شوریٰ کے اجلاس میں شریک ہوتا ہو اور جہاز کا کرایہ وصول نہ کرتا ہو کیونکہ وہ عوام کی حقیقی خدمت کرنے والے سیاسی رہنما نہیں سماجی رہنما تھے اور بغیر الیکشن لڑے اور کوئی خرچہ کیے قومی مجلس شوریٰ کے رکن نامزد کیے گئے تھے اور ان کی نامزدگی جنرل ضیا الحق نے کی تھی۔

آج قومی اسمبلی کا رکن مفت میں رکن نہیں بنتا بلکہ کروڑوں روپے خرچ کرکے، سیاسی وفاداریاں تبدیل کرکے، اپنی بااثر پارٹی کو بہت بڑا الیکشن فنڈ دے کر اور پارٹی کے بااثر افراد سے حمایت حاصل کرکے پارٹی ٹکٹ حاصل کرتا ہے۔ الیکشن کے وقت بعض بڑی پارٹیاں اپنے سربراہ کی ہدایت پر ہی انتخابی ٹکٹ جاری کرتی ہیں جس کے لیے وہ اپنے خصوصی افراد کے ذریعے درخواستیں دینے والوں کے انٹرویوکرتی ہیں اور بعض کو بغیر انٹرویو ہی سیاسی وجوہ اور پسندیدگی و سیاسی وفاداری کے باعث ٹکٹ مل جاتا ہے اور جن کو ٹکٹ نہیں ملتا وہ سیاسی وفاداری تبدیل کرنے میں کوئی شرم اور ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے اور اپنی ہی پارٹی کو اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ جس نے کسی وجہ سے انھیں ٹکٹ نہیں دیا تو وہ خاموش ہوکر بیٹھنے والے نہیں ہوتے اور دوسری پارٹی سے ٹکٹ لے لیتے ہیں اور جن کو کسی دوسری پارٹی سے بھی ٹکٹ نہیں ملتا وہ اپنی ہی دیرینہ پارٹی کے امیدوار کے سامنے الیکشن لڑنے کے لیے آزاد امیدوار کے طور پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض سیاسی رہنماؤں کا اپنا ہی حلقہ انتخاب، اپنی برادری اور سیاسی اثر و رسوخ تو ہوتا ہے مگر کسی وجہ سے وہ اپنی پارٹی کے سربراہ کی پسند نہیں ہوتا اور اس کی جگہ پارٹی سربراہ کو کوئی اور پسند آجاتا ہے تو وہ اپنی پسند کے بندے کو نامزد کردیتا ہے جس کا اس کے پرانے رہنما کو رنج ہوتا ہے اور اسے پارٹی کا فیصلہ قبول نہیں ہوتا اور اپنی پارٹی کا فیصلہ نامنظور کرکے آزاد حیثیت میں یا دوسری بڑی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن ضرور لڑتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے ایک اہم سیاستدان کی ایک ایسی مثال ہے جو چاہتے تھے کہ انھیں مسلم لیگ (ن) میں سینیارٹی کے باعث ٹکٹ دیا جائے گا اور وہ درخواست نہیں دیں گے۔ نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے نااہلی کے بعد ان کا رویہ پارٹی سربراہ کے خلاف تھا اور وہ بیان بازی میں حقائق پر بولتے ہوں گے جس پر اصلاح کی بجائے قیادت نے بغیر مانگے انھیں ٹکٹ نہیں دیا اور مسلم لیگ کا ٹکٹ دوسرے لیگی کو ملا تو انھوں نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا مگر قومی اسمبلی میں کہیں بھی کامیاب نہیں ہوئے اور صرف صوبائی نشست جیتے جس پر وہ ابھی تک حلف نہیں اٹھا رہے۔

الیکشن جیتنے کے لیے بعض لوگوں نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی چھوڑی اور سیاسی وفاداری بدل کر پی ٹی آئی میں چلے گئے، جن میں دو نمایاں نام ندیم افضل چن اور فردوس عاشق اعوان ہیں جو ہار گئے ۔ پیپلز پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں جاکر راجہ ریاض جیت تو گئے مگر وہ حکومت سے باہر جب کہ ندیم افضل چن اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ہار کر بھی حکومت میں ہیں ۔

الیکشن میں ایسا بھی ہوا کہ بعض اپنی پارٹی چھوڑ کر ہارے اور دوسری پارٹی میں جاکر جیتے اور بعض آزاد حیثیت میں ہارے جس سے لگتا ہے کہ ووٹ کسی شخصیت کو نہیں پارٹی قیادت کو ملتے ہیں اور کسی کے اصول اور پارٹی وابستگی نہیں دیکھی جاتی۔ اسمبلیوں کے کورم پورے نہ ہونے کی وجہ ارکان کی عدم دلچسپی ہی نہیں پارٹی پالیسی بھی ہوتی ہے۔ پارٹی قائد چاہے تو ایوان ارکان سے بھر جاتے ہیں اور پارٹی چاہے تو کورم ہونا کوئی مشکل نہیں ہوتا۔ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے 99 ممبران ہیں جو 28 جون کے اجلاس سے غائب ہوگئے کیونکہ پارٹی کورم نہیں چاہتی تھی اور ایوان میں صرف ایک رکن موجود تھا اور اسپیکر نے پانچ منٹ بھی انتظار نہیں کیا اور فوری طور پر اجلاس ملتوی کردیا۔ سندھ اسمبلی میں منگل پرائیویٹ ممبرز ڈے ہے مگر اس دن کورم پورا نہیں ہونے دیا جاتا تاکہ اپوزیشن کے سوالات کا جواب نہ دینا پڑے اس لیے منگل کے روز اکثر اجلاس منعقد نہیں ہونے دیا جاتا۔

قومی اسمبلی کے 342 ممبران میں حکومت نے اپنے حامی 176 ممبران کی حمایت سے بجٹ منظور کرالیا جب کہ 146 نے مخالفت کی جو اپوزیشن کے تھے۔ بجٹ پر تقریباً 30 گھنٹے ممبران کو بولنے کا موقعہ دیا گیا جس میں اپوزیشن کے 6 رہنما تھے جب کہ ممبران کی اکثریت خاموش تماشائی بنی رہی۔ ممبران کی اکثریت ایوان میں بولنے کی بجائے خاموش رہنے کو ترجیح دیتی ہے البتہ ڈیسک بہت اچھا بجاتی ہے جس کی ہدایت انھیں اپنی پارٹی سے ملتی ہے حکومتی اور اپوزیشن رہنما جو بولنا جانتے ہیں وہ میڈیا پر نظر آنے کے لیے بن ٹھن کر آتے ہیں۔ ارکان اسمبلی سے اب اسپیکر کے تحفظ کے لیے ڈائس گھیرے رہنے کا بھی کام لیا جاتا ہے اور دونوں فریق اپنے اپنے مقصد کے لیے ممبران کو استعمال کرتے ہیں۔

ارکان اسمبلی ایوانوں میں اپنے ووٹروں کی آواز بننے کے لیے منتخب ہوتے ہیں مگر اکثر خاموش رہنا ہی بہتر سمجھتے ہیں تو ان کے انتخاب کا مقصد ہی ختم ہو جاتا ہے انھیں اگر بولنا نہیں آتا تو انھیں الیکشن بھی نہیں لڑنا چاہیے کیونکہ انھیں صرف منتخب ہونے سے دلچسپی ہوتی ہے ایوان میں آنے اور بولنے میں نہیں تو اسمبلیوں کے اجلاسوں میں کثیر رقم کیوں ضایع کی جا رہی ہے؟

The post 342 میں صرف20 ارکان appeared first on ایکسپریس اردو.


خطے کی سیاست اور قومی بیانیہ

$
0
0

پاکستان کی داخلی سیاست کے ساتھ ساتھ خارجی اور بالخصوص علاقائی سیاسی استحکام ملکی سلامتی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے بقول اگر پاکستان کے اپنی سلامتی کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے تو اسے خطے کی سیاست میں اپنا کردار بڑھانا ہو گا۔ ذاتی طور میں اس نکتہ کے ہمیشہ سے حامی رہا ہوں کہ اگر ہم خارجی پالیسی میں خطہ کی سیاست کو نظرانداز کیا تو خارجہ پالیسی میں بڑی کامیابی کا امکان محدود رہے گا۔

ہماری موجودہ سیاسی اور بالخصوص فوجی قیادت کو اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ ہمیں خطہ کی سیاست میں ایک نئے بیانیہ کی طرف پیشرفت کو آگے بڑھانا ہے جو ہمارے سمیت خطہ کے دیگر ممالک کے لیے بھی قابل قبول ہو۔وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی جو بھارت اور افغانستان سمیت تمام خطہ کے ممالک کو باہمی اشتراک اور تعاون کے ساتھ مل کر کام کرنے کی جو پیشکش کی تھی وہ قابل تعریف عمل تھا۔ بھارت کے بارے میں یہ کہنا کہ اگر وہ مفاہمت کی جانب ایک قدم آگے چلے گا تو ہم دو قدم  آگے چلیں گے۔ اسی طرح بار بار بھارت کو مفاہمت کی دعوت دینا اور شنگھائی کانفرنس میں وزیر اعظم عمران خان نے جس دلیری کے ساتھ تمام ملکوں کو باہمی تجارت، سیاست، سماجیات، معیشت، انتہا پسندی اور دہشتگردی سمیت غربت کے خاتمہ میں خطہ کے ممالک کے باہمی کردار پر زور دیا اسے بہت سے ممالک نے پزیرائی دی۔افغانستان کے بحران میں پاکستان کا حالیہ کردار کافی جاندار ہے۔

پہلی بار پاکستان کا کردار ایک معاونت فراہم کرنے والے کا ہے جو اپنے مفادات سے زیادہ افغانستان کے داخلی استحکام کا حامی ہے۔ مستحکم افغانستان پاکستان سمیت پورے خطہ کی سیاست کے لیے اہم ہے۔اگر افغان حکومت اورافغان طالبان کے امریکا سے مذاکرات کا عمل میں کوئی بہتری آتی ہے تو اس کا کریڈٹ پاکستان کو جاتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان ہر صورت افغان استحکام کا حامی ہے۔پاکستان نے اپنی غیر جانبدرانہ حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے خود براہ راست طالبان سے بھی مذاکرات نہیں کیے صرف میز سجائی ہے کہ فریقین مل جل کر مسئلہ کا حل تلاش کریں۔اس پالیسی سے بھی ہم نے دست برداری کی ہے کہ افغانستان میں ہماری مرضی کی حکومت ہونی چاہیے۔ اب بظاہر پالیسی یہ لگتی ہے کہ جس کی بھی حکومت ہو ہم اس سے تعاون جاری رکھیں گے، یہ ایک درست حکمت عملی ہے۔

اسی طرح وزیر اعظم عمران خان کی طالبان سے ملاقات کا جو امکان ہے وہ بھی افغان صدر کی خواہش پر ہوگی۔وزیر اعظم عمران خان کا دورہ ایران او ر افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا دورہ پاکستان کو بھی اہمیت کی نگاہ سے دیکھنا جانا چاہیے۔ کیونکہ عملی طور پر وزیر اعظم نے ایران کا دورہ کرکے اس تاثر کی نفی کی ہے کہ ہم ایران کے خلاف ہیں۔ ایران نے بھی پاکستان کے حالیہ کردار کو سراہا ہے۔ شنگھائی۔ روس کی جانب سے ستمبر میں وزیر اعظم عمران خان کو اکنامک فورم میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی دعوت بھی اہم پیش رفت ہے۔

اگرچہ خطہ کی سیاست میں بھارت کا بڑا کردار ہے اگر بھارت تعلقات کی بہتری کے لیے کوئی بھی مثبت پیشرفت کا آغاز نہیں کرتا اور جو تعطل ہے اسے نہیں توڑتا تو خطہ کی سیاست میں عدم استحکام بدستور رہے گا۔ کیونکہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کا عمل پاکستان سمیت خطہ کے لیے اہم ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا جو جوابی خط وزیر اعظم عمران خان کے خط پر آیا ہے وہ کافی امیدا فزا ہے اور اس بات کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ بہت جلد تعلقات میں جو ڈیڈ لاک ہے وہ ٹوٹے گا۔ کیونکہ اگر بھارت نے واقعی سی پیک سے فائدہ اٹھانا ہے تو اسے اس شراکت داری کے معاشی حصہ میں نہ صرف شریک ہونا ہے بلکہ پاکستان سے تعلقات کو بہتر بنانا بھی ہوگا اور اس کا نتیجہ پا ک افغان بہتری میں بھی ہوگا۔

اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان نئے علاقائی اتحادی بھی تلاش کر رہا ہے اور روس سمیت دیگر ریاستوں کے ساتھ سفارتی اورتجارتی تعلقات کی بہتری کا عمل یقینی طور پر ہمارے لیے نئے مثبت راستے کھولے گا۔ آج کی دنیا میں جو سیاسی تنازعات ہیں ان کا خاتمہ بہت ضروری ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب علاقائی سطح پر موجود ممالک ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھیں اورمحض ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرنے کے بجائے تعاون کے امکانات کو آگے بڑھائیں۔کیونکہ انتہا پسندی، دہشتگردی اور تنازعات سمیت سیکیورٹی ریاستوں کے ماڈل کو چیلنج کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان سمیت خطہ کے تمام ممالک کا سیاسی بیانیہ سیاسی، سماجی اورمعاشی ترقی سے جڑا ہو۔ یہ بیانیہ ایک دوسرے کے لیے خطرات یا مشکلات پیدا کرنے،خوف اور دباؤ کی سیاست پیدا کرنے کے بجائے عملی تعاون کے امکانات کو پیدا کرنے سے جڑ ا ہونا چاہیے ۔

اس لحاظ سے پاکستان کا قومی بیانیہ علاقائی سیاست کے تناظر میں بڑا واضح ہونا چاہیے ۔ یہ بیانیہ مقامی ترقی و خوشحالی کے ساتھ ساتھ سیاسی استحکام سمیت علاقائی ترقی اورتعاون کے ساتھ منسلک ہونا چاہیے۔ یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم بداعتمادی کے سائے سے نکل کر اعتماد سازی کے ماحول میں آگے بڑھیں گے۔اگر پاکستان واقعی افغان بحران کے حل میں کامیاب ہوگیا تو اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلے گا کہ امریکا نہ صرف ہمارے کردار کو تسلیم کرے گا بلکہ بھارت پر بھی دباؤ بڑھا سکے گا کہ وہ بھی پاکستان سے بہتر تعلقات کے ماحو ل کو پیدا کرے۔ علاقائی ممالک کے سربراہان کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اب مسئلے طاقت کے استعمال یا جنگوں سے حل نہیں ہونگے۔

اس وقت خطہ کی سیاست کا بڑا بیانیہ خطہ میں موجود سیاسی، سماجی اورمعاشی پس ماندگی اورجہالت یا امیر اور غریب میں بڑھتی ہوئی خلیج اوراس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی محرومیوں کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ یہ سب کچھ ممکن ہے اگر علاقائی ممالک ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی کی سیاست کرنے کے بجائے دوستانہ ماحول کو فروغ دیں ۔ بھارت کو بڑا چوہدری بننے کے بجائے بڑے بھائی کا کردار ادا کرنا ہوگا  جو سب کو ساتھ لے کر چلے ۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک طرف خطہ کے ممالک کے درمیان مکالمہ ہو تو دوسری طرف اہل علم ، دانشور، صحافی اور استادوں سمیت شاعر، ادیب ، لکھاریوں اور فن کاروں کے باہمی تبادلے بھی اعتماد سازی کو مضبوط بنانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت جو علاقائی سیاست کا استحکام چاہتی ہے اوراس میں بہت آگے تک جانے کی خواہش مند ہے اس سے یقینی طورپر خطہ کے ممالک اور بالخصوص بھارت، افغانستان، ایران سمیت دیگر ملکوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔

The post خطے کی سیاست اور قومی بیانیہ appeared first on ایکسپریس اردو.

امریکا کا اعلان آزادی

$
0
0

امریکا کا آئین 1789میں نافذ ہوا‘ جارج واشنگٹن پہلے صدر منتخب ہوئے‘ لیکن آئین کے نفاذ سے بہت پہلے امریکی ریاستوںنے ’’اعلان آزادی‘‘4 جولائی 1776 کو پاس کیا‘اعلان آزادی کے بعد امریکی ریاستوں نے برطانوی سامراج سے آزادی کے حصول کے لیے جدوجہد شروع کی‘ اعلان آزادی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکا اپنی یوم آزادی4 جولائی کو ’’اعلان آزادی ‘‘ کی مناسبت سے مناتاہے‘  4جولائی 2019 کو امریکا نے اپنا 243 واں یوم آزادی منایا‘ آج کچھ ذکر آزادی اور حریت کے اس عظیم دستاویز کا ہوجائے جس کو  امریکا کا ’’اعلان آزادی‘‘ کہتے ہیں‘ ستم ظریفی دیکھیے کہ انسانی آزادیوں اور حقوق کی بات انگریزوں کی ’’میگنا کارٹا‘‘اور امریکیوں کے ’’اعلان آزادی‘‘سے پوری دنیا میں مقبول ہوئی‘ بعد میں یہی لوگ تھے جنھوں نے ملکوں اور قوموں کی آزادیوں کو سلب کیا اور اپنے اسلاف کے آدرشوں سے انحراف کیا۔                                                                                                                                                                                                                                                                                                                            (The U.S.A from colony to worldpower)

امریکی تاریخ کی ایک بہترین کتاب ہے ‘یہ کتاب O.P.Chitwood .F.L.Owsley  اور C.Nixon. H کی مشترکہ تصنیف ہے‘کچھ عرصہ قبل یہ کتاب میرے زیر مطالعہ تھی کہ اچانک ایک باب پر میر ی نظر رک گئی۔اس باب کا  عنوان ہے ’’امریکا کا ا علان آزادی ‘‘(Declaration of Independence)۔ اس دستاویز کے مندرجات پڑھ کر امریکا کا موجودہ اور ماضی کا کردار ذہن کے پردے پر فلم کی طرح حرکت کرنے لگا۔ کتنا جمہوری اور ا نسان دوست ماضی اور کتنا انسان دشمن اور ظالمانہ حال ہے‘  امریکی سامراج نے جنگ عظیم دوم کے بعد ساری دنیا کے ا من پسند اور جمہوریت پسند عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے‘  ہیروشیما اور ناگا ساکی کے لاکھوں عوام کا قاتل‘ کوریائی عوام کی تقسیم اور ویت نام پر کارپٹ بمباری ‘کیوبا ‘چلی‘ ایکو اڈور‘ نگاراگوا‘ بولیویا اور وینزویلا سمیت پورے لاطینی امریکی عوام کی لوٹ مار کا مجرم‘ چے گویرا‘ صدر آلندے‘ عظیم شاعر پبلو نرودا‘ پیٹرک لومبا‘ سوئیکارنو‘ڈاکٹر مصدق‘  ڈاکٹر نجیب‘نیلسن منڈیلا کا گناہگار‘ اسرائیل اور صہیونیت کا سرپرست‘ تیل کی دولت پر قبضے کے لیے آمرانہ حکومتوں کا حامی‘ عراق‘ افغانستان‘ شام‘ لیبیا سمیت پورے مشرق وسطی کو بدامنی کے سپرد کرنے والا‘ گوانٹانا موبے‘ ابوغر یب اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے عقوبت خانوں کا انچارج ۔ ایشیا‘ افریقہ‘ لاطینی امریکا کے مفلس عوام کو  نیو ورلڈ آرڈر کے ذریعے سیاسی اور معاشی غلام بنانے والا‘ریاستی دہشتگردی کا سرخیل‘ مذہبی انتہا پسندی اور عالمی دہشتگردی کا سرپرست‘ تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا سودا گر‘ ایران اور شمالی کوریا کو پرامن ایٹمی ترقی سے بزور روکنے والا‘ آج کا امریکا جو عظیم فلسفی برٹینڈرسل اور پروفیسر نوم چومسکی جیسے غیر کمیونسٹ دانشوروں کی رائے میں بھی انسانیت کا  مجرم ہے۔

اس کردار والے امریکا کا ماضی کتنا جمہوری اور انسان دوست ہے ا س کے بانیوں کا تیار کردہ ’’اعلان آزادی‘‘ ان ا علی و ارفع آدرشوں کا آ ئینہ دار ہے جس کے لیے ا نسان اول دن سے قربانیاں دے رہا ہے‘ اس ا علان آزادی میں پہلی بار تین امور کو انسان کے بنیادی حقوق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے یعنی ’’آزادی‘ زندگی‘ اور حصول مسرت‘‘۔ پہلی بار حکومت اور عوام کے حقوق اور فرائض کو آشکارا کیا گیا ہے‘ غلامی اور جبر کے خلاف حق خودارادیت کی حمائت کی گئی ہے‘ سول اداروں پر فوجی بالادستی اور آمرانہ حکومتوں کی مذمت کرتے ہوئے ان کے خلاف جد و جہد کو جا ئز قرار د یا گیا ہے ‘آ ج کے امر یکی  کر دار کو د یکھ کر یقینا تھا مس جیفر سن‘جا ر ج واشنگٹن‘ابراہام لنکن‘ بنجمن فر ینکلن اور جام ایوم کی رو حیں بے چین ہوںگی۔

امریکا کے ’’ا علان آزادی‘‘ کو تھامس جیفرسن نے لکھا‘ ان کے ساتھ کمیٹی میں بنجا من فر ینکلن‘ جان ایڈیم‘روجرشرمن‘ اور رابرٹ لیو ینکسٹن  شامل تھے۔4 جولائی 1776 کو یہ کانگریس سے منظور ہوا اور2 اگست کو تمام ممبران نے اس پر دستخط کردیے‘اس کی بنیاد وہ قرارداد آزادی تھی جو 7جون1776 کو ریا ست ورجینا کے نمایندہ رچرڈ ہنری لی نے کا نگر یس میں پیش کی تھی اور جس کو بیک آواز منظور کیا گیا تھا۔ ’’اعلان آزادی‘‘ کی منظوری کے بعد امریکا میں برطانوی سامراج سے آزادی کی جنگ کا باقاعدہ آغاز ہوا۔

اعلان آزادی۔جب بھی انسانی حالات کے دوران یہ ضروری ہوجائے کہ ایک ملک کے باشندے ان سیاسی رشتوں کو توڑ دیں جو ان کو کسی دوسر ے ملک کے باشندوں سے جوڑ ے ہوئے تھے تو ان لوگوں پر یہ لازم ہو جاتا ہے کہ وہ عالمی رائے عامہ کا احترام کرتے ہوئے ان اسباب کی وضاحت کریں‘جن کی وجہ سے وہ علیحدگی پر مجبور ہوئے۔

ہم ان سچائیوں کو ابدی سمجھتے ہیں کہ تمام انسان پیدائشی طور پر مساوی ہیں اور خالق حقیقی نے ا نہیں چند ناقابل انتقال حقوق سے نوازا ہے جن میں’’ زندگی‘ آزادی اور حصول مسرت‘‘ کا حق بھی شامل ہے اور یہ کہ ا نہی حقوق کے حصول اور تحفظ کے لیے انسانوں کے درمیان حکومتیں قائم کی جاتی ہیںاور یہ کہ جب بھی کوئی طرز حکومت ان مقاصد کے لیے تباہ کن ثابت ہونے لگے تو لوگوں کو حق ہے کہ وہ ا سے تبدیل یا ختم کر دیں اور ایک نئی حکومت بنا لیں جنکی بنیاد ان اُصولوں پر قائم کی جائے کہ ان کے تحفظ اور مسرت کی زیادہ سے زیادہ ضمانت ہو سکے‘ یقینا مصلحت اندیشی کا تقاضہ یہی ہے کہ ان حکومتوں کو جو عرصے سے قائم ہوں معمولی اور عارضی اسباب کے بناء پر تبدیل نہیں کرنا چاہیے چنانچہ تجربہ شاہد ہے کہ بنی نو ع انسان اس وقت تک تکالیف برداشت کرتی رہتی ہے جب تک وہ قابل برداشت ہوتی ہیں لیکن جب ان غلط کاریوں اور حق تلفیوںکا سلسلہ طویل ہوجائے اور یہ ظاہر ہونے لگے کہ اس سب کا مقصد کسی باقاعدہ منصوبے کے تحت کلی استبداد کی راہ ہموار کرنا ہے تو لوگوں کا حق نہیں بلکہ فرض بن جاتا ہے کہ وہ ایسی حکومت کا تختہ الٹ دیں اور نئے محافظ متعین کرلیں‘ یہ امریکی نو آبادیاں بھی بڑے صبر سے ان مصائب کو برداشت کرتی رہی ہیں اور ان کے لیے اب لازم ہوگیا ہے کہ وہ اپنے حکومت کے سابقہ طریقوں کو تبدیل کر دیں‘ موجودہ شاہ برطانیہ کی تاریخ مستقل ناانصافیوں اور غاصبانہ حرکتوں کی تاریخ ہے اور ان سب کا مقصد ان (امریکی) ریاستوں پر مطلق آمریت نافذ کرنا ہے‘ اس کے ثبوت میں انصاف پسند دنیا کے روبرو چند واقعات پیش کیے جاتے ہیں۔

شاہ برطانیہ نے ان قوانین کی توثیق سے انکار کردیا ہے جو پبلک کی بھلائی کے لیے مفید اور ضروری تھے‘ اس نے کچھ اور اہم قوانین کے توثیق کرنے سے بھی انکار کردیا ہے‘ اس نے قانون ساز اداروں کے اجلاس ایسے مقامات پر طلب کیے جو اس مقصد کے لیے نہایت ناموزوں‘ غیر آرام دہ اور ان جگہوں سے بہت دور تھے جہاں سرکاری دستاویزات مہیا ہوں‘ ایسا محض لوگوں کو تھکانے کے لیے کیا جاتا ہے‘ اس نے ان نمایندہ اداروں کو بار بار برطرف کیا ہے جنھوں نے لوگوں کے حقوق پر اس کے حملوں کا مردانہ استقامت سے مقابلہ کیا۔

اس نے ایسے برطرف شدہ اداروں کی جگہ دوسرے اداروں کے انتخاب میں تاخیر کی ہے تاکہ قانون سازی کے اختیارات جو ناقابل تنسیخ ہیں دوبارہ عوام کے ہاتھوں میں نہ آجائیں۔ اس نے غیر ملکیوں کو شہریت دینے کی قوانین کی توثیق میں رکاوٹ ڈالی‘ اس کے ساتھ ہی نئے زمینیں حاصل کرنے کے شرائط سخت کر دیں۔ اس نے عدالتوں کے اختیارات کے قانون کی توثیق نہ کرکے انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالی‘ اس نے ججوں کی مدت ملازمت‘ تنخواہوں اور دیگر مراعات کو اپنے اختیار میں رکھ کر ججوں کو اپنی مرضی کے تابع بنایا‘ اس نے زمانہ امن میں بھی ہمارے قانون ساز مجلسوں کی مرضی کے بغیر ہم پر مستقل فوج مسلط کر رکھی ہے‘ اس نے فوج کو سول اداروں سے بالاتر بنا دیا ہے۔اس کے ناروا ظلم کے ہر مرحلے پر ہم نے بڑی عاجزی کے ساتھ ا س کے مداوے کے درخواستیں کی ہیں لیکن ہماری ہر درخواست ناقابل اعتناء ٹھہری‘ ایک مطلق ا لعنان آمر کو ہم جیسے آزادی پسند لو گو ں کا حا کم بننے کا کوئی حق نہیں ہے

ہم پر یہ ا لزام عا ئد نہیں ہو سکتا کہ ہم نے ا پنے برطانوی بھائیوں کی تو جہ اس طرف مبذول نہیں کرائی ‘ہم نے ان کے قا نو ن سا زوں کے نا جا ئز اقدامات سے انکو خبردار کیا ہے جو ہمارے اُوپر مسلط رہے ہیں‘ ہم نے ان کے نام بار بار انصاف کی اپیلیں کیں ‘ لیکن انھوں نے بھی یگانگت اور انصا ف کی آ واز پر اپنے کان بند کر رکھے ہیں لہذا ہم بھی حالات سے مجبور ہو کر اور و قت کے ضرورت کے تحت اس علیحدگی کو قبول کرتے ہیں۔

لہذا ہم ریاست ہائے متحدہ امریکا کے نما یندگان جو اس عام کا نگریس میں جمع ہوئے ہیں ‘دنیا کے انصاف پسند عوام کے ضمیر کو اپنے نیک ارادوں کا گوا ہ بنا کر ان نو آبادیو ں کے شریف عوام کے نام پر اور اُن کے تفویض کردہ اختیارات کے تحت باضابطہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ یہ ’’نوآبادیات اپنی پیدائشی حق کے بناء پر آج سے آزاد اور خود مختار ہیں اور رہیں گی اور یہ کہ ا نہوں نے تاج بر طانیہ سے تمام تعلقات ختم کردیے ہیں اور اب ایک آزاد اور خود مختار ریاستوں کے حیثیت سے ان کو یہ کامل اختیار ہے کہ وہ جنگ کا اعلان کریں، امن قائم کریں‘ باہمی معاہدے اور تجارت کریں اور ا یک خود مختار ریاست کے طور پر تمام امور سر انجام دیں‘ اس اعلان کی تائید میں فضل خداوندی کے تحفظ و تائید پر مکمل بھروسہ کرکے آپس میں عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنی جان مال اور عزت سب کچھ قربان کرنے سے گر یز نہیں کریں گے۔

The post امریکا کا اعلان آزادی appeared first on ایکسپریس اردو.

مریم نواز شریف کا زلزلہ

$
0
0

محترمہ مریم نواز شریف رکنِ قومی اسمبلی ہیں نہ پاکستان کی سینئر و تجربہ کار سیاستدان لیکن آج پورے ملک میں اُنہی کا نام اور پیغام گونج رہا ہے ۔ وہ نون لیگ کی نائب صدرتو یقیناً ہیں لیکن انتخابی اور قانونی حلقوں میں ان کی نائب صدارت کو بھی کئی چیلنج درپیش ہیں ۔

مریم نواز اور اُن کے خیر خواہوں کا کہنا ہے کہ یہ چیلنج کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ وہ سرخرو ہوں گی ۔ پسِ دیوارِ زنداں بیٹھے سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی خود بھی ضمانت پر ہیں لیکن وہ کئی خطرات مول لے کر میدانِ سیاست میں متحرک ہیں ۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ وہ ضمانت پر رہا ہو کر جاتی امرا میں مہر بہ لب ہو کر بیٹھ جائیں گی لیکن یہ توقعات درست ثابت نہیں ہُوئی ہیں ۔اُن کا سیاسی تحرک جاری ہے ۔ وہ خود ایک تحریک اور سیلاب بنتی جارہی ہیں ۔ اُن کا یہ تحرک اُن کے مخالفین کے لیے دردِ سر بنتا جارہا ہے ۔ مریم نواز شریف کی ساری کوششوں اور جدوجہد کا مرکزی نکتہ اپنے والدِ گرامی کی جیل سے رہائی ہے ۔

اُن کا ایقان ہے کہ نواز شریف بیگناہ ہیں ؛چنانچہ وہ ببانگِ دہل کہتی ہیں کہ وہ اپنے ’’بیگناہ‘ ‘والد صاحب کو رہا کرانے کے لیے ’’آخری حد تک‘‘ جائیں گی ۔ یہ ’’آخری حد‘‘ کیا ہو سکتی ہے، اس کے عنوانات اور آثار آہستہ آہستہ بے نقاب ہوتے جا رہے ہیں ۔ مریم نواز کی جدوجہد بے تکان، مسلسل اور بے روک ہے ۔اپنی سیاسی طاقت اور اپنے مطالبے میں قوت کے حصول کے لیے انھوں نے اپنے والد صاحب کے سابقہ کٹر مخالفین اور حریفوں سے بھی مصافحہ اور صلح کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھا اور نہ اس میں تاخیر کی ہے ۔

بعض سیاسی پنڈتوں کا خیال رہا ہے کہ مریم نواز محض نواز شریف کی لاڈلی اور نازوں پلی بیٹی ہیں ۔ سیاست کا گرم اور خطرناک کھیل کھیلنا اُن کے بس کی بات نہیں ہے ۔ مریم نواز شریف نے اپنے قول و فعل سے ان قیافوں اور اندازوں کو غلط ثابت کیا ہے ۔ کہا جا سکتا ہے کہ حوالہ زنداں نواز شریف کو آج کوٹ لکھپت جیل میں جو سہولتیں اور آسانیاں دستیاب ہیں ، یہ کسی کی مہربانی اور استحقاق کا ثمرنہیں ہیں بلکہ یہ اُس دباؤ کا نتیجہ ہے جو مریم نواز کا پیدا کردہ ہے ۔ وہ ایک بے چین اور بیقرار روح کی طرح اپنے والد کی رہائی کے لیے بھاگ دوڑ رہی ہیں ۔ ایسی جدوجہد تو محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی( اپنے قیدی والد کی رہائی کے لیے) بوجوہ نصیب نہیں ہو سکی تھی۔ وہ جلسے کرنے کے ساتھ ساتھ مقتدرین کو چیلنج بھی کررہی ہیں ۔

وہ ایک سرطان زدہ بچے کی تیمار داری کے بہانے ظفر وال ( ضلع نارووال) گئیں تو ایک بڑا جلسہ کرنے میں بھی کامیاب رہیں ۔ سابق وفاقی وزیر دانیال عزیز اور اُن کی  ایم این اے اہلیہ نے خوب ساتھ نبھایا۔ مقامی نون لیگی ایم پی اے مولانا غیاث الدین اس جلسے میں دانستہ غیر حاضر رہے ۔ اُن کی خاموشی اور غیر حاضری کا راز اب کھلا ہے ۔ موصوف نون لیگ کے اُس گروہ میں پائے گئے ہیں جس نے ’’اپنے حلقوں کے مسائل حل کرنے کے لیے ‘‘ وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی ہے ۔ مولانا صاحب پر بلا شبہ نون لیگ کے لاتعداد احسانات ہیں لیکن وہ آزمائش کی گرمی میں ثابت قدم نہیں رہ سکے ہیں ۔ اگر مبینہ ’’فارورڈ بلاک‘‘ واقعی تشکیل پا گیا تو ممکن ہے حضرت مولانا غیاث الدین بھی دل کی مرادیں پا جائیں۔ رانا ثناء اللہ نے مولانا صاحب کے بارے جو تبصرہ کیا تھا، وہ بھی فضا میں موجود ہے۔

نون لیگ کو کمزور کرنے اور توڑنے کی ممکنہ کوششوں کے باوصف مریم نواز شریف کے قدم آگے بڑھ رہے ہیں ۔ وہ ظفروال کے بعد اب منڈی بہاء الدین میں بھی جلسہ کرنے کا مصمم ارادہ کر چکی ہیں ۔حکومت مگر اُن کے راستے میں مزاحم ہے لیکن مریم نواز کے ارادے اٹل ہیں ۔ اتوار کی صبح جس لمحے یہ سطور رقم کی جارہی ہیں ، اطلاعات آ رہی ہیں کہ منڈی بہاء الدین کی انتظامیہ ڈٹی ہے کہ مریم نواز کو جلسہ نہیں کرنے دینا۔ انتظامیہ کا موقف ہے کہ جلسے کے لیے ’’ کئی سیکیورٹی رسک‘‘ ہیں ۔ مریم نواز اور نون لیگ کے پیروکاروں کا مگر اصرار ہے کہ منڈی بہاء الدین کا یہ جلسہ ہو کررہے گا۔ گراؤنڈ نہیں تو منڈی بہاء الدین کی سڑکیں ہی سہی ۔

یہ بدلتے وقت کی داستان ہے۔ کہاں وہ وقت کہ مریم نواز کے جلسے کے لیے شہروں کی انتظامیہ خود بڑھ چڑھ کر بندوبست کرتی تھی اور کہاں یہ وقت؟ سچ کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں پر دن پھیرتا رہتا ہے ۔ یہ دراصل انسانوں کی آزمائش ہے ۔ مریم نواز پر پڑی یہ آزمائش بھی گزر جائے گی لیکن افسوس تو آج کے اُن مقتدر افراد پر ہے جن کا دعویٰ تھا کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف نکلے تو سہی ، ہم انھیں خود کنٹینر اور دیگر سہولتیں فراہم کریں گے ۔ یہ دعوے مگر پہلے مرحلے پر ہی ہوا ہو گئے ہیں ۔ منڈی بہاء الدین میں مریم نواز شریف کے جلسے کو مسدود اور ناکام کرنے کے لیے ایسے موقعے پر اقدامات کیے گئے ہیں جب مریم نواز کی ایک تازہ پریس کانفرنس کی باز گشت پاکستان سمیت پوری دُنیا کے میڈیا میں سنائی دے رہی ہے۔

اس پریس کانفرنس نے ایک زلزلہ پیدا کر دیا ہے ۔ مریم نواز کا موقف کتنا سچا ہے ، یہ تو آنے والے دن بتائیں گے لیکن فی الحال اس نے ہماری سیاست میں ایک بھونچال کی سی کیفیت پیدا کر دی ہے ۔ مریم نواز کی یہ دھمکی کہ ’’اس طرح کے مزید ثبوت بھی میرے پاس ہیں‘‘ ایک اور سیاسی زلزلے کی پیش گوئی ہے ۔لیکن متعلقہ فریق کی طرف سے پریس ریلیز کی شکل میں جو جواب میڈیا میں سامنے آیا ہے ، وہ خاصا اہم ہے ۔ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

مریم نواز شریف نے یہ زلزلہ اور بھونچال ایسے موقعے پر پیدا کیا ہے جب نون لیگ پنجاب کے صدر اور نواز شریف کے معتمد ترین ساتھی ، رانا ثناء اللہ، تازہ تازہ ایک سنگین الزام کے تحت حراست میں لیے گئے ہیں ۔جب اپوزیشن کی ’’رہبر کمیٹی‘‘ یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ رواں جولائی کے وسط تک چیئرمین سینیٹ کو ہٹا کر خان صاحب کی حکومت کو اپنی طاقت دکھائی جائے گی اور اُن کے لیے نیا مسئلہ کھڑا کیا جائے گا۔ اس غرض کے لیے 9 جولائی کو چیئرمین سینیٹ کے خلاف قرار داد جمع کروائی جائے گی اور 11جولائی کو اپوزیشن اپنا متفقہ امیدوار سامنے لائے گی۔ جب ہماری سیاسی فضاؤں میں یہ ’’بو‘‘ پھیلی ہے کہ حکومت کی ایما پر نون لیگ کے اندر ’’فارورڈ بلاک‘‘ کی تشکیل تکمیل کے قریب ہے ۔

جب نون لیگ کے مرکزی صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا ہے ۔ مریم نواز شریف نے  ایسے وقت میں سیاسی بھونچال پیدا کیا ہے جب ایشیائی ترقیاتی بینک نے پشاور کے میٹرو پراجیکٹ (بی آر ٹی) بارے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں شدید اور سنگین قسم کے سوالات اُٹھا دیے ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ اس پراجیکٹ میں میٹریل بھی ناقص استعمال ہُوا ہے اور اس کے ڈیزائن میں کی گئی تبدیلیوں نے بڑی خرابیاں پیدا کر دی ہیں ۔ ایشیائی ترقیاتی بینک ہی نے مذکورہ پراجیکٹ کے لیے فنڈز (70ارب روپے) فراہم کیے ہیں ۔ اُن کی تشویش بجا محسوس ہوتی ہے ۔ یہ رپورٹ بھی جناب عمران خان کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہے۔

The post مریم نواز شریف کا زلزلہ appeared first on ایکسپریس اردو.

سیاسی پنڈتوں سے عوام دور رہیں

$
0
0

ایسی تقاریر، ایسے بیانات جن سے عالمی امن کو خطرہ لاحق ہو، ان پر ایک تنقیدی نظر ڈالنا ضروری ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ آئے دن اپنے مخالفین کو دھمکیاں دیتے رہتے ہیں، خاص طور پر ایران عشروں سے امریکی صدور کے زیر عتاب ہے۔ تازہ ترین بیان میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ جاری رکھنے کی پالیسی برقرار رہے گی۔

حضرت نے مزید فرمایا ہے کہ ایران آگ سے کھیل رہا ہے۔ وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک مراسلے میں کہا گیا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ یورپی یونین نے ایران سے جوہری معاہدے کی پاسداری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ روس نے کہا کہ امریکی دباؤ کی وجہ جوہری معاہدہ متاثر ہوا۔ برطانیہ نے تہران کو معاہدے سے مزید روگردانی برتنے سے گریز کی ہدایت کی ہے۔ اس معاہدے کے مطابق ایران 300 کلوگرام سے زیادہ یورینیم کی افزودگی نہیں کر سکتا، لیکن ایران نے اس معاہدے کے خلاف یورینیم افزودگی کی حد پار کر لی ہے۔

یورینیم ایٹمی ہتھیاروں کا حصہ ہے، امریکا اور اس کے اتحادی چاہتے ہیں کہ ایران یورینیم کی طے شدہ تعداد سے زیادہ افزودہ نہ کرے اس سارے فسانے کا واحد مقصد یہ ہے کہ ایران ہرگز ایٹمی ہتھیار بنانے کے قابل نہ ہو۔ جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکا نے جو کم طاقتی بم گرایا تھا اس سے نہ صرف لاکھوں انسان جاں بحق ہوگئے تھے بلکہ عمارتیں کوئلے کے ڈھیر میں بدل گئی تھیں، یہ کارگزاری اس وقت کے امریکی صدر ٹرومین کے حکم پر کی گئی تھی۔ دنیا کے انصاف پسند ملک امریکا نے کیا لاکھوں انسانوں کے قاتل ٹرومین کے خلاف اس بین الاقوامی جرم کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کی تھی۔

دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے مخالفین ہر سال اس وحشیانہ قتل عام کا ماتم کرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس تباہ کن واقعے کے بعد ساری دنیا میں ایٹمی ہتھیار بنانے پر سخت پابندی عائد کردی جاتی اور دنیا میں پائے جانے والے تمام ایٹمی ہتھیار تلف کر دیے جاتے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا بلکہ کئی ملکوں نے ایٹمی ہتھیار تیار کر لیے اور کرہ ارض ایٹمی ہتھیاروں کے ذخیرے پر کھڑا ہوا ہے۔ کیا امریکا کے حکمران نہ سہی امریکا کے مدبرین نے ہیروشیما اور ناگاساکی کے المیے سے عبرت پکڑتے ہوئے ایٹمی ہتھیار بنانے پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا؟

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے تک امریکا واحد ایٹمی طاقت تھا اگر ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہی کے مضمرات سے ہمارے حکمران اور دنیا بھر کے سیاستدان واقف تھے تو پھر سب سے پہلا کام یہی کیا جاتا کہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری پر فوری پابندی لگا دی جاتی لیکن انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ قومی مفادات کے اندھے لٹیروں نے اس قسم کی کوئی پابندی عائد نہ کی ، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کے کئی ملک اب ایٹمی طاقت بن چکے ہیں ۔ ایران پر ایٹمی ہتھیار تیار کرنے پر پابندی کا مطالبہ یقینا جائز اور دنیا کے مفاد میں ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایران کا ازلی دشمن اسرائیل ایٹمی طاقت ہے اور اسرائیل کے جنگی جنون کا عالم یہ ہے کہ لاکھوں فلسطینی اسرائیل کے جنگی جنون کا شکار ہوچکے ہیں اور اسرائیل ایران کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے۔

اس پس منظر میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کا ایران پر ایٹمی ہتھیار بنانے پر پابندی کا مطالبہ لاجیکل کہلا سکتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد بڑی طاقتوں نے کمزور ملکوں کو اپنا تابع بنا لیا اور دو بڑے ملکوں کوریا اور جرمنی کو تقسیم کر کے ان کی وحدت کا ستیا ناس کر دیا۔ جرمنی کی تقسیم کو دیر ہی سے سہی جرمن عوام نے مسترد کر کے وہ دیوار برلن ڈھا دی جو جرمن عوام کو تقسیم کر رہی تھی ۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کے  مدبرین نے دنیا میں امن برقرار رکھنے اور دنیا کے ملکوں کو ناانصافی سے بچانے کے لیے ایک اور ادارہ اقوام متحدہ بنایا تھا۔

بلاشبہ اس قسم کے ادارے کی دنیا کو پہلے بھی ضرورت تھی اور اب بھی ہے۔ لیکن اس قسم کے ادارے جب بڑی طاقتوں کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتے ہوں تو دنیا میں ان کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل کو فلسطینیوں کا قتل عام کرنے سے روکنا کیا اقوام متحدہ کی ذمے داری ہے یا امریکا کی؟ اگر اقوام متحدہ آزاد ہوتی تو اسرائیل کو فلسطینیوں کے اور بھارت کو کشمیریوں کے قتل عام سے نہیں روک سکتی تھی؟ بڑی طاقتیں خاص طور پر انکل سام جب اقوام متحدہ کو اپنی جیب میں ڈال کر پھر رہے ہوں تو اسرائیل کیوں نہ دادا بنا رہتا، کشمیری عوام کا اور فلسطینیوں کا قتل عام کس طرح جاری رہ سکتا؟ کیا بڑی طاقتوں کے غلام ادارے دنیا میں امن اور انصاف کی ذمے داریاں پوری کرسکتے ہیں؟

کوئی صاحب عقل اس بات کی مخالفت کرسکتا ہے کہ ایران کو ایٹمی ہتھیار نہیں بنانے چاہئیں لیکن دنیا جب ایران کے سر پر اسرائیل کو بلکہ ایٹمی اسرائیل کو سوار دیکھتی ہے تو صرف ایران پر ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی پابندی کو کس طرح منصفانہ سمجھ سکتی ہے؟

دنیا کے اربوں غریب عوام ایک مشکل زندگی گزار رہے ہیں، انھیں اپنے مسائل ہی سے فرصت نہیں کہ وہ دنیا کے مسائل پر غور کریں یہ ہر ملک کے دانشوروں، مفکروں، ادیبوں، شاعروں کی ذمے داری ہے کہ وہ دنیا میں ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھائیں۔ ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری سے روکنا ایک منصفانہ کام ہے اور ہمیشہ کی طرح یہ کام بے چارہ امریکا کر رہا ہے اور جب سے اندھے امریکی عوام نے بہرے ٹرمپ کو اپنا صدر منتخب کیا ہے دنیا کا امن ٹرمپ کی مرضی کا تابع ہوگیا ہے۔

انسانوں کے سر پر ہزاروں ایٹمی ہتھیار سایہ فگن ہیں۔ دنیا کے غریب اور تعلیم سے محروم اربوں عوام یہ نہیں جانتے کہ جاپان کے دو شہروں ناگا ساکی اور ہیروشیما میں کیا قیامت برپا ہوئی کتنے لاکھ معصوم انسان ایٹمی آگ میں جل کر راکھ ہوگئے۔ اگر دنیا کو تیسری عالمی جنگ یا ایٹمی جنگ سے بچانا ہے تو قومی مفاد کی ٹوپی پہنے ہوئے سیاسی مسخروں سے نجات پانا ہو گی اور دنیا کی باگ ڈور ایسے انسانوں کے ہاتھوں میں دینا ہوگی جو ملک و قوم کی حد بندیوں میں گھرے ہوئے نہ ہوں جن کے سامنے دنیا کے اربوں انسانوں کا درخشاں مستقبل ہو۔

The post سیاسی پنڈتوں سے عوام دور رہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

اچھے دنوں کی نوید

$
0
0

زراعت پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ زراعت سے پاکستان کے آبادی کا ستر سے نوے فیصد حصہ وابستہ تھا۔ آج بھی پاکستان کی 60 فیصد آبادی اسی سے منسلک ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ زراعت کونظر انداز کرنے کے باوجودبھی ہم صنعتی ملک نہیں بن سکے۔

آج بھی ہماری ایکسپورٹ کا زیادہ تر انحصار زرعی خام مال پر ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر جس کے ذریعے پاکستان سب سے زیادہ زرمبادلہ کماتا ہے اس کا انحصار کپاس پرہے۔ صنعت پر پوری توجہ دینے کے باوجود ہماری ایکسپورٹ میں اضافہ نہیں ہوا ہے، یعنی ہم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے، نتیجہ یہ نکلا کہ صنعت میں تو ہم نے کیا ترقی کرنی تھی ، رہی سہی زراعت بھی تباہ حال ہوگئی۔ بھارتی پنجاب اور پاکستانی پنجاب کی پیداوار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بھارتی پنجاب پورے بھارت کو اناج مہیا کرتا ہے جب کہ دونوں طرف کے پنجاب کی زمین بھی ایک، موسم بھی ایک۔لیکن وہاں کی حکومت نے اپنے کاشتکاروں کو سہولیات فراہم کی ہیں جب کہ پاکستانی پنجاب میں کاشتکاروں کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک۔ زرعی ترقی پورے ملک کی خوشحالی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے جس سے غربت بیروزگاری میں نمایاں کمی آئے گی۔

وزیراعظم عمران خان نے زرعی ایمرجنسی پروگرام کا آغاز کیا۔ اس منصوبے کے تحت آیندہ چار برس میں زراعت اور آبپاشی کے شعبے میں 309 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے ، کم اور بے وقت بارشوں کی وجہ سے فصلیں خشک سالی کا شکار ہیں۔ رواں سال ایسا ہی ہوا ہے جب بارشوں کی ضرورت تھی بارش نہیں ہوئی اورجب فصل پک کر تیار ہو گئی تو بے موقع دھواں دار بارشیں شروع ہوگئیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں ایکڑ رقبے پر فصلیں تباہ ہو گئیں۔اس کا تعلق براہ راست ماحولیات سے ہے۔ ماحولیات سے جو مقامی بھی ہے تو عالمی بھی۔ انسانوں نے اپنے ہاتھوں ہی ماحولیات کو تباہ کر لیا ہے۔ اب پوری دنیا سر پکڑ کر بیٹھی ہے کرے تو کیا کرے۔ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب ماحولیات کی تباہی زمین پر ہر طرح کی زندگی کا خاتمہ کر دے گی۔

سبزہ، درخت، پانی زندگی کی ضمانت ہیں جب کہ زیرزمین پانی خطرے کے نشان سے بھی نیچے چلا گیا ہے۔ چند سال بعد یہ نوبت آنے والی ہے کہ پینے کے لیے پانی دستیاب نہیں ہوگا جس کے آثار ابھی سے ہی ملک کے مختلف حصوں میں نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر زراعت کی ترقی کے لیے ایک چار سالہ پروگرام تشکیل دیا گیا ہے جس پر 309 بلین روپے خرچ ہوں گے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجودسالانہ 400 ارب روپے کی زرعی اشیا درآمد کرتا ہے۔

پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین کے مطابق زرعی ایمرجینسی پروگرام پر خرچہ اگلے پانچ سال میں 360 فیصد اضافے کے ساتھ نہ صرف زرعی پیداوار میں اضافے بلکہ کسانوں کی خوش حالی کا باعث بھی بنے گا۔مسٹر ترین کے مطابق 220 بلین روپے صرف چھوٹے ڈیم اور اس سے متعلقہ پانی کے منصوبوں پر خرچ کیے جائیں گے۔ گوشت کی قلت اور مہنگائی پر قابو پانے کے لیے مویشیوںاور مچھلی کی پیداوار میں بھی بڑے پیمانے پر پر اضافہ کیا جائے گا۔ زرعی صنعتی پیداوار میں اضافے سے ہی پاکستان جس  معاشی بھنور میں پھنسا ہوا اس سے نکل سکتا ہے۔

پاکستانی معیشت پچھلے ایک سال میں جس افراتفری کا شکار رہی آنے والے وقت میں اس میں بتدریج کمی نظر آئے گی۔ معاشی تجزیہ نگاروں کے مطابق آئی  ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونے سے اب پوری دنیا کا پاکستان پر اعتماد بڑھے گا۔ آئی ایم ایف پاکستانی معیشت کی ساکھ کے حوالے سے ایک اہم گارنٹر بنے گاجس کے نتیجے میں دنیا کے سرمایہ کار بڑی تعداد میں پاکستان کا رخ کریں گے ۔ اس کے ساتھ ایک بڑی خبر یہ ہے کہ ایمنسٹی اسکیم میں نہ صرف کامیابی ہوئی ہے بلکہ اس معاملے میں کامیابی توقع سے بڑھ کر ہے۔

اس سلسلہ میں کم از کم ایک لاکھ نئے پاکستانی ٹیکس نیٹ میں داخل ہوئے ہیں وہ بھی صرف 25دنوں کی قلیل مدت میں جب کہ پچھلی ایمنسٹی اسکیم میں بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی جو پہلے سے فائلرز تھے۔ اسکیم میں 3ہزار ارب روپے کے اثاثے ظاہر کیے گئے جب کہ 70 ارب روپے کا ٹیکس ملا۔ کہا جا رہا ہے کہ معیشت کے برے دن ختم ہونے والے ہیں، پاکستان ایک بہتری کے دور میں داخل ہونے والا ہے۔بہتری کے آثار کا اندازہ اس سے لگائیے کہ پچھلے چند دنوں میں ڈالر کی قدر روپے کے مقابلے میں سات روپے تک گری  ہے۔ امید ہے آنے والے دنوں میں روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مزید مضبوط ہوگا۔ یہ تحریرلکھنے تک پچھلے تین دنوں میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ایک ہزار پوائنٹس کا اضافہ ہوچکا ہے۔کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی معیشت میں حالیہ مثبت تبدیلی میں چیئرمین ایف بی آر سیدشبر زیدی کا کلیدی کردار ہے۔

آئی ایم ایف پیکیج کی منظوری کے بعد مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام سے ملک میں معاشی استحکام آئے گا اور پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔ پاکستان میں مشکل معاشی حالات ہیں۔ ہم مشکل فیصلے کریں گے لیکن کمزور طبقے کا تحفظ بھی کریں گے۔ آئی ایم ایف سے ملنے والے قرض کی شرح سود بہت کم یعنی صرف 3 فیصد ہے جس کی واپسی کی مدت 10سال تک ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام منظوری کے ساتھ ہی دیگر عالمی مالیاتی اداروں نے بھی پاکستان کے لیے فنڈز ریلیز کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ پاکستان کو آیندہ پانچ برسوں میں عالمی مالیاتی اداروں اور دو طرفہ معاہدوں سے مجموعی طور پر 38 ارب ڈالر ملیں  گے۔

موجودہ حکومت کے لیے سب سے مشکل وقت پچھلے سال کا آخر اور اس سال کا شروع تھا۔ یاد رہے کہ یہ وہ وقت تھا جب انڈیا نے 26 فروری کو بالاکوٹ پر فضائی حملہ کیا اس کے بعد دوسرا سخت وقت مئی سے شروع ہوا اور 30 جون تک رہا۔ جیسے ہی اس وقت کے اثرات ختم ہوئے 3 جولائی کو آئی ایم ایف پیکیج منظور ہو گیا۔ستمبر اکتوبر سے ایک اور وقت شروع ہو رہا  ہے جو جنوری 2020ء تک مکمل ہوگا جس میں موجودہ حکومت کے آزمائشی وقت کا  بیشتر حصہ مکمل ہو جائے گا۔

کچھ کرکٹ کے بارے میں۔ بھارت کرکٹ کا عالمی چیمپئین ہوگا جب کہ اگلا ورلڈکرکٹ کپ پاکستان جیتے گا۔

The post اچھے دنوں کی نوید appeared first on ایکسپریس اردو.

نکولس،باوقارطریقے سے مصائب کوجھیلتارہا!

$
0
0

نکولس دوم روس کاآخری شہنشاہ یعنی زارتھا۔23 برس بلاشرکت غیر حکومت کرتارہا۔اس کاانجام کیاہوا،کچھ دیر بعد عرض کرتاہوں۔نکولس کاوالد فوت ہواتووہ  26 برس کا تھا۔ زارکی تدفین کی شاہی تقریب جاری تھی۔نکولس دوم نے اپنے ایک قریب ترین دوست کوبلاکرکہا، ابھی وہ زاربننے کے لائق نہیں ہے۔اس کی تربیت نہیں ہوئی۔دوست نے جواب دیا، نکولس،آپ کوخدانے بادشاہت کے لیے منتخب کیا ہے۔ یہ فیصلہ کسی انسان کا نہیں ہے۔اس خدائی فیصلے  سے مفرممکن نہیں۔روس کاشاہی خاندان راسخ العقیدہ مسیحی تھا۔

نکولس نے زاربننا قبول کرلیا۔اگلے 23 برس،روس کی بدقسمتی کاوہ دورتھا،جس میں اس کی بحریہ اوربری افواج کو ہر مقام پر شکست فاش ہوئی۔جاپان نے روس کے 42 بحری جہازوں کوصرف آدھے گھنٹے میں بربادکرکے رکھ دیا۔روس کے عوام غربت کا شکار ہوگئے۔لوگ اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے لگے مگرزارکے سپاہیوں نے بے دریغ قتلِ عام کرکے ہرآوازکوخاموش کرنے کی بھرپورکوشش کی جووقتی طورپرتوکامیاب رہی۔مگر ظلم اورجبرکی حکومتی پالیسی ناکام ہوگئی۔نکولس کویقین تھاکہ انسانی حقوق اورجمہوریت بیکارقسم کے نعرے ہیں۔

ایک مرتبہ،کسی سیانے درباری نے مشورہ دیا کہ اسے جمہوری حکومت بنادینی چاہیے کیونکہ زمانہ بدل چکا ہے۔نکولس کاجواب تھا،’’حکومت کرنے کاواحد طریقہ، مضبوط اورطاقتوربادشاہت ہے۔جمہوریت میں صرف بحث ومباحثہ ہوتاہے۔لوگوں کے مسائل حل کرنے کی استطاعت جمہوری نظام میں موجودنہیں ہوتی‘‘۔درباری خاموش ہوگیا۔نکولس اپنے خیالات میں مکمل طورپرغلط ثابت ہوا۔عرض کرنے کامقصدصرف یہ ہے کہ نکولس ایک شہنشاہ تھااوروہ آخری دم تک شہنشاہ کے طورپرزندہ رہا۔

1917کے انقلاب کے بعد،نکولس دوم،اہلیہ، بیٹا اور چاربیٹیوں کوکیمونسٹ حکومت نے Ekaterinburg کے ایک خصوصی گھرمیں قید کردیا۔ اسے شاہی لباس پہننے کی اجازت نہیں تھی۔مگرعام لباس پہننے کے باوجود،وہ ہرگزعام  آدمی نہیں تھا۔کھانے کے لیے پورے خاندان کوسادہ گوشت کے ٹکڑے دیے جاتے تھے۔جسے وہ میزپربیٹھ کر اس طرح کھاتے تھے کہ کوئی شاہی کھاناہو۔جوسپاہی قید خانے میں ڈیوٹی پرہوتے تھے،وہ اس خاندان کا باوقار رویہ دیکھ کر گھبرا جاتے تھے۔پورے شاہی خاندان کواپنے انجام کا اندازہ تھا،مگرانھوں نے کبھی شکایت نہیں کی۔ آسٹریا اور لندن کے شاہی خاندان،نکولس دوم کے قریب ترین عزیز تھے، مگر آخری زارنے کبھی ان کویہ نہیں کہاکہ اس کی جان بخشی کرا دی جائے۔ زارنے یہ درخواست نہیں کی کہ اسے جلاوطن کر دیا جائے۔

حیران کن بات یہ بھی ہے کہ اس نے روسی کیمونسٹ حکومت کو خط تک نہیں لکھاکہ اسے اوراس کے خاندان کوبنیادی مراعات تک حاصل نہیں ہیں۔زارنے روس کی کسی عدالت میں رحم کی اپیل دائرنہیں کی۔اس نے پولٹ بیورو کو کسی قسم کامعافی نامہ نہیں بھجوایا۔ سولہ اورسترہ جولائی1918کی درمیانی شب،جیلرنے خاندان کوبتایاکہ انھیں سیکیورٹی کی وجہ سے کسی اورجگہ منتقل کیاجارہا ہے۔ نکولس کا بیٹا معذور تھا۔رات کوڈیڑھ بجے زارنے اپنے بیٹے کوگودمیں اُٹھایا۔ بیوی بچوں کوساتھ لیااورجیلرکے حکم پرگھرکے تہہ خانے میں آگیا۔وہاں پہنچ کرسپاہیوں کوکہاکہ دوکرسیاںلے کرآؤ۔ ایک کرسی پر زار نے اپنی بیوی کو بٹھایا اوردوسری کرسی پراپنے معذوربیٹے کو۔پوراخاندان انتظار کر رہاتھاکہ کب ٹرک آئے اوروہ محفوظ جگہ پرمنتقل ہوجائیں۔ مگرایساکچھ نہیں ہوا۔

اچانک جیلر،چھ سات سپاہیوں کے ساتھ اندرآیا۔ ایک کاغذکھولا۔زاراوراس کے پورے خاندان کے نام پڑھے اوربتایاکہ حکومت نے انھیں سزائے موت دیدی ہے۔ زار نے قطعاًیہ نہیں کہاکہ اس پرتوکوئی مقدمہ سرے سے چلایاہی نہیں گیا۔اسے توکسی عدالت میں پیش ہی نہیں کیاگیا۔یہ سراسرناانصافی ہے۔زار وقارسے خاموش کھڑا رہا۔اسے پانچ گولیاں ماری گئیں۔مرتے وقت بھی اس نے کرسی کا سہارا نہیںلیا۔ زمین پراس وقت گراجب روح پروازکرچکی تھی۔بالکل یہی رویہ،اس کی بیوی،بیٹے اور چاروں بیٹیوں کا  تھا۔انھوں نے انتہائی تہذیب اور بہادری سے موت کوقبول کیا۔ قطعاًیہ نہیں کہاکہ ان کے خلاف سازش ہورہی ہے۔وہ بے قصورہیں۔گزارشات پیش کرنے کا مقصدصرف ایک ہے کہ اچھے اوربرے انجام سے بے نیاز، حکمرانوں میں ذاتی گریس(Grace)ہونی چاہیے۔

اقتدار کے دوران اگران کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ،ہزاروں یا لاکھوں نہیں،کروڑوں لوگوں کانصیب بن جاتاہے۔تومشکل وقت میں بھی انھیں اسی وقارکامظاہرہ کرناچاہیے جووہ اقتدارمیں کرتے آئے ہیں۔ یہ ذاتی کردارکی بلندی کی نشانی ہوتی ہے۔صحیح اورغلط کی بات نہیں کررہا۔کیونکہ ہرحکمران کے کارناموں اور ناکامیوں کا فیصلہ صرف اورصرف تاریخ کرتی ہے۔عرض کرنے کا قطعاً یہ مقصدنہیں کہ بادشاہت ایک اچھا نظام ہے یاجمہوریت کو ختم ہوجاناچاہیے۔

ہرگزنہیں۔بالکل نہیں۔ موجودہ دورمیں جمہوریت واحد نظام ہے جس کے ذریعے حکومت کی جاسکتی ہے۔مرکزی نکتہ صرف ایک ہے کہ حکمران طبقہ،حکمرانی کے عہدکے بعد،کس وقاراورتہذیب سے مسائل کا سامنا کرتا ہے۔ مصائب ہی وہ درسگاہ ہے جہاں اصل کردارکاپتہ چلتا ہے۔اس میں عام آدمی بھی شامل ہے اوربادشاہ یعنی حکمران بھی۔اس میں عام سطح کے خاندان بھی شامل ہیں اورشاہی خاندان بھی۔ شائد میری  بات تلخ لگے۔شائد آپ کے ذہن میں یہ بات اُبھرے کہ اگلی کہنے والی بات، مجھے نہیں لکھنی چاہیے تھی۔مگربہت سے المیوں کے درمیان ہماراالمیہ یہ بھی ہے کہ نہ مصیبت کے وقت ہمارے نام نہادشاہی خاندان اورحکمران کوئی وقار دکھاتے تھے نہ ہی عوامی سطح پراس کامظاہرہ کیاجاتاہے۔ہمارا حکمران طبقہ مصائب کے سامنے پگھل کرموم بن جاتا ہے۔ عام لوگوں کی بات کرنے کاتوسوال پیداہی نہیں ہوتا۔وہ تو پیداہی ذلیل ہونے کے لیے ہوئے ہیں۔

دعوے سے عرض کرسکتاہوں کہ نکولس دوم کے پاس جتنا مال ودولت تھی۔پاکستان کے جمہوری خاندانوں کے پاس اس سے زیادہ دولت ہو۔زارکوتوپھربھی اپنے خزانے کے متعلق معلوم تھا۔ہمارے حکمرانوں کوتواپنے بین الاقوامی اثاثوں اورمنافعے کاعلم ہی نہیں ہے۔ قوم کوتوصرف یورپ یا امریکا میں موجود اثاثوں کا علم ہے۔مگران کی جائیداد تو دنیا کے تمام براعظموں میں پھیلی ہوئی ہے۔پیرس سے لے کر نیویارک اورآسٹریلیاسے لے کراسپین،ہرجگہ ان لوگوں کے محلات،گالف کورس،ہوٹل اوردیگرجائیدادیں موجود ہیں۔ اگرراست طریقہ سے دیکھاجائے توزارتوہمارے جمہوری بادشاہوں سے کافی غریب تھا۔مگرزاراوران میں ایک بہت بڑافرق تھااورہے۔زارکومشکل ترین حالات میں باوقار رہنے کا فن آتاتھا۔پاکستان کے جمہوری بادشاہوں کوپیسہ بناناتوآتاہے۔مگران کے اندر مشکل وقت میں آب وتاب سے رہنے کا حوصلہ موجودنہیں ہے۔یہ اندرسے اس قدر کمزور اوربکھرے ہوئے لوگ ہیں کہ تعجب ہوتاہے۔

اپنے دورِحکومت میں ان کے ملازم کھانالانے کے لیے سرکاری ہیلی کاپٹراورجیٹ طیارے استعمال کرتے تھے۔ نوکروں کی بات کررہاہوں۔دوران حکومت، پاکستان کی مشہورترین بیوٹیشن،سرکاری جہازمیں اسلام آباد،کراچی اور دیگرشہروں سے بلوائی جاتی تھی تاکہ شاہی خاندان کی خواتین کا بہترین میک اَپ کیاجاسکے۔قوم سے سادگی کی اپیل کرکے،یہ لوگ،دنیاکی قیمتی ترین گاڑیاں جمع کرتے تھے۔ لازم ہے کہ اگر حکمران قومی خزانہ کو اپنا سمجھے گا تودرباری تو ہرچیزلوٹ لیںگے۔

ہمارے ہاں ایسا ہی ہوا۔مگر ہمارے حکمرانوں کوتھوڑی سی گرم ہوا لگی ہے اور انھوں نے وا ویلا شروع کردیا ہے۔ شکوہ کے علاوہ ان کی زبان پرکوئی دوسرالفظ ہے ہی نہیں۔ جیل میں انھیںوہ تمام سہولیات فراہم کی گئی ہیں جو پاکستان کے نناوے فیصدلوگوں کو میسر نہیں۔حدتویہ ہے کہ یہ سہولیات،جیل کے قوانین کے بھی خلاف ہیں۔ مگر گریہ اس قدر کیا جارہاہے کہ شائد جیل میں انھیں اذیت ناک ماحول میں رکھا گیا ہے۔ کیاپاکستان کے قیدیوں کو ایئرکنڈیشنرکی سہولت موجود ہے۔ ہرگزنہیں۔بالکل نہیں۔ مگران کے پاس جیل میں ایئرکنڈیشنر موجود ہیں، ڈاکٹروںکی ٹیم چوبیس گھنٹے موجودہے۔

مگر پھر بھی یہ شاہی لوگ سخت ناراض ہیں،نادم نہیں ۔ یہ لوگوں کے سامنے جمہوریت کی بات کرتے ہیں اورتنہائی میں مک مکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ کیمرہ کے سامنے وکٹری کانشان بناتے ہیں مگردرون خانہ،دوسروں ملکوں کے ذریعے اپنی آزادی کا پروانہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگریقین فرمائیے کہ ملکی اوربین الاقوامی سطح پرکوئی مقتدرحلقہ ساتھ نہیں دے رہا۔ افسوس نہ انھیں باوقار طریقے سے زندہ رہناآتاہے اور نہ ہی نکولس کی طرح جرات سے مصیبت کاسامنا کرنا آتا ہے۔ تاریخ انھیں کس نام سے یاد کرے گی،یہ کچھ دہائیوں بعد سامنے آجائیگا؟

The post نکولس،باوقارطریقے سے مصائب کوجھیلتارہا! appeared first on ایکسپریس اردو.

کراچی ، ایک لاوارث شہر

$
0
0

شہر قائد جوکبھی عروس البلاد کے نام سے پکارا جاتا تھا،ایک ترقی یافتہ شہر، علم وادب ، فن وثقافت کا گہوارہ، اب گونا گوں مسائل اور آلام کا شکار ہے۔اس شہر ناپرساں کا نوحہ لکھنا آسان نہیں ۔کراچی کے باسیوں کے کرب اوردرد کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ملتے۔

ایک ایسا شہرجو پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ تجارتی ومعاشی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہے، اس کے باوجود یہاں انفرااسٹرکچر کی زبوں حالی اور بنیادی شہری مسائل کا اب تک حل نہ ہونا ایک ایسی دردانگیزداستان ہے، جسے سنا اور پڑھا جائے توآنکھوں سے آنسو رواں ہوجائیں۔ایک وہ وقت تھا جب سڑکوں کی پانی سے دھلائی کی جاتی تھی اور پھر ایک ایسا وقت آیا کہ یہی شہرکی سڑکیں انسانی خون سے تین دہائیوں تک سرخ رہیں۔

یہ شہر جمہوریت پسندوں کا مرکز رہا ہے، ہر تحریک کا ہر اول دستہ ، یہ ادائے دلبرانہ مقتدر حلقوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہوئی اور پھر کراچی میں لسانیت اور فرقہ واریت کی وہ آگ لگائی گئی کہ دہکتے الاؤ میں شہرکا امن جل کر راکھ ہوگیا۔اس وقت سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کراچی کی محرومیوں کا کبھی درد مندی سے احساس ہی نہیں کیا گیا۔نہ ہی وفاق نے اسے اپنا سمجھا اور نہ اس شہر کا سپوت ہونے کے دعویداروں نے اسے اپنا سمجھا۔

بس ٹیکسز وصول کیے، لگ بھگ ملک بھر کا ساٹھ فی صد ریونیو یہ شہر آج بھی دیتا ہے، کراچی پورے پاکستان کی معیشت کا پہیہ رواں دواں رکھنے میں اپنا اہم ترین کردار نبھا رہا ہے لیکن عام آدمی کا المیہ یہ ہے کہ  اختیارات کی جنگ جو صوبائی اور شہری حکومت کے درمیان طویل عرصے سے جاری ہے، اس کے نتیجے میں  صوبائی و بلدیاتی مراکز اس شہر کے مسائل کے حل کی ذمے داری اٹھانے کو تیار نہیں۔ اس وقت شہر قائد کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ جن میں جا بجا کچرے کے ڈھیر ہیں۔

صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس خبر سے لگایا جائے کہ سندھ حکومت نے سندھ سالڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈکی شہرکے چاروں اضلاع سے کچرا اٹھانے میں ناکامی پر بلدیہ عظمیٰ کو کچرا اٹھانے کے امور واپس دینے کا عندیہ دیا ہے ۔تین برس میں دو کمپنیوں کو چھ ارب کی ادائیگی کے باوجود شہرکچرا کنڈی بنا ہوا ہے۔لینڈ مافیا، ٹینکر مافیا اور ڈرگ مافیا نے شہریوں کا جینا حرام کر رکھا ہے، اسٹریٹ کرائمز کے باعث ہر دوسرا شہری لٹ چکا ہے ، شہریوں کو نہ پینے کا صاف پانی میسر ہے اور نہ صاف ماحول۔ روزانہ 600ملین لیٹر گندا پانی سمندر میں پھینکا جارہا ہے جو سمندری حیات کو ختم کررہا ہے۔

دوسری جانب پینے کے صاف پانی کا بحران بھی شدت اختیار کرگیا ہے اور شہری ٹینکر مافیا سے مہنگے داموں پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ کراچی کے لیے پانی کا ’’کے فور‘‘ منصوبہ ابھی تک نامکمل ہے،حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ انفرااسٹرکچر اور صفائی کے اعتبار سے کراچی دوسرے شہروں سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔

پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔کراچی سرکلر ریلوے انیس برس سے بند ہے۔ ایم کیوایم پاکستان بحالی کمیٹی کے سربراہ فا روق ستار نے کہا ہے کہ کر اچی کے شہریوں کو مہنگائی تلے زندہ درگورکردیا ہے،کاروبا ر بند ہورہے ہیں، تاجر ہڑتال پر آگئے، اس حکومت نے ایسے ٹیکس عائد کردیے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو اس کشادہ اور فراخ دل شہر نے ملک کے ہر حصے سے آنے والوں کو جگہ دے رکھی ہے، یہ شہر غریب و بندہ پرور شہر ہے، اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کاکبھی سوچا تک نہیں گیا۔ سچی بات فقط اتنی ہے کہ اس شہر کو اسٹیک ہولڈرز لے ڈوبے اور تبدیلی کے نعرے والے بھی نظر اندازکررہے ہیں۔

The post کراچی ، ایک لاوارث شہر appeared first on ایکسپریس اردو.


کراچی کا پامال حسن

$
0
0

پہلے کراچی میں کاروباری لوگ جوق در جوق آیا کرتے تھے، جو ایک منظم سازش کے تحت کم سے کم ہوتے چلے گئے جس سے نہ صرف کاروباری نقصان ہوا بلکہ وہ رونقیں دبئی کی زینت بنتی چلی گئیں جو اصل میں کراچی کا خاصہ تھیں۔کراچی ہمارے ملک کا ایک ایسا شہر ہے جو پاکستان کو دنیا میں معاشی لحاظ سے اور بندرگاہ کے حوالے سے نمایاں کرتا ہے۔ اس شہر کے رہنے اور بسنے والے لوگ آج بھی صرف محنت اور ملکی ترقی کے لیے دن اور رات کوشاں رہتے ہیں۔

کراچی میں بجلی نہیں کہ رات کو چین سے سو سکیں، پینے کا پانی نہیں، سیوریج کا نظام اپنے سسٹم سے آؤٹ لیکن یہاں رہنے والے روزگارکے لیے کسی میرا تھن ریس کی طرح معلوم ہوتے ہیں۔ صبح کے نمودار ہوتے ہی سیکڑوں کلومیٹر پر محیط آبادی کے درمیان اس کی سڑکیں موٹرگاڑیوں کی آواز اور مسافروں کی آمدورفت سے ملک کی اقتصادی و معاشی کفالت اور ٹیکس کی ادائیگی میں حصہ داری کرنا شروع کردیتی ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی کی عوام جو صبح 6 سے 7:30 بجے تک یعنی ڈیڑھ گھنٹے میں تقریباً 16لاکھ افراد مرد و خواتین اپنے روزگار کے لیے نکل چکے ہوتے ہیں جب کہ دوسری شفٹ ان لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جو 7:30 سے 9:00 بجے کے درمیان جانے والے ہوتے ہیں اور ان میں بیشتر وہ لوگ ہوتے ہیں جنکے پاس اپنی کوئی سواری نہیں۔

موٹرسائیکل ہو تو ہو ورنہ ٹوٹی پھوٹی گنتی میں بے انتہا کم بسیں جن میں معصوم عوام اپنے کام پہ جاتے ہوئے اس کے علاوہ گرتی پڑتی چنگچیاں ان کا مقدر ہوتی ہیں اور پھر کاروباری افراد تیسری شفٹ کے ہوتے ہیں جو صرف بازار میں کام کرنے والے ہیں ان میں بیشتر وہ ہوتے ہیں جو بسوں میں لٹکے یا چھتوں میں بیٹھے نظر آتے ہیں اور چوتھا نمبر ان لوگوں کا ہے جو خریدار بن کر بازاروں کی رونق بڑھاتے ہیں لیکن ان کی تعداد اب گھٹ رہی ہے پھر بھی ان نامساعد حالات کے ساتھ ساتھ اس شہر کراچی کے کروڑوں افراد پورے ملک کی معیشت میں جو اپنا حصہ بذریعہ ٹیکس بلواسطہ اور بلاواسطہ روز ادا کررہے ہوتے ہیں جو تقریباً ایک دن میں اربوں روپے ہوجاتا ہے۔

اب میں قارئین کی توجہ اس جانب لانا چاہتی ہوں جہاں چند ماہ پہلے ایک سماعت کے دوران ہماری سپریم کورٹ نے عدالتی حکم جاری کیا اور پھر اس کو فوری طور پر نافذ کرنے کے لیے عمل درآمد بھی شروع کروایا گیا یعنی ناجائز تجاوزات کے خلاف کارروائی اور میئر کراچی کے حکم پر عمل کروانے کا پابند کیاگیا یعنی کراچی کے شہریوں کے ووٹ سے منتخب نمایندہ ہی اپنے شہریوں کی تجاوزات کو مسمار کرے۔ اب یہاں ایک بات جو توجہ طلب ہے کہ یہ منہدم کیے جانے والے کوارٹرز ہاؤسنگ اینڈورکس کی زمین پر تقریباً 70 سال سے آباد ہیں جب کہ یہ آبادیاں مارشل لاء آرڈر ریگولیشن نمبر110 اور 1978ء میں آرڈر نمبر 183 میں بطور کچی آبادی نوٹیفائیڈ ہوکر گزٹ پاکستان میں شایع ہوچکا ہے۔

صورتحال یہ ہے کہ صرف کراچی میں تقریباً 575 کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق دیے جاچکے ہیں جن میں 80سے زیادہ آبادیاں وفاقی وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس کی زمین پر قائم ہیں جو لیز بھی ہیں لیکن پاکستان کوارٹرز، مارٹن کوارٹرز ، جہانگیر روڈ اور کلیٹن روڈ سمیت لاتعداد نوٹیفائیڈ آبادیوں کو اب منہدم کیاجارہا ہے۔ کیا کراچی کے علاوہ پاکستان کے کسی اور شہر میں ایسی آبادیوں کو خالی یا منہدم کروایاگیا؟

اگر نہیں تو یہ امتیازی ظالمانہ سلوک صرف کراچی کے خلاف ایسے علاقوں میں کیوں کیا جارہا ہے جہاں کثیر تعداد میں پاکستان بنانے والوں کی نسلیں رہتی چلی آرہی ہیں جب کہ یہ بات روز روشن کی طرح سب پہ واضح ہے کہ کسی بھی قسم کا قانونی یا غیر قانونی کام کرنا ہو تو علاقہ پولیس کی حمایت اور چند سرکاری اداروں کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں اب جس طرح کا تذلیل آمیز رویہ عوام کے ساتھ ان محکموں کے اہلکاروں کا ہوتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جب کہ یہ ہی ادارے ناجائز تعمیرات میں پیش پیش اور قابضین کے ہمنوا ہوتے ہیں اور اس سے زیادہ رفتار جائز تعمیرات کو نیست و نابود کرنے میں یہ پھرتی دکھاتے ہیں جس کی واضح مثال حالیہ دنوں میں ہی ریلوے کی زمینیں خالی کرواتے ہوئے دیکھنے میں آئی۔

قانون کے مطابق ریل کی پٹڑی سے تقریباً 46 فٹ دائیں اور بائیں جگہ خالی درکار ہوتی ہے لیکن کراچی کی 10 بستیوں میں بلڈوزر اس طرح سے چلائے گئے کہ پٹڑی کے ارد گرد کی آبادی جو انہدام کے زمرے میں نہیں آتی تھی ان تک کو برق رفتاری سے اکھاڑ پھینکا۔ ایک ظلم یہ بھی ہے کہ کراچی کے شہری اداروں پر صوبائی حکومت نے بغیر کسی آراء یا کمشنر کی مرضی کے بغیر کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بنادیاگیا ۔ یاد رہے کہ (کالعدم) سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی ایک کثیر المنزلہ پاکستان کا سب سے پہلا پارکنگ پلازہ تعمیر کررہی تھی لیکن اس کی اجازت نہیں دی گئی ۔

کراچی کی موجودہ صورت حال پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو شہر میں ناجائز تعمیرات کے ذمے دار وہ غیر مقامی باشندے ہیں جن کی وجہ سے اس شہر کے حسن کو پامال کیاگیا ۔ مثلاً بعض علاقوں میں سب سے پہلے ریتی اور اینٹوں کے تھلے بنائے گئے جس کے لیے کھلی زمین کا انتخاب پہلی ترجیح ہوتا ہے۔ اس کے لیے مقامی پولیس کی بھرپور تائید بھی حاصل کی جاتی ہے پھر قرب و جوار میں پلاٹ کاٹنے کا عمل شروع کیاجاتا ہے جس میں لینڈ ریوینو کے کارندے اور لینڈ گریبر کی ملی بھگت سے سب سے پہلے چند دکانیں اور ہوٹل بنائے جاتے ہیں اس کے بعد اس کام میں ٹرانسپوٹروں کو شامل کیا جاتا ہے کیونکہ ٹرانسپوٹ ایک اہم مسئلہ ہوتی ہے وہ اس کمی کو پورا کردیتے ہیں۔

گزرنے والی پانی کی لائن کو توڑ کر پانی کے کنکشن بھی لے لیے جاتے ہیں۔ قریب یا دورسے گزرنے والے بجلی کے تاروں سے کنڈے ڈال کر بجلی بھی فراہم کردی جاتی ہے یوں وہ علاقہ ایک آبادی کی شکل اختیار کرتا چلا جاتا ہے اور اگر گیس لائن قریب نہ ہو تو گیس سلینڈر کی دکان کھلوائی جاتی ہے تاکہ رہنے والوں کو مزید آسانی مہیا ہوسکے اور مزید لوگ آکر آباد ہوں۔ ورکشاب، پنکچر شاب، ہیئر سلون اور کلینک بھی کھلوائے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کو تمام سہولتیں مل سکیں۔

کراچی کے جن مضافاتی علاقوں سے یہ ابتدائی کام شروع ہوا تو ان میں سب سے پہلے ابراہیم حیدری، منگوپیر، اتحاد ٹاؤن ،کٹی پہاڑی ، بنارس، فقیر کالونی، قائد آباد سے ملحق آبادیاں، شیرشاہ، ہاکس بے، ماڑی پور، میمن گوٹھ ، شاہ لطیف ٹاؤن، نادرن بائی پاس کے گردونواح کا ایریا، سائٹ ایریا سے منسلک علاقے، لیاری ندی کے کنارے، سہراب گوٹھ کا علاقہ، سرجانی ٹاؤن، گلشن اقبال سے متصل ایریا اور گلستان جوہر میں موجود غیر قانونی آبادیوں کے علاوہ سپرہائی وے پر موجود غیر قانونی بازار اور مارکیٹس ، بن قاسم کا علاقہ جہاں اب بڑی بڑی کالونیوں کے علاوہ ورکشاپ بھی قائم ہوچکے ہیں جب کہ ان آبادیوں کو جو کھلم کھلا غیر قانونی ہیں کسی کو گرانے یا منہدم کرنے کی نیت سے ہاتھ تک نہیں لگایا گیا۔ اس کے برعکس تقسیم برصغیر کے بعد کراچی میں بسنے والے مہاجروں نے باقاعدہ قانونی طور پر اور شہری قوانین کو اپناتے ہوئے مشترکہ رہائشی آبادیاں تشکیل دیں جو کوآپریٹوسوسائٹیز کے نام سے جانی جاتی ہیں اور جو ٹاؤن پلاننگ کے ماہرین کے مشورے اور مروجہ قواعد کو مدنظر رکھ کر بنائی گئی تھیں لیکن بدقسمتی ہے ۔

ان کے نام کے ساتھ برصغیر کے علاقوں کے کچھ نام منسلک تھے اس وجہ سے ان کو نہ تو ترقی دی گئی اور نہ ہی بنیادی سہولتیں ان علاقوں تک پہنچانے کی کوشش کی گئی جب کہ اس کے برعکس ان سوسائٹیز کے ارد گرد اور ان کے اندر بھی قبضے کروائے گئے بعد ازاں صوبائی حکومتوں نے گوٹھ آباد کے نام سے ان کچی آبادیوں کو نہ صرف لیز دی بلکہ گیس، بجلی اور پانی جیسی بنیادی سہولتوں کو حکومتی رعایت کے ساتھ فراہم بھی کیا اور اداروں کا ترقیاتی بجٹ بھی ان ہی علاقوں پر خرچ کیاگیا جب کہ شہری علاقے جو پراپرٹی ٹیکس ، انکم ٹیکس اور بلدیاتی ٹیکس باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں ان کو نظر انداز کیاگیا ۔

نئے اور پرانے تمام گوٹھوں سے ہٹ کر چند سیکٹر جہاں اردو بولنے والے مہاجر تقریباً آدھی صدی سے رہائش پذیر ہیں وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ انہدام کے فیصلے کے ریڈار پر صرف وہ ہی کیوں جن کی داد رسی بھی کہیں نہیں ہورہی ،لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی یکجہتی اور ملکی سالمیت ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے اور ان کو قائم رکھنے کے لیے معیشت کو مضبوط تر کرنا ہوگا جس کی بنیادی ضرورت شہر کا نظم و نسق بین الاقوامی معیار پہ لانے کے لیے اس کو پامالی سے بچانا ہوگا۔

The post کراچی کا پامال حسن appeared first on ایکسپریس اردو.

کیپٹل جسٹس اور مہنگائی کا بوجھ

$
0
0

جس وقت نئی حکومت بنی تو ہمارا خیال تھا کہ اب ملک کو جدید تقاضوں اور جدید دنیا سے ہم آہنگ بنایا جائے گا اور جس طرح جدید ممالک میں ’’کیپٹل جسٹس‘‘ ہوتا ہے، ویسے ہی ہمارے عوام کے لیے بھی ’’کیپٹل جسٹس‘‘ ہوگا۔ ایسا ساری دنیا میں ہوتا ہے ورنہ تو سرمایہ دارانہ نظام عوام کو پیس کر ،اس کا بھرکس نکال دے۔

ہمیں سخت حیرت ہے کہ حکومتی پالیسیوں میں ’’کیپٹل جسٹس‘‘ نام کی کوئی شے نہیں، جس کے باعث حکومتی پالیسیاں عوام کے لیے سخت اذیت کا باعث بن رہی ہیں یعنی ایک جانب تو ان پالیسیوں سے مہنگائی میں شدید اضافہ ہو رہا ہے، دوسرا عوام کو انصاف بھی نہیں مل رہا۔

ہمارے ایک پروفیسر دوست کا کہنا ہے کہ ان کا بجلی کا بل پندرہ ہزارکا آتا تھا مگر بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اس ماہ تیس ہزار سے زائد کا آیا اور بل کے ساتھ یہ خبر بھی پڑھنے کو ملی کہ فی یونٹ بجلی کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کردیا گیا ہے، (یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ اس قدر تیزی سے قیمتوں میں اضافہ کیوں کیا جا رہا ہے اور حکومت اس کی اجازت کیوں دے رہی ہے جب کہ اس ادارے کی فروخت کے وقت معاہدے میں قیمت بڑھانے سے متعلق کھلی چھٹی نہ تھی؟) اس کے بعد ہمارے دوست نے بتایا کہ کسی وجہ سے بل کی آخری تاریخ نکل گئی اور بل جمع نہ ہوسکا، چنانچہ ہمارے دوست نے سوچا کہ چلو تین دن بعد یکم کو تنخواہ ملے گی، تو لیٹ سرچارج کے ساتھ جمع کرا دیں گے، مگر اگلے ہی روز جب وہ اور ان کے اہل خانہ کہیں گئے ہوئے تھے، بجلی والے ان کے گھرکی بجلی کاٹ گئے۔

جب بجلی کے محکمے کے سروسز سینٹرگئے تو معلوم ہوا کہ چونکہ آج ہفتہ ہے، لہذا سروس سینٹر تو دوپہر بارہ بجے بند ہوگیا اب پیر کو صبح کھلے گا ، وہاں موجود سکیورٹی گارڈ نے کہا کہ آپ نے بل جمع نہیں کرایا، اس لیے آپ کی بجلی کاٹ دی گئی ہے، اب آپ بل جمع کرا کے پیر کو اس کی فوٹو کاپی جمع کرائیں پھر آپ کی بجلی بحال ہوگی۔ ہمارے یہ دوست شکوہ کرتے ہیں کہ جب لیٹ سرچارج لگ گئے تو پھر چوبیس گھنٹے ہی میں بجلی کیوں کاٹ دی گئی؟ آخر لیٹ سرچارج اس بات ہی کا تو ہوتا ہے کہ آپ بل تاریخ گزرنے کے بعد ادا کر رہے ہیں۔ نیز جب بجلی فوری کاٹ دی تو پھر بل جمع کرانے پر فوری طور پر بجلی بحال بھی کردینی چاہیے اس کے لیے دفتر بند کیوں؟ دو دن تک گھرکی بجلی بند کیوں رہے؟ یہ کیسا اصول ہے؟ اب انصاف کے لیے کہاں جائیں؟

یہ ایک واقعہ ہی نہیں،کیپٹل جسٹس یہاں ناپید ہے۔ ہمارے ایک ساتھی نے ٹیکس ریٹرن جمع کرایا تو ایف بی آرکی جانب سے جو بیلنس سامنے آیا، اس کے مطابق ان کا ٹیکس زیادہ کٹ گیا تھا، لہذا چالیس ہزار سے زائد ایف بی آر کی جانب ان کی رقم نکلتی تھی۔ یہ ساتھی بہت خوش ہوئے اور اپنے وکیل سے کہنے لگے کہ اس رقم کی واپسی کے لیے کلیم پروسس کردیں، وکیل نے کہا کہ کیوں مسائل اپنے سر لیتے ہو، اگر آپ سے مزید ثبوت اور تفصیلات مانگ لی گئیں تو مسئلہ نہ ہو جائے۔ یوں ہمارے یہ ساتھی اپنی جائز رقم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔

بات یہ ہے کہ عوام کے حقوق کے تحفظ اور انصاف کے لیے یہاں کوئی باقاعدہ پلیٹ فارم نہیں ہے، جس کے باعث سارا بوجھ عوام پر آپڑتا ہے۔ مثلاً حکومت کی جانب سے جب بھی سیلز ٹیکس عائدکیا گیا یا اس میں اضافہ کیا گیا تو اشیاء تیارکرنے والی کمپنیوں نے یہ اضافہ اپنی پروڈکٹ کی قیمت میں کھلے عام لکھ کر خریدار یعنی عوام سے وصول کرلیا۔ اب حکومت کی پالیسیوں میں بجلی،گیس کی قیمتوں میں کیا جانے والا اضافہ بھی بالکل سیلزٹیکس کی طرح عوام سے وصول کیا جا رہا ہے ۔حد تو یہ ہے کہ ریلوے کے وزیر نے بھی جب کرایوں میں اضافے کا اعلان کیا تو یہ کہا کہ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس لیے وہ بھی کرایوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ یوں غورکیا جائے تو اب حکومت کی جانب سے تاجروں پر ٹیکس عائد ہو یا کسی اور پر ، ان سب کی وصولی عوام سے ہی ہوگی۔

اب غورکریں نئی پالیسی کے مطابق ماہانہ پینتس ہزار روپے کمانے والا بھی ٹیکس ادا کرے گا، پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں پر فی نشست عائد ہونے والا ٹیکس، مالک مکان پر عائد ہونے والا ٹیکس، پٹرول، ڈیزل وغیرہ پر عائد ہونے والا ٹیکس اور اس کے نتیجے میں مہنگی ہونے والی اشیاء کی قیمتوں کا بھی بوجھ عوام ہی اٹھائیں گے جب کہ وہ پہلے ہی سیلز ٹیکس ادا کر رہی ہے، یہ کیسا نظام ہے کہ تاجروں اور کاروباری اداروں پر عائد ہونے والے ٹیکسز بھی عوام ادا کریں۔

حد تو یہ ہے کہ کراچی شہر میں ڈاؤ میڈیکل اسپتال نے بھی اپنے تمام لیب ٹیسٹ کی شرح میں اضافہ کردیا ہے، گویا میڈیکل کے معاملات میں بھی عوام کو اضافی بوجھ کا سامنا، یہ کیسا ’’کپیٹل جسٹس‘‘ ہے؟ یہ کیسی مدینے کی ریاست ہے؟ ایک غریب جو خستہ حال سی ایک موٹر سائیکل رکھتا ہے، جب بھی کہیں جاتا ہے، اس سے بیس روپے پارکنگ فیس لی جاتی ہے وہ بھی فٹ پاتھ اور سڑک پر قائم پارکنگ کے نام پر،کوئی پوچھنے والا نہیں کہ جناب فٹ پاتھ تو پیدل چلنے والے عوام کا حق ہوتا ہے مگر اس پرکارپارکنگ قائم کرکے الٹا ان کی جیب سے رقم نکالی جا رہی ہے۔کیا کسی جدید ریاست میں کسی فٹ پاتھ پرکار پارکنگ کسی نے دیکھی ہے؟

جدید ریاستیں تو اپنے عوام کو نہ صرف ’’کپیٹل جسٹس‘‘ فراہم کرتی ہیں بلکہ تمام بنیادی سہولیات عوام کو پہنچاتی ہیں خاص کر صحت ، تعلیم اور رہائش کی سہولیات۔ یہاں عوام کوکوئی سہولت نہیں جو جس کو جتنا چاہے لوٹ لے، کھلی چھٹی ہے، اسٹیٹ ایجنٹ کرائے پر مکان دلوانے پرکرائے دار سے ایک مہینے کا کرایہ وصول کرتا ہے جو عموماً بیس سے تیس ہزار ہوتا ہے۔ کوئی ہاتھ روکنے والا نہیں، اسی طرح ایک دل کے مریض کے آپریشن پر آٹھ سے دس لاکھ روپے وصول کیے جاتے ہیں جب کہ اس پر خرچہ دولاکھ بھی نہیں آتا۔کل ہی کی خبر ہے کہ ایک بچہ کھلے مین ہول میں گر کر ہلاک ہو گیا، اس کا ذمے دار کون؟ اس کے والدین کو کون انصاف دلائے گا؟ ادارے کی نااہلی پرمیئر کراچی نے بھی جواز پیش کردیا مگر یہ جواز کیا انصاف ہے؟

سوال یہ ہے کہ عوام کے ساتھ یہ نا انصافی کب تک ہوتی رہے گی؟ کیا حکمرانوں کا کام صرف اور صرف عوام ہی پر بوجھ ڈال کر ٹیکس اکٹھے کرنا ہے یا عوام کو اس ظالمانہ نظام سے بچانا اور انھیں ’’کیپٹل جسٹس‘‘ فراہم کرنا بھی ہے۔آخر حکمران کب تک عوام کے صبرکا امتحان لیں گے؟

The post کیپٹل جسٹس اور مہنگائی کا بوجھ appeared first on ایکسپریس اردو.

ٹیکس کا نظام اور عوام

$
0
0

بائیس کروڑ عوام میں انکم ٹیکس دینے والے صرف بارہ لاکھ ہیں،اس میں بھی پانچ لاکھ سرکاری ملازم ہیں، اس ملک کوگزشتہ دس سالوں میں بیرونی قرضوں سے چلایا گیا، دس سال میں چوبیس ہزار ارب کا قرضہ اس ملک میں لیا گیا اس میں سے ملک میں کتنا خرچ ہوا یہ کہیں نظر نہیں آتا، نہ کوئی بڑا ڈیم بنا اور نہ ہی کوئلے سے کوئی پلانٹ لگایا گیا۔

البتہ 2013سے 2018تک بجلی کے پلانٹ میں اضافہ ضرور ہوا، مگر اس کے نظام تقسیم میں بہت نقائص تھے ، بجلی کی چوری بہت زیادہ تھی، اس پر توجہ نہ دی گئی، جنرل پرویز مشرف دور اقتدار کے پہلے تین برس میں پارلیمنٹ معطل تھی اور اس کی وجہ سے خزانے پر بوجھ کم ہوا اور سرکاری آمدنی میں اضافہ ہو لیکن پھر امریکا میں نائن الیون کا واقعہ ہوا، اس زمانے میں پاکستان کو بہت امداد ملی ، جنرل پرویز مشرف جن کی حکومت کا دور قدرے بہتر تھا ، انھوں نے کراچی جیسے شہر میں بجلی کی پیداوار میں اس رسد کے مطابق اضافہ نہیں کیا نہ ہی کوئی پاور پلانٹ لگایا اس طرح ملک میں انرجی بحران پیدا ہوتا چلا گیا اور مقامی صنعتکار اپنی صنعتیں بند کرنے پر مجبور ہوگئے۔

بے روزگاری بڑھی جو آج تک بڑھتی جا رہی ہے، ملکی ضروریات مقامی صنعتکاری کے بجائے بیرونی ممالک خاص طور پر چائنا سے پوری کی جانے لگی اور نتیجہ یہ نکلا کہ درآمدات بڑھ گئیں اور برآمدات کم ہوتی چلی گئی۔

پاکستان گزشتہ دس برس سے ٹیکس کے بجائے قرض پر چلایا جا رہا ہے اور ملک کی قومی آمدنی اور بیرونی قرضہ سب ملا کر آمدنی کا 65 فیصد قرضہ کے سود میں جانے لگا، کسی حکومت نے پاکستان میں انکم ٹیکس کے نیٹ ورک میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ کم سے کم 2کروڑ لوگوں سے انکم ٹیکس لیا جاتا توآج ملک ایشیا میں معاشی طور پر مستحکم اور سب سے مضبوط ہوتا۔

اب جو حکومت آئی ہے اس نے انکم ٹیکس کا آغازکیا ہے مگر یہ آغاز اتنا بے ہنگم اور خوفناک طریقے سے کیا ہے کہ ملک کا ہر طبقہ خوفزدہ ہے، چاہے صنعتکار ہوں یا تاجر، حتیٰ کہ ایک چھوٹی سی دکان چلانے والا بھی پریشان ہے خاص طور پر فائلر اور نان فائلرکے نظام نے لوگوں کو بے چین کردیا ہے۔ ایف بی آر نے لوگوں کو خوفزدہ کردیا ہے، خاص طور پر یہ سوچے سمجھے بغیرکہ بائیس کروڑ عوام کسی نہ کسی شکل میں ٹیکس دیتے آ رہے ہیں، جس میں بجلی ،گیس ، موبائل فون، پٹرول، ڈیزل، مٹی کا تیل ، سی این جی ، سفری ٹکٹس، بینک میں ود ہولڈنگ ٹیکس ،کتابوں پر، ٹوتھ پیسٹ، صابن، ہوٹل کے کھانوں پر،گاڑیوں کے ٹیکس، ہوٹل میںقیام وطعام کا ٹیکس، یہ ٹیکس تو سب ہی ادا کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ سیلز ٹیکس اتنا ٹیکس دینے والوں پر مزید انکم ٹیکس کا بوجھ ڈالنا سراسر ظلم ہے، اس طرح ملک ترقی نہیں کر ے گا۔ اب حال یہ ہے جو جائیداد کرائے پر دی جاتی ہے، اس پر بھی ٹیکس وصولی شامل ہو رہی ہے، حالانکہ اس میں کم سے کم یہ خیال کرنا تھا بعض خاندان جو ملک میں تیس فیصد بنتے ہیں، ان کے گھرکے اخراجات اس ہی کرائے سے پورے ہوتے ہیں، جو انھوں نے کرائے پر دی ہوتی ہے۔ اس میں اس بات کو شامل کیا جائے کہ کرایہ پر دی گئی جائیداد میں اگر ایک سے زیادہ ہے تو ایک پر ٹیکس لگادیں،اس ہی طرح جس گھر میں 1300سی سی تک ایک سے زیادہ گاڑیاں ہیںتو ان پر ٹیکس لگائیں اور خاص طور پر یہ نظام لایا جائے کہ جو مکان 120گز سے بڑا ہے اس پر بجلی، پانی،گیس ، ٹیلی فون کا ٹیکس زیادہ لیا جائے اور وہ بھی رقبہ کی نوعیت پر۔

اس وقت حال یہ ہے کہ تمام یوٹیلیٹی ٹیکس کا تناسب سارے رقبہ پر ایک جیسا ہے جب کہ یہ ٹیکس 250گز سے 500گز اور 500گز سے 1000گز اور 1000گز سے 5000گزکے پلاٹ پر بنے ہوئے مکان پر ہو، اگر دو منزلہ ہے تو ڈبل ٹیکس ہو، اگر ایسے لوگوں کا چناؤ ہو جن کے مکانات 250سے لے کر 5000گز تک ہیں تو صرف کراچی شہر میں اربوں روپے مل سکتے ہیں مگر ٹیکس کی مقدار آٹے میں نمک کے برابر ہو تو پھر ہر کوئی خوشی سے ادا کرے گا اور وہ عوام جو 120گزکے مکانات یا 500 مربع فٹ کے فلیٹ میں رہتاہے۔

اس کے لییے تمام یوٹیلیٹی بلز میں ٹیکس کی 20فیصد کمی کی جائے، اس کے علاوہ جتنی دکانیں کم سے کم 20×20مربع فٹ کی ہیں ۔ان پر معمولی سا ٹیکس لگائیں جو ماہانہ 1500روپے سے زیادہ نہ ہوا اس طرح دکان کا جتنا بڑا سائز اتنا ہی ٹیکس بھی لگایا جائے۔اس وقت ایف بی آر کا خوف عوام میں بہت زیادہ ہے، اس لیے اس پر توجہ دی جائے اور سب سے پہلے ایسے دس لاکھ لوگ تلاش کریں جن کی ماہانہ آمدنی 50 لاکھ ہے، پھر دس لاکھ وہ تلاش کریں جن کی ماہانہ آمدنی چالیس لاکھ ہے اور ماہانہ تیس لاکھ آمدنی والے اور اس ہی طرح کم کرتے کرتے دس لاکھ ماہانہ آمدنی والے لوگوں کو تلاش کیا جائے۔

اس طرح کم از کم ایک کروڑ لوگ ایسے مل جائیں گے جن کی ماہانہ آمدنی 50لاکھ سے 5لاکھ ماہانہ ہے ان کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے اور انھیں پاکستان کا وی آئی پی شہر ی قرار دیا جائے انھیں ہوٹلوں ، ایئر لائنز ، ریلوے اور تمام ایسے اداروں میں جہاں عوام کا واسطہ ہے مثلا شناختی کارڈ کا دفتر یا پاسپورٹ کا دفتر ، پراپرٹی ٹیکس کے دفتر، پولیس کے دفتر ان کا وی آئی پی استقبال ہو، اس طرح انھیں بھی عزت ملے گی اور ملک کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔

پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں جو اربن کہلاتے ہیں خوبصورت پارک ،کھیل کے میدان، تفریح گاہیں بنائی جائیں جہاں مناسب قیمت کا ٹکٹ ہو، اس ٹکٹ سے جوآٓمدنی ہو وہ اسی پارک یا کھیل کے میدان تفریح گاہوں پر خرچ ہو اور اس میں دس فیصد حکومت وصول کرے، یہ ٹیکس صوبائی حکومت کا حق ہو اور اس کے ساتھ یہ ترغیب دیں کہ تمام صنعتکارکاروباری مراکز اپنا بجلی کا نظام خود وضع کریں چاہے وہ جنریٹر ہو یا سولر سسٹم اس کے لیے حکومت بغیرکسی ٹیکس کے جنریٹر اور سولر سسٹم کو درآمد کرنے کی اجازت دے اور اس نئے پاکستان میں سب سے پہلے صوبائی دارالخلافہ میں انفراسٹریکچر کو تیزکیا جائے اور ٹرانسپورٹ ، بجلی،گیس کی قلت دورکی جائے ، بلدیاتی نظام میں زیادہ سے زیادہ اختیار دیا جائے۔

اس نئے پاکستان میں طلباء طالبات کا خاص خیال رکھا جائے ، تمام نجی اسکولوں میں فیس زیادہ سے زیادہ دس ہزار ماہانہ ہو وہ بھی اسکول کے معیارکو دیکھ کرکی جائے ، فیس میں اضافہ پانچ فی صد سالانہ کیا جائے گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیوں میں صرف ٹیوشن فیس لی جائے، راقم الحروف کو قارئین کے فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔

The post ٹیکس کا نظام اور عوام appeared first on ایکسپریس اردو.

ٹیکس چوروں کے سامنے سرنڈر کیوں؟

$
0
0

کیا عمران خان کی حکومت ٹیکس کا ہد ف حاصل کر سکے گی؟ کیا ٹیکس اصلاحات ممکن ہیں؟ کیا شبر زیدی کامیاب ہو جائیں گے؟عمران خان کی حکومت اپنے پہلے سال میں ٹیکس کے اہداف حاصل نہیں کر سکی۔ وجہ کچھ بھی ہو لیکن عمران خان کی حکومت کی پہلے سال میں ٹیکس محصولات کو اکٹھا کرنے کے حوالے سے کارکردگی نہا یت ناقص رہی ہے۔

اسی ناقص کارکردگی نے عمران خان کو اپنی معاشی ٹیم تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس بری کارکردگی کی وجہ سے ہی آج عمران خان سیاسی طور پر بہت کمزور ہو گئے ہیں۔ اپوزیشن کو نئی زندگی مل گئی ہے۔ احتساب کا عمل کمزور ہو گیا ہے۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگلے سال کے لیے عمران خان کی معاشی ٹیم نے اپنے لیے بہت مشکل ٹیکس ٹارگٹ سیٹ کیے ہیں۔ بلکہ سب جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے قرضے کی شرائط میں ٹیکس ٹارگٹس کا حصول بھی شامل ہے۔ نئی ٹیکس اصلاحات کے خلاف ملک میں ایک شور اٹھنا شروع ہو گیاہے۔ فیکٹریوں میں ہڑتالیں شروع ہو گئی ہیں۔ تاجروں نے ملک بھر میں ہڑتال کی کال دے دی ہے۔  دوسرے لفظوں میں نئے ٹیکس کلچر کے خلاف ہڑتالیں شروع ہو گئی ہیں۔ یہی اس حکومت کا سب سے بڑا امتحان ہے۔

پاکستان میں تنخو اہ دار طبقہ ٹیکس دیتا ہے۔ بڑے صنعت کار اور بڑی کمپنیاں کم یا زیادہ وہی ٹیکس دیتی ہیں۔ لیکن پاکستان کا تاجر طبقہ پوری طرح پاکستان کے ٹیکس نیٹ میں آنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ نواز شریف اس ملک میں تاجر طبقہ کے لیڈر تھے۔ وہ خود کو کاروباری طبقہ کا لیڈر کہتے تھے۔ تاجر ان کے ووٹ بینک کی اساس تھے۔ اس لیے انھوں نے ہمیشہ تاجروں کا تحفظ کیا۔ انھیں ٹیکس کلچر میں نہیں آنے دیا۔ ان کی بات مانی۔ ان کو خوش رکھا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا ملک کو نقصان ہوا۔ جب تاجر وں نے ٹیکس نیٹ میں آنے سے انکار کیا تو براہ راست کے بجائے بالواسطہ ٹیکس لگائے گئے۔ جس کی وجہ سے ملک کا معاشی نظام خراب ہوا۔

آج بھی پاکستان کا تاجر طبقہ ٹیکس اصلاحات کے لیے تیار نہیں ہے۔ ماضی میں نواز شریف کی حکومت میں تاجروں کو ٹیکس کلچر میں لانے کے لیے بہت سی مراعات دی گئیں۔ ایمنسٹی دی گئی، بہت سی اصلاحات متعارف کرائی گئیں۔ لیکن سب ناکام ہو گئیں۔ اس ملک کا چھوٹا بڑا تاجر کسی بھی صورت ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اپنی آمدن اور اخراجات کا حساب دینے کے لیے تیار نہیں۔ فائلر اور نان فائلر کی کہانی بھی اس کو ٹیکس کلچر میں لانے میں ناکام رہی ہے۔ وہ ایف بی آر کو اپنی ٹیکس ریٹرن دینے کے  لیے تیار نہیں ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا، میں اب بھی کہتا ہوں کہ یہ آسان کام نہیں ۔

آپ نواز شریف دور کی بات کرتے ہیں۔ جنرل مشرف نے اپنے مارشل لا کے ابتدائی دور میں تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی۔ اس دور میں بھی مارکیٹوں میں ٹیکس گوشوارے تقسیم کیے گئے۔لیکن تب بھی تاجروں نے ہڑتالیں شروع کر دیں۔ جنرل مشرف نے ان کی ہڑتالوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ نواز شریف نے تو کبھی ان کے سامنے سر اٹھایا ہی نہیں۔ آج یہ سوال اہم ہو گیا کہ کیا عمران خان اور ان کی نئی معاشی ٹیم بھی تاجروں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے جا رہی ہے۔

مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ ایک طرف تو حکومت برملا اعلان کر رہی ہے کہ اب ایمنسٹی اسکیم ختم ہو گئی ہے، اب کسی کو کوئی معافی نہیں دی جائے گی تو دوسری طرف گورنرہاؤسز میں تاجروں کو بلا کر یقین دہانی کرائی جا رہی ہے کہ وہ ہڑتال کی کال واپس لے لیں۔ ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں کیا جائے گا۔ ان کے تحفظات دور کیے جائیں گے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن ملک کے اصل چور یہ تاجر ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن پاکستان کے معاشی استحصال کی بڑی ذمے داری ان تاجروں پر عائد ہوتی ہے۔ یہ نہ صرف خود ٹیکس چور ہیں بلکہ انھوں نے پورے ملک کو ٹیکس چور بنا ہوا ہے۔

ان کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں ہیں۔ بڑ ے بڑے گھر ہیں۔ بچے مہنگے اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ سال میں تین تین عمرے کرتے ہیں۔ لیکن ٹیکس دینے کو تیار نہیں ہیں۔ نہ انکم ٹیکس دیتے ہیں۔ نہ ود ہولڈنگ ٹیکس دیتے ہیں۔ اگر آج  حکومت نے ٹیکس چوروں کے سامنے سرنڈر کر دیا تو عمران خان کی ناکامی نوشتہ دیوار ہے۔ ایک طرف تو عمران خان کہہ رہے ہیں کہ انھیں موت سے بھی ڈر نہیں لگتا دوسری طرف ان تاجروں کی ہڑتال سے جان نکلی جا رہی ہے۔ ان سے ہڑتال واپس لینے کی درخواستیں کی جا رہی ہیں۔ کیوں؟

کیوں یہ اعلان نہیں کیا جا رہا ہے کہ ہرمتمول شخص کا حساب ہوگا۔ کیا حساب صرف سیاسی مخالفین کا ہی کرنا ہے ۔ جہاں سے ملنا بھی کچھ نہیں۔ اس کی جگہ اگر پاکستان کے  تاجروں کا حساب شروع کر دیا جائے تو ملک کی تقدیر سنور جائے گی۔ آپ سنیں تو سہی یہ تاجر کیا مانگ رہے ہیں۔ ان کا پہلا مطالبہ ہے کہ بارہ لاکھ روپے کی آمدن تک ٹیکس استثنا بحال کیا جائے۔ کیوں جب تنخواہ دار طبقہ اس آمدن پر ٹیکس دے رہا ہے تو تاجر کیوں نہ دیں۔ یہ کہاں کے لاڈلے ہیں۔ یہ کہتے ہیں ڈسٹری بیوٹر/ ہول سیلرز/ڈیلرز/ریٹیلرز کے غیر رجسٹرڈ افراد کو سیلز ٹیکس پر شناختی کارڈ نمبر درج کرنے شرط ختم کی جائے۔ کتنی معصوم شرط ہے تاکہ چور بازاری جاری رہے۔ یہ شناختی کارڈ نمبر لکھنے میں کیا قباحت ہے۔ جو سیلز ٹیکس دے رہا ہے وہ اپنی شناخت کیوں چھپانا چاہتا ہے۔

کمرشل امپورٹرز پر تمام مصنوعات کی ریٹ لسٹ آویزاں کرنے کی شرط ختم کی جائے۔ آپ بتائیں اس مطالبے کی کوئی منطق ہے۔ ہول سیلرز اور ریٹیلرز کو ود ہولڈنگ ایجنٹ نہ بنایا جائے۔ بھائی آپ جس سے مال خریدیں گے وہ آپ کا ود ہولڈنگ ٹیکس کاٹے گا۔ اور آپ جس کو مال بیچیں گے اس سے ود ہولڈنگ ٹیکس کاٹنے کے آپ پابند ہوں گے۔ یہ طریقہ کار پوری دنیا میں رائج ہے۔ لیکن آپ چاہتے ہیں کہ نہ تو آپ سے پوچھا جائے کہ کس سے کتنے کا کتنا مال خریدا اور نہ ہی یہ پوچھا جائے کہ کس کو کتنے کا کتنا مال بیچا۔ جب باقی سب سے پوچھا جاتا ہے تو آپ کے ساتھ یہ لاڈلے والا سلوک کیوں۔ تاجر یہ بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ اگر ان سے ٹیکس گوشوارا بھرنے میں غلطی ہو جائے تو ان کے خلاف فوجداری قانون کے تحت کارروائی نہ کی جائے۔ مطلب اگر کوئی ٹیکس چوری کرتا پکڑا جائے تو اس کے خلاف فوجداری قانون کے تحت کارروائی نہ کی جائے۔ بس در گرز کر دیا جائے۔ جرمانے بھی نہ کیے جائیں۔

حکومت تاجروں کے ساتھ گورنر ہاؤسز میں میٹنگ کر رہی ہے۔ ان کو یقین دہانی کرائی جا رہی ہے کہ ان کے خلاف کو ئی ایکشن نہیں لیا جائے گا۔ جب ریاست کے ادارے آپ کے ساتھ ہیں۔ تو ڈر کس بات کا۔ کیا  صرف سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانا ہے ۔ صرف سیاسی مخالفین کے ہی ٹیکس گوشوارے چیک کیے جائیں گے۔ صرف ان کی بے نامی جائیدادیں پکڑی جائیں گی۔ صرف ان پر ہی کیس بنائے جائیں گے اور ان تاجروں سے ٹیکس کے حوالے سے مذاکرات کیے جائیں۔ میں تو کہوں گا کہ عمران خان کو ان تاجروں کو ہر گز نہیں ملنا چاہیے جیسے وہ اپوزیشن کو نہیں ملنا چاہتے۔ اگر اس ملک کا تاجر ایمانداری سے ٹیکس دینا شروع کر دے گا تو ملک کے معاشی مسائل خود بخو د حل ہو جائیں گے۔ لیکن اس کے لیے اس حکومت کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا جو نظر نہیں آرہا۔

The post ٹیکس چوروں کے سامنے سرنڈر کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

وزیر اعظم عمران خان کا دورہ امریکا

$
0
0

پاکستان کے دفتر خارجہ نے 5 جولائی بروز جمعرات کو ان خبروں کی باضابطہ تصدیق کردی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے لیے امریکا کے دورے پر جا رہے ہیں۔ دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل کے مطابق یہ ملاقات 22 جولائی کو واشنگٹن میں ہوگی۔ دونوں سربراہوں کی میٹنگ کا ایجنڈا سفارتی ذرایع کے زیر اہتمام تیاری کے مراحل سے گزر رہا ہے۔

خیال رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی امریکا یاترا کی خبریں بہت دنوں سے میڈیا میں گردش کر رہی تھیں لیکن سرکاری ذرایع نے ان خبروں پر خاموشی اختیار کی ہوئی تھی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ امریکا یاترا کو کسی بھی سربراہ حکومت کے لیے پذیرائی کی سند کا درجہ حاصل ہے، مگر یہ یاترا امریکی صدر کی خواہش پر خصوصی بلاوے پر ہو تو پھر سونے پر سہاگہ والی بات ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے مجوزہ دورہ امریکا کے حوالے سے بلاتکلف یہی کہا جاسکتا ہے کہ:

گزارش کرکے بلوایا گیا ہوں

میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں

وزیر اعظم عمران خان کی یہ بہت بڑی خوش قسمتی ہے کہ اپنے پیش روؤں کی طرح انھیں امریکا کے دورے کے لیے کوئی تگ و دو نہیں کرنی پڑی اور یہ دورہ انھیں بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا والی کہاوت کے مصداق بیٹھے بیٹھے میسر آگیا ہے۔ اب اگر عمران خان کے حاسدوں کے پیٹ میں اس حوالے سے مروڑ اٹھنے لگیں تو اس کا کوئی علاج ممکن نہیں۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ ’’بن مانگے موتی ملیں‘ مانگے ملے نہ بھیک۔‘‘ ہما عمران خان کے سر پر اس وقت ہی بیٹھ گیا تھا جب وہ 1992 میں کرکٹ ورلڈ کپ کے فاتح قرار پائے تھے اور جس کے صلے میں ’’کپتان‘‘ کا لقب ان کے نام کا جزو لاینفک بن گیا۔

وزیر اعظم عمران خان پر صدر ٹرمپ کی یہ نظر کرم محض حسن اتفاق نہیں بلکہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کا تقاضا ہے۔ یہ امریکی صدر کا دعوت نامہ نہیں بلکہ ’’ٹرمپ کارڈ‘‘ ہے جس کے حوالے سے علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آرہا ہے:

بے چارہ پیادہ تو ہے اک مہرہ ناچیز

فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ

انکل سام کی یہ برسوں پرانی روش ہے کہ جب بھی انھیں کوئی پریشانی لاحق ہوتی ہے انھیں پاکستان کی دوستی یاد آجاتی ہے اور پاکستان کے حوالے سے صرف ان کا لب و لہجہ ہی نہیں بلکہ رویہ اور سلوک بھی یکسر تبدیل ہو جاتا ہے۔ گرگٹ نے اپنا رنگ تبدیل کرنا انکل سام ہی سے سیکھا ہے۔ امریکا مطلب کا یار ہے جس کے بارے میں بلا خوف تردید دھڑلے کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ:

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

طوطا چشمی امریکا کی خاصیت اور دیرینہ روایت رہی ہے۔ مطلب کے وقت دوستی جتانا اور اس کے بعد آنکھیں پھیر لینا امریکا کی پالیسی کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ اس حوالے سے پاک امریکا تعلقات کی تاریخ واقعات اور شواہد سے بھری پڑی ہے۔ امریکا کو جب بھی پاکستان کی ضرورت پیش آئی ہے اس نے فوراً دوستی کی پینگ بڑھائی ہے اور  پھر جب اس کا مطلب نکل گیا تو نوبت ’’رات گئی بات گئی‘‘ تک جا پہنچی۔ بقول قتیل شفائی:

لوگ اقرار وفا کرکے بھلا دیتے ہیں

یہ نہیں کوئی نئی بات چلو سو جائیں

وزیر اعظم عمران خان کا یہ دورہ امریکا اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اس ملک کا ان کا یہ پہلا دورہ ہے۔ جولائی کا مہینہ تاریخی اعتبار سے امریکا کے لیے بھی خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اسی ماہ کی 4 تاریخ کو 1776 میں امریکی ریاستوں نے جارج واشنگٹن کی ولولہ انگیز قیادت میں برطانیہ کے تسلط سے آزادی حاصل کی تھی، مجسمہ آزادی جس کی علامت ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا جو یو ایس اے کے نام سے مشہور ہے دنیا میں اپنے طرز کی پہلی جمہوری ریاست تسلیم کی جاتی ہے جہاں صدارتی نظام کے تحت Checks and Balances کا اہتمام کیا گیا ہے۔

پاک امریکا تعلقات کی تاریخ اور پس منظر برسوں پرانا ہے۔ یہ تعلقات وقتاً فوقتاً نشیب و فراز سے گزرتے رہے ہیں۔ ان تعلقات کی ابتدا اس وقت ہوئی جب 14 اگست 1947 کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے وطن عزیز کی آزادی کے تاریخی اعلان کے موقعے پر اس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین اور سیکریٹری آف اسٹیٹ کے تہنیتی پیغامات دستور ساز اسمبلی میں پڑھ کر سنائے تھے۔

امریکی عوام سے ان کے سرکاری ریڈیو پر نشری خطاب امریکی جریدے کو دیے گئے تفصیلی انٹرویو اور یو ایس اے کے پاکستان میں متعین پہلے سفیر کی اسناد سفارت قبول کرتے ہوئے بابائے قوم نے جن تاثرات کا اظہار کیا تھا وہ امریکا کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے قیام کی جانب اہم اقدامات تصور کیے جاتے ہیں۔ پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرنے والا ایک بالکل نیا ملک تھا جسے اس وقت عالمی سطح پر تعارف کی ضرورت تھی۔

اسی دوران امریکی صدر ٹرومین کی جانب سے 1950 میں پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو امریکا کے سرکاری دورے کی دعوت موصول ہوئی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے نام صدر ہیری ٹرومین کے مبارک باد کے پیغام میں بھی وزیر اعظم لیاقت علی خان کا ذکر خاص طور پر موجود تھا۔ چنانچہ مئی 1950 میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کی حیثیت سے لیاقت علی خان نے امریکا کا سرکاری دورہ کیا۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ اس سے قبل ہندوستان کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو اکتوبر 1949 میں امریکا کا طویل سرکاری دورہ کرچکے تھے مگر لیاقت علی خان کا دورہ امریکا اس اعتبار سے تاریخی اہمیت کا حامل تھا کہ ان کے لیے امریکی صدر ہیری ٹرومین نے اپنا خصوصی طیارہ پاکستان بھیجا تھا۔

یہی نہیں بلکہ امریکی دارالحکومت کے ہوائی اڈے پر صدر ٹرومین اور ان کی اہلیہ کے علاوہ پوری کابینہ نے فوجی اعزاز کے ساتھ پاکستان کے وزیر اعظم اور ان کی شریک حیات بیگم رعنا لیاقت علی کو خوش آمدید کہا تھا۔ یہ پروٹوکول اس لحاظ سے بھی غیر معمولی تھا کہ عموماً سربراہ مملکت اپنے ہم منصب کا خیرمقدم کرتا ہے جب کہ لیاقت علی خان سربراہ مملکت کے بجائے سربراہ حکومت تھے۔ ایک اور قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اپنے پورے دورے میں اپنی تمام تقاریر میں ’’ٹریڈ ناٹ ایڈ‘‘ یعنی ’’امداد نہیں‘ تجارت‘‘ پر زور دیا تھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنے اس دورے میں امریکی قیادت کے بعض مطالبات کو من و عن تسلیم کرنے سے بھی واضح اجتناب کیا تھا۔

لیاقت علی خان کی حکومت امریکا اور مغربی دنیا کے زبردست دباؤ کے باوجود عوامی جمہوریہ چین کی نئی ریاست کو پہلے ہی تسلیم کرچکی تھی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اپنے اس دورے میں امریکی قیادت پر عالم اسلام کے مصائب خصوصاً کشمیر اور فلسطین کے معاملات میں امریکا پر موثر کردار ادا کرنے پر زور دیا تھا۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے PL480 کے تحت امریکا سے امداد لینے سے بھی صاف انکار کردیا تھا۔

درحقیقت پاکستان میں امریکا کے اثر و رسوخ کے غلبے کی تاریخ کا آغاز 1963 کے وسط اور 1964 کے اوائل سے ہوتا ہے جب امریکا نے اس وقت کی پاکستانی حکومت کے ساتھ فوجی معاہدے کیے۔ اس حقیقت کا بھی بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ پاکستان قربت میں لیاقت علی خان اور حسین شہید سہروردی کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

1979 میں افغانستان میں سابقہ سوویت یونین کے عمل دخل کو روکنے کے لیے امریکا کو پاکستان کی ضرورت پیش آئی تو ایک بار پھر امریکا پاکستان رپ مہربان ہوگیا اور اب جب کہ امریکا کو افغانستان کی دلدل سے باہر نکلنے کے لیے طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کو کامیاب بنانے کے سلسلے میں پاکستان کی مدد درکار ہے تو ایک مرتبہ پھر پاکستان پر نظر عنایت کی جا رہی ہے جس کے لیے وزیر اعظم عمران خان کو امریکا بلایا جا رہا ہے۔

توقع ہے کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کی پیروی کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان بھی اپنے دورہ امریکا سے پاکستان کے حق میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ پاکستان کے دفاع اور معاشیات کے شعبے میں امریکا کی اعانت خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اس کے علاوہ امریکا کے لیے پاکستان کی برآمدات میں زیادہ سے زیادہ اضافہ بھی موجودہ حالات کا سب سے بڑا تقاضا ہے جس کے لیے اس دورے سے خاطر خواہ فائدہ حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ قوی امید ہے کہ وزیر اعظم عمران خان صدر ٹرمپ کے ساتھ اپنی ملاقات میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو پوری طرح بروئے کار لائیں گے اور پاکستان کے مفادات کا بھرپور تحفظ کریں گے۔

The post وزیر اعظم عمران خان کا دورہ امریکا appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 22426 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>