Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22440 articles
Browse latest View live

پرانی دہلی کے مظلوم مسلمانوں کی نئی منظم مزاحمت

$
0
0

واقعہ تو معمولی سا تھا لیکن اس نے بڑھتے بڑھتے خونی فساد کی شکل اختیار کرلی ۔ دراصل جب دِلوں میں پہلے سے رنجشیں اور غصہ موجود ہو تو چھوٹی سے چنگاری بھی شعلہ بن جاتی ہے ۔ یکم جولائی2019ء کی شام بھی ایسا ہی ہُوا ۔پرانی دہلی کے معروف بازار(چاوڑی)میں ایک مسلمان ، آس محمد، نے اپنا موٹر سائیکل بازار میں واقع ایک گھر کے سامنے کھڑا کیا۔ اس نے ابھی موٹر سائیکل کھڑا کیا ہی تھا کہ گھر کا ایک ہندو رہائشی، سنجیو گپتا، باہر نکلا اورکہا : موٹر سائیکل یہاں سے ہٹا لو، ورنہ اسے آگ لگا دُوں گا۔

آس محمد بھی اکڑ گیااور بولا:’’ ابھی تو نہیں ہٹاؤں گا۔‘‘ سنجیو گپتا نے گھر سے دو چار مزید مسٹنڈے بلا لیے ، آس محمدکو پکڑ کر اندر لے گئے اور اُس کی خوب پٹائی کرکے باہر پھینک دیا۔ آس محمد لہو لہان وہاں سے روانہ ہُوا، اپنے مسلمان محلّے میں گیا اور چند ہی منٹ میں اپنے چند مسلمان دوستوں کو ساتھ لے کر آیا اور متعلقہ مکان کے سامنے آ کر سنجیو گپتا کو باہر آنے کو کہا ۔ اتنے میں مقامی پولیس بھی آگئی ۔ انھوں نے مسلمان نوجوانوں کو ڈرا دھمکا کر وہاں سے ہٹانے کی کوشش کی لیکن پرانی دہلی کے مسلمان نوجوانوں کا مطالبہ تھا کہ تشدد کرنے والوں کو اُن کے حوالے کیا جائے ۔ رات ہو گئی تھی لیکن نہ تو ہندو لڑکے حوالے کیے گئے اور نہ ہی پولیس نے ایف آئی آر کاٹی۔ دوسرے روز چاوڑی بازار اور قاضی حوض کے جملہ مسلمانوں نے احتجاج میں سارا بازار بند کر دیا ۔

کشیدگی پھیلی تو کسی شرارتی گروہ نے قاضی حوض کے پاس ہی دو مندروں میں گھس کر کئی مورتیوں کو مسخ کر دیا۔ اس سے ماحول مزید تناؤ کی شکل اختیار کر گیا۔ پولیس نے مگرآس محمد کو لہو لہان کرنے والے ہندوؤں کو گرفتار کیا نہ مقدمہ درج کیا۔ چوتھے روز ہندوؤں نے مقامی احتجاجی مسلمانوں پر لاٹھیوں اور بھالوں سے حملہ کردیا تو مقامی مسلمان نوجوانوں نے بھی ڈٹ کو مقابلہ کیا اور حملہ آور ہندوؤں کو بھگا دیا۔ نریندر مودی کے بھارت میں بھارتی مسلمانوں پر تشدد پسند ہندو جس طرح آئے روز ظلم کررہے ہیں ، اس کا یہی نتیجہ نکلنا تھا ۔ کہا جا سکتا ہے کہ چاوڑی بازار اور حوض ِ قاضی میں مسلمانوں نے جس طرح ہندو جتھوں کو بھگایا ہے، یہ پرانی دہلی کے مسلمانوں کی پہلی منظم مزاحمت ہے ۔

اس مزاحمت کی بازگشت بھارتی وزیر داخلہ، امیت شاہ، تک پہنچی تو وہ بھی گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے مصداق چاوڑی بازار چلے آئے اور فریقین میں صلح کروانے کی کوشش کی لیکن ہندوؤں کے خلاف ایف آئی آر پھر بھی درج نہ ہونے دی۔پرانی دہلی کے مسلمانوں کے دل اس واقعہ پر سخت رنجور ہیں ۔ اُلٹا متشدد اور بنیاد پرست ہندو جماعت ’’وشو ہندو پریشد ‘‘ کے مقامی لیڈر ( آلوک کمار) پرانی دہلی کے پولیس کمشنر، آمولیا پٹنائیک، کو ساتھ لے آئے اور مندر پر حملہ کرنے کے الزام میں کئی مقامی مسلمانوں کو حراست میں لینے پر زور دیتے رہے ۔

ایسے میں مذکورہ بازار کی قدیم اور معروف مسجد ( فتح پوری مسجد) کے مشہور امام و خطیب ، مفتی مکرم احمد، تشریف لائے۔ اُن کے ساتھ کئی مسلمان بزرگ بھی تھے ۔ مفتی صاحب نے پولیس کمشنر سے کہا:’’ دیکھیے صاحب، آپ جانبداری سے کام لے کر ہم پر مزید ظلم نہ کیجیے ۔ اسے دھیرج سے سلجھانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ کئی سال پہلے ایل کے ایڈوانی جی نے ( بابری مسجد کے خلاف نکالے جانے والے) رَتھ یاترا کے موقع پر بھی ہماری فتح پوری مسجد پر حملہ کروایا تھا لیکن ہم نے صبر سے کام لیا تھا۔اب ہمارے( مسلم) نوجوانوں پرتشدد ڈھانے کے باوجود ناجائز گرفتار کیا جائے گا تو ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا۔‘‘ مفتی مکرم احمد صاحب کا یہ مستحکم لہجہ کام دکھا گیا اور پولیس کمشنر وہاں سے چلا گیا۔ لیکن دوسرے روز سینٹرل ریزرو پولیس فورس (CRPF)نے پرانی دہلی کے کئی مسلمان محلّوں ( مثلاً: دریا گنج، پہاڑ گنج، لال کنواں، جامعہ مسجد اور چاندنی چوک) کو اپنے گھیرے میں لیے رکھا۔ پرانی دہلی کی ہندو انتظامیہ کو غصہ آرہا ہے کہ ان مسلمانوں کی یہ جرأت کہ ہندوؤں کے خلاف مزاحمت کرنے کی جسارت کریں!!

نریندر مودی کی حکومت میںصرف پرانی دہلی کے مسلمان ہی بنیاد پرست ہندوؤں کے ظلم کی چکی میں نہیں پِس رہے ہیں ، بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اب تو سارے بھارتی مسلمانوں کا یہ دردِ مشترک بن چکا ہے ۔ یہ مبالغہ نہیں، واقعہ ہے کہ بھارت بھر میں بھارتی مسلمانوں کے لیے کہیں بھی کوئی جائے امان نہیں رہی۔ اب تو یہ حالات بھی پیدا ہو چکے ہیں کہ بھارتی مسلمان افسر متشدد ہندوؤں اور بنیاد پرست ہندو تنظیموں کے ظلم سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنے نام بھی تبدیل کرنے لگے ہیں۔ مثال کے طور پر 8جولائی 2019ء کو خبر آئی ہے کہ بھارتی ریاست، مدھیہ پردیش، کے ایک مسلمان بیوروکریٹ (نیاز خان)نے اپنی حکومت کو درخواست دی ہے کہ اُن کا نام تبدیل کر دیا جائے۔ نیاز خان نے اپنی درخواست میں لکھا:’’ میری نہ ڈاڑھی ہے اور نہ مَیں مسلمانوں ایسا مخصوص لباس پہنتا ہُوں۔

اگر میرا نام تبدیل کر دیا جائے تو مَیں بآسانی (ہندوؤں) کے تشدد اور نفرت سے بچا رہوں گا۔‘‘ اگر سینئر انڈین مسلمان افسر بھی مجبوراً یہ قدم اُٹھانے پر مجبور ہوگئے ہیں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک عام بھارتی مسلمان کس انداز کی جبریہ زندگی گزار رہا ہوگا۔ ہم پُر امن پاکستان میں شائد اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔

یہ جبر ہی ہے کہ حال ہی میں مغربی بنگال سے ’’ترنمول کانگریس پارٹی‘‘ کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والی لوک سبھا کی رکن ،29سالہ نصرت جہاں، جب اسمبلی میں حلف لینے آئیں تو انھوں نے گلے میں منگل سوتر پہن رکھا تھا اور اپنی مانگ میں سیندور بھر ا تھا ۔ یہ دونوں نشانیاں صرف شادی شدہ ہندو خواتین کا خاصہ ہیں۔مشہور بھارتی دینی درسگاہ ، دارالعلوم دیوبند، کے مفتی اسد قاسمی صاحب نے نصرت جہاں کے اس پہناوے کے خلاف فتویٰ دیا ہے ۔ نصرت جہاں نے جہاں سخت غصے میں مفتی قاسمی کو جواب دیا ہے، وہیں لوک سبھا میں بی جے پی کے تمام ہندو ارکانِ اسمبلی (خاص طور پر سدھوی پراچی) نے نصرت جہاں کا ساتھ دیا ہے ( نصرت جہاں نے رکنِ اسمبلی کا حلف اُٹھانے کے بعد ’’بندے ماترم ‘‘ اور ’’جئے ہند‘‘ کا نعرہ بھی لگایا)ہم محترمہ نصرت جہاں کے اس پہناوے اور عمل سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن ہم شائد اُس سفاک جبر کا صحیح اندازہ لگانے سے قاصر ہیں جس جبر سے نصرت جہاں اور اُن ایسی نجانے کتنی ہی بھارتی مسلمان خواتین کو گزرنا پڑ رہا ہے ۔

ہر دن کے ساتھ انڈین مسلمانوں کے خلاف مختلف النوع دباؤ اور جبر بڑھ رہے ہیں۔ اس ضمن میں کئی مشہور اور مقتدر بھارتی مسلمان بھی رگڑے جا رہے ہیں ۔ مثلاً:ابھی کل ہی بھارتی میڈیا میں سابق بھارتی مسلمان نائب صدر ، حامد انصاری ، کے خلاف طوفان اُٹھا دیا گیا ہے اور82سالہ بزرگ حامد انصاری کو سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ اس عمر میں ان الزامات کا کیا جواب دیں؟ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی (را) کے سابق سینئر افسر ، این کے سُود، نے حامد انصاری پر سنگین تہمت عائد کرتے ہُوئے بیان دیا ہے کہ’’(کئی برس قبل) جب حامد انصاری ایران میں بھارت کے سفیر تھے تو انھوں نے تہران میں متعین ’’را‘‘ کے افسروں کے چہرے بے نقاب کرکے ہم میں سے بہت سے افسروں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دی تھیں۔‘‘ این کے سُود نے مزید کہا ہے: ’’حیرت ہے بھارتی حساس ادارے سے ایسی بے وفائی کرنے والے شخص کو دو بار بھارت کا نائب صدر بنا دیا گیا۔‘‘ اس پُر خطر بیان پر بی جے پی کے مشہور دانشور اور بھارتی سینیٹ( راجیہ سبھا) کے ممبر، سبرامینین سوامی، نے جو مہلک گرہ لگائی ہے ، وہ اپنی جگہ بھارتی مسلمانوں کے خلاف تعصب کا ایک نیا شاہکار ہے ۔ کئی متعصب اور متشدد بھارتی ہندو تنظیمیں حا مد انصاری کا احتساب کرنے اور اُن کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کا مطالبہ بھی کررہی ہیں ۔

The post پرانی دہلی کے مظلوم مسلمانوں کی نئی منظم مزاحمت appeared first on ایکسپریس اردو.


ایران امریکا کشیدگی میں اضافہ

$
0
0

امریکا ایک عرصے سے جن دو ملکوں سے پنگے لے رہا ہے، ان میں ایک شمالی کوریا ہے، دوسرا ایران ہے، دونوں ملکوں سے پنگوں میں امریکا کی داداگیری سب سے بڑا فیکٹر ہے۔ ایران سے تنازعہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کا ہے، اسرائیل امریکا کی ناروا پشت پناہی کی وجہ علاقے کی داداگیری چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور شمالی کوریا کا مسئلہ بھی ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق ہی ہے۔

امریکا کے صدرکی یہ سائیکی ہے کہ وہ فریق مخالف کی جائز بات سننے کے بجائے اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ یہی صورتحال ایران کے ساتھ بھی ہے، ایران کے سر پر اسرائیل کو سوارکیا گیا ہے اور اسرائیل کے مقابلے کے لیے ایران جب ایٹمی ہتھیار تیار کرنا چاہتا ہے تو  ٹرمپ ایران کی اس گستاخی پر سخت ناراض ہوجاتے ہیں اور اپنا غصہ نکال لیتے ہیں۔ شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ امریکا شمالی کوریا کے صدرکم جونگ سے ٹرمپ کی ملاقات کے باوجود دشمنی پر تلا ہوا ہے۔

یاد رہے کہ شمالی کوریا کے صدرکم جونگ سے امریکی صدر ٹرمپ کی ملاقات کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں جو بہتری آئی تھی اور دونوں رہنماؤں کے درمیان جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے مذاکرات کے لیے ایک ٹیم بنانے پر اتفاق ہوا تھا۔ اقوام متحدہ میں شمالی کوریا کے وفد نے کہا کہ امریکا پر پابندیوں کی جنونیت طاری ہے ۔ شمالی کوریا نے کہا ہے کہ امریکا خطے میں پرامن ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔

شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے افسوسناک بات یہ ہے کہ امریکا، فرانس، جرمنی اور برطانیہ کی طرف سے اقوام متحدہ کے تمام ممبران کو جو مشترکہ خط بھیجا گیا ہے اس میں شمالی کوریا پر مزید پابندیاں لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ شمالی کوریا کے وفد نے کہا ہے کہ امریکا پر پابندیاں لگانے کا جنون سوار ہے جو مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

شمالی کوریا کے وفد نے کہا ہے کہ امریکا دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق معاہدے کے بعد بھی دشمنی کے رویے پر تلا ہوا ہے۔ شمالی کوریا کے حوالے سے امریکا کا رویہ زیادہ جارحانہ ہو رہا ہے۔ امریکا نے شمالی کوریا کے ورکرز کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے جو اس کی انتقامی پالیسی کا اظہار ہے۔

وفد نے اقوام متحدہ کے ممبران کو خبردار کیا ہے کہ انھیں امریکا کی جانب سے شمالی کوریا میں امن کی صورتحال کو خراب کرنے کی کوششوں سے محتاط رہنا ہوگا۔ یاد رہے کہ جب دونوں ملکوں کے درمیان پہلے مذاکرات کا آغاز ہوا تو شمالی کوریا کے صدر نے امریکا کی خواہش کے مطابق جوہری ہتھیاروں کو اور جوہری ہتھیار بنانے کے اڈوں کو ختم کردیا تھا۔ امریکی صدر کی یہ سائیکی ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں اور زیر اثر ملکوں کی غیر اصولی حمایت کی کوشش کرتا ہے جس کی وجہ فریقین میں اعتماد کا فقدان پیدا ہوجاتا ہے۔اسی طرح ایران کا معاملہ ہے۔ ایران بھی امریکا کی طرف سے لگائی جانے والی  پابندیوں سے سخت ناخوش اور بے زار ہے۔

صدر ٹرمپ کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ فریق مخالف کو پابندیوں میں جکڑکر رکھیں، یہ کوشش عملاً بلیک میلنگ ثابت ہوتی ہے۔ ایران کے انٹیلی جنس کے وزیرکا کہنا ہے کہ اگر امریکا ایران پر لگائی گئی پابندیاں  اٹھالے تو ایران امریکا سے مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ ایران کے نمایندے کا کہنا ہے کہ کوئی بھی مذاکراتی عمل ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی اجازت کے بعد ہی شروع کیا جاسکتا ہے۔ ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای نے مشروط مذاکرات کی اجازت دے دی ہے۔ ایران کے انٹیلی جنس امریکا کو ایران کی فوجی طاقت کا اندازہ ہوگیا ہے۔

ایک تازہ خبر کے مطابق ایرانی فوج کے سربراہ میجر جنرل عبدالرحیم موسوی نے ملک کی نیم سرکاری ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کسی بھی ملک کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا ، ملکی ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر ہونے والے ایک خطاب میں ایرانی وزیر دفاع نے کہا کہ ایران کے آئل ٹینکر کو تحویل میں رکھنے کا برطانوی اقدام دھمکی آمیز اور غلط تھا۔ ایرانی وزیر دفاع نے یہ بھی کہا کہ ایران کی جانب سے گزشتہ ماہ امریکی ڈرون گرائے جانے سے واشنگٹن کو یہ پیغام دیا گیا تھا کہ ایران اپنی سرحدوں کی حفاظت کرے گا۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ برطانیہ ہمارے پکڑے جانے والے آئل ٹینکر واپس کرے۔ ایران کے جوہری توانائی کے ادارے نے کہا ہے کہ 2015کے جوہری معاہدے کے تحت یورینیم افزودگی جن حدود کی اجازت ہے۔ ایران نے ان سے تجاوز کیا ہے۔ ایران نے کہا ہے کہ اس نے 4.5 فیصد کی افزودگی کی شرح کو عبور کیا ہے۔ جب کہ معاہدے میں دی گئی یہ حد 3.67 کی ہے، اس شرح کو عبور کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکا جائے، انھوں نے کہا ہے کہ امریکا دباؤ کی سیاست سے باز نہ آیا تو ایران نیوکلیئر سمجھوتے میں دی گئی ضمانتوں سے انحراف کرتے ہوئے یورینیم کی افزودگی کو 20 فیصد تک لے جائے گا۔

روس نے کہا ہے کہ اسے ایران کی جانب سے 2015 کے جوہری معاہدے میں یورینیم کی افزودگی کی مقررہ حدود سے تجاوز پر تشویش ہے اور وہ اس کے بچاؤ کے لیے سفارتی کوششیں جاری رکھے گا۔ ہم اب بھی 2015 کے جوہری معاہدے کے حامی ہیں۔ ایران کی جانب سے کسی بھی سطح پر کسی بھی مقدار میں یورینیم افزودہ کرنے پر تیار ہونے کو بین الاقوامی سطح پر مذمت کا سامنا ہے۔ تمام فریق اس بات پر بھی اتفاق رکھتے ہیں کہ تہران کو کسی بھی قسم کے جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکے جانے کی ضرورت ہے۔ ایران کے حالیہ فیصلے نے تہران اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کردیا ہے۔ اس سلسلے میں امریکی صدر ٹرمپ یورینیم کی افزودگی کی سطح بڑھانے سے متعلق ایرانی اعلان پر اپنے پہلے تبصرے میں ایک بار پھر اپنا موقف دہرا چکے ہیں کہ تہران کے لیے کبھی بھی ایٹمی ہتھیاروں کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔

ہم نے یہاں دونوں ملکوں کے موقف کو وضاحت سے پیش کیا ہے کہ دنیا ان دونوں ملکوں کے موقف تضادات کو سمجھ سکے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایران کا مخالف فریق اسرائیل ہے اور اسرائیل ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ علاقے کے پڑوسی ملکوں کے لیے مستقل خطرہ بنا ہوا ہے۔ ایران پر ایٹمی ہتھیار بنانے کی پابندی کی وجہ دونوں ملکوں کے درمیان طاقت کے توازن میں جو فرق موجود ہے، کیا اس فرق کی موجودگی میں اس خطے میں امن کی پائیداری ممکن ہے؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکا کے سامراجی منصوبوں میں امریکا کے حامی اور باجگزار ملکوں کے لیے تو کوئی شرط نہیں لاگو ہوتی اور انصاف پسند ملکوں کے خلاف امریکا کی سامراجی پٹاری میں بے شمار پابندیاں موجود ہوتی ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر اس نااتفاقی کا جب تک نوٹس نہیں لیا جائے گا اور امریکا کو جانبدارانہ سیاست سے نہیں روکا جائے گا، اس وقت تک عالمی امن کا یقینی تحفظ ممکن نہیں ہے۔

روس ، چین، بھارت وغیرہ کا شمارکسی حد تک آزاد خارجہ پالیسی رکھنے والے ملکوں میں ہوتا ہے۔ ان ملکوں کی ذمے داری ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف مشترکہ آواز اٹھائیں۔ امریکا کی سیاست خود پرستی اور جبر پر مبنی ہے اور اسی سیاست نے دنیا میں عدم توازن ناانصافی جیسی مشکلات پیدا کر رکھی ہیں۔ اس حوالے سے کم ازکم اقوام متحدہ ہی ایک آزاد اور خودمختار ادارے کی حیثیت سے کام کرسکتا تو دنیا ان مسائل ان مشکلات کا شکار ہونے سے بچ جاتی جس کا اسے سامنا ہے۔

The post ایران امریکا کشیدگی میں اضافہ appeared first on ایکسپریس اردو.

وزیر اعظم کی سیاسی شبیہ

$
0
0

وزیر اعظم عمران خان سے براہ راست میرا کوئی تعلق نہیں رہا اور آج بھی یہی صورتحال ہے مگر ان کے قریبی دوست اکثر میرے رابطے میں رہے ،جن میں ان کے جنرل سیکریٹری معراج محمد خان اور ان کے بعد ان کے دوست بھی جو امریکا اور لندن میں ہیں وہ بھی میرے دوست ہیں۔اس کے باوجود ان کی سیاسی زندگی ہر وقت پیش نظر رہی ہے۔ خصوصاً وہ ایام بھی آنکھوں میں بسے ہیں ، جب انھوں نے نواز حکومت کے خلاف احتجاجی مارچ کیے اور یخ ہواؤں میں اسلام آباد میں دھرنے دیے۔

وہ ایام بھی خوب تھے جب ان کے رفیق خاص ڈاکٹر طاہر القادری بحیثیت ایک سیاسی لیڈر اور مدبرکی طرح مارکس، لینن کے علاوہ مزدور کسانوں کی بات کر رہے تھے، مگر انھی دنوں عمران خان جو تقریریں کر رہے تھے، ان میں اس وقت کے حکمرانوں اور ماضی کے حکمرانوں کی کرپشن کی داستانیں واضح طور پر پیش کر رہے تھے۔اس سے حکومت کی صفوں میں دراڑیں تو ضرور پڑگئیں اور ملک میں کرپشن کے مکالمے شروع ہوگئے، مگر حکومت فوراً نہ گری لیکن انتخابات کے لیے یہ دھرنے عوام کے دلوں میں گھر کر گئے۔

البتہ علامہ طاہر القادری اس انتخاب میں کوئی اہم رول ادا نہ کرسکے کیونکہ نظریاتی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کے وہ متفق نظر نہیں آتے تھے بلکہ اگر یہ کہہ دیا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ حضرت ابو ذر غفاری کے اسلامی سوشل ازم کے قریب تھے۔ لہٰذا عمران خان کو اپنی تقریر کے فوائد کے ساتھ ساتھ علامہ کے نظریاتی اورکسی حد تک بین بین سوشلسٹ عناصر کی حمایت بھی حاصل ہوگئی۔

اور یہ دھرنا کلیتاً عمران خان کی سیاسی زندگی کا روشن ستارہ ثابت ہوا۔ کیونکہ اس کے فوراً بعد لوگ عمران خان کی پارٹی میں جمع ہونا شروع ہوگئے اور بیرون ملک بھی ازخود امریکا اور برطانیہ کے شہروں میں ان کے خودساختہ یونٹ تیار ہوگئے جو معاشی معاونت کا سہارا بنے کیونکہ اس سے پہلے شوکت خانم میموریل اسپتال کے علاوہ ان کے دامن میں کچھ نہ تھا، البتہ کرکٹ کی زندگی ان کے لیے ایک شہرہ آفاق سپر اسٹار بن گئی خاص طور پر جاوید میانداد کا وہ چھکا جو شارجہ میں لگایا گیا ، جس کے کپتان عمران خان تھے اور اس کے علاوہ وہ پاکستان کے لیے ورلڈ کپ لاکر کرکٹ کے بے تاج بادشاہ بن گئے۔

اس کے علاوہ ان کی نیک نامی اور بلندی جمائما سے شادی کے بعد مسلم ہوگئی کیونکہ جمائما کے تعلقات برطانیہ کے شاہی خاندان سے ہیں جن کی وجہ سے عمران خان کی لابی نہ صرف برطانیہ میں ہے بلکہ امریکا تک ان کی لابی مضبوط ہے۔ امریکا تک ان کے تعلقات کا یہ عنصر پاکستان کے بااثر حلقوں کو پسند ہے اور انھوں نے یہ طے کرلیا کہ پاکستان کی بہتری کے لیے عمران خان جیسی شخصیت کی حکمرانی بہتر ہوگی کیونکہ ان کا اثر مغرب میں تو خاصا مضبوط ہے اور سیاسی طور پر مغربی کلچر میں پسندیدہ ہیں۔

جہاں تک کرپشن کا تعلق ہے مغرب کے لوگ یہ جانتے ہیں کہ ان کی کمائی کی دولت ایسی ہے جیسی کسی سپر اسٹارکی ہو اور عمران خان نے اس بات کا پورا فائدہ اٹھایا کہ ان کی سچائی اور دست و بازوکی کمائی ہوئی دولت سے اپنے مخالفین پر وارکریں جو بیس بیس تیس تیس سال سے پاکستان کی حکومت کے آقا بنے ہوئے ہیں۔ کیونکہ معاشی طور پر پاکستان گرداب میں ہے تو اس گرداب کا طوق عمران خان نے نہایت خوبصورتی سے اپنے مخالفین کے گلے میں ڈال دیا۔ آئی ایم ایف نے بھی عمران خان کی صاف ستھری کمائی کو پورے طور سے پسند کیا اور سوچا کہ اگر عمران خان پاکستان کے چیف ایگزیکٹیو ہوجاتے ہیں تو اس کی رقم بخوبی واپس مل جائے گی، ورنہ پاکستان ڈیفالٹ ہوجائے گا اور ایسی صورت میں ایک خوفناک خلا کے علاوہ اور کچھ نہ ہوگا۔

لہٰذا نہ صرف یہ پاکستان کے لیے بلکہ پاکستان نے جن ممالک سے قرض لیا ہے ان کی نظر میں بھی عمران خان کی موجودگی ان کے لیے دردمند تھی اور عملی طور پر اگر دیکھا جائے تو یہ واضح ہوجائے گا کہ سو سو فیصد قیمتوں کے بڑھ جانے کے باوجود لوگ سڑکوں پر نہ آئے۔ میں نے ذاتی طور پر متوسط طبقے کے لوگوں، ملازمین، مختلف طبقے کے لوگوں اور ماضی کے کامریڈوں سے بات کی تو ان کا کہنا ہے کہ عوام سڑکوں پر آنے کو تیار نہیں ہیں وہ اچھے وقتوں کے لیے حکومت کو وقت دے رہے ہیں۔ اس لیے اپوزیشن پارٹیاں بھی ہڑتال کی کال دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کیونکہ ان لیڈروں پر عوام کو اعتماد نہیں ہے بلکہ یہ لیڈر تو اسمبلی ہال میں بھی نوراکشتی کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔ البتہ عمران خان نے سال بھر کے اس قلیل وقت میں بڑی خوبی سے اپنی سچائی کا جھنڈا گاڑھ دیا۔

اس کا ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے سعودی عرب کے حکمرانوں کو تو اپنے ملک میں مدعوکیا مگر ایران سے سفارتی الجھی ہوئی ڈورکو سلجھانے میں کامیاب ہوگئے اور وہاں کے تجارتی وفود کی آمد بھی بند نہ ہوئی۔ عمران خان نے اپنی سچائی کو اس طرح پیش کردیا کہ جیسے ان سے سچا اور اچھا پاکستان کا کوئی حاکم نہیں گزرا۔ یہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں سفارتی محاذ پرکسی لیڈرکو نمایاں ہونے کا موقع نہیں ملا اور نہ ہی اس کے سفارتی منصب کو باقاعدگی سے چلنے دیا گیا بلکہ سفارتی عمل میں مخصوص لوگ نمایاں رہے۔ مگر عمران خان نے بڑی خوبصورتی سے وزارت خارجہ کے امور سنبھال لیے۔

انھوں نے کئی مرتبہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو مخاطب کرتے ہوئے تعلقات کی بہتری پر زور دیا مگر نریندر مودی نے کبھی بھی مثبت جواب نہیں دیا۔ بلکہ وہ ہندوتوا کی رجعت پسندانہ پالیسی پر عمل پیرا رہے۔ یہاں تک کہ ان کی سرکاری حلف برداری کی تقریب میں بھی کسی بڑے ملک کا حاکم شریک نہ ہوا۔ گوکہ انھوں نے بشمول پوتن کے تمام بڑے ممالک کے حکمرانوں کو دعوت نامے جاری کیے تھے کیونکہ مودی نے انسان پر گائے کو فوقیت دی جب کہ مسلمانوں نے کبھی گائے کے فوائد سے انکار نہیں کیا بقول اسمٰعیل میرٹھی کے:

رب کا شکر ادا کر بھائی

جس نے ایسی گائے بنائی

اس کے برعکس گوکہ مودی ایک بڑے ملک کے وزیر اعظم ہیں اس کے باوجود ان کو ایسی سیاسی سبکی کا سامنا کرنا پڑا کہ ان کی تقریب میں کسی بڑے ملک کا نمایندہ شریک نہیں ہوا جب کہ عمران خان نے ایسی کوئی سیاسی ہلچل نہیں مچائی کہ ان کو روس اور امریکا مدعو کریں پھر بھی ان کو مدعو کیا گیا، اس سے عمران خان کی سیاسی شبیہ کا اندازہ ہوتا ہے۔ لہٰذا جوں ہی حالات بہتر ہوتے ہیں عوام کے حالات زندگی کو بہتر بنانے کے اقدامات کیے جائیں اور غیر ضروری بیانات سے اجتناب کیا جائے۔ کیونکہ عوام حکمرانوں سے زیادہ باشعور ہیں اور وہ اپنی غربت کی لکیر مٹانا چاہتے ہیں اور اگر یہ جلد نہ ہوا تو عمران خان کی تمام اچھائیوں پر عوام پانی پھیر دیں گے۔

The post وزیر اعظم کی سیاسی شبیہ appeared first on ایکسپریس اردو.

الزامات کی سیاست

$
0
0

ایک وقت تھا جب میاں نوازشریف دوسری بار وزیراعظم بنے تو بینظیر بھٹو او رآصف علی زردار ی کے گرد سخت شکنجے کسے گئے۔ بینظیر بھٹو کی ایک پیشی راولپنڈی میں ہوتی تو دوسری صبح انھیں لاہور پہنچنا پڑتا۔ اگلی صبح پیشی کراچی میں ہوتی۔

ایک دن بینظیر بھٹو کے آنسو چھلک پڑے، لیکن قدرت کا کیا کرنا یہ ہوا کہ ایک روز آڈیو ٹیپ منظر عام پہ آگئی جس میں احتساب بیورو کے چیئرمین سیف الرحمن جنھوں نے احتساب الرحمن کا لقب پایا ملک عبدالقیوم کو کہتے سنے گئے کہ کیسوں کی رفتار تیز ہونی چاہیے اور بڑے میاں صاحب کی یہ خواہش ہے۔

اِس ٹیپ کا سامنے آناتھا کہ یکدم اتنا شورمچا کہ سارا احتساب کا قلعہ دھڑام سے زمین بوس ہوگیا اوربینظیر بھٹو وآصف علی زرداری کے خلاف سارے کیسز دم توڑ گئے۔ اب کی بار مریم صاحبہ کی پریس کانفرنس ہوگئی، طوفان اُٹھانے کی کوشش کی گئی لیکن بنیادی صورتحال جوں کی توں ہے۔ نوازشریف اندر ہیں اوراُن کے باہر آنے کا کوئی فوری امکان نہیں۔ بات تو تب بنتی کہ پریس کانفرنس کا دھماکا ایسا ہوتا کہ ہر چیز لرز کے رہ جاتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پریس کانفرنس کی شام ہلکا سا طوفان اُٹھا لیکن جلد ہی تھم گیا۔

دوسرے دن جج صاحب کے انکاری بیان نے بہت حد تک تمام بخار کو ٹھنڈا کردیا، تیسرے دن مریم صاحبہ نے پھر اکا دکا ویڈیو وائرل کیں مگر بے سود۔ ن لیگی رہنماؤں کے نزدیک ردعمل میں دھماکا سخت عوامی ردعمل کی شکل میں آتا۔ عوامی حلقے بے  قرار ہوتے اور کم از کم پنجاب کے دو تین بڑے شہروں میں عوامی احتجاج کا کچھ اظہار ہوتا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔کیوں نہیں ہوا؟ کیوں کہ شاید عوام جان گئے ہیں کہ مسلم لیگ جب اقتدار سے باہر ہوتی ہے تو یاتو اُس کا شیرازہ بکھر جاتا ہے یا وہ اس قسم کے ہتھکنڈے لازمی استعمال کرتی ہے۔

باقی رہ گئی یہ بات کہ جج ارشد ملک نے دباؤ میں آکر نواز شریف کو سزادی تو ذرا پاناما کہانی ریوائنڈ کریں، سب کو معلوم، نواز شریف نے سب تقریریں اپنی مرضی سے کیں، سپریم کورٹ کو خط میاں صاحب نے خود لکھا، جے آئی ٹی نواز شریف کے وکلاء کی خواہش پر بنی، احتساب عدالت (ٹرائل کورٹ) میں کیس نواز شریف کے وکلاء کے کہنے پر آیا، جج بشیر سے جج ارشد ملک کے پاس کیس ٹرانسفر نواز شریف کی وکیل کی خواہش پر ہوا، اب آپ بتائیے، ایک کیس کی 80سماعتیں ہوں۔

جج پوچھ پوچھ کر تھک جائے کہ حضور ملیں کیسے لگیں، کاروبار کے لیے پیسہ کہاں سے آیا، سعودی عرب، یو اے ای، قطر، لندن پیسہ آتا جاتا رہا، کیوں ایک بینک ٹرانزیکشن، ایک رسید، ایک کاغذ نہیں، کوئی جواب نہ ملے۔مریم نواز کو یہ بات سمجھنے میں دِقت ہو رہی ہے۔بات صرف اتنی سی ہے کہ اصولوں کی جنگ ہو تو بڑی سے بڑی مصیبت سہی جاسکتی ہے۔

ایسا نہیں ہوتا کہ کبھی غیر ملکی حکمرانوں سے مدد طلب کی جائے کہ وہ پاکستانی حکمرانوں اور طاقتور شخصیات پر اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے انھیں رہائی دلائیں،کبھی عدالتوں میں علاج کے بہانے بیرون ملک جانے کی درخواستیں دائر کرتے ہیں اور کبھی گھر کے مرغن کھانے کی فرمائش کے ذریعے مخالف حکمرانوں پر اپنی کمزوری کو عیاں فرماتے۔ پاکستان کی جیلوں میں اس وقت لاکھوں قیدی پڑے ہیں، جن میں سے بعض اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کھاتے پیتے گھرانوں کے چشم و چراغ ہیں۔ زیادہ تر تعداد ان لوگوں کی ہے جو بکری چوری، موبائل چوری، جیب تراشی اور دوسرے معمولی جرم میں ملوث ہیں۔

آپ گزشتہ 30سالوں کا ریکارڈ اُٹھا کر دیکھ لیں کہ ان جماعتوں نے ملکی اداروں کے ساتھ کیسی کیسی حرکتیں کی ہیں۔ کبھی سپریم کورٹ پر حملہ تو کبھی سیکیورٹی اداروںپر،  مخالفین کی کردار کشی ۔یہ سیاسی خاندان کبھی اُس چیز کا ذکر نہیں کریں گے جس جگہ ان سے غلطیاں سرزد ہوئیں یا جن شخصیات سے انھوں نے سیاسی فوائد حاصل کیے جیسے جج ارشد ملک صاحب والی پریس کانفرنس میں ایک مرحلے پر مریم نواز نے ذوالفقار علی بھٹو کا حوالہ دیا کہ وقت گزرنے کے ساتھ اُن کی سزائے موت کو جوڈیشل قتل کہا گیا۔اُن کا کہنا تھا کہ میاں نوازشریف کی سزا کو بھی اِنہی نظروں سے دیکھا جائے گا۔

بھٹو کا تو حوالہ دیا لیکن جنرل ضیاء الحق کو بیچ میں وہ بھول گئیں۔ بھٹو کو پھانسی دینے والا ضیاء الحق تھا اور ضیاء الحق کے وفادار ساتھی اور جانشین نواز شریف تھے۔ بھٹو کے ساتھ جو ظلم یا ناانصافی ہوئی اس کو تو انھوں نے یاد کیا لیکن ظلم روا رکھنے والوں کو بھول گئیں۔ سیاست میں بہرحال ایسا ہوتا ہے۔ چبھنے والی یادیں یاد نہیں رکھی جاتیں۔

اب تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی سب سے بڑی ہمدرد شریف فیملی ہے۔ بہرکیف رحم تو اس قوم کی قسمت پہ آنا چاہیے کہ کیسے کیسے ہیرو اس کو ملے۔ پہلے کم از کم جب گھوڑوں پہ شاہسوار آتے تھے تو جمہوریت اور آزادی کی شمعیں جلائی جاتی تھیں۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ ان دونوں نے مل کے ایک رومانوی ملک سے جمہوریت کے رومانس کو نقصان پہنچایا۔ ایسا پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ اقتدار گیا لیکن مرسیڈیز کاریں بدستور دبائی گئی ہوں۔ ایسے کاموں کے لیے دل گردہ چاہیے ہوتا ہے۔

ایک مرسیڈیز جاتی امرا سے برآمد ہوئی اوردوسری خاقان عباسی کو دینی پڑی۔ سیاست دان عوام کے آئیڈیل اور رول ماڈل ہیں انھیں ایسا کرنا زیب نہیں دیتا، انھیں عوام کے غموں کا مداوا کرنا چاہیے ناکہ الزامات کی سیاست کرکے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکیں۔ آخر میں حالیہ ’’پیش رفت ‘‘ کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا جس کے مطابق آصف زرداری کا کہنا ہے کہ مستقبل بلاول بھٹو اور مریم کا ہے جس پر میرا خیال ہے کہ اگر ان کا مستقبل ہے تو پھر اس ملک کے کروڑوں بچوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے، اس ملک کے مقروضوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے، خط ِ غربت پر رینگتے ہوئے انسان نما حشرات الارض کا بھی کوئی مستقبل نہیں ہے ۔

The post الزامات کی سیاست appeared first on ایکسپریس اردو.

امریکا نہیں روس جائیں

$
0
0

’’ہمیں 70 سال کی محبت کا کیا صلہ ملا؟ وقت آ گیا ہے ہم ساڑھے بارہ ہزارکلو میٹر دور محبت کی پینگیں بڑھانے کے بجائے اپنے ہمسایوں سے تعلقات بہتر بنائیں‘‘ مجھے آج بھی یاد ہے میرے دوست خواجہ آصف یہ کہتے ہوئے جذباتی ہوگئے تھے‘وہ ٹشو پیپر سے آنکھیں صاف کر رہے تھے اور بار بار روسی وزیر خارجہ سر گئی لیوروف (Sergey Lavrov) کا ذکر کر رہے تھے۔

یہ مارچ 2018ء کی سرد شام تھی‘ پرندے مارگلا کی پہاڑیوں کی طرف واپس لوٹ رہے تھے‘ سورج کے یرقان میں اضافہ ہو رہا تھا اور میں خواجہ آصف کے سادہ سے ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا‘ وہ ن لیگ کی رخصت ہوتی حکومت کے آخری وزیر خارجہ تھے‘ پاکستان تازہ ترین امریکی حملے سے بچا تھا‘ فروری کے آخر میں پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس تھا‘ پاکستان کے پرانے اتحادیوںاور سوکالڈ دوستوں نے ہمیں دہشت گرد ملک ڈکلیئر کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا تھا‘ پاکستان کے سر پر خطرے کی تلوار لٹک رہی تھی۔

اگر ہمیں ایف اے ٹی ایف بلیک لسٹ میں لے جاتا تو ہماری ایکسپورٹس رک جاتیں ‘ امپورٹس کے تمام معاہدے بھی منسوخ ہو جاتے‘ سرمایہ کاری بھی بند ہوجاتی اور عالمی ڈونرز بھی اپنے ہاتھ کھینچ لیتے اور یوں پاکستان دیوالیہ ہو جاتا لیکن پھر وزیر خارجہ خواجہ آصف سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کے ساتھ فوری طور پر ماسکو پہنچے اور عین 18 فروری کے اس دن جب پیرس میں ایف اے ٹی ایف کا اجلاس جاری تھا ، وہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لیوروف سے ملے اور اپنے ماضی کے دشمن سے براہ راست مدد مانگ لی‘ روس کا رویہ حیران کن تھا۔

سرگئی لیوروف نے موبائل فون نکالا اور پیرس میں موجود اپنی ٹیم کو ڈائریکٹ حکم دے دیا ’’ہم پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘ خواجہ آصف اور تہمینہ جنجوعہ کو اس رویے کی توقع نہیں تھی‘ یہ وزارت خارجہ نہیں وزارت خزانہ کا ایشو تھا چنانچہ خواجہ آصف کا خیال تھا سرگئی لیوروف وزیر خزانہ سے کہیں گے اور یوںروس آہستہ آہستہ پاکستان کی مدد کرے گا لیکن روسی وزیر خارجہ نے اپنی سنیارٹی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وزارت خزانہ کے اختیارات میں مداخلت کی اور پاکستان کی حمایت کا اعلان کر دیا‘ پیرس میں ایف اے ٹی ایف کا اجلاس چل رہا تھا‘ روس نے پاکستان کے ساتھ کھڑے ہو کر اچانک پوری دنیا کو حیران کردیا۔

چین اور ترکی شروع سے پاکستان کے حامی تھے چنانچہ پاکستان آخری لمحات میں ’’بلیک لسٹ‘‘ سے صاف بچ گیااور میں یہ کہانی سننے کے لیے خواجہ آصف کے پاس آیا تھا۔شام گہری ہو رہی تھی‘ خواجہ آصف کا کہنا تھا’’ میں تین حیثیتوں سے بار بار روس گیا‘ وزیر دفاع کی حیثیت سے بھی گیا‘ توانائی کے وزیر کی حیثیت سے بھی اور میں آخر میں وزیر خارجہ کے پورٹ فولیو کے ساتھ بھی ماسکو گیا‘ میں نے ہر لحاظ سے روسی حکومت اور لوگوں میں جذبہ اور محبت دیکھی‘ یہ لوگ مزاجاً ’’پاکستانی ہیں‘ دوستوں کے دوست‘ دھڑے باز‘ یہ آپ کے ساتھ ہیں تو یہ پھر آپ کے ساتھ ہیں اور یہ اگر آپ کے مخالف ہیں تو پھر یہ آپ کے کھلے مخالف ہیں‘یہ منافقت نہیں کرتے‘ روسی سرد جنگ کے دوران ہمارے مخالف تھے۔

یہ کھل کر مخالف رہے اور یہ اب ہمارے دوست بننا چاہتے ہیں تو یہ واقعی ہمارے دوست بن رہے ہیں‘ یہ اس کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہیں‘‘ میں نے خواجہ آصف سے پوچھا ’’پالیسی شفٹ کی وجہ کیا ہے‘‘ خواجہ آصف نے چند لمحے سوچ کر جواب دیا ’’روس انڈیا کی وجہ سے ہمارا دشمن تھا اور یہ آج انڈیا ہی کی وجہ سے ہمارا دوست بن رہا ہے‘‘ میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولے ’’انڈیا ماضی میں روس کو اپنے ساتھ رکھ کر امریکا اورپاکستان کو ڈراتا تھا اور یہ آج امریکا اور یورپ کو اپنے دائیں بائیں کھڑا کر کے روس اور پاکستان کو ڈرانے کی کوشش کر رہا ہے‘ روسی بھارت کی یہ نیت سمجھ گئے ہیں چنانچہ یہ بلیک میل ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں‘‘ وہ رکے اور پھر بولے ’’ہم نے2013ء اور 2014ء میں روس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔

بھارت نے روس اور امریکا نے پاکستان سے شدید احتجاج کیا لیکن روس اپنے دیرینہ دوست بھارت کے دباؤ میں نہیں آیا‘ ہم نے بھی امریکا کا احتجاج مسترد کر دیا، یوں پاک رشیا فوجی مشقیں بھی ہوئیں‘ ایئر فورس کے دستے بھی ملے اور دونوں ملکوں کی نیوی نے بھی جوائنٹ ایکسرسائز کیں‘ روس ہمیں اسلحے کی خریداری میں بھی کیٹگری چار سے کیٹگری دو پر لے آیا ‘ ہم اب اس سے ہر قسم کا اسلحہ درآمد کر سکتے ہیں۔

میں نے روس میں وزیر دفاع سرگئی شیوکیو (Sergey Shoygu) سے بھی ملاقات کی اور میں ڈپٹی وزیر دفاع الیگزینڈر فومن (Alexander Fomin) سے بھی ملا‘ یہ دونوں سروئنگ جنرلز ہیں‘ فومن ڈپٹی وزیر دفاع بننے سے پہلے ڈیفنس پروڈکشن کا وزیر تھا اور یہ وہ شخص ہے جس نے بھارت کے دباؤ کے باوجود ہماری کیٹگری فور سے ٹو کی‘ یہ مجھے اپنی ان حساس جگہوں پر بھی لے گیا جہاں یہ کسی کو نہیں لے کر جاتے‘ روس نے میرے لیے اپنی سب سے بڑی کمپنی گیز پروم (Gazprom) کے دروازے بھی کھول دیے‘ یہ 113 بلین ڈالر کی کمپنی ہے‘ کمپنی میں ریاست سب سے بڑی شیئر ہو لڈر ہے‘ یہ روس کی آدھی معیشت ہے‘ مجھے روسی وزیر دفاع اور ڈپٹی نے کہا ’’آپ ہم سے جو کچھ لینا چاہتے ہیں آپ لیں لیکن ایک شرط ہے‘ آپ ہمارے ساتھ کھلے دل کے ساتھ چلیں‘‘۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا ’’ہم 65 سال روس سے دور رہے لیکن روس نے ہمارے لیے ان تمام اداروں کے دروازے کھول دیے جن تک امریکا نے ہمیں 70 برس کی دوستی میں رسائی نہیں دی‘آپ المیہ دیکھیے‘ ہمارے ستر برس کے دوست ہمیں گھسیٹ کر ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ تک لے گئے جب کہ ہم جسے دشمن سمجھتے تھے وہ ایف اے ٹی ایف کے ہر اجلاس میں ہمارے ساتھ کھڑا ہو گیا چنانچہ ہمیں 70 سال کی محبت کا کیا صلہ ملا؟ ہمیں اب ساڑھے بارہ ہزار کلو میٹر دور محبت کی پینگیں بڑھانے کے بجائے اپنے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے چاہییں‘‘ہماری میٹنگ ختم ہو گئی۔

مجھے اس وقت خواجہ آصف کی بات سمجھ نہیں آئی تھی لیکن میں وقت گزرنے کے ساتھ ان کی بات کا قائل ہو گیا‘ ہمارے خطے میں دو سپر پاورز ہیں‘ روس اور چین اور ہمارے دائیں اور بائیں بھارت اور ترکی دو ابھرتی ہوئی معاشی طاقتیں بھی ہیں چنانچہ ہمیںساڑھے بارہ ہزار کلو میٹر دور ایک ایسے ملک امریکا کے ساتھ لٹکنے کی کیا ضرورت ہے جس تک پہنچنے میں بھی ہمیں چوبیس گھنٹے لگ جاتے ہیں لہٰذا ہمیں دور دراز کے چچا کے بجائے اپنے ناراض بھائیوں کو راضی کرنا چاہیے‘ ہمیں اپنے خطے میں توجہ دینی چاہیے‘ہمارے تمام مسئلے بھی لوکل ہیں اور ان مسئلوں کے حل بھی مقامی ہیں‘ہماری پالیسی میں بھی شفٹنگ آ رہی ہے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اسلام آبادمیں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے دو دل چسپ باتیں کیں‘ یہ دونوں باتیں ہماری تازہ ترین فارن پالیسی ہونی چاہییں‘ یہ بولے‘ ملک ترقی نہیں کرتے خطے کرتے ہیں‘ دوسرا حکومت نے افغانستان کے صدر اشرف غنی کو یقین دلایا ہم افغانستان کو بھارت تک راہداری دے دیں گے‘ ملک نہیں خطہ اور راہداری یہ دونوں بڑے اعلان ہیں‘ یہ راہداری پاکستان کو پورے خطے سے جوڑ دے گی۔

یوںسارک ملک سی پیک کے ذریعے چین‘ سینٹرل ایشیا اور روس سے جڑ جائیں گے اور یہ بہت بڑی ڈویلپمنٹ ہو گی‘ مجھے سرتاج عزیز نے ایک بار بتایا تھا ‘میں نے دو سال قبل راہداری کی تجویز پیش کی تھی لیکن عسکری‘ سیاسی اور سویلین تینوں قائدین میرے گلے پڑ گئے تھے‘ مجھے کہا گیا تھا مسئلہ کشمیر کے حل تک ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے لیکن آج جنرل باجوہ کی طرف سے یہ اعلان ہماری پالیسی شفٹنگ کو ظاہر کرتا ہے اور یہ بہت اچھا فیصلہ ہے‘ ہم نے چین کے ساتھ ’’سی پیک‘‘ کر کے بھی اچھا قدم اٹھایا تھا‘ ترکی ہمارا دیرینہ دوست ہے‘ ہم لوگ نسلاً آدھے ترک ہیں‘ لفظ اردو تک ترکش ہے‘ بس روس تھوڑا سا دور ہے‘ ہمیں اب اس پر کام کرنا چاہیے‘ روسی حکومت پاکستان کو ہر سال دو اڑھائی سو اسکالر شپ دیتی ہے لیکن یہ وظائف فائلوں میں پڑے پڑے ختم ہو جاتے ہیں۔

روس نے 2018ء میں میڈیکل اور انجینئرنگ کے دو سو اسکالر شپ بھجوائے تھے‘ ہم نے صرف 16 طالب علم بھیجے‘ یہ زیادتی بھی ہے اور غیر سفارتی رویہ بھی‘ ہمیں یہ تمام وظائف استعمال کرنے چاہییں‘ یہ طالب علم دونوں ملکوں کے درمیان برف پگھلانے میں اہم کردار ادا کریں گے‘ روس اور پاکستان کے درمیان سرد جنگ کے زمانے میں بارٹل ٹریڈ ہوتی تھی‘ روس کی طرف سے پانچ سو ملین ڈالر کا کلیم چلا آ رہا ہے‘ یہ تنازع ہماری تین کمپنیوں مرکری‘ الفتح اور تابانی گروپ اور روسی وزارت تجارت کے درمیان ہے‘ 290 ملین ڈالر سیٹل ہو چکے ہیں‘ صرف 200 ملین ڈالر باقی ہیں۔

حکومت کو یہ مسئلہ بھی فوری طور پر حل کر دینا چاہیے اور روس کی خواہش ہے جس طرح پاکستان میں سی پیک چین اور موٹر وے جنوبی کوریا کی نشانی ہے بالکل اسی طرح پاکستان میں روس کا بھی کوئی بڑا پراجیکٹ نظر آنا چاہیے‘ ہمیں تعلقات استوار کرنے کے لیے روس کو بھی کوئی بڑا منصوبہ آفر کرنا چاہیے‘ ہم اس سے پوشکن کے نام سے کوئی بڑا شہر بھی بنوا سکتے ہیں‘ کوئی بڑی انٹرنیشنل یونیورسٹی بھی اور پاکستان‘ افغان روس شاہراہ بھی‘ پاکستان کے اندر روس ضرور دکھائی دینا چاہیے‘ ہمارا سب کچھ اس خطے میں ہے‘ امن بھی‘ ترقی بھی اور خوش حالی بھی اور فخر بھی‘ ہمیں اب ساڑھے بارہ ہزار کلو میٹر دور سے نظر ہٹا کر خطے میں واپس آنا چاہیے‘ ہمیں اپنی پالیسی شفٹ کرنی چاہیے۔

ہمیں اب جان لینا چاہیے ہم ہمسایوں کو ناراض کر کے دور کے دوستوں سے زیادہ دیر تک فائدہ نہیں اٹھاسکتے‘ عمران خان امریکا جا رہے ہیں جب کہ روسی صدر پیوٹن عمران خان کو ماسکو میں دیکھنا چاہتے ہیں‘ یہ صورت حال ہمیں ایک بار پھر 50ء کی دہائی میں لے جا رہی ہے‘ ہم نے خان لیاقت علی خان کے زمانے میں روس کی جگہ امریکا کو اہمیت دے کر غلطی کی تھی‘ ہمیں اب یہ غلطی نہیں دہرانی چاہیے‘ ہمیں اب امریکا کے بجائے روس کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہیے‘ مجھے یقین ہے روس ہمارا اچھا دوست ثابت ہو گا۔

The post امریکا نہیں روس جائیں appeared first on ایکسپریس اردو.

حکومتی معاشی پالیسیاں اور مہنگائی

$
0
0

حکومت کی معاشی پالیسیوں کے سبب معیشت ،سیکیورٹی اور توانائی کے شعبوں میں بہتری کی نوید تو سنائی جا رہی ہے لیکن دوسری جانب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں جمعرات کو کاروباری حجم 7سال کی کم ترین سطح پر رہا‘زرمبادلہ کی دونوں مارکیٹوں میں ڈالر کی قدر میں اضافے کا تسلسل قائم رہا جس کے نتیجے میں انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر مزید60پیسے کے اضافے سے 158روپے48پیسے کی سطح پر بند ہوئی۔

ایک جانب حکومت معاشی پالیسیوں میں تبدیلی لا کرآنے والے وقتوں میں استحکام کی خوشخبری سنا رہی ہے تو دوسری جانب بڑھتی ہوئی مہنگائی اورٹیکسوں کے خلاف تاجروں کا ایک طبقہ ہڑتال کی کال دے رہا ہے۔

بجلی ‘گیس اورپٹرول کی قیمتوں میں تیزی سے ہونے والے اضافے کے باعث روزمرہ کی اشیا کی قیمتوں کا گراف بھی اوپر گیا ہے جس کا بوجھ عام آدمی پر پڑا ہے جس کے وسائل پہلے ہی محدود ہیں اور اس کا گھریلو بجٹ شدید متاثر ہوا ہے۔ ایک جانب مہنگائی بڑھ رہی ہے تو دوسری جانب روز گار کے مواقعے کم ہونے سے جرائم میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے بالخصوص اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہونا تشویشناک امر ہے۔

حکومت عوام سے ٹیکس ضرور وصول کرے لیکن چھوٹے دکانداروں ‘مزدوروں اور عام آدمی پر لگائے جانے والے ٹیکس سے ان کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا ہے، ایسی صورت میں معاشرے کے ہر شخص میں اضطرابی کیفیت کا پیدا ہونا قدرتی امر ہے۔

حکومت امرا اور بڑے بڑے صنعتکاروں سے ٹیکس وصول کرے اور عام آدمی پر اس کے بوجھ میں کمی کرے۔ ٹیکس چوری کے رجحان پر بھی قابو پانے سے حکومت کی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے‘ کرپشن کے خاتمے کے لیے سرکاری اداروں کے نظام کو بہتر بنایا جانا ضروری ہے‘ کیونکہ سرکاری عمال کی کرپشن ملکی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے جس کا انسداد ناگزیر ہے۔

The post حکومتی معاشی پالیسیاں اور مہنگائی appeared first on ایکسپریس اردو.

خواتین کے حقوق کا تحفظ اور ریاست کی ذمے داری

$
0
0

خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم اور تشدد کی وارداتیں تشویشناک ہیں۔ اگرچہ اس وقت عالمی سطح پر خواتین کے حقوق کے بارے میں بہت سی تنظیمیں موثرکردار ادا کر رہی ہیں جن کے سبب آگاہی کی اس مہم میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے عوام میں شعور پیدا ہوا اور حکومتوں پر دباؤ بڑھا جس کے باعث وہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے بہت سے قوانین بنانے پر مجبور ہو گئیں۔

اب معاملات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ خواتین پر جہاں بھی مظالم ہوں‘ اس کے خلاف اس قدر شدومد سے آواز اٹھائی جاتی ہے کہ ظلم کرنے والے کے خلاف قانون حرکت میں آنے پر مجبور ہو جاتا اور مجرم کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی خواتین کے حوالے سے شعور میں نمایاں اضافہ  ہونے سے ریاستی سطح پر خواتین کے حقوق کا بھرپور تحفظ کیا جانے لگا ہے۔

سیاسی سطح پر بھی خواتین کی ایک بڑی تعداد کافی متحرک ہو چکی ہے۔ صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں بھی خواتین کی نمایاں تعداد نظر آتی ہے مگر اس سب کے باوجود خواتین پر مظالم کے واقعات کا رونما ہونا افسوسناک امر ہے۔ گھریلو سطح پرلڑائی جھگڑے‘ خاندانی دشمنی یا کسی بھی وجہ تنازع کے سبب خواتین کے خلاف کارروائیاں معاشرے کے چہرے پر بدنما داغ ہیں۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک مقدمہ میں تاریخ ساز فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ خاتون پر تیزاب گردی کا مجرم کسی رو رعایت کا مستحق نہیں‘ اس کیس میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا خواہ متاثرہ خاتون مجرم کو معاف کر دے لیکن قانون اسے معاف نہیں کرے گا‘ تیزاب گردی سے جلانا قتل سے بھی بڑا جرم ہے جس کی سزا عمر قید ہے‘ اپنی سنگینی کے اعتبار سے یہ ریاست کے خلاف جرم ہے لہذا اس کی کوئی معافی نہیں۔قابل افسوس امر یہ ہے کہ ہمارے ہاں کسی بھی وجہ تنازع پر عورت کو آسان ہدف سمجھتے ہوئے اس کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔

ترقی کے اس دور میںعورت جہاں زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ نمایاں کردار ادا کر رہی ہے وہاں ہمارے ہاں پسماندہ اور دیہی علاقوں میں عورت آج بھی ظلم کا نشانہ بنائی جاتی ہے‘کہیں کاروکاری کے نام پرظلم ڈھایا اور کہیں مردوں کے جرائم پر انھیں تحفظ دینے کے لیے پنچایتی فیصلے میں عورت کو ونی کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ عورت کی تعلیم کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں ۔ جہاں غربت اور پسماندگی زیادہ ہے وہاں عورتوں پر تشدد اور ان کے خلاف جرائم کی وارداتیں بھی زیادہ ہیں۔

عورت کے حقوق کے تحفظ کے لیے جہاں قوانین پر فوری عملدرآمد کی ضرورت ہے وہاں غربت اور پسماندگی کا خاتمہ کر کے تعلیم اور روزگار کے مواقعے بھی عام کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔

The post خواتین کے حقوق کا تحفظ اور ریاست کی ذمے داری appeared first on ایکسپریس اردو.

جان لیوا حادثات کا سلسلہ کب رکے گا؟

$
0
0

ٹرین حادثات کا تسلسل برقرار ہے ایک اوراندوہناک ٹرین حادثے کے نتیجے میں 21 افراد جان کی بازی ہارگئے جب کہ ٹرین ڈرائیوراور اسسٹنٹ ڈرائیور سمیت 104سے زائدزخمی ہوئے ،مسافر ٹرین کا انجن اور7 بوگیاں تباہ ہوگئیں، تین بوگیوں کو کٹر مشین سے کاٹ کرمسافروں کو نکالا گیا جب کہ مال گاڑی کی دو بوگیاں بھی تباہ ہوئیں۔ وہی روایتی لاپروائی اور غفلت کا چلن لے ڈوبا۔

حادثہ ہونے کے بعد مقامی انتظامیہ نے انتہائی سست روی سے ریسکیو آپریشن کیا جس کی وجہ سے مزید کئی جانیں ضایع ہوئیں، اگر امدادی کارروائیاں بروقت شروع کی جاتیں اور ان کی رفتار تیز ہوتی توکئی انسانوں کی زندگیاں بچائی جاسکتی تھیں ۔

انسانی اقدار اور انسانیت کے حوالے سے ایک بہتر طرز عمل اس وقت دیکھنے میں آیا جب ٹرین حادثے میں زخمی ہونے والے افراد کو طبی امداد کے لیے اسپتال منتقل کرنے کے بعد بڑے پیمانے پر خون کے عطیات کی ضرورت تھی، اطلاع پاتے ہی شہریوں، دیہاتیوں کی بڑی تعداد خون کے عطیات دینے کے لیے اسپتالوں میں جمع ہوگئی، خون کے عطیات دینے والوں میں پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی۔

بلاشبہ پاکستانی قوم میں جذبہ ہمدردی بدرجہ اتم پایا جاتا ہے ۔ٹرین حادثات کے تسلسل نے پاکستانی عوام کے دلوں میں ایک خوف پیدا کردیا ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق اگست2018سے جولائی2019تک79 ٹرین حادثات میں کئی قیمتی جانیں ضایع ہوچکیں جب کہ محکمہ کو بھی اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔

شیخ رشید نے اگست 2018میں وزارت ریلوے کا چارج سنبھالا جس کے بعد ٹرینوں کے حادثات میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ، سب سے زیادہ 20 حادثات جون میں ہوئے، اب تک 24 قیمتی انسانی جانیں ضایع ہوچکی ہیں۔

ماہرین کے مطابق ریلوے انفرا اسٹرکچر اوور ہیٹ ہوچکا، دس نئی ٹرینوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا، ریلوے کے ایک سابق سینئر ترین آفیسر کے مطابق جب تک سی پیک کے تحت ریلوے انفرا اسٹرکچر میں انوسٹمنٹ نہیں ہو جاتی اس وقت تک نئی ٹرینوں کے اجراء کا کوئی جواز نہیں تھا ۔

حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو ٹرین حادثے کو ریلوے افسروں اور ٹیکنیکل اسٹاف نے پوائنٹ مین اور سگنلز مین کی غفلت قرار دیا ہے، محکمانہ سطح پر تحقیقات کے بعد حادثے کے ذمے دار افراد کو قرار واقعی سزا دی جانی چاہیے ۔

حکومت پاکستان ریلوے کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے بھرپور کوشش کرے اور عوام کے جان ومال کے تحفظ کے لیے اقدامات اٹھائے ۔ٹرینوں کا روزانہ چھ تا بارہ گھنٹے لیٹ ہونا معمول بن چکا ہے ۔ تمام ٹرینیں مقررہ وقت پر اپنی منزل تک پہنچیں گی اور وہ بھی محفوظ ترین طریقے سے تو جب ہی وزارت ریلوے عوام کی تعریف وتوصیف کے حقدار سمجھی جائے گی، ورنہ حکام خود سمجھ دار ہیں کہ انجام گلستان کیا ہوگا ۔

غفلت ، لاپروائی اور جلد بازی ہمارا قومی شعار بنتا جا رہا ہے۔ ٹریفک قوانین کو توڑنے میں ہم فخر محسوس کرتے ہیں وہ اس لیے کہ ٹریفک قوانین کو توڑنے والا خود کو بہادر آدمی سمجھتا ہے۔ جب کہ حقیقت میں ٹریفک قوانین پر عملدرآمد سے کسی قوم کے تہذیب یافتہ ہونے کا اندازہ لگایا جاتا ہے ۔

ٹریفک حادثات ہمارے یہاں تواتر سے ہوتے ہیں تازہ ترین واقعے میں واہ کینٹ براہمہ باہتر انٹر چینج کے قریب مسافر بس الٹنے سے3 خواتین اور بچے سمیت13افراد جاںبحق جب کہ 25 زخمی ہوگئے، شدید زخمیوں کو ڈسٹرکٹ اسپتال راولپنڈی منتقل کیا گیا، ادھر اپر کوہستان میں بھی ایک مسافر گاڑی کھائی میں جا گری جس سے 8 افراد جاں بحق ہوگئے۔سوات سے لاہور آنے والی بس کو حادثہ سحری کے وقت شدید بارش اور پھسلن اور تیز رفتاری کے باعث پیش آیا.

زخمی مسافروں کا کہنا تھا کہ بس ڈرائیور نہایت غفلت و لاپروائی سے بس چلا رہا تھا شدید بارش اور طوفان ہونے کے باوجود اوور ٹیکنگ بھی کررہا تھا، جس پر مسافروں نے منع بھی کیا لیکن اس نے کسی کی نہ سنی، پہلے بس بے قابو ہوئی پھر قلابازیاں کھاتی ہوئی موٹروے سے نیچے کچے میں اترگئی۔ ننانوے فیصد حادثات ڈرائیور حضرات کی غفلت اور اوور اسپیڈنگ کے باعث ہوتے ہیں ۔

ڈرائیور محفوظ رہتے ہیں اور جائے حادثہ سے بآسانی فرار ہوجاتے ہیں اور اگر پکڑے جاتے ہیں تو چند پیشیوں کے بعد رہا ہو کر ’’ لائسنس ٹو کل‘‘ کے تحت مزید انسانوں کی جانیں لینا شروع کردیتے ہیں ۔ جب تک ٹریفک اور ٹرین حادثات کے ذمے دار افراد کو کڑی سزائیں نہیں دی جائیں گی یہ سلسلہ نہیں رکے گا اور ہم صرف افسوس اور ماتم کرتے رہ جائیں گے ۔ہمیں ترقی یافتہ ممالک میں موجود جدید نظام سے بھی استفادہ کرنا چاہیے جس کی بدولت ٹرین حادثات میں نمایاں کمی ہو چکی ہے۔

The post جان لیوا حادثات کا سلسلہ کب رکے گا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


پاکستان کے لیے عالمی اقتصادی فورم کی اہمیت

$
0
0

1971میں قائم ہونے والا عالمی اقتصادی فورم نجی و سرکاری شعبے کی شراکت داری کے لیے تشکیل دی گئی ایک بین الاقوامی تنظیم ہے۔ یہ فورم نمایاں کاروباری، سیاسی اور دیگر سماجی رہنماؤں کو مقامی اور عالمی صنعتی ایجنڈا کی تشکیل کے لیے ایک جگہ جمع ہونے کا موقعہ فراہم کرتا ہے۔

عالمگیریت کی تیزترین پیش قدمی کی وجہ سے عالمی اقتصادی فورم دنیا کا بااثر ترین بین الاقوامی اقتصادی تنظیم بن چکا ہے۔ نمایاں کمپنیوں کو سفارشات کی بنیاد پر اس کی رکنیت دی جاتی ہے۔ یہ فورم حقیقی طور پر ایک آزاد اور غیر جانب دار تنظیم ہے جو مخصوص مفادات یا گروہ سے منسلک نہیں۔ فورم سات رکنی سوئیز فیڈرل کونسل کے زیر نگرانی کام کرتا ہے، جس کی تشکیل وفاقی حکومت کرتی ہے اور یہ کونسل مشترکہ طور پر ریاست سوئیٹزر لینڈ کی مشترکہ سربراہ ہے۔

جیوپولیٹیکل تغیرات نے نئے چیلنجز کو جنم دیا جو عالمی منظرنامے پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ آج غیر ریاستی عناصر اپنے ایجنڈے کی تشکیل نو کرچکے ہیں، انھوں نے اپنی صلاحیت کار میں مطابقت پیدا کرلی ہے اور وہ نہ صرف قومی  سطح پر نظام کے لیے چیلنج کھڑے کرسکتے ہیں بلکہ عالمی نظام بھی ان کے نشانے پر ہے۔ ڈیووس اجلاس میں عالمگیریت اور عدم مساوات کے خلاف بڑھتے ہوئے عالمی غیظ و غضب پر خصوصی توجہ دی گئی۔ کلاز شواب کے نزدیک’’ اس خطرے کے ہوتے ہوئے مختلف ممالک خود کو محدود نہیں کرسکتے۔ اس سے مقابلے کا ایک ہی راستہ ہے کہ عالمگیریت کو سب کے لیے یکساں مفید بنایا جائے۔‘‘ اقوام کو مشترکہ مفادات کے لیے ایک دوسرے سے بات چیت اور باہمی تعاون کے لیے قدم بڑھانا ہوگا۔

عالمی اقتصادی فورم کی غیر جانب داری نے اسے قابل اعتماد ادارہ بنایا۔ یہ کسی سیاسی ، جانبدارانہ یا قومی مفاد سے وابستہ نہیں اور ’’دنیا کی حالت بہتر بنانے کے لیے پُرعزم ہے۔‘‘ عالمی رہنماؤں کو بین الاقوامی کارپوریشنز کو کھڑا کرنے والے اس پرانے نظام پر نظر ثانی کے لیے جمع کیا گیا جسے اب موجودہ حالات سے مطابقت پیدا کرنا ہوگی، کثیر القطبی دنیا میں ایسی راہیں تلاش کرنا ہوں گی جو مشترکہ ترقی کی جانب جاتی ہوں۔ عالمی اقتصادی فورم کے بانی اور ایگزیکٹیو چیئرمین کلاز شواب نے 2017میں کہا تھا’’ذمے دارانہ لیڈرشپ سے مراد یہ ہے کہ معاشی اور معاشرتی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی کا  ادراک کیا جائے۔ چوتھے صنعتی انقلاب کے تناظر میں ان کے حالات مزید بے یقنی کی جانب گامزن ہیں اور مستقبل میں ملازمت کے مواقعے پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔‘‘

ڈیووس میں منعقد ہونے والا عالمی اقتصادی فورم کا سالانہ اجلاس سیکڑوں کمپنیوں کے نمایندگان، حکومتی زعما اور سماجی کارکنان کو پلیٹ فورم مہیا کرتا ہے۔ پورے سال موجودہ دنیا کو درپیش ماحولیاتی تغیرات، کرپشن، نقل مکانی جیسے دیگر اہم مسائل پر مختلف گروپ تحقیق کرتے ہیں۔ ارکان کو چھ مختلف ورکنگ گروپس میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ فورم سلسلہ وار تحقیقی رپورٹس کا اجرا کرتا ہے اور عالمی چلینجز سے نمٹنے کے لیے نجی و سرکاری شعبے کا باہمی تعاون بڑھانے کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ روایتی طور پر 2ہزار سے زائد افراد اس اجلاس میں حصہ لینے ، شریک ہونے یا اس کی کوریج کرنے کے لیے مدعو کیے جاتے ہیں۔

ڈیووس میں منعقدہ اجلاس دنیا کے نمایاں ترین سیاسی رہ نماؤں ، سربراہان مملکت، صنعتی و کاروباری رہنماؤں، پالیسی سازوں، دانشوروں اور اسکالرز، سائنسدانوں، فلاحی کام کرنے والوں اور میڈیا سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو عالمی ایجنڈے کی تشکیل کے لیے ایک چھت تلے جمع کرنے کا انتہائی منفرد موقع ہوتا ہے جس میں اقتصادیات، صحت، ماحول، میڈیا سیکیورٹی اور دیگر اہم ترین موضوعات زیر بحث لائے جاتے ہیں۔ عالمی رہنما اور کثیر الملکی کمپنیوں کے سی ای اوز کا میل ملاپ ہوتا ہے اور  اپنے شعبے کے معروف وممتاز ترین ماہرین عالمی معیشت، اشیاء صرف کی قیمتوں اور ماحولیاتی امور سمیت متنوع موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔

عالمی اقتصادی فورم کا مقصد ہے ’’عالمی حالات میں بہتری‘‘۔ اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا بھر کی قیادت کو عالمی، خطوں اور صنعت کے ایجنڈے کی تشکیل کے لیے ایک جگہ جمع کیا جائے۔ ڈیووس میں آپ کا بیانیہ نہ صرف سنا جاتا ہے بلکہ اسے سمجھا بھی جاتا ہے۔
یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کی آواز عوامی سیشن میں بھی سنی جائے۔ مٹھی بھر بزنس مین ڈیوس میں پاکستان کی نمایندگی کا بار گراں نہیں سہار سکتے۔ ڈیووس پاکستان کو دنیا سے مثبت انداز میں متعارف کروانے کے لیے ایک انتہائی اہم موقع ہے، ہمارے بڑے بزنس لیڈرز کو اس پلیٹ فورم میں شرکت کو اہمیت دینی ہوگی، کیوں کہ جیسے انھوں نے کاروبار کے میدان میں کام یابیاں حاصل کی ہیں، یہاں بھی ان کا چرچا ہونا ضروری ہے۔ دنیا  بھر کے امیر ترین، طاقت ور اور صاحبان علم کے حلقوں کا اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ عالمی اقتصادی فورم معاشی، سماجی اور سیاسی حوالے سے منعقد ہونے والا اہم ترین ایونٹ بن چکا ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کا مشن’’دنیا کے حالات میں بہتری‘‘ ہے جس کا اصل مفہوم عالمی لیڈز کے باہمی تعاون سے عالمی، خطے اور کاروباری ایجنڈے کی تشکیل ہے۔

عالمی اقتصادی فورم نے “Partnership Against Corruption Initiative” (PACI) نے آغاز کیا تھا، میں 2013سے اس کا رکن ہوں۔ اس کے ذریعے فورم کی کرپشن کے خلاف کاوشوں کو سمت دی گئی، اس گروپ کے اجلاس میں وہ اہم ترین لوگ شریک ہوتے ہیں جو کاروبار کے فروغ کے لیے بدعنوانی سے پاک ماحول کے لیے پالیسی سازی کے لیے کوشاں ہیں۔ اجلاس کے شرکا کرپشن سے نمٹنے کے مؤثر طریقوں اور انتظامی ڈھانچوں پر انحصار بڑھانے کے لیے میدان ہموار کرنے سے متعلق تجاویز دیتے ہیں۔

عالمی اقتصادی فورم میں دیگر کے ساتھ پاتھ فائنڈر اور مارٹن ڈو پاکستان کی نمایندگی کرتے ہیں۔ برسوں سے یہ دونوں ادارے مشترکہ طور پر ڈیووس میں پاکستان کے مثبت امیج کو فروغ دینے کے لیے کاوشوں میں مصروف ہیں۔ میرا بیٹا ضرار سہگل، ایک ڈبلیو ای ایف ینگ گلوبل لیڈر (YGL) ہے اور ڈیووس میں گروپ کی نمایندگی کرتا ہے۔ دونوں گروپس مشترکہ طور پر روایتی ’’پاکستان بریک فاسٹ‘‘ کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ تقریب بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو درپیش منفی امیج کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے مددگار ثابت ہوئی اور اس میں انتہائی نمایاں شخصیات شریک ہوتی ہیں۔

2018میں اس تقریب کے مہمان خصوصی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بہت درست نشاندہی کی تھی’’ آپ کے سامنے دو پاکستان ہیں۔ ایک جو سی این این دکھاتا ہے اور دوسرا حقیقی پاکستان‘‘۔ اس سے مراد عالمی میڈیا میں پاکستان سے متعلق منفی خبروں کو نمایاں کرنے کے چلن کی نشاندہی کرنا تھا۔ بدقسمتی سے پاکستان سے متعلق مثبت اور اچھی خبروں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ تاثر اور حقیقت کے مابین پائی جانے والی اس خلیج کو پاٹنے کے لیے پاکستان بریک فاسٹ نے اہم کردار ادا کیا  ہے۔ تقریب کے مہمان اعلیٰ پاکستانی قیادت کے ساتھ بڑی دلچسپی سے تبادلۂ خیال کرتی ہے۔ اس برس وزیر اعظم پاکستان اس تقریب میں شریک نہیں ہوسکے۔

عالمی اقتصادی فورم کے صدر اور سابق نارویجین وزیر خارجہ برگی برندے(Borge Brende) کا حالیہ ایک روزہ دورۂ پاکستان بلامبالغہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دورہ عالمی اقتصادی فورم کے پاکستانی اراکین کی برسوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔

رواں برس فورم میں وزیر اعظم عمران خان کی عدم شرکت سے یہ پیغام ملا کہ ہماری حکومت اس فورم کی اہمیت سے واقف نہیں۔ اپنے گزشتہ کالموں میں سے ایک میں لکھا تھا ’’ ہمارے سرکاری سفارتی عملے اور سرکاری میڈیا مشینری کی ذمے داری ہے کہ وہ پاکستان کے منفی تاثر کا ازالہ کرے۔ مگر ڈیووس بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کے لیے کام کرنے کے حوالے سے مسلسل ناکامی کی ایک زندہ مثال ہے۔‘‘ ایسے مواقعے ضایع کرنے کا رویہ تبدیل کرنے کا یہ سنہرا موقع ہے۔

عالمی اقتصادی فورم کے صدر کا دورہ مختصر سہی لیکن اپنی اہمیت کے اعتبار سے انتہائی غیر معمولی ہے اور مستقبل میں عالمی سطح پر باہمی تعاون بڑھانے کے اعتبار سے پاکستان کے لیے چشم کشا ثابت ہوسکتا ہے۔ فورم کے صدر وزیر اعظم عمران خان ، وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب، مشیر پیٹرولیم ندیم بابر، وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت رزاق داؤد، مشیر ماحولیاتی تغیرات، وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود، مشیر برائے انسانی وسائل ذوالفقار بخاری، سیکریٹری خارجہ سہیل محمود اور دیگر حکومتی ارکان سے ملاقات کریں گے۔ گزشتہ بیس برسوں میں عالمی اقتصادی فورم کے کسی صدر کا یہ پہلا دورۂ پاکستان ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالمی حالات پر کس طرح نظر رکھے ہوئے ہے۔

مرحوم جاوید اوکھائی کے صاحب زادے اور چیئرمین مارٹن ڈو گروپ علی اوکھائی، غیر معمولی صلاحیتوں اور وژن کا حامل کھرا پاکستانی ضرار اور میں صدر عالمی اقتصادی فورم کے اعزاز میں ظہرانہ دیں گے جہاں ان سے فورم کے عالمی ایجنڈے میں پاکستانی شمولیت سے متعلق روبرو اظہار خیال کا موقع ملے گا۔

امید کی جاتی ہے کہ پاکستانی حکام سے براہ راست ملاقاتیں عالمی برادری کے ساتھ معاشی، سماجی اور دیگر شعبوں میں باہمی تعاون کے فروغ میں معاون ثابت ہوں گی۔ صدر عالمی اقتصادی فورم کو پاکستان کے مسائل کا ذاتی مشاہدہ ہوگا تو وہ ان سے متعلق اپنی رائے عالمی سطح پر بھی پیش کریں گے جو مستقبل میں پاکستان کے لیے مفید ثابت ہوگا۔

(کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

The post پاکستان کے لیے عالمی اقتصادی فورم کی اہمیت appeared first on ایکسپریس اردو.

آڈیو ویڈیو تنازعہ

$
0
0

ہماری نئی حکومت آئے دن ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر ڈال رہی ہے، بے چارے عوام اس حوالے سے ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر منتقل کر رہے ہیں کہ اس کے پاس آئی ایم ایف کے پنجوں سے نکلنے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عوام کی قوت برداشت جواب دے رہی ہے۔

حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف سے جن کڑی شرائط کے ساتھ 6 ارب ڈالرکا قرض لیا ہے وہ شرائط اتنی سخت اور خلاف انسانیت ہیں کہ اس قسم کی شرائط کے ساتھ قرض دینا نہ صرف قرض لینے والے ملکوں کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے بلکہ انسانی قدروں کی بھی توہین ہے۔

ابھی بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات سے عوام نکلے بھی نہیں کہ ایک بار پھر بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی ’’نوید‘‘ سنائی جا رہی ہے۔ خبروں کے مطابق پاکستان کی حکومت اگلے ماہ سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کردے گی۔ اگلے تین ماہ میں آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد ہونا ہے۔ ایف بی آر کو ستمبر کے آخر تک 1,071 ٹریلین روپے ٹیکسوں کی مد میں جمع کرنے ہوں گے ۔

شیڈول کے مطابق بجلی کی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ بھی ہوگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کو جس حالت میں حکومت ملی تھی اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک 24 ہزار ارب روپے کا مقروض تھا۔ خزانہ خالی تھا، ملک کی معاشی بد حالی میں سب سے زیادہ ہاتھ پچھلے دس سال کی جمہوری حکومتوں کا ہے اور اس پر ندامت کرنے کے بجائے معاشی مشکلات کی ذمے داری نئی حکومت پر ڈالی جا رہی ہے اور عوام پر مہنگائی کے بوجھ کی ذمے داری موجودہ حکومت پر ڈال کر اس کے خلاف تحریکیں چلائی جا رہی ہیں وہ قابل افسوس بھی ہیں۔

حزب اختلاف کا ایک نکاتی ایجنڈا یہ ہے کہ کسی طرح حکومت کو ہٹایا جائے۔ اس حوالے سے مخالفانہ اور شرپسندانہ الزامات کا ایک طوفان کھڑا کردیا گیا ہے ان الزامات کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ کیا نئی حکومت پر کرپشن کا کوئی الزام اپوزیشن کی طرف سے لگا ہے؟

اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں کے مرکزی رہنما کرپشن کے الزامات میں جیل میں ہیں۔ اور حکومت نے اپنے دس ماہ سمیت پچھلے دس سال کے دوران کرپشن کے ارتکاب کی تحقیق کے لیے ابتدا کردی ہے اس حکومتی اعلان نے اپوزیشن کے درمیان ایک خوف پیدا کردیا ہے اور اپوزیشن کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح اس تحقیق سے بچ جائے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اور ’’خلائی مخلوق‘‘ تحقیق کے ارادے پر اٹل ہے اور ہر حال میں 24 ہزار ارب روپوں کی جانچ پڑتال پر مصر ہے۔

سابق حکمرانوں کے پاس اپنے آپ کو تحقیق سے بچانے کا صرف ایک راستہ ہے کہ ملک میں شدید انارکی پھیلائی جائے اس ’’نیک کام‘‘ میں وہ تمام جماعتیں شامل ہیں جو ماضی میں حکمرانوں کی ناقابل یقین کرپشن کی حصہ دار رہی ہیں۔ ان سب کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح عوام کو سڑکوں پر لایا جائے۔

عوام بجا طور پر موجودہ حکومت سے نالاں ہیں کہ مہنگائی کے پہاڑ ان کے سروں پر رکھ دیے گئے ہیں،  جو ان کی برداشت سے باہر ہیں، حکومت اور عدلیہ کی جانب سے آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے والوں کے خلاف تحقیق کے لیے ادارے ترتیب دیے گئے ہیں لیکن یہاں اس بات کی نشان دہی ضروری ہے کہ اول تو اس تحقیق کا دائرہ وسیع کیا جائے اور بلاتخصیص ان تمام لوگوں کے خلاف تحقیق کی جائے جن پر آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے کا قوی امکان ہے اور اس تحقیق کو تحقیق برائے تحقیق تک محدود نہ کیا جائے بلکہ اس کو انجام تک پہنچایا جائے۔

تاکہ ملک کرپٹ مافیا سے نجات حاصل کرسکے اگر ان خطوط پر تحقیق کی جائے تو اربوں کھربوں کے آمدنی سے زیادہ اثاثوں تک رسائی حاصل ہوجائے گی اور عوام مہنگائی کے عذاب سے نجات پانے کے قابل ہوجائیں گے۔

ہمارا ملک ایک پسماندہ ترین ملک ہے جہاں 50 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس غریب ملک کے عوام کو  کرپشن سمیت کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور بدقسمتی سے اس دوران کوئی ایک بھی ایسی حکومت نہیں آئی جس نے عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کی ہو۔ اپوزیشن کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ اس نازک موقع پر اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر آئی ایم ایف کے  قرض سے ملک کو نجات دلانے میں حکومت سے تعاون کرے تاکہ عوام جو مہنگائی کے پہاڑ تلے دبے ہوئے ہیں اس پہاڑ سے نکل سکیں۔

ہمارے جمہوری سیاستدان بڑے فخر سے کہتے ہیں سیاستدانوں کے درمیان اختلافات جمہوریت کا حسن ہوتے ہیں۔ اگر سیاستدانوں کے درمیان اختلافات جمہوریت کا حسن ہوتے ہیں تو سیاستدان آپس میں اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک دوسرے کے قریب آئیں اور ملک کو آئی ایم ایف کے انسان کش قرضوں سے بچانے کی کوشش کریں۔

اس حوالے سے تازہ واردات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ایک آڈیو ویڈیو عوام میں پیش کی گئی ہے جس میں نواز شریف کو سزا دینے والے جج کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ انھوں نے دباؤ کے تحت نواز شریف کو سزا دی ہے اس کے علاوہ بھی اور الزامات لگائے گئے ہیں۔ دوسرے ہی دن اس آڈیو ویڈیو کے حوالے سے مذکورہ محترم جج کا بیان آیا کہ آڈیو ویڈیو کی ساری باتیں جعلی ہیں مجھ پر نواز شریف کے خلاف فیصلہ سنانے کے حوالے سے کوئی دباؤ نہیں تھا۔ محترم جج صاحب نے اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کے لیے اپنے فیصلوں کا حوالہ بھی دیا ہے اور کہا ہے کہ نواز شریف کے خلاف دو کیسوں میں سے ایک فیصلہ نواز شریف کے خلاف اور ایک فیصلہ نواز شریف کے حق میں میرٹ پر کیا گیا ہے۔

آڈیو ویڈیو کا مسئلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حکومت سابق دس سالہ حکومتوں کی کارکردگی کی تحقیق کا آغاز کرنے جا رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو عدلیہ کا معاملہ ہے۔ عدلیہ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ حکومت اس تنازعہ میں فریق نہیں ہے، اس حوالے سے حکومت کوئی قدم اٹھاتی ہے تو اپوزیشن اس پر اعتراض اٹھا سکتی ہے۔ لہٰذا ہم یہ معاملہ عدلیہ پر چھوڑنا چاہتے ہیں۔ عدلیہ مکمل طور پر آزاد اور خودمختار ہے۔ عدلیہ جو فیصلہ کرے حکومت مکمل سپورٹ دے گی۔ اس معاملے میں حکومت کو فریق نہیں بننا چاہیے۔

عمران خان کی زیر صدارت حکومتی ترجمانوں کا اجلاس ہوا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اداروں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے لہٰذا (ن) لیگ کے ہتھکنڈوں اور اداروں پر حملوں کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ (ن) لیگ ماضی میں بھی عدلیہ پر دباؤ ڈالتی رہی ہے۔ لیکن یہ نیا پاکستان ہے اب ایسا نہیں چلے گا۔ اپوزیشن کا کوئی حربہ کامیاب نہیں ہوسکے گا۔

بلاشبہ آڈیو ویڈیو کا مسئلہ ایک سنگین مسئلہ ہے جس کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے۔ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ آڈیو ویڈیو کا مسئلہ بہت سنگین ہے (ن) لیگ نے جو الزامات لگائے تھے ، مذکورہ جج صاحب نے اس کی سختی سے تردید کی ہے۔ بابر اعوان سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اداروں کے خلاف سوچی سمجھی سازش کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔ احتساب کے عمل میں مزید تیزی لائی جائے گی۔ احتساب کا نہ رکنے والا عمل اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا۔ اپوزیشن متحد ہو بھی تو آئین اور قانون کی عملداری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ پاکستان اب بحرانی کیفیت سے نکل رہا ہے جلد ہی قوم کو اچھی خبریں ملیں گی۔ خدا کرے وزیر اعظم کا یہ بیان سچ ثابت ہو اور ملک بحرانی کیفیت سے باہر نکل آئے۔

The post آڈیو ویڈیو تنازعہ appeared first on ایکسپریس اردو.

فیصلہ کسی اپوزیشن کے پاس نہیں

$
0
0

تاجروں کے ایک دھڑے کی جانب سے اطلاع یہ ہے کہ آج یعنی بروز ہفتہ ہڑتال ہے اور اس دھڑے کی یہ کوشش ہے کہ ملک بھر میں کاروبار بند رہے۔ کئی اخبارات سامنے کھلے ہیں اورخبروں میں اپوزیشن بھی یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ ہڑتال ہو رہی ہے لیکن سرکار کا کہنا ہے کہ اس کے تاجروں کے ساتھ معاملات طے پا گئے ہیں لہذا اب ہڑتال نہیں ہو گی۔

یہ فیصلہ آج ہو جائے گا کہ ہڑتال ہوئی کہ نہیں ۔ ہر کوئی خود دیکھ لے گا کسی کو حکومت یا اپوزیشن کی آنکھیں مستعار لینے کی ضرورت نہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ان ہڑتالوں اور احتجاجی تحریکوں کی ضرورت کیوں پڑتی ہے، کیا اپوزیشن میں اتنی عقل بھی نہیں کہ وہ کسی اہم وجہ کے بغیر اپنی شوقیہ کوئی تحریک شروع کر دے۔ تحریک تو کسی کی جان نکال لیتی ہے یہ اتنی بڑی ریاضت ہے کہ اس کے بعد بحالی ِجسم و جاں میں برسوں لگ جاتے ہیں تب کہیں دوبارہ مصرع تر کی صورت نظر آتی ہے۔

حکومت اپنے وسائل کی وجہ سے بظاہر سب کچھ برداشت کر جاتی ہے لیکن ہڑتال کی صورت میں اسے جو دیمک لگ جاتی ہے وہ اپنے نشان چھوڑ جاتی ہے اور اگر کوئی تحریک پھیل جائے اور ٹڈی دل کی شکل اختیار کر جائے تو وہ درختوں کے تنوں کی چھال بھی چٹ کر جاتی ہے اور درخت رفتہ رفتہ سوکھ جاتا ہے۔  مگر یہ سب کیوں ہوتا ہے ایک نارمل حکومت میں یہ سب کچھ نہیں ہونا چاہیے۔

تھانیدار تحصیلدار وغیرہ ہر حکومت میں ہوتے ہیں امیر غریب بھی ہر ملک میں ہوتے ہیں ۔ اسی طرح کسی حکومت کے تمام محکمے اور اہلکار ہر حکومت میں کام کیا کرتے ہیں کوئی اپوزیشن اگر حکومت میں آجائے تو وہ کوئی نیا سیٹ اپ لے کر نہیں آتی جو عوام کے ہر دکھ کی دوا کر سکے۔ پرانے لوگوں سے کام چلاتی ہے ۔ یہی ہوتا آیا ہے اور یہی ہوتا رہے گا ۔

اب سوال یہ ہے کہ کچھ لوگ اقتدار میں آکر اور ایوانوں میں داخل ہو کر بھول کیوں جاتے ہیں، کیا وہ ہوتے ہی ایسے ہیں یا ایسے بن جاتے ہیں ، بنا دیے جاتے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ کوئی غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہو اور جہانبانی کے اسرار ورموز کا ماہر ہو ۔ ایک نارمل انسان اگر اپنی ذمے داری محسوس کرے تو وہ کسی گھر کی طرح ملک کا کاروبارِ حیات بھی چلا سکتا ہے ۔

نیک نیت حکمرانوں کی عوام بھی مدد کرتے ہیں اور ان کی انتظامیہ کے اچھے لوگ بھی ان کا ساتھ دیتے ہیں، بس ضرورت اتنی ہے کہ جو حکمران ہو وہ کسی نہ کسی کے سامنے اپنے آپ کو جوابدہ سمجھے۔ جوابدہی کا یہی احساس انسان کو ذمے دار فرض شناس اور ہر دلعزیز بنا دیتا ہے۔ تاریخ میں تو ایسے بادشاہ بھی گزرے ہیں جو جوابدہی کے احساس سے تڑپ جاتے رہے ہیں۔

دجلہ کے پل پر ایک بڑھیا نے سلجوق حکمران ملک شاہ کی سواری روک لی اور شاہی گھوڑے کی لگام پکڑ کر کہا کہ میرے ساتھ انصاف کرو ۔ ہٹو بچو والے آ گئے اور بڑھیا کو دور لے جانے لگے تو وہ چیخی ملک شاہ میرا حساب اس پل پر صاف کرو گے یا اگلے جہان کے پل پر۔ یہ سن کر بادشاہ کی رعونت ریزہ ریزہ ہو گئی اور وہ کانپتے ہوئے گھوڑے سے گرتے گرتے بچا اور بڑھیا سے معافی کے الفاظ ڈھونڈنے لگا ۔ چلیے اتنا نہ سہی اس سے کچھ کم احساس ذمے داری سے بھی کام چل سکتا ہے لیکن یہ کیا ہوا کہ بڑھیا تو کجا کوئی پرندہ بھی وہاں پر نہ مار سکے جہاں سے کسی کی سواری گزرنی ہو۔

میری عمر اپوزیشن کی رپورٹنگ کرتے گزر گئی اور میں آج کے ہی نہیں ان قائدین کو بھی جانتا ہوں جو آج کے رہنماؤں کے بزرگ اور استاد تھے کئی تحریکیں اور لاتعداد ہڑتالیں دیکھیں، جلسے جلوسوں میں آنسو گیس کھاتی میری آنکھیں، گیس کے ایک گولے کے گاڑی کے اندر پھٹنے سے خراب ہوئیں جس میں، میں بیٹھا ہوا تھا اور ہمیشہ یہ دیکھا کہ اپوزیشن نے حکمرانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا اور ان کمزوریوں کوتاہیوں سے طاقت حاصل کی ۔ مشاہدہ اور تجربہ بتاتا ہے کہ تحریک اپوزیشن نہیں حکومت چلاتی ہے اپنے ساتھ دشمنی وہ خودکرتی ہے۔

ہمارے نئے حکمرانوں کا معیشت کا فلسفہ ابھی بار آور نہیں ہورہا اس کے مطابق ابھی تک اوپر والوں کی دولت نیچے والوں تک گرنی شروع نہیں ہوئی اور کیا ہمارے حکمرانوں کو معلوم ہے کہ تحریک کی جان خوشحال طبقہ نہیں غریب ہوتے ہیں جن کے سامنے سوائے سر ٹکرانے کے کوئی اور راستہ موجود نہیں ہوتا۔ اس لیے حکومت سے گزارش ہے کہ وہ اگر یہ نہیں چاہتی کہ اس کا معاشی نظام درہم برہم ہو اور اس میں کوئی خلل واقع ہو تو وہ ہاتھ ہولا رکھے۔

آئی ایم ایف نے بتایا ہے کہ ابھی ڈالر کی قیمت اور بڑھے گی جب کہ حکومتی عہدیدار بھی یہ بات مانتے ہیں کہ مہنگائی بڑھی ہے اور ابھی مزید بڑھے گی تو بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اپوزیشن تو گویا یہ مستند حکومتی عہدیدار ہیں ۔ کوئی پاکستانی گڑ بڑ نہیں کرنا چاہتا ۔ حکمرانوں کا تو مسئلہ اقتدار ہو سکتا ہے لیکن پاکستانی عوام کا مسئلہ حالات میں استحکام ہے وہ اس قدر لاچار ہو چکے ہیں کہ ذرا سی تبدیلی سے بھی سہم جاتے ہیں۔ فیصلہ کسی اپوزیشن کے پاس نہیں حکمرانوں کے پاس ہے۔ اس سے زیادہ کیا عرض کروں۔

The post فیصلہ کسی اپوزیشن کے پاس نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

صادق وامین بینک

$
0
0

جب جب اور جتنا وقت آگے بڑھتاجاتاہے اور انسانیت پیچھے گھٹتی جارہی ہے تب تب ہمارے قائم کردہ نظریات کی تصدیق ہوتی جارہی ہے جو ہم نے نہایت حقیقت پسندانہ محنت کشانہ اور دیانت دارانہ تحقیق کے بعد  وضع کیے ہیں۔

ان میں ایک نظریے پر توکبھی کبھی بات ہوتی رہی ہے کہ جب لٹیرے نے سوچا کہ لوٹ کر واپس جانے کے بجائے عوام کی گردن پرمستقل سوار کیوں نہ ہوجائیں، چناں چہ اس نے ڈاکوکا ڈھاٹا کھول کردستارکیا اور خود کو لٹیرے سے چوکیدار اور ڈاکو سے محافظ بنالیا۔ پھر مسلسل چار پانچ ہزار میں ایک پندرہ فیصد اشرافیہ تشکیل دی جو پچاسی فیصد عوامیہ سے ’’حفاظت‘‘اور’’خدمت‘‘کامعاوضہ وصول کرنے لگی۔اور تقسیم کار یوں کی کہ عوامیہ صرف جسم سے کام لے اور دماغ کو ہرگز استعمال نہ کرے وہ ہماراکام ہے۔

سو ڈارون اور لیمارک کے ’’استعمال اور عدم استعمال‘‘ کے اصول پر عوام کے جسم مضبوط ہوکر کمائی کا ذریعہ بن گئے جب کہ ’’دماغ‘‘سکڑتے سکڑتے ’’نقطہ معدومیت‘‘پرپہنچ گئے، اس کے برعکس اشرافیہ کے جسم نازک اور دماغ بے پناہ ہوگئے اور آج یہ اشرافیہ اپنی اس انتہائی ہائی فائی کھوپڑیوں کی وجہ سے وہ سب کچھ کھینچ کر اپنی طرف لاتی ہے جو پچاسی فیصد کماتی ہے۔یہ تو ہوئی ایک بات دوسری بعینہ اس کی جیسی بات ہے بلکہ اسی کی ایک شاخ ہے۔اور وہ یہ کہ پرانے زمانے میں لوگ یا عوام اپنا اندوختہ بچانے کے لیے امیر اور  دولت مند لوگوں کے پاس رکھواتے تھے کہ کہیں چور ڈاکو ان کے غیرمحفوظ ہاتھوں، گھروں اور گٹھڑیوں سے نکال یا چھین نہ لیں۔

ان امانت داروں نے ترقی کرتے کرتے ساہوکاروں اور پھر بینکوں کی صورت اختیار کرلی جس میں لوگ اپنا وہ خون پسینہ حفاظت کے لیے رکھتے تھے کہ ہنگامی وقت میں کام آئے اور چوروں ڈاکووں کے ساتھ ساتھ ان کے اپنے ’’غیرمحفوظ ہاتھوں‘‘سے بھی بچا رہے۔لیکن یہ طریقہ چلتے چلتے آج اس نقطے پر پہنچاہے کہ بینک ہی ان کو لوٹنے لگ گئے ہیں۔

تازہ ترین خبروں کے مطابق جب کہ ریاست مدینہ کا قیام بہ ذریعہ ٹائم مشین عمل میں آچکاہے اور اس ریاست کے چپے چپے پرصادقوں اور امینوں کا مبارک سایہ جلوہ فگن ہوچکاہے ذرا جاکر بینک میں اپنا سرمایہ جمع کرایے اور پھر کچھ عرصے بعد پوچھیے تو برف کی سل کی جگہ آپ کو چلو بھر پانی ملے گا۔کیونکہ مختلف ٹیکسوں اور کٹوتیوں کی آگ سے وہ خود بخود پگل چکاہوتاہے۔

پیسے جمع کرنے پر کٹوتی،چیک بک پرکٹوتی، چیک کاٹنے پرکٹوتی، چیک نہ کاٹنے پرکٹوتی بائیو میٹرک پرکٹوتی بائیوسیکنڈری ،بائی گریجویشن ،بائی ماسٹرز کٹوتی،رمضان میں کٹوتی،عید پرکٹوتی،محرم پرکٹوتی، یوم پاکستان،یوم جمہوریت، یوم استقلال، یوم سایہ خدائے ذوالجلال اور پاک سرزمین شاد باد پرکٹوتی۔ منزل مراد پر کٹوتی۔اور اب تو کسی اکاؤنٹ میں تو انکم ٹیکس کی کٹوتی ہوگی حالانکہ اس نے نہ کبھی’’ان‘‘کیاہوگا اور’’نہ کم‘‘یعنی بیٹھے بٹھائے پتھر کی سل کا پانی ہوجانا۔غالب نے تو کہاتھا کہ

ضعف سے گریہ مبدل بہ دم سرد ہوا

اور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہوجانا

لیکن یہاں ضعف ہو یاصحت،طاقت ہویا کمزوری، مطلب یہ کہ باہر اگر کسی درخت کا پتہ بھی ہلے تو اندر اکاؤنٹ میں کٹوتی کی ہلچل مچ جاتی ہے۔ رحمان بابا کی دی ہوئی مثال اس سلسلے میں خاصی دل کشا چشم کشا اور عبرت کشا ہے فرماتے ہیں

نہ لہ کورہ چرتہ اوزم نہ سفر کڑم

بے سفرہ می غوسیگی لارد عمر

یعنی نہ تو میں اپنے گھر سے نکلتاہوں اور نہ کہیں سفر کرتاہوں لیکن پھر بھی میری عمر کا راستہ کٹتاجارہاہے۔اس دن ایک خیرخواہ نے ہم سے پوچھا،تمہارا بینک میں کوئی اکاؤنٹ ہے؟ ہم نے کہا ہے تو سہی۔پھر پوچھا کہ اس میں ایک لاکھ روپے سے زیادہ تو نہیں۔عرض کیا ہیں تو نہیں کیونکہ تنخواہ کو انکم ٹیکس کی نظرلگ چکی ہے۔اس لیے کبھی کبھی اپنے پیٹ اور ضروریات سے کٹوتی کرکے آیندہ کی فکر کے لیے کچھ بچابھی لیتے ہیں۔بولا۔مت بچاؤ ورنہ پھر تمہیں بینکوں کی ڈکیتی سے کون بچائے گا؟بات تو اس کی دل کو لگنے والی تھی،واقعی باہر کے چوروں لٹیروں سے تو کچھ منت سماجت اور اپنی غربت یا بڑھاپے کی دہائی دے کر کچھ ’’رعایت‘‘ تو حاصل کریں لیکن’’قوانین‘‘کا تو دل ہی نہیں ہوتا تو دہائی کسے دیں۔

پھر اس نے مزید ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ تم جب بینک میں کچھ جمع کرنے یا نکالنے جاتے ہو تو کیا کیاکرتے ہو۔ہم نے کہا کسی کرسی وغیرہ پربیٹھ کربینک کا ڈوری سے بندھا ہوا قلم لیتے ہیں اور ضرورت کے مطابق لکھتے ہیں بولا۔خبردار یہ ساری عیاشیاں چھوڑدو۔پہلے تو گھر سے سب کچھ لکھا لکھایا لے کرجاؤ،یہ نہ ہو تو جیب میں اپنا قلم لے کرجانا کیونکہ بینک کا بال پن مفت کا نہیں ہوتا بلکہ کسی جگہ بیٹھنا بھی نہیں اور وہاں پانی وانی ہرگز نہ پینا بلکہ ہوسکے تو سانس میں ذرا کفایتی لینا ورنہ ساری عیاشیوں کا اثر تیرے اکاؤنٹ پرپڑے گا پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی اور اب ہم سوچ رہے ہیں کہ جائیں  تو کہاں جائیں کہ

سرکاری بھی عیاری وبینکاری بھی عیاری

ہمیں ایک حکایت یاد آرہی ہے کہ دو بلیوں یا کتوں یا گیدڑوں کا ایک روٹی کی تقسیم پر پھڈا ہوگیا، دونوں ایک صادق وامین لومڑی کے پاس انصاف کے لیے گئے۔ منصف نے روٹی کو دو ٹکڑے کیا۔لیکن دانستہ ایک ٹکڑا چھوٹا دوسرا بڑا رکھا پھر انصاف کے ترازو میں تولا تو وزن دار ٹکڑے سے منہ میں ایک بڑا سا لقمہ کاٹ کرکھالیا،اس طرح کبھی ایک ٹکڑا کم کبھی دوسرا کم ہوتا اور اسے برابر کرنے کے لیے لومڑی اپنے منہ اور دانتوں کے ذریعے انصاف کرتی آخرکار باقی صرف دو نوالے بچے تو لومڑی نے دونوں ٹکڑے اٹھاکر منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔کہ آخرکار اتنا کڑا انصاف کرنے پر یہ میری مزدوری بھی اتنی بنتی ہے۔

The post صادق وامین بینک appeared first on ایکسپریس اردو.

صوبوں کا تیارکردہ نصاب ، مثبت پہلو

$
0
0

ایک سیاسی رہنما کو صوبوں کے تیارکردہ نصاب میں خطرناک مواد نظر آگیا۔ انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت نصاب کی تیاری صوبوں کے پاس جانے سے نصاب میں اسلام، پاکستان دشمن مواد شامل ہوگیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے نصاب میں چند اہم تہوار خون کا بدلہ ، شہری دفاع، پاکستان کے موسم، ادب کی اہمیت، تشریح اور ریل کہانی جیسے باب شامل کیے گئے ہیں۔ ان صاحب کا مطالبہ ہے کہ نصاب کی تیاری کا معاملہ وفاق کے پاس ہونا چاہیے تاکہ سچے مسلمان اور سچے پاکستان نوجوان تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہوں ۔

صوبوں کو نصاب کی تیاری کا حق چند سال قبل ملا۔ صوبے صرف اسکول اورکالج کی سطح کا نصاب تیار کرتے ہیں۔ ملک کی یونیورسٹیاں خود مختار ادارہ ہیں جو ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق نصاب تیار کرتی ہیں۔ نصاب کی تبدیلی کے سلسلے میں زیادہ کام سندھ اور پنجاب میں ہوا اور ان صوبوں میں اسکول کی سطح پر ایسا نصاب تیار ہوا جو بین الاقوامی معیار کے قریب تر ہے اور تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے شہری اس نصاب سے ایک حد تک مطمئن ہیں۔

ماہرین نے آئین کے آرٹیکل 22کی پاسداری کرتے ہوئے تاریخ، سماجی علوم اور زبانوں کے نصاب میں ایسے باب شامل کیے ہیں، جن سے مذہبی اور لسانی ہم آہنگی کو تقویت ملے گی اور ہر شہری اپنے مذہب کی تعلیمات حاصل کر سکے گا۔

پنجاب کے نصاب کی تیاری میں شریک ایک سینئر استاد ڈاکٹر پال تھے۔ نصاب کے خدوخال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نصاب کی بنیاد احترام انسانیت، انسانی حقوق کا شعور، صنفی برابری، مذہبی ہم آہنگی اور احترام مذہب پر ہے۔ اس نصاب کی تیاری میں اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا گیا ہے کہ بچوں کو یکطرفہ حقائق نہ بتائے جائیں اور مذہبی جنونیت کسی طور پر بچوں کے دماغوں کے نزدیک نہ آئے۔

ڈاکٹر پال مزید بیان کرتے ہیں کہ تحریک پاکستان میں اقلیتوں نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسی طرح 1965 اور 1971 کے اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے فوجی افسران اور جوان شہید ہوئے تھے۔ پاک فضائیہ کے افسر گروپ کیپٹن سیسل چوہدری نے 1965 کی جنگ میں ایک ہی حملے میں دشمن کے چار کے قریب طیارے مار گرائے تھے، یوں جسٹس اے آر کارلینس ، جسٹس بھگوان داس نے انصاف اور آئین کی بالادستی کے لیے تاریخی کردار ادا کیا تھا۔

جذام کے مریضوں کے لیے ڈاکٹر روتھ فاؤ نے زندگی وقف کی تھی۔ ان نمایاں شخصیات کا اس نصاب میں ذکر ملتا ہے۔ پاکستان کے فزکس کے شعبے میں نوبل انعام حاصل کرنے والے ڈاکٹر عبدالسلام کے بارے میں بھی ایک باب موجود ہے۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب میں احترام انسانیت اور انسانی حقوق کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔ اس نصاب میں پہلی دفعہ بچوں کو یہ بات بتائی گئی ہے کہ بنیادی انسانی حقوق مثلاً زندہ رہنے کے حق، تعلیم حاصل کرنے ، عقیدہ کی آزادی اور آزادئ اظہار جیسے حقوق کے تحفظ سے ہی اچھا معاشرہ قائم ہوسکتا ہے اور غربت و افلاس کے خاتمے کے لیے تیار کردہ پالیسیاں کامیاب ہوسکتی ہیں۔

اسی طرح ابتدائی جماعتوں سے لے کر اعلیٰ جماعتوں کے طلبہ کو صنفی مساوات کی اہمیت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ بچوں کے ذہنوں میں ابتدائی عمر سے ہی لڑکے اور لڑکی میں فرق کا تصور قائم نہ ہوسکے اور لڑکے ابتدائی عمر سے ہی اس حقیقت کو اپنے دماغ میں بٹھائیںکہ لڑکی کی تعلیم بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی لڑکے کی تعلیم اور بہن کے اتنے ہی حقوق ہیں جتنے بھائی کے ہیں۔ اسی طرح سندھ کے اسکولو ںکے نصاب میں مثبت تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ ابتدائی جماعتوں کے نصاب میں انسانیت کی عظمت ، ہر فرد کا احترام ، پڑوسیوں کے حقوق، مذہبی برابری اور صنفی مساوات اور انسانی حقوق کے احترام کے باب شامل کیے گئے ہیں۔ پھر ان سیاست دانوں کا ذکر شامل ہے جنھوں نے تحریک آزادی میں قربانیاں دیں مگر طالع آزما قوتوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے ان کا ذکر ممنوع قرار دیا۔

صوبوں نے اپنے تیارکردہ نصاب میں اپنی ثقافتی اقدار پر مبنی باب شامل کیے ہیں۔ سماجی علوم کے ماہر ڈاکٹر خضر جو سندھ میں نصاب کی تیاری کی کمپنی میں شامل تھے کہتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کے تصور کو اجاگر کرنے کے لیے نصاب میں تبدیلیاں کی ہیں۔ ڈاکٹر خضرکا کہنا ہے کہ بچوں کے سامنے رول ماڈل بیان کیے گئے ہیں۔ ان رول ماڈل میں پنجاب سے عارفہ کریم، پختون خواہ سے ملالہ یوسفزئی اور سندھ سے تعلق رکھنے والی بلقیس ایدھی شامل ہیں۔ کسی مذہب کے بارے میں منفی ریمارکس سے گریزکیا گیا ہے اور دنیا بھر کے ممالک سے دوستی کا درس دیا گیا ہے۔

نصاب کا معاملہ انتہائی حساس سمجھا جاتا ہے۔ بچوں کا ذہن ابتدائی جماعتوں میں پڑھائے جانے والے سبق سے فوری طور پر متاثر ہوتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب پاکستان امریکا کا اتحادی بنا اور افغان جہاد کا اسٹیک ہولڈر بن گیا تو امریکا نے سوویت یونین اور عوامی جمہوریت افغانستان کی حکومتوں کے خاتمے کے لیے مسلمانوں کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تو جہاد کو نصاب کا حصہ بنایا گیا اور مذہبی جنونیت پر مبنی مواد نصاب میں شامل کیا گیا۔

اس وقت مسلمان شہریوں کے علاوہ ریاستی شہریوں کے مذاہب کی تضحیک کو نصاب کا حصہ بنایا گیا۔  غیر مسلم شہریوں اور پڑوسی ممالک کوکافر قرار دے کر ان کو نیست و نابود کرنے کی تلقین کی گئی۔ یہ مواد اردو، اسلامیات، سماجی علوم اور تاریخ کے مضامین میں شامل کیا گیا۔ یوں طالب علموں حتیٰ کہ اساتذہ کے لیے بھی یہ سمجھنا مشکل ہوگیا کہ کون سا مضمون پڑھ رہے ہیں اور ہر مضمون میں ایک جیسا مذہبی مواد شامل کیا گیا۔ یہ معاملہ صرف اردو اور سماجی علوم کی کتابوں تک محدود نہیں رہا بلکہ سائنس کی کتابوں میں بھی مذہبی جنونیت پر مبنی مواد شامل ہوا۔

فزکس، کیمسٹری اور بائیولوجی کی ہر کتاب کے ہر باب کا آغاز مذہبی مواد سے ہونے لگا۔ یوں سائنسی ذہن بننے کے بجائے مخصوص ذہن تعلیمی اداروں سے نکلنے لگے جس سے معاشرے کی ساخت کو شدید نقصان ہوا۔کراچی یونیورسٹی کی استاد کہتی ہیں کہ اس صورتحال سے فرقہ وارانہ خلیج بڑھ گئی۔ ہر یونیورسٹی کی اسلامیات کی فیکلٹی میں فقہ کی بنیاد پر تعلیمی شعبے قائم ہوئے۔ اسلامیات ، تجارت ، معاشیات اور نظمیات کاروبار کے شعبوں میں ہونے والی تحقیق اسلامیات کے موضوع تک محدود ہوگئی۔ جب افغانستان کا جہاد ختم ہوا تو افغانستان میں متحرک کچھ مسلح گروہوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا رخ کیا۔ پاکستان کے ہر شہرکے تعلیمی اداروں سے نوجوان جہاد کے لیے جانے لگے۔ ان ہی گروہوں نے ملک میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ شروع کردی جس سے شیعہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر، انجینئر، اساتذہ، سرکاری افسر اور پولیس افسران نشانہ بنے، پھر دیگر فرقوں کے پروفیشنل افراد کو نشانہ بنایا جانے لگا۔

نائن الیون کی دہشت گردی اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد یہ نوجوان دہشت گرد تنظیموں کا حصہ بن گئے۔ ان مذہبی جنونی گروہوں نے جی ایچ کیو ، شاہراہ فیصل بیس سمیت فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ آرمی پبلک اسکول کے بچوں کو شہید کیا گیا اور ہزاروں افراد ان جنونیوں کی دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں اعلیٰ سطح پر یہ بات محسوس کی گئی کہ مذہبی جنونیت کی جڑوں کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مدرسوں میں جدید دور کے مطابق اصلاحات کی گئیں۔ جدید تعلیمی اداروں کا نصاب تبدیل کیا جائے۔

اس دور میں نصاب کی تبدیلی پر کام شروع ہوا تو  شورو غوغا کیا جانے لگا، یوں مذہبی جنونیت پھیلانے والوں کے حوصلے بڑھے۔ پشاور سے کراچی تک فوجی تنصیبات سے لے کر تعلیمی ادارے اور مذہبی عبادت گاہیں ان جنونیوں کے حملوں کا نشانہ بنیں۔ معاملہ صرف ملک کے اندر تک محدود نہیں رہا بلکہ برطانیہ، امریکا، مصر، انڈونیشیا اور سعودی عرب وغیرہ میں دہشت گردی کی وارداتیں ہوئیں۔ پشاور پبلک اسکول پر خودکش حملہ کے بعد نیشنل ایکشن پلان تیار ہوا۔ اس پلان کے تحت مدرسوں میں اصلاحات اور جدید تعلیمی اداروں کے نصاب کی تبدیلی کو لازمی قرار دیا گیا۔ پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے پہلی دفعہ 2015 میں نصاب کی تیاری کا کام شروع کیا۔

دونوں صوبوں کے ماہرین نے مسلسل کوشش کی اور ایسا نصاب تیار ہوا جو پاکستان کو مضبوط کرنے کے لیے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ہوسکے۔ ابھی کچھ ابتدائی کام ہوا ہے ،اس سلسلے میں خاصا کام ابھی باقی ہے ۔ پاکستان مذہبی دہشت گردی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے گرے ایریا میں شامل ہے۔ ایشیا اورمشرق بعید کی فنانشل ٹیررازم کے خاتمے کی ٹاسک فورس نے اکتوبر تک فنانشل ٹیررازم کے خاتمے کا ٹاسک دیا ہے۔ حکومت کالعدم جہادی تنظیموں کے خلاف کارروائی کررہی ہے۔ ایسے وقت میں شور مچانے کا فائدہ مذہبی جنونی قوتوں کو ہوگا۔ اگر نصاب کی تبدیلی کاکام روک دیا گیا اور رجعت پسند مواد کو دوبارہ نصاب کا حصہ بنایا گیا تو مذہبی جنونیت کو تقویت ملے گی اور پاکستان عالمی برادری میں تنہا رہ جائے گا۔

The post صوبوں کا تیارکردہ نصاب ، مثبت پہلو appeared first on ایکسپریس اردو.

شیخ صاحب کی ریلوے

$
0
0

ریلوے انگریز کا تحفہ تھا۔جب تک سیاستداں اور نوکر شاہ ٹرین میں سفر کرتے رہے اور انڈین ریلوے سے پاکستان ٹرانسفر ہونے والے افسر اور آپریشنل عملہ ریٹائر نہیں ہوا تب تک پاکستان ویسٹرن اور ایسٹرن ریلوے کی حالت خاصی بہتر تھی۔ضیا دور تک ریلوے بجٹ قومی بجٹ کا حصہ نہیں تھا بلکہ اسے الگ سے اسمبلی سے منظور کرایا جاتا تھا۔ محکمہ تعلیم اور فوج کے بعد سب سے زیادہ افرادی قوت ریلوے میں ہی کھپی ہوئی تھی۔

حال کا حال یوں ہے کہ جنوری دو ہزار پندرہ سے مئی دو ہزار انیس تک ساڑھے چار برس کے عرصے میں ریلوے انجن (لوکو موٹیو) بیچ سفر میں فیل یا خراب ہونے کے سینتیس سو سے زائد واقعات ہوئے۔صرف موجودہ سال کے پہلے پانچ ماہ میں ہی انجن فیل ہونے کے ایک سو گیارہ واقعات ہوئے۔دو ہزار تیرہ سے سترہ تک کے چار برس میں تصادم اور پٹڑی سے اترنے کے کل ملا کے تین سو اڑتیس چھوٹے بڑے واقعات ہوئے۔ ان میں ایک سو اٹھارہ جانیں گئیں۔

ایسا ہی تازہ ترین حادثہ دو روز پہلے صادق آباد میں ولہار اسٹیشن پر ہوا جب لاہور سے کوئٹہ جانے والی اکبر ایکسپریس غلط سگنل کے سبب لوپ لائن پر کھڑی مال بردار ٹرین سے ٹکرا گئی۔اکیس افراد ہلاک اور چھیاسی زخمی ہوگئے۔مرنے والوں کے لیے پندرہ لاکھ ، زخمیوں کے لیے پانچ لاکھ فی کس کا اعلان ، حادثے کی تحقیقات کا حکم اور لواحقین سے اظہارِ افسوس۔اللہ اللہ خیر صلی۔

گزشتہ ماہ کی بیس تاریخ کو حیدرآباد میں جناح ایکسپریس ایک کھڑی مال گاڑی سے ٹکرا گئی۔ انجن ڈرائیور اور اس کے دو معاون ہلاک ہوگئے۔وزیرِ ریلوے نے تب بھی حادثے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے گہرے دکھ کا اظہار کیا۔

جنوری دو ہزار سترہ میں بھی ریلوے کا ایک حادثہ پیش آیا۔حزبِ اختلاف کے رہنما عمران خان نے میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں کہیں بھی ریل کا حادثہ ہوتا ہے تو وزیرِ ریلوے استعفی دیتا ہے۔ اگر وہ استعفی نہ دے تو پھراس کے ہوتے صحیح معنوں میں تحقیقات نہیں ہو سکتیں۔ شائد خان صاحب کو تب تک یقین نہیں تھا کہ اس بیان کے ڈیڑھ برس بعد ان کی حکومت آ جائے گی جس میں ایک عدد وزیرِ ریلوے بھی ہوگا۔

پچھلے گیارہ ماہ میں ریلوے کے چھوٹے بڑے پچھتر حادثات ہو چکے ہیں۔مگر سب کی ذمے دار پچھلی دو حکومتیں ہیں۔کوئی ہفتہ نہیں جاتا جب خبر نہ آتی ہو کہ فلاں ٹرین پٹڑی سے اتر گئی ، فلاں ٹرین کی ڈائننگ کار میں آگ لگ گئی ، انجن فیل ہو گیا یا انجن کا ڈیزل ختم ہو گیا یا کھڑی ٹرین کو پیچھے سے آنے والی ٹرین نے ٹکر مار دی یا سامنے سے آنے والی ٹرین غلط سگنل کے سبب پٹڑی بدل کر کسی اور ٹرین سے جا ٹکرائی۔

صرف پچھلے ماہ ہی چار حادثات ہوئے۔آٹھ جون کو بولان ایکسپریس کو حادثہ پیش آیا۔پندرہ جون کو سکھر ریلوے یارڈ میں ٹرین شنٹنگ کرتے ہوئے پٹڑی سے اتر گئی۔سولہ جون کو روہڑی کے قریب مال گاڑی پٹڑی سے اتر گئی۔  اٹھارہ جون کو جناح ایکسپریس کی ڈائننگ کار میں آگ لگ گئی۔مگر سات جولائی کو وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک اور ٹرین سروس کا فیتہ کاٹتے ہوئے کسی بھی ریل حادثے کا ذکر کیے بغیر شیخ رشید صاحب کو یوں خراجِ تحسین پیش کیا کہ ’’ جس طرح آپ جنونی انداز میں ریلوے کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں سارا پاکستان آپ کو دعائیں دے گا۔مجھے بہت خوشی ہوتی ہے جب آپ بار بار مجھ سے نئی ٹرین کا آغاز کرواتے ہیں ’’۔

شیخ رشید صاحب پچھلے چھ ماہ میں خان صاحب کو ایسی کم از کم پچیس خوشیوں کا تحفہ دے چکے ہیں۔ایک جانب وہ کہتے ہیں کہ پینتیس ارب روپے کی پنشن اور تیس ارب روپے کی تنخواہوں کے سبب ریلوے سالانہ چھ ارب روپے خسارے میں جا رہا ہے۔ کراچی تا پشاور اٹھارہ سو بہتر کلو میٹر ٹریک کو نیا کرنے کی اشد ضرورت ہے ، لگ بھگ ڈھائی سو نئی مسافر ویگنیں اور بیس سے زائد نئے لو کو موٹیو آنے والے ہیں۔

مگر اس نہتے پن اور فقراہٹ کے باوجود انھیں ہر ماہ کم ازکم دو نئی ٹرینیں چلانے کا بھی شوق ہے۔بھلے اس کے لیے پرانے ڈبوں کو رنگ و روغن ہی کیوں نہ کرنا پڑے یا اپنی مدت پوری کر چکے پنشن یافتہ انجنوں کو ہی کیوں نہ ٹریک پر جوتنا پڑے۔یوں روزانہ ایک سو چھتیس مسافر ٹرینیں اور پچپن مال بردار ٹرینیں رواں ہیں۔جب کہ دس ہزار نفوس پر مشتمل تربیت یافتہ عملے کی قلت اپنی جگہ برقرار ہے۔چنانچہ مینٹیننس اور آپریشن کے سنگین مسائل بھی اپنی جگہ برقرار ہیں۔

انیس سو تریپن میں جھمپیر پر ٹرین کے حادثے میں دو سو سے زائد مسافروں کی ہلاکت سے اب تک ٹرین کے ایسے نو بڑے حادثات ہو چکے ہیں جن میں مجموعی طور پر ڈھائی ہزار سے زائد جانیں جا چکی ہیں۔ آج تک کسی وزیرِ ریلوے نے استعفی نہیں دیا۔ حادثات کی جو تین بنیادی وجوہات انیس سو تریپن میں تھیں آج چھیاسٹھ برس بعد ہی وہی وجوہات نوے فیصد حادثات کا سبب بن رہی ہیں۔ یعنی پٹڑیوں کی خستہ حالت ، سگنلنگ کا فرسودہ نظام اور عملے کی جدید تربیت کا فقدان۔

کہنے کو ایک ریلوے ٹریننگ اکیڈمی بھی ہے مگر اس کا ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے کوئی لینا دینا نہیں۔کہنے کو اسلام آباد میں ریلوے کیرج فیکٹری بھی ہے۔کبھی یہاں مقامی ضروریات کے علاوہ بنگلہ دیش اور افریقی ممالک کے لیے بھی ٹرین کے ڈبے آرڈر پر تیار ہوتے تھے۔آج ہماری ٹرینوں کے لیے بھی ڈبے باہر سے آتے ہیں۔مشرف دور میں جب جاوید اشرف قاضی وزیرِ ریلوے تھے تو ایک چینی کمپنی سے لوکو موٹیو خریدے گئے۔چند ہی مہینوں بعد ان کے فرش میں کریکس پڑنے شروع ہو گئے اور وہ ریپئیرنگ کے محتاج ہو گئے۔کچھ چھان بین بھی شروع ہوئی۔جانے پھر کیا ہوا۔البتہ یہ ضرور ہوا کہ بقول شیخ رشید اس وقت ریلوے کے آدھے افسر نیب کے سوالنامے بھگت رہے ہیں۔ایسے میں ریلوے کیا نہائے گی کیا نچوڑے گی۔

اب ساری امیدیں سی پیک کے تحت پشاور تا کراچی مین لائن ون کو جدیدیانے کے خواب سے جوڑ دی گئی ہیں۔ یعنی اگلے پانچ سے دس برس میں اگر یہ منصوبہ مکمل ہو گیا تو ریلوے کے حادثات کم ہو جائیں گے۔خود شیخ رشید نے گزشتہ برس دعوی کیا کہ وہ دو برس میں ریلوے کو مالی لحاظ سے اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیں گے۔ تب تک کیا شیخ صاحب بھی اپنے پاؤں پر کھڑے رہیں گے؟ اگرچہ شیخ صاحب دوسری بار وزیرِ ریلوے بنے ہیں مگر تاثر یہ دے رہے ہیں گویا پہلی بار بنے ہوں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)

The post شیخ صاحب کی ریلوے appeared first on ایکسپریس اردو.

کراچی کے مسائل اور مصطفیٰ کمال کی آفر

$
0
0

آج کل کراچی میں پانی کے مسئلے کے حل کے سلسلے میں ایم کیو ایم پاکستان کی احتجاجی تحریک جاری ہے۔ شہر میں جگہ جگہ ’’کراچی کو پانی دو‘‘ کے بینر لگتے نظر آرہے ہیں۔ یہ پارٹی حال ہی میں کراچی پریس کلب کے سامنے بھی ایک احتجاجی جلسہ منعقد کرچکی ہے۔کیا ایم کیو ایم اپنی اس احتجاجی تحریک کے ذریعے پانی کے مسئلے کو حل کرانے میں کامیاب ہوجائے گی؟

شاید ایسا ہرگز نہ ہوسکے، اس لیے کہ پاکستان پیپلز پارٹی سے ایم کیو ایم کے گہرے سیاسی اختلافات کی وجہ سے حکومت سندھ ان کے کسی احتجاج کو کوئی اہمیت دیتی نظر نہیں آتی۔ اختلاف کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے نئے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کے بجائے تحریک انصاف سے ہاتھ ملالیا ہے، چنانچہ لگتا ہے حکومت سندھ جانتے بوجھتے کراچی کے مسائل سے سرد مہری برت رہی ہے مگر اس دفعہ تو کراچی والوں نے تحریک انصاف کو بھی شہری مسائل کے حل کے لیے ووٹ دے کر ان کے کئی امیدواروں کو کامیاب کرایا ہے، تاہم مسئلہ وہی ہے کہ تحریک انصاف بھی سندھ میں حزب اختلاف میں ہے۔ پھر وہ وفاق کی پیروی میں سندھ میں بھی سیاست اور سیاستدانوں کو زیر کرنے میں اس طرح مصروف ہے کہ اس کے پاس کراچی کے شہریوں کے مسائل حل کرنے کے لیے وقت ہی کہاں ہے؟

ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے تلخ تعلقات کے مد نظر عوام کو ایم کیو ایم کی احتجاجی تحریک محض نمائشی ہی نظر آتی ہے۔ لگتا ہے وہ اپنے میئر کو عوامی غضب سے بچانے کے لیے سندھ حکومت کے خلاف احتجاجی حربہ اختیارکرتی رہتی ہے۔ ادھر حکومت سندھ کراچی کے مینڈیٹ سے محرومی کا بدلہ کراچی کے مسائل سے عدم دلچسپی کی صورت میں لے رہی ہے پھر شہری مسائل کے حل کے سلسلے میں اس کے پاس ٹائم ہی کہاں ہے۔کراچی کے مسائل کا تو ذکر ہی کیا اسے تو اپنے خاص گڑھ لاڑکانہ شہر کی بھی کوئی فکر نہیں ہے۔ حالانکہ یہ وہ شہر ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کا آبائی شہر ہے۔ اس شہر کو تو پیپلز پارٹی کو ایک ماڈل شہر کا درجہ دینا چاہیے تھا پھر سندھ کے دوسرے شہروں کی بھی کم و بیش ایسی ہی ابتر صورتحال ہے۔ ایسے میں میئرکراچی کا ولولہ تو دیکھیے کہ وہ کراچی کو پیرس سے بھی زیادہ صاف ستھرا اور خوبصورت شہر بنانے کا عزم رکھتے ہیں مگر ان کے مطابق ان کے اختیارات میں کمی کرکے انھیں ایسا کرنے سے روک دیا گیا ہے۔

انھوں نے ایک پریس کانفرنس میں گلہ کیا ہے کہ حکومت سندھ نے ریونیو دینے والے تمام محکمے اپنے پاس رکھ لیے ہیں ایسے میں وزیر اعلیٰ سندھ بتائیں کہ ہم ریکوری میں اضافہ کہاں سے کریں۔ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے تحت انھیں جو فنکشن دیے گئے ہیں ان میں کوئی ریونیو دینے والا نہیں ہے۔ صرف چڑیا گھر کے ٹکٹوں اور دکانوں کے کرائے سے تو بلدیہ اپنے اخراجات پورے نہیں کرسکتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے جن محکموں پر حکومت سندھ نے قبضہ کرلیا ہے وہ اگر انھیں واپس کردیے جائیں تو پھر انھیں حکومتی امداد کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔

میئر کراچی کا یہ رونا دھونا نیا نہیں ہے وہ شروع سے ہی کراچی کے مسائل کو حل کرنے سے متعلق عوامی احتجاج کو اپنے اختیارات میں کمی اور ریونیو پر حکومتی قبضے کی شکایت کرکے رد کردیتے ہیں۔ بہرحال کراچی کے عوام اب ایم کیو ایم، سندھ حکومت اور وفاق کی جانب سے ان کے مسائل کے سلسلے میں انھیں چپ کرانے کے ہتھکنڈوں سے اچھی طرح واقف ہوچکے ہیں۔ ایم کیو ایم مسائل کا ملبہ فنڈز کی عدم دستیابی کا بہانہ بناکر سندھ حکومت پر ڈال دیتی ہے اور سندھ حکومت یہ وفاقی حکومت پر ٹرانسفر کردیتی ہے تاہم ان تینوں کے اس خطرناک کھیل سے کراچی کے مسائل میں روز بروز مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اس وقت شہر میں پانی کی شدید قلت ہے، مگر یہ قلت صرف اسی سال تو نہیں ہوئی ہے ہر سال ہی گرمیوں میں پانی کا مسئلہ شدید ہو جاتا ہے۔ افسوس کہ اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی حقیقی کوشش نہیں کی گئی۔ حال ہی میں پانی کے مسئلے پر کراچی میں ایک پانی کانفرنس کا انعقاد ہوچکا ہے جس میں کراچی کے تمام اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی تھی۔ کراچی کے شہری پرامید تھے کہ اس کانفرنس کے ذریعے انھیں پانی کے مسئلے پر قابو پانے کے سلسلے میں کوئی خوش خبری سنائی جائے گی اور اس دیرینہ مسئلے کے حل کے لیے حقیقی ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے لیکن افسوس کہ نہ تو میئر کراچی نے اس کانفرنس کو کامیاب بنانے کی کوشش کی اور حکومت سندھ نے تو عوام کے ساتھ کھلا مذاق کیا۔

اس نے پانی کے مسئلے کو حل کرنے کی بات کرنے کے بجائے وفاق سے اس کے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتیوں کا ذکر چھیڑ دیا یوں یہ پانی کانفرنس بے نتیجہ ثابت ہوئی مگر اس کے ذریعے عوام کو یہ دھوکہ دینے کی کوشش کی گئی کہ سندھ حکومت پانی کے مسئلے پر سنجیدہ ہے۔ سندھ حکومت نے ایک بار پھر کے فور منصوبے کے کام کو آگے بڑھانے کی بات کی ہے اور اس منصوبے میں تاخیر کا ملبہ سابقہ پروجیکٹ ڈائریکٹرکے سر تھوپ کر ان کے خلاف انکوائری کا فیصلہ کیا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سندھ حکومت نے اس منصوبے کے کام میں سست روی دیکھی تھی تو اس وقت اس کا کیوں نوٹس نہیں لیا گیا تھا اب اپنی غلطی کو چھپانے کے لیے پروجیکٹ ڈائریکٹر کو نشانہ بنانا سراسر زیادتی ہے۔ بہرحال اب کراچی کے شہری اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ سندھ حکومت تمام بلدیاتی اداروں سے ریونیو وصول کرنے میں طاق ہے مگر اسے کراچی کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے ایم کیو ایم سے اپنے سیاسی اختلافات کے باوجود پانی کا محکمہ فوری طور پر اس کے حوالے کرنے پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پانی کے مسئلے پر بلائی گئی پانی کانفرنس میں شریک بہت سے لوگوں کو اس مسئلے کے حل کا پتا ہی نہیں ہے۔ انھوں نے کہا پانی کے مسئلے کو سیاسی بنانے کے بجائے انسانی مسئلے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ ان کے مطابق پانی کے مسئلے کے حل کی نہ حکومت اہل ہے اور نہ ہی ایم کیو ایم اسے سنجیدگی سے لے رہی ہے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ کمال کی میئری کے زمانے میں کراچی کے عوام بنیادی شہری مسائل کے سلسلے میں بالکل مطمئن تھے اس لیے کہ انھوں نے شہر کے لیے خلوص دل سے کام کیا تھا۔ شہریوں کی جو خدمت انھوں نے کی نہ ان سے پہلے کوئی کر سکا اور نہ بعد میں چنانچہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان کی آفر کو قبول کرکے انھیں شہر کے مسائل کو حل کرنے کا موقع فراہم کرے۔ مصطفیٰ کمال نے حال ہی میں عوام کی مشکلات کو دور کرنے اور انھیں راحت پہنچانے کی خاطر رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ انھوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ صرف چھ مہینے میں کراچی کے پانی سمیت تمام مسائل حل کرکے عوام کو ان مسائل سے نجات دلا سکتے ہیں۔

لگتا ہے صوبائی حکومت تو ان کی اس بے لوث پیشکش پر کان نہیں دھرے گی مگر وفاقی حکومت اگر چاہتی ہے کہ کراچی کے عوام کی جان مسائل سے چھڑائی جائے تو پھر اسے مصطفیٰ کمال کی اس آفر سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔ مصطفیٰ کمال گوکہ اس وقت اپنی پارٹی کی تنظیم نو کے سلسلے میں بہت مصروف ہیں مگر اس کے باوجود وہ عوامی مسائل کے حل کے لیے وقت دینے کے لیے تیار ہیں تو اس سے ان کی کراچی کے عوام سے محبت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ انھوں نے اپنی میئر شپ کے زمانے میں بلدیہ کراچی کو ترقی یافتہ ممالک کی بلدیات کی صف میں لاکھڑا کیا تھا۔ ان کی کارکردگی کی ملکی سطح پر تو تعریف و توصیف ہو ہی رہی تھی بین الاقوامی سطح پر بھی انھیں خراج تحسین پیش کیا گیا تھا۔ کراچی کے بزرگ شہریوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ الیکشن میں انھیں موقع نہ دے کر یقینا شہری مسائل کے حل کا نادر موقع کھو دیا گیا مگر امید ہے کہ اب ایسا نہیں ہوگا اور اکیس جولائی کو باغ جناح کراچی میں منعقد ہونے والے پی ایس پی کے جلسے میں جوق در جوق شرکت کرکے عوام اپنے مسائل کے حقیقی اور دائمی حل کی جانب پیش قدمی کریں گے۔

The post کراچی کے مسائل اور مصطفیٰ کمال کی آفر appeared first on ایکسپریس اردو.


خواہش

$
0
0

چند دن قبل کی بات ہے جب اخبارات اور ٹی وی چینلزکے ذریعے یہ خبر طشت ازبام ہوئی کہ ساتویں جماعت کے طالب علم کو معمولی سی طبیعت خراب ہونے پر لانڈھی میں واقع لایا گیا، بچے کو انجکشن دیا گیا جو غلط تھا، ذرا سی ہی دیر میں اس کا دایاں ہاتھ سیاہ رنگت اختیارکرگیا، چنانچہ والدین نے پریشانی کے عالم میں اسپتال میں دکھایا، جہاں اس کی جان بچانے کے لیے اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔

یہی ایک حل تھا ورنہ زہر اس کے دل و جاں کو مفلوج کردیتا اور وہ جان سے جاتا اس نے ٹی وی اینکروں اور اخبار کے صحافیوں سے کہا کہ میں آرمی میں جانا چاہتا تھا لیکن ان لوگوں نے تو مجھے معذورکردیا ہے۔

یہ پہلا واقعہ ہرگز نہیں ہے، اس طرح کے واقعات ، کراچی جیسے بڑے شہر میں آئے دن ہوتے ہیں، جہاں غفلت اور لاپرواہی کے تحت غیر تربیت یافتہ عملے کو مریضوں کی جانوں سے کھیلنے کے لیے شتر بے مہار کی طرح کھلا چھوڑ دیا ہے، اس کی وجہ تعلیم یافتہ حضرات کم تنخواہوں پر ملازمت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں لہٰذا ان لوگوں کو بھرتی کرلیا جاتا ہے جو اسپتالوں میں وارڈ بوائے کی حیثیت سے کام کر رہے ہوتے ہیں۔

بوقت ضرورت ان سے انجکشن لگوانا اور چھوٹے موٹے کام جس میں مریض کی تیمار داری اور تھرما میٹر کا استعمال شامل ہوتا ہے، اس طرح کے کام باقاعدگی سے کروائے جاتے ہیں، بس یہی ان کی ٹریننگ ہوتی ہے اور چند ہفتوں یا ایک دو ماہ بعد ہی ان کی تقرری سفارش اور تعلقات کی بنا پر آسانی سے ہوجاتی ہے یہ لوگ میڈیکل کی الف، بے سے نابلد ہوتے ہیں اور یہ نیم حکیم کا کردار ذمے داری کے ساتھ انجام دیتے ہیں اس طرح اسپتال انتظامیہ کو بہت معمولی سے تنخواہ پر ایک ڈاکٹر میسر آجاتا ہے۔ جو سارے کام کرتا ہے اور بے ضمیر ڈاکٹروں اور اسپتال کے عملے کی آشیر باد وصول کرتا ہے۔ تمام اسپتالوں میں خواہ نجی ہوں یا سرکاری ایسی ہی صورتحال ہے۔

شہر میں مہنگے اسپتال بھی ہیں جو علاج کی علیحدہ فیس وصول کرتے ہیں جوکہ لاکھوں میں ہوتی ہے اور اگر مریض جان کی بازی ہار جائے تو یہ بڑے اسپتال ڈیڈ باڈی کی حوالگی کی فیس بھی لاکھوں میں ہی وصول کرتے ہیں، اکثر اوقات یہ بھی دیکھا گیا کہ ڈیڈ باڈی کو وینٹی لیٹر پر لٹا دیتے ہیں، جدید دور کی مشینری کے ذریعے دل کی دھڑکن چلنے لگتی ہے یہ کمال آلہ تنفس کے ذریعے دکھایا جاتا ہے اس کی فیس علیحدہ، بہت کم مریض ایسے ہوتے ہیں جو وینٹی لیٹر سے بحفاظت اتار لیے جاتے ہیں اور زندگی انھیں خوش آمدید کہتی ہے۔

بے شک زندگی اور موت اللہ کے اختیار میں ہے مگر زندگی سے کھیلنا اسے موت کے منہ میں دھکیلنا ڈاکٹروں کی ذمے داری، نتیجے میں ایک بڑی رقم ہاتھ لگ جاتی ہے، اسے کہتے ہیں ’’ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آئے‘‘، ایسے سانحات بھی سامنے آئے ہیں کہ مریض گہری بے ہوشی میں چلا گیا اور کئی گھنٹے ہوش نہیں آیا تو اسپتال انتظامیہ نے اسے مردہ قرار دے دیا، غسل اور تدفین کی ذمے داری بھی خوش اسلوبی سے انجام دے ڈالی اور پھر اسپتال سے لاش گھر بھیج دی جاتی ہے، ایسا ہی ایک واقعہ منظر عام پر آیا جسے سن کر لوگوں کے دل دہل گئے۔

ایک شخص کا انتقال ہوگیا، اطلاع ملتے ہی گھر کے سامنے شامیانے لگوانے کا انتظام ہونے لگا اور ایمبولینس نے مرنے والے کو اس کے گھر پہنچادیا، تھوڑی ہی دیر میں مرحوم کے عزیز و اقارب کی آمد شروع ہوگئی پورا گھر میت کا دیدار کرنے کے لیے کھچا کھچ بھرگیا، اسی اثنا میں منظر بدلتا ہے اور لاش اٹھ کر بیٹھ جاتی ہے اور حیران و پریشان ہوکر سوالات داغنے لگتی ہے کیا ہوا مجھے؟ سارے لوگ کیوں جمع ہیں؟ لوگ ڈر کے مارے ادھر دھر بھاگے لیکن کچھ دانا حضرات نے ہمت پکڑی اور اصل معاملے تک پہنچ گئے دراصل ہمارا مریض بے ہوش ہوگیا تھا اور اب ہوش آگیا ہے۔

ایک اٹھائیس سالہ نوجوان کے ساتھ یہاں تک ہوا کہ اسپتال سے اس کی لاش پہنچی تھوڑی ہی دیر میں لاش جنازے میں بدل گئی اور نماز جنازہ کے بعد لوگ اسے قبرستان کی طرف لے چلے اور تدفین عمل میں آگئی جب سوم والے دن مرحوم کے لواحقین فاتحہ خوانی کے لیے آئے تو گورکن نے بتایا کہ کل سے قبر ہلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے اور کچھ آوازیں بھی سنائی دیں۔

اسی وقت انتظامیہ اور پولیس کی مدد سے قبرکشائی ہوئی اندر کا حال دیکھ کر لوگوں نے اپنا سر پکڑ لیا، ڈاکٹر نے چیک اپ کیا تو پتا چلا اس کا انتقال تو چند گھنٹے قبل ہوا ہے تدفین کے چند گھنٹے بعد اسے ہوش آیا تب بند کوٹھڑی سے نکلنے کی کوشش کی نتیجے میں کفن پھٹا اور ہاتھوں میں خراشیں اور انگلیوں میں خون جما ہوا اس بات کا گواہ تھا کہ مرحوم نے زندگی بچانے کے لیے جی جان سے کوششیں کیں تو یہ حالات ہیں اسپتالوں کے۔

سرکاری اسپتالوں میں اس قسم کے واقعات آئے دن رونما ہوتے ہیں جب لاشیں زندگی کی دولت سے مالا مال ہوکر اسپتال والوں سے لڑنے جھگڑنے چلی آتی ہیں اور پھر پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو اعتراض کرتے ہیں کہ تینوں اسپتال ہمارے ہیں، وفاق ان پر کیسے قبضہ کرسکتا ہے، خیر اب تو دوبارہ پیپلز پارٹی کو اسپتال مل گئے ہیں اب انھیں ازسر نو تعمیر و تشکیل اور انتظام کے حوالے سے اپنی مثال آپ بنانا ہوگا تب یہ دعویٰ کرنا بھی اچھا لگے گا کہ حکومت سندھ کی ملکیت میں یا پیپلز پارٹی کا ان پر حق ہے، حقدار اپنا حق ادا کریں ویسے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھیں کہ پاکستان کسی کی جاگیر نہیں ہے یہ سب کا ملک ہے خصوصاً ان کا جنھوں نے بے شمار تکلیفیں جھیلیں آگ اور خون کا دریا پار کیا تب کہیں آزاد وطن حصے میں آیا تمام پاکستانیوں کو بغیر کسی تفریق کے سہولتیں فراہم کرنا حکومت کا کام ہے۔

مقتدر حضرات نے ہمیشہ اپنے فرائض سے چشم پوشی کی، آج ان کی اسی خودغرضی نے سب سے زیادہ نقصان غربا کو پہنچایا ہے نہ تعلیمی ادارے سلامت ہیں اور نہ ہی زندہ رہنے کے لیے بنیادی ضرورتیں موجود ہیں، آئے دن دردناک واقعات سامنے آتے ہیں، ایک ایک انجکشن کو بار بار استعمال کیا جاتا ہے، اگر مریض سرنج خود خرید کر لادیں تب موقع پاتے ہی پرانی سرنج استعمال کرتے ہیں اور نئی سرنج دوبارہ اپنے اسپتال کے میڈیکل اسٹور میں پہنچ جاتی ہے۔

ایسے طالب علم جو آگے پڑھنے کے خواہش مند ہیں اور وہ کسی حادثے میں ہاتھ یا پیر سے معذور ہوگئے ہیں تو ان معماران پاکستان کے مصنوعی ہاتھ، پیر اور ان کا مکمل علاج کروانے کی ذمے داری حکومت وقت کا اولین فرض ہے، رضیہ اسپتال میں معذور ہونے والا طالب علم بہت بااعتماد اور پرعزم تھا، وہ آگے پڑھنے کا خواہش مند تھا، لیکن سیدھا ہاتھ جس سے سب کام کیے جاتے ہیں اس کے کٹ جانے کے بعد سب خواب چکنا چور ہوگئے، مایوسی نے اس کی آنکھوں میں ڈیرہ ڈال لیا تھا اور دل پر لگنے والا محرومی اور مایوسی کے زخم نے اسے زندگی سے مایوس کردیا تھا، اس کے والدین خصوصاً والدہ نے حکومت سے کہا تھا کہ اس کے بچے کا علاج کروایا جائے ۔

اگر اسپتال کے منتظمین کو علاج کے لیے پابند کیا جائے اور قرار واقعی ایسی سزا دی جائے جو دوسروں کے لیے نشان عبرت بن جائے تو شاید آیندہ اس قسم کے واقعات میں کمی ہونے کے امکانات زیادہ ہوسکتے ہیں۔

The post خواہش appeared first on ایکسپریس اردو.

عثمان بزدار کا چیلنج

$
0
0

وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کو ابتدائی طور پر تین بڑے چیلنجز کا سامنا تھا ۔ اول ان کے سیاسی مخالفین نے ان کی وزیراعلی کے طور پر تقرری کو سیاسی میدان میں بہت زیادہ چیلنج کیا اور کہا کہ یہ تقرری پنجاب کے مفاد او رترقی کے خلاف ہے۔

دوئم تحریک انصاف کے اندر بھی ایک ایسا بڑا طبقہ موجود تھا جو سمجھتا تھا کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کا مقابلہ کرنے کے لیے عثمان بزدار کی تقرری سود مند نہیں ہوگی اور سوئم اہل دانش کی سطح پر بھی ان کی تقرری کو ایک کمزور وزیر اعلی کے طور پر لیا گیا تھا ۔یہ ہی وجہ تھی کہ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ پنجاب کا وزیر اعلی بہت جلد تبدیل ہوگا اور وزیر اعظم عمران خان کسی اہل فرد کو نیا وزیر اعلی نامزد کریں گے ۔ اس تناظر میں کئی بڑی سیاسی پیش گوئیاں مختلف ناموں کے ساتھ دی گئیں ، مگر وزیر اعلی پنجاب بدستور وزیراعلی پنجاب ہیں ۔

وزیر اعلی پنجاب کی حقیقی طاقت عمران خان ہیں اور وزیر اعلی سمجھتے ہیں کہ جب تک ان کو وزیر اعظم عمران خان کی حمایت حاصل ہوگی کوئی ان کو تبدیل نہیں کرسکے گا ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ تمام تر خدشات کے باوجود وزیر اعلی نہ صرف قائم ہیں بلکہ اب کافی متحر ک اور فعال بھی دیکھے جاتے ہیں ۔ ابتدائی طور پر ان کا بطور وزیر اعلی کردار اورآج کا کردار کافی مختلف ہے ۔ یقینی طور پر یہ سب کچھ انھوں نے کم عرصہ میں سیکھا او راب وہ وزیر اعلی کے طور پر بہت کچھ کرنے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔

؎بنیادی فرق سمجھنا ہوگا کہ لوگ جب بھی وزیر اعلی کا موازنہ کرتے ہیں تو ان کا مقابلہ شہباز شریف سے کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ شہباز شریف سیاسی اور وزیر اعلی کے طور پر بھی ایک بڑا وسیع تجربہ رکھتے تھے ۔ اس لحاظ سے عثمان بزدار کا مقابلہ شہباز شریف سے کرنا درست تجزیہ نہیں ہوگا ۔

یہاں وزیر اعلی عثمان بزدار کو داد دینی ہوگی کہ انھوں نے حالیہ پیش کردہ بجٹ میں جو سیاسی ، سماجی اور معاشی ترجیحات سمیت ترقی کا جو روڈ میپ پیش کیا ہے وہ کافی حد تک اپنے اندر جان رکھتا ہے ۔ اگرچہ ہمارے یہاں بڑے بڑے منصوبوں کا کاغذی طور پر اعلان تو کردیا جاتا ہے ، مگر عملدرآمد کا نظام کافی ناقص ہوتا ہے او رعملی طور پر وہ سب کچھ نہیں ہوتا جو بولا یا دکھایا جاتا ہے ۔ اس لیے وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہی ہے کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں جو کچھ ترقی کا منظر نامہ انھوں نے مختلف منصوبوں کی بنیاد پر پیش کیا ہے اس ترقی کی عملی تصویر سب کے سامنے واضح نظر آنی چاہیے ۔سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ان کی ترقی کا محور پنجاب کے چند شہری علاقے نہیں وہ پنجاب کی مجموعی ترقی جس میں شہری اور دیہی دونوں علاقے شامل ہیں کو بنیاد بنا کر عملا نتائج دینے کے خواہش مند ہیں ۔

سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ اس وقت سماجی شعبہ میں کافی سرگرم نظر آتے ہیں۔ جن میں یتیموں ، بیواؤں ، بزرگوں ، معذوروں ، اقلیتوں سمیت خواجہ سراؤں کے لیے 2019-20میں نئے منصوبے شامل ہیں ۔ مثال کے طور پر معذور افراد کے لیے ’’ ہم قدم پروگرام ، تیزاب سے جلنے والی یا تشدد کا شکار عورتوں کے لیے ’’ نئی زندگی پروگرام ‘‘ پنجاب احساس پروگرام جس میں 65برس سے زیادہ افراد کے لیے ’’ باہمت پروگرام ‘‘ کام کرنے والی خواتین ورکرز کے لیے 23ڈے کئیر سینٹر ، صحت انصاف کارڈ کا اجرا، بے روزگار نوجوانوں کے لیے بلاسود قرضے ، ہنر مند نوجوان منصوبے، پناہ گاہوں کا قیام ، ایسے اقدام ہیں جن کی سماجی شعبہ میں خاص اہمیت ہے ۔کیونکہ اس معاشرے میں سب سے زیادہ استحصال یا ظلم کمزور اور محروم طبقات کا ہورہا ہے۔

یہ کمزور طبقہ مختلف بنیادی نوعیت کی سہولتوں کی عدم فراہمی کے باعث مشکل زندگی کو گزار رہا ہے ۔یہ شعبہ عمومی طور پر ہماری حکومتی ترجیحات کا اہم حصہ نہیں رہا ۔ سرکاری دستاویزات میں ان منصوبوں کا ذکر تو ہوتا ہے مگر عملا اس میں ہمیں کوئی بڑے خاطر خواہ بہتر نتائج دیکھنے کو نہیں ملتے ۔

اسی طرح پنجاب میں نو جدید اسپتالوں کی تعمیر او رچھ نئی یونیورسٹیوں کا قیام اچھا فیصلہ ہے ۔ پنجاب میں ضلعی اورتحصیل کی سطح پر اسپتالوں اور اس میں بنیادی نوعیت کی بہتر سہولیات کی فراہمی کے لیے نئے اسپتالوں سمیت ایک بڑے ہنگامی آپریشن اور بڑی سرجری کی ضرورت ہے، کیونکہ اس مسئلہ نے عام لوگوں کی زندگیوں اور علاج کی سہولتوں کو ناممکن بنادیا ہے ۔تعلیم اور صحت ایسے منصوبے ہیں جس میں نجی شعبوں کی اجارہ داری کو ختم کرکے پبلک سیکٹر کے اداروں کو زیادہ متحرک اور فعال کرنا ہوگا۔

ساتھ ساتھ نجی شعبہ کے معاملات میں شفاف ریگولیٹری کے نظام کو شفاف بنانا ہوگا تاکہ نجی شعبہ کی جانب سے استحصال میں کمی ہو۔نجی شعبہ کا پھیلاؤ بری چیز نہیں بلکہ ان کو ریگولیٹ کرنا زیادہ اہم اور بنیادی کام ہے ۔ایک اچھی بات یہ ہے کہ وزیر اعلی پنجاب نے پنجاب کے مجموعی ترقیاتی بجٹ کا 30فیصد حصہ جنوبی پنجاب کے لیے مختص کیا ہے تاکہ اس میں معاشی سرگرمیوں کو بنیاد بنا کر نوجوانوں کو ترقی کے عمل میں سامنے لایا جائے ۔

ایک بڑا چیلنج پنجاب کی سطح پر نوجوان طبقہ ہے ۔ اس طبقہ میں پڑھے لکھے یا نہ پڑھ سکنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہیں جن کو یقینی طور پر بے روزگاری او رمعاشی بدحالی کا سامنا ہے ۔ اس طبقہ کے لیے ایک بڑے ہنگامی پروگرام کی ضرورت ہے جو نوجوانوں کو معاشی سرگرمیوں کا حصہ بنائے۔ اس کے لیے مائیکرو انٹرپنیور شپ طرز کے پروگراموں سمیت چھوٹی صنعتوں کے جال کو پھیلانا ہوگا ۔ کیونکہ ہر ایک کو روزگار دینا حکومت کے بس کی بات نہیں۔ حکومت کا اصل کام ایک ایسا ماحول اور سازگار معاشی حالات پیدا کرنے ہیں جو ملک میں معاشی ترقی کے نئے سے نئے مواقع کو پیدا کرسکے ۔خاص طور پر جو نوجوان پڑھ لکھ نہیں سکے ان کے لیے کچھ ایسے فنی تربیت کے عمل کو فروغ دینا ہوگا جو ان کو کچھ کرنے کی طرف راغب کرسکے ۔

وزیر اعظم عمران خان کا وعدہ تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے پولیس ریفارمز پر توجہ دیں گے۔ لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اب پنجاب میں پولیس ریفارمز حکومت کا ایجنڈا نہیں رہا ۔ کیونکہ اول تو اصلاحات کا عمل کہیں نظر نہیں آرہا اور دوئم روزانہ کی بنیادوں پر پولیس کی جانب سے عام لوگوں پر تشدد کے واقعات اور تھانوں میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں سمیت جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی یا سیاسی طور پر مداخلتوں کا کھیل عروج پر ہے۔ وزیر اعلی عثمان بزدار پولیس میں اصلاحات کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں کیونکہ اگر ہم نے پولیس نظام کو ماضی کے طرز پر ہی چلانا ہے تو بس پھر پولیس کی سطح پر کچھ نہیں ہوسکے گا۔ اس میں تحریک انصاف کی حکومت کو اپنے ہی ارکان اسمبلی کی جس مداخلت کا سامنا ہے اس کا علاج تلاش کیا جانا چاہیے۔

ایک مسئلہ منصوبو ںکی تکمیل میں نگرانی اورجوابدہی کے نظام کا ہوتا ہے ۔ کیونکہ عملی طور پر جب منصوبے اپنے مطلوبہ نتائج نہیں دیتے تو اس کی ایک بڑی وجہ کمزور نگرانی اور جوابدہی کا نظام ہوتا ہے ۔ نگرانی اور جوابدہی کے نظام کو موثر بنانے کے لیے دنیا بھر میں مقامی حکومتوں کو مضبوط کرکے اس امر کو یقینی بنایاجاتا ہے کہ نظام شفافیت اور عوامی توقعات کے مطابق چلے ۔ ابھی تک پنجاب میں مقامی نظام حکومت کا معاملہ کافی پیچھے ہے ۔ وزیر اعلی پنجاب کو مقامی نظام حکومت کے فوری انتخابات او رنظام کو آئین کی شق 140-Aکے تحت ان اداروں کو سیاسی ، انتظامی اور مالی اختیارات دے کر حکمرانی کے نظام کو موثر اورشفاف بنانا چاہیے کیونکہ یہ جو مصنوعی مہنگائی ہے اس کی وجہ نظام کی کمزوری ہے اوراس میں جب تک پوری حکمرانی کے نظام میں بنیادی نوعیت کی اصلاحات نہیں کی جائیں گی ، کچھ نہیں ہوسکے گا۔

وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار جس انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں اس میں مزید بہتری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی بنیاد جہاں بھی عوام کی ضرورت، توقعات اور ترجیحات ہوں گی وہیں حکمرانی کے نظام کی ساکھ پیدا ہوتی ہے ۔ اس لیے مسئلہ محض عثمان بزدار کی اپنی کامیابی کا نہیں بلکہ اپنی جماعت سمیت صوبے کے لوگوں کی زندگیوں میں خوشحالی پیدا کرنے سے جڑا ہے اور یہ ہی وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کا چیلنج ہے۔

The post عثمان بزدار کا چیلنج appeared first on ایکسپریس اردو.

کسی کو بتانا نہیں …

$
0
0

’’ آپ کو ایک بات بتاؤں ماما ؟ ‘‘ میرے ساتھ جڑ کر بیٹھ کر، اس نے اپنی گول گول شرارتی آنکھیں گھما کر سوال کیا۔

’’ ہاں بتائیں … ‘‘ میں نے اپنے بازو اس کے گرد پھیلائے۔

’’ لیکن یہ میرا سیکرٹ ہے اور آپ نے کسی کو بتانا نہیں !!‘‘ اس نے رازداری سے میرے قریب ہو کر کہا۔

’’ ٹھیک ہے ‘‘ میں نے اسے یقین دلایا اور اپنا کان اس کے منہ کے قریب کیا ۔

’’ مجھے نا… ‘‘ اس نے کہتے ہوئے رک کر دائیں بائیں دیکھ کر تسلی کی کہ کوئی اور تو نہیں سن رہا۔ اس کے والدین اداکاری کر رہے تھے کہ وہ اس کی بات نہیں سن رہے تھے۔ وہ پھر میری طرف پلٹا، ’’ مجھے نا، فرنچ فرائیز بہت اچھے لگتے ہیں ! ‘‘ اس نے بات کہی اور میرے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ ’’ آپ نے کسی کو بتانا نہیں ماما، کسی کو بھی نہیں ، پاپا کو بھی نہیں… اوکے!! ‘‘

’’ کسی کو بھی نہیں بتاؤں گی میری جان! ‘‘ میںنے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔

’’ کب بنا کر دیں گی مجھے؟ ‘‘ اس نے اگلا سوال کیا تو میری ہنسی نکل گئی۔

’’ میں آپ کو بنا کر دوں گی تو آپ کا سیکرٹ لیک ہو جائے گا نا !!‘‘ میںنے کہا ۔

’’ کوئی بات نہیں ‘‘ اس نے لاپروائی سے کہا، ’’ اب آپ مجھے کوئی سیکرٹ بتائیں ماما!! ‘‘

’’ اوکے… مجھے نا مروان سے بہت پیار ہے!! ‘‘ میں نے اس کے گال پر بوسہ دے کر اس کے کان میں کہا، ’’ اور یہ بات آپ نے کسی کو نہیں بتانی، کسی کو بھی نہیں! ‘‘

’’ میں اور تو کسی کو نہیں بتاؤںگا مگر ممی اور ڈیڈی کو تو بتانا پڑے گا!!‘‘ اس نے چالاکی سے آنکھیں مٹکائیں ۔

’’ یہ تو ٹھیک نہیں نا، یہ تو ماما اور مروان کا سیکرٹ ہے نا بے بی!!‘‘ میں نے منہ بسورا۔

’’ لیکن ماما… بے بی کا کوئی سیکرٹ بھی ہو، ممی اور ڈیڈی کو بتانا ضروری ہے اس کے بغیربے بی کو ممی اور ڈیڈی سے پیار نہیں ہو سکتا!!‘‘ اس نے وضاحت کی۔

’’ پلیز مروان !! ‘‘ میں نے ناراض ہونے کی اداکاری کی۔ جانتی تھی کہ اس کی تربیت کا حصہ ہے اور میں اسے ٹیسٹ ہی کر رہی تھی کہ وہ کس درجے پر جا کر جذباتی طور پر اتنا بلیک میل ہو سکتا ہے کہ کسی اور کا سیکرٹ اپنی ممی اور ڈیڈی سے شئیر نہ کرے، ’۔’ ماما اداس ہو جائیں گی، آپ سے ناراض بھی ہو سکتی ہیں!!‘‘

’’ پلیز ماما ، اپ سیٹ نہ ہوں ، ممی ڈیڈی کسی کو آپ کا سیکرٹ نہیں بتائیں گے!!‘‘

’’ لیکن آپ اپنے ممی ڈیڈی کو کیوں بتاؤ گے میرا سیکرٹ؟ ‘‘

’’ کیونکہ ممی ڈیڈی کہتے ہیں جو بے بی اپنے ممی ڈیڈی کو اپنا سیکرٹ نہیں بتاتے ، اللہ میاں ان کو کسی مشکل میں ڈال سکتے ہیں، کوئی ان بچوں کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے!! ‘‘

’’ لیکن میں آپ کو کیا نقصان تو نہیں پہنچاؤں ، پلیز… نہ بتائیں نا ممی اور ڈیڈی کو! ‘‘ میںنے اس کی منت کی، ’’ ماما آپ کو نہلاتی بھی ہیں، اچھا سا ناشتہ بھی بنا کر دیتی ہیں، گاڑی میں ساتھ مال بھی لے کر جاتی ہیں… الہ دین والی مووی بھی دکھائی تھی آپ کو ، پھر بھی آپ ماما کا سیکرٹ نہیں رکھ سکتے ؟ ‘‘

’’ پلیز ماما!! ‘‘ وہ چڑ سا گیا، بچہ تھا نا، ’’ پلیز مجھے بتانے دیں ممی ڈیڈی کو!! ‘‘ بلند سرگوشیوں میں ہونے والی ، اس ساری بات چیت کے دوران اس کے ممی ڈیڈی اور پاپا ، اندر سے اٹھنے والی ہنسی کو دباتے ہوئے ، یوں بیٹھے تھے جیسے کہ وہ اس ساری گفتگو کو سن ہی نہ رہے ہوں ۔ کہیں کہیں جب وہ زور دے کر بات کرتا تو اس کی آواز بلند بھی ہو جاتی تو وہ خود ہی منہ کے آگے ہاتھ رکھ کر ہنس دیتا۔

چار سال کے اس پٹاخہ سے بچے کی گفتگو نے مجھے حیران سے زیادہ خوش کیا تھا کہ اس نے ماں باپ کی اس بات کو یوں پلے سے باندھا تھا۔ اللہ اسے ہر بلا سے محفوظ رکھے لیکن کم از کم یہ تسلی تو ہوئی کہ اس کے بچپن سے ہی اس کے دل میں یہ خیال پختہ ہے کہ جو آپ سے کسی بات کو خفیہ رکھنے کو کہے اور کسی اور کو بتانے سے منع کرے ، وہ آپ کا ہمدرد اور خیر خواہ نہیں ہو سکتا ۔

’’ میں نے بھی تو آپ کا سیکرٹ رکھا ہے نا!! ‘‘ میںنے اسے ناراض صورت بنا کر کہا۔

’’ آپ بھی میرا سیکرٹ اپنے ممی ڈیڈی کو بتا دیں ! ‘‘ اس نے آسان مگر ناقابل عمل حل بتایا۔

’’ اچھا… اگر ماما آپ کو چاکلیٹ یا چاکلیٹ کیک دیں تو کیا خیال ہے؟‘‘ میںنے اسے وہ لالچ دیا کہ جس کے آگے مجھے یقین تھا کہ وہ گھٹنے ٹیک دے گا۔

’’ پلیز ماما!! جو بھی ہو، آپ مجھ سے ناراض ہو جائیں یا آپ مجھے فرائیز نہ بنا کردیں یا مجھے چاکلیٹ اور چاکلیٹ کیک بھی نہ دیں ، لیکن مجھے یہ سیکرٹ اپنے ممی ڈیڈی کو بتانا ہو گا۔ بلکہ اب میں ضرور بتاؤں گا کیونکہ ممی ڈیڈی کہتے ہیں کہ جو کوئی آپ کو سیکرٹ رکھنے کے بدلے آئس کریم ، چاکلیٹ یا کسی اور چیز کا لالچ دے وہ ضرور آپ کو نقصان پہنچاتا ہے! ‘‘ اس کے معصوم منہ سے ادا ہونے والی بات سے سب کی ضبط کی ہوئی ہنسی کا فوارا چھوٹ پڑا۔

’’ چلو بھئی بتا لو آپ اپنے ممی ڈیڈی کو! ‘‘ میںنے ہتھیار ڈالے، ’’ اور پلیز فورا بتاؤ! ‘‘

بچوں کی تربیت کے ابتدائی سالوں میں انھیں یہ سکھانا اہم ہے کہ انھیں کوئی کچھ بھی کہے، کوئی بھی لالچ دے، کوئی کتنا ہی قریبی رشتہ ہو، محرم یا نامحرم… اس کی کہی ہوئی کسی بات، کی ہوئی کسی حرکت یا پیش قدمی کو بچے اپنے والدین سے نہ چھپائیں اور انھیں فوراً بتائیں ۔ عموماً بچوں کا بچپن، ان کی معصومیت وہی لوگ چھینتے ہیں جو ان کے قریبی رشتے ہوتے ہیں یا وہ لوگ جن سے ان کا واسطہ گھر، اسکول یا گھر سے باہر معمول میں پڑتا ہے، وہ لوگ ہیں جن سے بچہ مانوس ہو جاتا ہے اور والدین ایسے لوگوں پر اعتماد کرتے ہیں۔ انھی میں ، انسانوں کے بھیس میں چھپے ہوئے کچھ حیوان بھی ہوتے ہیں جو ہمارے اعتماد کو ساری انسانیت پر سے ختم کر دیتے ہیں ۔

اپنے بچوں کی ایسی ہی تربیت کریں، انھیں سختی کی بجائے پیار اور اعتماد سے سمجھائیں اور جن چیزوں کا لالچ دے کر کوئی انھیں پامال کر سکتا ہے ، ان چیزوں کو انھیں خود وافر مقدار میں دیں تا کہ ان کے دل میں ایسی کسی پیش کش پر لالچ نہ آئے۔ بچے کا دل فطری طور پر لالچی ہوتا ہے اور اسے پرچانے کو ایسے درندہ صفت انسان کوئی نہ کوئی حربہ پیار کا استعمال کرتے ہیں ورنہ زور زبردستی۔ ہر دو صورتوں میں بچوں کو اپنا دفاع کس طرح کرنا ہے، انھیں اس سے آگاہی دیں، کارٹون بنا کر یاچھوٹی چھوٹی کہانیوں کی مدد سے، انھیں ڈرائیں نہیں کہ ان کی خود اعتمادی نہ ختم ہو اور وہ ہر وقت انہونی کے خوف میں مبتلا رہیں ۔ اللہ تعالی ہم سب کے بچوں کو اپنی امان میں رکھے اور انھیں اس دنیا میں چپے چپے پر پھیلے ہوئے شیطانوں سے محفوظ رکھے ۔آمین !!

The post کسی کو بتانا نہیں … appeared first on ایکسپریس اردو.

نئی قیادت، پرانی سیاست

$
0
0

ہماری سیاست میں ایک شفٹ آیا ہے، ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں کی قیادت میں جو تبدیلی آرہی تھی وہ اب واضح انداز میں محسوس بھی کی جاسکتی ہے۔ بینظیر جو اپنے والدکی طرح پنجاب میں اپنی مقبولیت برقرار نہ رکھ سکی تھیں، وہ اب ایک بار پھر مریم نواز شریف کی شکل میں ابھرکر سامنے آرہی ہے۔

بلاول بھٹو ہیں جو والدہ کی شہادت کے بعد کم عمری اور ناتجر بہ کاری کے باعث عملی سیاست میں اس طرح اپنے پیر نہ ڈال سکے تھے ، مگر اب وہ بھی بھرپور انداز میں ابھرکر سامنے آگئے ہیں۔ پارٹیاں دونوں وہی ہیں مگر اب ایک پارٹی کی تیسری نسل نے کمانڈ سنبھال لی ہے اور دوسری پارٹی کی دوسری نسل نے۔ مگر ان لیڈروں کو نوجوان قیادت کے زمرے میں شمارکیا جاسکتا ہے۔ان کے ابھرنے کے لیے ایک لحاظ سے ماحول بہت بہتر ہے۔

دونوں قیادتیں اس وقت حزب اختلاف میں ہیں اور حزب اقتدار کوئی اور ۔اورجو حزب اقتدار ہے وہ روایتی وآمریتی بھی نہیں مگر جمہوری قوت بھی نہیں۔کل جس طرح جنرل مشرف نے ان دونوں جماعتوں کو چارٹر آف ڈیموکریسی کے دہانے پر لاکرکھڑا کیا اور آج ان کے والدین پر بنائے ہوئے کیسز اور طرح طرح کے الزامات جو ان پر عائد ہیں انھوں نے ان کو ایک ساتھ کھڑا کردیا ہے۔ اسی طرح سے پرانے لیڈران میں سے مولانا فضل الرحمن بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں تو حاصل بزنجو بھی۔

لوہا گرم بھی ہے کہ افراط زر نے جو کروٹ لی ہے، اس کے عتاب میں پوری قوم آگئی ہے۔ حکمران جماعت اپنی غیر مقبولیت کے اعتبار سے ایک سال میں وہ ریکارڈ توڑ چکی ہے جو پانچ سال کے کہیں آخر میں جا کر ٹوٹتے ہیں۔ یہ جوکچھ آج ہوتا جا رہا ہے وہ ہی تو بویا گیا تھا، بلخصوص اسحاق ڈار کے زمانے میں اور مجموعی طور پر شرفاء بھی وہی ہیں، جوکل مسلم لیگ میں تھے ،آج خانصاحب کے ساتھ ہیں اور اس سے پہلے جنرل مشرف کے ساتھی تھے۔

بلاول بھٹو صاحب کی پارٹی کا بھی ارتقاء کچھ عجیب انداز میں ہوا۔ پارٹی کے قائد اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے اتنے ہی قریب تھے، جتنے آج خانصاحب ہیں ۔اس سے پہلے ایوب اور اسکندر مرزا کے زمانے میں وہ اقتدار کے ایوانوں میں آئے وہ قصہ الگ ہے۔ 1970 کے بحران میں ان کا کردار پاکستان کی تاریخ میں سیاہ حروف میں رقم ہوگا۔

بعد ازاں وہ عوامی رہنما بن کے ابھرے اور پھر اس طرح تاریک راہوں پرمارے گئے بمعہ اپنے اہل وعیال۔ بیٹی نے بڑی مشکل وقت میں قیادت سنبھالی ۔ اور پھر اس طرح C-130 صدرکا جہاز پھٹ گیا ۔ راستہ نکلا جمہوری قوتوں کو اقتدار میں شراکت ملی۔ مگر مریم نواز کے اجداد آمریت کی کوکھ سے نکلے ہیں اور پھر ایک دن آیا کہ اسی آمریت کی بنیاد پر وہ خود لوگوں میں اپنی جڑیں بنا گئے کیونکہ پنجاب میں اچھے خاصے لوگ جنرل ضیاء الحق کو اپنا ہیرو مانتے تھے ۔

بلاول سیکولر سوچ کے مالک ہیں۔ انھیں نانا اور ماں کی طرف سے بہت بہتر تاریخی ورثہ ملا ہے جس میںان کے دو ماموں کا بھی شمارکیا جاسکتا ہے ۔ ہاں مگر باپ اور پھپھو کی طرف سے بہت ہی منفی ورثہ حصہ میں آیا ہے۔ ان کے پاس سندھ کے باہر تو جیالوں کا ورثہ ہو مگر سندھ میں اب وہ ماضی ہوچکا۔ جس طرح پنجاب میں تاجر اور مڈل کلاس مریم نوازکے ساتھ ہیں۔ بلاول کے ساتھ ایسا ماجرہ نہیں۔ یہ ان کا سندھ میں مسلسل تیسرا دور ہے اور سندھ میں بری حکمرانی نے جو ریکارڈ قائم کیے ہیں اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں۔

آج ستر کی دہائی کے بعد پھر یہ ملک ایک بہت بڑے بحران سے گذر رہا ہے۔ یہ بحران اس بارکسی اور نے نہیں خود ہم نے پیدا کیا ہے۔ آمریتوں اور نالائق جمہوریتوں کا تسلسل ہے۔ اس بار ملک جس دوراہے پرکھڑا ہے، اس کی بنیادی وجہ اداروں کی کمزوری ہے۔ وہ اپنے دائرہ کارکے اندر رہ کر وہ کام نہیں کر پا رہے جو ان کوکرنا چا ہیے جو ان کے ذمے ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں جن کا حق بنتا تھا حکمرانی کا ، انھوں نے خود اپنے حق کو غصب کیا۔ جب ان سے اقتدار لیا جاتا ہے تو کوئی سڑکوں پر نہیں آتا۔

اب جو اس ملک میں نئی قیادت ابھر رہی ہے ان کے سامنے بھی یہی کچھ ہے جو ان کے اجداد کے پاس تھا ۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو شیخ مجیب کے اقتدار ملنے پر ساتھ کھڑا ہونا تھا، اس وقت وہ آمریتوں کے ساتھ کھڑے ہوئے ۔ جب بے نظیر کے خلاف مڈ نائٹ جیکال ہورہا تھا اس وقت نواز شریف جمہوریت کی بقاء کے لیے نہیں بلکہ انھیں کے ساتھ کھڑے تھے جو آمریت کے ساتھی تھے اور پھر یہی زرداری تھے جو سینیٹ کے انتخابات میں میاں نواز شریف کے ساتھ نہیں تھے مگر آج یہ دونوں نئے چیئرمین سینیٹ کا چناؤکرنے کے لیے ایک ساتھ کھڑے ہیں۔

معیشت کے حوالے ہمارے لیڈروں سے بہتر فیصلے آئی ایم ایف کی طرف سے آئے ہیں ۔ معاملہ یہ ہے کہ ہم ان کو تب بلاتے جب ہم اپنی معیشت کو اس دہانے کھڑا کردیتے جہاں سے پھرکوئی متبادل راستہ باقی نہیں رہتا۔ ہندوستان آئی ایم ایف کے پاس صرف ایک مرتبہ گیا وہ بھی1991 میں ، ہم تیرہ بار جا چکے ہیں۔ ہمارا آئی ایم ایف کے پاس بار بار جانا خود اس بات کی دلیل ہے کہ ہماری شرفاء ہر بار ہماری معیشت میں بگاڑ پیدا کر دیتی ہے، اپنے مفادات کی وجہ سے اور اپنی نااہلیوں کی وجہ سے۔

فی الحال اس ملک میں جمہوریت کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے اور یہ وہ خبر ہے جس پر مریم نواز اور بلاول کھیلیں گے،کھیلنا بھی چاہیے، مگر اتنی مہنگائی ہونے کے باوجود ، بے جا ٹیکس لاگو ہونے کے بعد بھی،کوئی سڑکوں پر آنے کے لیے تیار نہیں۔ لوگ اس لیے ابھی تک راضی نہیں کہ شاید انھوں نے بھی کوئی ایسے خاطر خواہ کام نہیں کیے جو فلاح و بہبود اور اداروں کو بہتر بنانے کے لیے ہوں۔

ذوالفقار علی بھٹو ایک بھروسے کا نام تھا۔ لوگوں کے دلوں میں رہتا ہے کہ جب وہ پھانسی چڑھے تو MRD 83 کی شکل میں پورا دیہی سندھ تھا جو راستوں پر نکل آیا۔ یہ وہی لوگ تھے جو وڈیروں کے ظلم کا شکار تھے۔ بے نظیر کے دور میں بھی اچھی حکمرانی نہیں ہوئی مگر وہ بھٹو کی بیٹی تھی۔ آمریتوں کے سامنے پہاڑ بن کے کھڑی ہوئی وہ بھی بھروسے کا نام تھی۔ جب قتل ہوئی تو پورا سندھ ماتم کدہ بن گیا اور اب جب زرداری جیل کی یاترا کو جا رہے تھے تو یہ وہی سندھ ہے جہاں ایک پتہ بھی نہ ہلا۔

اب بھی بہت کچھ برا ہونے جا رہا ہے۔اظہار رائے پر پابندیوں سے لے کر مخالف سیاسی حلقوں کے اوپر طاقت کا استعمال، جھوٹے مقدمات ، افراط زر، بے روزگاری اور غربت۔ یہاں جو طاقتیں حکومتیں گراتی ہیں، ان میں سے ایک طاقت ابھی خان صاحب کی حکومت گرانے کے حق میں نہیں ہے اور جو دوسری طاقت عوام ہے وہ اب بھی سڑکوں پر آنے کے لیے تیار نہیں ۔ ہاں لیکن ان دنوں بڑی پارٹیوں کی قیادت تبدیل ہوچکی ہے۔ اس وقت واقعتا پاکستان کو ایک بھرپور نیشنل قیادت چاہیے، مگر کیا اب بھی وہ اسحاق ڈارکو ہمیشہ کی طرح اپنا وزیرخزانہ بنائیں گے؟ کیا بلاول بھٹوکے دائیں بائیں اب بھی ابا اور پھپھو ہی ہوں گے۔

The post نئی قیادت، پرانی سیاست appeared first on ایکسپریس اردو.

حسن منظر: نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پروا

$
0
0

ادیب ، شاعر، مصور، موسیقار کسی داد کے بغیر اپنا کام کیے جاتے ہیں۔ وہی معاملہ ہے کہ نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پروا۔ ہمارے یہاں بہت سے ایسے لوگوں نے خاک پر اپنا بستر بچھایا۔ جن کا ہم نے حق ادا نہیں کیا۔

اب بھی چند ایسے ہیں جو پوپھٹے اٹھتے ہیں،کوئی کاغذ قلم لے کر بیٹھتا ہے اور لکھتا رہتا ہے،کوئی اپنے تان پورے یا ستار پر ریاض کرتا ہے۔ ہم جو ان پر فریفتہ ہیں ان کے لکھے ہوئے لفظ اور ان کی راگنی پر صدقے قربان ہوتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ سرکار ان کا اعتراف کرے، ان کی زندگی بھر کے کام پر انھیں کسی اعزاز سے نوازے لیکن جب انھیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے تو انھیں دکھ نہیں ہوتا لیکن ہم اسے ان کے ساتھ اور ادب کے ساتھ ناانصافی خیال کرتے ہیں۔

گزشتہ دنوں ایک ایسا ہی مرحلہ تھا۔ مجھ ایسے لوگ یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ نثار عزیز بٹ جو 90 کو ٹپ چکی ہیں اورجن کے بے مثال ناولوں نے ہمارے ادب کو مالا مال کیا ہے، یا 85 برس کے ڈاکٹر حسن منظر جن کی کہانیاں اور ناول ہمیں دیس دیس کے دکھ درد کی داستان سناتے ہیں، انھیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ پیش کیا جائے گا۔

ہماری یہ توقع خیالِ خام ثابت ہوئی اور قرعۂ فال کسی اورکے نام نکلا۔ جن کا نام اس اعزازکا اہل ٹھہرا وہ خوش رہیں، شاد آباد رہیں، لیکن دل میں کھٹک رہی۔ یہی خلش آج کی تحریرکا سبب ہے۔ نثار عزیز بٹ صاحبہ کے بارے میں کچھ دنوں پہلے ایک قسط وارکالم لکھ چکی ہوں۔ ان دنوں ڈاکٹر حسن منظر بہت یاد آئے۔ ان کی زندگی کا ایک طویل حصہ مسافرت میں گزرا۔ تین براعظموںکی دھول ان کے پیروں کولگی ہو اور شاید ہی دنیا کے ایسے مہجور اور مجبور لوگ ہوںجن کے دکھوں کو انھوں نے اپنی کہانیوں اور ناولوں میں بیان نہ کیا ہو۔

وہ 85 برس پہلے یوپی میں اشراف کے ایک علم دوست گھرانے میں پیدا ہوئے۔ باضمیری اور وطن پرستی ان کے خمیر میں گندھی ہوئی ہے۔ ان کا نسب نامہ اس دادا کے وجود سے روشن ہے جس نے 1857 کی جنگ آزادی میں بغاوت کا سرنامہ لکھا، فرنگی سرکارکی طرف سے سرکی قیمت مقرر ہوئی لیکن وہ ہاتھ نہ آئے اور سولی ان کے زیب گُلو نہ ہوئی۔ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اصل معاملہ تونیتوں کا ہے۔ داد وطن پرست تھے۔ پوتے کو بھی انسان دوستی اور وطن پرستی ورثے میں ملی۔ یہی ورثہ تھا جس نے انھیں ایک وسیع النظر اور بنی آدم سے عشق کرنے والا ، اس کا دکھ سکھ اپنے سینے میں سمیٹنے والا اور اسے اپنے قلم سے کاغذ پر اتاردینے والا ادیب بنا دیا۔

ان کی کہانیاں ہمیں ہندوستان، پاکستان، سری لنکا، انگلستان، مصر، فلسطین، ملایا، نائیجریا، سعودی عرب اورکہاں کہاں نہیں لے جاتیں۔ سندھ کے ہاریوں کے دکھ ان کا سینہ کھرچتے ہیں، ان کی کہانیوں میں ہر جگہ دکھ بھوگتا ہوا انسان ہے۔ روندی ہوئی عورتیں ہیں۔ در بہ در پھرتے ہوئے بچے ہیں۔ ان کی کہانیاں پڑھتے ہوئے ایک بھولا بسرا فلمی گیت یاد آتا ہے۔ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی سب کو مرا سلام۔ 1947 کی اکھاڑ پچھاڑ میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ پہلے لاہور پہنچے اور پھر کراچی۔ اس کے بعد ان کے قدم کہیں نہیں تھمے۔ وہ کراچی سے حیدرآباد گئے۔

سندھ کا تاریخی اور دل آویز شہر۔ اردو اور سندھی کے اس ملاپ نے ان کی تحریروں میں کیسی حلاوت اور دل آویزی سمو دی۔ ندی۔ رہائی۔ سوئی بھوک۔ اک اور آدمی۔ انسان، اے انسان۔ دھنی بخش کے بیٹے۔ خاک کا رتبہ۔ العاصفہ۔ ان کی کہانیوں او ر ناولوں کے موضوعات میں وہ تنوع ہے جو قرۃ العین حیدر کے متنوع موضوعات کی یاد دلاتا ہے۔

ان کا ناول ’’حبس‘‘ اردو میں بیان ہونے والا ایک ایسا نادرہ کار قصہ ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ اسرائیل کے پہلے وزیر دفاع اور گیارہویں وزیر اعظم ایرئیل شیرون کے اس عالم نزع کا قصہ ہے جو 360 صفحوں پر پھیلا ہوا ہے۔ شیرون اسپتال کے ایک آرام دہ بسترپر دراز ہے اور مشینوںسے جڑا ہوا ہے۔ اپنے محسوسات کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ ’’آج جسم میں کوئی چیز نہیں کاٹ رہی ہے۔ نہ آوازیں ہیں۔ جسم میں جان کی رمق ہے اور فرصت ہی فرصت۔ آرام سے ماضی کا لطف لے سکوں گا۔

مرنے کے بعد فرصت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ آج تنگ کرنے والوں سے چھٹکارا ہے۔‘‘ یہاں سے بیسویں صدی کے اس جرنیل کے لمحہ لمحہ مرنے کا قصہ شروع ہوتا ہے جسے جلاد اعظم کہنا غلط نہیں تھا۔ وہ اسرائیل کی عظمت کے خبط میں مبتلا تھا۔ اپنے اس خواب کو شرمندۂ تکمیل کرنے کے لیے اس نے فلسطینیوں کو خون میں نہلا دیا۔ ایک ڈچ فلم ڈائریکٹر نے لکھا کہ جب لبنان میں بے گھر اور در بہ در فلسطینیوں کے کیمپوں کو شیرون کے اسرائیلی ٹینکوں نے گھیر لیا تو اس نے کرائے کے ان فوجیوں کو جو فلانجسٹ تھے تین ہزار فلسطینیوں کو خاک وخون میں سلا دینے کا حکم دیا۔ اس روز میں نے ایرک کو دیکھا، اس کے ہاتھ میں پستول تھا، وہ فلسطینی بچوں کو اپنے پستول سے یوں شکار کر رہا تھا جیسے وہ خرگوش ہوں۔

وہ فلسطینیوں کا ستھراؤ کرنے کے لیے انھیں خون میں نہلاتا رہا اور پھر ایک روز اس پر فالج کا حملہ ہوا، دل کا دورہ پڑا اور وہ کسی گولی کا نشانہ بنے بغیر اپنے ہی خون میں نہا گیا۔ دنیا کے اعلیٰ ترین سرجنوں نے اس کے آپریشن کیے، ڈاکٹروں نے اسے بہترین دوائیں دیں لیکن وہ بیدار نہ ہوا اور زندگی کے 8 برس اس نے بستر پر بسر کیے۔ اس کی آنکھوں میں خفیف سی جھری تھی۔ حسن منظر نے ایک ماہر قصہ گو کی طرح آنکھ کی اس جھری سے شیرون کا قصہ لکھا۔ 360 صفحے کے اس ناول میں انھوں نے اس سے کیسے کاری جملے کہلوائے ہیں۔ وہ نفرت کے پیٹرکا بیان کرتا ہے، جس کی جڑ انسان کے دل میں ہے۔ اسے ہوائی جہازوں کی گونج دار آواز دل خوش کن محسوس ہوتی ہے اور گولہ باری کی آواز اس کے دل کو لبھاتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسان نے گولہ باری سے زیادہ مدھر آواز کسی ساز سے پیدا نہیں کی۔

وہ یہ بات کہنا نہیں فراموش کرتا کہ ’’ مذہب کے سیاسی بن جانے کے بعد اس زمین سے امن اور آشتی رخصت ہوجائیں گے‘‘ بستر مرگ پر لیٹا ہوا سابق اسرائیلی وزیر اعظم یہ بات نہایت فخر سے کہتا ہے کہ اسے فتح سے محبت ہے۔ وہ یہ کہنے سے بھی نہیں چوکتا کہ وہ ہٹلرکا احترام کرتا ہے جس نے یہودیوں کو یہ سکھایا کہ نسلی برتری بھی کوئی چیز ہے اوراسے برقرار رکھنے کے لیے ہر ہتھیار کا استعمال جائز ہے۔ وہی فلسفہ کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔

اسے یہودیوں اور غیر یہودیوں کی شادی سے نفرت ہے۔اس کے خیال میں خون میں ملاوٹ نہیں ہونی چاہیے تب ہی ایک فاتح اور اعلیٰ نسل جنم لے گی۔

اسے ’’یوم سبت‘‘ منانے والے یہودیوں سے بھی نفرت ہے۔کہتا ہے کہ کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے کہ زائیون (صہیون) کی بنیاد رکھتے ہوئے ہمیں عربستان کی زمین پر بسنے والے ان کٹر یہودیوں سے بھی نجات حاصل کرلینی چاہیے تھی جو ہفتے کا ایک پورا دن ضایع کردیتے ہیں۔ یہاں حسن منظر نے ایک نظم کا حوالہ دیا ہے۔

نجف سے آتی… آوازسنائی دے رہی ہے…ایک کپکپاتی آواز…پر ہے سریلی، کہیں ٹوٹتی ہوئی نہیں…ایک بوڑھا تنبورے پر گارہا ہے…وہ میرا ماں باپ کی طرح جانا پہچانا…فلسطین کہاں گیا…جن میں فکروں سے آزاد تھے ہم…چوبیس گھنٹے جنگ کے لیے…تیار نہیں…جنگ کرتے توکس سے؟… مسلمانوں، عیسائیوں سے؟…اپنوں سے؟…وہ دن کیا ہوئے جب ہمارے…یہود مذہب کو مذہب سمجھتے تھے…اور ملک کو ملک…کسی ایک کی نسلی میراث نہیں…آل یعقوب کی گم کردہ میراث نہیں…آل آدم کے لیے…پھر پوجا کے لیے سونے کا بچھڑا بھیجا…دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہونے کا…دعویٰ کرنے والے قارون نے۔‘‘… اچانک ایک فائر ہوا اور سوز سے بھری آواز رک گئی…ایک آواز نے پوچھا…’کون تھا وہ…اپنے فلسطین کا برہا گانے والا…کوئی بوڑھا یہودی!

موت کے انتظار میں لحظہ لحظہ مرتے ہوئے شیرون کے احساسات اور جذبات کیا رہے ہوں گے، اس کی تصویر کشی حسن منظر نے کیا خوب کی ہے۔ ایک ایسا شخص جو صرف نفرت کرسکتا ہے۔ یہ نفرت فلسطینیوں اور عرب یہودیوں سے یکساں ہے۔ ایک ایسی نفرت جو موت کے سامنے بھی ہار نہیں مانتی۔

حسن منظر پیشے کے اعتبار سے سائیکیٹرسٹ ہیں انھوں نے اپنے پیشے کی تمام مہارت ’’حبس‘‘ میں صرف کردی ہے۔ اور اردو کو ثروت مند کیا ہے۔ مجھ ایسے بے بضاعت اور معمولی لکھنے والے ان کو لفظوں کے لعل وگہر نذرکرسکتے ہیں کہ یہی ہماری بساط ہے۔

The post حسن منظر: نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پروا appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 22440 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>