Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22433 articles
Browse latest View live

عوام سڑکوں پر نہ آجائیں

$
0
0

ہمارے غربا ، مزدور،کسانوں کی سادگی پر کون نہ مر جائے اے خدا کہ روتے ہیں پر آواز تک نہیں نکلتی۔ بعض موضوع اس قدر اہم ہوتے ہیں کہ ان پر بار بار لکھنا پڑتا ہے۔

میں ایک عرصے بلکہ عرصہ دراز سے سوچ رہا ہوں کہ ہمارے غریب بھائیوں، مزدوروں، کسانوں کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ اہل خرد کہتے ہیں ’’عوام قوت کا سرچشمہ ہوتے ہیں‘‘ ظاہر ہے ہمارے غریب تعلیم سے بڑی حد تک نابلد عوام نہ قوت کو جانتے ہیں نہ قوت کے سرچشمے کا مطلب سمجھتے ہیں، پھر ان سے کیا امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ملک اور معاشرے میں اپنی اہمیت اور طاقت کو محسوس کریں۔ چونکہ ہم نے اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ عوام کی طاقت کیا ہوتی ہے، سو اس حوالے سے ہم کچھ ایسی مثالیں پیش کریں گے جس سے عوام کی طاقت کا اندازہ ہوسکے۔

یہ 1968 کی بات ہے جب عوام ایوب خان کے خلاف سڑکوں پر آگئے تھے۔ ایوب خان کو یہ ’’اعزاز‘‘ حاصل ہے کہ یہ حضرت ملک کے پہلے بڑے آدمی تھے جن کے سر میں اقتدار حاصل کرنے کا سودا سمایا اور مرحوم نے بلا کسی خون خرابے کے ملک کے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ قبضہ تو کرلیا لیکن انھیں خوف تھا کہ کہیں عوام ان کے خلاف سڑکوں پر نہ آجائیں، یہ پہلی بار ہوا تھا کہ کسی نے اس آسانی کے ساتھ پاکستان جیسے بڑے ملک پر قبضہ کرلیا ہو۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک نان سویلین کے خلاف عوام سڑکوں پر کیوں نہیں آئے؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ سول اشرافیہ نے ایسی حماقتیں کی تھیں کہ کسی بھی طاقتور کا دل اس موقع سے فائدہ اٹھانے کو چاہ سکتا ہے۔ سو ایوب خان نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا۔

ایوب خان نے اقتدار پر تو قبضہ کرلیا لیکن انھیں خوف تھا کہ کہیں سیاست دان ان کے خلاف نہ اٹھ کھڑے ہوں۔ اس خوف سے نجات پانے کے لیے انھوں نے ایک اہم قدم اٹھایا۔ انھیں اپنے ذرایع سے یہ معلومات حاصل تھیں کہ سیاستدان ان کے خلاف کھڑے ہوسکتے ہیں اور انھیں یہ بھی پتا تھا کہ سیاستدانوں کی اکثریت کا تعلق جاگیردار طبقے سے ہے، سو ایوب خان نے جاگیردار طبقے کو ڈرانے کے لیے زرعی اصلاحات کا اعلان کیا۔ یہ وار ایسا تگڑا تھا کہ جاگیرداروں پر مشتمل سیاستدان بری طرح گھبرا گئے اور ایوب خان کو یقین دلانے کے لیے کہ وہ ان کے خلاف نہیں ہیں، مسلم لیگ کو دو ٹکڑوں میں بانٹ کر ایک ٹکڑا کنونشن لیگ کے نام سے بنایا اور اس ٹکڑے یعنی کنونشن لیگ کو ایوب خان کے حوالے کردیا۔

سیاست کاروں کے اس اقدام سے ایوب خان اور مطمئن ہوگئے اور زرعی اصلاحات کے ذریعے حاصل کی گئی زمین میں سے بڑا حصہ ان سیاستدانوں کو واپس کردیا جن پر انھیں اعتماد تھا۔ہمارے سیاستدان ہمیشہ فوجی حکومتوں کے خلاف رہے ہیں یا فوجی حکومتوں کے خلاف بیانات دیتے رہے ہیں لیکن ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ جب بھی ملک میں فوجی حکومت آئی سیاستدان  اس میں شامل ہوتے رہے، ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک دیکھیے ہر فوجی حکومت میں سیاستدان شامل رہے۔

ہم نے قوت کا سرچشمہ عوام کو کہا تھا جب ایوب خان اعتدال سے بڑھ کر عوام کے لیے مسئلہ بن گئے تو ملک کی ان ترقی پسند جماعتوں نے جو عوام کی نمایندہ تھیں ، ایوب خان کے لیے مسئلے کھڑے کرنے لگیں۔ ایوب خان کے معاہدہ تاشقند سے عوام بد دل تھے۔ ایوب خان ہی کی حکومت کے ایک وزیر بھٹو نے معاہدہ تاشقند کو ملک کا ایک بڑا مسئلہ بناکر اپنی عملی سیاست کا آغاز کیا ، عوام کشمیر سے کراچی تک سڑکوں پر آگئے اور ایوب خان کی حکومت لرزنے لگی۔

عوام کو دبانے کی ایوب خان نے بہت کوشش کی لیکن عوام اپنی ضد پر قائم رہے کہ ایوب خان اقتدار چھوڑ دیں۔ آخر ایوب خان کی اپنی حکومت نے عوام کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور حکومت یحییٰ خان کے حوالے کردی، جہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ ایوب خان کی حکومت کے دوران امریکا نے سوشل ازم سے خوف کھا کر پسماندہ ملکوں کو بھاری مالی امداد اس شرط پر دینا شروع کی کہ وہ مزدوروں کو خاص طور پر ترقی پسند ایلیمنٹ کو دبا کر رکھیں گے۔

سو ایوب حکومت نے حسن ناصر کو لاہور کے قلعے میں شدید تکلیفیں دے کر شہید کردیا۔ مزدور طبقے میں شدید بے چینی پیدا ہوگئی۔ کیونکہ ہزاروں کی تعداد میں مزدوروں، کسانوں، طالب علموں، سیاسی کارکنوں کو گرفتارکرلیا گیا، ملک کا بچہ بچہ گھروں سے باہر آگیا اور ایوب خان کی اپنی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ عوام نے ثابت کردیا کہ وہ واقعی ’’قوت کا سرچشمہ‘‘ ہوتے ہیں۔ مرد، عورتیں، بوڑھے جوان سب سڑکوں پر آگئے یہی عوام کی قوت کا کرشمہ تھا۔

دوسری بار ہم نے عوام کو قوت کے سرچشمے کی حیثیت سے 1977 میں دیکھا جب عوام بھٹو صاحب کی وڈیرہ نوازی سے مایوس اور مشتعل ہوگئے، سارا ملک آرمی کے کنٹرول میں تھا عوامی احتجاج کو روکنے کے لیے حکومت نے فوج کو بلا لیا تھا لیکن عوام کا غصہ تھمتا ہی نہیں تھا۔ اگرچہ بھٹو سے عوام ناراض تھے لیکن امریکا بھی عوام کو سڑکوں پر لانے میں اہم کردار ادا کر رہا تھا۔ امریکا بھٹو کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنا چاہتا تھا لیکن بھٹو امریکا کا حکم ماننے کے لیے تیار نہ تھے، وجہ خواہ کچھ رہی ہو ہم نے یہی دیکھا کہ پورے پاکستان میں ہر طرف یہ ثابت ہو رہا تھا کہ قوت کا سرچشمہ عوام ہیں۔

آج ہمارے بدنام زمانہ سیاستدان عوام کو سڑکوں پر آنے کی دہائی دے رہے ہیں اور عمران حکومت نے عوام کو ٹیکسوں اور مہنگائی میں دبا کر رکھ دیا ہے کہ 71 سال میں نہ کبھی اتنے ٹیکس لگے تھے نہ اتنی مہنگائی تھی لیکن عوام ٹس سے مس نہیں ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ اہل سیاست کی بے تحاشا لوٹ مار ہے اور موجودہ حکومت پر اعتبار ہے ، حکومت پر خواہ اشرافیائی سیاست کارکتنے ہی الزام لگائیں اس پرکرپشن کا الزام نہیں لگا سکتے۔ یہی وہ فیکٹر ہے جو عوام کو سڑکوں پر آنے سے روک رہا ہے۔ حکومت کو اب مزدوروں، کسانوں، غریب عوام کی حمایت کی ضرورت ہے جس کے لیے یہ ضروری ہے کہ عوام کو ٹیکسوں اور مہنگائی سے بچانے کے لیے ارب پتی اشرافیہ پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالے اور مہنگائی روکنے کے لیے بیرونی امداد کو بھی استعمال کرے۔ ورنہ حالات 1968اور1977کی طرف چلے جائیں گے۔

The post عوام سڑکوں پر نہ آجائیں appeared first on ایکسپریس اردو.


شیخ چلی کا بھائی

$
0
0

سب سے بڑی خبر تو آپ نے سن بھی لی ہوگی، ہضم بھی کرلی ہوگی اور’’جزوبدن‘‘بھی بنالی ہوگی یعنی تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو جو موسلادھار ہونے والی ہے۔ایسا لگتاہے حالات بڑی تیزی سے اپنے منطقی بلکہ ’’منفی‘‘اور منحنی انجام تک پہنچنے والے ہیں۔

ذرا ترتیب سے دیکھیے۔ ’’ریاست مدینہ‘‘کا قیام،پھر مدینے کے سابق گورنر ولی عہد محترم کی تشریف آوری، پھر بحیرہ عرب میں تیل کی خوشخبری اور اب عرب سے تیل کی دھار موسلادھار بواسطہ بذریعہ ادھار، یہ سارے واقعات سنکیت دے رہے ہیں کہ ایک واقعی ’’بحیرہ عرب‘‘ کا سعودی عرب بلکہ ہرعرب مہربان ہوکر تیل اگلنا شروع کردے۔آخراتنے صدیقوں اور امینوں کی دعائیں رائیگاں کیسے جاسکتی ہیں ۔گویا

قرض کا لیتے تیل اور یہ سمجھتے تھے کہ ہاں

’’پانی‘‘اپنا’’تیل‘‘بن جائے گا اک دن دیکھنا

تیل کی یہ خوشخبری تواس جگہ ختم ہوگئی، اس پر ہم دانا دانشور یاتجزیہ نگار ہوتے تو بہت سارے حاشیے چڑھا دیتے۔اور’’مگس‘‘کو پکڑکر پروانے کے خون کا ملزم ثابت کر دیتے لیکن ہم ٹھہرے سیدھے سادے کہانیوں، حکایات اور اقوال زریں کے طالب علم، اس لیے کہانیوں اور اقوال زریں کے میدان میں اتریں گے۔ بات تیل کی ہے تو اس نومن تیل سے ہی شروع کریں جو ’’رادھا‘‘کے ڈانس کی  فیس تھی۔یہ رادھا غالباً بلکہ یقیناً وہی رادھیکا ہے جو ’’مدھوبن‘‘ میں ناچتی تھی۔

’’مدھوبن‘‘کا جغرافیہ تو ہمیں معلوم نہیں لیکن یہ نام’’مدھوبن‘‘کچھ سنا سنا بلکہ دیکھا دیکھا سالگتا ہے۔ ’’مدھ‘‘تو شہد اور شراب دونوں کو کہتے ہیں لیکن پرانے زمانے میں ’’شہد‘‘ہی خاص لوگوں کا ڈرنک ہواکرتاتھا۔ دیوی، دیوتاؤں اور راجوں مہاراجوں ہی کے لیے مخصوص تھا۔

سنا سنا اور دیکھا دیکھا سا اس لیے لگتاہے کہ ’’شہد‘‘ اکٹھا کرنے کی ڈیوٹی ان مکھیوں کی ہوتی ہے جنھیں عوامی زبان میں عوام کالانعام اور سیاسی زبان میں ’’کارکن مکھیاں‘‘کہتے ہیں۔ یہ نہ نر ہوتی ہیں نہ مادہ۔بلکہ عوام ہوتی ہیں جن کاکام شہد اکٹھا کرنے کے لیے دربدر پھرنا، بارش آندھیوں، سیلابوں، آفات اور مکھی خور پرندوں کا شکار ہوکر جان سے گزرنا ہوتاہے۔ ان کالانعام یا کالعوام مکھیوں کے علاوہ چھتے میں ایک’’ملکہ‘‘  ہوتی ہے اور اس کے گرد چالیس پچاس تک’’نکھٹو‘‘ہوتے ہیں جو مفت کا شہد اور خاص الخاص خوراک’’کوئین فوڈ‘‘ کھاتے ہیں اور ایسے ’’مدھوبن‘‘ہرجگہ ہوتے ہیں۔

ہمارے ہاں بھی ایک بڑے مدھوبن کے اندر بہت سارے اور مدھوبن بھی پائے جاتے ہیں۔اسی طرح کے ایک ’’مدھوبن‘‘ میں رادھا یا رادھیکا’’نومن تیل‘‘کے عوض ناچا کرتی تھی چنانچہ اکثر راجے مہاراجے تیل کے  پیسے اور کنستر لے کر وہاں دادعیش یا ’’دادتیل‘‘دیاکرتے تھے۔اس کا پتہ جب گنگوتیلی کو لگا جو مشہور اور تاریخی بزنس ٹائیکون حضرت’’شیخ چلی‘‘کا چھوٹا بھائی تھا۔

حضرت شیخ چلی کے بارے میں دنیاجانتی ہے کہ اس نے ایک اینٹ پر تاج محل کے مطابق ایک انڈے پر ایک پوری بزنس ایمپائر کھڑی کی تھی، اس کے اس چھوٹے بھائی کا نام بھی ’’شیخ تیلی‘‘تھا کیونکہ پرانے زمانے میں ہرتیلی شیخ اور ہرشیخ تیلی ہواکرتاتھا اور اس کی ایک ٹیکنیکل وجہ یہ تھی کہ جب ان کے ہاتھ تیل سے چپڑجاتے تو خشک کرنے کے لیے۔۔خیر یہ الگ مسئلہ ہے۔شیخ چلی کے چھوٹے بھائی ’’شیخ تیلی‘‘کو رادھا کا ڈانس دیکھنے کا شوق چرایا۔

تواس نے یہاں وہاں کچھ تیل چراکر کچھ مانگ کر اور کچھ ادھار پر لے کر رادھیکا کاناچ دیکھنے کا قصد کیا۔ وہ مدھوبن روانہ توہوگیا، اپنے گدھوں پرتیل کے مٹکے لاد کرلیکن اسے پتہ نہیں تھا کہ رادھیکا کوئی ایسی ویسی ڈانسر نہیں تھی بلکہ اپنے وقت کی سیلبرٹی یا لکشمی بائی یا آئی ایم ایف تھی اور اس تک پہنچنے کے لیے کئی پہرے اور چیکنگ طے کرنا پڑتے تھے۔ شیخ تیلی پوسٹ پرپہنچا تو پہرہ داروں نے ٹیکس کاتقاضا کیا۔

شیخ تیلی نے جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ سکے نکالنا چاہے لیکن پہرہ داروں کے پہرہ داراعظم نے اسے کہا کہ ہم نقدی لے کر کیا کریں گے۔ ہم یہاں بازار میں نہیں جنگل بیابان میں ہیں اور خود بھی دیکھو جنگل جنگل ہورہے ہیں، واقعی ان سب کے سر اور داڑھیوں کے بال اسم بامسمیٰ تھے چنانچہ سب نے حضرت شیخ تیلی کے مٹکوں پر ہلہ بول دیا اور خود کو ممکن حد تک سیر کرنے کے بعد جانے دیا،اس طرح لگ بھگ تیرہ چوکیوں کو ٹیکس ادا کرنے کے بعد جب وہ منزل مقصود یعنی رادھیکا کی راجدھانی پہنچا تو وزن کرنے پر اسے نوشتہ دیوار سنایاگیا۔کہ

تجھے تولا گیا لیکن وزن میں کم نکلے

واقعی اس کے مٹکوں میں کچھ بھی نہیں بچاتھا، صرف اتنا رہ گیاتا جتنا کسی حکومت کے خزانے سے مل کر عوام تک پہنچتاہے۔شیخ تیلی نے بہت مذاکرات کیے لیکن معاملہ ’’طے‘‘ نہیں ’’پا‘‘سکا، اس پر شیخ تیلی کو بھی غصہ آگیا اور اس نے براہ راست رادھیکا کو نوٹس لینے پر مجبور کردیا،رادھیکا نے اس کی دہائی سنی تو بولی کہ قانون قانون ہوتاہے، آئین آئین ہوتا ہے اور اصول اصول ہوتاہے تو پورا ’’نومن تیل‘‘ دینا ہوگا۔ میں کوئی ایسی ویسی ڈانسر نہیں ’’راج نرتکی‘‘ ہوں۔

اگر میرا ناچ دیکھنا ہے تو پہلے نومن تیل لا۔ پھر میں گھنگرو باندھ کے مدھوبن میں ناچوں گی۔شیخ تیلی بھی باز آنے والا نہیں تھا۔ مذاکرات کرتارہا،منہ پیٹتا رہا،یہاں تک بولا کہ اگر ’’رادھے‘‘عرف لکشمی بائی عرف آئی ایم ایف چاہیے تو میرا ’’کولہو‘‘اپنے نام کردیے لیکن رادھا نے کہا، میں نرتکی ہوں تیلی نہیں،جو اس طرح کے سودے کروں۔اس ہاتھ دے۔ اور اس ’’پیر‘‘لے۔اس نے اپنے گنگھرو والے پیر کو چھنکایا۔ پھر وہ طعنے دینے پراترآیا کہ راجہ بھوج کے سامنے تو تم بغیر تیل کے ناچتی ہو۔اس پر رادھا نے وہ مشہور قول زریں ارشاد کردیا کہ کہاں راجہ بھوج اور کہاں ’’گنگو‘‘ تیلی۔ بچوں اور ان کے باپو۔اس کہانی سے تم نے کیاسبق لیا؟ شاباش ہم جانتے تھے کہ آپ کچھ سے بھی کچھ سبق نہیں لیں گے اور نہ لینا چاہیں گے۔ آپ نہ شیخ ہیں نہ تیلی ہیں صرف گنگو ہی ہیں اور گنگو ہی رہیں گے۔

The post شیخ چلی کا بھائی appeared first on ایکسپریس اردو.

کانگریس آ رہی ہے ننگے پاؤں

$
0
0

جنوبی ایشیا کی سب سے پرانی سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس (اٹھارہ سو پچاسی)اس وقت اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہے۔موتی لال نہرو سے راہول گاندھی تک پانچ نسلوں کی قیادت کا نوے برس کا دورانیہ شائد اکیسویں صدی میں مزید آگے نہیں چل سکتا۔اگر ایک سو تینتیس برس پرانی پارٹی کا اندرونی کلچر اوپر سے نیچے تک نہ بدلا تو سفید گینڈے کی طرح اس کا قصہ بھی تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہو جائے گا۔

انسان کی طرح ہر تحریک اور جماعت بھی بچپن ، جوانی اور بڑھاپے سے گذرتی ہے۔ایک دور میں وہ پرکشش بھی ہوتی ہے اور توانا بھی۔لیکن اگر ورزش کرنا چھوڑ دے ، نظریاتی طور پر منجمد ہو جائے،نئے خون کو جسم میں نہ دوڑنے دے ،کج بحثی میں پڑ جائے اور صرف ماضی میں زندہ رہے تو پھر حال بے حال اور مستقبل موتیا جاتا ہے۔آج چورانوے برس پرانی راشٹریہ سیوک سنگھ کی نظریاتی کوکھ سے جنمی انتالیس سالہ بی جے پی کے مقابلے میں سوا سو سال سے زائد کی کانگریس کو یہی چیلنج درپیش ہے۔

خاندانی سیاست کی چھتر چھایا تلے زندگیاں بتانے والی کانگریسی قیادت اس قدر آلسی ہو چکی ہے کہ وہ گاندھی خاندان کی انگلی پکڑے بغیر قدم باہر نکالنے سے بھی ڈرتی  ہے۔یہی سبب ہے کہ جب عام انتخابات میں شکستِ فاش کے بعد راہول گاندھی نے کانگریسی رہنماؤں کو ہدایت کی کہ ڈیڑھ ماہ کے اندر کسی اور کو نیا قائد چن لیں تو کئی ہفتے تو اسی میں نکل گئے کہ شائد راہول شکست کی وجہ سے جذباتی ہو گئے ہیں۔ہم انھیں نہیں بھائی نہیں کہتے ہوئے منا لیں گے اور وہ بالاخر مان بھی جائیں گے اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے۔

لیکن جب راہول منت سماجت اور آہ و زاری کے باوجود اپنے فیصلے پر اڑے رہے تب کھلبلی مچ گئی کہ کسے نیا صدر چنا جائے۔طے یہ پایا کہ جب تک ورکنگ کمیٹی کوئی مستقل رہنما نہیں چن لیتی تب تک نوے سالہ موتی لال ووہرہ قائمقام صدر رہیں گے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کانگریس میں گاندھی خاندان کو نکال کر قیادت کا کتنا گمبھیر خلا ہے اور بی ٹیم تیار کرنے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔

راہول نے پچھلے ہفتے جو الوداعی خط لکھا وہ ایسی تمام پارٹیوں کے کارکنوں کو پڑھنا چاہیے جن کی زندگیاں موروثی سیاست کے برگد تلے آخری سانس تک گذر جاتی ہیں۔

خط کا خلاصہ یہ ہے کہ حالیہ عام انتخابات میں شکست کے اسباب کا تعین اور محاسبہ ضروری ہے۔میں نہ صرف اس شکست کی ذمے داری قبول کرتا ہوںبلکہ خود کو جوابدہی کے لیے بھی پیش کرتا ہوں۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سب کا محاسبہ ہو مگر صدر کا نہ ہو۔میں بی جے پی کا بطور سیاسی جماعت مخالف نہیں بلکہ اس کے نظریے کا مخالف ہوں۔میں جس بھارت کے خمیر سے اٹھا ہوں وہ بی جے پی کے تصورِ بھارت سے مختلف ہے۔یہ کوئی نئی لڑائی نہیں بلکہ ہزاروں سال سے جاری ہے۔

جہاں وہ تصادم دیکھتے ہیں میں ہم آہنگی دیکھتا ہوں۔ جہاں وہ نفرت دیکھتے ہیں وہاں میں پیار دیکھتا ہوں۔ جہاں وہ خوف دیکھتے ہیں وہاں میں گلے لگاتا ہوں۔یہی بھارت کی اصل روح ہے۔ریاستی ڈھانچے اور آئین پر حملہ اس ملک کے تانے بنے کو تباہ کر سکتا ہے۔کئی بار مجھے لگا جیسے میں اکیلا کھڑا ہوں مگر جتنا بھی لڑ سکا اس پر فخر ہے اور مرتے دم تک کانگریس کا سپاہی رہوں گا۔

کئی مبصرین کہتے ہیں کہ راہول کا جذبہ بھلے کتنا ہی قابلِ قدر ہو مگر جو مکا لڑائی کے بعد یاد آئے اسے اپنے منہ پر مار لینا چاہیے۔راہول نے اپنے پانچ سالہ دورِ صدارت میں پارٹی کو سیکولر سمبل بنا کر رکھنے کے لیے باتیں زیادہ کیں اور عمل کم کیا۔ ووٹ بینک بڑھانے کے لیے انھوں نے گلابی ہندوتوا کی پالیسی اختیار کی، مندروں میں چڑھاوا چڑھایا، مسجدوں سے دور رہے ، خود کے ہندو ہونے پر فخر کیا مگر پچھلی جاتیوں اور مسلمانوں پر اجتماعی تشدد کے بارے میں ایک لفظ نہ کہا۔بقول شخصے راہول نے اپنا نظریاتی میدان چھوڑ کر بی جے پی کے میدان میں فٹ بال کھیلنے کی کوشش کی مگر جب اصل ہندوتوا موجود ہو تو چائنا کاپی کون خریدے گا۔

سیاست میں اونچ نیچ غلط صحیح چلتا رہتا ہے۔اب دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا گاندھی خاندان کے بغیر کانگریس خود کو اوور ہال کر پاتی ہے یا بار بار مڑ مڑکے گاندھی خاندان کی طرف ہی دیکھتی رہے گی۔کیا راہول ، پریانکا اور سونیا اگلے کئی برس تک کانگریس کو اپنے تنظیمی فیصلے خود کرنے دیں گے یا پیچھے سے ڈور ہلاتے رہیں گے ؟

کانگریس ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی۔تقسیم سے قبل مدتِ صدارت ایک سالانہ اجلاس سے اگلے سالانہ اجلاس تک ہوا کرتی تھی۔ صدر نامزد نہیں منتخب ہوتا تھا۔یوں سمجھ لیجیے کہ اٹھارہ سو پچاسی سے انیس سو سینتالیس تک کانگریس کے اٹھاون صدر بدلے گئے۔مگر تقسیم کے بعد کے پہلے پچاس برس میں کانگریس کی صدارت کے لیے صرف دو بار انتخابات ہوئے۔ نوے کی دہائی میں راجیو گاندھی کے مرنے کے بعد لگ بھگ آٹھ برس تک کانگریس کی قیادت نہرو خاندان سے باہر رہی اور پھر سونیا گاندھی اور پھر راہول کے پاس آ گئی۔

کیا اس پوری کہانی میں پاکستانی خاندانی سیاسی جماعتوں کے لیے کوئی سبق ہے ؟ اگرچہ پی ٹی آئی اور بی جے پی میں سوائے اس کے کوئی قدرِ مشترک نہیں کہ دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت فی الحال خاندانی سیاست کے گھن چکر سے باہر ہے اور اس وقت دونوں ملکوں میں خاندانی سیاست کے بل پر برسوں حکمران رہنے والی تجربہ کار جماعتوں کو وختا پڑا ہوا ہے۔لیکن بی جے پی اور پی ٹی آئی میں ایسے کئی سیاسی خاندان مل جائیں گے جن کے گھر میں پارلیمنٹ ، صوبائی اسمبلی اور بلدیاتی عہدوں سمیت چھ آٹھ دس پندرہ تک ارکان  پائے جاتے ہیں ( سوائے جماعتِ اسلامی اور ایم کیو ایم کے )۔

دونوں ممالک میں آج بھی ہارنے اور جیتنے والی بیشتر جماعتوں کی اعلیٰ قیادتیں بھائی بھتیجا میں رچی بسی ہیں۔ بھلے وہ تامل ناڈو کی ڈی ایم کے ہو کہ بہار کی راشٹریہ جنتا دل کہ یوپی کے ملائم سنگھ یادو کی بہوجن سماج پارٹی کہ پنجاب کا اکالی دل ، کہ مہاراشٹر کی شیو سینا کہ آندھرا کی تلگو دیشم پارٹی یا اور بہت سی چھوٹی بڑی جماعتیں۔کسی میں بیوی تو کسی میں داماد تو کسی میں بیٹی تو کسی میں ماں چچا ماموں خالو۔

پاکستان میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز، مسلم لیگ ق ، جے یو آئی ، اے این پی ، پختون خواہ ملی عوامی پارٹی ، قومی وطن پارٹی ، بی این پی مینگل ، نیشنل پارٹی سے لے کر تانگے پر سوار سیاسی تنظیموں تک پہلے خاندان ، پھر پارٹی ورکر ، پھر ووٹر ، پھر جمہوریت۔

ہارتے چلے جائیں گے مگر خو نہیں بدلیں گے۔یہی حال بنگلہ دیش کا بھی ہے۔عوامی لیگ مجیب خاندان کی لمیٹڈ کمپنی ہے اور بی این پی ضیا خاندان کی لونڈی۔

دیکھنے کی بات یہ ہوگی کہ جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی جماعت نہرو خاندان کی ’’ ددو کی بوتل ’’ ترک کر کے کب پوری طرح سے سیاست کے کپ میں دودھ پینا سیکھتی ہے۔اگر یہ تجربہ کامیاب ہو گیا تو پھر جنوبی ایشیا کی دیگر خاندان گزیدہ جماعتوں کو بھی کچھ غیرت دلانے کا کام نسبتاً آسان ہو جائے گا۔آج کانگریس جس حال میں ہے اسے دیکھتے ہوئے مولانا ظفر علی خان کے اسی برس پرانے شعر میں جان پڑ گئی ہے۔

کانگریس آ رہی ہے ننگے پاؤں

جی میں آتا ہے بڑھ کے دوں جوتا

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)

The post کانگریس آ رہی ہے ننگے پاؤں appeared first on ایکسپریس اردو.

’’پہلے پانچ منٹ اہم ہوں گے‘‘

$
0
0

ائیر کنڈیشنر سے پانی کی بوندیں گر رہی تھیں‘ دیوار کے بالکل نیچے شیشے کا مرتبان رکھا تھا‘ ائیرکنڈیشنر کی سفید باڈی پر پانی کا قطرہ بنتا تھا اور وہ چند سیکنڈ بعد ٹپ کی آواز کے ساتھ مرتبان میں جا گرتا تھا‘ صاحب یہ آواز سنتے تھے اور خوش ہوتے تھے‘ میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا‘ آپ اپنا اے سی ٹھیک کیوں نہیں کرا لیتے‘ مکینک آئے گا اور منٹوں میں یہ ٹپ ٹپ بند ہو جائے گی۔

وہ ہنس کر بولے ’’تم چاہتے ہو میں ساون کی خوشی سے محروم ہو جاؤں‘‘ میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولے ’’یہ ٹپ ٹپ صرف ٹپ ٹپ نہیں یہ ساون کی ای میل بھی ہے‘ میرا اے سی خشک گرمیوں میں خاموش رہتا ہے لیکن فضا میں جوں ہی ساون کی نمی آتی ہے یہ ٹپ ٹپ کرنے لگتا ہے اور میں یہ آوازیں انجوائے کرتا ہوں‘ یہ آوازیں اور یہ نمی جولائی کے آخر اور اگست کے شروع میں دوگنی ہو جائیں گی اور میں یہ سن سن کر خوش ہوتا رہوں گا‘‘ صاحب نے اس کے ساتھ ہی سگار سلگایا اور کمرے میں کیوبن تمباکو کی خوشبو پھیلنے لگی۔

میں نے عرض کیا’’ وزیراعظم عمران خان 20جولائی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے لیے واشنگٹن جا رہے ہیں‘ یہ میٹنگ کیسی رہے گی‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’پاکستانی ٹرمپ امریکی ٹرمپ سے ملنے جا رہا ہے‘‘ میں نے بے چین ہو کر کروٹ بدلی اور عرض کیا ’’سر یہ زیادتی ہے‘ یہ ہمارے وزیراعظم ہیں‘‘ وہ مزید ہنسے اور بولے ’’یہ میں نہیں کہہ رہا‘ یہ امریکی میڈیا کا خیال ہے‘‘ وہ رکے اور چند لمحے سوچ کر بولے ’’آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی صدر ٹرمپ دنیا کے واحد لیڈر ہیں جو پروٹوکول کا خیال نہیں رکھتے۔

یہ دنیا بھر کے لیڈروں سے ملتے ہیں‘ انھیں پانچ منٹ میں جو شخص کلک کر جاتا ہے یہ اس کے لیے دن بھر کی تمام مصروفیات منسوخ کر دیتے ہیں اور یہ پھر اسے لنچ یا ڈنر کے لیے بلیئر ہاؤس لے جاتے ہیں‘ یہ اس کے ساتھ گالف کھیلتے ہیں‘ واک کرتے ہیں اور اپنی زندگی کے لطیفے شیئر کرتے ہیں لیکن اگر وہ شخص انھیں کلک نہ کرے تو یہ پانچ منٹ میں بور ہو جاتے ہیں اور وہ شخص پوپ ہی کیوں نہ ہو یہ اٹھ کر اس کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہیں اور باہر نکل جاتے ہیں۔

آپ شمالی کوریا کے صدر کم جونگ کو لے لیں‘ امریکا 70سال سے شمالی کوریا کا دشمن ہے لیکن کم جونگ کلک کر گئے اور صدر ٹرمپ ان سے ملنے کے لیے سنگا پور بھی گئے اور یہ 30جون کو پن مون جوم(ساؤتھ کوریا) کی سرحد پر چلتے چلتے شمالی کوریا کی حدود میں بھی داخل ہو گئے یوں یہ شمالی کوریا کے صدر سے ملاقات اور شمالی کوریا کی زمین پر قدم رکھنے والے پہلے امریکی صدر بن گئے۔

آپ یہ بھی یاد رکھیں صدر ٹرمپ نے19 ستمبر 2017ء کو اقوام متحدہ کی اپنی پہلی تقریر میں شمالی کوریاکو دھمکی دی تھی ’’امریکا کو خطرہ ہوا تو شمالی کوریا کو ختم کر دیں گے‘‘ اور امریکی صدر نے11 نومبر 2017ء کو اپنے ایک ٹویٹ میں کم جونگ کو ’’چھوٹا اور موٹا‘‘ بھی کہا تھا لیکن آپ آج دیکھ لیں صدر ٹرمپ نے امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان موجود دیوار چند سیکنڈ میں گرا دی‘ کیوں؟ کیوں کہ کم جونگ صدر ٹرمپ کو کلک کر گئے تھے‘‘ صاحب رکے‘ چند لمبے لمبے سانس لیے اور بولے ’’صدر ٹرمپ اور عمران خان کی میٹنگ کے ابتدائی پانچ منٹ بہت اہم ہوں گے۔

عمران خان اگر کلک کر گئے تو پاکستان اور امریکا کے آئیڈیل تعلقات کا آغاز ہو جائے گا‘ مسئلہ کشمیر بھی حل ہو جائے گا‘ بھارت اور پاکستان کے بارڈرز بھی کھل جائیں گے اور پاکستان کا معاشی بحران بھی ختم ہو جائے گا لیکن اگر عمران خان نے 1992ء کے ورلڈ کپ کی داستان شروع کر دی یا میں جب کرکٹ کھیلتا تھا یا میں نے جب شوکت خانم شروع کیا یا میں نے جب پارٹی بنائی تو پوری دنیا یہ کہتی تھی عمران خان تم کامیاب نہیں ہو سکتے مگر میں کامیاب بھی ہوا اور آج میں وزیراعظم بھی ہوں وغیرہ وغیرہ یا پھر عمران خان نے اگر ریاست مدینہ کا قصہ چھیڑ دیا اور یا پھر یہ صدر ٹرمپ کے سامنے آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے گندے کپڑے دھونے لگے تو یہ میٹنگ چند لمحوں میں ختم ہو جائے گی۔

صدر ٹرمپ عمران خان کو بائے بائے کر دیں گے اور یوں دونوں کی پہلی میٹنگ آخری ثابت ہو گی‘‘ وہ رک گئے۔میں نے عرض کیا ’’یہ آخر عمران خان کی باتوں سے کیوں چڑ جائیں گے‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’یہ دونوں ایک جیسے ہیں‘ صدر ٹرمپ کے پاس بھی اپنے عروج و زوال کی بے شمار کہانیاں ہیں چناں چہ دوسروں کی کہانیاں انھیں بور کر دیتی ہیں‘ یہ سننے کے بجائے سنانے پربھی یقین رکھتے ہیں‘ یہ عمران خان کی طرح لمبی گفتگو بھی برداشت نہیں کر پاتے‘ یہ ڈیل میکر ہیں‘ یہ سیدھا پوائنٹ پر آتے ہیں اور آپ نے اگر ان کا پوائنٹ اٹھا لیا تو آپ کی ڈیل شروع ہو جائے گی ورنہ یہ دوسری پارٹی کی طرف چل پڑتے ہیں۔

عمران خان کو بھی سننے کی عادت نہیں‘ یہ بھی ہر وقت سنانا چاہتے ہیں لہٰذا دونوں کے درمیان ٹکراؤ کا خطرہ موجود ہے‘‘ وہ خاموش ہو گئے‘ میں نے عرض کیا ’’اور صدر ٹرمپ کے ذہن میں کیا پوائنٹس ہوں گے‘‘ وہ دیر تک ہنستے رہے اور پھر بولے ’’دو پوائنٹس‘ یہ پاکستان کی بھارت کے ساتھ صلح کرانا چاہتے ہیں‘ پاکستان نے بالاکوٹ میں اسٹرائیک کے بعد بھارت کے دو طیارے گرا دیے تھے‘ یہ بھارت کے منہ پر سیدھا سادا تھپڑ تھا۔

بھارت نے 27 اور 28 فروری کی درمیانی رات اپنی سرحد پر 9 میزائل بھی لگا دیے تھے اور حملے کے لیے تیاری بھی کر لی تھی‘ پاکستان جواب کے لیے اپنے جوہری اثاثے باہر لے آیا‘ امریکی سیٹلائیٹ نے وارننگ جاری کر دی‘ امریکا فوراً سامنے آیا اور اس نے دونوں ملکوں کو دھمکا کر جنگ کا خطرہ ٹال دیا‘ یہ خطرہ ٹل گیا لیکن بھارت ابھی تک زخمی سانپ کی طرح لوٹ رہا ہے‘ بھارت کے میزائل بھی لوڈڈ کھڑے ہیں‘ اس کی ائیر فورس بھی بدستور پٹرولنگ کر رہی ہے اور روایتی فوج بھی تیار کھڑی ہے چناں چہ بھارت کی ائیر سپیس بند ہے۔

بھارت پاکستان کے دو سے تین طیارے گرائے بغیر نارمل نہیں ہو گا‘ مودی نے قسم کھا رکھی ہے یہ جب تک بدلا نہیں لے گا یہ عمران خان کی کال سنے گا اور نہ مذاکرات کے لیے ہاتھ بڑھائے گا‘ صدر ٹرمپ چاہتے ہیں پاکستان دو تین طیاروں کی قربانی دے کر جان چھڑا لے‘ حالات بہتر ہو جائیں گے‘ دوسرا پوائنٹ امریکا ایران سے فائنل کھیلنا چاہ رہا ہے اور یہ پاکستان کے بغیر ممکن نہیں‘ صدر ٹرمپ چاہتے ہیں عمران خان امریکا کو 2001ء کی طرح اوپن آفر دے دیں‘ یہ جنرل مشرف بن جائیں۔

عمران خان نے اگر 1992ء کے ورلڈ کپ کی اسٹوری سنانے کے بجائے یہ دونوں پوائنٹس چھیڑ دیے تو ٹرمپ انھیں کندھوں پر بٹھا کر واشنگٹن کی سڑکوں پر پھرنے لگیں گے‘ یہ دونوں ملک چار سال کی دوری کے بعد دوبارہ میز پر آ جائیں گے ورنہ دوسری صورت میں روس کا دورہ حاضر ہے‘ روس نے بھی عمران خان کو ایسٹرن اکنامک فورم میں شرکت کی دعوت دے دی ہے لہٰذا ہم توقعات کی گٹھڑی باندھ کر ماسکو چلے جائیں گے‘‘ وہ رک گئے۔

میں نے عرض کیا ’’سوال یہ ہے کیا عمران خان صدر ٹرمپ کو کلک کر جائیں گے‘‘ صاحب نے قہقہہ لگایا‘ سگار کو چوم کر میز پر رکھا اور بولے ’’ہاں اگر یہ بشکیک یا کنگ سلمان جیسی غلطی نہ کریں تو!آپ کو یاد ہوگا یہ یکم جون کو کنگ سلمان کے سامنے آئے‘ انگلی اٹھا کر زور زور سے گفتگو کی اور شاہ سلمان کا جواب سنے بغیر باہر نکل گئے‘ سعودی حکومت نے اس رویے پر شدید احتجاج کیا‘ بشکیک میں بھی 8سربراہان مملکت کھڑے تھے اور یہ سیدھے جا کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے تھے‘ یہ سفارتی آداب کی سیدھی سادی خلاف ورزی تھی‘ میں نے پروٹوکول اور وزیراعظم کے اسٹاف سے پوچھا تھا۔

انھوں نے مایوس لہجے میں جواب دیا تھا یہ سنیں گے تو ہم انھیں بتائیں گے‘ ہم اگر انھیں بھارت کے بارے میں بتانا شروع کریں تو یہ کہتے ہیں میں جب انڈیا میں میچ کھیلنے جاتا تھا تو اسٹیڈیم میں لاکھ لاکھ تماشائی بیٹھے ہوتے تھے‘ یہ صبح میرے خلاف ہوٹنگ کرتے تھے لیکن شام کو پورا اسٹیڈیم میرے لیے تالیاں بجا رہا ہوتا تھا‘ انڈیا کو مجھ سے زیادہ کون جانتا ہے اور ہم اگر انھیں پروٹوکول کے بارے میں بتانے لگیں تو یہ برطانیہ کے شاہی خاندان‘ لیڈی ڈیانا اور اپنی سابق ساس کی مثالیں دینا شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں‘ پروٹوکول کو مجھ سے زیادہ کون جانتا ہے۔

یہ کیوں کہ سب کچھ جانتے ہیں لہٰذا ہم نے انھیں بتانا چھوڑ دیا ہے‘‘صاحب نے کہا ’’ عمران خان نے اگر اس بار پروٹوکول اور اسٹاف کی بات مان لی‘ یہ اگر ٹرمپ کے ساتھ آدھا ہاتھ ملا کر بیٹھ نہ گئے تو یہ کلک کر جائیں گے‘ بات چل نکلے گی‘ دوسرایہ اگر زبانی گل فشانی کے بجائے پیپر پڑھ لیں گے تو بھی پاکستان اور امریکا کے تعلقات بچ جائیں گے ورنہ دوسری صورت میں ان کی زبان لڑکھڑانے کی دیر ہے اور ہم گئے‘‘ وہ رکے ‘ تھوڑی دیر سوچا اور پھر بولے ’’میں وہ بے وقوف تلاش کررہا ہوں جس نے انھیں یہ بتا یا تھا آپ اگر براہ راست بولیں گے تو آپ مہاتیر محمد یا مینڈیلا بن جائیں گے۔

ریاست اگر اس بار انھیں رٹا لگوانے یا کاغذ پڑھانے میں کام یاب ہو گئی تو کام یابی کا سو فیصد چانس ہے ورنہ دوسری صورت میں‘‘ صاحب رکے‘ سگار اٹھایا اور ہونٹوں کے قریب لا کر بولے ’’ورنہ دوسری صورت میں ہم امریکا سے بھی بے عزتی کرا کر واپس آئیں گے اور ہمیں فردوس عاشق اعوان بتائیں گی یہ دورہ کتنا کام یاب رہا‘‘ وہ رکے اور بولے ’’عمران خان کے صدر ٹرمپ کے ساتھ پہلے پانچ منٹ اہم ہوں گے‘ امریکا اور پاکستان کے مستقبل کے تعلقات ان پانچ منٹوں پر منحصر ہیں‘ہم نے یہ پانچ منٹ کیش کرا لیے تو واہ واہ ورنہ ہائے ہائے‘‘۔

The post ’’پہلے پانچ منٹ اہم ہوں گے‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

کراچی، صحت عامہ اور پانی کا مسئلہ

$
0
0

کراچی کے زخموں پر مرہم رکھنے کوکوئی بھی تیار نہیں،کوئی اسے ’’ اون‘‘ نہیں کرنا چاہتا۔وفاق نے سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود کراچی کے 3بڑے اسپتالوں کو بجٹ کی عدم دستیابی کی بنا پر سندھ حکومت کو واپس دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی کابینہ کی کمیٹی برائے صحت کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کو موقع دیا جائے کہ وہ کراچی کے تین اسپتالوں کی واپسی کے لیے نظرثانی درخواست دائرکرے۔

یہ معاملہ وفاق اور صوبے کے درمیان تناؤکا سبب بنا ہوا تھا ، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو متعدد بارکہہ چکے تھے کہ اگر اسپتالوں کا انتظام سنبھالنے کا نوٹیفکیشن واپس نہیں لیا گیا تو سندھ کے عوام کے ساتھ اسلام آباد پہنچ کر احتجاج کریں گے، سندھ حکومت نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے سے ثابت ہوگیا کہ کراچی کے عوام سے حکومت کو کوئی سروکار نہیں، وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھاکہ اسپتال صرف سندھ حکومت چلائے گی، ان اسپتالوں میں ہم نے بہت خرچہ کیاہے، پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ یہ اسپتال وفاق نہیں چلاسکتا۔

سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے ہٹ کر عوامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو سپریم کورٹ نے ناقص انتظامات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے یہ فیصلہ عوام کو بہتر طبی سہولتوں کی فراہمی کے حوالے سے کیا تھا، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہریوں کے درد کا درماں کوئی کرنا ہی نہیں چاہتا، پی ٹی آئی نے پہلی بارکراچی سے قومی اسمبلی کی چودہ نشستیں جیتی ہیں، لیکن عوام کے علاج معالجے کے لیے اس کے پاس فنڈز نہیں۔ جدید دورکی ریاستوں میں برطانیہ اور کینیڈا میں عوام کو جو طبی سہولتیں میسر ہیں،اس کا تصور بھی پاکستانی عوام کے لیے محال ہے۔

ٹیکس پرٹیکس تو حکومت نے وفاقی بجٹ میں خوب لگا دیے ہیں، مگر عوام کے علاج معالجے کے لیے فنڈز نہیں۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ کراچی میں پانی کا مسئلہ اکیلے حل نہیں کرسکتے، وفاق تعاون کرے۔ وزیراعظم کی جانب سے اعلان کردہ کراچی پیکیج سے متعلق سوال پر انھوں نے کہا کہ وزیراعظم 162 ارب روپے کا حکم یا اعلان کر کے چلے گئے مگر اب تک ہوا کچھ بھی نہیں ۔ بلاشبہ کراچی میگا سٹی کا ٹائٹل رکھنے والا شہر ہے، لیکن یہاں مصائب وآلام کا شمار بھی ممکن نہیں ۔کراچی دراصل اب مافیازکا شہر بن چکا ہے۔

پانی انسانی زندگی کا لازمی جزو ہے جس کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے، پر جس طرح کراچی کے عوام پانی کی بوند کو ترس رہے ہیں، غریب اور پسماندہ بستیوں کے مکین جس طرح پانی کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں، دن بھر رلتے ہیں دھکے کھاتے ہیں یہ بہت بڑا انسانی المیہ ہے۔ متوسط اور پوش علاقوں کے مکین مہنگوں داموں پانی کے ٹینکر خریدتے ہیں۔کراچی کے عوام ٹینکرمافیا کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہت سارے گدھ کراچی کے عوام کو نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں، واٹر بورڈ اور دیگر سرکاری محکموں کی نااہلی کی سزا شہریوں کو مل رہی ہے۔ شہری لاکھ احتجاج کریں، سڑکوں پر ٹائر جلائیں ، ٹریفک روکے رکھیں، اس سب کا نتیجہ صفر ہی نکلتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ وفاق اور سندھ میں جو لوگ برسراقتدار ہیں کیا انھیں کراچی کے عوام کی چیخیں سنائی نہیں دیتیں،کیا انھوں نے اپنی آنکھیں اورکان بندکرلیے ہیں۔ان سطور کے ذریعے صرف اپیل ہی کی جاسکتی ہے کہ کراچی کے جمہور کے مسائل وفاق اورصوبہ مل کر حل کریں ۔

The post کراچی، صحت عامہ اور پانی کا مسئلہ appeared first on ایکسپریس اردو.

مقبوضہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی نئی رپورٹ

$
0
0

پاکستان نے اقوام متحدہ کی نئی سالانہ رپورٹ جس میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک انکوائری کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے، اس کا خیر مقدم کیا ہے۔ اقوام متحدہ نے لگاتار دوسرے برس اپنی سالانہ رپورٹ میں انکوائری کمیشن کا مطالبہ کیا ہے۔

سن 2019کی رپورٹ میں قابض بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ وادی کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں روز بروز اضافہ پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی دوسری سالانہ رپورٹ میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے اور ان کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پچاس سال قبل ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی توجہ مبذول کرائی گئی تھی جس پر اقوام متحدہ نے بھارت کو کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے کی ہدایت کی تھی جسے بھارت کی طرف سے وقتی طور پر تسلیم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی مگر بھارت کا یہ اقرار محض دکھاوا تھا اور درپردہ اس نے مقبوضہ وادی کی آئینی حیثیت ہی بدلنے کی کوشش شروع کر دی تا کہ اس مسلم اکثریتی ریاست کو آئینی طور پر بھارت میں ضم کیا جا سکے۔

اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کی تازہ رپورٹ میں قابض بھارتی افواج کی جانب سے نہتے شہریوں کو پیلٹ گن کے استعمال سے نابینا، معذور اور حتیٰ کہ قتل کرنے، ماورائے عدالت قتل کے واقعات کی حقیقت تسلیم کی گئی ہے۔ گھر گھر تلاشیوں کی آڑ میں کشمیریوں کو جبر و تشدد کا نشانہ بنانے، مظاہرین کی حراستوں، سیاسی نظر بندیوں کا اعتراف کیا گیا اور بتایا گیا ہے کہ قابض افواج کو حاصل اندھے اختیارات کے ذریعے نہتے کشمیریوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بھارت سے مقبوضہ علاقے میں جولائی 2016کے بعد سے شہریوں کے قتل عام کے تمام واقعات کی آزادانہ، غیر جانبدرانہ اور قابل اعتماد تحقیقات کرانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ لیکن یہ ایسا مطالبہ جس کو قابض بھارتی حکومت کسی طرح بھی منظور نہیں کر سکتی بلکہ کسی حیلے بہانے سے اسے ٹالنے کی کوشش کرے گی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کی نقل و حرکت، اظہار رائے کی آزادی اور غیر جانبدار صحافیوں کے حقائق اجاگر کرنے کے حق پر پابندیاں عائد ہیں۔

ان مقاصد کے لیے آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ ( اے ایف ایس پی اے) اور پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) جیسے کالے قوانین کا سہارا لیا جاتاہے۔ ان سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کوئی قانونی یا تادیبی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے بھارت سے اپیل کی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں رائج کالے قوانین کو فوری طور پر منسوخ کرے اور پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کو انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے مطابق بنانے کے لیے اس میں ترمیم کرے۔

رپورٹ میں جو نئی بات کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ مقبوضہ وادی میں تمام گمنام قبروں کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد، غیر جانبدار اور قابل اعتبار تحقیقات کو یقینی بنایا جائے لیکن کیا بھارت اپنی اس دکھتی رگ کے بارے میں کی گئی سفارش قبول کر لے گا‘ اس بارے میں کوئی ضمانت حاصل نہیں دی جا سکتی۔

دریں اثنا اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر نے مقبوضہ وادی کے حوالے سے دوسری رپورٹ بھی جاری کر دی ہے جب کہ پاکستان نے دوسری رپورٹ کے اجراء کا خیرمقدم کیا ہے جس میں جموں و کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس حق کے احترام پر زور دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کو عالمی قانون کے تحت مکمل تحفظ حاصل ہے۔

ترجمان پاکستانی دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل کے مطابق پاکستان نے انسانی حقوق ہائی کمشنر کی رپورٹ کا خیر مقدم کیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کا اپنے بیان میں کہنا ہے کہ پاکستان ہائی کمشنر کی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن کے قیام کی سفارش کا خیر مقدم کرتا ہے۔

رپورٹ میں پیلٹ گنز کے استعمال سمیت قابض افواج کی بربریت کا حوالہ دیا گیا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کے حالات میں کوئی مماثلت نہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق مقبوضہ کشمیر دنیا میں سب سے زیادہ عسکری مداخلت والا خطہ ہے جب کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان غیر ملکی سیاحوں کے لیے کھلے ہیں، مسئلہ کشمیر کا واحد حل کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت دینا ہے کہ یہی ایک راستہ ہے جس کے ذریعے کشمیریوں کے جملہ حقوق کا تحفظ کیا جاسکتا ہے۔ دریں اثنا مقبوضہ کشمیر کے شہید رہنما برہان مظفر وانی کے تیسرے یوم شہادت پر پوری مقبوضہ وادی میں مکمل ہڑتال کی گئی بھارتی حکام کی طرف سے وادی پر کرفیو لگا کر وادی کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا گیا اور کشمیریوں پر ظلم و تشدد کا بازار گرم کر دیا گیا۔

تنازع کشمیر اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے تمام ادارے اور ممالک اس تنازعے کی سنگینی سے آگا ہ ہیں۔ بھارت کے عزائم بھی پوری دنیا پر آشکار ہیں اور وہ کئی بار پاکستان کے خلاف جارحیت بھی کرچکا ہے۔

اقوام متحدہ کی سالانہ رپورٹ کشمیریوں اور پاکستان کے لیے حوصلہ افزا ہے لیکن حسب روایت اس رپورٹ میں بھی گلگت بلتستان کا حوالہ دے کر ڈنڈی ماری گئی ہے‘ اس کا صاف مطلب ہے کہ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔ اگر اقوام متحدہ سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرنا چاہے تو حالات میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کو تنازع کشمیر کے حل کے حوالے سے دو ٹوک موقف اختیار کرنا چاہیے۔

The post مقبوضہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی نئی رپورٹ appeared first on ایکسپریس اردو.

سندھ بجٹ 2019-20 متوازن ہے (آخری حصہ)

$
0
0

حکومت سندھ کا یہ عمل بھی اچھا ہے کہ آنے والے بجٹ کے اندر پرائمری ہیلتھ مراکز میں بجلی کی سہولت کو قائم رکھنے کے لیے سولر سسٹم کی سہولت دینے کا اعلان کیا ہے، تاکہ شدید گرمی میں زندگی بچانے والی اور دوسری اہم ادویات خراب نہ ہوں اور مریض کو پریشانی نہ ہو۔

پھر یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ حکومت اعلان کر دیتی ہے، مشینیں لگ جاتی ہیں اور کچھ ہی دنوں کے بعد کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ افسران خریداری میں کمیشن کے چکر میں غیر معیاری آلات خرید لیتے ہیں جس کا حساب کوئی نہیں پوچھتا اور پیسے بھی ضایع ہوجاتے ہیں اور دی گئی سہولتیں بند ہوجاتی ہیں۔

یہ بھی اچھی بات ہے کہ صوبے کے اندر نئے کالج قائم ہونگے جس سے علاقے کے نوجوان وہیں تعلیم حاصل کرسکیں گے مگر حکومت کو چاہیے کہ وہ موجودہ اسکول اور کالجوں کا بھی خیال رکھے۔ آئی ٹی یونیورسٹی تھرکا قیام تو بہت زیادہ قابل تعریف ہے جسکی وجہ سے وہاں کے نوجوان اس ٹیکنالوجی میں بھی تعلیم حاصل کرکے باقی پاکستان کے علاقوں میں رہنے والوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ چل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائینگے۔

سندھ انٹر پرائز ڈیولپمنٹ فنڈ کا قیام بھی اچھا ہے جو زرعی بزنس کی ترقی کے لیے قائم کیا جا رہا ہے کیونکہ ملک کی معیشت میں زراعت کی ترقی بھی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ سانگھڑ سے سندھڑی اور میرپورخاص کے لیے نئے روڈ بنانے کا منصوبہ بہت ہی اچھا ہے جس سے عوام کو مزید سفری سہولتیں ملیں گی اور بزنس کو تقویت ملے گی۔

غربت کو کم کرنے اور سماجی زندگی کو مزید مستحکم بنانے کے لیے جو پروگرام خیرپور میرس، سانگھڑ، بدین، ٹھٹھہ، عمر کوٹ اور میرپورخاص میں شروع کیے گئے تھے انھیں دوسرے اضلاع میں بھی چلانے کے لیے شکارپور، کشمور، کندھ کوٹ اور تھرپارکر میں بھی متعارف کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ سکھر میں مزید صحت کی سہولتیں دینے کے لیے 20 بستروں کا ایک نیا اسپتال بنایا جائے گا جو حکومت اور نجی اشتراک سے ہوگا۔ ایس آئی یو ٹی اور گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف لیور پلانٹس کے لیے نئے بجٹ میں رقم بڑھا دی گئی ہے جس سے لوگوں کو مزید سہولتیں ملیں گی۔ گھوٹکی اور کندھ کوٹ کو ملانے کے لیے ایک پل بنایا جائے گا جس کے لیے بجٹ میں 14 ارب روپے دیے گئے ہیں۔ اس پل کے بن جانے سے ایک بڑا فاصلہ کم ہو جائے گا۔

سندھ میں آئے دن لوگوں کی نادانی اور ڈرائیوروں کی بے پرواہی اور تیزرفتاری سے کئی حادثے ہوتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے قیمتی جانیں ضایع ہوجاتی ہیں ، حکومت سندھ نے ٹریفک حادثات میں مرجانے والوں کے ورثا کو بطور معاوضہ ایک لاکھ دینے کا اعلان کیا ہے، لیکن ہمیں اس بات کو بھی دیکھنا چاہیے کہ حکومت ایسے ہولناک ٹریفک حادثے روکنے میں کچھ سخت اقدامات کریں تاکہ قیمتی جانیں بچائی جاسکیں۔ مزید زرعی ترقی کے لیے ہاریوں کو تھریشر، آٹو لوڈرز اور دوسری زرعی سہولتوں پر سبسڈی پروگرام شروع کر رہی ہیں جس کے لیے آیندہ مالی سال میں رقم رکھی گئی ہے۔ سکھر بیراج جو سندھ کی معیشت میں اہم رول ادا کرتا ہے اس کی مرمت اور بحالی کے لیے حکومت سندھ نے ورلڈ بینک کی مدد سے ایک پروجیکٹ شروع کرنے کے لیے معاہدہ کیا ہے۔

محکمہ پولیس کو ماڈرن سہولتوں سے آراستہ کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے وقت بہ وقت کئی پروگرام شروع کیے جاتے ہیں اور آنے والے بجٹ کے اندر نئے پولیس اسٹیشن قائم کرنے، اس میں رپورٹنگ روم اور آئی ٹی کی سہولتوں دینے کے لیے نئے بجٹ میں رقم مختص کی گئی ہے۔ سب سے اہم اور اچھی بات جو مجھے لگی ہے وہ ہے ایک ارب پودے لگانے کا پروگرام جس کا مقصد ہے سندھ کو ایک بار پھر سرسبز بنایا جائے کیونکہ درخت کم ہونے کی وجہ سے بارشیں کم ہو رہی ہیں، گرمی کافی بڑھ رہی ہے۔ گراؤنڈ واٹرکوالٹی میں کمی ہوئی ہے اور پانی نکالنے کی گہرائی دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ اب جو بھی آسامیاں پُر ہوں گی ان میں این ٹی ایس کا ٹیسٹ لازمی ہے۔

کریم اور اوبر سروس پر سندھ حکومت نے جو سروس چارجز لگائے ہیں۔ان پر نظرثانی کی جائے تو اچھا ہے کیونکہ یہ سروس گھر سے ملتی ہے اور جہاں جائیں وہاں بغیر تکلیف کے آسانی سے پہنچاتی ہے جسکے چارجز دوسرے ٹیکس، رکشے سے بہت کم ہے اور مسافر آرام اور سیکیورٹی کے ساتھ عورتوں اور بچوں کے ساتھ سفرکرتا ہے اور اس کے چارجز وقت کے لحاظ سے ہوتے ہیں۔ ان کی مزید سروس میں رکشہ اور موٹرسائیکل بھی شامل ہے۔ اس پر چارجز لگانے سے ایک تو عام آدمی کو اچھی، صاف ستھری ٹرانسپورٹ کی سہولت مل رہی ہے وہ اس سے محروم ہو جائے گا اور دوسرا جو چارجز بڑھیں گے اسے مسافروں کو ہی ادا کرنا پڑے گا کیونکہ وہ کرایوں میں اضافہ کردینگے۔

اس کے علاوہ یہ سروس وہ نوجوان چلاتے ہیں جن کو تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی سرکاری یا پرائیویٹ نوکری نہیں ملی۔ جب کہ کم آمدنی والے افراد بھی شام اور رات کو یہ سروس چلا کر اپنے گھر کا خرچہ پورا کرتے ہیں کیونکہ مہنگائی کے طوفان نے غریب درمیانے درجے کے افراد کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اس لیے حکومت سندھ اس پر لگائے ہوئے چارجز اگر ختم کردے تو اس کے لیے دل میں مزید عزت پیدا ہوگی۔

مجموعی طور پر یہ اچھا بجٹ ہے جس میں اگر ٹورازم کی ترقی، جھیلوں سے گندگی صاف کرکے انھیں ترقی دینے کے لیے آثار قدیمہ کے سائٹ پر سرکاری ٹرانسپورٹ چلانے، کوسٹل ایریا کو سمندر کے پانی سے بچانے کے لیے اور ریلوے نظام کی بہتری کے متعلق پروگراموں کے لیے وفاق سے کچھ اسکیمیں مل جاتیں تو بہت اچھا تھا۔ بہرحال شہر میں پبلک ٹوائلٹ کے انتظام کے لیے لوکل باڈیز کے محکمے کو ہدایات دی جائیں تو اچھا ہوگا۔

The post سندھ بجٹ 2019-20 متوازن ہے (آخری حصہ) appeared first on ایکسپریس اردو.

اربنائزیشن اور ہماری قومی ذمے داری (پہلا حصہ)

$
0
0

کوئی دس برس کا عرصہ گزرا کہ راقم ا لسطورکا اپنے پڑوسی ملک بھارت جہاں ہمارے اسلاف کے تانے بانے ملتے ہیں کے شہروں دہلی، ممبئی اور ہمارے جد امجد حضرت سید شرف الدین شاہ ولایت قدس سرہ کی سرزمین ’’امروہہ‘‘ جانے کا اتفاق ہوا ۔ اس وقت کے مطابق ممبئی اور دہلی کی مجموعی آبادی ہمارے کراچی سے دگنی ہو گی۔ یوں کہیے کہ گویا انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا۔ غربت اور پسماندگی کا تناسب ہم سے کہیں زیادہ تھا۔

وہاں بھی ہم نے عام آدمی کو معاشرتی، سماجی، اقتصادی مسائل کا شکار دیکھا۔ ان سب باتوں کے باوجود ہمیں حیرت ہوئی کہ وہاں عوام میں نظم و ضبط اور قانون کی پاسداری بدرجہ اتم موجود تھی۔ بلاشبہ یہ دونوں شہر زمان ومکاں کے لحاظ سے اپنی ایک الگ حیثیت اور شناخت رکھتے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ جو ہماری سمجھ میں آئی کہ وہاں انگریزوں کا تیارکردہ اربنائزیشن کا مربوط نظام تھا جب کہ پاکستان کے حصے میں زیادہ تر زرعی زمینیں، پہاڑ ، دریا ، سمندر، تاریخی مقامات کے علاوہ کہیں کہیں گنی چنی برطانوی سامراج کی تعمیرات ورثہ میں ملیں۔

یاد رہے! وہ طبقہ جو برطانوی سامراج کا وفا شعار درباری تھا، ان کو پاکستان میں زمینیں تحفتہً عطا کر کے چوہدری اور وڈیرے کے منصب پر فائزکیا گیا اور یہی طبقہ ہر دور میں پاکستان کے اقتدار اور اشرافیہ میں شامل رہا۔ یہی اشرافی ٹولا ملک میں اربنائزیشن کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اربنائزیشن کیا ہے؟ پسماندہ طبقات کو جدید شہری سہولیات فراہم کرنا ہے جب کہ آبادی کا بہاؤ دیہاتوں کی سمت ہونے سے عوام الناس میں جہد بقا جاری ہے مگر افسوس کہ حالات اس ڈگر پر آتے ہوئے نظر آ رہے ہیں جیسے قبائلی نظام رائج ہو رہا ہو اور اربنائزیشن کی بجائے ڈی اربنائزیشن کے دورکا آغاز ہو چکا ہو۔ کسی بھی مہذب قوم کا معیار زندگی دیکھنا ہو تو وہاں کے ٹریفک اور تعمیرات کا نظام دیکھ لیں اور کسی حد تک ہم نے بھی دیکھا۔

بمبئی شہر کراچی ہی کی طرز کا قدیمی سمندری ساحلی شہر ہے لیکن وہاں ٹریفک جام اور ناجائز تجاوزات یا مصروف ترین سڑکوں کے اطراف پتھارے یا بھکاری اور ٹرانسپورٹ مافیا کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس شہر میں ریاست کی طرف سے دی گئی ٹرانسپورٹشن کی بنیادی سہولیا ت قابل دید اور قابل ستائش ہیں۔ ممبئی شہر میں شہریوں کی کثیر تعداد کا آمد و رفت کا زیادہ تر انحصار لوکل ٹرین پر تھا جو ہر 5منٹ کے وقفے سے آپ کو بآسانی مل جاتی ہے۔ ہمارا بھی اس لوکل ٹرین میں سفرکا اتفاق ہوا جس کا ہم نے بھی خوب لطف اٹھایا۔

آج کل کراچی میں سرکاری اور غیر سرکاری املاک پر شہری اور بلدیاتی اداروں کی سرپرستی میں تجاوزات کا شور و غوغا ہے۔ چائنا کٹنگ کی نئی اصطلاح منظر عام پر آئی ہے جس پر ہمارے اعلیٰ قانونی مشینری حر کت میں آ گئی ہیں۔ ادھر پوری دنیا میں گرمی کی روز بروزشدت میں اضافے کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی کا چرچا ہے۔ دن بدن آبادی میں اضافے سے جنگلات اور زرعی دیہات شہروں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ ’’اربنائزیشن ‘‘ کے تصورکو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے جب کہ ملک کی مستند منظور شدہ انجینئرنگ یونیورسٹیز میں اربنائزیشن ٹیکنالوجی کے طور پر درس و تدریس کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ شجرکاری ، درخت اور عوام کی تفریح طبع کے لیے کشادہ پارک اورکھیلوں کے لیے وسیع میدانوں کا شدید فقدان ہے۔

شہر کے ماسٹر پلان میں پارکوں اورکھیل کے میدانوں کے لیے مختص جگہوں پر ان اداروں میں چھپی ہوئی کر پٹ کالی بھیڑوں کی ایما پر مساجد ، اسکول اور تجارتی مراکز قائم کر دیے گئے ہیں۔ وطن عزیزکا عروس البلاد ، منی پاکستان ، عالمی بحری بندرگاہ ، کبھی کا روشنیوں کا شہر اور فخر پاکستان ’’کراچی‘‘ وہ عالمی معیارکا شہر ہے جو ملک کے خزانہ کو مجموعی آمدنی کا ستر فیصد ریونیو فراہم کرتا ہے۔ قابل ملال ہے یہ امر کہ اس شہر کا کمایا ہوا خطیر سرمایہ اس شہرکی ترقی پر خرچ ہونے کی بجائے کرپٹ سیاستدان اور اعلیٰ اشرافیہ کی عیش و عشرت کی نذر ہو جاتا ہے جو سرا سر زیادتی اور ناانصافی کے مترادف ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی میں اس وقت 30 لاکھ موٹر سائیکلیں اور پانچ لاکھ سے زائد کاریں سڑکوں پر رواں دواں ہیں۔ ہماری ترقی کی معراج دیکھیں کہ ہم بلٹ ٹرین کی بجائے دھواں چھوڑتی ہوئی منی بسوں اور ہزاروں کی تعداد میں سال خوردہ چنگچی رکشاؤں کے طفیل اپنے ٹرانسپورٹ کی ضروریات پوری کرنے پر مجبور ہیں۔ اب تو ہماری سندھ حکومت سے یہی التجا ہوگی کہ لاہورکی طرز پرکراچی میں بھی چنگچی گدھا گاڑی جلد از جلد شروع کی جائے تاکہ ما حولیاتی آلودگی پر قابو پایا جا سکے۔

گزرے وقت میں ممبئی کی طرز پرکراچی میں بھی عوام کی آسان آمدورفت کے لیے اندرون شہر میں ٹرام چلا کرتی تھی اور شہرکے ملحقہ علاقوں کو لوکل ٹرین اورکراچی سرکلر ریلوے سے عوام سستا، آرام دہ سفر سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے، جو بلا شبہ اربنائزیشن کا اصل حسن تھا۔ سڑکوں پر اتنا ٹریفک نہیں ہوا کرتا تھا جتنا کہ آج ہے۔ کیونکہ مقامی لوگ بآسانی ، بروقت ، سستا اور محفوظ سفر ان ہی لوکل ٹرینز اور سرکلر ٹرینز سے کیا کرتے تھے۔ لوکل ٹرین کی مین لائن پر چلنے والی ٹرین کو مقامی ٹرین کہتے ہیں اور اندرون شہر کے مختلف رہائشی علاقوں تک رسائی سنگل لائن پر مشتمل سرکلر ٹرین سے کی جاتی تھی۔ ماضی قریب میں شہر میں کچھ ایئرکنڈیشنڈ گرین لائنز بسیں چلی تھی جوکامیا ب بھی رہیں۔

ہماری بدقسمتی کہیے یا ہمارے نا م نہاد سیاسی رہنما یا ہمارے ملک کی مخصوص کرپٹ بیوروکریسی (افسر شاہی) اور ہمارے شہری اداروں کی نالائقی اور بے حسی کہیے کہ ٹرانسپورٹیشن کا یہ آسان سا سسٹم یکایک بند ہو گیا اور وہ ساری مہنگی ترین امپورٹڈ بسیں بغیر پرزوں کے ا ینٹوں کے سہارے ورکشاپ کی زینت بن گئیں۔ قبضہ سچا دعوی جھوٹا کے مصداق 19 سال سے التوا میں پڑا ہوا ریلوے ٹریک کے دونوں اطراف کی پڑی خالی زمینوں پر کرپشن زدہ شہری اداروں نے موقع سے فائد ہ اٹھاتے ہوئے ان خالی زمینوںکو قانونی قرار دے کر ان زمینوں کو فروخت کر کے لوگوں کو بسایا ۔ یہ ٹریک 43.2 کلومیٹرز طویل اور 24 اسٹیشنز پر مشتمل ہے۔

ٹریک کے کئی مقامات پرکراسنگ کے لیے اضافی ریلوے ٹریکس بھی بچھائے گئے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس پورے ٹریکس پر 28 پھاٹک آتے ہیں۔ان پھاٹکوں کے بند ہونے کی صورت میں گاڑیوں کی لمبی لمبی قطارلگ جانے کا بھی اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے ۔ حکومت سندھ کی جانب سے سرکلر ریلوے کی بحالی کے سلسلہ میں کوئی واضح پیش قدمی محسوس تو نہیں ہو رہی۔ حالانکہ وزیراعلیٰ سندھ نے ایک سالہ وزیراعظم خاقان عباسی کے دور میں چین کا دورہ کیا اور سرکلر ریلوے کے منصوبہ کو سی پیک میں شامل کرتے ہوئے چین سے سرمایہ کاری کی درخواست کی تھی جو چینی حکومت نے غیر مشروط قبول کر لی۔

پروجیکٹ کی تاخیر پر سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ پروجیکٹ شروع کرنے کے لیے وفاق چینی کمپنی کو سوورن گارنٹی دینے میں حیل و حجت سے کام لے رہا ہے، کیونکہ وفاقی حکومت صرف کراچی سٹی سے لانڈھی کوریڈور تک لوکل ٹرین چلانے میں دلچسپی لے رہی ہے۔ ادھر سپریم کورٹ اور وفاق نے برسوں سے تعمیر شدہ پختہ مکانات کی انہدام کی کارروائی تو بہت تیز رفتاری سے کر دی مگر متاثرین کے پرزور احتجاجی مہم کے باوجود متبادل جگہ فراہم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ قابل غور ہے یہ امرکہ ان رہا ئشیوں کو بجلی، گیس اور پانی کی تمام یوٹیلیٹی سہولیات بھی حاصل تھیں۔

یہ بات توجہ طلب ہے کہ کراچی سرکلرکا آپریشن بند ہونے کے باوجود کچھ عرصہ تک کراچی سٹی سے براہ راست لانڈھی کوریڈور پر لوکل ٹرین وقفہ وقفہ سے تو چلتی رہی مگر اس کو بھی نظر لگ گئی اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے اس کا آپریشن بھی بند ہوگیا جس کی بنیادی وجہ شہر میں ٹرانسپورٹ مافیہ کا قبضہ اور اجارہ داری بتائی جاتی ہے۔کراچی میں تیزی سے ٹریفک کے ابھرتے ہوئے عوامی مسائل اور سی پیک کے اقتصادی منصوبہ پر تیزی سے عمل درآمد پر سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری کی دو رکنی بینچ نے جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سیکریٹری ریلوے کو فوری نوٹس جاری کرتے ہوئے حکم جاری کیا کہ 19سال کے طویل عرصے سے بند کراچی سرکلر ریلوے (KCR)کی سروس ایک ماہ میں بحال کیا جائے اور ساتھ ہی وفاق ، سندھ حکومت ، میئرکراچی کو ہدایات جاری کیں کہ کراچی سرکلر کے متاثرین کو متبادل جگہ فراہم کرنے میں موثر اقدامات کریں۔

شروع میں تو بلدیات کے وزیر موصوف سیاسی بیان بازی کرتے ہوئے یہ فرما رہے تھے کہ میں اپنے عہدہ سے استعفی دے دوں گا، مگر کسی کو بے گھر نہیں ہونے دوں گا ، لیکن پھر بھلا ہو جسٹس گلزار کا کہ ان کی ڈانٹ ڈپٹ نے تمام سرکاری مشینری کو اس پر عمل کرنے پر مجبورکر دیا۔

The post اربنائزیشن اور ہماری قومی ذمے داری (پہلا حصہ) appeared first on ایکسپریس اردو.


جھوٹ پرکھڑی عمارت کبھی پائیدار نہیں ہوتی

$
0
0

جس طرح حضرت علی کے اِس قول کو ہمارے یہاں اکثر استعمال کیا جاتا ہے کہ کفر کی حکومت تو برقرار رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی نہیں۔ اِسی طرح اگر یہ کہا جائے کہ جھوٹ پر مبنی عمارت بن تو سکتی ہے لیکن وہ کبھی پائیدار نہیں ہو سکتی تو غلط بھی نہیں ہو گا۔ عمران خان نے سیاست کے میدان میں جب قدم رکھا تو وہ صاف ستھری اور مثبت سیاست کے امین ہونے کے دعویدار تھے۔

اُن کے ویژن اور انداز فکر کو دیکھ کر لوگوں نے سمجھا کہ واقعی وہ ایک ایسا نیا فلسفہ اور نظریہ متعارف کروانا چاہتے ہیں جس کی وطن عزیز میں شدت سے ضرورت محسوس کی جاتی تھی۔ وہ پندرہ سولہ سال تک اِسی کو لے کر انتخابی سیاست میں خود کو آزماتے رہے لیکن مسلسل ناکامی نے انھیں ملک کی روایتی سیاست کا حصہ بننے پر مجبور کر دیا اور انھوں نے مکر و فریب کے تمام ریکارڈز توڑ ڈالے۔ وہ ہر شام اِک نیا جھوٹ تراش کر عوام کو الّو بناتے رہے اور اپنے بارے میں ایسا تاثر پیدا کرتے رہے کہ جیسے وہ واقعی اِس قوم کے مسیحا بن کر آئے ہیں۔

جس طرح جھوٹ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی جھوٹ تواتر اور تسلسل کے ساتھ ہر روز بولاجاتا رہے تو وہ ایک دن شاید سچ معلوم ہونے لگتا ہے۔ عمران خان کے اِسی فلسفہ کو اپنا کر اپنے مخالفوں کے بارے میں تواتر کے ساتھ اتنے جھوٹ بولے کہ عوام اُسے سچ ماننے پر مجبور ہوگئے۔ چار حلقوں سے شروع ہونے والی سیاست نے اردو بازار میں بیلٹ پیپر چھپوانے اور 35 پنکچرز سمیت ایسے لاتعداد جھوٹ تراشے جن کا کوئی سر پیر نہیں تھا اور جنھیں وہ کسی عدالت یا الیکشن کمیشن میں بھی ثابت نہیں کرسکے۔

اِسی طرح ملک کے دیگر مسائل پر بھی وہ قوم کو ہر روز ایک نیا من گھڑت بیانیہ لے کر نہ صرف بے وقوف بناتے رہے بلکہ سارے ملک کو عدم استحکام اور انارکی جانب دھکیلتے رہے۔ امپائر کی انگلی کے اشارے اور اُس کے انتظار میں وہ ہر روز ایک نئی تاریخ قوم کو دیا کرتے تھے، مگر پھر اِس میں ناکامی میں وہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہوکر لوگوں کو پارلیمنٹ اورپرائم منسٹر ہاؤس سمیت پی ٹی وی پر حملے کے لیے بھی راغب کرنے لگے۔

یہ دنیا کی کسی بھی ریاست کے خلاف ایک انتہائی قدم ہوا کرتا ہے جو کوئی حکومت برداشت نہیں کر سکتی۔ خود عمران خان اپنی اپوزیشن کو آج اِس کی اجازت دینے کے روا دار نہیں ہو سکتے لیکن انھوں نے خود اپنے لیے سیاست کے نئے اور منفرد اُصول اورضابطے بنائے رکھے ہیں۔ یہ سب کچھ وہ کسی کی ایماء اور اشاروں پرکر رہے تھے شاید اِسی لیے اُن کو اِس کی اجازت تھی۔ اِن تمام حربوں اور ہتھکنڈوں کے باوجود وہ کامیاب ہوتے نہیں دکھائی دے رہے تھے تو پھر اُن کی مدد کے لیے خفیہ ٹاسک فورس حرکت میں لائی گئی جس نے پاناما کیس کو عدالت کے ذریعے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔

پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں پاناما لیکس کی بازگشت اتنی شدت کے ساتھ سنی گئی ورنہ دنیاکے اور بھی بہت سے ملکوں کے با اثر لوگوںکے خلاف بھی کچھ ایسے ہی الزامات لگائے گئے تھے مگر وہاں کسی نے توجہ نہیں دی ۔خود ہمارے یہاں 480 افراد آف شور کمپنیاں بنانے والوں کی فہرست میںشامل تھے لیکن سوائے ایک شخص کے کسی اورسے کوئی پوچھ گچھ تک نہیں کی گئی۔ شروع شروع میں کہا تو یہ گیاتھا کہ ہر ایک کیس کی چھان بین ہوگی مگریہ سارا ہنگامہ نواز شریف سے شروع ہوکر نواز شریف پر ہی ختم کردیا گیا ۔اِسی ایک بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اِس سارے منصوبے کے پیچھے پوشیدہ محرکات اور عزائم کیا تھے۔

آج کوئی بھی پاناما کیس کے باقی ماندہ ملزموں کی کوئی بات بھی نہیں کرتا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ تحقیقات کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی اور اُس کی دس جلدوں میں سے میاں صاحب کو سزا وار قراد دینے کے لیے اگرکچھ نکلا تو محض ایک اقامہ نکلا۔ میاں صاحب نے باوجود اپنی ناپسندیدگی کے عدلیہ کے احترام میں اِس انتہائی متنازعہ اور غیر منصفانہ فیصلے کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ13جولائی 2018ء کو خود اپنے طور پر لندن سے واپس آکر اپنی اور اپنی بیٹی کی گرفتاری بھی دیدی۔

میاں صاحب کو یقین تھا کہ وہ بے قصور ہیں اور انھیں ایسے جرم کی سزا دی جا رہی ہے جوانھوں نے کیا ہی نہیں ۔ ہاں اُن کا جرم یہ ضرور تھاکہ وہ جمہوریت کی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ وہ اپنے یہاں عرصہ دراز سے قابض اُن قوتوں کے خلاف ڈٹ گئے تھے جو اپنے علاوہ کسی کی بالادستی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ انھیں اسی گناہ اور بغاوت کی سزا دی گئی۔وہ جانتے تھے کہ وہ حق پرہیں اور ایک دن یہ سچ کھل کر سامنے آئے گا۔

انھوں نے قیدوبندکی صعوبتیں بھی شاید اِسی لیے برداشت کیں کہ انھیں اپنے اللہ پرکامل یقین تھا کہ وہ انھیں ایسا لاوارث نہیں چھوڑے گا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ رفتہ رفتہ حقائق عوام کے سامنے آتے جا رہے ہیں۔ عزیزیہ ریفرنس میں سزا لکھنے والاجج آج سچ بولنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ اُس کے ضمیر نے بھی اُسے جگادیا ہے۔ جوں جوں دن اور وقت آگے بڑھتا جائے گا حق اورسچ سامنے آتا جائے گا۔ ملکی سیاست میں آج تک جتنے بھی ایسے متنازعہ فیصلے تھے سبھی اپنی اہمیت اور افادیت کھوتے رہے۔ جھوٹ چاہے کتنی شدت کے ساتھ بولا جاتا رہے لیکن حقیقت ایک دن عیاں ہوکر ہی رہتی ہے۔ اِسی لیے کہا جاتا ہے کہ ظلم کی حکومت زیادہ دن نہیں چل سکتی۔کچھ دن تو وہ اپنا زور دکھا سکتی ہے لیکن بالآخر اُسے ختم ہونا ہی پڑتا ہے۔

میاں نواز شریف اور اُن کے وفادار ساتھی آج سچ بولنے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ ، حمزہ شریف، حنیف عباسی اور ایسے کئی اور رہنما صرف اسی ایک جرم میں پابند سلاسل کردیے گئے ہیں کہ وہ سچ بولنے سے باز نہیں آتے۔ خواجہ سعد رفیق نے پارلیمنٹ میں خان صاحب سے براہ راست مخاطب ہوکر درست فرمایا ہے کہ ’’ ہم نہیں چاہتے کہ آپ بھی اسی زیادتی کا شکار ہوں جن سے ہم گزر رہے ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی والے بھی گزرچکے ہیں، ایم کیوایم والے بھائی بھی گزر چکے ہیں ۔یہاں کوئی اب تک نہیں بچا۔ ہوسکتا ہے آپ بھی نہیں بچیں گے۔

ہماری دعا ہے کہ ایسا نہ ہولیکن یہاں ایسا ہی ہوتاآیا ہے۔ اتنے صاف اور واضح الفاظ میں آج تک کسی نے کسی کوتنبیہ نہیں کی ہوگی۔یہ اب خان صاحب پر منحصر ہے کہ وہ سعد رفیق کی اِن باتوں پر توجہ دیکراپنی طرف سے ہونے والی زیادتیوں کو چھوڑکر مثبت اور درست سیاست کو اپناتے ہیں یا پھر اقتدار اور طاقت کے نشے میں بدمست ہوکر ہروہ کام کرجاتے ہیں جن کا انجام خود اُن کے لیے اچھا اوربہتر نہ ہو۔ ظلم کی رات طویل نہیں ہوتی ۔اُسے ایک دن ختم ہی ہونا ہوتا ہے۔

تاریخ میں بہت سے ظالم اور فاشسٹ حکمراں آئے لیکن سب کا انجام انتہائی خوفناک اور بھیانک ہی رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کسی کی حمایت اور مدد کے بل بوتے پر آپ آج ظلم اور بربریت کی انتہا کو چھوجائیں لیکن بہر حال اِس ظلم اور بربریت اِس تاریک رات کو بھی ایک دن ختم ہونا ہی ہے۔ پھر قوم آپ کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے اِس کا اندازہ اور احساس فی الحال آپ کو نہیں ہوسکتا۔ دنیاکے ظالم حکمرانوں کی تاریخ اُٹھا کے دیکھ لیجیے وہ کچھ سالوں کے لیے بظاہر وہ بہت مضبوط اورکامیاب حکمراں کے طور پردکھائی دیتے رہے لیکن جب اللہ تعالیٰ کی جانب سے دی جانے والی ڈھیل ختم ہوئی تودور دور تک اُن کانام ونشاں نہیں ملا۔

The post جھوٹ پرکھڑی عمارت کبھی پائیدار نہیں ہوتی appeared first on ایکسپریس اردو.

انیل یقینا تم اچھے مقام پر ہوگے

$
0
0

اتوار30جون کی شام کراچی کے کیتھولک Trinty چرچ میں غیر معمولی گہماگہمی ہے، آج انیل دتہ کی میموریل سروس ہے۔ صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے اس چرچ کے ہال میں نشستیں سنبھالی ہوئی ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ اس وقت چرچ میں 95 فیصد افراد مسلمان صحافی ہیں، ان میں کچھ خواتین بھی ہیں جو اپنے ساتھی انیل دتہ کو رخصت کرنے آئے ہیں۔

انیل دتہ جمعہ کی شام دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے۔ ان کی میموریل سروس میں کراچی پریس کلب اورکراچی یونین آف جرنلسٹس کے تینوں گروپوں کے عہدیداروں کے علاوہ خاصی تعداد میں صحافی بھی موجود تھے،ان میں کچھ صحافی تو ایسے بھی نظر آئے جوکبھی کسی اور صحافی کے جنازے میںشریک نہیں ہوئے۔ ان صحافیوں میں مذہب پرست بھی تھے، لبرل اور پروگریسو خیالات رکھنے والے سب شامل تھے۔

ان سب کو انیل دتہ کی موت کا صدمہ ہے۔ انیل دتہ کا شمارکراچی کے سینئر صحافیوں میں ہوتا تھا۔ انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ انگریزی اخبارات میں گزارا۔ انیل نے اخبارات کے مختلف شعبوں میں فرائض انجام دیے۔ وہ سب ایڈیٹر، اسسٹنٹ ایڈیٹر بھی رہے اور برسوں رپورٹنگ بھی کرتے رہے، انیل کا تعلق لاہور سے تھا۔ ان کے والد لاہورکے ایف سی کالج میں فزکس کے پروفیسر تھے۔ انیل دتہ نے کچھ دوستوں کوبہت عرصے پہلے بتایا تھا کہ ان کے والد کا مذہب پہلے ہندومت تھا اور یہ وہ وقت تھا جب ہندو اور مسلمانوں کے درمیان شدید کشیدگی تھی مگر ان کے والدین کو اپنی شادی کے لیے عیسائی مذہب اختیارکرنا پڑا۔ ایک مشہور ادیبہ جن کے شوہر بھی معروف ادیب تھے ان کی سگی خالہ تھیں۔ انیل دتہ نے ایف سی کالج سے گریجویشن کیا۔

انھوں نے کچھ عرصہ لاہور میں ملازمت کی پھر کراچی کے انگریزی کے جرائد اور اخبارات میں فرائض انجام دیے۔ ان کا شمار ملک کے بہترین انگریزی لکھنے والے صحافیوں میں ہوتا تھا۔ انیل نے شعوری طور پر صحافت کا پیشہ اختیارکیا۔ وہ خبرکی حرمت کے امین تھے۔ خبرکو آسان انگریزی میں تحریرکرنا اور خبرکی روح کے مطابق اس کی سرخی لگانے کو وہ عبادت کا درجہ دیتے تھے۔ خبر میں ملاوٹ یا کسی دباؤکی بناء پر خبر میں کوئی حصہ شامل کرنے یا کوئی حصہ حذف کرنا ان کی ڈکشنری میں شامل نہ تھا۔

انیل نے کچھ برسوں سے رپورٹنگ شروع کردی تھی۔انھیں شہر کے مختلف حصوں میں ہونے والے سیمینار، ورکشاپ، ادبی اور تعلیمی تقریبات میں کوریج کا فریضہ انجام دینا پڑتا تھا۔ انیل دتہ رپورٹنگ کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے ہر تقریب میں خود جاتے اور تقریب کی تمام کارروائی کے نوٹس لیتے اور پھر انھیں خوبصورت اور آسان انگریزی میں خبرکی شکل دیتے تھے۔ انیل کے پاس نہ اسکوٹر تھا اور نہ کار۔ وہ رکشہ یا ٹیکسی میں سفرکرتے، کراچی پریس کلب سے دفتر پیدل آتے اور جاتے مگر اسائنمنٹ خود کورکرتے۔

انھیں مختلف نوعیت کے سیمینار ، جلسے اور تقریبات کو کور کرنا پڑتا اور ہر تقریب کے موضوع کی مناسبت سے مقررین مختلف اصطلاحات استعمال کرتے اور مختلف شخصیتیں ان سیمینار میں اظہار خیال کرتیں۔ انیل جب ان تقریبات کی خبر تیارکرتے تو متعلقہ شخص کے نام کے صحیح اسپیلنگ کے لیے مختلف لوگوں کو ٹیلیفون کرتے اور اصطلاحات اور ان کا مفہوم درست انداز میں تحریر کرتے۔ وہ کہتے تھے کہ ایک صحافی کے لیے ضروری ہے کہ وہ درست نام اور درست اصطلاحات تحریرکرے۔

اگر کسی بناء پرکوئی ابہام پیدا ہو جائے تو جب تک ابہام دور نہ ہو رپورٹ کو حتمی شکل نہیں دی جاسکتی۔ انیل دتہ بنیادی طور پر کارل مارکس کے نظریہ سے متاثر تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ طبقاتی سماج کے خاتمے سے ہی دنیا میں استحصال کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صحافیوں کی تنظیم سازی کی اہمیت کو خصوصی اہمیت دیتے تھے۔ انیل دتہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور کراچی یونین آف جرنلسٹس کے فعال رکن رہے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ یہ تنظیمیں متحد ہوکر صحافیوں کے حالات کارکو بہتر بنانے کے لیے جدوجہد کریں۔

انیل نے یورپ کی تاریخ کا عرق ریزی سے مطالعہ کیا تھا۔وہ برطانیہ میں بادشاہ اور چرچ کی آمریت او رروشن خیالی کی جنگ کا ذکر زوروشور سے کرتے، انھوں نے برطانوی استعماریت کے اثرات کے بارے میں بہت کچھ پڑھا تھا۔ پھر انیل کو 20ویں صدی میں امریکی سامراج کی لاطینی امریکا ، ویتنام اور مشرق وسطیٰ وغیرہ میں ان کی استحصالی پالیسیوں سے نفرت تھی۔ جب کراچی پریس کلب کے ڈائننگ ہال میں کبھی لنچ پر بحث و مباحثہ ہوتا تو برطانوی استعماریت کا اس بنیاد پر دفاع کرتے کہ برطانوی استعمار نے تہذیب کو جلادی جب کہ امریکی سامراج نے تہذیب، شائستگی اور انصاف سب کچھ کچل دیا ہے۔ انیل کو پاکستان کے مظلوم عوام کی جدوجہد سے گہری دلچسپی تھی۔ وہ مظلوم طبقات کی جدوجہد سے وابستگی کو قابل فخر جانتے تھے۔

انیل دتہ کے دو بھائی اور بھی ہیں جو امریکا میں مقیم ہیں۔ انیل نے زندگی بھر شادی نہیں کی تھی، یوں وہ کراچی پریس کلب کے مستقل باسی تھے۔ وہ علی الصبح کراچی پریس کلب آتے، وہاں ناشتہ اور دوپہرکا کھانا کھاتے اور پھر رات کا کھانا کھاتے۔ شام کی چائے پیتے۔ کراچی پریس کلب میں ایک دلچسپ شخصیت تھے۔اکثر خاموش رہتے اور اپنی نشست پر چائے یا کافی پیتے مگر کلب میں آنے والے ہر رکن سے ان کی سلام دعا ہوتی۔ وہ ہر شخص کا احترام کرتے اور بہت شائستہ اور نرم لہجہ میںگفتگو کرتے۔ ہر بدھ کو لنچ پر سینئر صحافی غازی صلاح الدین ، پیرزادہ سلمان، ستارجاوید،آرٹسٹ ابڑو، مقتدا منصور، رضیہ سلطانہ اورنرگس خانم جمع ہوتے۔ اس محفل میں دنیا بھرکے موضوعات پر بحث ومباحثہ ہوتا۔ اس محفل میں کچھ لوگ زور سے دلائل دیتے مگر انیل عموما خاموشی سے بات سنتے۔ سینئر صحافی رضیہ سلطانہ نے انیل کے انتقال پر کہا کہ اس محفل کوکسی کی نظر لگ گئی۔

پہلے سینئر خاتون صحافی نرگس خانم کا انتقال ہوا، پھر مقتدا منصور دل کا آپریشن کرانے گئے اور واپس نہ لوٹ سکے اور اب انیل بھی اچانک چلے گئے ہیں۔ انیل ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی سے پریشان تھے۔ انھوں نے ایک دفعہ شکایت کی تھی کہ اب تو پریس کلب کے بیرے بھی انھیں مذہب تبدیل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ انیل پہلے YMCAکے ہاسٹل میں رہا کرتے تھے مگر اس ہاسٹل کے بند ہونے کے بعد انھیں کبھی کوئی مناسب فلیٹ نہیں ملا،انیل دتہ کو اپنی زندگی میں مختلف نوعیت کے تعصبات کا سامنا کرنا پڑا۔ نوے کی دہائی میں وہ صحافیوں کے ایک وفد کے ہمراہ کینپ کے دورے پرگئے توانھیں داخلے کی اجازت نہیں ملی تھی مگر اس سلوک پر صحافیوں کی تنظیم کراچی یونین آف جرنلسٹ نے شدید مذمت کی تھی۔ اس زمانے میں ان کے شناختی کارڈ پر لاہور کا پتہ درج تھا، شناختی کارڈ والے ان کا کراچی کے پتے والا کارڈ بنانے کو تیار نہیں تھے۔ کمشنر کراچی کے افسر تعلقات عامہ ستارجاوید کی مداخلت سے یہ مسئلہ حل ہوا۔

میڈیا میں گزشتہ دو سال سے آنے والے بحران نے ان کو بھی شکنجے میں لے لیا تھا۔ جب ایک دن قبل ان کی طبیعت کچھ خراب ہوئی تو ایک صحافی نے انھیں پیشکش کی تھی کہ انھیں کسی اسپیشلسٹ کے پاس جانا چاہیے تو انیل نے اپنے دوست سے کہا تھا کہ اس کے پاس اسپیشلسٹ کی فیس کے لیے پیسے نہیں ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انیل نے اپنے دل میں ہونے والے درد کو اہمیت نہیں دی تھی اور پھر اچانک اس درد دل نے ان کی جان لے لی۔ میڈیا کے بحران نے ایک اور ایماندار صحافی کو نگل لیا۔ اس انتہاپسندی کے دور میں کراچی پریس کے اراکین نے جس طرح اپنے ساتھی کو الوداع کیا، ان صحافیوں کا یہ جذبہ رواداری، خلوص اور روشنی کی امید ہے۔ انیل تم یقیناً اچھی جگہ پر ہوگے مگرکراچی کے صحافی تمہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

The post انیل یقینا تم اچھے مقام پر ہوگے appeared first on ایکسپریس اردو.

سیاسی کھیل کے مختلف پہلو ؟

$
0
0

پاکستان کی سیاست دنیا سے کافی مختلف ہے۔ اس کی اقدار اور اصول دنیا کے مہذب ممالک کی سیاست سے الگ ہیں۔ اسی لیے پاکستان کی سیاست کو سیاست کے مروجہ اصولوں کے تناظر میںدیکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی رائے دی جا سکتی ہے۔ پاکستان کی سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہے۔ کھیل کا کو ئی فائنل راؤنڈ نہیں ہے۔ کہیں بھی کسی چیز کا کوئی اختتام نہیں ہے۔ اس تناظر میں آج کے سیاسی منظر نامہ کو دیکھا جائے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

کیا سیاست میں کوئی فائنل راؤنڈ شروع ہو گیا ہے؟ کیا دونوں طرف کی صف بندی کسی فائنل راؤنڈ کی نشاندہی کر رہی ہے؟ کون کھیل رہا ہے،کون کس کے ساتھ ہے اور کون کس کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی خلاف کھیل رہا ہے؟ کیا نواز شریف کیمپ کسی فائنل راؤنڈ کی لڑائی لڑ رہا ہے۔ کیوں جیل میں کھانا بند کرنے، ملاقاتیں بند کرنے جیسے  اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ پہلے یہ سب رعایتیں کیا کسی مفاہمت کے تحت دی گئی تھیں اور اب وہ مفاہمت ختم ہو گئی ہے، اس لیے جیل کی مراعات بھی ختم کی جا رہی ہیں۔

کیا لڑائی میں جیل کی مراعات کی اتنی کلیدی حیثیت ہے کہ سارے کھیل کا دارومدار انھی پر ہے۔ کیا جیل مراعات کی بنیاد پر نواز شریف کے ساتھ کوئی مفاہمت ہو سکتی ہے؟ کس کا خیال ہے کہ جیل مراعات کھیل کے نتائج کو بدلنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ تاثر اور حقیقت کے کھیل میں جیل مراعات کی بندش دراصل تاثر پیدا کرنے کی کوشش ہیں کہ معاملات خراب ہو گئے ہیں جب کہ حقیقت مختلف ہے۔

لوگ حیران ہیں کہ ایک طرف چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد آرہی ہے، دوسری طرف اتنی خاموشی کیوں ہے۔ کیوں حکومت کے ایوانوں میں ہلچل نظر نہیں آرہی ۔ بجٹ پاس کرانے کے لیے وزیر اعظم روز ناراض ارکان کو منانے کے لیے بیٹھے ہوئے تھے۔ ن لیگ بھی خاموش ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ انھیں بھی کوئی یقین نہیں ہے۔ وہ اگلے چیئرمین سینیٹ کے نام کا اعلان بھی نہیں کر رہے ۔ یا وہ انتظار کر رہے ہیں کہ پہلے عدم اعتماد تو کامیاب ہو جائے پھر اعلان کریں گے۔ عدم اعتماد سے پہلے نام کا اعلان مذاق بھی بن سکتا ہے۔ بظاہر سنجرانی کے جانے میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آرہی ہے لیکن ان کے جانے کا ماحول بھی نظر نہیں آرہا۔

پتہ نہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ حکومت کی پشت پر موجود طاقتیں اب موجود نہیں ہیں۔ پتہ نہیں کیوں لگ رہا ہے کہ حکومت کو اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت تنہا چھوڑ دیا گیا ہے البتہ بجٹ پاس کرانے میں مدد کی گئی ہے لیکن وہ  بھی محدود تھی۔ ایسی نہیں تھی کہ دل واہ واہ کر اٹھے۔ بجٹ پاس ہوا ہے۔ لیکن عمران خان کو ناک کی لکیریں نکالنا پڑی ہیں۔ ایک اتحادی نے اپنی قیمت وصول کی ہے۔ ورنہ پہلے  ایسا ماحول نہیں تھا۔ اس لیے مجھے اقتدار کے ایوانوں میں سب اچھا نہیں لگ رہا۔میں اب بھی نہیں مان رہا کہ ویڈیوز کسی اسکرپٹ کا حصہ نہیں ہیں۔ مجھے مریم نواز کی دلیری بے وجہ نہیں لگ رہی۔ ان کے پاس بھی کوئی اسکرپٹ ہے۔ ورنہ یہ وہی مریم نواز ہیں جو آٹھ ماہ تک ٹوئٹر سے بھی غائب تھیں۔ جو بس اﷲ اﷲ کر رہی تھیں۔آج یہ دلیری بے وجہ نہیں ہے۔

ایسا لگ رہا کہ کھیل میں دو الگ الگ فریق ہیں۔ حکومت کا چوبیس گھنٹے بعد ہی ویڈیو کے معاملے سے پیچھے ہٹ جانا بھی اعلان کر رہا ہے کہ حکومت کے ایوانوں میں بھی کچھ محسوس کیا جانے لگا۔ اس معاملے پر زیادہ دیر خاموشی بھی نہیں رکھی جا سکتی۔ یہ معاملہ سادہ نہیں ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ مبینہ ویڈیو عمران خان کے لیے کسی پاناما سے کم نہیں ہے۔ جس طرح پاناما نواز شریف کے گلے کی ہڈی بن گیا تھا۔ اسی طرح یہ مبینہ ویڈیو عمران خان کے گلے کی ہڈی بھی بن سکتا ہے۔ ویڈیو کے پیچھے اگر کوئی اسکرپٹ ہے تو زرداری ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ حکومت جا رہی ہے، سنجرانی جا رہے ہیں۔متحدہ اپوزیشن اسلام آباد کے لاک ڈاؤن کی تاریخ بھی دے گی۔

لیکن دوستوں کی رائے ہے کہ سب میرا وہم ہے۔ سب خواب ہے۔ مجھے وہم ہو گیا ہے۔ سب ٹھیک چل رہا ہے۔ کوئی اسکرپٹ نہیں ہے۔ مریم بی بی کے پاس کچھ نہیں ہے۔ وہ ماضی کی طرح اندھیروں میں تیر چلا رہی ہیں۔ سب تدبیریں فیل ہو جائیں گی۔ مبینہ ویڈیو کا ڈرامہ بھی فلاپ ہو جائے گا۔ بلکہ الٹا گلے کی ہڈی بن جائے گا۔ عدلیہ اس چکر میں مریم کو ایسا پھنسا لے گی کہ بچنا مشکل ہو جائے گا۔ ایسا کھیل کھیلنے والوں کو عبرت کا نشانہ بنانا ہوگا ۔ ورنہ ریاست کے ستون گر جائیں گے، اس لیے مریم ایک اور سیاسی خود کشی کرنے جا رہی ہیں۔ وہ frustrateہو گئی ہیں۔ ضمانتوں کی منسوخی نے انھیں ایک مرتبہ پھر جذباتی کر دیا ہے۔

آپ دیکھیں شہباز شریف مکمل خاموش ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس طرح کچھ نہیں ہوگا۔ بلکہ مسائل بڑھیں گے۔ شاید وہ اپنے بھائی کو سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ا س لیے اس کھیل کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ مریم کا ایڈونچر ہے۔ وہ اس میں رکاوٹ نہیں بن رہے۔ لیکن اس کا حصہ بھی نہیں ہیں۔ان کی خاموشی ساری کہانی بیان کر رہی ہے۔ وہ تو ن لیگ کی کسی تقریب میں بھی نہیں جا رہے۔

لیکن یہ کوئی پہلی ویڈیو آئی ہے؟ پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے ۔ اس لیے خطرے کی کوئی بات نہیں۔ مریم کا یہ اعلان کہ میرے پاس مزید ٹیپس بھی موجود ہیں، یہ اعلان اس کھیل میں ایک ترپ کی چال ہے۔ جس میں حکومت کو پھنسایا جا رہا ہے ۔ اس لیے اس میں کوئی جارحا نہ قدم نہیں اٹھایا جاسکتا ہے۔ آپ بھی پیچھے ہٹ جائیں۔ عدلیہ کو دیکھنے دیں۔ اس کھیل میں ہی شریف فیملی کو وہ مل جائے گا جس کی انھیں تلاش ہے۔

عمران خان الگ نظر آرہے ہیں۔ جیسے منڈی بہاؤالدین کا جلسہ روکا گیا۔ ایسا حکومتیں تب کرتی ہیں جب کمزور ہو رہی ہوتی ہیں۔ بے وجہ طاقت دکھانے کی کوشش کر تی ہیں۔ جیل کی مراعات بھی تب بند کی جاتی ہیں جب کوئی اور حل نہ رہ جائے۔ یہ بھی طاقت کا نہیں کمزوری کا اعلا ن ہے۔ بہر حال تصویر کے دونوں رخ سامنے ہیں۔ سینیٹ میں عدم اعتماد کی تحریک فیصلہ کرے گی کہ کھیل نے کس طرف جانا ہے۔

The post سیاسی کھیل کے مختلف پہلو ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

’’5 جولائی1977 ‘‘ کے پاکستانی سیاست پر اثرات

$
0
0

گزشتہ دنوں ’’5جولائی‘‘ گزرا، ہر جمہوریت پسند سیاسی رہنما اس دن جنرل ضیاء الحق کے ’’شب خون‘‘ مارنے کو یاد کرتا اور ماتم کناں نظر آیا۔ میں نے اُن سیاستدانوں کو بھی اس دن کی مناسبت سے ٹی وی اسکرینوں کے سامنے گڑگڑاتے دیکھا جن پر کرپشن کے الزامات ہیں۔

وہ  یقینا افسوسناک دن تھا جب منتخب حکومت پر شب خون ماراگیا جو 90 روز کے بجائے گیارہ برس چلا اور وقفے وقفے سے اُس کا سلسلہ جاری رہا۔ وہ شب خون اپنی بے شمار سفاکیوں کے ساتھ دل و دماغ سے محو ہونے کو نہیں آتا ۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ اُس کی زیادہ تر مہلک علامات قومی تاریخ کے رگ و پے میں جذب ہو کر رہ گئی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے اس 11سالہ دور میں اُن سیاستدانوں کی بھی انٹری ہوئی جنھوں  نے پاکستان میں کرپشن کی ’بنیاد‘ رکھی۔ اس سے پہلے کرپشن کے حوالے سے الزامات تو لگتے تھے مگر وہ خالص سیاسی ہوا کرتے تھے۔ اُن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوا کرتا تھا۔ بھٹو صاحب آخری وقت تک مالی طور پر ایک بے داغ، مقتدر، مقبول اور ذہین وزیراعظم رہے۔

اُس وقت سیاستدانوں کے اختلافات محض نظریاتی ہوا کرتے تھے یا کہیں کہیں مذہبی اختلافات سامنے آیا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سیاست میں بھی ایک رومانس ہوتا تھا۔ حسن ناصر کی شاہی قلعے میں پراسرار ہلاکت ہو یا ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی! لیڈر تو ایک طرف، عام کارکن بھی نظریات کی خاطر نعرے لگاتے تختہ دار پر چڑھ گئے۔

یہاں منصور بھی ملے گا اور سقراط بھی!یہاں شیخ مجیب الرحمن بھی ملے گا اور ولی خان، باچا خان، خیر بخش مری، جی ایم سید ، اجمل خٹک، ارباب سکندر خلیل، مولانا مفتی محمود، مولانا عبدالستار خان نیازی، میر غوث بخش بزنجو ،محمود خان اچکزئی، میاں محمود علی قصوری، ممتاز محمد خان دولتانہ، ملک غلام جیلانی، بیگم افتخار الدین، محمد حسین چٹھہ، نوابزادہ نصراللہ خان، عبدالحمید جتوئی، رسول بخش تالپور، محمود الحق عثمانی، مولانا شاہ احمد نورانی، حسن اے شیخ ایڈووکٹ، چوہدری محمد علی، خواجہ ناظم الدین، حسین شہید سہروردی جیسے لوگ بھی۔ جن کے آپسی نظریاتی اختلافات ہوا کرتے تھے۔

جن کے گھروں میں بھی اگر سیاسی مخالفین پولیس گردی کرتے تھے تو سیاسی کتابیں، پمفلٹ، پرنٹنگ مٹیریل ضبط کرلیاجاتے تھے۔ اب چھاپہ پڑتا ہے تو پاکستانی اور بیرونی کرنسی کروڑوں میں گھروں سے برآمد ہوتی ہے۔ پہلے مقدمات نظریہ پاکستان اور قومی مفاد کے خلاف کام کرنے جیسے الزامات پر بنائے جاتے تھے، اب اثاثے چھپانے، بیرون ملک جائیداد ، دہری شہریت، شوگر ملز یا اسٹیل مل لگانے پر بنائے جاتے ہیں۔ پہلے وفاداری تبدیل کرنا کم ازکم برا ضرور سمجھا جاتا تھا، اب ضرورت سمجھا جاتا ہے۔آج شاید ہی ریاست کا کوئی ستون یہ کہہ سکے کہ وہ کرپشن سے مکمل پاک ہے ۔

ایسا کیوں ہے؟ کیا 1977کے بعد ضیاء الحق نے وہ تمام سیاستدان عملی طور پر ختم کردیے تھے جنھیں اقتدار کے بجائے اپنی اور ملک کی عزت پیاری ہوتی تھی؟ یا اُن نظریاتی سیاستدانوں کے مقابلے میں کاروباری لوگ سیاست میں دھکیل دیے تاکہ وہ اقتدار کو  دولت مند بننے کے لیے استعمال کریں۔ ملک کے گورنر جنرل غلام محمد تو تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کو یاد ہوں گے! بہت سوں کو اُن سے لاکھ اختلافات ہوں گے مگر وہ ایمانداری میں اس قدر آگے تھے کہ کھانے اور مشروبات کے تمام اخراجات  اپنی ذاتی جیب سے ادا کرتے تھے البتہ کراکری گورنر جنرل ہاؤس کی ملکیت تھی جس کی پشت پر سبز رنگ کا اسٹیکر لگا ہوتا تھا جس پر ’’حکومت پاکستان‘‘ درج ہوتا تھا۔

گورنر جنرل ہاؤس میں سرکاری تقریبات کے دوران آرمی کے باورچی اور بیرے منگوائے جاتے تھے جو تقریب کے بعد واپس یونٹوں میں چلے جاتے تھے۔ غلام محمد جب زیادہ بیمار ہوئے تو ان کی خوراک ’’سوپ‘‘ تک محدود ہو کر رہ گئی ،گورنر جنرل کوسوپ پلانے کی ذمے داری ان کی سوئس سیکریٹری مس روتھ بورل کی تھی۔ کسی دوسرے رکن مملکت یا گورنر جنرل ہاؤس کے ملازم کو کچن سے کوئی چیز حاصل کرنے کی سختی سے ممانعت تھی، جس پر باورچی سختی سے کاربند رہتا تھا لیکن اس کے باوجود ماہ کے آخر میں جب غلام محمد بلوں کی پڑتال کرتے تو باورچی کو بلا کر ضرور ڈانٹتے تھے۔

اس دوران ان کا موقف عموماً یہ ہوتا تھا کہ چار افراد کا جن میں ایک تقریباً معذور، دوسرا بوڑھا (مس بورل کی والدہ) ایک اسمارٹ خاتون جو پیٹ بھر کر کھانے کی عادی نہیں اور ایک سوکھے سڑے باورچی کے کھانے کا بل اتنا زیادہ کیسے آ سکتا ہے؟ اس کا مطلب ہے تم، وہ باورچی کو مخاطب کرتے، ہاں تم اپنی سرکاری ذمے داریاں پوری نہیں کر رہے اور دوسرے لوگ کچن میں گھس کر ’’گورنر جنرل آف پاکستان‘‘ کے کھانے کی اشیاء چوری کرتے رہتے ہیں۔ اس دوران باورچی لاکھ صفائیاں پیش کرتا لیکن غلام محمد فریق مخالف کی بات سننے کے قائل نہیں تھے۔ چنانچہ یوں ایک آدھ گھنٹے کی یہ یک طرفہ ڈانٹ اس حکم پر ختم ہوتی کہ باورچی آیندہ مزید احتیاط سے کام لے گا۔ جب غلام محمد گورنری کے عہدہ سے فارغ ہوئے تو اُن کے رہنے کے لیے اپنا گھر بھی نہیں تھا، وہیل چیئر ہی اُن کی واحد ملکیت تھی۔ کسی کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ انھیں کہاں چھوڑا جائے لہٰذاپھر اُن کی بیٹی کے ہاں انھیں چھوڑا گیا۔

آپ لیاقت علی خان ، محترمہ فاطمہ جناح، بھٹو ،باچا خان ، ولی خان ، مبشر حسن، حفیظ پیرزادہ، بابائے سوشل ازم شیخ محمد رشید یا مفتی محمود جیسے سیاستدانوں سے لاکھ اختلاف کر لیں مگر نہ تو انھوں نے شوگر ملیں لگائیں، نہ کہیں اسٹیل مل، نہ کہیں منی لانڈرنگ کی اور نہ ہی ولایت بھاگے ، اس کے برعکس آج کے سیاستدانوں کو دیکھ لیں، کوئی ایک بھی آپ کو پاک دامن نظر نہیں آئے گا۔ ہر علاقے میں جہاں کوئی بڑی انڈسٹری نظر آئے گی پتہ چلے گا کہ یہ فلاں سیاستدان یا فلاں سیاسی خاندان کی ملکیت ہے، یہ کھرب پتی سیاستدان جب عوام پر حکومت کرتے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ وہ ان لوگوں کے بارے میں سوچتے ہوں جنھوں نے انھیں منتخب کیا ہوتا ہے۔ لہٰذااُس وقت کے اور آج کے سیاستدانوں میں زمین آسمان کا فرق ہے، اُس وقت کے سیاستدان باکردار ہوا کرتے تھے، کرپشن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔

کیا آپ نے نظریاتی سیاست کے دور میں کسی عدالت میں ملزم سے یہ سوال پوچھتے سنا یا پڑھا کہ تمہاری منی ٹریل کیا ہے، تم نے جعلی اکاؤنٹ کے ذریعے اربوں کی منی لانڈرنگ کی؟ اس وقت تو راولپنڈی سازش کیس ہو، نیپ  کے خلاف حیدرآباد ٹرائل ہو یا جام ساقی سازش کیس جیسے مقدمات کی نوعیت ہی مختلف ہوتی تھی۔ نظریاتی لڑائی میں سب سے اہم سوال یہ تھا کہ ملک کو جمہوری انداز میں آگے بڑھانا ہے کہ آمریت کے زیرسایہ!زبان اور شناخت اس ملک میں ہمیشہ سے اہم مسئلہ رہا ہے اور جب بھی کچھ لوگ یہ بات کرتے ہیں کہ تعلیم مادری زبان میں ہونی چاہیے خاص طور پر بنیادی تعلیم تو اس کو دوسرا رنگ دے دیا جاتا تھا۔اگر قیام پاکستان کے فوراً بعد ہمارے ملک سے بھی جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ کردیا جاتا، آئین معطل نہیں کیا جاتا اور جمہوریت کی بنیاد رکھ دی جاتی تو نہ کوئی سیاستدان آمریت کی پیداوار کہلاتا اور نہ ہی نظریہ ضرورت کے تحت کرپٹ معاشرے کی بنیاد رکھی جاتی۔

بہرکیف آج نظریاتی سیاست کو یکسر ختم کر دیا گیا ہے، جب جب سیاستدان نظریاتی طور پر کمزور ہوئے تو وہ جلد ہی بکنے کو بھی تیار ہوئے۔1977 کے بعد حکومت بنانے میں اور گرانے میںہمیں پیسہ بیدردی سے خرچ ہوتا نظر آیا۔ اصغر  خان کیس اس کی عملی شکل ہے۔بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں نے ان سالوں میں جو کچھ کیا، اس کا کوئی دفاع نہیں کیا جاسکتا ۔شاید ہی کسی رکن اسمبلی نے وفاداری تبدیل کرتے وقت اپنے پچھلے کردار پر معافی مانگی ہو، شرمندہ ہوا ہو۔

وہ زمانے گئے جب سیاست رومانس کی مانند تھی جس کی خاطر لوگ جان دینے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے، نظریات پر پھانسی چڑھ جاتے تھے، انھیں کوئی منی ٹریل نہیں دینا پڑتی تھی۔ ان کا اثاثہ ان کے نظریات ہوتے تھے، کتاب اور قلم ہوتے تھے مگر نظریاتی سیاست سے کرپشن تک کی کہانی سناتے وقت پورا سچ بولنا چاہیے۔ فیض یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ یہ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے اور جالب یہ کہتا ہوا رخصت ہوا کہ

ہے کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالب

چاروں جانب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں

لہٰذا 1977سے پہلے کا دور وہ لوگ یاد کریں جن کا ماضی کا کردار اچھا رہا ہو، جن کاماضی داغدار نہ ہو، جن کا ماضی کرپشن سے لتھڑا نہ ہو۔ خواہ وہ حکومت میں ہے یا اپوزیشن میں لیکن ’’سیاسی نظریہ‘‘ ضرور ہونا چاہیے۔دامن صاف ہونا چاہیے، اگر آپ نے عوامی فلاح کے لیے عوام کا پیسہ خرچ کیا ہے تو سینہ تان کر کہہ سکیں کہ آؤ ثابت کر لو کہ کہاں کرپشن ہوئی ہے؟پس جس طرح بغیر نظریے کے سیاست میں کچھ نہیں، اسی طرح اقتدار بھی بغیر سوچ اور فکر کے کچھ نہیں۔ ہمیں باکردار سیاستدان بننا چاہیے تاکہ آنے والی نسلیں ہماری مثالیں دیں!

The post ’’5 جولائی1977 ‘‘ کے پاکستانی سیاست پر اثرات appeared first on ایکسپریس اردو.

آگ بگولہ ہو گئیں

$
0
0

جی ہاں بالکل اور باوثوق ذرایع سے ’’آگ بگولہ ہوگئیں‘‘ حالانکہ ’’آگ بگولہ‘‘ ہونے کی ضرورت بالکل نہیں تھی کیونکہ ’’آگ بگولہ‘‘ پہلے ہی سے کافی ’’آگ بگولہ‘‘ بلکہ ناک بگولہ تھی۔ اس ’’ناک بگولہ‘‘ آگ بگولہ نے آگ بگولہ ہو کر بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں فلموں کی وجہ سے اضافے کو بالکل مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی جیسے واقعات کا الزام ’’شوبز‘‘ پر لگانا غلط ہے بلکہ اس نے معاشرے میں ’’دقیانوسی سوچ‘‘ پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے ’’کھری کھری‘‘ بھی سنا دیں۔

اب ہمارے لیے یہ اندازہ لگانا تو ممکن نہیں کہ محترمہ ناک بگولہ۔ کہاں کسی مقام پر اور کتنی آگ بگولہ ہو گئی تھیں اور معاشرے میں ’’دقیانوسی سوچ‘‘ والوں کو کتنی کتنی کھری کھری سنائیں لیکن ’’دقیانوسی سوچ‘‘ کے بارے میں ان کے ساتھ ہم مکمل طور پر ’’متفق‘‘ ہیں۔ ’’دقیانوسی سوچ‘‘ والے واقعی بہت ہی ’’دقیانوسی سوچ‘‘ والے ہیں بلکہ ’’چھوٹی سوچ‘‘ والے بھی ہوتے ہیں بلکہ ساتھ ہی ’’موٹی‘‘ اور کھوٹی سوچ والے بھی ہوتے ہیں اور ہم دونوں کے ساتھ پہلے ہی پڑوسی ملک والے بھی متفق ہیں۔ اس اشتہار کے بارے میں تو ہم نے آپ کو بتایا تھا، کہ ایک نوخیز لڑکی جسم پر ’’چارہ گرہ‘‘ کا خوش نصیب کپڑا لے کر والدین کے سامنے دکھانے کو آتی ہے تو ماں جو پہلے ہی سے اپنی ’’بچی‘‘ سے بھی دو انگل (لباس میں) کم ہے نہال ہو جاتی ہے لیکن باپ ہماری طرح ’’زیر لب‘‘ صرف اس سے کہتا ہے کہ کپڑے کچھ زیادہ چھوٹے نہیں؟۔

اس پر اس کی بیوی ایسی ہی ’’آگ بگولہ‘‘ ہو کر پھنکارتی ’’چھوٹے کپڑے‘‘۔ نہیں ’’سوچ‘‘ چھوٹی ہوتی ہے۔ معاملہ گھمبیر ہو گیا ہے اب اس کا فیصلہ کون کرے کہ ’’کونسی سوچ‘‘ کتنی چھوٹی ہے اور کونسا کپڑا چھوٹی سوچ سے بڑا یا چھوٹا ہے۔ معاملہ ناپ تول کا نہ ہوتا تو ہم کچھ بھی کہہ دیتے لیکن ’’ناپ تول‘‘ کے معاملے میں ’’ناپ تول‘‘ کر ہی بولنا چاہیے۔ کپڑے کا ناپ تول تو آسان ہے، کسی ٹیلر کی خدمات حاصل کر لیں بلکہ اس کی بھی ضرورت نہیں کہ آج کل عام لوگ بھی آنکھوں میں ’’انچی ٹیپ‘‘ لیے گھومتے ہیں اور ایک ہی نظر میں آدھے کپڑے اور پورے جسم کو ناپ بھی لیتے ہیں اور ’’ماپ‘‘ بھی لیتے ہیں بلکہ کچھ تو ’’تاپ‘‘ کر منہ سے بھاپ بھی چھوڑنے لگتے ہیں اور دل ہی دل میں طرح طرح کے ’’پاپ‘‘ بھی کر لیتے ہیں۔ ’’سوچ‘‘ کا ناپ تول کچھ ٹیڑھا معاملہ ہے اور قوم کو اس پر سر جوڑ کر سارے کام چھوڑ کر اور ایک دوسرے کو ’’توڑمروڑ‘‘ غور کرنا چاہیے کہ اگر اس طرح کپڑے اور سوچ کے درمیان ’’چھوٹے بڑے‘‘ کا سلسلہ جاری رہا تو کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے۔ معاشرے میں بچیوں کے ساتھ ’’زیادتی‘‘کے واقعات واقعی ہو رہے ہیں لیکن اس پر اتنا سیخ پا بلکہ سر تا پا نہیں ہونا چاہیے۔

اگر ہم انصاف کی نظر سے دیکھیں تو سال بھر میں ایک دو واقعات کچھ زیادہ تشویش ناک ہے بھی نہیں۔ بڑے بڑے ملکوں بڑے بڑے لوگوں میں اور بڑی بڑی سوچوں میں ایسے بڑے بڑے ’’پرنسوں‘‘ میں ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات تو ہوتے رہتے ہیں۔ بلکہ ہم تو اس سے بھی متفق ہیں کہ اس کا ایک اقتصادی پہلو بھی ہے۔ جتنی جتنی سوچ بڑی ہوتی جائے گی اتنا ہی کپڑا کم سے کم ہوتا جائے گا اور ایک دن وہ بھی آ جائے گا کہ کپڑے کا سارا ’’خرچہ‘‘ ہی ختم ہو جائے گا اور ’’جسم‘‘ خود بھی چھپانے بلکہ دکھانے میں یکسر ’’خود کفیل‘‘ ہو جائیں اور اس خود کفالتی کے بارے میں آپ نے کسی دانا کا یہ قول زرین تو سنا ہی ہو گا۔

تن کی عریانی سے بہتر نہیں کوئی لباس

یہ وہ جامہ ہے کہ جس کا نہیں الٹا سیدھا

صرف الٹا سیدھا ہی نہیں بلکہ خرچہ بھی نہیں ہوتا ، سینے سلانے کا ٹینٹا بھی نہیں ہوتا، دھونے دلانے کا صرفا بھی نہیں ہوتا اور نئے پرانے کا چرچا بھی نہیں ہوتا۔ بڑی سوچ کی بڑی بچت۔ نہ رہے بانس۔ نہ رہے گی چھوٹی سی سوچ کی چھوٹی بانسری بلکہ ننگی پہنے گی کیا نہائے گی کیا ، دھلوائے گی کیا اور سکھائے گی کیا۔ صرف یہ نہیں بڑی سوچ کے اور بھی بہت بڑے بڑے فوائد ہیں۔ آپ حساب لگاتے جائیں اور ہم بتاتے جائیں گے۔ اس واقعے سے متعلقہ تھانے، پولیس اور متعلقات کو کتنے ’’ثمرات‘‘ ملے ہوں گے، مل رہے ہیں اور ملتے رہیں گے۔

خبر نگاروں خبر سازوں خبر بازوں اور خبر درازوں کو کتنا کتنا فائدہ ہوا ہو گا اور آفٹرشاکس یا پس معاوضہ پر کتنے دانا، دانشور، تجزیہ نگار اور اینکر نگار۔ کتنی کتنی اور کتنے کتنے اطراف اور پہلو سے روشنیاں ڈال کر دادا پائیں گے، سیاست کی کتنی چھوٹی بڑی سوئیوں کو پاجامہ ادھیڑنے اور سینے کے مواقعے ملیں گے۔ ان سب کا حساب لگا کر میزان لگایے اور ہم اسے ’’بڑی سوچ‘‘ والوں کو بجھوا کر چھوٹی سوچ کی ایسی کی تیسی کر دیں گے۔ رہا محترمہ ’’ناک بگولہ‘‘ کا معاشرے کی چھوٹی سوچ پر آگ بگولہ ہونے کا اور چھوٹی سوچ کو کھری کھری سنانے کا معاملہ، تو ہم اس کی جتنی بھی تعریف کریں کم ہے۔

ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی

اور جہاں تک ایسے واقعات کی جانکاہی، والدین کی تباہی اور لوگوں کی ’’آہ و آہی‘‘ کا تعلق ہے تو ہم دیکھتے رہے ہیں کہ کچھ ہی دنوں تک لوگ گلیسرین ڈال کر ’’خون کے آنسو‘‘ روئیں گے، پھر آنکھیں پونچھ کر ایسے کسی دوسرے واقعے دوسری خبر اور دوسری کثیرالفوائد سلسلے کے انتظار میں بیٹھ جائیں گے:

خلش غمزہ خونخوار نہ پوچھ

دیکھ خوننا بہ فشانی میری

اس واقعے کے تانے بانے میں مزے مزے سے جگالی کرنے میں کبھی کبھی اس بدنصیب ’’اماں حوا‘‘ اور اس کی بیٹیوں کا آموختہ بھی دہرایا جاتا ہے اور یہ دنیا کا سب سے بڑا لطیفہ اور سب سے بڑا المیہ ہے۔ کہ جتنے تواتر سے ’’ اماں حوا‘‘ کو ماں ماں پکارا جاتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ وہ تواتر سے اس کی بیٹیوں کو بے حرمت، بے وقعت اور بے توقیر کیا جاتا ہے۔ اس اس کا المیہ ترین پہلو یہ ہے کہ صرف مردوں کی طرف سے نہیں بلکہ ان عورتوں کی طرف سے بھی۔ جو چند ٹکوں اور ذرا سی شہرت کے لیے خود ہی ’’بڑی سوچ‘‘ پیدا کرتی رہتی ہیں۔ ایک طرف ’’جسم‘‘ کو جنس و نمائش کا  سمندر بناتی ہے اور دوسری طرف:

درمیان قعر دریا تختہ بندم کردہ ای

باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش

یعنی مجھے عین دریا کے بیچ میں تختے سے باندہ کر چھوڑا ہے اور اس پر کہتا ہے کہ خبردار ذرا بھی دامن ترنہ ہو۔ چھوٹی سوچ مردہ باد۔ بڑی سوچ اور چھوٹے کپڑے زندہ باد۔

The post آگ بگولہ ہو گئیں appeared first on ایکسپریس اردو.

بھول جانے کی عادی قوم

$
0
0

پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم مسمی میاں محمد نواز شریف ان دنوں جیل میں ہیں جب کہ جیل سے باہر ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز صاحبہ ان کی رہائی کے لیے لاکھ جتن کر رہی ہیں۔ اپنے سیاسی کریئر کے آغاز میں ہی محترمہ مریم صاحبہ کو مشکلات کا سامنا ہے اور ان کے سامنے ایک مشکل ترین مرحلہ اپنے والد اور تین بار کے سابق وزیر اعظم کی بے گناہی کو ثابت کرنا ہے۔ انھوں نے چند روز قبل اپنے والد کی صفائی میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک مبینہ ویڈیو جاری کی ہے جس پر تبصرے جاری ہیں۔

اگر یہ ٹیپ غلط ثابت ہو گئی تو مریم صاحبہ کے لیے اپنے سیاسی سفر کا یہ پہلا بڑا اور مہلک ترین دھچکا ہو گا جو ان کی مستقبل کی سیاست پر بھی اثر انداز ہو گا۔ بہر حال ایک جوا کھیلا گیا ہے اب دیکھتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے کیونکہ مریم صاحبہ کا یہ کہنا ہے کہ وہ اپنے والد کو مرسی نہیں بننے دیں گی ۔ محمد مرسی مصر کے سابق صدر تھے اور ان کا حال ہی میں عدالت میں اپنے خلاف الزامات کا سامنے کرتے ہوئے انتقال ہوا ہے۔

میاں محمد نواز شریف کی اگر بات کی جائے تو عمر کے اس حصے میں انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ گھر میں آرام سے بیٹھ کر اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ وقت گزارے۔ لیکن وہ اس وقت جیل کی کوٹھری میں بند ہیں اور تادم تحریر ان کے لیے گھر کا کھانا بھی بند کر دیا گیا ہے۔ میں جس نواز شریف کو جانتا ہوں اس کو کتابیں پڑھنے کی عادت نہیں اور جیل میں گفتگو کے لیے کوئی ساتھی بھی موجود نہیں ہوتا یعنی کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہوتا کہ قید کاٹنے کے لیے کوئی دل بہلانے والا ہو۔ لاہور کے حبس زدہ  موسم میں قید کاٹنا اور بھی مشکل ہو جاتی ہے۔

وہ جس الزام کے تحت جیل میں بند ہیں وہ کوئی ایسا اعلیٰ مقصد نہیں کہ ان کا ضمیر مطمئن اور دل پر سکون ہو۔ وہ ایک بری حکومت اور نادان سیاست کے نتیجے میں جیل میں ہیں۔ ان کو پوری زندگی تمام دنیاوی الجھنوں سے محفوظ اور راحتوں سے معمور رہی ہے۔ وہ خواب میں قید و بند تو کجا کسی ذرا سی بھی ناپسندیدہ کیفیت کا تصور نہیں کر سکتے تھے۔ ایک لاڈلا شہزادہ جس کی پوری زندگی کامرانیوں سے بھر پور رہی ہو اور قدرت نے اس پر عجیب مہربانی کی کہ اسے ملت اسلامیہ کے پہلے نظریاتی ملک کا تین بار سربراہ بنا دیا۔ یہ ایک تاریخی عجوبہ تھا ۔ انسانی عقل اس حکمتِ ِخداوندی کا ادراک نہیں کر سکتی کہ یہ اس کے لیے کوئی انعام تھا یا اس ملک میں بسنے والی قوم کے لیے کوئی سزا تھی۔ بہر کیف جو بھی تھا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قوم کو حکومت کی تبدیلی ملی اور میاں نواز شریف جیل کی کوٹھڑی میں بند ہیں۔

جسمانی امراض کے ماہرین کا یہ خیال ہے کہ میاں نواز شریف کی صحت اتنی اچھی نہیں ہے اور اگر ان کو زیادہ عرصہ تک قید رکھا گیا جس کی وجہ سے ان کا بہتر علاج ممکن نہیں تو ان کا قید سے سلامتی کے ساتھ باہر نکلنا ایک عجوبہ ہو گا۔

دل کا یہ مریض اس قدر گھبرا سکتا ہے کہ اس کی جان پر بن سکتی ہے اور یہ حقیقت معلوم ہے کہ دل کی بیماری ان کی خاندانی اور موروثی بیماری ہے۔ ڈاکٹر مسلسل یہ انتباہ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے حکومت بھی کسی حد تک پریشانی میں ہے اور کوئی ایسا موثر بہانہ تلاش کیا جا رہا ہے کہ ایسے مشکل اور خطرناک قیدی سے نجات حاصل کر لی جائے اور دوستوں پر احسان بھی کیا جائے ۔ اس سے پہلے بھی نواز شریف اپنے عرب دوستوں کی مہربانی سے ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی قید سے نکلنے میں کامیاب ہو کر سعودی عرب پہنچ گئے تھے ۔ اس پر ہمارے مرحوم دوست منو بھائی نے جملہ کسا تھا کہ حرمین تو وہاں پہلے سے موجود تھے شریفین بھی وہاں پہنچ گئے ہیں۔

بہر حال پاکستانی سیاست میں جو گرمی چل رہی ہے وہ اس حبس زدہ موسم میں حکومت کے لیے مزید پریشانیاں پیدا کر رہی ہے اور اس کے خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا بلکہ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے  سیاسی محاذ پر تیزی آتی جا رہی ہے ۔ نواز لیگ کے رہنماء اپنی نئی لیڈر مریم نواز کی سربراہی پر متفق اور متحد نظر آ رہے ہیں اگر کسی  فریق کو مریم نواز کی سیاسی قیادت پر تحفظات ہیں تو وہ ابھی تک کھل کر سامنے نہیں آ سکے کیونکہ اس مشکل وقت میں نواز لیگ سے راستہ جدا کرنے والے اپنی سیاسی ساکھ کو نقصان بھی پہنچائیں گے اور مستقبل کی سیاست ان کے لیے مشکل ہو جائے گی۔ سیاسی ناتجربہ کاری کے باوجود مریم نواز اپنے والد کی رہائی کے لیے جو دہائی دے رہی ہیں اس کے انجام کے متعلق ابھی کوئی پیش گوئی کرنا قبل از وقت ہے۔

انھوں نے عدالت کے فیصلے کو متنارعہ بنانے کی کامیاب کو شش کرتے ہوئے بال حکومت کے کورٹ میں پھینک دی ہے جب کہ وزیر اعظم کا یہ کہنا ہے کہ نئے پاکستان میں عدلیہ اور ججز آزاد ہیں اور حکومت کو جوابدہ نہیں اس لیے اس مبینہ ویڈیو کا عدلیہ کو نوٹس لینا چاہیے۔ یہ کہہ کر وزیر اعظم نے اس اہم معاملے سے بری الذمہ ہونے کی کوشش کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عدلیہ اس مبینہ وڈیو کے متعلق کیا فیصلہ کرتی ہے کیونکہ یہ وڈیو ملک میں جاری احتسابی عمل کی شفافیت پر ایک سوالیہ نشان بن کر سامنے آئی ہے اس لیے جلد از جلد اس معاملے کو نپٹانا ہو گا تا کہ ملک میں جو احتساب کا عمل جاری ہے اس کو بغیر کسی رکاوٹ اور شفاف انداز میں کسی کی پسند و نا پسند کے بغیر جاری رکھا جا سکے۔

عرض ہے کہ اداروں کو ملعون کر کے ہم اپنی ذات کو کسی حد تک فائدہ تو پہنچا سکتے ہیں لیکن ملک کا جو نقصان ہوتا ہے اس کی کسی کو پرواہ نہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ ماضی میں انھوں نے ملکی اداروں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ملکی اداروں پر کیسے کیسے رکیک حملے کیے گئے ۔ بہت جلد بھول جانے کی عادی قوم کو سیاسی گرما گرمی کے اس موسم میں ماضی کی باتیں یاد رکھنا ہوں گی ۔

The post بھول جانے کی عادی قوم appeared first on ایکسپریس اردو.

جسٹس مری یاد آئے

$
0
0

صوبائی حکومتوں کی تشکیل کا سوال ہو، سینیٹ کے چیئرمین، لاپتہ افراد یا اس صوبے سے تعلق رکھنے والے ایک معزز جج کا معاملہ ہو، بلوچستان ہمیشہ خبروں میں نمایاں رہتا ہے۔ یہ سب ایسے معاملات ہیں جن کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق کسی نہ کسی طور آئین کی حکمرانی اور قانون کی بالادستی سے ہے۔

اس حوالے سے مجھے مرحوم جسٹس خدا بخش مری ان دنوں بہت یاد آ رہے ہیں۔ ماضی میں ان کے حوالے سے لکھتے ہوئے میں نے جن مسائل اور خیالات کا اظہار کیا  تھا، ان میں آپ کو بھی شریک کرنا چاہوں گی کیونکہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر آج بھی ان کی گہری چھاپ صاف نظر آتی ہے۔ جسٹس مری ایک ایسے باضمیر اور بے باک قانون داں اور دانشور تھے تاہم یہ بھی ایک المناک حقیقت ہے کہ پاکستان میں ان کی قدر نہیں کی گئی۔

مرحوم جسٹس صاحب کا کہنا تھا کہ پاکستان ، قانون آزادی ہند مجریہ 1947کے تحت 14 اگست 1947 کو معرض وجود میں آیا۔ قانون آزادی ہند کے تحت حکومت پاکستان اس وقت تک گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ مجریہ 1935 کی دفعات کے تحت کام کرتی رہی تا آنکہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ملک کا آئین تیارکر لیا۔ اس وقت تک قانون سازی کا سارا کام وفاقی اسمبلی کو کرنا تھا اور ملک کا سربراہ گورنر جنرل کہلاتا تھا۔ سات سال کی تاخیر اور طویل بحث مباحثہ کے بعد بالآخر دستور ساز اسمبلی نے دستوری تجاویز تیار کر لیں اور ان کی منظوری دی۔

گورنر جنرل ملک غلام محمد آئین کے نفاذ اور اس کے تحت ہونے والے عام انتخابات سے خوفزدہ تھے کیونکہ انتخابات میں شکست انھیں صاف نظر آرہی تھی۔ چنانچہ انھوں نے بعض سیاست دانوں اور بیوروکریسی کے ساتھ سازش اور گٹھ جوڑ کے بعد 24 اکتوبر 1954 کو دستور ساز اسمبلی توڑ دی اور اس کے لیے یہ بہانہ بنایا کہ ’’اسمبلی اپنا نمایندہ کردار کھوچکی ہے‘‘ اس طرح ملک غلام محمد نے ملک کے پہلے آئین کو ، قانون کا درجہ حاصل ہونے سے قبل ہی، موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سدا بہار مفاد پرست خوشامدیوں، جن میں تاجر اور سیاستدان بھی شامل تھے، کے ایک گروہ نے گورنر جنرل کو دستور ساز اسمبلی کو توڑنے پر ’’محافظ ملت‘‘ کا خطاب تک دے دیا۔

مرحوم جسٹس صاحب نے بیان کیا ہے کہ پاکستان میں آئین سازی پر یہ پہلا مہلک وار تھا۔ چند ایک سیاستدانوں کے سوا، عدلیہ، فوج یا سول انتظامیہ میں سے کسی نے بھی اس اقدام کے عواقب و نتائج پر کچھ زیادہ غور و فکر کی ضرورت محسوس نہ کی۔ چنانچہ دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیزالدین کے لیے عدالت سے رجوع کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہا اور انھوں نے سندھ چیف کورٹ میں گورنر جنرل کے اس حکم کو چیلنج کر دیا جس کے تحت دستور ساز اسمبلی کو ختم کیا گیا تھا۔ عدالت نے 9 اکتوبر 1955 کو فیصلہ سنایا کہ دستور ساز اسمبلی ، جب دستور سازی کر رہی ہو تو اس کے منظور شدہ قوانین کو گورنر جنرل کی توثیق کی ضرورت نہیں ہوتی۔

وفاقی حکومت نے وفاقی عدالت میں اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی۔ اس مقدمے میں وفاقی عدالت نے جو فیصلہ دیا اس سے گویا ’’پنڈورا بکس‘‘ کھل گیا اور پھر یکے بعد دیگر مارشل لا آئے اور ملک پر فوج کی حکومت قائم ہوتی رہی۔ مرحوم جسٹس خدا بخش نے اپنی کتاب میں جو سوالات اٹھائے ہیں، ان کا آج تک جواب ممکن نہ ہو سکا۔ انھوں نے اکبر خان بہ نام حکومت اور یوسف پٹیل بہ نام حکومت کے مقدمات کا معاملہ اٹھایا ہے۔

انھوں نے گورنر جنرل غلام محمد کے دائرکیے ہوئے اسپیشل ریفرنس نمبر ایک، 1955 سے بحث کی ہے اور جس میں یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ گورنر جنرل نے دستور ساز اسمبلی توڑ کر درست اقدام کیا ہے یا نہیں۔ عدالت نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان خصوصی حالات میں، جن کا ذکر ریفرنس میںکیا گیا ہے، گورنر جنرل کو اسمبلی توڑنے کا اختیار حاصل ہے اور عبوری عرصہ کے دوران بھی اسے (گورنر جنرل) ایسا اختیار حاصل ہے کہ وہ دستور ساز اسمبلی کو توڑ سکے اور یہ کہ گورنرکو، عبوری عرصہ کے دوران ’’عام سول قانون یا مملکتی نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ ان قوانین کو موثر بہ ماضی منظوری دے سکے۔

چیف جسٹس خدا بخش مری نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محمد منیر کے اس فیصلے پر بہت تفصیلی بحث کی ہے جس نے ملک کی قانونی اور آئینی تاریخ میں وہ نظیر قائم کی جو بعد میں آنے والے ہر طالع آزما کے حق میں پیش کی گئی اور جسے بدقسمتی سے ملک میں اکثر و بیشتر روبہ عمل لایا گیا چنانچہ کامیاب ’’انقلاب‘‘ اقتدار پر قبضے اور آئین میں تبدیلی کا مسلمہ طریقہ طے پایا اور ایسا کرنے والوں کے لیے کوئی سزا کوئی مکافات عمل بھی نہیں۔

ایک مغربی مصنف مسٹر ہربرٹ فیلڈ مین نے ڈوسوکیس کے فیصلہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’یہ بات بھی، البتہ، بعید ازقیاس ہے کہ اگر سپریم کورٹ فرد واحد کی طرح بھی احتجاج اور مخالفت میں اٹھ کھڑی ہوتی تو اس سے ان تبدیلیوں پر جو وقوع پذیر ہوچکی تھیں،معمولی سا بھی اثر ہوتا۔‘‘

مرحوم جسٹس مری نے فیلڈمین کی اس بات سے اتفاق کیا اور یہ لکھا کہ اگر سپریم کورٹ فرد واحد کی طرح احتجاج کے لیے اٹھ کھڑی ہوتی اور اس کی مخالفت کرتی تو بھی عملاً صورت حال پرکوئی اثر نہ پڑتا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر سپریم کورٹ گورنر جنرل کے من مانے حکم کے خلاف فیصلہ دیتی تو اخلاقی اور آئینی سطح پر اس کے زبردست اثرات رونما ہوتے۔ اس سے رائے عامہ بیدار ہوتی اور عوام کی نظروں میں عدلیہ کا وقار بڑھ جاتا ممکن ہے ایسا کرنے میںجج حضرات کو بعض خطرات کا سامنا کرنا پڑتا۔ بہت سے ممالک کی قانونی تاریخ ایسی مثالوں سے خالی نہیں۔ امام ابو حنفیہؒ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بادشاہ نے ان کو بغداد کا قاضی القصناۃ مقررکرنے کی پیشکش کی مگر امام صاحب نے یہ پیشکش مسترد کردی۔

سلطان نے حکم دیا کہ امام کو اس وقت تک تازیانے لگائے جائیں جب تک وہ بغداد کا قاضی القصناۃ کا عہدہ قبول نہ کرلیں۔ امام نے تشدد برداشت کیا مگر سلطان کی پیشکش قبول نہ کی کیونکہ امام ابوحنیفہؒ کی یہ سوچی سمجھی رائے تھی کہ ملک جن سیاسی و معاشرتی حالات سے گذر رہا تھا ان حالات میں وہ شریعت کے مطابق عدل نہیںکرسکتے تھے۔ صد افسوس کہ ہمارے ہاں پاکستان میں صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔

جسٹس صاحب نے انگلستان کے چانسلر سرتھامس مور(چیف جسٹس) کی مثال بھی دی ہے ۔ سرتھامس مورکی گہری دوستی شاہ ہنری ہشتم سے تھی۔ شاہ نے انھیں ملک کے اعلیٰ ترین عدالتی منصب پر فائزکیا تھا یہ 1535ء کا ذکر ہے کہ سرتھامس مور نے ملکہ این کی رسم تاجپوشی میں شرکت سے انکارکردیا کیونکہ وہ ملکہ کو اخلاقی اعتبار سے درست نہیں سمجھتے تھے۔ انھوں نے ’’شاہی خاندان کی بالادستی‘‘ کا حلف اٹھانے سے بھی معذوری ظاہرکردی حالانکہ انگلستان کے چرچ یعنی مذہبی رہنماؤں نے اس شاہی حکم کو تسلیم کرلیا تھا اور بجائے پاپائے اعظم کے شاہی خاندان کی بالادستی کا حلف اٹھالیا تھا۔

سرتھامس مور شاہی حکم اور حلف اٹھانے سے انکارکے نتائج سے آگاہ تھے۔مرحوم جسٹس صاحب نے لکھا ہے کہ سر تھامس مور پر جب بغاوت کا الزام عائد کیا گیا تو انھوں نے اس جھوٹے اور بے بنیاد مقدمہ کا بھی بڑی ہی جرأت اور پامردی سے مقابلہ کیا۔ سر تھامس مور کے خلاف استغاثہ اس قدرکمزور اور ان کی صفائی اتنی مضبوط اور دو ٹوک تھی کہ مقدمہ میں ان کی بریت یقینی تصورکی جا رہی تھی یہاں تک کہ مقدمہ کی سماعت کے دوران ایک وکیل مسٹر رچ جو شاہی وکیل تھا، اپنی جگہ سے اٹھا اور گواہ کے کٹہرے میں جا کھڑا ہوا۔

اس نے جھوٹا حلف اٹھا کر بیان دیا کہ سرتھامس مور نے وہ الفاظ کہے تھے جن کی بنا پر ان پر بغاوت کا الزام صادق آتا ہے۔ سرتھامس مور نے پروقار انداز میں نہایت سکون کے ساتھ صرف اتنا کہا ’’مسٹر رچ، حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے اپنی زندگی کو لاحق خطرات سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ آپ نے جھوٹی قسم کھائی ہے۔‘‘ سرتھامس مورکو موت کی سزا سنائی گئی۔ جب ان کا سر قلم کرنے کے لیے گلوٹین پر رکھا جانے لگا تو انھوں نے اپنا وہ تاریخی جملہ کہا جسے ان کی تمام باتوں سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ سرتھامس مور نے کہا ’’ ٹھہرو، مجھے اپنی داڑھی سنوارنے دو کیونکہ میری داڑھی نے کوئی جرم نہیں کیا۔‘‘

جسٹس صاحب نے آج سے بہت پہلے یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا ہم نے اپنے اندر کوئی ابوحنیفہؒ ، کوئی تھامس مور یا ان لوگوں جیسا کوئی شخص پیدا کیا ہے جس نے حق و صداقت پر مبنی اصولوں کا بول بالا کیا ہو؟ جسٹس مری کو دنیا سے گئے برسوں گزر چکے ہیں لیکن ان کے سوال کا جواب آج بھی ہم سب پر قرض ہے۔

The post جسٹس مری یاد آئے appeared first on ایکسپریس اردو.


اربنائزیشن اور ہماری قومی ذمے داری (آخری حصہ)

$
0
0

اس ضمن میں سیکریٹری ریلوے کا کہنا ہے کہ سرکلر ریلوے کی دس ایکڑ زمین قابضین سے خالی کرا لی گئی ہے۔ فاضل بینچ کے متذکرہ نوٹس پرکمشنر کراچی افتخار شلوانی، ڈی ایس ریلوے مظہرعلی شاہ اور ڈی آئی جی ریلوے اظہرعلی نے سرکلر ریلوے کے ٹریک کا تفصیلی دورہ بھی کیا۔

معزز عدالتی فیصلے سے وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال سے ٹریک کے اطراف رہائشی مکانات کا فوری انہدام حکومت اور شہری اداروں کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے اور ہدف کی کامیاب تکمیل سندھ پولیس اور رینجرزکے تعاون کے بغیر نا ممکن ہے۔ ان کی غیر قانونی آباد کاری میں سندھ حکومت کے زیر انتظام کرپٹ شہری اور بلدیاتی ادارں کا ہی مکمل ہاتھ ہے۔ یہاں تک کہ ریلوے لائن تین فٹ نیچے دھنس چکی ہے۔

متاثرین کا پر زور مطالبہ ہے کہ انھیں ان کے مکانات کے مسمار ہونے کا غم نہیں مگر وہ اس صورت میں یہ جگہ چھوڑیں گے جب حکومت کی طرف سے ان کی رہائش کا مناسب بندوبست کیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سی پیک منصوبہ کے تحت 11 کھرب 20 ارب مالیت کا منافع بخش ہارٹ لائن پروجیکٹ ہے۔ سرکلر ٹریک کے کئی مقامات پر کراسنگ کے لیے نئے ریلوے ٹریکس بھی بچھائے گئے ہیں۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس پورے ٹریک پر 28 پھاٹک آتے ہیں ، یہ پھاٹک بند ہونے کی صورت میں لامحالہ ٹریفک بدترین جام ہونے کا قوی اندیشہ ہے کیونکہ ٹرین گزرنے سے پانچ منٹ قبل تو پھاٹک لازمی بند کرنا ہو گا۔

ان پانچ منٹوں میں گاڑیوں کی لمبی لمبی قطار لگ جانے کا بھی اندیشہ ظاہرکیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب قابل فکر پہلو یہ ہے کہ حکومت سندھ کی جانب سے سرکلر ریلوے کی بحالی کے سلسلے میں کوئی جامع ، واضح ، موثر اور مستحکم پلان منظر عام پر نہیں آ سکا۔ ہاں البتہ سپریم کورٹ اور وفاق نے تو برسوں سے تعمیر شدہ پختہ مکانات کی توڑ پھوڑ بہت تیزی سے کر دی مگر ان متاثرین کی طرف سے پرزور احتجاجی مہم کے باوجود متبادل جگہ فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

قابل غور یہ امر ہے کہ ان انہدام شدہ مکانات کو یوٹیلیٹی سروسز مثلا بجلی،گیس، پانی اور دیگر سہولیات اسی انداز سے فراہم کی گئی تھیں جس طرح رجسٹرڈ شدہ لیگل ریگولرائزڈ رہائشی مکانات کو قانونی حقوق حاصل ہیں۔ایک عرصہ سے یہ مسئلہ سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان سیاسی اکھاڑہ بنا رہا۔

KCR پاکستان ریلوے کا اثاثہ ہے جو وفاق کا حصہ ہے۔ مگر سندھ حکومت کے عدم تعاون کی وجہ سے یہ منصوبہ ایک عرصہ تک التوا کا شکار رہا۔ شہرکے اطراف گھومتا ہوا کراچی سرکلرکا یہ روٹ وزیر مینشن ، لیاری ، سائٹ ، اورنگ آباد، ناظم آباد، لیاقت آباد،گلشن اقبال ، اردوکالج ،گیلانی، ڈپو ہل سے ہوتا ہوا مین لائن ڈرگ روڈ سے جا ملتا ہے۔ اس پورے روٹ میں لگ بھگ 28 پھاٹک پڑتے تھے۔ لوکل اورکراچی سرکلر سے ریلوے کو ٹکٹوں کی مد میں خاطر خواہ آمدنی کا ذریعہ بھی تھا۔

یہاںہم آ پ کو بتاتے چلیں کہ کراچی سے اندرون ملک مین ریلوے ٹریک کے دونوں طرف سو سو فٹ جگہ خالی رکھنی پڑتی ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ملک کے بیشتر حصوں میں ریلوے ٹریک کے ان حصوں پر لوگ قبضہ کر کے رہ رہے ہیں اور ان کی آبادی ریلوے ٹریک سے لگ بھگ دس یا بیس فٹ کے فاصلہ تک رہ گئی ہے۔کراچی سرکلر ٹریک آبادی سے کم از کم پچاس پچاس فٹ دور ہونا چاہیے جو یقینا ایک خطرناک صورتحال ظاہرکرتی ہے۔

یاد رہے کہ 2013ء میں جاپان کی عالمی کارپوریشن کے ایک ادارے (Japan International Corporation Agency – JICA) نے اپنی سروے رپورٹ میں اعادہ کیا تھا کہ اس پروجیکٹ کی ابتدا کے لیے وہا ں پر برسوں سے آباد تقریبا 4,653 خاندانوں کو نقل مکانی کرنی پڑے گی۔ اس پروجیکٹ کی تکمیل کی ذمے داری چین کی ایک فرم کو سونپی گئی جو ان آباد خاندانوں کی عدم منتقلی کی وجہ سے اپنا کام شروع نہ کرسکے اور واپس اپنے ملک چلے گئے۔

ٹریفک کے دباؤکوکم کرنے کے لیے سابقہ حکومتوں نے اربوں روپے کی لاگت سے سگنل فری فلائی اوورز اور زیر زمین گزرگاہیں (انڈر پاس) کی تعمیرکا عملی تجربہ کیا جو سود مند ثابت نہ ہوسکا جس کی بنیادی وجہ ہمارے اداروں کی ناقص پلاننگ اور اداروں میں کرپشن کا ہوناہے بہرحال لیاری ایکسپریس وے ایک انقلابی منصوبہ ہے جس سے ہر روز لاکھوں مکین مستفید ہو رہے ہیں۔

سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ ایک روڈ سے دوسری روڈ تک جانے کے لیے طویل فاصلہ پر محیط یو ٹرن کی وجہ سے تمام ارد گرد کا ٹریفک ایک جگہ جمع ہو جانے سے لوگوں کے وقت کا ضیاع اور دوسرے پٹرول کی مد میں آنے والی خطیر رقم کا بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ ان یو ٹرن کا مقصد حادثات کی روک تھام تھی مگر اس میں قابل قدر کمی نظر نہ آ سکی۔

ان لمبے لمبے یوٹر ن پر اکثرگاڑیوں کا بے پناہ رش رہتا ہے، جس سے لوگوں کے مزاج میں چڑچڑا پن آگیا ہے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے ہمسفرکو نقصان پہنچا کر اپنی منزل مقصود تک پہنچا جائے۔ ویسے بھی ہم گھر سے نکلتے وقت کے مارجن کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے بے شمار مسائل سے ہم خود ہی دوچار ہوجاتے ہیں۔آبادی میں جس تیزی سے گزشتہ دور میں اضافہ ہوا اور مسلسل ہو رہا ہے ، ہمارے پاس ان سے نبرد آزمائی کے لیے کچھ نہیں ہے۔ بس ہمارے اداروں اور حکومتوں کے نمایندوں کی خود غرضی اور دولت کی ہوس پرستی کا یہ عالم ہے کہ وہ ان کی تکمیل کے لیے ایسے ہی پروجیکٹ پرکام کرتے ہیں جن میں اپنے جیبوں میں جانے کا زیادہ مارجن ہو۔ شہروں کے ابھرتے ہوئے مسائل پر ہم جب بھی بات کرتے ہیں تو لا محالہ حکومت اور شہری اداروں پر الزامات لگاتے ہوئے نہیں تھکتے۔

ہم صرف آئینے کا ایک رخ دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ ہمارے ملک کی آبادی کا اسی فیصد عام شہری اپنی بنیادی ذمے داریوں کو سمجھنے سے قاصر ہے اور نہ ہی ہمارے ہاں کوئی ایسا ادارہ ہے جہاں عوام کو شہر میں رہنے کے آداب سکھائے جاتے ہوں ۔پوری کی پوری قوم جاہل اور سیوک سینس سے قطعا عاری ہے۔ حکومتوں اور ان شہری اداروں میں چونکہ الیکٹیڈ اور منتخب ہو کر لوگ ہم ہی میں سے جاتے ہیں کوئی با ہر سے امپورٹ نہیں کیے جاتے۔

ظاہر ہے جیسی روح ویسے فرشتے۔ ہماری بنیادی تربیت جتنی اچھی ہوگی اتنے ہی ادارے اور حکومتیں انسانیت پرست ہونگے۔ ہمیں پہلے اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ ہم خود ٹھیک ہوجائیں گے یہ مسائل خود بخود ہی حل ہوتے چلے جائیں گے۔ ہماری سوچ بذا ت خود کرپٹ ہے۔ ہم اچھی باتیں سیکھنا بھی نہیں چاہتے کیونکہ ہمارے پاس بیکارکاموں کے لیے زیا دہ وقت ہے۔ ہم تنقید توکرتے ہیں لیکن اصلاح نہیں۔ آپ یورپ کی طرف کیوں دیکھتے ہو ؟ اپنے پڑوسی ملک بھارت کے ا ن متذکرہ شہروں میں عوام کا سیوک سینس ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہم یا ہماری حکومتیں جتنے بھی پروجیکٹس پر کام کرلیں سب بیکار ہیں اس وقت تک جب ہم خود اپنے آپ کو ٹھیک نہیں کر لیتے۔

یاد رکھیے یہ ملک اللہ کی طرف سے دیے ہوئے قدرتی وسائل سے مالا مال نعمت سے کم نہیںاور دوسرے ہمارے بزرگوں نے اس کے قیام کے لیے اپنے قیمتی لہو سے اس کی آبیاری کی ہے، اگر ہم ان نعمتوں کا کفران اور ناشکری کے مرتکب ہونگے تو سمجھ لیں ہمارا اور ہمارے آنے والی نسلوں کا مستقبل بھیانک ہوگا جیسا قرآن پاک میں سورہ رحمن میں ان نعمتوں کی قدرومنزلت کا واضح ذکرکیا گیا ہے۔ دنیا میںآج مسلم امہ کے مقابلے میں غیر مسلم قوموں کا عروج کیوں ہے؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ انھوں نے زندگی گزارنے کے اصول وضوابط قرآن ناطق ہی سے اخذ کیے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ہمارا گلشن ہے ہمارے ثقافت کی پہچان ہے، ہمیں اس کی گوشہ گوشہ سے پیار ہونا چاہیے اور خود کو بدل کر ایک اچھے معاشرے کی بنیاد ر کھنا ، ہمارا مطمع نظر ہونا چاہیے ۔ اچھا معاشرہ ہوگا اچھی اور معیاری ، عالمی مثالی اربنائیزیشن جنم دے گی۔ یہی ہمارا تعمیری پیغام ہے جہاں تک پہنچے ۔ حالی نے کیا خوب کہا ہے۔

The post اربنائزیشن اور ہماری قومی ذمے داری (آخری حصہ) appeared first on ایکسپریس اردو.

الزامات کی سیاست کب تک؟

$
0
0

وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھرکہا ہے کہ ’’جس بادشاہ سے بھی سفارش کرا لو، این آر او نہیں دوں گا‘‘ چند روز قبل وزیر اعظم نے خود کہا تھا کہ باہر کے کسی حکمران نے این آر او دینے کی کوئی بات نہیں کی۔

اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ماضی میں پاکستانی حکمرانوں پر بعض غیر ملکی اثرانداز ہوتے رہے ہیں اور جنرل پرویز مشرف جیسا بااختیار فوجی حکمران بھی غیر ملکی حکمرانوں کی سفارش ماننے پر مجبور ہوا تھا کیونکہ انھیں بھی اپنا اقتدار برقرار رکھنا تھا۔

اس لیے انھوں نے ایک تیر سے دو شکار کیے تھے اور ایک طرف غیر ملکی حکمرانوں کی بات مان کر ان پر احسان کیا گیا اور دوسری طرف اپنے مخالفین سے جان چھڑا کر انھیں ملک سے جلاوطن کیا گیا تا کہ وہ نہ ملک کی جیلوں میں ہوتے نہ ان کے لیے کوئی آواز اٹھتی کہ انھیں رہا کرو اور معاہدے کے تحت انھیں بیرون ملک بھی سیاست کی اجازت نہیں تھی جس پر کچھ عمل بھی ہوا اور جنرل مشرف نے تقریباً آٹھ سال اپنے دو بڑے مخالفین کی جلا وطنی میں آرام سے حکومت کی تھی۔

چالیس سال قبل ملک پر جنرل ضیا الحق کی مضبوط حکومت تھی اور مارشل لا کے باعث آئین معطل اور عدلیہ مجبور تھی اور اس عدلیہ کے دور میں ایک سابق وزیر اعظم بھٹوکو پنجاب ہائی کورٹ سے پھانسی کی سزا ملی تھی جس کی توثیق سپریم کورٹ نے کی تھی ، جو آج کی طرح مضبوط نہیں تھی اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو غیر ملکی حکمرانوں کی سفارش مسترد کر کے پھانسی چڑھا دیا گیا تھا۔ وہ بھی فوجی دور تھا اور بااختیار فوجی جنرل معزول وزیر اعظم کو باہر بھیجنے کے لیے تیار نہیں تھا کیونکہ جنرل ضیا الحق کے نزدیک بھٹو کا زندہ رہنا ان کے لیے خطرناک ہوتا، اس لیے سابق وزیر اعظم سے جان بھی چھڑا لی گئی اور یہ بھی ثابت کردیا گیا کہ بااختیار فوجی جنرل واقعی بااختیار ہوتا ہے۔

کسی منتخب یا نامزد سیاسی وزیر اعظم کی طرح بے اختیار نہیں ہوتا جو کسی کو این آر او دے یا نہ دے ۔ کسی فوجی جنرل نے کبھی یہ نہیں کہا کہ این آر او نہیں دوں گا۔ جب کہ این آر او کون مانگ رہا ہے یہ بتانے کو تیار نہیں مگر ہر جگہ کہا یہی جا رہا ہے کہ این آر او نہیں دوں گا جب کہ عدالتوں اور نیب کی موجودگی میں کوئی بااختیار وزیر اعظم بھی این آر او دینے کا اختیار نہیں رکھتا ۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ این آر او مانگنے اور دینے والے پر لعنت اور جو مانگے اس کا نام کیوں نہیں بتایا جا رہا۔

وزیر اعظم نے لگتا ہے کہ این آر او نہیں دوں گا کی بات اپوزیشن کو چھیڑنے کے لیے شروع کر رکھی ہے حالانکہ اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیاں کھلے عام کہہ رہی ہیں کہ کسی نے بھی این آر او نہیں مانگا اور وہ جب قیدیں اور سزائیں بھگت ہی رہے ہیں، دن رات ان کی حکومت کردار کشی اور الزام تراشی ہو رہی ہے تو اس حکومت سے اپوزیشن کیوں این آر او مانگے گی۔ اپوزیشن کے بقول وزیر اعظم تو خود این آر او کر کے آئے ہیں ان سے این آر او کون مانگے گا۔

اپوزیشن نے وزیر اعظم کے بار بارکے اظہار کہ این آر او نہیں دوں گا کے جواب میں قومی اسمبلی میں سلیکٹڈ، سلیکٹڈ کا شور مچانا شروع کر رکھا ہے جس سے تنگ آ کر وزیر اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں آنا کم کر رکھا ہے اور وہ اسی صورت میں کبھی قومی اسمبلی آتے ہیں جب انھیں سلیکٹڈ کا لفظ نہ سننا پڑے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن وزیر اعظم کو سننے کو تیار نہیں جس کے جواب میں منصوبہ بندی کے تحت بجٹ اجلاس میں وزیروں اور حکومتی ارکان نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو بجٹ پر چار پانچ روز بولنے نہیں دیا۔ ایوان کی اس صورتحال کو پاکستان کے چیف جسٹس نے بھی محسوس کیا اور انھیں بھی بولنا پڑا کہ قومی اسمبلی کے ایوان میں وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کو تقریر نہیں کرنے دی جاتی جو تشویشناک بات ہے۔

موجودہ حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے وہ مسلسل کہہ رہی ہے کہ حکومت سابق حکومتوں کے لیے گئے قرضے ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور ملک کی معاشی حالت بہت خراب ہے جس کی ذمے دار سابقہ حکمران جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ہے ، جنھوں نے کرپشن کر کے ملک کو اس حال پر پہنچایا ہے، جس کی وجہ سے حکومت کو مجبوری میں مشکل اور نامقبول فیصلے کرنے پڑے اور ملک میں ڈالر مہنگا اور روپیہ سستا ہونے سے مہنگائی بڑھی ہے۔

حکومت گیارہ ماہ سے وہی پرانی باتیں دہرا رہی ہے جو سن سن کر عوام کے بھی کان پک گئے ہیں اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ یہ سب کچھ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے پانچ سالوں میں کیوں نہیں ہوا ، جو کہا کرتی تھی کہ پیپلز پارٹی اس کے لیے مشکلات چھوڑ گئی تھی۔

اب تک ملک میں ہر آنے والی فوجی حکومت اور سیاسی حکومت یہی رونا روتی آئی ہے جو حقیقت کے برعکس ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت گزشتہ سال نومبر میں سرکاری طور پر ملک سے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا اعلان کر چکی تھی مگر موجودہ حکومت اس کا کریڈٹ بھی خود لیتی آ رہی ہے۔ موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مصنوعی طور پر ڈالر کوکنٹرول میں رکھا ہوا تھا ۔ حکومت بڑے دعوے کرکے جس اسد عمر کو وزیر خزانہ بنا کر لائی تھی تو انھوں نے اسحاق ڈار جیسی صلاحیت کیوں نہیں دکھائی کہ ڈالر کنٹرول میں رہتا۔ آٹھ ماہ بعد وزیر اعظم نے اپنے وزیر خزانہ کو ہٹا کر اور پیپلز پارٹی کے سابق وزیر خزانہ کو اپنا مشیر خزانہ بنا کر خود ثابت کر دیا ہے کہ اسد عمر میں اسحاق ڈار جیسی صلاحیت نہیں تھی کہ جس نے ملک میں مہنگائی اور ڈالر پر بھی کنٹرول رکھا تھا۔

موجودہ حکومت کو 18 جولائی کو گیارہ ماہ مکمل ہو جائیں گے اور اس کی خراب کارکردگی کو بنیاد بنا کر اپوزیشن 25 جولائی کو ملک میں یوم سیاہ منائے گی۔ حکومت جانتی ہے کہ اس کی کارکردگی سے عوام پریشان، مہنگائی عروج پر، کاروبار بری طرح متاثر اور ملک میں بے یقینی ہے مگر 11 ماہ بعد بھی حکومت سابقہ حکومتوں کو ہی موجودہ صورتحال کا ذمے دار قرار دیتی آ رہی ہے جب کہ (ن) لیگی حکومت گزشتہ سال 31 مئی کو ختم ہو گئی تھی۔ حکومت کو چاہیے کہ اب ماضی کی حکومتوں پر الزامات کی سیاست ختم کرے اور اپنی کارکردگی دکھا کر عوام کو مطمئن کرے۔

The post الزامات کی سیاست کب تک؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

اک ذرا کینیڈا سے

$
0
0

30 جون کی صبح 8 بجے قومی ایئر لائن کے جہاز نے اڑان بھری اور ہم میاں بیوی کراچی سے کینیڈا کے شہر ٹورانٹو کے لیے روانہ ہوگئے۔ ہوائی جہاز میں سوار سبھی عورتیں، مرد، بوڑھے، جوان اور بچے اپنے پاکستانی تھے۔ ہم دوسری بار کسی غیر ملک جا رہے تھے۔ پہلی بار 2010ء میں ہم میاں بیوی حج کرنے سعودی عرب گئے تھے اور اب دوسری بار کینیڈا جا رہے تھے۔ کینیڈا کے دارالحکومت اوٹاوا میں ہماری اکلوتی بیٹی ردا اپنے میاں اور دو بچوں کے ساتھ رہتی ہے۔ اسی سے ملنے ہم جا رہے تھے۔

کراچی ایئرپورٹ پر ہمیں رخصت کرنے میرے تینوں بیٹے، بہوئیں اور پوتیاں آئے ہوئے تھے۔ صبح کے ساڑھے چار بج رہے تھے۔ بین الاقوامی پرواز کے لیے روانگی سے تین چار گھنٹے پہلے ایئرپورٹ پہنچنا ہوتا ہے۔ ابھی ہم لاؤنج سے باہر ہی تھے کہ ہمیں فہیم مل گیا، جو ہمارے ساتھ والے اعجاز صاحب مرحوم کا بیٹا ہے اور پچھلے 30 سال سے کینیڈا میں رہ رہا ہے۔ ہم لاؤنج میں داخل ہوئے ہی تھے کہ سامنے سے میرے پیارے دوست شاعر صابر ظفرکا بیٹا نظر آیا، وہ ہماری طرف ہی آ رہا تھا۔

’’السلام علیکم! کہاں جا رہے ہیں انکل!‘‘ میں اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا، وہ قومی ایئرلائن کی یونیفارم پہنے ہوئے تھے، میں نے اسے بتایا کہ ہم کینیڈا جا رہے ہیں۔ اس نے ہمارا اور فہیم کا سامان لیا سامان کی ٹرالی لیے لوڈر کو ساتھ لیا اور سامان جہاز میں لوڈ کروا دیا۔

ہم میاں بیوی لاؤنج میں بیٹھے تھے، صابر ظفر کے بیٹے نے سامان کی رسیدیں جو ہمارے بورڈنگ کارڈ کے ساتھ چسپاں تھیں ہمارے حوالے کیں اور ہم جہاز میں جانے والے گیٹ نمبر 17 کی انتظار گاہ میں پہنچ گئے۔ فہیم ہمارے ساتھ تھا۔ وہاں ہم نے چائے پی اور ٹھیک سات بجے جہاز میں داخلے کے لیے لائن میں لگ گئے۔ ایک ٹنل کے ذریعے ہم جہاز کے دروازے پر پہنچے جہاں جہاز کی میزبان لڑکی نے ہماری سیٹ تک ہمیں پہنچایا اور پھر ٹھیک آٹھ بجے صبح جہاز نے اڑان بھری اور ہمارے پندرہ گھنٹے مسلسل پرواز کے سفر کا آغاز ہو گیا۔ راستے بھر ہمارے پڑوسی بچے فہیم نے ہمارا بڑا خیال کیا، وہ بار بار اپنی سیٹ سے اٹھ کر ہماری خیریت معلوم کرنے آتا رہا۔ سفر بہت اچھا گزرا، پاکستانی کھانا، چائے، کافی، ٹھنڈے مشروب، اسنیک سبھی کچھ بہت اچھا تھا۔

آخر کار وہ گھڑی آن پہنچی، پائلٹ اعلان کر رہا تھا ’’سیٹ بیلٹ باندھ لیں، ہم تھوڑی دیر بعد ٹورانٹو ایئرپورٹ پر لینڈ کریں گے‘‘ اور پھر ہوائی جہاز کے پہیوں نے زمین کو چھو لیا۔ اب جہاز رن وے پر دوڑ رہا تھا، پھر آہستہ ہوا اور ایک جگہ رک گیا۔ اس وقت ٹورانٹو میں دوپہرکا ایک بج رہا تھا۔ ہم جہاز سے باہر آ رہے تھے، فہیم کینیڈا کا مستقل رہائشی ہے، اس نے ایئرپورٹ کے تمام مراحل خود ہی طے کیے۔ فہیم کی چھوٹی بہن افشین اپنے شوہر نوید کے ساتھ ہمیں لینے آئی ہوئی تھی۔ ٹورانٹو ایئرپورٹ پر موجود اہلکار لڑکے لڑکیاں، عورتیں مرد (گورے کالے) سبھی اپنے فرائض نہایت خوبی سے ادا کر رہے تھے اور مسافروں کی سہولتوں کے لیے ہر دم ہر لمحہ حاضر تھے۔ ٹورانٹو ایئرپورٹ پر ایمیگریشن کا تمام کام مشینیں کرتی ہیں۔ پاسپورٹ کی اسکیننگ، مسافر کی کیمرے سے تصویر وغیرہ سب کام مشینیں کرتی ہیں۔

فہیم ہمارا مددگار تھا، اس نے تمام کام کیے اور ہم سامان کی ٹرالی لیے ایئرپورٹ سے باہر آ گئے۔ جہاں افشین اور اس کا شوہر نوید اپنی بڑی سی گاڑی لیے موجود تھے۔ ہم ان کی گاڑی میں بیٹھ کر ’’مسز ساگا‘‘ کے لیے روانہ ہو گئے۔ مسز ساگا ٹورانٹو شہرکا ایک حصہ ہے۔ وہیں فہیم کا بھی بہت بڑا گھر ہے، مگر ہم افشین کے گھر جا رہے تھے۔ آدھے گھنٹے کی ڈرائیوکے بعد ہم گھر پہنچے، ابھی ہمارا سفر ختم نہیں ہوا تھا۔ ہمیں چھ گھنٹے بعد ٹورانٹو سے بذریعہ ایئر کینیڈا اوٹاوا کے لیے اڑان بھرنا تھی۔

سو ہم نے دوگھنٹے افشین کے گھر آرام کیا اور ہمیں ایئرپورٹ چھوڑنے کے لیے فہیم اور نوید اپنی گاڑی میں روانہ ہوئے۔ ٹورانٹو ایئرپورٹ کا یہ ٹرمنل ون تھا، جہاں ہم پی آئی اے سے اترے تھے۔ وہ ٹرمنل یہاں سے ایک میل فاصلے پر تھا۔ ٹورانٹو بہت بڑا ایئرپورٹ ہے، خیر اوٹاوا روانگی کے لیے میں نے ایئرپورٹ پر بڑے خوش کن منظر دیکھے۔ مسافروں کی رہنمائی کے لیے اہلکار ’’بڑی توجہ‘‘ کے ساتھ مسکراہٹ چہرے پر سجائے موجود۔ ہم لائن میں کھڑے ہو گئے، سامنے آٹھ کاؤنٹر تھے اور ہر کاؤنٹر پر اپنی باری آنے پر ایک ہی مسافر موجود تھا، باقی سارے مسافر اپنی باری کے انتظار میں کاؤنٹر سے ذرا فاصلے پر، کوئی ہڑبونگ نہیں۔

ٹورانٹو سے اوٹاوا کے لیے ہمیں 45 منٹ کی اڑان بھرنا تھی۔ ایئرکینیڈا کے جہاز میں سبھی کینیڈین تھے، چپس اورکولڈ ڈرنکس سے مسافروں کی تواضح کی گئی اور جہاز اوٹاوا اتر گیا۔ ایئرپورٹ پر ہماری بیٹی ردا اپنے میاں منصور اور اپنے دو بچوں کے ساتھ موجود تھے۔

اوٹاوا شہر پاکستان کا اسلام آباد ہے۔ کینیڈا کا دارالحکومت ہے۔ اس شہر میں صاف ظاہر ہے زیادہ لوگ سرکاری ملازم ہیں۔ چھوٹا سا کم آبادی والا شہر ہے آٹھ لاکھ 95 ہزار لوگوں کا شہر۔ جب سے یہاں آیا ہوں آج آٹھ روز ہو گئے اب تک جو دیکھا وہ یہ کہ چیزیں خالص ہیں ، وزن پورا ہے اور سچا سُچا ہے۔

ہم پیدل چل رہے تھے زیبرا کراسنگ سے پہلے میاں بیوی کار سواروں نے گاڑی روک دی، ہم نے سڑک پار کی، میں نے بطور شکریہ ہاتھ ہلایا۔ ان دونوں میاں بیوی نے مسکرا کے ہاتھ ہلایا۔ بیٹی بتا رہی تھی ’’اگر یہ نہ رکتے تو پانچ سو ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑتا، جو ہمارے تقریباً ساٹھ ہزار روپے بنتے ہیں۔‘‘ یہاں قانون کی بڑی عملداری ہے۔ میں روزانہ صبح یہاں بھی واک کے لیے نکلتا ہوں۔ راستے میں سبھی لوگ مجھے کہتے ہیں “Good Morning Sir! ۔ چار دن پہلے ہفتے کے دن میری بیٹی کے سسر سلطان ناصر ان کی بیگم رعنا اور بیٹا مصور اپنی ڈبل کیبن گاڑی میں بٹھا کر ہمیں ’’ڈاؤن ٹاؤن سٹی‘‘ لے گئے۔ اوٹاوا کے اس علاقے میں کینیڈا کی پارلیمنٹ (قومی اسمبلی) کی عمارت ہے، وزیر اعظم ہاؤس ہے، سپریم کورٹ ہے، ملکہ برطانیہ کے نمایندے گورنر کا گھر ہے، اس کا دروازہ بھی فٹ پاتھ پرکھلتا ہے ۔ سفید دروازے پر سنہری دھات سے نمبر 10 لکھا ہے۔ اسی جگہ ’’پارلیمنٹ ہاؤس‘‘ کے سامنے یکم جولائی کے دن کینیڈا کا یوم آزادی تھا۔ ہم وہیں تھے، رات گئے ہم بھی آتش بازی دیکھنے گئے۔

پورے ملک میں جشن منایا جا رہا تھا۔ سلطان ناصر صاحب نے ہمیں خوب سیر کرائی۔ ہم Ottava River بھی گئے ۔ شہر کے بہت سے لوگ اس روز دریا کنارے جمع تھے، خوب ’’موج میلہ‘‘ ہو رہا تھا۔ ہم نے کینیڈا کی مشہور کالٹن یونیورسٹی بھی دیکھی، سلطان ناصر کی اکلوتی بیٹی آمنہ نے اسی یونیورسٹی سے CA کیا ہے۔ اگلے روز اتوار کے دن شام ان کے گھر میرے لیے عصرانے کا اہتمام تھا۔ ’’مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے‘‘ ہوئے تھے میرے کالم لوگوں نے پڑھ رکھے تھے، اور پھر حبیب جالبؔ کا ذکر محفل کے اختتام تک ہوتا رہا۔ امین لاکھانی چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ، خلیق احمد چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ اور میزبان سلطان کے منجھلے صاحبزادے مسرور ناصر چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ شریک محفل تھے۔ ڈاکٹر سہیل، محمد سعید علی، علی زیدی سافٹ ویئر انجینئر اور آئی بی اے پاکستان کے سابق ڈائریکٹر عقیل حسین کے صاحبزادے مدثر حسین جو بینکار ہیں۔ یہ سب احباب صاحب علم اور صاحب مطالعہ ہیں۔ ان سے باتیں کر کے بڑا اچھا لگا۔ میری پہلی نشست ہو چکی، دعوتوں کا سلسلہ شروع ہو چکا، بقول احمد راہی:

بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے

The post اک ذرا کینیڈا سے appeared first on ایکسپریس اردو.

راجاؤں، بادشاہوں اور سامراجیوں کی کہانی

$
0
0

بیرونی حملہ آور ہوں یا راجہ اور بادشاہوں کا جبر دنیا کے سامنے عیاں ہے۔ ہسپانوی، ڈچ، پرتگیزی اور برطانوی سامراجیوں کا جنوبی امریکا پر قبضہ اور لوٹ مار سب کو معلوم ہے۔

میں صرف ایک مثال دوں گا جب کہ ایسی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں ۔1573 ء میں ’’ کے مین آئی لینڈ ‘‘ سے ہسپانوی کارواں بیس ٹن سونا چا ندی لے کرگزر رہا تھا، اس پر برطانیہ کا فرانسس ڈریک جوکہ غلا موں کا تاجر اور قذاق تھا، ملکہ الزبتھ کے حکم پر حملہ آور ہوا اور ہسپانوی لٹیروں سے برطانوی لٹیروں نے قبضہ کیا۔ بعد میں ملکہ نے اس کا نام سر فرانسس ڈریک رکھ دیا۔

ہسپانیہ نے جنوبی امریکا کی لاکھوں مقامی آبادی کا قتل کیا اور ان کا مذہب، زبان اور تہذیب کو ان سے چھین لیا ۔ لوٹ مار اور قتل وغارت گری کا یہ حال تھا کہ سابق لیما (پیرو) اور بیونس آئرس (موجودہ ارجنٹائن) پر قابض سربراہ ریسیگوئن 17 اکتوبر1781ء کو ارجینٹائن بلکہ جنوبی امریکا کے عظیم انقلابی ہیرو ’’ٹوپک کتاری‘‘ کوگرفتارکرلیا اور انھیں 15 نومبر1781ء کو اذیت دے کر مار دیا گیا۔

ان کے مر نے سے قبل ان کے ہاتھ پاؤںکو چار مختلف سمتوں سے رسوں کے ذریعے باندھ کرگھوڑوں سے کھینچا گیا، تا کہ ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں، جب کہ ٹوپک کتاری آٓخری سانس تک ہسپانوی حملہ آوروں کو یہ کہہ کر للکارتے رہے کہ ’’آج میں فرد واحد کے طور پر مر سکتا ہوں مگر میں کل لاکھوں کی شکل میں واپس آؤںگا ‘‘ اس وقت ’’ان کا سلطنت‘‘ کے ماتحت بولیویا ہوا کرتا تھا۔ اس علاقے میں آج کے ارجینٹینا ، چلی، ایکوا ڈور، پیرو، پیرا گوئے، جنوبی کولمبیا اور بولیویا شامل تھے۔ یہی جبر برطانوی، فرانسیسی، جرمن اور ڈچ سامراجیوں نے افریقہ کے ساتھ کیا۔ لاکھوں، کروڑوں، افریقیوں کو غلام بنا کر امریکا لے جایا گیا اور ان سے جبراً خصوصاً گنے کی کاشت کروائی گئی۔ آج بھی کیرابین سر زمین پر افریقی بستے ہیں۔ یہاں مقامی آبادی ’’کیریب‘‘ ایک بھی نہیں ہے، اسی طرح جنوبی اور شمالی امریکا میں صرف 2 فیصد مقامی لاطینی رہ گئے ہیں۔

ادھر ایشیا میں برصغیر اور چین پر برطانیہ کا قبضہ تھا۔ ہمارے برصغیر پر ہن، کیانی، منگول، مغل ، سلاطین، سکندر، برطانیہ، پرتگیزی وغیرہ صدیوں قابض رہے اور ظلم وجبر کرتے رہے ۔ جہانگیر بادشاہ کے دور میں لارڈ کلائیو سات جہازوں میں سونا چاندی ا ور قیمتی جواہرات لاد کر برطانیہ لے گیا ۔

حال ہی میں ہمارے حکمرانوں نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کا مجسمہ نصب کیا ہے۔ رنجیت سنگھ شمال مغربی بھارت میں پیدا ہو ئے۔ اکیس سال کی عمر میں حکمران بن گئے۔ ان کا افغان حکمرانوں سے مسلسل ٹاکرا ہوا کرتا تھا، رنجیت سنگھ کے برطانوی سامراج سے اچھے تعلقات تھے۔ وہ مودی سرکارکی طرح مسلم مخالف سوچ رکھتے تھے اور عمل کرتے تھے۔ رنجیت سنگھ نے لاہورکی شاہی مسجدکوگھوڑوں کا ا صطبل بنایا تھا ۔ موجودہ حکمرانوں نے ہیرو بنا کے ان کا مجسمہ نصب کیا ہے ۔ جب کہ برصغیرکی آزادی کی جنگ لڑنے والے بھگت سنگھ جنھیں انگریزوں نے پھانسی دی تھی ان کا مجسمہ نصب نہیں کیا گیا ۔

بھگت سنگھ28 ستمبر1907ء بانگہ، فیصل آباد موجودہ پاکستان اور سابقہ بھارت میں پیدا ہوئے۔ وہ لاہور گورنمنٹ کالج کے طالب علم رہنما تھے اور سوشلسٹ نظریات کے حامل تھے۔ انھوں نے باکونن اور لینن کی کتابیں بھی پڑھی ہوئی تھیں۔ لاہور اسمبلی ہاؤس پر بم پھینکنے کے الزام میں انھیں گرفتارکیا گیا تھا۔ لاہور کی تین رکنی ایک عدالت نے بھگت سنگھ، راج گورواور سُکھ دیوکو پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ ان کے مقدمے کی پیروی کرنے کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح دو بار عدالت میں پیش ہوئے۔

قائد اعظم نے 4 ستمبر اور 12ستمبر1929ء میں سینٹرل اسمبلی دہلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’بھگت سنگھ جیسا بہادر اور جرات مند شخص برصغیرمیں پیدا نہیں ہوا۔‘‘ 23 مارچ1931ء لاہور سینٹرل جیل میں انھیں راج گورو اور سکھ دیو سمیت انگریزوں نے پھانسی دے دی۔ پھانسی کی تاریخ عدالت نے 24 مارچ مقررکی تھی مگر انھیں 23 مارچ کو ہی شام سات بجے پھانسی دے دی گئی۔ بھگت سنگھ کے ڈیتھ وارنٹ پر برصغیرکا کوئی بھی جج دستخط کرنے کو تیار نہ تھا، آخرکار نواب احمد رضا قصوری نے پروانہ موت پر دستخط کر دیے۔ اتفاق کی بات ہے اسی شادمان ٹاؤن چوک میں کسی نے نواب احمد رضا قصوری کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا ۔ اس قتل کے الزام میں ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی کی سزا ہوئی۔

جو آج بھی عدالتی قتل کہلاتا ہے۔ خیر تو ذکر ہو رہا تھا بھگت سنگھ کی پھانسی کا ۔ جیل مٹی کی دیوارکی بنی ہوئی تھی اور مین گیٹ پر بھگت سنگھ کی میت وصول کرنے کے لیے انسانوں کا سمندر جمع تھا ۔ اس خوف سے انگریزسرکار نے جیل کی پیچھے کی دیوار کو توڑ دیا اور ان کے جسد خاکی کو گنڈا سنگھ، ضلع قصور لے جایا گیا ۔ پھر ان کی میت کو انگریز سپاہی ٹکڑے ٹکڑے کرنے لگے، اسی دوران قصورکے ہزاروں عوام کا سمندر امنڈ آیا ، جنھیں دیکھ کر انگریزسپاہی وہاں سے بھاگ گئے۔ لاہور میں بھگت سنگھ میموریل فاؤنڈیشن کے روح رواں امتیاز قریشی ، بھگت سنگھ کے جوڈیشل مر ڈرکے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ لڑ رہے ہیں۔

جنگ آزادی کے 16 ہیروز جنھیں ایمپریس مارکیٹ کراچی میں پھانسی دیکر اور توپوں سے اڑا کر ان کے جسد خاکی کے ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے تھے۔ ان کی رہنمائی کرنے میں رام دین پانڈے اور سو راج بلی تیواری پیش پیش تھے۔

برٹش لائبریری میں رکھی گئی کتاب میں کلماتی کہتے ہیں کہ 13 ستمبر 10.30 pm رات کو 1857ء میں میجر میکروگون کو اطلاع ملی کہ فوج میں بغاوت ہونے والی ہے۔ کہا جا تا ہے کہ پانڈے اور تیواری کا دہلی کی فوج سے رابطہ تھا۔ میجر میگریگون فوری طور پر سندھ کے کمشنر پارٹل فریئر، کیپٹین گولڈ اسمتھ اور جان آرتھرکو حکم دینے پر انھوں نے رجمنٹ میں کرفیو نا فذ کر دیا۔ رام دین اور تیواری نے فوری طور پر فیصلہ کیا کہ 44 فوجی جوان ، جو ان کے حا می تھے میں سے 21 فوجی تیواری کے ساتھ روپوش ہو جائیں اور باقی وہیں رہیں۔21 فوجی وہاں سے چلے گئے، 3 کو میٹھا در میں پکڑ لیا گیا ، انھیں مارکر ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے اور سمندر میں پھینک دیا گیا۔ دوسرے 15 ہمارے بہادر ہیروز کو 16 مئی کوگرفتارکر لیا گیا۔

ان میں سے 11 کو ایمپریس مارکیٹ ( جوکہ اس وقت میدان تھا) پر پھانسی پر لٹکایا گیا اور بعد میں لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے اور پھر ان کی نعش کو صدر ملا نزد برنس روڈ میں پھینک دیا گیا۔ 23 ستمبر کو ’’حب‘‘ سے رام دین پانڈے کوگرفتارکر لیا گیا اور 27 ستمبر 1857ء میں 5 اور ساتھیوں سمیت رام دین پانڈے کو توپ میں باندھ کر اڑایا گیا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رنجیت سنگھ ہیرو ہیں یا عوام دشمن، اگر رام دین پانڈے ، بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے جان کی قربانی دے کر برصغیرکو آزاد کرایا اور ان کے وکیل قائداعظم محمدعلی جناح تھے توکیا ہمیں رنجیت سنگھ کی جگہ بھگت سنگھ ، رام دین پانڈے اور ان کے ساتھیوںکو بھی ہیروز ہونے کا اعلان نہیں کرنا چاہیے، اگرکوئی سازش درپردہ ہے تو اسے بے نقاب کرتے ہوئے شادمان چوک پر بھگت سنگھ کا مجسمہ اور ایمپریس مارکیٹ کراچی میں رام دین پانڈے کا مجسمہ نصب کرنا چاہیے۔

The post راجاؤں، بادشاہوں اور سامراجیوں کی کہانی appeared first on ایکسپریس اردو.

شامِ زندگی

$
0
0

قدیم یونانی فلسفی یہ سمجھتے تھے کہ ارواح دو مختلف عالموں یا دنیاؤں میں بستی ہیں۔ ایک عالم آئیڈیاز  (World of Ideas) ہے اور دوسرا عالم یہ دنیا یعنی عالم ِحقیقی ہے(Real World)، ارواح کی ایک عالم سے دوسرے عالم میں منتقلی( عملِ تناسخ )کے بارے میں  فیثا غورث کے نظریہ  (Pythagorian Principle of Transmigration of Souls)میں کہا گیا ہے کہ ارواح آئیڈیاز کی دنیا میں جوڑے بن کر رہتی ہیں،حقیقی دنیا میں منتقلی پر انھیں جدا کر دیا جاتا ہے،یہاں ہر ایک اپنے جوڑے کی تلاش میں سرگرداں ہے یعنی دنیاوی زندگی اپنے پارٹنر کی تلاش سے عبارت ہے اور یہ اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک وصل نہ ہو۔یہی وصل،شامِ زندگی کاانتہائی لمحہ ہے۔ شام فارسی زبان کا لفظ ہے۔عربی زبان میں اس کے لیے سات الفاظ ہیں جو اِس کی مختلف حالتوں کا اظہار ہیں۔

قرآنِ کریم میں اصیل کا لفظ پسند کیا گیا ہے۔ اصیل ،اصل سے ہے۔اصل جڑ کو کہتے ہیں۔امام جا حظ کہتے ہیں کہ اسم کو جب فعل کے وزن پر لاکر صفتِ مشبہ بناتے ہیں تو اس میں فیض رسانی کا مفہوم خود بخود پیدا ہو جاتا ہے جیسے نخل سے نخیل ، تو نخیل کہتے ہیں مادہ کھجور کے درخت کو۔پھل چونکہ مادہ کھجور کے درخت کو ہی لگتا ہے اس لیے نخیل میں فیض رسانی آ گئی۔اس طرح جب اصل سے اصیل بنتا ہے تو اس کے معنی ہوتے ہیں  ثمردار درخت کی جڑ اور اس کے مجازی معنی ہوتے ہیں مرادوں بھری شام۔ سید نصیر شاہ کے مطابق اصیل کے متضاد کے طور پر صبح کا عربی لفظ استعمال نہیں ہوتا۔ بکرۃ استعمال ہوتا ہے۔ بکرۃ کے معنی ہیںکنواری یا دوشیزہ جس کی آنکھیں پیار کی لا متناہی بلندیوں اور حسین خوابوں سے بھری ہوں۔ایک مزدور جب صبح اٹھتا ہے تو اس کی آنکھیں تازہ خوابوں سے مخمور ہوتی ہیںاور شام کو مزدوری کا معاوضہ ملنے پرمرادوں بھری شام بن جاتی ہے۔

شام کا لفظ بہت سی جہتوں کو سموئے ہوئے ہے۔ہم برصغیر کے مسلمانوں کے ہاں شام کا لفظ زبان پر آتے ہی سب سے پہلے شامِ غریباں کا پاک لیکن غم و اندوہ بھرا منظر سامنے آ جاتا ہے اور آنکھوں میںکرب و بلا کا بے آب و گیاہ خارِزار ، تپتا بیابان ،ا س میں پڑے بے گورو کفن لاشے،ان عظیم ہستیوں کے لاشے جو کائنات میں سب سے پاک اور سب سے اعلیٰ و ارفع ہستیاں تھیں۔ان جلتے خیموںکو جن کے اندر رسولِ امین و مکرم کے گھر کی بہو بیٹیاں تھیںجن کی عصمت مآبی کے سبب چاند اور سورج بھی انھیں دیکھتے ہوئے اپنے آپ کو گنہگار سمجھتا ہو گا۔ ہاں آنکھیں دیکھنے لگتی ہیں کہ دشتِ شام کے مسافروں کا زنجیروں بوجھل پاؤں جب زمین پر پڑتا ہے تو زمین کی چھاتی پر ایمان و ایقان سے لبریز سچ کی فتوحات کی داستانیں رقم ہونے لگتیں ہیںاور تاریخ ان نقوش کو چوم چوم کر اٹھاتی اور مردانِ حراپنے ماتھے پر سجاتے ہیں۔سلام ہو مسافرانِ شا م پر۔

جو تجربے یادوں خاص کر بچپن کی یادوں کا حصہ بنتے ہیں وہ ذہن اور فکر کو ایک خاص رنگ میں رنگنے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں وہ ایک ایسا سانچہ بنا دیتے ہیں جو عمر بھر ساتھ چلتا ہے۔میں اپنی ابتدائی زندگی کے ایک دو واقعات آپکے سامنے رکھتا ہوں۔میں غالباً دوسری کلاس میں پڑھتا تھا۔اسکول سے واپس آیا تو والدہ نے پیسے دے کر دکان سے کچھ سودا لینے بھیجا۔ میں دکان پر گیا سودا لیا پیسے دیے۔دکاندار نے اپنی رقم کاٹ کر باقی رقم مجھے تھما دی اور میں واپس گھر آ گیا۔گھر آکر سودا اور بچے ہوئے پیسے والدہ کو دیے۔اس زمانے میں چاندی کے روپے ہوتے تھے اور دکاندار نے ریزگاری واپس کرتے ہوئے غلطی سے ایک روپیہ زائد دے دیا تھا۔والدہ نے جونہی دیکھا کہ ایک روپیہ زائد ہے فوراً مجھے دو تھپڑ رسید کیے اور کہا بھاگ کر جاؤ،دکاندار کو روپیہ واپس کرو اور اس سے معافی مانگو۔والدہ نے جیسا حکم دیا میں نے ویسا ہی کیا لیکن اس وقت سمجھ نہ آئی کہ مجھے کیوں پیٹا گیا ہے شاید اس لیے کہ میری والدہ نے یہ سمجھا ہو کہ میں ایک روپیہ اٹھا لایا ہوں لیکن ساری زندگی کے لیے ایک سبق مل گیا۔

اسی طرح ایک بعد دوپہرہم تین چار لڑکے کھیلتے کھیلتے گاؤں کے ساتھ ملحقہ کھیت میں سے چھولیا توڑ لائے۔چنے کے پودے پر جب پھل لگتا ہے تو ابتدا میں بہت نرم ہونے کے سبب کافی مزیدار ہوتا ہے۔گاؤں میں یہ کوئی گناہ یا جرم نہیں بنتا کیونکہ ساری آبادی یا تو ایک دوسرے کی رشتہ دار ہوتی ہے یا کم از کم ایک دوسرے کے جاننے والے ہوتے ہیں۔ہم تینوں چاروں بچے وہ چھولیا اٹھا کر اپنے اپنے گھروں کو آ گئے۔والدہ نے جونہی دیکھا تو پہلا سوال یہ کیا کہ کیا تم اپنے کھیتوں میں گئے تھے اور وہاںسے یہ چھولیا لے کر آئے ہو،میں نے بتایا کہ نہیں۔ والدہ نے یہ سنتے ہی کہ یہ کسی اور کے کھیت سے ہے مجھے ایک دو لگا بھی دیں اور بہت غصے بھی ہو ئیں۔

والد صاحب گھر پر تھے لیکن ایک مخصوص عرصے کے لیے کسی خاص عبادت کے سبب کمرے سے باہر نہیں آتے تھے،والدہ کے شور اور غصے کی آواز ان تک بھی پہنچ گئی۔انھوں نے کھڑکی کے پٹ  کھولے مجھے کہا کہ مچھر دانی کا ڈنڈا کھڑکی کے راستے ان کو پکڑاؤں اور خود کھڑکی کے پاس کھڑا ہو جاؤں۔میں نے حکم کی تعمیل کی کیونکہ حکم عدولی کا کوئی تصور ہی نہیں تھا، یوں والد صاحب نے ڈنڈے سے میری تواضح کرنے کے بعد حکم دیا کہ چنے کے ان پودوں کو اسی کھیت میں چھوڑ آؤں،اس سے ساری عمر یہ یاد رہا کہ کسی کے ہاں سے کوئی بھی چیز بغیر مالک کی اجازت اٹھانا غلط ہے۔ خدا ہم سب کے والدین کو عظمتیں،عزتیں اوربلند مراتب عطا فرمائے جنھوں نے بعض اوقات بہت کم ہوتے ہوئے بھی اخلاق و ایمان کے بہترین اسباق سے نوازا۔

شام کی ایک جہت یہ بھی ہوتی ہے کہ کسی صاحبِ کمال،کسی بڑے نامور آدمی،علم و فن میں اوجِ کمال پر پہنچے ہوئے کسی صاحبِ فضل کے ساتھ کچھ وقت گزارا جائے۔ ہماری علمی اور ادبی تہذیب میں چونکہ یہ کام عمومی طور پر شام کو کیا جاتاہے اس لیے اس تہذیبی روایت کو کسی کے ساتھ شام منانا کہا جاتا ہے۔پاکستان اکیڈمی ادبیات میں رہتے ہوئے ایسی کئی منائی گئی شاموں میںشرکت کا موقع ملااور چند ایک ناموروں کے تجربا ت سے استفادہ کرنے یا ان کی بیان کی ہوئی داستانیں سننے سے زندگی کے وہ زاوئے وا ہوئے جن سے عقل و خرد کو جلا ملی۔

ایک شام اور بھی ہوتی ہے اور شام کی تمام جہتوں میں یہ سب سے اہم جہت ہے اور یہ جہت ہے عمر کی شام۔جس طرح دن کے اختتام کو شام کہا جاتا ہے اسی طرح عمر کا ختم ہونے والا حصہ شامِ زندگی کہلاتا ہے۔عمر کے اس حصے میں پہنچ کر آدمی سوچنے لگتا ہے کہ جیسے اب زندگی تھم سی گئی ہے،جیسے اس کی حرکت رک سی گئی ہے،ہر طرف سکوت ہے،جمود کا غلبہ ہے،لمحے پتھر ہو گئے ہیں، کوئی ہنگامہ نہیں حالانکہ بقولِ شاعر ہنگامہ ضروری ہے سرِجادہ ہستی میں، ایسے لگتا ہے کوئی تغیر نہیںحالانکہ ایک تغیر کو ہی دوام حاصل ہے۔ہر روز وہی زمین وہی آسمان، ساری گردشیں تھمی ہوئیں، سارے موسموں سے بے پرواہ،غیر متحرک،رکے ہوئے،صدائیں بے سوز، سماعتیں غیر مانوس، سب کچھ ایسا کہ کہیں کوئی تلاطم نہیں، نیندیں خوابوں سے عاری، منصوبے، آرزوئیں،تڑپ، تحرک غیر موجود،وہ قافلے جنھیں گزرناتھا گزرگئے اپنے پیچھے دھول اور گرد چھوڑ گئے،اس مقام پر پہنچ کر یوں لگتا ہے جیسے ہم ایک مردہ منظر کا چھوٹا سا جزو ہوں،ایک ایسی سسکی جو سمندر نے ساحل کو بھیجی ہو اور وہ موج کی ٹوٹتی دھڑکن بن کر ریت میں جذب ہو گئی ہو۔

ہر ایک کو اپنی شا م ِزندگی کے آخری لمحے سے دوچار ہونا ہے۔کسی کو نہیں پتہ کہ وہ کب،کہاں اور کیسے اپنی شامِ زندگی کے اس لمحے سے دوچار ہو،کیا وہ لمحہ خوبصورت ہو گا یا بھیانک اور بد صورت،کیا یہ مادی وجود بکھر جائے گا یا پھر ایک اور سفر پر نکل کھڑا ہو گا بقولِ شاعر میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا۔کہ ہے یہ شامِ زندگی صبحِ دوامِ زندگی۔خدا کرے شام زندگی کاوہ لمحہ جب ہماری زندگی میں آئے توہمارے لبوں پر وہ تبسم مچل رہا ہو جو بقولِ اقبال، نشانِ مردِ مومن من با تو گویم۔ مرگ آید ، تبسم بر لبِ او ست۔

The post شامِ زندگی appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 22433 articles
Browse latest View live