Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22750 articles
Browse latest View live

باادب باملاحظہ ہوشیار

$
0
0

’’باادب باملاحظہ ہوشیار‘‘ والے جاہ وجلال کی کہانیاں داستانوں میں ضرور پڑھیں۔ کبھی کبھار اس کا نمونہ تاریخی فلموں میں بھی دیکھنے کو ملا۔ عملی زندگی میں ایسے جاہ وجلال کو کبھی خود اپنی آنکھوں کے سامنے پورے جوبن میں جلوہ نما ہوتے ہوئے مگر بہت کم دیکھا ہے۔ منگل کے دن ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس کو میں اس ضمن میں کبھی رہتی زندگی تک بھول نہیں پائوں گا۔

ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے سرکار دربار سے کسی نہ کسی طرح کا واسطہ ضرور رکھنا پڑتا ہے۔ حکمرانوں کو ہمیں ’’بریف‘‘ وغیرہ کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً مدعو کرنے کی ضرورت آن پڑتی ہے۔ ایوان صدر ہو یا وزیراعظم کا دفتر اور اسی حوالے سے چند دوسرے اہم مگر ’’حساس‘‘ دفاتر، وہاں بلایا جائے تو عمارتوں کا شکوہ، بڑی طویل اور کشادہ راہ داریوں میں جبروتی محسوس ہونے والی خاموشی اور ہمیں خوش آمدید کہنے کے بعد صاحبان تک پہنچانے والے عملے کی مؤدبانہ چال ڈھال ’’باادب با ملاحظہ ہوشیار‘‘ والی فضاء ضرور بنا دیتی ہے۔ مگر جب ’’بریفنگ‘‘کے لیے بیٹھو تو میرے جیسے ’’دوٹکے کے صحافی‘‘ اپنے اُلٹے پلٹے سوالوں سے ماحول کو تقریباً بے تکلف بنا ڈالتے ہیں۔ سوال کرنے کی مہلت اور اجازت ویسے بھی آپ کو مخاطب پر عارضی طور پر ہی سہی تھوڑا بہت بھاری ضرور بنا دیتی ہے۔

بہرحال منگل کے دن 12بج کر 40منٹ ہوچکے تھے۔ قومی اسمبلی میں سید خورشید شاہ کی طولانی تقریر ابھی تک ختم نہیں ہوئی تھی۔ پارلیمانی روایات کے مطابق قائدِ حزب اختلاف کا حق ہوتا ہے کہ وہ جتنی دیر تک چاہے کسی وزیر خزانہ کے پیش کردہ بجٹ کے بارے میں عام بحث کا آغاز کرتے ہوئے جو چاہے بولے۔ اپنے اس حق کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے سکھر سے متعدد بار قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے شاہ صاحب گزشتہ جمعے کے دن وزیر اعظم کی موجودگی میں ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ دیر تک بولتے رہے۔ پھر جمعہ کی اذان ہوگئی۔ شاہ صاحب نے اسپیکر کو مطلع کیا کہ ان کی تقریر ابھی ختم نہیں ہوئی۔ پیر کی شام وہ اپنی تقریر کا آغاز اسی نکتے سے شروع کریں گے جہاں اب ختم کر رہے ہیں۔

اتوار کی رات مگر کراچی کے اس ایئرپورٹ پر جسے وزیرداخلہ ’’پرانا ایئرپورٹ‘‘کہنے پر بضد ہیں ایک ناخوش گوار واقعہ ہوگیا۔ اس کے دوسرے روز تمام اپوزیشن والوں نے حکومت کو قائل کردیا کہ بجٹ گیا بھاڑ میں۔ ’’واقعہ سخت ہے اور جان عزیز‘‘ والا قصہ ہوگیا ہے۔ اب وہ تقاریر کریں گے تو صرف ملک میں خوفزدہ کرنے کی حد تک بگڑتی ہوئی امن وامان کی صورتحال کے بارے میں۔ لہذا تقریر پر تقریر ہوئی مگر جس حالت میں ہم گرفتار ہوچکے ہیں اس سے باہر نکلنے کے راستے کسی نے بتانے اور سمجھانے کی کوشش ہی نہ کی۔ منگل کے دن ہم اسحاق ڈار کے پیش کردہ بجٹ پر خورشید شاہ کی نامکمل ٹھہری تقریر کو مکمل ہوتا دیکھنے کے عذاب سے گزرتے رہے۔

پریس گیلری میں اپنی نشست پر بیٹھے بیٹھے مجھے جمائیاں آنا شروع ہوجائیں تو وہاں سے اُٹھ کر گیلری کے عقب میں بنائے پریس لائونج میں آجاتا ہوں۔ وہاں آرام سے بیٹھنے کو صوفے بچھے ہیں۔ گپ شپ لگانے کو چند صحافی دوست مل جاتے ہیں۔ ایوان میں جو کچھ ہورہا ہوتا ہے وہاں موجود ٹی وی اسکرینوں پر دکھائی اور سنائی بھی دیتا رہتا ہے۔ ان میں سے ایک ٹی وی کو ہم ’’تازہ ترین خبروں‘‘ سے خود کو آگاہ رکھنے کے لیے بغیر آواز کے Onکیے رہتے ہیں۔ خورشید شاہ کی تقریر ابھی جاری تھی کہ ’’بریکنگ نیوز‘‘ آگئی۔ اس کے ذریعے کراچی ایئرپورٹ کے قریب ASFسے متعلقہ کسی عمارت کے دائیں بائیں ایک اور ناخوش گوار واقعہ ہوتا بتایا گیا۔ لائونج میں تھرتھلی مچ گئی۔ ہم چینل پر چینل بدلتے ہوئے اس واقعہ کی تفصیلات جاننے میں مصروف ہوگئے۔

اسی دوران اطلاع آگئی کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان صاحب ایوان میں کھڑے ہوکر تقریر فرمانا شروع ہوگئے ہیں۔ ’’دوٹکے کے صحافیوں‘‘کی طرح میں نے بھی یہ فرض کرلیا کہ وہ اپنی تقریر کا آغاز اس واقعہ سے کریں گے جو پریس لائونج میں موجود ہم سب نے چینل گھماگھما کر تقریباً ہر اسکرین پر بہت پریشانی سے دیکھا تھا۔ ہمارے وزیر داخلہ مگر اس پورے واقعہ سے لاعلم دکھائی دیے۔ اس حوالے سے حیران ہونے کی مگر ہرگز کوئی ضرورت نہ تھی۔ شاید اپنی تقریر کے نکات کی تیاری میں مصروف رہے ہوں گے۔ آدھ گھنٹہ گزرنے کے باوجود بھی لیکن جب وہ منگل کی دوپہر کراچی میں ہونے والے ایک اور ناخوش گوار دِکھنے والے واقعے سے قطعی بے خبر دکھائی دیے تو میرے چند صحافی دوستوں نے پورے اخلاص سے کاغذی چٹوں پر یہ واقعہ لکھ کر چوہدری صاحب کو پہنچانا چاہا۔

قومی اسمبلی کے عملے کا کوئی فرد مگر ان چٹوں کو وزیر داخلہ تک پہنچانے کو تیار نہیں تھا۔ انھیں واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ جب وہ قومی اسمبلی میں اپنی نشست پر بیٹھے ہوں تو انھیں چٹیں وغیرہ بھیج کر ڈسٹرب نہ کیا جائے۔ چوہدری صاحب کے جاہ وجلال کا  احترام کرتے ہوئے بالآخر کچھ دوستوں نے ایسی ہی چٹوں کے ذریعے ان کے دائیں بائیں بیٹھے دو ’’تگڑے وزراء‘‘ زاہد حامد اور خرم دستگیر خان کو کراچی والے تازہ واقعہ کی بابت مطلع کرنا چاہا۔ ان دونوں تک وہ چٹیں پہنچ تو گئیں۔ مگر ان میں سے ایک کو بھی جرأت نہ ہوئی کہ انھیں چوہدری نثار علی خان کی توجہ طلب کرنے کی غرض سے وزیر داخلہ تک پہنچا سکیں۔ ان دونوں کو مگر دوش کیوں دینا۔ چند مہینے پہلے کی بات ہے کہ چوہدری صاحب بڑی گھن گرج کے ساتھ اپنی قومی سلامتی پالیسی پیش کررہے تھے۔

اس تقریر کے دوران ان کے دائیں ہاتھ اپنی مخصوص نشست پر وزیر اعظم بھی براجمان تھے۔ چوہدری صاحب کی تقریر طولانی ہوتی چلی گئی۔ وزیر اعظم کا مگر ہیلی کاپٹر تیار تھا۔ انھیں کسی اہم معاملے کے لیے کسی دوسرے شہر جانا تھا۔ انھیں جانے میں دیر ہورہی تھی۔ چوہدری نثار علی خان کو اپنی تقریر ختم کرنے کے لیے انھوں نے ایک نہیں تین چٹیں لکھیں۔ وزیر داخلہ نے ان میں سے کسی ایک پر بھی توجہ نہ دی۔

اپنی تقریر اسی وقت ختم کی جب انھیں اطمینان ہوگیا کہ انھوں نے وہ سب کچھ کہہ ڈالا ہے جو وہ اس تقریر کے ذریعے کہنا چاہتے تھے۔ ’’باادب باملاحظہ‘‘ والا جاہ وجلال اس کے سوا اور کیا ہے؟ میری خوش بختی یہ بھی ہے کہ میں اس جاہ وجلال کے مظاہرے جمہوریت کے ان موسموں میں دیکھنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں جن کے بارے میں مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ وہ موسم ہوتے ہیں جب ’’خلقِ خدا‘‘ راج کیا کرتی ہے۔ باادب باملاحظہ ہوشیار والے ظل سبحانی نہیں۔


کیا روم یونہی جلتا رہے گا؟

$
0
0

اتوار کی شب کے ہونے والے دہشت گرد حملے  کے اثرات ابھی جاری تھے کہ منگل کو   ASFکے ہیڈکوارٹرپر دوبارہ دہشت گردوں کا حملہ ہوگیا۔بعد میں ایس پی ملیر نے وضاحت کی کہ اے ایس ایف اکیڈمی پر کوئی  حملہ نہیں ہوا تھا، کچھ شر پسندوں اور جرائم پیشہ عناصر نے گڑبڑ کی تھی۔تاہم  اتوار کی شب ہونے والے دہشت گرد حملے میں کراچی ائیرپورٹ کی پرانی عمارت میں قائم ہینگراور وہاںکھڑے جہازوں کو نشانہ بنایاگیا تھا۔ان کے ارادے خطرناک تھے۔شاید وہ ائیر پورٹ پر کھڑے تمام جہازوں کو تباہ کرکے پاکستان کے ہوائی نظام کو تباہ کرنا چاہتے تھے یا پھر کچھ اہم شخصیات کو یرغمال بناکر اپنے مخصوص مطالبات کی تکمیل چاہتے تھے۔

بہر حال 17گھنٹے کی جاں گسل کارروائی کے بعدحکومت 7دہشت گردوں کوہلاک کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ جب کہ 3دہشت گردوں نے خود کو اپنے جسم پر بندھے بموں سے اڑا لیا ۔اگر اس کارروائی کے دوران ہونے والے نقصانات کا جائزہ لیا جائے تو دہشت گردی کے اس واقعے میں30کے قریب سیکیورٹی اہلکار اور ہوائی اڈے پر مصروف کار ملازمین کے علاوہ35کے قریب افراد زخمی ہوئے۔چھ جہازوں کو نقصان پہنچااور ہینگرمکمل طورپر تباہ ہوگیا۔اتنے بڑے نقصان کے بعدصر ف 7 دہشت گردوں کو مارنے پر حکومت کا بغلیں بجانا سمجھ سے بالاتر ہے ۔

حکمرانوں کی ایک اور نااہلی پیرکی شام کو اس وقت سامنے آئی،جب اس نے مکمل جانچ پڑتال کیے بغیر ائیر پورٹ کو کلیر قرار دیدیا، حالانکہ ایک کمپنی کے 7ملازمین نے جان بچانے کے لیے کولڈ اسٹوریج میں پناہ لے رکھی تھی۔ جو22گھنٹے تک مخدوش عمارت میں بند رہنے کے باعث  جاں بحق ہوگئے۔انتظامیہ کی ناکامی اور اس میں استعداد کی کمی کا اندازہ منگل کو ائیر پورٹ سے ملحقہASFاکیڈمی اور ہاسٹل پر شر پسندوں کی فائرنگ سے لگایا جاسکتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری سلامتی کے ادارے مکمل طورپر مفلوج ہوچکے ہیں۔ انھیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ یہ واقعات دہشت گردی نہیں بلکہ دہشت گردوں نے پاکستان کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی کوئی نیا مظہر(Phenomenon)نہیں ہے ۔پاکستانی عوام گزشتہ دو دہائیوںسے اس کا شکار چلے آرہے ہیں۔لیکن سرکاری سطح پر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا گیا ہے کہ عوام کو اس عفریت سے اگربوجہ نجات نہیں دلائی جاسکتی تو کم از کم اس سے ہونے والے نقصانات ہی کوکم کیا جاسکے ۔اس حوالے سے عوام کے ذہنوں میں ان گنت سوالات اٹھ رہے ہیں ۔ مگر نہ حکومت ، نہ اسٹبلشمنٹ اورنہ ہی سیاسی قیادتوںکے پاس ان سوالات کا کوئی جواب ہے۔

عوام کو اس سے غرض نہیں کہ حکومت شدت پسند عناصر سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے یا ان کے خلاف سخت ایکشن لیناچاہتی ہے ۔ انھیں اپنی جان و مال کی حفاظت میں دلچسپی ہے، جومسلسل خطرات میں گھری ہوئی ہے۔ اب تک قائم ہونے والی حکومتیںعوام کو تحفظ فراہم کرنے میںشاید اس لیے ناکام ہیں، کیونکہ ان میں ایسے واقعات سے نمٹنے اور عوام کو تحفظ فراہم کرنے کی استعداد(Capacity) نہیں ہے یا پھر ان میں اتنی اہلیت نہیں ہے کہ وہ ان معاملات کی نزاکت اور سنگینی کا ادراک کرسکیں ۔ لہٰذاان معاملات کا مختلف پہلوئوں سے جائزہ لینا انتہائی ضروری ہوگیا ہے ۔

ہم دیکھتے ہیں کہ2001میں امریکا میں9/11ہوتا ہے ۔اس سانحے کو ان کی سلامتی کی ایجنسیوں کی لااپرواہی،عدم توجہی(Negligence)یا کمزوری  کچھ بھی نام دیا جاسکتاہے۔لیکن اس واقعے کے بعد سے اب تک 13برس کا عرصہ گذرگیا، وہاں اس نوعیت کا کوئی بڑا سانحہ نہیں ہوا۔برطانیہ میں7/7کا واقعہ رونماء ہوا،قیمتی انسانی جانوں کا زیاں اور کروڑوں پونڈ کی املاک کو نقصان پہنچا۔ اس واقعے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے وہاں کی سلامتی کی ایجنسیاں اپنی حکمت عملیوں میں تبدیلی لائیں اور انھوں نے عوام کی جان و مال کی حفاظت کویقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے۔

نتیجتاً وہاں اس سانحے کے بعد کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوسکا ہے ۔ 26 نومبر 2014ء کو ممبئی میں دہشت گردی کا بڑاواقعہ رونماء ہوتا ہے ۔10دہشت گرد کلابہ کے علاقے میں دو بڑے ہوٹلوںکو یرغمال بناتے ہیں تو سیکیورٹی ایجنسیوں میں پائی جانے والی کمزوریاں ضرور سامنے آتی ہیں ۔ لیکن اس کے بعد وہ اپنا تحفظاتی نظام تبدیل کردیتی ہیں۔نتیجتاً  6برسوں کے دوران کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا ۔

اب اس تناظر میں پاکستان پر نظر ڈالی جائے تو ایک جیسی نوعیت کے واقعات تسلسل کے ساتھ کئی برسوں سے رونما ہو رہے ہیں، مگر ہمارے ارباب اختیار حادثہ یا سانحہ رونما ہوجانے کے بعد کوئی مناسب حکمت عملیاں تیار نہیں کرسکے ہیں۔

مہران بیس پر حملہ، GHQپر حملہ، کامرہ ائیر بیس پر حملہ اوراس جیسے ان گنت چھوٹے بڑے حملوں کے واقعات اور اب کراچی کے انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر حملہ ایک طرف ۔جب کہ کراچی سمیت بڑے شہروں میں پبلک مقامات پر بم دھماکے، اغواء برائے تاوان کی وارداتیں اور اسٹریٹ کرائمز کا بڑھتا ہوا رجحان ، سیاسی اورفرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ اور عقیدے کی بنیاد پر مخالفین کی بستیوں پر خود کش حملے وہ واقعات ہیں، جن میں عوام کے جان ومال براہ راست متاثر ہوتے ہیں ۔مگر دس برس سے زائد مدت گذرجانے کے باوجود حکومت اور متعلقہ ادارے ان واقعات کی مناسب روک تھام کے لیے کوئی ٹھوس اور مناسب پالیسی تیار نہیں کرسکے۔اس سے دو باتوں کا اندازہ ہوتا ہے ۔اول، ہمارے منصوبہ ساز منافقت اور دہرے معیار کا شکار ہیں۔دوئم ریاستی اداروں میں استعداد میں کمی ہے یا یہ ایسے معاملات سے نمٹنے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں رکھتے ۔

جدید دنیا میں دہشت گردی اور جرائم کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ ایسے جرائم پر قابو پانے اور ان کی روک تھام کے لیے روایتی بعد ازسانحہ اقدامات سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ، کیونکہ جو نقصان پہنچنا ہوتا ہے وہ پہنچ چکا ہوتا ہے۔بلکہ ایسے واقعات کے رونما ہونے سے قبل روک تھام کے لیے پولیس سمیت سیکیورٹی کے دیگر اداروں کو Proactive  کردارکے لیے تیار کیا جانا ہوتا ہے ۔لیکن پاکستان میں پولیس اور سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کی جدید خطوط پر تربیت کا کوئی انتظام نہیں ہے اور نہ ہی اب تک آنے والی حکومتوں نے اس سلسلے میں کوئی مناسب اقدام کیا ہے۔پھر عرض ہے کہ دہشت گردوں یا جرائم پیشہ افراد سے مذاکرات یا ان کے خلاف کارروائی حکومتی پالیسی کا معاملہ ہے، جس سے عوام کو کوئی سروکار نہیں۔انھیں تحفظ چاہیے، جس کے لیے حکومت کو بہر حال اقدامات کرنا چاہئیں ۔

گزشتہ برس کراچی آپریشن سے قبل وزیر اعظم میاں نواز شریف نے 4ستمبرکو سینئر صحافیوں اور تجزیہ نگاروں سے ملاقات کی تھی۔ اس میٹنگ میں راقم نے  آپریشن کے بارے میں اس لیے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان میں پولیس کا معیار اور استعداد اس سطح پر نہیں کہ وہ حساس نوعیت کے جرائم پر قابو پا سکے ۔ جب تک پولیس کوغیر سیاسیDepoliticiseنہیں کیا جاتا اور سپاہی سے نان کمیشنڈ افسران تک کی تقرریاں متعلقہ ضلع کے افراد میں سے میرٹ کی بنیاد پرنہیں کی جاتیں ، پولیس سےProactive اقدامات کی توقع کرنا عبث ہے۔

راقم نے دوسرا اعتراض رینجرز کو پولیس کے اختیارات تفویض کیے جانے پر اٹھایا تھا ۔ راقم کے خیال میں جرائم پر قابو پانا بنیادی طور پر پولیس کی ذمے داری ہوتی ہے  جب کہ دیگر سیکیورٹی ادارے اس کی مدد کرتے ہیں، لیکن اس کی ذمے داریاں انھیں تفویض کرنے یا حصے داربنانے سے مختلف نوعیت کی پیچیدگیاں پیدا ہونے کا احتمال رہتا ہے ۔

پھر عرض ہے کہ حکومت،اسٹبلشمنٹ اور سیاسی قیادتیں گومگو کی کیفیت سے باہر نکلیں اور ملک کو دہشت گردی کی شکل میں درپیش عفریت کی شدت کا اندازہ لگانے کی کوشش کریں ۔ انھیں دو کلیدی فیصلے جلد یا بدیر بہرحال کرنا پڑیں گے ۔ اول ، یہ طے کرنا ہوگا کہ پاکستان کے وجود اور اس کے آئین کو تسلیم نہ کرنے والوں اور پاکستان کے عوام اور حساس تنصیبات کو نشانہ بنانے والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جانا چاہیے۔ آیا مذاکرات کرنا ہیں یا سخت ایکشن لینا ہے؟

دوئم ، عوام کو ہر قسم کے جرائم اور دہشت گردی سے محفوظ کرنے کے لیے پولیس سمیت سیکیورٹی کے دیگر اداروں کی جدید خطوط پر تربیت اور انھیں حساس اسلحہ اور ضروری سازوسامان سے لیس کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پرترجیحی اقدامات کی ضرورت کا ادراک ۔اول الذکر معاملہ قومی سلامتی سے متعلق حساس اور نازک مسئلہ ہے جس کی حکمت عملی حکومت اور فوج نے تیار کرنا ہے ۔ لیکن پولیس سمیت سیکیورٹی کے دیگر اداروں کوProactive اقدامات کے لیے تیار کرنے کی خاطر ان کی تربیت کا اہتمام اورانھیں جدید اسلحہ اور دیگر سازوسامان کی فراہمی صوبائی حکومتوں کے دائرہ کار میں آتا ہے ، جس کے لیے وفاقی حکومت سے تعاون بہر حال مانگا جاسکتا ہے ۔

ہم سمجھتے ہیں کہ صوبائی حکومتیں روایتی سوچ کے سحر سے باہر نکلیں اور پولیس کے محکمے میں تطہیر اور اس کی میرٹ پر تشکیل نوکو یقینی بنانے کی کوشش کریں تاکہ عوام کو تحفظ فراہم ہو سکے ۔ اس مقصد کے لیے پولیس سمیت سیکیورٹی اداروں میںکی جانے والی تقرریوں کو شفاف بنانا ہوگا اور انھیں مختلف بدعنوانیوں سے پاک کرنے کے اقدامات کرنا ہوں گے ۔ایسا نہ ہو کہ ملک کا ہر شہر دہشت گردی کی آگ میں جلتا رہے اور حکمران نیرو کی طرح بانسری بجاتے رہیں ۔اس لیے اب دہشت گردوں کے خلاف سخت آپریشن اور اندرونِ ملک عوام کو تحفظ فراہم کرنے کی فعال حکمت مرتب کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ باقی نہیں بچا ہے ۔

قصہ ایک سڑسٹھ سالہ نوجوان مریض کا

$
0
0

پچھلے دنوں مملکت ناپرسان کے صوبہ ’’خیر پہ خیر‘‘ میں جو المناک اندوہناک اور افسوس ناک حادثہ ہوا اس پر تقریباً ساری مملکت کی ’’ناکیں‘‘ اشک بار ہو گئیں، آنکھوں کے بجائے ناک کا اشک بار ہونا مملکت ناپرسان کی اسپیشلٹی ہے۔

اگر آپ نے بھارتی فلم ’’ویلکم ٹو سجن پور‘‘ دیکھی ہو تو اس میں ایک عورت اپنی پوتی کی شادی پر ہر وقت ناک بہاتی ہوئی دکھائی گئی ہے، وہ عورت دراصل ’’ناپرسانی‘‘ تھی اور سجن پور میں بیاہ کر آئی تھی، اسے جب بھی رونا آتا تھا آنسو اس کی ناک سے بہنے لگتے، اس لیے مملکت ناپرسان میں ہر واقعہ کسی نہ کسی کی ’’ناک‘‘ ہوتا ہے الم ناک، افسوس ناک، اندوہ ناک، شرم ناک، خوف ناک یا خطرناک … یہ آخری تین قسم کی ’’ناکیں‘‘ یعنی شرمناک خوفناک اور خطرناک لیڈروں کی ہوتی ہیں، جس ناک واقعے کا ذکر ہم کر رہے ہیں یہ ایک ایسے نوجوان کے ساتھ پیش آیا جو تیرہ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا ایک شادی پچھلے ہفتے ہوئی تھی دوسری چار دن پہلے اور تیسری کل ہونے والی تھی، بے چارے کے آٹھ دس چھوٹے چھوٹے ماں باپ تھے اور دو بوڑھے والدین بھی تھے، جو اب اس کی چار بیویوں کے رحم و کرم پر رہ گئے ہیں اس نوخیز نوجوان کی عمر ابھی صرف اسی سال کی تھی اسی لیے اس کی قبر پر لکھا گیا تھا کہ

پھول تو دو دن بہار جانفزا دکھلا گئے

حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے

یہ غنچہ جو بن کھلے مرجھا  گئے ’’کرپشن‘‘ نامی خطرناک نشے کی لت میں گرفتار تھا جب تک اسے نشہ ملتا رہا زندہ رہا اور کبھی بھی شرمندہ نہیں رہا، لیکن بدقسمتی سے مملکت کے صوبہ خیر پہ خیر میں ایک ایسی حکومت برسراقتدار آ گئی جس کی کرپشن کے ساتھ بہت پرانی اور خاندانی دشمنی تھی اس نے کرپشن پر جو بے پناہ حملہ کیا تو کرپشن کے سارے لاؤ لشکروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، کشتوں کے پشتے لگ گئے اور ہر شہر ہر محکمے اور ہر دفتر میں قلعہ مینار بنا دیے گئے، ویسے تو کرپشن کی مکمل بے بیخ کنی کی گئی … لیکن … جب حکومت نے للکارا مارا تو کرپشن بے چارہ درد کا مارا اچانک فرار … یعنی اس نے دو اپنے پاؤں کیے دو کسی سے کرائے پر لیے اور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی

د یزید چرتہ معلومہ نہ شوہ پتہ

ڈیرتکل ورپسے اوشو پورت خکتہ

یعنی اس کا کوئی پتہ نہیں چلا حالانکہ بہت تلاش کی گئی اس کی اوپر نیچے آگے پیچھے، دراصل اگرچہ کرپشن کے پاس بھی بہت بڑے بڑے پہلوان اور جنگ جو تھے لیکن حکومت کے پاس جو منتخب سورما لڑاکا واریئر اور یُدھا اس مرتبہ آئے تھے وہ کرپشن کے جدی پشتی دشمنی تھے کیا وزیر کیا مشیر کیا معاون کیا سیکریٹری ہر ایک ’’عالم میں انتخاب‘‘ تھا یعنی

کافر ہو تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ

مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

صرف اپنی کیٹرنگ یعنی چمچوں کانٹوں اور چھریوں کو لے کر کرپشن پر ایسا ہلہ بول دیا ایسا بول دیا کہ خود ’’ہلہ‘‘ بھی ہکا بکا رہ گیا اور لوگوں کے منہ سے بے اختیار داد و تحسین کے ڈونگرے بلند ہو گئے کہ مونچھیں ہوں تو نٹور لال جیسی ہوں ورنہ نہ ہوں

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

قصہ مختصر کہ کرپشن کا نام و نشان بھی نہیں رہا لیکن اس کی داستان تک بھی نہیں رہی داستانوں … صرف ’’بیانوں‘‘ میں اس کا ذکر ہی باقی رہ گیا

لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا کچھ خاص قسم کے کرپشن کے نشئی متاثر ہونے لگے باقی تو کسی نہ کسی طرح گزارہ کرتے رہے لیکن جس نو خیز اسی سالہ نوجوان کا ذکر ہم کر رہے ہیں اس کی جان پر بن آئی ایک دن اچانک لم لیٹ ہو گیا … پس ماندگان نے چن چن کر ڈاکٹر، حکیم، طبیب، معالج حتیٰ کہ لقمان زمانہ تک بلوا لیے، سب نے اس کا معائنہ کیا جوتوں سے سارے جسم کی پیمائش کی گئی، کوڑوں سے ٹیسٹ کیے گئے، تھپڑوں لاتوں اور کھونسوں سے جانچ پڑتال کی گئی اور سارے معالج ان نتائج کو لے کر ایک کمرے میں بند ہو گئے آپس میں سر جوڑ کر بیٹھ گئے جب سب کے سروں کی جوئیں چھاؤنیاں بدل کر سیٹ ہو گئیں تو ایک جائنٹ کمیونکے جاری کیا گیا کہ اس مریض کا واحد علاج کرپشن صرف کرپشن اور کرپشن ہے، جب تک ’’کرپشن‘‘ اسے پلائی کھلائی اور نگلائی نہیں جائے گی اس کا مرض بڑھتا ہی رہے گا جو آخر کار مرض الموت میں تبدیل ہو جائے گا۔

لواحقین نے اعلان باانعام کیا کہ جو کوئی مطلوبہ دوا یعنی کرپشن لا کر دے گا اسے ایک خطیر رقم بطور انعام دی جائے گی، جو لیٹے تھے وہ اٹھ گئے جو بیٹھے تھے وہ اٹھ کھڑے ہوئے جو کھڑے تھے وہ چل پڑے اور جو چل رہے تھے وہ دوڑ پڑے تا کہ پڑوسی ملکوں اور صوبوں سے کرپشن ’’اسمگل‘‘ کر کے انعام حاصل کریں لیکن افسوس کہ کامیابی کسی کو بھی نہ ملی، مریض کے حلق میں گھنگھرو بولنے لگا اور وہ گھنگھروں کے ساز پر گنگنانے لگا

شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی

کہ مقدور بھر تو دوا کر چلے

دراصل صوبہ ’’خیر پہ خیر‘‘ کی حکومت نے سرحدوں کو مکمل طور پر سیل کیا ہوا تھا اس کے پاس جو منتخب روزگار قسم کے ’’کرپشن شناس‘‘ تھے ان کو سرحدوں پر تعینات کیا گیا تھا جن کی آنکھوں میں کانوں میں ناک میں ہر ہر جگہ کرپشن ڈیڈیکٹر لگے ہوئے تھے بلکہ کئیوں کی ناک میں تو اعلیٰ پائے کے سراغرساں کتوں کی ناکیں بھی فٹ کی گئی تھیں چنانچہ اگر کسی کے پاس رائی کے دانے جتنی کرپشن بھی ہوتی تو سارے آلات پیں پیں کر کے اس کی طرف اشارہ کرنے لگتے اور وہ اسی وقت ’’مال‘‘ برآمد کر کے اپنے قبضے میں لے لیتے، ادھر بے چارے نوخیز نوجوان اسی سالہ مریض کی حالت دم بہ دم بگڑتی رہی

مریض عشق پر رحمت خدا کی

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

اس کا مطلب یہ نہیں کہ معالجین و ماہرین اس وقت تک خالی ہاتھ بیٹھے رہے، دوائے کرپشن کا انتظار بھی کرتے رہے لیکن ساتھ ہی اپنی تدابیر بھی آزماتے رہے تا کہ کسی طرح 67 سالہ نوجوان مریض کو ’’دوائے کرپشن‘‘ آنے تک زندہ رکھا جا سکے، ایک بوڑھے سال خوردہ حکیم نے اس کی نبض اور قارورہ وغیرہ چیک کر کے اپنا ہلتا ہوا سر مزید ہلا کر کہا

تاتریاق از عراق آوردہ شود

مارگزیدہ بچارہ مردہ شود

کیونکہ اس وقت دوائے کرپشن کا سب سے بڑا مرکز عراق ہوا کرتا تھا لیکن افسوس صد افسوس کہ عراق سے دوائے کرپشن اسمگل کر کے لانے والے بھی پکڑے گئے اور ’’تریاق‘‘ کو منتخب اہل کاروں نے ضبط کر لیا اور یہ تو بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ عراق کو مختصر طور پر آئی ایم ایف بھی کہتے ہیں بہرحال وہی ہوا جس کا ڈر تھا ، 67 سالہ نوخیز و نوجوان مریض اپنے پیچھے سارے لواحقین کو بلکتا ہوا چھوڑ کر راہی ملک عدم ہوا

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا

لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی یہ تو ابتدا تھی کیونکہ اس کی وفات حسرت آیات کے ساتھ ہی اس خطرناک مرض نے دوسرے مریضوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا، آخر کار حکومت کو جھکنا پڑا لیکن ساتھ ہی چونکہ باتدبیر بھی تھی اس لیے کرپشن کو درآمد کرنے اور صحیح طریقے سے تقسیم کرنے اور صرف مستحق مریضوں کو پہنچانے کے لیے مخصوص منتخب اور اچھی ’’ساکھ‘‘ رکھنے والوں کو لائسنس ایشو کیے گئے جو نہایت ایمان داری اور انصاف کے ساتھ اسے صرف مستحق مریضوں ہی کو دیتے ہیں۔

مولانا عبدالسلام نیازی، آفتاب علم و عرفان

$
0
0

اجمیر میں حکیم نصیر میاں کا مطب کیا تھا علم اور ادب کا مرکز تھا۔ شاعروں، ادیبوں اور علما و فضلا کا مجمع لگا رہتا تھا۔ نصراللہ خاں کی حکیم نصیر سے دوستی تھی۔ ایک دن انھوں نے دیکھا مطب میں ایک صاحب گرج رہے ہیں۔ کبھی آیات قرآنی پڑھتے ہیں کبھی حدیث کا عربی متن میں حوالہ دیتے ہیں، کبھی ذکریا رازی اور امام غزالی کے اقوال سند میں پیش کرتے ہیں۔ انھوں نے حکیم صاحب سے پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ حکیم نصیر میاں نے کہا ’’ارے تم نہیں جانتے؟ یہ مولانا عبدالسلام نیازی ہیں۔ سارے ہندوستان میں ان کے علم کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے۔ بڑے بڑے عالم ان کا لوہا مانتے ہیں۔ یہ علم کے سمندر کے شناور ہی نہیں، ان کا شمار تو اہل اللہ میں ہوتا ہے۔‘‘

نصراللہ خاں اپنی خاکوں کی کتاب ’’کیا قافلہ جاتا ہے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جب مولانا عبدالسلام نیازی سے جو دہلی سے اجمیر آتے جاتے رہتے تھے میری زیادہ ملاقاتیں ہوئی تو میں نے انھیں شرع کا پابند پایا۔ وہ عابد شب زندہ دار تھے لیکن انھوں نے اپنے اردگرد ایسی دیواریں اٹھا لی تھیں کہ کوئی آسانی سے ان کے قریب نہیں آ سکتا تھا۔ اس نے ان کی شخصیت کے گرد پراسراریت کا ایک ہالہ سا بنا دیا تھا۔

اب راشد اشرف نے مولانا عبدالسلام نیازی کے بارے میں لکھے گئے خاکے اور مضامین جمع کر کے ان دیواروں کے اندر جھانک کر مولانا کی شخصیت کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی مرتب کردہ کتاب ’’مولانا عبدالسلام نیازی۔ آفتاب علم و عرفان‘‘ میں بیس سے زیادہ خاکے اور مضامین ہیں جن کے مطالعے سے مولانا کی شخصیت کچھ یہ نظر آتی ہے کہ وہ ’’اپنے وقت کے اکابر اہل علم میں سے تھے اور بعض اعتبارات سے تو پورے ملک میں ان کا جواب نہ تھا۔ خصوصیت کے ساتھ ان کی قوت تقریر اور پھر اس میں لذت تقریر ایسی بے نظیر تھی کہ جس مسئلے پر بھی کلام فرماتے اس میں مزید کلام کی گنجائش نہ چھوڑتے تھے۔ ان کی خوش گفتاری کے باعث گھنٹوں ان کی تقریر سن کر بھی طبیعت سیر نہ ہوتی تھی۔ علوم قدیم میں سے کوئی علم ایسا نہ تھا جس میں ان کو کمال حاصل نہ ہو۔‘‘

مولانا ابو الاعلیٰ مودودی جنھوں نے مولانا عبدالسلام سے اکتساب علم کیا تھا لکھتے ہیں ’’ان کا مزاج قلندرانہ تھا۔ بے نیاز طبیعت کے مالک تھے، کسی سے کچھ غرض نہیں رکھتے تھے۔ خلوص اور محبت کے ساتھ ملنے والوں سے ان کا برتاؤ نہایت مشفقانہ ہوتا تھا اور وہ ان کی ناز برداری تک کر لیتے تھے لیکن کسی کی اکڑ وہ برداشت نہ کر سکتے تھے۔ بڑائی کا زعم رکھنے والوں کے ساتھ ان کا برتاؤ کچھ اور ہوتا۔ اپنے قلندرانہ مزاج کی وجہ سے بظاہر وہ لوگوں کو آزاد منش نظر آتے تھے لیکن ان کے اندر گہری دینداری پائی جاتی تھی۔

اپنی روحانیت کی نمائش سے انھیں اس قدر نفرت تھی کہ اس پر انھوں نے اپنی آزاد منشی کا پردہ ڈال لیا تھا۔‘‘ مولانا مودودی نے مولانا عبدالسلام نیازی کی جس آزاد منشی کا ذکر کیا ہے اس کے بارے میں طرح طرح کے واقعات مشہور ہیں۔ کچھ سچے اور کچھ جھوٹے۔ اپنی بڑائی کا زعم رکھنے والے لوگوں کے ساتھ ان کے رویہ کا بہت ذکر ہوا ہے اس میں کچھ واقعات محض زیب داستان ہیں۔ جوش کو اپنی بڑائی دکھانے کا بڑا شوق تھا۔ ان سے مولانا کی جو چوٹیں ہوئی ہیں۔ ان کا بھی ذکر ہوا ہے۔ غنی دہلوی کا بیان ہے ایک دن جوش مولانا عبدالسلام سے ملنے گئے۔ دروازے پر دستک دی۔ مولانا نے اندر سے پوچھا ’’کون؟‘‘ جوش نے جواب دیا ’’ میں۔‘‘

مولانا نے کہا یہاں صرف ایک ’’میں‘‘ ہے دوسرے ’’میں‘‘ کی گنجائش نہیں۔ پھر جوش نے اپنا نام لیا ’’جوش۔‘‘ اندر سے جواب آیا یہاں جوش کی ضرورت نہیں، ہوش چاہیے۔ جوش سے متعلق ایک واقعہ مسعود حسن شہاب نے بھی لکھا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ جوش اپنے ایک ہندو دوست کے ساتھ تشریف لائے۔ ہندو دوست نے بہ طور تعارف جب مولانا سے کہا کہ یہ جوش ہیں تو مولانا آگ بگولہ ہو گئے اور بڑے زور زور سے کئی بار لاحول پڑھی اور پھر کہنے لگے۔ ’’خدا کی قسم اگر مجھے پہلے معلوم ہو جاتا کہ تم جوش ہو تو میں نورو سے کہتا کہ اس کو کان سے پکڑ کر ترکمان دروازے سے باہر چھوڑ آئے۔‘‘ نورو مولانا کا ملازم تھا جو اس وقت وہاں موجود تھا۔

مولانا عبدالسلام نیازی اپنی نجی زندگی کے بارے میں کبھی گفتگو نہیں کرتے تھے۔ خلیق انجم لکھتے ہیں ’’کوئی نہیں جانتا کہ مولانا کہاں کے رہنے والے تھے۔ اس سلسلے میں ان کی قریبی دوستوں کے مختلف بیانات ہیں۔ یہ بھی ایک راز ہے کہ مولانا کس خاندان سے تھے۔ ان کے والد کون تھے، ان کا کیا نام تھا۔ مولانا کی آمدنی کا ذریعہ بھی بہت پراسرار تھا۔ بظاہر ان کی آمدنی اس عطر سے ہوتی تھی جو وہ اپنے معتقدوں کے ہاتھ فروخت کرتے تھے۔ بقول شہاب اس عطر کی شیشی کئی سو روپیہ کی ہوتی تھی اور اسی سے ان کا گزارا ہوتا تھا۔ تاہم عوام و خواص میں مشہور یہ تھا کہ انھیں عطائے دست غیب ہے۔ وہ خوش لباس اور خوش خوراک تھے۔ عمدہ صاف ستھرے کپڑے پہنتے تھے اور اچھی غذا کھاتے تھے۔‘‘

مولانا عبدالسلام نیازی جس طرح اپنے نسب کا حال اپنے ساتھ لے گئے اسی طرح ان کی ابتدائی تعلیم اور کسب کمال کی تفصیلات بھی ایک راز ہیں۔ مسعود حسن شہاب کہتے ہیں کہ صرف اتنا معلوم ہے کہ ان کا علمائے فرنگی محل کے سلسلہ درس سے تعلق تھا۔ مولانا کو تصوف اور اسلامی فلسفے پر غیرمعمولی قدرت حاصل تھی۔ ان کا پسندیدہ موضوع وحدت الوجود تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ دنیا کے ہر علم سے اسے ثابت کر سکتے ہیں یہاں تک کہ ریاضی سے بھی اس کی حقیقت واضح ہو سکتی ہے۔

مسعود حسن شہاب لکھتے ہیں ’’ان کی صورت دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ان کا علم و فن سے ایسا تعلق ہو گا۔ داڑھی مونچھ صاف، پرکشش ناک نقشہ، بھاری بھرکم جسم، سفید براق کپڑے پہن کر جب وہ گھر سے نکلتے تھے تو لوگ دیکھتے رہ جاتے۔‘‘ مولانا عبدالسلام نیازی نے شادی بھی کی تھی لیکن کچھ دنوں میں ہی بیوی کو طلاق دے دی۔ انھوں نے ایک تیلی کی لڑکی کو بیٹی بنایا ہوا تھا۔ اسے وہ اپنی سگی بیٹی کی طرح سمجھتے تھے۔ اس کی شادی بھی انھوں نے کی اور اس کی اولاد کو بھی اپنے بچوں کی طرح سمجھا۔

راشد اشرف کی کتاب میں ایک مضمون سید مقصود زاہدی کا ہے۔ انھوں نے مولانا عبدالسلام نیازی کی جو تصویر کھینچی ہے وہ مولانا کی پراسرار شخصیت کو اجاگر کرتی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ یہ ان کی شخصیت کا دوسرا رخ دکھاتی ہے۔ جو لوگ مولانا نیازی کو جانتے تھے انھوں نے سنی سنائی باتوں پر تو دھیان نہیں دیا لیکن مولانا کی بعض ایسی باتوں کو بھی بیان کیا ہے جو بظاہر ان کی علمی اور صوفیانہ زندگی سے میل نہیں کھاتیں۔ مثال کے طور پر ’’مولانا دہلی کی طوائفوں کی نفسیات کے ماہر تھے۔‘‘ رزی جے پوری ان کی ایک محفل کا تذکرہ کرتے ہوئے جس میں قوالوں کی بجائے دس بارہ طوائفیں ہی تھیں لکھتے ہیں ’’ان میں ایک رفیقن نامی طوائف بھی تھی۔ غالباً انیس بیس سال کی ہوگی۔

گورا چٹا رنگ، قبول صورت، ناک نقشے سے نک سک۔ مولوی عبدالسلام صاحب کی نظر جیسے ہی اس پر پڑی، کڑک دار آواز میں جل جلالہ فرمایا اور فوراً اپنے پاس بلا کر بٹھا لیا۔ نام پوچھنے پر جب اس نے رفیقن بتایا تو مولانا نے ببانگ بلند فرمایا ’’ہوالرفیق الاعلیٰ‘‘ انھوں نے ایک اور محفل کا جس میں رفیقن کا نگراں اور اس کی نانی بھی رفیقن کے ساتھ آئی تھی، حال یوں لکھا ہے۔ ’’رفیقن کا نگراں اپنی جگہ سے اٹھا اور مولانا کی دست بوسی کی۔ پھر رفیقن کی نانی نے دست بوسی کی اور رفیقن کی گردن پکڑ کر اس کا سر مولانا کے قدموں پر جھکا دیا۔ اس پر مولانا نے جل جلالہ کا نعرہ لگایا۔‘‘ اسی محفل میں پھر یہ ہوا کہ مولانا رفیقن کو اپنے ہاتھوں سے چائے پلانے لگے۔

اس قسم کے کچھ واقعات کچھ دوسرے مضامین میں بھی نظر آتے ہیں لیکن ان کی نوعیت ایسی ہے کہ مولانا ان سے بہت دور کھڑے نظر آتے ہیں۔ مولانا اپنے مقام سے واقف تھے۔ یہ سچ ہے کہ غصے میں آتے تو زبان قابو میں نہ رہتی۔ جلال کے عالم میں بہت کچھ کہہ جاتے۔ نہ کسی کے علم کے رعب میں آتے، نہ دولت اور عہدے کو خاطر میں لاتے۔ وہ ان سب باتوں سے بے نیاز تھے۔ کبریائی صرف اللہ کی ہے اور کسی کی نہیں۔ مولانا کو اپنی وسعت علمی کا خوب اندازہ تھا اور اسی کے حوالے سے ان کی پہچان تھی۔ وہ رزی جے پور سے فرماتے تھے کہ جب تم کسی سے میرا تذکرہ کرو، جس کو تم اپنی زبان میں تعارف کرانا کہتے ہو تو صرف یہ کہنا کہ ہم دلی کے ایک پڑھے لکھے شخص کو جانتے ہیں جس کا نام عبدالسلام ہے۔‘‘

مہنگائی روکنے میں سب ہی ناکام

$
0
0

وفاقی بجٹ آ چکا جس پر قومی اسمبلی میں بحث جاری ہے اور صوبائی حکومتوں کے بجٹ کے بعد بھی اسمبلیوں میں بجٹ کی حمایت و مخالفت کا سلسلہ جاری رہے گا اور ہو گا وہی جو حکومتیں چاہیں گی۔ عوام کو تو اب حکومتوں کے نمائشی بجٹوں سے کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی ہے کیونکہ پہلے سال میں بجٹ پیش ہونے کے بعد پٹرول، سگریٹوں و دیگر اشیا کی قیمتیں بڑھا کرتی تھیں مگر اب سالانہ بجٹ حکومتوں کی طرف سے پیش ہونے سالانہ رسم بن چکی ہے۔

اب بجٹ دستاویزات ہر سال بھاری سے بھاری ہو کر ارکان اسمبلی کے لیے بھی مسئلہ بن چکی ہیں جنھیں پڑھنے کی ارکان کو فرصت ہے نہ بجٹ سے دلچسپی باقی رہی ہے۔ یہی سلسلہ جاری رہا تو ارکان کی اکثریت بھاری ہونے کی وجہ سے بجٹ دستاویزات اسمبلی ہی میں دیکھ کر وہیں چھوڑ جایا کریں گے کیونکہ ایوان میں اپنے ملازمین اور ڈرائیوروں کو بلانا ممکن نہیں ہو گا اور خود ارکان یہ سالانہ بوجھ اٹھا نہیں سکیں گے۔ چند دلچسپی رکھنے والے ارکان ہی مخالفت کے نکات ڈھونڈنے کے لیے یہ بوجھ اٹھا لیا کریں گے کیونکہ ارکان بھی جان گئے ہیں کہ بجٹ کا بھاری بوجھ تو عوام نے ہی اٹھانا ہے۔

ہمیشہ کی طرح حکومت کے حامی بجٹ کی تعریفیں کریں گے اور مخالفین بجٹ کی مخالفت میں حکومت پر تنقید اور بجٹ کو عوام دشمن قرار دے کر اپنی سیاست چمکا لیں گے اور ہمیشہ کی طرح حکومتیں اپنی مرضی کا بجٹ ایوان سے منظور کرانے میں کامیاب رہیں گی اور اپنے حامیوں کی طرف سے مبارکبادیں وصول کریں گی اور اسمبلیوں کے بجٹ اجلاس کروڑوں روپے کے الاؤنسز ارکان کو دینے کا ذریعہ بن جائیں گے۔ بجٹ کے موقعے پر حکومتیں اپوزیشن کی مثبت تجاویز بھی مشکل سے قبول کرتی ہیں اور اب تو یہ سلسلہ چل نکلا ہے کہ ایوانوں میں بجٹ پیش ہوئے اور بحث و مباحثے اور منظوری سے قبل ہی نئے ٹیکسوں کا نفاذ اور پرانوں میں اضافے پر عمل شروع ہو جاتا ہے کیونکہ حکومتوں نے کرنا وہی ہوتا ہے جس کا فیصلہ کر چکی ہوتی ہیں اس لیے بجٹ تماشا بن چکے ہیں۔

پہلے مہنگائی کا تعلق سالانہ بجٹ سے ہوا کرتا تھا مگر اب مہنگائی بجٹ کا انتظار نہیں کرتی بلکہ ہر ماہ پٹرول کے سرکاری نرخوں کا انتظار کرتی ہے جنھیں ہمیشہ بڑھنا ہی ہوتا ہے وہ بھی روپوں کی شکل میں جب کہ کبھی کبھی حکومت عوام کے ساتھ مذاق کر کے پیسوں کی صورت میں پٹرولیم کے نرخ کم کرتی ہے جس کا عوام کو تو نہیں پمپ مالکان کو ہی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ کئی سالوں سے حکومت نے عوام کو بے وقوف بنا رکھا ہے کہ ہر ماہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں تبدیلی روپے اور پیسے میں کی جاتی ہے جب کہ ملک بھر سے پچیس اور پچاس پیسوں کے سکے متروک ہو چکے ہیں جو کہیں بازاروں میں تو نظر ہی نہیں آتے مگر حکومت کے پاس پٹرولیم مصنوعات کم زیادہ کرتے وقت موجود ملتے ہیں۔

مارکیٹ میں بعض اشیا کے نرخ بھی ایسے مقرر کیے جاتے ہیں جن کا نقصان بھی عوام کو ہوتا ہے۔ دودھ، دہی کا نرخ اگر دو میں تقسیم نہ ہونے والا ہو تو بھی نقصان عوام کا ہے۔ اگر کوئی چیز 25-45-75 روپے کلو مقرر ہو تو آدھے کلو کے لیے لوگوں کو ہمیشہ 13-23-37 روپے ہی ادا کرنا ہوتے ہیں۔ حکومت نے اگرچہ سرکاری طور پر پیسوں کے خاتمے کا اعلان نہیں کیا مگر عملی طور پر پیسوں میں لین دین ختم ہو چکا ہے کبھی پیسوں کی اہمیت ہوا کرتی تھی مگر اب ایک دو روپے کے سکوں کی بھی اہمیت نہیں رہی جنھیں اب فقیر بھی لینا پسند نہیں کرتا اور کم سے کم 5 روپے کے سکے کو ہی کم سے کم خیرات بطور احسان قبول کرتا ہے۔

گزشتہ کئی سالوں سے ناجائز منافع خوروں نے رمضان سے ایک دو ماہ قبل ہی نرخ بڑھا دینے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ ہر ضلع کا ڈپٹی کمشنر دکھاوے کے لیے نام نہاد پرائس کمیٹی کا اجلاس رمضان المبارک سے قبل طلب کرتا ہے جس میں مارکیٹ کمیٹی اور پرائس کنٹرول کمیٹی کے نمایندوں کے ساتھ تجارتی تنظیموں کے عہدیداروں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ جس میں ہمیشہ غیر حقیقی نرخ مقرر کیے جاتے ہیں۔ اکثر نرخ مارکیٹ میں چلنے والے نرخوں سے زائد ہوتے ہیں۔ ایک نمبر دو نمبر اور تین نمبر اشیا قرار دے کر ان کے مختلف نرخ مقرر کیے جاتے ہیں۔ سرکاری نرخ اکثر غیر حقیقی ہونے کے باعث خود ساختہ مہنگائی کا باعث بنتے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کبھی مارکیٹوں میں جاتے ہیں نہ انھیں آٹے، دال، چاول، گھی، دودھ، پھلوں اور سبزیوں کے نرخ معلوم ہوتے ہیں۔ اسسٹنٹ کمشنر اور مختار کار کبھی کبھی مارکیٹوں میں جاتے ہیں اور ان کی رپورٹوں پر ضلعی انتظامیہ سرکاری نرخ مقرر کرتی ہے جن کا فائدہ عوام کو برائے نام ہی ملتا ہے اور وہ بھی سرکاری افسروں کے میڈیا کے ساتھ چھاپوں پر۔ چھاپے کے وقت ریٹ لسٹ بھی آویزاں ہو جاتی ہے مگر ایک کی بجائے دو نمبر مال سرکاری نرخ پر فروخت ہونے لگتا ہے اور ایسا نہ کرنے والوں پر جرمانے کر کے سرکاری خزانے میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ چھاپہ مارنے والوں کے جانے کے بعد ریٹ لسٹ غائب اور اشیا من مانے نرخوں پر فروخت ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

اٹھارہویں ترمیم کے بعد مہنگائی کنٹرول کرنے کی ذمے داری اور اختیارات اب صوبائی حکومتوں کے پاس ہیں جن کے پاس ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر، تحصیل دار اور مختار کار اور مجسٹریٹی نظام ہے اور یہ نظام مہنگائی کنٹرول کرنے میں میں ہمیشہ ناکام رہا ہے۔ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کبھی اپنے ہی مقرر کردہ نرخوں خصوصاً دودھ کے نرخوں پر ہی عمل نہیں کرا پائے تو وہ کیا خاک مہنگائی پر کنٹرول کر سکیں گے، ان ڈپٹی کمشنروں سے تو بہتر جنرل پرویز کا ضلعی نظام تھا جن کے ناظمین کا عوام اور تجارتی حلقوں سے قریبی تعلق ہوتا تھا اور وہ مجسٹریسی اختیار نہ رکھنے کے باوجود مارکیٹوں اور بازاروں میں جا کر مہنگائی پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

ہر صوبے کا وزیر اعلیٰ مہنگائی پر قابو پانے کے دعوے تو کر سکتا ہے مگر عملی طور پر وہ کمشنری نظام میں بے بس ہے۔ رمضان سے قبل صوبائی حکومتوں کی طرف سے بیانات ضرور جاری ہوتے ہیں۔ سرکاری افسر گراں فروشوں کو دکھاوے ہی دھمکیاں دیں گے مگر ہو گا کچھ نہیں۔ صوبائی حکومتوں کو اب دکھاوے کی بجائے عملی طور پر کچھ کر کے دکھانا ہو گا وگرنہ عوام گراں فروشوں کے ہاتھوں لٹتے رہیں گے اور با اختیار صوبائی حکومتیں ناکام رہیں گی۔

رویے زار زار کیوں؟

$
0
0

شاعر نے غلط نہیں کہا تھا کہ

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

پیرکی صبح کراچی ایئرپورٹ پہ دہشت گردوں کے حملے کی خبر سے ہوئی کہ ہم دیر رات گئے جاگنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ نہ ہی سارا دن ٹیلی ویژن دیکھنے کی فرصت ہے نہ عادت ۔ ایکسپریس کی ہیڈلائن پڑھتے ہی ٹی وی کھولا تو دیکھا ایک اور ماتم اس شہر کا مقدر بن چکا ہے۔دھواں، آگ، لاشیں، کولڈ اسٹوریج میں پھنسے ہوئے نجی کمپنی کے 7  ملازمین جو دہشت گرد حملہ آوروں سے بچنے کے لیے پناہ ڈھونڈتے ہوئے کولڈ اسٹوریج میں بند ہوگئے۔ شاید وہ نہیں جانتے تھے کہ کراچی جیسے یتیم اور لاوارث شہر کو اپنے اپنے مفادات کی خاطر موت کے سوداگروں کے حوالے کردیا گیا ہے۔ یہاں کہیں پناہ نہیں۔ سڑک پہ چلتے ہوئے، ہوٹل میں کھانا کھاتے ہوئے، پارکوں میں، مارکیٹوں میں ، ہر جگہ ان کا راج ہے۔

ایک عام شہری نے بھی محسوس کرلیا کہ مہران بیس حملوں میں خاصی مماثلت ہے۔ تقریباً ایک ماہ پہلے ہی اداروں کو اطلاع دے دی گئی تھی کہ ’’ہائی الرٹ‘‘ رہیں۔ انتہاپسند تیاریاں کر رہے ہیں۔ حملہ آور ہمیشہ جدید ترین اسلحے سے لیس اور تربیت یافتہ کمانڈو ہوتے ہیں۔ جنھیں سرنگ لگانے میں معاونت اندر سے فراہم کی جاتی ہے اور یہاں ہر بار ’’گھر کا بھیدی‘‘ ہی لنکا ڈھاتا ہے۔ حادثے کے بعد ہمیشہ کی طرح اسٹیج سج گئے، بیانات آنے لگے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیں ایک دوسرے پر ذمے داری ڈالنے لگیں۔ حدود پہ لڑنے لگیں۔

بالکل تھانے داروں کی طرح جو کسی بھی حادثے کی ذمے داری قبول نہیں کرتے، اپنی اپنی حدود کا تعین کرکے ایف آئی آر تک درج نہیں کرتے۔ لیکن کسی سڑک پہ انسانی لاشوں کے بجائے اگر قیمتی سامان گرگیا ہو تو سارے تھانے جو اس علاقے کی حدود میں آتے ہیں مال ہتھیانے کے لیے فوراً موجود ہوتے ہیں۔ افسوس کہ سول ایوی ایشن  وفاقی حکومت کے باتحت ادارہ ہے۔ تو پھر سندھ کے وزیر اعلیٰ اور دیگر وزرا وہاں کیوں آئے تھے؟ کیا صرف تصویریں کھنچوانے؟ وزیر اعلیٰ اب عمر کے جس حصے میں ہیں (خدا انھیں عمر خضر عطا فرمائے) اس میں انھیں اپنے ناتواں کاندھوں پہ وزیر اعلیٰ کی برائے نام ذمے داری قبول نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن کیا کریں کہ ’’سائیں‘‘ کا حکم اور انعام دونوں ساتھ ساتھ ہیں۔

دوسری طرف ان سات اہل کاروں کو انتہائی مجرمانہ غفلت برتنے پر کس کو ذمے دار ٹھہرایا جائے اور کس کو سزا وار۔ اداروں کی، صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی یہ غیر انسانی حرکت جس میں جان بوجھ کر 7 خاندانوں کے گھر ماتم بپا کروایا گیا …کون اس کی سزا بھگتے گا… چلیے سندھ کے انتہائی فعال اور مقبول وزیر اعلیٰ جب شاہ زیب خان زادہ کے پیچھے کھڑے تھے اور ان کے ساتھ ایک اور بہت سرگرم شخصیت بھی نظر آرہی تھی تو جاگتی آنکھوں نے دیکھا کہ شاہ زیب خود بھی آبدیدہ تھے اور گھر بیٹھے ناظرین بھی ناقابل برداشت تکلیف محسوس کر رہے تھے۔

دکھی دلوں کے ساتھ وہ تمام لوگ جو ایکسپریس نیوز کی ’’لائیو‘‘ ٹیلی کاسٹ دیکھ رہے تھے۔ سب کولڈ اسٹوریج میں پھنسے ہوئے لوگوں کے لیے دعائیں کر رہے تھے کہ وہ زندہ ہوں۔ لیکن حکومتی نمایندوں کی بے حسی قابل دید تھی۔ بے تاثر چہرے کیمروں کی طرف منہ کرکے جلوہ آرائی اور فوٹو سیشن کے چند منٹوں کے بعد وہاں سے ایسے غائب ہوگئے جیسے۔۔۔۔؟ رہنے دیجیے ایک کہاوت یاد آگئی۔ ذہین قارئین سمجھ گئے ہوں گے۔

چلیے مان لیا کہ کراچی ایئرپورٹ وفاق کی ذمے داری ہے۔ لیکن مرنے والے انسان تھے، کوئی بے جان سامان نہیں۔ کیا ان کا قصور یہ تھا کہ وہ کراچی میں رہتے تھے۔ جس کا اب کوئی پرسان حال نہیں۔ 70 فیصد ریونیو کماکر دینے والا شہر آئے دن حادثات، جلاؤ گھیرو اور دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں رہتا ہے۔ افسوس کہ وفاق اس کی آمدنی میں تو حصے دار ہے لیکن لاشیں اٹھانے میں نہیں۔

مجھے کہنے دیجیے کہ کراچی کے شہری اب سنجیدگی سے یہ کہنے لگے ہیں کہ آخر ان کا قصور کیا ہے۔ کیا کراچی پاکستان کا حصہ نہیں ہے؟ کہ انھیں بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا ہے؟ سارے منصوبے، تمام سہولیات صرف دوسروں  کے لیے کیوں مخصوص کردی گئی ہیں۔ جہاں میٹرو ٹرین چلنی چاہیے وہاں اب انتہائی غیر محفوظ چنگچی رکشوں کا راج ہے۔ نہ یہاں بجلی ہے، نہ پانی۔ لینڈ مافیا کے سرپرست وہ بڑے اور بااثر لوگ ہیں جن پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔

لیکن میں یہ کہتی ہوں کہ اگر سندھ کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف ہوتے تو کراچی کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ اور جو سانحہ ایئرپورٹ پہ ہوا ہے۔ وہاں سب سے پہلے پہنچنے والوں میں بھی شہباز شریف ہی ہوتے کہ وہ ذمے دار لیڈر ہی نہیں ایک دردمند اور حساس انسان بھی ہیں۔ کاش چند سالوں کے لیے ڈیپوٹیشن پر ہی وفاقی حکومت انھیں سندھ کا وزیر اعلیٰ مقرر کردے۔

یہ بھی وفاق کی ذمے داری ہے کہ اگر صوبائی حکومتیں خاطر خواہ کام کرنے کے بجائے صرف اپنے اپنے گاؤں، قصبوں، مقبروں اور برسیوں تک خود کو محدود کیے ہوئے ہیں تو ان سے باز پرس کی جائے کہ وہ فنڈز جو شہر اور شہریوں کی فلاح وبہبود کے لیے مختص کیے گئے تھے وہ کہاں خرچ ہوئے ،اندرون ملک اور بیرون ملک جو اثاثے بنائے گئے، محلات تعمیر بھی ہوئے اور خریدے بھی گئے کن ذرایع سے وہ رقم حاصل کی گئی۔ لیکن یہ کوئی برطانیہ تو ہے نہیں جہاں کوئی بھی شے خریدتے وقت ذریعہ آمدنی اور ذرایع آمدن دونوں بتانا پڑیں۔

اور اب آخر میں اسی شعر کی طرف آؤں گی کہ اگر منصوبہ بندی کرلی جاتی، سابقہ واقعات سے سبق سیکھا جاتا تو یہ المناک سانحہ نہ ہوتا۔ افسوس کہ آپس کی سیاسی لڑائی نے دہشت گردوں اور حملہ آوروں کو خوب موقع فراہم کیا۔ اب اس آپس کی لڑائی کا نتیجہ دیکھ لیجیے۔ اس لڑائی میں بہت سوں نے دادا جی کی فاتحہ کے لیے مٹھائی کی دکان منتخب کرلی۔ لیکن جن ’’مقدس‘‘ ہستیوں کو اپنے بارے میں بات کرنا بہت برا لگا تھا اور ہمیشہ لگتا ہے خود انھوں نے بھی یہ نہیں سوچا کہ انسان اہم ہے۔ مجھے کہنے دیجیے کہ پاکستان سے کسی حکمراں  کو کوئی ہمدردی نہیں۔ اسی لیے شاہ زیب خان زادہ روتا رہا اور مدد کے لیے حکمرانوں کو پکارتا رہا۔ لیکن کوئی نہ آیا۔ کیونکہ وہ وقت ان کا کچھ کھانے پینے اور خوش گپیوں اور نام نہاد میٹنگوں کا تھا۔ انسان مر رہے تھے۔ لیکن فوٹو سیشن جاری تھا۔

بقول غالب:

روئیے زار زار کیا‘ کیجیے ہائے ہائے کیوں

شکر ہے ہنسی آئی تو

$
0
0

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر طرف اداسی و انتظار کا موسم ٹھہر گیا ہو جیسے۔ چہروں پر یکسانیت اور سوچ پر جمود طاری ہونے لگتا ہے۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو نعمتیں بے شمار ہیں۔ دکھ ہیں اگر تو سکھ بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کوئی ایک سا موسم مستقل محو سفر نہیں ملتا۔ مگر آج کل یہ دیکھا گیا ہے کہ دکھ و پریشانی زیادہ محسوس ہوتے ہیں بہ نسبت خوشیوں کے۔ آفس میں بھی طرح طرح کی پریشان کن خبریں ملتی ہیں۔ کوئی بیمار ہے تو کہیں ڈکیتی کا واقعہ سنائی دیتا ہے۔ کہیں خود ساختہ مسائل کا ذکر ہے، تو کبھی مہنگائی و حالات کا رونا ہے۔ غرض یہ کہ کہیں بھی اچھا احساس نہیں ملتا۔ بیماریوں کا ذکر سن کر دل برا ہونے لگتا ہے۔

علی الصبح اخبار پڑھنے کو دل نہیں کرتا۔ ٹی وی کھولو تو بریکنگ نیوز میں کوئی دل دہلا لینے والی اطلاع مل رہی ہوتی ہے۔ ایک عجیب سی گھٹن کا احساس ہونے لگتا ہے۔ ہنستے مسکراتے چہرے قصے پارینہ بن چکے ہیں۔ لوگوں کے ماتھے پر تیوریاں تو چہرے پر وحشتوں کا سماں دکھائی دیتا ہے۔ ایک دن مجھے بھی ایسا محسوس ہونے لگا کہ کوئی بڑی بیماری موقع پاتے ہی مجھ پر حملہ آور ہونے والی ہے۔ لہٰذا دوست کے مشورے پر میں نے ان کے فیملی ڈاکٹر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ دوست کا کہنا تھا کہ مختلف قسم کا ڈاکٹر ہے۔ نبض پر ہاتھ دھرے بنا مرض پہچان لیتا ہے۔ پر مزاح شخصیت ہے۔ آدھا مرض ان کی شگفتہ باتوں سے رفع ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ ’’ذہنی دباؤ کے علاوہ کچھ نہیں۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر قہقہے لگائیں۔‘‘ مجھے حیران پاکر بات جاری رکھتے ہوئے بولے ’’یہ مذاق نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ دور جدید کے ہر مسئلے کا حل ہنسنا اور مسکرانا ہے۔ لہٰذا آپ زندہ دل لوگوں سے میل جول بڑھائیں۔ اور لافٹر تھیراپی پر عمل کریں، انشاء اللہ افاقہ ہو گا۔‘‘

’’آپ کہتے ہیں تو کوشش کر کے دیکھتی ہوں۔‘‘ اور میری ہنسی چھوٹ گئی ۔ ’’آپ مزاح لکھا کریں۔‘‘ ڈاکٹر صاحب آج شاید مذاق کے موڈ میں تھے۔

’’مزاح اور میں۔۔۔!‘‘ مجھے پھر بے ساختہ ہنسی آ گئی۔ لیکن شکر ہے کہ ہنسی آئی تو سہی۔ مدتوں ہو گئے مسکرائے ہوئے۔

’’میں خود آپ کے کالم پڑھ کر کئی بار آبدیدہ ہو چکا ہوں۔ مجھے اندازہ ہے کہ المیہ تحریریں لکھتے انسان خود بھی کرب کی کیفیت سے گزرتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب ادب سے شغف رکھتے ہیں۔’’آج کل ملکی حالات ایسے چل رہے ہیں کہ چہرے کے گھڑیال پر بارہ کے ہندسے سے سوئی نہ اوپر جاتی ہے اور نہ نیچے آتی ہے۔‘‘ میں نے اداسی سے جواب دیا۔ ’’متضاد رویے اپنانے سے زندگی اچھی گزرتی ہے۔ جیسے غم میں مسکرانا یا تکلیف میں قہقہے لگانا اس کیفیت کی شدت کو کم کر دیتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر بولے۔

’’اداسی و پریشانی قومی مزاج بن چکی ہے۔‘‘ میری بات سن کر کہنے لگے۔ ’’لیکن ہمیں اپنا مزاج بدلنا چاہیے۔ خوش مزاجی کو ڈھونڈ کے واپس لانا پڑے گا۔‘‘

’’کاش کہ ایسا ہو سکے۔‘‘ یقین اور بے یقینی ایک ہی تصویرکے دو رخ ہیں۔

’’میں خود جب بیمار پڑا تو میں نے طرز زندگی بدل دیا۔ اب میں اخبار نہیں پڑھتا۔ ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیا۔ بیوی کے مسئلے کا حل بھی ڈھونڈ نکالا ہے۔گھر واپس جاتے ہوئے روئی کانوں میں ٹھونس کے گھر میں داخل ہوتا ہوں۔‘‘

ایک بار پھر ہنسی کے شگوفے کھل اٹھے۔ ڈاکٹر کی باتوں میں وزن تھا، حالانکہ طبعی طور پر وہ خود بے وزن تھے۔

اس کے بعد میں نے بڑی کوشش کی کہ کوئی ایسا حلقہ ڈھونڈ نکالوں، جہاں ہنسی کے پھول ہمہ وقت تازہ رہتے ہوں۔ مگر مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب لوگ مسکراتے ہیں۔ فضاؤں میں قہقہوں کی بازگشت بھی سنائی نہیں دیتی۔ وہ خبرنامے کی طرح بھی نہیں بن سکے جو ہولناک خبروں کے بعد آخر میں بارش کا احوال تو کبھی پھولوں کی نمائش کی مختصر جھلک دکھا دیتے ہیں۔ میں نے تمام تر چینل کھنگال ڈالے، مگر کہیں بھی کوئی ڈھنگ کا مزاحیہ پروگرام نہ تھا۔ ڈراموں میں گمبھیر مسائل چل رہے ہوتے ۔ دھوکا، نفرت، فریب اور منافقت کے موضوعات سے ڈرامے بھرے ہوئے تھے۔ چینل بدلتے بدلتے ایک مزاحیہ ڈراما بلبلے ذرا سا اچھا لگا۔ کبھی ہنسی آتی تو کبھی رونا۔ میاں بھی لاؤنج میں آ کے بیٹھ گئے۔ کہنے لگے ’’یہ چینل ہٹاؤ یہ کوئی ڈرامہ ہے۔ کیا اسے مزاح کہتے ہیں۔‘‘ شاید وہ یہ ڈرامہ پہلے دیکھ چکے تھے۔

’’اچھا ڈرامہ ہے بہرکیف ہنسی آ ہی جاتی ہے۔‘‘ میں نے خوش ہو کر بتایا۔

’’مجھے مومو پسند نہیں ہے۔ یہ اپنے میاں سے بہت بدتمیزی سے بات کرتی ہے۔ اب دیکھو اس نے کیا کہا ہے ابھی۔‘‘ اس وقت مومو اپنے شوہر سے کہہ رہی تھی چپ ، جو سنائی دیا ’’چپ اوئے‘‘ میاں بولے دیکھو یہ کہہ رہی ہے چپ اوئے!

میاں نے کہا اس طرح بات کی جاتی ہے؟ میں نے کہا ’’یہ ’’چپ اوئے‘‘ نہیں ہے یہ ’’چِپ‘‘ ہے یعنی مومو ’’پ‘‘ پر زیر لگاتی ہے۔ بہرکیف میاں قائل نہیں ہوئے کہنے لگے ’’مجھے نہیں معلوم یہ ’’پ‘‘ پر زیر لگاتی ہے کہ زبر۔ بس اس ڈرامے کو ہٹاؤ مجھے خبریں سننی ہیں۔ نیوز کا ٹائم ہو رہا ہے۔‘‘

پھر وہ ریموٹ سے چینل ہٹا کر نیوز دیکھنے لگے۔ بی بی سی پر برما کے مسلمانوں کا قتل عام دکھایا جا رہا تھا۔ ان کے کٹے اعضا ہر طرف بکھرے ہوئے تھے۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ وہ چینل بدلنے لگے۔ خبروں میں ہر طرف مار کٹائی، بم دھماکے، ڈکیتیاں، اغوا، سیاسی رسہ کشی، ہلڑ بازی اور بحث برائے بحث کا سا سماں۔ میں نے چینل تبدیل کر کے ڈرامہ لگا دیا۔ مومو کے گھر میں خوب ادھم مچا ہوا تھا۔

’’کامیڈی ایسی ہوتی ہے۔‘‘ طنزیہ انداز میں کہنے لگے۔ ’’یہ کامیڈی آف مینر ہے یعنی حرکات و سکنات کے ذریعے لوگوں کو ہنسانا۔‘‘ میں نے علمیت جھاڑی۔

’’یہ تو آؤٹ آف مینرز کامیڈی لگتی ہے۔ بدتہذیبی کی انتہا! چلنا پھرنا، بات چیت یہ اچھل کود کس قدر بے ڈھنگا پن ہے۔ کیا حقیقت میں ایسے لوگ ہوتے ہیں؟‘‘ اس پر مجھے یاد آیا کہ کچھ سال پہلے حیدر آباد سے کراچی جاتے ہوئے، بس میں ایک انتہائی خوش مزاج خاندان سے ملاقات ہوئی تھی۔ میاں بیوی سن پچاس کے ہیرو اور ہیروئن جیسے البتہ بچے برگر کی نقل۔ میاں بیوی کی کلاس کی نوک جھونک تمام راستے چلتی رہی۔ وہ مستقل میاں پر تنقید کے تیر برسائے جاتیں۔ شوہر کبھی تنک کے کہتے ’’سفر میں تو رحم کرو بیغم۔۔۔۔‘‘واقعی بیوی بے غم سی دکھائی دی۔ پھر خاتون بیٹے سے مخاطب ہوئیں جو ایئر فون کان میں ڈالے جھوم رہا تھا۔

زور سے چلائیں ’’معیز آئے ہیں اس موئی تار کو تو نکالو کان سے کیا ابا کی طرح بہرے ہونے کا ارادہ ہے؟‘‘ یہ سن کر میاں کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق تلملائے ’’اب یہ بھی مت بتا دیجیو سب کو کہ دانت بھی نقلی ہیں اور کمر میں بھی فریکچر ہے۔‘‘ یہ سن کر قریبی مسافر ہنسنے لگے۔ ان کے کیا فی البدیہہ جملے تھے۔ تمام راستے مسکراہٹوں کے پھول مہکتے رہے، قہقہوں کی بارش ہوتی رہی۔ میں بھی تمام راستے ان کی باتوں سے محظوظ ہوتی رہی۔ اس دن تین گھنٹے کا سفر محض تین لمحوں میں کٹ گیا۔ کیا پھلجھڑی پٹاخہ قسم کا خاندان تھا۔ مدتوں یاد رہا۔

’’یہ مومو کی چال کس قدر بناوٹی ہے۔‘‘ میاں بولے تو میں سوچوں کی دنیا سے واپس آ گئی۔ ’’یہ ہنس کی چال چلتی ہی غالباً‘‘ میرا جواب سن کر میاں خوب ہنسے اور کہنے لگے ’’مجھے کوئوں سے ہمدردی ہے بہت دل پذیر (مومو) کا انٹرویو پڑھا تھا میں نے کہیں۔‘‘ انھوں نے بتایا تھا کہ ’’ ایسی خاتون ان کی پڑوسی ہوا کرتی تھی۔ چال بھی بالکل ایسی تھی‘‘۔ میں نے میاں کی معلومات میں اضافہ کیا۔ کہنے لگے ’’اچھا تو خواتین عجوبوں سے مقابلہ کرنے چلی ہیں گویا۔‘‘

’’ہر بیوی میاں کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ دکھائی دیتی ہے۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میاں کی خاموشی نے میری بات کی تصدیق کر دی۔ ان ہی باتوں میں مزاحیہ ڈرامہ اختتام پذیر ہوا اور میرے اسکور میں ایک اور زیرو کا اضافہ ہو گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان جو چیز شدت سے کرنا چاہتا ہے، اس میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ آ جاتی ہے۔ یہ ہنسنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ٹھہرا! مجھے خاموش پا کر پوچھنے لگے کہ خاموش کیوں ہو؟

’’سمجھ میں نہیں آتا کہ کیسے ہنسوں بولوں بقول ڈاکٹر کے کہ ہنسنا تمہاری دوا ہے۔‘‘ کہنے لگے ’’کل ہی تو آئینے کے سامنے آپ قہقہے لگا رہی تھیں۔‘‘

’’یہ مشورہ ڈاکٹر نے دیا تھا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

’’ڈاکٹر بھی مزے کا لگتا ہے، ٹکا کے تیر مارا ہے۔‘‘ میاں کے قہقہے کے ساتھ میری ہنسی بھی شامل ہو گئی۔ یہ الگ بات کہ جملے کا سچ بعد میں سمجھ آیا۔ ہنستے رہنے سے مجھے اپنے اندر بہار کی سی تازگی محسوس ہونے لگی ہے۔ لیکن سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ میاں بھی یہ ڈرامہ شوق سے دیکھنے لگے۔ جس کی برائیاں کرتے نہ تھکتے تھے۔

اردو ہے جس کا نام

$
0
0

اردو زبان جس تہذیبی و معاشرتی پس منظر میں معرض وجود میں آئی وہ تھوڑا بہت علم اور معلومات رکھنے والوں کو اچھی طرح معلوم ہے۔ زبانوں کا اگرچہ کوئی مذہب نہیں ہوتا مگر اردو کو تقریباً ابتدا ہی سے مسلمانوں کی زبان قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اردو ہندو مسلم دونوں کی معاشرتی ضرورت تھی اور ہے اور اس کی ترقی و ترویج میں بھی دونوں نے اہم کردار ادا کیا۔

صدیوں کی کاوشوں سے جب زبان اردو نے باقاعدہ علمی و ادبی حیثیت حاصل کر لی تو متعصب ہندوؤں کو یہ احساس ہوا کہ ’’اردو تو مسلمان ہے‘‘ انھوں نے اردو کے خلاف سازشوں کا آغاز کر دیا۔ 1898ء میں ہندوؤں کے ایک وفد نے اتر پردیش (یوپی) کے انگریز لیفٹیننٹ گورنر سے ایک ملاقات میں ہندی کو عدالتی زبان بنانے پر اصرار کیا۔ یہ ابتدا تھی مگر برصغیر میں اردو ہندی تنازعہ باقاعدہ اپریل 1900ء میں اس وقت شروع ہوا جب لیفٹیننٹ گورنر نے دیوناگری رسم الخط کے نفاذ کا باقاعدہ ریزولوشن جاری کر دیا۔ اس تنازعے کا ایک مخصوص سیاسی و تاریخی پس منظر ہے جس کا اصل ہدف ہندوستان کے مسلمان تھے کیونکہ ان کا تاریخی، دینی اور ادبی ذخیرہ اس زبان میں وافر مقدار میں تھا۔ اور اس ریزولوشن کا مقصد دراصل مسلمانوں کو ان کے علمی و مذہبی سرمایے سے محروم کرنا تھا۔

قصہ مختصر یہ کہ پورے برصغیر میں اردو ہندی تنازعہ زور پکڑ گیا جگہ جگہ احتجاجی مظاہرے اور اجلاس ہوئے جن میں اس صورتحال کے خلاف قراردادیں پیش اور منظور کی گئیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انگریزوں نے بہت پہلے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا تھا کہ اگر برصغیر پر حکومت کرنی ہے تو یہاں کی وہ زبان جو مشترکہ ہے یعنی اردو ضرور سیکھنی چاہیے پھر انھوں نے خود ہی حالات کو دیکھتے ہوئے اردو کو دفتری زبان بھی قرار دیا تھا پھر آخر یہ ریزولوشن کیوں جاری کیا؟ بات دراصل یہ ہے کہ مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے علاوہ یہ صورتحال تمام قوموں (ہندوستانی) کی عام بول چال کی حیثیت سے ان کے درمیان رابطے کی زبان بن چکی تھی لہٰذا انگریز ہندوستانی اقوام کے اتحاد کو پارہ پارہ کر کے ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔

اردو ہندی تنازعہ تو وقت کے ساتھ ساتھ سرد پڑ گیا مگر اس نے مسلمانان برصغیر کو بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کر دیا۔ یہی وہ تنازعہ تھا جو دو قومی نظریہ اور بالآخر پاکستان کی بنیاد بنا۔ اور اب قیام پاکستان کے بعد (جو کام ہندی یا دیوناگری رسم الخط نہ کر سکا تھا) انگریزی نے جو نقصان اور اردو اور اس کے رسم الخط کو پہنچایا وہ ’’شاید‘‘ ناقابل تلافی ہو۔ انگریزوں نے اردو کو رائج کر کے خاصے فوائد حاصل کیے جس میں برصغیر کے مقامی لوگوں کو ان کے بارے میں خیالات اور ان کے آیندہ ارادوں سے واقفیت بھی شامل ہے۔

برصغیر کی آزادی کے لیے ابتدا میں جو جدوجہد کی گئی وہ ہندو مسلم دونوں نے مشترکہ طور پر کی تھی اس مسلم ہندو اتحاد نے انگریزوں کو ہوشیار کر دیا کہ اگر ان کا اتحاد قائم رہا تو حکومت برطانیہ کو بہت جلد یہاں سے اپنا بستر گول کرنا پڑے گا اور سونے کی وہ چڑیا جس نے تاج برطانیہ کی ڈوبی کشتی کو نہ صرف پار لگایا تھا بلکہ مزید کالونیاں بنا کر ان کا سورج کبھی غروب نہ ہونے دیا۔ لہٰذا انھوں نے اس اتحاد کو توڑ کر اپنی حکومت کو استحکام بخشنے کا جو منصوبہ بنا تھا اور ’’اختتام اتحاد‘‘ کی حد تک تو ایسا کامیاب ہوا کہ پھر آج تک ان دونوں قوموں کے درمیان اتحاد و اتفاق تو بڑی بات اچھے پڑوسیوں والے تعلقات بھی قائم نہ ہو سکے۔ مگر تمام تر کوششوں کے باوجود انگریزوں کو برصغیر بالآخر چھوڑنا پڑا۔

اس سلسلے میں اردو پر جو حملہ ہوا تھا (دیوناگری رسم الخط کا) اس کے بجائے ہم نے تاج برطانیہ کے در پردہ عزائم کو رومن رسم الخط کو تیزی سے اپنا کر پورا کرنے کا عزم صمیم کر لیا ہے اور یوں ان کا مقصد اب پورا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اور یہ سب کچھ بڑے منظم طور پر ہو رہا ہے اور ہم جو کسی بھی مسئلے پر کسی بھی وقت سنجیدگی اختیار کرنے کو تیار نہیں اس صورت حال سے بھی لاتعلق ہیں۔ ہمیں نہ اپنے معاشرتی، نہ دینی اور نہ روایتی تشخص کے گم ہو جانے کا احساس ہے اور نہ فکر۔ آج یہ صورتحال ہے کہ بارہویں جماعت کے طلبا نہ صحیح اردو پڑھ سکتے ہیں اور نہ بول سکتے ہیں لکھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا (لیکن اب بھی کوئلے کی کان سے ہیرے نکل آتے ہیں)

دس برس قبل تک بھی انگریزی ذریعہ تعلیم کے اسکولوں میں اردو مباحثے بیت بازی، مقابلہ شعر گوئی یا کلام شعرا کو تحت اللفظ پڑھنے کے مقابلے منعقد ہوا کرتے تھے اس کے علاوہ محفل میلاد بھی اکثر اسکولوں میں بڑے اہتمام سے ہوا کرتی تھی مگر آج کسی اسکول میں بلکہ کالج تک میں کچھ نہیں ہوتا کچھ اسکولوں میں میلاد شریف کی محفل ہوتی ضرور ہے مگر اس کی نظامت، تقاریر (سیرت طیبہ پر) سب انگریزی میں حتیٰ کہ اب تو نعتیں بھی انگریزی زبان میں پڑھی جا رہی ہیں اور جو نعتیں اردو میں پڑھی جاتی ہیں وہ لکھی رومن میں ہوتی ہیں یہاں تک کہ محفل میلاد شریف کے اختتام پر دعا بھی انگریزی میں کرائی جاتی ہے۔ اس صورتحال میں وہ تعلیمی ادارے پیش پیش ہیں جو ہر صورت پاکستانی ثقافت کو مغربی ثقافت میں تبدیل کرنے کے لیے کوشاں ہیں مقصد صرف اور صرف حصول دولت ہے۔

یہ ہماری قوم کا مزاج بن چکا ہے کہ پیسہ کماؤ چاہے اس کے لیے کچھ بھی داؤ پر لگانا پڑے۔ جب تعلیمی ادارے ہی ہمارے بچوں کو، طلبہ کو اپنی روایات، ثقافت، زبان اور سب سے بڑھ کر اپنے وطن سے پیار کرنا نہیں سکھائیں گے تو اور کسی سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے۔ حکومتوں اور سیاستدانوں (عوامی نمایندوں) نے تو کچھ نہ کرنا ہی اپنا مقصد حیات بنا لیا ہے۔ عوام بے چارے سوچ سوچ کر اور چیخ چیخ کر تھک چکے ہیں۔ پھر جن کو علم و آگہی تک رسائی سے محروم رکھا گیا ہے وہ تو صرف جیسے تیسے زندہ رہنے کو ہی اصل زندگی سمجھتے ہیں اس سے آگے کی وہ سوچتے ہیں اور نہ سوچ سکتے ہیں۔ مسئلہ تو باشعور اور حالات سے باخبر اور لکھنے پڑھنے والوں کا ہے کیونکہ بقول محسنؔ بھوپالی مرحوم

ہماری جان پہ دہرا عذاب ہے محسنؔ

کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے

لہٰذا ہم جیسے اس بھیانک صورتحال پر سوچتے بھی ہیں جلتے بھی ہیں کڑھتے بھی ہیں اور لکھتے بھی ہیں مگر کیا کوئی یہ سب پڑھتا ہے؟ کسی پر اس کا اثر ہوتا ہے؟ یا یہ سب ’’نقار خانے میں طوطی کی آواز‘‘ ہی ثابت ہوتا ہے۔

اردو جو پاکستان کی قومی زبان قرار دی گئی تو صرف اردو کی محبت میں نہیں بلکہ اس زبان کی خصوصیات کے باعث (ورنہ قائد اعظم تو خود بھی اچھی اردو بول نہیں سکتے تھے) کیونکہ بابائے قوم اپنی ذہانت و معاشرتی و سیاسی شعور کی بنا پر اچھی طرح جانتے تھے۔ بابائے قوم کے بعد آنے والے اگر ذرا بھی اخلاص سے کام لیتے تو وہ آئین سے بھی پہلے اردو کے نفاذ کو یقینی بناتے، ذریعہ تعلیم، عدالتی اور دفتری کارروائی اردو میں ہوتی تو یہ قوم ایک متحد و منظم قوم ہوتی۔ قیام پاکستان کے وقت تو سب مسلمان تھے نہ کوئی پنجابی، بلوچی، سندھی یا مہار نہ تھا اور سب کا مقصد ایک آزاد مسلم ریاست کا قیام تھا۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان میں اردو نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور یہ بھی کہ اردو ’’پاکستان کی قومی زبان‘‘ ہے اگر اس کو ابتدا ہی میں ہر سطح پر نافذ کر دیا جاتا تو یہ قومی یکجہتی کا سبب بنتی مگر بوجوہ بڑی خاموشی سے کام کرنے والوں نے کام کر دکھایا اور رفتہ رفتہ ملک سے اردو کو غائب کرنا شروع کردیا۔ 66 سال میں اردو جو اب سے کئی صدیوں پہلے درباری زبان رہ چکی (ابراہیم عادل شاہ نے 1521ء میں اردو کو درباری زبان قرار دیا تھا) اور جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن میں ذریعہ تعلیم کے طور پر کامیاب تجربہ ثابت ہو چکی (اس جامعہ کے فارغ التحصیل طلبہ نے دنیا بھر میں خوب نام پیدا کیا) مگر اب پھر 25 سال کے لیے اس کا نفاذ ٹال دیا گیا۔ جس کا مقصد صاف یہ ہے کہ آیندہ تین نسلیں جب اردو سے نابلد معاشرے کا حصہ بن جائیں گی تو پھر بھلا اردو پڑھنے لکھنے اور سمجھنے والے کہاں رہ جائیں گے اور اس کے نفاذ کا مطالبہ تو خیال و خواب ہی ہو گا۔

آج پاکستانی عوام کیا چاہتے ہیں؟ یہ کون پوچھتا ہے بلکہ عوام کا تو اب یہ حال ہے کہ ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کی زندہ تصویر بنے ہوئے ہیں۔ اردو کے نفاذ کو مزید روکنے کے لیے جو اضافہ ہوا ہے اس پر کسی جانب سے کوئی پرجوش اور بھرپور ردعمل کا مظاہرہ نہ ہونا بھی ہماری بے حسی اور مستقبل پر نظر نہ رکھنے کی واضح مثال ہے۔

(جاری ہے)


جنگ شروع ہونے کو ہے!

$
0
0

روشنی میں تاریکی گھل رہی تھی۔

اُس پر یاسیت کا بوجھ تھا۔ آنکھوں میں نمی۔ سر جُھکا ہوا۔ کاندھے ڈھلکے ہوئے۔

وہ جنگ جُو، جس کے جوتوں کی رگڑ سے فتح کا جن نمودار ہوتا، جس کا حملہ دشمن کی دفاعی دیوار تہس نہس کر ڈالتا، جو برق رفتاری سے خندقیں پھلانگ جاتا؛ اُس رات شکستگی کی تصور معلوم ہوتا تھا۔ وہ عظیم سپاہ سالار، جس کی فسوں گری نے چار برس قبل میکسیکو معرکہ اپنے نام کیا، مغربی جرمنی کو کانٹے کے مقابلے میں شکست دی، 8 جولائی 1990ء کو جیسے کسی سحر کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔ کسی منتر نے اُسے باندھ لیا۔

اُس پریشان کن شام، اُس آخری معرکے میں مہان ڈیگو میرا ڈونا بے بس نظر آیا۔ اسے دو اہم کھلاڑیوں سے محروم ہونا پڑا۔ دشمن غالب آ گیا۔ روم کے قدیم اکھاڑے میں اختتامی بگل بجا۔ 1986ء میں شکست کا کرب سہنے والے مغربی جرمنی نے فتح کا جھنڈے اٹلی کی زمین پرگاڑ دیا۔ جرمن قوم رقصاں تھی اور ارجنٹینا کے آسمان سے اداسی گر رہی تھی۔

تو جولائی 1990ء کی اس رات میراڈونا صدمے سے ڈھے رہا تھا۔ لاطینی امریکا خاموش تھا۔ سنہری ٹرافی یورپ چلی گئی۔ ٹھیک اُسی شکستہ رات، فٹ بال سے میرے بے انت عشق کا آغاز ہوا۔ اور اُسے مہمیز کیا امریکا میں ہونیوالے 1994ء ورلڈ کپ نے جہاں اٹلی کے رابرٹو بجیو کی برق رفتاری نے آنکھیں خیرہ کر دیں۔ وہ عظیم ترین میں سے ایک تھا۔ انوکھا اور پھرتیلا۔ مگر  17جولائی کو کیلی فورنیا میں منعقدہ آخری مقابلے میں، ایک بار پھر آنسوئوں کا مینہ برسا۔ آہ، عظیم میراڈونا کی طرح رابرٹو بجیو بھی سر جُھکائے کھڑا تھا۔ وہ سنسنی خیز لمحات میں پنالٹی شوٹ مس کر گیا۔ معرکہ برازیل کے نام رہا۔

برازیل، فٹ بال کا تخت۔ 5ورلڈ کپ مقابلوں کا فاتح، عظیم پیلے کا دیس۔ کروڑوں دلوں میں دھڑکنے والا برازیل، جس نے روماریو اور رونالڈو جیسے جادوگر پیدا کیے، مجھے مبہوت تو کرتا ہے کہ اُس جیسی مضبوط ٹیم کا تصور محال ہے، مگر باصلاحیت کھلاڑیوں کی وہ دھرتی دل میں گھر نہیں کر سکی۔ دل کے دروازے پر غم زدہ میراڈونا اور رابرٹو بجیو جو کھڑے تھے!

اٹلی نے تو 2006ء کا مہا مقابلہ جیت کر اپنے مداحوں کے لیے جشن کا سامان کر دیا مگر ارجنٹینی دیوانے تا حال منتظر ہیں۔ کیا انتظار تمام ہونے کو ہے؟ کیا لائنل میسی، جو کم سنی میں عظمت اپنے نام کر چکا، میراڈونا کا جانشین ثابت ہو گا؟

یہ جاننے کے لیے تو تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔ البتہ فٹ بال دیوانوں کا انتظار تمام ہونے کو ہے۔ ہوشیار باش۔ مقابلوں کا آغاز ہوا جاتا ہے۔ مقابلے کیا ہیں، عالمی جنگ سمجھیں۔ میدان برازیل کا۔ گھمسان کا رن پڑے گا۔ 32 ملک ٹکرا رہے ہیں۔ محاذ جنگ سے خبروں کا تانتا بندھا رہے گا۔ سپاہی عزم و ہمت کی داستان رقم کریں گے۔ وہ چوکس اور چوکنے ہیں۔ غلطی کا کوئی امکان نہیں۔ فتح کے لیے پورا زور لگانا ہو گا۔ زخموں کو بُھلا کر، اختلافات سے بالاتر ہو کر عظیم مقصد کے لیے لڑنا ہو گا۔ اور یہ عظیم مقصد ہے؛ سنہری ٹرافی۔ جس کی چاہت نے مقابلے میں شریک ہر ملک کو دیوانہ بنا رکھا ہے۔

کیا فٹ بال کا جنون مصائب میں الجھے، زخمی، پریشان حال پاکستان کو بھی لپیٹ میں لینے والا ہے؟

پاکستان فٹ بال، جسے لیاری نے کئی ہیرے عطا کیے، گزشتہ چند عشروں سے ’’کوما‘‘ میں ہے۔ حکومتی غفلت اِسے لے ڈوبی۔ معیاری فٹ بال تیار کرنے کے سوا ہم اِس کھیل میں کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکے البتہ ’’ورلڈ کپ بخار‘‘ ایسا مرض ہے، بچنا جس سے محال ہے۔ کئی ممالک میں تو اس کھیل کو مذہب کا درجہ حاصل ہے۔ کھلاڑیوں کو دیوتا تصور کیا جاتا ہے۔ 80ء اور 90ء کی دہائی میں براہ راست نشر ہونیوالے ورلڈ کپ مقابلوں نے عزیز ہم وطنو کو اِس کھیل کا دل دادہ بنایا۔ نیا ہزاریہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا انقلاب ساتھ لایا۔ آج ہم میں سے کئی یہ بات جانتے ہیں کہ پرتگالی شہزادہ، رونالڈو ہسپانوی کلب ریال میڈرڈ سے کھیلتا ہے۔ اکھڑ مزاج وین رونی مانچسٹر یونائیٹڈ کا حصہ ہے۔

ارجنٹینی میسی بارسلونا کے مداحوں کے دل میں دھڑکتا ہے۔ تو لکھ لیجیے، اِس بار پاکستان میں فٹ بال کی دیوانگی عروج پر ہو گی۔ کوئی برازیل کے گُن گائے۔ کوئی فرانس کے لیے گنگنائے گا۔ کسی کی امیدوں کا محور اسپین ہو گا۔ تو کوئی پرتگالی کھلاڑیوں سے آس لگائے گا۔ مقابلے دل چسپ ہوں گے۔ برازیلی ٹیم، جو فیورٹ ہے، کاکا اور روبینو جیسے سیماب صفت کھلاڑیوں سے محروم ہے۔ مگر پیلے کا دعوی ہے کہ نیمار جونیئر اگر سنبھل کر کھیلا تو برازیل کا پیلے ثابت ہو گا۔ گروپ ڈی کو موت کا گروپ جانیے۔ انگلینڈ، اٹلی، یوروگوائے اور کوسٹریکا ٹکرائیں گی۔ اگر آپ ’’اپ سیٹ‘‘ کے خواہاں ہیں، تو یہ گروپ آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔ پھر انگلینڈ کو ایشلے کول اور مائیکل کیرک کی خدمات حاصل نہیں۔ ارجنٹینی ٹیم، جسے مضبوط ترین امیدوار کے طور پر دیکھا جارہا ہے، ٹیویز کے بغیر میدان میں اتری ہے۔فرانسیسی امیدوں کا محور ’انجرڈ ‘ ریبری بھی میدان سے باہر رہ گیا۔

یاد آیا؛ میزبان برازیل میں حالات گمبھیر ہیں۔ انتشار ہی انتشار۔ ریلیاں۔ ہڑتالیں۔ جلسے جلوس۔ جلائو گھیرائو۔ کچھ کو خدشہ ہے؛ کہیں تشدد کی لہر رنگ میں بھنگ نہ ڈال دے۔ البتہ ہمیں امید ہے کہ فٹ بال کے عُشاق برازیلی مقابلوں کو سبوتاژ کرنے سے باز رہیں گے۔ ہماری طرح تھوڑی ہیں کہ جسے چاہتے ہیں، اُسے قبر میں اتار کر دم لیتے ہیں۔

عزیز، بگل بجنے کو ہے۔ دنیا تو دیوانی ہو ہی چکی، امید ہے کہ ہمارے بھائی بند بھی 12 جون تا 13 جولائی؛ اِن مقابلوں سے خوب لطف اندوز ہونگے اور یہ اچھا ہی ہے۔ ذہنی پراگندگی سے محفوظ رہیں گے۔ توجہ کچھ عرصے کے لیے الزامات کی سیاست سے ہٹ جائے گی۔ کھوکھلے حکومتی وعدوں کا صدمہ کچھ زائل ہوگا۔ دیواروں پر لکھے فرقہ وارانہ نعرے ماند پڑینگے۔ شاید عورتوں کو اینٹوں سے قتل کرنیوالوں کی توجہ بھی بھٹک جائے، شاید ہڑتالوں کا غم تھوڑا گھٹ جائے۔ عمران خان کون سی کہانی سُنا رہے ہیں، میاں صاحب کس ملک کے دورے پر ہیں، طاہر القادری کے کیا ارادے ہیں، شدت پسند نے حملوں کا کیا جواز پیش کیا، میڈیا آزاد ہے یا نہیں، اِن معاملات سے کچھ دیر جان چھوٹ جائے گی کہ برازیل میں طبل جنگ بج گیا۔ محاذ گرم ہے۔ دیکھئے، اِس بار کس کی آنکھوں میں نمی ہوتی ہے!!…

نوٹ: عزیزو، ورلڈ کپ کا سحر اپنی جگہ، مگر اپنی پیاری حکومت کو بُھلانا شاید سہل نہ ہو۔ لوڈشیڈنگ ہمیں بار بار اُن کی یاد دلائے گی۔ گرتا وولٹیج ہمارا وولٹیج بڑھائے گا۔ ممکن ہے، ہم بھی سڑکوں پر نکل کر لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے داروں کی طرح نظمیں، غزلیں گانے لگیں۔

چھوٹی برائی‘ بڑی برائی

$
0
0

اکیسویں صدی کا دور ہے۔ گلوبل ولیج میں رہائش ہے۔ باتیں 1857ء کی کرتے ہیں جب پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں، خواب انگریز دور کے دیکھتے ہیں جب سر کڑھائی میں تھا۔

Status Quo کے پجاری ہیں، لارا لپا جمہوریت کے کھلاڑی ہیں۔ عرف عام میں مادر زاد اشرافیہ کہلاتے ہیں۔ الیکشن سے پہلے ان کی ’’باتیں‘‘ سگنل فری کوریڈور جیسی، جس پر سے گزرتے وقت وسعت نظر، گہرائی فکر اور روشن خیالی کا احساس ہوتا ہے۔ الیکشن کے بعد ان کا ’’عمل‘‘ انڈر پاس جیسا جس میں داخل ہوتے ہی دم گھٹنے لگتا ہے، جلد سے جلد باہر نکلنے کی دھن سوار ہو جاتی ہے۔

جب یہ برسر اقتدار رہتے ہیں اٹھارہ کروڑ حکمرانوں کو کھانے کو اتنا دیتے ہیں کہ زندہ رہنے اور وقت ضرورت کام آئیں۔ مثلاً قومی خزانے میں ٹیکس جمع کر دیں، نئے ٹیکس بلا چوں چرا قبول کریں، اپنے پیروں پر چل کر ووٹ ڈالنے جائیں وغیرہ۔ جب برسر اقتدار اشرافیہ کو الیکشن کے دوران کیا ہوا مکان دینے کا وعدہ یاد دلاتے ہیں تو الٹا سوال کرتے ہیں ’’کیا اس وقت آپ کا درختوں پر بسیرا ہے؟‘‘ آدھی تنخواہ کرایہ مکان پر خرچ ہو جاتی ہے۔ آدھی تنخواہ میں سے گھر کا خرچہ نکال کر اتنا بچتا ہے کہ تن ڈھانکنے کے لیے کپڑے بنا لیں یا بچوں کو اسکول میں داخل کرائیں۔ جب کہ دونوں لازمی ہیں۔ یہی ہر گھر کا مسئلہ ہے اور یہی پاکستان کے گھر گھر کا مسئلہ ہے جو 66 سال سے حل نہیں ہوا حالات بد سے بدتر ہی ہوتے گئے۔ اب کیسے حل ہوں گے؟ حل کرنے والے تو وہی پرانے گھاگ ہیں۔

دوسری طرف مادر زاد اشرافیہ کی کنکرنٹ لسٹ ملاحظہ کیجیے:

کھانے کو ملائی بوٹی، پینے کو غالبؔ کا پسندیدہ مشروب، پہننے کو عالمی ڈیزائنر سوٹ، رہنے کو دبئی میں لگژری اپارٹمنٹ، خرچ کرنے کو قومی خزانہ، جمع کرنے کو سوئس بینک، قرضہ خوری کے لیے ورلڈ بینک، قرضے معاف کرانے کے لیے ملکی بینک، ترقیاتی فنڈز کے لفافے میں کروڑوں سرکاری رشوت، لاوارث بلدیاتی ترقیاتی فنڈ، صوابدیدی اختیارات کی پلیٹ پر سجے ہوئے صوابدیدی فنڈز، ایک طرف استحقاق ہی استحقاق اور دوسری فریضہ نہ فرائض۔ کھڑا کھیل فرخ آبادی!

پاکستان کے سیاسی پنڈت اس بات پر متفق ہیں کہ رائج بدترین نظام جمہوریت ہی پاکستان کے لیے موزوں ترین نظام حکومت ہے۔ کیونکہ یہ بہترین آمریت سے بھی بہتر ہوتا ہے۔ فلسفہ مابعد فضولیات کے مطابق یہ چھوٹی برائی، بڑی برائی کا فلسفہ کہلاتا ہے۔ یعنی کیونکہ مارشل لا بڑی برائی ہے اس لیے جمہوریت کے نام پر کی جانے والی ہر برائی چھوٹی برائی ہوتی ہے اس لیے قابل قبول ہوتی ہے۔ع

جمہوریت بھی چھوٹی برائی کا نام ہے

خبردار! اگر کوئی گنہگار ٹارگٹ کلر بڑی برائی یعنی ٹارگٹ کلنگ سے صدق دل سے توبہ کر کے چھوٹی برائی یعنی ٹی ٹی کی نوک پر ڈاکا زنی کا پیشہ اپنانا چاہتا ہے، تو یہ اپنی ذمے داری پر کر سکتا ہے۔ سیاسی پنڈت اس کے ہر گز ذمے دار نہیں ہوں گے۔ بے شک وہ پنڈت ہیں لیکن ہیں تو سیاسی!

ملک کے طاقتور حلقوں کا خیال یہ ہے کہ مارشل لا کا راستہ صرف اور صرف جمہوری روایات کی حامل مستحکم عوامی جمہوریت سے ہی روکا جا سکتا ہے کرپشن مآب لارا لپا جمہوریت سے نہیں۔ آئین کے آرٹیکل چار کم دس آنے سے پہلے دو اور آنے کے بعد دو مارشل لا آچکے ہیں۔ نئی حکومت کی پہلی ہی جمہوری سالگرہ ہوئی ہے لیکن گاہے بگاہے پانچوں مارشل لا کی آمد کے کریکر بھی پھٹ رہے ہیں۔ کون ہے اس پردہ زنگاری میں؟ بس چپ۔گستاخی نہیں۔

پاکستان میں جو بھی برسر اقتدار آتا ہے اس کو پیرس بنانے کا دعویٰ کرتا تھا۔ پیرس کیا بنتا اس کوشش میں آدھا پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ آخر برطانیہ، جاپان سے سبق کیوں نہیں سیکھا جاتا؟ چند جزیروں پر مشتمل جاپان جنگ عظیم کے دوران دو ایٹمی حملے پی گیا۔ سہہ بھی گیا مگر ہمت نہیں ہاری۔ ملک کے کھنڈرات کے درمیان اپنی معیشت کے ملبے پر بیٹھ کر دوبارہ معاشی سپر پاور بننے کا عزم کیا۔ اپنے بچے کھچے وسائل اکٹھے کیے اور اپنی آنے والی نسل کی اعلیٰ تعلیم و تربیت پر جھونک دیے۔ تا کہ ترقی یافتہ جاپان کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل ہوں۔ آج جاپان نہ صرف زندہ ہے بلکہ معاشی سپرپاور بھی۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ میں جاپانی کم قیمت سکہ ین ڈالر کی ناک میں نکیل ڈالے رکھتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر اپنے ملک کو ترقی یافتہ بنانا ہے تو اپنی نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم و تربیت سے لیس کرو۔ جو پاکستان کے فیوڈل معاشرے میں ناممکن ہے۔ کیونکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے میٹرک پاس کرنا لازم ہے۔ اس کے لیے اسکول میں داخلہ لینا ضروری ہے۔ مسئلے یہ ہے کہ اگر اسکول میں تعلیم دی جانے لگے تو پھر جاگیردار کی بھینسیں کہاں باندھی جائیں گی؟ اور ان کے آگے جمہوری، سیاسی اور اقتصادی بین بجانے والے کہاں سے امپورٹ ہوں گے؟

اب وقت آ گیا ہے کہ قوم کے بزرجمہروں کو سر جوڑ کر بیٹھنا پڑے گا اور حتمی طور پر یہ طے کرنا پڑے گا کہ عقل بڑی ہوتی ہے یا بھینس؟ اگر عقل بڑی ہوتی ہے تو پھر چاہے کشتوں کے پشتے لگ جائیں آخری فیصلہ ہو کر رہے گا۔ روشنی کے مینار اسکول باقی رہیں گے یا مراعات یافتہ بھینسیں!

تبدیلیوں کا سال

$
0
0

2014 تبدیلیوں کا سال ہے۔ دنیا بھر میں یکے بعد دیگرے تبدیلیوں پر تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ سب سے بڑی اور انتہائی اہم تبدیلی ہمارے مشرقی پڑوسی ملک بھارت میں رونما ہوچکی ہے جہاں برسوں پانی اقتدار کی باگ ڈور ہندو خاندان کی گھر کی لونڈی انڈین نیشنل کانگریس کے ہاتھوں سے نکل کر ہندو توا کا نعرہ بلند کرنے والی انتہا پسند جماعت آر ایس ایس کی لے پالک بی جے پی کے ہاتھوں میں آچکی ہے جس کے نتیجے میں کانگریس کی صفوں میں ایک ہلچل سی مچی ہوئی ہے جب کہ دوسری جانب ہندوستان کی دوسری سب سے بڑی اکثریت مسلمانان ہند کو بی جے پی کی آیندہ پالیسیوں کے حوالے سے شدید تشویش لاحق ہے۔

کیوں کہ ان کے لیے بابری مسجد کی شہادت کے عظیم سانحے اور گجرات کے مسلم کش فسادات اور مظفر نگر کے حالیہ خونی واقعات کو فراموش کردینا ناممکن ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی جس میں مختار عباس نقوی اور نجمہ، ہبت اﷲ جیسی نام نہاد مسلم شخصیات شامل ہیں مگر جس کی جانب سے عام انتخابات میں ایک بھی مسلم امیدوار کامیاب ہوکر پارلیمان میں نہیں آیا ہے، مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔

تبدیلی کی زبردست لہر نے دنیا کے بہت سے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ہمارے پڑوسی برادر ملک ایران میں تبدیلی کا یہ عمل ذرا پہلے تکمیل پذیر ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں صدر احمدی نژاد رخصت ہوچکے ہیں اور نئے قائد روحانی اپنے ملک کی رہنمائی کی ذمے داریاں سنبھال چکے ہیں۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ تبدیلی انتخابات کے انعقاد کے نتیجے میں قطعی پر امن طریقے سے واقع ہوئی اور ملک کے عوام نے اسے انتہائی خوش دلی کے ساتھ قبول کیا ہے۔

یہ اسی کا ثمر ہے کہ ایران کے ارتقائی عمل میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا ہے اور ملک و قوم کا کارواں اپنے نئے رہنما کی زیر قیادت ترقی کی شاہراہ پر حسب معمول گامزن رہتے ہوئے ترقی کی نئی نئی منزلیں طے کر رہا ہے۔ حالاں کہ  اس ملک کی خارجہ پالیسی کے رخ میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں۔ معروضی حالات کا تقاضا بھی یہی تھا کہ رخ تبدیل کیاجائے۔

ادھر مصر میں عرصہ دراز سے جاری سیاسی اوتھل پتھلی کے بعد گزشتہ دنوں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں نئے صدر عبدالفتح السیسی نے صدارتی منصب سنبھال لیا ہے۔ دو سال کے عرصے میں مصر کا صدارتی منصب سنبھالنے والے وہ دوسرے صدی میں سابقہ فوجی سربراہ نے حالیہ الیکشن میں اپنے مد مقابل سے تقریباً 97 فی صد زیادہ ووٹ حاصل کرکے یہ کامیابی حاصل کی ہے۔ صدر کی تقریب حلف برداری میں مصر کی حکومت نے کئی عالمی قائدین کو شرکت کی دعوت دی تھی جن میں ایران کے صدر حسن روحانی بھی شامل تھے۔ السیسی نے سابق صدر المرسی کو فوجی حمایت سے ہٹاکر اقتدار سنبھالا تھا اور رفتہ رفتہ جگہ بنائی تھی۔

مصر میں ان کے حامیوں کا خیال ہے کہ ان میں اتنی لیاقت اور صلاحیت موجود ہے کہ وہ ملک کو تین سال سے مسلسل درپیش سیاسی عدم استحکام پر قابو پاکر اسے ترقی کی شاہراہ پر ڈال سکتے ہیں۔ مصر میں ابھی انتخابات کا مرحلہ ادھورا ہے کیوں کہ وہاں پارلیمانی الیکشن ابھی ہونا باقی ہیں اگرچہ ان انتخابات کے انعقاد کی کسی حتمی تاریخ کا تعین ہونا ابھی باقی ہے لیکن قیاس کیا جاتاہے کہ یہ انتخابات سال رواں کے آخر میں منعقد کیے جائیں گے۔ تب تک پارلیمانی اختیارات بھی صدر السیسی کے پاس ہی رہیں گے۔

السیسی کی صدارتی انتخابات میں کامیابی پر فوری رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکا نے نئے صدر کے ساتھ تعاون کا عندیہ دیا تھا۔ اگرچہ بظاہر مصر میں طویل عرصے سے جاری سیاسی محاذ آرائی اور کشمکش کا باب اپنے اختتام کو پہنچتا ہوا نظر آرہا ہے لیکن اس ملک کے سیاسی Undercurrents اور غیر یقینی مدو جزر کو مد نظر رکھتے ہوئے یقین کے ساتھ کچھ کہنا یا کوئی سیاسی پیش گوئی کرنا محض قبل از وقت اور Premature ہی ہوگا۔ مصر کا سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور بیٹھے گا بھی یا نہیں ابھی سے اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔

ایک اور اسلامی یا مسلم ملک شام میں بھی صدارتی عام انتخابات ابھی حال ہی میں اختتام پذیر ہوئے ہیں جس کے سرکاری نتائج کے مطابق سابق صدر بشارالاسد کو وہاں کے عوام نے دوبارہ اپنا صدر منتخب کرلیا ہے۔ مگر ان صدارتی انتخابات کے بارے میں کھلم کھلا عدم اعتماد کا اظہار ان کے انعقاد کے قبل ہی سے کیا جارہا تھا۔ یہ انتخابات کن حالات میں اور کس انداز میں کروائے گئے ہیں یہ حقیقت پوری دنیا پر بالکل واضح اور روز روشن کی طرح سے عیاں ہے۔ شام کے عوام کی نظروں میں ان کے صدر کی وقعت اور اہمیت کتنی ہے۔

یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ امریکا کے وزیر خارجہ جان کیری نے شام کے صدارتی انتخابات کے بارے میں واشگاف الفاظ میں اپنے فوری اور شاید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ذرا بھی تکلف سے کام نہیں لیا اور کھلم کھلا کہہ دیا کہ ’’یہ انتخابات انتخاب ہی نہیں ہیں بلکہ ایک بہت بڑا زیرو ہیں‘‘ اسی کے ساتھ ساتھ امریکی وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان میری ہارف نے ان انتخابات کو بے حیائی اور بے شرمی سے تعبیر کیا ہے۔

صدر اسد کے خلاف عوامی شورش کا طوفان برپا ہونے کے بعد سے اب تک شام میں 162,000 کے لگ بھگ لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں جب کہ بعض عوام کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے اپنے گھروں سے بے گھر ہوکر تباہی و بربادی کا شکار ہے اور در بہ در ماری ماری پھررہی ہے۔ شام کے صدر نے انتخابات کا یہ ڈھونگ محض عالمی رائے عامہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی غرض سے رچایا ہے۔ لیکن در حقیقت ان کا یہ حربہ اہم نہیں۔ Back Fire کرلیا ہے۔

شام کے صدارتی انتخابات کے بعد آیئے اب افغانستان کے صدارتی انتخابات کا رخ کرتے ہیں جہاں صدارتی انتخابات کا دوسرا دور 14 جون کو ہونا باقی تھا۔ پہلے دور کے بعد ڈاکٹر عبداﷲ عبداﷲ اور ڈاکٹر عبدالغنی کی صورت میں دو امیدوار ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ انتخابات کا دوسرا دور افغانستان کے آئین کے تقاضے پر مبنی ہے جس کی رو سے اگر کوئی امیدوار 50 فی صد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے تو پھر دونوں سر فہرست امیدواروں کے درمیان مقابلے کا دوسرا دور منعقد کیا جانا لازمی ہے۔

چنانچہ نہ صرف افغان عوام بلکہ پوری دنیا کی نگاہیں اب صدارتی انتخابات کے اس دوسرے دور کے اختتام پر مرکوز ہیں۔ سیاسی مبصرین بھی اس تمام صورت حال کا پوری دلچسپی کے ساتھ مشاہدہ کررہے ہیں کیوں کہ اس انتخاب کے نتائج نہ صرف افغانستان کی داخلی صورت حال پر گہرے اثرات مرتب کریں گے بلکہ علاقائی اور مجموعی طور پر عالمی صورت حال پر بھی اس کے دور رس اثرات مرتب ہوںگے۔ دسمبر کے بعد کابل سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء پر بھی  یہ انتخابات بہت اثر انداز ہوں گے۔ چوں کہ افغانستان کے حالات سے سب سے زیادہ اور براہ راست متاثر ہونے والا ملک پاکستان ہی ہے لہٰذا وطن عزیز کی حکومتی، سفارتی، سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقوں میں بھی افغانستان کے صدارتی انتخابات کے نتائج پر سب کی بڑی گہری نظریں جمی ہوئی ہیں۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ڈاکٹر عبداﷲ عبداﷲ کا پس منظر پختون ہے جب کہ ان کے مد مقابل ڈاکٹر اشرف غنی ازبک پس منظر کے حامل ہیں۔ یہ بات بھی کچھ کم اہم نہیں ہے کہ ایک اہم سیاسی کھلاڑی زلمے رسول بھی جو کہ پختون ہیں اپنی سیاسی حمایت کا وزن ڈاکٹر عبداﷲ عبداﷲ کے پلڑے میں ڈال چکے ہیں جب کہ دوسری جانب معروف تاجک رہنما احمد شاہ مسعود کے بھائی کی تمام حمایت ڈاکٹر اشرف غنی کو حاصل  ہے۔ مگر اس اختلاف کے باوجود دو باتیں دونوں ہی صدارتی امیدواروں میں مشترک ہیں۔

اول یہ کہ ان دونوں میں سے کسی کو بھی امریکا کے ساتھ سیکیورٹی معاہدہ کرنے میں شاید کوئی بھی ہچکچاہٹ نہیں ہوگی اور دوسری بات یہ کہ بھارت نوازی کے معاملے میں بھی دونوں ہی کا رویہ کم و بیش ایک ہی جیسا ہوگا۔ گویا یہ معاملہ Natha Singh and Prem Singh one and the same thing دیکھنا یہ بھی ہے کہ کیا نئی افغان حکومت اس پوزیشن میں ہوگی کہ کابل کے علاوہ پورے افغانستان پر اپنی رٹ قائم رکھ سکے۔ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد اگر آیندہ افغان حکومت کی گرفت بعض صوبوں پر ڈھیلی پڑتی ہے تو  اس کے نتیجے میں ان صوبوں پر افغان طالبان کی گرفت ایک مرتبہ پھر مضبوط ہوسکتی ہے جنھیں پاکستانی طالبان کی ممکنہ مدد بھی حاصل ہوسکتی ہے۔ مستقبل کی صورت حال کے اعتبار سے 2014 کا سال وطن عزیز کے لیے انتہائی نازک اور اہم ہوگا۔

اندھیرا اور اندھیروں کا تعلق باہمی

$
0
0

میاں صاحب نے 1320 میگاواٹ کے جن دو منصوبوں کا افتتاح کیا ہے، یہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبے ہیں اور ہماری موجودہ اور سابقہ حکومتوں کے علم میں یہ بات تھی کہ ہمارے ملک میں کوئلے کے اتنے بڑے ذخائر ہیں کہ یہ ہماری ضرورتیں آنے والے تین سو سال تک پوری کر سکتے ہیں۔ یہ معلومات نئی نہیں ہیں بلکہ عشروں پرانی ہیں۔

کیا ماضی کی حکومتوں نے جن میں مسلم لیگ (ن) بھی شامل ہے کوئلے کے ان ذخائر سے استفادہ  کرنے کی کوشش کی؟ اگر نہیں کی تو کیا اس جرم نااہلی کی ذمے داری حالیہ اور سابقہ حکومتوں پر عائد نہیں ہوتی؟ بجلی اور گیس کی قلت کی وجہ سے ہماری بے شمار صنعتیں متاثر ہو گئی ہیں اور ان کی پیداواری صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی ہے، بجلی اور گیس کی قلت پر مکمل طور پر قابو پانے کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہے، کیا اس طویل عرصے تک ہماری صنعتی زندگی کا پہیہ جام نہیں رہے گا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کی سنگینی اور ذمے داری کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ کوئی ملک صنعتی ترقی کے بغیر اقتصادی ترقی کے راستے پر پیشرفت نہیں کر سکتا۔

صنعتی ترقی کی راہ میں بلاشبہ توانائی کی قلت بڑی اہمیت رکھتی ہے لیکن اس حوالے سے صنعتی ترقی کی راہ کا سب سے بڑا روڑہ ہمارا جاگیردارانہ نظام ہے جس کی بقا کا انحصار صنعتی پسماندگی ہے۔ اور بدقسمتی سے پچھلے 66 سال سے یہی طبقہ سیاست اور اقتدار پر قابض ہے۔ یہ طبقہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے کہ اگر ملک صنعتی ترقی کے راستے پر چل پڑا تو پھر نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام کا مستقبل خطرے میں پڑجائے گا۔ یہی وہ اصل وجہ ہے جو ہماری صنعتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہماری اقتدار مافیا بجلی اور گیس کی قلت کے مضمرات سے واقف ہوتے ہوئے بھی اس قلت کو دور کرنے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتی آ رہی ہے۔ اور یہ سب اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک اقتدار اور سیاست پر وڈیرہ شاہی کی گرفت مضبوط رہے گی۔

کیا ہمارے صنعتکار وزیر اعظم اس حقیقت سے واقف نہیں؟ساہیوال میں 1320 میگاواٹ کے دو منصوبوں کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے کہا کہ کوئلے سے چلنے والے ان دو منصوبوں کا آغاز ایک معجزے سے کم نہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت پنجاب اور چینی کمپنیاں جس تیزی سے اس منصوبے پر کام کر رہی ہیں اسے دیکھتے ہوئے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ یہ 660-660 میگاواٹ کے دو منصوبے دو سال میں مکمل ہو جائیں گے۔ ’’ہم ملک کو اندھیروں سے ضرور نکالیں گے۔‘‘

اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز برادران کی حکومت بجلی کی قلت دور کرنے کے لیے مختلف منصوبوں پر تیزی سے کام کر رہی ہے لیکن ملک کو بجلی کی جس قلت کا سامنا ہے وہ اس قدر زیادہ ہے کہ 1320 میگاواٹ کے کئی منصوبے بھی اس قلت کو دور نہیں کر سکتے اور اس حوالے سے بنائے جانے والے منصوبوں کا دورانیہ اس قدر طویل ہے کہ موجودہ حکومت اپنے اقتداری دورانیے میں شاید ملک کو اندھیروں سے نہ نکال سکے کیونکہ بجلی کی قلت پر قابو پانے کے لیے عشروں کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ہماری موجودہ حکومت بجلی کی قلت کی ذمے داری سابق حکومتوں پر ڈالتی ہے۔

بلاشبہ آج ملک کو بجلی کی قلت کا جو سامنا ہے اس کی ذمے داری سابق حکومتوں پر عائد ہوتی ہے لیکن ان سابق حکومتوں میں خود مسلم لیگ (ن) بھی شامل ہے کیونکہ ملک کو بجلی کی جس قلت کا سامنا ہے اس سے بچنے کے لیے عشروں پہلے منصوبہ بندی کی جانی چاہیے تھی۔دنیا کی ذمے دار اور عوام کو جوابدہ حکومتیں قومی اہمیت کے حامل مسائل کے حل کے لیے عشروں پہلے ہی سے منصوبہ بندی شروع کرتی ہیں۔ بلکہ ترقی یافتہ ملکوں کے منصوبہ ساز سو سو سال پہلے ہی آنے والی مشکلات سے بچنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، اس لیے ان ملکوں کو ایسے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جن کا سامنا ہم کر رہے ہیں۔

بجلی اور گیس، توانائی کے ایسے ذرایع ہیں جن کا تعلق صرف عوام کی گھریلو ضرورت ہی سے نہیں بلکہ ملک کی صنعتی ضرورت سے بھی ہے۔ آج بجلی اور گیس کی قلت سے صرف گھریلو صارفین ہی متاثر نہیں بلکہ ہماری صنعتی زندگی کا پہیہ بھی جام ہوکر رہ گیا ہے۔ سیکڑوں کارخانے گیس اور بجلی کی قلت سے دوچار ہیں اور لاکھوں مزدور بجلی گیس کی قلت کی وجہ سے بے روزگاری سے دوچار ہیں۔ کیا اتنے بڑے قومی جرم کو محض سابقہ حکومتوں کی نااہلی کہہ کر ٹالا جا سکتا ہے؟ہمارے ملک میں دو طرح کے اندھیرے ہیں، ایک کا تعلق بجلی گیس سے ہے، دوسرے کا تعلق معاشی ناانصافی سے ہے۔ بجلی کی پیداوار میں اگر اضافہ ہو گا تو بجلی کی قلت سے پیدا ہونے والے اندھیرے دور ہو سکتے ہیں لیکن معاشی ناانصافی سے پیدا ہونے والے اندھیروں سے کس طرح نجات حاصل کی جا سکتی ہے؟

یہ سوال بجلی سے پیدا ہونے والے اندھیروں سے زیادہ اہم اس لیے ہے کہ اس کا براہ راست تعلق اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کے حال اور مستقبل سے ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے اور پسماندگی کو عوام کی معاشی زندگی سے ناپا جاتا ہے۔ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کی معاشی زندگی اس قدر بدتر ہے کہ خود ہمارے وزیر خزانہ کے مطابق ہماری آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ بتایا جاتا تھا کہ پاکستان کی 40 فیصد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہے، ہمارے وزیر خزانہ نے انکشاف کیا ہے کہ ہماری 9 کروڑ آبادی کی روزانہ آمدنی صرف دو ڈالر یعنی دو سو روپوں سے کم ہے اور یہ آمدنی دنیا کے پسماندہ ملکوں کی آمدنی سے بھی کم ہے۔

ہماری معاشی زندگی کی گاڑی عوام کے کندھوں سے چلتی ہے یعنی ہماری قومی پیداوار ہماری قومی دولت کے پیدا کرنے میں غریبوں، محنت کشوں کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے۔ معمولی عقل رکھنے والے کے ذہن میں فطری طور پر یہ سوال پیدا ہو گا کہ معاشی زندگی کو سنوارنے والوں کی زندگی اس قدر تاریک کیوں ہے کہ وہ دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہے؟اس سوال کا جواب یہ ہے کہ عوام اپنی محنت سے جو دولت پیدا کرتے ہیں اس پر ایک چھوٹا سا طبقہ بذریعہ کرپشن قبضہ کر لیتا ہے۔ جب ملک کی 80 فیصد دولت دو فیصد سے کم لوگوں کے ہاتھوں میں جمع ہو جائے تو پھر 98 فیصد یقیناً دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہو جائے گا۔ وہی ہمارے ملک میں ہوتا رہا ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ اس لٹیرے طبقے کے 200 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں جمع ہیں اور اس سے زیادہ دولت دوسرے ملکوں کے محفوظ اکاؤنٹس میں جمع ہے، کیا یہ ساری دولت غریبوں کی محنت سے پیدا کردہ نہیں ہے؟ اگر ہے تو پھر یہ دولت جس میں بینک نادہندگان کی دو کھرب روپوں کی دولت بھی شامل ہے عوام کے تصرف میں کیوں نہیں آتی؟ جو غربت کی اصل وجہ ہے۔ملک کی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں جب انتخابات لڑتی ہیں تو ان کا سب سے بڑا ہتھیار غربت کم یا ختم کرنے کا نعرہ ہوتا ہے، ہمارے جیسے پسماندہ ملکوں میں اگرچہ انتخابات بھی ایک بہت بڑی عیاشی ہے اور اس عیاشی سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جن کی جیب میں کروڑوں روپے ہوتے ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ بھارتی انتخابات میں بی جے پی نے 68 کروڑ ڈالر خرچ کیے، یہ 68 کروڑ ڈالر نریندر مودی کی ملکیت نہیں تھے بلکہ نریندر مودی کو انتخابات جتوانے والوں کی ملکیت ہیں اور یہ سیاسی سرمایہ کار انتخابات پر اتنا بڑا سرمایہ اس لیے لگاتے ہیں کہ یہی ایک ایسا کاروبار ہے جس سے ایک کے سو حاصل ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے عوام 1970ء سے اپنی تقدیر بدلنے معاشی ناانصافیوں کے اندھیروں سے باہر آنے کے لیے سیاسی وڈیروں کو برسر اقتدار لا رہے ہیں لیکن اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب 40 فیصد کے بجائے 50 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ ہماری وہ جمہوریت ہے جس کی تعریف میں اہل دانش اہل قلم زمین آسمان ایک کر رہے ہیں۔ کیا 66 سال کے اس ناکام تجربے کے بعد عوام اس کا کوئی ’’بہتر اور بامعنی ‘‘ حل تلاش کرنے کی سوچتے ہیں تو کیا وہ غلط کرتے ہیں؟

جرات مندو تمہیں سلام

$
0
0

تھوڑا ہی عرصہ گزرا ہے جب مہران ائیر بیس پر حملہ ہوا ، اب پھر وہی کہانی دہرائی گئی اور ایئرپورٹ جیسی حساس جگہ پر۔حملہ آوروں کے بھارتی اسلحے کے استعمال نے یہ بات بھی ثابت کردی ہے کہ اس کارروائی کے پیچھے کن کا ہاتھ ہے ۔

ان دونوں سانحات کے بعد سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر اس قدر اہم ترین جگہوں پر چاروں طرف سیکیورٹی فورسز کو کیوں نہیں تعینات کیا  گیا ؟ ایک واقعہ ظہور پذیر ہوجانے کے بعد تو زیادہ احتیاط کی ضرورت تھی کہ آیندہ کسی غفلت سے پاکستان کے دشمن فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ جو لوگ ایئرپورٹ آتے جاتے ہیں،انھیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ پہلوان گوٹھ سے جو راستہ ایئرپورٹ کی سمت جاتا ہے وہاں حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر تھے دشمن انھی جگہوں کو اپنے استعمال میں لاتا ہے اور مجرمانہ غفلت سے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھاتا ہے۔

اگر فوج مددگار نہ ہوتی تو آج پاکستان اپنے اختتام کی حد تک پہنچ جاتا ، فوج کی جواں مردی، حب الوطنی، نیک نیتی، جذبۂ شہادت کو پاکستان کا ہر شہری سلام پیش کرتا ہے، ہر برے وقت میں جب امید کے دیے ٹمٹما رہے ہوں، فوج انھیں بجھنے سے بچاتی ہے ، آندھی ہو یا طوفان، زلزلہ ہو یا سونامی فوج کے جوان اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور اللہ کی مدد سے برے وقت کو اچھے وقت میں بدل دیتے ہیں۔

ایئرپورٹ کے واقعے میں بھی سیکیورٹی فورسز نے ہی دشمن کے حملے کو پسپا کیا اور انھیں موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ سرحدوں کی حفاظت کرنے والے عظیم سپاہیوں کو ملک کے اندرونی حالات میں ملوث کرنا دانشمندی نہیں۔ متاثرہ اداروں کی اپنی بھی حکمت عملی اور دور اندیشی ہونی ضروری ہے اس قدر لاپرواہی ملک کے مفاد کے لیے نقصان دہ ہے، غلطیاں خود کرتے ہیں اور نمٹنا فوجی جوانوں کو پڑتا ہے، ہمارے بہت سے فوجی شہید ہوجاتے ہیں، بے شک شہادت ایک بڑا مرتبہ ہے، جو قسمت والوں کو نصیب ہوتا ہے، ہر کسی کا مقدر نہیں بنتا ہے۔

بڑے بڑے لوگوں اور صحابہ کرام کی خواہش تھی کہ وہ شہادت کے درجے پر پہنچ جائیں لیکن ان کی تمنا پوری نہ ہوسکی، صحابی رسولؐ حضرت خالد بن ولید جنھوں نے جنگ کے مواقعوں پر ہمیشہ دشمن کو پسپا کیا اور انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیف اللہ کا خطاب عطا کیا ان کی بھی آرزو پوری نہ ہوسکی۔

شہید ہونے والے تو دائمی زندگی پالیتے ہیں لیکن ان کے لواحقین ساری عمر غمزدہ رہتے ہیں کہ ان کا ’’اپنا‘‘اب ان میں نہیں ہے لیکن اس بات پر وہ فخر کرتے اور خوشی سے پھولے نہیں سماتے ہیں کہ ان کا اپنا شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوگیا، ایئرپورٹ کے واقعے میں بھی 21 شہادتیں ہوئیں اور تمام دہشت گرد بھی اپنے انجام کو پہنچے، پروازیں بھی بحال ہوگئیں جو جانی و مالی نقصان ہوا، خوف و ہراس پھیلا، مسافروں کو ذہنی اذیت کا سامنا اور فضائی سروس کو منقطع کرنا پڑا، بے شمار لوگ پریشانی اور دکھ میں مبتلا رہے، 3-2 طیاروں کو بھی نقصان پہنچا، آگ کے شعلوں نے فضا میں سرخی پیدا کردی، دور دور تک آگ اور دھواں پھیلا ہوا تھا۔ سوچنے کی یہ بات ہے کہ اس قسم کے حالات کا ذمے دار کون ہے؟

اگر پچھلے واقعے میں غفلت برتنے والوں کو سزا دی جاتی ، تو آج یہ حالات ہرگز نہ پیدا ہوتے۔ اتنی معمولی سی بات اعلی عہدوں پر فائز حضرات کی سمجھ میں کیوں نہیں آئی؟ کہ ایئرپورٹ کے داخلی راستوں پر تو سیکیورٹی موجود ہے جب کہ پچھلے راستے صاف ہیں اور اللہ نہ کرے کہ کبھی نہ کبھی برے حالات پیدا ہوسکتے ہیں، دہشت گرد فائدہ اٹھاسکتے ہیں، قومی اثاثے کو خسارہ ہوسکتا ہے۔ اب دیکھیے نا انسان گھر تعمیر کرتا ہے تو گھر کی چار دیواری بناتا ہے، ایسا تو کبھی نہیں ہوا کہ ایک راستہ کھلا چھوڑ دیا جائے اور تین دیواریں بنا دی جائیں، چونکہ ہر شخص اتنی عقل رکھتا ہے کہ کھلا ہوا راستہ پورے گھر اور گھر کے افراد کے لیے غیر محفوظ ثابت ہوگا، کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے، چور، ڈاکو آسکتے ہیں، عزت و وقار، جان و مال خطرے میں پڑ سکتا ہے، اسی لیے مضبوط دیواریں باؤنڈری وال کی شکل میں بنائی جاتی ہیں تاکہ سکھ کی زندگی بسر کی جاسکے۔

اسی طرح قومی و حساس اداروں کی حفاظت اور گزرے ہوئے حالات سے عبرت حاصل کی جانی بھی ضروری ہے، ورنہ انسان اور جانور میں کچھ فرق نہیں رہتا ہے، ادنیٰ اور اعلیٰ مخلوق دانائی کے اعتبار سے کبھی برابر ہوئی ہیں؟ کبھی نہیں، ہم اس جانور کو جو پالتو نہیں ہے بار بار منع کرتے ہیں لیکن وہ وہی کام کیے جاتے ہیں جن پر پابندی لگائی جاتی ہے، اس کی مثال بلیاں اور چوہے ہیں، چڑیاں نہیں، چڑیوں نے تو حال ہی میں ہمارے گھر کے اے سی کے اندر گھونسلا بنالیا چونکہ جس راستے سے پائپ جاتا ہے وہ سوراخ کھلا رہ گیا، گھونسلا بار بار ہٹانے کے باوجود وہ اپنا کام کرتی رہیں، یہی اگر انسان ہوتا، خواہ وہ ملازم ہی ہوتا، دوبارہ غلطی نہ کرتا۔ تو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل سلیم سے نوازا ہے اب وہ اگر دماغ کا استعمال نہیں کرتا، تو اس کی اپنی غلطی ہے۔ اپنی کوتاہی پر پردہ ڈالنے کے لیے وہ ہر بار بہانے تراشتا ہے۔

یہ واقعہ یا حادثہ چھوٹا نہیں ہے، سوئے ہوئے لوگوں کو بیدار کرنے کے مترادف ہے۔ ہماری حکومت کے اعلیٰ حکام کا بھی فرض ہے کہ وہ ہر ماہ دو ماہ بعد اہم تنصیبات اور اس کی حفاظت کے لیے حساس اداروں کا دورہ کریں، جہاں کہیں کمزوری نظر آئے تو اس کو دور کرنے کے احکامات صادر کریں، کولڈ اسٹوریج کا واقعہ بھی دل دہلانے والا ہے، ’’ایکسپریس‘‘ نیوز کی وجہ سے دوبارہ آپریشن ہوا، سات افراد کی لاشیں بھی ملیں، اور بھی بہت سی خفیہ جگہوں پر لوگوں نے پناہ لی ہے، سول ایوی ایشن کو اپنے فرائض انجام دینے میں کوتاہی نہیں برتنا چاہیے۔اسی غفلت سے اموات میں اضافہ ہوتا ہے۔

اور شرمندہ مت کرو

$
0
0

جہالت، مفاد پرستی اور بے حسی سے بنے، ان بے ضمیروں کی کھوپڑیوں کو اگر ایک جگہ جمع کر لیا جائے تو شاید پہاڑ بن سکتا ہے لیکن ایک انسان نہیں بن سکتا۔ پتھر کا دل رکھنے والے یہ، انسانوں کے مرنے پر اپنا ایک بیان جاری کر کے تمام ذمے داریوں سے جان چھڑا لیتے ہیں اور اگر کبھی اردگرد شور بڑھ جائے تو ہماری کھالوں کو ہمارے جسموں سے نکال کر اُس پر ہمارے لہو سے ایک فرمان جاری کر دیتے ہیں کہ کمیٹی بنا دی جائے۔

یہ ہماری زندگی کو کوڑیوں کے دام اور ہماری موت کو مہنگے داموں فروخت کر کے ہم پر راج کرتے ہیں۔ لاشیں گرتی رہتی ہیں اور ان کے راج کو طول دیتی رہتی ہیں۔ کیوں دل کو جلاتے ہو یہ کہہ کر مہران بیس پر حملہ ہوا تھا، اب نہیں ہو گا۔ یہ کوئی امریکا تھوڑی ہے جہاں ایک بار اگر 9/11  ہو گیا تو اگلی بار نہیں ہو گا۔ یہ کوئی برطانیہ تھوڑی ہے جہاں ٹرین میں 7/7 ہو گیا تو اب  ٹرین میں سفر کرنیوالے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئے۔ یہ مغرب کے فحش ملک تو بے جان پتھر ہیں جہاں ایک بار دھماکے ہو گئے تو اگلی بار نہیں ہونگے۔ ہم تو زندہ انسان ہے ہر روز یہاں لوگوں کی لاشوں کا تماشہ لگے گا اور دنیا کو معلوم ہو گا کہ دیکھو زندہ قومیں ایسی ہوتی ہیں۔

تم اور میں لاکھ پتھر اٹھا کر امریکا کو گالیاں دیں، ہم اُسے فحش ملک قرار دے کر اپنے چہروں پر نقاب لگا لیں اور ہمارے ہزاروں نوجوان بھلے اُس کے ویزے کے لیے لمبی قطاروں میں کھڑے رہیں۔ لیکن ایک لمحہ کے لیے تو سوچو کہ وہاں  9/11  کے بعد دوسرا حملہ کیوں نہیں ہوا؟ اس لیے نہیں ہوا کہ  وہ کافر وں کا ملک ہے یا پھر اس لیے نہیں ہوا کہ وہاں کے حکمران (ہمارے مطابق) فحش تو ہو سکتے ہیں لیکن اپنی زمین میں دو پیروں پر چلنے والی اس مخلوق کو انسان سمجھتے ہیں ۔سنو ۔سنو ۔ ہم لاکھ اعتراض کریں کہ امریکا نے دنیا میں لاکھوں لوگوں کو قتل کیا لیکن کوئی یہ تو بتائے کہ امریکی حکمرانوں نے اپنے ہم وطنوں کے لیے کیا کیا ؟ کیا انھوں نے ہمارے حکمرانوں اور ہماری طاقتور قوتوں کی طرح اچھے اور برے دہشت گردوں کے درمیان ہمیں مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔

اخبار کی سرخیاں ہوں یا پھر ٹی وی کے چٹخارے، ہماری تاریخ کی کتابوں میں تو یہ لکھ دیا گیا کہ زائرین کو گولیوں سے بھون دیا گیا، سیکیورٹی فورسز پر حملے اور پھر ائیر پورٹ پر قبضہ۔ یہ کیا تماشہ ہے ؟ کبھی کہتے ہو کہ یہ سارے حملہ آور ہمارے ملک کے نہیں بلکہ کہیں اور سے آئے ہیں تو امریکا بھی یہ کہتا تھا کہ باہر سے آئے ہیں۔ مگر اندر والوں کا کیا قصور ہے۔ ریت میں آخر کب تک منہ چھپا کر ہمیں مرنے کے لیے چھوڑتے رہو گے ؟

چلو… کسی کو شوق ہے تو بالکل اُس شوق کو پورا کر لو۔ اور مذاکرات کر کے دیکھ لو مگر کیا ہوا اس مذاکرات میں؟ اگر وہ کسی سازش سے ناکام ہوئے ہیں تو  ہمیں بتا دو۔ جن کے لیے فیصلے کرتے ہو۔ انھیں تو باخبر رکھو۔ اگر آپ کو یقین ہے کہ اس میں باہر اور اندر والی قوتیں ہیں تو خدا کے لیے ہمیں تو بتاؤ ہم آپ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونگے۔ ہاں یہ دلیل بھی اچھی ہے کہ جب امریکا مذاکرات کر رہا ہے تو ہم کیوں نہیں کر رہے ؟ جناب بالکل کیجیے مگر ایک نظر ، صر ف ایک نظر جناب۔ ایک نظر کرم تو کیجیے۔ ذرا دیکھیں تو سہی کہ جب امریکا نے جنگ چھیڑی تو بھی اپنے فائدہ کے لیے اور آج اگر وہ مذاکرات کی میز کو سجا کر کچھ لے اور کچھ دے رہا ہے تو فائدہ کس کا ہو رہا ہے ۔؟

یہ ڈھنڈورا پرانا ہو گیا کہ امریکا کو عبرت ناک شکست ہوئی ہے اور وہ اب افغانستان سے نکل رہا ہے اُس کو بہت زیادہ مالی نقصان ہو رہا ہے۔ تو جناب یہ بتائیے کہ اتنا ہی پیسہ اب امریکا شام اور دیگر جگہوں پر کیوں لگا رہا ہے ؟ اُسے تو ہر جگہ سے اپنا ہاتھ اور پیسہ کھینچ لینا چاہیے مگر ایسا نہیں ہو رہا۔چلیں آپ بھی پھر مذاکرات کرلیں ۔لیکن ہمارے لوگوں کو کبھی ائیر پورٹ اور کبھی گھروں میں مقید کرنے سے تو باز آئیں۔ جناب کیا کراچی ائیر پورٹ پر ہونے والے سانحہ کو میں آخری سانحہ سمجھوں۔ یا پھر میں اُن لوگوں کو یقین دلا دوں جو ایک عرصے سے اجتماعی لاشیں اٹھا کر اجتماعی جنازوں کے بعد ایک ہی قبر میں سب کو دفن کر رہے ہیں ؟ میں اُن کو کیسے یقین دلائوں کہ اب آپ کے زائرین پر حملہ نہیں ہو گا۔ آپ بھی برابر کے شہری ہیں اور آپ ہم سے الگ نہیں ہیں ۔

کبھی ایک لمحہ کے لیے سوچا ہے کہ  7/7 کے بعد برطانیہ میں حملہ کیوں نہیں ہوا ۔؟ اُن کی فوج اُن کی قیادت اور اُن کے عوام کسی صورت میں دہشت گردی یا نفرت کی سیاست کی  طرف نہیں جانا چاہتے۔ جگہ جگہ ہمارے یہاں نفرت  پھیلانے والی فیکٹریاں کھولی ہیں اور ہم نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ اور نا جانے کب تک یہ آنکھیں بند کیے ہم خوشحالی، امن اور سکون کے خواب اپنے لوگوں کو دکھاتے رہیں گے۔ اور دنیا ہمیں ایک ایسی ریاست کے طور پر پیش کرتی رہے گی جہاں صرف خون ہی خون ہے۔ جہاں نفرتیں ہی نفرتیں ہیں، ہم لاکھ انکار کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں عقائد اور زبان کی بنیاد پر نفرتوں کی جڑیں بہت مضبوط ہوتی جا رہی ہیں۔ ہم پر لوگ اعتبار نہیں کرتے۔ ایک خبر نظر سے گزری اور سوچا کہ جن کو سینے سے لگائے ہم دوستی کے گن گاتے رہتے ہیں وہ بھی اب ہم پر کسی حوالے سے بھروسہ نہیں کرتے ۔

میرے دوستو ۔ ناراض مت ہو، لیکن یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں بہت اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ ایک چھوٹی سے مثال دوں۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ آپ کو یقین نہ آئے جیسے مجھے یہ خبر پڑھ کر نہیں آیا تھا کہ یہ جنوری کی 18 تاریخ تھی۔ جب  ایران کے شہر تہران میں ایک واقعہ ہوا تھا ،کہتے ہیں کوئی جرمانہ وغیرہ کا معاملہ تھا۔ آپ سمجھ دار ہیں سمجھ گئے ہونگے مجھے کچھ بتانے کی ضرورت نہیں۔عالمی سطح پر ہماری عزت میں کمی ہو رہی ہے ایسا کیوں ہے کہ کچھ لوگ آج بھی اس الجھن میں ہیں کہ قاتل کون سا اچھا ہوتا ہے اور کون سا برا ۔ جب تک یہ الجھن رہے گی ہم ہر پل شرمندہ ہوتے رہیں گے اور خون، پانی کی طرح بہتا رہے گا …ایک معمول کی طرح ۔

وہ جب اعلان کرتے ہیں بجٹ کا

$
0
0

’’غریبوں ہی کا ہوجاتا ہے جھٹکا‘‘ پچیس تیس سال پہلے کسی بجٹ کے اعلان پر حبیب جالب نے یہ لکھا تھا اور یہ صورتحال گئے کئی سالوں کی ہوگی اور آج بھی وہی صورتحال ہے۔ غریب بے چارہ حالات کی چکی میں بری طرح پس رہا ہے اور ’’وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے‘‘ یہ جنھیں ہم جل بھن کے بے ضمیرکہتے ہیں ان لوگوں نے عوام کی کڑوی کسیلی باتیں سننے اور ڈھیٹوں کی طرح بے ہنگم قہقہے لگانے کا وطیرہ اپنالیا ہے۔ عوام کو بکنے دو اور اپنے کالے کرتوت جاری رکھو۔

ہر سال جون میں بجٹ آتا ہے اور غریبوں کی جون مزید بدل کر چلا جاتا ہے۔ جب ممبران پارلیمنٹ کو اپنی تنخواہیں بڑھانا ہوتی ہیں تو کیا حزب اقتدار اور حزب اختلاف سب مل کر اپنی تنخواہوں میں 200 فی صد اضافہ کرلیتے ہیں اور دیگر مراعات اس کے علاوہ۔ ایسا ظالمانہ کام کرتے ہوئے غم گساران ملک و قوم کو ذرہ برابر احساس نہیں ہوتا کہ ہم غریب کلرکوں، پنشنروں اور مزدوروں کی تنخواہوں میں صرف دس فیصد اضافہ کر رہے ہیں اور خود اپنی تنخواہوں میں دو سو فیصد۔

میں کہتا ہوں کہ ان اربوں کھربوں پتیوں کو تنخواہوں اور مراعات کی کیا ضرورت ہے۔ ان کی تجوریوں سے تو ابل ابل کر اچھل اچھل کر روپیہ پیسہ گر رہا ہے۔ ان کے محلوں میں تو روپیہ پیسہ بہہ رہا ہے۔ ان کے بچے تو روپوں پیسوں سے کھیلتے ہیں۔ پھر بھی ان کا پیٹ نہیں بھرتا۔ ان کا پیٹ ہے کہ ’’لالو کھیت‘‘ ہے، معاف کرنا۔ ان غاصبوں کے پیٹ کو ’’لالو کھیت‘‘ کہنے پر کہیں لالو کھیت کے عوام مجھ سے ناراض نہ ہوجائیں کہ ان لٹیروں سے ہمیں کیوں ملایا۔ لہٰذا میں عظیم عوامی بستی لالو کھیت کے الفاظ واپس لیتا ہوں۔ پتا نہیں ان کا پیٹ کیا ہے۔

پچھلے سال غریب کلرک اور چپراسی کی تنخواہ 12 سے 15 ہزار روپے تھی۔ اس تنخواہ میں سرکار کے دریائے سخاوت سے دس فیصد اضافہ ہوگیا اور ماہانہ تنخواہ 13200 روپے سے 16500 روپے ہوگئی اور مہنگائی کے تناسب نے غریب کلرکوں، چپراسیوں کی تنخواہوں سے تقریباً پانچ ہزار روپے چھین لیے۔ یعنی تنخواہیں بڑھنے کی بجائے 8200 روپے سے 11500 روپے تک رہ گئیں۔

غریب کلرک، چپراسی، مزدور کیا کھائے گا یہی آلو، آٹا، دال، چاول، گھی بس۔ ان ہی اشیا کی قیمتوں کا موازنہ ہی بہت کافی ہوگا کہ پیٹ بھرنا ہوگا۔ یہ ہمارے ’’غم گسار‘‘ ممبران پارلیمنٹ جنھوں نے قوم کو بھکاری بنادیا ہے اور خود ہمارے ہی خون پسینے کے پیسے سے عیش کر رہے ہیں۔غریب کلرک، چپراسی، مزدور کے بچے بچیاں دو دو، تین تین ہزار روپوں کی نوکریاں کر رہے ہیں یا مزدوریاں کر رہے ہیں۔ اور ظالموں، غاصبوں، لٹیروں کے بچے اعلیٰ کھانے و مشروب کھا پی رہے ہیں۔ اعلیٰ گاڑیوں میں گھومتے ہیں، جی چاہے تو اپنے اسلحے سے بندے بھی پھڑکا دیتے ہیں۔

مزید صورت حال یہ ہے کہ جو حکومت کر رہے ہیں وہ ظلم کر رہے ہیں اور جو حکومت سے باہر ہیں انھیں ظلم نظر آرہے ہیں اور وہ مظلوموں کی فریاد، پکار لے کر لندن کی ٹھنڈی فضاؤں میں ’’ظالموں‘‘ کے خلاف نئی صف بندی کر رہے ہیں۔ اور میں سوچ رہا ہوں ابھی کل جب یہ برسر اقتدار تھے تو انھوں نے غریب کی کیا داد رسی کی تھی، ایک سال پہلے ہی کی بات ہے ہماری پیپلز پارٹی حکومت کر رہی تھی۔ تب بھی غریب کا یہی حال تھا اور وارے نیارے تھے بے ضمیروں کے۔ اس سے پیچھے چلے جاؤ۔ اپنے مسلم لیگ (ق) والے چوہدری برادران، جنرل پرویز مشرف کے ساتھ حکمرانی کر رہے تھے۔ تب بھی غریب کا ایسا ہی برا حال تھا۔ اور پیچھے چلیں تو کبھی پیپلزپارٹی کبھی (ن) لیگ، حکومتیں بدلتی رہیں نہ بدلی تو غریب کی تقدیر۔

اب کل کے حکمران آج کے حکمرانوں  کے خلاف غریب کی داد رسی کی آڑ لے کر خوب برس رہے ہیں کہ عمران خان اسلام آباد، فیصل آباد اور ’’اقبال آباد‘‘ یعنی سیالکوٹ میں بڑے بھاری جلسے کرچکے، عمران خان جب چلا تھا تو اس کا اور ہی رنگ تھا اور آج اس کے رنگ ڈھنگ بدلے ہوئے ہیں۔ مجھے کیا خبر تھی کہ کبھی مجھے اس گانے کے بولوں کا سہارا لینا پڑے گا۔ لتا جی نے یہ گانا گایا تھا۔ نوک قلم پر آگیا ہے ’’بدلے بدلے میرے سرکار نظر آتے ہیں‘ گھرکی بربادی کے آثار نظر آتے ہیں۔‘‘ عمران خان تحریک انصاف والے اور ان کے دائیں بائیں بیٹھے ’’احباب‘‘ کو میں دیکھ رہا ہوں۔ جہانگیر ترین (ذاتی ہیلی کاپٹر والے) شاہ محمود قریشی، مخدوم جاوید ہاشمی، شیخ رشید، خورشید محمود قصوری۔ ’’یہ کیسا انصاف ہے؟‘‘۔۔۔۔۔’’ لکھاہے ان کے چہروں پر جو ہم کو فیصلہ دیں گے۔‘‘ یہ احباب بھی بطور ممبر پارلیمنٹ بھاری تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں۔ جب کہ یہ سب اربوں پتی لوگ ہیں۔

جالب صاحب کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ وہ یوم مئی کے جلسے کی صدارت کر رہے تھے اور اپنی پیپلز پارٹی کے وزیر محنت مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک تھے۔ وزیر موصوف نے صدارتی خطاب سے پہلے ایک لمبی سی تقریر کرڈالی، بس ادھر ادھر کی باتیں۔ آخر میں جالب صاحب صدارتی تقریر کرتے ہوئے بولے ’’یہ جو ہر سال یوم مئی کے جلسوں میں وزرا لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں، انھیں یہ لمبی لمبی تقریریں نہیں کرنا چاہئیں اور مزدوروں کی فلاح و بہبود کے بارے میں سال بھر کی کارکردگی رپورٹ پیش کرنا چاہیے اور مزدوروں کے لیے کچھ بھی نہ کرنے پر ان سے معافیاں مانگنی چاہئیں اور اظہار شرمندگی کرنا چاہیے۔‘‘

خیر یہ تو جالب کی سوچ تھی ورنہ ایسا کہاں ہوتا ہے۔ شرمندگی تو ان  کی لغت میں شامل ہی نہیں۔ جو اپنے اپنے ادوار میں ظلم کرچکے۔ وہ پھر ’’معصوم‘‘ بن کر آنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ’’بٹتی رہے گی محلوں میں محلوں کی روشنی‘‘ اور کٹیاؤں میں بھوک، تنگی، بیماری، جہالت کے اندھیرے یوں ہی رہیں گے‘‘ جالب کہتا ہے:

الٰہی کوئی آندھی اس طرف بھی

پلٹ دے ان کلاہ داروں کی صف بھی

زمانے کو جلال اپنا دکھا دے

گرا دے تخت و تاج ان کے گرا دے

ہمارے خلاف طوفان بھی ’’باہر‘‘ پلتے ہیں، لندن میں بھائی الطاف حسین کی گرفتاری کا طوفان اٹھا۔ پانچ دن ہم طوفان کی زد پر رہے۔ کراچی سمیت پورا سندھ دن رات جاگتا رہا۔ خدا خدا کرکے طوفان ٹل گیا۔ ادھر کینیڈا سے مولانا طاہر القادری طوفان لے کر وارد ہونے کو ہیں۔ ہمارے چوہدری برادران بھی طوفان لیے لندن گئے ہوئے ہیں۔ مگر ایک خاموش طوفان یہاں بھی پل رہا ہے۔ اس کو بھی دھیان میں رکھنا۔ بات شروع ہوئی تھی بجٹ سے، جالب بجٹ پر تبصرہ کر رہے ہیں:

وہ جب اعلان کرتے ہیں بجٹ کا

غریبوں ہی کا ہوجاتا ہے جھٹکا

وہ ایوانوں میں سرمست و غزل خواں

وطن قرضوں کی سولی پر ہے لٹکا

مقدر ہے ہمارا تشنہ کامی

بھرا رہتا ہے کم ظرفوں کا مٹکا

غم دنیا میں کچھ کھوئے ہم ایسے

خیال آتا نہیں اب اس کی لٹ کا

ہم اپنی منزلیں خود ڈھونڈ لیں گے

ہمیں اب اور اے رہبر! نہ بھٹکا

جو وہ محسوس کرتا ہے کہے گا

کہ جالب بھی ہے پکا اپنی ہٹ کا


ایم کیو ایم کی آزمائش

$
0
0

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی رہائی کی خبر سے ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں آنے والے ابال میں فی الحال ٹھہرائوآگیا ہے اور مختلف النوع قیاس آرائیوں اور چہ میگوئیوں کا سلسلہ بھی وقتی طور پر رک گیا ہے۔ تاہم باخبر حلقوں کی جانب سے الطاف حسین بھائی کی گرفتاری و رہائی کے بعد جن تحفظات و خدشات کا اظہارکیا جارہا ہے اس کے پس منظر میں ملکی سیاست بالخصوص سندھ اورکراچی و حیدرآباد کے سیاسی ماحول پر پڑنے والے اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

الطاف حسین بھائی کی رہائی کی خبر آتے ہی کراچی، حیدرآباد اور ملک کے دیگر علاقوں میں متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں، ہمدردوں، بہی خواہوں نے جو دھرنے دے رکھے تھے وہ ختم ہوگئے۔ شرکا میں اپنے محبوب قائد کی رہائی کی خبر سنتے ہی خوشی و مسرت کی لہر دوڑ گئی اور ہر جگہ جشن کا ماحول پیدا ہوگیا۔ قائد تحریک نے دھرنے کے شرکا اور کارکنوں سے ٹیلی فونک خطاب کیا، انھوں نے کہاکہ میں نے کبھی اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا نہ کبھی اصولی موقف سے پیچھے ہٹا، میرا مقدمہ عدالت میں ہے، فتح حق و سچ کی ہوگی، انھوں نے تعاون پر وزیراعظم، سابق صدر و دیگر کا شکریہ ادا کیا۔

قائد تحریک الطاف حسین بھائی کی گرفتاری کی خبر عین اس وقت پاکستان پہنچی جب  وزیر خزانہ  اسحاق ڈار صاحب قومی اسمبلی میں اپنی حکومت کا دوسرا بجٹ پیش کرنے والے تھے، عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ جب بھی وفاقی بجٹ پیش کیا جاتا ہے تو پورے ملک کی نظریں قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس پر لگی ہوتی ہیں پورا میڈیا سیاسی و صحافتی حلقے اور مبصرین و تجزیہ کار بجٹ تقریر کے خدوخال پر بحث کرتے نظر آتے ہیں لیکن تین جون کو لندن کی میٹروپولیٹن پولیس نے غیر متوقع طور پر اچانک شمال مغربی لندن میں الطاف حسین کی رہائش گاہ میں داخل ہوکر انھیں حراست میں لے کر پولیس اسٹیشن منتقل کردیا۔

اس خبر کے پاکستان پہنچتے ہی پورا ماحول یکسر تبدیل ہوگیا، وفاقی بجٹ سے لے کر امن وامان تک کے تمام معاملات پس منظر میں چلے گئے اور پورا الیکٹرانک میڈیا لندن کو فوکس کرنے لگا، تمام چینل پر الطاف حسین کو حراست میں لیے جانے کی خبر کو ’’بریکنگ نیوز‘‘ کے طور پر پیش کرنے لگے۔ مبصرین و ماہرین نے الطاف حسین کی گرفتاری پر ان کے ماضی، حال اور مستقبل اور ایم کیو ایم کے قومی سیاست میں آیندہ کے کردار کے حوالے سے تبصرے اور تجزیے کرنا شروع کردیے۔

ادھر قائد تحریک کو حراست میں لیے جانے پر کراچی، حیدر آباد، اندرون سندھ میں بڑی تعداد میں کارکنوں اور ہمدردوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے دھرنے شروع کردیے جو مکمل طور پر  پرامن رہے اس نازک اور حساس موقعے پر ایم کیو ایم کی قیادت نے نہایت صبر و تحمل، ضبط و برداشت کے ساتھ ساتھ بالغ نظری، حب الوطنی اور سیاسی دانش مندی کا شاندار مظاہرہ کیا۔ دنیا جانتی ہے کہ ایم کیو ایم کے کارکنان  قائد تحریک الطاف حسین سے والہانہ محبت و عقیدت رکھتے ہیں اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کی جانب سے منی لانڈرنگ کیس میں قائد تحریک کی گرفتاری کی خبر ان کے لیے ناقابل برداشت ہے اور وہ اپنے قائد پر لگنے والے الزامات کے جوابات میں بھرپور احتجاج ریکارڈ کرانے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

تاہم رابطہ کمیٹی کراچی کے کنوینر مقبول صدیقی اور سینئر رہنمائوں ڈاکٹر فاروق ستار، حیدر عباس رضوی، فیصل سبزواری ودیگر نے کارکنوں کو پر امن رہنے اور قانون ہاتھ میں نہ لینے کی اپیل کی، دوسری جانب وزیراعظم میاں نواز شریف، سابق صدر اور پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری سمیت دیگر سیاسی رہنمائوں نے بھی آزمائش کی اس گھڑی میں متحدہ قومی موومنٹ سے اظہار یکجہتی کیا اور حکومتی سطح پر یہ معاملہ قابل ستائش ہے کہ الطاف حسین تک نہ صرف قونصل رسائی بلکہ اس کیس میں ان کی قانونی مدد بھی کی جائے گی۔ ہر دو جانب سے بروقت کیے جانے والے فیصلوں اور دانش مندانہ اقدامات کے باعث قائد تحریک کی گرفتاری و رہائی کے دورانیے میں ملکی حالات کا پر امن رہنا خوش آیند اور قابل ستائش ہے۔

توقع یہ کی جانی چاہیے کہ آنے والے  حالات میں بھی ہر دو فریق کی جانب سے افہام و تفہیم، سیاسی موقف، حب الوطنی اور قیام امن کے لیے باہمی تعاون کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ کیوں کہ ملکی حالات کسی بھی سطح پر  پرامن قرار نہیں دیے جاسکتے، فتح جنگ میں ایک خودکش حملے میں دو اعلیٰ فوجی افسران کی شہادت اور طالبان کی جانب سے اس کی ذمے داری قبول کرنے کے بعد مزید حملوں کی دھمکیاں اور فورسز کو نشانہ بنانے کی خبروں کے باعث ملکی حالات کو کس طرح پر امن قرار دیا جاسکتا ہے۔ کراچی تا خیبر امن وامان کی غیر تسلی بخش صورت حال نے ہر محب وطن شہری کو عجیب خوف و ہراس میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ان حالات میں قائد تحریک کی گرفتاری کی خبر نے جلتی پر تیل کا کام کیا لیکن قیادت کی دانش مندی سے حالات پوری طرح کنٹرول میں رہے۔

ایم کیو ایم پر یہ کڑا وقت اور آزمائش کے لمحات ہیں اور قائد تحریک الطاف حسین بھائی سمیت تمام کارکنوں کو پختہ یقین ہے کہ وہ مشکل حالات اور امتحان سے سرخرو ہوکر نکلیں گے کیوں کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے ایم کیو ایم ابتدا ہی سے آزمائشوں کا سامنا کرتی چلی آرہی ہے اور قائد تحریک اس سے قبل بھی اپنی سیاسی زندگی میں چار مرتبہ گرفتار ہوچکے ہیں، ماضی میں بھی ان پر قائم مقدمات واپس لیے گئے اور منی لانڈرنگ کیس میں بھی اپنا کامیاب دفاع کرنے میں مکمل سنجیدہ ہیں اور قانون کا راستہ اختیار کریںگے، انھیں اپنے وکلا، حکومت پاکستان اور سب سے بڑھ کر لاکھوں مخلص کارکنوں کی ہمدردیاں اور بھرپور اعتماد حاصل ہے۔ اگرچہ قائد تحریک شدید علیل ہیں مختلف النوع عوارض نے انھیں گھیر رکھا ہے لیکن ان کا عزم و حوصلہ بلند ہے جو ان کی تین عشروں کی سیاسی زندگی کا حاصل ہے۔

الطاف حسین بھائی نے 11جون 1978کو آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی پھر انھیں اس طلبا تنظیم کو عوامی سطح پر پھیلاتے ہوئے مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ تک لے گئے اس دوران مد و جزر کے کئی مقام آئے لیکن ان کے چاہنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ نتیجتاً ایک طلبا تنظیم نے مکمل طور پر سیاسی جماعت کے قالب میں ڈھل کر قومی سیاسی منظر میں اپنا ایک الگ مقام اور شناخت بنالی اور صوبائی حکومت سے لے کر وفاقی حکومت تک ہر فورم پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ 1992 میں قائد تحریک نے ملکی حالات کے پیش نظر جلاوطنی اختیار کرلی اور لندن کو مستقل ٹھکانہ بنالیا گزشتہ دو عشروں سے وہ لندن ہی سے قومی سیاست میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ 2010 کے بعد انھیں ایک مرتبہ پھر آزمائشوں و امتحانوں سے گزرنا پڑ رہا ہے۔

ایم کیو ایم کے اہم رہنما ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس سے منی لانڈرنگ کیس تک قائد تحریک الطاف حسین کو اپنا دفاع کرنا ہے انھیں از خود اور لاکھوں کارکنوںکو یقین ہے کہ وہ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی مقدمات میں سرخرو ہوںگے اور ایم کیو ایم کی قیادت کرتے رہیںگے اس حوالے سے ایم کیو ایم میں انتشار اور ٹوٹ پھوٹ پیدا کرنے کی ان کے مخالفین اور بد خواہوں کی سازشیں ناکامی سے دو چار ہوںگی کیوں کہ ’’آزمائشیں‘‘ ارادوں کو مزید پختہ کرتی ہیں۔

کراچی عوامی چارٹر…

$
0
0

کراچی پاکستان کا دل، معاشی حب اورملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ جماعت اسلامی نے اس شہر میں امن وامان، ترقی وخوشحالی کے لیے ہمیشہ سے کردار ادا کیا ہے۔ جب بھی جماعت اسلامی کو موقع ملا ہے، اس نے اس شہر میں بلا تفریق رنگ ونسل اور مذہب خدمت کی ہے۔ عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے ادوار مثال کے لیے کافی ہیں۔ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے جس سفر کا آغاز کیا تھا، ہماری خواہش ہے کہ وہ سفر تسلسل کے ساتھ جاری رہے۔

جماعت اسلامی کراچی نے کراچی عوامی چارٹر پیش کیا ہے، جس میں کراچی کے سلگتے مسائل کے حل کے لیے وزیراعظم سے خصوصی پیکیج کا مطالبہ کیا ہے۔ خصوصاً ہم پانی، بجلی، ٹرانسپورٹ، انفرا اسٹرکچر، صحت، تعلیم اور سب سے بڑھ کر امن و امان کے حوالے سے عملی اقدامات کے آرزومند ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس پیکیج پر عملدرآمد سے نہ صرف یہ کہ کراچی ایک مرتبہ پھر تعمیر وترقی کا سفر شروع کرسکتا ہے، بلکہ کئی عشروں سے دہشت گردی، بدامنی، خوف اور معاشی بدحالی کے شکار عوام کو ریلیف دینے کا سبب بن سکتا ہے۔

ہم اس چارٹر میں جناب وزیراعظم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کراچی کے لیے پانی کے K4 منصوبے کا فوری آغاز کیا جائے۔ کراچی کو اس وقت 1151 ملین گیلن پانی یومیہ کی ضرورت ہے۔ جب کہ صرف 706 ملین گیلن پانی فراہم کیا جاتا ہے‘ ضایع اور چوری ہونے کے بعد کراچی کو صرف 530 ملین گیلن پانی یومیہ مل رہا ہے۔ K4، 650 ملین گیلن یومیہ کا منصوبہ ہے۔ اگر یہ شروع کردیا جائے تو فوری طور پر کراچی کی پانی کی ضرورت پوری ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ کراچی کو اللہ نے سمندری پانی کا ذخیرہ دیا ہے، اس پانی کو استعمال کرنے کے لیے پلانٹ لگایا جائے۔ دنیا کے کئی بڑے شہروں میں یہ نظام رائج ہے اور وہاں پانی کی قلت کو اسی کے ذریعے دور کیا جاتا ہے۔

جماعت اسلامی کے سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے دور میں ماس ٹرانزٹ کوریڈور منصوبے کا پلان پیش کیا گیا تھا۔ اگر اس منصوبے کو عملی شکل دی جائے اور یہ کامیابی سے اختتام پذیر ہو تو کراچی کا ایک بڑا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔  اہم بات یہ ہے کہ اس منصوبے کی زمین مختص شدہ ہے۔ اس کی تکمیل سے کراچی میں ہیوی ٹریفک اور سویلین ٹریفک الگ الگ ہوجائیں گے۔ ان کوریڈور کے لیے کراچی ماسٹر پلان میں جگہ مختص ہے، لہٰذا سہراب گوٹھ، نارتھ کراچی، صفورا اور قائد آباد تک ان کو ریڈورز کو بنانے کے لیے حکومتی عزم کی ضرورت ہے۔

اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ 500 بڑی بسوں کے چلانے کا آغاز کیا جائے۔ یہ منصوبہ کراچی ماسٹر پلان کا بھی حصہ ہے اور اسے UTS یعنی اربن ٹرانسپورٹ اسکیم کا نام دیا گیا ہے۔ کراچی میں ٹرانسپورٹ ایک بڑا گھمبیر مسئلہ ہے۔ شہر میں طرح طرح کے تجربات کیے جارہے ہیں۔ منی بسیں اور چنگچی رکشوں کے ذریعے شہر کا ٹریفک نظام درہم برہم کردیا گیا ہے۔ بڑی بسوں کے ذریعے شہر میں ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر ہوگا تو 10 لاکھ سے زیادہ موٹر سائیکلوں اور 4 لاکھ سے زائد گاڑیوں پر دباؤ کم ہوگا۔ سڑکوں پر رش بھی کم ہوگا اور حادثات کی شرح میں کمی ہوگی۔

اسی طرح  کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور یہاں گزشتہ کئی دہائیوں سے حکومت نے کوئی یونیورسٹی قائم نہیں کی ہے۔ ایک وقت تھا کہ کراچی کی شناخت تعلیم تھی، لیکن بدقسمتی سے اب یہ شناخت مسخ ہوکر بوری بند لاشوں، بھتوں اور اغوا برائے تاوان کی نذر ہوچکی ہے۔ اس طویل عرصے میں محض دو اداروں کو یونیورسٹیوں کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ کراچی میں یونیورسٹی کی سطح کے تمام اداروں میں زیادہ سے زیادہ 25000 طلبہ داخلہ لے سکتے ہیں۔

ہم کراچی عوامی چارٹر کے ذریعے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ 2 جنرل یورنیورسٹیاں، 2 میڈیکل کالج، ایک خواتین اور ایک آئی ٹی یونیورسٹی قائم کی جائے۔ اس سے ان تعلیمی اداروں میں داخلوں کی گنجائش دگنی یعنی 50 ہزار ہوجائے گی اور اعلیٰ تعلیم کے دروازے عام آدمی کے لیے بھی کھل جائیں گے۔ اس کے علاوہ 50 نئے کالجز کے قیام اور 100 اسکولوں کو ماڈل اسکول کا درجہ دینا ہمارے عوامی چارٹر میں شامل ہے۔ کیونکہ تعلیمی ادارے نہیں ہوں گے تو نوجوانوں کے ہاتھ میں بندوق ہی آئے گی، کتاب نہیں۔

ہمارے پڑھے لکھے، محنتی قابل اور ہنر مند نوجوان مناسب روزگار نہ ملنے کے باعث شدید ذہنی اذیت اور معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ انھیں مناسب روزگار فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمے داری ہے۔ نوجوانوں کے لیے روزگار کے نئے مواقعے پیدا کیے جائیں۔ قومی اداروں کی نجکاری کے بجائے نفع بخش تنظیم نوکی جائے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ میں نئے کاروباری ادارے قائم کیے جائیں۔ نوجوانوں کے لیے 5 ارب کے غیر سودی قرضے دیے جائیں۔

سرکاری محکموں میں ملازمت کے لیے میرٹ کو بنیاد بنایا جائے۔ نیز کراچی کے تمام پوسٹ گریجویٹس کو ملازمت تک وظیفہ فراہم کیا جائے۔ کراچی کے بہت سے باصلاحیت نوجوان اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے اپنی تعلیم مکمل نہیں کر پاتے۔ اسی طرح چھوٹے تاجروں کو سہولتیں دی جائیں اور 10 لاکھ ماہانہ کاروبار کرنے والے تاجروں اور گھریلو صنعتوںکو 5 سال تک ٹیکس چھوٹ دی جائے۔ تاکہ چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والے ملکی معیشت کو مستحکم کرسکیں۔

ایک اہم اور سلگتا مسئلہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا ہے۔ کراچی کو اس وقت کم از کم 3500 میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہے جب کہ 2200 میگاواٹ بجلی مختلف ذرایع سے حاصل کی جارہی ہے۔ اس اعتبار سے 1300 میگاواٹ بجلی کم پیدا ہورہی ہے۔ جب کہ کراچی میں کے ای ایس سی کی پرائیویٹائزیشن کی شرط یہ تھی کہ شہریوں کو بجلی پوری ملے گی اور اس مقصد کے لیے پاور پلانٹس لگائے جائیں گے، لیکن کے ای ایس سی کی پرائیوٹائزیشن کے بعد سے اب تک کوئی پاور پلانٹ نہیں لگایا جاسکا۔ دوسرا بڑا عذاب اوور بلنگ ہے۔ جو بل ادا کرنے والوں سے نادہندگان کے بل وصول کرنے کا دھندا ہے۔

ضروری ہے کہ ابتدائی طور پر 500 میگاواٹ کے پلانٹ تعمیر کیے جائیں اور شہریوں کو اوور بلنگ کے عذاب سے نجات دلائی جائے۔  اگر صنعتیں بجلی اور گیس سے محروم رہیں تو ملکی معیشت کیسے ترقی کرے گی؟ کراچی چارٹر میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ صنعتوں کو بجلی و گیس کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ کراچی کے صنعتی زونز سائٹ، کورنگی، لانڈھی، فیڈرل بی ایریا اور نارتھ کراچی پاکستان کی معیشت کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ انفر اسٹرکچر بری طرح تباہ حال ہے اور دہشت گردوں، اغوا کاروں اور بھتہ خوروں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر ان تمام علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر کی جائے۔

روشنی کا انتظام کیا جائے اور تاجروں اور صنعت کاروں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔ کراچی میں کھیل کے میدانوں اور پارکس کو گزشتہ 8 برسوں سے رہائشی اور کمرشل تعمیرات کی صورت میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ کھیل کے میدانوں اور پارکس میں رہائشی پلاٹس بناکر عمارتیں تعمیر کردی گئیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ چائنا کٹنگ‘ میدانوں اور پارکس پر قبضے ختم کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرایا جائے تاکہ شہر میں کھیلوں کو فروغ حاصل ہو اور گرین کراچی پروگرام بحال ہوسکے۔ یونین کونسل کی سطح پر ٹیمیں بناکر ٹیلنٹ نیٹ اسکیم شروع کی جائے اور خواتین کے لیے جداگانہ کھیل کے میدان فراہم کیے جائیں۔

کراچی میں سرکاری اسپتالوں اور ڈسپنسریوں کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس وقت کراچی میں ڈیڑھ کروڑ آبادی کے لیے سرکاری اسپتالوں میں محض 9 ہزار بستروں کی گنجائش ہے۔ شہریوں کے لیے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ یا تو وہ پرائیویٹ اسپتالوں میں جائیں یا سڑک پر جان دے دیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ کراچی میں 1000 بستروں پر مشتمل 2 بڑے اسپتال قائم کیے جائیں اس کے علاوہ ہر ٹاؤن میں ایمرجنسی سینٹر، ہر ضلع میں امراض قلب کا ایک ایک اسپتال قائم کیا جائے۔  فوری ضرورت ہے کہ شہر کو برباد کرنے، پرتشدد ہڑتالوں کے حوالے کرنے اور غریبوں کا چولہا ٹھنڈا کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔

المیہ یہ ہے کہ کراچی میں ٹارگٹ کلرز، بھتہ خور، دہشت گرد نامعلوم نہیں، بلکہ معلوم ہیں۔ اگر پولیس سیاسی بنیاد پر بھرتی ہو اور تھانیداروں کا تقرر بھی سیاسی پارٹیاں کریں تو امن و امان کسی صورت قائم نہیں رہ سکتا۔ اغوا برائے تاوان، بھتے اور بدامنی و ٹارگٹ کلنگ کا خاتمہ سیاسی مداخلت سے پاک پولیس نظام سے ہی ممکن ہے۔ ہم وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو یہ باور کراتے ہیں کہ یہ چارٹر، کسی جماعت کی نہیں کراچی کے  عوام کی ترجمانی کرتا ہے۔ ہم صرف مطالبہ نہیں کررہے، بلکہ اس چارٹر کے عملی نفاذ کے لیے ماہرین کے ذریعے پروفیشنل ورکنگ بھی کررہے ہیں۔ وزیراعظم قدم آگے بڑھائیں گے تو ہمارا ہر ممکن تعاون ان کے ساتھ ہوگا۔

ظلم کے ضابطے بولنے نہیں دیتے…

$
0
0

بغداد نے ہمیشہ تاریخ کا ظلم سہا ہے۔ موجودہ ہلاکو جس کے خاتمے کی تمنا دنیا کر رہی ہے۔ اس نے بغداد کے بام ودراکھیڑ کر رکھ دیے 2003 میں عین ’’عالم ظلم و ستم‘‘ میں میرا جانا بغداد ہوا تھا اور میں نے دیکھا تھا کہ کس طرح وہاں شاہی محل پر غیر ملکیوں نے قبضہ کرکے راستوں پر دیواریں تعمیر کردی تھیں۔ لوگوں کا کیا حال تھا، کیا کہوں۔ بہت طاقتور ہونے کے باوجود قلم میں وہ طاقت نہیں کہ بیان کرسکے۔ بیسویں صدی میں ایک بار پھر ہلاکو نے بغداد پر قبضہ کیا تھا ہر ہلاکو کا ایک ہی انداز ہوتا ہے وہ علم کا دشمن ہوتا ہے۔ ہلاکو نے کیا کیا تھا؟ صدیوں کی محنت سے جمع کیا جانے والا علم تباہ کردیا، کتابیں ملیا میٹ کردیں، علم کو اندھیرے میں دھکیل دیا۔ کیونکہ وہ خود تاریکی تھا۔

روشنی کو کیسے برداشت کرتا۔ اگر کسی قوم کو اس کے ماضی میں پہنچانا ہے تو اس سے اس کا علم چھین لو۔ جہالت ڈال دو اس کے دامن میں اور جبر کے ساتھ اسے اختیار کرنے کا حکم دو۔ مجھے اکثر ایسا لگتا ہے جیسے میں ایک ٹرانسمیٹر ہوں۔ دنیا بھر کی چیزیں میرے ذریعے ادھر سے ادھر منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ خود اپنے کام یعنی براڈ کاسٹنگ میں آج تک نہ جانے کیا کیا On Air پڑھا۔ پرفارم کیا، لاکھوں اشعار پڑھے۔ مگر مجھ سے کوئی کہے کہ چار شعر تو سنادو تو شاید مشکل ہوجائے۔ جو شخص خود اپنے اشعار یاد نہ رکھ سکتا ہو وہ بھلا اور کیا یاد رکھے گا۔

یہی مشکل ٹرانسمیٹر کی ہوتی ہے کہ اگر کوئی اس سے کہے کہ ذرا جو ابھی نشر ہوا وہ سنا دو تو وہ خاموش۔ ہم اکثر لوگ ایسے ہی ہیں۔ دن بھر پرندے ڈال ڈال پات پات چہچہاتے رہتے ہیں۔ شام ڈھلے خاموش۔ رات مکمل خاموشی۔ اکا دکا کوئی آواز۔ پھر دوسرے دن صبح سویرے سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ساتھ دانے دنکے کی تلاش۔ پرندوں کو اس سے کیا غرض کہ کل کا دن کیسا تھا؟ ان کے پاس ان فضول باتوں کے لیے وقت نہیں ہے۔ وہ اپنے اس کام پر لگے ہیں جو قدرت نے ان کو امر کیا ہے۔ ہم ہیں وہ جن کے پاس وافر وقت ہے۔ گزرے کل کو رونے اور آنے والے کل کو کوسنے اور آج کچھ نہ کرنے کے لیے۔ کتابیں خاموش استاد ہیں۔ اب تو استاد بھی کتابوں جیسے ہی لگتے ہیں۔

منہ میں زبان تو ہے بول نہیں سکتے۔ ظلم کے ضابطے بولنے نہیں دیتے۔ اگر ہم کتابوں سے کچھ حاصل کرلیں تو شاید ہماری شخصیت بہتر بن جائے۔ مگر کتابوں کے زمانے اب رہے کہاں ہیں؟ Net پر سب کچھ ہے۔ یہ ایک جملہ ہے جو محض تسکین کا باعث ہے۔ مگر کوئی پڑھے تب ناں۔ Net پر کیا Search ہو رہا ہے۔ کیا عرض کروں، گناہ گار ہوں۔ دوسروں پر انگلی نہیں اٹھاسکتا صرف عرض کرسکتا ہوں۔ وہاں اپنا اپنا ’’ذوق‘‘ ہے اور اس کی ’’تسکین‘‘۔ چھلنی نیٹ پر نہیں لگی ہوتی یہ خدا نے ضمیر کی صورت ہر انسان میں رکھی ہے۔ کم کہے کو زیادہ سمجھ لیجیے۔

بہادر شاہ ظفر کی آخری غزل۔ لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں۔ اور پھر آخری مصرعہ۔ دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں۔ اس غزل کے مصرعوں میں اور ہمارے حالات میں ایک مطابقت یہ ہے کہ کل یہ برصغیر کے عظیم آخری حکمراں کا نوحہ تھا اور آج ہمارا یہ مرثیہ ہے۔ کتنے بے ادب ہیں ہم کہ ہم نے ہر قسم کے ادب کو محفلوں سے نکال دیا ہے۔ ہمارے عوام کی زبان بھی کیا ستھری تھی جس میں محبت کے بول ایک امر سنگیت تھے اور اب نہ جانے کون کون سے نامانوس بازاری الفاظ زبان کا لطف خراب کر رہے ہیں اور رات دن ہمارے کانوں کو یہ سننے پڑ رہے ہیں۔ عوام کی زبان سے اس قوم کی عمومی حالت اور ’’خواص‘‘ کی زبان سے اس قوم کے استحکام کا پتہ چلتا ہے۔ خواص کی زبان اور گفتگو کے اطوار T.V چینلز پر سن لیجیے۔ ’’کردار‘‘ اسمبلی میں دیکھ لیجیے۔

یہ سب کتابوں سے دوری کا نتیجہ ہے۔ جب پڑھے بغیر ’’نتیجہ پاس‘‘ ہے تو پھر قوم کا شاید اللہ بھی مالک نہیں ہے کوئی اور ہی ہے جس کے راستے پر لوگ چل رہے ہیں۔ کتاب کو سب سے اچھا دوست کہہ دینا نہایت آسان ہے۔ سب سے اچھا دوست بنانا ’’وقت‘‘ مانگتا ہے۔ ہم نے خود بھی بارہا ریڈیو سے یہ جملہ کہا اب بھی کہتے ہیں۔ ہر دوست سے ملوگے تو دوست کا پتہ چلے گا کارٹس پر رکھی ہوئی کتابکو جب تک پڑھا نہ جائے تو اپنے مقام پر ہے آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہے، ہماری مقدس کتاب قرآن پاک تو سارا عمل ہی عمل ہے۔ محض رکھے رہنے سے عمل کہاں آسکتا ہے۔

غیر ملکی ادب کی دوچار کتابوں کو پڑھ لینا ایسا ہی ہے جیسے کہ آپ دو انگریزی فلمیں دیکھ کر ہالی ووڈ کی انڈسٹری پر تبصرہ کرنے لگیں۔ میں بہت عام باتیں کرتا ہوں۔ اگر آپ نے اپنی زبان کا ادب پورا نہیں تو کم ازکم اچھی طرح نہیں پڑھا۔ تو یوں سمجھیں جیسے آپ کسی دوسرے ملک میں چلے جائیں اور وہاں کوئی آپ سے پوچھے کیوں آئے ہو آپ کہیں یہ مقام دیکھنے آیا ہوں بڑا مشہور ہے سنا ہے اور وہ پلٹ کر آپ سے پوچھ لے۔ کالام دیکھا ہے؟ ہنزہ گئے ہو؟ سیف الملوک تو گئے ہی ہوگے؟ اور آپ گردن جھکالیں بس یہی منظر ادب کا ہوگا اگر آپ نے اپنے ادب کا مطالعہ نہیں کیا ہے۔ سب کچھ پڑھنا چاہیے مگر پہلے ’’ماں بولی‘‘ کا ادب پڑھنا ضروری ہے۔

اب ہم کیا کریں کہ لوگ چار کتابیں باہر کے ادیبوں کی پڑھ کر خصوصاً روسی ادب۔۔۔۔دنیا کی بے ثباتی پر ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں اور ان مقولوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ تو بھائی ایسے پچاس حوالے خود آپ کے اپنے لکھنے والوں نے دیے ہیں مگر آپ درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔ دیسی ادب میں کیا رکھا ہے؟ دنیا اس کے ترجمے کر رہی ہے۔ ہم کیا رکھا ہے تلاش کر رہے ہیں۔ دیسی ادب میں وہی کچھ ہے جو ’’دیسی گھی‘‘ میں ہے۔ برداشت نہیں ہوتا۔ ہاضمہ خراب ہوجاتا ہے۔

منٹو کو فحش نگار کہنے لگتے ہیں۔ حقائق پر غور نہیں کرتے۔ اس قوم نے ایک بار عمل کا راستہ اختیار کیا تھا تو پاکستان بنالیا اور پھر بے عملی سے آدھا کھودیا۔ اور اب تک بے عمل ہے یہ قوم جس کا ایک فرد میں بھی ہوں۔Naked Truth۔ یعنی عریاں سچ یہ ہے کہ ہم نے ہر جگہ Ghost پیدا کردیے ہیں۔ پہلے یہ ہمارے اندر تھے اب Practical ہیں ہر ادارے میں موجود ہیں۔ تعلیم کا شعبہ تو ان کا گڑھ ہے پورے ملک میں جو کچھ نہ بن سکے۔ استاد بنادو۔

دنیا کہیں بھی جائے ترقی کی طرف یا تنزلی کی طرف۔ کتاب کا مقام ہمیشہ قائم رہے گا۔ عجیب سا ایک تصور ہے میرے ذہن میں پہلے معذرت عرض کرکے پیش کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے بھی علم کو کتاب میں محفوظ کرنے کا تصور دیا ہے۔ ’’سلیمان کی تختیاں‘ عیسیٰ کی ’’کتاب‘‘۔ ’’زبور‘‘۔ اور پھر ہماری مقدس ترین اور اللہ رب العزت کی آخری کتاب ’’الکتاب‘‘ گویا قدرت اشارہ دے رہی ہے۔ ہدایت دے رہی ہے کہ کتاب کو راہ نما بناؤ اس سے حاصل کرو۔ یعنی قدرت کو پتہ ہے کہ میری تخلیق ’’حضرت انسان‘‘ کو بولنے کی عادت ہے۔ اسے کتاب چاہیے۔ ایک راہ نما۔ اگر پورا سبق یاد بھی کرلے تو بھی قوم کو کتاب چاہیے۔

ہمیشہ کتاب کی ضرورت ہے۔ ہم نے کتاب کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ انٹرنیٹ پر سب کچھ ہے۔ یہ جملہ ایک دھوکا ہے اگر انٹرنیٹ نہ پڑھا جائے۔ شاید یہ کتاب بینی کے خاتمے کا اعلان بھی ہے۔ کوئی چیک نہیں ہے کیا لکھا جا رہا ہے اصحاب مقدس کے اقوال خلط ملط کیے جا رہے ہیں۔ قائد اعظم کی ہمسری کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ بچوں کے ذہن سلیٹ نہیں اب کمپیوٹر کی اسکرین ہیں جو بھی Post اور Paste کروگے وہ آیندہ نسلوں تک منتقل ہوجائے گا۔

بیس سال بعد یہ سب سند ہوجائے گا۔ ملک اور اسلام دشمنوں نے اب کتابوں کے ذریعے یہ سب کچھ کرنے کی ٹھانی ہے۔ کتابیں لکھی جانی چاہئیں۔ کتابیں سخت نگرانی میں درسی خصوصاً شایع ہونی چاہئیں۔ دین سے تحریف اور خلفائے راشدین سے متعلق تمام مواد کو پورے ملک میں چیک کیا جانا چاہیے۔ تمام مسالک کے مشترکہ نکات درسی کتابوں میں شامل کرنے چاہئیں۔ کتاب ’’امن‘‘ ہے اسے ’’امن کا سفیر‘‘ بنانا چاہیے۔ کتاب ہونی چاہیے۔ کتاب رہنی چاہیے۔ اگر کتاب نہیں رہے گی تو قوم ختم ہوجائے گی۔ اس کی تہذیب مٹ جائے گی۔ کتابوں میں ہمارا ماضی ہے اس میں ہمارا مستقبل لکھا جائے گا۔ بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔

کتاب ایک ذہنی چھری بھی ہے۔ اس سے اگر باعمل انسان پیدا ہوتے ہیں تو ان سے ہی ’’بے عملی‘‘ پیدا ہوتی ہے۔ اگر کتاب کو درست انداز میں نہ لکھا جائے۔ وحدت کے راستوں سے پردے ہٹائے جائیں۔ کتاب کو روشنی بنایا جائے اور روشنی کی لو کو درست رکھا جائے کہ یہ روشنی فراہم کرے۔ ’’آگنہ لگائے‘‘ ہلاکو کے فلسفے سے قوم کو بچانا ہے۔ من مانا، سوچا سمجھا، گمراہ کن، علم نہیں حاصل کرنا۔ اس سے جہالت بہتر ہے۔

دل ناداں…

$
0
0

دل کے اجزائے پریشاں کو حقارت سے نہ دیکھ

کہیں صدیوں میں یہ سرمایہ بہم ہوتا ہے

تمام اردو شاعری بلکہ اردو ادب کے موضوعات ایک طرف اور دل کا موضوع ایک طرف جس قدر ہمہ جہت انداز میں اس موضوع پر لب کشائی کی گئی ہے کسی اور موضوع پر نہیں ملتی۔ یہی خاص بات ہے دل کی۔ اور جو بات دل سے نکلتی ہے دل پہ اثر رکھتی ہے۔ روز ازل سے آج تک دل کی کہانی، دل کے معاملے اور دل کے رمز سمجھنے اور سمجھانے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، دل کی بناوٹ بھی ابتدا سے جوں کی توں ہے، دل کے اسرار اور دل کا دھڑکنا بھی قریباً ویسا ہی نظر آتا ہے، زمانہ چاہے جو بھی ہو، دل کی بات دل والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔ دل کی ساخت تو ہر دور میں یکساں ہی رہی مگر جذبات اور دل فگاریاں جدا جدا ملتی ہیں۔ اب جس کا جتنا ظرف ہے وہ بے چارے دل کو اسی انداز میں برت رہا ہے۔ معرف زمانہ استاد غالب بھی دل کی موشگافیوں کا بیان کرتے ہیں۔

سن  اے  غارت  گر  جنس  وفا  سن

شکست قیمت دل کی صدا  کیا

(غالب)

اور صاحب! کسی کو دل داری کا سودا مہنگا پڑا، گھر چھٹا، شہر چھٹا، کوچہ دل دار چھٹا اور انھیں پھر وحشت دل کوہ و صحرا میں لیے پھرتی رہی۔ کچھ لوگ اپنے دل کی حفاظت بھی بڑے خوبصورت انداز میں کرتے ہیں چاہے وسوسوں کا انبار ہو مگر آئینہ دل میلا نہیں ہونے دیتے۔ اب یہ دعویٰ کہاں تک درست ہے۔ ایسے لوگ فی زمانہ ملنا مشکل، اگر مل جائیں تو ایسے لوگ امر ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ دل زندہ کے زندہ رہنے سے زندگانی عبارت بن جاتی ہے۔ ایسے دل ہر سینے میں نہیں دھڑکتے جو صاحب دل ہوتے ہیں وہ انگلیاں فگار کرتے ہیں بسخن کی آنچ میں دل کو گداز کرتے ہیں یوں حرف تازہ کی نمو ہوتی ہے۔

یہی دل اگر وطن کی محبت میں دھڑکنے لگے تو محبتوں کی نسبتوں کے امین بن جاتے ہیں۔ پھر زمینوں کے گوشوارے کی تلاش میں دیوانہ وار نہیں ہوتے۔ لیکن اب تو ایسا ذرا کم کم ہی نظر آتا ہے۔ جاں فریب دل و دماغ میں مبتلا انسانوں کا جم غفیر ہے۔ جو خود کو اور دوسروں کو فریب دینے میں طاق نظر آتا ہے اور جب دل کے معاملے کھلتے ہیں تو بہت سی بے چینیاں اور بے قراریاں منظر عام پر آجاتی ہیں۔ حزن و ملال کے دورے پر دورے پڑنے لگتے ہیں بالآخر ہر صاحب فہم و فراست پکار اٹھتا ہے۔

آدمی تو ملے زندگی میں بہت

دل تڑپتا رہا آدمی کے لیے

کچھ لوگ دل کے اضطراب کو زندگی کا حاصل جانتے ہیں۔ انھیں دل کی خوشی مصیبت لگتی ہے، اور دل کی تڑپ اور چبھن سے تسکین حاصل ہوتی ہے۔ بعض دل اس سطح پر حساس ہوتے ہیں کہ لمحہ لمحہ زخموں سے چور چور ہوئے جاتے ہیں ایسے دلوں کی رفوگری کا کام مشکل ہوتا ہے۔

آپ نے بہت سے کم زور دل بھی دیکھے ہوں گے جو ساری زندگی، کم ہمتی میں مبتلا رہ کر دنیا سے گزر جاتے ہیں ان کی زندگی میں کوئی نمایاں کامیابی نظر نہیں آتی۔ بے سمت بے جہت کے سفر کرتے ہیں۔ کچھ دل شکستہ ہوتے ہیں۔ جو ذرا ذرا سی بات پر ٹوٹ جاتے ہیں۔ پھر جوڑنے کی کوشش کی جائے تو سعی ندارد۔ بات تکلیف دہ ہے مگر ایسے دل اس دور میں کثرت سے ملتے ہیں اور دل شکستگی کا شکار نوجوان نسل زیادہ ہے۔ جو دل کے ہاتھوں فریب محبت میں مبتلا ہے اور فی زمانہ نکما ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔

عشق   نے   غالب  نکما   کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

دل آئینہ بھی تو ہوتا ہے۔ جس میں ہم اپنا عکس نہایت خوبی سے ملاحظہ کرسکتے ہیں اگر چاہیں تو۔ اور اگر نہ چاہیں تو ساری زندگی خود کو دھوکا دینے میں گزر جاتی ہے۔

اور یہ بھی ہم ہی ہیں جو اپنی زندگی بے شمار معاملات، اچھائیاں برائیاں سچ، جھوٹ، چاہتے نہ چاہتے دل کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں اور مزے کرتے ہیں دل کے معاملے بھی کیا عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ تمام مادی و جغرافیائی، لسانی و تعصباتی سرحدوں سے آزاد، وسیع موضوع جو چاند تاروں سے آگے کی سرحدوں کی سیر کرواتا ہے۔

اہل تصوف دل کی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔ زمان و مکاں کی قیود سے آزاد ہوکر حب الٰہی میں گم ہوجاتے ہیں۔ صاحب ایمان دل کو دنیا کے فتور میں مبتلا نہیں کرتے بلکہ مکمل اختیار کے ساتھ عشق الٰہی میں سرمست و بے خود ہوجاتے ہیں۔ یہی زندگی کا حاصل ہوجاتا ہے بقول عظیم شاعر اقبال:

دل بینا بھی کر خدا سے طلب

آنکھ کا نور دل کا نور نہیں

طائر لاہوتی

$
0
0

آج سے چار، پانچ ماہ پہلے میں اپنے اسپتال سے نکل رہا تھا کہ ایک نوجوان باوقار میری طرف آیا اور مجھ سے کچھ سنبھلتے ہوئے گویا ہوا کہ ’’بھائی! میں کچھ آپ کو بتانا چاہتا ہوں اگر آپ مناسب سمجھیں تو اپنا کچھ وقت مجھے دے دیں۔‘‘ آج کل حالات کچھ اس طرح کے ہوگئے ہیں کہ پرائے تو پرائے اپنوں سے بھی ڈر ہی لگتا ہے اور وہ صاحب تو میرے لیے بالکل اجنبی ہی تھے۔ خیر میں نے ہمت پکڑ کر ان کی بات سننا شروع کی وہ صاحب اپنی جھجھک پر قابو پاتے ہوئے اور میں اجنبیت کو ایک طرف کرتے ہوئے ہمہ تن گوش ہوا۔ وہ نوجوان  پیشے کے اعتبار سے سافٹ ویئر انجینئر تھا، مجھ سے کہنے لگا۔ ’’بھائی میں نے پورے دو سال لگا کر ایک ایسا سافٹ ویئر بنایا ہے جس کی مدد سے آپ چوروں اور ڈاکوؤں کو اسی دن پکڑ سکتے ہیں جس دن وہ کارروائی کریں۔‘‘

انجینئرنگ سے میں نابلد ہوں وہ اس لیے کہ پیشے کے لحاظ سے میں ڈاکٹر ہوں، پہلے تو میری سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ ان کی گفتگو کا لب لباب ہے کیا، پھر ان کی زبان سے Engineering کی Technologies کی باتیں نکل رہی تھیں لیکن میرے سمجھانے کے بعد کہ بھائی آپ آسان زبان میں مجھے بتائیں کہ آپ نے کیا کیا ہے۔ اس پر وہ نوجوان سنبھل سنبھل کر کہنے لگا۔ بھائی میں نے بینکوں، اسپتالوں، تھانوں ، دفاتر اور گھروں کے لیے ایسا سافٹ ویئر بنایا ہے جس کو آپ آسان زبان میں اینٹی تھیفٹ Anti Theft ’’چوروں کو پکڑوانے والا‘‘ سافٹ ویئر کہہ سکتے ہیں۔ مجھے حیرت کے ساتھ ساتھ خوشی بھی محسوس ہو رہی تھی کہ اداروں کا کرنے والا کام ایک شخص نے کردیا اس پر میں نے اس نوجوان سے کہا آپ اس کو مارکیٹ میں لے کر کیوں نہیں آرہے؟ آپ کو اچھے خاصے پیسے مل جائیں گے اور شہرت الگ ملے گی۔

میرے اتنا کہنے پر ہی پہلے تو وہ نوجوان خوب ہنسا، جس پر مجھے حیرت کے ساتھ ساتھ خفت بھی محسوس ہوئی کہ میں نے آخر ایسی کیا بات کہہ دی جس پر وہ اس طرح ردعمل دکھا رہا ہے، مجھے واقعی کچھ عجیب سا لگا۔ میں نے ایک دم ان سے کہا بھائی! میں نے ایسا کیا کہہ دیا جس پر آپ اس طرح ہنس رہے ہیں، میری اس بات پر پہلے تو وہ ہنسے پھر ایک دم چپ سادھ لی خیر آہستہ آہستہ انھوں نے قفل توڑتے ہوئے کہا بھائی میں نے جس سے بھی یہ کہا وہ آپ کی طرح ہی نصیحت کرتا ہے اس پر میں ہنستا ہوں پھر جب حقیقت بتاتا ہوں تو آپ جیسے سادہ لوح لوگ کف افسوس ملتے ہیں۔ میری جستجو بڑھی تو میں نے ان سے اگلا سوال یہ کیا کہ چلیں آپ ہی بتائیں پھر کیا کریں گے۔

میری بات سن کر  وہ بولا ڈاکٹر صاحب میں اس کو توڑ کر پھینک دوں گا۔ ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا، لیکن کسی کو یہ اجازت نہیں دوں گا کہ وہ اس کو اپنے نام سے امریکا جاکر بیچ دے، کیونکہ ہمارے ملک میں کوئی چور نہیں ہے؟ کوئی ڈاکو نہیں ہے؟ کوئی رہزن نہیں ہے؟ لہٰذا اس کی ضرورت پاکستان میں تو نہیں ہے؟ میں جہاں جہاں اس کو لے کر گیا کسی نے کہا کہ 15 ہزار میں اس کو ہمیں بیچ دو، پھر ہم جانیں ہمارا کام، کسی نے کچھ قیمت لگائی، کسی نے کچھ، کوئی اپنے نام سے اس کو بازار میں لانا چاہ رہا تھا،  لیکن کسی نے میری حوصلہ افزائی نہیں کی۔ کسی نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی، پولیس تھانوں میں گیا، ان کے اعلیٰ افسران سے بات کی، لیکن جہاں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہوسکتی تھی وہاں سے جواب آیا نہیں صاحب! معذرت ۔ اس کی ہم کو ضرورت نہیں ہے، جن جن دفاتر میں گیا، وہاں سے ناامیدی لے کر آیا۔

آخر میں کئی اسپتالوں میں گیا، لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے 3 پات والا معاملہ۔ میں بڑے غور سے ان کی داستان ناامیدی سن رہا تھا، میں نے واقعی ان کی پیٹھ تھپتھپائی اور بولا حضرت اگر واقعی اس کو آپ بیچنا چاہتے ہیں تو آپ بیرون ملک جانے کے لیے رخت سفر باندھیں یہاں اس کا کوئی خریدار نہیں ہے۔ وجہ یہ نہیں کہ پاکستان میں سب دودھ کے دھلے ہیں ۔وجہ یہ ہے کہ ہم چوروں کو، ڈاکوؤں کو، رہزنوں کو، بدمعاشوں کو پکڑنا ہی نہیں چاہتے بلکہ ہم ان کو پالتے ہیں، اور اسی لیے پالتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے کام کریں۔

میں کیسے چاہوں گا کہ اگر میں ایک لاکھ روپے روزانہ اس بندے سے کما رہا ہوں جو ڈاکو ہے، چور ہے، بھتہ خور ہے، میں کیوں اس کو سلاخوں کے پیچھے ڈالوں گا۔ پھر میں نے نوجوان  سے کہا،  یہاں اس کو کوئی نہیں لے گا، آپ اس کو یورپ و امریکا میں جاکر فروخت کیجیے وہاں ڈاکو بھی ہیں اور چور بھی اور پھر ان کے لیے سزائیں بھی ہیں، جرمانے بھی اور پھر جیل بھی۔ یہاں ڈاکوؤں کے لیے نا ہی کوئی جیل ہے اور نہ ہی کوئی قانون۔

ابھی میں ان سے یہ کہہ ہی رہا تھاکہ سامنے والی روڈ پر ایک بائیک پر بیٹھے دو ڈاکوؤں نے  کار والے کو لوٹ بھی لیا اور پولیس موبائل اس کے دوسری طرف والی روڈ پر قائم گنے کی دکان سے گنے کا جوس پیتی رہی، لٹنے والے کی گاڑھے خون پسینے کی کمائی گئی، نا جانے اس کا کوئی اپنا کسی اسپتال میں داخل ہوگا اس کی فیس کے پیسے ہوں گے، یا اس کی بیٹی، بہن کی شادی ہوگی اس کے لیے زیور بنوانا ہوگا، یا اپنے بچے کی فیس بھرنی ہوگی جس کی آخری تاریخ ہوگی۔ لیکن لوٹنے والے کو کیا۔ اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے والے سین Scene کو دیکھ کر وہ صاحب بولے ڈاکٹر واقعی اس ملک میں کسی قانون، کسی وکیل، کسی جج، کسی پولیس والے کی ضرورت نہیں ہے، خدارا مجھے دے میں کہیں بھی جاکر اس کو بیچ دوں گا،پیسے ملیں نہ ملیں لیکن اس کو اپنے نام سے مارکیٹ میں لاؤں گا۔ میں نے ان سے رخصت لی، ساتھ ہی ساتھ ان کا کارڈ بھی لے لیا۔

ابھی پچھلے دنوں میں نے ان کے دیے ہوئے کارڈ میں درج ان کا نمبر گھمایا تو دوسری طرف سے ایک نسوانی آواز آئی۔  وہ تو امریکا گئے ہوئے ہیں آج کل میں آنے ہی والے ہیں ۔ ابھی کل ہی کی بات ہے رات کا کھانا کھانے کے بعد میں نے پھر ان کے دیے ہوئے نمبر پر فون کیا تو  وہ بہت خوش ہوکر بولے ڈاکٹر صاحب اللہ آپ کو عمر خضر دے،  جس دن آپ سے بات ہوئی تھی آپ نے میری آنکھیں کھول دیں لہٰذا میں امریکا گیا اور یونیورسٹی آف وس کن سن University Of Wisconsin کے آئی ٹی کے محکمے نے میرا وہ سافٹ ویئر نہ صرف میرے نام سے لیا بلکہ امریکا کی شہریت کے لیے بھی کہا، اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب مجھے 28 ہزار ڈالر بھی دیے۔

میں سمجھا یہ اپنی نوعیت کی پہلی دریافت ہوگی تو پتا چلا کہ اس قسم کے لاتعداد سافٹ ویئرز ان کے پاس ہیں۔ جن کی مدد سے وہ ڈاکوؤں، چوروں کو نہ صرف پکڑ رہے ہیں بلکہ ان کو کیفر کردار تک بھی پہنچا رہے ہیں۔ میں نے نوجوان سے کہا بھائی! اگر ایسا سافٹ ویئر ان کے پاس بقول آپ کے پہلے سے ہے تو انھوں نے پھر آپ کا سافٹ ویئر کیوں لیا۔

اس پر اس نے کہا ڈاکٹر صاحب وہ اس لیے کیا کہ میرے سافٹ ویئر میں آپ اسی دن چور کو پکڑ لیں گے جس دن وہ کارروائی کرتا ہے، میں نے کہا، کیا آپ امریکا چلے جائیں گے۔ کہنے لگے کیوں نہیں، جہاں برائی ہو، وہاں اس کے بارے میں کچھ ہوسکتا ہے، ہمارے سسٹم میں تو کوئی برائی ہی نہیں ہے یہ فرشتوں کا ملک ہے۔ لہٰذا میرا یہاں کام ہی نہیں ہے۔ اور میں سوچ میں پڑ گیا کہ کب تک ہم بے حسی کی چادر تان کر سوتے رہیں گے۔ ہمارے ہاتھوں سے کیسے کیسے گوہر نایاب روزانہ کی بنیادوں پر امریکا و یورپ جا رہے ہیں صرف یوں کہ ہم ان کو مجبور کر رہے ہیں۔

کیسی کیسی دریافتیں جن پر امریکا و یورپ فخر و غرور کرتے ہیں، ہم پاکستانیوں کا کارنامہ ہیں، لیکن صاحب ہم دودھ کے دھلے ہیں ہم میں کوئی برائی نہیں ہے اور جب برائی نہیں ہے، تو ایسے سافٹ ویئر بناکر ہم کیا کریں گے۔ لیکن برائی پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اس سے یہ ہوگا ہمارے محنتی، جفاکش، ڈاکٹرز، انجینئرز، آئی ڈی اسپیشلسٹ، سب آہستہ آہستہ اپنا رخت سفر بیرون ملک کی طرف باندھیں گے اور یہاں سامنے روڈ پر کوئی لٹ رہا ہوگا اور قانون گنے کا جوس پی رہا ہوگا۔  میں حکومت اور ارباب اقتدار سے بھی کہتا ہوں خدارا! آپ نے ہم نوجوانوں کو بہت سبز باغ دکھائے تھے الیکشن کی تقریروں میں آپ نے ہم سے بہت وعدے کیے تھے اب وقت آگیا ہے کہ آپ اپنے وعدے نبھائیں ورنہ آپ ناکامی و نامرادی کا منہ دیکھیں گے۔ اور آپ کا یہ سفر جلد ختم ہوجائے گا۔

Viewing all 22750 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>