Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22750 articles
Browse latest View live

ایک نئی سرد جنگ کی طرف!

$
0
0

انسانی تاریخ کا یہ بڑا المیہ ہے کہ انسان جیسے جیسے تہذیبی ترقی کی منزلیں طے کرتا رہا اس کی حیوانیت میں اسی تناسب سے اضافہ ہوتا رہا، تاریخ کے ابتدائی دورکے انسان کو ہم وحشی اور جاہل کہتے ہیں، یہ وحشی اور جاہل انسان آپس میں مل جل کر پہاڑوں اور غاروں میں رہتا تھا نہ ان کے درمیان دشمنیاں تھیں نہ خون خرابا، مل جل کر رہتے تھے، مل بانٹ کر کھاتے تھے۔

اس ابتدائی دور کے انسان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ خوراک تھی درختوں کے پتوں اور پھلوں پر گزارا کرنے والا انسان کے سامنے جنگلی جانوروں کی صورت میں خوراک کا ایک بہتر متبادل موجود تھا لیکن اس نہتے انسان کو یہ مشکل درپیش تھی کہ شکار کے لیے اس کے پاس کوئی ہتھیار نہ تھا کیوں کہ نہ اس دور میں اسلحہ ساز فیکٹریاں تھیں نہ کوئی آرڈیننس فیکٹری تھی، سو اس نے عقل کے استعمال سے پتھر کے ہتھیار بنالیے اور ان ہتھیاروں سے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے شکار کرنے لگا۔ اس وحشی اور جاہل انسان نے پتھر کے اس ہتھیار کو نہ آپس کی قتل و غارت گری میں استعمال کیا نہ ایک دوسرے کے علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے استعمال کیا پھر بھی وہ جاہل اور وحشی کہلایا۔

آج کا انسان جو اپنے آپ کو انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ انسان کہتا ہے ہتھیاروں کی صنعت کو اس قدر ترقی دی کہ ایٹم بم بنالیا، وہ ایٹم بم جو اگر استعمال ہو تو آن واحد میں لاکھوں زندہ انسانوں کو سوختہ لاشوں میں بدل دیتاہے جس کی تباہی کا اندازہ ہیروشیما اور ناگا ساکی کے سانحوں سے کیا جاسکتاہے ،ان شہروں کے لاکھوں انسانوں کی پلک جھپکتے میں جانیں لے لیں، آج اس کم طاقت ور ایٹم بم کے مقابلے میں سیکڑوں گنا زیادہ طاقت ور ایٹم بم ہزاروں کی تعداد میں انسان کے ہاتھوں میں موجود ہیں، روایتی لیکن جدید ہتھیاروں کے استعمال سے اب تک کروڑوں انسانوں کو قتل کردیا گیا۔ جس کی تازہ مثالیں عراق اور افغانستان کی شکل میں موجود ہیں ان جنگوں کے خالق آج کی دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہیں کیا لاکھوں، کروڑوں انسانوں کی جان لینے والوں کو مہذب انسان کہا جاسکتاہے؟

دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم اور دنیا کی واحد سپر پاور کے صدر بارک اوباما آج کل تین یورپی ملکوں کے دورے میں پولینڈ کے شہر وارسا پہنچنے کے بعد پولینڈ کے صدر کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اوباما نے کہا ہے کہ ’’امریکا یورپ میں اپنی فوجی موجودگی بڑھائے گا، موصوف نے  کہا کہ آج میں یہاں نیٹو کے یورپی اتحادی ملکوں کی حمایت میں اضافے کے لیے ایک نئی حکمت عملی کا اعلان کر رہا ہوں، امریکی کانگریس کی حمایت سے یورپ میں عسکری ساز و سامان میں اضافہ کیا جائے گا، واشنگٹن یورپ میں نہ صرف عسکری سامان یعنی جدید ہتھیار پہنچانا چاہتا ہے بلکہ خطے میں اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ کرنا چاہتا ہے جس کے لیے تیاریاں جاری ہیں۔

اس منصوبے پر مزید ایک بلین ڈالر خرچ کیے جائیںگے، امریکی صدر نے جس ملک میں یہ اعلان کیا ہے وہ ملک ماضی میں روس کا اتحادی تھا اور روسی بلاک نے نیٹو کے مقابلے میں سوشلسٹ ملکوں کا جو بلاک بنایا تھا۔ اسے وارسا پیکٹ کہا جاتا تھا۔ کیوں کہ یہ معاہدہ پولینڈ کے شہر وارسا میں طے ہوا تھا، نیرنگی  حالات ملاحظہ فرمایے کہ آج اوباما اسی شہر میں روس کے خلاف یورپ کے تین ملکوں کو مزید فوجی امداد اور مزید فوج مہیا کرنے کا اعلان کررہے ہیں، ہتھیار خواہ وہ ایک ٹی ٹی ہو یا ایٹمی میزائل اور ایٹم بم ہوں یہ سب انسانوں کے خلاف ہی استعمال ہوتے ہیں، یہ ہے انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور مہذب انسان جو اپنے تیار کردہ ہتھیاروں سے اب تک کروڑوں انسانوں کی جان لے چکا ہے اور کروڑوں کی جان لینے کی تیاری کر رہا ہے۔

اوباما روس کے اس سابق اتحادی ملک کا دورہ یوکرین میں روس نواز جنگجوئوں کی یوکرین کو روس کا حصہ بنانے کی کوششوں کے خلاف یوکرینی حکمرانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے کررہے ہیں، یوکرین کی ایک ریاست کریمیا ریفرنڈم کے ذریعے روس میں شامل ہوچکی ہے اب روس یوکرین کو روس کا حصہ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے، امریکی صدر روس کے سابق اتحادیوں کو ہتھیار اور فوج مہیا کرکے انھیں روس کی ممکنہ جارحیت سے بچانے کی کوشش کررہے ہیں اور یہ کوششیں تیزی سے ایک نئی سرد جنگ کی راہ ہموارکررہی ہیں۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد تقریباً پچاس سال تک جو سرد جنگ جاری رہی اس کے فریقوں کے درمیان نظریاتی اختلافات تھے، امریکا اپنے اتحادیوں کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کا حمایتی تھا، روس اپنے اتحادیوں کے ساتھ سوشلزم کا حامی تھا، اس سرد جنگ کی بنیاد نظریاتی اختلاف تھا امریکا نے سوشلزم کے خلاف ایک شش جہتی جنگ لڑی کیوں کہ سرمایہ داری کے حامی ملکوں کا موقف یہ تھا کہ سوشلزم ایک ایسا نظام ہے جو جمہوریت اور انسانی حقوق، انسانی آزادیوں کی نفی کرتاہے جسے ہم جدید دنیا کے تقاضوں کے  خلاف سمجھتے ہیں۔

بلاشبہ سوشلزم میں انسانی آزادیوں کو انسانی حقوق کو محدود کیا جاتاہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سوشلسٹ نظام میں عوام کو لائن لگاکر اپنی بنیادی ضرورت کی چیزیں حاصل کرنی پڑتی تھیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے عورت کو جسم فروشی اور مردوں کو بے ایمانی اور ضمیر فروشی کرنا پڑتاہے۔ سوشلسٹ معیشت میں نجی ملکیت کا حق نہیں تھا جس کی وجہ سے قوم کی دولت چند ہاتھوں میں جمع نہیں ہوجاتی تھی، سرمایہ دارانہ نظام میں نجی لا محدود ملکیت کا حق ہے بلکہ اس حق کو قانونی اور آئینی تحفظ بھی حاصل ہے جس کی وجہ سے قوم کی 80 فی صد دولت دو فی صد سے کم لوگوں کے ہاتھوں میں مرکوز ہوجاتی ہے جس کا نتیجہ اکثریت کی غربت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔

سوشلزم میں انسانوں کی آزادی محدود ہوتی ہے سرمایہ دارانہ نظام میں یہ آزادی اتنی لا محدود ہوتی ہے کہ انسان اس آزادی کو استعمال کرتے ہوئے بھیک مانگ سکتاہے، بھوک سے تنگ آکر انفرادی اور اجتماعی خودکشیاں کرسکتاہے، سوشلزم میں پیدا وار بوائے ضرورت کا فلسفہ موجود تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں پیداوار بوائے منافع کا فلسفہ کام کرتاہے اور لوٹ مار کی آزادی حاصل ہوتی ہے سوشلزم میں چوری، ڈاکے، بے ایمانی، ضمیر فروشی جیسی برائیاں مفقود ہوتی ہیں سرمایہ دارانہ نظام کی عمارت ان ہی برائیوں کی بنیاد پرکھڑی رہتی ہے۔ سوشلزم میں جسم فروشی کو ایک صنعت سمجھا جاتا ہے سرمایہ دارانہ نظام میں جسم فروشی کے لائسنس جاری کیے جاتے ہیں سوشلزم میں کرپشن کی گنجائش نہیں ہوتی، سرمایہ داری کی شریانوں میں کرپشن خون بن کر دوڑتی رہتی ہے۔

اب امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سازشوں اور خفیہ ایجنسیوں کی کو ششوں سے سوشلزم ختم ہوگیا اب مغربی بلاک اور سابق سوشلسٹ بلاک میں سرمایہ دارانہ نظام ہی کی پٹری پر چل رہے ہیں اور بہت کم عرصے میں سابق سوشلسٹ ملکوں میں وہ ساری غلاظتیں در آئی ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے لوازمات ہیں اب ان دو بلاکوں کے درمیان سرد جنگ کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟ روس نے اگر کریمیا کو اپنا حصہ بنالیا ہے تو اس پر اعتراض کیوں؟ کیوں کہ سامراجی ملکوں کا وطیرہ ہی ملک گریبنگ ہے کمزور ملکوں پر طاقت کے ذریعے قبضہ سامراجی ملکوں کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے اگر روس بحیثیت ایک سرمایہ دار ملک اس سامراجی روایت کی پیروی کر رہا ہے تو بارک اوباما کیوں پریشان ہورہا ہے وہ اگر بغیر کسی منطقی جواز کے دس سال تک عراق پر قبضہ برقرار رکھ سکتا ہے تو پھر ریفرنڈم کے ذریعے کریمیا کی روس میں شمولیت پر وہ چراغ پا کیوں ہے؟

دنیا کا حکمران طبقہ ایسے جاہلوں جنگ پسندوں لٹیروں پر مشتمل ہے جو نام تو جمہوریت کا، انسانی حقوق کا، انسانی آزادی کا لیتے ہیں لیکن ان عناصر کا صرف نام استعمال ہوتاہے عملاً نہ کہیں جمہوریت ہے نہ انسانی حقوق نہ انسانی آزادی، ان حقائق کے پس منظر میں نیٹو کو تسلیم کرنا پھیلانا ایک ایسی نئی سرد جنگ کی طرف بڑھنا ہے پھر دنیا کو ایک زیادہ خطرناک نئی سرد جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں؟ کیا  یہ کوشش ترقی یافتہ مہذب انسان کے شایان شان ہیں؟


بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ

$
0
0

آپ کو یہ سن کر خوشی ہو گی کہ چینل ’’ہیاں سے ہواں تک‘‘ نے ناظرین کی درخواست پر، وقت کے تقاضے پر اور پبلک کی ڈیمانڈ پر مشہور اینکر پرسن جناب چمچ الملک چمچ کو اپنی ٹیم میں شامل کر لیا ہے اور جناب چمچ الملک جانے مانے اور پہچانے اینکر پرسن ہیں، اس کے کمال فن کا اندازہ اس سے لگایئے کہ موصوف گذشتہ دس سال سے دس چینلوں میں دس ٹاک شوز کر چکے ہیں لیکن مجال ہے کہ آج تک کوئی یہ پتہ لگا پایا ہو کہ موصوف نے کیا کہا، کیا سنا اور کیا سنایا ہے، ایک گھنٹے کے ٹاک شو میں اٹھارہ کلو الفاظ بول کر کسی کو یہ پتہ نہیں لگنے دیا کہ بولے تو کیا بولے، ان کا مشہور و معروف ٹاک شو وہ تھا جو نائن الیون کہلایا جا سکتا ہے، نام تو اس کا ’’ایچک دانہ بیچک دانہ‘‘ تھا لیکن اس کا ٹائٹل سانگ تھا۔

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

اس میں انھوں نے ایک پروگرام 7/24 کو موضوع بنا کر بھی کیا تھا جس میں ملک کے بڑے بڑے ریاضی دان، حساب دان اور کتاب دان بٹھائے ہوئے تھے، سارے پروگرام میں حسب معمول حسب روایت اور حسب 7/24 کوئی یہ تو نہیں سمجھا تھا کہ کیا کہا جارہا ہے لیکن یہ پتہ ضرور لگا کہ 9/11 الیون کے بعد یہ فیشن چل نکلا ہے کہ نام جتنا بے معنی ہو گا پاپولریٹی اور پی آر اتنی ہی زیادہ ہو گی، خیر ان کے ساتھ پہلا ’’چونچ بہ چونچ‘‘ سنئے گا تو پتہ چلے گا کہ بے ’’معنی معنویت‘‘ کیا ہوتی ہے، تو چلیے اسٹارٹ کرتے ہیں باقی دو بدبختوں کا تو نام بھی نہ لیجیے کہ یہ اپنے ناموں سے زیادہ کاموں سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔

اینکر : جناب چمچ الملک چمچ صاحب پروگرام میں آپ کو خوش آمدید کہتے ہوئے عرض کریں گے کہ پہلے اپنا تعارف کیجیے۔

چمچ : نام تو میرا آپ نے لے لیا ہمارا تعلق خشوگی خاندان سے ہے خشوگی بھی چمچے ہی کو کہتے ہیں، تعلق کفگیر آباء کے ایک بہت بڑے شہر سے ہے

چشم : پہلے اپنی ولدیت بتا دیجیے

چمچ : والد کا نام چمچ الزمان، دادا کا نام چمچ الحق، پردادا کا نام چمچ العالم

علامہ : بس بس اتنے چمچے بہت ہیں۔اینکر : اینکرنگ سے پہلے آپ کا تعلق کس پیشے سے تھا۔چمچ : کمال کرتے تھے ہم اور پاجامہ ادھیڑ کر رومال کرتے تھے۔

اینکر : آج کس موضوع پر بات کریں گے۔چمچ آج تو ایک نہایت ہی مشہور و معروف کہاوت پر پروگرام کرنے کا ارادہ ہے۔چشم : کون سی کہاوت ؟چمچ : آج کل مملکت ناپرسان میں سب سے زیادہ بیسٹ سیلر اور زبان زدعام کہاوت ہے ’’بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘‘

اینکر : ذرا تفصیل میں غوطئے کہ یہ عبداللہ کون تھا اور شادی کس کی تھی۔چمچ : شادی ایک قصائی کی تھی اور دہلی کے محلے چوہے ماراں میں تھی ۔علامہ : کیا دلی میں محلہ چوہے ماراں بھی ہے، میں نے تو صرف محلہ بلی ماراں کا سنا ہے۔چمچ : غلط سنا ہے وہ بلی ماراں نہیں بلکہ بلی (BALI) کا محلہ ہے جہاں دریائے جمنا میں بلی مار کر کشتی چلانے والے ملاح رہتے تھے۔

اینکر : بات کا اسٹیرنگ مت گھمایئے،  شادی کی تفصیل پر آیئے۔چمچ : جس قصائی کی شادی تھی وہ پہلے کہیں اور رہتا تھا اور قصائی گیری کرتا تھا، اس سے پہلے کہیں اور تھا رسہ گیری کرتا تھا اور اس سے پہلے بھی کہیں اور تھا اور ’’چائے گیری‘کرتا تھا۔

چشم : مطلب یہ کہ پورا گیری تھا۔علامہ : اور اب ؟

چمچ : اب دلی کے محلہ چوہے ماراں میں آکر وہ پردھان بن گیا تھا اور شادی رچائی

اینکر : اور یہ عبداللہ جو بیگانی شادی میں دیوانہ ہوا۔

چمچ : ویسے تو بڑا شریف آدمی تھا لیکن ڈھول کی آواز سن کر بے قابو ہو جاتا تھا اور وہیں آن دی اسپاٹ بھنگڑا ڈال دیتا تھا بلکہ گاتا بھی تھا۔آؤجی آئو جی بھنگڑا ساڈے نال پاؤ جی،

علامہ : یہ پورے کا پورا چشم گل چشم کے دادا پر گیا تھا۔

چشم : خبردار جومیرے دادا کا نام لیا ورنہ میں تمہارے باپ دادا، دادی، نانا، نانی ۔۔۔ سب کا پول کھول دوں گا۔

چمچ : یہ تو بڑی اچھی بات ہے ایسا کرو تم دونوں ایک دوسرے کے خاندانی پول کھول دو۔

علامہ : اس کا دادا جو تھا ڈھول کی آواز پر دیوانہ ہو جاتا تھا۔

چشم : اور اس کا دادا حلوہ پوری کا نام سن کر پاگل ہو جاتا تھااس لیے اس کا نام بھی ’’ملا حلوہ پوری‘‘ پڑ گیا۔

علامہ : اس کا دادا ڈھول کی آواز سن کر اگر کھانا بھی کھا رہا ہوتا تھا تو وہیں سے تھرکنے لگتا تھا اور تھرکتے تھرکتے دوڑ کر بارات میں پہنچ جاتا تھا، ایک دن ۔۔۔۔

چشم : خبردار جو اس دن کا قصہ سنایا۔

چمچ : آپ جاری رکھئے۔

علامہ : بیٹوں نے اس کی اس عادت سے تنگ آکر اس سے کہا کہ ہم تجھے پانچ روپے روز دیں گے لیکن خدا کے لیے اب اس عادت سے باز آجائو۔

اینکر : پھر کیا ہوا۔۔۔۔

چمچ : بیٹوں نے اسی وقت پانچ روپے اکٹھا کر کے پچیس روپے دیے، لیکن ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ گلی سے بارات گزرنے لگی اور ایک توبہ شکن قسم کا ڈھول بجنے لگا۔

اینکر : کڑ کڑاکا ، کڑ کڑاکا، کڑ کڑ کڑ

علامہ : اس کا دادا تو تھوڑی دیر تک ضبط کیے رہا لیکن پھر اس کے پیر بے قابو ہو گئے اس کے بعد گھٹنے اور پھر اچانک اس نے پچیس روپے نکالے بیٹوں کے منہ پر مارے اور یہ کہتے ہوئے کود گیا اور ناچتے ناچتے نکل گیا، کہ اس ڈھول کو سن کر تمہارا باپ بھی نہیں رہ پائے گا۔چشم : اور اس کا باپ

اینکر : نہیں بس اصل موضوع پر آتے ہیں، چمچ صاحب وہ عبداللہ؟۔چمچ : عبداللہ دلی سے دور رہتا تھا لیکن ڈھول کی آواز اس کے کان پڑ گئی ایک تو دور کے ڈھول ویسے بھی سہانے ہوتے ہیں اور عبداللہ کی کم زوری بھی تھی۔اینکر : اچھا تو ڈھول کی آواز اس نے سن لی۔چمچ : صرف سنی نہیں بل کہ ہاتھ پیر بھی بے قابو ہو گئے اور یہ کہتے ہوئے دوڑ پڑا ۔۔۔ کہ ساغر کو میرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں ۔۔۔

اینکر : سب کچھ چھوڑ کر

چمچ : جی ہاں ۔۔۔ اور وہ بھی بن بلائے ۔۔۔

چشم : ارے چھوڑ چھاڑ کے سلیم کی گلی…انار کلی ڈسکو چلی

اینکر : تم چپ رہو اچھا پھر ؟

چمچ : پھر، پھر ہو گیا اور ناچتا گاتا ہوا سیدھا بارات میں شامل ہو گیا، ایسا ناچا ایسا ناچا ۔۔۔ کہ لوگوں کو اس پر دولہے کا گمان ہو گیا

اینکر : داد تو بہت ملی ہو گی

چمچ : داد کا تو پتہ نہیں ۔۔۔ داغ ضرور مل گیا

لے گئے خاک میں ہم داغ تمنائے نشاط

تو ہو اورآپ بصد رنگ گلستان ہونا

اور داغ بھی وہ جو کسی بھی ڈیٹرجنٹ سے نہ نکلے

اینکر : مطلب یہ کہ کچھ بھی نہ دیا

چمچ : کچھ تو دیا لیکن ساتھ ہی جرمانہ بھی بھرنا پڑا

اینکر : وہ کیسے؟

چمچ : وہ یوں کہ شادی والوں کو یاد آیا کہ اس شخص نے ایک مرتبہ کھایا پیا تو کچھ نہ تھا لیکن ایک گلاس توڑا تھا

اینکر : اچھا گلاس توڑا تھا وہ بھی کچھ کھائے پیئے بغیر

چمچ : جی ہاں اور اس کے بارہ آنے اس سے وصول کیے جائیں، تبھی سے یہ کہاوت مشہور ہو گئی کہ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ، ایسے من موجی کو مشکل ہے سمجھانا۔

ٹوٹی ہوئی بجلی، ٹوٹے ہوئے وعدے

$
0
0

وزیراعظم نواز شریف نے برطانیہ کے پانچویں دورے کے بعد پاکستان واپس آتے ہی ایک انٹرویو میں کہا تھا: ’’بجلی بحران کا صحیح اندازہ ہوتا تو (مسلم لیگ نون کے) منشور میں وعدے نہ کرتے۔‘‘ گذشتہ ماہ وزیراعظم صاحب نے ایک انٹرویو میں حکم دیا کہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ چھ یا سات گھنٹوں تک کیا جائے۔ مگر کیسے؟ طریقہ یہ بتایا کہ سی این جی سیکٹر کو گیس کی ترسیل کم کر دی جائے۔ ادھر حقیقت یہ ہے کہ سی این جی گیس اسٹیشنوں کوپہلے ہی گیس کی ترسیل بہت کم ہے۔

گرمی کی شدت اور لوڈ شیڈنگ میں اضافے کے ساتھ ہی حکومت کے خلاف عوامی غیض و غضب میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ بجلی ٹوٹ ٹوٹ کر بدترین لوڈ شیڈنگ کی شکل میں عوام کے ٹوٹتے اعصاب کو مزید توڑنے کا باعث بن رہی ہے۔ بجلی فراہم کرنے کے سارے وعدے ٹوٹتے جارہے ہیں۔ بھارت سے بجلی لی جاسکی ہے نہ ایران سے۔ نئے بجٹ میں بھی بجلی کی فراہمی کے لیے کوئی خاص رقم مختص نہیں کی گئی ہے۔

نئے ڈیم بنانے کے جو وعدے کیے گئے تھے، ان میں بھی کھنڈت پڑتی جارہی ہے۔ ورلڈ بینک کے نائب صدر نے چٹاکورا جواب دے دیا ہے کہ مجوزہ دیامر بھاشا ڈیم بنانے کے لیے ہم پاکستان کو ڈالر نہیں دے سکتے، جائیے پہلے بھارت سے اس ڈیم کے حوالے سے این او سی لے کر آئیے، پھر دیکھیں گے۔ اس کا یہ سرکاری جواب دیا جارہا ہے کہ ورلڈ بینک نے تو دیامر بھاشا ڈیم کے لیے کوئی وعدہ سرے سے کیا ہی نہیں تھا تو انکار کیسا؟

جو لوگ گذشتہ حکومت میں مینارِ پاکستان کے سائے تلے، لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ہاتھوں سے پنکھا جھلایا کرتے تھے، عوام اب ان سے پوچھ رہے ہیں یہی منظر اب کیوں نہیں دکھایا جارہا؟ بجلی کی عدم دستیابی کا عالم بھی وہی ہے، گرمی بھی ویسی ہی ہے اور بازار میں دستی پنکھے بھی بہت ہیں۔

سولہویں صدی عیسوی کے آغاز میں برطانوی پارلیمنٹ کے بعض ارکان نے ملکہ الزبتھ (اول) کے طرزِ حکمرانی پر شدید تنقید کرنا شروع کی تو ایک روز ملکہ تنگ آکر پارلیمنٹ میں آگئیں اور اپنے تاج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگیں: ’’اس تاج کو دیکھ کر رشک کرنا اور اس پر تنقیدی نگاہیں ڈالنا تو آسان ہے، مگر اس کا بوجھ اٹھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔‘‘ زرداری، گیلانی اور راجہ کی حکومت کے خلاف آوازیں کسنے اور اس دور میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے بارے میں سینہ کوبی کرنا خاصا آسان تھا مگر اب بعض لوگوں نے خود حکمرانی کا تاج پہنا ہے تو کہنے لگے ہیں توانائی کے بحران کا صحیح اندازہ ہوتا تو منشور میں وعدے نہ کرتے۔

گذشتہ ہفتے خبر آئی کہ پاکستان کے چار اہم ترین پاور ہائوسز اچانک بند ہوگئے۔ ان کی وجہ سے بھی لوڈ شیڈنگ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ جان کنی بڑھ رہی ہے، سانس اکھڑ کر گلے میں آپھنسے ہیں اور صنعتوں کے پہیے مزید منجمد۔ یعنی مزید بے روزگاری۔ بجلی کے حوالے سے گردشی قرضہ دوبارہ  330 ارب ہوگیا ہے۔ اس حکومت نے دس مہینوں میں عالمی مالی اداروں سے دس ارب ڈالر کے جو قرضے لیے ہیں، وہ ان 330ارب روپے کے علاوہ ہیں۔ اوپر سے وزیرِ بجلی اعلان کررہے ہیں کہ عوام کو اگلے چھ ماہ مزید لوڈ شیڈنگ برداشت کرنا ہوگی۔ یہ اعلان ہے یا عوام کے لیے حکومتی سنائونی؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کی کمیابی کا یہی حال رہا تو پاکستان کو سالانہ پانچ سو ارب روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑے گا۔

چند روز قبل ہم نے انھی صفحات پر ’’بجلی کا سیاپا‘‘ کے زیرِ عنوان ایک کالم لکھا تھا۔ بتایا گیا تھا کہ خیبر پختونخوا کے ایک علاقے میں برسہا برس سے بجلی کے میٹر ہی نہیں لگائے گئے، اس لیے بھی بجلی چوری ہورہی ہے۔ خیبر پختون خوا کے ایک مقتدر سیاستدان نے ’’واپڈا‘‘ پر تبریٰ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’یہ لوگ ہمارے میٹر ہی نہیں لگاتے، ہم کیا کریں؟ ہمیں بجلی تو استعمال کرنی ہی ہے۔‘‘ اب رازدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ بجلی کے میٹر لگانے کا تو محض سیاسی بیان تھا مگر اب اس مخصوص علاقے میں ’’اکابرین‘‘ نے طے کیا ہے کہ میٹر تو ہم نہیں لگنے دیں گے، البتہ ہر ماہ باقاعدگی سے پانچ سو روپے نقد سکّہ رائج الوقت سرکار کے خزانے میں جمع کروا دیا کریں گے۔ چلو پانچ سوہی سہی۔ ہوسکتا ہے ان قطروں سے ہی وہ دریا بن جائے جس سے حکومت بجلی بنانے والوں کے تین سو تیس ارب روپے ’’آسانی‘‘ سے ادا کرنے کے قابل ہوسکے۔

’’بجلی کا سیاپا‘‘ کے زیرِ عنوان لکھے گئے ہمارے کالم کے ردِ عمل میں بہت سے قارئین نے فون اور ای میلز کے ذریعے بجلی نہ دینے والوں کے خلاف سیاپا بھی کیا ہے اور سینہ کوبی کا مظاہرہ بھی لیکن ہم بوجوہ حکومت کے بارے میں ان کے ارسال کردہ ’’خیالات‘‘ مارے شرم کے لکھنے سے قاصر ہیں۔ مختصراً عرض ہے کہ بجلی کی فراہمی کے وعدے کرنے والوں کے بارے میں عوامی جذبات متلاطم ہورہے ہیں۔

جبیل (سعودی عرب) سے ایک قاری جناب محمد حفیظ الرحمن، جو وہاں رائل کمیشن میں الیکٹرسٹی اسپیشلسٹ ہیں اور ماضی میں ’’واپڈا‘‘ اور ’’پیپکو‘‘ کے ڈپٹی ڈائریکٹر بھی رہے، نے اپنی ای میل میں لکھا ہے کہ مَیں نے کئی بار پاکستان میں بجلی کے بحران سے نمٹنے کے لیے وزیربجلی کو کئی تجاویز لکھ کر بھیجیں، کسی ایک کا بھی جواب نہ دیا جاسکا۔ حفیظ صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’واپڈا‘‘ کے ملازمین سے مفت بجلی کے استعمال کی سہولت واپس لینا چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ موجودہ حکومت تو اتنی کمزور ہے کہ وہ واپڈا کے ملازمین کومفت بجلی کی یہ سہولت واپس لینے کی جرأت ہی نہیں کرسکتی۔

ویسے بھارت میں بھی بجلی کی فراہمی کا حال کچھ اچھا نہیں ہے۔ ابھی چند دن پہلے ہی اسی بنیاد پر احتجاج کرتے ہوئے بھارت کے سابق وزیرخزانہ یشونت سنہا کو حوالات میں کئی راتیں گزارنا پڑی ہیں۔ ان کا ’’جرم‘‘ یہ تھا کہ بار بار کی لوڈ شیڈنگ سے تنگ آکر انھوں نے اپنے تین سو ساتھیوں سمیت حکمرانوں کے خلاف زبردست احتجاج کیا اور بجلی کے بِل نہ دینے کا بھی اعلان کردیا۔ اسی ’’جرمِ بغاوت‘‘ میں انھیں اندر کردیا گیا۔

کتاب کے فروغ میں اشاعتی اداروں کا کردار

$
0
0

کتاب کا سرورق صرف اس کا چہرہ ہی نہیں ہوتا، بلکہ اس کا تعارف بھی ہوتا ہے۔ سرورق دیکھ کر قارئین مضمون بھانپ لیتے ہیں۔ اس کے بعد کتاب کا متن اس کے اچھے اور برے ہونے کے نتیجے پر اثرانداز ہوتا ہے۔ کتاب اگر اچھی ہے تو قارئین نہ صرف اس کا ذکر کرتے ہیں، بلکہ اس کے متن سے لطف بھی اٹھاتے ہیں۔ اچھی کتاب تنہائی کو بانٹ لیتی ہے، جب کہ بری کتاب سے صرف وقت کازیاں ہوتا ہے۔

زندگی میں کتابوں اور چہروںکو پڑھنے والے بڑے ذہین ہوتے ہیں، لیکن یہ ضروری نہیں، جس کو چہرہ پڑھنا آتاہو، وہ کتاب بھی پڑھے اور یہ بھی ممکن نہیں، ہر کتاب پڑھنے والا چہروں کا شناسا بھی ہو۔ یہ دونوں خوبیاں کسی ایک شخصیت میں مشکل سے یکجا ہوتی ہیں، لیکن ہو جائیں، تو ایسے شخص کو کبھی نہیں بھلایا جاسکتا، اُس اچھی کتاب کی طرح، جو بند کر دینے کے بعد بھی ہمارے احساس میں شعور کی کھڑکی بن کر کھلی رہتی ہے۔ اچھی کتاب اور اچھے شخص میں یہی خوبی یکتا ہے۔

دنیا بھر میں کتب بینی کے رجحان میں تیزی آئی ہے۔ کلاسیکی کتابوں کے نت نئے ایڈیشنز شایع کیے جا رہے ہیں۔ جدید لکھنے والوں کی کتابیں بھی انھیں اتنا کما کر دے دیتی ہیں کہ انھیں لکھنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کرنا پڑتا۔ جاپان کا ایک معروف ناول ’’ہاروکی موراکامی‘‘ جو گزشتہ کئی برس سے نوبیل ادبی انعام کے لیے بھی نامزد ہو رہا ہے اور یہ امید کی جا رہی ہے، وہ بہت جلد ادب کا یہ عالمی اعزاز حاصل کر لے گا۔

اس کے تمام ناول دنیا بھر کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوتے ہیں، مگر بالخصوص جب اس کا کوئی نیا ناول جاپانی زبان میں شایع ہوتا ہے، تو اس ایک ہی ناول کے دو ایڈیشنز شایع کیے جاتے ہیں، جن کے سرورق کا صرف رنگ مختلف ہوتا ہے۔ میرے پاس اس کا ایک جاپانی زبان میں لکھا ہوا ناول’’دی نارویجن ووڈ‘‘ ہے، جو ایک جاپانی دوست نے مجھے جاپان سے لا کر دیا تھا۔ اس ناول کے سرورق ’’سرخ‘‘ اور ’’سبز‘‘ رنگ کے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس کے ناول کو خریدنے کے لیے جاپان سمیت دنیا بھر میں قارئین پیشگی آڈر دیے، تاکہ جیسے ہی ناول شایع ہو، اس کے دونوں ایڈیشنز انھیں مل جائیں۔

باہر کی دنیا میں یہ عالم ہے کتاب سے محبت کا اور یہ میں ان ممالک کی بات کر رہا ہوں، جہاں سے ٹیکنالوجی نے جنم لیا ہے اور ہمارے لوگ یہ کہہ کر کتاب پڑھنے سے جان چھڑا لیتے ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے، اب کون کتاب پڑھتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ ہم تہذیبی طور پر کہاں کھڑے ہیں، اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

ان تمام باتوں کے باوجود پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے کتابوں کی اشاعت، معیار اور فروخت میں بہتری آئی ہے، اس کی وجہ کچھ متحرک ادارے ہیں، جن کی حوصلہ افزائی ہمیں کرنی چاہیے۔ اصولی طور پر تو یہ کام حکومتوں کا ہوتا ہے، مگر نجی اداروں کی اس حوالے سے کافی خدمات ہیں، اس بات سے قطع نظر کہ کتاب چھاپنے کے حوالے سے کئی ادارے اور لوگ بدنام بھی ہیں اور میں نے جن بری کتابوں کا اوپر تذکرہ کیا، وہ ایسے ہی لوگوں کی بدولت مارکیٹ میں آتی ہیں، مگر کچھ بھلے مانس لوگ بھی ہیں، جنہوں نے کاروبار کے ساتھ ساتھ کتاب کی خدمت کی اور اس کے معیار کو بہتر بنایا۔ ایسے ہی کچھ لوگوں کا یہاں تذکرہ آپ سے کر رہا ہوں۔ اس وقت اچھے کام کی حوصلہ افزائی ضروری ہے، جب خاص طور پر ہر طرف سے اس کام کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہو۔ ایسے ماحول میں کتاب دوستوں کی پہچان ضروری ہے۔

کراچی میں انگریزی کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے کئی معتبر نام ہیں، انھوں نے درسی کتابیں چھاپنے کے علاوہ فکشن اور نان فکشن میں انگریزی کتابیں چھاپنے کا سلسلہ ایک عرصے سے شروع کر رکھا ہے، اور کچھ عرصے سے یہ اردو کتابیں بھی چھاپنے لگے ہیں۔ کتابوں کی ترسیل کے حوالے سے لبرٹی بکس بھی ایک اہم نام ہے۔ اردو کتابوں کے حوالے سے نجی اشاعتی اداروں نے گزشتہ کچھ عرصے میں اچھی کتابیں شایع کی ہیں۔ ان کے علاوہ پاکستان اسٹڈی سینٹر، شعبہ تصنیف وتالیف وترجمہ جامعہ کراچی، محکمہ ثقافت سندھ، انجمن ترقی اردو کے علاوہ کئی نجی ادارے بھی اس کارخیر میں شریک ہیں۔

کوئٹہ میں پبلشرز نے بھی کئی عمدہ کتابیں شایع کی ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں لاہور ایک بڑا اشاعتی مرکز رہا ہے۔ کئی ممتاز اشاعتی اداروں نے بہت عمدہ کتابیں چھاپیں۔ نئے ناشرین بھی نہایت عمدہ کتابیں شایع کر رہے ہیں۔

اسلام آباد میں نمایاں ناشر ادارے کتابوں کے فروغ میں اپنا کردار نبھا رہے ہیں۔ اسی شہر میں کتابوں کی ترسیل میں کتابوں کے مشہور مراکز بھی نمایاں ہیں۔ جہلم میں ایک ادارہ کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے نیا نام ہے، مگر اس چھوٹے شہر سے بڑی کتابیں شایع کر رہا ہے، یہ قابل تحسین اقدام ہے۔ اسی طرح پشاور، راولپنڈی، چکوال، سرگودھا، ملتان، گوجرانوالہ، بہاولپور، سکھر، حیدر آباد اور دیگر چھوٹے شہروں میں بھی محدود پیمانے پر کئی لوگ کتابوں کی اشاعت اور ترسیل کا کام کر رہے ہیں، مگر ہم ان سے واقف نہیں ہیں۔

سیاسی مداریوں کی طرف سے جہاں عوام کو بہت سے تحفے ملے ہیں، اس میں ایک تحفہ مہنگائی بھی ہے۔ اس مہنگائی کا اثر کتابوں کی اشاعت پر بھی پڑا ہے، جس کی وجہ سے قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ میری ان تمام اداروں سے درخواست ہے، لوگ اب بھی کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں، اگر آپ کتابوں کی قیمت کچھ کم رکھیں، یعنی اپنے منافعے کو کچھ کم کر لیں، باقاعدگی سے کتابیں خریدنے والوں کے لیے ممبرشپ کے ذریعے رعایت کا کوئی سلسلہ شروع کریں۔

سالانہ نمائشوں کے ذریعے کتابوں کی فروخت کو سستے داموں ممکن بنائیں، تو امید ہے کہ کتاب خریدنا عوام کے لیے ممکن ہو جائے گا۔ خاص طور پر طلبا کتابیں خرید کر پڑھنا چاہتے ہیں، مگر زمانہ طالب علمی میں کوئی ذریعہ معاش نہیں ہوتا، لہٰذا وہ کیسے کتابیں خریدیں۔ اس کے لیے بھی کوئی اقدام ہونا چاہیے، ہماری حکومتوں کو تو سیاسی کرتب بازی سے نہ جانے کب فرصت ملے گی، یہ کام ہمیں ہی مل جل کر کرنا ہے۔

باہر کے ممالک میں ایک روایت ہے، خاص طور پر یورپی ممالک کے بڑے بک اسٹورز میں، اگر کوئی خریدار بک اسٹور میں کتاب پڑھ رہا ہے اور کوئی دوسرا شخص وہی کتاب خریدنا چاہتا ہے، تو دکاندار اس کتاب پڑھنے والے کو یہ نہیں کہے گا کہ آپ کتاب واپس کر دیں، فلاں صاحب یہ خریدنا چاہتے ہیں، بلکہ وہ اس کا انتظار کرے گا، جب وہ مطالعہ ختم کر کے مطلوبہ کتاب واپس جگہ پر رکھ دے گا، تو جب دکاندار اس کتاب کو فروخت کرنے کا مجاز ہے۔ کیا ہی اچھا ہو، ہمارے ہاں اس طرح کی کوئی اخلاقی روایت قائم ہو جائے۔ کتابوں کی دکانوں پر کہیں چھوٹا سا چائے خانہ بنا دیا جائے، جہاں خریدار کتاب خریدنے سے پہلے تسلی سے پڑھ سکے کہ آیا وہ اس کے مطلب کی کتاب ہے بھی کہ نہیں۔ ناشرین کو کچھ ایسے اقدامات کرنے ہوں گے، جس سے کتاب کو مزید فروغ دیا جا سکے۔

ہمیں چاہیے کہ اپنے آپ کو اس مقولے سے آزاد کروائیں کہ ’’دوسروں کو کتاب دینے والا بیوقوف اور واپس کرنے والا اس سے بڑا بیوقوف ہے۔‘‘ اس کی بجائے ایک دوسرے کو تحفے میں کتاب دینے کی روایت قائم کرنی چاہیے۔ ایک دوسرے سے کتابیں لے کر پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ اسکول، کالج اور جامعات کا تدریسی عمل نوجوان نسل کو تعلیم یافتہ ضرور بناتا ہے، مگر سند حاصل کر لینا ہی عملی زندگی میں سب کچھ نہیں، بلکہ شعور کی منزلیں طے کرنے کے لیے غیرنصابی کتب کا مطالعہ بھی بے حد ضروری ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں مقامی زبانوں میں ایسی کتابوں کے تراجم ہوتے ہیں۔ ان کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کی ترقی کا سفر کہاں تک جا پہنچا ہے اورہمارے اخبارات میں لاشوں کی گنتی ہی ختم نہیں ہوتی۔

ہو سکتا ہے کہ اس مہنگائی کے دور میں کتاب سے محبت کا مشورہ آپ کو گھاٹے کا سودا لگے، مگر اس کے بڑے دوررس نتائج ہیں۔ درمیانے طبقے کے لوگوں کے پاس شعوری ترقی کرنے کا راستہ یہی ہے۔ عام آدمی لاکھوں روپے خرچ کر کے بیرون ملک پڑھنے نہیں جاسکتا، مگر ان کتابوں کے ذریعے عالمی تاریخ، ادب اور معاشرت کو یہی رہ کر سمجھ سکتا ہے۔ کتاب شعور کا ایک ایسا راستہ ہے، جس میں ہم ادراک، انکشاف اور تسکین کی کئی منازل طے کرتے ہیں۔

غذائی قلت

$
0
0

گزشتہ دنوں خوراک اور زراعت کی تنظیم (ایف اے او) نے ایک رپورٹ جاری کی ، جس میں یہ خیال پیش کیا گیا کہ ’’دنیا کو کیڑے کھانے پر قائل کیا جائے تاکہ بڑے پیمانے کی بھوک سے بچا سکے۔‘‘دراصل یہ نظریہ مالتھس کے مقابلے میں پیدا کیا گیا ہے، تقریبا دو صدیوں پہلے مالتھس نے یہ خیال پیش کیا کہ ’’غریبوں کی مدد کرنا غلطی ہے ان کو فاقوں سے مرجانا چاہیے کیونکہ فطرت سب کی ضروریات پوری نہیں کرسکتی‘‘ بہت سے مفکرین ، بشمول مارکس اورینگلز نے اس نظرئیے کو رد کیا اور بورژوازی نے عملا اس نظرئیے کو مسترد کردیا کہ مالکان کو مختلف شعبوں ، میدانِ جنگ ، کارخانوں اور فیکٹریوں کے لیے انسانی قوت محنت کی ضرورت ہے۔

خود دو سو سال کے سائنسی ثبوت مالتھس کے نظریے کو جھٹلانے کے لیے کافی ہیں ۔مالتھس کے پیروکار ہر بار قیامت آنے کے پیشگوئیوں کے ساتھ دنیا کی آبادی کو ایک ارب سے دو ، اور پھر تین ارب تک لے جانے کے ساتھ دوسو پچاس تک دنیا کی آبادی 9ارب ہوجانے کا دعوی پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ چالیس سالوں میں طلب کو پورا کرنے کے لیے غذائی پیداوار میں60فیصد اضافہ درکار ہوگا۔خوراک اور زراعت کی تنظیم (ایف اے او)  کی رپورٹ کے مطابق ’’آج بھی انسانیت کو دائمی غذائی کمی کی تلخ حقیقت کا سامنا ہے ، جو 800ملین لوگوں کو متاثر کر رہی ہے جس میں17فیصد ترقی پزیر ممالک ،34فیصد افریقہ اور کچھ دیگر ممالک میں ہیں۔‘‘

امریکی ادارہ برائے خوراک کے مطابق 2012ء میں تقریبا1کروڑ 80گھرانے خوراک کی کمی کا شکار تھے اور70لاکھ گھرانے مشکل سے اپنی غذائی ضروریات پوری کرتے تھے۔‘‘یہ امریکا جیسے ملک کی اپنی مملکت کے بارے رپورٹ ہے ، وہ امریکا جو خوراک کا بڑا برآمد کنندہ ہے اور اپنے لوگوں کو ان کی ضروریات سے زیادہ غذا فراہم کرسکتا ہے۔جب امریکا جیسے مستقل منصوبہ ساز ملک و ترقی یافتہ مملکت کا یہ حال ہو تو ذرا سوچیں کہ ترقی پذیر اور غریب ممالک کے عوام کا کیا حال ہوگا۔

خوراک اور زراعت کی تنظیم (ایف اے او) کی رپورٹ  میں کہا گیا کہ’’دنیا میں1900اقسام کے خوردنی کیڑے ہیں جن میں سیکڑوں آج بھی بہت سے ممالک میں غذا کا حصہ ہیں۔در حقیقت دو ارب لوگ باقاعدگی سے مختلف اقسام کے کیڑے پکا کر یا خام حالت میں کھاتے ہیں ، رپورٹ کے مصنفین کے مطابق’’ غذائی نکتہ نظر سے کیڑے کھانے سے عمومی نفرت کاکوئی جواز نہیں۔‘‘دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے مغربی ممالک میں جیسے فرانسیسی ، اطالوی پنیر میں کیڑے شامل کیے جاتے ہیں، کیلیفورنیا اور فرانس میں کچھ ریستوانوں میں کیڑے دستیاب ہیں ، کچھ کمپنیاں کیڑے مکوڑوں سے بنی غذا فروخت کرتی ہیں۔

1996 میں چینی حکام نے درجنوں ایسی غذائی اجناس کی منظوری دی جن کے اجزا میں چیونٹیاں شامل تھیں ، تھائی لینڈ میں انھیں پکوان کا درجہ حاصل ہے ، چین میں لاروا اور پیوپا عمومی طور پر کھایا جاتا ہے، لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ یہ سب بچارے غریبوں کی قسمت میں اس لیے ہے کیونکہ سرمایہ داری نظام نے انھیں اچھی خوراکوں سے محروم رکھا ہے اور یہ حقیقت خوراک اور زراعت کی تنظیم (ایف اے او)  بہت اچھی طرح جانتی ہے کہ کروڑوں انسانوں نے ایک بار بھی اچھی خوراک زندگی بھر نہیں چکھی۔

صحت اور تعلیم کے ساتھ اسباب رزق کے ذرایع یعنی روزگار فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے لیکن اس کے باوجود ہر روز1130بچے قابل علاج بیماریوں سے مر جاتے ہیں جب کہ60فیصد بچے اسکول ہی نہیں جا پاتے۔آئین پاکستان کے آرٹیکل 3کے مطابق ریاست ہر شہری کو روزگار دینے کی پابند ہے۔ لیکن اس کے برخلاف سرمایہ دار کے لیے بس شرح منافع بڑھنی چاہیے۔

اوزن لیئر کمزور ہو یا ختم ہوجائے ، گلوبل وارمنگ بڑھتی رہے ، انسان مرتا رہے تو مرتا رہے ، جنگیں ضروری ہیں تاکہ امریکا ، روس ، جرمنی وغیرہ کی اسلحہ ساز فیکٹریاں چلتی رہیں ، دہشت گردی ختم تو میڈیا کا کاروبار ہی ختم ہوجائے ، دہشت گردی کی تازہ لہر سے پہلے پاکستانی میڈیا ’’تھنک ٹینکوں‘‘میں یہ پلان کر رہا ہوتا تھا کہ کس طرح اسٹار پلس کے ڈراموں  کا زور توڑا جائے ، لیکن دہشت گردی کی چکا چوند اور بریکنگ نیوز کی سنسنی نے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ، حالاں کہ میڈیا کے سامنے دہشت گردی سے بھی بڑے مسائل سامنے موجود ہیں ، بھوک ، بے روزگاری ، صحت کی سہولتوں کی عدم فراہمی سے مرنے والوں کی تعداد دہشت گردی سے مرنے والوں سے کئی زیادہ ہے۔

دراصل جب انسان نے رزق کے قدرتی سرچشموں پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا شروع کردی اور انسان کو اپنا غلام بنانا شروع کردیا تو اس وقت سے ہی ، سرمایہ دار اور غریب انسان کے درمیان تصادم شروع ہوا۔سرمایہ دار نے دولت کو ایک جگہ اپنے تصرف میں رکھنے کے لیے طرح طرح کی منصوبہ بندیاں کیں اور اپنی مرضی کی حکومتیں بنانا شروع کردیں تاکہ اس کے مفادات پورے ہوسکیں ،ایک ملک اگر طاقتور ہوا تو اس نے دوسرے کمزور ملک کو اپنی غلامی میں جکڑنے کے لیے استعماری جال بچھاکر اسے اپنا معاشی غلام بنا لیا۔

اسی طرح پاکستان میں آنے والی ہر حکومت میں کسی غریب کے لیے کوئی جگہ نہیں بچتی کیونکہ ہر حکومت نے دو فیصد مراعات یافتہ طبقے کے مفادات کو پیش نظر رکھنا مقصود ہوتا ہے۔ مراعات یافتہ طبقے کے دو سو ارب ڈالرز صرف سوئس بینکوں میں ہیں ، جب کہ پوری دنیا میں کالے دھن کا کتنا ذخیرہ ہوگا جو  وڈیروں ، جاگیرداروں ،صنعتکاروں ، ملکوں اور خوانین نے اپنی کمزور رعایا پر ظلم کرکے ملک سے باہر جمع کیا ہوگا؟ اس کا حساب  لیا جائے تو مشینیں بھی گنگ ہوجائیں۔

دراصل ہم نے اساسَ پاکستان ہی نہیں بلکہ دین اسلام کے لازوال و سنہرے قوانین و اصولوں کو پس پشت اس لیے ڈال دیے کیونکہ ہم نے مغرب کی نقالی کا ٹھیکہ جو اٹھا رکھا ہے ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قیام  پاکستان  کے وقت انگریزوں سے وفاداری نبھانے والوں کو تحفے میں ملیں  تمام زمینیں ، جاگیریں  قومی ملکیت میں لے لی جاتیں اور بھارت کی طرح تمام زمینوں کی ملکیت کسی فرد واحد کے پاس نہیں رہنے دی جاتی ،یا پھر زرعی ٹیکس کا نفاذ ہوتا۔ جو نظام (حکومت) اللہ کے نام پر قائم ہوتا ہے تو انسانوں کی تمام ذمے داریاں اس حکومت کے فرائض میں شامل ہوکر ترجیحات بن جاتی ہیں، اللہ کے دیے گئے نظام کے تحت قائم حکومت میں ربوبیت کے تمام انتظامات انسان ، اللہ تعالی کے دیے گئے احکامات و اصولوں کے تحت اپنے ذمے لے کر ایسے پورا کرتا ہے۔

لیکن جب انسان اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کے لیے سود کے سرمایہ دارانہ نظام کو اپنا لیتے ہیں تو ، اللہ اور اس کے رسول  ﷺ سے کی جانے والی جنگ میں کامیابی  کا تصور خام خیالی ہوگا اور ایسا نظام جو سرمایہ داری طبقاتی بنیادوں پر قائم ہوتا ہے تو پھر غریب انسانوں کو زندہ رہنے کے لیے کیڑے مکوڑے کھانے پڑتے ہیں ۔ جب تک غریب اپنے جینے کے حق کو اپنے ہاتھوں خود حاصل نہیں کرے گا اس وقت تک سرمایہ داری نظام کے مورثی طبقہ ان کی محنت ، خون پسینے کی کمائی سے محلات بناتے رہیں گے اور غریب عوام کیڑے مکوڑے کھائیں گے۔

لاپتہ زندگی

$
0
0

موت کا موسم تو اپنے پورے جوبن کے ساتھ سندھ پر طاری ہے لیکن آج کل لاپتہ زندگیوں کے نوحے بھی کڑکتی بجلی سے کچھ کم نہیں ہیں۔ اغوا برائے تاوان ایک بہت بڑی تجارت ہے اور سندھ اس کا کارآمد Hub بن چکا ہے۔ اغوا کاروں کے بہت بڑے بڑے گینگ بن چکے ہیں جن کی نظر میں انسان کی اہمیت ایک چیک سے بڑھ کر نہیں ہے  جس کو وہ کبھی بھی اپنے مفاد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔

سندھ میں ڈاکو کلچر تب شروع ہوا جب آمر ضیا کے دور میں ہیروئن اور کلاشنکوف ملک میں رائج ہوئی ۔ کلاشنکوف اور ہیروئن کی اسمگلنگ کے ساتھ ساتھ سندھ کا امن و امان بھی داؤ پر لگ گیا۔ آج کل سندھ کے کئی علاقے اور شاہراہیں ایسی ہیں جہاں سے لوگ دن دہاڑے اٹھا لیے جاتے ہیں۔ حیدر آباد سے مٹیاری، مٹیاری سے ہالا تک اکثر لوگ اٹھا لیے جاتے ہیں۔نصیر آباد تک ڈاکوؤں کے گینگ پھیلے ہوئے ہیں۔ ان علاقوں کے کچے زمینی علاقے ڈاکوؤں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔

اغوا برائے تاوان ایک بڑا دیو ہے جس کے تین بڑے سر ہیں۔ ’’بااثر لوگ، ڈاکو اور ’’پولیس‘‘ جن کی مدد سے وہ عام لوگوں پر راج کر رہا ہے۔ دیو لوگوں کو اٹھا لیتا ہے۔ راہ چلتے ہوئے، گاڑی میں سفر کرتے ہوئے کہیں سے بھی وہ گم کردیتا ہے جب ہی عزیز و اقارب لامحدود انتظار کی سولی پہ ٹنگ جاتے ہیں۔

کبھی کبھی کوئی ’’رحم دل‘‘ ڈاکو جلدی سے رقعہ بھیج دیتا ہے کہ پیاروں کی زندگی کی قیمت مقررہ جگہ پر بغیر پولیس کو اطلاع دیے پہنچائی جائے۔ اگر کوئی چٹھی اور کال نہ آئے تو پھر بندہ لاپتہ ہوجاتا ہے۔

اگر علاقے کا با اثر زمیندار ہو تو بھی پولیس کے لیے بندے کو ڈھونڈنا بڑا مشکل کام بن جاتا ہے اور شہری علاقوں سے  اغوا کیے گئے لوگوں کے رشتے دار بھاری رقوم کی ادائیگی پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

میڈیا کی رپورٹ کے مطابق 12 مئی 2014 کو شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی کا طالب علم اغوا ہوا۔ 23 مئی کو بخت پور سے 4 لوگ اغوا ہوئے، غلام رسول، عبداللہ بنگلانی اور تارا چند اغوا ہوئے۔ پولیس کی ناکامی کے بعد ورثا تاوان کی رقم بھرنے پر تیار ہوگئے۔ 24 مئی 2014 کو چک شکار پور کے 5 لوگ مسلح افراد نے اغوا کیے۔

نصراللہ مہر، ایاز مہر، آفتاب مہر، دانش قریشی اور عمران۔ ان میں سے دو کو تشدد کے بعد چھوڑ دیا گیا باقی تین لوگ ابھی تک لاپتہ ہیں۔ شکار پور سے صرف مئی میں 8 سے زائد افراد اغوا ہوئے ہیں جن میں سے کچھ کی تو پولیس میں کوئی ایف آئی آر ہی درج نہیں ہے۔ ضلع خیرپور سے 13 لوگ اغوا ہوئے ہیں اور خیرپور میرس سے 22 لوگ اغوا ہوئے جن میں سے پون کمار، ندیم تالپور، امین گلال، شعیب بروہی اور دیگر شامل تھے۔ CPLC کی رپورٹ کے مطابق 103 کیس رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے 18 بازیاب کرا لیے گئے اور باقی کا کچھ پتا نہیں چل سکا۔ گزشتہ دو دہائیوں میں 763 لوگ اغوا برائے تاوان کا شکار ہوئے ۔

یہ لوگ جن کے نام بااثر کے لفافے میں ہمیشہ چھپے رہتے ہیں جو اپنے علاقے کے بے تاج بادشاہ ہوتے ہیں وہ اپنی زمینوں پر پتہ ہلنے سے بھی باخبر ہوتے ہیں۔ جب اغوا کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو عام انسان پولیس سے پہلے علاقے کے بااثر بندے کے پاس پہنچتا ہے اور جب پولیس اپنی تفتیش کا آغاز کرتی ہے تو بھی اس کی ابتدا بھوتار سائیں کی اجازت سے شروع ہوتی ہے۔ 6اپریل 2014 کو 17 سال کی فوزیہ اغوا ہوئی۔ غریب مزدور باپ کو رقعہ موصول ہوا کہ 5 لاکھ کی رقم ادا کی جائے ورنہ بیٹی کو مار دیا جائے گا۔ غریب مزدور بااثر بندے کے پاس گیا پیغام لانے والے بھی ادھر بلائے گئے اور پھر پولیس کی تحویل میں دیے گئے۔

فوزیہ مئی کے آخر تک تو بازیاب نہ ہوسکی۔ 24 مئی 2014 کو دو اغوا کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے ایک بھریا روڈ سے ہوا ہے جس میں ایک بیوپاری ارشد کے گھر 10 مسلح افراد گھس گئے ۔ مسلح افراد کی فائرنگ سے محلے کا ایک بندہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ لوگوں نے احتجاج کیا پھر بھی کیس داخل نہ ہوسکا۔ اسی دن  ٹھل میں مسلح افراد نے عرفان سرکی کو اغوا کرنے کی کوشش کی اور مزاحمت کرنے پر 4 مسلح افراد نے 20 سالہ نوجوان عرفان اور اس کے والد کو زخمی کردیا۔ عرفان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ حیدرآباد، عمر کوٹ، قمبر، جیکب آباد بھی اغوا کی وبا میں لپیٹ میں آچکے ہیں۔

زیادہ تر لوگ پولیس میں جانے کے بجائے تاوان کی رقم ادا کرکے اپنی زندگی بچانے کو فوقیت دیتے ہیں۔ کچھ لوگ جو اغوا ہوئے ہیں مگر ان کا پتہ نہیں چلتا کہ وہ کہاں ہیں۔ جیسے طارق محمود، فیصل آرائیں اور نعیم آرائیں کے اغوا کا معاملہ جس میں مغوی ابھی تک واپس نہیں ہوئے۔ہالا، بھٹ شاہ کے بیچ راستے میں اغوا ہوئے پھر شکار پور منتقل کیے گئے اس کے بعد کوئی خبر نہیں مل سکی۔انسانی زندگیوں کا مکروہ کاروبار کرنے والوں کی بندوقیں ہمیشہ بااثر لوگوں کے کندھوں پر رکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ سندھ کی مشہور آرٹسٹ نسرین ناز کے اغوا کے بعد سندھ کے ڈاکوئوںکی یہ روایت بھی دم توڑ گئی کہ وہ عورتوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتے۔ وزیر اعلیٰ  کا بیان تو بہت دل نشیں تھا کہ اب کوئی بھی تاوان کی رقم ادا نہیں کرے گا۔ جس نے یہ رقم ادا کی ہے تو اس کو واپس کروا دی جائے گی۔

معاشی عدم استحکام کے اس دور میں جہاں عوام ہر طرح سے پس رہے ہیں، رات دن محنت کرکے لوگ کماتے ہیں، اپنا گھر چلانے کے بجائے وہ رقم اپنی زندگی کی قیمت ادا کرنے میں لگا دیتے ہیں۔ آج کا انسان اپنی زندگی کا بھی ٹیکس ادا کرتا ہے۔

جو لوگ روز کماتے اور روز کھاتے ہیں جو روز فروٹ، سبزی کی ریڑھی لگاتے ہیں یا کوئی چھوٹی  سی دکان لگاتے ہیں، جو چنے بیچتے ہیں وہ بھتہ دینے پر مجبور ہیں۔ انھیں پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کب گھر سے نکلیں اور کب کسی بے رحم گولی کا شکار بن جائیں اور جو لوگ کچھ کاروبار کریں یا کسی اچھے عہدے پر پہنچ جاتے ہیں وہ اٹھا لیے جاتے ہیں۔ حکومت کے اوپر جو لاقانونیت کی حکومت ہے وہ زیادہ طاقتور ہے۔ ہماری ریاست پر ایک اور ریاست قابض ہے جس کو لاقانونیت کہتے ہیں۔

عام انسان کہیں گم ہوتا جا رہا ہے۔ ہزاروں گم شدہ لوگوں کے بچے روتے بلکتے لوگ دربدر بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ اغوا برائے تاوان ایک بڑی وبا کی طرح پھیلتا جا رہا ہے جس کی کوئی ویکسین بھی نہیں۔ ہمارا ملک دنیا کا شاید منفرد ملک ہے جس میں لوگ اپنی سانسوں کی قیمت ادا کرتے ہیں۔ زندگیوں کی خرید و فروخت کے اس کاروبار کو کہیں بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ جو انسان اپنی زندگیاں اپنی محنت کی کمائی سے خرید کر زندہ رہیں وہ دوسرے حقوق مانگنے کی ہمت کرسکیں گے یا نہیں؟ عام انسان آخر اپنی ریاست اور حکومت سے کیا مانگ سکتا ہے؟

قومی زبان کی اہمیت

$
0
0

ہمارے ایک عزیز کا کوئی مقدمہ مقامی عدالت میں چل رہا تھا وہ ایک دن کچھ کاغذات لے کر آئے جس میں قانونی اصطلاحات دقیق انگریزی میں تحریر کردہ تھیں ہم نے ان کو اس کا ترجمہ تو کرکے بتادیا مگر اس سے ہم خود بھی مطمئن نہ تھے تو ان کو کیا کرتے۔

ہمارے عدالتی نظام تمام ادارے کچھ اس طرح ہیں کہ تمام تر کارروائی انگریزی زبان میں ہوتی ہے جس سے عام پڑھے لکھے بھی نابلد ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ عدالتی کارروائی کے تقاضوں کو پورا کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں اور جس کی وجہ سے اکثر وکلا حضرات اپنے موکل کو اپنی دکان چمکانے کے لیے معنی و مفہوم کو کچھ کا کچھ بتاتے ہیں جس کی وجہ سے موکل کو مقدمے میں طویل مسافت طے کرنی پڑجاتی ہے ۔جس سے اخراجات بھی کافی بڑھ جاتے ہیں جوکہ کچھ لوگ ادا بھی نہیں کر پاتے اور جن کی وجہ سے اکثر مقدمے کے فیصلے ان کے خلاف ہوجاتے ہیں۔

اس لیے 2011 میں سپریم کورٹ کے جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا تھا کہ انگریزی زبان میں جو عدالتی فیصلے لکھے جاتے ہیں ان کو سمجھنے کے لیے عوام الناس محض تجزیہ نگاروں، قانونی پنڈتوں اور ماہرین کے محتاج ہوکر رہ جاتے ہیں اور یہی وجہ تھی کہ جسٹس خواجہ نے اس وقت کی پارلیمانی کمیٹی کیس میں اردو زبان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے اردو زبان میں اضافی نوٹ جاری کیا تھا مگر اس وقت موجودہ صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کو قائم ہوئے 68 برس گزر گئے مگر ہم اپنی قومی زبان اردو کو وہ اہمیت اور درجہ نہیں دے سکے جس کی وہ مستحق ہے۔ کسی بھی قوم کے لیے قومی زبان ایک ایسی زنجیر ہے جس کے ذریعے ملک میں رہنے والے تمام افراد ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں اور اسی لیے باوقار قومیں اپنی قومی زبان کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہیں اور بین الاقوامی سطح پر اس کا پرچار بھی کرتی نظر آتی ہیں۔

ایک مرتبہ چین کے وزیر اعظم سے انگریزی زبان میں خطاب کرنے کے لیے کہا گیا تو انھوں نے بڑا خوبصورت جواب دیا کہ یاد رکھیے ’’چین بے زبان نہیں ہے‘‘ اسی طرح ترکی کے وزیر اعظم طیب اردگان جب پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تو انھوں نے پارلیمنٹ سے خطاب اپنی زبان میں کیا اور اس بات پر حیرت کا اظہار بھی کیا کہ ہمارے وزیر اعظم نے انگریزی میں خطاب کیا۔ ہر قوم اپنی قومی زبان پر فخر کرتی ہے مگر ماسوائے پاکستانیوں کے۔ ہماری غلامانہ ذہنیت کا تو یہ حال ہے کہ ہم غلط سلط انگریزی میں بھی بات کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں مگر درست اردو بولنے میں شان گھٹتی ہے۔

دراصل انگریزی اور مغرب سے متاثرہ لوگوں نے ہی پاکستانی قوم کو خوداعتمادی سے محروم رکھنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے حالانکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایران، جاپان، تھائی لینڈ، کوریا، فرانس، اٹلی وغیرہ اپنی زبانوں کی بدولت ہی دنیا میں بلند و بالا مقام حاصل کرسکے ہیں تو ہم اردو کے ذریعے کیوں حاصل نہیں کرسکتے ؟ اردو تو ویسے بھی لشکری زبان ہے اس کے اندر اتنی وسعت ہے کہ ہر دور میں لچک کے ذریعے اپنی بقا برقرار رکھ سکتی ہے ۔

اس لیے قائد اعظم نے بہت سوچ سمجھ کر اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا تھا اسی لیے قیام پاکستان کے فوراً بعد مشرقی پاکستان سے بنگلہ زبان کو بھی قومی اور سرکاری زبان بنانے کا مطالبہ کیا گیا تو قائد اعظم نے اس کے مابعد اثرات کو محسوس کرتے ہوئے ڈھاکہ کے اجلاس عام میں واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اور سرکاری زبان اردو اور صرف اردو ہوگی مگر ہمارے انگریزوں سے متاثرہ حکمرانوں اور نوکر شاہی طبقے نے ہمیشہ اردو کو گھر کی لونڈی سمجھا اور کہا کہ اردو میں اتنی وسعت نہیں کہ اس زبان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم دی جاسکے جب کہ مسلمانوں کا تاریخی ورثہ اس بات کا گواہ ہے کہ مسلمانوں نے سائنس اور طب میں کتنی ترقی کی تھی، بوعلی سینا، الرازی، جابر بن حیان، کیا انگریزی زبانوں سے واقف تھے یا انگریز تھے، جنھوں نے اپنے علم کی بدولت تاریخ میں اپنا نام پیدا کیا۔

مغرب میں بہت عرصے تک طب کی کتاب القانون پڑھائی جاتی رہی ہے مگر ہمیں تو صرف اور صرف چاروں طرف انگریزی زبان کی بہاریں ہی نظر آتی ہیں کسی بھی زبان کو سیکھنے اور اس میں مہارت حاصل کرنے سے کوئی ذی شعور انسان انکار نہیں کرسکتا مگر جس طرح ہمارا اوڑھنا بچھونا انگریزی میں ہونے لگا ہے تو اس کو دیکھ کر خوف آتا ہے کہ کہیں ہماری آنے والی نسلیں اپنی زبان کو ہی نہ بھول جائیں۔

آج ہماری غلامانہ ذہنیت کا یہ حال ہے کہ مختلف میٹنگز ہوں یا پروگرامز اس میں مقررین انگریزی زبان میں اپنا مافی الضمیر بیان کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے بڑا تیر مار لیا مگر ان کا آدھا مفہوم لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہوتا ہے مگر ہم احساس کمتری کے مارے لوگ ہر اس شخص کو جاہل مطلق سمجھتے ہیں جس کو انگریزی نہیں آتی خواہ وہ کتنا ہی قابل ہو، اردو کو قومی زبان بنانے کے لیے 1973 کے آئین میں بھی وضاحت کی گئی ہے جس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ تیس سال کے اندر اندر اردو کو قومی زبان بناتے ہوئے اردو کو انگریزی زبان کی جگہ دی جائے گی لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہے۔

آئین کے واضح احکامات کے باوجود ہم نے اردو کو دفتری اور سرکاری زبان کی جگہ نہیں دی ہے علاقائی زبانوں کی بھی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے کیونکہ یہ زبانیں لوگوں کے اپنے خاندان اپنے آباؤ اجداد کی پہچان کے لیے ہوتی ہیں مگر قومی زبان کے فروغ کے ذریعے ہی کسی ملک میں تمام رہنے والے آپس میں مربوط ہوتے ہیں۔ بھارت کی ہی مثال لے لیں وہاں کئی علاقائی زبانیں بہت ترقی یافتہ اشکال میں موجود ہیں مگر ہندی بھارت کی قومی اور سرکاری زبان ہے مگر ہم جب تک اپنی قومی زبان کو فروغ نہیں دیں گے اور اس پر شرمندہ ہونے کی بجائے فخر نہیں کریں گے اسی طرح تھالی کا بینگن بنے لڑھکتے رہیں گے۔

قومی زبان ہمارا اثاثہ ہے ہمیں چاہیے کہ اس زبان کو دفتری زبان بنایا جائے تاکہ عام آدمی جو انگریزی نہیں جانتے باآسانی اپنے کاموں کو سرانجام دے سکیں اس کے علاوہ حکومت کے ارکان بشمول وزیر اعظم سرکاری دوروں میں اپنی تقریر اردو میں کریں کیونکہ ہم ایک آزاد قوم ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ اردو کی ترقی و ترویج کے لیے پاکستان کے ہر شہری کو اپنا حق ادا کرنا چاہیے دفاتر ہوں یا عدالتی نظام یا پھر دوسرے امور سر انجام دینے والے ادارے اردو کو ہی اپنے بولنے، لکھنے اور پڑھنے میں عام روز مرہ زندگی میں استعمال کریں ۔

کہانی سننے میں مزا نہیں آتا…

$
0
0

ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے موجودہ زمانے کے بچوں کو کہانیاں سننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ رات میں سوتے وقت وہ اپنی ماؤں سے نہ تو کہانیاں سنانے کی فرمائش کرتے ہیں اور نہ ہی لوریاں سنانے کی۔ مائیں جیسے لوریاں بھول گئیں ہیں۔ اور یہ بھی بھول گئیں ہے بچپن میں ان کی مائیں انھیں لوریاں گا کر سنایا کرتی تھیں۔

لیکن ان کو اپنے بچوں کو لوریاں سنانے کی نوبت ہی نہیں آتی ہے۔ بچے ٹی وی پر یا میوزک سسٹم پر پاپ راک کے بے ہنگم گانے سنتے، انھیں گنگناتے سو جاتے ہیں۔

ماں کے حافظے میں سیکڑوں کہانیاں محفوظ ہیں وہ کہانیاں باہر آنے کے لیے مچل رہی ہیں۔کہ اچانک بیٹے کے سوال پر چونک جاتی ہے۔

’’تو امی بتایئے نا! کیا سند باد کی کہانی میں جادو گرنی ہے۔‘‘

اسے حیرت ہوئی لیکن مجھے جو سند باد کی کہانی یاد ہے۔ اس میں تو کسی جادوگرنی کا ذکر نہیں ہے ؟‘‘

’’لیکن ٹی وی پر تو جو سند باد کی کہانی بتائی جا رہی ہے وہ ایک جادو گرنی کے گرد گھومتی ہے۔ ‘‘

’’ٹی وی کی کہانی اور الف لیلیٰ کی کہانی ایک دوسرے سے جدا ہیں … ‘‘

’’مجھے تو ٹی وی والا سند باد پسند ہے۔ ‘‘بیٹا بولا ’’مجھے کتاب میں کہانی پڑھنے یا کہانی سننے میں مزہ نہیں آتا ہے۔ جو کچھ کہانی میں بیان کیا جاتا ہے اسے سوچ کر تصور کی آنکھ سے دیکھنا پڑتا ہے۔ لیکن ٹی وی پر تو ہر چیز اس طرح پیش کی جاتی ہے جیسے سارے واقعات آنکھوں کے سامنے ہو رہے ہیں۔ بیٹے کی بات سن کر وہ بے بسی سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔

وہ یہ طے نہیں کر پا رہا تھی کہ کتابوں میں شایع دلچسپ کہانیاں پڑھ کر دل بہلانا مفید ہے یا ٹی وی کے رنگین پردے پر خوبصورت مناظر، دلکش موسیقی کے ذریعے پیش کی جانے والی کہانی دیکھنا۔

بیٹا اس کی ماں اور پڑوس کی ایک دو عورتیں رات دیر تک ٹی وی کے سیریل دیکھتے رہتے ہیں۔ اور وہ بیزار سا اپنے کمرے میں جلد سوجاتا ہے یا کتابیں اخبارات پڑھ کر اپنا وقت کاٹتا ہے۔

خواتین ٹی وی سیریل کی اداکاراؤں کے ملبوسات کو غور سے دیکھ کر ان کے ڈیزائن اپنی کاپی میں نقل کرتی ہیں اور دوسرے دن پڑوس کی عورتوں سے ان ملبوسات ان کی قیمت، ان کے میڑیل وغیرہ پر زور دار بحث کرتی ہے۔

اور لڑکا اکثر کارٹون چینل پر نظر آنے والے کرداروں کے بنے کھلونوں سے کھیلتا ہے۔

وہ چاہتی ہے کہ اس کا بیٹا ڈسکوری چینل دیکھے۔ نیشنل جیوگرافک چینل باقاعدگی سے دیکھے، لیکن چینل سرچ کرتے ہوئے جب بھی ٹی وی کے پردے پر یہ چینل ابھرتے ہیں وہ تیزی سے آگے بڑھ جاتا ہے۔

ہاں وہ ڈبلیو ڈبلیو ایف ریسلنگ باقاعدگی سے دیکھتا ہے۔

اکثر اس پروگرام کے لیے ماں اور بیٹے میں جنگ ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ ٹین اسپورٹس یا کسی اور چینل پر جب بھی یہ پروگرام آ رہا ہوتا ہے اسی وقت دیگر چینلز پر خواتین کے لیے بھی دلچسپ پروگرام آ رہے ہوتے ہیں۔ اس کی بہن کوئی اور پروگرام دیکھنا چاہتی ہے لیکن ڈبلیو ڈبلیو ایف دیکھنے کے لیے ضد کرتا ہے اور اس بات پر ماں بیٹے میں تکرار شروع ہوجاتی ہے اور آخر میں سمجھوتہ اس بات پر ہوتا ہے بریک کے دوران بیٹا اپنا پسندیدہ چینل دیکھے گا اور خواتین اپنی پسندیدہ سیریل ۔

اس نے اپنے بیٹے کو اکثر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے پہلوانوں کے اسٹائل میں لڑتے دیکھا ہے۔

وہ کسی پر ہاتھ بھی ان پہلوانوں کے انداز میں اٹھاتا تھا۔ یہاں تک اس نے اکثر دیکھا تھا اس کا بیٹا پلنگ کے تکیے کے ساتھ ریسلنگ کر رہا ہے۔

وہ تکیوں کو کسی مد مقابل پہلوان کی طرح حرکتیں کرتا۔ تکیے کو بار بار زمین پر یا پلنگ پر پٹکتا ہے اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کے پہلوانوں کی طرح منہ سے آوازیں نکالتا ہے اور کبھی کبھی تو عجیب و غریب الفاظ اور آواز میں پہلوانی کے کامینٹیٹروں کی طرح کامینٹری کرنے لگتا ہے پھر بھلا اسے کہانیوں میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ ایک دو بار اس نے بچے میں پڑھنے کا شوق جگانے کے لیے ٹی وی کے کرداروں پر مبنی کامکس لا کر دیں۔

کہ اس طرح اس میں پڑھنے کا شوق جاگے گا۔ پارو پاس گرلز، اسپائڈرمین پوپائی سیلروغیرہ کے کرداروں پر جو بھی کامکس کی کتاب ملی وہ لے آئی اور لا کر اس نے بیٹے کو دی۔

’’دیکھو بیٹا میں نے تمھارے پسندیدہ کارٹون کے کرداروں پر مبنی کامکس لائی ہیں۔ انھیں پڑھو تمھیں بڑا مزہ آئے گا۔‘‘

اسے پورا یقین تھا جب اس کا بیٹا یہ کامکس پڑھے گا تو اس میں پڑھنے کا شوق جاگے گا اور اس کے پاس جو ڈھیر ساری کتابیں ہیں ایک دن وہ ان کتابوں کے ڈھیر میں اپنی پسند کی کتابیں تلاش کرے گا اور انھیں پڑھے گا۔ اور ان کتابوں کا فین بن جائے گا۔ایک دن اس نے جب بیٹے سے پوچھا تھا،’بیٹا!میری لائی ہوئی کامکس کی کتابیں پڑھیں ؟‘‘

نہیں امی!

’مگر کیوں۔۔ ؟

’’بہت بور کام ہے۔ ان بور کتابوں کو پڑھنا بہت بور کام ہے۔ اس سے تو اچھا ہے ٹی وی پر ان کرداروں پر مبنی سیریل اور کارٹون فلمیں دیکھی جائیں۔

اسے اس بات کا بہت دکھ ہوتا تھا کہ اس کے بچے کو پڑھنے میں دلچسپی نہیں ہے۔

لیکن جب وہ اپنے بیٹے کے روز کے معمولات کو دیکھتی تو اسے محسوس ہوتا کہ بچے پر پڑھائی کااتنا بوجھ ہے کہ وہ دوسری کتابیں پڑھنے کے لیے وقت ہی نہیں نکال پاتا ہے۔

سویرے اسکول جاتا ہے، دوپہر میں دو جگہ ٹیوشن،کھیلنے کے لیے اسے مشکل سے ایک گھنٹہ مل پاتا ہے۔ پھر ہوم ورک کرنے میں لگ جاتا ہے۔ اور باقی تھوڑا سا وقت مل گیا تو اس میں ٹی وی نہیں دیکھے گا تو کیا کریگا۔ ؟

اس کے پاس پڑھنے کے لیے وقت کہاں ہے۔

یہی کیا کم تھا کہ پڑوسی کمپیوٹر لے آیا۔

اب اس کے بیٹے کا زیادہ تر وقت پڑوسی کے کمپیوٹر پر گیم کھیلنے میں گزرتا وہ کمپیوٹر پر گیم کھیلنے میں اتنا کھو جاتا تھا کہ اسے کسی بھی بات کی سدھ بدھ نہیں ہوتی تھی۔نہ کھانے کی نہ پینے کی اور نہ کسی اور بات کی کمپیوٹر سے اٹھانے پر وہ اٹھانے والے کے ساتھ جھگڑا کرنے لگتا۔اس کا بیٹا آئے دن موبائل فون سروس دینے والوں کی ویب سائٹ پر دیگر ویب سائٹ سے نئے گیم ڈائون لوڈ کرکے انھیں کھیلتا تھا جس کی وجہ سے اکثر اس کے سیل فون کا بیلنس کم ہوجاتا تھا۔ ان کی بڑی عجیب زندگی تھی ایک چھت کے نیچے وہ رہتے تھے لیکن ہر کسی کی الگ دنیا تھی وہ ایک دوسرے کے لیے لازم تھے لیکن اس کے خیالات کہیں بھی ایک دوسرے سے نہیں ملتے تھے، بیٹے کی اپنی الگ ایک دنیا تھی وہ جو حرکتیں اور باتیں کرتا تھا اسے وہ ایک آنکھ نہیں بھاتی تھیں۔

وہ جب بھی بیٹے سے کہتی بیٹا ایک کہانی سنو، بیٹا جواب دیتا تھا امی میرے پاس کہانی سننے کے لیے وقت نہیں ہے مجھے کہانی سننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مجھے کہانی سننے میں کوئی مزہ نہیں آتا ہے۔تو اسے محسوس ہوتا جس کام میں اس کے بیٹے کو کوئی دلچسپی نہیں ہے اسے اس پر وہ کام کرنے کے لیے زور ڈالنا نہیں چاہیے۔آج کے دور میں جب وہ دادا، دادی، نانا، نانی، چاچا، چاچی  بن گئے ہیں اور بچوں کو کہانیاں سنانے کے بجائے دکھارہے ہیں تو اب ان جیسے انسانوں کو بزرگ بننے کی کیا ضرورت؟

’’بزرگوں کا کام شاید مشینوں کو سونپا جا چکا ہے۔‘‘


ٹریفک نظام ،کب درست ہوگا؟…

$
0
0

یہ دنیا کا مسلمہ اصول ہے کہ اگر کسی ملک کے لوگوں کے متعلق کوئی رائے قائم کرنی ہو تو اس کے ٹریفک کے نظام کو دیکھنا چاہیے۔ ہمارے ملک،خصوصاً کراچی میں ٹریفک کا جو حال ہے، اس سے باہر سے آنے والے کیا رائے قائم کرتے ہونگے، اس کا کیا کہا جائے۔

مجھے یاد ہے کہ جس زمانے میں موٹر سائیکل عام نہیں ہوا تھا اس زمانے میں لوگ عام طور پر سائیکل استعمال کرتے تھے، لیکن ان سائیکلوں کو میونسپلٹی میں رجسٹر کرایا جاتا تھا، جس کا ایک ٹوکن ملتا تھا جو سائیکل میں لگایا جاتا تھا۔ 1957 میں تو میں بھی سائیکل رکھتا تھا۔ لوگ ٹریفک کے لال سگنل پر رکتے تھے۔ یہ بھی رواج نہیں تھا کہ سیدھے ہاتھ کی طرف جانے کے لیے لال سگنل پر پہلے سے جا کر کھڑا ہوا جائے۔ آپ کو لال سگنل پر اپنی لائن کے اندر کھڑا ہونا تھا اور گرین سگنل ملنے کے بعد ہی حرکت کرنا تھی۔رات کو سائیکلوں، تانگوں، بگیوں، حتیٰ کہ اونٹ اور گدھا گاڑیوں میں بھی شمع دان یا لالٹین جلانا ضروری ہوتا تھا۔ اور ٹریفک کے قوانین پر سختی سے عمل کرایا جاتا تھا۔ ایک دفعہ میرا بھی چالان ہوا تھا۔ کوئی مْک مْکا نہیں ہوتی تھی۔حادثات بہت کم ہوتے تھے۔

اب جو بے راہ روی عام ہو گئی ہے، لوگ اس کا آبادی میں بے تحاشا اضافے کو ٹھہراتے ہیں۔مان لیا کہ آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور روز ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کے اندرونی علاقوں میں روزگار کے مواقعے فراہم نہیں کیے گئے، اس لیے لوگ بڑے شہروں کی طرف نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔

حادثات میں جو اموات ہو رہی ہیں اس کی کسی کو پرواہ نہیں ہے۔ 1985 میں میری 20 سالہ بیٹی ایک حادثے میں شہید ہوئی۔ عینی شاہدوں کا بیان تھا کہ ہماری گاڑی اپنی سائیڈ پر تھی، جب کہ سامنے سے آنے والی سرکاری بس اتنی تیز رفتار تھی کہ وہ آکر ہماری گاڑی سے ٹکرائی اور اسے پیچھے کی طرف کافی فاصلے تک گھسیٹتی ہوئی لے گئی۔ مجھ سے ایک وکیل نے کہا کہ آپ عدالت جائیں اور حکومت سے معاوضہ طلب کریں۔ میں نے اس سے پوچھا، کیا وہ معاوضہ میری بیٹی کا نعم البدل ہوسکتا ہے؟ اس نے کہا نہیں، لیکن اس قسم کے مقدموں سے حکومت پر زور پڑے گا کہ وہ ٹریفک حادثات روکنے کے لیے اقدامات کرے۔

میں نے مقدمہ تو داخل کرایا، لیکن اس مقدمے کا فیصلہ27 سال بعد ہوا، وہ بھی اس لیے کہ وہ نچلی عدالت کی سطح پر ہی ختم ہوا، ورنہ اگر وہ اپیل در اپیل اعلی عدالت تک جاتا تو 50 سال لگتے۔ ڈرائیور کو کیا سزا ہوئی یہ معلوم نہیں، البتہ اس کی ضمانت جلد ہی ہوگئی، کیونکہ ہمارے ملک کے قانون کے مطابق یہ قتل عمد نہیں تھا۔ مجھے یہ بات ابھی تک سمجھ میں نہیں آئی کہ قتل عمد کیا ہوتا ہے؟ اتفاق کی بات ہے کہ جس بلڈنگ میں، میں رہتا تھا اس کے ایک باسی کا بیان تھا کہ اس نے اس بس کو کچھ منٹ پہلے اتنی تیز رفتار سے جاتے ہوئے دیکھا تھا کہ بے اختیار اس کی زبان سے نکلا کہ یہ بس آگے چل کر کسی نا کسی کی جان لے لے گی۔ یہ تو ایک حادثے کی بات ہے۔ ہمارے ملک میں روزانہ کتنے ماں باپ کی گودیں اجڑتی رہی ہیں، کتنے بچے یتیم ہوتے ہیں، لیکن حکومت کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی۔

حالت یہ ہے کہ موٹر سائیکلوں، گاڑیوں، ٹرکوں، بسوں میں ہیڈ لائٹیں بھی صحیح نہیں ہوتیں، بلکہ بریک لائٹس، انڈیکیٹر لائٹس، فوگ لائٹس وغیرہ کے درست نہ ہونے پر کوئی بازپرس بھی نہیں ہوتی۔ یا تو بڑے لوگوں کی گاڑیوں پر نمبر پلیٹیں ہوتی ہی نہیں ہیں یا اگر انھوں نے مہربانی کی تو APPLIED FOR REGISTRATION=AFRکی پلیٹ لگادی، جو اب ایک کلچر کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ پرائیویٹ تو پرائیویٹ، اب یہ AFR پلیٹ سرکاری گاڑیوں پر بھی لگائی جا رہی ہے۔

کچھ گاڑیوں پر صرف سینیٹر، ایم این اے اور ایم پی اے لکھا ہوتا ہے، اگر ان سے کچھ پوچھا جائے تو اس سے ان کا استحقاق مجروح ہوتا ہے اور دوسرے دن وہ اسمبلی میں تحریک پیش کرتے ہیں۔ بہرحال ان سب چیزوں سے ان سے گاڑی کے مالک کا ٹہکا ظاہر ہوتا ہے۔ اول تو کوئی بھی پولیس والا ان کو نہیں روکتا، لیکن اگر کسی سر پھرے نے کسی لاٹ (لارڈ) صاحب کو روکنے کی جسارت کی تو، وہ اول تو تو کہتا ہے، تمہیں معلوم نہیں میں کون ہوں؟ اگر وہ ان صاحب کے رعب میں نہیں آتا تو وہ ایک دم کسی بڑے صاحب کو موبائل فون پر اس کی شکایت کرتا ہے۔ بڑا صاحب پولیس والے کو ڈانٹ پلاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کو چھوڑ دو اور تم ہیڈ کوارٹر رپورٹ کرو۔

پاکستان کے قرونِ اولیٰ یعنی شروع والے زمانے میں کوئی بھی گاڑی بغیر نمبر پلیٹ کے روڈ پر نہیں آ سکتی تھی۔ نئی گاڑیوں کو ایک لال حروف والی عارضی نمبر پلیٹ جاری کی جاتی تھی، جو صرف ایک مہینے کے لیے ہوتی تھی۔ اب تو شو روم والے اپنے نام سے AFRوالی نمبر پلیٹ جاری کر دیتے ہیں اور وہ سالہا سال چلتی رہتی ہے۔

ٹریفک کے حادثات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تجاوزات کی وجہ سے سڑکیں چوڑائی میں سکڑ گئی ہیں، فٹ پاتھوں پر پتھارے اور ٹھیلے، جو بڑے طمطراق سے اعلیٰ افسران بلکہ گورنروں کی سطح پر ایک دن اٹھوائے جاتے ہیں اور دوسرے ہی دن افہام و تفہیم کے جذبے کے تحت وہ پتھارے دار اور ٹھیلے والے شان و شوکت سے موچھوں پر تاؤ دے کر واپس اسی جگہ موجود ہوتے ہیں۔یہاں تک کہ مارشل لاء بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔انگریز کے زمانے میں ایک ضلع میں کسی آدمی نے کسی کی زمیں پر قبضہ جما لیا۔

اس وقت کے کلکٹر (آج کل کے ڈپٹی کمشنر) نے جائے وقوعہ پر لوگوں سے پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا کہ واقعی وہ شکایت صحیح تھی (انگریز کا کلکٹر انصاف فراہم کرنے کے لیے اکثر خود بھی (غلام) عوام تک پہنچتا تھا، ہمارے ڈپٹی کمشنر تو اپنے ایئرکنڈیشنڈ دفتر سے باہر ہی نہیں نکلتا ۔کلکٹر صاحب نے شکایت کنندہ سے کہا، ویل جنٹلمین، آج سے یہ زمین تمہارا ہے۔ وہ آدمی بولا، صاحب میں آپ کا بات نہیں مانتا۔

یہ جو دفتروں کی لال گٹھڑی لیے آپ کے پیچھے کھڑا ہے، اگر وہ بولے تو میں اس کا بات مان لونگا، وہ تھا پٹواری۔ ہمارے لیڈر الیکشن کے زمانے میں لوگوں سے وعدے کرتے ہیں کہ اقتدار میں آکر تھانہ پٹواری کلچر ختم کریں گے، لیکن اقتدار ملنے کے بعد وہ بھول جاتے ہیں۔ تھانہ کلچر اس لیے نہیں ختم کرتے کہ انھیں اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے تھانے دار کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ پٹواری بھی انھیں سرکاری زمینوں کا پتہ بتاتا ہے، جن پر وہ صاحبان قبضے کرتے ہیں۔

ہمارے سابقہ چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ ہیوی ٹریفک (بڑے بڑے ٹرالر اور ٹرک، ڈمپر وغیرہ) کا دن کے مصروف اوقات میں بیچ شہر کے چلنا ممنوع ہو گا، لیکن بھلا ہو مْک مْکا کلچر کا، چیف کی کسی نے بھی نہیں سنی اور وہ دن کے مصروف اوقات میں دندناتے پھرتے ہیں، جس سے کئی اموات ہوتی رہتی ہیں۔ کچھ مہینے پہلے نواب شاہ (حال میں بے نظیر آباد) میں ڈمپر کی وجہ سے حادثہ پیش آیا ، جس میں 20 بچے شہید ہوئے اورکئی زخمی ہوئے۔

ہوتا یہ ہے کہ ان بڑی گاڑیوں کو پولیس والے روکتے ہیں۔ تھوڑے فاصلے پر سارجنٹ ، جس کے اختیار میں چالان کرنا ہوتا ہے، کھڑے ہوتے ہیں۔ ڈرائیور سے تھوڑی سی رسمی سلام دعا ہوتی ہے اور اس کے بعد جذبہ خیر سگالی کے تحت اسے دعائیں دے کر رخصت کیا جاتا ہے، اللہ اللہ خیر صلا۔حقیقت یہ کہ اگر ان ڈرائیوروں کو یہ یقین ہو کہ چاہے کچھ بھی ہو، انھیں بخشا نہیں جائے گا، تو وہ کبھی بھی ان اوقات میں گاڑیاں روڈ پر لانے کی ہمت نہیں کریں گے۔

ایک موٹر سائیکل پر میاں ، پانچ بچے، بیگم صاحبہ بقلم خود اور ان کی گود میں ایک عدد شہزادہ یا شہزادی، یہ بھی ایک عام سا نظارہ ہو گیا ہے۔ یہ خدا کے بندے یہ نہیں سمجھتے کہ یہ کتنا پر خطر ہوتا ہے۔ون وے نام کی کوئی چیز اب کوئی نہیں رہ گئی اور نہ ترتیب وار ، ایک دوسرے کے پیچھے گاڑی چلانا کوئی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ہر موٹر سائیکل سوار اور رکشے والا تو اپنا حق سمجھتا ہے کہ وہ سامنے آنے والی گاڑیوں کے عقب میں آئیں۔ اور گاڑیوں والے پڑھے لکھے لوگ بھی اکثر ایسا ہی کرتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ٹریفک کے قوانین پر سختی سے عمل کرایا جائے تو کتنا خرچہ آئے گا؟ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ اگر گاڑیوں کی لائٹیں وغیرہ ٹھیک کرانے کے لیے سختی کی جائے تو لوگوں کے لیے روزگار کھلے گا۔ جن کارخانوں میں یہ چیزیں بنتی ہیں ان کو بھی فائدہ ہوگا اور مستری لوگوں کے لیے بھی روزگار کھلے گا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حادثات کا سد باب ہوگا۔

قوم کی ایک بیٹی کے نام

$
0
0

ابتدائے زمانہ ہی سے حوا کی بیٹیاں مردوں کے ظلم کا نشانہ بنتی آرہی ہیں، بیٹیوں کی پیدائش کو نحوست سمجھا جاتا اور اسے زندہ ہی زمین میں دفن کردیا جاتاتھا لیکن ظہور اسلام کے بعد حوا کی بیٹی کو عزت و احترام کا مرتبہ نصیب ہوا، اسلام نے عورت کو معاشرے میں مساوی حقوق دیے، ماں، بہن، بیٹی اور بیوی جیسے تقدیس کے رشتوں میں پرو دیا لیکن اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں کیا جا رہا، یہ حوا کی بیٹی کی بد نصیبی ہے کہ اسے ان مقدس ترین رشتوں کے روپ میں بھی پوری طرح احترام ، عزت اور با وقار مرتبہ نصیب نہیں ہو رہا۔

ہر دور اور ہر معاشرے میں اس کے حقوق کو پامال کیا جاتا رہا ہے، بد قسمتی سے 21 ویں صدی کے جدید اور ٹیکنالوجی کے ترقی یافتہ دور میں بھی مرد ہی کو فوقیت اور بلند مرتبہ حاصل ہے، عورت آج بھی اس کی ’’عزت اور غیرت‘‘ کی پہچان بنی ہوئی ہے۔ مغربی معاشرے کو تو ایک طرف رکھیے کہ وہ غیر مسلم دنیا کے دیے اصولوں کا پروردہ ہے لیکن مسلم دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی قوت پاکستان کا معاشرہ عورتوں کے حقوق کی پامالی کے حوالے سے انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، عورتوں کی تعلیم و تربیت سے لے کر ان کے سماجی، معاشرتی و معاشی حقوق تک ہر شعبہ ہائے زندگی میں انھیں ’’عبرت کا نشان‘‘ بنا دیا گیا ہے۔

عورتوں پر تشدد، گھریلو تنازعات، جنسی استحصال، کم عمری کی شادیاں، آبرو ریزی کے واقعات، ونی و قرآن سے شادی جیسی رسومات سمیت مختلف النوع طریقوں سے عورتوں کے حقوق کو ’’بازیچہ اطفال‘‘ بنادیا گیا ہے اور سب سے بڑھ کر ’’عبرت‘‘ کے نام پر ’’کاری‘‘ قرار دے کر اس کے قتل کو ’’واجب‘‘ سمجھ لیا گیا ہے اور ایسے واقعات ملک کے چاروں صوبوں میں پیش آرہے ہیں، ایسے ہی ایک تازہ واقعے میں جو گزشتہ ہفتے لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں رونما ہوا، گجرانوالہ کی ایک 25 سالہ لڑکی فرزانہ کو ’’غیرت‘‘ کے ٹھیکیدار اس کے اپنے باپ اور بھائیوں نے سر عام اینٹیں مار مار کے ’’عزت کی نیند‘‘ سلادیا۔

واقعے کی تفصیل کے مطابق 25 سالہ فرزانہ نے اپنے دین اسلام میں دیے گئے ’’اختیار‘‘ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے باپ، بھائیوں کی رضامندی کے بغیر اپنی پسند سے ایک نوجوان سے شرعی طور پر نکاح کیا تھا لیکن اس کے گھر والے مردوں کی ’’غیرت‘‘ نے اس کی شادی کو قبول نہ کیا اور اپنی ’’عزت‘‘ بچانے کے لیے اپنے ’’داماد‘‘ کے خلاف بیٹی کے اغوا کا مقدمہ درج کرا دیا، خبروں کے مطابق فرزانہ اپنی شادی کے حق میں بیان حلفی دینے لاہور ہائی کورٹ آئی تھی۔

بس یہی وہ موقع غنیمت تھا جب اس کے باپ اور بھائیوں کی ’’غیرت‘‘ نے انگڑائی لی، پہلے فرزانہ پر گولیاں چلائی گئیں لیکن وہ بچ گئی پھر اس کو پکڑ کر ’’غیرت مند‘‘ باپ اور بھائیوں نے اس کے سر پر اس وقت تک اینٹیں برساتے رہے جب تک اس کی روح قفس عنصری سے پرواز نہ کر گئی، فرزانہ حاملہ بھی تھی، قدرت جلد اس کو اولاد کی نعمت سے نوازنے والی تھی لیکن ’’غیرت مندوں‘‘ کے جذبہ انتقام نے اس کی پروا نہ کی اور ایک نہیں بلکہ دو زندگیوں کو ’’غیرت‘‘ کی بھینٹ چڑھا دیا۔

اس دلخراش سانحے کا ایک اور تکلیف دہ پہلو یہ تھا کہ یہ واقعہ کسی ویرانے جنگل یا کسی گھر کے دالان اور کسی چوہدری یا وڈیرے کے سونے آنگن میں پیش نہیں آیا کہ جہاں سے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی بلکہ یہ افسوسناک واقعہ عین ایوان انصاف کے سامنے پیش آیا جہاں درجنوں لوگ موجود تھے لیکن کسی کے دل میں ’’رحم‘‘ اور ’’ہمدردی‘‘ کا کوئی جذبہ بیدار نہ ہوا، کسی نے آگے بڑھ کر ظالموں کا ہاتھ نہیں روکا، شاید یہ سب ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مہذب معاشرے کے ’’غیرت مند‘‘ لوگ تھے جن کے نزدیک فرزانہ نے ’’جرم کیا تھا اور وہ اسی سزا کی مستحق تھی۔

فرزانہ جہاں سے انصاف کی بھیک لینے آئی تھی وہیں اسے نیند کی آغوش میں سلادیا گیا اور کہیں کوئی ’’سوموٹو‘‘ ایکشن کی صدا نہیں گونجی ملک بھر کی سیاسی و مذہبی جماعتیں، تنظیمیں، شرعی نظام کے نفاذ کے داعیوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور دیگر سماجی اداروں اور گروہوں نے فرزانہ کے وحشیانہ قتل پر کوئی ریلی نکالی نہ جلسہ کیا نہ ہی احتجاجی مظاہرے، کیا بے حسی ہے کہ ہم اپنی مائوں، بہنوں، بیٹیوں پر ٹوٹنے والی درندگی و بربریت کی قیامتوں پر مہر بہ لب ہیں اور فخر کرتے ہیں کہ ہم ایٹمی قوت ہیں، دشمن ہمارا بال بیکا نہیں کرسکتا۔

بیشک ہم نے ایٹم بم بناکر ملک کی جغرافیائی سرحدوں اور قومی سلامتی کو ناقابل تسخیر بنادیا لیکن ہم بحیثیت قوم ایک مہذب، باوقار، با کردار، صالح، تحمل و برداشت اور رواداری والے اسلامی معاشرے کی تشکیل میں ناکام ہوگئے ہیں اور بد قسمتی سے معاشرے کے سدھار کی جانب ہماری کوئی توجہ بھی نہیں ہے۔ پاکستان کا معاشرہ اخلاقی پستی اور عدم برداشت کے باعث بری طرح انحطاط کا شکار ہے، خطرناک رجحانات جنم لے رہے ہیں بالخصوص نوجوان طبقہ جسے آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔

وہ مذہبی، لسانی، فرقہ واریت اور صوبائیت جیسے خوفناک تقسیم کرنیوالے نظریات کا اسیر ہوتا جا رہا ہے اور انتہا پسند عناصر ایسے نوجوانوں کو اپنی آغوش میں سمیٹ رہے ہیں جب یہ نسل بیس تیس سالوں کے بعد عملی زندگی میں داخل ہوگی تو ذرا تصور کیجیے کہ ہمارا معاشرہ کیا روپ اختیار کریگا بالخصوص دیہی و قبائلی نظام زندگی میں جو کمزوریاں ہیں وہ مزید پختہ ہوکر زندگی کا لازمی حصہ بن جائیںگی اور قوم کی مائوں، بہنوں، بیٹیوں کی زندگی کس قدر تنگ نظر، آسیب زدہ، خوفناک اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دی جائے گی، کیا ہم ایسے معاشرے کی تشکیل کا حصہ نہیں بن رہے ہیں؟

کیا 21 ویں صدی کے جدید دور میں بھی ہم ماضی کے خوفناک دور کی طرف نہیں لوٹ رہے ہیں جہاں بیٹیوں کو زندہ دفن کردیا جاتاتھا؟ اگر نہیں تو پھر فرزانہ کے واقعے کو آپ کیا نام دینگے، تیزاب سے چہروں کو بدنما کرنیوالوں، کاری قرار دے کر قتل کرنیوالے ’’غیرتمندوں‘‘ عورتوں پر جنسی تشدد کرنیوالوں، پنچائیت اور جرگوں کے نام پر عورتوں کے حقوق پامال کرنیوالوں اور بلوچستان میں پانچ خواتین کو زندہ دفن کر دینے والوں، اپنی روایت قرار دینے والوں کو آپ کیا نام دینگے؟ آپ ملک کی ہر ملالہ یوسف زئی کو تعلیم حاصل کرنے سے روکنے والوں کے ہاتھ کیسے روکیںگے؟ آپ ملک کی ہر مختاراں مائی کی حرمت و آبرو کی دھجیاں بکھیرنے والوں کے ناپاک عزائم کو کیسے ناکام بنائیںگے، آپ ارفع کریم جیسی ملک کی ہر بچی کے مستقبل کا تحفظ کیسے کریںگے؟

ایک نہیں ایسے ہزاروں سوالات ہیں آپ کس کس کا جواب دینگے، اﷲ نے آپ کو شرف حکمرانی بخشا ہے اقتدار آپ کے ہاتھ میں ہے، اختیار آپ کی دسترس میں ہے، پارلیمنٹ میں آپ کو اکثریت حاصل ہے، قانون سازی آپ کے لیے مشکل نہیں، آپ موٹروے بنائیں ، میٹرو بس چلائیں، بلٹ ٹرینیں دوڑائیں، متعصب بھارت سے تجارت کریں، طالبان سے امن مذاکرات کریں لیکن خدارا حوا کی بیٹیوں پر ہونیوالے مظالم، درندگی، سفاکی اور بربریت کی داستان الم کا آخری باب رقم کرکے تاریخ میں امر ہوجانے کا سامان بھی کریں کہ قوم کی ہر بیٹی آپ کے لییقابل احترام ہے اس کا ہر دکھ اور ہر تکلیف آپ کا دکھ ہے اس کی عزت، حرمت، تقدیس اور آئینی حقوق بھی وہی ہیں جو آپ کے ہیں، آپ ایک لمحے کو قوم کی ہر بیٹی کو اعلی مقام دیجیے، پس قوم کی ’’نسواں‘‘ کو ان کے آئینی حقوق مل جائیںگے۔

ہندو اور ہم پاکستانی

$
0
0

کراچی ایئر پورٹ پر تازہ تماشا دکھا کر طالبان نے پاکستان سے کہا ہے کہ یہ بھی ہمارا ہی کام ہے۔ یہ طالبان کی تازہ ترین کارروائی ہے جس میں پاکستان کا بہت جانی اور مالی نقصان ہوا اور اس کے دوسرے نقصانات رفتہ رفتہ سامنے آتے رہیں گے شاید پہلا نشانہ کرکٹ وغیرہ کے میچ ہوں یا کچھ اور بھی۔ بہر کیف طالبان نے اس ایک واردات سے ہی پاکستان کا بہت نقصان کر دیا۔ ایک مسلمان ملک کا نقصان، وہ اسلام جس کے لیے جان قربان کرنے کا دعویٰ یہ لوگ کرتے ہیں اور کرتے چلے جا رہے ہیں۔

زبردست قسم کی اسلامی شکل و صورت اور اسلامی قسم کا لباس، زبان پر کلمہ اور نماز اور اسلام کی ہر نشانی کی پیروی جس سے وہ زبردست قسم کے مسلمان دکھائی دیں، یہ سب طالبان کی اپنی پالیسی اور چال ڈھال ہے، ہم تو بس عام قسم کے مسلمان ہیں حسب توفیق نماز روزہ اور مسلمانوں کی جان و مال کا احترام اللہ تعالیٰ سے ڈر ڈر کر زندگی بسر کرنے والے کہ  نہ جانے کس گناہ میں پھنس جائیں اور سخت سزا کے حقدار بن جائیں۔ انسانی جان اور کسی مسلمان کی جان کو تو قرآن و سنت میں جو احترام دیا گیا ہے اس پر کچھ عرض کرنے کی گنجائش ہی نہیں کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور مسلمان کا قتل تو ہر حال میں ناقابل معافی ہے کہ مسلمان کا قاتل جہنم میں مسلسل اس جرم کی سزا پاتا رہے گا۔ ہم نہ مولوی نہ مفتی علماء سے سنی ہوئی اسلامی تعلیمات کو یاد رکھنے کی کوشش کرنے والے جب کہ طالبان کی تصویر ہی دیکھیں تو ان کی اسلامی ہیبت سے دل کانپ جاتا ہے۔ میں نے ایک آدھ بار جیتے جاگتے طالبان کو دیکھا ہے اور اب تک خوفزدہ ہوں۔ کیا رعب داب تھا۔ چشم ابرو سے ہی کسی کے لیے موت ہو سکتی تھی۔

طالبان کا جب ظہور ہوا تو میں نے انتہائی احترام کے ساتھ ان کا ذکر کیا اور اپنے حکمرانوں کو مشورہ دیا کہ وہ طالبان کے مطالبات کو بہت اہمیت دیں اور ان کی باتوں کو بے حد غور سے سنیں، یہ لوگ اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں اور بہت ہی غور و فکر اور سوچ سمجھ کے ساتھ انھوں نے اپنے مطالبات سامنے رکھے ہیں۔ میں ان مطالبات کی گہرائی میں اس وقت نہیں جا سکتا سوائے اس کے کہ یہ کسی پاکستان کے قیام کا مطالبہ کر رہے تھے۔

میں نے ایک بات عرض کی تھی کہ میری عمر کا ابتدائی حصہ ان طالبان کی قربت اور خیالات سے وابستگی کے ساتھ گزرا ہے۔ میں نے ان کے اساتذہ سے ان کے ساتھ تعلیم حاصل کی ہے اور اس مزاج کو سمجھا ہے جو یہ حلیئے بنا دیتی ہے اور اسے پھر اپنا ایمان اور عقیدہ سمجھتی ہے۔ ان کا ایک خوفناک مطالبہ یہ تھا کہ وہ پاکستان کے کسی حصے میں پاکستان بنانا چاہتے تھے۔ شروع میں انھوں نے یہ بات صاف صاف کہہ بھی دی تھی جو بعد میں ترمیم کی زد میں آ گئی اور اس کی شکل و صورت بدل سی گئی۔ طالبان میرے لیے اجنبی نہیں تھے اور نہ ہی میں ان کے لیے۔ میں نے ان کے مطالبات کو خوب سمجھا اور ان مطالبات کے نتائج سے بھی آگاہ ہونے کی کوشش کی۔

ایک طرف طالبان اور دوسری طرف ان کے ابتدائی مطالبات ان سب کو سامنے رکھ کر اس پاکستانی نے اپنی حکومت اور ارباب اقتدار سے گزارش کی کہ وہ فوری فیصلے کریں اور جو مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے کو ختم کر دیں۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی نا ممکن ہے۔ بعد میں جب حکومت نے اپنی مذاکراتی ٹیم ترتیب دی تو اس میں شامل بعض حضرات میرے مہربان تھے۔

میں ان کو جانتا تھا اور مجھے معلوم تھا کہ میں ان کے سامنے اس ضمن میں اپنا موقف بیان کروں گا وہ توجہ سے سنیں گے لیکن ان دنوں حکمران بہت جوش میں تھے اور میں نے بھی مداخلت کو مناسب نہ سمجھا۔ سرکاری مذاکراتی ٹیم نے بہت کوشش کی بہت سر مارا لیکن طالبان اپنے موقف پر جمے رہے میں چونکہ ایک بزدل آدمی ہوں اس لیے خود ہی پسپا ہو گیا اور جان بچا لی۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ارکان نے آہستہ آہستہ اپنا موقف بدل لیا اور طالبان سے بچ گئے اور اب تو انھوں نے اعلان کر دیا ہے کہ ہم اس محبت سے باز آ گئے ہیں۔ ادھر طالبان نے بھی مذاکرات سے تنگ آ کر دامن کھینچ لیا ہے اور فی الحال اس تمام سلسلے سے الگ ہوتے ہوئے کراچی کا ہنگامہ کر دیا ہے اور اس کو اپنے ذمے لے لیا ہے۔

ہمارے حکمرانوں کی مصروفیات ایسی ہو گئی ہیں کہ اب نئی خبروں کے مطابق ان کے درمیان بھی دراڑیں پڑنی شروع ہو گئی ہیں جنھیں کوئی جنگلہ  بھر نہیں سکتا۔ اس وقت ہم شدید خطرے میں ہیں امریکا افغانستان سے شکست کھا کر اپنے زخم چاٹتا ہوا واپس جا رہا ہے اور بدقسمتی سے اس کی واپسی کے راستے پر ہم پڑے ہیں۔ اتنی بڑی طاقت جب پسپائی کرتی ہے تو اس کی پسپائی کسی عام فوج کی واپسی نہیں ہوتی۔ وہ ایک قیامت بن جاتی ہے اور اس کی پسپائی بھی ایک قیامت کا سفر ہوتا ہے۔

پاکستان کے اہل فکر کو اندازہ ہو گا کہ وہ افغانستان جنگ کے کس خطرناک اور تباہ کن مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں کوئی عام سی واردات بھی ہوتی ہے تو ہم ایکسپوز ہو جاتے ہیں جیسے کراچی ایئر پورٹ کا حادثہ۔ ہم تو کچھ بھی برداشت کرنے کے قابل نہیں رہے۔ ہمارے ارباب حل و عقد کی مصروفیات ملک کے  دفاع سے کچھ الگ دکھائی دیتی ہیں۔ جس پاکستانی حکمران کو بھارت میں دوست حکمران دکھائی دیں اس کے بارے میں کیا عرض کیا جا سکتا ہے۔ کراچی کے حادثے میں بھی ہمیں پتہ چلا کہ اسلحہ بھارتی تھا۔ پھر بھی ہم آنکھیں بند رکھیں تو ہماری مرضی۔ ہم پاکستانی،  ہندو کو کبھی دوست نہیں سمجھ سکتے ورنہ پاکستان کیوں بنایا جاتا۔ اب میرا خیال ہے کہ اس بحث کو پھر سے زندہ کیا جائے اور اپنی توفیق بھر اسے بیان کیا جائے لیکن یاد رکھیں کہ طالبان سے علیحدگی لازم ہے اس کے سوا چارہ نہیں ہے۔

…چراغ مفلس کا! (پہلا حصہ)

$
0
0

شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا

آج سے لگ بھگ 300 برس پہلے پیدا ہونے والے میر صاحب نے جب یہ شعر کہا تھا‘ تو ان کے وہم و گمان میں بھی کب ہوگا کہ کچھ برس جاتے ہیں جب گھروں میں چراغ نہیں‘ قمقمے اُجالا کریں گے اور انھیں روشن رکھنا سرکارِ والا تبارکی ذمے داری ہوگی۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ آنے والے زمانوں میں ان کے اشعار پر سر دھننے والوں کے گھروں کے چراغ اور دل بھی بجھے ہوئے رہیں گے۔ یہ وہ زمانہ ہوگا جب گھر اور بازار میں ‘ محل اور مزار پر کھنچے ہوئے تاروں میں بجلی‘ لہو بن کر دوڑے گی۔

انگریزوں نے جب ہندوستان بھر میں بجلی کے کھمبے کھڑے کیے اور تار کھینچے تو لوگوں نے یہ معجزہ رونما ہوتے دیکھا کہ یہ تاران کی گلیوں اور گھروں تک آتے ہیں اور اندھیرا پڑتے ہی وہ اپنے گھروں کو روشن کرسکتے ہیں۔ وہ زمانہ چلا گیا تھا جب میونسپلٹی کا ملازم سیڑھی اٹھائے ایک ہاتھ میں تیل کی کُپی لیے میونسپل کارپوریشن کی لالٹینوں میں تیل ڈالتا اور انھیں روشن کرتا چلا جاتا تھا۔ شہر اور دیہات میںبجلی آئی تو حسب معمول کچھ لوگوں نے اسے فرنگی کی سازش ٹھہرایا لیکن لوگوں نے دیکھا کہ ان کے گھر کے اندھیرے دور ہورہے ہیں اور ایک معجزہ رونما ہورہا ہے۔

کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے بجلی کے ان کھمبوں کی آرتی اتاری اور ایسی عورتیں بھی تھیں جو تُلسی کے پودے کو پانی دیتے ہوئے‘ آنگن میں روشن بلب کو پرنام کرلیتی تھیں۔ بجلی کی کارگزاریاں بڑھتی چلی گئیں۔ ریڈیو ہماری زندگیوں میں داخل ہوا اور لوگ حق دق رہ گئے۔ دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا‘ کسی ایک گھر میں ریڈیو ہوتا تو دور دور سے لوگ اسے سننے آتے اور احترام کے ساتھ صحن میں بیٹھ جاتے۔ ہزاروں میل دور سے آنے والی آوازیں سنتے۔ کبھی ریڈیو برلن‘ کبھی بی بی سی… لوگوں کی سمجھ میں نہ آتا کہ اتنے بہت سے لوگ ایک ڈبے میں کیسے اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ بائیسکوپ آیا تو وہ بھی بجلی کا کرشمہ تھا۔ اسکرین پر زندہ ناچ گانا ہورہا ہے۔

ہیروئن گھر کے دالان میں آہ بھرتے ہوئے گارہی ہے اور ہیرو شانے پر شال ڈالے کہیں اور ٹہل رہا ہے۔ پردۂ سیمیں پر ریل گاڑی گزر رہی ہے لیکن پکچر ہال میں بیٹھے ہوئے لوگوں کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔ غرض ہر طرف بجلی کا بول بالا تھا۔ کیا فقیر اورکیا امیر ہر گھر میں اُجالا تھا۔ ہندوستان کے کروڑوں لوگوں کے دلوں میں اُمید کے چراغ جل اٹھے تھے۔ لاٹ صاحب کا محل اسی سے بقعہ نور تھا اور کسان کی جھونپڑی میں بھی خواہ 25 واٹ کا ہو بلب جھلملاتا تھا۔ کتابوں سے عشق کرنے والوں کی چاندی ہوگئی تھی جب تک اور جتنا چاہو پڑھتے رہو لالٹین میں تیل ختم ہونے کا دھڑکا نہیں۔

آج یہ عالم ہے کہ جھونپڑی میں رہنے والے بھی بجلی کی روشنی کے طلب گار ہیں اور ان کے ٹیوب ویل بھی اسی بجلی کے مرہون منت ہیں۔ ہمارے یہاں چند دہائیوں سے گڑ بڑ یہ ہوئی کہ غریبوں نے ٹیلی وژن دیکھنے اور موبائل چارج کرنے کے لیے کنڈا ڈالنے میں کوئی ہرج نہیں سمجھا۔ان سے کیا شکایت کی جائے کہ متعدد اعلیٰ سرکاری افسروں اور خوش حال گھروں میں بھی گرمی کا موسم کنڈے کے سہارے گزرتا ہے اور گھروں میں تین چارایئرکنڈیشنر صبح سے شام اور شام سے صبح تک 42 اور 45 سینٹی گریڈ درجہ حرارت کو پچھاڑے رہتے ہیں۔ یہ چوری اور سینہ زوری ملکی معیشت کو کیا دن دکھارہی ہے اس سے انھیں نہ کوئی غرض‘ نہ مطلب۔

اس پس منظر میں بجلی کے سنگین بحران پر نظر کیجیے تو دل دہل جاتا ہے۔ بڑے شہروں میں رہنے والے لوڈ شیڈنگ کے ہاتھوں ہلکان ہیں۔ قصبوں اور دیہاتوں کی بات تو جانے دیجیے کہ بجلی وہاں روایتی چھلاوا بن چکی ہے۔ابھی آئی‘ ابھی گئی۔ جی چاہتا ہے کہ الف لیلہ کا الہ دین ہاتھ لگ جائے تو اس کا چراغ گھس کر بجلی طلب کی جائے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ الہٰ دین کا چراغ اور اس سے نکلنے والا بندہ بے دام‘ اب قصہ کہانی ہوچکے… زمینی حقائق کسی عفریت کی طرح منہ پھاڑے ہمیں نگلنے کو تیار بیٹھے ہیں اور اس کا بنیادی سبب ملکی ضرورتوں سے بہت کم بجلی کی پیداوار ہے۔

80 بلکہ 90 کی دہائی تک یہ عالم تھا کہ ماہرین اس بات پر ہائے واویلا مچاتے تھے کہ ملک کی صنعتی ضرورتوں اور گھریلو استعمال کے لیے بجلی کم یاب ہونے والی ہے لیکن ان ماہرین کی بات پر نہ ہمارے منتخب حکمران کان دھرتے تھے نہ ان آمروں نے فغان درویش سننے کی کوشش کی جو خود کو دنیا کے ہر مرض کا علاج کرنے والا بتاتے ہیں۔ یہ حضرات جو بہ زبان خود اپنی اعلیٰ کارکردگی کے قصیدے پڑھتے رہتے ہیں ان سے جب کبھی لوگوں نے اس بارے میں گفتگو کی کوشش کی تو انھوں نے شاندار منصوبوں کے تذکروں کے انبار لگادیے۔ ہم جیسے کم علم لوگوں کی سمجھ میں صرف اتنی سی بات آئی کہ بجلی تو ہمیں نہ مل سکی لیکن اربوں ڈالر گردشی قرضوں کی نذر ہوگئے۔

گزشتہ 15 برسوں کے دوران ہمارے گھریلو صارفین اور صنعتوں کو ہلاکر رکھ دینے والی بجلی کے بحران پر نظر ڈالی جائے تو وہ کہانی کچھ یوں ہے کہ پاکستان میں توانائی کا بحران رفتہ رفتہ پیدا ہوا اور 2013 تک اس نے بھیانک شکل اختیارکرلی ۔ توانائی کی بے انتہا کمی کی وجہ سے صنعتی‘ کاروباری اور زرعی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئیں جس کی وجہ سے ملک میں معاشی ترقی کی شرح نمو مسلسل کم ہوتی چلی گئی۔ اس بحران کے ایک نہیں متعدد پہلو ہیں جن پر غور کیا جانا ضروری ہے۔

اس بات پر غور ہونا چاہیے کہ 2000 سے لے کر 2012 تک ملک میں بجلی پیدا کرنے کا کوئی بھی منصوبہ شروع اور مکمل کیوں نہیں ہوسکا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں کوئی نیا منصوبہ نہیں لگایا گیا۔ بعد ازاں‘ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں بھی اس ضمن میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوسکی۔

تکنیکی اعتبار سے پاکستان میں تقریباً 20 یا21 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی استعداد موجود ہے لیکن عملاً اس مقدار میں بجلی پیدا نہیں کی جاسکتی ہے۔ اصل پیداوار( زیادہ سے زیادہ) 16ہزار میگاواٹ تک پہنچ سکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سال کے کئی مہینوں میں بڑے بڑے ڈیموں میں پانی کی کمیابی ہوتی ہے جس کی وجہ سے ہائیڈل پاور پروڈکشن کم ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ متعدد بجلی گھر سالانہ دیکھ بھال اور مرمت یا فنی خرابی کے باعث کچھ وقت کے لیے بند رہتے ہیں جس سے توانائی کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔علاوہ ازیں‘ آئی پی پیز کو بر وقت ادائیگی نہ کرنے کے باعث یہ ادارے بجلی کی پیداوار کم کردیتے ہیں۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں دنیا اور پاکستان کی بدنصیبی اور جنرل موصوف کی حکومت کی خوش نصیبی یہ تھی کہ 9/11 کا سانحہ رونما ہوگیا۔ جنرل صاحب کی پالیسیوں کے باعث امریکا کی طرف سے غیر معمولی امداد کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت میں جعلی اور مصنوعی خوش حالی نظر آنے لگی۔ پیسوں کی فراوانی کی وجہ سے مشرف حکومت آئی پی پیز کو بروقت ادائیگی کرتی رہی جس سے بجلی کی پیداوار میں کمی نہیں آئی اور لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بھی محدود رہا۔

2006سے حالات بدلنے لگے ۔ امریکا اور جنرل صاحب کی حکومت میں اختلافات پیدا ہوگئے۔ امریکا نے بار بار ان پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے دوغلی پالیسی اختیار کرنے کے الزامات عائد کیے۔ امریکی ناراضگی کی وجہ سے مالی امداد میں کمی اور رکاوٹ شروع ہوئی جس سے جعلی معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکا اور ورلڈ بینک نے امداد سے ہاتھ کھینچ لیا ساتھ ہی دیگر ملکوں نے تعاون نہیں کیا جس کے باعث حکومت کے پاس سرمائے کی شدید قلت ہوگئی۔ اس نے IPPs کو بروقت ادائیگی روک دی اور وہ وقت آگیا کہ ملک میں 20اور 22گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ہونے لگی‘ گردشی قرضہ‘ شیطانی قرضہ بن گیا۔

(جاری ہے)

بجٹ اور غربت

$
0
0

عمر محلہ فقیر کالونی اورنگی ٹاؤن  میں آباد ہے۔ مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد پر مشتمل آبادی پانی کے قطرے قطرے کی محتاج ہے۔ اس علاقے کے مکینوں کو 2 سے 5 ہزار روپے ہر ماہ پانی کی خریداری پر خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ 15 سال قبل گھروں تک پانی کی لائنیں بچھائی گئی تھیں مگر 10، 12 سال سے یہ لائنیں سوکھ گئی ہیں۔ علاقے کے لوگ ہمیشہ پیپلز پارٹی کے ووٹر رہے مگر پیپلز پارٹی کے ووٹر ہونے کی بنا پر سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ میں برسرِ اقتدار نمایندوں نے پانی کے مسئلے کو اہمیت نہیں دی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے لیے فقیر کالونی میں پانی کی فراہمی ترجیح نہیں ہے، یوں گرمی میں پانی کی قلت اور بجلی کی لوڈشیڈنگ اس علاقے کے لوگوں کی زندگی اجیرن کررہی ہے۔

پانی کا مسئلہ پورے کراچی کا مسئلہ ہے۔ کراچی کی بیشتر غریب بستیوں کو پانی کے حصول کے لیے دن رات تگ و دو کرنا پڑتی ہے، پھر اب تو ملک کے بیشتر علاقوں میں پینے کے پانی کی قلت پیدا ہوچکی ہے۔

پانی کی قلت کا تعلق پانی کو محفوظ رکھنے اور فراہمی آب کے لیے جدید طریقوں کا استعمال اور پانی چوری کرنے والی مافیاز کا مستحکم ہونا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پسماندہ آب پاشی کے نظام کی بنا پر پانی کا بیشتر حصہ ضایع ہوجاتا ہے، یوں امیروں کو پینے کے علاوہ ان کی زمینوں کو آباد کرکے مویشیوں کو تروتازہ رکھنے کے لیے تو پانی موجود ہے مگر ملک کے غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار نے بجٹ سے ایک دن قبل قومی اقتصادی سروے پیش کرتے وقت بتایا تھا کہ ملک کی آدھی آبادی کی آمدنی 2 ڈالر فی دن سے زیادہ نہیں بڑھ سکی۔

اس بنا پر ملک کی آدھی آبادی خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ گزشتہ 3 برسوں سے اقتصادی سروے میں خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی شرح 30 سے 35 فیصد تک بتائی جاتی تھی مگر وزیر خزانہ کے اس انکشاف کے بعد اس شرح میں 15 فیصد تک اضافہ ہوگیا ہے اور اقتصادی ترقی کے تمام دعوے باطل ثابت ہوگئے ہیں۔ وفاقی بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص کی جانے والی رقم میں 11 فیصد کمی ہوگئی ہے، تعلیم کے شعبے کے لیے مختص کردہ رقم گزشتہ سال کے مقابلے میں ایک بلین روپے کم ہے۔ اس سال اس مد میں 80 بلین روپے مختص کیے گئے ہیںجب کہ گزشتہ سال یہ رقم 87 بلین روپے تھی۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کا تعلیم پر جی ڈی پی کا 4 فیصد خرچ ہونا اس سال بھی ایک خواب ہی رہے گا۔

پاکستان میں غربت کی بڑھتی ہوئی شرح کی مختلف وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ بعض اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ برسر اقتدار حکومتیں غربت کی شرح میں کمی کے لیے سنجیدہ نہیں رہیں۔ غربت کی شرح میں کمی کے لیے تعلیم عام کرنے، صحت کی سہولتیں فراہم کرنے، روزگار کے آسان مواقعے فراہم کرنے، غریبوں کی آبادیوں کو پانی، بجلی کی فراہمی اور محفوظ ٹرانسپورٹ کا نظام مہیا کرنے، غریبوں کو ترقی کی دوڑ سے منسلک کرنے کے سماجی حرکت پذیری (Social Mobility) کی ضرورت ہوتی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی 79 فیصد آبادی ناخواندگی کا شکار ہے، یہی وجہ ہے کہ خواندگی کے بین الاقوامی انڈیکس میں 221 ممالک شامل ہیں اور ان میں پاکستان کا 180 واں نمبر ہے۔ پاکستان میں صرف 6.8 فیصد بچے اسکول جاتے ہیں جب کہ بھارت میں یہ شرح 10.3 فیصد، بنگلہ دیش میں 8.1 فیصد، نیپال میں 8.8 فیصد اور سری لنکا میں 12 فیصد ہے۔ ایسی ہی صورتحال کالج اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کی ہے، ملک میں ناقص نظام تعلیم نافذ کرنے کی بنا پر سرکاری شعبہ زوال پذیر ہے۔ گھوسٹ اسکول، غیر حاضر اساتذہ اور نااہل افراد کے اساتذہ کی حیثیت سے تقرر کے کلچر نے سرکاری شعبے کو مفلوج کردیا ہے۔

اب غریب آدمی بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کے لیے نجی شعبے کی جانب توجہ دینے پر مجبور ہے، وہ مالیاتی بوجھ تلے زندگی گزار کر اپنے مسائل بڑھا رہا ہے۔ لہٰذا والدین نجی اداروں میں اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلا سکتے، وہ مدرسوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یہ لاکھوں کی تعداد میں ملک بھر میں پھیلے ہوئے مدرسے بچوں کو مخصوص مذہبی تعلیم کے علاوہ مفت رہائش، کھانے اور کپڑے کی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں علاج معالجے کی ناقص سہولتوں کی بنا پر غریب آدمی کے پاس موت کی تمنا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

ملک کی آبادی کا بیشتر حصہ زرعی معیشت سے وابستہ ہے۔ زرعی شعبے میں مشینوں کے استعمال، زمینوں کی تقسیم در تقسیم اور پانی کی قلت کی بنا پر بے روزگار کسانوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں میں روزگار کے ذرایع کم کردیے ہیں۔ دیہی علاقوں سے بڑے شہروں کی طرف ہجرت کی بڑھتی ہوئی شرح بھی نئے مسائل پیدا کررہی ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ، گیس کی قلت، امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال، بیوروکریسی کی ریشہ دوانیاں اور منتخب نمایندوں میں بدعنوانی صنعتی ترقی کی راہ میں اہم رکاوٹیں ہیں۔

صنعتیں نہ لگنے کی بنا پر بے روزگاری کی شرح بڑھ رہی ہے۔ حکومت سرکاری شعبے میں قائم صنعتوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ پاکستان میں سرکاری صنعتوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کے منفی نتائج سامنے آتے ہیں۔ اب بڑے اداروں کی نجکاری پر عملدرآمد کیا گیا تو بے روزگاری کی شرح بڑھ جائے گی، انتہاپسندی کو تقویت ملے گی۔

پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے اور گیس کی لوڈشیڈنگ نے پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے کئی نئے مسائل کھڑے کردیے ہیں۔ لاہور کے علاوہ باقی ملک کے تمام بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ نظام نہ ہونے کی بنا پر غریب آدمی کے لیے معارف زندگی برداشت کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ کراچی جیسے شہر میں کسی آدمی کے لیے منی بس میں سفر کرنے میں روزانہ 60 سے 80 روپے خرچ کرنا لازمی ہوگیا ہے، معارف زندگی بڑھنے سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ متوسط طبقے کے لیے اس صورتحال میں اپنی حیثیت برقرار رکھنا انتہائی مشکل کام ہوگیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت نے غربت کے خاتمے کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا تھا، اس حکومت نے یہ پروگرام جاری رکھا ہے۔

اس پروگرام کے تحت ہر غریب عورت کو ایک ہزار روپے ماہانہ ادا کیے جاتے ہیں۔ زرداری حکومت نے بینک کے ATM کارڈ کے ذریعے اس پروگرام کو شفاف رکھنے کا طریقہ کار وضع کیا تھا۔ زرداری نے الیکشن 2013 میں کامیابی کو اس نظام سے منسلک کیا تھا مگر انتخابی نتائج نے زرداری صاحب کے خواب کو چکناچور کردیا۔ مگر دوسری طرف غربت کی شرح بڑھ گئی ہے۔ اب نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے پاس خودکشی کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشی وجوہات کی بنا پر خودکشی کی شرح بڑھ گئی ہے۔

بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ انتہا پسندی کا غربت سے گہرا تعلق ہے۔ غربت کا خاتمہ کرکے ہی انتہاپسندی کی جڑوں کو ہمیشہ کے لیے کاٹا جاسکتا ہے۔ غربت کے خاتمے کے لیے ریاست کے کردار میں توسیع، شفاف طرز حکومت، تعلیم، صحت اور انسانی وسائل کی ترقی، زراعت میں جدید طریقوں کا استعمال اور ایک جدید صنعتی ڈھانچے کا قیام بہت ضروری ہے۔ وفاقی بجٹ میں یہ سب کچھ نہیں ہے۔

بیتے ہوئے دن یاد آتے ہیں

$
0
0

عطاء الحق قاسمی کسی تعارف کے محتاج نہیں‘ میں اپنے کالم میں ان کا ذکر نہ بھی کروں تو انھیں کوئی فرق نہیں پڑے گا‘ وہ ایسی شخصیت ہیں‘ جنھیں کسی ایک حوالے سے پرکھا نہیں جا سکتا۔ وہ کالم نگار ہیں‘ ادیب ہیں‘ شاعر ہیں‘ ڈراما نگار اور سفارتکار بھی ہیں۔ ناروے میں انھوں نے پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔ آج کے زمانے میں کسی اہل قلم میں اتنے اوصاف کا یکجا ہونا ممکن نہیں۔

اپنے کالموں اور تقریروں میں وہ جس شگفتہ بیانی اور طنز و مزاح کا اظہار کرتے ہیں‘ یہ انھی کا خاصا ہے‘ آج کے دور کا کوئی دوسرا کالم نگار ان کی جملہ بازی تک نہیں پہنچ سکتا۔ انھوں نے گزشتہ دنوں لاہور کے الحمرا ہال میں ’’بیتے ہوئے دن یاد آتے ہیں ‘‘کے عنوان سے اپنے اپنے شعبوں کے نامور لوگوں کا میلہ سجایا۔ اس عالمی ادبی میلے میں بیورو کریٹس‘ صحافیوں‘ کالم نگاروں‘ ادیبوں اور شاعروں کا خوش رنگ اور مہکتا ہوا گلدستہ سجایا گیا‘ سامعین کو ایسی ایسی باتیں سننے کو ملیں جو کتابوں اور رسالوں میں نہیں مل سکتیں۔ ماضی خواہ کتنا ہی کٹھن کیوں نہ ہو‘ وہ حال میں آ کر رومانٹک بن جاتا ہے۔

ایسا انوکھا آئیڈیا عطاء الحق قاسمی کے ذہن رسا میں ہی آ سکتا تھا۔ اگر میں غلط نہیں ہوں تو چند ماہ قبل وہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے مشیر برائے توانائی شاہد ریاض گوندل کی درخواست پر منڈی بہاؤ الدین گئے تھے۔ میں بھی ان کے ہمراہ تھا‘ دوران سفر انھوں نے سرسری انداز میں اپنے اس ارادے کا ذکر کیا تھا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ چند ماہ میں ہی اس خواب کی تعبیر سامنے آ جائے گی۔ اتنا بڑا کام اس قدر جلد پایہ تکمیل تک پہنچنا بظاہر ممکن نہیں تھا لیکن قاسمی صاحب نے اسے ممکن بنا دیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کس قدر دھن کے پکے ہیں۔

اس عالمی کانفرنس میں انھوں نے مجھ نا چیز کو بھی دعوت دی۔ میں اس پر ان کا انتہائی مشکور ہوں۔ ورنہ جس معاشرے میں ہم زندہ ہیں‘ وہاں کون کسی کو تسلیم کرتا ہے لیکن  قاسمی صاحب میں احساس برتری نام کو بھی نہیں۔وہ سرتاپا لاہوری ہیں۔ اس کا اظہار ان کی باتوں میں بھی ہوتا ہے اور تحریروں میں بھی۔

مجھے کانفرنس کے دوسرے روز بولنا تھا‘ اس سیشن میں نامور شخصیات موجود تھیں۔ انتظار حسین‘ کامران لاشاری‘ ثریا ملتانیکر‘ اداکار اور اینکر سہیل احمد‘ یونس جاوید‘ شمیم حنفی‘ مسعود اشعر‘ حسین شیرازی اور انعام الحق جاوید جیسی نامور شخصیات کی اس کہکشاں میں میرے جیسا شہاب ثاقب بھی شامل تھا۔ الحمرا ہال نمبر2 میں ہر شخصیت کی یادیں گلاب بن کر مہک رہی تھیں‘ میں جب اسٹیج پر پہنچا تو وہاں نشستیں پوری ہو چکی تھیں۔ صبح صادق صاحب نے میرے لیے عقب میں نشست لگائی۔

میں ابھی بیٹھا ہی تھا کہ جناب عطاء الحق قاسمی نے مجھے دیکھا اور اپنی نشست چھوڑ کر میرے پاس آئے اور وہاں بیٹھنے کا کہا۔ میرے لیے یہ حیران کن تھا‘ کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا کروں‘ میں نے انکار کیا لیکن قاسمی صاحب نہیں مانے اور زبردستی مجھے اپنی نشست پر بٹھا دیا۔ میرے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے اور قاسمی صاحب کے بلند اخلاق کی زندہ مثال ہے۔ ورنہ ہمارے ہاں جو کلچر رائج ہے‘ وہاں تو اگلی نشست پر بیٹھنے کے لیے آدمی دو گھنٹے پہلے محفل میں پہنچتا ہے اور نشست پر قبضہ کر لیتا ہے اور پھر چاہے کچھ ہو جائے‘ وہ کرسی نہیں چھوڑتا لیکن قاسمی صاحب نے اپنے عمل سے پیغام دیا کہ انسان کی عظمت نشست نہیں ہوتی‘ اس کے اپنے اوصاف اور اس میں موجود عوامی رنگ ہوتا ہے۔

میں اگر یہاں دوسرے مقررین کی یاد یںبیان کروں تو کالم بہت طویل ہو جائے گا‘ لہٰذا میں قارئین سے اپنی وہ یادیں شیئر کروں گا جو میں نے الحمرا ہال میں حاضرین کو سنائیں۔ میں نے کسی لگی لپٹی کے بغیر حاضرین کو بتایا کہ میں کسی ہائی فائی تعلیمی ادارے کا پڑھا ہوا نہیں ہوں بلکہ عام سے محلہ اسکول سے فارغ التحصیل ہوں جسے بقول قاسمی صاحب المعروف کھوتی اسکول تو نہیں کہا جا سکتا البتہ اس کے قریب قریب کسی نام سے ضرور پکارا جا سکتا ہے۔ میں چونکہ غریب والدین کی اولاد ہوں‘ اس لیے غریبوں کے شغل میلے کیا ہوتے ہیں‘ اس سے بخوبی واقف ہوں۔ غریبوں کی بعض عادتیں ابھی تک مجھ میں موجود ہیں۔

مثلاً محلے کے ٹی اسٹال پر بیٹھ کر شیشے کے گلاس میں چائے پینا اور دوستوں سے گپیں لگانے کی عادت آج بھی موجود ہے‘ سڑک کے کنارے کسی ریڑھی والے سے نان چنے آج بھی کھا لیتا ہوں۔ سچی بات ہے کہ میں اپنی کلاس کے نالائق طالب علموںمیں شمار ہوتا تھا‘ مجھے لکھنے لکھانے سے قطعاً دلچسپی نہیں تھی‘ انگریزی اور حساب سے تو خوف آتا تھا۔ میٹرک میں حساب اور ایف اے میں انگریزی میں فیل ہو گیا تھا۔ اس لیے میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر مجھ جیسا نالائق طالب علم کسی بڑے اخبار کے ادارتی صفحات کا ایڈیٹر اور کالم نگار بن سکتا ہے تو ہر شخص ایسا کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ محنت کرے۔بچپن کا ایک واقعہ یوں ہے کہ میں سمن آباد کی ایک مسجد میںقرآن پڑھنے جایا کرتا تھا‘ اس کے سامنے معروف شاعر قتیل شفائی صاحب کا گھر تھا‘ مسجد کے پیش امام صاحب شاید مسلک یا ان کی شاعری کی بنا پر انھیں اچھا نہیں سمجھتے تھے۔

میری عمر اس وقت دس بارہ سال کے قریب ہو گی۔ ایک روز مولوی صاحب نے ہمیں بتایا کہ یہ شاعر کوئی اچھا آدمی نہیں ہے۔ پھر کیا تھا‘ ایک روز میں اور میرے دیگر ساتھی منہ اندھیرے مسجد میں قرآن پڑھنے آئے‘ مسجد کے سامنے زیر تعمیر سڑک پر پتھر پڑے ہوئے تھے۔ میں نے اور دوسرے لڑکوں نے پتھر اٹھائے اور قتیل شفائی صاحب کے گھر پر برسا دیے اور فرار ہو گئے۔ اس ’’کامیاب واردات کے ملزموں‘‘ کا سراغ آج تک نہیں لگ سکا۔ یہ واقعہ آج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہے‘ اس پر اب افسوس بھی ہوتا ہے لیکن یہ کہہ کر تسلی ہو جاتی ہے کہ وہ بچپن کا زمانہ تھا‘ اسے شرارت ہی سمجھا جانا چاہیے۔ بہر حال اس کو زمانہ بیت گیا ہے۔

دوسرا واقعہ اس زمانے کا ہے جب میں روزنامہ پاکستان اسلام آباد میں سب ایڈیٹر تھا۔ آج کے معروف اینکرپرسن اور کالم نگار جاوید چوہدری بھی وہیں سینئر سب ایڈیٹر ہوا کرتے تھے۔ ہم کئی دوست لاہور سے اسلام آباد آئے تھے‘ اس لیے سب نے مشترکہ طور پر اسلام آباد کے نواحی علاقے راول ٹاؤن میں ایک گھر کرائے پر لے رکھا تھا۔ یہ 1992ء اور 93ء کی بات ہے۔ جو گھر ہم نے کرائے پر حاصل کیا تھا‘ یہ راول ٹاؤن کی گوالا کالونی میں تھا‘ اس کالونی میں بھینسوں کے باڑے کے لیے تقریباً دس مرلے یا اس سے زیادہ زمین مختص تھی۔ اس کے سامنے تقریباً دو اڑھائی مرلے جگہ رکھی گئی تھی جہاں گائے بھینسوں کو چارہ وغیرہ ڈالنے کے لیے کھرلی بنائی جاتی تھی لیکن جیسا کہ پاکستان میں ہوتا ہے‘ گوالا کالونی میں بھی پلاٹ ان افراد نے الاٹ کرا لیے جن کے پاس نہ کوئی گائے تھی نہ بھینسیں۔ ان افراد نے وہاں گھر بنا لیے‘ ہمیں کرائے پر جو گھر ملا‘ وہ کھرلی والی جگہ میں بنایا گیا تھا۔

ہمارے اخبار کا دفتر اسلام آباد کی میلوڈی مارکیٹ میں تھا‘ رات کی ڈیوٹی ہوتی اور یہاں سے میں جاوید چوہدری‘ اسلم ڈوگر‘ شجاع الدین‘ عبدالحمید تبسم اور یوسف خان پیدل راول ٹاؤن جایا کرتے تھے‘ سردیوں کے موسم کی ایک رات کو ہم میلوڈی مارکیٹ سے نکلے اور آپس میں گپیں ہانکتے ہوئے راول ٹاؤن کے لیے روانہ ہو گئے‘ شدید سردی اور دھند کے باعث کچھ نظر نہیں آ رہا تھا کہ اچانک سڑک کے قریبی جنگل میں سے کئی سُور ہمارے سامنے آگئے۔ میں نے گھبراہٹ کے عالم میں جاوید چوہدری کو مخاطب کیا اور بولا ‘’’چوہدری سور آ گئے نیں‘‘۔ جاوید چوہدری نے کوئی لمحہ ضایع کیے بغیر بے ساختگی سے کہا، ’’فکر نہ کر‘ اپنے پرا نیں‘ سانوں کجھ نیں کیہن گے‘‘، (فکر مت کرو‘ یہ ہمارے بھائی ہیں‘ ہمیں کچھ نہیں کہیں گے) اور وہ ہی ہوا‘ انھوں نے ہماری طرف دیکھا اور بڑے آرام سے ٹہلتے ہوئے جنگل میں گم ہو گئے۔

یوں تو زندگی تلخ و شیریں یادوں سے بھری پڑی ہے لیکن کم وقت کے باعث یہی کچھ سنایا جا سکا باقی یادیں‘ پھر کبھی سہی۔ یار زندہ صحبت باقی۔

گہوارۂ علم کے نگہبان

$
0
0

ترقی یافتہ اقوام کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو طلبا نے اس قوم کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا لیکن اس کے برعکس پاکستان میں قیادت تعلیمی میدانوں سے آنے کے بجائے مراعات یافتہ طبقے کے گھر سے زبردستی برآمد کی گئی۔ باپ وزیر اعظم تھا تو بیٹے کا وزیر اعظم بننا حق ٹھہرا۔ کہیں باپ وزیر اعظم ہے تو دیگر خاندان کے افراد بھی اقتدار کے لیے تیار کیے جا رہے ہیں۔

یہ سلسلہ پاکستان کے حکمران طبقے کے ایک یا دو خاندانوں سے جڑا ہوا نہیں ہے بلکہ یہ بیشتر خاندانوں کی میراث ہے کہ وہ کوشش کرتے ہیں کہ قیادت ان کے گھر میں رہے اور یوں قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان میں موروثی قیادت موجود ہے جب کہ طلبا تنظیمیں جو بنیادی طور پر تربیت یافتہ افرادی قوت فراہم کرنے کا بڑا ذریعہ ہوتی ہے، اسے محدود رکھا گیا۔ اسے اپنے مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ بات مشاہدے میں ہے کہ نوجوانی میں جوش و جذبات عروج پر ہوتے ہیں اور انھیں استعمال کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔

پاکستان کے حکمرانوں نے اس طاقت کو اپنے اقتدا ر کو دوام دینے کے لیے استعمال کیا اور وہ حقیقی کردار ادا کرنے سے انھیں دور رکھا جو بنیادی طور پر ملک کے نوجوان طلبا و طالبات کا ہوتا ہے۔ اس پرآشوب دور میں آج سے 36 برس قبل ایک نظریے نے اس سوچ اور جمود کے خاتمے کے لیے ایک وسیع نظریے کی بنیاد پر ایک طلبا تنظیم کی بنیاد ڈالی۔ اسے بھی اسی موروثی سیاست کا سامنا کرنا پڑا اور یہ طبقہ اسے مسلسل آڑے ہاتھوں لے رہا تھا۔ فروری 1981 میں ہتھیار بند تنظیموں کے دہشت گردوں نے تعلیمی اداروں سے اس سوچ کو باہر نکالنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش بھی ان کے خلاف ثابت ہوئی اور جب انھیں جامعہ کراچی سے باہر نکالا گیا تو یہ کراچی، سندھ اور پاکستان کے طول و عرض میں اس سوچ کو لے کر پھیل گئے اور سب سے پہلے انھی کی سیاسی دکان بند کی جنھوں نے انھیں جامعہ کراچی سے نکلنے پر مجبور کیا۔

آج 35 سال کے بعد یہ نظریہ، یہ سوچ اپنی عوامی حمایت اور مینڈیٹ کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سوچ، نظریے اور قیادت نے پاکستان میں رائج فرسودہ نظام کے برعکس اقدامات کیے۔ اس نے بھائی، بہن، بیٹوں، بھتیجوں کے بجائے ان طلبا و طالبات کو آگے بڑھایا جو ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے تھے اور انھی نوجوانوں کو ملک کے اعلیٰ ترین ایوانوں میں بھیج کر نئی روایت کو جنم دیا۔ اب کیونکہ یہ پاکستان میں رائج جاگیردارانہ، وڈیرانہ اور موروثی نظام کے خلاف ایک موثر جماعت بن گئی تھی، تو اس کا راستہ روکا گیا۔ کبھی سازشوں کے ذریعے، کبھی عسکری اور پولیس آپریشنز کے ذریعے، لیکن قربانیوں کی لازوال تاریخ رقم ہو گئی۔ اس سوچ کا راستہ نہیں روکا جا سکا جو بنیادی طور پر گہوارۂ علم سے برآمد ہوئی اور آج بھی وہ اس کی نگہبانی کے فرائض پوری تندہی سے انجام دے رہے ہیں۔

قائد تحریک الطاف حسین نے 11 جون 1978 کو اس طلبا تنظیم کی بنیاد ڈالی جو آج اپنا 36 واں یوم تاسیس منا رہی ہے جسے ہم APMSO کے نام سے جانتے ہیں۔ ان کا ہمیشہ یہ درس رہا ہے کہ علم کو اپنا ہتھیار بناؤ، والدین اور اساتذہ کا احترام، ترقی کو اپنی منزل بناتے ہوئے آگے کی جانب بڑھو۔ انھوں نے اپنے ہر لیکچر، خطاب اور نشست میں طلبا و طالبات کو بالخصوص مخاطب کرتے ہوئے یہ صلاح دی کہ نقل کے رجحان کو ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرو۔ علم کے ذریعے اپنی کردار سازی کرو۔ اس کے برعکس پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتیں جو موروثیت کے سمندر میں غرق ہیں، وہ اس رجحان کے آگے بڑھنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

کیونکہ اگر پڑھی لکھی متوسط طبقے قیادت آ گئی تو اسمبلیوں میں پاکستان کے 2 فیصد مراعات یافتہ طبقے کی آمد اور ان کے خاندانی افراد کی نمایندگی کا راستہ بھی بند ہو جائے گا۔ یہ وہ جنگ ہے جو روز اول سے قائد تحریک الطاف حسین لڑ رہے ہیں۔ اس سفر میں ہزاروں کارکنوں نے اپنی جانیں نچھاور کیں۔ اسیری، جلاوطنی ان کا مقدر بنا دی گئی۔ ا س کے باوجود جو پودا آج سے 36 برس پہلے لگایا گیا تھا، آج ایک تناور اور سایہ دار درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے اور وہ پاکستان بھر کے حقوق سے محروم عوام کے لیے ایک امید کی کرن ہے، وہ اس جدوجہد سے حوصلہ حاصل کر کے اپنے آپ کو بھی اس فرسودہ نظام کے خلاف صف آرا کر سکتے ہیں۔

آج کے اس مشکل ترین دور میں اے پی ایم ایس او کے کارکنان کی ذمے داریاں بڑھ جاتی ہیں کہ وہ گہوارۂ علم کی حفاظت کی ان ذمے داریوں کو پورا کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں کیونکہ بانی و قائد تحریک الطاف حسین نے اسی مقصد کے لیے یہ پلیٹ فارم عوام کو فراہم کیا ہے۔ اتنا وقت گزر جانے کے باوجود بھی اس تحریک کا حوصلہ جواں ہے اور مسلسل گرم خون کی فراہمی اس امر کی غماز ہے کہ یہ نظریہ اور سوچ بتدریج نئی نسل میں منتقل ہو رہی ہے۔ 25 مئی 2014 کو قائد تحریک الطاف حسین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے جو ملین مارچ تبت سینٹر سے مزارِ قائد اور اس کے اطراف کی سڑکوں پر منعقد کیا گیا، اس میں ان نوجوانوں کی تعداد ان کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے جو نوجوانوں کی ترجمانی کے دعویدار ہیں کیونکہ اس لاکھوں کے مجمعے میں نوجوانوں کی تعداد یہ فیصلہ سنا رہی تھی کہ نوجوانوں کا قائد کوئی نہیں صرف الطاف حسین ہے۔

نوجوانوں کا مستقبل الطاف حسین کی سوچ اور فکر کی کامیابی سے وابستہ ہے۔ اگر یہ فکر کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے تو ملک میں حکمرانی غریب اور متوسط طبقے کی ہو گی اور قیادت تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ہاتھ میں ہو گی۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب کارکنان APMSO اپنی ذمے داریوں کو محسوس کرتے ہوئے علم کے زیور سے اپنے آپ کو آراستہ کریں۔ معاشرتی برائیوں سے دور رہتے ہوئے انھیں معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کریں۔ نقل سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے آپ کو مستقبل کی قیادت کی نرسری بنائیں۔ اس کے لیے قائد تحریک الطاف حسین کی تعلیمات ہمارے لیے رہنما اصول بنتی ہے۔ آج کے اس تاریخی دن کے موقعے پر ہم تمام کارکنان کو اس عہد کی تجدید کرنا ہو گی کہ وہ تنظیم کے نظم و ضبط کی پابندی کرتے ہوئے اس مشن اور مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پوری کوششیں کریں گے جس کے لیے قائد تحریک نے اس عظیم جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔

( اے پی ایم ایس او کے 36 ویں یوم تاسیس کی مناسبت سے خصوصی مضمون)


سب کچھ ہو سکتا ہے

$
0
0

کہتے ہیں اپنی ذات کا درد کسی دور دراز کے ملک کے اس قحط سے زیادہ تکلیف دہ ہے جو لاکھوں افراد کی موت کا باعث ہوتا ہے اپنی گردن کا پھوڑا افریقہ کے چالیس زلزلوں سے زیادہ تکلیف دہ معلوم ہوتا ہے کارل نیڈبرگ کہتا ہے کہ ’’سب کچھ ایک خواب سے شروع ہوتا ہے‘‘ یہ ترقی جو آج آپ کو نظر آ رہی ہے کیا ہمارے آباؤ اجداد کا خواب نہیں تھی کیا وہ فضا میں خلا میں پرواز کرنا نہیں چاہتے تھے کیا وہ قدرت کے سر بستہ راز جاننا نہیں چاہتے تھے۔

آج وہ سب خواب حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں کیونکہ خواب سے ہی سو چ جنم لیتی ہے اور سو چ ہی وہ ہتھیار ہے جو آپ کے ہر خواب کو حقیقت کا روپ دیتا ہے زندگی کی ہر جنگ آپ کو جتاتا ہے ، لیکن پاکستان میں سب کچھ ڈراؤنے خواب سے شروع ہوتا ہے پھر اس ڈراؤنے خواب سے ڈراؤنی سوچ جنم لیتی ہے اور پھر اس کے بعد ڈراؤ نے اقدامات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔

اسی لیے تو کہتے ہیں کہ پاکستان میں سب کچھ ہو سکتا ہے اگر کوئی یہ کہے کہ فلاں شہر یا قصبے میں لوگ الٹے سر کے بل چلتے ہیں تو یقین جانیے میں سو چے سمجھے بغیر اس پر فوراً ایمان لے آؤں گا۔ کیونکہ پاکستان میں سب کچھ ہو سکتا ہے جس ملک میں اول درجے کے احمق بے وقوف اور جاہل بڑے بڑے اعلیٰ سرکاری و پبلک کے عہدوں پر براجمان ہوں اور ملک و قوم کی تقدیر کے فیصلے کر رہے ہوں اگر سقراط افلاطون اور ارسطو آج زندہ ہوتے اور وہ ہمارے حکمرانوں کی حرکات، سکنا ت اور اقدامات کو بغور دیکھ رہے ہوتے تو وہ سر پیٹ پیٹ کر رہ جاتے کیونکہ ان سب حضرات کا اس بات پر مکمل اتفاق تھا کہ حکمران فلسفی یاد انشور ہونے چاہیں تا کہ ملک اور قوم محفوظ رہ سکیں اور ترقی کر سکیں ۔

جہاں عقل سے پیدل حضرات بڑے بڑے تجزیہ نگا ر بنے ہوئے ہوں وہاں سب کچھ ہو سکتا ہے جہاں راشی، کرپٹ، عوامی نمایندے ہوں جو عوام کی سننے کے بجائے مجر ے سنتے ہوں اور صرف اپنے فرنٹ مینوں کے فون سنتے ہوں وہاں سب کچھ ہو سکتا ہے۔ جہاں ایسے لوگ مشیر بنے ہوئے ہوں جنہیں خود مشوروں اور مشیروں کی ضرورت ہو جہاں ایسے ایسے وزیر ہوں جن کی باتیں سن کر اللہ یا د آ جاتا ہو اور ساتھ ہی اس بات پر بھی یقین آ جاتا ہو کہ قیامت بہت قریب ہے۔

کیونکہ سنتے آئے ہیں کہ قیامت سے ذرا پہلے ایسی ایسی انہونیاں ہوا کریں گی کہ جس پر یقین ہی نہیں آئے گا جہاں وزیر دفاع اپنی ہی فوج کے خلاف زبان کھولے بیٹھے ہوں، جہاں ملک کی سلامتی و استحکام کی ضامن ایجنسی کے سر براہ کو ایک نجی ٹی وی چینل قصور وار کے طور پر دکھا رہا ہو۔ وہاں سب کچھ ہو سکتا ہے پاکستان ایسے عجیب و غریب ملک میں تبدیل ہو گیا ہے کہ جن کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور ہونی چاہیے وہ تو خالی ہاتھ ہیں اور جن کے ہاتھ خالی ہونے چاہیے ان کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور ہے۔ اگر جن کے ہاتھوں میں ملک کی بھاگ دوڑ ہے ان سب کا ذہنی معیار اور کیفیت کا ٹیسٹ ہو جائے تو یہ سب حضرات اس ٹیسٹ میں فیل ہو جائیں گے۔

دنیا اور ہم میں فرق صرف سوچ کا ہے حیران کن بات یہ ہے کہ ہمارے آباؤاجداد بھی مثبت انداز میں نہیں سو چتے تھے شاہ جہاں اور کنگ ایڈورڈ دونوں بادشاہ اپنی بیویوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے دونوں کی بیویوں کی موت کینسر سے ہوئی۔ بادشاہ شاہ جہاں نے اپنی بیوی کی یاد میں کروڑوں روپے خرچ کر کے تاج محل بنوایا جب کہ کنگ ایڈورڈ نے اپنی بیوی کی یاد میں University of Medical Research بنوائی تا کہ جس بیماری سے اس کی بیوی مری ہے ا س سے دوسروں کو بچایا جا سکے فرق صرف سوچ کا ہے ۔

اپنی سوچ کو تبدیل کیے بغیر ہم زندگی کی ہر جنگ ہارتے رہیں گے اور ہمیشہ ہی شکست خوردہ رہیں گے کہا جاتا ہے کہ اصلاح کی بنیاد انسان کی جہل سے شروع ہوتی ہے اور علم کی روشنی میں اس کا اختتام ہوتا ہے۔ جیمز لین ایلن اپنی کتاب ’’انسان کیسے سوچتا ہے‘‘ میں لکھتا ہے ’’جب کوئی شخص دوسرے لوگوں اور چیزوں کے متعلق اپنے خیالات بدلتا ہے تو وہ دیکھے گا کہ دوسرے لوگوں اور چیزوں کے رویے میں خود بخود تبدیلی پیدا ہو گئی ہے اگر کوئی انقلابی طور پر اپنے خیالات کو تبدیل کرے تو وہ اس تیز رفتار تغیر کو دیکھ کر حیران رہ جائے گا جو اس کے مادی حالات پر اثرانداز ہو گا انسان میں ان چیزوں کو اپنی طرف کھینچنے کی قدرت نہیں ہے۔

جنہیں وہ چاہتا ہے وہ دیوتا جو ہماری خواہشوں اور آرزؤں کو تکمیل کا روپ دیتے ہیں وہ خود ہم ہی ہیں انسان جو کچھ حاصل کرتا ہے وہ اس کے خیالات کا براہ راست نتیجہ ہوتا ہے ایک انسان محض اپنے خیالات کو بلند کر کے ابھار کر آگے بڑھا سکتا ہے ترقی کی منزلیں طے کر سکتا ہے اور کامیابی کی کشتی میں سوار ہو سکتا ہے اگر وہ اپنے خیالات کو ابھارنے سے انکار کر ے گا تو وہ صرف حقیر، کمزور، ادنیٰ اور شکستہ حال رہے گا۔ امریکا کے مشہور پیٹرگیر نے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز ڈائریکٹر کی حیثیت کیا تھا۔ بیٹ مین، رین مین اور مڈنا ئٹ ایکسپریس جیسی شاہکار فلمیں ڈائریکٹ کر کے اس نے اپنا لوہا منوا رکھا ہے۔ ایک انٹرویو کے دوران اس نے بتایا کہ 1979ء میں میرا ارادہ بیٹ مین شروع کرنے کا تھا میں نے جس کسی سے بھی اس پراجیکٹ کا ذکر کیا اس نے میری حو صلہ شکنی کی مجھے کہا گیا کہ یہ بچوں کا کردار ہے اسے ہر کوئی جانتا ہے لوگ کچھ اور ڈیمانڈ کرتے ہیں وغیرہ۔

لیکن مجھے یقین کامل تھا کہ یہ فلم کامیاب ہو گی میں مستقل مزاجی سے اس فلم کے پیچھے پڑا رہا اور آخر کار میں 1988ء میں یہ فلم بنانے میں کامیاب ہو گیا میری اور میرے ساتھیوں کی محنت رنگ لائی اور فلم سپرہٹ ثابت ہوئی۔ میری دوسری فلم رین مین تھی فلم کے اسکر پٹ کو 5 رائٹر وں نے دیکھا اور رد کر دیا یہاں تک کہ اسٹیون اسپیل برگ نے بھی مجھے مشورہ دیا کہ میں وقت اور پیسہ برباد نہ کروں۔ مجھے کہا گیا کہ لوگ اب مار دھاڑ، ایکشن اور سیکس کی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔

تمہاری فلم میں باہمی تعلقات کی بات ہے تو اسے لوگوں نے کیا کرنا ہے مگر میں نے یہ بات ماننے سے انکار کر دیا اور اسکر پٹ بدلنے یا فلم کو ختم کرنے سے صاف انکار کر دیا اس فلم نے 4 آسکر ایوارڈ حاصل کیے اور کامیابی کے نئے جھنڈے گاڑے۔ جب ان سے پوچھا گیا کیا آپ کو ڈر نہیں لگتا تو پیٹر گیر کا جواب تھا۔ ڈر اور خوف مجھے مزید کام پر اکساتا ہے اور میں نت نئے منصوبے بناتا ہوں ایسے ماحول میں کام کرنے کا مجھے مزا آتا ہے۔ ولیم کالج میں موجود ایک کتبے پر تحریر ہے ’’اوپر چڑھو آگے بڑھو تمہاری منزل آسمان ہے ستارے چھولو۔‘‘ یہ سچ ہے کہ آج تک ہماری زندگی کی فلم بری طرح فلاپ ثابت ہوتی ہے لیکن یہ ضروری تو نہیں ہے کہ آیندہ بھی فلاپ ہی رہے گی ۔

آئیں ہم سب مل کر اپنی زندگی کی فلم کو سپر ہٹ بنانے کے لیے آج ہی سے اس کے اسکرپٹ پر کام شروع کر دیں سب سے پہلے اپنی سوچ کو یکسر تبدیل کر دیں اپنے خوف اور ڈر کو اپنی طاقت بنا لیں اپنی زندگیوں کے فیصلوں کا اختیار دوسروں کو دینے کے بجائے خود کریں۔ لیٹروں، غاصبوں سے اپنی جان چھڑا لیں اپنے رویّے یکسر تبدیل کر دیں یاد رکھیں خسارہ یا ناکامی ہمار ا مقدر نہیں ہے ہم نے بہت دکھ اور تکلیفیں سہہ لی ہیں ترقی، کا میابی و خوشحالی اور بااختیار ہونا دنیا کی طرح ہمارا بھی حق ہے آج ہی سے اپنے نئے سفر کا آغاز کر دیں پھر دیکھیں کس طرح چپکے سے خوشحالی اور کامیابی ہمار ے گھروں میں داخل ہو جاتی ہے جسے دیکھ کر دنیا بھی کہے گی کہ پاکستان میں سب کچھ ہو سکتا ہے ۔

جیتے جاگتے شہر کو ویراں کرنے والے

$
0
0

ہمارا شہر کراچی ہر ماہ کسی نہ کسی وجہ سے دو چار دنوں کے لیے بند کر دیا جاتا ہے۔ آئے دنوں کی ہڑتال اور احتجاج سے یہاں کے باسی انتہائی مضطرب اور پریشان ہیں۔ اعلان شدہ ہڑتال سے ایک روز قبل ہی شرپسندوں کے ہاتھوں بسوں، گاڑیوں اور سرکاری املاک کو آگ لگا کر اور شہریوں کو خوفزدہ کر کے ہڑتال کو کامیاب بنانے کا طریقہ ایک عرصے سے جاری و ساری ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں اب کاروبار کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔

دُکاندار کاروباری حضرات جب دن چڑھے اپنے کاروبار کا آغاز کرنے نکلتے ہیں تو اُنہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کِس وقت اچانک کوئی واقعہ رونما ہو جائے اور سارا شہر ایک قبرستان کی خاموشی کا سا منظر پیش کرنے لگے۔ چند سر پھر ے مسلح نوجوانوں کا ٹولہ کہیں سے نمودار ہو کر علاقے کی دُکانوں کو جبراً بند کروا دیتا ہے۔ سڑکوں پر دوڑتی گاڑیوں کو روک کر نذرِ آتش کر دیتا ہے اور طاقت کے زور پر زندگی سے بھر پور شہر کو چند لمحوں میں ویران اور ماتم کدہ بنا دیتا ہے۔ خوف اور دہشت کے مارے لوگ اپنے اپنے گھروں میں خود ہی نظر بند ہو جاتے ہیں۔

کوئی سیاسی جماعت اور گروہ اِن دہشت گردوں کو اپنانے کو تیار نہیں۔ سب اِنہیں نامعلوم شر پسند کہہ کر اُن سے لا تعلقی ظاہر کرتے ہیں لیکن وہ ہیں کہ بغیر کسی واضح شناخت اور پہچان کے اپنا کام برابر کیے جا تے ہیں۔ ابھی حالیہ دنوں میں جب لندن سے جناب الطاف حسین کی گرفتاری کی خبر نے اُن کے چاہنے والوں کو افسردہ اور غمزدہ کر دیا ۔

اِس واقعے کی آڑ میں پھر وہی نامعلوم شر پسند افراد سڑکوں پر دندناتے نکل آئے اور سارے شہر کو بند کرا کے حسبِ معمول غائب ہو گئے۔ متحدہ کی رابطہ کمیٹی نے اُن سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے اُن کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کر دیا اور یہ بھی کہا کہ یہ شرپسند افراد اپنی حرکتوں سے ایم کیو ایم کو بدنام کر تے ہیں اِنہیں گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے۔ کیونکہ لندن سے آنے والی افسوسناک خبر کا تعلق ایم کیو ایم کی قیادت سے تھا لہذا ردِ عمل میں جو کچھ کیا گیاوہ یقینی اور توقعات کے عین مطابق تھا ۔

شہر کے مختلف علاقوں میں اُس کے لوگوں کی طرف سے خاموش دھرنا اُن کے اپنے قائد سے جذباتی تعلق، عشق اور والہانہ لگاؤ کا ایک فطری اور مثبت اظہار تھا جس کی کسی نے مخالفت بھی نہ کی۔ یہ دھرنا چار روز تک جاری رہا اور اپنے قائد کی رہائی کی خبر کے بعد ہفتے کو رات گئے اختتام پذیر ہوا۔ مگر اِس دوران نامعلوم شر پسند افراد اپنا کام کر گئے۔ احتجاج کے تیسرے روز جب کاروبار کھولنے کا ا علان ہوا تو پھر وہی بے چہرہ افراد تازہ دم اور سرگرم ہو کر دُکانیں بند کروانے کے اپنے مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا ہو گئے اور آناً فاناً سارے جیتے جاگتے شہر کو پھر سے ویرانی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔

کراچی وہ شہر ہے جہاں چھوٹی سی خبر جنگل کی آگ کی مانند پھیل جاتی ہے اور منٹوں میں سارے شہر کا امن و امان غارت کر دیتی ہے۔ شہر میں ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے لاکھوں افراد اچانک بیروزگار ہو جاتے ہیں اور اُن کے ذریعے پلنے والے ہزاروں خاندان فاقہ کشی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اُن کا چولہا اُس وقت تک نہیں جلتا جب تک شہر کے حالات معمول پر نہیں آ جاتے۔ یہ سلسلہ کوئی آج کا پیدا کردہ نہیں ہے ایک عرصے سے یہی فعلِ قبیح جاری ہے۔

کچھ ایسا ہی منظر محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت والے دن بھی دیکھنے میں آیا جب اِن ہی نامعلوم شر پسندوں اور بلوائیوں نے چند گھنٹوں میں ملک کے سب سے بڑے شہر کو آگ اور خون کی ہولی کے رنگ میں رنگ دیا۔ سرکاری اور نجی املاک، بینکوں اور پیٹرول پمپوں کو نذرِ آتش کر کے اور بڑی تعداد میں کاریں، ٹرک اور مال بردار کنٹینروں کو خاکستر کر کے وہ بڑے اطمینان و آرام سے اپنے بلوں میں جا چھپے۔ حالتِ اضطراب اور پریشانی میں گھروں کو واپس جانے والوں کو دل کھول کر لوٹا گیا۔ اسلحے کے زور پر اُن کی قیمتی اشیاء اور نقدی سے اُنہیں محروم کر دیا گیا۔

اِس سانحہ کو سات سال کا عرصہ بیت چکا مگر اِن میں سے کسی ایک ملزم کو گرفتار بھی نہیں کیا جا سکا۔ بے نظیر کی ناگہانی ہلاکت کا بدلہ اِس شہر کے معصوم اور بے گناہ لوگوں سے لیا گیا۔ اِس شہر کا کوئی پُر سانِ حال نہیں۔ امن قائم کرنے والے اِن شر پسندوں کے آگے بے بس و لاچار ہیں۔ یہ کِس طرح اپنی کارروائی کر جاتے ہیں کہ کسی کے ہاتھ بھی نہیں لگتے۔ جب وہ اپنی تمام کارروائی مکمل کر لیتے ہیں تو پھر متعلقہ ایجنسیاں اور ادارے حرکت میں آتے ہیں اور اِن شر پسندوں اور دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے آہنی ہاتھوں کے استعمال کا اعلان ہوتا ہے۔

لیکن حقیقتاً اور عملاً کچھ بھی نہیں ہوتا۔ رات گئی بات گئی کی مانند شہر کے امن و امان پر مامور سرکاری محکمے اور ادارے اگلی واردات تک کے لیے چین کی نیند سو جاتے ہیں۔ کہنے کو شہر میں ٹارگٹڈ آپریشن گزشتہ ایک سال سے جاری ہے۔ ذمے داران کی جانب سے ہزاروں شرپسندوں کی گرفتاری کے دعوے تو بہت کیے گئے مگر حقیقتاً حالات وہیں کے وہیں ہیں۔ نہ رہزنی اور ڈکیتیاں رکیں ہیں اور نہ بھتہ خوری کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ شہر کا امن تباہ کرنے والے پہلے کی طرح چوکس، مستعد اور سر گرم ہیں۔

اُن کی سرپرستی کرنے والے بھی بے خوف و خطر اپنا کام کیے جا رہے ہیں اور کوئی اُنہیں روکنے والا نہیں۔ بس ساری حکمرانی اور عمل داری صرف بیان بازی تک ہی محدود ہے۔ کہا جاتا ہے کراچی اِس ملک کی شہ رگ ہے۔ جب تک یہاں امن قائم نہیں ہو گا ملک ترقی نہیں کرے گا۔ سارا بزنس اور غیر ملکی انویسٹمنٹ اِس شہر کے امن سے وابستہ ہے۔ حکمرانوں کو بظاہر یہ احساس تو ضرور ہے لیکن عملاً کوئی ٹھوس منصوبہ بندی اور حکمتِ عملی ہنوز سامنے نہیں آئی۔

نائن الیون کے بعد ہمیں جن دہشت گردوں کا سامنا رہا اُنہیں تو ہم اچھی طرح جانتے ہیں، اُن کے تعارف اور اُن کی پہچان سے سبھی آشنا ہیں اور اُن کے خلاف آج کل پا ک فوج کی بھرپور کارروائی بھی جاری ہے مگر کراچی میں آئے دن وارداتیں کرنے والے گزشتہ کئی دہائیوں سے بے نام اور نا معلوم ہی چلے آ رہے ہیں۔ ایک انجانا خوف اور ڈر اُن کی اصل پہچان اور شناخت کی راہ میں اول روز ہی سے حائل ہے۔ بڑے بڑے بہادر، نڈر اور بے باک حکومتی اہل کار دیکھے مگر سبھی کی زبان اُن کا نام لیتے ہوئے کند ہو جاتی ہے۔

بڑے بڑے حوصلہ مند صحافی اور نقاد سامنے آئے لیکن وہ بھی اِن شرپسندوں کو نامعلوم ہی کہتے دِکھائی دیتے ہیں۔ کسی میں اتنی ہمت اور جرأت نہیں کہ وہ اِن گمنام دہشت گردوں کو بے نقاب کر سکیں۔ یہاں تو مر کزی اور صوبائی حکومتیں بھی مصلحتوں سے کام لیتے ہوئے اُن کے سرپرستوں اور وارثوں کو موردِ الزام ٹہرانے سے کتراتی رہی ہیں پھر بھلا عام شہری کسِ طرح اُن کے خلاف کوئی بات کہہ سکتے ہیں۔ یہ سلسلہ نجانے کب تک چلے گا۔ کب اِس شہر کے باسیوں کو امان نصیب ہو گا۔ کب اِس شہر کی رونقیں بحال ہونگی۔ کب وہ سکون و اطمینان سے اپنا کاروبار کر سکیں گے۔ کب وہ اور اُن کے بچے شام ڈھلے خیریت و عافیت سے اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے۔ یہ ایک ایسا حسین خواب ہے جس کی تعبیر فی الحال ممکن دکھائی نہیں دیتی۔

دشمن ہم پر ہنس رہا ہے

$
0
0

میرے دفتر کی میز پر ایک ایسا کیلنڈر رکھا ہے جس پر تاریخ کے ساتھ احادیث نبویؐ اور آیات قرآنی کے تراجم موجود ہیں۔ میں اس پر ایک نظر دفتری امور کی انجام دہی سے پہلے ضرور ڈال لیتی ہوں کہ قرآن و حدیث اور زریں اقوال ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ اور سفر زیست کے منفی و مثبت رخ متعین کرنے میں مددگار و معاون بھی ثابت ہوتے ہیں۔ کامیاب زندگی کے لیے کامیاب و ناکام شخصیات کی حیات کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ اور تاریخ سے آگاہی بھی۔ کیونکہ تاریخ حال کو سنوارنے اور مستقبل کی روشن راہیں متعین کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ ہم اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے اور باشعور ہونے کے باوجود بھی زندگی کی اتنی بڑی بڑی حقیقتوں کو فراموش کر دیتے ہیں۔ اور ان راستوں پر بھٹکنے لگتے ہیں جہاں تاریکیاں دلدل اور بند گلیاں ہیں۔ اس کا ذمے دار کوئی دوسرا نہیں ہم خود ہوتے ہیں۔ لیکن ہم اپنی ذمے داری کو اس وقت تسلیم کرتے ہیں جب کہ ہم میں آئینہ دیکھنے کا حوصلہ ہو۔ لیکن صاحب اب تو مزاج قوم کے کچھ ایسے بن گئے ہیں کہ صورت حسب پسند نظر نہ آئے تو آئینہ توڑ دیتے ہیں۔

توڑ پھوڑ کی عادت ہماری فطرت کا حصہ بن چکی ہے۔ تعمیری کاموں کو تو جیسے ہم بھول ہی گئے ہیں۔ خواہ وہ مادی تعمیر ہو یا کردار کی۔ دونوں عمارتیں کمزور پڑ رہی ہیں۔ عمارتیں گر جائیں گی تو مکین کہاں جائیں گے کھلے آسمان تلے۔ ایک شور برپا ہو گا امداد کا۔ واہ۔ ہم تو لفظ و معنی کے رشتے بھی بھول گئے ہیں۔ قوم پر عجب وقت آ پڑا ہے۔ امداد اور بھیک میں فرق ہی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ انا، خود داری اور وقار جیسے دولت تو نایاب ہوچکی ہیں۔ اور جو بے چارے انا پرست ہیں وہ گمنامی کے کسی گوشے میں فقیرانہ زندگی گزار رہے ہوں گے اب کسی کے پاس دور حاضر میں اتنا وقت ہے کہ ان گوہر نایاب کو تلاش کرے۔ بے شمار پتھروں میں اگر ایک گوہر مل بھی گیا تو ایسی لوٹ مار مچے گی کہ سب آپس میں برسر پیکار ہوں گے۔ آپ پر لطف تماشے سے لطف اندوز ہوں گے اور گوہر نایاب ہائے بے چارہ ۔ بقول شاعر:

اب اسے ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر

بات شروع ہوئی تھی دفتر کی میز پر رکھے کیلنڈر سے اور بات پہنچ گئی گوہر تک ہمارے ملک میں خزانے کی کوئی کمی نہیں۔ ہماری زمین و پہاڑوں کو اللہ نے بے پناہ دولت سے نوازا ہے۔ یا تو ہم خزانے پر سانپ بن کر بیٹھ جائیں گے۔ چاہے اشرفیاں زیر زمین پانی بن کر بہہ جائیں لیکن ہم ٹھہرے لکیر کے فقیر ’’میری نہیں تو تیری بھی نہیں‘‘ تریا ہٹ بچوں کی طرح ضدی۔ حالانکہ ہم سے تو بچے اچھے ہوتے ہیں۔ گیند سے کھیلتے ہوئے زبردست بے ایمانی کے ساتھ شور و جھڑپ شروع ہوتی ہے۔ اور تھوڑی دیر کے بعد کھڑکی سے جھانک کر دیکھیں میدان و گلیوں میں گیند کے پیچھے دوڑ رہے ہوتے ہیں۔ کاش ہم بڑے بھی بچوں کی اس معصوم خوبی کو اپنا لیں۔ مگر یہ تو معصوم خوبی ہے۔

مگر ہماری معصومیت تو بڑے ہونے پر ایسی رخصت ہوتی ہے کہ صرف مصلحت و منافقت باقی رہ جاتی ہے۔ بات پھر کہاں سے کہاں نکل گئی۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہماری قوم اپنی مقررہ منزل و منتخب رستوں و نظریات و مقاصد سے بے دور نکل گئی۔ شاید اتنی دور کہ ہم اپنے اصل نکتے کو ہی بھول گئے۔ لیکن بھولے بسرے لوگ کبھی کبھی واپس بھی لوٹ آتے ہیں۔ اسی امید پر ہم بھی منتظر ہیں کہ شاید ہمیں اپنی غلطیوں کا احساس ہو جائے اور ہم ان غلطیوں کو دہرانے کے بجائے ان سے سبق حاصل کریں۔

آج کل تو لوگوں کا حافظہ بھی کمزور ہو گیا ہے۔ یاد کیا ہوا سبق جلد بھول جاتے ہیں۔ یادیں، سبق اور بھول جانے کا عمل جب یہ تینوں چیزیں ایک جگہ مل جاتی ہیں تو وہ معاشرہ جنم لیتا ہے کہ جس میں ہم زندہ ہیں۔ خیر یہ بھی ہمارا ہی کمال ہے کہ ہم زندہ ہیں۔ زندہ درگور ہی سہی۔ یا پھر کس طور زندہ ہیں۔ ویسے ہمارے اس حوصلے کی داد دینی چاہیے کہ بے شمار مسائل اور کمتر وسائل کے باوجود ہم جی رہے ہیں۔ سانس لے رہے ہیں۔ اور وحشتوں کے سائے میں پل رہے ہیں۔ شاید اس لیے کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں۔

بات چلی تھی کیلنڈر سے۔ بات تو بہت دور تک چلی گئی لیکن نظر ابھی تک کیلنڈر پر ہی ٹھہری ہوئی ہے۔ آیت کا ترجمہ ہے:

’’اور واقعہ یہ ہے کہ مل جل کر ساتھ رہنے والے لوگ اکثر ایک دوسرے پر زیادتیاں کرتے رہتے ہیں۔ بس وہی لوگ اسی سے بچے ہوئے ہیں جو ایمان رکھتے ہیں اور عمل صالح کرتے ہیں اور ایسے لوگ کم ہی ہیں۔‘‘ (سورۃ ص۔ 38:24)

کیا یہی حال دور حاضر میں ہمارا نہیں ہے کہ ہم ایک دوسرے کو اپنی نفرتوں دشمنی اور زیادتی کا نشانہ بناتے۔ کوئی شرمندگی بھی نہیں۔ یہ کون سا مقام ہے کہ دوسروں کو تکلیف پہنچا کر نفسیاتی تسکین حاصل کی جائے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نا انصافی کے اس مقام پر ہیں جہاں انتشار معاشرہ کا حصہ بن چکا ہے۔ جب کہ معاشرہ پرسکون حالت میں نہ ہو تو نفسیاتی امراض تیزی سے پھیلتے ہیں۔ یہ کوئی اچھی علامت نہیں۔ اسی طرح جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور بدی کا رجحان پروان چڑھتا ہے۔ اور لوگوں کے ایمان کمزور پڑنے لگتے ہیں۔

بہت کم لوگ ہیں جو ایسے قیامت خیز ماحول میں اپنے عمل صالح کی بنیاد پر اپنے ایمان کو مضبوط رکھتے ہیں۔ اندھیرے رستوں پر چمکتے ہوئے وہ جگنو جو ہمیں رستہ دکھاتے ہیں۔ ان ہی کی برکتیں ہمیں قہر خداوندی سے بچائے ہوئے ہیں۔ سیاہ راتوں میں ننھا منا ٹمٹماتا ہوا چراغ بھی ہماری امیدوں کو سہارا دیتا ہے۔ ہوا کے دوش سے آندھیوں سے ہم اسے بچاتے ہیں اور اسی ایک چراغ سے کئی چراغ جلانے کی سعی کرتے ہیں۔

حدیث نبوی ہے کہ ’’جو شخص مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا ذمے دار ہو (یعنی حکمران) تو اللہ اس کا مقصد پورا نہیں کرے گا جب تک وہ لوگوں کی ضروریات پوری نہ کرے۔‘‘

لیکن دور حاضر میں تو عالم یہ ہے کہ ہر شخص خواہ وہ کسی بھی مقام یا عہدے پر ہو اپنی ضروریات پوری کرنے میں لگا ہوا ہے۔ دوسرے کی ضروریات کو سمجھنے اور پورا کرنے سے نہ ہی اسے دلچسپی ہے اور نہ ہی فرصت۔ شاید اسی لیے کہ دین اور سیاست جب ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تو صرف چنگیزیت باقی بچتی ہے۔

ہمارا راستہ قرآن پاک اور حدیث کا راستہ ہے ہم ان راستوں سے دور ہو رہے ہیں۔ اور ان راستوں پر بھٹک رہے ہیں جہاں دشمن ہم پر ہنس رہا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم دنیا کی نظروں میں صرف ایک مذاق بن کر رہ جائیں۔ ہمارے پاس مہلت ہے دعا کی۔ اے اللہ! ہمارے کام کا انجام بہتر کر اور ہم کو دنیا کی رسوائی سے اور آخرت کے عذاب سے بچا۔ (آمین!)

میرٹ کا ’’قتل عام‘‘

$
0
0

پروفیسر صاحب کا سوال کافی دلچسپ تھا۔ ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ کیا ہے؟ میں ذہن پر زور ڈال کر اس کا جواب سوچنے لگا تو مسائل کا ایک انبار میری سوچ کے گرد طواف کرنے لگا، ہر مسئلہ ایک سے بڑھ کر ایک، جو ملکی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہونے کا حق دار تھا۔

دہشت گردی، توانائی کا بحران، مہنگائی، بے روزگاری، غربت اور جہالت سمیت بہت سے مسائل اپنی پہلی پوزیشن کا حق جتلا رہے تھے۔ میں ابھی مسائل کی نمبرنگ کر ہی رہا تھا کہ پروفیسر صاحب نے دوبارہ اسی سوال کو دہرایا ’’آپ کے خیال میں کونسا مسئلہ ملک کو ترقی نہیں کرنے دیتا؟ میں پھر سوچ و بچار کرنے لگا اور قبل اس کے کہ پروفیسر صاحب سوال کو تیسری بار دہراتے، میں بول پڑا کہ ملک کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ’’دہشتگردی و بدامنی‘‘ ہے۔

دہشت گردی کے باعث ملک کا ہر شہری غیر محفوظ ہے، چہار سو خوف کے سائے منڈلا رہے ہیں، اسی لیے دوسرے ممالک کے صنعتکار یہاں انویسٹمنٹ نہیں کرتے، غیر ملکی سرمایہ کار ہمیں ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ رہے ہیں، جب دہشتگردی و بدامنی کے باعث ملکی معیشت کا بھٹا بیٹھ جائے تو ملک ترقی کیسے کر سکتا ہے۔ پروفیسر صاحب میرا جواب سن کر مسکرائے اور ناں میں سر ہلاتے ہوئے بولے آپ کا جواب درست نہیں ہے۔

پروفیسر صاحب کچھ دیر کے لیے خاموش ہوئے تو میں نے دوبارہ عقل کے گھوڑے دوڑائے اور پر اعتماد لہجے میں کہا کہ ’’توانائی کا بحران‘‘ ملک کو ترقی نہیں کرنے دیتا۔ توانائی کے بحران کی وجہ سے ملکی صنعتوں کا پہیہ جام ہے، ملک کی بے شمار ملیں، فیکٹریاں اور کاروبار برباد ہو چکے ہیں، ملک کی آدھی انڈسٹری ملک سے باہر منتقل ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے ایک طرف ملک میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور دوسری جانب ملکی ترقی کا پہیہ سست سے سست ہوتا جا رہا ہے۔

میرا جواب سن کر پروفیسر صاحب نے ایک بار پھر ناں میں سر ہلاتے ہوئے خوشگوار لہجے میں کہا کہ چلیں آپ تیسری بار کوشش کریں۔ میرے پاس اب آخری تیر تھا، جسے میں ہر حال میں نشانے پر لگانا چاہتا تھا، لہٰذا کافی دیر غور و فکر کے بعد میں نے کہا کہ ’’غربت‘‘ ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ غربت کی وجہ سے لوگ چوریاں کرتے ہیں، ڈاکے مارتے ہیں، قتل کرنے سے بھی نہیں چوکتے اور غربت کی وجہ سے ہی ملک میں جہالت بڑھتی ہے، لوگ اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلوا سکتے، لاکھوں بچے اسکول نہیں جا سکتے اور ترقی کرنے کے لیے ملک کا تعلیمی معیار انتہائی اعلیٰ ہونا انتہائی ضروری ہے، جب کہ ہمارے ملک کا تعلیمی معیار انتہائی پست ہے، جس کی وجہ صرف غربت ہے، لہٰذا جب تک ملک سے غربت کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، اس وقت تک ملک ترقی نہیں کر سکتا، ملکی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ غربت ہی ہے۔

پروفیسر صاحب مسکراتے ہوئے بولے آپ تیسرے چانس میں بھی ناکام رہے ہیں۔ پروفیسر صاحب میرے چہرے پر بنے سوالیہ نشان کے ساتھ شرمندگی کے نمایاں آثار دیکھ کر بلا تعامل کہنے لگے، بیٹا! دہشتگردی، تونائی کا بحران اور غربت سمیت دیگر مسائل واقعی ملک کے لیے بہت نقصان دہ ہیں، لیکن ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ’’میرٹ کا قتل عام‘‘ ہے۔ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے! جو قوم بھی ترقی نہیں کر پائی یا ترقی سے تنزلی کی گھاٹیوں میں جا گری ہے۔

اس کی بنیادی وجہ اس قوم میں میرٹ کا قتل عام ہی ہو گا۔ اگر کسی ملک میں میرٹ پر کام نہیں ہوتے، میرٹ کی بجائے سفارشوں اور تعلقات کی بنیاد پر تقرریاں ہونے لگیں تو پھر آہستہ آہستہ نااہل لوگ ہی زندگی کے ہر شعبے میں حکمرانی کرتے ہیں اور اگر کسی جگہ اہل لوگوں کی جگہ ناہل لوگ براجمان ہو جائیں، تو یہ یقینی بات ہے کہ یہ نااہل لوگ اس طرح بہتر کام نہیں کر سکتے، جس طرح ایک اہل اور باصلاحیت شخص کر سکتا ہے۔

نا اہل شخص کو با اختیار بنانے کا مطلب بندر کے ہاتھ میں استرا تھمانا ہے، نااہل لوگ اچھے بھلے آباد اور ترقی کرتے اداروں کو دنوں میں برباد کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں، یہ ممکن نہیں کہ کسی جگہ نااہل لوگوں کے ہوتے ہوئے ترقی کی جا سکے اور تنزلی سے بچا جا سکے، بلکہ نااہل شخص کے ہوتے ہوئے اسباب و وسائل بھی کام نہیں آتے۔ ہمارے ملک میں کس چیز کی کمی ہے، یہ ملک طویل و عریض سرسبز و شاداب میدانی علاقوں پر مشتمل ہے، زراعت کے ذریعے پاکستان اپنی اور بیرونی دنیا کی اجناس کی ضروریات کو بخوبی پورا کر سکتا ہے، اس ملک میں سنہرے ریگستانوں کے طویل قطعے موجود ہیں، جن کی بیش بہا معدنی پیداوار سے یہ ملک ایشیاء کا ’’شہنشاہ‘‘ بن سکتا ہے۔

اس ملک میں جہاں نیلا بحیرۂ عرب موجزن ہے، جس کے طویل ساحلوں سے خوشحالی کے نئے باب کھل سکتے ہیں تو وہیں پر میٹھے پانیوں کے تا حد نگاہ چشمے بھی رواں دواں ہیں، جس کے آب حیات جیسے پانی سے طویل المیاد فائدے اٹھائے جا سکتے ہیں، اس ملک میں اگر خشک کوہ اور پہاڑوں کے سلسلے پائے جاتے ہیں تو سرسبز اور گھنے جنگلات کی بھی کوئی کمی نہیں ہے اور ایک سال میں چاروں موسم ہیں، اس ملک کی زمین اگر گیس، کوئلے، نمک، جپسم سے قیمتی وسائل اْگلتی ہے، تو وہیں پر یہ مہربان زمین سونے، چاندی، زمرد، یاقوت جیسے ذخائر کا سینہ کھولے ہوئی ہے، وہ کونسی نعمت ہے جو قدرت نے اس ملک کو نہیں دی ہے، لیکن ترقی پھر بھی ہمارا مقدر نہیں ہے۔

دنیا کے بہت سے ممالک میں پاکستان کے مقابلے میں وسائل انتہائی کم ہیں، لیکن وہ ترقی کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ اس کی وجہ صرف اور صرف میرٹ پر عمل درآمد ہے۔ پاکستان میں اگر ہر شعبے میں فیصلے میرٹ پر ہونے لگیں تو یہ ملک کچھ ہی عرصے میں ترقی کی منازل طے کرتا ہوا بہت بلندیوں پر پہنچ سکتا ہے، لیکن قدرت کے عطا کردہ قیمتی اور بیش بہا وسائل سے لبریز ملک کی موجودہ ابتر حالت نہایت ہی باعث شرم ہے، کیونکہ ہمارے اداروں میں میرٹ کا قتل عام ہو رہا ہے، کسی سرکاری و غیر سرکاری ادارے میں بغیر سفارش اور بغیر تعلقات کے کسی کام کا ہونا ناممکن کے قریب ہے۔ اگرچہ کوئی شخص وقت کا سقراط و بقراط ہی کیوں نہ ہو، اپنے کام میں بلا کی مہارت رکھتا ہو۔

تمام شرائط پر سو فیصد پورا اترتا ہو، بلکہ شرائط سے بھی زیادہ کوالیفائیڈ اور طویل تجربہ رکھتا ہو، لیکن اگر اس کے پاس سفارش نہیں ہے تو وہ شخص ناکام ہے۔ کسی بھی شعبے اور ادارے میں ترقی کرنے کے لیے پرفیکٹ شخص وہی ہے، جو بڑی سفارش اور بڑے تعلقات رکھتا ہو، جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہے، وہاں تعلقات و سفارش کی بنا پر کام نہیں کیے جاتے، بلکہ کام میرٹ پر ہوتے ہیں، ہر شخص کی صلاحیتوں کو جانچ کر اس کے مطابق ہر ایک کو مقام دیا جاتا ہے، افسوس! ہم لوگ مجموعی طور پر کسی کی صلاحیتوں کو پرکھنے کی صلاحیت سے محروم واقع ہوئے ہیں، حق دار کو اس کا حق نہیں دیتے اور تعلقات والوں کو ناحق نواز دیتے ہیں، اسی لیے ہم ملکی سطح پر بھی ترقی کرنے کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کا سہارا لے رہے ہیں اور دنیا بغیر کسی سہارے کے ترقی کی منازل طے کر رہی ہے۔ پروفیسر صاحب بات کر کے خاموش ہوئے تو میرے پاس ان کی حقائق پر مبنی گفتگو کی تائید کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

آئین کے تحت خواتین پر اعتماد کیجیے

$
0
0

ہم پاکستان میں جب خواتین کے استحصال کی بات کرتے ہیں تو صرف تشدد، ظلم و جبر یا غیرت کے نام پر قتل کر دینے پر ہی موقوف سمجھی جاتی ہیں جب کہ استحصال کی ایک صورت ان طبقوں میں بھی نظر آتی ہے جو روشن خیال کہلاتے ہیں۔ شریعہ، قانون اور آئین نے تو ہر طبقے کی عورت کو نا صرف تحفظ بلکہ با عزت درجہ دیا ہے یہاں تک کہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل “34″ میں واشگاف الفاظ میں تحریر ہے کہ قومی زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی مکمل شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

یہ ہیں وہ الفاظ جو آئین کے تحت خواتین کو حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس پاکستان کی نصف سے زائد آبادی کے ملکی ترقی میں کردار کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ ہنر اور تعلیم سے آراستہ ہونے کے باوجود اس معراج کو نہیں پا سکیں جو اُن کا حق بنتا ہے اور عورت کی صورت میں یہ انرجی جو صرف دو ہاتھ، دو پاؤں یا صرف چہرہ اور آنکھیں ہی نہیں بلکہ ایک ذہن بھی رکھتی ہیں، جس کے اندر صرف انسان کو تخلیق کرنے کی ہی صلاحیت نہیں بلکہ گھر اور گھر سے باہر دونوں جگہ معمولاتِ زندگی میں اپنی صلاحیتوں، اور ہنر سے ایک سازگار ماحول پیدا کرتی ہیں۔

اس ناعاقبت اندیش رویے کے پیچھے بھی وہی شکنجہ صفت مزاج اور سوچ کارفرما ہے جس میں اس صنف کو دوسرا درجہ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ پاکستانی خواتین نے گزشتہ برسوں میں زندگی کے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے حتیٰ کہ ٹیکنیکل اور دفاعی شعبوں میں بھی انتہائی خوبی سے اپنا کردار سر انجام دے رہی ہیں۔ لہٰذا ہمیں معاشرتی طور پر خواتین کو آگے آنے کے مواقعے دینے ہوں گے اور اس بندشوں والی سوچ سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا تا کہ وہ ملکی ترقی میں اپنا خاطر خواہ حصہ ڈال سکیں۔

جب تک خواتین کو ترقی کی دوڑ میں شریک نہیں کیا جا ئے گا خوشحالی کے دعوے کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ ملک کی بقاء کی خاطر اپنے روایتی رویے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسا راستہ اپنانا ہو گا جس کی منزل یقینی ہو۔

آئینِ پاکستان کا آرٹیکل” “27 ملازمتوں میں امتیاز کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔ جس کے مطابق ’’کسی شہری کے ساتھ جو بااعتبارِ دیگر پاکستان کی ملازمت میں تقرر کا اہل ہو، کسی ایسے تقرر کے سلسلے میں محض نسل، مذہب، ذات، جنس، سکونت یامقام پیدائش کی بنا پر امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔‘‘

کسی نئے قانون کے نفاذ کو چھوڑیے ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ان آرٹیکلز کی خلاف ورزیاں تقریباً معمول بن چکی ہیں۔ یہ نہ صرف ہمارے معاشرے میں، خواتین کے ساتھ ہی نہیں بلکہ ریاست کے ساتھ بھی زیادتی کے مترادف ہے۔ دوسری جانب اگر سرکاری ملازمتوں پر نظر ڈالی جائے تو پورے پاکستان میں گریڈ 21 اور 22 میں انتظامی سطح پر چند گنتی کی خواتین ہی میسر ہوں گی۔

یہ بات انتہائی قابل حیرت ہے کہ پولیس کے شعبے میں گریڈ 21 تو کیا گریڈ 20 میں بھی کوئی خاتون نہیں ہے۔ اور اگر کوئی اس سے کم درجے کی آفیسر ہو گی تو اس کو ذمے داری دینے میں وہی روایتی سوچ محرک بن کر سامنے آ جاتی ہے۔ ان کارفرما عوامل کو نہ صرف گہرائی بلکہ گیرائی میں جا کر دیکھنا ہو گا کہ کس طرح ہم ایک انرجی کی نفی کر رہے ہیں۔ اور یہ تنگ دلی اب تنگ دستی بھی بنتی جا رہی ہے کیونکہ اس شدید مہنگائی کے دور میں جب کہ ایک فرد کی آمدن میں گھر چلانا مشکل ہو گیا، خاتون جو دوسری آمدنی کا ذریعہ بن سکتی ہے وہ یا تو اپنے ارد گرد کے ماحول کی وجہ سے گھر بیٹھ جاتی ہے یا ملازمتوں کے حوالے سے ترقی کے راستے مسدود اور امتیازی سلوک کے سبب اس کے حوصلے پست کر دیے جاتے ہیں۔

پاکستان میں عمومی طور پر مردوں کے حاکمانہ اور جارحیت پسند رویے اور مزاج کے سبب خواتین کو اپنے لیے کسی بھی جگہ منوانا اور اپنی اہلیت کو ثابت کرنا کافی مشکل ہو جاتا ہے اور اُن کی نصف سے زیادہ قوت اپنے آپ کو بچانے پر صرف ہو جاتی ہے نہ کہ صلاحیتوں کو مزید اجاگر کرنے پر۔ سرکاری، نیم سرکاری دفاتر کی سازشیں اس کی مظہر ہیں جو ترقی کی راہ میں دیوار بن کر حائل ہو جاتی ہیں۔ معاشرے کی اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے اس کے تدارک کے لیے کچھ تلخ فیصلے کرنے ہوں گے۔ تلخ اس لیے کہ اس مردانہ بادشاہت کے سماج میں اس بات کو گلے سے اتارنا ذرا مشکل ہوتا ہے کہ عورت کی قابلیت کا اعتراف کیا جائے۔

بہرحال اس حقیقت کو تسلیم کرنے اور عورت کی اہلیت کا اعتراف کرنے میں نہ صرف خاندان بلکہ ملک کے لیے بہتری پنہاں ہے کہ جو خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں وہاں انھیں اعلیٰ ترین پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے استعمال کا پورا پورا موقع دیا جانا چاہیے۔ وہ ڈاکٹرز، انجینئر، فیشن ڈیزائنر، ایم بی اے یا درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوں، اچھی ملازمتوں کے مواقعے دیے جائیں۔ اور دوسری طرف کم تعلیم یافتہ خواتین کی سیکریٹریز، ٹائپسٹ، سیلزگرل، پرسنل سیلر، بیوٹیشن یا فیکٹری ورکربننے میں قباحتوں کو دور کر کے ان کی خاطر خواہ مدد کی جائے تا کہ دورانِ ملازمت وہ کسی خوف کا شکار نہ ہوں کیونکہ جب انھیں غیر مناسب رویوں اور حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو پھر ترقی کے کون سے امکانات انھیں آگے بڑھنا سکھائیں گے۔

وفاق اور صوبوں کو بھی ایسی پالیسیاں مرتب کرنی چاہئیں کہ جہاں سرکاری ملازمتوں میں خواتین کو قانون و کوٹے کے مطابق ترجیحات میں شامل رکھا جائے۔ لہٰذا اداروں کو فوری طور پر سرکاری کارپوریشنز، کمپنیوں، فنون لطیفہ، ثقافت سے متعلقہ اداروں، ریگولیٹری باڈیز، خصوصی ٹاسک فورسز اور کمیٹیوں و سرکاری فاؤنڈیشن، یونیورسٹیوں، تحقیقی و ترقیاتی اداروں میں خواتین کو فیصلہ سازی میں بھرپور کردار ادا کرنے کا نہ صرف موقع دیا جائے بلکہ کسی بھی شعبے میں خواتین کے استحقاق کی نفی یا رکاوٹ پید ا کرنے والوں کو سزا دی جائے۔

خصوصی طور پر تجربہ کار خواتین کو سرکاری اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز، بورڈ آف مینجمنٹ، سنڈیکیٹ اور دیگر فیصلہ کن اختیارات کے حامل اہم اداروں میں متناسب نمایندگی دی جائے چند اہم پوسٹ پر خواتین ہیں تو سہی لیکن آبادی کے تناسب سے یہ تعداد غیر متوازن ہے، اسی لیے ہمارا معاشرہ بھی عدم توازن کا شکار ہے اور سست روی اس کا مقدر بن چکی ہے اس کے چنگل سے آزاد ہونے کے لیے ان زنجیروں کو کاٹ پھینکنا ہو گا جو پوری سوسائٹی کو اپنی منفی سوچ سے جکڑے ہوئے ہیں۔

Viewing all 22750 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>