Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22715 articles
Browse latest View live

بجلی گرتی بھی ہے تو مزدوروں پر

$
0
0

گزشتہ ایک سال میں محنت کشوں پر مہنگائی کی جتنی بجلی گری ہے، اتنی شاید ہی کسی اور طبقے پر گری ہو۔ ہرچند کہ مہنگائی اور بے روزگاری کے اثرات تمام نچلے درجات کے لوگوں پر پڑے ہیں، لیکن مزدور تو ایک طرح سے نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

اس لیے بھی کہ حکومت نے ایک غیر ہنرمند مزدور کی تنخواہ ساڑھے سترہ ہزار روپے مقرر کی ہے لیکن 80 فیصد مزدوروں کو یہ بھی میسر نہیں۔ اربوں روپے کے سامان حرب بنائے اور خریدے جاتے ہیں لیکن ایک کسان کے بیٹے کو کتے کے کاٹنے کے بعد ویکسین نہ ہونے سے وہ ماں کی گود میں تڑپ تڑپ کر مرجاتا ہے اور دھن والے ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں ٹی وی پر دیکھ کر افسوس کرتے ہیں۔ دوزخ کا نظارہ بہت ہی دردناک ہوتا ہے مگر اسے دور سے ہی دیکھنا امیروں کے لیے اچھا ہے۔

اگر ایک مزدور سب کچھ چھوڑ کر صرف سبزی، دال اور آٹے سے جینا چاہے تو بھی اسے نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ اس لیے کہ سبزی سو سے ڈیڑھ سو روپے کلو، دالیں ایک سو ساٹھ سے دو سو تیس روپے کلو اور آٹا پچپن روپے کلو ہے۔ اب اسے پکانے کے لیے مرچ مسالہ، تیل، لہسن، ادرک اور پیاز کی ضرورت ہے۔ مسالے چار سو روپے کلو، لہسن دو سو چالیس روپے کلو، ادرک تین سو بیس روپے کلو، پیاز نوے روپے کلو اور تیل دو سو پینتیس روپے کلو، ایک کمرے کے مکان کا کرایہ چھ ہزار روپے ہے، پانی پینے کا چھوٹا کین بغیر معدنیات کے پندرہ روپے کا، گیس بجلی کا خرچ ایک روز کا کم از کم ایک سو پچاس روپے پڑتا ہے۔ اب بتائیں کہ آٹھ سو سے بارہ سو روپے دیہاڑی پر کام کرنے والا مزدور کیسے گزارا کرتا ہوگا؟

ہر جگہ اور ہر ادارے میں مزدوروں کے حاصل شدہ حقوق کو سرمایہ دار چھینتا جا رہا ہے۔ جیساکہ ایک غیر ملکی کمپنی میں پچیس سال سے چار سو مزدور مختلف شعبوں میں کام کرتے آرہے ہیں۔ کمپنی نے مزدوروں کے تمام حقوق جو آئین پاکستان کی رو سے اور بین الاقوامی لیبر قوانین کے مطابق تمام مراعات حذف کی ہوئی ہیں۔ کمپنی کے کچھ شعبوں کو غیر قانونی ٹھیکیداروں کے حوالے کر کے بے وجود نام نہاد کمپنیوں کا نام استعمال کر رہی ہیں۔ جن کمپنیوں کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ ایک جانب مزدور اپنے حقوق کے حصول کی لڑائی لڑ رہے ہیں تو دوسری طرف انتظامیہ اپنی جانب سے مزدوروں کے خلاف غیر قانونی کارروائی کر رہی ہے‘ جس کے نتیجے میں مزدوروں کا روزگار چھینا جا رہا ہے جب کہ مزدوروں کا یہ مطالبہ ہے کہ ٹھیکیداری نظام کو ختم کرکے تمام مزدوروں کو مستقل کیا جائے۔

ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک نوجوان نے اپنے انٹرویو میں بے روزگاری، مہنگائی اور ماحولیات پر بڑی دلچسپ اور مدلل نکات اٹھائے۔ انھوں نے کہا کہ جب سے مشترکہ ملکیت اور ساجھے داری کی پیداوار ختم ہوئی اور انفرادی منافع خوری کی ریت شروع ہوئی تب ہی سے عوام کے مسائل میں اضافہ ہوا۔ انھوں نے کہا کہ بعض لوگ سرمایہ داری کو ایک فطری نظام قرار دیتے ہیں۔ تو کیا ایک سو پچاس سال کا دور فطری ہے اور ایک لاکھ پچاس ہزار سال کا دور غیر فطری تھا؟ انھوں نے یہ بھی کہا کہ سرمایہ دار اپنی پیداوار کو پروان چڑھانے کے لیے جو اشتہار بازی کرتا ہے وہ روزانہ اس دنیا میں ایک اعشاریہ دو ٹریلین ڈالر صرف اشتہار پر خرچ ہوتا ہے۔ خود سوچیں کہ پھر لوٹتا کتنا ہوگا؟

قصور میں بچے تو مرگئے، جتنے ہلاکو مرے، چنگیز مرے، ڈاکو مرے شہید ہوئے۔ قصور میں کسانوں کے بچے قتل کردیے گئے۔ اگر کسی جاگیردار، سرمایہ دار، نوکر شاہی یا امریکی سفیر کا بچہ مرتا تو قیامت برپا ہوجاتی۔ میڈیا پر خبر نشر ہونے کے بعد ہی حکمران بشمول پولیس ایکشن میں آئی، ورنہ یہ جرائم پولیس کی سرپرستی میں پھیلتے چلے جاتے۔

کسی انقلابی فلسفی نے درست کہا تھا کہ پولیس جرائم پھیلاتی ہے، ڈاکٹر مرض پھیلاتا ہے، صحافی جھوٹ پھیلاتا ہے، عدلیہ ناانصافی پھیلاتی ہے، وکیل خلفشار پھیلاتے ہیں اور فوج خون بہاتی ہے۔ ان اداروں کو ختم کردیں تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ ایک طرف آئی ایم ایف کی شرائط کو مانتے ہوئے ہماری حکومت نے مہنگائی کی انتہا کردی اور مزید کرتی جا رہی ہے۔

آئی ایم ایف کا وفد آج کل پاکستان میں ہے اور ہماری حکومت کو تھپکی دیتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ خوب ہے اسے مزید بڑھاتے جاؤ۔ جب کہ آج ہی میرے پاس مردان سے ایک شخص کا ایک فون آیا۔ ان کا کہنا ہے کہ میرے پانچ بچے ہیں اور سب بے روزگار ہیں۔ بچے ہنرمند بھی ہیں، میری بیوی بیمار ہے۔ کھانے کو گھر میں آٹا نہیں تھا۔ کسی دوست سے ایک ہزار روپے قرض لے کر آٹا لایا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں حکومت گزارا الاؤنس فراہم کرے یا پھر بچوں کو روزگار دے، اس وقت ہماری نوبت نیم فاقہ کشی کی ہے۔ جب کہ دوسری طرف دس بڑے آلات حرب کی پیداوار کرنے والے ممالک میں بھارت اور پاکستان بھی شریک ہے۔ تعلیم اور صحت کی خدمات میں بھارت اور پاکستان کا نمبر سب سے آخر میں آتا ہے۔

اس کے حل کا آسان سا راستہ ہے کہ دونوں ممالک اسلحے کی پیداوار اور خرید بند کردیں، سرحدیں ختم کردیں۔ جو جہاں جانا چاہتا ہے وہاں جا سکتا ہے۔ اس سے کھربوں روپے کی (اسلحہ کی پیداوار اور خرید) یعنی غیر پیداواری اخراجات کی کمی ہونے سے یہ رقم مہنگائی، بے روزگاری اور صحت کے شعبوں میں استعمال کرکے اس خطے کو جنت نظیر بنایا جاسکتا ہے، شاداب اور ماحول دوست بنایا جاسکتا ہے۔ مزدوروں کی حالت زار صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ تیل سے مالا مال صرف اٹھارہ لاکھ کی مقامی آبادی والا خلیجی ملک قطر میں پاکستانی مزدوروں کی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔

یہاں اصلاحات کے باوجود ان مزدوروں کو تباہ کن حالات کا سامنا ہے۔ انھیں کئی مہینوں سے تنخواہیں بھی ادا نہیں کی گئی ہیں اور قطری محکموں کی جانب سے ان سے کم ہی تعاون کیا جا رہا ہے۔ جب کہ دوسری جانب دو ہزار بائیس کی فٹبال کے عالمی کپ کی تیاریوں کے سلسلے میں بڑے بڑے تعمیراتی منصوبے جاری ہیں۔ ہرچندکہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی امداد باہمی کے سماج میں ہی ممکن ہے۔

The post بجلی گرتی بھی ہے تو مزدوروں پر appeared first on ایکسپریس اردو.


کتابیں ہماری دوست ہیں

$
0
0

نام تھا ان کا غالباً عبدالرزاق ، ان کا ایک پیغام ابھی تک میرے پاس محفوظ ہے جو انھوں نے مجھے 13مارچ 1914میں بھیجا تھا۔ یہ صاحب ایک اچھے سرکاری عہدے سے ریٹائرڈ تھے۔ سندھی سپیکینگ تھے آگے کچھ ذہن میں نہیں رہا، البتہ ان کی خوبصورت اور شائستہ اردو کے ساتھ کتب بینی کا شوق اور جستجو خوب یاد ہے۔

وہ وہیں کہیں ناظم آباد کے علاقے میں رہائش پذیر تھے جو خالصتاً اردو بولنے والوں کا علاقہ کہلایا جاتا تھا لیکن اب وہاں پر ہر زبان اور فرقے کے لوگ بستے ہیں۔ اسی علاقے میں بڑے ڈاک خانے کے ساتھ علامہ شبیر احمد عثمانی کے نام سے ایک لائبریری ہے جہاں اب پرانی کتابیں پڑھنے والوں کی دید کو ترستی ہیں، کسی زمانے میں یہاں پڑھنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا ہر حال میں لوگ اخبار میں اشتہارات پڑھنے اور موٹی موٹی سرخیوں پر نظر مارنے یا کسی کے انتظار میں رسائل واخبارات پڑھنے آتے ہیں۔

ذکر چل رہا تھا کتب بینی اور اس کے حالیہ اثرات کا۔ عبدالرزاق صاحب بظاہر ریٹائرڈ نظر نہیں آتے تھے۔ ان کی کتابوں سے محبت کا چسکا انھیں لائبریری کھینچ لاتا تھا۔ اب بھی یاد ہے کہ انھیں گلہ تھا کہ یہاں کتابوں کی کمی ہے وہی پرانی کتابیں ہیں جنھیں پہلے بھی پڑھ چکے ہیں۔ ہمیں کچھ حیرت بھی ہوئی کہ سندھی زبان بولنے والے اردوکی کتابیں بھی اس قدر شوق سے پڑھتے ہیں تو اس پر ان کا کہنا تھا کہ جنھیں پڑھنے کا شوق ہوتا ہے وہ سب پڑھتے ہیں، اس پر ان کا پیغام کچھ یوں تھا۔

’’بیٹی کتابیں انسان کی بہترین دوست ہوتی ہیں ، ہمیں جو معلوم نہیں اس سے آگاہی کتابیں دیتی ہیں۔‘‘ (عبدالرزاق)

ان کی حضور اکرمؐ سے محبت اور سندھ کی سرزمین سے ظہور اسلام کے حوالے سے بھی کچھ پیغامات تھے جس میں ایک پیغام کچھ یوں تھا، ’’بیٹی آنحضرتؐ کے معجزہ شق القمرکو کملتے کے مہاراجہ نے دیکھا تھا اسے نجومیوں نے بتایا شاہ عجم و عرب کا ظہور ہوچکا ہے تو وہ اپنی سلطنت بیٹے کو سونپ کر عازم سفر مکہ ہوا تاکہ حضورؐ کے شرف باریابی سے معمور ہو، لیکن بدنصیب کہہ لیجیے کہ عمان کے مقام پر دار فانی سے کوچ کرگیا لیکن کملتے کے لوگوں میں اسلام کے لیے نرم گوشہ اس وقت پیدا ہوچکا تھا۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ کتابیں معلومات کا خزانہ ہیں اور اس کتب خانے کے متعلق جب ان سے ان کی رائے پوچھی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ یہاں اکثر آتے ہیں لیکن پرانی کتابیں ہی بار بار ایشو کرانا پڑتی ہیں، پوچھا گیا کہ کیا کتب خانوں کو فنڈز ملتے ہیں نئی کتابوں کی خریداری کے لیے؟ تو بولے شاید ملتے ہوں۔ لیکن یہاں کتابوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ نہیں، شاید لوگ فلمی اورگرما گرم خبروں سے لبریز رسائل پڑھنے پر توجہ دیتے ہیں تو ویسا ہی مزاج کتب خانوں کا بھی ہوگیا ہے۔

ماضی میں اسلام کے مختلف ادوار میں کتابوں پر بہت توجہ دی گئی غالباً اس زمانے میں لوگوں میں پڑھنے کا رجحان بہت زیادہ تھا یہی وہ دور تھا جب مسلمانوں نے اپنے علم کی بدولت زمین کی ہیئت سے لے کر کیمیائی لحاظ سے رنگوں کو حاصل کرنے تک کے تجربات کامیابی سے انجام دیے جنھیں ہم آج سائنٹیفک انداز سے پرکھتے اور دیکھتے ہیں یہ علم انھی موٹی موٹی کتابوں میں ان کے تجربات کا نچوڑ تھا، اب اس کو کوئی مانے یا نہ مانے پر حقیقت تو یہی ہے کہ کتاب بینی انسان میں یکسوئی اور اعتدال پیدا کرتی ہے۔

آج کے انٹرنیٹ کے اس جدید دور میں جب کہ بجلی بھی خاصی مہنگی ہوگئی ہے، کمپیوٹر کی اسکرین ہو یا سیل فون کی ننھی جادوئی کھڑکی انسانی آنکھیں ماحول کے مقابلے میں ذرا تیز روشنی میں اس تمام علم کو کھنگالنے کی کوششیں کرتی ہیں جو کہنے کو بہت لیکن پھر بھی ناکافی ہے دوسری بات اسکرین کی برقیاتی شعاعیں آنکھوں اور انسانی دماغ کو بھی متاثرکرتی ہیں۔

ہمارے زمانے میں اسکولوں اورکالجز میں لائبریریز ہوا کرتی تھیں ہم جوکتابوں کہانیوں کے بڑے شوقین تھے اس پیریڈ کا بڑی بے چینی سے انتظارکرتے اور لائبریری کے پرسکون ٹھنڈے اور سحر انگیز ماحول میں نت نئی کتابیں دیکھتے، ہوسکتا ہے کہ وہاں بھی محدود کتب ہوں اور ہمیں زیادہ محسوس ہوتی ہوں، لیکن آج کل کے اس بھاگتے دوڑتے ماحول میں بچے کتابیں پڑھنے سے دوڑ لگاتے ہیں یہ دوڑ تو ہمارے زمانے میں بھی دیکھی جاتی تھی پر اپنا اپنا شوق۔

’’ہم فیس تو کم کرسکتے ہیں لیکن نوٹس کی قیمت میں کمی نہیں ہوسکتی کیونکہ آج کل کاغذ اس قدر مہنگا ہے پرنٹنگ نہ پوچھیے جب ہمیں آگے سے ہی اتنا مہنگا ملے گا تو ہم کیسے بچوں کو سستا فراہم کرسکتے ہیں، آپ ہماری مجبوری سمجھیے۔‘‘

یہ کہنا تھا ایک بڑے نامی گرامی کوچنگ سینٹرز کے منتظمین کا۔ ایسے دور میں اگر کوئی آپ سے کہے کہ کہیں سے مفت کتابیں دستیاب ہو رہی ہیں اور وہ بھی خاصی مہنگی اور نایاب جن میں علم کے خزانے بھرے پڑے ہیں تو یقینا آپ کو حیرت ہوگی، لیکن آج کل کے اس دور میں ایسا ہوا ہے جب دس محرم کو کراچی کے مرکزی جلوس میں لوگوں نے ایک ایسی سبیل دیکھی جہاں نہ تو شربت مل رہا تھا اور نہ ہی کباب و نان بلکہ کتابیں اور کتابیں ہی تھیں جو بنا کسی مول کے دستیاب تھیں۔ اس سبیل میں مذہب سے لے کر ادب و فن سائنس اور تاریخ کے علاوہ ایسی کتب بھی دستیاب تھیں جو یقینا قیمت کے لحاظ سے خاصی مہنگی ہیں۔

یہ سبیل اپنی نوعیت کی تیسری سبیل ہے جو کراچی میں لگائی گئی۔ اس سے پہلے بھی یہ کامیابی سے لوگوں میں مقبول رہی، بلکہ حالیہ سبیل میں ایک بڑی انجینئرنگ یونیورسٹی کے استاد یوسف علی محمود نے بھی اپنی کتاب Reflections For Managers کے ساٹھ نسخے ہدیہ کیے صرف یہی نہیں بلکہ ایک نجی اسکول کے استاد نے بھی بہتر قیمتی کتابیں عطیہ کیں۔

اس سبیل کا اہتمام کرنے والے رضا اصفہانی بھی کتابوں کے شوقین ہیں انھیں طالب علمی کے زمانے سے ہی معلومات عامہ کی کتابوں کو پڑھنے کا جنون تھا اور اسی وجہ سے وہ ملک میں اور بیرون ملک مختلف کوئز پروگراموں میں کامیابی سے شرکت کرچکے ہیں۔ آج کل کے بچوں اور نوجوانوں کو کتابوں سے دور ہوتا دیکھ کر کتابوں کی مہنگی قیمتوں سے پریشان ہوکر اگر آپ پریشان ہیں تو اپنے بچوں کو ایسی انوکھی سبیلوں سے ضرور متعارف کروائیے۔ دعا ہے کہ ایسے مفت کے بک اسٹالز عام ہوں اور ہماری نسلیں اس سے مستفید ہوں کہ ہمارے پاس ترقی حاصل کرنے کا راستہ علم ہی ہے۔

The post کتابیں ہماری دوست ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

تصور انسانیت اور اسلام (پہلا حصہ)

$
0
0

خاتم النبین، سیدالمرسلین، رحمۃاللعالمینؐ نبی رحمت ہیں۔ آپؐ کی پوری حیات مقدسہ اور سیرت طیبہ عفو و درگزر، رحمت ورافت اور مثالی مذہبی رواداری سے عبارت ہے۔ انسانیت کے محسن اعظم، ہادی عالم، رحمت مجسم، حضرت محمدؐ نے غیر مسلم اقوام اور اقلیتوں کے لیے مراعات، آزادی اور مذہبی رواداری پر مبنی ہدایات اور عملی اقدامات تاریخ انسانی کے اس تاریک دور میں روا فرمائے کہ جب لوگ مذہبی آزادی و رواداری سے ناآشنا تھے اور مذہبی آزادی و رواداری کے مفہوم و تصور سے انسانی ذہن خالی تھا۔

رسول اللہؐ نے عصبیتوں کے خاتمے کے لیے عربوں کے تقریباً تمام اہم قبائل میں شادیاں کیں۔ اسوہ رسولؐ کا اثر یہ ہوا کہ آقا و غلام، قریشی و غیر قریشی، عربی و عجمی، حبشی و رومی و ایرانی ایک ہی صف میں شانہ بشانہ رہتے تھے اور قدیم جاہلی اختلافات کا ذرا سا بھی لحاظ نہیں کیا جاتا تھا۔

دنیا میں ایک طرف انسان نے بھائی چارے کو اتنا بھلادیا تھا کہ دوسرے بھائی کو چھونا تو درکنار اس کا سایہ بھی اپنے سائے پر پڑنے دینا گوارا نہ کرسکتا تھا۔ علم و عرفان کے متعلق اتنی خود غرضی تھی کہ کوئی اجنبی چھونا تو درکنار محض سن بھی لیتا تو سزا میں پگھلتا ہوا سیسہ اس کے کانوں میں ڈال کر اسے ہلاک کر دیا جاتا تھا۔

انسان کے اصولی و فطری مساوات پر پرہیزگاری کے اکتسابی فضیلت و برتری کے نئے نظریے نے وہ تمام مصنوعی اور انسان ساز بت ملیا میٹ کردیے جو اب بھی غیر اسلامی سماجوں میں موجود اور انسانوں میں نہ ختم ہونے والی تلخی اور فساد انگیزی پیدا کر رہے ہیں۔ آپؐ نے اپنے دشمنوں کے ساتھ جس اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا، دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو سارے جہانوں کے لیے رحمۃ اللعالمین بناکر بھیجا ہے۔ اسلام نے مکمل آزادی دی ہے، جو چاہے اسلام قبول کرے، جو چاہے کفر اختیار کرے۔ آپؐ نے امت مسلمہ کو بھی رواداری اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔

شجر ہے فرقہ آرائی‘ تعصب ہے ثمر اس کا

یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو

آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’شباب المسلم فسوق وقتالہ کفر‘‘ پس رسول اللہؐ کی تعلیمات کی روشنی میں مختلف گروہوں کا ایک دوسرے کو گالی دینا اور پھر مسلمانوں کا آپس میں قتل کفر کردیا گیا۔

فرقے ہیں کہیں‘ کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

آپؐ نے تمام انسانیت کو توحید باری تعالیٰ اور امن و سلامتی کے قیام اورجہالت کے خاتمے کی بے مثال تعلیمات و اسلامی تہذیب سے روشناس فرمایا اور رہتی دنیا تک کے لیے ایک مکمل اور ابدی نظام حیات عطا فرمایا تاکہ انسانیت کفر و شرک اور جاہلیت سے نکل کر امن و سکون، اور انسان دوستی پر مبنی پرامن بقائے باہمی کے عظیم اور ہمیشہ زندہ رہنے والے اصولوں کو اختیار کرے جوکہ دراصل اسلام کا ہی خاصہ ہیں اور دربدر ظلمت کے اندھیروں میں بھٹکنے کے بجائے صراط مستقیم کے مطابق زندگی بسر کی جائے۔

قرآن حکیم ہر دور کے انسان کے لیے اس کی پوری زندگی کا لائحہ عمل ہے۔ قرآن حکیم کی ایک اہم خوبی بلکہ اس کا طغرائے امتیاز یہ ہے کہ یہ انسانی زندگی کی جزئیات پر بھی اتنی ہی توجہ دیتا ہے جتنا اصولیات و اساسیات پر اور پھر اس کی بلاغت تو اپنی نظیر آپ ہے۔ یہ ایک بہت وسیع مضمون کو اپنے مخصوص اور بے تکلف انداز میں اتنے اختصار سے بیان کردیتا ہے کہ اس کے ایک چھوٹے سے جملے پر سیکڑوں صفحات لکھے جاسکتے ہیں اور تاریخ عالم کا ایک خاص سلسلہ واقعات اسی کی مناسبت سے اس کی پشت پر کھڑا ہوتا ہے۔ آیت کریمہ میں تو صرف زندگی بخش کام کی طرف اشارہ ہے، لیکن قرآن حکیم میں جابجا ان زندگی بخش کاموں کی تشریح ملتی ہے جن میں سے چند مثالیں ذیل میں درج ہیں:

1۔ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔(سورۃ البقرہ:11)۔ 2۔لوگوں کے ساتھ اچھی بات کرو۔ (سورۃ البقرہ: 83)۔ 3۔ نیکیوں کی طرف سبقت کرو۔ (سورۃ البقرہ:148)۔ 4۔ اللہ کے راستے میں خرچ کرو۔ (سورۃ البقرہ: 195)۔ 5۔اور ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی کرو۔ (سورۃ البقرہ:237)۔ 6۔جو کچھ جاتا رہا، اس کا افسوس نہ کرو۔ (سورۃ آل عمران: 153)۔ نیکی اور تقویٰ میں تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی میں تعاون نہ کرو۔ (سورۃ المائدہ:6)۔ 8 ۔عدل کرو۔ یہ تقویٰ کے قریب ہے۔ (سورۃ المائدہ:8)۔ 9۔ کرۂ ارض پر پھرو۔ (سورۃ الانعام:11)۔ 10۔کھاؤ پیو لیکن اسراف نہ کرو۔ (سورۃالاعراف:41)۔

حقیقت یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے قرآنی موتیوں جیسے خوبصورت جملے اسلامی تہذیب کا طرہ امتیاز ہیں، نیز خود بخود انسان کے دل میں اترتے چلے جاتے ہیں اور پھر جب یہ جملے سرور کائناتؐ کی پرتاثیر زبان سے ادا ہوں اور ان کے اسوۂ حسنہ سے مترشح ہوں تو وہ ایک لاکھ بیس ہزارکیا، پانچ ارب کو بھی مسخر کرسکتے ہیں۔

ان کا اوڑھنا بچھونا بن سکتے ہیں۔ حضور پاکؐ نہایت تحمل و بردباری اور شفقت و محبت سے قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں اسے ہر وقت دارالاسلام یعنی دارالامن بنانے میں لگے رہتے ہیں۔ اسلام ایک عالمگیر دین ہے، اس لیے اس کے پیش نظر صرف اور صرف بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود ہے۔ یہ وحدت پر یقین رکھتا ہے اور قبائل اقوام کو محض پہچان کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ اسلامی ثقافت، زبان، ادب، آرٹ اور فن تعمیر، نام اور نام رکھنے کے اصولوں، رواجات، روایات، عادات، میلانات کے امتیاز کو تسلیم کرتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرہ رواداری پر یقین رکھتا ہے۔

غزوۂ خیبر میں دوسرے مال غنیمت کے ساتھ تورات کے چند نسخے بھی مسلمانوں کے ہاتھ میں آئے تھے۔ جب یہودیوں نے آپؐ سے ان کو مانگا تو آپؐ نے دلوادیا۔ آپؐ کے اس طرز عمل کا یہودیوں پر بڑا اثر پڑا اور ان کے دل میں آپؐ کی بڑی وقعت پیدا ہوگئی اور اس احسان کو انھوں نے ہمیشہ یاد رکھا جب کہ 70ھ میں یہودی یروشلم پر قابض ہوئے تھے تو کتب مقدسہ کو پیروں سے روندا تھا اور آگ میں جلادیا تھا۔ جب متعصب عیسائیوں نے اندلس میں یہودیوں کو تباہ کرنے کے لیے خوں ریز لڑائیاں کیں تو تورات کے نسخوں کو بھی جلادیا۔ اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب میں کتنا عظیم الشان فرق ہے۔

ایک مستشرق عالم گاسٹن ویاٹ نے لکھا ہے کہ 563ھ میں خلیفہ نے نصاریٰ اور مسلمانوں میں مساوات برتنے کے لیے ایک فرمان جاری کیا تھا یہ رواداری کا وہ نمونہ تھا، جس پر یورپ صدیوں کے بعد عمل کرسکا۔ مسلمانوں کی فتوحات کے زمانے میں اور اس کے بعد ان کی حکومت کے تعمیری دور میں جب عیسائی اور مجوسی عربوں کی رواداری کو دیکھتے تھے تو ان پر ان کا اعتماد اور بڑھ جاتا تھا۔

انھوں نے دیکھا کہ عرب یہود و نصاریٰ کی پوری حفاظت کرتے ہیں۔ ان کے معاہدوں کا لحاظ رکھتے ہیں، ان کے گرجوں اور کینسوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ایک طرف عبدالمالک نے 104ھ میں مصر میں بتوں اور مجسموں کے توڑنے کا حکم دیا تو دوسری طرف موسیٰ بن عیسیٰ نے جو ہارون رشید کی جانب سے مصر کا والی تھا، ان کینسوں کو دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت دی جن کو علی بن سلیمان نے توڑ دیا تھا۔ مصر کے سارے کینسے اسلام اور صحابہؓ و تابعینؒ کے زمانے میں تعمیر ہوئے۔

عرب فرماں رواؤں نے اپنے انتہائی عروج و اقتدار کے زمانے میں بھی رومانی کلیسا کو اسلامی ملکوں میں تبلیغ و اشاعت کے لیے مبلغین بھیجنے کی اجازت دی تھی۔ باوجود یہ کہ یہ کلیسا اسلامی حکومتوں کے مقابلے میں ان حکومتوں کا زیادہ لحاظ کرتا تھا۔ مسلمانوں اور عیسائیوں میں باہم اتنا اتحاد پیدا ہوگیا تھا کہ عیسائی اپنے جماعتی اختلافات کا فیصلہ بھی اسلامی عدالتوں سے کراتے تھے۔ اندلس میں عربوں کے ابتدائی دور میں جب کسی فوجی مسلمان اور عیسائی میں کوئی تنازعہ ہوتا تھا تو عموماً عیسائی کے حق میں فیصلہ ہوتا تھا۔ ہندوستان میں پورے اسلامی دور حکومت میں ہمیشہ مذہبی اور سماجی رواداری کی مستقل روایت رہی ہے۔ بت شکن محمود غزنوی نے خود اپنے دارالسلطنت میں اپنی ہندو رعایا کو الگ محلوں میں بتوں کی پوجا کی اجازت دے رکھی تھی۔

(جاری ہے۔)

The post تصور انسانیت اور اسلام (پہلا حصہ) appeared first on ایکسپریس اردو.

اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی میں خطاب

$
0
0

وزیرِاعظم عمران خان کا امریکا کا دوسرا دورہ جاری ہے، اِس دورے کا بُنیادی مقصد اقوامِ متحدہ کے حالیہ اجلاس میں جنرل اسمبلی سے خطاب ہے، جنرل اسمبلی سے کسی بھی رہنما کا خطاب یوں تو ایک رسمی سی بات ہے لیکن یہ اس حوالے سے بہت اہم ہوتا ہے کہ یہ کسی بھی ملک کا سرکاری  بیا نیہ اور پالیسی بیان  ہوتا ہے۔

پھر یہ بھی بہت اہم ہوتا ہے کہ آیا اِس خطاب کو سننے کے لیے دوسرے سربراہانِ مملکت نے اپنا وقت دیا، وہاں موجود رہے یا دوسرے درجے کی قیادت یعنی وزراء خارجہ وغیرہ نے سنا یا پھر صدور، وزراء اعظم اور وزرائے خارجہ میں سے اکثر نے کوئی توجہ نہیں دی اور ڈپلومیٹک اسٹاف میں سے کسی نے notes لینے کے لیے اپنے آپ کو موجود رکھا، یہ تو ہمیں اُسی وقت پتہ لگے گا جب خطاب ہو گا کہ کتنے اور کس درجے کے رہنماؤں نے ہمارے وزیرِاعظم کے خطاب کو سُنا۔ وزیرِاعظم عمران خان کے جنرل اسمبلی سے خطاب سے پہلے بھارتی وزیرِاعظم بول چکے ہوں گے۔

مودی کے ہوسٹن جلسے میں تقریر کا متن بھی موجود ہو گا۔ وزیرِ اعظم عمران خان کی صدر ٹرمپ سے ملاقات ہو چکی ہے اسی طرح باقی رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں ہو چکی ہوں گی اِن سب کو سامنے رکھ کر جناب عمران خان اور اُن کی ٹیم اس اہم خطاب کی نوک پلک درست کر کے ایک ایسا خطاب ترتیب دے سکتے ہیں جو دُنیا کی رائے کو پاکستانی مؤقف کے قریب لا سکے۔ کشمیر کے مسئلے کو کُچھ اس انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ ہر کوئی اس پر توجہ دے اور سُننے والوں کے دلوں کے تاروں میں اِرتعاش پیدا کر سکے۔ اس خطاب میں متن جتنا اہم ہے اس سے بھی زیادہ اہم وہ اندازِ بیان ہو گا جو دلوں میں اُتر جائے۔ جناب عمران خان کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ اُن کو پسند کیا جاتا ہے ان کی موجودگی کو محسوس کیا جاتا  ہے۔

یہ بھی بہت اہم ہو گا کہ وہ اپنی تقریر کے متن پر جمے رہیں اور فی البدیہ نہ بولنا شروع کر دیں، اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ کشمیر کو فوکس کرتے ہوئے کشمیر کے قانونی، اخلاقی پہلووں  اور انسانی حقوق سے وابستہ مسائل کو بھر پور طریقے سے اجاگر کرتے ہوئے انڈو پاک لڑائی دکھانے سے گریز کیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر میں وہ انسانی المیہ جنم لے چکا ہے کہ اگر اس کو مؤثر انداز میں سامنے لایا جائے تو کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔

خدا کرے یہ خطاب پاکستان اور کشمیریوں کے حق میں عالمی رائے عامہ بنانے میں مددگار ثابت ہو۔وزیرِاعظم عمران خان صاحب کے اس دورے کے دوران بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی بھی امریکا میں موجود ہیں اور اُنھوں نے سلی کون ویلی، میڈیسن اسکوائر کے بعد ہوسٹن میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا۔ مودی کا یہ جلسہ قومی سطح پر ہمیں جگانے کے لیے کافی ہے۔

اس اجتماع میں بھارتی وزیرِاعظم کا صدر ٹرمپ اور ٹیکساس کے گورنر کے ساتھ پچیس گورنروں اور سینٹروں کو وہاں لے آنا ایک بہت بڑی کامیابی اور بڑھتی بھارتی ساکھ کی گواہی ہے۔ یہ کامیاب جلسہ اور اس میں صدر ٹرمپ کا مودی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اجتماع میں داخل ہونا بھارت کی کامیابی لیکن ہمارے لیے لمحہء فکریہ ہے۔ جلسے میں مودی نے پاکستان کو للکارتے ہوئے فیصلہ کن وار کرنے کی دھمکی دے ڈالی اسی دوران بھارتی آرمی چیف نے صرف ایبٹ آباد ہی نہیں بلکہ سارے پاکستان کو نشانہ بنانے کی بات کی۔

مودی نے اب تک جو کہا ہے وہ اُس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے اس لیے مودی نے جو فیصلہ کن ضرب لگانے کی بات کی ہے اس کو خالی خولی دھمکی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ سنجیدہ لیتے ہوئے تمام ضروری اقدامات اٹھانے چاہئیں، ہوسٹن کے جلسے میں ٹرمپ نے  اپنا سارا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال دیا،کشمیر میں جنم لیتے انسانی المیے سے نظریں پھیر لیں اور جاری بھارتی بربریت کے خلاف ایک لفظ تک نہیں کہا۔ مودی نے کمال ہوشیاری سے نائن الیون کو چھبیس الیون یعنی ممبئی حملوں سے جوڑ کر امریکیوں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔

یہ بات مدِنظر رہنی چاہیے کہ مودی نے سعودی عرب اور خلیجی  ممالک کو اپنی ڈپلومیسی سے پہلے ہی ہمنوا بنا لیا ہے۔وزیرِ اعظم جناب عمران خان صاحب کی صدر ٹرمپ سے ملاقات ہوئی۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ اس ملاقات میں  وزیرِاعظم کشمیر کا مسئلہ بھرپور طریقے سے سامنے لائیں گے اور اپنی پوری کوشش کریں گے کہ بھارتی اثر و رسوخ جو کہ بہت بڑھ چکا ہے اسے جتنا کم کر سکتے ہیں کریں گے۔کشمیر  کے ساتھ ساتھ ایف اے ٹی ایف کی تلوار ہمارے اوپر لٹک رہی ہے، اس کے علاوہ پاکستانی عوام آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی وجہ سے مہنگائی اور غربت کی کھائی میں گرتے جا ر ہے ہیں، یہ امید کی جا رہی تھی کہ ان معاملات پر صدر ٹرمپ سے بات ہو گی۔

ایف اے ٹی ایف پر امریکی مدد کے بغیر ہمارے لیے بہت مشکل ہو گی اور زبوں حال   پاکستانی معیشت مزید  دباؤ کا شکار ہو سکتی ہے، امریکا یہ چاہے گا کہ جناب عمران خان کو افغانستان تک محدود رکھا جائے۔ جان بولٹن جا چکے ہیں، وہ افغان طالبان کے ساتھ معاہدے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ اب صدر ٹرمپ کی خواہش ہو گی کہ پاکستان کے ذریعے افغان مذاکرات کو دوبارہ ٹریک پر لایا جا سکے۔ یہ اب جناب عمران خان کی صلاحیتوں کا امتحان ہے کہ وہ ان حالات میں پاکستان کے لیے کیا مراعات حاصل کر سکتے ہیں۔

باضابطہ ملاقات سے پہلے مشترکہ پریس کانفرنس میں تو سوائے چند  تعریفی کلمات کے جو ٹرمپ نے جناب عمران خان کے لیے کہے اور جو سفارتکاری کا اہم جزو ہوتا ہے کوئی خاطر خواہ پیشرفت نظر نہیں آئی۔ ٹرمپ نے ایک دفعہ پھر ثالثی کی پیش کش کی لیکن ٹرمپ کے بھارت کافین اور بہترین دوست ہوتے ہوئے اس پیشکش کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔

اصل میں یہ وہی ٹرمپ  ہے جس نے الیکشن کے بعد کہا تھا کہ میں پاکستان کو انڈیا کے ذریعے سارٹ آؤٹ کروں گا۔ ٹرمپ عمران ملاقات کے بعد بھی کوئی مثبت پیشرفت دکھائی نہیں دی۔وزیرِاعظم اور وزیرِ خارجہ کی امریکا مو جودگی کے دوران پاکستان کے مؤقف اور سفارتکاری کو ایک بڑا دھچکا اس وقت لگا جب یو این ایچ سی آر UNHCR میں قرارداد لانے کے لیے ہمیں پندرہ جمع ایک کی حمایت درکار تھی اور یہ کہا جا رہا تھا کہ ہمیں بڑی تعداد میں ممبران کی حمایت میسر ہے، ابھی یہ قرارداد ٹیبل ہونا تھی اور بعد میں منظوری کا مرحلہ آنا تھا لیکن ہمیں سولہ ممبران کے بجائے صرف سات ممبران کی حمایت مل سکی۔

ایران نے ہماری حمایت کی جب کہ ہمارے روایتی دوست ممالک سعودی عرب اور متحدہ امارات پاکستان کا ساتھ نہ دینے والوں میں نمایاں رہے۔ جناب وزیرِ خارجہ نے جنیوا میں دعویٰ کیا کہ انسانی حقوق کونسل میں پاکستان کو پچاس سے زیادہ ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ پاکستان کو قرارداد لانے کے لیے کونسل کے کُل 47 ممبران میں سے 16 رکن ممالک کی حمایت درکار تھی۔ رکن ممالک میں او آئی سی کے ٹوگو، برکینافاسو، سینیگال اور کیمرون جیسے ممبران بھی تھے جنھوں نے ہماری حمایت سے ہاتھ کھنچ لیا۔

ترک صدر نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جنوبی ایشیا کے استحکام اور خوشحالی کو مسئلہ کشمیر سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے مزید فرمایا کہ یواین قراردادوں کے باوجود 80 لاکھ کشمیری محصور ہیں۔ ایسے موقع پر خاموش رہنے والا بے زبان شیطان ہے۔

ہم ترک صدر کے انتہائی شکر گزار ہیں، جناب عمران خان کی ترکی، ایران اور ایتھوپیا کے صدور کے علاوہ برطانیہ، نیوزی لینڈ اور اٹلی کے ہم منصبوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ 20 ستمبر کو جدہ میں جناب عمران خان نے کہا تھا کہ دنیا کشمیر پر ہمارا بیانیہ مان گئی ہے لیکن نیویارک میں اس بات کا اعتراف کیا کہ انھیں عالمی رویے سے مایوسی ہوئی۔ زمینی حقیقت کا ادراک کر کے فارن پالیسی بنانا کامیابی کی طرف ایک ضروری قدم ثابت ہو سکتا ہے۔

The post اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی میں خطاب appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک خط

$
0
0

سردار عثمان بزدار حالت جنگ میں ہیں۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ انھیں پنجاب میں اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ان کی اپوزیشن تحریک انصاف ہے۔

تحریک انصاف کا ہر وزیر، ہر لیڈر محسوس کرتا ہے کہ اگر عثمان بزدار وزیر اعلیٰ بن سکتے ہیں تو وہ کیوں نہیں بن سکتا۔ اس احساس کے ساتھ وہ خود وزیر اعلیٰ بننے کی کوششیں شروع کر دیتا ہے۔ عثمان بزدار کے خلاف اب تک تمام سازشیں تحریک انصاف کے اندر سے ہوئی ہیں۔ تحریک انصاف میں ان کے لیے حسد زیادہ ہے۔

میڈیا میں بھی یہی صورتحال ہے، تحریک انصاف کے حامی صحافی بھی ان کے حق میں نہیں لکھ رہے جب کہ اپوزیشن کے حق میں لکھنے والوں کے پاس تو عمران خان کے خلاف لکھنے سے فرصت ہی نہیں۔ تحریک انصاف کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے اپنی غیر جانبداری ظاہر کرنے کے لیے عثمان بزدار کے خلاف لکھتے اور بولتے ہیں، جیسے تحریک انصاف کی اب تک کی تمام ناکامیوں کی وجہ عثمان بزدار ہیں۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ مہنگائی سمیت تمام بڑی ناکامیوں میں عثمان بزدار کا کوئی ہاتھ نہیں۔ حتیٰ کہ اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو ڈنگی میں بھی عثمان بزدار نہیں بلکہ یاسمین راشد کی ذمے داری زیادہ ہے۔

عثمان بزدار کے علاقے سے عمران بلوچ نے ایک خط موصول ہوا ہے، اس کے دلائل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔  وہ لکھتے ہیںکہ :

سردار، بلوچ اور قبائلی کے لفظ سے ہمارا شہری سماج بہت الرجک ہے۔ یہ لفظ سنتے ہی ان کے دماغ میں جو تصور ابھرتا ہے وہ بہت ہی نامناسب اور تعصب پر مبنی ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ غیر مقامی حکمران طبقے کا وہ پرانا وتیرہ ہے جس کے پیچھے ان کے حق حکمرانی کا جواز چھپا ہوتا ہے۔ وہ جھوٹے اور بے بنیاد پراپیگنڈے کے ذریعے زمیندار اور مقامی افراد پر پسماندگی، ظلم و جبر اور کم عقلی کی تہمتیں لگا کر اس کو کمزور اور بے وقعت کرتا ہے تا کہ اپنے اقتدار کی رسی کو مضبوط اور لمبا کھینچا جا سکے۔

یہ طریقہ بہت پرانا ہے، جب کرسٹوفر کولمبس نے چودھویں صدی عیسوی کے آواخر میں امریکا کو دریافت کیا تو وہاں کے اصل باشندوں جن کو ریڈ انڈینز کے نام سے جانا جاتا ہے جو بہت ہی پر امن انسان تھے، ان کو بد تہذیب اور گنوار کہہ کر اپنے وسائل سے بے دخل کر دیا گیا اور یہ سلسلہ مختلف شکلوں میں آگے چلتا ہوا جب برصغیر میں پہنچا تو اس وقت کی استعماری طاقت کالونیلزم کی شکل میں یہاں پر مسلط ہوئی تو انگریزوں نے مقامی اور ہنر پیشہ افراد کے خلاف یہی   پالیسی اپنائی اور ان کو سماجی اور اخلاقی طور پر پست ثابت کرنے کے لیے عجیب و غریب کہانیاں گھڑیں۔آج بھی وہی پرانے قصے پراپیگنڈے کی شکل میں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔

جیسے کپڑے کی صنعت سے وابستہ جولاہے جسے یہاں پاؤلی کہا جاتا ہے، اس کے بارے میں بے تحاشا جھوٹی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔اس سے ملتی جلتی کہانیاں آ جکل ایک مقامی زمین زادے اور پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کے حوالے سے سننے کو ملتی ہیں۔ یہ کون کر رہا ہے؟ کیوں کر رہا ہے؟ یہ سوال بہت اہم ہیں، یہ استعماری ہتھکنڈہ کئی صدیوں سے زمین زادوں کے خلاف جاری ہے۔ مین اسٹریم میڈیا کی طرف سے تاثر دیا جاتا ہے کہ عثمان بزداراہل نہیں ہے کہ وہ اتنے بڑے صوبے کا انتظام و انصرام سنبھال سکے۔

یہ تاثر ایک خاص طبقہ دے رہا ہے جن کے مفادات اس ایلیٹ کلاس سے جڑے ہوئے ہیں جو کئی دہائیوں سے اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے ۔ جنھوں نے مصنوعی اور غیر پائیدار ترقی کے ذریعے اس دھرتی کے وسائل کو لوٹاجس کی وجہ سے پسماندہ علاقوںکے لوگوں کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی گئی۔اس المیئے کے بیچ جب کوئی عثمان بزدار جیسا سادہ طبیعت اور اسٹیٹس کو سے غیر مانوس آدمی وزیر اعلی کے منصب پر پہنچتا ہے تو طبقاتی سوال ایک بھیانک شکل میں ابھر کر ہماری نا ہموار سوسائٹی کی وہ تصویر سامنے لا کھڑی کرتا ہے جو بہت ہی بد صورت ہے۔ پھر بڑے بڑے تجزیہ نگار بھی ذاتیات پر اتر آتے ہیں۔

پچھلے کچھ عرصے سے جس طرح عثمان بزدار پر سطحی قسم کی بیان بازی کی جا رہی ہے وہ اسی تعصب کی غماض ہے جس کا رجحان صدیوں سے یہاں کے اصل زمین زاد کے ساتھ حملہ آور حکمرانوں کا رہا ہے۔

عثمان بزدار کا قصور یہ ہے کہ وہ سادہ ہے، صاف دل ہے، کم بولتا ہے کام پر زیادہ توجہ دیتا ہے، دروغ گوئی اور بے بنیاد پراپیگنڈے کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہے اور سب سے بڑھ کر وسائل کو پسماندہ اور غریب علاقوں پر خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔

عثمان بزدار کا بس یہی قصور ہے کہ وہ اس مٹی سے جڑا، اس دھرتی کا اصلی باشندہ ہے جس کا اس ملک سے باہر کوئی بزنس نہیں ہے، کوئی گھر نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسی جائیداد ہے جو ان سے پہلے حکمران تھے ان کی ہیں۔

عثمان کا قصور یہی ہے کہ وہ عام۔ لوگوں سے ملتا ہے، ان کی بات سنتا ہے، ان کے مسائل حل کرتا ہے جو وہاں پہنچنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے، جہاں ان کی قسمتوں کے فیصلے ہوتے ہیں۔

آپ خط کے مندرجات سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر اس ملک کے عام آدمی کو اس ملک کا حکمران بننے کا اختیار ہے تو عثمان بزدار کو بھی ہے۔ سوال کارکردگی کا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ میں اس بات کے حق میں ہوں کہ کارکردگی پر بغیر کسی تعصب کے بات ہونی چاہیے۔ عثمان بزدار کو اپنی ایک سال کی کارکردگی عوام کے سامنے رکھنی چاہیے۔ تمام وزارتوں کی کارکردگی بھی عوام کے سامنے رکھنی چاہیے۔ وہ وزرا جو ایک سال میں اپنی وزارت میں دھیلے کا کام نہیں کر سکے ان کی بھی بات ہونی چاہیے۔ وزیر صحت کی کارکردگی کی بات ہونی چاہیے۔ وزیر تعلیم کی کارکردگی کی بات ہونی چاہیے۔

لیکن سب کی نا اہلی کا ملبہ عثمان بزدار کے سر نہیں ڈالا جا سکتا۔ پتہ نہیں کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف کیے بڑے عثمان بزدار کے ساتھ سوتیلے بھائی والا سلوک کر رہے ہیں۔ عثمان بزدار کے ارد گرد بھی برادران یوسف کا ایک جم غفیر ہے۔ اب نئی کہانی شروع کی گئی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ انھیں بدلنا چاہتی ہے۔ میری رائے میں جو یہ کہہ رہے ہیں وہ اس حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی کرانا چاہ رہے ہیں۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کو اس لڑائی میں دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایک سال میں متعدد کوششیں کرنے کے بعد اب وہ اپنی ناکامی کو اسٹیبلشمنٹ کے گلے میں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شائد ان کی یہ حرکت عمران خان کو بھی پسند نہیں آئی ہے۔ جس کا اظہار وہ کر بھی چکے ہیں۔ اسی لیے عمران خان نے کہا ہے کہ جب تک وہ وزیر اعظم ہیں عثمان بزدار وزیر اعلیٰ رہیں گے۔ اس تناظر میں سیاسی ماحول کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔

The post ایک خط appeared first on ایکسپریس اردو.

’’بے زبان شیطان‘‘

$
0
0

وزیر اعظم جناب عمران خان آج اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔ اور آج ہی 27 ستمبر کو وزیر اعظم صاحب کے حکم پر ہم سب ’’یومِ یکجہتی کشمیر‘‘ کا اہتمام بھی کر رہے ہیں۔ سیاستدان اور منتخب حکمران کی حیثیت میں عمران خان آج پہلی بار یو این کے عالمی فورم سے مخاطب ہوں گے۔

پچھلے سال بھی، ستمبر کے اِنہی ایام میں، انھیں جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کا موقع ملا تھا لیکن وہ نیویارک تشریف نہیں لے گئے تھے کہ ( بقول اُن کے) کوئی خاص واقعہ ایسا نہیں تھا جس پر کلام کرنے کے لیے وہ بھاری اخراجات کرتے ہُوئے وہاں پہنچتے۔ اِس بار مگر حالات خاصے کشیدہ اور دگرگوں ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے پانچ اگست کو جو ظلم ڈھایا ہے، اس وحشت اور یکطرفہ اقدام کی بازگشت ساری دُنیا میں سنائی دی گئی ہے ۔ گزشتہ سات ہفتوں سے قابض و غاصب بھارتی افواج نے 80لاکھ بے بس کشمیریوں کا نئے انداز سے مسلسل محاصرہ کر رکھا ہے۔ کسی بھی محاصرے میں محصور انسانوں پر جو گزرتی ہے، اُن سب متصورہ ظلم و ستم سے کشمیری گزر رہے ہیں۔ عالمی سطح پر جو طاقتور ہیں، وہ سب مجموعی حیثیت میں اس غیر انسانی رویے پر خاموش ہیں۔ اس بے حس عالمی خاموشی پر وزیر اعظم عمران خان بھی مایوس ہیں۔ انھوں نے کہا ہے : ’’دُنیا کو احساس ہو گیا ہے کہ کشمیر کی حالت ابتر ہے لیکن دُنیا ایک ارب کی مارکیٹ (بھارت) کی طرف دیکھتی ہے۔ عالمی برادری کے اس رویے پر مایوسی ہُوئی ہے۔‘‘

مایوس تو نہیں ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بھی ہمیں مایوس نہ ہونے کا حکم دیتا ہے۔ پاکستان اور وزیر اعظم عمران خان سے جو بن پڑا ہے، کر رہے ہیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ خالقِ کائنات اِنہی مساعی جمیلہ سے کشمیریوں کے لیے کوئی خیر برآمد فرمائے گا۔ اپنے گمبھیر مسائل کے باوجود عالمی سطح پر اس وقت بھی کشمیر اور اہلِ کشمیر کے لیے سب سے توانا اور متحرک آواز پاکستان ہی کی ہے (24 ستمبر کے زلزلے نے پاکستان پر ایک اور افتاد اور آزمائش ڈال دی ہے) یہ آواز ہمہ دَم اُٹھتی بھی رہنی چاہیے کہ پاکستان نے روزِ اوّل سے، اپنے قائد کے حکم پر، کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ مرنے جینے کی قسمیں کھا رکھی ہیں۔

ان قسموں کو ہم کیسے توڑ سکتے ہیں؟ ٹھیک ہے عالمِ اسلام اور عالمِ مغرب کے بیشتر ممالک کی طرف سے مظلوم و محصور کشمیریوں کے حق میں اور تازہ بھارتی اقدام کے خلاف پاکستان کو جو حمایت ملنی چاہیے تھی، وہ نہیں مل سکی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ پاکستان بھی مایوسی میں ڈُوب کر بھارت کے مقابل کھڑا ہونے سے دستکش ہو جائے۔ پاکستان تو بدستور، الحمد للہ، کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ امریکی ریاست ’’ٹیکساس‘‘ کے شہر، ہیوسٹن، میں بھارتی پردھان منتری اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر پچاس ہزار سے زائد بھارتی مجمعے کے سامنے جس ’’یکجہتی‘‘ کا مظاہرہ کیا ہے، ہمیں اس سے بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔

امریکا میں آباد کشمیریوں اور پاکستانیوں میں جتنی ہمت اور استعداد تھی، اُسے بروئے کار لا کر ہیوسٹن میں موجود مودی کے خلاف مزاحمتی اور احتجاجی مظاہرے کر کے امریکی حکومت اور میڈیا کے خوابیدہ ضمیر کو جگانے کی اپنی سی کوشش ضرور کی گئی ہے۔ یہ مزاحمتی اور احتجاجی آوازیں طاقتوروں کے مقابلے میں نحیف اور کمزور تو ہو سکتی ہیں لیکن یہ کوشش رائیگاں نہیں گئی ہیں۔ ان کوششوں سے کشمیریوں کی ہمت افزائی بھی ہُوئی ہے اور انھیں حوصلہ بھی ملا ہے۔ آج ایک بار پھر نیویارک میں اقوام متحدہ کی عمارت کے سامنے کشمیری اور پاکستانی نژاد امریکی، سیکڑوں کی تعداد میں، عمران خان و کشمیر کے حق میں اور بھارت و مودی کے خلاف اکٹھے ہو کر مظاہرہ کر رہے ہیں۔

یہ آوازیں ہوا میں تحلیل ہو کر نہیں رہ جائیں گی۔ آج جب عمران خان جنرل اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کر رہے ہوں گے، باہر پاکستانیوں کی آوازیں اُن کے لیے توانائی کا باعث بنیں گی۔ امریکا میں آباد سکھ کمیونٹی بھی یک جہت اور یکمشت ہو کر کشمیریوں کا ساتھ دے رہی ہے۔ ہیوسٹن میں بھی سیکڑوں کی تعداد میں سکھوں نے مظلوم و مقہور کشمیریوں کے حق میں جو شاندار مظاہرے کیے ہیں، ہم اور کشمیری اس کے لیے شکر گزار ہیں۔ 23 ستمبر کو ہیوسٹن کے اسٹیڈیم این آر جی ( جہاں مودی بھارتی امریکیوں سے مخاطب تھے) سے باہر کشمیر اور ’’خالصتان‘‘ کے حق میں جری سکھوں کی بلند ہوتی آوازوں سے یقیناً بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے سینے پر سانپ لوٹتے رہے ہوں گے۔ یہ آوازیں دراصل اللہ کی طرف سے غیبی امداد سمجھنی چاہئیں۔

امریکی صدر ٹرمپ نے ہمیں اور ہمارے وزیر اعظم کو کشمیر کے معاملات سلجھانے کے لیے ثالثی کا جو لالی پوپ دیا تھا، اُس کا فی الحال کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہُوا ہے۔ یہ لالی پوپ ایک بار پھر ہمیں دیا گیا ہے۔ پتہ نہیں امریکی صدر صاحب کے دل میں ہے کیا؟ ہم اگر بدگمانی بھی کرتے ہیں تو امریکی حاکم کا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟ ہمارے وزیر اعظم کو عالمی تالاب کے اِنہی مگر مچھوں سے صبر کے ساتھ معاملات طے کرنے ہیں۔ زور زبردستی اور حسبِ منشا نہیں۔ اگر صدرِ امریکا کو کشمیریوں کی فوری دستگیری کرنا ہوتی تو وہ جنرل اسمبلی کے تازہ خطاب میں بھی کچھ کر اور کہہ سکتے تھے مگر کچھ بھی نہیں کیا۔

امریکی صدر نے جنرل اسمبلی کے خطاب میں طالبان، ایران اور چین کے حوالے سے اپنے مفاد کی باتیں تو زور دے کر کہی ہیں لیکن کشمیر اور محصور کشمیریوں کے حق میں ایک بھی کلمہ کہنے سے اعراض ہی کیا۔ ٹرمپ صاحب نے ہمارے وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران یہ تو کہا کہ ہیوسٹن کے جلسے کے دوران نریندر مودی نے پاکستان کے خلاف زیادتی کی ، لیکن جب مودی جی پاکستان کے خلاف اشارتاً ( بے بنیاد اور غیر حقیقی تہمتیں عائد کر رہے تھے) امریکی صدر وہاں موجود ہونے کے باوصف خاموش رہے۔

اس خاموشی کا کیا مطلب اخذ کیا جائے؟ ہمیں پھر بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ غنیمت ہے کہ بہادر اور غیور ترک صدر، جناب طیب اردوان، نے غیر مبہم الفاظ میں بھارت سمیت ہر اس ملک کی مذمت کی ہے جو مقبوضہ کشمیر اور مظلوم کشمیریوں کے بارے میں خاموش ہے۔ جناب طیب اردوان کے یہ الفاظ ہم اور کشمیری ہمیشہ یاد رکھیں گے: ’’یو این او کی قرار دادوں کے باوجود 80 لاکھ کشمیری (بھارت کے ہاتھوں ) محصور ہیں۔ اس موقع پر (ہر) خاموش رہنے والا (ملک )بے زبان شیطان ہے۔‘‘ اس کشمیر حمایت پر ہمارے وزیر اعظم نے جناب اردوان کا بجا طور پر شکریہ ادا کیا ہے۔

ایسی آوازیں پاکستان، کشمیر اور عمران خان کے لیے تقویت اور ہمت کی اساس بننی چاہئیں۔ اِنہی سے طاقت کشید کرتے ہُوئے آج عمران خان جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔ وہ خود کو ’’سفیرِ کشمیر‘‘ کہتے ہیں۔ اُن کے خطاب میں مسئلہ کشمیر، کشمیریوں کی تازہ مظلومیت، بھارتی استبداد، پانچ اگست کے بعد 20ہزار کے قریب کشمیری نوجوانوں کی گرفتاریاں، انڈین سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوںسارے مقبوضہ کشمیر کا مکمل محاصرہ، خوراک و ادویات کی شدید کمی ایسے موضوعات کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گی۔ خان صاحب نے امریکی ’’کونسل آن فارن ریلیشنز‘‘ ایسے موثر تھنک ٹینک میں بھی اپنے 58 منٹی مکالمے  اور یو این میں پریس کانفرنس کے دوران پاکستان اور کشمیر کا مقدمہ خوب لڑا ہے۔

انھیں مگر اس تھنک ٹینک اور پریس بریفنگ میں بھارتی ہٹلر کا ذکر بھی کرنا چاہیے تھا لیکن ’’ہٹلر‘‘ کا لفظ استعمال کرنے سے دانستہ گریز کیا گیا، حالانکہ وطنِ عزیز میں تو وہ مودی کو ’’ہٹلر‘‘ کے ’’لقب‘‘ ہی سے یاد کر رہے ہیں۔ امریکا میں مودی کے لیے ’’ہٹلر‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا تواس کا زیادہ امپیکٹ ہوتا۔ شائد عالمی سفارتی آداب کے تحت اسے بروئے کار نہیں لایا گیا۔ بلند اُمیدوں اور دعاؤں کے ساتھ ہم سب آج اپنے وزیر اعظم کے جنرل اسمبلی میں پُر آزمائش خطاب کے منتظر ہیں۔ اور عالمی حساسیت کے پیشِ نظر یہ بھی اُمید رکھتے ہیں کہ یہ خطاب فی البدیہہ نہیں ہو گا۔ او آئی سی نے بھارت سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کا جو مطالبہ کیا ہے، انشاء اللہ یہ بھی عمران خان کے لیے تقویت کا باعث بنے گا۔

The post ’’بے زبان شیطان‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

نیا سہ فریقی اتحاد

$
0
0

ایک زمانہ تھا جسے ہم انیس کی دہائی کہہ سکتے ہیں۔ اس وقت نیٹو اور سوویت یونین نے ایک دوسرے کے خلاف الفاظ کی جنگ کے علاوہ جنوب مشرقی ایشیا، افریقہ اور دیگر علاقوں میں عملی جنگ شروع کر رکھی تھی۔ یہاں تک کہ برصغیر میں بھی دائیں اور بائیں بازوکے مابین زبردست کشمکش ہو رہی تھی۔

پھر ایک ایسا بھی وقت آیا جب سوویت یونین کے وزیر اعظم خروشچیف اور امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے مابین عالمی نیوکلیائی جنگ سر پر آن پہنچی تھی جسے عالمی مدبروں، دانشوروں کی کوشش سے روکا گیا۔ جس میں برٹرینڈ رسل پیش پیش تھے۔ یہ جنگ تسلسل سے جاری تھی۔ مگر سوویت یونین سے کمیونسٹ پارٹی کے مابین فکری اور نظری اختلافات پھیلتے گئے۔

یہاں تک کہ روس اور چین کے مابین جو عالمی اتحاد تھا اس پر بھی اختلاف پیدا ہو گیا۔ سوویت یونین کے دانشوروں کے بدلتے نظریات اور مشینی تبدیلی کی بنیاد پر جو فیصلے کیے گئے اس کو ماؤزے تنگ نے مارکسی نظریات سے انحراف قرار دے دیا (حالانکہ فی الوقت چین انھی نظریات سے گزر رہا ہے۔)

روس اور چین کے نظریاتی اختلاف سے پوری دنیا میں پارٹیاں دو حصوں میں بٹ گئیں۔ یہاں تک سن اڑسٹھ ستر میں طلبا بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئے بعدازاں مزدور کسان تحریک بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ انھی نظریاتی اختلافات کی خلیج نے ایک ایسا وقت بھی دیکھا جب موجودہ انقلاب بھی مباحثے کا شکار ہو گیا۔ افغانستان میں اس کا اثر شدید ترین ہوا۔ کیونکہ پارٹی تین دھڑوں کی تاب نہ لاسکی اور دشمنوں کے مقابلے میں شکست کھا گئی۔ کیوبا اور لاطینی امریکا کے ممالک اس نظریاتی جنگ سے بہت دور تھے اور انھوں نے اپنے اندر تقسیم کے اثرات کو آنے نہ دیا۔

افغان انقلاب کی شکست کے بعد دس سال سے زائد عرصے تک کسی نئے عوامی انقلاب کا خواب نہ دیکھا جا سکا۔ حتیٰ کہ سوویت یونین بھی لخت لخت ہو گیا۔ ایک طویل عرصے کے بعد سوویت یونین نے روس کی شکل میں سامراجی ملکوں سے پنجہ آزمائی شروع کی۔ روس اور امریکا اب اپنے اپنے اتحادیوں کو اپنے پروں میں سمیٹے نئے نظریاتی اتحاد بنا رہے ہیں۔

مگر اس کا عوامی انقلاب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ البتہ جو حکومتیں روس کی پشت پناہی میں ہیں زیادہ تر وہ قوم پرست حکومتیں ہیں۔ ان حکومتوں میں دنیا کے کئی ممالک شامل ہیں۔ درمیان میں ایک ایسا وقت بھی آیا جب شام کی حکومت کو امریکا نے معزول کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا اور مذہبی انتہا پسند قوتوں کو شام کے خلاف متحدہ جنگ کرنے کا اعلان کر دیا اور ان کی پشت پناہی بھی شروع کر دی جس کے نتیجے میں عرب دنیا میں دھڑے بندیاں ہونے لگیں۔

شام اور سعودی عرب براہ راست ’’پراکسی وار‘‘ کے تصادم میں چار برس تک مد مقابل رہے اور دونوں کو زبردست جانی اور مالی نقصانات ہوتے رہے مگر ایک وقت ایسا آیا جب روس براہ راست شام کی مدد کو آن پہنچا۔ جس سے داعش کو سخت نقصانات اٹھانا پڑے۔ جب کہ عراق میں داعش کو مقتدا صدر اور آیت اللہ سیستانی کے سرفروشوں نے زبردست شکست دے دی۔ادھر سعودی عرب میں آزاد خیال قیادت نے سر اٹھایا اور وہ امریکا کے مزید قریبی ساتھیوں میں سے ہے۔ مگر دوسری جانب امریکا اور نیٹو کے قریبی ساتھی اردگان کے مابین نظریاتی اختلافات جنم لینے لگے۔

آج سے تقریباً سال بھر پہلے ایک ایسی گھڑی بھی آئی جس میں اردگان کے خلاف نیٹو اور مقامی فوج نے بغاوت کی مگر اردگان کے حامی فوجی اور عوام نے اس بغاوت کو پسپا کر دیا۔ اس طرح اردگان کو زبردست فوجی اور سیاسی قوت حاصل ہوئی اور اردگرد کے چھوٹے ممالک ترکی کی طرف دیکھنے لگے۔ان میں سے قطر ایک ایسا ملک ہے جس نے ترکی سے تعلقات مزید مستحکم کرنا شروع کر دیے اور سعودی عرب سے منہ موڑنا شروع کر دیا۔ گوکہ سوویت یونین اور اس کا اتحادی پارٹنر ’’وارسا پیکٹ‘‘ تو ختم ہو گیا مگر مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک نے روس سے سیاسی اور عسکری تعلقات مستحکم کرنے شروع کر دیے۔

ان نئی دھڑے بندیوں میں اب ذرا سا غورکریں تو معلوم ہو گا کہ امریکا کے ساتھیوں میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نمایاں ہیں، جب کہ دوسری جانب ایران، شام، نصف لبنان اور کسی حد تک عراق اور ترکی امریکی مخالف دھڑے بندی کے اہم ستون ہیں۔

عراق کا نام اس وقت اس نئی دھڑے بندی میں امریکا مخالف پینل میں اس لیے لکھنا پڑا کیونکہ اکثر ’’آرامکو فیسلٹی‘‘ حملے میں ڈرون کو جہاں سے حملہ کرتے ہوئے بتایا گیا ان کے خیال میں عراق یا یمن کی سرزمین کو مشتبہ قرار دیا گیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ مڈل ایسٹ جنگی صورتحال میں دو مخالف قوتوں کی سرزمین بن گیا۔ اس کا بین ثبوت سولہ ستمبرکو انقرہ کے سہ فریقی اعلان میں نمایاں ہو گیا۔

انقرہ میں جو ترکی کا دارالسلطنت ہے وہاں سہ فریقی اہم ترین پریس کانفرنس کا اعلان ترکی، روس اور ایران نے کیا جس میں طیب اردگان نے بہ حیثیت ترکی کے صدرکے روس اور ایران کوکئی سہولیات فراہم کیں جن میں روس کو شام جانے کے لیے ترکی کی سرزمین استعمال کرنے کو قانونی اور جائز قرار دیا۔

اس طرح ماضی کا ترکی جو امریکا کا دست راست تھا وہ موجودہ دور میں روس کے ہمنواؤں کی صف اول میں شامل ہو گیا۔ گو کہ اس پریس کانفرنس کا پاکستانی میڈیا میں چرچا نہ کیا گیا مگر مغربی دنیا اور اس کے اتحادیوں نے اس خبر کی نمایاں حیثیت سے تشریح کی۔ ظاہر ہے ایران سے براہ راست ترکی کا عسکری سفر دنیا کے لیے باعث حیرت بن گیا اور یہ ایک نئی مضبوط اور سیاسی قوت کا نمایاں مظاہرہ تھا۔

جس نے یہ ثابت کر دیا کہ کسی بھی جنگی صورتحال میں ایران کے ساتھ روس اور ترکی کھڑے ہیں۔ ترکی کوئی طیب اردگان کے دور سے نیٹو میں شامل نہیں بلکہ یہ ابتدا سے ہی امریکی اتحادی تھا۔ لیکن رجب طیب اردگان نے ایسا لگتا ہے کہ وقت، سفر اور راستوں کی پیمائش کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ قریبی دوستوں سے روابط رکھنا عملی طور پر ہزاروں میل دور کے دوستوں پر انحصار کرنے سے کہیں بہتر ہے۔

اب اس کے فوائد محض ترکی کو نہیں بلکہ شام اور ایران کو بھی حاصل ہوں گے۔ ایران سے ترکی تک تیل کی رسد دونوں ملکوں کے لیے ایک تجارتی خزانے سے کم نہیں۔ حالانکہ انھی دنوں آرامکو پر حملے کے بعد امریکا نے ایران کی معاشی ناکہ بندی میں اضافہ کر دیا۔

لیکن ایران معاشی طور پر ڈالر کے دباؤ کا مریض نہیں۔ اسے وہاں سے روس اور چین تک کی مارکیٹ حاصل ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ کہنا تو درست نہ ہو گا کہ امریکی دباؤ کا اثر ایران پر بالکل نہ ہو گا۔ لیکن جو اہداف امریکا حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اہداف یقینا حاصل نہ ہوں گے کیونکہ اس معاہدے نے ایران کو ایک نیا رخ عطا کر دیا۔ لہٰذا ہم یہ باآسانی کہہ سکتے ہیں کہ مشرق اوسط میں فی الوقت کسی بڑی جنگ کا امکان نہیں ہے۔ اور نیا سہ فریقی اتحاد اس جنگ کے مخالف پلڑے میں اضافی وزن کا باعث ہو گا۔ کیونکہ روس کی شراکت نے شام کو بحفاظت بچا لیا تو نئی صورتحال ایران کے حق میں بھی مثبت کردار ادا کرے گی۔

The post نیا سہ فریقی اتحاد appeared first on ایکسپریس اردو.

ہیں تلخ بہت۔۔۔۔؟

$
0
0

دنیا میں ہر بڑے پیشے میں کام کرنے والے مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ٹریڈ یونینز بنی ہوتی ہیں۔ پاکستان اس حوالے سے اس قدر پسماندگی میں گرا ہوا ملک ہے کہ یہاں پاکٹ یونینز تو ہر جگہ ہیں لیکن نمایندہ ٹریڈ یونین کا دور دور تک پتہ نہیں۔ پاکستان میں ٹریڈ یونین کی تاریخ بڑی دلچسپ تاریخ ہے۔

پاکستان میں 1973 تک کسی نہ کسی طرح ٹریڈ یونین کا نام زندہ تھا لیکن یہ ایک دلچسپ المیہ ہے کہ مزدورکسان راج کے حامیوں کے دور میں پاکستان میں ٹریڈ یونینز کا ایسا خاتمہ ہوا کہ آج تک ٹریڈ یونینز زندہ نہیں ہو سکیں۔ ایوب خان کے دور میں مزدوروں پر جو مظالم ہوئے وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان مظالم کی وجہ یہ تھی کہ امریکا نے پاکستان میں سوشل ازم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوفزدہ ہو کر  پاکستان کو بھاری مالی امداد دینا شروع کی لیکن امریکا کی شرط یہ تھی کہ ٹریڈ یونین کو ختم کر کے مزدور طبقے کو سختی سے کنٹرول کیا جائے۔

ایوب خان نے امریکا کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مزدوروں پر ایسے ستم ڈھائے کہ کارخانوں میں نجی جیلیں بنائیں جہاں مزدوروں کو سزائیں دے کر رکھا جاتا تھا۔ ٹریڈ یونین کا نام لینا جرم تھا۔ مزدور لاوارث تھے لیکن ایسے کٹھن وقت میں بھی کچھ مزدور تنظیمیں اور رہنما فعال تھے ان میں متحدہ مزدور فیڈریشن سمیت دیگر تنظیمیں قابل ذکر ہیں ۔ ایوبی آمریت کے خلاف یہ مزدور تنظیمیں سرگرم تھیں اور مزدوروں کو منظم کرنے میں مصروف تھیں، مشرقی پاکستان کی کچھ مزدور تنظیموں سے بھی ان کا تعلق تھا اور ٹریڈ یونین کے حوالے سے مشرقی پاکستان کی قیادت سے صلاح و مشوروں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔

ایوب حکومت نے امریکا کی اقتصادی امداد جوکولمبو پلان کے تحت پسماندہ ملکوں کو مل رہی تھی سے ملک میں صنعتکاری کا سلسلہ شروع تو کیا لیکن مزدور طبقے کو اس قدر دبا کر رکھا گیا کہ مزدور اپنے حق کے لیے آواز بلند نہیں کر سکتے تھے، اس ظالمانہ دور میں مشرقی پاکستان کے مزدور رہنما مولانا بھاشانی مزدوروں کے حقوق کے لیے سخت لڑائی لڑ رہے تھے۔

مولانا نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ تھے اور نیشنل عوامی پارٹی مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔ یہ غالباً 1968 کی بات ہے مولانا بھاشانی کراچی آئے اور نیپ کے مقامی رہنما مسیح الرحمن کے مکان پر قیام پذیر ہوئے۔مولانا نے ایک دن ہم سے کہا کہ لانڈھی کے مزدوروں کا ایک جلسہ کراؤ۔ ہم نے کنیز فاطمہ، علاؤالدین عباسی اور وحید صدیقی کے ساتھ لانڈھی میں ایک ملز کے گیٹ پر ایک جلسہ کیا اس جلسے کے بعداس ملز کے مزدور جلوس کی شکل میں لانڈھی انڈسٹریل ایریا کے لیے نکلے اور چار گھنٹوں میں پورا انڈسٹریل ایریا بند کروا کر مزدوروں کے بڑے جلوس کی شکل میں 89 اسٹاپ کے میدان میں پہنچے جہاں مولانا بھاشانی جلسے سے خطاب کرنے والے تھے۔

کوئی پچاس ہزار مزدور اس یادگار جلسے میں شریک تھے۔جلسہ اتنا بڑا تھا کہ مولانا بھاشانی خوش ہو گئے لیکن المیہ یہ رہا کہ مزدوروں کا استحصال ختم نہ ہوا بلکہ انتقامی کارروائیاں شروع ہوئیں۔ مزدور کسان راج کے دعوے دار مزدوروں کے خلاف انتقامی کارروائیوں پر اتر آئے۔ بہت سارے مزدوروں اور مزدور رہنماؤں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔

مولانا بھاشانی مختلف جلسوں سے خطاب کر کے ڈھاکا واپس چلے گئے۔ بھٹو صاحب نے مزدوروں کو آسمان پر چڑھایا تھا، اب جب مزدور اینگری ہو گئے تو سیکڑوں کے حساب سے پکڑے جانے لگے اور گرفتار مزدوروں کو جیلوں میں ڈنڈا بیڑی پہنائی جانے لگی۔ ڈنڈا بیڑی پہنے مزدوروں کی تصویریں میڈیا میں آنے لگیں۔ یہ تھا مزدور کسان راج؟یہ تو ہوئیں پرانی باتیں اب حال یہ ہے کہ کراچی جیسے ترقی یافتہ شہر میں نمایندہ یونینزکا دور دور تک پتہ نہیں۔ ہر طرف پاکٹ یونینزکا راج ہے، مزدوروں کا حال یہ ہے کہ ٹھیکیداری نظام کا جواء کندھوں پر رکھے زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہے ہیں۔

عشروں کی لگاتارکوششوں اور بے بہا قربانیوں کے بعد مزدوروں نے کچھ کامیابیاں حاصل کی تھیں جن میں یونین سازی کا حق، ہڑتال کا حق، سودے کاری کا حق یہ سارے حقوق طاق نسیاں پر رکھ دیے گئے، اب حال یہ ہے کہ مزدورکارخانہ دارکا ملازم نہیں بلکہ ٹھیکیدارکا ملازم ہے اور اس کی نوکری پکی ہے نہ قانون کے مطابق اسے ٹریڈ یونین حقوق حاصل ہیں۔

ٹھیکیداری نظام مزدوروں سے نکل کر وائٹ کالر یونین تک پہنچ گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹھیکیداری نظام بیچ میں کہاں سے ٹپک پڑا۔ ٹریڈ یونین میں ایسی قیادت موجود نہیں جو کم از کم ٹھیکیداری نظام ہی کے خلاف جدوجہد کرے۔بھٹو صاحب مزدور کسان راج لانے کی نوید سناتے رہے لیکن مزدور رہنماؤں کو برسوں کے لیے جیلوں میں ٹھونس کر اور ڈنڈا بیڑیاں پہنا کر مزدور کسان راج کا مذاق اڑایا گیا۔

سوال یہ ہے کہ اب سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے کیا مزدور راج نہ سہی مزدوروں کو ان کے قانونی حقوق ہی دلا دیے جائیں تو پیپلز پارٹی کی مزدوروں کے ساتھ بڑی مہربانی ہو گی۔ ٹھیکیداری نظام و ڈیرہ شاہی نظام سے بدتر نظام ہے مالکوں نے ملوں کارخانوں کو ٹھیکداروں کے حوالے کر دیا ہے اب مزدور مالکان کا نہیں ٹھیکیداروں کا ملازم ہے جس کے کوئی قانونی حقوق نہیں ٹھیکیدار کی مرضی ہے جب تک چاہے مزدورکو رکھے جب چاہے نکال باہرکرے۔

کیا پیپلز پارٹی کی حکومت مزدوروں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ نہیں کر سکتی۔ کراچی سب سے بڑا صنعتی علاقہ ہے یہاں سارے ملک سے مزدور روزگار کے لیے آتے ہیں۔ اس صنعتی شہر میں مزدور قوانین کا نام نہیں ہر طرف ٹھیکیداری نظام کا بول بالا ہے پیپلز پارٹی کے رہنما وقت نکال کر غریب مزدوروں کے مسائل پر غورکریں۔

The post ہیں تلخ بہت۔۔۔۔؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


ہم دنیا کی بہادر ترین قوم ہیں

$
0
0

شان بین (Sean Bean) مشہوربرطانوی اداکار ہے‘ آپ نے اگر گیم آف تھرونز‘ لارڈ آف دی رنگز اور گولڈن آئی دیکھی ہو تو پھر آپ شان بین سے اچھی طرح واقف ہوں گے‘ یہ بے شمار فلموں اور سیریلز میں اداکاری کے شان دارجوہر دکھا چکا ہے اور لاتعداد ایوارڈز حاصل کر چکا ہے لیکن یہ اداکاری کی آفاقی صلاحیتوں کے باوجود آج کل ڈپریشن کے خوفناک دور سے گزر رہا ہے‘ کیوں؟ یہ کیوں بہت اہم ہے۔

شان بین کے ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز کا خیال ہے موت کا سین اس سے بہتر کوئی اداکار نہیں کر سکتا چناں چہ یہ جس فلم یا سیریل کا حصہ بنتا ہے پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز اس میں اسے مار دیتے ہیں یوں یہ فلموں اور سیریلز میں اب تک 23 مرتبہ مر چکا ہے۔

فلم بینوں اور تماشائیوں نے اسے اتنی بار مرتے ہوئے دیکھا کہ یہ اب اپنے دلوں میں اس کے لیے ہمدردی محسوس کرتے ہیں لہٰذا اس کے فینز نے 2014میں ’’ڈونٹ کل شان بین‘‘ کے ٹائٹل سے میڈیا مہم چلانا شروع کر دی‘ یہ خود بھی مر مر کر اتنا تنگ آ چکا ہے کہ اس نے آیندہ کسی فلم یا سیریل میں مرنے کا کردار ادا کرنے سے انکار کر دیا‘ شان بین کا دعویٰ ہے‘میں جب بھی اسکرین پر ظاہر ہوتا ہوں تو دیکھنے والے فوراً کہتے ہیں ’’یہ بے چارہ ہے‘ اس نے جلد مر جانا ہے‘‘ فلم میں میری موت اتنی لازم ہو چکی ہے جتنی موسیقی یا مکالمے ہوتے ہیں چناں چہ میں نے اب مرنے سے انکار کر دیا ہے۔

میں اب کوئی ایسی فلم یا ڈرامہ نہیں کروں گا جس میں مجھے مرنے کا سین دیا جائے گا‘ میں صرف اور صرف زندہ کردار ادا کروں گا‘ شان بین آخری بار گیم آف تھرونز میں مارا گیا تھا‘ یہ نیڈ اسٹارک کا کردار ادا کر رہا تھا‘ نیڈ اسٹارک کا سر قلم کر دیا گیا تھا اور یہ سین اتنا خوف ناک تھا کہ دیکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے اور شان بین کی چاروں بیگمات نے باقاعدہ چیخیں مار کر رونا شروع کر دیا تھا‘ لوگ آج بھی شان بین کا یہ اختتام یاد کرتے ہیں تو ان کے دلوں کی دھڑکنیں تھم جاتی ہیں۔

مجھے اکثر اوقات اپنا پاکستان شان بین لگتا ہے‘ ہم مر مر اور مار کھا کھا کر تنگ آ چکے ہیں مگر اس کے باوجود یہ سلسلہ رک نہیں رہا‘ میرے والد کا مارچ میں انتقال ہوا تھا‘ اباجی نے بڑی شان دار زندگی گزاری‘ 84 سال کی عمر میں رحلت ہوئی‘ وہ آخر میں بار بار کہتے تھے ’’مجھے پوری زندگی سکھ کا سانس نہیں ملا‘ میں اس ملک میں مسافر کی طرح رہا‘ دل میں ہر وقت انجانے خوف رہے۔

مجھے روز یہ محسوس ہوتا رہا میرے یا میرے خاندان کے ساتھ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے‘ مجھے اس خدشے نے خوشی کے ساتھ زندگی نہیں گزارنے دی‘ میں ایک لمحہ بھی سکون کے ساتھ نہیں رہ سکا‘‘ میں بھی اب 51 سال کا ہو چکا ہوں‘ میں خود بھی اسی صورت حال کا شکار ہوں اور ایک مکمل کنفیوز زندگی گزار رہا ہوں‘ ہمارا ملک بھی اگر جان دار ہوتا‘ یہ بھی اگر انسانوں کی طرح سانس لیتا ہوتا تو یہ بھی اس وقت ہماری طرح پریشان ہوتا‘ یہ بھی سوچ رہا ہوتا ہم نے آخر جانا کہاں ہے‘ ہماری آخر منزل کیا ہے اور مجھے یقین ہے 22 کروڑ لوگ بھی اس وقت ایسی ہی کنفیوژنزکا شکار ہوں گے‘ یہ بھی بے راہ روی میں منزلوں کا نشان تلاش کر رہے ہوں گے۔

چناں چہ میں چاہتا ہوں ہم بھی اب شان بین کی طرح مرنے سے انکار کر دیں‘ ہم بھی اب اچھا سہی برا سہی مگر کوئی فیصلہ کر لیں‘ ہمیں جمہوریت سوٹ نہیں کرتی ہم اعلان کر دیں ملک میں اگلے تیس سال آمریت رہے گی‘ دس دس سال کے تین وقفوں سے تین جنرل آئیں گے‘ اپنی ٹیم ساتھ لائیں گے اور بس‘ یہ الیکشن اور پارلیمنٹ کی بک بک تو کم از کم ختم ہو اور ہم نے اگر جمہوریت میں جانا ہے تو پھر ہم الیکشن کے عمل کو کھلا چھوڑ دیں‘ سیاسی جماعتیں جانیں اور عوام جانیں‘ پارٹی کچھ کرے گی تو عوام ووٹ دے دیں گے ورنہ یہ سیاستدانوں کا محاصرہ کر کے انھیں فارغ کر دیں گے۔

یہ جو ہم ہر پانچ دس سال بعد میرے عزیز ہم وطنو کہتے ہیں یا قوم جنرل مشرف کو مسترد کر کے میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی طرف دیکھنا شروع کر دیتی ہے یا پھر پورے شہر میں جنرل راحیل شریف قدم بڑھاؤ کے بینرز لگ جاتے ہیں قوم کم از کم اس کنفیوژن سے نکل آئے‘ یہ قبلے تبدیل کرنا بند کر دے‘ ہمیں اگر احتساب چاہیے تو پھر ہم ایک ہی بار نیب کو سی بی آئی یا ایف بی آئی جیسا مضبوط ادارہ بنا دیں اور یہ کسی بھی شخص کو این آر او دے سکے اور نہ پلی بارگین کر سکے‘ یہ ملک کی ہر شخصیت کے خلاف تفتیش کر سکے اور کرپشن ثابت ہونے پر اسے سزا دے سکے اور صدر ہو‘ وزیراعظم ہو‘ چیف جسٹس ہو یا پھر آرمی چیف ہو کسی کو کسی قسم کا استثنیٰ حاصل نہ ہو۔

سب اکاؤنٹ ایبل ہوں اور ہم نے اگر نیب کو ’’میرا کرپٹ اور تیرا کرپٹ‘‘ کی فلاسفی کے ساتھ چلانا ہے تو بھی ہم اعلان کر دیں تا کہ ہر سیاستدان کو یہ معلوم ہو یہ اقتدار سے نکل کر سیدھا جیل جائے گا اور یہ اگر یہ افورڈ کر سکتا ہے تو یہ سیاست جوائن کر لے ورنہ دوسری صورت میں کوئی باعزت کام کرے‘ بھارت ہمارا دشمن ہے یا دوست ہمیں یہ بھی ایک ہی بار طے کر لینا چاہیے۔

یہ جو ہم ہر سال دو سال بعد اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیتے ہیں اور پھر اچانک ہاتھ کھینچ کر اسے اپنا ازلی دشمن ڈکلیئر کر دیتے ہیں‘ یہ سلسلہ بھی اب بند ہونا چاہیے‘ یہ اگر دشمن ہے تو پھر ساری سرحدیں لاک کر دیں‘ پوری قوم کو فوجی تربیت دیں اور 22 کروڑ لوگوں کو فوجی بنا کر بھارت کے سامنے کھڑا کر دیں تا کہ بھارت کو معلوم ہو سکے یہ کن لوگوں کے ساتھ ٹکرا رہا ہے‘ ہم اپنی ساری انڈسٹری کو بھی وار انڈسٹری میں تبدیل کر دیں‘ ہم صرف رائفلیں‘ توپیں اور ٹینک بنائیں اور بھارت کا اسی طرح مقابلہ کریں جس طرح شمالی کوریا یا کیوبا کر رہا ہے‘ ہم موسٹ فیورٹ اور موسٹ اینی می کی جس بک بک کا شکار ہیں یہ کم از کم اب ختم ہو جانی چاہیے۔

ہم اگر چند قدم آگے بڑھا کر یہ فیصلہ بھی کر لیں ہمیں داڑھی چاہیے یا کلین شیو‘ ہم پتلون پہنیں گے یا جبہ‘ ہماری خواتین کے بال کھلے ہوں گے یا یہ عبایا لیں گے‘ ہمیں سافٹ ڈرنکس اور امریکی برگر چاہیے یا نہیں‘ ہم سیکولر قوم ہیں یا مذہبی‘ ملک میں اقلیتوں کو رہنا چاہیے یا نہیں‘ ہمیں بزنس‘ انڈسٹری اور اسٹاک ایکسچینج چاہیے یا نہیں‘ ہم امریکا کے طفیلی ہیں یا نہیں‘ ہم نے امریکی کیمپ میں رہنا ہے یا روسی اور چینی کیمپ میں جانا ہے یا پھر ہم غیر جانب دار ہیں‘ ہمیں قرضے چاہئیں یا پھر ہم نے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے‘ ہمیں کشمیر چاہیے یا پھر ہم پہلے پاکستان کو بچائیں گے اور پھر ہانگ کانگ کی طرح کشمیر کی بات کریں گے۔

حکومت نے اسٹاک ایکسچینج‘ اسٹیٹ بینک‘ بجلی اور گیس کی قیمتیں اور کھانے پینے کی اشیاء کنٹرول کرنی ہیں یا پھر انھیں مارکیٹ پر چھوڑنا ہے‘ شہروں کے کچرے‘ ٹریفک‘ بیماری‘ بیروزگاری اور جہالت سے نبٹنا حکومت کی ذمے داری ہے یا پھر عوام کی‘ ڈیم حکومت نے بنانے ہیں یا سپریم کورٹ نے‘ حکومتیں بنانے اور گرانے کا کام عوام نے کرنا ہے یا یہ ذمے داری نیب کے کندھوں پر استوار ہو گی‘ ہمیں پارلیمنٹ چاہیے یا پھر ملک کے فیصلے اے پی سی میں ہوں گے‘ ہم نے دنیا کے ساتھ چلنا ہے یا پھر ہم اپنی دنیا خود بنائیں گے‘ ہمیں کھیل‘ فلمیں‘ کتابیں اور اسٹیڈیمز چاہئیں یا نہیں چاہئیں‘ ہم نے اسپتال بنانے ہیں یا بند کرنے ہیں‘ ہمیں میٹروز‘ انڈر پاسز اور ائیرپورٹس چاہئیں یا نہیں چاہئیں۔

ہم اسرائیل کے ساتھ تعلقات چاہتے ہیں یا نہیں چاہتے‘ یہ ملک اسلامی ہے یا پھر سیکولر‘ ہمیں بڑے بزنس مین‘ انڈسٹریلسٹ اور بڑے دماغ چاہئیں یا نہیں‘ ہم سیکیورٹی اسٹیٹ رہنا چاہتے ہیں یا پراگریسو بننا چاہتے ہیں‘ پولیس کا کام سیکیورٹی ہے یا پھرجرائم کی بیخ کنی‘ فوج نے سرحدوں کی حفاظت کرنی ہے یا زلزلے اور سیلاب روکنے ہیں‘ ہمیں فری میڈیا چاہیے یا اس ملک کو صحافی‘ اخبار اور ٹیلی ویژن کی کوئی ضرورت نہیں‘ یہ ملک پولیس اسٹیٹ ہے یا پھر یہاں کوئی قاعدہ اور قانون بھی ہونا چاہیے‘ ہمیں یہ ملک ڈنگی‘ پولیو اور ٹی بی سے پاک چاہیے یا پھر ہمارے 80 فیصد لوگ بیماری کی حالت میں انتقال کریں گے۔

ملک میں عوام کو پانی‘ بجلی‘ گیس‘ سڑک‘ اسپتال اور اسکول حکومت نے فراہم کرنے ہیں یا پھر ہم لوگ اپنا بندوبست خود کریں گے‘ عوام کو سیکیورٹی ریاست نے فراہم کرنی ہے یا پھر ہر شخص اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت خود کرے گا‘ دھرنوں کی اجازت صرف عمران خان کو دی جائے گی یا پھر مولانا فضل الرحمن بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور آخری بات‘ یہ ملک کس نے چلانا ہے‘ حکومت‘ اسٹیبلشمنٹ یا پھر علامہ خادم حسین رضوی نے‘ ہمیں اب یہ طے کر لینا چاہیے تاکہ آگے جائیں یا پھر پیچھے‘ ہم کہیں نہ کہیں پہنچ جائیں گے‘ یہ جو ہم جانوروں کی طرح کبھی دائیں نکل جاتے ہیں‘ کبھی بائیں اور کبھی آگے اور کبھی پیچھے دوڑنا شروع کر دیتے ہیں قوم کم از کم اس خواری سے تو بچ جائے گی‘ ہم اور ہماری نسلیں کم از کم اپنا مستقبل تو طے کر لیں گی‘ ہم میں سے جس کو یہ پیکیج قبول ہے وہ یہاں رہے اور باقی چادر کندھے پر رکھ کر کسی نہ کسی طرف نکل جائیں‘ بس بات ختم۔

مجھے بعض اوقات محسوس ہوتا ہے ہم شان بین سے بھی گئے گزرے لوگ ہیں‘ شان بین نے 23 بار مرنے کے بعد ہی سہی لیکن اس نے کم از کم یہ فیصلہ تو کر لیا یہ اب کسی فلم‘ کسی سیریل میں مرنے کا کردار نہیں کرے گا مگر ہم 72 سال سے روزمر رہے ہیں لیکن ہم نے آج تک ’’نو مور‘‘ نہیں کہا‘ ہم حالات کو قبول کر کے جانوروں جیسی زندگیاں گزار رہے ہیں‘ ہم نے اپنی تین نسلیں دلدل میں دفن کرا لیں‘ ہم اگلی دس نسلیں بھی دلدل کے کنارے پیدا کرنا چاہتے ہیں مگر کنفیوژن سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ بے شک دنیا میں ہم سے بڑی بہادر قوم کوئی نہیں‘ ایک ایسی بہادر قوم جو ہر وقت مرنے کے لیے تیار رہتی ہے مگر زندہ رہنے کے لیے نہیں۔

The post ہم دنیا کی بہادر ترین قوم ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

کشمیریوں کا عزم، تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں

$
0
0

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں خونریزی کا خطرہ ہے، پاکستان اپنے عوام کو غربت سے نکالنے اور پر امن ہمسائیگی کا خواہاں ہے تاہم آر ایس ایس کی حمایت یافتہ مودی حکومت نسلی بالادستی پر مبنی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور دنیا کو اس سے بچنے کے لیے فعال کردار ادا کرنا ہوگا، دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی تسلط، یکطرفہ اقدامات اور وہاں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں آگاہ کرنے آیا ہوں۔

امریکی جریدے ’’وال اسٹریٹ جنرل‘‘ کے ادارتی بورڈ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ نسل پرستی سے تکبر پیدا ہوتا ہے اور تکبر سے لوگ بڑی غلطیاں کرتے ہیں اور یہی مودی نے مقبوضہ کشمیر میں کیا ہے۔ میں بالخصوص کشمیر کے لیے امریکا آیا ہوں اور باقی سب چیزیں ثانوی ہیں۔ دنیا اس حقیقت کو نہیں سمجھ رہی، ہم بڑی تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں اقوام متحدہ کو مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کے لیے کہوں گا، اگر اقوام متحدہ اس معاملے پر نہیں بولے گی تو پھر کون بولے گا؟ ایک اندازے کے مطابق 15 ہزار نوجوانوں کو غیر قانونی حراست میں لیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے منتخب نمایندوں کو بھی حراست میں رکھا گیا ہے ۔

وزیراعظم نے امریکا اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کی بحالی پر بھی زور دیا۔ ادھر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ کشمیر پاکستان کی روح کا حصہ ہے،کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں، مسئلہ کشمیر کشمیریوں کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہوگا، آئی ایس پی آر کے اعلامیہ کے مطابق وہ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے طلبہ اور یوتھ پارلیمنٹ کے ارکان سے ملاقات میں گفتگو کررہے تھے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے وزیراعظم کا تاریخی خطاب اس حقیقت کا غماز ہے کہ کشمیر میں دو طاقتوں نے ریکارڈ قائم کیے ہیں، یاد رہے کل ملک بھر میں یوم کشمیر منایا گیا۔ایک طرف محصور کشمیری عوام ہیں جو کرفیو کی اذیتیں برداشت کررہے ہیں، دنیا سے کٹے ہوئے ہیں، جن کے بچوںکو دوائیں، خوراک نہیں مل رہی، مواصلاتی رابطے منقطع ہیں۔

دوسری جانب مودی حکومت کی بربریت، مسلم دشمنی کی اندوہ ناک داستان ہے، بھارتی فوج کے مظالم ہیں جس پر عالمی ضمیر نے چپ سادھ لی ہے، کشمیری عوام کا جوش و جذبہ سرد نہیں پڑنے والا ،بھارتی سامراج اور استعمار کو اندازہ ہے کہ کشمیری عوام صبرواستقامت جذبہ آزادی،  اپنی دھرتی سے محبت اور وابستگی اور ظلم سہنے اور اپنے جائزمقصد پر غیر متزلزل یقین کے سامنے ہر طاغوتی قوت کو ٹھوکر مارتے ہیں، وہ بلاشبہ ’’ تو تیر آزما ہم جگرآزمائیں‘‘ کی اصولی اور ولولہ انگیز جنگ لڑ رہے ہیں،نہتے ہیں،گھروں اور اپنے علاقوں میں قید ہیں مگر انھوں نے مظلومیت کی فقیدالمثال داستان رقم کی ہے۔تاریخ اسے نہیں بھلا سکے گی۔

قبل ازیں معروف اخبار نیو یارک ٹائمز کے ادارتی بورڈ سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ امریکا میں قیام کے دوران دنیا کو بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ جموں و کشمیر پر تسلط اور وہاں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں آگاہ کیا۔انھوں نے کہا کہ یہاں اس لیے آیا ہوں کہ دنیا کو باور کراؤں کہ ہندوستان بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔افغانستان سے متعلق وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن چاہتا اور امن عمل کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سے مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس نے بھی ملاقات کی ۔

اس موقع پرمشیر خزانہ، مشیر تجارت اور معاون خصوصی برائے تخفیف غربت ثانیہ نشتر بھی موجود تھیں۔ پاکستان اور بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے درمیان’’ احساس پروگرام ‘‘کے تعاون کے لیے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔ وزیراعظم آفس سے جاری اعلامیہ کے مطابق بل گیٹس فاؤنڈیشن احساس پروگرام کو فنڈز، تکنیکی امداد اور صحت اور غذا کی بہتری کے لیے عالمی ماہرین کی مدد فراہم کرے گی، احساس پروگرام میں غربت کے خاتمے کے 134 پالیسی اقدامات شامل ہیں۔بل گیٹس فاؤنڈیشن دوران زچگی اموات کی شرح کم کرنے اور صحت کے شعبے میں بہتری کے لیے تعاون کرے گی۔

اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دنیا سے پولیو کا خاتمہ بل گیٹس فاؤنڈیشن کی اوّلین ترجیح ہے، بل گیٹس فاؤنڈیشن 2020 کے دوران پاکستان میں 220 ملین ڈالر خرچ کرے گی۔ خوشی ہے کہ بل گیٹس فاؤنڈیشن احساس پروگرام کو مختلف شعبوں میں مدد فراہم کرے گی۔غربت میں کمی ، اورمعاشرے کے کمزور طبقات کو صحت اورتعلیم کی سہولیات کی فراہمی ان کی اوّلین ترجیحات میں شامل ہے ۔

ادھر نیویارک میں وزیراعظم سے روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاواروف اور ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کینیتھ راتھ نے الگ الگ ملاقاتیں کیں ، روسی وزیرخارجہ سے ملاقات میں دوطرفہ تعاون کے فروغ کے لیے مختلف پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔فریقین نے پاک روس تعلقات کی نوعیت پر اظہار اطمینان اورمقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر قریبی رابطے اور مشاورت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔

وزیر اعظم عمران خان نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی تشویشناک صورتحال سے امن و استحکام کو شدید خطرات لاحق ہیں، عالمی برادری کو بے جا پابندیاں ختم کرانے کے لیے آگے آنا ہو گا، ہندوستان دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان پر دہشت گردوں کی معاونت کے جھوٹے الزامات لگانے کی کوشش کر رہا ہے۔

روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ روس نے گزشتہ ماہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالہ سے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے اجلاس کے انعقاد کی مخالفت نہیں کی۔ وزیر اعظم نے ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کینیتھ راتھ سے ملاقات میں انھیں مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندوستانی افواج کی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے آگاہ کرتے ہوئے خدشہ ظاہرکیا کہ مقبوضہ کشمیر میں تاریخ کا سب سے بڑا انسانی سانحہ ہوسکتا ہے۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارت کو مجبور کریں کہ وہ مبصرین کو وہاں جانے کی اجازت دے۔

وزیراعظم عمران خان نے ناروے کی ہم منصب ایرنا سولبرگ سے بھی ملاقات کی۔اس ملاقات میں دونوں وزرائے اعظم نے دوطرفہ تعلقات پر اطمینان کا اظہار کیا۔قائم مقام سیکریٹری خارجہ معظم احمد خان نے پاکستان کے خلاف بھارتی زہریلے پروپیگنڈہ کے تدارک کے لیے جمعرات کو دفتر خارجہ میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو پاور رکھنے والے 5 مستقل رکن ممالک امریکا، روس، چین، برطانیہ اور فرانس کے سفراء کوایک بریفنگ دیتے ہوئے انھیں حقائق جاننے کے لیے بالاکوٹ کے دورے کی دعوت دی۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق بریفنگ کے دوران معظم خان نے ویٹو پاور ممالک کے سفراء کو بتایا کہ بھارت کی طرف سے مسلسل اشتعال انگیز بیانات آرہے ہیں،بھارت نے گزشتہ چند روز سے پاکستان مخالف پروپیگنڈہ مہم تیز کردی ہے تاکہ دنیاکی توجہ کشمیر کے مسئلہ سے ہٹائی جائے۔دفترخارجہ نے کہا کہ پاکستان محاذ آرائی نہیں چاہتا، اگرجارحیت ہوئی تو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔

دوسری جانب بھارتی بربریت کے باوجود مقبوضہ کشمیرمیں نوجوان احتجاجی مظاہرے کرتے ہوئے باہر نکل آئے،بند دکانوں کے شٹروں پر بھارت مخالف اور پاک فوج زندہ باد کے نعرے لکھ دیے۔ سبز ہلالی پرچم چھاپ دیے، صورہ میں مشعل بردار ریلی میں خواتین بھی شریک ہوئیں،آزادی کے نعرے لگائے گئے۔امریکی صدر ٹرمپ نے پھر کہا کہ ثالثی کے لیے تیار ہوں، تاہم انھوں نے عمران اور مودی سے کہا کہ اب مسئلہ کشمیر حل کردیں۔ تاریخ ایک فیصلہ کن موڑ پر آئی ہے، آنے والے دن کشمیریوں کی تقدیرکی کایا پلٹ کے لیے انتہائی اہم ہوں گے۔

The post کشمیریوں کا عزم، تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں appeared first on ایکسپریس اردو.

ترقی اور نظریات کا تعلق

$
0
0

انسانی زندگی میں نظریات وعقائد بنیادی کردار ادا کرتے ہیں اور یہی مل کر اس کے فلسفہ حیات کو جنم دیتے ہیں، پھر جیسا فلسفہ حیات ہوتا ہے ، اس سے ویسا ہی علم نکلتا ہے اور وہ علم معاشرے میں پھیلتا ہے اور معاشرے کے لوگوں کا اس علم پر مکمل ایمان ہوتا ہے۔ پھر جب علم سے پروڈکشن نکلتی ہے تو وہ کلچر کا حصہ بن جاتی ہے، یوں کسی معاشرے کی مادی ترقی بھی اس معاشرے کے نظریات سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔

آج مغرب میں ہونے والی مادی ترقی کے پس پشت بھی ان کے نظریات ہیں، سترہویں صدی کے بعد جن نظریات کو مغرب نے اپنایا، اس کے مطابق ہی نئے علوم کی بنیاد ڈالی پھر ان علوم سے ہی وہ پروڈکشن سامنے آئی جس سے مغرب نے وہ مادی ترقی حاصل کی جو تاریخ میں کسی اور تہذیب نے نہیں کی پھر ان نظریات اور ترقی سے وہ کلچر بھی سامنے آیا جوگزشتہ تمام تہذیبوں سے مختلف ہے۔

مغرب کی اس ترقی سے دیگر تمام قومیں بے حد متاثر ہوئیں اور انھوں نے اس ترقی کو رول ماڈل بنا کر اپنا ’’ٹارگٹ‘‘ بنا لیا یعنی اس کو اپنی منزل قرار دے دیا ہے اور اب اس منزل کو حاصل کرنے کی جستجو میں سب تیزی سے دوڑ رہے ہیں۔

بظاہر یہ بات دل کو لگتی ہے کہ جن اقوام نے آج مادی ترقی کرکے دنیا میں اونچا مقام حاصل کر لیا ہے، ہمیں بھی ویسی ہی ترقی کر کے وہ مقام حاصل کرنا چاہیے مگر ہم میں سے اکثر یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ مادی ترقی کا یہ مقام یونہی نہیں ملتا، یہ ایک پروسس کے تحت ممکن ہوتا ہے جس میں سب سے پہلے نظریات تبدیل کرنا ہوتے ہیں، مغرب نے سب سے پہلے اپنے پرانے نظریات سے چھٹکارا حاصل کیا ۔ یہ پرانے نظریات کیا تھے اور نئے نظریات کیا ہیں؟ آئیے اس کا ایک مختصر جائزہ لیں۔

سترہویں صدی تک مغرب سمیت پوری دنیا کی تہذیبیں اپنے اپنے فلسفہ حیات کے مطابق زندگی گزارنے کے اصول طے کرتی تھیں، جن میں سب سے بڑا اور نمایاں اصول will of God کی ہدایت کو حتمی ماننا تھا، اس میں انسانی مرضی کا کوئی دخل نہیں تھا۔ یعنی انسان اپنے عقائد کے تحت خدا کے دیے گئے اصولوں کو اپنی مرضی سے بدل نہیں سکتا تھا ( خواہ وہ خدا کا جو بھی تصور رکھتا ہو۔) سترہویں صدی کے بعد مغرب میں یہ تصور تیزی سے تبدیل ہونا شروع ہوا اور پھر رفتہ رفتہ  will of  God کی جگہ ایک نئے تصور will of Humen نے لے لی۔

اس تصورکے تحت انسان زندگی گزارے نے کے لیے خدا کی مرضی کے بجائے اپنی مرضی سے فیصلے کرسکتا ہے گویا خدا کے فیصلوں کو چیلنج کرسکتا ہے۔ مغرب میں اس سے ملتا جلتا ایک اور تصور اس وقت سامنے آیا جب ایک پادری مارٹن لوتھر نے ایک نئے عیسائی فرقے پروٹسٹنٹ کا وہ تصور پیش کیا جو تاریخ انسانی میں کسی مذہبی فرقے نے نہیں پیش کیا۔

اس کا اہم ترین یا منفرد نکتہ تھا کہ دنیا کی کامیابی کا مطلب آخرت کی کامیابی ہے۔ اس نظریے سے قبل دنیا میں کبھی کسی فرقے نے یہ بات نہیں کہی کہ جس نے دنیا کو جنت بنا لیا اس کی آخرت بھی اچھی ہوگی بلکہ سب نے یہی درس دیا کہ دنیا کو سادگی سے سفرکی طرح گزارو ، تو آخرت اچھی ہوگی۔چنانچہ زندگی گزارنے کے فلسفہ میں اس بڑی اور بنیادی تبدیلی سے سب کچھ تبدیل ہوگیا۔ معاشرے کو یہ نظریاتی پیغام مل گیا کہ دنیا کو حاصل کرنے کی جدوجہد کروں، اس کو جنت بنالوگے تو آخرت میں بھی جنت ملے گی۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان نظریات کے مطابق نئے علوم بھی پروان چڑھنے لگے جن سے دینا کو جنت بنایا جا سکتا تھے یعنی سائنسی علوم کو فروغ حاصل ہونے لگا اور پورا معاشرہ اپنی اپنی دنیا کو جنت بنانے کی کوششوں میں لگ گیا یوں مادہ پرستی کو فروغ حاصل ہونے لگا اور لوگ آخرت کی تیاری کرنے کے بجائے دنیا حاصل کرنے میں لگ گئے۔

یوں ہرکوئی دن رات صرف اور صرف دولت حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنے لگا جس سے صنعتی انقلاب بھی ظہور پذیر ہوا اور سرمایہ داری بھی زور پکڑ نے لگی۔ ہر فرد چاہتا تھا کہ کسی بھی طرح دولت حاصل کی جائے چنانچہ ہرکوئی اپنی ساری کی ساری توانائی دن رات دنیا حاصل کرنے کے لیے صرف کرتا، یوں کسی کی کوشش سے آواز یا تصویر ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک بغیر تارپہنچی تو کسی نے اس عمل کو مزید بڑھاوا دینے کے لیے تحقیق اورکوشش کی،کسی نے اس ایجاد کو مارکیٹ میں لاکر پیسہ کمانے کی کو شش کی۔

غرض صرف دنیا کو تیزی سے مادی ترقی کی طرف لے جانے کے نہ صرف راستے کھل گئے بلکہ مختلف نظریات بھی ساتھ ساتھ منظر عام پر ایسے ہی آرہے تھے کہ جن سے مذہب محض چاردیواری میں محدود ہورہا تھا اور دنیا پرستی کو فروغ حا صل ہو رہا تھا ، مثلاً آئزیا برلن کا لبرٹی (آزادی ) کا تصور جس کے تحت ہر انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی عمل کا تصور ’خیر‘ یا ’شر‘ خود طے کرے۔

یعنی اس تصورکے تحت ہر فرد کو خدا کا درجہ حاصل ہوگیا، یوں ایک شخص شراب، نائٹ کلب کے کاروبار کرنے یا یہاں وقت گزار نے کوگناہ تصور نہیں کرتا تو اس کو یہ حق اور آزادی ہے لیکن کوئی پادری یہ کہے کہ یہ سب مذہب کی تعلیمات کے خلاف ہے اس عمل کو ریاست کے اندر بند کر دیا جائے تو اس پادری کو ایسا کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا بلکہ اسے صرف یہ آزادی ہوگی کہ وہ اگر اس عمل کو غلط یا گناہ تصور کرتا ہے توعمل نہ کرے ۔

یوں ان نظریات کے تحت مذہبی تعلیمات ریاستی نظم و ضبط یا قانون کا حصہ نہیں بن سکتیں۔ یہی وہ بنیادی بات ہے کہ جس نے مغرب کو موجودہ ترقی کے مقام پر لا کھڑا کیا لیکن چونکہ اس کی بنیاد لادینی نظریات تھے چنانچہ اس ترقی کے ساتھ لادینی کلچر بھی نمودار ہوگیا اور معاشرے پر چھا گیا، یہی وجہ ہے کہ انسانی تاریخ میں کبھی کیسینو، شراب خانے، نائٹ کلب ،ڈے کئیر سینٹر، اولڈ ہاوسز، نفسیاتی کلینک اور پاگل خانوں کا وجود نہیں رہا، یہ تمام اور مغرب کی موجودہ ترقی لازم ملزوم ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ ترقی حاصل کرلی جائے مگر معاشرے میں سودی کاروبار، کیسینو، شراب خانے، نائٹ کلب ،ڈے کئیر سینٹر، اولڈ ہاوسز، نفسیاتی کلینک اور پاگل خانوں کا وجود نہ ہو۔

ایک مغربی مفکر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جہاں مغربی ٹیکنالوجی جاتی ہے وہاں مغربی کلچر بھی جاتا ہے ایسا نہ ممکن ہے کہ ٹیکنالوجی جائے اورکلچر نہ جائے۔آج جب پاکستان میں بچے بچے کے ہاتھ میں موبائل فون نظر آتا ہے اور پھر میڈیا پر یہ خبر آتی ہے کہ فحش مواد دیکھنے والے ملکوں میں پاکستان کا شمار ’ ٹاپ تھری ‘ ممالک میں ہوتا ہے تو اس مصنف کی بات بہت وزنی اور درست لگتی ہے۔ آئیے! ترقی کے اور نظریات کے اس تعلق پر کچھ دیر کے لیے غورکریں۔

The post ترقی اور نظریات کا تعلق appeared first on ایکسپریس اردو.

تو اور راستہ کیا ہے؟

$
0
0

وفاقی وزیر داخلہ ریٹائرڈ بریگیڈیئر اعجاز احمد شاہ نے توقع ظاہر کی ہے کہ اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمن کا دھرنا نہیں ہوگا اور اگر مولانا نے گرفتاری والا کام کیا تو انھیں گرفتارکرلیا جائے گا۔ اس سے قبل اپوزیشن کی طرف سے حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ وہ ایسے اقدامات نہ کرے جس سے دھرنے کی نوبت آئے۔

وزیر اعظم نے امریکا جانے سے قبل جو پریس کانفرنس کی اس میں اپنی سیکڑوں بار سنی گئی بات کو دہرایا کہ این آر او کسی صورت نہیں دیا جائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان کے خیال میں اپوزیشن جو کچھ کر رہی ہے اس کا مطلب ہی این آر او کا حصول ہے جو انھیں کسی صورت نہیں دوں گا۔ وزیر اعظم نے آج تک کبھی واضح نہیں کیا کہ ان سے این آر او کون مانگ رہا ہے۔

وزیر اعظم کی بجائے ان کے حلیف شیخ رشید جو وزیر ریلوے ہوتے ہوئے اپنے محکمے کی بجائے ملکی سیاست اور این آر او پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ پہلے کہتے تھے کہ عمران خان کسی کو این آر او نہیں دے گا اور ان کے دل میں شاید اپنے پرانے ساتھیوں شریفوں کے لیے ہمدردی پیدا ہوگئی ہے، اب وہ چاہتے ہیں کہ شریف فیملی سے جو ملے لے لیا جائے اور نواز شریف کو علاج کے بہانے ہی ملک سے باہر جانے دیا جائے۔ شیخ رشید کے بقول آصف زرداری کنجوس ہے وہ کچھ نہیں دے گا، ہوسکتا ہے شریف دے دیں۔

تحریک انصاف نے اپنی سیاست کا آغاز کرپشن کے خلاف کیا تھا مگر ملک میں کرپشن کے باوجود ان کی سیاست پر توجہ نہ دی گئی۔ یوں تو عمران خان نے 1996ء میں تحریک انصاف قائم کی تھی اور ان کی شہرت بطورکھلاڑی کی تھی۔ 1992ء میں وہ کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے اور ان کی قیادت میں پاکستان نے کرکٹ کا ورلڈ کپ ضرور جیتا تھا مگر بطور کھلاڑی ان کی کارکردگی ایسی نہیں تھی کہ انھیں شہرت ملتی وہ پلے بوائے کے طور پر پہچانے جاتے تھے اور ان کے متعلق بہت کچھ مشہور تھا اور کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے پر انھیں اندرون ملک بھی شہرت ملی تھی۔

بطور کھلاڑی انھیں مغرور دیکھا گیا جنھوں نے ایک میچ میں اپنے ایک پرستار کو بیٹ بھی مارا تھا۔ کینسر کے باعث اپنی والدہ کے انتقال کے بعد انھوں نے اپنی والدہ کے نام پر لاہور میں ایک کینسر اسپتال بنانے کا آغاز کیا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اس سلسلے میں ان کی بہت مدد کی اور اسپتال کے لیے مناسب نرخوں پر زمین بھی دلائی کیونکہ وہ ایک نیک کام کر رہے تھے اور اس وقت دور دور تک ان کے سیاست میں آنے کا امکان تھا اور نہ ہی عمران خان نے مستقبل میں سیاست میں آنے کا کوئی اشارہ کیا تھا۔

عمران خان اپنی والدہ کے نام پر اسپتال بنانے میں مصروف رہے اور اسپتال کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد جب انھوں نے سیاست میں آنے کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے نام سے جب اپنی پارٹی بنائی اس وقت 1988ء سے 1996ء تک پیپلز پارٹی کی بینظیر بھٹو دو بار وزیر اعظم بن چکی تھیں اور میاں نواز شریف بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو اگست 1990ء میں صدر غلام اسحق خان نے کرپشن کے الزامات میں بینظیر حکومت برطرف کی تھی تو نواز شریف اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے اس لیے وزیر اعظم بنائے گئے تھے کہ ان کی مسلم لیگ جونیجو جس کے پنجاب میں نواز شریف صدر تھے نے پنجاب میں زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں۔ اس وقت غلام مصطفیٰ جتوئی نگران وزیر اعظم تھے اور پیپلز پارٹی نے سندھ میں تو نمایاں کامیابی حاصل کی تھی جس کی وجہ سے صدر غلام اسحق خان کو مجبوری میں وزیر اعظم بنانا پڑا تھا۔

نواز شریف جنرل ضیا کے دور میں پہلے پنجاب کے وزیر خزانہ بنائے گئے تھے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات جب جنرل ضیا نے کروائے تھے ان میں پیرپگاڑا کے کہنے پر جنرل ضیا نے محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنوایا تھا جن کی شہرت بہت اچھی تھی مگر ان کی جنرل ضیا سے نہ بن سکی تھی۔ جنرل ضیا نے 1985ء کے الیکشن میں نواز شریف کو وزیر اعلیٰ اس لیے بنایا تھا کہ انھیں کہا گیا تھا کہ نواز شریف امیر گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے وہ کرپشن نہیں کریں گے۔

غلام اسحق خان نے پہلی بار اپنی مرضی کے خلاف مجبوری میں نوازشریف کو وزیر اعظم تو بنایا تھا مگر انھیں پنجاب میں نواز شریف حکومت میں ہونے والی کرپشن اور کارکردگی کا پتہ تھا۔ وہ غلام مصطفیٰ جتوئی کو چاہتے ہوئے بھی وزیر اعظم نہیں بنا سکے تھے۔ غلام مصطفیٰ جتوئی اصول پرست اور ایماندار تھے۔ 1990ء میں نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تیسری بار بنائے گئے تھے وہ جونیجو حکومت کی برطرفی پر نگران وزیر اعلیٰ پنجاب بھی رہے تھے اور نواز شریف نے محمد خان جونیجو کا ساتھ چھوڑ کر 1988ء میں جنرل ضیا کا ساتھ دیا تھا جو ان کی جونیجو سے پہلی سیاسی بے وفائی تھی۔

نواز شریف خود کو بادشاہ سلامت سمجھ کر من مانی کے عادی تھے جس پر کرپشن کے الزامات بھی لگے تو غلام اسحق خان کو بینظیر کے بعد نواز شریف حکومت بھی ختم کرنا پڑی تھی کیونکہ صدر غلام اسحق خود کرپٹ نہیں تھے اس لیے ان سے کرپشن برداشت نہ ہوئی۔

1993ء میں بینظیر پھر اقتدار میں آئیں اور انھوں نے اپنے منہ بولے بھائی فاروق لغاری کو صدر مملکت بنوایا جن کی ایمانداری مشہور تھی۔ بینظیر کی پہلی حکومت میں مبینہ طور پر آصف زرداری مسٹر ٹین پرسنٹ اور دوسری حکومت میں ہنڈریڈ پرسنٹ کہلائے اورکرپشن پر بھائی نے بہن کی حکومت برطرف کی۔ جنرل پرویز مشرف نے 1999ء میں نواز شریف کی دو تہائی اکثریت کی حکومت برطرف کی اور نواز شریف اور آصف زرداری کی کرپشن کی تحقیقات کرائی جو عدالتوں میں ثابت نہ ہو سکی۔ مشرف دور میں پی پی پھر اقتدار میں آئی اورکرپٹ کہلانے والے آصف زرداری ملک کے صدر اور نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے۔

عمران خان نے اپنی سیاست دونوں کو چور ڈاکو قرار دے کر چمکائی اور دونوں پارٹیوں کے لوگ شامل کر کے حکومت میں آئے اور وہ ایک سال سے اب بھی دونوں کو چور ڈاکو قرار دیتے آ رہے ہیں مگر عدالتوں میں ثابت نہیں ہو رہے۔ اپوزیشن کی سب پارٹیاں عمران خان کو کرپٹ نہیں مگر نا اہل وزیر اعظم قرار دیتی آ رہی ہیں جو ان کے سیاسی نہیں حقیقی دشمن نظر آتے ہیں اور اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف ان کا رویہ سیاسی نہیں ذاتی دشمنی جیسا ہے وہ ان سے ملنا بھی پسند نہیں کرتے تو اپوزیشن کے پاس ایک سال برداشت کے بعد دھرنے اور آزادی مارچ کے سوا حکومت کو ہٹانے اور نئے الیکشن کے مطالبے کے سوا کچھ نہیں بچا اور یہ حالات خود حکومت نے پیدا کیے ہیں اس لیے اب بھی مفاہمت کا راستہ اختیار کرکے اپوزیشن کو روکا جا سکتا ہے اور چور ڈاکو ہونے نہ ہونے کا معاملہ عدالتوں پر چھوڑ دینا چاہیے یہ اختیار حکومت کا نہیں ہے لہٰذا ایک نان ایشو ہے۔

The post تو اور راستہ کیا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

آج کا ہٹلر

$
0
0

واقعہ یہ تھا کہ 1930ء میں طویل ترین جدوجہد ولاتعداد قربانیوں کے باعث اسپین میں حقیقی جمہوریت قائم ہوئی تھی۔ لوگوں کے لیے اصلاحی و فلاحی کاموں کا آغاز ہوچکا تھا بڑے بڑے جاگیرداروں سے زرعی اراضی جوکہ جنرلوں سے واپس لے کر چھوٹے و بے زمین کسانوں کو تقسیم کرنے کا عمل شروع ہو چکا تھا، انسانی حقوق بحال ہوچکے تھے گویا اسپین اب ایک مکمل جمہوری نظام کی جانب پیش قدمی کر رہا تھا، جو جاگیردار زرعی اراضی سے محروم ہوئے تھے۔

ان میں اکثریت ریٹائرڈ وحاضر سروس جنرلوں کی تھی۔ جب اسپین میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہو رہی تھیں تو دوسری جانب جرمن آمر ایڈولف ہٹلر جرمنی پر مسلط ہو چکا تھا اور پوری دنیا کو آگ و بارود کے حوالے کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھا چنانچہ ہٹلرکا اولین ہدف بنا اسپین۔

یہ ذکر ہے 1936ء کا چنانچہ ہٹلر نے اسپین کی نومولود جمہوریت پر شب خون مارتے ہوئے جنرل فرانکوکی پیٹھ ٹھونکی اور اسے اسپین پر مسلط کر دیا۔ ایڈولف ہٹلر کے اس اقدام سے خود ساختہ مہذب دنیا نے مکمل خاموشی اختیار کرلی تھی مگر دنیا کے جمہوریت پسند تڑپ ہی تو اٹھے اور آمر فرانکو کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ کر لیا اور ملکوں ملکوں سے جمہوریت پسند جن میں اہل قلم، کسان، عام محنت کش تھے اسپین میں آمر فرانکو کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ انمیں امریکا، فرانس، برطانیہ و جرمنی کے جمہوریت پسند بھی شامل تھے جو فوجوں کے دانت کھٹے کر رہے تھے۔

اسی باعث کہا جا رہا تھا کہ اسپین کے جمہوریت پسندوں نے دراصل یورپ کو بچا لیا ہے۔ ان جمہوریت پسندوں میں انگلستان سے تعلق رکھنے والا ڈیوڈ گیسٹ بھی شامل تھا جو شاعر تھا، ادیب تھا اور ماہر ریاضیات تھا۔ شریک تو اس جنگ میں رالف فاکس بھی تھا وہ ایک حساس ترین ادیب تھا مگر جب اسپین میں جمہوریت کے تحفظ کا معاملہ درپیش تھا تو قلم چھوڑ کر عملی طور پر جنگ میں شریک ہوگیا یوں یہ دونوں ادبا بھی جمہوریت کے تحفظ کی جنگ میں اپنی جانیں نچھاور کرگئے۔

ہٹلر اب وہ پوری دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھنے لگا تھا۔ اس سلسلے میں اس نے ایک خطرناک ترین فیصلہ کیا ، جرمنی میں اپنی نازی پارٹی کو منظم کرنے میں کامیاب ہوگیا تو اس نے جرمنی میں دیگر تمام سیاسی پارٹیوں پر پابندی عائد کردی اور تمام پارٹیوں کے فنڈ ضبط کرلیے بلکہ ٹریڈ یونین سرگرمیوں پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ ہٹلر بڑی ہوشیاری سے جرمن قوم کے ذہنوں پر سوار ہوچکا تھا، اس نے سرمایہ داروں سے وعدہ کیا کہ تمہیں اقتدار میں پورا پورا حصہ دیا جائے گا وکلا و ڈاکٹروں سے کہا گیا کہ تمہاری بیروزگاری کے باعث یہی یہودی جرمن ہیں۔ عوام کو شب و روز اس نے اسلحہ سازی پر لگادیا یوں بیروزگاری میں کمی کرنے میں اسے کامیابی حاصل ہوئی۔

جرمن عوام سے یہ بھی کہا گیا کہ اگر ہمارا منصوبہ کامیاب ہوگیا تو پوری دنیا ہمارے قدموں میں ہوگی۔ 1939ء تک فاشسٹ ہٹلر اٹلی کے آمر مسولینی و جاپان کے تشدد پسند حکمرانوں کو اپنا اتحادی بنانے میں کامیاب ہوچکا تھا۔ چنانچہ انھی حالات میں اس نے فوج میں جبری بھرتی کا اعلان کیا تو دنیا نے یہ اس کا اندرونی معاملہ قرار دیا۔

جب وہ چیکوسلواکیہ سے اس کا ایک ضلع سوڈیٹس لینے میں کامیاب ہوگیا تو دنیا خاموش رہی البتہ جب 18 مارچ 1939ء میں اس نے چیکوسلواکیہ پر قبضہ کرلیا تو دنیا نے آنکھیں کھولیں مگر اب کافی تاخیر ہوچکی تھی کیونکہ ہٹلر نے ایک قدم اور بڑھاتے ہوئے آسٹریا پر بھی قبضہ کرلیا دوسری جانب اٹلی کے آمر مسولینی ہٹلر کی پیروی کرتے ہوئے حبشہ پر چڑھ دوڑا پھر جاپان نے بھی موقع غنیمت جانا اور مانچوریا پر قبضہ کرلیا پھرکیا تھا ہٹلر کی قیادت میں جرمن اٹلی و جاپان کی فوجیں دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھتے ہوئے پوری دنیا کو تاراج کرتے رہے۔

سلواکیہ میں جیولیس فیوچک فرانس میں گیبریل پیری نے آزادی کی جنگ میں بالترتیب 25 اگست 1943ء و جولائی 1941ء میں پھانسی گھاٹ پر جانیں قربان کیں اور دنیا کو بتادیا کہ جبر کو جدوجہد سے ہی روکا جاسکتا ہے نہ کہ اپیل و گزارش کرنے سے۔ سرمایہ داروں کی سرپرستی میں جنگ کا کھیل کھیلنے والا ہٹلر 22 جون 1942ء میں محنت کشوں کی اولین ریاست سوویت یونین پر حملہ آور ہوا مگر یہاں اسٹالن کی قیادت میں عام فوج کم و اپنی ریاست کا دفاع کرنے کے لیے سرخ فوج کی تعداد زیادہ تھی جوکہ محنت کشوں پر مشتمل سوویت یونین میں جنگ نے کئی بار کروٹ بدلی کبھی جرمن تو کبھی سرخ فوج غالب آتے رہے اور بالآخر مئی 1945ء میں ہٹلر و اس کے حاشیہ بردار عبرت ناک شکست سے دوچار ہوگئے انجام یہ کہ پوری دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھنے والا ہٹلر نہ صرف جان سے گیا بلکہ اس کا اپنا ملک جرمنی دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔

اب ہم ذکرکرتے ہیں، آج کے ہٹلر کا یہ ہٹلر اچانک سامنے نہیں آیا بلکہ اس ہٹلر کے پس پردہ 72 سالہ آر ایس ایس کی انتہا پسندی کا فکروفلسفہ ہے، ہماری مراد ہے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جس کی مسلم دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ چنانچہ آج کیفیت یہ ہے کہ نریندر مودی نے تمام تر عالمی و اپنے ملکی قوانین کو نظرانداز کرتے ہوئے کشمیر کو جوکہ ایک 72 برس سے ایک متنازعہ ریاست ہے کو اس کی قانونی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کی کوشش کی ہے یہ ایک ایسا اقدام ہے جیساکہ ہٹلر نے چیکوسلواکیہ کے ایک ضلع سوڈیٹس پر اپنا حق جتاتے ہوئے اسے جرمنی میں شامل کر لیا تھا اور بعد میں پورے چیکو سلواکیہ پر قابض ہو گیا۔

چنانچہ نریندر مودی کی توسیع پسندی و ملک گیری کی خواہش اسے مزید اقدامات پر مجبور کرے گی اور وہ اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھتے ہوئے ماسوائے سری لنکا و مالدیپ کے دیگر تمام سارک ممالک کو اکھنڈ بھارت کا حصہ بنانے کے لیے عسکری اقدامات اٹھاتے ہوئے کوشش کرے گا، البتہ یہ ضرور ہے کہ نریندر مودی کے ناپاک عزائم کے راستے کی سب سے رکاوٹ ہے۔ پاکستان مگر عصر حاضر میں عسکری محاذ پر پاکستان کو شکست نہیں دی جا سکتی کیونکہ یہ 2019ء ہے 1965ء یا 1971ء نہیں ہے اور اگر بھارت دنیا کی چھٹی ایٹمی قوت ہے تو پاکستان بھی دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہے ۔

یہ ضرور ہے کہ بھارت پاکستان کے دیگر محاذوں پر سرگرم ہوچکا ہے بھارت کی کوشش ہے کہ پاکستان کو اقتصادی، تجارتی و سفارتی سطح پر کمزور کردیا جائے تاکہ پاکستان بھارت کے توسیع پسندانہ اقدامات میں رکاوٹ نہ بن سکے اور بھارت اگر پاکستان نہیں تو ممالک کو اکھنڈ بھارت کا حصہ بنا سکے۔ اگر بھارت ایسا کرے گا تو لازمی بات ہے بھارت ایشیا کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کا امن و استحکام برباد کرے گا چنانچہ ضروری ہے کہ پاکستان مودی کے ناپاک عزائم کا ادراک کرتے ہوئے سفارتی محاذ پر ڈٹا رہے اور مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرتا رہے تاوقت یہ کہ کشمیر کا مثبت حل نکل آئے۔

The post آج کا ہٹلر appeared first on ایکسپریس اردو.

قطع ید اور قطع سر

$
0
0

ہماری حالت بھی ’’ ان دنوں‘‘کچھ جگر مراد آبادی کی سی ہورہی ہے کہ

طبیعت’’ان دنوں‘‘بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے

مرے ’’حصے‘‘کی گویا ہر’’خوشی‘‘کم ہوتی جاتی ہے

آپ کو تو شاید اس حالت کاعلم نہ ہوکیونکہ آپ کو خدا نے اتنی اچھی اور مہربان حکومتیں دی ہوئی ہیں اور اتنے دانا دانشور اور شاعر وصورت گر وافسانہ نویس دے رکھے ہیں کہ وہ ہروقت آپ کو خوشیوں میں سرشار رکھتے ہیں اس لیے ’’غم‘‘کی دولت اور اس کی اہمیت اور لذت وذائقے کا اندازہ آپ کونہیں۔لیکن کچھ لوگ جن میں ہم بھی شامل ہیں کچھ اور دستیاب نہ ہونے پر ’’غم‘‘ہی سے رشتہ جوڑ لیتے ہیں۔ مرشد نے بھی کہا ہے کہ

نوحہ ہائے غم کوبھی اے دل غنیمت جانیو

بے صدا ہوجائے گا یہ سازہستی ایک دن

چنانچہ ہم بھی یہاں وہاں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر ’’غم‘‘ چنتے رہتے ہیں اور ان کے ساتھ ہنسی خوشی کھیل کھیل کر وقت بتاتے ہیں کہ بزرگوں نے بھی کہہ رکھا ہے کہ بے کاری سے بے گاری ہی اچھی ہے کچھ اور کام نہ ہو تو۔۔ پاجامہ ادھیڑ کر سیاکرچاہے کسی کا بھی ہو اور ہماری تو طبیعت ہی ایسی ہے کہ

ہرخوشی میں کوئی غم یاد دلادیتاہے

دل کا یہ رخ میری آنکھوں سے نہاں تھاپہلے

بڑے مزے بڑے آرام اور اطمینان سے پہلے ’’کرپشن‘‘کرپشن کھیلتے تھے پھر اس کی سوتیلی بہن مہنگائی کے ساتھ بھی صحبت رہنے لگی۔لیکن آندھی آئی کہ وہ دونوں بھی نہ جانے کہاںکھوگئیں اور اس کی جگہ جو ظلم ہوشربا اور نوراکشتی آئی ہے اس کے بارے میں ہم ککھ بھی نہیں۔ اس لیے کہیں اور سے کچھ نہ کچھ مصروفیت ڈھونڈ ہی لیتے ہیں اور پرانی حکایتوں اور شکایتوں میں وقت بتاتے ہیں

کبھی شکایت رنج گراں نشیں کہیے

کبھی حکایت صبر گریز پا کہیے

اسی مصروفیت میں ایک حکایت ملی۔اس حکایت کا تعلق ریاست بغداد سے ہے جو ریاست مدینہ کے بعد برپا ہونے والی ریاست دمشق کے بعد تیسرے نمبر پر آئی تھی۔اس ریاست بغداد کے حاکم ہارون الرشید کے پاس ایک بزرگ بیٹھے ہوئے تھے۔حضرت بہلول جو بہلول دانا اور بہلول دیوانہ دونوں ناموں سے مشہور ہیں کیونکہ وہ دیوانگی میں دانائی اور دانائی میں دیوانگی کرتے تھے۔ کیونکہ ’’ شراب معرفت‘‘کے عادی  تھے

لا پلادے ساقیاپیمانہ پیمانے کے بعد

ہوش کی باتیں کروں گا ہوس کے ’’جانے کے بعد‘‘

ہارون الرشید نے بہلول سے پوچھا کہ چور کے ’’قطع ید‘‘یعنی ہاتھ کاٹنے کے بارے میں آپ کا کیاخیال ہے یہ ’’ قطع ید‘‘یعنی چور کے ہاٹھ کاٹنے کی سزا اکثرلوگوں کوہر دور میں ’’ظالمانہ‘‘لگتی ہے اور اس پر ’’لے دے‘‘ ہوتی رہی ہے کیونکہ ہر بااختیار شخص کے اندر کہیں نہ کہیں چور بیٹھا ہوتاہے اور اس چور کی داڑھی میں تنکابھی ہوتاہے اور وہ اس ’’تنکے‘‘کو ہٹانے یا چھپانے کے لیے کسی کنگھی کی تلاش میں ہوتا ہے لیکن بہلول جسے لوگ نہ کنگھی کرتے ہیں نہ رکھتے ہیں اور نہ کسی کی ڈاڑھی…چنانچہ انھوں نے مختصر الفاظ میں فرمایا۔اگرچور نے چوری مستی کے مارے کی ہے تو اس کا ہاتھ کاٹنا چاہیے اور اگرنیستی کے مارے کی ہے تو پھر ’’سر‘‘کاٹنا چاہیے لیکن چور کا نہیں حاکم وقت کا۔ اب یہ تو معلوم نہیں ہوسکاہے کہ اس کے بعد کیا ہوا۔

عام طور پر بادشاہ لوگ توایسی باتوں پر ایسے لوگوں کو ’’ٹوپی‘‘کی ضرورت سے بے نیاز کرکے ’’سر‘‘ہی سے محروم کردیتے ہیں کہ نہ رہے سر اور نہ خریدنا پڑے ٹوپی۔لیکن ہارون الرشید بھی کسی حدتک رحم دل آدمی تھا اور حضرت بہلول بھی کوئی معمولی ہستی نہ تھے۔دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں سے ایسی باتیں سن کر وہ کچھ ایسا ویسا کرنے کے بجائے انھیں’’نقد ہسنا‘‘سے نواز دیتے ہیں لیکن حضرت بہلول اس کیٹگری کے بھی نہیں تھے اس لیے یقیناً ہارون الرشید کی بات پر ہنسے ہوں گے یا روئے ہوں گے کیونکہ یہ بھی شاہوں بادشاہوں اور شہزادے شہزادیوں کا ایک کام ہوتاہے۔لیکن اغلب یہی ہے کہ ہنسے ہوں گے یعنی حضرت بہلول کو ’’قرض ہسنا‘‘ دیا ہوگا۔پھروہی ہوا جس کی توقع تھی کہ بیچ میں اس’’ قرض ہسنا‘‘نے دمُ ہلانا شروع کردی ہے اس لیے ہم ہاتھ اور سر کوچھوڑ کر’’دمُ‘‘پرآتے ہیں۔ ’’قرض ہسنا‘‘کے بارے میں علما،فضلا اور حکما بلکہ ’’حمقا‘‘ تک ہر کسی نے کچھ نہ کچھ کہاہوا ہے۔

اکثر علمائے قرض اور حمقائے ’’ہسنا‘‘اس پرمتفق ہیں کہ ’’قرض ہسنا‘‘ وہ قرضہ ہوتاہے جس کا دینے والا بھی ہنستا ہے اور لینے والا بھی کیونکہ اس کے آخر میں دونوں کے درمیان لین دین کے بجائے ’’معاف‘‘کرنے کا سلسلہ ہوجاتاہے دونوں ہی ہنستے ہیں کہ یہ ’’قرضہ‘‘دونوں میں سے کسی کے پلے سے بھی نہ دیاجاتاہے نہ معاف کیاجاتاہے اور جن کے پلے سے جاتااور آتاہے وہ اگر ’’روئیں‘‘ بھی توکیافرق پڑتا ہے کہ پیداہی قرض دینے اور رونے کے لیے ہوتے ہیں اور کالانعام کہے جاتے ہیں۔

سب کچھ عین معمول کے مطابق ہے۔ حسب معمول، حسب رواج، حسب روایت اور حسب عادت قرضے لیے بھی جاتے ہیں حسب معمول حسب رواج حسب روایت اور حسب عادت معاف بھی کردیے جاتے اور کالانعام بھی حسب معمول حسب روایت اور حسب عادت روتے رہتے ہیں۔ خیر ہمیں نہ قرض سہنا سے تعلق ہے نہ نقد سہنا سے کہ یہ کام ہی ہمارے لیول سے اوپرکا ہے یعنی دنیا سے ہم نے لیا کیا؟دنیا نے ہم کودیا کیا؟یا

نے سبحہ سے علاقہ نہ ساغر سے واسطہ

میں معرض مثال میں ’’دست بریدہ‘‘ہوں

بات پھر ’’قطع ید‘‘اور دست بریدہ پرآگئی لیکن اپنے ہاں یہ دونوں سزائیں یعنی ہاتھ یا سرکاٹنے کی اس لیے لاگو نہیں ہوسکتیں کہ جن جن چوروں کوچوری میں سزا ملتی ہے یا سزاوار ہوتے ہیں ان کے ہاتھ پہلے ہی سے کٹے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ ہاتھ کٹے ہوئے ہونے کی وجہ سے تو وہ  چوری کرنے پرمجبور ہوتے ہیں نہ ان کے ہاتھ ہوتے ہیں نہ ہاتھ میں کچھ ہوتاہے بلکہ جیب اور پیٹ میں بھی کچھ نہیں ہوتا تو ان کا آخرکیاکاٹا جائے گا۔ رہے سروالے جو آج کل سرجی کہلاتے ہیں ان کے سر اگرکاٹ لیے گئے توپورے ملک میں ٹوپیوں پگڑیوں اور دستاروں کی تجارت ہی ختم ہوجائے گی۔ کسی کا سر ہوگاتو اس پرکچھ پہنیں گے ناں۔اور پھرلوگ بھی اتنے زیادہ ’’بے سر‘‘دیکھیں گے تو کیا کہیں گے؟

The post قطع ید اور قطع سر appeared first on ایکسپریس اردو.

لیاری لٹریچر فیسٹیول، ایک کامیاب کوشش

$
0
0

لیاری کراچی کا دل ہے جس نے تحریک آزادی کے دوران اور پھر آزادی کے بعد سیاسی تحریکوں میں اہم کردار ادا کیا ہے مگر لیاری صرف سیاسی تحریکوں میں ہی آگے نہیں رہا بلکہ ادبی ، ثقافتی اور کھیل کی سرگرمیوں میں بھی نمایاں رہا ہے۔ اس نے صرف سیاستدان ہی پیدا نہیں کیے بلکہ ادیب، شاعر، صحافی،جج، فنکار ، فٹ بالرز اور باکسنگ کے نامور کھلاڑی بھی پیدا کیے۔ مکینوں نے غربت کی زندگی میں تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگرکیا ۔

گزشتہ صدی کے آخری عشروں میں لیاری ، گینگ وار کا شکار ہوا اور نئی صدی کا ایک عشرہ جنگ و جدل میں گزر گیا، یوں پورے ملک میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ لیاری میں صرف ٹارگٹ کلنگ ، اغواء ، تشدد اور بھتے کی وصولی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ عوام نے گینگ وار کے کارندوں کے خلاف سخت مزاحمت کی اور نوجوانوں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ لیاری کے حقیقی امیج کو ظاہر کرنے کے لیے منظم انداز میں کوشش کی جائے، یوں لیاری میں ثقافتی سرگرمیوں کو منعقد کرنے کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ پیپلزپارٹی کے تیسرے دور میں لیاری میں خاطرخواہ ترقی ہوئی۔ لیاری میں بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی قائم ہوئی، ایک میڈیکل کالج بنا، بہت سے ٹیکنیکل تعلیمی ادارے وجود میں آئے۔

بے نظیر یونیورسٹی لیاری کے وائس چانسلر ڈاکٹر اختر بلوچ بنے۔ ڈاکٹر اختر بلوچ لیاری کی گلیوں میں جوان ہوئے ہیں۔ انھوں نے بھی زندگی کا ابتدائی حصہ طلبہ تحریک میں گزارا ہے۔ ڈاکٹر اختر بلوچ نے بے نظیر یونیورسٹی کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے انتھک محنت کی۔

انھوں نے نہ صرف تدریسی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے بلکہ غیر تدریسی سرگرمیوں کی بھی حوصلہ افزائی کی۔ ڈاکٹر اختر بلوچ ، سماجی کارکن سعدیہ بلوچ، پروین ناز اور فہیم ناز وغیرہ نے بے نظیر یونیورسٹی میں لیاری لٹریچر فیسٹیول کا اہتمام کیا۔ یہ کسی یونیورسٹی میں منعقد ہونے والا پہلا لٹریچر فیسٹیول ہے۔ یہ فیسٹیول یونیورسٹی کی ہفتہ وار تعطیلات یعنی ہفتہ اور اتوار 21 اور 22 ستمبر کو منعقد ہوا۔ اس فیسٹیول میں ادب، شاعری، صحافت، ماحولیات اور تجاوزات کے مسائل،ٹی وی شو، شہری مسائل، لیاری کی صورتحال، انتہاپسندی کے خاتمے میں کلچر اور یونیورسٹیوں کے کردار اور دیگر موضوعات پر سیشن منعقد ہوئے۔

پھر مشاعرہ ہوا۔ ایک دن قوالی ہوئی، موسیقی کے پروگرام منعقد ہوئے۔ مختلف قومیتوں کی ثقافتی زندگی اور مختلف علاقوں کی موسیقی پر ڈاکیومینٹری دکھائی گئی۔ بلوچ ثقافت کے ورثہ کی نمائش کے لیے اسٹال لگے۔ مختلف پبلشرز نے کتابوں کے اسٹال لگائے۔ ان اسٹالوں پر اردو، سندھی، بلوچی اور انگریزی زبان کی کتابیں رکھی گئیں۔ یوں اس فیسٹیول میں شرکت کرنے والے افراد کی تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی۔

ان میں خواتین کی بھاری تعداد بھی شامل تھی۔ نوجوان لڑکیاں بلوچ کڑھائی والے کپڑوںمیں ملبوس فیسٹیول میں دودن تک متحرک رہیں۔ فیسٹیول میں لیاری کے شاعروں،ادیبوں کی تصاویر آویزاں کی گئیں۔ لیاری سے تعلق رکھنے والے شاعر ن م دانش جو عرصہ دراز سے امریکا میں مقیم ہیں انھیں بھی یاد کیا گیا۔ لٹریچر فیسٹیول کا تصور بھارت کے شہر جے پور سے آیا۔ جے پور ایک تاریخی شہر ہے۔ اس شہر میں راجستھانی ثقافت کی نمایندگی کرنے والی عالیشان عمارتیں موجود ہیں۔

دنیا بھر سے ادیبوں، شعراء، فنکاروں کو تین دن تک جے پور میں جمع کیا جاتا تھا۔ ان تین دنوں میں بہت سے موضوعات پر سیشن منعقد ہوتے تھے۔ اس فیسٹیول کا ایک بڑا مقصد سیاحت کو ترقی دینا تھا۔ دنیا بھر سے سیاح تاریخی مقامات کو دیکھنے کے لیے جے پور جاتے ہیں۔ اس لٹریچر فیسٹیول سے سیاحت کے شعبہ کو مزید تقویت حاصل ہوئی۔

کتابوں کے بین الاقوامی پبلشر آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے کراچی میں لٹریچر فیسٹیول شروع کیا۔ یہ فیسٹیول کراچی شہر کا ایک بڑا ادبی ایونٹ بن گیا۔ اس فیسٹیول میں بین الاقوامی شہرت یافتہ ادیب، شعراء، تاریخ دان، صحافی، فنکار اور انسانی حقوق کے کارکن مدعو ہوتے اور دنیا بھر کے موضوعات پر ماہرانہ رائے دیتے، یوں کتابوں کے اسٹال لگتے۔ ڈاکیومینٹریز دکھائی جاتیں، موسیقی پیش کی جاتی، ہزاروں افراد پورے سندھ سے اس فیسٹیول میں شرکت کے لیے آتے ہیں۔ پھر لاہور، اسلام آباد اور فیصل آباد وغیرہ میں بھی لٹریچر فیسٹیول منعقد ہونے لگے۔

کراچی میں گزشتہ کئی برسوں سے سندھ لٹریچر فیسٹیول منعقد ہوتا ہے۔ اس فیسٹیول میں ادیب، شعراء، دانشور، فنکار اور اساتذہ کو مدعو کیا جاتا ہے جو مختلف سیشن میں اپنی رائے دیتے ہیں۔ اس فیسٹیول میں اردو اور سندھی بولنے اور لکھنے والے ادیب، شاعر اور اساتذہ بھرپور انداز میں حصہ لیتے ہیں۔ اس سال کے شروع ہونے والے سندھ لٹریچر فیسٹیول کے مہمان خصوصی دور حاضر کے مایہ ناز مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی تھے۔

جنھوں نے سندھ کی تاریخ اور عوامی تاریخ کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی تھی مگر لیاری لٹریچر فیسٹیول اپنی نوعیت کا منفرد فیسٹیول تھا۔ اس فیسٹیول میں شرکت کرنے والوں میں اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ لیاری کے نوجوانوں کی تعداد خاصی تھی جس میں نوجوان لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ شہر کے مختلف علاقوں سے نوجوان آئے تھے۔

کچھ نوجوان تو بلوچستان سے بھی آئے تھے۔ اس طرح جو مختلف موضوعات اس فیسٹیول میں زیر بحث رہے وہ زندگی کے بنیادی معاملات کے بارے میں تھے۔ ان موضوعات پر اظہار خیال کرنے والوں میں نوجوان اور ادھیڑ عمر کے لوگ زیادہ تھے۔ اس فیسٹیول میں لیاری کے نوجوانوں کو خوب اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع ملا۔ لیاری سے تعلق رکھنے والے ایک شاعر آصف علی آصف نے اردو مشاعرہ میں اپنی نظم ’’منظوم‘‘ پیش کی۔

لیاری کے پرانے سیاسی کارکن عثمان بلوچ نے لیاری میں تجاوزات اور ماحولیات کے موضوع پر ہونے والے سیشن میں کہا کہ لیاری کے قدیم باسیوں کو نظرانداز کیا گیا اور باہر سے آنے والوں نے حالات خراب کیے مگر قدیم باسیوں نے جدوجہد کے بجائے خاموشی اختیار کی۔ اسی طرح ایک سماجی کارکن سعید بلوچ نے کہا کہ ایک زمانے میں لیاری میں جامن اور دیگر پھلوں کے درخت ہر طرف نظر آتے تھے، یوں ماحول بہتر تھا، کے ڈی اے والوں نے درخت کاٹ دیے۔

کنکریٹ کی عمارتوں کی تعمیر کی اجازت ہوگئی۔ لیاری کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہوگیا اور ماحولیات تباہ ہوگئی۔ ناہید اسرار نے ایک سیشن میں کہا کہ کراچی کے عوام میں زبردست تخلیقی صلاحیتیں ہیں۔ ان کی سرپرستی کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غریبوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا اندازہ ہر رکشہ اور بس کے پیچھے لکھی ہوئی شاعری اور تصاویر سے ہوتا ہے۔ معروف ادیبہ نور الہدیٰ شاہ نے کہا کہ تخلیقی ذہن انقلاب برپا کرسکتا ہے۔ سرکاری یونیورسٹی میں موسیقی، رقص، قوالی، شاعری اور آزادی رائے کا اظہار طلبہ اور اساتذہ کے لیے ایک نیا تجربہ ہے۔

بے نظیر یونیورسٹی میں لٹریچر فیسٹیول کا انعقاد ایک امید کی نوید ہے۔ انتہاپسندی پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ موسیقی اور رقص انتہا پسندی کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ فیسٹیول نے لیاری کے مثبت امیج کو اجاگر کرنے میں جو کردار ادا کیا ہے اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ یہ لٹریچر فیسٹیول ایک غیر سرکاری تنظیم ’’مہردر پروڈکشن‘‘ نے بے نظیر بھٹو یونیورسٹی کے اشتراک سے منعقد کیا۔یہ مہر در پروڈکشن اور بے نظیر یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلباء کی پہلی کوشش تھی جس پر یہ سب مبارک باد کے مستحق ہیں۔ایسے فیسٹیول صوبے کی ہر یونیورسٹی میں منعقد ہونے چاہئیں۔

The post لیاری لٹریچر فیسٹیول، ایک کامیاب کوشش appeared first on ایکسپریس اردو.


دنیا خبردار رہے

$
0
0

وزیر اعظم پاکستان ان دنوں امریکا میں موجود ہیں اور ایک ایسے وقت امریکا میں موجود ہیں جب جنوبی ایشیاء میں انسانی تاریخ کا بد ترین بحران جنم لے چکاہے۔ بھارت کی جانب سے کشمیریوں کو گھروں میں بند کیے گئے دو ماہ ہونے کو آئے ہیں، پاکستان دنیا کے ہر فورم پر کشمیریوں کا مقدمہ نہایت کامیابی سے پیش کر رہا ہے اور دنیا کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی عروج پر پہنچ چکی ہے۔

اَسی َلاکھ مسلمان زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں مگر دنیا کے ترقی یافتہ ، جمہوریت کا راگ الاپنے اور انسانی حقوق کی پامالی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ممالک پر ابھی تک جوں بھی نہیں رینگی سوائے مسلمان ملک ترکی کے جس کے وزیر اعظم نے نیویارک میں کھڑے ہو کر پاکستان کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے کشمیر اور مسلمان کشمیریوں کے حالات اقوام عالم تک پہنچائے ہیں۔

مجھے محسوس یوں ہوتا ہے کہ ترکی کے وزیر اعظم کو ان کے ترک آباؤ اجدادکی جانب سے جنگ آزادی میں برصغیر کے مسلمانوں کی جانب سے پیش کی گئی قربانیوں کی داستانیں یاد ہیں اور وہ ان کے ذہن سے ابھی محو نہیں ہوئیں اس لیے وہ برصغیر کے مسلمانوں کی حمایت کر کے ان کا احسان یاد کر رہے ہیں جب ہماری ماؤں بہنوں نے اپنے زیورات تک اتار کر جنگ آزادی کے لیے پیش کر دئے تھے۔

یہ بات الگ ہے کہ جب ہمارے ایک وزیر اعظم کی بیگم کو ترکی کے وزیر اعظم کی بیگم نے اپنے گلے سے ہار اتار کر دیا تو ان کا یہ عمل بھی اس احسان کی یاد تازہ کرنے کے لیے ہی تھا مگر ہمارے وزیر اعظم کی بیگم صاحبہ نے وہ ہار قومی خزانے میں جمع کرانے کے بجائے اپنے  پاس رکھ لیا اور بعد میں جب اس کی پڑتال شروع ہوئی تو ان کو وہ انمول ہار واپس جمع کرانا پڑ گیا۔ یہ ہمارا قومی کردار ہے کہ ہم ہر جگہ سے لوٹ مار کر لیتے ہیں اور پھر اس پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔

دوسری طرف اگر ہم اپنے دوسرے مسلمان ممالک جن کو ہم مسلم امہ کا نام دیتے ہیں اورپاکستان ازخود ان کی حفاظت کی ذمے داری کا اعلان بھی کرتا رہتا ہے انھوں نے کشمیر کے اہم مسئلہ پر جس سرد مہری کا مظاہرہ کیا ہے اس کی بھی مسلمانوں کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔کل ہی ہمارے ہمسایہ ملک ایران جس کے لیے ہمیں امریکا نے ثالث بنایا ہے ان کے صدر نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے عالم اسلام کو مختلف ممالک کے ساتھ درپیش تنارعات کا بڑے جوش سے ذکرکیا ہے مگر کشمیر کے بارے میں ایک لفظ بھی ان کے منہ سے نہیں نکلا۔ حالانکہ ہم مسلم امہ کی دستگیری کے لیے مرے جارہے ہوتے ہیں مگر مسلم امہ کا جو کردار ہم دیکھ رہے ہیں اس کردار کو دیکھ کر پاکستان کو اپنے مستقبل کی ترجیحات طے کرنی چاہئیں۔

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اقوام عالم کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے متعلق جس مایوسی کا اظہار کیا ہے وہ بالکل درست ہے اور ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کی مختلف عالمی پلیٹ فارم پر کشمیر کے بارے میں دہائی کے باوجود کوئی بھی ملک ٹس سے مس نہیں ہورہا اس لیے ہمارے وزیر اعظم دنیا کے اس رویے سے مایوس ہیںاور افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔

یہ بات بھی بالکل درست پیرائے میں کہی جارہی ہے کہ جنوبی ایشیا  میں دنیا کی دو بڑی ایٹمی طاقتوں کے درمیان تنارعہ کشمیر میں موجودہ صورتحال زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھی جا سکتی اَسی لاکھ کشمیری قیدو بند کی صورتحال کا شکار ہیں خوراک اور دواؤں کے ذخیرے ختم ہو رہے ہیں اس صورتحال میں صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے اور یہ پیمانہ چھلک پڑنے کو ہے ۔

عمران خان دنیا کو خبردار کر رہے ہیں کہ دنیا اگر پاکستان کی حمایت اس لیے نہیں کر رہی کہ بھارت کے ساتھ اس کے تجارتی مفاد وابستہ ہیں تو دنیا کویہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر دو ایٹمی ملکوں میں کشمیر کا تنارعہ جنگ کی صورت اختیار کر جاتا ہے تو پھر بھارت کے ساتھ دنیا کے تجارتی تعلقات کا کیا بنے گا۔

کیونکہ یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان اپنی امن کی لاکھ کوشش کے باوجود اگر جنگ کی بھٹی میں دھکیل دیا گیا تو پاکستان اور بھار ت کی جنگ روایتی جنگ نہیں ہو گی۔ یہ جنگ عالمی جنگ کا روپ اختیار کرے گی۔ بھارت میں اگر ایک ارب سے زائد انسان موجود ہیں تو کشمیر کے ہمسائے میں چین میں بھی یہ تعداد ایک ارب سے زائد ہے جب کہ پاکستان کی اکیس کروڑ عوام شہادت کا درجہ پانے کے لیے اگلے مورچوں میں ہو گی۔

امریکا کے صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر عمران خان اور مودی کو زبانی کلامی کہا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کردیں انھوں نے بھارت کی جانب سے مسترد کردہ اپنی ثالثی کی پیشکش کا پھر اعادہ کیا ہے ۔ اصل میں امریکا کشمیر کے مسئلے پر اپنا کردار ادا نہیں کر رہا ۔ امریکی صدر مودی کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر جلسے کر رہے ہیں ۔

ہمارے وزیر اعظم کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ جنوبی ایشیاء میں اس وقت جو حالات ہیں ان میں حکمرانی کرنا مشکل کام ہے ۔ عمران خان نیویارک میں دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہوں سے مل رہے ہیں اور کشمیر پر اپناموقف ان پر واضح کر رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ پاکستان کا جو موقف ہے وہ بڑا واضح ہے اور پہلی دفعہ وزیر اعظم پاکستان کشمیر پر اپنا دوٹوک موقف دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں ۔ بھارت اور اس کی حامی دنیا کو اس پاکستانی موقف کی روشنی میں دنیا کے اس ایٹمی خطے کا جائزہ لینا چاہیے ۔ اس کے بغیر اس خطے میں امن کی پائیداری ممکن نہیں ہے۔ بات بڑی صاف ہے کہ کشمیر جیسے بنیادی بلکہ واحد تنارع کا حل نکالا جائے جس کے بعد ہی ایٹمی پاکستان بھارت کی طرف دوستی کا مضبوط ہاتھ بڑھا سکتا ہے۔

اس سے پہلے دوستی کی پیشکشوں کو ہماری کمزوری سمجھا گیا۔ پاکستان کوئی کمی کمین نہیں ہے کہ صرف یہی دنیا کا ہر مطالبہ تسلیم کرے اور بھارت اس خطے میں اپنی من مانیاں کرتا رہے۔ عمران خان دنیا کو بروقت خبردار کر رہے ہیں۔

The post دنیا خبردار رہے appeared first on ایکسپریس اردو.

پابندیاں

$
0
0

آئے گئے ہر طرف جعلی اکاؤنٹس کا چرچا ہونے لگا ، یوں نامعلوم اشرافیہ کے کارناموں سے دنیا حیران ہوگئی ،آمدنی سے زیادہ اثاثوں کا ایک سلسلہ چل پڑا ،کرپشن کا ایک بھونچال آگیا۔اس تناظر میں نیب غیر معمولی طور پر ایکٹیو ہوگیا اور بڑے بڑے لوگ جن میں سابق صدر اور وزیر اعظم شامل ہیں۔ کرپشن کے الزام میں پکڑ لیے گئے۔

پاناما اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد کرپشن کا جو بھونچال آگیا، نیب اس کے بعد ایکٹیو ہوگیا اور بیسیوں اعلیٰ درجے کے شہری ’’ اشرافیہ ‘‘ گرفتاریوں کی زد میں آگئے۔ ایک عام تاثر یہ ہوگیا کہ اہل سیاست نے لوٹ مارکی حد کر دی۔ اس تناظر میں کسی نہ کسی احتسابی ادارے کا ایکٹیو ہونا ایک فطری بات تھی سو نیب نے یہ ذمے داری پوری کی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عوامی دولت کی اس لوٹ مار کی کہانیاں کیا فرضی تھیں یا ان میں کوئی حقیقت تھی؟

عام طور پر قومی دولت کی لوٹ مارکی یہ داستانیں حکومتوں کی تبدیلی کے بعد منظر عام پر آئیں ، پچھلے دس سالوں سے وہی دو جماعتیں برسر اقتدار رہیں جن کا نام کرپشن کے حوالے سے زبان زد عام ہوگیا تھا۔ 2018 سے پہلے بھی ملک میں احتسابی ادارے موجود تھے اور مبینہ طور پر بھاری کرپشن کا ارتکاب بھی ہورہا تھا پھر اس وقت کے احتسابی اداروں نے کارروائی کیوں نہیں کی؟ اس سوال کا جواب یہ دیا جا رہا ہے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا تھا سو پکڑنے والا کون تھا؟

نیب آرڈیننس کے حوالے سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے نیب آرڈیننس میں ترمیم کا بل متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ گرفتاریوں کے لیے چیئرمین نیب کا اختیار ختم کردیا گیا۔ ملزموں کو دوران تفتیش گرفتار نہیں کیا جائے گا، غلط الزام یا غلط تفتیش پر نیب افسر جوابدہ ہوگا، پلی بارگین عدالت کی اجازت سے ہوگی۔ نیب کے اختیارات کے حوالے سے اہل سیاست بہت شاکی تھے اور تسلسل کے ساتھ اس میں ترامیم کے خواہاں تھے۔

اب سیاستدانوں کی آرزو پوری ہوگئی ہے، نیب آرڈیننس میں ترمیم کردی گئی ہے۔ کسی بھی مبینہ ملزم کوگرفتار کرنے کے لیے چیئرمین نیب کو مکمل اختیارات حاصل تھے، جس کے حوالے سے سیاستدانوں کا موقف یہ تھا کہ چیئرمین نیب ان اختیارات کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ کسی کو گرفتار کرنے کے لیے الزام کوکافی سمجھا جاتا تھا۔ یہ اس حوالے سے ایک غلط پریکٹس تھی کہ الزام لگانے کے لیے کسی قسم کی کوئی شرط نہ تھی جس کی وجہ بہت سارے بے گناہ لوگ بھی پکڑے جاتے تھے اس کا ازالہ ضروری تھا ، سوکر دیا گیا۔

اس حوالے سے پہلی بات یہ ہے کہ نیب کب سے ایکٹیو ہوا ہے اورکیوں ہوا ہے؟ نیب کوئی نیا ادارہ نہیں ہے یہ برسوں سے کام کر رہا ہے لیکن عمران حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد اہل سیاست پرکرپشن کے الزامات کی بارش ہوگئی۔ جعلی اکاؤنٹس کا ایک ایسا سلسلہ چل پڑا کہ وہ غریب جنھوں نے کبھی پچیس پچاس ہزارکی رقم وقت واحد میں نہیں دیکھی تھی، ان کے اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے آگئے جس پر نیب نے پکڑ دھکڑ شروع کی۔

الزامات صرف اشرافیہ پر ہی نہیں لگے بلکہ اشرافیہ کی آل اولاد اور قریبی رشتے داروں پر بھی لگے اور ان میں سے کئی ایک پکڑے جانے کے خوف سے ملک ہی سے فرار ہوگئے جس کا مطلب یہ لیا گیا کہ کچھ نہ کچھ دال میں کالا ہے یا پوری دال ہی کالی ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کرپشن سے شروع ہوتا ہے اور کرپشن پر ختم ہوتا ہے۔ منی ریس سرمایہ دارانہ نظام کا ایک ایسا لوازمہ ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور اس نظام میں کرپشن قطعی ناگزیر بنی ہوئی ہے۔

اس حوالے سے جعلی اکاؤنٹس کا ایک ایسا بھونچال آیا کہ غریب اور گمنام لوگوں کے اکاؤنٹس میں غیب سے کروڑوں روپے آگئے۔ کیا یہ بھاری رقوم آسمان سے ٹپکی تھیں یا ہماری اشرافیہ کی کاری گری تھی کیا ہمارے کسی قومی ادارے نے اس کی چھان بین کی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب 72 سالوں پر پھیلا ہوا ہے ملک کو قائم ہوئے 72 سال ہوئے اس دوران ہر طرف کرپشن ہی کرپشن کا بول بالا تھا کوئی احتساب تھا نہ کوئی احتسابی ادارہ ایکٹیو تھا اشرافیہ تھی اور اس کے کارندے تھے اور لوٹ مار کا بازار تھا۔ لوٹ مار کے مرتکب اس قدر نڈر اور بے باک تھے کہ کسی کو احتساب کا کوئی خوف تھا نہ کوئی احتسابی ادارہ ایکٹیو تھا۔

پی ٹی آئی حکومت کو اقتدار سنبھالے ہوئے لگ بھگ ایک سال ہو رہا ہے، اشرافیہ پر مشتمل اپوزیشن اس عرصے میں حکومت پر بہت سے الزامات لگاتی رہی لیکن یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ حکومت پر کرپشن کا ایک بھی الزام نہیں لگایا جاسکا۔ اس کے باوجود ہماری اپوزیشن رات دن ایک ہی بات دہرا رہی ہے کہ ہم حکومت کو گرا کر رہیں گے۔ لیکن یہ نہیں بتا رہی ہے کہ اس کا جرم کیا ہے؟ یہ کہانی سرمایہ دارانہ نظام کی طرح لمبی ہے یہ چلتی رہے گی۔

نیب اپوزیشن کی آنکھوں میں کھٹک رہی تھی اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے گئے۔ بڑی اچھی بات ہے لیکن اس کے بعد کیا ہوگا۔ کیا کرپشن ختم ہوجائے گی؟ ایسا ممکن نہیں کیونکہ کرپشن اور سرمایہ دارانہ نظام کا چولی دامن کا ساتھ ہے اب سوال یہ ہے کہ نیب قوانین میں ترمیم کے بعد احتساب کا کیا ہوگا؟ پرانے درجنوں کرپشن کے کیس ہیں اور نئے آ سکتے ہیں کرپشن رکتی ہے نہ رکے گی۔ کیونکہ اشرافیہ کی عیاشیوں کو جاری رکھنے کے لیے کرپشن ناگزیر ہے ۔

اب کسی نیک احتسابی ادارے سے صرف ایک کام کروایا جائے کہ بلاتخصیص یہ دیکھا جائے کہ اشرافیہ کے کون سے محترمین کے پاس آمدنی سے سو گنا زیادہ اثاثے ہیں اور یہ کام ایسے ادارے سے کرایا جائے جو مکمل آزاد اور غیر جانبدار ہے۔

The post پابندیاں appeared first on ایکسپریس اردو.

مچھر طاقتور ترین دشمن ہے!

$
0
0

چاردن پہلے مین گیٹ پرنصب گھنٹی بجی۔ملازم نے واپس آکربتایاکہ کسی سرکاری محکمہ سے ایک مرداورایک خاتون تشریف لائے ہیں۔پوچھ رہے ہیں کہ گھرمیں کوئی ایساپانی کاٹینک یاگملے موجودتونہیں ہیں جن میں مچھرپرورش پا سکیں۔دراصل وہ ڈنگی مچھرکے متعلق دریافت کررہے تھے۔

گھرکے اندرآنے دیا۔دونوں نے اطمینان سے گھر میں جمع شدہ پانی کودیکھا۔کہنے لگے کہ ہم سرکاری ملازم ہیں اورگھرجاجاکرلوگوں کوبتارہے ہیں کہ گملوں،پودوں اور دیگر جگہ پانی کوجمع نہ ہونے دیں۔ اس میں مچھروں کی افزائش ہوسکتی ہے اورڈنگی وائرس جومچھروں کے اندرہی پنپتا ہے، آزارکاباعث بن سکتاہے۔ڈنگی مہم کے تحت گھر گھر جا کر بتاناانکی سرکاری ذمے داری تھی۔

تسلی کے بعدوہ اگلے گھرچلے گئے۔ڈنگی کے خلاف ایک ترتیب شدہ مہم دیکھ کرقدرے اطمینان ساہوا۔اسی درجہ کی اہم بات کہ آبادیوں میں سرکاری ملازمین کی اس مہم کی کوئی خبراخبارمیں نہیں دیکھی۔یعنی اس کوشش کوپروپیگنڈے کے طورپراستعمال نہیں کیاگیا۔جس بلاک میں رہتاہوں وہاں اردگردمکان تعمیرنہیں ہوئے۔ اس وجہ سے ہرطرف درخت اور جھاڑیاں کثیرتعدادمیں موجود ہیں۔یہاں مچھروں کا ہونا بالکل قدرتی ہے۔ مگر ابھی تک لاہورکایہ علاقہ ڈنگی سے قدرے محفوظ ہے۔ شائد مچھر بھی بہت سوچ سمجھ کرحملہ کرتاہے۔بہرحال ٹیم کے آنے سے خوشگوارحیرت ہوئی۔

بالکل اسی طرح شام کودیکھاکہ ہرطرف ایک گاڑی گاڑھے دھویں کااسپرے کررہی تھی۔اتفاق سے گھرسے باہرجارہاتھا۔دھواں میں کچھ نظرنہیں آرہاتھا۔معلوم ہواکہ یہ اسپرے بھی مچھروں کوختم کرنے کے لیے ہے اور حددرجہ موثر ہے۔دھویں کے یہ بادل تقریباًایک ڈیڑھ منٹ تک ہر چیز پرحاوی رہے۔اس اسپرے سے مچھروں کومارنے اورڈنگی کوختم کرنے میں کتنی مددملتی ہے یہ توتھوڑے دن بعدمعلوم ہوجائے گا۔

پرایک انتہائی مشکل میں گھری ہوئی حکومت کی طرف سے یہ کام کافی معقول معلوم ہوا۔ویسے توپاکستان میں ہرحکومت،ہرموقع پرمصائب کاشکاررہتی ہے۔کسی بھی وقت،آنے اورجانے کاغیرمعین سلسلہ اور افواہیں سراپا جاری رہتی ہیں۔مگر موجودہ حکومت کے متعلق ایک غیریقینی صورتحال بڑی مہارت سے ترتیب دی گئی ہے۔یہ جانفشانی صرف انھی اکابرین کے پاس ہے جوتقریباً پنتیس برس تک ملک کو جانوروں کی طرح روندتے رہے ہیں۔

کوئی انسان ان کے سامنے دم نہیںمارسکتاتھا۔سرکاری افسران ان کے اوران کے عزیزوں کے زرخریدغلام تھے۔ ہزاروں پولیس اہلکاران جیسے بیکاررہنماؤں کی حفاظت پر دہائیوں سے مامور تھے۔  حیرت انگیزبات یہ ہے کہ یہ لوگ،گزشتہ ایک سال کی زبوں حالی کاتسلسل سے حساب مانگ رہے ہیں۔

اس سے پہلے کہ اصل موضوع سے ہٹ جاؤں۔کم ازکم ڈنگی کے خلاف ایک موثرمہم دیکھنے کو ضرور ملی اوروہ بھی بغیراشتہاروں کے۔ بغیرپروپیگنڈے کے، بغیرجملہ بازی کے۔بلکہ یہ سب کچھ کافی خاموشی سے کیا جارہاہے۔تلخ سچ یہ ہے کہ ڈنگی کے خلاف جنگ نہ کوئی ملک جیت سکتاہے اورنہ ماضی میں ایسا ہو پایا ہے۔دراصل مچھردنیاکاطاقتورترین حریف ہے۔یہ غیرمعمولی طور پر انسانی نسل کوتباہ کرنے میں مصروف ہے اورحددرجہ کامیاب ہے۔

اس کی طاقت کاادراک شائدہمیں ہے ہی نہیں۔اس لیے پوری قوم کوغیرضروری مباحثوں اور مناظروں میں مصروف کردیاگیاہے کہ جناب فلاں کے وقت میں ڈنگی پرمکمل قابو پالیاگیاتھا۔فلاں وزیراعلیٰ حددرجہ فعال تھا۔اس نے توکمال کردیاتھا۔ہاں کمال واقعی ہواتھا۔

سرکاری پروپیگنڈے اوراشتہاربازی کا۔مگراصل مسئلہ،یعنی مچھر تو پوری آب وتاب سے موجودرہاتھااوراپنی نسل بڑھانے میں مصروف تھا۔مگرسچ تویہ ہے کہ’’کم کام‘‘ کرو اورتعریف کا ڈھول خوب بجاؤبلکہ ہروقت بجاتے رہو۔اس امرمیں تو خیر سابقہ حکمران یکتاتھے۔تلخ سچ یہ ہے کہ مچھرپرمکمل طور پر قابو نہ موجودہ حکمران پاسکتے ہیں اورنہ ہی سابقہ حکمران اوران سے بھی سابقہ حکمران۔ اسلیے کہ مچھرحددرجہ مہیب اور طاقتور دشمن ہے۔ہمیں اس کی طاقت کا ہرگزادراک نہیں۔

کسی سے پوچھ لیجیے کہ مہلک ترین جانوریاعنصرکون ساہے۔کوئی سانپوں سے ڈرائے گا۔کوئی شارک مچھلی سے خوف زدہ معلوم ہوگا۔سانپ کے کاٹنے سے توایک سال میں تقریباًپچھترہزارانسان مر جاتے ہیں اورشارک سے صرف دس۔مچھراوران سے منسلک بیماریوں سے سالانہ سات لاکھ بندے موت کے گھاٹ اُترجاتے ہیں۔

اگر ملیریاسے ہونی والی اموات پرنظردوڑائیں توصرف اسی سے سالانہ چارلاکھ لوگ مر جاتے ہیں۔ملیریا،مچھرکے ذریعے پھیلتا ہے۔ بالکل اسی طرح ڈنگی کاوائرس بھی مچھرہی میں پرورش پاتا ہے۔ہرسال ڈنگی مچھرپانچ سے دس کروڑ  افرادکونشانہ بناتا ہے۔ان میں سے متعددبدقسمت لوگ علاج معالجہ کی بنیادی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے مارے جاتے ہیں۔یہ اموات پوری دنیامیں ہوتی ہیں۔

حددرجہ سنجیدہ بات یہ ہے کہ مچھر انتہائی کامیابی سے اپنے خلاف ہونے والی ادویات کے خلاف Resistence پیدا کر لیتے ہیں۔یعنی وہ دوا جو دو چارسال پہلے مچھرکومارنے کے لیے کامیابی سے استعمال ہوتی تھی۔اب کافی حدتک غیر موثر ہوچکی ہے۔سائنسی تحقیق کے مطابق مچھرغیرمعمولی حدتک توانااورذہین دشمن ہے۔

اسے بالکل معلوم ہے کہ اپنے اندر کس طرح کی کیمیکل تبدیلی لانی ہے تاکہ وہ زندہ رہ پائے اورانسانوں کو برباد کرسکے۔اس کاادراک ہمارے ہاں ہے کہ نہیں،پوری سنجیدگی سے نہیں عرض کرسکتا۔روزمیری ڈرس ڈل (Rosemary Drisdell)تویہاں تک لکھتی ہے کہ دنیا کے آغازسے موجودہ حالات تک جتنی بھی انسانی  آبادی وجودمیں آئی ہے،اس میں سے آدھی مچھرسے متعلقہ بیماریوں کی بدولت مر گئی ہے۔

بالکل محتاط اندازے کے مطابق پہلی اوردوسری جنگِ عظیم میں جتنی بھی اموات ہوئی ہیں،ملیریانے اس سے بہت زیادہ لوگ مارے ہیں۔اوریہ آج بھی مررہے ہیں۔زمانہ قبل مسیح سے مچھرہردوسوسال میں انسانی آبادی کوتقریباًنصف کردیتاہے۔تاریخ دان تو خیر دل دہلادینے والے معاملات رقم کرتے ہیں۔رومن قدیم کتابیں پڑھ لیجیے،مصرکے فرعونوں کے مکتوبات پرنظر دوڑائیے۔ آپ کومچھراوراس کی تباہ کاریوں کاذکرضرورملے گا۔

مقصدیہ کہ جب سے انسان پیداہواہے،مچھراس کے ساتھ ساتھ انسان دشمنی میں کامیابی سے اپناکام کررہاہے اور مسلسل کرتاجارہاہے۔مچھرکی طبعی عمرتوبہت کم ہے۔یہی کوئی تین چار ہفتے۔ مگر جدید تحقیق کے مطابق اس کے پاس ’’یادداشت‘‘کی طاقت موجودہے۔

یہ طاقت اسے حددرجہ خوفناک بنادیتی ہے۔اگرآپ نے ان کومارنے کے لیے ایک حربہ استعمال کیا ہے تو وہ اگلی بارحد درجہ محتاط ہوجائیں گے اوراس حربہ کوغیرموثرکرڈالیں گے۔اکثرلوگ اس کاادراک نہیں رکھتے کہ مچھرایک ذہین دشمن ہے۔وہ انسانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے ہرصورت بدلتا رہتا ہے۔

آپ انھیں مارتے جائیں۔یہ پھراپنی تعدادغیرمعمولی حدتک بڑھاکر واپس حملہ کریں گے۔کچھ سائنسدان تواس نتیجہ پربھی پہنچے ہیں کہ ایٹم بم پوری دنیاکوتباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یعنی تقریباًچھ ارب افراد۔اگرمجموعی طورپرپچھلے بیس سے پچیس ہزارسال کی تاریخ دیکھی جائے توصرف مچھراس سے زیادہ بندے مارچکا ہے۔ مگر اس کا قطعاًیہ مطلب نہیں کہ اس کی ہولناکیوںسے محفوظ نہیں رہا جاسکتا۔موثرحفاظتی حکمتِ عملی سے ڈنگی کی یلغارسے اپنے آپکوسوفیصدمحفوظ رکھا جاسکتاہے۔یہ تراکیب اب ہراخبار، میڈیا اور ڈاکٹر پوری قوم کوفراہم کررہے ہیں۔

اس وقت پوراملک ڈنگی مچھرکے شرمیں مبتلاہے۔ مصدقہ معلومات کے مطابق تقریباًدس ہزارافراداسپتالوں میں لائے گئے ہیں۔ان میں پچیس سے چالیس اموات بھی ہوئی ہیں۔ہم اپنے انتہائی عجیب وغریب وسائل کو بروئے کارلاکراس عذاب سے لڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ محدودوسائل کالفظ استعمال کرنے کودل نہیں چاہ رہا۔کیونکہ میری نظرمیں پاکستان لامحدودوسائل رکھنے والاملک ہے۔

مگراس کی بدقسمتی صرف یہ ہے کہ وہ’’گڈریا‘‘نہیں مل سکا جو اسے بھیڑیوں سے محفوظ رکھ پائے ۔ہمیں درست سمت کی طرف لے جا پائے۔ڈنگی اب صرف بیماری نہیں رہا۔اس پربھرپورسیاست ہورہی ہے بلکہ کامیابی سے جاری ہے۔ چرب زبانی سے بتایاجارہاہے کہ سابقہ ادوارمیں توحکمرانوں نے کمال کردیا۔ڈنگی مچھر پرہردروازے بندکردیے۔

تمام پاکستانیوں کومحفوظ کرڈالا۔ہاں،اب کے حکمران توفارغ البال ہیں۔ان میں توڈنگی سمیت کسی بھی آفت سے نپٹنے کی صلاحیت موجودہی نہیں ہے۔اس بیماری سے لڑنے کے بجائے وزیرصحت اوروزیراعلیٰ دونوں تقسیم نظرآتے ہیں۔کوئی طویل دورانیہ کی پالیسی ترتیب نہیں دی گئی جوپاکستانیوں کو اس بلاسے محفوظ کرسکے۔غیرمتعصب طریقے سے دیکھا جائے توسچ کہیں درمیان میں ہے۔مگریہاں کمال یہ بھی ہے کہ ہمارے وزراء اعلیٰ اوروزراء اعظم کسی سطح پروہ ادارے ہی نہیں بناپائے جولوگوں کوان آفات سے دوررکھ پائیں۔ جب ڈنگی اپنی تباہ کاریوں کے ساتھ سامنے آن کھڑا ہوتا ہے توہمیں ہوش آتی ہے کہ یہ مسئلہ تواب حل کرنا ہے۔

اس سے پہلے ہم شعوری سطح پرکوئی بھرپور سرکاری کوشش نہیں کر پاتے۔جس سے لوگ ڈنگی کے عذاب سے محفوظ رہیں۔ یہ بنیادی طورپرہماراخمیرہے کہ جب کوئی بلاہمیں نگلنے کی کوشش کرتی ہے تب ہم اس سے بچاؤکی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔میری نظرمیں تو گزشتہ بہتربرس سے عوام کو بھی کیڑے مکوڑوں میں تبدیل کردیاگیاہے۔عجیب بے ترتیب ساسماج ہے۔ پتہ نہیں جنگل ہے یا سماج۔مگرتاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ مچھرانسان کاازلی دشمن ہے۔اس سے جنگ میںاکثرانسان ہارتا رہا ہے۔ چلیے،اُمیدکیجیے کہ شائد اب ہم جیت جائیں۔

The post مچھر طاقتور ترین دشمن ہے! appeared first on ایکسپریس اردو.

تخلیق کار دھیلے کا، واہ واہ لاکھوں کی

$
0
0

کسی سماج کا ظرف ناپنا ہو تو اس کے اہلِ تخلیق و فن کار کا احوال اور ان سے ہونے والا انفرادی و اجتماعی سلوک و خیالات دیکھ لو۔جھٹ پتہ چل جائے گا کہ سماج کی رگوں میں کتنی زندگی باقی ہے یاکتنی مردنی گرفت کر رہی ہے۔ جیتا جاگتا کلیلیں بھرتا سماج اہلِ تخلیق و فن کو بھی قابلِ فخر و احترام قومی اثاثوں کی فہرست میں گردانتا ہے اور اس قومی اثاثے کو بڑھاتا چلا جاتا ہے۔مگر عالمِ سکرات کی کگار پے جھولتا سماج ؟ اس کے بارے میں کیا کہنا۔وہ تو خود قابلِ ترس و تیمار داری ہے۔

اگر پاکستانی سماج کا جغرافیائی پوسٹ مارٹم کیا جائے تو جنوبی پنجاب میں ایسے کئی جاگیردار خانوادے ہیں جن کی آمدنی کا درست اندازہ صرف ان کے منشیوں کو ہے۔ ان میں سے کچھ نہ صرف اپنی نسل در نسل روحانی ، علمی و تہذیبی میراث پر فخر کرتے ہیں بلکہ مزارات کے ساتھ ساتھ بیش بہا کتب خانوں کے بھی مجاور ہیں۔نثر اور شعر کی ان کی سمجھ حیرت انگیز ہے۔

سیاست گھر کی باندی اور مقامی افسر شاہی ہمہ وقت داشتہ۔ان زمینی خداؤں کے لیے کسی کے کام آجانا چٹکی بجانے سے بھی آسان ہے۔ دائیں چھنگلیا کے اشارے پر ان کا کوئی بھی چاہنے والا یا تعلق دار کسی گدھے کو بھی سونے میں تول کے یہ سونا خیرات کرسکتا ہے۔

لیکن اسی جنوبی پنجاب میں جب راجن پور کے زوالیہ دبدبے دار سرداری سماج میں نذیر فیض مگی جیسے شاعر کو دیکھا۔زندگی بھر اس کی ٹوٹی کمانی والی عینک اور گھسی ہوئی چپل اس کے کلام پر واہ واہ برسانے والے کلف دار طاقت پرستوں کے کھوکھلے پن کو کچھ اور نمایاں کرتی رہی۔بقول نذیر فیض ’’خیال کرن نہ کرن ، عزت بہوں کریندن ‘‘ (خیال کریں نہ کریں، عزت بہت کرتے ہیں)۔ نذیر فیض  اکیاون برس بے فیض دھرتی پر شاعری کرتا رہا ۔زندگی میں ایک مجموعہ شایع نہ کر پایا۔اکتوبر دو ہزار سولہ میں مر گیا۔

اور اسی جنوبی پنجاب میں دریا پار جدید سرائیکی شاعری کے ایک ہراول نام شاکر شجاع آبادی کا بھی وجود ہے۔پندرہ برس سے فالج کا شکار اور بارہ برس سے پرائیڈ آف پرفارمنس کے سرٹیفکیٹ کا بوجھ سینے پر دھرے ہوئے ہے۔اس کے سیکڑوں اشعار زبان زدِ عام ہیں۔ پچھلی حکومت نے ماہانہ وظیفے اور گھر کا اعلان کیا۔چند ماہ چند ہزار روپے آتے بھی رہے۔اسپتالی علاج بھی میسر آتا رہا۔ اس کے کلام پر ہر کوئی واہ واہ کرتا ہے مگر حال آہ آہ ہی ہے۔

صد شکر کہ حضرت خواجہ غلام فرید کو داؤد پوترے عباسی نوابین بطور مرید میسر ہو گئے۔آج ہوتے تو نذیر فیض مگی مرحوم یا شاکر شجاع آبادی کا طرزِ حیات گلے میں ڈالے خودی کے گیت خود ہی کو سنا رہے ہوتے اور بدلے میں بس ’’ واہ سائیں واہ ’’ اٹھا رہے ہوتے۔

سندھ لطیف و سچل کا وارث ، ٹھٹھہ کی تہذیبی شان و شوکت کا قصہ خواں ، جہاں یہی بحث نہیں تھمتی کہ دریائے سندھ میں زیادہ پانی ہے کہ دریائے روحانیت زیادہ بڑا ہے۔آج ہر کوئی چیخ رہا ہے کہ سندھ کی روادارانہ اجرک کو متعصب ملا تار تار کر رہا ہے۔پر چیخنے سے توقیر ملتی تو چیل پرندوں میں سب سے باعزت و بااثر ہوتی۔

اور ہاں !!! اس کراچی میں چھیننے والے سلامت، چھننے والے بہت۔کسی کو کسی پر اعتراض نہیں۔مگراس پوری منڈلی میں ایک بھی تو سلطانہ ڈاکو نہیں۔زندگی لینے والے بہت، زندگی دینے والا کوئی نہیں۔تو پھر کیوں نہ یہاں کا جمالِ احسانی قرض کے اسپتالی بستر پے پڑا پڑا نعت کا یہ شعر گنگناتا مرجائے،

ویسے تو ہر زمانے کو حاجت ہے آپ کی

پر ان دنوں زیادہ ضرورت ہے آپ کی

عبید اللہ علیم اپنے ہم عصروں اور نئے تخلیق کاروں کو تسلی دیتا دیتا خود بھی مرگیا کہ ’’ پیارے صاحب کسی شریف عورت کو کسی طوائف کے تمول سے پریشان نہیں ہونا چاہیے ‘‘۔۔مگر ایک سفید پوش علیم کو یہ کہنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی ؟ وہ جانتا تھا کہ ایک دلال سماج میں اہلِ ہنر کے پاس خود کو تسلی دینے والا تکیہ لازمی ہے کہ جس پر سر ٹیک کے تنہائی میں ہلکا ہوا جا سکے۔

رہی بات پڑھے لکھے وسطی و لاہوری پنجاب کی تو وہاں آج بھی میراث سر آنکھوں پر اور میراثی اپنے ہی پیروں پر۔اہلِ قلم وہی بامراد کہ جس کی قلم کسی طاقتور پیڑ میں لگی ہو۔

اور خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کا کیا کہوں کہ جو عرصہ ہوا اہلِ تخلیق و فن کے لیے ذہنی ہی نہیں ، وجودی کربلا بن چکے ہیں۔

مگر بہادر ہیں دراصل وہ لوگ جنھوں نے نوسربازی کی بیعت، جہل کی منشی گیری، رعونت کی پاپوش برداری، اختیار کی مالش اور بے علمی کی خوشامد اختیار کرنے پر آمادگی کے بجائے تخلیق کاری کے کرب کے وقتی خسارے کو ہی منافع جانا اور اپنے ہی آگے ہاتھ پھیلا  کے زندگی گذار ڈالی۔ایک آڑھتی سماج میں یوں سہولت سے گذر جانا بھلا کوئی معمولی کام ہے ؟

ہاں یہاں آپ جونک بن کے ہی آسودگی کاٹ سکتے ہیں۔مگر جونک بننا بھی تو ہر ایک کے بس میں نہیں۔ایک خاص طرح کی بے حسی درکار ہے ، گلاس میں گلاس اور آبخورے میں آبخورہ جیسا ڈھل جانے کی مایع جاتی صفت چاہیے اور ہر طرح کا فاسد و غیر فاسد خون چوسنے اور اسے حلال سمجھنے کا بوتا ہو تب ہی آپ ایک کامیاب کاروباری سماجی جونک بن سکتے ہیں۔اور جب ایک بار آپ آدمیت کے زینے سے اتر کے جونکوں کی دنیا میں داخل ہوگئے تو پھر کسی بھی طرح کے خون کی کیا کمی ؟ جس طرح تخلیق کار جزوقتی نہیں ہو سکتا اسی طرح جونک بننے کا عمل بھی کل وقتی  ہے۔یا تو آپ جونک ہیں یا پھر نہیں۔

تخلیق کاروں اور اصحابِ ہنر کے تذکرے سے فوراً یہ بات ذہنِ عمومی میں آتی ہے گویا ہم شاعری، نثر، فنونِ لطیفہ وغیرہ کے وابستگان کی بات کررہے ہیں۔ مگر یہ دائرہ اتنا چھوٹا نہیں ۔ہر وہ کھلاڑی جو اپنے انداز سے کھیل کے میدان میں اپنا اظہار کرنا چاہتا ہے۔

ہر وہ سائنسدان جس کے پاس ایک کایا کلپ آئیڈیا ہے ، ہر وہ میڈیا پرسن جو بھیڑ چال سے نکل کے کچھ نیا کرنا چاہتا ہے ، ہر وہ بیورو کریٹ جو اپنے کام میں انسانیت اور بنیادی اخلاقیات کی آمیزش کرکے اسے انسان دوست بنانا چاہتا ہے، ہر وہ جنرل جو روایتی وار گیم کے مضمحل دماغ میں تازہ خون دوڑانے کے لیے بیتاب ہے ، ہر وہ عالم جو عقیدے کو پرپیچ در پیچ دستار سے آزاد کر کے سر کو ہوا لگوانے کا خطرہ مول لے رہا ہے ، ہر وہ زن و مرد و طفل جو ننگ کو ستر کہنے  سے انکاری ہے۔یہ سب کے سب اہلِ تخلیق و ہنر ہیں اور ان سب کو ایک جونک پرور آڑھتیانہ سماج میں خسارے کی سرمایہ کاری درپیش ہے کہ جس میں اپنا وجود برقرار رکھنے کی صعوبتیں ہی ان کا انعام اور علتِ کج کلاہی ہی ان کا سکون ہے۔

آج یہ آڑھتی سماج اپنی ہی کھوکھلاہٹ کی دلدل میں خود کو آہستہ آہستہ دھنستے دیکھ تو رہا ہے مگر خود کو بچانے کے لیے کچھ زیادہ نہیں کر پارہا۔بچانے کے لیے ہاتھ ضروری ہیں۔اور سماج کے ہر شعبے کے اہلِ تخلیق و فن کی حوصلہ افزائی و توقیر و اعتراف اور تخلیقی آزادی ہی وہ ہاتھ بخشتے ہیں جنھیں ادھر ادھر چلا کے سماج خود کو بچاتا ہے۔مگر بقول ایک خساروی شاعر احمد نوید ،

بے بسی دیکھ میرے ہاتھ بھی اب ٹوٹ گئے

پاؤں پہلے ہی میسر نہ تھے چلنے کے لیے

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)

The post تخلیق کار دھیلے کا، واہ واہ لاکھوں کی appeared first on ایکسپریس اردو.

نائیجیریا کے اقامتی اسکول میں بچوں پر ظالمانہ تشدد

$
0
0

نائیجیریا کے شمالی شہر کڈونا میں پولیس نے تین سو سے زیادہ طالب علم بچوں کو بچا لیا ہے جنھیں ایک اقامتی مدرسے میں زنجیروں سے جکڑ کر رکھا گیا تھا ۔اطلاعات کے مطابق ان بچوں پر  تشدد اور زیادتی کا شکار بنایا جاتا تھا۔

حکام نے اپنے ذرائع سے اطلاع  ملنے پر ریگاسا کے علاقے کی ایک عمارت پر چھاپہ مارا جہاں بچوں کے ساتھ بڑے عمر کے طلبہ کو بھی انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں قید میں رکھا گیا تھا اور انھیں غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ اور یہ انسانیت سوز سلوک ان کو تعلیم دینے اور تہذیب سکھانے کے نام پر کیا جاتا تھا۔

کڈونا ریاست کی پولیس چیف کے ترجمان یعقوبو صابو  کے حوالے سے خبر دی گئی ہے کہ  مذکورہ عمارت پر چھاپے کے دوران  ایک سو سے زیادہ بچے بازیاب کرائے گئے  جن میں بعض بچوں کی عمر 9 سال سے بھی کم تھی۔ ان سب کو زنجیروں سے باندھ کر رکھا گیا تھا اور یہ سب ایک چھوٹے سے کمرے میں ٹھونس دیے گئے تھے اور ان کے ساتھ یہ بیہمانہ سلوک ان کی اصلاح کے نام پر کیا جا رہا تھا ۔

یہ اسکول دس سال سے قائم تھا جس میں والدین خود اپنے بچوں کو داخل کرانے لائے تھے۔ بعض بچوں کو منشیات کی لت سے بچانے کے لیے بھی یہاں لایا جاتا تھا۔ پولیس نے وہاں چھاپہ مار کر بچوں کے ساتھ جو سلوک دیکھا اس کے پیش نظر اسکول کے پروپرائٹر کے ساتھ اس کے اسٹاف کے چھ ارکان کو بھی حراست میں لے لیا۔ نام نہاد اسٹاف کے ارکان اپنے طور پر بھی مظلوم بچوں کو سب و شتم کا نشانہ بناتے تھے۔

کئی بچوں کی حالت رہائی کے موقع پر نارمل نہیں تھی۔ بچوں کے جسم پر جگہ جگہ تشدد کے نشانات بھی تھے۔  پولیس کو اس علاقے کے رہائشیوں نے اس اسکول کے بارے میں مشتبہ سرگرمیوں کی اطلاع دی تھی۔ پولیس نے اس اسکول پر چھاپے کے دوران ایک ایسا کمرہ بھی دیکھا جو عقوبت خانے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا جس میں بچوں کو اذیت دینے کے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے تھے اور کئی ایک کو چھت کے ساتھ الٹا لٹکا دیا جاتا تھا اور پھر مارا جاتا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ اس ادارے میں مذہب کے نام پر بھی بچوں کا استحصال کیا جاتا تھا۔ بچوں کے والدین کو تین مہینوں میں ایک مرتبہ اپنے بچوں کو ملنے کے لیے آنے کی اجازت دی جاتی تھی مگر انھیں اسکول کے محض خاص خاص حصوں میں جانے کی اجازت دی جاتی تھی۔

تعلیم خصوصاً دینی تعلیم کے نام پر قائم نام نہاد اسکول اور مدرسے دنیا کے ہر کونے میں پائے جاتے ہیں۔پاکستان میں بھی اسکولوں میں بعض ناخوشگوار واقعات ہوئے ہیں۔اس معاملے میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کو اپنا کردار فعال بنانا چاہیے تاکہ بچوں کے ساتھ بڑھتی ہوئے تشدد اور زیادتی کو روکا جاسکے۔

The post نائیجیریا کے اقامتی اسکول میں بچوں پر ظالمانہ تشدد appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 22715 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>