Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22701 articles
Browse latest View live

عمران خان کا جنرل اسمبلی میں تاریخی خطاب

$
0
0

وزیر اعظم عمران خان نے جمعہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس میں تاریخی خطاب کیا۔ انھوں نے پاکستان ، مسلم امہ سمیت دنیا بھر کے جمہوریت پسندوں اور انسان دوستوں کے جذبات اور امنگوں کی فاتحانہ ترجمانی کی، بھارت کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کیا اور کشمریوں کے حق خودارادیت اور ان کے خلاف مودی کی بربریت کا کچھا چٹھا کھول کر رکھ دیا۔

سفارتی ذرائع اور سیاسی مبصرین کاکہنا ہے کہ انھوں نے گزشتہ کئی برسوں میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میںپہلی بار کسی وزیراعظم کی مدلل ،سنجیدہ اور ٹو دی پوائنٹ تقریر سنی جو انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تاریخی خطاب نے کشمیریوں کے مستقبل کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے کے قریب کردیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے نسل پرستانہ، متکبرانہ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کی وجہ سے دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے ہیں، ہم جنگ کے حامی نہیں لیکن جنگ چھڑی تولاالہ الا اللہ پر یقین رکھتے ہیں، آخری وقت تک لڑینگے،دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ کے اثرات نہ صرف خطہ بلکہ پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ 80لاکھ کشمیری 55 دنوں سے محصور، انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی رابطے معطل ہیں،اگر خونریزی ہوئی تو اسلام پسندی نہیں، انصاف نہ ملنے کی وجہ سے ہوگی۔ گزشتہ 30 سال میں ایک لاکھ کشمیری حق خود ارادیت کی جدوجہد میں شہید ہو چکے ہیں۔ دنیا کشمیری بچوں، عورتوں اور افراد کو محصور کرنے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف آواز کیوں بلند نہیں کر رہی؟ دنیا کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ کشمیر میں انصاف یا سوا ارب لوگوں کی مارکیٹ کو دیکھیں گے ؟یہ سوال ہنڈریڈ ملین ڈالر کا ہے، اور عالمی برادری کی ساکھ اور اس کے منصب کے حوالہ سے اہم تریں سوال ہے۔ عالمی سفارت کاری کے لیے اس سوال سے بچنا محال ہے۔ اسے کشمیر کا مسئلہ حل کرناہوگا۔ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹرفیصل نے کہا کہ عمران خان نے مسلم امہ کی حقیقی ترجمانی کی،ان کی تقریر یاد رکھی جائے گی۔

جمعہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے مزید کہا کہ کرفیو کے خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام اور بھارتی سیکیورٹی فورسز کے مابین خونیں تصادم کا خطرہ ہے۔ بھارت کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنا ہو گی، کرفیو اٹھانا ہوگا اور اقوام متحدہ کو اپنی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو ان کا حق خود ارادیت دلانا ہوگا، اگر ہمارے اوپر جارحیت مسلط ہوئی تو دنیا کو سمجھنا چاہیے کہ اس دوران کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر واضح کیا کہ ہم کشمیریوں کی حق آزادی اور خود مختاری کے لیے آخری سانس تک لڑیں گے۔ انھوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی آر ایس ایس کے رکن ہیں جو کہ ہٹلر اور مسولینی کے نظریئے پر چلتی ہے، یہ نظریہ مسلمانوں اور عیسائیوں سے نفرت انگیز برتاؤ کرتا ہے ۔ نفرت پر مبنی اسی بیانیہ نے مہاتما گاندھی کی بھی جان لی، مودی نے آر ایس ایس کو گجرات میں تین دن مسلمانوں کے قتل عام کی اجازت دیے رکھی تھی، اس وقت وہ گجرات کے وزیراعلیٰ تھے، اس واقعہ کے باعث ان پر امریکا آنے پر بھی پابندی لگی۔ اب مقبوضہ کشمیر میں بیمار برزگوں، بچوں اور خواتین کو جانوروں کی طرح قید میں رکھا گیا ہے۔

دنیا سوچے کہ کشمیر میں خونریزی کا کشمیری باشندوں پر کیا اثر ہوگا؟ جب وہاں کرفیو ختم ہوگا تو کیا صورتحال ہوگی؟ کیا بھارت میں موجود کروڑوں مسلمان یہ سب کچھ نہیں دیکھ رہے؟ 80 لاکھ مسلمان 5 اگست سے اب تک وہاں کیسے جی رہے ہیں؟ دنیا اس معاملے پر کیوں خاموش ہے؟ اگر اسی لاکھ یہودی اس طرح اتنے دنوں سے محصور ہوتے تو کیا ہوتا؟ عمران خان نے اقوام متحدہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت عملی اقدام اٹھانے اور اقوام متحدہ کی آزمائش کا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے بھارت فوری طور پر کشمیر میں گزشتہ 55 روز سے نافذ کرفیو ختم کرے۔13 ہزار کشمیریوں کو رہا کرے، اقوام متحدہ اور عالمی برادری کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دلائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم اپنے پڑوسیوں سے سفارتی و تجارتی سطح پر اچھے تعلقات چاہتے ہیں لیکن بھارت بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے۔ بھارت پاکستان کوایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں شامل کرنے کی سازش کررہا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ پاکستان نے 1989ء میں سویت وار اور نائن الیون کے بعد امریکا کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شمولیت اختیار کی حالانکہ نائن الیون میں کوئی پاکستانی شامل نہیں تھا۔ ہمارے 70 ہزار فوجی اور شہری اس جنگ میں شہید ہوئے۔ انھوں نے کہا میں نے نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شمولیت کی مخالفت کی تھی۔

وزیراعظم نے مزید کہا کہ اس دنیا میں کوئی ریڈیکل اسلام نہیں، صرف ایک اسلام ہے جو ہمارے نبی ﷺ لے کر آئے،دہشتگردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، مغربی رہنماؤں کی متضاد باتوں سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ مغرب میں پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں گستاخیوں کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں ۔اسلامو فوبیا کا تصور مغرب کا اپنا پیدا کرتا ہے، پوری دنیا کے مسلمانوں کو کیسے انتہا پسند اور دہشت گرد کہا اور سمجھا جا سکتا ہے۔نائن الیون کے بعد دنیا میں اسلامو فوبیا بہت تیزی سے پھیلایا گیا، اس سے تفریق پیدا ہوئی۔

مغرب کو سمجھنا چاہیے کہ نبی کریم ﷺ کی توہین کی کوشش مسلمانوں کے لیے بہت بڑا معاملہ ہے جس طرح ہولوکاسٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے تو یہودیوں کو برا لگتا ہے یہ آزادی اظہار رائے نہیں دل آزاری ہے۔

انھوں نے کہا کہ سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ میں امریکی اور مغربی ممالک نے فنڈنگ کی اور پاکستان نے تربیت دی جس کے بعد افغانستان کے لوگوں نے سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑی اور اسے جہاد کا نام دیا گیا۔ جب سوویت یونین کے افغانستان سے جانے اور نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی قبضے کے خلاف افغانوں نے جنگ لڑی تو اسے دہشتگردی کا نام دیا گیا۔نائن الیون سے قبل زیادہ خودکش حملے تامل ٹائیگرز نے کیے جو ہندو تھے لیکن کسی نے ہندوئوں کو انتہاء پسند نہیں کہا، اسی طرح جاپانی پائلٹوں نے بھی دوسری جنگ عظیم میں خودکش حملے کیے۔

وزیراعظم عمران خان نے منی لانڈرنگ کے ذریعے غریب ملکوں سے کرپشن کی رقم امیر ملکوں میں منتقل کرنے کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ ترقی پذیر ممالک سے حکمرانوں ‘ طاقتور طبقے اور اشرافیہ کی کرپشن کی رقوم ترقی یافتہ ملکوں میں منتقل کی جاتی ہے وہ وہاں مہنگی جائیدادیں خریدتے ہیں اور بینک اکائونٹس میں پیسے رکھتے ہیں ، اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے ان ممالک کو یہ رقوم واپس کرنا ہوں گی جہاں سے یہ لوٹی گئیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کا ذکرکرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کا ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں میں حصہ انتہائی کم ہے لیکن وہ اس کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہیں ۔پاکستان ان 10 ممالک میں شامل ہے جنھیں سب سے زیادہ نقصان کا سامنا ہے۔ ہمارا زرعی ملک ہے اور اس کا زیادہ انحصار دریائوں پر ہے جن میں 80 فیصد پانی گلیشیئرز سے آتا ہے، یہ تیزی سے پگھل رہے ہیں، اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو بڑی آفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبہ خیبرپختونخوا میں ایک ارب درخت لگائے، اب ہمارا ہدف پورے ملک میں 10 ارب درخت لگانے کا ہے۔

وزیراعظم نے اپنے فی البدیہہ خطاب میں جو کچھ کہا وہ ان کے اور عالم اسلام کے دل آواز تھی۔مایوسی میں ڈوبے بھارتی مندوبین اب اس بات پر لڑ رہے ہیں کہ عمران کو پندرہ منٹ کے بجائے 45 منٹ کیوں ملے؟ ادھر اہل کشمیر کے لیے عمران کا خطاب بہار کا ایک جھونکا اور امید کی کرن ثابت ہوگا۔ انشااللہ۔

 

The post عمران خان کا جنرل اسمبلی میں تاریخی خطاب appeared first on ایکسپریس اردو.


بھارت کا مقابلہ کریں

$
0
0

پرانے زمانے کے اندر جب مختلف ممالک ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ء ہو تے تھے تو ان ممالک کو جیت نصیب ہوتی تھی جن کے پاس بہترین لشکر اور جنگی سامان ہوا کرتا تھا ۔فوج کی تعداد بھی ایک اہم عنصر تھی ۔پھر اس کے ساتھ وقت گزرتا گیا ۔اور پھر ان ممالک کو دوسرے ممالک پر فوقیت حاصل ہوئی جن کے پاس جدید ٹیکنالوجی اور جدید جنگی اسلحہ موجود تھا۔

یہی وجہ ہوئی کہ دوسری جنگ عظیم میں ایٹمی طاقت ہونے کا امریکا نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور دو ایٹم بم جاپان پر برسا کر اسے شکست کھانے پر مجبور کر دیا ۔پھر ایک وقت آیا کہ تمام بڑی طاقتوں کے پاس ایٹمی ہتھیار آگئے ۔اس کے بعد مقابلہ کا میدان اسلحہ کی بجائے معیشت بن گیا ۔یہ وہی دور تھا جب امریکا اور روس کے درمیان سردجنگ  عروج پر تھی۔ اس معیشت کی جنگ کے اندر امریکا کے ہاتھوں روس کو شکست ہوئی اور روس ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گیا۔

یہ وہ حقائق ہیں جو کہ باآسانی ہر ملک میں تاریخ کے تناظر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔لیکن بہت سارے ایسے ممالک آج بھی موجود ہیں جو کہ ان حقائق سے دور کسی خیالی دنیا میں رہ رہے ہیں۔وہ آج بھی اپنے جنگی سازوسامان کو جدید سے جدید کیے جا رہے ہیں۔امریکا اور اس جیسی مضبوط طاقتیں جن کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں وہ اپنا اسلحہ اور فوج پر خرچ اس وجہ سے کرتی ہیںتا کہ اس کے ذریعے وہ ان ممالک پر تسلط حاصل کرسکیں جن کے پاس ایٹمی طاقت یا اس قسم کے مہلک ہتھیار نہیں ہیں ۔لیکن جب بات دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان آ جائے تو مقابلہ اسلحہ اور فوج کی بجائے معیشت اور معیشت سے جڑے اثرورسوخ تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔

اس وقت اگر ہم بھارت اور پاکستان کی معیشت کا موازنہ کریں تو بھارت کی معیشت پاکستان کی نسبت کئی گنا زیادہ مضبوط ہے۔ ساتھ میں تجارت میں بھی بھارت کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ بھارت کے دوسرے ملکوں کے ساتھ گہرے تجارتی تعلقات موجود ہیں ۔یہی بات ہے کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نسبت بھارت کی آواز بہتر طریقے سے سنی جاتی ہے اور پاکستان کے جائز مطالبات پر بھی کان نہیں دھرا جاتا۔

یہ بات صرف یہاں تک محدود نہیں مگر دنیا میں ہر جگہ پر مالدار ممالک کا اثرورسوخ زیادہ ہو تا ہے ۔مثال کے طور پر یورپی یونین کے اندرکافی ممالک مالدار ہیں ۔لیکن ان میں بھی سب سے زیادہ معاشی طور پر جرمنی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ یورپ کے اندر سب سے زیادہ مضبوط آواز جرمنی کی سنی جاتی ہے ۔آج کے زمانے کے اندر امریکا کا تسلط یا اثر ورسوخ صرف اس کے اسلحہ اور فوج کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی معاشی طاقت ہونے کی وجہ سے ہے۔

آج بھی دنیا کے اندر زیادہ تر سودے ڈالر میں کیے جاتے ہیں اور جتنی تجارت معیشت امریکا کی موجو د ہے شاید ہی کسی دوسرے ملک کی ہو ۔بھارت اور پاکستان ایک ساتھ آزاد ہوئے لیکن معاشی طور پر بھارت آگے کیسے نکل گیا؟ یہ بھی سوچنے کی غور طلب بات ہے۔اگر ہم نے کسی سے دشمنی نبھانی ہے تو اس دشمن کو پوری طرح سمجھنا ضروری ہے اور اس میں بھی کوئی عارنہیں کہ آپ اپنے مخالف کی اچھی باتوں سے سبق سیکھ کر خود کو مضبوط کریں ۔

چند سال پہلے مجھے بھارت جانے کا موقع ملا تو وہاں پر بہت سارے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے انٹرویوکیا تو معلوم ہوا کہ وہاں پر نریندر مودی کافی مقبول ہیں ۔اور اس کی بنیادی وجہ بقو ل بھارتی شہریوں کے جو اس کی معیشت کو مضبوط کرنے کے اقدامات تھے ۔اس کی اس مثبت پالیسی کی وجہ سے بھارتی شہریوں نے اس کی بہت ساری برائیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کر دیا ۔

یہی وجہ تھی کہ وہ نریندر مودی دوسری بار بہت زیادہ اکثریت کے ساتھ الیکشن جیت کر دوبارہ بھارت کا وزیر اعظم بن گیا۔اور اس نے اس طاقت کو جس طر ح سے استعمال کیا یہ سب کے علم میں ہے ۔دوسری طرف پاکستان کے اندر دیکھا جائے تو ہماری جمہوری حکومتوںکو گرانے کے لیے اسلامی جمہوری اتحاد جیسے اقدامات کا حصہ ہیں ۔جو اصغر خان کیس میں واضح ہیں ۔ہماری اس جمہوری حکومتوں کو طالع آزمائوں نے روند دیا اور جمہوری روایت کا تسلسل کبھی قائم نہ رہ سکا۔

The post بھارت کا مقابلہ کریں appeared first on ایکسپریس اردو.

مستقبل لکھا ہوا نہیں ہوتا

$
0
0

مستقبل لکھا ہوا نہیں ہوتا اور نہ ہی مستقبل کوئی ایسی چیزہوتا ہے جس میں آپ داخل ہوجائیں بلکہ مستقبل وہ چیز ہے جو ہم خود بناتے ہیں۔ ہمیں کبھی پیچھے کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے کیونکہ ہم اس راستے پر نہیں جا رہے ہیں ہرکامیاب آدمی کے پیچھے لا تعداد ناکامی کے سال ہوتے ہیں ہمارا بہترین استاد ہماری غلطیاں ہونی چاہییں۔

ماریا روبنسن نے ٹھیک کہا ہے کہ کوئی بھی ماضی میں جا کر نئی شروعات نہیں کرسکتا لیکن ہم آج نئی شروعات کرکے ایک نیا اور خوشگوار مستقبل بنا سکتے ہیں، یہ زندگی کا اصول ہے کہ آپ نے وقت کے ساتھ ساتھ سفرکرنا ہے، اگر آپ وقت کے ساتھ سفر نہیں کریں گے تو وقت آگے نکل جائے گا اور آپ پیچھے رہ جائیں گے۔

ڈیکارٹ نے کہا تھا ’’ میں سوچتا ہوں اس لیے میں موجود ہوں ‘‘ آئیں ! ہم بے باکی سے آتش نمرود میں کود پڑیں اور اپنے مسائل کا اسی طرح مطالعہ کریں کہ ہر جزکل میں سما جائے ہمارا علاج فکرونظرکے سوا کچھ نہیں ، انسانی کردار اورایمان میں کبھی بھی اتنی گہری اور خطرناک تبدیلیاں نہیں ہوئیں، جتنی آج کل ہو رہی ہیں، آج پھر سقراط کا زمانہ ہے۔ ہماری اخلاقی زندگی خطرے میں ہے، آج ہم انسانیت کے چیتھڑے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں آج ہم سے کسی میں یہ ہمت نہیں کہ زندگی کے سارے پہلوئوں کا جائزہ لے سکے۔

زندگی کے اس ڈرامے میں ہر شخص کو اپنا پارٹ تو یاد ہے لیکن وہ اس کے مطلب سے نابلد ہے زندگی بے معنیٰ ہو رہی ہے۔ کسی زمانے میں عظیم شخصیتیں سچائی کے لیے جان دینے کے لیے تیار رہتی تھیں۔ سقراط نے اس کے لیے دشمنوں سے بھاگنے کے بجائے جام شہادت پینا منظورکیا۔ افلاطون نے اس کے لیے ایک ریاست قائم کرنے کی خاطر دو مرتبہ اپنی جان خطر ے میں ڈالی ۔

مارکس اور پلیٹس کو تخت وتاج سے زیادہ اس سے محبت تھی۔ برونو اس کا وفادار ہونے کے جرم میں آگ میں جلا دیاگیا کسی زمانے میں کلیسیا اور حکومتیں اس سے کانپتی تھیں اور اس کے نام لیوائوں کو اس لیے قید و بند میں ڈال دیتی تھیں کہ ان کی وجہ سے حکومتوں کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہوتا تھا۔

دوسری طرف ہم ہمیشہ بہرے بنے رہے، ہمارے سامنے سچ بار بار آکے چلاتا رہا ، دہائیاں دیتا رہا، لیکن ہم میں کبھی اسے سننے کی ہمت اورجرأت نہ ہوسکی جب بھی وہ ہمارے سامنے آتا ہم اس سے خوفزدہ ہوکے اس سے ڈرکر بھاگ کر چھپ جاتے لیکن ہماری تمام تر بزدلی اور ڈروخوف کے باوجود ہم سچ سے نہ چھپ سکے۔ آج سچ پوری قوت اور طاقت کے ساتھ ہمارے سامنے کھڑا ہے، اب ہمارے پاس نہ بھاگنے کی کوئی جگہ باقی بچی ہے اور نہ چھپنے کی۔

آج سچ چیخ رہا ہے کہ ہم نے اپنے لوگوں کا کیا سے کیا حال کر دیا اپنے ملک کو تباہی اور دیوالیے کے دہانے پر لاکھڑا کر دیا ہے۔ آج پورے ملک میں خاک اڑتی پھر رہی ہے ۔ بربادی و حشیانہ رقص میں محو ہے موت دیوانہ وار قہقہے لگا رہی ہے۔ آج ہمارا ملک ایسا ملک بن گیا جہاں سیاست دان جمہوریت کے نام پر اپنی جیبیں بھر رہے ہیں جہاں علماء مذہب کے نام پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے میں مصروف ہیں جہاں بزنس مین اپنے منافع کی خاطر لوگوں کو زندہ درگورکر نے تلا بیٹھا ہے۔

جہاں جاگیردار ذراسی بات پہ اپنی تسکین کی خاطر اور دھاک بٹھانے کے لیے بے کس و بے بس کسانوں کی بیٹیوں کی عزت تار تارکردیتے ہیں جہاں ڈاکٹرکو مریض کی زندگی بچانے کے بجائے اپنی فیس کی زیادہ فکر ہوتی ہے جہاں شرافت، تعلیم ، تہذیب وتمد ن ، اخلاص ، خلوص محبت کوکوئی ٹین ڈبے والا بھی نہیں خریدتا۔ جہاں رشتوں کے لیے لڑکیوں کا معائنہ بھیڑ بکریوں کی طرح ہوتا ہے جہاں ہر جائزکام، ناجائز طریقے سے انجام پاتا ہے اور ناجائزکام جائز طریقے سے ہوتا ہے۔

جہاں تھانے ، نوکریاں، ٹھیکے سر عام بکتے ہیں جہاں کفن تابوتوں، رشوت ،کمیشن کا کاروبار دن رات ترقی کرتا جا رہا ہے۔ جہاں مزدوروں کا دن رات خو ن پیا جا رہاہے۔ جہاں ہر دو نمبرکام عروج پر ہے، جہاں عقل سے پیدل تہذیب و تمد ن سے عارج سمجھ و دانش سے محروم نرے جاہل عقل مندوں ، تعلیم یافتہ ، دانش مندوں کی زندگیوں کے فیصلے کرتے پھرتے ہیں۔

جہاں ابن الوقتوں، مفاد پرستوں ، لٹیروں کی چاندی ہی چاندی ہے جہاں عوام کے ٹیکسوں پر چند ہزار لوگ عیش وعشرت میں غرق ہیںجہاں ٹیکس دینے والوں کے گھروں میں ماتم برپا ہے، وہیں اس ٹیکس کے روپوں سے چند لوگ عیاشیوں میں مصروف ہیں وہ یا ان کے پیارے بیمار پڑیں تو وہ اپنا علاج خیراتی اسپتال میں کروانے پر مجبور ہیں جہاں وہ بغیر دوائی یا دو نمبر دوائی کی وجہ سے سسک سسک کرجان دینے پر مجبور ہیںجب کہ وہ لوگ جو ان ٹیکسوں کی وجہ سے زندہ ہیں وہ بیمار ہوں تو اپنا علاج بیرون ملک کرواتے ہیں۔

ٹیکس دینے والوں کے بچے پیلے اسکول سے پڑھیں اور ان لٹیروں کے بچے عالیشان ، ایئرکنڈیشنر انگلش اسکولوں سے تعلیم حاصل کریں ، ٹیکس دینے والوں کے بچوں کے لیے مالی اور چپڑاسی کی نوکری نصیب بناد ی گئی ہے اور تمام اعلیٰ اور منافع بخش نوکریاں وہ اپنے پیاروں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔

برسہا برس سے سنتے آرہے ہیں کہ ملک نازک دور سے گذر رہا ہے، عوام قربانیوں کے لیے تیار ہوجائیں ۔ بجلی، پٹرول ،گھی ، آٹا ، گیس، چاول ، چینی میں اضافہ کرنا نا گزیر ہوگیا ہے، ساری کی ساری قربانیاں عام لوگ دیں اور عوام کے ٹیکسوں پر یہ زندہ صرف عیاشیاں ہی عیاشیاں کرتے رہیں۔آپ ایک چھوٹا سا تجربہ کرکے دیکھ لیں آپ کسی ارکان پارلیمنٹ ، بیوروکریٹس، جاگیردار، سرمایہ دارکے بچوں کی شادی یا موت میت میں جا کر معائنہ کرلیں آپ ان کی شان وشو کت، ان کے کھانے،ان کے لباس ہیرے جواہرات دیکھ کر اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھیں گے۔

کیا یہ ملک اس لیے حاصل کیا گیا تھا کہ عوام قربانیاں دیتے رہیں، فاقے کرتے رہیں، خود کشیاں کرتے رہیں۔ ماتم کرتے رہیں اور ان کے پیسوں پر چند ہزار لوگ عیاشیوں میں غرق رہیں۔ حضرت علی ؓ کا قول ہے ’’کفرکا معاشرہ قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم کا نہیں‘‘ اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ ظلم کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔ یہ طے ہے کہ اب انجام دور نہیں۔

The post مستقبل لکھا ہوا نہیں ہوتا appeared first on ایکسپریس اردو.

تعلیم کو تباہ ہونے سے بچائیے

$
0
0

کراچی انٹرمیڈیٹ بورڈ کا حالیہ رزلٹ کئی اعتبار سے حیران کن اور مایوس کن تھا۔ نتائج کے مطابق نجی و سرکاری کالجزکے 80 فیصد طلبا فیل قرار پائے جن میں اکثریت سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبا کی تھی نتائج کے مطابق 12 سرکاری کالجزکا نتیجہ صفر رہا جن کا کوئی بھی طالب علم پاس نہ ہوسکا۔ اس طرح کے مایوس کن نتائج اورکارکردگی طلبا ، والدین اور خود محکمہ تعلیم کے تعلیمی اقدامات پر سوالیہ نشان ہیں جب کہ وزیر اعلیٰ نے صوبہ بھر میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا ہوا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق سندھ میں گزشتہ 5 ماہ کے دوران 8 ہزار سے زائد سرکاری اسکول بند کر دیے گئے ہیں۔ خود سابقہ وزیر تعلیم کے اپنے حلقے میں 1215 اسکول بند کیے گئے ہیں۔ تھرپارکر جیسے پسماندہ علاقے میں جہاں تعلیم کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے 708 اسکولوں کو بند کردیا گیا ہے جب کہ بند کیے جانے والے اسکولوں کے عملے کو کروڑوں روپے ماہانہ تنخواہوں کی مد میں ادا کیے جا رہے ہیں۔

شرح خواندگی بڑھانے کی بجائے ہزاروں کی تعداد میں سرکاری اسکولوں کو بند کرکے شہریوں کو تعلیم کے حصول کے بنیادی حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کا تعلیمی معیار جو پہلے ہی خراب تھا مزید تنزلی کی طرف گامزن ہے ، نجی سیکٹر میں تعلیم کا شعبہ خالصتاً کاروبار اور لوٹ کھسوٹ کا ذریعہ بن چکا ہے۔ معیاری تعلیم کا حصول سرمایہ کاری سے مشروط ہوچکا ہے۔

دہرا نہیں بلکہ تہرا تعلیمی نظام قائم ہوچکا ہے جو والدین نامی گرامی اور مہنگے تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوا سکتے ہیں نامی گرامی، مہنگے اور شہرت یافتہ ٹیوشنز سینٹرز اور نامور سبجیکٹ اسپشلسٹ اساتذہ سے ٹیوشن پڑھوانے پر لاکھوں روپے خرچ کرسکتے ہیں اور سیلف فنانس کے متحمل بھی ہوسکتے ہیں انھی کے بچوں کا تعلیمی مستقبل محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ تعلیم غریب و متوسط طبقے کی استطاعت سے باہر ہوچکی ہے عام طالبان کی غالب اکثریت اچھی قابلیت و صلاحیت رکھنے کے باوجود تعلیمی سرمایہ کاری کلچر کی وجہ سے اجتماعی استحصال اور ناانصافی کا شکار ہو رہی ہے۔

اساتذہ کے تقرر، تعیناتیوں، ترقیوں، تبادلوں اور تنخواہوں کی ادائیگیوں تک میں کھلے عام وسیع پیمانے پر کی جانے والی بد نظمی و بد عنوانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ تعلیمی امداد دینے والے یورپی یونین اور ورلڈ بینک جیسے عالمی ادارے ان پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں اور شفافیت یقینی نہ بنانے پر امداد روکنے کی وارننگ بھی دیتے رہے ہیں۔

سندھ میں اساتذہ اور عملہ سالہا سال سے عدم تحفظ و غیر یقینی صورتحال اور اقربا پروری اور ناانصافیوں پر سراپا احتجاج ہے، جس کی وجہ سے تعلیم دینے میں ان کی دلچسپی اور استعداد کار بھی متاثر ہوتی ہے کبھی احتجاج کرنے والے سینئر اساتذہ و پروفیسرز سڑکوں پر لاٹھیاں کھاتے اور واٹرکینن کے پانی میں نہاتے نظر آتے ہیں، آنسو گیس سے ان کی اشک شوئی کا اہتمام کیا جاتا ہے تو کبھی اسکول اساتذہ اور خصوصاً خواتین اساتذہ کے ساتھ بھی یہ عمل دہرایا جاتا ہے جن کی درگت دیکھ کر آس پاس کے لوگ مذمت کرتے نظر آتے ہیں کچھ ان نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اساتذہ کے ساتھ یہ سلوک اچھے معاشرے کے لیے کسی طرح قابل قبول نہیں ہے۔

آج کل سندھ بھر کے ہیڈ ماسٹر سراپا احتجاج ہیں جن کا کہنا ہے کہ ان کا تقرر آئی بی اے سے ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد عمل میں آیا تھا۔ انھیں 2 سال کنٹریکٹ پر خدمات دینے کے باوجود مستقل کرنے کے بجائے نوکریوں سے فارغ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔ جب کہ سندھ بھر میں اساتذہ کی 5 ہزار آسامیاں خالی ہیں انھیں بلاوجہ فارغ کیا جا رہا ہے جب کہ ان کا تقرر میرٹ پر ہوا تھا ان اساتذہ کا کہنا ہے کہ انھیں اچھی کارکردگی پر اعزازی سرٹیفکیٹ دیے گئے تھے۔

وزیر تعلیم اور سیکریٹری تعلیم کی جانب سے انھیں مستقل کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی مگر اب حکومت ان کی حق تلفی کرکے اپنے من پسند اور غیر تعلیم یافتہ ہیڈ ماسٹر لگوانا چاہتی ہے۔ پریس کلب پر مظاہرہ کرنے والے ان اساتذہ کا کہنا تھا کہ کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود حکومت کے کسی نمائندے نے ان سے رابطہ نہیں کیا جس کی وجہ سے انھوں نے احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے وزیر اعلیٰ ہاؤس کی جانب پیش قدمی کی تھی جس پر پولیس نے ان پر دھاوا بول دیا اور لاٹھی چارج، واٹر کینن اور شیلنگ کا استعمال کیا جس سے کئی اساتذہ زخمی و بے ہوش ہوگئے بہت سوں کو گرفتار کرلیا گیا۔

تعلیم کے معاملے میں وزارت تعلیم، محکمہ تعلیم اور بورڈ آفسز تک بدانتظامیوں اور بدعنوانیوں کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے ہر سطح پر خرابیوں کا اجتماع ہے اعلیٰ افسران کی تقرریوں، ترقیوں اور تبادلوں سے لے کر امتحانات تک مسلسل بدنظمی، بدانتظامی، بدعنوانیوں اور نااہلیت کے مظاہرے میڈیا کے ذریعے سامنے آتے رہتے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق نقل مافیا ایک سیزن میں ایک ارب روپے کماتی ہے۔ دو سال قبل تو امتحانات میں انتہا کی بدنظمی اور بدعنوانی دیکھنے میں آئی تھی میڈیا میں ان کی تفصیلات آنے کے بعد اعلانات و بیانات کا سلسلہ شروع ہوا۔ خود وزیر اعلیٰ نے وزیر تعلیم اور محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران کے ہمراہ امتحانی مراکز کے طوفانی دورے کیے تھے جہاں روشنی نہیں تھی وزیر اعلیٰ نے اپنی جیب سے بلب لگوائے۔

امتحانی پرچوں کی چھپائی اور ترسیل کے کام کی نگرانی میں ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو بھی شامل کرلیا گیا تھا پرچے بھی ان کی نگرانی میں کھلوائے جاتے تھے۔ امتحانی امور میں معاونت اور نقل روکنے کے لیے کمشنر، ڈپٹی کمشنر، مختار کاروں اور پولیس کو بھی شریک کرلیا گیا تھا جس کے بعد یہ خبریں بھی آئیں کہ اختیارات کا غلط استعمال شروع کردیا گیا ہے۔ اس کی آڑ میں امتحانی مراکز کے آس پاس عام لوگوں کو حراست میں لے کر ان سے مال بٹورنے کی خبریں بھی آئیں۔

کیا اس قسم کے وقتی و نمائشی نوعیت کے اقدامات سے بد انتظامی، بد نظمی، بد عنوانی اور نقل کلچر کا خاتمہ ممکن ہے؟ ان تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ محکمہ تعلیم کے پاس کوئی واضح نصب العین ہے نہ ہی امتحانات کے سلسلے میں کوئی جامع پالیسی ہے بار بار وہی غلطیاں دہرائی جاتی ہیں ، اس وقت کے چیئرمین بورڈ نے الزام لگایا تھا کہ نقل مافیا انتظامیہ کو فیل کرکے اپنی مرضی کی انتظامیہ لانے کی کوششیں کر رہی ہے جس کے لیے منصوبہ بندی کی گئی ہے کہ سب سے پہلے ایڈمٹ کارڈ کی ترسیل کا مسئلہ پیدا کیا جائے اس کے بعد سی سی اوز کے ذریعے پرچہ شروع ہونے سے قبل آؤٹ کرائے جائیں، تیسرے مرحلے میں ایوارڈ لسٹوں میں رد و بدل کیا جائے اور ان تمام مرحلوں میں میڈیا کو بطور ہتھیار پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جائے۔ چیئرمین بورڈ کی جانب سے عائد کیے جانے والے سنگین الزامات کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کراکے مستقبل میں ان کے تدارک کے اقدامات کیے جانے چاہیے تھے لیکن ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا۔

جب تک محکمہ تعلیم سے نا اہلوں اورکالی بھیڑوں کا صفایا کرکے تقرریوں، تعیناتیوں، ترقیوں، تبادلوں اور داخلوں میں اہلیت کو معیار نہیں بنایا جائے گا ، تعلیمی معیار روبہ زوال رہے گا، اہل طلبا کا اجتماعی استحصال ہوتا رہے گا جس کے طلبا اور ملک کے مستقبل پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔ کاش ! ہمارے ارباب اختیار و اقتدار اپنی ذمے داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اس مسئلے کی سنگینی کو محسوس کریں۔

The post تعلیم کو تباہ ہونے سے بچائیے appeared first on ایکسپریس اردو.

کشمیر اور اقوام متحدہ کا کردار

$
0
0

70سال سے سسکتا کشمیر ایک بار پھر شدید ظلم و ستم کا شکار ہے اور تقریباً 2ماہ سے مسلسل کرفیو کی صورتحال نے وادی کو اوپن (کھلے) جیل میں تبدیل کردیا ہے۔

جس میں تقریباً ایک کروڑ انسان محض اپنے بنیادی حق ِ خودمختاری کی بحالی و قومی شناخت کو برقرار رکھنے کی پاداش میں پابند سلاسل ہیں ، جو حق انھیں فطرت کی جانب سے ہزارہا سال سے اور 70سال سے اقوام ِ متحدہ کی جانب سے دیگر ممالک و اقوام کی طرح حاصل ہے ۔برصغیر کی موجود مستند تاریخ کے جھروکوں سے ہمیں کشمیر کی ہند و سندھ کے درمیان ایک آزاد و خودمختار ریاست کے طور پر موجودگی کے شواہد 633ء؁ میں اُس وقت بھی نظر آتے ہیں جب اِ س خطے کی اُس وقت کی سب سے بڑی سلطنت سندھ کے راجہ چچ بن سیلائج کی طرف سے کشمیر کے راجہ درلہ بھوردھنہ کے ساتھ سرحدی حد بندی بطور آزاد و خودمختار ریاستوں کے طور پر کی گئی ۔پھر یہ خودمختاری انگریز کے آنے تک کسی نہ کسی صورت میں برقرار رہی۔

برصغیر پر انگریز کے قبضے نے نہ صرف یہاں کے دھن و دولت اور وسائل پر قبضہ کیا بلکہ یہاں کی تمام ریاستوں و اقوام کی خودمختاری کو ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچایا ۔کشمیرکی خودمختاری بھی اُسی کی نذر ہوگئی ۔ انگریز کی حرص پر مبنی اس شاطرانہ پیش قدمی کی شکار کئی اقوام آج تک اپنے قومی وجود وحق اقتدار کی بحالی کے لیے محوئے جستجو ہیں۔ انگریز نے دوسری جنگ عظیم میں ہونیوالے مالی خسارے اور انتظامی کمزوری کی وجہ سے دنیا پر قائم اپنے قبضوں کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا۔

اُس کے تحت ہی برصغیر کو بھی بیرونی تسلط سے آزادی نصیب ہوئی لیکن انگریز جاتے جاتے خطے کی من پسند بندر بانٹ کی خواہش میں بھی یہاں کئی سوالات اور تنازعات برپا کرتا گیا ۔ اُن میں سے سب سے بڑا سوال اور تنازعہ کشمیر کی صورت میں نظر آتا ہے ۔ جو بظاہر دو ہمسایہ ممالک انڈو پاک کے درمیان بٹوارے کے مسئلے کے طور پر اُبھرا لیکن درحقیقت یہ دنیا کی جنت کہلانے والے اس کشمیر کے قومی وجود کے ختم ہونے کا نوحہ ہے ۔

1947میں دونوں ملکوں کی افواج کی پیشقدمی کی بنیاد پر یہ وادی جنگ کا میدان بن گئی ۔ بھاری جانی و مالی نقصان کے بعد بالآخرنوزائیدہ عالمی اقوام کے مشترکہ ادارے اقوام متحدہ کی ثالثی کی بنیاد پر جنگ بندی ہوئی اور تنازعے کے مستقل حل تک دونوں ملکوں کی افواج کی اُس وقت پوزیشن والی جگہ کو عبوری حد بندی یعنی Line of Control (LOC)قرار دیا گیا ۔ جب کہ تنازعے کے مستقل حل کے لیے دونوں ملکوں کو انسانی حقوق پر مبنی اقوام ِ متحدہ کے چارٹر آف ڈیمانڈ کے تحت پاس کردہ قرار دادوں کا بھی پابند کیا گیا ۔ لیکن اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر اگر آج تک حل نہیں کیا جاسکا ہے تو اس میں ایک طرف بھارت کی ہٹ دھرمی ہے تو دوسری طرف اقوام ِ متحدہ بھی اپنی قرار دادوں کا بھرم نہیں رکھ سکی ہے۔

جہاں تک بات ہے پاکستان کی تو اُس کا موقف ’’کشمیر ہماری شہہ رگ ہے ‘‘ ، ’’ کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘سے’’ کشمیری عوام کے حق رائے دہی کو قبول کرنے ‘‘ کے بیانیے تک اُس کے موقف میں لچک نظر آتی ہے لیکن بھارت کے ’’اٹوٹ انگ ‘‘ والے موقف میں لچک نہ لانے والی ہٹ دھرمی نے اس جنت نظیر وادی کو خطے بالخصوص کشمیریوں کے لیے دوزخ بنادیا ہے ۔

کشمیر کے تنازعے کی باعث عالمی طاقتیں انڈیا و پاکستان کی حمایت والے بلاکوں میں منقسم ہیں۔ بظاہر دنیا کے تمام ممالک کے آپس میں سفارتی تعلقات ہیں لیکن سوشیو اکنامک ترجیحات کی بناء پر عالمی قوتیں کشمیر معاملے میں جانبداری دکھاتے ہوئے بھارت کے ناجائز اقدامات پر بھی خاموش رہتی ہیں اور اس مسئلے کو پاک بھارت تنازعہ قرار دینے کی آڑ میں وہ کشمیری عوام پر بھارتی جبر و بربریت پر خاموش (یعنی نیم رضا مند) رہتے ہیں ۔

انسان ترقی یافتہ جانور ہے لیکن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جانور کی خصلتیں اس پر بار بار غالب آتی رہتی ہیں اور وہ ایک دوسرے کو بے دردی سے قتل کردیتے ہیں ۔ اس لیے اس کی جانور والی جبلت پر قابو پانے کے قواعد و ضوابط طے کرنے کے لیے دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد غور و خوض کیا گیا اور ان پر عملدرآمد کے لیے ہی اقوام ِ متحدہ کا ادارہ قائم ہوا ۔ اقوام ِ متحدہ کے چار ٹر آف ڈیمانڈ کے متن کیمطابق ادارے کی ذمے داری قرارپائی کہ آنیوالی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے بچایا جائے گا، انسانوں کے بنیادی حقوق ، انسانی اقدار کی عزت اور قدرومنزلت کی جائے گی ۔ چارٹرآف ڈیمانڈ کے دستور کے آرٹیکل 2کے تحت تمام رکن ممالک کو مرتبہ برابری کی بنیاد پر ہے۔

ہر امن پسند ملک جو اقوام ِ متحدہ کے چار ٹر کی شرائط تسلیم کرے، ان شرائط کو پورا کرسکے اور اقوام ِ متحدہ کی ذمے داریوں کو ادا کرنے کے لیے تیار ہو ، برابری کی بنیاد پر اقوام ِ متحدہ کا رکن بن سکتا ہے ۔ شروع میں اس کے 51ارکان تھے ، بعد میں بڑھتے بڑھتے ان کی تعداد آج 193ہوگئی ہے۔ اس ادارے کی فعالیت کے چھ مرکزی و اہم ادارے ہیں: (۱) بین الاقوامی عدالت انصاف: تمام رکن ریاستوں کے درمیان تنازعات پر اپنا فیصلہ سناتا ہے۔ اس کے ججز کی تعداد 15پر مشتمل ہے۔ (۲) اقوام متحدہ سیکریٹریٹ : یہ ادارے کے انتظامی و مالی اُمور کی تیاری اور فعالیت کی ذمے داریاں سرانجام دیتا ہے۔ (۳) اقوام متحدہ جنرل اسمبلی: تمام اراکین کی مشترکہ اسمبلی ہے ، اس کا کام امن امان کی خاطر بین الاقوامی اصولوں پر غور کرنا اور اس ضمن میں اپنی سفارشات پیش کرنا ہے ۔ (۴) ٹرسٹی شپ کونسل: یہ ادارہ علاقہ جات کے لیے نوآبادکاری کے انتظامات کے لیے قائم ہوا تھا لیکن 1994میں اسے غیر فعال کردیا گیا ۔ (۵) اقوام ِ متحدہ اقتصادی اور سماجی کونسل : اس کا کام عالمی اقتصادی اور سماجی اُمورپر تعاون پیدا کرنا ہے۔ (۶) سلامتی کونسل یا سیکیورٹی کونسل : اس کا کام دنیا بھر میں امن اور سلامتی قائم رکھنا ہے۔

سلامتی کونسل اس کا سپریم ادارہ ہے ۔ اگر کوئی رکن چارٹر کی مسلسل خلاف ورزی کرے اسے سلامتی کونسل معطل یا خارج کرسکتی ہے۔ان تمام ذمے داریوں اور قوانین کی مناسبت سے اقوام ِ متحدہ ہی تمام بین الاقوامی اُمور کا ذمے دار و حتمی ادارہ ہے ۔ اس ادارے کے اُمور ویسے تو جمہوری انداز میںاکثریتی رائے دہی کی بنیاد پرسرانجام دیے جاتے ہیں لیکن اس کے فوجی عملے کی کمیٹی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین ممالک کے چیف آف اسٹاف یا ان کے نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ان پانچ مستقل ارکان کو ویٹو کے پاور ہیں ۔ان میں سے کوئی بھی رکن فیصلے کو ویٹو پاور استعمال کرکے روک سکتاہے۔

دراصل اقوام ِ متحدہ کے نتائج نہ دے سکنے کی وجہ یہی پانچ ویٹو پاور رکھنے والے ممالک کے رویے ہیں۔ آج دنیا کو عالمی سطح پر ناانصافی کا سامنا ہے ۔ طاقتور ممالک و اقوام اپنے مفادات کی بناء پر کمزور اقوام و ممالک کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں ۔ ایسے میں دنیا کو 5ویٹو ممالک کے ہاتھوں میں یرغمال ہونے سے بچانا ہی اقوام ِ متحدہ کا مقصد ہونا چاہیے ۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجودکشمیر اور کشمیری بھارت کے محاصرے میں ہیں۔

وقت آگیا ہے کہ ناکامیوں کا باعث بننے والی اقوام ِ متحدہ کی موجودہ بناوٹ پر غور و خوض کرتے ہوئے اس کی ناکامیوں کی وجہ طاقتور ممالک بالخصوص ویٹو ممالک کی امتیازی حیثیت ختم کرکے ادارے کی برابری و سراسری کی بنیادوں پر تشکیل ِ نو کی جائے ، جو نہ صرف دنیا میں بھوک و افلاس اورسماجی و معاشی استحکام میں مؤثر ہو بلکہ دنیا میں قیام ِ امن کے لیے بھی حتمی اور بااختیار ادارہ ہو ۔ جو تمام ارکان ممالک کی یکساں مالی و عسکری معاونت کی بنیاد پر قائم ہو اور دنیا بھر میں اُبھرنے والے تضادات و تنازعات پر مقدم کارروائی کے اختیار کا حامل ہو ۔ جس کے لیے مالی و عسکری طاقت اور خصوصی حیثیت کی بناء پر پانچ ملکوں کے پاس گروی رکھے گئے اقوام ِ متحدہ کے اختیارات کو چھڑانا ہی اس دنیا میں امن کے قیام کی جانب حقیقی پیش قدمی ہوگی۔

اب جب کہ دنیا بھر سے بلکہ خود بھارت کے اندر سے بھی کشمیریوں پر مظالم کے خلاف آوازیں اُٹھ رہی ہیں ایسے میں بھی ایک طرف اقوام ِ متحدہ خاموش تماشائی بنا بیٹھاہے تو امریکا سپر پاور اور ویٹو اختیارات جیسی مستثنیٰ حیثیت کی وجہ سے معاملے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بناء پر دیکھنے کے بجائے اپنے ملکی مفادات کی بناء پر بھارت کی جارحیت کو نظر انداز کرکے طول دینا چاہتا ہے ۔ کشمیر مسئلے پر دنیا میں جو کھلبلی مچی ہوئی ہے اس کی وجہ بھی امریکا کا کردار ہے جو عالمی تنازعوں میںخود ساختہ تھانیداربنا بیٹھا ہے اور اپنے من پسند فریق بھارت کی جانب جھکا نظر آتا ہے۔ جب کہ اس وقت اقوام ِ متحدہ کا کردار صرف قراردادیں پاس کرنے یا اپیلیں کرنے تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔

دوسری طرف باقی 4 ویٹو ممالک کے ہونٹوں پر بھی مجرمانہ خاموشی طاری ہے ۔ ایسے میں دنیا میں امن اور انسانی برابری کیسے ممکن ہوسکتی ہے ۔اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ اقوام ِ متحدہ کا قیام و تشکیل امریکا کی دلچسپی اور کوششوں کی وجہ سے ممکن ہوئی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ اقوام ِ عالم کے اس عظیم اتحاد کو محض امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے مصرف میں لایا جائے بلکہ اس ادارے کی اہمیت و افادیت کا تقاضہ ہے کہ اِسے دنیا بھر کے ممالک و اقوام کے درمیان برابری ، سراسری اور بھائی چارے کی فضا کو پروان چڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے اور اگر کہیں کوئی تنازعہ پیدا ہو تو غیر جانبداری کو ہمیشہ مقدم رکھتے ہوئے اپنی بالا اور حتمی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے پہل و جارحیت کے مرتکب ٹھہرنے والے ملک و قوم کو راہ راست پر لانے کے لیے اقدامات کرے اور اگر ضروری ہو تو کارروائی کرنے سے بھی دریغ نہ کرے ۔

حالانکہ اقوام ِ متحدہ کے 74ویں حالیہ اجلاس کے وقت دنیا میں کئی مسائل و تنازعوں پر بات چیت ہوئی ہے۔ امریکا -ایران اور سعودی -یمن تنازعے اور افغانستان و شام کی صورتحال کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر پھیلی دہشت گردی کی لہر بڑے مسائل و تنازعے ہیں جو زیر ِ بحث آئے ، لیکن اس وقت سب سے بڑی اہمیت کا حامل معاملہ کشمیر ہی رہا ۔اس لیے اقوام ِ متحدہ کو کشمیر کا معاملہ اولیتی بنیادوں پر حل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے کیونکہ دنیا میں پھیلی بدامنی کی ہوائیں ایشیا کے حالات سے اُٹھتی رہی ہیں، جوکہ عالمی قوتوں نے اپنے مفادات کی بناء پر برپا کیے ہیں ۔ کشمیر کو اس وقت لفظی ہمدردی جیسے احسان کی نہیں بلکہ عملی اقدامات سے حق کی یقینی فراہمی کی ہے ۔ موجودہ صورتحال میں اقوام ِ متحدہ ہی واحد طاقت ہے جو اس معاملے میںحقیقی غیرجانبدارانہ ثالثی کا کردار و حق رکھتاہے ۔

کشمیری عوام اور اُن کی نمایندہ جماعتوں کی اکثریت اپنے قومی وجود کی شناخت سے تقریباً پون صدی سے لڑنے مرنے کے بعد بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں ، جوکہ اُن کا فطرتی و انسانی حق ہے اور اُس کی توثیق اقوام ِ متحدہ کے قوانین بھی کرتے ہیں ۔ ایسے میں اقوام ِ متحدہ کی ذمے داری بنتی ہے کہ اس معاملے کو دو ملکوں کے رواجی تنازعے کے پس منظر میں دیکھنے کے بجائے اِسے کشمیری عوام کے حق ِ آزادی کے تناظر میں دیکھے اور اپنی قرار دادوں و چارٹر آف ڈیمانڈ اور اپنے مقصد ِ قیام کا بھرم رکھتے ہوئے مؤثر و ٹھوس اقدامات کی جانب پیش قدمی کرے ۔ یہ نہ صرف کشمیری عوام کے قومی وجود کا سوال ہے بلکہ خود اقوام ِ متحدہ کے وجود و دائرہ کار اور اختیار کی بقا کا بھی تقاضہ ہے ۔

The post کشمیر اور اقوام متحدہ کا کردار appeared first on ایکسپریس اردو.

دشمنوں سے ہوشیار

$
0
0

پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی شکست کے بعد انگریزوں نے جزیرہ نما عرب سے سلطنت عثمانیہ کا کنٹرول ختم کرکے اسے کئی چھوٹی بڑی ریاستوں میں تقسیم کر دیا۔ اس تقسیم سے ہی واضح ہوگیا تھا کہ وہ عربوں کوکمزور کرنے کے لیے یہ سازشی کارروائی کر رہے ہیں اور بعد میں ہوا بھی وہی جس کا خطرہ تھا۔

عربوں کی آپس میں نہ بنی اور وہ ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہوگئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انھیں سرزمین عرب پر اسرائیل کے ناسورکو ختم کرنے کے لیے اپنی متحدہ توانائیاں صرف کرنا چاہیے تھیں۔ اب اس وقت حال یہ ہے کہ سعودی عرب کی شام یمن اور قطر سے ان بن چل رہی تھی۔ شام پر اسی کی تائید میں مغربی ممالک نے حملہ کر دیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔

سعودی عرب کے یمن سے تعلقات اس لیے خراب ہیں کہ وہ وہاں اپنی پسند کے شخص کو مسند صدارت پر بیٹھا دیکھنا چاہتا ہے۔ وہاں کے جنگجو سعودی عرب پر حملے کر رہے ہیں ، جن سے شاہی محلات اور تیل کی تنصیبات بھی محفوظ نہیں ہیں۔ سعودی حکومت نے دو سال قبل قطر سے اچانک ناتا توڑ لیا تھا ۔ قطر سے محاذ آرائی میں متحدہ عرب امارات سعودی عرب کے ساتھ ہے۔ سعودی عرب کے ایران کے ساتھ ویسے تو برسوں سے تلخ تعلقات چل رہے ہیں مگر چند برسوں سے دونوں ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ بیان بازی کر رہے ہیں جس کی اصل وجہ یمن کا مسئلہ ہے۔

اس کے علاوہ دونوں ممالک میں سی آئی اے اور موساد کی جانب سے پیدا کی جانے والی غلط فہمیاں بھی حالات خراب کر رہی ہیں۔ ان دونوں شیطانی خفیہ اداروں کا مقصد عربوں کو باہم لڑانے کے علاوہ سعودی عرب اور ایران میں باقاعدہ جنگ کرانا ہے۔ عربوں کے آپس کے نفاق کی وجہ سے ہی وہ 1967 میں اسرائیل سے شکست کھا گئے تھے۔ اس وقت اسرائیل ایک ایٹمی طاقت ہے اور امریکا کے زیر سایہ روز بروز ترقی کی منازل طے کرتا جا رہا ہے۔ عرب ممالک اس سے اس قدر مرعوب ہوچکے ہیں کہ وہ مسئلہ فلسطین کو ہی بھول چکے ہیں اور اب اپنے اس ازلی دشمن سے دوستی کے طلب گار ہیں۔

بعض اطلاعات کے مطابق سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات خفیہ طور پر اسرائیل سے تعلقات استوار کرچکے ہیں۔ ایسا اس لیے بھی ہوا ہے کیونکہ امریکا یہی چاہتا ہے اور دونوں ہی ممالک امریکا کو کسی بھی صورت میں ناراض کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ وہ امریکی ایما پر ہی بھارت سے اسٹرٹیجک تعلقات قائم کرچکے ہیں اور وہ بھارت کو خالص مسلم تنظیم او آئی سی میں بھی داخل کرانے کے لیے کوشاں ہیں اور حد تو یہ ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو مسلم امہ کا مسئلہ ہی تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔ مودی جیسے فاشسٹ شخص کو ایوارڈ سے نوازنا مسلم امہ کو شدید صدمے سے دوچار کرنے کے مترادف ہے۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نہ جانے کیوں یہ بھول رہے ہیں کہ بھارت اور اسرائیل ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ اسرائیل کی طرح بھارت بھی مسلمانوں کا ازلی دشمن ہے۔ بھارت اورکشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم وستم سے بھی ان کی آنکھیں نہیں کھل رہی ہیں۔ وہ امریکا پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ کر رہے ہیں جب کہ امریکا کی پالیسی یہ ہے کہ وہ اسرائیل کو عربوں پر حاوی کرانا چاہتا ہے اور اب تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسرائیل عربوں پرحاوی ہوچکا ہے۔

ایک وقت تھا جب لیبیا ، شام اور عراق اسرائیل کے لیے مسلسل خطرہ بنے ہوئے تھے وہ اتنی طاقت رکھتے تھے کہ اسرائیل کا مقابلہ کرسکتے تھے مگر سی آئی اے اور موساد نے ایسا کھیل کھیلا کہ ان تمام میں بغاوت پھیلا کر انھیں اپنے ہی عوام کے ہاتھوں تباہ و برباد کرا ڈالا۔ شام میں آگ اور خون کا کھیل اب بھی جاری ہے اب اسرائیل کو صرف ایران سے ہی خطرہ لاحق ہے۔ اس وقت صدر ٹرمپ اسرائیل نوازی میں تمام سابقہ امریکی صدور پر بازی لے گئے ہیں وہ متنازعہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔

اب ٹرمپ کا منصوبہ یہ ہے کہ کسی طرح سعودی عرب اور ایران میں جنگ کرا دی جائے تاکہ پورے مشرق وسطیٰ کو جنگ کے شعلوں میں دھکیل دیا جائے۔ اگر سعودی عرب اور ایران کی کبھی جنگ ہوئی تو سعودی عرب اور ایران کے حامی بھی خاموش نہیں رہ سکیں گے اور وہ بھی جنگ کا حصہ ضرور بنیں گے اس طرح ٹرمپ کی یہ شاطرانہ چال کہ عرب ممالک اور ایران خود ہی اپنی جنگ میں تباہ و برباد ہوجائیں کامیاب ہوسکتی ہے مگر اس کا دار و مدار اس پر ہے کہ وہ ٹرمپ کے بھڑکاوے میں نہ آئے۔

چند دن قبل سعودی عرب کے جنوب میں واقع اس کے تیل کے بڑے کنوؤں اور وہاں موجود ایک بڑی ریفائنری پرکئی ڈرونز حملے کیے گئے ہیں جن سے تیل کے کنوؤں کے ساتھ ساتھ ریفائنری میں بھی آگ لگنے سے بہت نقصان ہوا ہے اس سے نہ صرف سعودی عرب کی آمدنی پر اثر پڑا ہے بلکہ تیل کی عالمی سپلائی بھی متاثر ہوئی ہے جس کے نتیجے میں تیل کی قیمتوں میں اچانک اضافہ ہوگیا ہے۔

یہ ایسا وقت ہے جب سعودی عرب کی معیشت خستہ حالی سے گزر رہی ہے کیونکہ اسے اپنے پڑوسیوں سے خطرے کے سبب جدید مہنگا اسلحہ خریدنا پڑ رہا ہے خاص طور پر یمن کا مسئلہ اس کے گلے کا ہار بن گیا ہے۔ حالیہ ڈرونز حملوں کی تباہی نے اسے مزید اسلحہ خریدنے کی جانب مائل کردیا ہے۔ اس وقت روس کی جانب سے اسے دفاعی نظام ایس فور ہنڈریڈ فروخت کرنے کی پیشکش کی گئی ہے اس نظام کی موثر کارکردگی کی وجہ سے ترکی اور بھارت پہلے ہی اسے خریدنے کے لیے روس کو آرڈر دے چکے ہیں۔

امریکی پیٹریاٹ میزائل کی ناکامی کے بعد سعودی حکومت ایس 400 دفاعی نظام کو ہی خریدنا چاہے گی مگر وہ شاید ایسا نہ کرسکے کیونکہ اس سے امریکا ناراض ہوگا اور وہ امریکا کی ناراضگی کا خطرہ کسی صورت مول نہیں لے سکتی۔ گوکہ سعودی حکومت امریکا کو اپنا جگری دوست خیال کرتی ہے مگر ٹرمپ کی عیاری دیکھیے کہ وہ سعودی عرب میں ہونے والے ڈرونز حملوں کو زبردستی ایران کی جانب سے کیے گئے حملے ثابت کرنے پر مصر ہے۔ اس نے اپنے خلائی سیارے کے ذریعے بھیجی گئیں تصاویر سے ڈرونز کے داغے جانے کی جگہ ایران کے جنوبی حصے کو قرار دیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ سیٹلائٹ کا یہ خاکہ واضح نہیں ہے خود مغربی ماہرین اسے مشکوک قرار دے رہے ہیں۔ مگر ٹرمپ اور ان کے وزیر خارجہ مسٹر پومپیو اسے ایرانی کارروائی قرار دے کر سعودی عرب کو ایران پر حملہ کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ ایسے میں یورپ میں متعین ایک سعودی سفیر نے سعودی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ ہوشیار رہے اور کسی کے کہنے پر محاذ آرائی سے گریز کرے۔ اب تو برطانوی وزیر اعظم مسٹر بورس جانسن بھی ایران کو سعودی عرب پر ڈرون حملوں کا ذمے دار قرار دے رہے ہیں۔ لگتا ہے برطانیہ عراق پر جس طرح مہلک ہتھیاروں کے رکھنے کے جھوٹے امریکی دعوے کی تصدیق کرکے عراق کی تباہی کا باعث بنا تھا اسی طرح اب وہ نہ صرف ایران بلکہ سعودی عرب کی بھی تباہی چاہتا ہے۔

ایسے ماحول میں سعودی عرب کو معاملات کا صحیح ادراک کرنا ہوگا اور امریکی ترغیب پر اسے ایران پر حملہ بہت مہنگا ثابت ہوسکتا ہے۔ ایران کو بھی اب حوثی قبائل کو سعودی عرب پر حملوں سے باز رکھنا چاہیے۔ اس وقت تازہ خبر یہ ہے کہ حوثیوں نے سعودی عرب پر مزید حملے نہ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

ادھر ایران نے بھی سعودی حکومت کی جانب سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے سعودی حکومت کو بھی دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے ایسا ہی کرنا چاہیے ساتھ ہی اسے اس پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے کہ کہیں ڈرون حملے اسرائیل کا کارنامہ تو نہیں ہیں واضح ہو کہ نائن الیون کے حملوں میں بھی اس کے ملوث ہونے کے ثبوت ملے تھے مگر سی آئی اے نے جان بوجھ کر انھیں دبا دیا تھا۔ ابھی حال ہی میں وہائٹ ہاؤس کے احاطے میں آواز ریکارڈ کرنے والے خفیہ آلات پکڑے گئے ہیں۔

خود سی آئی اے کے کچھ ارکان اسے اسرائیل کی کارروائی قرار دے رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں جب کہ دشمن خود آپس میں ایک دوسرے کو دھوکہ دے رہے ہیں تو سعودی عرب کا ان پر اندھا بھروسہ کرنا خطرناک ہوگا۔

The post دشمنوں سے ہوشیار appeared first on ایکسپریس اردو.

معاشرے کی زبوں حالی  (آخری حصہ)

$
0
0

محدود آمدنی بھی انھیں اپنے ارادوں سے باز نہیں رکھتی ہے۔ دولت مند اور ان کی اولادیں دنیا کے تمام عیش و عشرت پر اپنا حق سمجھتی ہیں۔ ضرور سمجھیں لیکن اس قدر نہیں کہ افلاس زدہ لوگوں اور وہ بھی معصوم بچوں پر ظلم کی انتہا کردیں اور انھیں حشرات الارض سے بھی کمتر جان کر پیروں تلے مسل دیا جائے۔

اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جنھیں نمبر 2 ذرائع سے دولت حاصل ہوئی ہے اور رزق حرام کھانے والوں کے مزاج میں سختی اور بے رحمی آجاتی ہے۔ اللہ کے ہر حکم میں حکمت پوشیدہ ہے جن کاموں کو منع کیا گیا ہے ان کے کرنے سے بہت سے نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں۔

آج کا دور افراتفری، خود غرضی اور تعیشات زندگی کے حصول کا دور ہے۔ اسلامی مساوات، پڑوسیوں اور رشتے داروں کے حقوق اور امداد باہمی کے جذبات سرد پڑ گئے ہیں اب اگر شاہراہوں، گلیوں اور محلوں میں ہونے والے ظلم کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھاتا ہے 20 سال قید میں رہنے والی لڑکی کی چیخوں اور دردناک آوازوں نے محلے والوں کی دل کی سختی کو نرم نہیں کیا کہ وہ ایک دن تھوڑا سا وقت نکال کر پولیس کو ہی فون کردیں یا کسی فلاحی ادارے کو، یہ پنجاب کا واقعہ ہے جہاں ظالم بھائیوں نے والدین کے انتقال کے بعد اپنی اکلوتی بہن کا خیال رکھنے کی بجائے کسی دوسرے گھر میں قید کردیا۔ ظالم بھائی کھانے کی پوٹلی دور سے پھینک جایا کرتے تھے غالباً کھڑکی سے، دروازہ کھولنے کی بھی زحمت نہیں کی گئی ۔

20-22 سال ایک طویل عرصہ ہوتا ہے اس عرصے میں وہ تڑپی، چیخی چلائی، کوئی مدد کو نہیں پہنچا، جب اپنے ہی سنگ دلی کا مظاہرہ کریں تو غیروں سے امید عبث ہے، اس زندان میں جسے اس کے سگے بھائیوں نے ڈالا تھا، وہاں کا پل پل اذیت ناک اور لہو لہو تھا کھانے پینے کا کسے ہوش، لہٰذا بے شمار کھانے کی تھیلیاں کھل بھی نہ سکیں لیکن جسے اللہ زندگی دے وہ ہر حال میں جینے پر مجبور ہوتا اس مظلوم و بے کس عورت کے جسم میں کیڑے پڑ گئے اور ہاتھ پیروں کے ناخن ایک، ڈیڑھ انچ سے زیادہ بڑھ چکے تھے، کوئی پرسان حال نہ تھا، بھائیوں نے اسے مارنے کی ایسی ترکیب سوچی کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ بہرحال کہانی کا انجام مختلف ہوگیا وہ زندہ سلامت رہی اور بھائیوں کا جرم سامنے آگیا۔ انھوں نے محض جائیداد ہتھیانے کے لیے یہ وحشیانہ کھیل کھیلا تھا۔

بیس بائیس سالہ لڑکی چوالیس، پینتالیس کی عمر کو جب پہنچی تب اسے اس عذاب سے نجات مل سکی، عمر کا ایک خوبصورت حصہ زندان کی نذر ہوگیا، گزرے ہوئے ماہ و سال کبھی لوٹ کر نہیں آتے، یقینا اس عورت کو صحت مند زندگی کی طرف لوٹنے میں ایک عرصہ درکار ہوگا۔

وقت ایسے ایسے سانحات سے آشنا کر رہا ہے جن کا تصور بھی سوہان روح سے کم نہیں، حکمرانوں اور اہل اقتدار کی سفاکی اور ظلم پر حیرت ہوتی ہے سندھ کے سرکاری اسپتال کا ایک واقعہ حال ہی میں سامنے آیا ہے یہ لوگ زندگی میں بھی غیر انسانی سلوک کرتے ہیں اور بعدازمرگ بھی انسان کو انسان نہیں بلکہ جانور ہی سمجھتے ہیں ایک لاوارث شخص کو روڈ پر آخری غسل دیا جا رہا ہے، غسل دینے کا طریقہ بھی ملاحظہ فرمائیے، اسٹریچر پر مردہ شخص کو لٹا دیا گیا ہے اور اسپتال کا غالباً ملازم ہی قرآنی آیات کا ورد، جگہ گندی ایک منڈیر ہے جس پو ٹوٹا پھوٹا لوہے کا ایک کھانچا ہے اس پر اس بدنصیب کی لاش ہے پانی کھائی اور بدبودار نشیبی جگہ پر گر رہا ہے نہ صابن، نہ کافور اور عطر وقت رخصت ہی اسے پاکیزہ چیزوں سے نواز دیتے۔

اس طرح تو جنگلی جانور مثلاً ان کتے بلیوں کو نہلایا جاتا ہے جنھیں گلیوں سے پکڑتے ہیں یہ تو انسان تھا جس کی تعظیم اور عزت کا سبق اللہ اور اس کے رسول پاکؐ نے دیا ہے۔ وہ بھوکا، پیاسا افلاس زدہ انسان ہمیشہ کے لیے اپنی آخری منزل کی طرف روانہ ہو رہا ہے اس کے ساتھ یہ سلوک؟ سندھ کے اسپتالوں سے دوائیں غائب، ڈاکٹر غیر حاضر، اسپتال کے عملے کا پتا نہیں، جدید مشینری تو دور کی بات پرانی مشینری بھی اسی طرح غائب جس طرح میٹرو بسوں کی سیٹیں، ہینڈل انجن بلکہ میٹرو اسٹاپ بھی مع سیٹوں کے ساتھ غائب ہوگیا تھا یہی حال سرکاری اسپتالوں کا ہے لیکن ٹی وی چینلز پر آکر اپنے ان کارناموں کا ذکر کیا جاتا ہے جن کا سرے سے نام و نشان نہیں، پورا سندھ جہالت کی تاریکی میں غرق ہے۔ غربا اور مساکین کے لیے زندگی تنگ کردی گئی ہے۔ بجلی، پانی اور گیس جیسی نعمتوں سے گاؤں دیہات کے لوگ محروم تھے ہی اب زندگی کو بچانے کا مسئلہ درپیش ہے۔

حال ہی میں شکارپور کے ایک خاندان کا چراغ اس وقت گل ہوگیا جب ان کے 10 سالہ بچے کو باؤلے کتے نے کاٹ لیا کتے کا زہر اتنی تیزی سے پھیلا کہ زندگی کے لالے پڑ گئے، والدین اپنے بچے کو مختلف اسپتالوں میں لے کر آگئے تاکہ زندگی کا دیا جلتا رہے، جب شفا نصیب نہ ہوئی تب لاڑکانہ کے بے نظیر اسپتال میں پہنچے لیکن افسوس صد افسوس بلکہ قابل شرم یہ حقیقت سامنے آئی کہ دوسرے اسپتالوں کی طرح اس اسپتال میں بھی سرے سے ویکسین نہیں ہے اس طرح ماں باپ کے سامنے بچے نے آخری سانسیں لیں اور اس دھرتی سے رخصت ہوا جہاں خیرات زکوٰۃ کی رقم بھی بینکوں میں جمع ہوجاتی ہے۔

ڈنگی کا مرض نہ کہ سندھ میں بلکہ پنجاب میں بھی تیزی سے پھیل رہا ہے اور مریض بڑھتے جا رہے ہیں، اموات میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔ کراچی میں تو جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، بدبو، تعفن پھیلا ہوا ہے، پوش علاقوں کو حکمرانوں کی بداعمالیوں نے کچرا کنڈی بنادیا ہے۔ دو چار جگہوں کے علاوہ کراچی غلاظت میں بدل گیا ہے اس طرح مختلف بیماریاں تیزی سے وجود میں آئی ہیں جن میں ڈنگی بخار سبقت لے گیا ہے۔ شہر قائد کو صاف کرنے کے وعدے تو صاحب اقتدار روز ہی کرتے ہیں اور ایک ماہ کی مدت بھی لیتے ہیں لیکن مہینہ ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔

اگر کراچی کو میئر وسیم اختر سابق میئر مصطفیٰ کمال کو ذمے داری دے کر واپس نہ لیتے تو کراچی صاف ہوچکا ہوتا، لیکن کیا کیا جائے سیاست، مصلحت اور خوف آڑے آگیا، وسوسوں نے فیصلہ بدلنے پر مجبور کردیا اور ادھر سابق میئر مصطفیٰ کمال کے منصوبے بھی خاک میں مل گئے کہ انھیں بھی اپنی کارکردگی دکھانے کا ایک اچھا موقع ملا تھا یہ موقع ہوسکتا ہے انھیں کہاں سے کہاں پہنچا دیتا بہرحال اکھاڑے میں کھیلنے والے پہلوانوں کی طرح سیاست میں بھی داؤ پیچ ہوتے ہیں جب چاہتے ہیں یہ حضرات پینترا بدل لیتے ہیں لیکن آپس کے اختلافات میں شہری پس رہے ہیں اور حکمران ہر حال میں مزے میں ہیں لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ یہ مزے عارضی ہوں اور دوسروں کی طرح انھیں بھی بدمزگی کا شکار ہونا پڑے، ڈنگی مرض نے پنجاب کے مختلف شہروں کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے وہاں کچرا نہیں تو برسات کے کھڑے پانی نے ڈنگی کی خوب افزائش کی اور اب یہ فیصل آباد، ملتان اور دوسری جگہوں کے رہائشیوں کو بیماری میں مبتلا کرکے موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں۔

پنجاب میں پتوکی کے علاقے میں تین بچوں کی ہلاکت نے ہر شخص کو غمزدہ کردیا۔ تین بچوں کی لاشیں جن میں ایک بچے کی لاش سالم اور دوسرے دو بچوں کی باقیات ملیں، کہاں ہیں صوبہ پنجاب کے پولیس اہلکار، گشتی پولیس اور دوسرے ذمے داران جنھوں نے مختلف علاقوں اور شہروں کو لاوارث چھوڑ دیا ہے جنگلی آتے ہیں اور بچے اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ بے شک سفاکی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے لیے لمحہ فکریہ ہے، جس طرح سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے لیے کڑا وقت ہے، اقتدار میں آتے ہی مقتدر حضرات سب کچھ بھول جاتے ہیں، اللہ کا خوف بھی دل سے جاتا رہتا ہے اور وقتی کامیابی اور خوشی کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔ لیکن اپنا بویا ہوا کاٹنا ضرور پڑتا ہے یہ قانون قدرت ہے۔

The post معاشرے کی زبوں حالی  (آخری حصہ) appeared first on ایکسپریس اردو.

اب مجھے ضرورت نہیں…

$
0
0

’’ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ ‘‘ میں نے ان سے سوال کیا، ’’ ماں باپ تو ساری عمر اسی لیے محنت اور مشقت کرتے ہیں کہ وہ اپنی اولاد کو اپنے بعد بھی سکون سے اور تحفظ سے رہنے کے لیے ٹھکانہ میسر کردیں، ان کے لیے پائی پائی جوڑتے ہیں اور آپ نے اپنی اولادوں سے کہہ دیا کہ آپ کو ان کی ضرورت نہیں؟ ‘‘

میں نے انھیں شرمندہ کرنے کی پوری کوشش کی، شاید وہ اپنی سوچ بدل لیتے اور اپنی اولاد کی خاطر سوچتے۔ ان کے بچوں نے مجھے یہ ذمے داری سونپی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے ابا میری بہت عزت کرتے ہیں اور میری بات کو نہیںجھٹلائیں گے ۔ ان کے وہی بچے جو کبھی اپنے گھر آنے پر وہ اپنے کمروں سے نکل کر نیچے سلام کرنے بھی نہ آئے ہوں گے، مجھے یوں تپاک سے ملے بھی نہ ہوں گے، میری خوشی اور غم میں شریک ہونا تو دور کی بات ، انھیں جانتے تک نہ ہوں گے۔ جب انھوں نے اتنے مان سے مجھ سے کہا تومیں نے سوچا کہ جب کوئی آپ کے پاس امید لے کر آتا ہے تو آپ ایک امانت دار ہوتے ہیں جسے ایک امانت سونپی جاتی ہے۔ سو میںنے وعدہ کر لیا کہ میں ان کے والد سے بات کروں گی۔

’’ آپ کو علم ہے نا بہن کہ میں نے کس طرح مشقت کی ہے… محنت کی ہے، اپنا آپ بھول کر ان بچوں کو ہر سہولت فراہم کی۔ یہ میرے چار بیٹے جنھیں دیکھ دیکھ کر میں جیتا تھا، انھیں نظر بھر کر دیکھتا تک نہ تھا، سوچا کرتا تھا کہ بڑھاپے میں یہ میرا آسرا ہوں گے، میرے جنازے کو کندھا دینے کے لیے کسی اور کی ضرورت نہ ہو گی!‘‘ وہ رکے کہ ان کے حلق میں کچھ اٹکا تھا، ’’ ان کی ماں نے کبھی انھیں اٹھ کر پانی تک نہ پینے دیا تھا، ان کے جوتے تک پالش کرتی تھی، ملازموں کے ہوتے ہوئے بھی و ہ ان کے سارے کام خود کرتی تھی۔ انھیں تکلیف ہوتی تو وہ تڑپ تڑپ کر بے حال ہو جاتی تھی، اسے اس وقت تک چین نہ آتا تھا جب تک کہ یہ سارے سکون سے سو نہ جاتے تھے۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر دیکھتی تھی کہ کوئی بچہ برا خواب دیکھ کر ڈر کر نیند سے جاگ نہ گیا ہو، کسی کاکمبل نہ کھسک گیا ہو اوراسے سردی لگ جائے۔ ان کے امتحانات ہوتے اور وہ رات رات بھر جاگ کر پڑھتے تو اس کا امتحان سب سے کڑا ہوتا، رات کو جاگتی اور انھیں تازہ چپس، سینڈوچ اور برگر بنا بنا کر چائے اور کافی کے ساتھ دیتی کہ کہیں بھوک سے ان کی ذہنی استعداد کم نہ ہو جائے!‘‘

’’ یہ سب تو ایک ماں کے فرائض ہیں، ساری مائیں ایسا ہی کرتی ہیں … ہاں جو کچھ آپ بتا رہے ہیں، وہ بہت زیادہ ہے! ‘‘ میں نے انھیں کہا۔

’’ اس نے ان بچوں کی خاطر اپنی ہستی مٹا دی… میری بیوی مر گئی اور صرف ان بچوں کی ماں زندہ رہ گئی! ‘‘ وہ سسکے۔’’ ایسا سب عورتوں کے ساتھ ہوتا ہے اور جب ایسا ہوتا ہے تو ہر مرد کو سمجھ میں آتا ہے کہ ان کی ماں نے بھی ان کے لیے یہ سب کچھ کیا ہوتا ہے، جسے وہ اپنے بیوی بچوں میں کھو کر بھول جاتا ہے! ‘‘ میںنے مزید تصدیق کی۔

’’ اس نے مجھے مجبور کر کے وہ گھر بکوایا جو میں نے اسے بنا کر دیا تھا، اس کے اسپنوں کا گھر، جس کی خواہش اسے اس دن سے تھی جب سے وہ میری زندگی میں آئی تھی۔ اس نے ان بچوں کی خاطر اپنے پہلے باقی سارا زیور بیچا، پھر کانوں میں پہنی ہوئی بالیوں کے بعد اپنا آخری زیور جو بیچا جو کہ وہ انگوٹھی تھی جو میںنے اسے منہ دکھائی میں دی تھی۔ سب کچھ تج کر اس نے ان سب بچوں کواعلی تعلیم کے لیے باہر بھجوانے پر لگا دیا اور ہر بچے کی منت کی کہ پڑھ لکھ کر واپس ضرور آنا۔ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا پھر چوتھا … باہر گئے اور ماں سے کیا ہوا وعدہ بھول گئے۔ اس کی بیماری میں بھی کوئی نہ لوٹا، سب کے پاس مجبوریوں کی داستانیں تھیں۔ وہ ان سب کے سروں پر سہرے سجانے کے خواب دیکھتی رہی اور ان سب نے خود ہی سہرے سجا کر ماں کو اپنی شادیوں کی تصاویر بھجوا دیں۔ اسے ان سب کی بے اعتنائیوں نے مار ڈالا… اس کے جنازے کو کندھا بھی نہ دیا، سب غیروں کے کندھوں پر گئی وہ!! ‘‘ ان کی اس وضاحت سے میرے اندر کچھ بری طرح ٹوٹا۔ ایسا صرف ان کے ساتھ ہی نہیں ہوا، یہ المیہ اب ہمارے ہاں عام ہے۔

’’ تو اب تو وہ سب لوٹ آنا چاہتے ہیں آپ کے پاس اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، آپ انھیں معاف کر دیں! ‘‘

’’ معافی ہی معافی ہے۔ انھوں نے آپ کو بھیجا ہے میر ے پاس، جانتے ہیں کہ آپ کی حیثیت میری نظر میں کیا ہے، میں آپ کو انکار نہیں کر سکتا۔ آپ کہہ رہی ہیں تو میں انھیں معافی دے رہا ہوں ! ‘‘ انھوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔

’’ تو گویا وہ آپ کے گھر پر آ سکتے ہیں ؟ ‘‘ میںنے خوشی سے سوال کیا۔

’’ وہ جب چاہیں، مجھے ملنے کے لیے آ سکتے ہیں ! ‘‘ ان کا لہجہ اٹل تھا۔

’’ یہ تو معافی نہ ہوئی پھر… ‘‘ میں نے منہ لٹکا کر کہا۔

’’ آپ کو نہیں علم کہ وہ کیوں لوٹے ہیں، ان کے معافی مانگنے کے پس منظر میںکیا غرض مضمر ہے! ‘‘ انھوں نے بے بسی سے کہا۔

’’ میںنے اپنی تمام دولت کسی ٹرسٹ کو وقف کرنے کی بات کسی دوست سے کی تھی، اس دوست کا ایک دوست، میرے بیٹوں میں سے ایک کا سسر ہے۔ اس کے ذریعے ان سب کو اس ’’ سانحے ‘‘ کی خبر ہوئی ہے اور اب وہ چاہتے ہیں کہ وہ کچھ عرصہ کے لیے لوٹ آئیں اور وہ سب کچھ ہتھیا لیں جو انھیں چاہیے۔ آپ کو لگتا ہے کہ انھیں ان کا باپ چاہیے؟ کیا وہ واقعی اس بات پر شرمندہ ہیں کہ انھوں نے اپنی ماں کی قربانیوں کی قدر نہیں کی؟ ‘‘

’’ چلیں جو بھی ہے، اب وہ شرمندہ ہیں!! ‘‘

’’ مجھے مجبور نہ کریں پلیز! ‘‘ انھوں نے میرے سامنے ہاتھ باندھ دیے۔

’’ اپنے بچوں کوایسا بنانے میں کچھ حد تک آپ کی اپنی غلطیاں بھی ہیں اور آپ کی مرحومہ بیگم کی بھی! ‘‘

’’ ہائیں؟ یہ کیا کہا آپ نے؟ یعنی غلطی پر وہ ہیں اور آپ نہ صرف مجھے بلکہ میری مرحومہ بیوی کو بھی غلط کہہ رہی ہیں! ‘‘ ان کے لہجے میں حیرت سے زیادہ ناراضی تھی۔

’’ میں ایسا نہیں کہنا چاہتی تھی مگر ایسا ہی ہے۔ ہم مائیں، بالخصوص پاکستانی مائیں اپنے بچوں کو خود ہی ایسا بناتی ہیں کہ انھیں ہم سے پیار اور لگاؤ نہیں ہوتا، ان کا ہمارے ساتھ مطلب اور غرض کا رشتہ قائم ہوتا ہے! ‘‘ میںنے کہا۔

’’کیا مطلب، میں سمجھا نہیں؟ ہم کیوں چاہیں گے کہ ہمارے بچے ہم سے پیار نہ کریں بلکہ ہمیں کسی لالچ کی وجہ سے ماں باپ سمجھیں؟ ‘‘ انھوں نے چہرے پر حیرت سجا کر پوچھا۔’’ کیونکہ ہم اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا بنا کر کھلاتی ہیں، ان کی انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتی ہیں تو اس وقت تک بھی ان کی انگلی پکڑ کر چلتی ہیں جب ہمیں انھیں خود سے چلنا اور احتیاط سے چلانا سیکھنا چاہیے ، کیونکہ ہم انھیں اپنے ساتھ لے کر ہی چلتے رہنا چاہتی ہیں۔ انھیں سکھاتی نہیں ہیں کہ جس دن وہ سیکھ گئے وہ اڑ جائیں گے، اس دن ہمارے اور ان کے بیچ کا تعلق کمزور پڑ جائے گا۔

جب پرندے بھی اس قابل ہوتے ہیں کہ پرواز کرنا سیکھ سکیں، ان کی مائیں انھیں اڑنا خود سکھاتی ہیں، وہ گرتے ہیں تو ماں کا دل لرزتا ہے مگر وہ اسے پرواز سکھانا ترک نہیں کرتی۔ یہاں تک کہ وہ پر اعتماد ہو جاتا ہے اور گھونسلے کو چھوڑ جاتا ہے، اب اس کی اپنی دنیا ہوتی ہے۔ ہم اپنے بچوں کو پہلے جسمانی اور پھر مالی طور پر اپنا محتاج رکھنا چاہتے ہیں، ہمیں لگتا ہے کہ صرف یہی ایک تعلق ہے کہ جس کی وجہ سے وہ عمر بھر ہمارے ساتھ رہیں گے، نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

بچوں پرتوجہ دیں، انھیں اچھے برے کی پہچان کروائیں لیکن ان کے پیچھے یوں ہلکان نہ ہوں کہ ان کے بعد ازاں کے رویے آپ کی جان لے لیں۔ بچوں کا آپ کی نسبت، اپنے بچوں اور اپنی بیوی سے زیادہ محبت کرنا ، قدرت کا اصول ہے۔ جب ہم اس اصول کو نہیں سمجھتے تو ہمیں ان کی بے حسی کے رویے ہضم نہیں ہوتے !! ‘‘ میںنے کوشش کی کہ وہ اپنے رویے اور فیصلے میں لچک پیدا کریں ۔ ’’ ابھی آپ نے جو بات کی ہے، وہی اس سارے کا نچوڑ ہے۔ میں نے جوانی میں نہیں سمجھا اس اصول کو مگر اب آپ کے سمجھانے سے سمجھ گیا ہوں ۔ میںنے انھیں جتنا دینا تھا، اس کے لیے مجھے اپنا آپ بھی بیچنا پڑا مگر میں نے انھیں دیا۔

اچھا بچپن، اچھی تعلیم اور ان کے سارے خوابوں کی تعبیریں۔ میںنے اس کے بعد محنت کی اور دن رات گدھوں کی طرح کام کیا اور اپنا آپ نئے سرے سے سیٹ کیا۔ انھیں لگا کہ اب باپ ہمیشہ عزلت میں رہے گا ۔ وہ مجھ سے اس لیے معافی چاہتے ہیں کہ انھیں مجھ سے غرض ہے مگر اب مجھے ان سے کوئی غرض نہیں۔ میں نے اب اپنی آخرت سنوارنے کا سوچا ہے۔ میں انھیں معاف کر رہا ہوں مگر انھیں اب میری جائیداد سے کچھ ملنے والا نہیں ہے!! ‘‘ ان کا لہجہ اور فیصلہ دونوں اٹل تھے ۔’ چلیں … اگر انھیں آپ کی جائیداد میں سے کچھ ملنے والا نہیں ہے تو وہ بھی اس کے بعد آپ کو ملنے والے نہیں ہیں !‘ میںنے دل میں سوچا اور انھیں اللہ حافظ کہہ کر نکل آئی۔

The post اب مجھے ضرورت نہیں… appeared first on ایکسپریس اردو.


اقوام متحدہ کا ٹیسٹ

$
0
0

آپ کسی ملک کے ایک صوبے میں مذہبی لحاظ سے تعدادی اکثریت رکھتے ہوں اور وہاں صدیوں سے آباد چلے آ رہے ہوں لیکن کچھ ناروا قسم کی بندشوں کو بھی برداشت کرتے چلے آ رہے ہوں۔ پھر ایسا ہو کہ 72 سال کے بعد اچانک اپنی محدود آزادی سے بھی نہ صرف محروم کر دیے جائیں بلکہ ایک جنونی اور شدت پسند سیاسی پارٹی کے لیڈر کے ہاتھوں مارشل لائی حالات کا کچھ یوں شکار ہو جائیں کہ اپنے ہی گھروں میں قید کر دیے جائیں۔

آپ خوراک، دوا، اسکول، بازار، دفتر، نقل و حرکت، کاروبار تک سے محروم ہو جائیں اور اوپر سے مسلح افواج کے محاصرے میں دے دیے جائیں تو ہم اس قسم کی صورت حال کو بیسویں صدی میں کیا نام دیں گے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان مختلف قسم کی محرومیوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اگر اس کے بنیادی انسانی حقوق پر پہرے بٹھا دیے جائیں۔

انھیں خوراک، نقل و حرکت کی آزادی،علاج اور دوا سے محروم رکھنے کے لیے قید و بند اور قتل و غارت کے ذریعے محکوم رکھنے کی کوشش کی جائے تو دُنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ حربہ کبھی کامیاب نہیں ہوا ہے بلکہ اس کا رد ِ عمل کئی گنا مزید اُبھرتا ہے اور پھر شدت اختیار کر کے مظلوم ، محکوم، مجبوراور بے بس کو زندان کے دروازے توڑ کر مقابل ہی نہیں لا کھڑا کرتا ہے بلکہ مقابلے کے بعد کامیابی اور فتح سے بھی ہمکنار کرتا ہے۔

دنیا کی تاریخ میں کئی قومیں موجود ہیں جنہوں نے ظلم وجبر کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی اور اس میں کامیاب ہوئے حالانکہ جس قوت کے خلاف وہ جنگ لڑ رہے تھے، اس وقت بظاہر یہی لگتا تھا کہ کمزور اور محکوم اس جابر قوت کو شکست نہیں دے سکیں گی لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ کمزوروں اور مظلوموں نے طاقتوروں کو شکست سے دوچار کر دیا۔ الجزائر کی مثال سب کے سامنے ہے۔ الجزائر کے باشندوں نے فرانسیسی استعماری قوت کو کمزور ہونے کے باوجود شکست سے دوچار کیا اور آزادی حاصل کی۔

الجزائر آج دنیا کے نقشے پر آزاد ملک کے طور پر دیکھا ج اسکتا ہے۔ فلسطینی بھی جدوجہد کر رہے ہیں اور کشمیری بھی۔ آخری فتح کبھی شدت پسند اور ظالم کی نہیں ہوتی۔ کشمیری سست اور کمزور دکھائی دے رہے تھے۔ ان کی جدوجہد ِ آزادی ماند پڑ رہی تھی۔ مارشل لائی حالات پیلٹ گنوں، گولیوں، گرفتاریوں، قتل کی وارداتوں نے سست اور سوئے پڑے کشمیریوں کو نریندر مودی کے خود کشُ حملے نے جگا دیا ہے اور وہ سڑکوں پر آ گئے ہیں۔ اب ان پر نیند حرام ہو جائے گی تا آنکہ وہ اپنا مقصد ِ حیات نہ پا لیں۔ یہ معاملہ کفر و اسلام سے بڑھ کر انسانیت کا ہے جس کا اظہار گزشتہ دنوں عمران خان نے نیویارک میں ببانگ ِ دُہل کیا۔

ہمارے بعض دوست دن رات اپنے موبائل فون سے کھیلتے رہتے ہیں۔ ان کے فون پر اچھی بُری، پاکیزہ اور فحش ویڈیوز کے انبار لگے ہوتے ہیں البتہ ایک دوست ڈاکٹر مشتاق دنیا بھر کی اہم خبروں کا ذخیرہ جمع کرتے اور قابل ِ ذکر ویڈیوز مجھے بھی بھیجتے رہتے ہیں۔ 23 ستمبر کو ہیوسٹن میں جو وزیر ِ اعظم مودی نے صدر ٹرمپ کو ہمراہ لے کر انڈین ہجوم سے خطاب کیا اس کے اختتام پذیر ہونے کے کچھ ہی دیر بعد ڈاکٹر مشتاق نے اس جلسے کی سات عدد ویڈیوز مجھے ارسال کر دیں۔

پورے امریکا میں مقیم انڈین اس جلسہ میں آئے اور بلائے گئے تھے تا کہ صدر ٹرمپ آیندہ الیکشن کے وقت اپنے انڈین ووٹرز کی تعداد دیکھ کر اسی حساب سے مودی کی تعریف کرے اور اس کی دہشتگرد کاروائیوں کو غیر اہم ایشو سمجھ کر Ignore کرے۔ مودی کا یہ جلسہ واقعی بھرپور اور کامیاب تھا۔ یہاں ٹرمپ اور مودی دونوں اپنے اپنے مقصد میں کامیاب نظر آئے لیکن ٹرمپ چائے والا یا رہڑی بان نہیں۔

گھاگ بزنس مین اور کھچرا آدمی ہے اس نے جو کچھ 23 ستمبر کے جلسے میں مودی اور اپنے متوقع ووٹرز کی خوشنودی کے لیے کہا اور صدر امریکا کے منصب کو بالائے طاق رکھ کر مودی کی نقل کرتے ہوئے کیا اسے ساری دنیا نے دیکھا اور میری اطلاع کے مطابق پڑھے لکھے گورے امریکی بھی اس پر شرمسار تھے لیکن اس سے اگلے ہی دن حسب توقع ٹرمپ نے وزیر ِ اعظم عمران خان کو اپنا دوست کہنے کے علاوہ بارہ دفعہ عظیم لیڈر کہہ کر بلایا جب کہ عمران خان نے دنیا کے تمام حکمرانوں کو انصاف، امن اور انسانیت کا حوالہ دے کر کشمیر کے اسی لاکھ افراد جن میں بچے، بوڑھے، جوان، خواتین بیمار لوگ اور فوری علاج کے متقاضی افراد شامل ہیں بتایا کہ یہ لوگ 55 دن سے House Arrest  زندگی گزار رہے ہیں۔

انڈین قابض فوج نے کشمیر کو جسے جنت نظیر کہا جاتا تھا، دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کرنے کے علاوہ بربریت کا بھی بد ترین نمونہ بنا دیا ہے۔ وزیر ِ اعظم پاکستان جو کئی دن سے اپنے انٹرویوز ، ملاقاتوں اور تقاریر کے ذریعے اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر اکٹھے ہوئے دنیا بھر کے لیڈروں کے سامنے انڈین مودی کی حیوانی حرکت کا پردہ چاک کرنے میں مصروف ہے، اگرچہ کامیاب جا رہا ہے اور عالمی سطح پر پزیرائی بھی پا رہا ہے، لیکن انڈیا ایک بڑا ملک ہے جس کے ساتھ اکثر طاقتور اور بڑے ملکوں کے معاشی مفادات وابستہ ہونے کے سبب ابھی متوقع کامیابی سے کچھ فاصلے پر ہے۔

دراصل سابق کئی پاکستانی حکمران بشمول بینظیر بھٹو اور پرویز مشرف اقوام ِ متحدہ میں کشمیر ایشو سے متعلق اپنی شاندار تقاریر اور شمولیت کے باوجود ملک کی اشرافیہ اور ملاّ ازم سے سرزد ہونے والی منفی حرکات اور کرپشن کی بھرمار کی وجہ سے ناکام رہے ہیں۔ عمران خان جو نیویارک میں ہر قابل ذکر شخصیت سے مل رہا ہے اور گزشتہ دنوں ملائشیا کے مہا تیر محمد اور ترکی کے اردوان سے میٹنگ میں اسلام کا حقیقی پیغام دنیا تک پہنچانے کے لیے ایک مشترکہ TV چینل بھی لانچ کرنے کا پلان بنا چکا ہے، وزیر ِاعظم کا منصب سنبھالنے سے بھی پہلے وہ ایک Celebrity  کی حیثیت رکھتا بلکہ ویلفیئر، تعلیم اور اسپورٹس کے حوالے سے بھی اپنی پہچان رکھتا تھا، دنیا کے لیڈروں سے ملاقاتوں میں موقف بتانے اور کشمیر ایشو کو اجاگر کرنے میں ناکام نہیں ہو گا۔

پاکستان کے وقت کے مطابق رات آٹھ بجے وزیر ِ اعظم عمران خان نے اقوام ِ متحدہ میں اپنی چار نکاتی فی البدیہہ تقریر میں مختصراً دنیا میں موسمی تبدیلیوں کے منفی اور مضر اثرات، غریب ملکوں کے کرپٹ حکمرانوں کی لوٹی ہوئی دولت دنیا کے امیر ملکوں میں منتقل کرنے کی عادت قبیح کا ذکر کرنے، پھر آنحضرتؐ کے عمل، ارشادات اور طریق کا حوالہ دے کر حقیقی اسلام کا چہرہ سامعین اور دنیا کو دکھانے کے بعد کشمیر کے 80 لاکھ انسانوں کا فسانۂ غم اقوام ِ متحدہ کے فورم سے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے تک کے لوگوں کو جس انداز سے سنایا شاید اس سے پہلے نہ کسی نے اس درد اور تفصیل کے ساتھ گزشتہ بہتر سال میں نہ کسی فورم پر بیان ہوا نہ اس توجہ سے سنا گیا کہ اقوام ِ متحدہ کے ہال میں بیٹھے سامعین ہر دو تین منٹ کے بعد اپنی تالیوں کی گونج دنیا کے ہر کونے میں ٹیلیویژن کے سامنے بیٹھے لوگوں تک پہنچاتے رہے۔

وزیرِ اعظم سے ہندوستان کے صوبہ کشمیر میں 55 دن سے 80 لاکھ انسانوں کی جبری قید اور فوج کے بے گناہوں پر توڑے جانے والے ظلم و ستم کی داستان سن کر UNO  عمارت کے در و دیوار بھی پھوٹ پھوٹ کر روئے ہوں گے۔ عمران خان کی تقریر کو ضبط ِ تحریر میں لانا تو ممکن نہیں لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس تقریر کو سننے کے بعد ہندوستان کا کوئی بھی شہری جو انسان کہلانے کے لائق ہے ، نریندر مودی پر تنقید پر تیار نہ ہو تو وہ بھی انسان کہلانے کا حقدار نہ ہو گا لیکن یہ بات یقینی ہے کہ آج کے بعد دنیا کا ضمیر ضرور جاگے گا۔ عمران کی تقریر اقوام ِ متحدہ کا ٹیسٹ کیس ٹھہرے گی۔

The post اقوام متحدہ کا ٹیسٹ appeared first on ایکسپریس اردو.

نمرتا سے نوتن تک

$
0
0

کتنے رنگ بکھیرتی، ہنستی، مسکراتی اور چہچہاتی نمرتا، مسکان تو ایسی کہ جیسے جھرنوں سے بہتا پانی، اس کے گالوں پر پڑتے ڈمپل وہ جب باتیں کرتی، چاہے کتنی ہی بے وجہ ہوں مگر سننے کو جی چاہے۔ جب چلتی تو یوں محسوس ہوتا کہ جیسے پائوں زمین پر نہیں۔

کتنی ساری ویڈیوز ہیں اس کی جو اس وقت سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ اس کے جھومنے ناچنے، ہنسنے اور باتیں کرتے رہنے کی۔ نازک ٹہنیوں جیسی تھی۔ جہاں پرندوں کے گھونسلے بنے ہوتے ہیں۔ جہاں پو پھوٹنے پر سورج کی کرنیں ٹھر سی جاتی ہیں اور پتا پتا چمک سا جاتا ہے۔ جہاں چڑیاں چہچاتی ہیں۔ اور ساتھ میں جھیل کی سْریلی، بہتے پانی کی آوازیں کانوں میں سرکتی ہیں۔ زندگی تھی نمرتا بھرپور زندگی۔ اس کا ہر لمحہ، ہر سانس، ٹمٹاتی آنکھیں، گھنی اور گلناروں جیسی زلفیں۔ نمرتا سندھ تھی…سندھ!!! وہ شاہ لطیف کی سْورمی تھی۔ سچل کی وائی کی طرح ’’ننگڑا نما ڑ یندا جیویں تیویں پالڑاں‘‘ (ترجمہ: یا رب ان معصوم بچوں کو اپنی امان میں رکھنا)۔

یہ وائی سچل نے بچوں کے لیے کہی، جو بچوں کے معصومیت کا عکس ہے۔ یہ وائی سندھ کی مائیں جب بچوں کو جھولے میں سْلاتی ہیں تو گاتی ہیں۔ وہ مائیں جن کے خواب ہوتے ہیں کہ ان کے بچے جب بڑے ہونگے تو کیسے ہونگے، کیا، بیٹی ہو گی تو کیسی ہو گی، کیا بنے گی وہ ان کو فولاد کی طرح مضبوط دیکھنے کا خواب دیکھتی ہیں وہ ان کی خوشیوں کے لیے دعا کرتی ہیں، منتیں مانگتی ہیں۔ کیسے کیا ہو گا نمرتا نے اپنا انت، آپ گھات یوں ہنستے ہنستے کھیلتے کھیلتے کیسے بھلا کوئی کر سکتا ہے اپنا خاتمہ۔ اور اگر مارا بھی تو کیوں مارا اپنے آپ کو۔ اور اگر کسی اور نے بھی مارا تو کیوں مارا ایسی معصوم مسکان کو، جیسے پورا باغ اجاڑ دیا اور ستم ظریفی تو دیکھیے ہماری حکومت کی، یہ ہے پیپلز پارٹی کی حکومت جس نے اس پورے سانحے پر مٹی ڈال دی۔

اس کی ایف آئی آر تک نہ کاٹی، معاملہ ہی رفع دفع کر دیا۔ بینظیر نہ سہی کوئی اور سہی۔ بھٹو کی نواسی نہ سہی کسی عام معمولی نانا کی نواسی ہی سہی۔ وہ مسلمان نہ سہی ہندو ہی سہی مگر ایک انسان۔ کیا نمرتا سندھ کی بیٹی نہ تھی کہ اس کے قتل کے پندرہ دن بعد بھی ایف آئی آر تک نہ کٹ سکی اور بات آ گئی جوڈیشل کمیشن پر۔ لاڑکانہ کی انتظامیہ اس پورے ماجرے کو گھماتی رہی ہے کبھی الٹا تو کبھی سیدھا، ابھی تک نمرتا کے موبائیل فون کا فورینسک نہ ہو سکا۔ یہ تمام باب کھلنے چاہئیں اور جس طرح پورا سندھ نمرتا کے نام پر اکٹھا ہوا ہے یہ بھی عجیب بات ہے۔

کتنا مختلف ہے سندھ پورے پاکستان سے۔ اگر نمرتا کو ہم تقسیم کرنا بھی چاہیں تو بھی ایسا نہیں ہو رہا۔ وہ ہندو تھی، مسلمان یا سکھ تھی یا پھر مسیح تھی وہ ان تمام مذاہب کی شناخت، ذات پات اور باقی تمام تضادات سے بالاتر ہو گئی۔ وہ مر تو گئی مگر سندھ کے تمام مذاہب کو یکجا کر گئی سندھیوں نے کہا کہ ہم پہلے سندھی ہیں ہم پہلے شاہ، سچل، سامی کے بیانیے کا عکس ہیں اور پھر پاکستانی۔ یہ ہے وہ سندھ جو آیندہ آنیوالے پاکستان کی رہنمائی کرتا ہے اور ہمارے آئین کے آرٹیکل بیس کی پاسداری۔

نمرتا سندھ اور پنجاب کے بارڈر پر بسے شہر میرپور ماتھیلو کی رہنے والی تھی۔ گھوٹکی ضلع سے تعلق تھا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں تھر کے بعد ہندئوں کی اکثریت رہائش پذیر ہے اور سب سے بڑی ہندئوں کی عبادت گاہیں بھی اسی شہر میں ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے تعلق ہے سندھ کے بہت بڑے انسان پرست بھگت کنور رام کا جو میرپور ماتھیلو کے گائوں جروار کے رہنے والے تھے۔ جب وہاں ایک دفعہ مسجد شہید ہوئی تو انھوں نے خود چند ہ اکھٹا کر کے اور سر پر تغاریاں اٹھا کر اس کی مرمت کی۔

وہ روزانہ مٹکے بھرتے اور خود اٹھا کر اور مسافر کی پیاس بجھاتے۔ بھگت کنور رام جب بڑے ہوئے تو پائوں میں گھنگرو پہن کر سندھ کے نگر نگر میں طبلے اور سارنگ کے ساتھ رقص کرتے ہر جگہ بھگتی کرتے اور لوگوں کو انسانیت کا پاٹ پڑھاتے۔ یہ وہ ہی کام کرتے جو کہ صدیوں سے سندھ کے صوفی اور اولیاء کرتے تھے کہ مذہب کا بٹوارہ نہ کرو سب کے مذہب کا احترام کرو اور تعظیم کرو کہ کون صحیح ہے اور کون غلط یہ فیصلہ خدا پر چھوڑ دو۔ بھگت کنور کی آواز میں عجیب درد اور اثر تھا کہ سنتے سنتے آنکھوں میں نمی سی آ جاتی تھی۔ اس کے کئی گیت ہیں جو لکھے گئے اور دھن بنائی گئی۔

عابدہ پروین نے بھی گائے، بھگت کنور پوری رات بھگتی کرتے اور جب صبح پو پھٹتی تو وہ گھنگرو باندھ کر خود رقص کرتے۔ پیروں میں گھنگرو، ہاتھوں میں کڑے، انگلیوں میں انگھوٹھیاں، سر پر لال پگڑی اور لال چولی، کوئل جیسی آواز، جب بھگتی ختم ہوتی تو وہ لوگوں سے پیسے جمع کرتے اور ان پیسوں کو اسی وقت غریبوں میںبانٹتے۔ اس کی آواز میں عجیب درد اور رقت تھی۔ ان کے گیتوں کے ریکارڈ آج بھی موجود ہیں۔

یکم نومبر 1939ء کی صبح سکھر کے نواح میں رْک اسٹیشن پر پچاس سال کی عمر میں بھگت کنور کو مار دیا گیا۔ کہتے ہیں کہ جب ٹرین رْکی تو باہر نکل کر جہاں سے پانی بھرا وہاں اس نے اپنے قاتل کو پہچانا جو کہ اس کے ساتھ سفر کر رہا تھا اور کہا کہ اگر مجھے مارنے سے تمہارا مسئلا حل ہوتا ہے تو چلائو بندوق اور قاتل نے بھی اسی گلے کو نشانہ بنایا جس گلے کے سوز نے پوری سندھ کو اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا۔ پوری سندھ بھگت کنور کے قتل سے اسی طرح غمزدہ ہوئی تھی جس طرح آج نمرتا کے لیے۔ کوئی تفریق نہ تھی کہ بھگت کنور مسلمان تھے یا پھر ہندو۔

میرے والد نے بھگت کنور کی بھگتیاں دیکھیں اور سنیں تھیں اپنے بچپن میں وہ اسقدر سحر میںتھے کہ خود گانا شروع کر دیا۔ میلادوں پر مولود پڑھنا شروع کیے اور پھر خود راگ بھی سیکھا۔ میرے پرانے نوابشاہ کے گھر میں استاد بڑے غلام علی جیسے گائک بھی آتے تھے۔

بنیادی طور پر یہ ایک دکان ہے مذاہب کے نام پر تفریق پھیلانے کی، نفرت پھیلانے کی، اس سے اس کو لڑوانا اور اس کو اس سے لڑوانا یہ وہ ہی دکان ہے جو ہندوستان میں آج کل موڈی نے سجا کر رکھی ہے۔ بہت آسان ہے اس دکان کو چلانا کہ نفرت کی آگ لگائو اور لڑو لڑوائو ۔

گھوٹکی کے پروفیسر نوتن بھی اسی سازش کا شکار ہوئے۔ میں نوتن کو طالبعلمی کے زمانے سے جانتا ہوں، ہم دونوں ایک ہی تنظیم میں تھے۔ وہ کتنا نفیس اور حساس شخص ہے، کتنا انسان پرست اور انسان دوست ہے۔ وہ کیسے کر سکتا ہے ایسا کام مجھے یقین نہ آیا۔ وہ الیکشن میں ورک کرتا تھا پیپلز پارٹی کے لیے۔ مگر پیپلز پارٹی گھوٹکی سے غائب تھی، اس میں اتنی بھی اخلاقی جرات بھی نہ تھی کہ وہ سندھ اسمبلی میں قراداد پیش کرتی۔ ہاں یہ کام مگر پھر بھی غلام مصطفیٰ جتوئی کے بیٹے عارف جتوئی نے کیا۔ سندھ اسمبلی نے قراداد منظور کی گھوٹکی میں مندر ٹوٹنے کی مذمت کی۔

نمرتا کی موت بھی عین گھوٹکی کے دوسرے دن واقع ہوئی۔ یہ دونوں واقعات کہیں کسی ایک کڑی کا سلسلہ ہیں جس نے سندھ کو کچھ اس طرح جگایا کہ جو بھی یہ کام کریگا یعنی مذہب کے نام پر نفرتیں پھیلائے گا اس کو بھٹائی، سچل، کنور رام کے اس دیس میں ناکامی ہی نصیب ہو گی۔

The post نمرتا سے نوتن تک appeared first on ایکسپریس اردو.

’’لذتِ تقریر ‘‘

$
0
0

غالبؔ نے کہا تھا:

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اُس نے کہا

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی گئی عمران خان کی تقریر کو اگر اس شعر کا عکس کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ جس خوش اسلوبی ، جذبے ، منطق اور کمٹ منٹ کے ساتھ موجودہ صورتِ حال میں کشمیر کا مقدمہ پوری دنیا اور ضمیر عالم تک پہنچایا گیا اُس کی داد نہ دینا زیادتی ہی نہیں بلکہ گناہِ کبیرہ ہو گا کہ اُس کی ذات، جماعت، گورنس اور معاشی پالیسیوں پر تنقید اور اُن سے اختلاف اپنی جگہ اور ممکن ہے کہ کئی باتوں پر میں خود بھی اعتراض کنندگان کی صف میں کھڑا ہوں مگر یہ ایک بالکل مختلف معاملہ ہے اور میں پوری ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ اس کی حد تک عمران خان نے بہت بھرپور اور مثالی انداز میں اپنا فرض نبھایا ہے ۔

اس تقریر کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس کا انداز وہی تھا جس میں ترقی یا فتہ ممالک ایک دوسرے کی بات سننے اور سمجھنے میں اضافی اہتمام اس میں یہ کیا گیا تھا کہ ایک وقت وہاں کے پالیسی سازوں، اہلِ فکر و نظر اور عام عوام کو اس خوبصورت اور موثر انداز میں اس طرح سے مخاطب کیا گیا کہ انھیں ہر ایک بات کان اور ذہن کھول کر سننا پڑی۔ کشمیر پر بات شروع کرنے سے پہلے خان صاحب نے تین ایسے موضوعات چھیڑے جن میں سے ہر ایک پر ’’انتہائی اہم‘‘ یعنی  Very Important کا ٹیگ لگا ہوا تھا ۔

ساری دنیا میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں ، گلوبل وارمنگ ، فضائی آلودگی اور پانی کی متوقع کمی اور اس سے ملحقہ خطرات کی نشاندہی ایسی وضاحت سے شائد ہی کسی سیاستدان نے کی ہو کہ یہ باتیں عام طور پر اُس میدان کے ماہرین کے لیے چھوڑ دی جاتی ہیں جو انھیں اس طرح سے اعداد و شمار کا ملغوبہ بنا دیتے ہیں کہ اُس کا وہ چہرہ بہت کم سامنے آ پاتا ہے جس کا تعلق ہماری زمین اور اس پر بسنے والے آدم ذادوں کے مستقبل سے متعلق ہوتا ہے اس طرح سے منی لانڈرنگ اور اس کی وجہ سے غریب ممالک کو درپیش مسائل اور اسلامو فوبیا کے اس ہوّے کا ذکر کیا گیا جو امریکا سمیت کچھ بڑی طاقتوں نے خود کھڑا کیا ہے عمران خان نے بڑی صراحت کے ساتھ دنیا کے سامنے وہ پس منظر رکھا جس میں افغانستان سے رُوس کے انخلاء میں امریکا کی طرف سے جہادی گروپوں کی تعمیر و تشکیل اور اسلحہ سپلائی شامل تھی اور پھر یہ بھی بتایا کہ کس طرح روسیوں کے جانے کے بعد امریکا بہادر نے بھی ایک دم وہاں سے راہِ فرار اختیار کی اور وہ سارے مسلح گروپ افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی پھیل گئے اور اُن کی وجہ سے ستر ہزار پاکستانی شہری اور سیکیورٹی کے افراد کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔

نائن الیون کے بعد ایک بار پھر امریکا بہادر افغانستان میں داخل ہوا اور اُس وقت کی پاکستانی حکومت کو ڈرا دھمکا کر اپنا ساتھ دینے پر مجبور کر دیا حالانکہ نائن الیون کے واقعے میں کسی پاکستانی یا افغانی کا دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا ہماری حکومتوں نے اسے پاکستان کی جنگ بنا کر پیش کیا جو ایک غلط راستہ تھا کہ یہ صرف اور صرف امریکا کے مفادات کی جنگ تھی ایک طرف تو اس کی وجہ سے پاکستان کے اندر اور پاک افغان طویل سرحد پر دراندازی اور دہشت گردی کا ایک خوفناک سلسلہ شروع ہو گیا اور دوسری طرف اس کی ذمے داری بھی انھی لوگوں پر ڈال دی گئی جو خود اس صورتِ حال کا شکار اور نشانہ تھے گزشتہ پچاس برس میں فلسطین ، بوسنیا ، برما ، لبیا ، عراق ، قطر اور کشمیر کے مسلمانوں سے جس طرح اُن کے انسانی حقوق چھینے گئے ہیں اور انھیں ظلم و ستم کا ٹارگٹ بنایا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے لیکن اس کے باوجود اسلامو فوبیا کے نام نہاد نعرے کو ہی ہر عالمی پلیٹ فارم پر ہوا دی جا رہی ہے۔

اس تقریر کا آخری حصہ کشمیر کی صورتِ حال، مودی کے تکبر ، ہندوتوا اور نازی ازم کے اشتراک اور کشمیریوں کے انسانی حقوق کی بحالی کے بارے میں تھا اور بقول عمران خان اسی کی بات کرنے کے لیے وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اس اجلاس میں شامل ہوا تھا کہ دنیا کو یہ بتایا جا سکے کہ یہ دو ملکوں کا کوئی سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ خود اس جنرل اسمبلی کا تسلیم کیا ہوا ایک معاملہ ہے جس کا تعلق کشمیریوں کے اُس حق خودارادیت سے ہے جو اُن کا بنیادی حق ہے اور جس کی تائید میں خود اقوا م متحدہ گیارہ قراردادیں پاس کر چکی ہے۔

5 اگست کے بعد سے مودی حکومت نے جس طرح سے اسّی لاکھ کشمیریوں کو ایک طرح سے مفلوج کرکے کرفیو اور قید میں رکھا ہوا ہے اور وہاں کے تیرہ ہزار نوجوانوں کو گرفتار کرکے ایک طرح سے غائب کر دیا گیا ہے اور اُن کے لواحقین پر ہر طرح کے ظلم توڑے جا رہے ہیں اُس کا نتیجہ کرفیو اُٹھنے کے بعد ایک خُونی غسل کی صورت میں نکلے گا کہ وہ لوگ ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دیں گے اور وہاں متعین نو لاکھ بھارتی فوج کو مزید گولیاں برسانے کا موقع مل جائے گا۔

اطلاعات کے مطابق جس طرح سے اس تقریر کے دوران عالمی نمائندوں نے بار بار تالیاں بجائیں وہ بھی ایک غیر معمولی واقعہ تھا جس سے ظاہر ہوتاہے کہ بات اُن کے دل میں بھی اُتر رہی تھی ۔ دُعا ہے کہ یہ ردّعمل اُن کی حکومتوں کی پالیسیوں تک بھی پہنچے تاکہ انصاف کو راستہ مل سکے اگرچہ میں عالمی سطح پر اپنی قومی زبان میں گفتگو کا بہت بڑا حامی ہوں لیکن اس تقریر کی حد تک انگریزی زبان کے انتخاب کا فیصلہ صحیح اور بہتر تھا۔

The post ’’لذتِ تقریر ‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

احتساب کی راہ میں رکاوٹیں

$
0
0

دہائیوں سے کرپشن ہمارے ریاستی اداروں میں اس طرح سرائیت کر چکی ہے کہ اس کے خاتمے کے لیے بنائے گئے ادارے بھی اس سے محفوظ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے کرپشن کے خاتمے کو اپنے بنیادی اہداف میں شامل کیا۔کرپشن کے نقصانات سے پاکستانی ریاست، سماجی تانہ بانہ، معیشت اور قومی سلامتی کچھ بھی محفوظ نہیں۔ آج حکومت کو بھی سب سے بڑا چیلنج یہی درپیش ہے۔ گزشتہ حکومت نے بھی یہ مشکل کام کرنے کی کوشش کی لیکن نتائج برآمد نہیں ہوئے۔

کرپشن، بددیانتی یا مجرمانہ سرگرمیوں کی ایک قسم ہے جس کے مرتکب ایسے افراد یا ادارے ہوتے ہیں جو اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں، اکثر اپنے پست تر یا ذاتی مفادات کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔ لیکن کیا کرپشن صرف پاکستان ہی کا مسئلہ ہے؟ انسانی کردار کی کمزوریوں اور حرص و لالچ نے ہر معاشرے اور ملک کو اس مرض میں مبتلا کیا۔ حرص اور لالچ انسان کو صرف اپنے اور اپنے قریبی لوگوں کے مفاد تک محدود کر دیتی ہے چاہے اس کے لیے معاشرے کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو جائے، رحم اور خدا ترسی سے اس مرض کا مقابلہ ممکن ہے۔

دنیا کے تمام مذاہب حرص و لالچ کو گناہ قرار دیتے ہیں اور کمزوروں اور ناداروں کی مدد اور انھیں اپنی حاصل کردہ نعمتوں میں شریک کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ لیکن جس معاشرے میں کسی انسان کی قدر اس کے مال جائیداد، لباس، گاڑی وغیرہ کو دیکھ کر کی جاتی ہو تو کئی لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ حق حلال کی کمائی ’’مزید‘‘ کی طلب پوری کرنے کے لیے کافی نہیں۔

عوام کے مال سے اپنی جیبیں بھرنے والے کرپشن کی تباہ کاریوں کا ادراک ہی نہیں رکھتے۔ پاکستانی ریاست کی خراب کارکردگی کا بنیادی ترین سبب یہ ہے کہ اسے چلانے والے پاکستان کو ملک نہیں بلکہ دکان سمجھتے ہیں، جہاں انھیں اپنی جیبیں بھرنے، ٹیکس چوری کرنے اور من مرضی کی کھلی چھٹی ہے۔ پاکستان وسائل کے اعتبار سے کوئی غریب ملک نہیں اور سب سے بڑھ کر اس کے عوام اس کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ لیکن اس عوام کے لیے صنعت و زراعت کو فروغ دے کر روزگار کے مواقع پیدا کرنے، انھیں تعلیم فراہم کر کے پیروں پر کھڑا کرنے، انھیں صحت، سر پر چھت فراہم کرنے اور بہتر طرز زندگی دینے کے بجائے، ان مقاصد کے لیے مختص رقوم کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ لیا جاتا ہے۔

پاکستان میں انسداد بدعنوانی کے لیے سب سے پہلا ادارہ احتساب سیل نومبر 1996 میں نگران وزیر اعظم ملک معراج خالد کے جاری کردہ احتساب آرڈیننس کے نتیجے میں قائم ہوا۔ اس کے بعد نواز شریف کی حکومت نے اسے احتساب ایکٹ 1997 کی شکل میں نافذ کیا۔ نومبر 1999 میں قومی احتساب آرڈیننس جاری کر کے اس ادارے کو قومی احتساب بیور (نیب) بنا دیا گیا۔ اس کے بعد مشرف حکومت نے سیاست دانوں اور سرکاری عمال کا ’’بے رحمانہ‘‘ احتساب کرنے کا دعوی کیا۔

بعد میں آنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے نیب کے ذریعے کرپشن کا خاتمہ کرنے کے بجائے اسے اپنے سیاسی حریفوں کو سبق سکھانے کے لیے استعمال کیا۔ اس حکومتی رویے نے نیب کو بدنام کیا۔ یہاں تک کہ موجودہ پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی اس تاثر کا ذکر کیا۔ چیف جسٹس عدالت کو گمراہ کرنے والوں کو سزائیں دے کر اس عمل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

نیب سے متعلق اسی دیرینہ تاثر کی وجہ سے موجودہ حکومت کو بھی یہ ثابت کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے کہ آیندہ شفاف احتساب کیا جائے گا۔ برسوں سے کرپشن ہمارے نظام کی جڑوں میں اس قدر سرائیت کرگئی ہے کہ اب اس کے مرتکب افراد کا طریقہ واردات اور ذرایع تلاش کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ اپنی ناک کے نیچے ہونے والی کرپشن سے غفلت برتنے والے سزا کے خوف سے اپنی غلطیوں کا اعتراف نہیں کرتے۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف مقدمات اس کی واضح مثال ہیں، ان کی کرپشن کے بارے میں سبھی جانتے ہیں لیکن اسے عدالت کے سامنے ثابت کرنے میں کیسی کیسی مشکلات کا سامنا ہوا۔ عدالتوں کے پاس سوائے تاریخیں دینے کے اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ اگر وہ اقتدار سے باہر رہ کر یہ سب کچھ کر سکتے ہیں تو برسر اقتدار ہوتے ہوئے تو ان پر فردِ جرم بھی عائد نہیں ہو سکتی تھی۔ اسی لیے انھیں کسی مجرمانہ عمل کے ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے اخلاقی بنیادوں پر مستعفی ہونے کے لیے مجبور کیا گیا۔

نیب کو اپنے زیر تفتیش ہزاروں مقدمات میں مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ شواہد کی کمی کی بنا پر بہت سے معاملات پلی بارگین کے ذریعے نمٹا دیے جاتے ہیں۔ ٹیکس چوری کر کے عوام کا حق مارنے والے برائے نام رقم ادا کر کے اپنا دامن صاف کر لیتے ہیں۔ پلی بارگین سے ان کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں اور وہ معزز شہری بن جاتے ہیں۔ بعض مقدمات میں لوگ کرپشن کے ذرایع کی تفصیلات فراہم کر کے عدالت کے سامنے وعدہ معاف گواہ بن جاتے ہیں۔ اس کے لیے ان پر قائم مقدمات بھی ختم کر دیے جاتے ہیں یا انھیں انعام کے طور پر ترقی یا بہتز تعیناتی وغیرہ دے دی جاتی ہے۔

اگرچہ ایسے حربوں کا استعمال کبھی کبھی ناگزیر بھی ہو جاتا ہے اور شاید چھوٹے چور کی مدد سے بڑے چور کو گرفت میں لانے کا کوئی جواز بھی فراہم کیا جا سکتا ہو لیکن اس میں کچھ مسائل تو ہیں۔ پہلا مسئلہ تو یہی ہے کہ ایسے چور بہر حال عوام کی نظر میں چور ہی رہتے ہیں۔ حق حلال کی روزی کمانے والے اور ٹیکس دینے والے عوام جنھوں نے کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا ہوتا انھیں یہ بات کیسے سمجھائی جا سکتی ہے کہ کوئی شخص بہ آسانی اپنے جرائم کی سزا سے بچ سکتا ہے۔ مسئلہ اس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے جب عدالت میں پلی بارگین کرنے والا شخص ’’پاک صاف‘‘ قرار دیا جاتا ہے اور اسے کسی سرکاری محکمے، بیوروکریسی، پارلیمنٹ یا سیاسی جماعتوں میں اہم مناصب اپنے پاس رکھنے کی اجازت بھی دے دی جاتی ہے۔

پاکستان کے عوام احتساب کے عمل پر اسی لیے اعتماد نہیں کرتے۔ کون اس کی توقع کر سکتا ہے کہ قانون کے اندر ہی کسی چور کو معزز بنا دینے کا راستہ موجود ہے؟ ایسے لوگ اداروں اور مناصب کی بے توقیری کا باعث بنتے ہیں اور حکومت پر عوامی اعتماد کو بری طرح مجروح کرتے ہیں۔ اس سے رشوت ستانی کی نئی راہیں کھلتی ہیں اور قومی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اس لیے وقت کا اہم ترین تقاضا ہے کہ قانون کو للکارنے والے سرکاری افسران، منتخب نمائندوں یا دیگر کو کسی قسم کی رعایت نہیں ملنی چاہیے۔ کرپٹ لوگوں کو سرکاری یا سیاسی عہدے دینے سے جمہورت کا چہرہ داغ دار ہوتا ہے۔

(فاضل مصنف سیکیورٹی اور

دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

The post احتساب کی راہ میں رکاوٹیں appeared first on ایکسپریس اردو.

مبلغ اسلام

$
0
0

وزیر اعظم عمران خان کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب سے پہلے بھی پاکستان کے کئی وزرائے اعظم یہ ذمے داری نبھا چکے ہیں مگر جمعہ کی شام جنرل اسمبلی سے عمران خان کا زوردار خطاب ماضی کے ان تما م خطابوں پر بھاری رہا۔

اقوام متحدہ کے ہال میں تالیاں گونجتی رہیں اور اسلامی نظریاتی پاکستان کا وزیر اعظم مدلل انداز میں خطاب کرتا رہا۔ عمران خان کے خطاب سے پہلے تبصرہ نگاروں کے دلوں میں یہ خدشہ موجود تھا کہ چونکہ ہمارے وزیر اعظم فی البدیہہ خطاب کرنے کے شوقین ہیں اس لیے ایک بڑے فورم پر وہ جوش خطاب میں کہیں اِدھر اُدھر نہ ہو جائیں چونکہ جنرل اسمبلی میں وقت کی بھی قلت ہوتی ہے اس لیے ان کے فی البدیہہ خطاب کے بارے میں خدشات موجود تھے لیکن انھوںنے اپنی تقریر سے ان تما م خدشات کو دور کر دیا ۔

دنیا بھر میں جہاں پاکستانی اپنے وزیر اعظم کے خطاب کے انتظار میں تھے وہیں پر عالمی رہنما بھی عمران خان کا خطاب سننے کے منتظر تھے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے نہایت باوقار اور نپے تلے انداز میں د نیا کو ماحولیات کے درپیش چیلنج سے اپنے خطاب کا آغاز کیا اور دنیا کو یہ بتایا کہ ان کا ملک اس خطرے سے نبرد آزما ہونے کے لیے کیا اقدامات کر رہا ہے۔

انھوں نے بڑے واضح الفاظ میں دنیا کے امیر ملکوں کو یہ پیغام بھی دیا کہ وہ غریب ملکوں کی دولت پر عیاشیاں کر رہے ہیں اور غریب ملکوں کی اشرافیہ یہ دولت غریب ملکوں سے لوٹ کر امیر ملکوں میں جمع کرتی ہے جس کا فائدہ امیر ملکوں کی معیشت کو ہوتا ہے لہذا اقوام متحدہ کو غریب ملکوں سے دولت کی منتقلی کے ناجائز ذرائع کی روک تھام کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جو کہ ہمارے جیسے غریب ملک کا اصل مسئلہ ہے اور عوام اب یہ جان چکے ہیں کہ ان کے حکمران اور اشرافی طبقہ کس طرح ملکی وسائل کی لوٹ مار کر کے بیرون ملک اپنے اثاثے بناتا ہے اور ملک میں کاروبار کی بجائے بیرون ملک کاروبار کو ترجیح دیتا ہے۔ کاش کہ ہمیں سمجھ آ جاتی اور ہم اپنے نمائندوں کے انتخاب میں سمجھ بوجھ سے کام لیتے اور لوٹ مار سے بچ جاتے لیکن ابھی تک قوم میں شعور کی لہر بیدار نہیں ہو رہی اور ہم واہ واہ اور زندہ باد کی سیاست کے اسیر رہنے کو ہی فوقیت دے رہے ہیں۔

مسلمانوں کی ترجمانی اور اسلام کے بارے میں مغرب کی غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے عمران خان کے خطاب کا اہم ترین موضوع رہبر کائنات محمد ﷺ کی ناموس کا تحفظ اور امت مسلمہ پر دہشتگردی کے الزام کا دفاع تھا۔

عمران خان نے جیسے ہی اس اہم ترین موضوع پر بولنا شروع کیا تو میرے جیسے گناہ گار کی آنکھیں بھی تر ہو گئیں وہ نبی ﷺ کی شان بیان کرتے ہوئے اہل مغرب کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ مذہب دہشتگردی نہیں سکھاتا بلکہ مذہب تو خود اس کا شکار ہو جاتا ہے انھوں نے یہودیت، عیسائیت اور ہندو مت کے بارے میں تاریخ عالم کے دلائل اور حوالے دے کر مغربی دنیا کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ خود کش حملے مسلمان نہیں کرتا بلکہ دوسری جنگ عظیم میں جاپانیوں نے بھی امریکا کے جنگی جہازوں پر ایسے فدائی حملے کیے تھے۔

عمران خان نے اہل مغرب کو نبیﷺ اور اسلام کے بارے میں مسلمانوں کے احساسات سے آگاہ نہ کرنے پر مسلم لیڈروں کو موردِ الزام ٹھہرایا جن کا فرض تھا کہ وہ دنیا کو بتاتے کہ نبیﷺ ہمارے دل میں رہتے ہیں اور دل کا درد جسم کے درد سے زیادہ ہوتا ہے۔ عمران خان نے امریکا میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کھڑے ہو کر جس طرح نبی ﷺ کی شان بیان کی محسوس یوں ہو رہا تھا کہ اسلام کا کوئی مبلغ تقریر کر رہا ہے۔

انھوں نے دنیا کو اسلام کی اصل روح کے مطابق یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اسلام کیا ہے اور دہشتگردی کیا ہے۔ ان کا امریکا سے یہ گلہ بجا ہے کہ جب امریکا کو افغانوں کی ضرورت تھی تو وہ مجاہدین تھے مگر 9/11 کے بعد جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو یہی مجاہدین دہشتگردی کی فہرست میں شامل کر دئے گئے۔ پاکستانی وزیر اعظم نے دنیا کو یہ باور کرایا ہے کہ اسلام کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میںحالات ایسے پیدا کر دئے جاتے ہیں جب ان ملکوں کے باشندے ہی ہتھیار اٹھا لیتے ہیں۔ اس کے لیے انھوں نے مختلف ملکوں کی مثالیں بھی دیں۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ جس وجہ سے آج جنرل اسمبلی میں کھڑے ہیں وہ وجہ کشمیر ہے جہاں پر بھارت کی جانب سے دو ماہ سے کرفیو کا نفاذ ہے۔ بھارت کے مظالم کی المناک داستانیں ہیں۔ وہ دنیا کو یہ بتانے آئے ہیں، وہ دھمکی نہیں دے رہے بلکہ خبردار کر رہے ہیں کہ اقوام متحدہ نے چونکہ کشمیر کے متعلق اپنی قراردادوں پر عمل درآمد نہیں کرایا جس کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ دو ایٹمی ملک آمنے سامنے ہیں اور جنگ کی صورت پیدا ہو گئی ہے، اگر دنیا یہ سمجھتی ہے کہ کشمیر میں ظلم ہوتا رہے اور وہ خاموش رہے تو میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ کشمیر کے مسئلے پر اگر جنگ ہوئی تودنیا کے باقی ممالک بھی محفوظ نہیں رہیں گے، سب ہی اس جنگ سے متاثر ہوں گے۔

کشمیر پر امریکی صدر ٹرمپ کی ثالثی کا بھارت نے کوئی جواب نہیں دیا، بھارت کشمیر پر بات نہیں کرنا چاہتا ۔ عمراں خان نے بجا کہا ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر پر صلح صفائی کا وقت اب گزر چکا اور کارروائی کا وقت ہو گیا ہے ۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ ہمارے پاس صرف دو ہی راستے ہیں سرنڈر کر لیں یا جنگ کریں اگر ہمیں جنگ میں دھکیل دیا گیا تو یہ جنگ ہم آخر تک لڑیں گے، مسلمان شہادت کے لیے آخری دم تک لڑتا ہے تو ساری دنیا کو یہ بات سوچ اور سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان اور بھارت میں جنگ کے نتائج کیا ہوں گے۔

عمران خان نے پاکستان کے معروضی حالات کے بارے میں گزشتہ دنوں میں نیویارک میں دنیا بھر کے اہم رہنمائوں سے ملاقاتوں میں اپنا موقف بیان کر دیا ہے اور اپنی گیند اقوام متحدہ کے کورٹ میں پھینک دی ہے ۔ وہی اقوام متحدہ جو کہ برصغیر کی تقسیم کے بعد سے ہی کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے سے قاصر رہی ہے اور قرارداوں سے کام چلانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر ہماری مدد کو کوئی ملک نہیں آئے گا، ہمیں اپنی جنگ خود لڑنی ہے ،فیصلہ صرف اس بات کا کرنا ہے کہ جنگ سے بچ کر کیا کوئی ایسا حل تلاش کیا جا سکتا ہے جو کہ کشمیریوں کو قابل قبول ہو ۔

ہمارے وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی میں دبنگ تقریر کر کے دنیا تک اپنی بات پہنچا دی ہے اب ہمیں دنیا کے رد عمل کا انتظار کرنا ہو گا کہ وہ پاکستان کی تشویش پر کس حد تک سنجیدہ ہیںاور کشمیر میں انسانی جانوںکو بچانے کے لیے بھارت پر دبائو ڈالتے ہیں یا خاموش رہتے ہیں، ہمیں چند روز عالمی طاقتوں کا انتظار کرنا ہو گا۔

The post مبلغ اسلام appeared first on ایکسپریس اردو.

جب پرندوں کو طیش آیا

$
0
0

پرندوں کا قصہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جب میں نے الف لیلہ اور پھر کرشن چندر کی لکھی ہوئی چڑیوں کی الف لیلہ کو پڑھا۔ ایک بغداد کا قصہ تھا۔ قدیم دور کے بادشاہ اور شہزادے تھے۔ ان کی کہانی کچھ یوں شروع ہوتی تھی کہ ’’درختوں پر رنگ رنگ کے پرندے چہچہا رہے تھے اور ہر قسم کا سامان آرائش موجود تھا۔ وہاں پر زر و جواہر کی بھی کمی نہ تھی اور کہیں آدم زاد کا پتا نہ تھا۔ بادشاہ حیران پریشان ہر طرف دیکھ رہا تھا۔‘‘

یوں یہ کہانی شروع ہوتی ہے اور چلتی جاتی ہے۔ یہ الف لیلہ کی کہانی ہے اور یوں ہی چڑیوں کی الف لیلہ ہے جس میں ہر طرف چڑیاں چہکتی ہیں۔ یہ نئی الف لیلہ ہمارے ایک بڑے ادیب کرشن چندر نے لکھی تھی۔ یہ نوعمری کے وہ دن تھے جب ہر کہانی دل پر اثر کرتی تھی۔ اس زمانے میں اتنے بڑے بڑے پرندے تھے جو انسانوں کو اپنے پنجوں میں دبا کر اڑ جاتے تھے اور انھیں کوہ قاف کی، دریاؤں اور جنگلوں کی سیر کراتے تھے۔

میں جس دور میں پیدا ہوئی اس میں چڑیوں کی کوئی کمی نہ تھی۔ صبح دم آنکھ ان کی چہکار سے کھلتی اور شام ڈھلے پلنگ پر لیٹ کر ان کی ڈار کو دیکھتی جو اپنے آشیانوں کو لوٹ رہی ہوتی۔ وہ ایک اداس کرنے والا منظر ہوتا تھا۔ اسی زمانے میں الفرڈ ہچکاک کی فلم ’’پرندے‘‘ شہر میں آئی اور اس نے ایک تہلکہ مچا دیا۔ یہ ڈیفنی ڈومارئیر کی کہانی تھی جسے ہچکاک ایسے شہرہ آفاق فلم ساز نے سلو لائیڈ کے فیتے پر اتار تھا۔ یہ چھوٹی چھوٹی چڑیوں کو خریدنے اور انھیں پنجروں میں بند کر کے اپنے دوستوں کو تحفے میں دینے کا قصہ ہے۔ یہیں سے ان پرندوں کو طیش آتا ہے جو آزاد فضا میں اڑنا چاہتے ہیں لیکن انسان انھیں پنجروں میں قید کر کے انھیں تحفے میں دیتے ہیں۔

یہ امریکا کے ایک چھوٹے سے قصبے کی کہانی ہے جس میں پرندے اپنی قید کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ باغی انسانوں کی طرح انسانوں پر حملہ کرتے ہیں۔ وہ گاڑیوں پر ہجوم کرتے ہیں تو ونڈ اسکرین چٹخ جاتے ہیں۔ انسان جو ہنستے مسکراتے ہوئے شست باندھتے ہیں اور اپنی انگلی کی ایک جنبش سے انھیں شکار کر لیتے ہیں، اب ان سے خوف زدہ ہیں۔ گاڑیاں گھروں کے موٹر خانے میں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ کمروں کی کھڑکیاں لکڑیوں کے تختوں سے ٹھونک کر بند کی جا رہی ہیں۔ اس کے باوجود پرندے لوگوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں اور میخوں کو اپنی جگہ سے ہلائے دے رہے ہیں۔

میخیں کمزور پڑتیں تو ان پرندوں کا نیا پرا حملہ آور ہوتا اور لکڑی کے تختوں کو ادھیڑ دیتا ہے۔ کمروں میں گھس آتا ہے، انسانی چہروں پر حملہ آور ہوتا ہے اور وہ آنکھیں جن سے انسان ان کا نشانہ لیتے تھے، ان ہی آنکھوں کو حلقۂ چشم سے نوچ لیا جاتا ہے۔ ایک دہشت ناک منظر جسے دیکھ کر رونگھٹے کھڑے ہو جاتے۔ ایک ایسی صورتحال جس کے بارے میں انسان نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ یہ طاقتور پر کمزور کی فتح کا قصہ تھا۔

اور اب جو خبریں آ رہی ہیں وہ ہچکاک کی فلم سے بالکل مختلف ہیں۔ محکوم اپنے حاکموں سے بے زار ہیں، اتنے بے زار کہ وہ ان کے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتے۔ شاید انھیں احساس ہوگیا ہے کہ ان کے حاکموں پر کوئی بڑی آفت آنے والی ہے، جس طرح زلزلہ آنے سے پہلے پرندوں اور جانوروں کو احساس ہونے لگتا ہے کہ بری گھڑی سر پر کھڑی ہے اور وہ اپنے پنجروں میں پھڑپھڑانے لگتے ہیں، چوپائے اپنے باڑوں سے نکل بھاگنے کے لیے بے قرار ہوجاتے ہیں۔

ہمارے یہاں کیا الف لیلہ اور کیا منطق الطیر، برقعے میں پرندے ہیں بہ طور خاص حضرت فرید الدین عطار کی عالمی شہرت یافتہ مثنوی ’’منطق الطیر‘‘ میں تو سارا قصہ ہی پرندوں کا ہے لیکن یہ وہ پرندے ہیں جو تلاش کے سفر پر ہیں اور آخر کار اپنی تلاش میں کامیاب ہوتے ہیں۔

لیکن اس وقت زیر بحث وہ اربوں پرندے ہیں جو چند دنوں پہلے اپنے اپنے ٹھکانوں سے اڑے اور جانے کہاں پرواز کرگئے۔ اس بارے میں بی بی سی اور دیگر تمام ادارے بہت پریشان ہیں۔ پرند، چرند، پھول، پودے یہ سب اس حیاتیاتی زنجیر کی کڑی ہیں جن سے انسان بھی جڑا ہوا ہے۔ ان کا یہ سوال ہے کہ اگر یہ پرندے ہم سے ناراض ہوگئے ہیں تو یہ کوئی غیر اہم بات نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خود انسانی جان کو اور اس کرہ ارض کو خطرہ ہے۔ ہم نے اپنی حرکتوں سے اس کرہ ارض کو خطرے سے دوچار کردیا ہے۔

یہ کوئی معمولی نہیں خود انسان کی جان کو خطرہ ہے۔ آیندہ کیا ہونے والا ہے، اس بارے میں ہم نہیں جانتے لیکن یہ ضرور جانتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران اور اس کے بعد سے ہم نے حشرات الارض کو ہلاک کرنے کے لیے جو زہریلی دوائیں استعمال کیں اور آج بھی استعمال کر رہے ہیں، انھوں نے ایک طرف انسان کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کیا، دوسری طرف پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ہزاروں پرندے اور کیڑے مکوڑے معدوم ہوچکے ہیں۔

ہم جن کیڑوں کو اپنی فصلوں کے لیے نقصان دہ سمجھتے تھے، وہ ختم ہوئے اور ان کے ساتھ ہی نہ جانے کتنے کیڑے مکوڑے ختم ہوئے جو حیاتیاتی توازن قائم رکھتے تھے۔ ہم صرف اپنے بارے میں فکر مند رہتے ہیں۔ اس بارے میں ہم نے غور نہیں کیا کہ جب ہماری جھیلوں سے مرغابیاں، بگلے اور اسی نوعیت کے دوسرے آبی پرندے معدوم ہوجائیں گے تو ہمارا کیا ہوگا۔ اس دنیا کا کیا ہوگا جو ایک سرسبز اور شاداب پناہ گاہ کے طور پر ہمارے سپرد کی گئی تھی۔

کارل زیمیئر نے ایک بہت دل زدہ کردینے والی رپورٹ مرتب کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ گوریا، فاختہ، کبوتر اور مینائیں جن کے نغموں سے ہماری سماعتیں آسودہ رہتی تھیں، وہ بلبلیں اور حد تو یہ ہے کہ وہ کوے جن کی آواز ہمیں ناگوار گزرتی تھی، وہ بھی کہیں کھو گئے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ ان کی کائیں کائیں اور چیلوں کی کرخت آواز بھی ہمیں سنائی دے، اس لیے کہ یہ سب ہماری فطرت کا حصہ ہیں۔ ان کے بغیر ہر طرف سناٹا ہوگا۔ ہمارے یہاں ترک وطن کرنے پر مجبور ہونے والے انسانوں کی داستانِ غم بیان کی جاتی ہے، کوئی یہ نہیں سوچتا کہ جب ترکِ دنیا کرنے والے ان پرندوں کی رخصت کا ہمیں احساس ہوگا تو اس وقت ہر طرف کیسا سناٹا ہوگا۔

کئی برس پہلے کے ’’سویرا‘‘ میں صلاح الدین محمود کا ایک مضمون شایع ہوا تھا جس میں انھوں نے بتایا تھا کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں چڑیاں، تتلیاں اور مچھلیاں اجتماعی خود کشی کر رہی ہیں۔ ناصر کاظمی نے لکھا تھا:

اڑ گئے یہ شاخ سے کہہ کر طیور

اس گلستان کی ہوا میں زہر ہے

مگر وہ اڑ کر کہاں جائیں۔ آدمی کے ہاتھوں ساری دنیا کی ہوا میں زہر گھل چکا ہے۔ چڑیاں اورتتلیاں ظالم و جاہل آدمی کے ہاتھ کو پکڑ نہیں سکتیں کہ ہوا میں زہر مت گھولو اور زمین پر زندگی کو اجیرن مت بناؤ۔ ان کا مقدور تو اتنا ہی ہے کہ کوئلیں ناخوش ہوکر کوکنا بند کردیں۔ چڑیاں اور تتلیاں اس مسموم فضا سے بے زار ہوکر خودکشی کرلیں۔ ایک حساس تتلی اور چہکتی چڑیا انسان کے ظلم و جہل کا ویسے تو کوئی جواب نہیں دے سکتی۔‘‘

یا پھر ہم الفرڈ ہچکاک کے پرندوں کو آواز دیں کہ وہ آئیں اور ہم انسانوں سے بغاوت کریں۔

The post جب پرندوں کو طیش آیا appeared first on ایکسپریس اردو.

محکمہ صحت، زبوں حالی سے بحالی کا سفر

$
0
0

پاکستان کو قائد اعظم کے خوابوں کے مطابق، ایک مثالی اسلامی فلاحی مملکت بنانے کا وہی جذبہ، جہاں عام آدمی کو زندگی کی بنیادی سہولتیں (ریاست کی طرف سے) دستیاب ہوں، ظاہر ہے، صحت عامہ بھی ان میں شامل تھی۔

ایک ایسا معاشرہ قائد اعظم کے خوابوں کا معاشرہ نہیں ہوسکتا جہاں اشرافیہ کے پاس تو بہترین علاج ، مہنگی ترین ادویات اور جدید ترین سرجری کے لیے وسائل موجود ہوں اور غریب آدمی علاج کے بغیر، ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائے، غریب آدمی جو اپنے خاندان کا واحد معاشی سہارا تھا اور جس کے بعد پسماندگان کے لیے زمانے کی ٹھوکریں رہ جائیں گی۔

گردوں کی بیماری بھی تیزی سے پھیلتے ہوئے امراض میں شامل ہے، ناقص غذا اور غیر صحت مند ماحول کی وجہ سے عام آدمی جن کا خصوصی نشانہ بنتا ہے۔ اپنے پہلے دور (1997-99) میں، گردوں کے مریضوں کے لئے ضروری طبی سہولتوں کی فراہمی بھی میرے ایجنڈے کا اہم نکتہ تھا ،اس کے لیے سرکاری ہسپتالوں میں مفت ڈائلسز کی سہولتوں کا اہتمام کیا ۔لاہور کے شیخ زید بن سلطان النہیان ہسپتال میں اس سلسلے کی افتتاحی تقریب میں، وزیراعظم جناب محمد نوازشریف مہمان خصوصی تھے۔

12اکتوبرکے ٹیک اوور کے بعد جنرل مشرف نے ہمارے فلاحی ایجنڈے کے جن نکات پر خط تنسیخ پھیر دیا ،اُن میں ڈائلسز کی مفت سہولت بھی تھی۔

2008 میں نئے جمہوری دور کے ساتھ پنجاب میں قدرت نے ایک بار پھر مسلم لیگ (ن)کو عوام کی خدمت کا موقع دیا۔ میاں نواز شریف صاحب کے ویژن کے مطابق عوامی فلاح و بہبود( اور قومی تعمیر و ترقی) ایک بار پھر ہمارے ایجنڈے کے اہم ترین نکات تھے۔ میں آج کے کالم میں عام آدمی کی صحت کے لئے اپنی حکومت کے بعض اقدامات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔

قصور کے دور ے میں یہاں کے ڈسٹرکٹ ہسپتال کا اچانک معائنہ(سرپرائز وزٹ)بھی شامل تھا۔ میں وہاں پہنچا تو یوں لگا جیسے کسی بھوت بنگلے میں آگیا ہوں ۔یہ ایک ایسا اونٹ تھا جس کی کوئی کل سیدھی نہ تھی۔صفائی سُتھرائی کا فقدان، ادویات اور ضروری طبی آلات نام کو نہ تھے ۔انتظامی معاملات بھی نہایت افسوسناک، مریضوں کی کسمپرسی اور لاچارگی دیکھی نہ جاتی۔ میں ادویات کے سٹور میں گیا،تو وہاں کھڑا ہونا بھی محال تھا ۔

صوبائی دارالحکومت کے قریب ترین ڈسٹرکٹ ہسپتال میں صورتحال ایسی ناگفتہ بہ تھی تو باقی شہروں،قصبات اور دیہات میں سرکاری ہسپتالوں اور بنیادی صحت مراکز(BHUs) کا کیا حال ہوگا ؟

بدقسمتی سے حکومتوں کی توجہ چند بڑے شہروں کے بڑے ہسپتالوں ہی کی طرف رہی تھی( اگرچہ یہاں بھی صورتحال چند اں قابلِ رشک نہیں تھی۔) دس بارہ کروڑ آبادی کے صوبے میں صحت کے شعبے میں مسائل کا انبار تھا، جن سے نمٹنے کے لیے دوررس اقدامات پر مشتمل بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت تھی۔ یہی احساس تھا جو محکمہ صحت پنجاب کی دو حصوں میں تقسیم کا باعث بنا ۔

(۱) پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ

(۲) سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن۔

اول لذکر کی ذمہ داری لاہور سے ہمارے ہونہار نوجوان ایم پی اے خواجہ عمران نذیر کے سپرد ہوئی۔ثانی الذکر کے نگران خواجہ رفیق شہید کے صاحبزادے،” نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو” سلمان رفیق قرار پائے ۔

پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ میں صوبے کے 26 ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال،125 تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال، 310 رورل ہیلتھ سنٹر اور 2500 سے زائد بنیادی صحت کے مراکز ( BHUs) تھے۔ مرض سے پہلے کے احتیاطی اور انسدادی(Preventive) اقدامات بھی اسی شعبے میں آتے ۔ (ا س میں ملیریا، ہیپاٹایٹس، اور ڈینگی سمیت سب امراض شامل تھے۔)

سرکاری میڈیکل کالج اور ان سے ملحقہ بڑے ہسپتال( مثلاً لاہور کا میوہسپتال، سروسز اور جناح ہسپتال، راولپنڈی، فیصل آباد، ساہیوال، سیالکوٹ، ملتان، گوجرانوالہ اور بہاولپور کے ٹیچنگ ہسپتال) خواجہ سلمان رفیق کے سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن میں شامل تھے۔

محکمہ صحت کی زبوں حالی دیکھی نہ جاتی ، جس کے لیے مکمل بحالی”(Revamping) کی فوری اور اشد ضرورت تھی اس کے لیے 30 ارب روپے کا ڈویلپمنٹ(ترقیاتی) بجٹ رکھا گیا ۔ صوبے کے تمام ڈسٹرکٹ ہسپتالوں ، پندرہ تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتالوں سے اس عمل کا آغاز ہوا۔(دیگر ہسپتالوں کی 85 ایمرجنسی وارڈز کیRevamping بھی اس میں شامل تھی۔)اس عمل میں ہسپتالوں کی عمارات کی وسیع پیمانے پر تعمیرومرمت اور ضروری طبی سہولتوں (Missing Facilities) کی فراہمی بھی تھی اور ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل سٹاف کی کمی کا ازالہ بھی۔

ایمرجنسی وارڈز کے لیے الگ میڈیکل آفیسرزر کھے گئے۔مریضوں کے لیے آرام دہ بستروں کی فراہمی ، ICUاور CCU کا قیام اور بعض ہسپتالوں میں برن یونٹس کااہتمام، ڈائیلسز سہولتوں کی فراہمی جس کے لیے جدید ترین آلات ہنگامی بنیادوں پر ہوائی جہازوں سے بھی منگوائے گئے کہ مریضوں کی زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی تھا ، CTسکین ،فزیوتھراپی کی سہولتیں، جدید آلات کے ساتھ دانتوں کے امراض کا شعبہ ، ہر ڈسٹرکٹ ہسپتال میں مردہ خانہ، ہسپتال کی Toxic (زہریلی ) Waste کے خاتمے کے لیے عالمی معیار کے پلانٹس کی تنصیب شامل تھی۔(یہ” ویسٹ” ماضی میں مختلف امراض کا باعث بنتی رہی تھی۔)

Revamping کے اس عمل کے لیے 12 ارب روپے کے نئے آلات خریدے گئے۔ پروکیورمنٹ کا یہ سارا عمل قوائدو ضوابط کے مطابق نہایت صاف اور شفاف طریقے سے ہوا اور اس میں بھی 5 ارب کی بچت کی گئی۔بعض انتظامی امور کے لیے2000 نوجوان بچے ، بچیوں کا تقرر کیا گیا۔

Revampingکے اس عمل میں”کلینکل سائڈ” پر جو اقدامات کیے گئے ، ان میں 300 سینئر( سپیشلسٹ)ڈاکٹرز، 7,000 (میل اور فی میل)ڈاکٹرز، 500 ایمرجنسی میڈیکل آفیسرز ،صحت سے وابستہ دیگر سہولتوں کے 1600 ماہرین(الائیڈ ہیلتھ پروفیشنلز)، فارماسسٹس اور فزیوتھراپسٹس کا تقررشامل تھا۔یہ سارا عمل این ٹی ایس(NTS) کے ذریعے ، میرٹ کی بنیاد پر ہوا۔6 دیگر شعبے “آئوٹ سورس” کر دیے گئے۔ ان میں صفائی ، سیکیورٹی، مینٹی نینس، “ویسٹ مینجمنٹ” اور جنریٹر شامل تھے۔ مریضوں کے بستروں کی چادروں اور تکیوں کے غلاف وغیرہ کی دھلائی کے لیے لانڈری کا پراجیکٹ بھی شروع کیا گیا لیکن حکومت کی تبدیلی کے باعث یہ نا مکمل رہ گیا۔(میری اطلاع کے مطابق ، ہمارے دیگر منصوبوں کی طرح اس پر بھی کام ٹھپ ہو چکا ہے۔)

کلینیکل(Clinical) سائڈ میں پتھالوجیکل لیبارٹریاں، CT سکین، میڈیکل گیس(آکسیجن) کی فراہمی کو آئوٹ سورس کیاگیا۔اوراسے ایک مرکزی نظام کے تحت بنیادی مراکزصحت(BHUs) کی سطح تک پہنچادیا گیا۔دیہی علاقوں کے لیے700 موبائل الٹراسائونڈ مشینوں کی فراہمی اس کے علاوہ تھی جس کے لیے لیڈی ہیلتھ وزیٹرزکی خصوصی تربیت کا اہتمام کیا گیا۔

ڈسٹرکٹ ہسپتالوں سے بنیادی مراکز صحت تک، ہنگامی ضرورت کے تحت اخراجات کے لیے روائتی سرخ فیتے کا خاتمہ کر دیا گیا۔ اس کے لیے ہیلتھ کونسلز قائم کی گئیں۔مختلف سطح پر مختلف سرکاری آفیسرز ان کے نگران ہوتے۔ مثلاً ڈسٹرکٹ ہسپتال کی ہیلتھ کونسل کا سربراہ ڈپٹی کمشنر اور تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں کی کونسل کا سربراہ ایک اسسٹنٹ کمشنر ہوتا۔ فوری( اور ہنگامی) ضرورت کے لیے ان کے پاس Petty Cash ہوتا۔ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کے لیے یہ رقم ڈیڑھ کروڑ روپے ، تحصیل ہیڈکوارٹر کے لیے پچاس لاکھ،رورل ہیلتھ سنٹر کے لیے دس لاکھ، اور بنیادی مرکز صحت ( BHU) کے لیے تین لاکھ تھی۔

خواجہ سلمان رفیق کی سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن کی کارکردگی الگ تفصیل چاہتی ہے۔ آج کی نشست میں اتنی سی بات بتاتا چلوں کہ چلڈرن ہسپتال لاہور میںجدید ترین آلات اور سہولتوں کے ساتھ 500 بستروں کا اضافہ، میو ہسپتال لاہور میں سٹیٹ آف دی آرٹ سرجیکل ٹاور ( اس سے پہلے یہ محض سنگ و خشت کا ڈھانچہ تھا، جوہمیں ملا) سروسز ہسپتال لاہور میں 350 بستروں کا نیا OPD، اور جنرل ہسپتال لاہور میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز (PINS) کا قیام (نئے ہسپتالوں کی تعمیر ایک الگ موضوع ہے جس پر بعد میں بات کریں گے)

یہاں ایک اور تاریخ ساز اقدام کا ذکر بھی ہوجائے۔ ڈاکٹر لوگ ( ان میں خواتین و حضرات دونوں شامل تھے) بڑے شہروں سے دور قصبات اور دیہات میں کام سے گھبراتے تھے۔ ہم نے اس حوالے سے ان کے لیے کشش(Attraction) کا خصوصی انتظام کیا۔ یہ میڈیکل میں سپیشلائزیشن کے لیے داخلے کے ، ذاتی پسند نا پسند اور سفارش پر مبنی (Pick and Choose) کے پرانے نظام کا خاتمہ تھا۔

نئے نظام میں بڑے شہروں سے باہر ایک مخصوص مدت کے لیے خدمات انجام دینے کا کیا اضافی نمبر رکھ دیئے گئے(جو میرٹ کی تیاری میں بہت کام آتے) یہ سنٹرلائزڈ سسٹم تھا جس میں کسی اقربا پروری کا کوئی امکان باقی نہ رہا۔ اب ڈاکٹر ( خواتین و حضرات ) کی بھر پور خواہش ( اور کوشش )ہوتی کہ انہیں بڑے شہروں سے باہر خدمات کا موقع مل جائے جس سے سپیشلائزیشن کے لیے ان کا میرٹ بہتر ہو جائے گا۔ یوں قصبات اور دیہات تک عوام کو سرکاری ڈاکٹروں کی خدمات دستیا ب ہوگئیں۔

محکمہ صحت کے حوالے سے کئی اور کہانیاں بھی ہیں۔قصور کی زہرہ بی بی کی کہانی، لاہور کے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں 100 افراد کی موت اور اس کے پس پردہ حقائق۔ ۔ عالمی معیار کی ٹیسٹنگ لیبارٹری کا قیام(اور اس کے خلاف مافیا کی سازشیں) مریضوں کی ایک سے دوسرے ہسپتال میں منتقلی کے لیے ایمبولینس کا جدید اور برق رفتار نظام، 1122 میں نئے اضافے ۔۔۔اور وہ PKLI کا المیہ بھی ،یہ سب آئندہ)

The post محکمہ صحت، زبوں حالی سے بحالی کا سفر appeared first on ایکسپریس اردو.


مقبوضہ کشمیر! ٹرمپ ثالثی کے لیے قدم بڑھائیں

$
0
0

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے امریکا کے دورے کے دوران غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے عالمی برادری مداخلت کرے، مودی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں چھپانا چاہتا ہے، اس لیے ثالثی سے انکاری ہے۔

اس وقت انتہا پسند آر ایس ایس بھارت پر حکومت کر رہی ہے، مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا وہ بہت تشویش ناک ہے، جانوروں کو بھی 50 دن قید کر دیں تو دنیا ردعمل دیں گے ، بھارت نے80 لاکھ لوگوں کو مقبوضہ وادی میں قید کر دیا ہے، ایسا ہولناک لاک ڈاؤن حالیہ تاریخ میں کہیں نہیں ہوا، مقبوضہ کشمیر کی صورت حال سے دنیا کے بڑے لیڈران کو آگاہ کر دیا ہے، بھارت کشمیریوں سے جو کر رہا ہے کوئی انسانوں سے ایسا کیسے کر سکتا ہے؟ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے نام پر کشمیریوں کو روندا جا رہا ہے۔

ادھر امریکی نیوز چینل سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ دنیا مقبوضہ کشمیر کی کشیدہ صورت حال کو سمجھنے سے قاصر ہے، وہاں  جو ہو رہا ہے وہ بد سے بدتر ہوتا جائے گا ، یہ انتہائی خطرناک ہے، جب کرفیو ہٹے گا تو وادی کے حالات کھل کر دنیا کے سامنے آ جائیں گے، بھارتی فورسز اور کشمیریوں کے درمیان تصادم ہو گا، مجھے خطرہ ہے کہ بھارتی فورسز کے ہاتھوں بڑے پیمانے پر کشمیریوں کا قتل عام ہوگا۔

اسے مظلوم کشمیریوں کا بلڈ باتھ قرار دیا جا رہا ہے۔ اگر حالات اس نہج تک پہنچ گئے اور مزید بگڑ گئے تو نہ میرے اور نہ امریکی صدر ہی کے قابو میں آئیں گے۔ انھوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ثالثی کی گئی تو دنیا کو معلوم ہو جائے گا کشمیری حق خودارادیت سے محروم ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں لوگوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے وزیر اعظم عمر ان خان کے خطاب کے بعد بھر پور جشن منایا۔ بھارتی فوجیوں کی بھاری تعیناتی کے باوجود عمرا ن خان کی تقریر ختم ہوتے ہی کئی مقامات پر سیکڑوں کشمیری گھروں سے باہر نکل آئے، انھوں نے پٹاخے چلائے اور خوشی سے رقص کیا، انھوں نے پاکستان اور آزادی کے حق میں اور بھارت کے خلاف فلک شگاف نعرے لگائے۔

عوام کے اس جوش و خروش کے بعد قابض انتظامیہ نے لوگوں کو مظاہروں سے روکنے کے لیے سرینگر میں پابندیاں مزید سخت کر دیں۔ مقبوضہ کشمیر میںبھارتی فوج نے ریاستی دہشت گردی کی تازہ کارروائیوں کے دوران گاندر بل اور رام بن کے اضلاع میں مزید 7 کشمیری نوجوان شہید کر دیے۔

اس طرح شہید کیے جانے ولے معصوم کشمیر ی نوجوانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی فوجیوں نے تین کشمیری نوجوانوں کو ضلع گاندر بل کے علاقے نارہ ناگ جب کہ دیگر تین کو جموں خطے میں ضلع رمبان کے علاقے بٹوٹ میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کے دوران شہید کیا۔ بھارت کی سب سے زیادہ ظالمانہ کارروائیوں میں بے گناہ کشمیریوں کے گھروں میں کسی نہ کسی بہانے سے چھاپہ مار کر نوجوانوں کو حراست میں لے لینا جن کا بعد میں کوئی سراغ ہی نہیں ملتا کہ انھیں زمین کھا گئی یا آسمان نے نگل لیا۔

بے بس والدین در در کی ٹھوکریں کھاتے رہتے ہیں مگر انھیں اپنے جگر کے ٹکڑوں کا کوئی سراغ نہیں ملتا اور ان کی اپنی زندگی ویران ہو جاتی ہے۔ ایسے نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں مل جاتی ہیں یا وہ تشدد سے زندگی بھر کے لیے معذور ہوجاتے ہیں۔ بھارتی فوج نے ایک مسافر بس کے اغوا کا ڈرامہ رچا کر ضلع گاندربل میں داخلی و خارجی راستوں کو بند کر کے نام نہاد سرچ آپریشن کیا اور چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے گھر گھر تلاشی کے دوران بنیادی انسانی حقوق کی سنگین پامالی کی اور تین نوجوانوں کو شہید کر دیا۔ بھارتی فوجیوں کا طریقہ واردات ہی یہی ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پابندیوں کے باعث ہفتہ کو مسلسل 55  ویں روز بھی نظام زندگی مفلوج رہا اور دکانیں، کاروباری مراکز اور تعلیمی ادارے بند جب کہ سڑکوں پر ٹریفک کی آمد و رفت معطل رہی۔ مقبوضہ وادی کشمیر اور جموں خطے کے مسلم اکثریتی علاقوں میں موبائل فون، انٹرنیٹ سروسز اور ٹیلی ویژن نشریات مسلسل بند ہیں جس سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ سرکاری اسکولوں کے ساتھ ساتھ نجی تعلیمی ادارے بھی پانچ اگست سے بند ہیں اور اساتذہ تنخواہوں سے محروم ہیں۔ بھارتی قبضے اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے خلاف ڈوڈہ، بھدرواہ اور کشتواڑ میں مکمل ہڑتال کی گئی اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔

بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں بھی لوگوں کی بڑی تعداد نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کے خلاف احتجاجی مارچ کرتے ہوئے بھارت سے علاقے میں پابندیاں اور مواصلاتی نظام کی معطلی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کی طرف سے کشمیر کا کیس بھر پور طریقے سے پیش کرنے کے بعد ملائیشیا اور چین نے بھی مظلوم کشمیریوں کے حق میں کلمہ حق بلندکر دیا اور بھارت پر زور دیا کہ مسئلہ کشمیرکو پر امن طور پر حل کرنے کے لیے پاکستان سے مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ چین اور ملائیشیا قبل ازیں بھی کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرچکے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران نہ صرف مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا بلکہ فلسطین سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں اور یورپ میں پھیلے اسلامو فوبیا پر بھی سیر حاصل بات کی اور اسلام کے بارے میں پھیلائے گئے دہشت گردی کے نظریات کی بھرپور نفی کی۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ اہل یورپ کو حقائق سے آگاہ کیا جائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کیا کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر انھوں نے روایتی بے حسی اور منافقت کا مظاہرہ جاری رکھا تو ان کا یہ عمل جنوبی ایشیا کی سلامتی اور بقا کے لیے خطرے کا پیش خیمہ ثابت ہو گا جس کا ذکر وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنی تقریر میں کیا ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ثالثی کے بیانات تک محدود رہنے کے بجائے آگے بڑھتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر اپنا کردار ادا کریں۔بھارت کو مجبور کیا جانا چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ جامع مذاکرات کا سلسلہ بحال کرے۔ان مذاکرات میں تنازعہ کشمیر کو اولیت دی جائے ۔اگر تنازعہ کشمیر پر امریکا اپنا کردار ادا کرے تو اسے حل کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔تنازعہ کشمیر حل ہوگیا تو پاک بھارت دیگر تنازعات خود بخود حل ہوجائیں گے اور جنوبی ایشیا تعمیر وترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔

The post مقبوضہ کشمیر! ٹرمپ ثالثی کے لیے قدم بڑھائیں appeared first on ایکسپریس اردو.

ہانگ کانگ میں احتجاجی تحریک کے پانچ سال

$
0
0

ہانگ کانگ کے ہزاروں احتجاجی مظاہرین نے گزشتہ روز جمہوریت کے حق میں ’دی گلوری ٹو ہانگ کانگ‘‘ والا اپنا ترانہ گایا جب کہ اس جزیرے کی آبادی اپنے جمہوریت کے حق میں احتجاج کی پانچویں سالگرہ منا رہی ہے اور جزیرے میں احتجاج اور مظاہرے مسلسل جاری ہیں۔

ہانگ کانگ کے  مشہور تامر پارک کے باہر مظاہرین کی فیملیاں جمع ہو گئی تھیں۔ اس پارک کے دوسری طرف سرکاری دفاتر قائم ہیں نیز قانون ساز کونسل کا مرکز بھی یہیں موجود ہے۔ ان دنوں دفاتر پر تین ماہ سے زیادہ عرصے سے احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں اور مظاہرین نے احتجاج کے دوران سرکاری دفاتر پر حملے بھی کیے ہیں جن کے جواب میں حکومت کو بھی سخت کارروائی کا مظاہرہ کرنا پڑا ہے۔

جس سے جزیرے کے حالات اور زیادہ خراب ہو گئے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں مظاہرین کی پولیس کے ساتھ بھی جھڑپیں ہو گئی ہیں۔ مظاہرین نے اعلان کیا کہ یہ دن ہانگ کانگ والوں کے لیے ایک بہت خاص دن ہے جس میں انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ تمام تر تشدد کے مقابلے میں بھی باہم اکٹھے رہیں گے اور میدان چھوڑ کر نہیں جائیں گے بلکہ اپنی آزادی کے لیے لڑائی جاری رکھیں گے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہانگ کانگ کے احتجاجی مظاہرے ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب چین میں کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر بیجنگ میں اپنی حکومت کی ستر سالہ سالگرہ منا رہی ہے جب کہ ہانگ کانگ میں احتجاجی مظاہرین پانچ سال سے اپنی مخالفانہ مہم کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہانگ کانگ میں چین کی سرکاری کمپنی جو سرمایہ کاری کے لیے بنائی گئی ہے ، اس کمپنی کے باہر احتجاجی مظاہرین نے اس مقام پر اپنا احتجاجی کیمپ نصب کر دیا ہے۔

جس کے باہر ایک بہت بڑا کرمزی رنگ کا بینر لگا دیا گیا ہے جو احتجاجی مظاہرین کی خاص پہچان ہے۔ مظاہروں میں اب پہلے کی نسبت زیادہ شدت پیدا ہو گئی ہے۔ ہانگ کانگ میں پولیس کو اس وقت مجبوراً کارروائی کرنا پڑتی ہے جب مظاہرین کی طرف سے ہوائی فائرنگ شروع کر دی جاتی ہے۔

احتجاج کے دوران پولیس کے ساتھ چھوٹی موٹی جھڑپیں بھی ہوئیں تاہم پولیس نے ان پر قابو پا لیا۔ یہ کشمکش کب تک جاری رہتی ہے اس بارے میں نہ حکومت کی طرف سے اور نہ ہی مظاہرین کی طرف سے کوئی اندازہ لگایا جا سکا ہے۔ بہرحال عوامی جمہوریہ چین کا اس حوالے سے موقف واضح ہے،چین ہانگ کانگ کو اپنا حصہ سمجھتا ہے ۔حالیہ مظاہروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں امریکا اور برطانیہ کی حمایت حاصل ہے۔

دراصل مظاہرین ہانگ کانگ میں وہی آزادیاں دیکھنا چاہتے ہیں جو اس جزیرے کے باشندوں کو چین کے حوالے کرنے سے پہلے حاصل تھیں۔اب ہانگ کانگ میں جو تحریک جاری ہے ، دیکھنا یہ ہے ، یہ کس کروٹ بیٹھتی ہے کیونکہ اس حوالے سے عوامی جمہوریہ چین اور امریکا کے درمیان خاصی ناچاقی بھی ہے۔

The post ہانگ کانگ میں احتجاجی تحریک کے پانچ سال appeared first on ایکسپریس اردو.

مراد علی شاہ کی گرفتاری کے اثرات؟

$
0
0

مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ مراد علی شاہ کی گرفتاری سے کیا حاصل ہو جائے گا۔ اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہیں تو  ریفرنس فائل کرے۔ کیا مراد علی شاہ کو وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کے لیے سب کچھ ہورہاہے؟ پہلے ہی سوالات ہیں کہ احتساب یکطرفہ ہورہا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان بھی اپنے تحفظات کا اظہا ر کر چکے ہیں۔

حال ہی میں پنجاب کے سابق وزیر سبطین خان کی ضمانت کا فیصلہ بھی بہت اہم ہے۔ سبطین خان کی ضمانت کا فیصلہ ایسے تمام مقدمات میں اہم ہو گا جن میں انکوائری ایک دفعہ بند کر کے دوبارہ شروع کی گئی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے ایک دفعہ انکوائری بند کرنے کے بعد دوبارہ شروع کرنے پر ایک قسم کی قد غن لگا دی ہے۔ اب نیب کو بند انکوائریاں دوبارہ کھولنے سے پہلے کئی دفعہ سوچنا ہوگا۔

بہر حال مراد علی شاہ سندھ کے منتخب وزیر اعلیٰ ہیں۔ کوئی انکوائری انھیں وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کے لیے کافی نہیں۔ اگر ان کو حراست میں لے بھی لیا جاتا ہے تب بھی وہ وزیر اعلیٰ رہیں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ملک کے قانون اور آئین کے تحت کسی کی بھی گرفتاری اس کو کسی بھی عہدہ کے لیے نا اہل نہیں کرتی ہے۔

ایسی صورت میں جب پیپلزپارٹی یہ کہہ رہی ہے کہ مراد علی شاہ حراست میں بھی وزیر اعلیٰ ہوں گے، وہ کوئی غیر قانونی اور غیر آئینی بات نہیں کر رہی ہے۔ ملک کا آئین و قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔ اگر نیب کو آئین و قانون کے مطابق منتخب وزیر اعلیٰ کی گرفتاری کا حق ہے تو دوسرے فریق کو بھی آئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے اپنے تمام حق استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اس میں حرج ہی کیا ہے۔ فریقین کو آئین کے اندر رہ کر کھیلنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ جہاں تک اخلاقیات کا تعلق ہے تو اس کا اطلاق بھی فریقین پر ہونا چاہیے۔ صرف ایک فریق کو اخلاقیات کا پابند کیسے بنایا جا سکتا ہے۔

آجکل جس طرح کا ماحول بن رہا ہے یہ بالکل ویسا ہی ماحول ہے جیسا آئین کے آرٹیکل 56 2Bکے بارے میں بن گیا تھا۔ پاکستان کے آئین کے تحت اس آرٹیکل کے تحت صدر پاکستان کے پاس پارلیمنٹ کو توڑنے کا اختیار حاصل تھا۔ لیکن ملک کے صدور نے اس اختیار کو بار بار اس بے دردی سے استعمال کیا کہ اس اختیار کے خلاف ایک رائے عامہ بن گئی۔

مختلف صدور کی جانب سے بار بار پارلیمنٹ توڑنے کے بعد اعلیٰ عدلیہ کو بھی اختیار کے خلاف فیصلے دینے پڑے۔ بعد میں ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہو گئیں کہ اس اختیار کی موجود گی میں پاکستان میں جمہوریت نہیں چل سکتی، اس طرح یہ اختیار ختم ہو گیا۔ حالانکہ دنیا کے کئی ممالک اور جمہوریت میں یہ اختیار موجود ہے۔ لیکن پاکستان میں اس اختیار کے استحصال نے اس کو ختم کر دیا۔

اسی طرح اس وقت ملک میں ایک ماحول بن رہا ہے۔ ایک رائے بن رہی ہے کہ ملک اور نیب اکٹھے نہیں چل سکتے۔ موجودہ حکومت جو نیب کی سب سے بڑی وکیل تھی ، وہ بھی نیب کے پر کاٹنے پر تیار ہو گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس ماحول میں مراد علی شاہ کی گرفتاری نظام احتساب کے لیے کوئی خیر کی خبر نہیں ہو سکتی۔ ان کی گرفتاری  نظام احتساب کو مضبوط کرنے کے بجائے کمزور کرے گی۔ اس سے پہلے کراچی کے مئیر وسیم اختر کو بھی گرفتار کیا گیا اور ایم کیو ایم نے ضد کی تھی کہ وسیم اختر جیل سے بھی مئیر ہوںگے۔ تب جیل میں مئیر کا دفتر بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور وہ جیل میں مئیر رہے۔

آپ اندازہ کریں کہ اگر مراد علی شاہ کو گرفتار کر لیا گیا اور وہ حراست میں وزارت اعلیٰ چلانے پر مصر رہے تو کیا ہوگا؟ نظام کے دوستوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ اس سے ملک کی کیا خدمت ہو گی؟ ایک رائے یہ ہے کہ پی پی پی سے سندھ چھیننے کے لیے مرا د علی شاہ کی گرفتاری ناگزیر ہے، تب ہی وہاں تبدیلی ممکن ہو سکے گی۔

ایسے میں یہ خبریں بھی تو سامنے آ رہی ہیں کہ ابھی تک پی پی پی میں سرنگ لگانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ بہرحال ہم نے سینیٹ میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتما د میں جو تماشا دیکھا ہے ، اس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہاں سب کچھ ممکن ہے۔ لیکن پھر بھی ابھی تک سندھ پی پی پی میں در اڑیں نظر نہیں آ رہی ہیں۔ آصف زرداری، فریال تالپو ر ٔگرفتار ہیں۔ آغا سراج درانی گرفتار ہیں۔

خورشید شاہ گرفتار ہیں۔ باقی سب کے سر پر گرفتاری کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ پنجاب میں تو دو بیوروکریٹس کی گرفتاری کے بعد ساری بیوروکریسی نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ لیکن سندھ میں تو ہر بیوروکریٹ نیب کے ریڈار پر ہے تب بھی وہاں کے بیوروکریٹ ابھی تک پی پی پی کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ فاروڈ بلاک کیوں نہیں بن رہے۔ پنجاب میں بھی ن لیگ کے جن چند ارکان نے اپنی پارٹی پالیسی سے انحراف کر تے ہوئے چند ماہ قبل عمران خان سے ملاقات کی تھی، وہ بھی واپس ن لیگ میں جا چکے ہیں۔ متعدد گرفتاریوں کے باوجود سیاسی لوگ ابھی تک ن لیگ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پی پی پی کے لوگ بھی اتنی گرفتاریوں کے باوجود پی پی پی کے ساتھ کھڑے ہیں۔

یہ پاکستان میں ایک نیا سیاسی کلچر ہے۔ جس کی پہلے مثال نہیں ملتی ہے۔ کیا توڑنے والوں کا زور کم ہو گیا یا لوگ اس زور کے عادی ہو گئے ہیں۔ بہر حال مراد علی شاہ کی گرفتاری نہ تو نظام احتساب کے لیے کوئی خوش آیند ہو گی اور نہ ہی اس سے پاکستان کا کوئی فائدہ ہو گا۔

میں مراد علی شاہ کو یہ کلین چٹ دینے کی بات نہیں کر رہا۔ لیکن میری رائے میں ان کی گرفتاری کے بغیر بھی ان کا احتساب ممکن ہے۔ ویسے بھی نیب کو اب گرفتاری کے بغیر احتساب کو آگے بڑھانے پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ اتنی گرفتاریوں کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔

The post مراد علی شاہ کی گرفتاری کے اثرات؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

$
0
0

دُنیا دیکھتے ہی دیکھتے کتنی بدل گئی ہے کہ خود اپنی آنکھوں اورکانوں پر یقین نہیں آتا کہ ہم آج جو کچھ اپنے اطراف میں دیکھ رہے ہیں واقعی وہ حقیقت ہے یا خواب؟ اور اگر یہ حقیقت ہے تو اس سے پہلے ہم نے آنکھیں کھولنے کے بعد جوکچھ دیکھا تھا وہ حقیقت تھی یا خواب؟

تو بات سچی یہی ہے کہ اس سے پہلے جو کچھ ہم دیکھتے رہے وہ بھی خواب نہیں تھا اور جوکچھ کھلی اور پھٹی آنکھوں سے اب دیکھا جا رہا ہے وہ بھی حقیقت ہے، تکلیف دہ اور دلخراش حقیقت اور ابھی اورکتنی عجیب وغریب، نئی نئی حقیقت سامنے آئیں گی۔ ویسے بھی سائنس اورٹیکنالوجی نے اتنی حیرت انگیز ترقی کرلی ہے کہ اب حیران ہونا بجائے خود ایک حیرت کی بات معلوم ہوتی ہے۔

کون سی چیز ہے جو نہیں بدلی؟ سبھی کچھ بدل گیا ہے۔ فہرست بہت طویل ہے، لیکن پچھلے دنوں ڈاکٹروں کے بارے میں ایک رپورٹ پڑی تو جسم کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ ایک زمانہ تھا جب ڈاکٹر یا معالج کو مسیحا کہا جاتا تھا۔ یہ لوگ جذبہ انسانی کے تحت مریضوں کا علاج کرتے تھے۔ ان کے دکھوں کو اپنا دکھ اور ان کے درد کو اپنا درد جانتے تھے۔

ان کی دل جوئی اور علاج کے لیے ہر ممکن تدبیر کرتے تھے۔ معاوضے اور کمائی کا کوئی تصور تک نہ تھا۔ خدمت اور محض خدمت ان کا مطمع نظر ہوا کرتا تھا۔ طب کا پیشہ، پیشہ نہیں خدمت انسانی سمجھا جاتا تھا لیکن آج یہ (کم ازکم ہمارے ملک میں) ایک جھوٹ اور مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ آج بیشتر لوگ دکھی انسانیت کی خدمت کرنے کے لیے نہیں ، انسانوں کو دکھ یا اذیت پہنچانے کے لیے ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں۔

ڈاکٹروں کی فیس دیکھیے تو ہوشربا ، ان کی ادویات کی قیمت دیکھیے تو آسمان سے باتیں کرتی ہوئی۔ لیبارٹری کے ٹیسٹ اتنے مہنگے کہ عقل حیران رہ جائے۔ پرائیویٹ اسپتالوں کے کمروں کے کرائے فائیو اسٹار ہوٹلوں کے کرایوں کے ہم پلہ۔ پہلے سرکاری اسپتالوں میں آنسو پونچھنے کے لیے ہی سہی علاج یا تو مفت ہوجاتا یا پھر سستا ہوتا تھا، جنرل وارڈ میں مریضوں کو ناشتہ اور کھانا بھی فراہم کیا جاتا تھا اور یہ تھوڑے عرصے پہلے ہی کا ماجرا ہے لیکن اب یہ طریقہ متروک ہوچکا ہے۔

ایک طرف عوام پر بے شمار اور بے انتہا ٹیکسوں اور جرمانوں کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے، دوسری طرف ان کو دی جانے والی سہولتیں گھٹتی جا رہی ہیں۔ پرائیویٹ اسپتال کھالیں اتارنے کے لیے کیا کم تھے کہ اب سرکاری اسپتالوں کو بھی ’’خود مختاری‘‘ کے نام پر لوٹ کھسوٹ کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اب غریب اور بے نوا آدمی کہاں جائے؟ علاج معالجے کے اخراجات کے پیسے کہاں سے لائے؟ اس کا تو مہینے کا راشن 25 دنوں میں ختم ہوجاتا ہے۔ عام آدمی پل صراط کی طرح اپنے مہینے کے آخری ہفتہ کو چلا پاتا ہے بمشکل تمام اپنی فیملی کو لے کر۔

اخراجات سے قطع نظر پیشتر ڈاکٹروں کا طرزِ عمل انتہائی انسانیت سوز اور بے حسی کا ہوچکا ہے۔ بھاری فیسیں اور منہ مانگی رقمیں وصول کرنے کے بعد بھی ڈاکٹر کو مریض سے کوئی ہمدردی نہیں۔ بعض اوقات تو دیکھ کر یا واقعات پڑھ کر یا سن کر یقین نہیں آتا کہ یہ تذکرہ کسی ڈاکٹرکا ہے؟ قصاب کا ہے یا پھر کسی ڈاکو کا؟ خدا کی پناہ۔ آئے دن اخبارات اور ٹی وی چینلز ایسے مظلوم ستم رسیدہ لوگوں پر گزرنے والے واقعات کو ہائی لائٹ کرتے رہتے ہیں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

آخر ہم سب اس قدر بے حس اور سفاک کیوں ہوگئے ہیں؟ ہمدردی ، محبت ، انسانیت اور خدمت کا جذبہ کہاں چلا گیا؟ ڈاکٹر مریضوں کا معائنہ کرنے کے دوران مریض کو تسلی دینے کے بجائے زندہ لاش سمجھ کرگورکن کی طرح ایک طرف کیوں پھینک دیتے ہیں؟ ایسی سنگدلی، بے حسی اور ظلم کی کم سے کم کسی ڈاکٹر سے توقع نہیں کی جاسکتی لیکن ایسا ہی کچھ ہورہا ہے۔

ہمارے ارباب اختیار یا سیاست داں معاشرے کو پہلے ہی سے لاغر اور لاچار کرچکے ہیں اور ڈاکٹر ان بیماروں کو پہلی فرصت میں مُردوں میں تبدیل کر رہے ہیں۔ سُبحان اﷲ ۔ کیا خوب تقسیم کاری ہے۔ ہمارے اکثر ڈاکٹر اور اسپتال لوگوں کے دکھ اور مرض کو دورکرنے کے بجائے انھیں بڑھانے میں مصروف ہیں۔

ستم بالائے ستم ڈاکٹر مریض اور اس کے لواحقین کو اب صاف صاف بتا دیتے ہیں کہ مریض کتنے دن جی سکے گا۔ کیا زمانہ تھا کبھی مریض کے کسی عزیز تک کو اس کے مرض کی نوعیت نہیں بتائی جاتی تھی تاکہ وہ نا امید نہ ہو لیکن آج کا طریقہ یہ کہ مریض اور اس کے لواحقین کو سب کچھ صاف بتا دیا جاتا ہے اور مریض اور اس کے لواحقین کو اتنی اذیت ناک اطلاع دینے کا مقصد کیا ہے، سوائے اس کے کہ وہ غریب زندہ درگور ہوجاتا ہے اور موت کے انتظار میں وقت سے کچھ پہلے ہی مر جاتا ہے۔

ایسا بھی ہوتا ہے کہ اکثر ڈاکٹر کی تشخیص اور رائے غلط بھی ثابت ہوجاتی ہے۔ لیبارٹریاں صحیح غلط کسی دوسرے خطرناک مریض کی رپورٹ کسی اور کے نام پر بنا دیتی ہیں، کبھی خود ڈاکٹر بھی دھوکے کھا جاتا ہے۔ چند خوش نصیبوںکو اس غلطی کا علم ہوجاتا ہے اور وہ سسک سسک کر مرنے سے بچ جاتے ہیں۔

آج کل ڈاکٹروں خصوصاً کامیاب ڈاکٹروں، خصوصی معالجوں کی آمدنی حد درجہ بڑھ گئی ہے اور وہ شب و روز دولت کمانے میں ہم تن مصروف نظر آتے ہیں۔ جیسے ان کی زندگی کا مقصد اور ڈاکٹر بننے کا نصیب العین کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہے۔

یہ ایک ناقابل تردید اور انتہائی تکلیف دہ حقیقت ہے کہ موجودہ جدید عہد نے انسانوں سے اس کی بنیادی خصوصیات، احساس اور انسانیت چھین لی ہے۔ ایک افراتفری کا عالم ہے ہر پہلا قدم دوسرے کے وجود کو کُچل کر آگے بڑھ جانے کے زعم میں مبتلا ہوکر ایسا کر بھی رہا ہے۔ کسی کو کسی کی خبر ہے نا پرواہ۔ ہر کوئی اپنے مسائل اور معاملات میں گرفتار یا مگن ہے۔ اولاد تک کو اپنے والدین کا احساس نہیں رہا ہے۔ اچھائی، برائی، اخلاق اور مذہب کی تمام انسانی اور عالمی اقدار و روایات ایک ایک کرکے ختم ہوچکی ہے۔ آج سے 30 یا 40 سال قبل بھی کوئی تصور نہیں کرسکتا تھا کہ دنیا ایسی ہوجائے گی۔

ماضی کا دور کیا زریں کیا سنہری تھاکہ دواؤں، دوائی کمپنیوں یا اسپتالوں اور ڈاکٹروں کو دیکھ کر مریضوں میں جینے کی رمق پیدا ہوجاتی تھی اُن کا مُرجھایا ہوا چہرہ گھڑی بھرکے لیے سہی کھل اُٹھتا تھا لیکن افسوس صد افسوس اب میڈیسن کمپنیوں اور ہر بڑے چھوٹے اسپتالوں میں بیماریوں کا ڈر اور موت کا خوف ہی بیچا جا رہا ہے اور ایک ڈاکٹری جیسا مقدس پیشہ ہے۔ کیا ہمارے سماج میں تو ہر چیز ہی بکاؤ ہے، ہر چیز بکتی ہے یہاں۔

ہر روز ایک نیا سورج نئے نئے واقعات کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔ لالچ اور دولت کی ہوس اور مُردہ ضمیری نے آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے۔ ہرکوئی اندھا دھند دولت اور اقتدار کے پیچھے بھاگا جارہا ہے۔ یہ دونوں چیزیں اب لازم و ملزوم ہوکر رہ گئی ہیں۔ جب دولت ہی خدا ہوجائے تو اﷲ کے بندوں کا کیا حشر ہوگا ؟

جان بچانے والے ہی جب جان کے درپے ہو جائیں تو پھر موت کو آنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ دراصل ہم سبھی ایک عجیب قسم کے حالت جنگ میں ہیں اور جنگ میں ہمیشہ بھاری تعداد میں بے قصور لوگ ہی مارے جاتے ہیں۔ اس لیے بھی کہ جنگ میں سوائے جنگ کے کوئی چیز معنی نہیں رکھتی۔ نہ انسان نہ انسانیت نہ ہم اور نہ آپ۔

The post مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی appeared first on ایکسپریس اردو.

صحت مند سیاسی کلچر کا فروغ

$
0
0

موجودہ حکومت نے الیکشن سے قبل عوام سے کیے گئے اپنے وعدوں پر اپنے تئیں عمل درآمد کرتے ہوئے کرپشن کو بے نقاب کرنے کے لیے احتساب کے عمل کا آغازکیا ہے تو اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے یک زبان ہو کر اس کے خلاف احتجاج شروع کردیا اور الزام عائدکیا کہ یہ احتساب نہیں،انتقام ہے جو یکطرفہ طور پر صرف اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے خلاف کیا جا رہا ہے۔

اس کا مقصد احتساب کرنا اورکرپشن کو بے نقاب کرنا نہیں بلکہ درحقیقت یہ اپوزیشن کی آواز دبانے اور انھیں خوفزدہ کرنے کے لیے ڈھونگ رچایا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی جب اپوزیشن نے یہ الزام عائدکیا کہ حکومتی جبرکے نتیجے میں ہمارا موقف شایع یا نشر نہیں کیا جارہا تو اسے بھی حکومت کے خلاف پروپیگنڈے سے تعبیرکیا گیا چونکہ ہمارے ملک میں جو سیاسی کلچر رائج ہے۔

اس میں اپوزیشن کا تو کام ہی حکومتی اقدامات پر تنقید تصورکیا جاتا ہے،چاہے حکومت کیسے ہی کام کیوں نہ کر لے اپوزیشن اس کے حق میں کوئی کلمہ خیرکبھی ادا ہی نہیں کرتی۔ ہمارے ہاں یہ سیاسی کلچر اپنی جڑیں اس حد تک مستحکم کرچکا ہے کہ اگر اپوزیشن حکومت کے خلاف نفرت پر مبنی نعرے بازی نہ کرے تو اپوزیشن کے اپوزیشن ہونے پر شک کیا جاتا ہے اور اسے حکومت کے ساتھ مک مکا جیسے طعنے سہنا پڑتے ہیں۔

ہمارے یہاں اس اپوزیشن کو ہی حقیقی اپوزیشن تصورکیا جاتا ہے جو حکومت وقت کے خلاف زہر اگلے لیکن 11ستمبر2019کو نئے عدالتی سال کے آغاز کے موقعے پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جن چند امورکی جانب نشاندہی فرمائی،اس میں ملک میں جاری احتساب پر سیاسی انجینئرنگ کے تاثر اور میڈیا پرحکومتی قدغن قابل ذکر ہیں۔

چیف جسٹس کے بہت ہی واضح ارشادات سے اپوزیشن کے موقف کو بھرپورتائید حاصل ہوئی،جسے اپوزیشن نے اپنی اخلاقی فتح قرار دیا کیونکہ جوکچھ اپوزیشن ، حکومت کے حوالے سے کہتی رہی اور اسے محض پروپیگنڈہ قرار دیا جاتا رہا اب انھی مسائل کی نشاندہی چیف جسٹس نے فرما دی ہے ۔ اس ضمن میں چیف جسٹس نے مزید فرمایا کہ کسی کی آواز یا رائے کو دبانا معاشرے میں بد اعتمادی کو جنم دیتی ہے جب کہ معاشرتی تناؤ جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔

انھوں نے مزید فرمایا کہ طرز حکمرانی میں سیاسی دائرہ سکڑنا ملک اور جمہوریت کے لیے بہتر نہیں۔ چیف جسٹس کے اس موقع پرکیے گئے خطاب کو محض ایک روایتی خطاب نہیں کہا جاسکتا ، کیونکہ اس موقعے پر انھوں نے معاشرے میں پائے جانے والی بے چینی پر اپنے تحفظات کا اظہارکیا اور میڈیا کوکنٹرو ل کرنے کی غرض سے لگائی گئی حکومتی قدغن پر گہری تشویش ظاہرکی۔

اسے جمہوری نظام کے بنیادی عنصر میں خلل قرار دیا پھر ان کا میڈیا کو معاشرے میں چیک اینڈ بیلنس میں اہم کردار قرار دینا اور حکومت کی جانب سے محدود سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنے کے عمل پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرنا متنوع معاشرے میں سماجی تناؤکو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے دیگرکئی امورکی جانب نشاندہی فرمانا معمول کا خطاب نہیں۔ انھوں نے بجا طور پر اپنے مدبرانہ خطاب میں ہمیں ایک جمہوری معاشرے کی لازمی ضرورتوں سے آگاہ کردیا ہے۔

اب یہ حکومت اوراپوزیشن سمیت معاشرے کے دیگر تمام طبقات کی ذمے داری ہے کہ وہ ان وضع کردہ اصولوں پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کو ایک حقیقی جمہوری ریاست بنائیں۔

چیف جسٹس کے خطاب پر ملک کی سیاسی جماعتوں اور اہل علم ودانش کے مابین ملک گیر سطح پر مکالمہ جاری ہی تھا اور انھوں نے جن امورکی جانب نشاندہی فرمائی تھی ابھی اس کا جائزہ ہی لیا جا رہا تھا کہ اچانک وفاقی حکومت نے کابینہ کی منظوری سے میڈیا ٹریبونلزکے قیام کا اعلان کر دیا۔ اس خبرکو حکومت کی جانب سے چیف جسٹس کے خطاب پر حکومتی رد عمل تصورکیا گیا اور حکومت کو ہدف تنقید بنایا کہ ملک میں آزاد میڈیا کو جمہوری معاشرے کے قیام میں بنیادی عنصر تصورکرتے ہوئے اس کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے لیکن حکومت اپنی غلطیوں کی نشاندہی کرنے والے ادارے کو ریاستی جبرکا نشانہ بنا کر اس کی آواز کو دبا دینا چاہتی ہے۔

حکومت کی جانب سے میڈیا ٹریبونلز کے قیام کے اعلان کو اپوزیشن سمیت سول سوسائٹی ، انسانی حقوق اور میڈیا کی تنظیموں نے مستردکرتے ہوئے اسے خلاف آئین اور آمرانہ فکرکی عکاس قرار دیا ہے۔

اس طرح حکومت جو پہلے ہی کئی حوالوں سے مسائل میں گھری ہوئی ہے جن میں خصوصا مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط کے حوالے سے خارجی محاذ پر بے پناہ مصروف ہے تو وہیں اس نے ملک کے اندر بھی کئی محاذ کھول رکھے ہیں جن میں اپوزیشن کے خلاف بقول اپوزیشن انتقامی کارروائیاں، شدید دباؤ اور روز بروزگرفتاریوں کی صورت میں اس میں اضافہ ، چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس قائم کرنے کا عندیہ دینا کہ جنھوں نے آئین کی منشاء کے برخلاف الیکشن کمیشن کے تقررکیے گئے، دو ارکان سے حلف لینے سے انکارکیا اور اب آخر میں میڈیا ٹریبیونلز کے قیام سے صحافی برادری کے خلاف محاذ آرائی۔

اس صورتحال میں ملک میں موجود جمہوریت پسند طبقہ فکر مند ہے کہ موجودہ حکومت آخر کیونکر جمہوری ریاست کے دیگر ستونوں اور آئینی اداروں سے پنجہ آزمائی میں مصروف ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں خواہ کسی بھی فریق کو کامیابی نصیب ہو جمہوریت پسند اسے اپنی ناکامی ہی سمجھتے ہیں یعنی جمہوری حکومت کو دھچکا پہنچے یا کسی دوسرے آئینی ادارے کو نقصان پہنچے، ہر دو صورتوں میں جمہوریت پسندوں کو خوشی ہرگز نہیں ہوگی، لہذا حکومت کو اس مرحلے پر دانشمندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اپوزیشن سمیت دیگر تمام آئینی اور ریاستی اداروں کے استحقاق کا احترام کرنا چاہیے۔

حکومت اپنی تمام تر توجہ ملک کے استحکام اور قوم کی خوشحالی پر مرکوز رکھے کیونکہ یہی اس کی بنیادی ذمے داری ہے ۔حکومت کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ معاشرے کے آزادی اظہار اور اختلاف رائے کے حق کا احترام کیے بغیر ہم مثبت روایات پر مبنی صحت مند اور متنوع معاشرے کا قیام نہیں کرسکیں گے۔ اس کے لیے ہمیں حقیقی جمہوری روایات کو فروغ دینا ہوگا جہاں مخالف نقطہ نظرکو تحمل ، برداشت اور رواداری کے ساتھ نہ صرف سننا ہو گا بلکہ مثبت تنقید سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی غلط پالیسیوں کی اصلاح بھی کرنا ہوگی۔

اسی طرح ہم اپنے ملک میں ایک حقیقی جمہوری معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوسکیں گے جو اپنے وسیع تر معنی میں عوام کی رائے پر عمل کرتے ہوئے اُن کی خدمت کا جدید ترین نظام حکومت ہے۔

The post صحت مند سیاسی کلچر کا فروغ appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 22701 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>