Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22715 articles
Browse latest View live

عمران خان کو ان سے نہیں ملنا چاہیے تھا؟

$
0
0

اِن سطور کی اشاعت تک وزیر اعظم جناب عمران خان امریکا کے سات روزہ دَورے سے واپس تشریف لاچکے ہوں گے۔ ایک ہفتہ امریکا میں قیام اور ملک سے غیر حاضر رہنے کے باوجود کم کم لوگوں نے اُن کے خلاف انگلی اُٹھائی ہے۔

سابق وزیر اعظم جناب نواز شریف اقوامِ متحدہ ہی کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کے لیے نیویارک میں چار دن ٹھہرے تھے تو پی ٹی آئی اور اُن کے ہمنواؤں نے شدید تنقید میں آسمان سر پر اُٹھا لیا تھا، یہ کہتے ہُوئے کہ غریب قوم کے خرچ پر نیویارک میں ’’اتنے دن‘‘ قیام کرنے کی قطعی ضرورت نہیں تھی۔

یہ نقص نگاری بے جا تھی اور اب کوئی اگر عمران خان کے نیویارک میں سات روزہ قیام کو بے معنی گردانتا ہے تو یہ بھی نامناسب ہو گا اور حقائق سے قطعی لا علم بھی۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ وزیر اعظم عمران خان نے 22 تا 28 ستمبر جتنے دن بھی نیویارک میں گزارے ہیں، ایک ایک دن اور ایک ایک لمحہ پاکستان کی خدمت اور کشمیر کاز کو اجاگر کرنے میں صَرف کیے ہیں۔

اگر اسے مبالغہ نہ سمجھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ان ساتوں ایام میں پاکستان اور مقبوضہ کشمیرکے بارے میں اُن کے قوی بیانات اور جاندار سرگرمیوں سے امریکی میڈیا گونجتا رہا ہے۔ خان صاحب نے اس دوران میں کونسل آن فارن ریلیشنز ایسے موثر ترین تھنک ٹینک سے خطاب کیا۔ یو این میں بیٹھے عالمی میڈیا سے وابستہ صحافیوں سے انٹر ایکشن کیا۔

ایشیا سوسائٹی کے دانشوروں سے مخاطب ہُوئے۔ نیویارک ٹائمز اور وال اسٹریٹ جرنل ایسے طاقتور ترین امریکی اخبارات کے ایڈیٹوریل بورڈ ممبرز سے براہِ راست مکالمہ کیا۔ امریکی شہ دماغوں سے ملاقاتوں کے دوران عمران خان کا موقف تین اہم نکات کی تبلیغ پر مشتمل پر رہا:(۱) پاکستان کی امن پسندی (۲) بھارتی زیادتیوں کی نقاب کشائی (۳) مظلوم و محصور کشمیریوں کے لیے عالمی رائے عامہ ہموار کرنا۔

27ستمبر کو انھوں نے جنرل اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر جن چار نکات ( ماحولیات، منی لانڈرنگ، اسلامو فوبیا، مقبوضہ کشمیر) پر معرکہ خیز خطاب کیا، اس نے تو ایک نئی تاریخ بھی رقم کی ہے اور پاکستانیوں و کشمیریوں سمیت عالمِ اسلام کو ایک نیا حوصلہ، اعتماد اور ولولہ تازہ دیا ہے۔

خان صاحب امریکا سے شادمان و کامران لَوٹے ہیں ۔ اُن کی سفارت کاری کے باوجود اگرچہ ابھی تک ظالم اور جفا جُو بھارت نے محصور کشمیریوں پر نافذ جان لیوا کرفیو نہیں ہٹایا ہے۔ ہم مگر اُمید رکھتے ہیں کہ انشاء اللہ جلد ہی کشمیریوں پر گزشتہ آٹھ ہفتوں سے تنی ظلم و زیادتی کی یہ چادر ہٹا دی جائے گی۔ عمران خان کے اس امریکی دَورے میں کئی بین الاقوامی شخصیات نے مختلف مقاصد کے تحت ملاقاتیں کی ہیں۔

ہر کام میں کیڑے نکالنے والے مگر کہہ رہے ہیں کہ خانصاحب کو تین شخصیات سے ملاقاتیں نہیں کرنی چاہئیں تھیں۔ ان میں سے پہلی شخصیت ’’مائیکرو سوفٹ ‘‘ کے حوالے سے دُنیا بھر میں پہچانی جانے والی ارب پتی امریکی شخصیت بل گیٹس کی ہے۔ بل گیٹس معرفِ عالم فلنتھروپسٹ بھی ہیں۔ پاکستان میں پولیو کے خاتمے میں وہ اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ گیٹس صاحب نے مگر دل آزاری یہ کی ہے کہ نیویارک میں عمران خان کی موجودگی کے دوران نریندر مودی ایسے ظالم شخص کو اپنے ادارے (گیٹس اینڈ میلنڈا فاؤنڈیشن) کا سب سے بڑا ایوار ڈ دے دیا۔ ایک جہان اس ایوارڈ کے دیے جانے پر بل گیٹس کی مخالفت کر رہا تھا کہ مودی نے کشمیریوں پر مظالم ڈھانے کی انتہا کر رکھی ہے۔

مودی کو ایوارڈ نہ دینے کے لیے امن کا نوبل انعام پانے والی تین معزز خواتین نے بل گیٹس کو مشترکہ خط بھی لکھا۔ بل گیٹس مگر نہ مانے اور ظالم مودی کو ایوارڈ دے ہی ڈالا۔ حیرانی کی بات ہے کہ اس کے بعد بل گیٹس، عمران خان سے ملنے گئے تو وہ بخوشی اُن سے ملے۔ اس ملاقات پر کئی لوگ معترض ہیں۔ بل گیٹس نے اگر مودی ایسے سفاک شخص کو ایوارڈ نہ دیا ہوتا تو خانصاحب کے ملنے پرکوئی اعتراض نہ کرتا۔ یہ تو سکّے کا ایک رُخ ہے۔ ممکن ہے بل گیٹس سے ملتے ہُوئے خانصاحب کو سکّے کا وہ رُخ دکھائی دیا ہو جو ہم ایسے کوتاہ نظروں سے اوجھل رہا۔ حکمرانوں کی نظریں بہرحال عوام الناس کی نظروں سے زیادہ دُور تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

دوسرے شخص ارب پتی جارج سوروس ہیں۔ یہ صاحب نیویارک میں عمران خان سے اپنے وفد کے ہمراہ ملے ہیں تو اس پر بھی بعض لوگ ابھی تک معترض بھی ہیں اور ناراض بھی۔ اصرار کے ساتھ کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کو اس شخص سے نہیں ملنا چاہیے تھا۔ جارج سوروس ایک این جی او ’’اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشنز‘‘ کے بانی اور چیئرمین ہیں ۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے بقول : دنیا بھر میں اپنے فلاحی کاموں کے لیے 32 ارب ڈالر عطیہ کرنے کے باوجود وہ اپنے ملک سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں ایک ناپسندیدہ شخص تصور کیے جاتے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق جارج سوروس نے عمران خان سے پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں تعاون فراہم کرنے کے علاوہ افغانستان میں اپنے تعلیمی منصوبوں پر بات کی۔ ریڈیو پاکستان کے مطابق، اوپن سوسائٹی فاونڈیشنز کے وفد نے ٹیکس اصلاحات میں بھی پاکستان کی مدد کرنے کی پیشکش کی ہے۔ اس ملاقات کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی کہ اوپن فاؤنڈیشنز کا ایک وفد بہت جلد پاکستان کا دورہ کرے گا۔ جارج سوروس 40 سال سے دنیا کے 120 ملکوں میں فلاحی کام کرنے والی تنظیم کے سربراہ ہیں۔

امریکا سے آسٹریلیا تک اور ہنگری سے ہونڈورس تک جارج سوروس ایک معروف شخصیت سمجھتے جاتے ہیں۔ صدر ٹرمپ بھی اُن کے مخالفین میں سے ایک ہیں۔ ذرایع کہتے ہیں: اس شخص کی عمران خان سے ملاقات اس لیے بھی مخالفت کی زَد میں ہے کہ جارج سوروس پاکستان کو تعلیم کے شعبے میں تعاون فراہم کرنا چاہتے ہیں۔

واشنگٹن میں بروئے کار مشہور کشمیری نژاد امریکی ڈاکٹر غلام نبی فائی بھی ہمارے وزیر اعظم صاحب سے ملے ہیں۔ وہ ایک بڑے کشمیری وفد کے ہمراہ عمران خان سے ملے تھے تاکہ امریکا میں مقیم ہزاروں کشمیریوں کے جذبات و احساسات سے خان صاحب کو آگاہ کر سکیں۔ مقبوضہ کشمیر کے لاتعداد باسیوں اور کشمیری حریت پسند قیادت سے بھی اُن کے گہرے تعلقات ہیں اور ڈاکٹر غلام نبی فائی امریکی دارالحکومت میں مجبور و مقہور کشمیریوں کی آواز ہیں۔

وہ تقریر و تحریر کے محاذ پر امریکا کے مختلف شہروں میں کشمیریوں کی خوب ترجمانی کر رہے ہیں۔ پاکستان بھی آتے جاتے رہتے ہیں۔ راقم بھی چند بار اُن سے اسلام آباد میں مل چکا ہے۔ اس نستعلیق اور فہمیدہ شخصیت نے خود کو کشمیر کاز اور کشمیر کی آزادی کے لیے وقف کر رکھا ہے۔

وہ ’’کشمیری امریکن کونسل‘‘ کے بانی اور سربراہ بھی ہیں۔ اس تنظیم کے پرچم تلے وہ مسئلہ کشمیر کے موضوع پر امریکا کے متعدد شہروں میں لاتعداد سیمینارز، کانفرنسز اور لیکچرز کا اہتمام کر چکے ہیں ۔ امریکا میں موجود بھارتیوں اور بھارتی لابی کی آنکھ میں وہ خارِ مغیلاں کی طرح کھٹکتے رہے ہیں؛ چنانچہ اِسی بھارت نواز امریکی لابی نے اُن کے خلاف منفی پروپیگنڈہ چلانے کی مہمات بھی شروع کر رکھی ہیں۔

اِسی پروپیگنڈہ کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ انھیں سات سال پہلے امریکیوں نے گرفتار کر کے دو سال کی سزا بھی دے ڈالی تھی۔ اس سزا سے بھارت کے کلیجے میں ٹھنڈ تو پڑ گئی تھی لیکن سچ یہ ہے کہ یہ گرفتاری اور سزا سراسر غلط تھی؛ چنانچہ فائی صاحب کو رہا کرنا پڑا۔ ڈاکٹرغلام نبی فائی کے خلاف بھارتیوں کا پروپیگنڈہ ابھی رُکا نہیں ہے؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ فائی صاحب، عمران خان سے ملے تو  واشنگٹن اور نیویارک میں موجود کشمیر دشمن بھارتی لابی نے سوشل میڈیا پر یہ ٹرینڈ چلانے کی ناکام کوشش کی کہ وزیر اعظم پاکستان کو ایک ’’سزا یافتہ‘‘ شخص سے نہیں ملنا چاہیے تھا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ جناب عمران خان نے فائی صاحب سے مل کر ایک اچھا اقدام کیا ہے۔ اس ملاقات سے دُنیا بھر میں بسنے والے کشمیریوں سے عمران خان اور پاکستان کی محبت بھی عیاں ہُوئی ہے۔

The post عمران خان کو ان سے نہیں ملنا چاہیے تھا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


ٹونی موریسن، ایک عظیم فکشن رائٹر

$
0
0

1988ء میں ہم چار صحافی گوادر میں تھے جب سیاہ فام افریقی امریکن ادیبہ ٹونی موریسن کو نوبیل انعام ملا تھا۔ ممتاز بلوچ ادیب اور دانشور منیر احمد بادینی ڈپٹی کمشنر تھے۔

انھوں نے ممتازجرنلسٹ نصرت جاوید سے موریسن کے فکشن اور سیاہ فام اقوام کے لیے لکھی گئی تحریروں پر دلچسپ گفتگو کی۔ ہمارے ساتھ سینئر صحافی علیم الدین پٹھان اور نواز رضا بھی موجود تھے۔ بادینی صاحب نے ٹونی موریسن کے امریکی معاشرے پر ان کے فکشن کے اثرات ، نسلی رجحانات ، تضادات اور ادبی معاملات کے علاوہ سیاہ فاموں کی غلامی سے متعلق خیالات اور فکری  جدوجہد کا جائزہ بھی لیا۔ ہم ان دنوں گوادر سمیت تربت ، جیونی، پسنی کے ہوائی اڈوں کی تحقیق کے مشن پر تھے۔

واقعہ یہ تھاکہ نواب اکبر بگٹی نے صحافیوں کے اس گروپ کو اس پیشکش کے ساتھ بلوچستان بھیجا کہ وہ جا کر اس بات کا جائزہ لیں اور قوم کو بتائیں کہاں ہوائی اڈوں کی تعمیر، امریکی جنگی مفادات کے تحت ہوئی ہے، اور آیا ان ہوائی اڈوں پر امریکی فوجی تعینات ہے، خیال کیا جاتا تھا کہ یہ جدید ترین ہوئی اڈے مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور مستقبل کے عسکری اور تزویراتی تناظر میں ملکی سلامتی کے لیے ناگزیر تھے اور ان پر کوئی امریکی فوجی موجود نہیں، یہ ہوئی اڈے قومی سلامتی کا اثاثہ ہیں۔

ٹونی موریس کے حوالے سے گفتگوگوادر میں دوپہر کے کھانے پر تھی اور رات کو کوسٹ گارڈز کے ریسٹ ہاؤسز میں گفتگو کے وقت نصرت جاوید نے بڑی دلنواز گفتگو کی، ان کا موضوع ٹی وی ڈراموں سے لے کر سیاست اور بلوچستان کے سیاستدانوں کے ادبی ذوق پر محیط تھا۔ نصرت جاوید گفتگو اور تحریر کے صورت گر ہیں، ان کے قریبی ساتھی کہتے ہیں کہ ان کی تحریرکی ڈرامائیت ان کی گفتگو سے بھی زیادہ دل کو لبھاتی ہے۔

لہذا اب گفتگو کا رخ ہم بیسویں صدی کی عظیم سیاہ فام ادیبہ مادام ٹونی موریسن کی طرف موڑتے ہیں جو 5 اگست کو چپکے سے جہاں فانی سے کوچ کر گئیں۔ صدر بارک اوباما نے  انھیں ایک قومی اثاثہ قرار دیا، اوباما کا کہنا تھا کہ آنجہانی ٹونی موریسن ایک عظیم داستاںگو story teller  تھیں۔ ان کی تحریریں ضمیر اور اخلاقی تصورات کو چیلنج کرتی ہیں، اسکاٹ لینڈ کی فرسٹ منسٹر نکولا سٹرجن نے کہا کہ دنیاکو ٹونی موریسن جیسی آوازیں چاہئیں۔

ٹونی موریسن کو نوبیل انعام دیتے ہوئے سویڈش اکیڈمی آف لیٹرز کی طرف سے ان الفاظ میں انھیں خراج تحسین پیش گیاگیا تھا کہ ’’ ٹونی موریسن اپنی ناولوں میں تخیلاتی قوتوں کو بروئے کار لاتی ہیں، ان کی نثر شاعرانہ ہے، وہ زندگی کے ایک لازمی حصے کے طور پر امریکی بدیہی حقیقت کی نقاب کشائی کرتی ہیں۔ موریسن کے بارے میں کہا گیا کہ اپنے بیانیے کی سچائی کے اظہار میں بے رحم ہیں۔

ان کا شمار بے مثل فکشن رائٹرز میں کیا جائے گا، موریسن نے فکشن کی زبان کو نئے طلسم اور سحر انگیزیوں سے آشنا کیا ، انھوں نے زبان کو آزادی کے رمز اور نعمت سے سرشارکیا، کالوں کو مستقبل کی نوید دلائی، اور ان کو یقین دلاتی رہیں کہ

رنگ لائے کا شہیدوں کا لہو

وہ شفق رنگ لہو

وہ لہو سرخی ہے آزادی کے افسانے کی

رائے دینے والوں کا کہنا تھا کہ موریسن کے narrative بیانیے اور مسمرائزڈ انداز تحریر نے بیسویں صدی کی ہماری ثقافت پر دائمی اثرات مرتب کیے، ان کے ناول ہم پر حکمرانی کریں گے ، ہمیںان کی ضرورت پڑے گی۔ اس خاتون نے اپنے لفظوں سے غلامی کی زنجیرکو توڑا ، زبان سے بے پایاں محبت کے استعارے ایجاد کیے۔

موریسن نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی معاصرانہ معاشرے میں نسل پرستی کے حساس موضوع پر دیگر معاملات کا نہایت گہرا ئی سے جائزہ لیا تھا۔ اسی طرح HAY  فیسٹیول میں اس نے رضیہ اقبال کو ٹی وی چینل کے لیے انٹریو دیا۔ موریسن کی گفتگو سے لوگ  اقوال زریں  چن لیتے تھے ، اس سیاہ فام ادیبہ کا دو ٹوک کہنا تھا کہ ’’ تم اڑ نہیں  سکتے۔ اس خیال کو دل سے نکال ہی دو جو تمہیں زمین پر گرا دیتا ہو۔‘‘ ایک بار وہ کہنے لگیں، ہم مر جاتے ہیں، یہی زندگی کی معنویت ہے، لیکن ہماری زبان ہمارا اثاثہ ہے، اسی سے ہم زندگی کے معیارکو ناپتے ہیں۔

نئی نسل کے لاتعداد رائٹرز، کالج اسٹوڈنٹس، نئے ادیبوں کی لکھی تحریروں کی ایڈٹ کرتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ اگرکوئی ایسی کتاب ہے جسے آپ پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ تو ابھی لکھی نہیں گئی پیارو ! تم ہی وہ پہلے آدمی ہو گے  جسے یہ کتاب لکھنی ہے۔ اس بات پر دو رائے نہیں تھی کہ موریسن امریکی کلچر پر اتھارٹی تھیں، اس نے بلیک کلچر پر بہت لکھا۔ اس کے لکھے ہوئے فقرے سحر زدہ کر دیتے تھے۔

موریسن کا کہنا تھا کہ اس نے خود کو کبھی سیاہ فام خاتون ادیبہ نہیں سمجھا۔ خود کو ہمیشہ وائٹ امریکن مرد سمجھا۔ پبلشر رابرٹ گوتب نے کہا کہ ٹونی موریسن گریٹ عورت تھیں یا عظیم رائٹر۔ میں مشکل میں ہوں کہ اس کی رحلت سے نقصان کا ذکرکیسے کروں۔ ایک اور پبلشنگ ادارہ کی سربراہ سونی مہتا  نے کہا کہ میرے ذہن میں ایسا ادیب نہیں آتا جس نے موریسن سے زیادہ زبان سے محبت کی ہو اور انسانیت کے بارے میں  جم کر لکھا ہو۔

موریسن نے فکشن کے انبار لگا دیے۔ اس کے جن ناولوں نے شہرت پائی ان کے نام یہ ہیں۔

The Bluest Eye-Sula-Song of Solomon-Tar-Baby-Beloved-Jazz-Paradise-Love-A Mercy- Home-God Help the Child

ٹونی موریسن  1967ء سے1983ء تک افریقی امریکی رائٹر کے طور پر رینڈم ہاؤس کی ایڈیٹر کے عہدہ پر فائز رہیں، پرنسٹن و دیگر مادر علمی میں یونیورسٹی میں پڑھاتی بھی رہیں۔ پروفیسر نولیوے روکس کے مطابق ان کے پہلے ناول ’’دی بلیوسٹ آئی‘‘ کی حیثیت سنگ میل ثابت ہوئی، یہ ناول ایک سیاہ فام لڑکی کی زندگی کے گرد گھومتا ہے، اس نے موریسن کی شہرت میں چار چاند لگا دیے۔ موریسن لکھی ہوئی کہانی کو کمال سے آگے بڑھاتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر وہ کار کو شاپنگ کے لیے جاتے ہوئے دکھاتیں تو اس کی بیانیے میں ہومر کی اوڈیسی کی جادوگری جاگ اٹھتی تھی۔

نقادوں کے مطابق ایسے ادیبوں کی تعداد انگلیوں  پر گنی جا سکتی ہے جن کو راتوں رات شہرت نصیب ہوئی، موریسن کہتی ہیں کہ ان کے ناولوںکو پبلشر چھاپنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوئے، چالیس سال کی عمر میں  بلیوسٹ آئی ان کا پہلا ناول تھا، لیکن ساٹھ سال کی ہوئیں تو ان کے مزید ناول مارکیٹ میں آئے، اس کے بعد موریسن کی تحریرکا جادو سر چڑھ کر بولا۔1912 ء میں سابق صدر بارک اوباما نے انھیں تمغہ آزادی سے نوازا۔ اوباما نے لکھاکہ ان کی تحریریں صرف خوبصورت ہی نہیں بامعنی بھی تھیں ۔ وہ بڑی داستان گو تھیں، ان کی کہانیاں قارئین کو تحیر میں ڈال دیتی تھیں جب کہ گفتگو اور تحریر دونوں ہی لاجواب و انمول ۔ صدر بل کلنٹن بھی ان کے پرستاروں میں تھے۔

موریسن آزادی اظہارکی مبلغ اور کثرت پسندی کی نقیب تھیں، عالمی سطح پر کثیر المشرب طرز معاشرت کی وکالت کرتی رہیں۔ وہ اپنے ماضی سے وابستہ بلیک معاشرے کو عریاں کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوئیں، جن انسانوں کو سماجی سطح پر نظروں سے گرا کر اور گمنام بنا کر رکھا گیا تھا ، موریسن کے قلم نے انھیں دنیا کے سامنے پیش کیا ایسے لوگوں کو وہ پوری طاقت سے جمہوری تجربہ کے قلب میں موجود بے آزاد انسان کہتی تھیں۔ اس نے سیاہ فاموں کی تاریخ پر سفاکی سے جو کچھ لکھا وہ پوئٹری، ٹریجیڈی ، محبت ، مہم جوئی اور پرانی شاندار گپ شپ بھی تھی، اس کا ذکر یا جھلک ان کے ناولوں ’’سولا‘‘ اور ’’جاز‘‘ کے سیاق و سباق میں اوہایو اور ہارلم میں بھی ملتی ہے۔

اس نے ابتدائی ایام امریکا میں اوہایو کے مقام پر غربت میں گزارے۔ بڑی جدوجہد کی۔ وہ ایک مزدور کی بیٹی تھی۔ جب ناول لکھے تو افریقہ ان کی کہانیوں میں امڈ آیا، وہ افریقن لٹریچر سے تخیل کشید کر کے غلاموں کے دکھ بیان کرتیں اور تخلیقی کام میںاس نے غلاموں کی واک داستانوں سے لے کر گبریل گارشیا مارکیز کی تخلیقات کے حسن کو اپنی چمتکاری سے ہم آہنگ کیا۔ اس نے  بیانیے کو کبھی محض تفریح کے طور پر نہیں لیا، اپنے ایک لیکچر میں اس نے بتایا کہ بیانیہ میرے نزدیک ایک اصول ہے جس سے ہم علم حاصل کرتے ہیں۔

Beloved موریسن کا وہ معرکہ آرا ناول ہے  جسے 1988ء میں پلٹزر پرائز ملا۔ دنیا کی بہترین ادبی  کتب میںاس کی موجودگی محسوس کی گئی۔ عالمی شہرت  یافتہ اینکر اوپرا ونفری  نے اس پر فلم بنائی۔ ونفری موریسن کی عقیدت مند تھیں، اس کے لیے موریسن ایک آئیڈیل تھیں۔

جیمز بالڈ ون نے موریسن کو حسین اور خیال انگیز خاتون قرار دیا۔ موریسن کے ناول ’’محبت‘‘ کو بڑی پذیرائی ملی، نقادوں نے موضوع پر اسے مکمل شے کہا مگر موریسن کا کہنا تھا کہ فنکارکے لیے کامیابی اس کی جانب سے قبولیت کی سند نہیں ہوتی، مطلب یہ کہ وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں تھیں ۔ موریسن نے اپنے عہد کی محترم اہل قلم خاتون مایا اینجلو کے بارے میں کہا کہ اینجلو کو خبر نہ ہوئی کہ ان سے مجھے کتنی مدد ملی۔ یہ بات انھوں نے 1998ء میں ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو میں بتائی جب وہ اپنی پہلی کتاب لکھ رہی تھیں، موریسن نے کہا کہ اس وقت مجھے پتہ چلا کی قیدی پرندے کیوں گاتے ہیں، وہ در حقیقت مایا اینجلو کے ناول ’’why the caged birds sing‘‘ کا ذکر کر رہی تھیں۔

ٹونی موریسن نے انگریزی فکشن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ وہ احساس تفاخر کے ساتھ کہتی تھیں کہ میں نظر نہ آنیوالی سیاہی سے لکھتی ہوں تاکہ اس کی بازیافت قارئین کریں۔ یہی کام انھوں نے اپنے ناول جنت Paradise میں کیا ، انھوں نے کرداروں کی رنگت کا ذکر تک نہیں کیا۔ کیا دیو قامت ’’اماں‘‘ ٹونی موریسن تھیں۔

The post ٹونی موریسن، ایک عظیم فکشن رائٹر appeared first on ایکسپریس اردو.

اشرافیائی سیاست

$
0
0

ہر چینل پر سیاسی جماعتوں کے ’’ قائدین‘‘ ہر روز مختلف پروگراموں کے مہمان ہوتے ہیں۔ ان تمام پروگراموں کا موضوع سیاست حاضرہ ہوتا ہے اور سیاست حاضرہ میں شرکا پروگرام عموماً اپنے مخالفین پر الزامات اور جوابی الزامات لگانے میں اپنا سارا وقت برباد کردیتے ہیں۔

الیکٹرانک میڈیا کی خوبی یہ ہے کہ وہ منٹوں میں ملک ہی نہیں، دنیا کے کونے کونے تک پہنچ جاتا ہے اور مہمانان گرامی کے  خیالات سارے ملک تک چلے جاتے ہیں۔ بے چارے عوام ان آراء اور خیالات سے اس قدر تنگ اور بے زار ہوتے ہیں کہ کارٹون پروگرام یا ڈرامے دیکھ کر وقت گزارتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس لا حاصل گفتگو سے عوام کو کیوں پریشان کیا جاتا ہے۔

سیاستدان ٹی وی کی بہت بڑی ضرورت بن گئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس درد سر سے عوام کو بچانے کا کوئی معقول طریقہ ہے؟ یقینا ہے چینل اپنا سارا وقت سیاستدانوں کو دے کر عوام کے ذہنوں کو مسموم کرنے کے بجائے ملک کے ان لوگوں کو جن میں دانشور ، مفکر ، ادیب ، شاعر اور عالم شامل ہیں ، ٹی وی چینلز کے مہمان کیوں نہیں بناتے اگر ٹی وی پر یہ حضرات آئیں گے تو کچھ کام کی باتیں کچھ سیکھنے سکھانے کی باتیں ہوسکتی ہیں۔

ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ عوام میں شعور پیدا کرنے کا ہے خاص طور پر سیاسی شعور اور طبقاتی شعور پیدا کرنا ضروری ہے اور یہ کام اہل سیاست ہرگز نہیں کرسکتے کیونکہ یہ کام ان کے طبقاتی مفادات کے خلاف ہوتا ہے ، یہ صورت حال قیام پاکستان کے ساتھ ہی پاکستانی عوام کا مقدر بنی ہوئی ہے۔

عوام میں اگر سیاسی اور طبقاتی شعور آگیا تو سیاستدانوں کی سیاست کیا بنے گا۔ عوام میں شعور کی بیداری سے روکنے کے لیے اشرافیہ طرح طرح کے جتن کر رہی ہے۔ اس حوالے سے احتساب کو ظلم کا نام دے کر عوام میں اشرافیہ اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے، دوسرا طریقہ یہ آزمایا جا رہا ہے کہ زبان اور قومیت کے نام پر عوام کو تقسیم کرکے ان کے شعورکو کند کیا جا رہا ہے۔

جب تک عوام میں سیاسی اور طبقاتی شعور پیدا نہ ہو ، عوام کا حال مٹی کے مادھوؤں کا سا رہتا ہے۔ اشرافیہ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ سیاسی اور طبقاتی شعور عوام کو اپنے طبقاتی دشمنوں کو پہچاننے میں بہت مدد دیتا ہے اس لیے اشرافیہ کی کوشش ہوتی ہے کہ مختلف حوالوں سے عوام کو تقسیم رکھے۔

ٹی وی ایک ایسا واحد میڈیا ہے جو منٹوں میں ملک کے کونے کونے تک پہنچ جاتا ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ میڈیا سیاستدانوں کے منہ سے نکلا ہوا زہر عوام تک پہنچا رہا ہے۔ ملک میں سیکڑوں دانشور ہیں، سیکڑوں مفکر ہیں، سیکڑوں ادیب ہیں ، سیکڑوں شاعر ہیں جو عوام میں بیداری پیدا کرکے انھیں طبقاتی استحصال کے خلاف مزاحمت کے لیے تیار کرسکتے ہیں لیکن حیرت  کی بات ہے کہ میڈیا ان حکما کو چینلوں کا مہمان بناکر ان کی دانشورانہ باتوں سے عوام کو مستفید کرنے سے گریزاں ہے۔  اشرافیہ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ میڈیا ان کے کنٹرول میں رہے ۔

ہمارے میڈیا کے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے عام ورکرز ہمیشہ عوامی مسائل کو ہائی لائٹ کرنے میں مصروف رہتے ہیں لیکن اشرافیہ عوام کو کنفیوژ کرکے ان کے طبقاتی شعور کو کند کرتے ہیں۔ پاکستان جیسے پسماندہ ترین ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں طبقاتی شعور ناپید ہے۔ عوام چونکہ سیاسی بازی گروں کے ہتھکنڈوں سے ناواقف ہوتے ہیں لہٰذا وہ آسانی سے ان کے ٹریپ میں آجاتے ہیں۔

اس حوالے سے ایک موٹی سی بات یہ ہے کہ جمہوریت خاندانی نہیں ہوتی اور ہمارے ملک میں جمہوریت کو خاندانی بنا دیا گیا ہے اور اشرافیہ کے شہزادوں اور شہزادیوں کو ہیرو بناکر عوام کو ان کا پرستار بنادیا گیا ہے۔ یہ کام اس ہوشیاری سے کیا جا رہا ہے کہ اشرافیہ کے شہزادے ، شہزادیاں اب ہیرو بن گئے ہیں۔

اس سازش کو صرف ملک کے نڈر اور صاف گو دانشور، مفکر، ادیب، شاعر ہی ناکام بناسکتے ہیں۔ یہ بات بڑی حیرت انگیز ہے کہ اشرافیہ کی نیچر کو اور طبقاتی جبلت کو جانتے ہوئے اینکرز سارا وقت ان  لوگوں کو دے رہا ہے اور عوام دوست افراد کا مکمل بائیکاٹ کردیا گیا ہے۔ یہ اشرافیہ کی ایک بہت بڑی اور سوچی سمجھی سازش ہے جس کا جب تک ازالہ نہیں کیا جاتا ، عوام سازشوں کے صحرا میں بھٹکتے رہیں گے۔

پاکستان کے عوام  دوست اور دشمن کو پہچاننے سے قاصر ہیں۔ ٹی وی کے ٹاک شو پر چھائے ہوئے اشرافیائی محترمین ٹاک شوز کے ذریعے عوام میں نفوذ کرنے اور اپنی ’’فنکارانہ‘‘ گفتگو کو عوام کے ذہنوں میں انڈیلنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جس کا جلد سے جلد ازالہ نہ کیا گیا تو عوام عشروں تک اشرافیائی سحر میں گرفتار رہ سکتے ہیں۔

ہمارے ملک میں بائیں بازو کی کچھ بے اثر سیاسی جماعتیں ہیں جو اپنا وقت غیر ضروری مکالموں میں گزار رہے ہیں اگر وہ  اشرافیہ کی سازشوں کو بے نقاب کریں تو یہ ایک مثبت کارکردگی ہوگی۔

میڈیا میں پرنٹ میڈیا کی ایک بہت بڑی اہمیت ہے، پرنٹ میڈیا میں ایسے تجزیہ کار موجود ہیں جو نہ صرف اشرافیہ کی سازشوں کو ناکام اور بے نقاب کرسکتے ہیں بلکہ انھیں طبقاتی استحصال کے طریقوں سے بھی آگاہ کرسکتے ہیں۔ ٹاک شوز کو پرنٹ میڈیا کی آزادی سے تعبیرکیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹاک شوز  عوام کو کنفیوژ کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک ٹاک شوز میں دانشوروں، مفکروں، ادیبوں، شاعروں کو نہیں لایا جاتا۔

The post اشرافیائی سیاست appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان عالمی پلیئر

$
0
0

برطانوی اخبار دی انڈی پینڈنٹ نے وزیر اعظم عمران خان کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران حکومت میں پاکستان عالمی پلیئر بن کر سامنے آیا ہے۔ لکھتا ہے کہ عمران خان کو ورثے میں ناساز حالات اور ابتر معیشت ملی۔ تنقید کے باوجود بحران میں عمران کامیاب نظر آتے ہیں۔

عمران خان نے کئی اقدامات کیے جن پر وہ تنقید کے بجائے تعریف کے مستحق ہیں۔ انھوں نے خود کو احتساب کے لیے پیش کر کے اعتماد جیتا۔ ابتر معیشت کے لیے سخت اقدامات اٹھانے پڑے، عالمی سطح پر جیو پولیٹیکل صورت حال پر بھی عمران نے بہترین کردار ادا کیا۔

یہ کردار پلوامہ حملے کے بعد بھی سامنے آیا جب بھارتی فضائیہ نے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تو پاک فضائیہ نے دو بھارتی طیارے مار گرائے۔ امریکا کی افغانستان میں جاری جنگ میں بھی عمران خان نے ثالثی کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ اخبار کے مطابق ماضی کی ڈرامہ بازیوں کی طرح اب پاکستان دنیامیں مذاق یا تماشا نہیں رہا۔ ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے عمران خان نے کئی اقدامات کیے بدعنوانی سے پاک سیاست کا وعدہ سیاسی سطح پر مقبول ہو گیا ہے۔ امریکا افغانستان اور امریکا ایران کے درمیان ثالثی کے لیے ان کا چناؤ ان پر اسی اعتماد کا اظہار ہے۔

امریکی صدر نے ملاقات کے دوران بھارتی وزیر اعظم کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ نریندر مودی اتنے مقبول ہیں جیسے امریکا کے معرف گلوکار اداکار ایلوس پر یسلے تھے۔ بھارتی میڈیا نے اپنی وزارت خارجہ کو مشورہ دیا ہے کہ کسی بھی ملک کے سربراہ کا موازنہ کسی ادکار یا گلو کار سے کرنا مناسب نہیں۔ گزشتہ اگست کی مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی صدر ٹرمپ نے نریندر مودی کے جواب نہ دینے پر کہا تھا کہ حقیقت میں ان کی انگریزی بہت اچھی ہے لیکن اس وقت وہ بات کرنا نہیں چاہتے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق صدر ٹرمپ کے اس طرح کے عمل کو کسی بھی طرح دوستی کا نام نہیں دیا جا سکتا کیونکہ دو ممالک کے تعلقات میں سربراہوں کی دوستی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بھارتی وزیر اعظم کی نسبت صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم عمران خان سے دونوں مرتبہ ہونے والی ملاقات میں نہایت مودبانہ طریقہ اپنایا اور اس مرتبہ تو انھیں اہم ترین سفارتی مشن بھی سونپا ہے جس پر خود ٹرمپ کی اپنی سیاسی زندگی کا بڑی حد تک انحصار ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ کشمیر انتہائی سنگین مسئلہ ہے۔ جس کے حل کے لیے مجھ سے جو ہو سکا وہ کروں گا۔ پاکستان اور انڈیا سے بات چیت کر چکا ہوں۔ دونوں ایٹمی ملک ہیں ان کے درمیان شدید محاذ آرائی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور نریندر مودی سے کہا ہے کہ دوستو اب مسئلہ کشمیر کو حل کرو۔ نیو یارک میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان اور نریندر مودی کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں بہت مثبت رہیں۔ ان میں نتیجہ خیز گفتگو ہوئی، ہم نے کشمیر پر بات کی اور پیشکش کی کہ وہ کشمیر پر ثالثی کے لیے تیار ہیں۔ عمران خان اور مودی دونوں نفیس آدمی اور میرے اچھے دوست ہیں۔ انھوں اختلافات ختم کرنے پر زور دیا۔ اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان معاملات انتہائی پیچیدہ ہیں، امید ہے کہ بہتر ہو جائیں گے۔

برطانیہ کی سابق حکمران جماعت لیبر پارٹی نے جس کے حالیہ سیاسی بحران کے نتیجے میں دوبارہ برسراقتدار آنے کے واضع امکانات ہیں نے عالمی مداخلت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریفرنڈم کرایا جائے۔ تفصیلات کے مطابق برطانوی لیبر پارٹی نے ایک قرارداد پاس کی ہے۔

جس میں کشمیر میں عالمی مداخلت اور اقوام متحدہ کی قیادت میں ریفرنڈم کی حمایت کا کہا گیا ہے۔ قرار داد میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور وہاں حالیہ اقدامات کی مذمت کی گئی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ لیبر پارٹی کو واضح اور پرزور طریقے سے کشمیریوں کی حق خود اداریت کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔ عالمی مبصرین بھیجے جانے کی صدا بلند کرنی چاہے اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو وہاں مداخلت کے لیے کہنا چاہیے۔

اسلامی تعاون تنظیم نے بھی اپنا چپ کا روزہ توڑ دیا ہے۔ ان کی طرف یہاں تک کہا گیا تھا کہ مسئلہ کشمیر او آئی سی کا مسئلہ نہیں۔ا س نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کی جائے اور وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے اسلامی تعاون تنظیم، اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کو پوری آزادی دے۔ یہ مطالبہ نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر او آئی سی کے رابطہ گروپ کے وزرائے خارجہ اجلاس کے اعلامیہ میں کیا گیا۔

میرے پیش نظر50 سے55 دن تھے، ان دنوں میں بہت کچھ ہوا۔ صورت حال ناامیدی سے امید کی طرف بڑھ رہی ہے لیکن ہمارے سادہ لوح دانشوروں کو اس کی سمجھ نہیں آ رہی کیونکہ وہ کسی ایجنڈے پر ہیں۔ لیکن عوام ان لوگوں کو اچھی طرح جانتے سمجھتے ہیں۔ خوش خبریاں آنی شروع ہو گئی ہیں۔ امریکا نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں عائد پابندیاں ختم کرتے ہوئے گرفتار سیاسی رہنماؤں اور تاجروں کو رہا کرے۔ پاکستان سے کشیدگی میں کمی کرے ۔ امریکی معاون نائب وزیر خارجہ کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم ’’پرامید‘‘ ہیں کہ کشمیر میں سیاسی رہنماؤں کی رہائی اور پابندیاں اٹھائے جانے پر تیزی سے کام ہو گا۔

(اور اس حوالے سے بند گلی سے نکلنے کا راستہ مودی کو بھارتی سپریم کورٹ فراہم کرے گی۔راقم) امریکا کو کشمیر میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور پابندیوں پر تحفظات ہیں۔ امریکا نائب وزیر خارجہ کے بقول امریکا چاہتا ہے کہ بھارت کشمیری مقامی سیاسی رہنماؤں سے رابطوں میں تیزی لائے اور وہاں انتخابات کے انعقاد کا وعدہ پورا کرے۔ بقول ایک دیانتدار نقاد کے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا بھارت کو کشمیر میں کرفیو ختم کرنے اور انسانی حقوق کا احترام کرنے پر زور دینا عمران خان کی آدھی فتح ہے۔

اب حالات بتدریج بہتری کی طرف جائیں گے۔ (یہ نہیں کہ سب کچھ ایک دم ٹھیک ہو جائے گا نہ کشمیر راتوں رات آزاد ہو گا ہمارے خوش فہم دانشوروں کے مطابق) خاص طور پر 7 اکتوبر کے بعد۔ اس حوالے سے اکتوبر کا آخر نومبر کا شروع نومبر کا آخر اور دسمبر کا شروع بہت اہم ہے۔

سیل فون:0346-4527997

The post پاکستان عالمی پلیئر appeared first on ایکسپریس اردو.

خسرو! دریا پریم کا اُلٹی واکی دھار

$
0
0

راہِ عشق کے مسافر ہرگز بے خبر نہیں ہوتے۔ ہر اَمر کو جانتے بوجھتے ہوئے بھولے بنے رہتے ہیں۔ خطرناک لوگ۔ حد درجہ قزاق۔ یہ تو لمحوں میں آپ کا سب کچھ چھین لیتے ہیں۔ آپ کے شعور اور لاشعور میں گھس کر عشقِ حقیقی کا الاؤ جلانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ آپ ہی کو اپنے سے بیگانہ کر دیتے ہیں۔

سلوک کے قافلے کے یہ لوگ بھیس بدل کر ہر طرف عام طریقے سے مصروف کار رہتے ہیں۔ صاحبِ نظر ایک دوسرے کو ضرور پہچانتے ہیں۔ مگر بھید نہیں بتاتے۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی بھی وجہ سے ان کی نگاہ کسی عامی پر پڑ جائے اور وہ بھی اس قافلے میں شریک ہو پائے۔ شائد سامان اُٹھانے والے قلی کی طرح یا ان لوگوں کے جوتے صاف کرنے کے لیے یا شائد کسی بھی وجہ کے بغیر۔ یہ صرف اور صرف عطا ہے۔ محنت سے کوئی بھی کچھ حاصل نہیں کرسکتا۔ ہاں، شائد محنت سے دنیا کے چند ٹکڑے ضرور مل جائیں۔ مگر جاودانی صرف اور صرف عشق کی راہ کے مسافر کے پاس ہے۔

مگر یہ سب کچھ ہے کیا۔ اسے بیان کرناناممکن ہے۔ مگر محسوس کرنا قدرے آسان۔ یا شائد بہت زیادہ مشکل۔ بہرحال درویش، صوفیاء، قطب، ولی ، اور ابدال ہر دور میں موجود رہے ہیں۔ کبھی ملامتی بہروپ میں اور کبھی دنیا کے سامنے عام سے انداز میں۔ مگر یہ لوگ کبھی بھی عام نہیں ہوتے۔ ان کی اپنی دنیا ہے۔

جو خالق کائنات کے قرب کی تلاش میں گزرتی ہے۔ یہ بادشاہ ہو کر بھی فقیر ہوتے ہیں اور اگر وقت کے فقیر ہوں تو بھی دراصل حاکم ہوتے ہیں۔ ابلیس ان سے حد درجہ دور رہتا ہے۔ شائد عشق کے دائرے کے اندر آنے کی جسارت ہی نہیں کر سکتا۔ حد درجہ مختلف دنیا ہے۔ عشق کی دنیا میں پانی کا رنگ اور ہے۔ دریاؤں کا رنگ اور۔ پیڑوں پر بہار اور ہے۔ وہاں کے پھول اور۔ کیا بات کی جائے۔ بلکہ کیوں کی جائے۔

امیر خسرو دل کھول کر جذب میں کمال لکھتے ہیں۔ لازوال درج کرتے ہیں۔

موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے

تُو تو صاحب! میرا محبوب الٰہی

موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے

ہماری چونریا۔۔۔ پیا کی پگڑیا

وہ تو دونوں بسنتی! رنگ دے

جو کچھ مانگے رنگ کی رنگائی

مورا جوبن گروی رکھ لے

آن پڑی دربار تمہارے

موری لاج شرم سب رکھ لے

موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے

جذب کے یہ مسافر ہر دور میں بھرپور انداز میں موجود رہے ہیں۔ لوگوں کو اپنے آپ سے دور رکھنے کے لیے منفرد سا بھیس رچا لیتے ہیں۔ کوئی پہچان نہ لے۔ شہرت سے حد درجہ دور  رہتے ہیں۔  یہ خدا کے وہ خاص لوگ ہیں جو  زندگی کی ہر سانس اس کی اطاعت میں گزار دیتے ہیں۔  عشقِ رسول ﷺ  میں گندھے، یہ عاشق ہر سانس صرف اور صرف جذب میں لیتے ہیں۔ ہر بے معنی چیز کو معنی دے سکتے ہیں اور ہر بامعنی کے بے معنی کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ اس کیفیت میں بابا بلھے شاہ ؒفرماتے ہیں۔

اِک نقطے وچ گل مکدی ہے

پھڑ نقطہ چھوڑ حساباں نوں

کر دور کفر دیاں باتاں نوں

چھڈ دوزخ گور عذاباں نوں

کر صاف دلے دیاں خواباں نوں

گل ایسے گھر وچ ڈھکدی ہے

اِک نقطے وچ گل مکدی ہے

سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیا ہے۔ کیوں ہے۔ کیا یہ واقعی حقیقت ہے۔ اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔ شائد سوال ہی غلط ہے۔ شعور کی چوکھٹ سے لاشعور کی طرف مسافت ہی اصل منزل ہے۔ یا اس قافلے کی کوئی منزل ہے ہی نہیں۔ اسے منزل کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ پھر ذہن میں گداز پیدا ہوتا ہے۔ اور نظر بے اختیار ہو کر امیر خسرو کی طرف اُٹھ جاتی ہے۔

شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلت چوں عمر کوتاہ

سکھی! پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

یکایک از دل و چشم جادو بصد مریہم ببر دتسکیں

کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیا رے! پی سے ہماری بتیاں

چوں شمع سوزاں، چوں ذرہ حیران ہمیشہ گریاں بہ عشق آں مہ

نہ نیند نیناں، نہ اَنگ چیناں، نہ آپ آویں، نہ بھجیں پتیاں

کمال ہے صاحب کمال ہے۔ نظام الدین اولیاء کی درگاہ جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک لمبی قطار موجود تھی۔ فاتحہ خوانی کے لیے وقت ملنا مشکل تھا۔ ساتھ والے کمرے میں امیر خسرو مٹی کی چادر تانے سو رہے تھے۔ جب خدا کے حکم سے نظام الدین اولیاء کی سانس کی ڈوری بند ہونے لگی تو کہا کہ امیر خسرو کو مت بتانا کہ میں دنیا سے چلا گیا ہوں۔

خسرو، دہلی سے باہر گئے ہوئے تھے۔ چند روز بعد واپس آئے تو مرشد کی طرف تشریف لے گئے۔ جیسے ہی درگاہ میں داخل ہوئے تو آواز آئی کہ نظام الدین تو چل بسے۔ حکایت ہے کہ یہ جملہ سنکر امیر خسرو زمین پر گر گئے۔ حالت جذب میں چلے گئے اور وہیں دم توڑ دیا۔ مرشد کی جدائی کیا ہوتی ہے، اس کا جواب شائد امیر خسرو ہی دے سکتے ہیں۔ مگر یہ تمام منزلیں ہر گز ہرگز آسان نہیں ہیں۔ یہ معمولی سے کام، ہر گز ہرگز معمولی نہیں ہیں۔

ان کا ادراک بہت کم لوگوں کو ہے۔ یا شائد ادراک کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ جذب، خود بخود ادراک کو مبہم کر دیتا ہے۔ عشق کا دروازہ روح کی چابی سے کھلتا ہے۔ اکثر لوگ تو دروازے کے باہر ہی بیٹھے بیٹھے زندگی گزار دیتے ہیں۔ اندر کیا رعنائی ہے۔ انکو معلوم ہی نہیں پڑتا۔

کیہ آکڑ آکڑ چلنا

کھائے خوراکاں تے پہن پوشاکاں، کیہ جم دا بکرا پلنا

ساڈھے تن ہتھ، ملک تساڈا، کیوں جوہ پرائی ملنا

کہے حسین فقیر سائیں دا نت خاک وچ رُلنا

(شاہ حسین)

سلوک کی منزلوں کے یہ راہی بہت عجیب سے ہوتے ہیں۔ مخفی سے۔ نظر ملا کر بھی معلوم نہ ہونے والے۔ یہ رزق خاک تو ہو جاتے ہیں۔ مگر خاک بھی انکاکچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ ان کی سوچ اور محبت، خاک کے پیمانہ سے بھی برابر باہر کی طرف دوام رہتی ہے۔ بھگت کبیر بھی اس راہ کا مسافرتھا۔ عشق کی بارش میں لبریر! کہتا ہے۔

مری تھم تھم جاوے سانس پیا

مری آنکھ کو ساون راس پیا

تجھے سن سن دل میں ہوک اُٹھے

ترا لہجہ بہت اُداس پیا

ترے پیرکی خاک بنا ڈالوں

میرے تن پر جتنا ماس پیا

تو ظاہر بھی، تو باطن بھی

تیرا ہر جانب احساس پیا

تیری نگری کتنی دور سجن

میری جندڑی بہت اُداس پیا

میں چاکر تیری ازلوں سے

تو افضل، خاص الخاص پیا

مجھے سارے درد قبول سجن

مجھے تیری ہستی راس پیا

(بھگت کبیر)

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ بھی سمجھ نہ آئے تو بہتر ہے۔ سمجھنے کی ضرورت تو اس وقت درکار ہوتی ہے جب کوئی اُلجھن ہو، یقین نہ ہو۔ پر نکتہ تو یہ ہے کہ عشق اپنی اُلجھن خود پیدا کرتا ہے۔ اپنے آپکو یقین کے سانچہ میں خود ڈھالتا ہے۔ کوئی عشقِ حقیقی کی آنکھ کے اشارے سے لبریز ہو جاتا ہے اور کوئی اسی رمز سے مکمل طور پر خالی۔ یہ برتن کی قسمت ہے کہ اسے خالی چھوڑ دیا جاتا ہے یا اسے بھر دیا جاتا ہے۔معلوم نہیں اصل رمز کیا ہے۔ امیر خسرو توکہتے ہیں۔

گوری سووے سیج پر مکھ پر ڈالے کھیس

چل خسرو گھر اپنے، سانجھ بھئی چودیس

خسرو! دریا پریم کا اُلٹی وا کی دھار

جو اُترا سو ڈوب گیا، جو ڈوبا اس پار

راہِ عشق کیا ہے۔ قافلہ کون سا ہے۔ منزل کیا ہے۔ فاصلہ کتنا ہے۔کتنا راستہ کٹ گیا۔ میرے خدا، یہ سب کیا ہے۔ یہ سب کیا ہے!

The post خسرو! دریا پریم کا اُلٹی واکی دھار appeared first on ایکسپریس اردو.

ایران، سعودی عرب اور امریکا مصالحت وقت کا تقاضا

$
0
0

مشرق وسطیٰ میں عالمی طاقتوں کے مابین صورتحال میں موجود کشیدگی کے خاتمے کے لیے کثیر جہتی اقدامات کی ضرورت ہے، جس میں ایران و امریکا کے مابین موثر اور متحرک سفارت کاری کاکردار اہم ہوگا۔

اس بات کا اشارہ سیاسی مبصرین نے گزشتہ دنوں ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کی جانب سے اقوام متحدہ کے اجلاس کے سائیڈ لائن پر دیے گئے انٹرویو کے تناظر میں دیا ہے جس میں جواد ظریف نے کہا ہے کہ ایران کا امریکی صدارتی انتخابات پر اثرانداز یا ان میں مداخلت کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔جواد ظریف نے یہ بھی کہا کہ تہران حکومت امریکی صدارتی الیکشن میں کسی بھی امیدوار کو ترجیح دینے کا ارادہ نہیں رکھتی۔

دریں اثنا امریکی ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ نے امریکا پر الزام عائد کیا کہ وہ ایران کے خلاف سائبر جنگ شروع کیے ہوئے ہے۔ اس انٹرویو میں جواد ظریف نے واضح طور پر کہا کہ جو بھی جنگ امریکا شروع کرے گا، اس کو ختم کرنا اس کے بس میں نہیں ہو گا ۔

یہ حقیقت ہے کہ ایران سے جوہری معاہدے کے خاتمے کے عجلت آمیز اقدام کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کے پاس آپشنز کا فقدان ہے اور اس  نے ایران پر جتنی پابندیاں عائد کی ہیں اس سے دونوں ملکوں میں تناؤ کا گراف بڑھتا جارہا ہے، سفارت کاروں کا خیال تھا کہ امریکی انتظامیہ میں جان بولٹن کی رخصتی کے بعد ٹرمپ اور ایران میں سفارتی گرم جوشی کا نیا باب شروع ہوگا کیونکہ بولٹن ایران کے ایٹمی پروگرام کے خاتمے کے  بانی فیصلہ سازوں میں شمار ہوتے تھے اور خطرہ تھا کہ سعودی عرب سے کشیدگی اور ایران جوہری معاہدہ پر ہونے والی بات چیت کہیں ایک نئی جنگ کا نکتہ آغاز نہ بن جائے۔

ادھر اخباری اطلاعات سے یہی محسوس ہورہا تھا کہ امریکا جنگ کی تیاری کررہا ہے تاہم جب صدر ٹرمپ کی طرف سے سعودی عرب  میں آل ریفائنریز پر حملے کی خبروں پر معنی خیز بیان آنے شروع ہوئے تو ایرانی میڈیا نے اندازہ  لگایا کہ جنگ ناگزیر نہیں جب کہ ایران نے خطے میں جنگ  سے گریز اور امریکا سے صورتحال کے گہرے ادراک کا مطالبہ کیا تھا،اسی دوراں صدر ٹرمپ کا بیان آیا کہ امریکا ایران سے جنگ نہیں چاہتا، بلکہ انھوں نے کہا کہ ایران نے ہم پر حملہ نہیں کیا ہے اور ہمارے لیے سعودی عرب کا تحفظ ضروری بھی نہیں۔

یہ انتباہی اشارہ تھا جس کا خطے کے اہم کرداروں نے نوٹس بھی لیا۔ اس اعتبار سے صائب اسٹریٹجی یہی ہے کہ ایران، یمن اور سعودی عرب  حکام مشرق وسطیٰ اور گلف کی سیاسی، عسکری ،معاشی اور تزویراتی معاملات کا ٹھنڈے دل ودماغ سے جائزہ لیں، گلف ریاستوں کو بھی ان مذاکرات میں شریک ہونا چاہیے تاکہ ایران اور امریکا میں بڑھتا ہوا تناؤ کسی پرامن منطقی انجام تک پہنچے اور بات چیت سے تنازعات کا کوئی مستقل حل تلاش کیاجائے۔ ایران نے غالباً اسی سیاسی پیش رفت کے تحت برطانیہ کے پرچم بردار ٹینکر کو 10  ہفتے تک زیرحراست رکھنے کے بعد اتوار کو رہاکردیا جو اب دبئی کی ایک برتھ پر لنگرانداز ہوچکا ہے۔

عالمی برادری کے لیے پیداشدہ صورتحال کثیر جہتی اقدامات اور غیر معمولی سفارت کاری کی متقاضی ہے۔ ضرورت اس بات کی کہ مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کے ڈیپ واٹر سمیت عمومی سیاسی دیتانت کے لیے ایک ہمہ جہتی روڈ میپ کا اعلان کیا جائے۔ایسا کرنا وقت کا تقاضا ہے۔

The post ایران، سعودی عرب اور امریکا مصالحت وقت کا تقاضا appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان ہر حال میں کشمیریوں کے ساتھ ہے

$
0
0

وزیراعظم عمران خان نے اتوارکواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے ولولہ انگیزاور پراثر تاریخی خطاب کے بعد وطن واپس لوٹنے پر نیواسلام آباد ایئرپورٹ پراستقبال کے لیے آنے والے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ نریندر مودی کی فاشسٹ اورمسلمانوں سے نفرت کرنے والی حکومت کو دنیا کے ہر پلیٹ فارم پر بے نقاب کریں گے، برے وقت میں پاکستانیوں کوگھبرانا یا مایوس نہیں ہونا، کشمیر کے لوگ پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں، دنیا ان کے ساتھ کھڑی ہو نہ ہو پاکستان ان کے ساتھ کھڑا رہے گا، جب تک ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں وہ اپنی جدوجہد میں ضرورکامیاب ہوں گے اورکشمیرکو آزادی ملے گی۔

وہ اپنی قوم کے شکرگزار ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ میں کشمیریوں کا کیس بھرپور انداز میں پیش کرنے کے لیے کامیابی کی دعائیں کیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کے اوپر جو ظلم ہو رہا ہے، اس لیے ہم ان کے ساتھ اللہ کی خوشنودی اور رضاکے لیے کھڑے ہیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ 80 لاکھ کشمیریوںکو ہندوستان کی فوجوں نے کرفیو میں بند کرکے رکھا ہے۔ ادھر نکیال سکیٹر پر بھارتی فوج کی بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری سے 2 شہری شہید جب کہ 2 خواتین سمیت3 زخمی ہو گئے۔

اتوار کوبھارتی فوج نے سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک بار پھر لائن آف کنٹرول کے سرحدی علاقوں اندرلہ ناڑ، اندروٹھ، پلڈا، اولی، جیر مرگ، موہڑہ دھروتی، بالاکوٹ، موہڑہ گھمب، دریڑی،دوٹھلہ اور دہری کی سول آبادی پر بلااشتعال فائرنگ و گولہ باری کی، بھارتی فوج کی اشتعال انگیزی پر پاک فوج نے بھرپور جوابی کارروائی کی، دونوں اطراف سے شدید گولہ باری کے بعد شام کے وقت یہ سلسلہ بند ہو گیا۔

وزیراعظم عمران خان کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے بعد پاک بھارت ماحول میں بیانات کی حد تک کافی گرما گرمی آ گئی ہے‘ پاکستان بھرپور انداز میں مسئلہ کشمیر اور بھارتی جارحیت کو عالمی سطح پر اجاگر کرکے اور اقوام متحدہ سمیت عالمی دنیا کو یہ احساس دلا رہا ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اس مسئلے کو حل کرائے ورنہ ان کی بے حسی‘ غفلت اور لاپروائی کی سزا نہ صرف پورے جنوبی ایشیا کے عوام کو ملے گی بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کے گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

اقوام متحدہ میں پاکستانی سفارتکارذوالقرنین چھینہ نے جواب دینے کا حق استعمال کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا اصل ظالمانہ چہرہ عالمی برادری کے سامنے بے نقاب کیا ہے۔بھارت گزشتہ 30 سال سے مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے، بھارتی حکومت آر ایس ایس کا ایجنڈا آگے بڑھا رہی ہے، مہاتما گاندھی کے قاتل مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے سیکولر چہرے کو مسخ کررہے ہیں۔ ذوالقرنین چھینہ نے کہا کہ پاکستان نے بھارت کے جاسوس کلبھوشن یادیو کو گرفتارکیا جس نے ملک میں دہشت گردی کے متعدد واقعات میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔

بھارتی وزیراعظم نے ریاستی دہشتگردی کو چھپایا، مودی حکومت سیکولر بھارت کے نظریئے کا قتل کررہی ہے، آر ایس ایس کو تین بار بھارت میں پابندی کا شکار ہونا پڑا، بھارت مقبوضہ کشمیرکا ذکر تک کرنے سے کترا رہا ہے، کیا بھارت کے پاس اتنا حوصلہ ہے کہ وہ عالمی مبصرین کومقبوضہ کشمیر میں سب دکھا سکے؟ کشمیریوں کوبولنے کی اجازت دینے سے بھارت کیوں گھبرا رہا ہے؟ بھارت میں ہندو انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے رہنما کرشن گوپال نے وزیراعظم عمران خان کی تقریر پر ردعمل میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہاں ہم دہشت گرد ہیں‘ مودی‘ بھارت اور آر ایس ایس ایک ہی ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کی اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں تقریر نے پوری دنیا کی توجہ مسئلہ کشمیر کی جانب مبذول اور بھارتی مظالم کا پردہ فاش کر دیا ہے اور یہ ایک ہاٹ ایشو بن کر سامنے آیا ہے، اسی کا ماحصل ہے کہ پہلی بار امریکی کانگریس کے 14ارکان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ‘ ان ارکان نے وادی میں مواصلاتی پابندیاں اٹھانے اور صورت حال میں بہتری لانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

عالمی سطح پر کشمیر کا مسئلہ اجاگر ہونے کے باوجود بھارت اپنی جارحانہ روش سے باز نہیں آ رہا، ایک طرف اس نے پاکستان کی سرحدوں پر بلا اشتعال گولہ باری اور فائرنگ کا سلسلہ تیز کر دیا تو دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں 57روز سے جاری کرفیو کو نرم کرنے کے بجائے مزید سختیاں اور ظلم و ستم کا بازار گرم کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی قوتیں فوری طور پر مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے خاتمے کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالیں اور اُسے اِس سلگتے ہوئے مسئلے کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے مجبور کریں۔

The post پاکستان ہر حال میں کشمیریوں کے ساتھ ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

زمینوں کی بڑی کرپشن

$
0
0

کراچی کی زمین کو ملک بھر میں سب سے مہنگی اور سونا تسلیم کی جاتی ہے اور یہ سو فیصد حقیقت بھی ہے۔

کراچی میں سرکاری زمینوں کی بندربانٹ پیپلزپارٹی کے پہلے دور حکومت میں شروع ہوئی تھی ، جام صادق علی سندھ کے وزیر بلدیات و ہاؤسنگ تھے اور وہ زمینوں کے معاملے میں اتنے مخیر تھے کہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو انھیں کہنا پڑا تھا کہ جام صاحب قائد اعظم کا مزار بھی فروخت مت کر دینا۔ 48 سال قبل جب ملک اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تھی ،اس وقت جام صادق علی نے کراچی کی سونے جیسی قیمتی زمینوں کی بندر بانٹ کی ابتدا کی تھی۔

اس کی انتہا بھی پیپلز پارٹی ہی کے دور میں ہوئی مگر انتہا میں صرف پیپلز پارٹی ہی شامل نہیں رہی بلکہ ایم کیو ایم اپنے مختلف ادوار میں خاص کر جب مشرف دور میں وزارت بلدیات اور ہاؤسنگ ایم کیو ایم کے پاس تھی وہ زمینوں کی بندر بانٹ میں پیپلز پارٹی سے بھی آگے نکل گئی تھی اور مشہور چائنا کٹنگ کا بڑا زرعی اسکینڈل بھی سامنے آیا تھا جس میں مبینہ طور پر سابق سٹی ناظم ، ایم کیو ایم کے سابق رہنما انیس قائم خانی اور متحدہ کے متعدد رہنماؤں کے نام بھی شامل تھے اور ان سمیت متعدد رہنماؤں پر زمینوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ کے مقدمات بھی زیر سماعت ہیں۔

کراچی میں سرکاری زمین جب شہری علاقوں میں باقی نہیں رہی تو پیپلز پارٹی کے وزرائے بلدیات نے کراچی کے نواحی علاقوں میں گوٹھوں کے گوٹھ فروخت کرنا شروع کیے کیونکہ کراچی کے نواحی علاقوں میں سندھیوں کی پرانی آبادیاں قائم تھیں جو پیپلز پارٹی کا پکا ووٹ بینک تھا۔ نواحی علاقوں میں کچی آبادیوں کو بڑے پیمانے پر پی پی رہنماؤں نے ریگولرائزکرایا جس سے اورکراچی کے باہر پھیلنے کی وجہ سے نواحی علاقوں میں رہائشی اور صنعتی زمینوں کی ویلیو بڑھتی چلی گئی۔

سپر ہائی وے پر متعدد صنعتوں کے قیام اور سپر ہائی وے کے دونوں اطراف بڑے لوگوں کے فارم ہاؤسز اور تفریحی واٹر پارکوں نے نواحی علاقوں کی زمینوں کو بھی سونا بنا دیا تھا۔ کراچی کے نواحی علاقوں میں زرعی اراضی ختم ہوتی گئی، سپر ہائی وے کے دونوں اطراف ہوٹلوں اور پٹرول پمپس کی بھرمار ہوتی گئی۔

ناردرن بائی پاس نے تو نواحی علاقوں کو شہروں میں تبدیل کردیا۔ کراچی میں سرکاری ترقیاتی اداروں کے پاس نئے رہائشی منصوبوں کی جگہ ہی باقی نہیں رہی تھی۔ کے ڈی اے کے آخری رہائشی منصوبوں سرجانی ٹاؤن، خدا کی بستی اور شاہ لطیف ٹاؤن کے بعد دو عشروں تک کوئی رہائشی منصوبہ سرکاری طور پر نہیں بنایا گیا۔ لیاری ندی کے دونوں طرف سے آباد لوگوں کو پچاس ہزار روپے اور متبادل طور پر 80 گز کے پلاٹوں کی تیسر ٹاؤن، بلدیہ اور ہاکس بے میں منتقلی سے بھی ان علاقوں کی اہمیت بڑھی۔

لیاری ندی جو اندرون شہر کے مختلف علاقوں سے گزرتی ہے وہاں دونوں اطراف ٹریفک کے مسائل حل کرانے کے لیے لیاری ایکسپریس وے بنانے کے منصوبے میں سب سے زیادہ کرپشن ہوئی۔ لیاری ندی کے کنارے جن کے پلاٹ نہیں تھے اور جو لوگ رہائش پذیر تھے ان سے سٹی حکومت میں لینڈ ڈپارٹمنٹ والے رشوت لے کر کروڑوں پتی بن گئے۔

جنھیں منہ مانگی رشوت دے کر چھوٹے گھر میں دو دروازے لگوا کر، بھینسوں کے باڑے والوں اور قبضہ مافیا نے حکومت سے پچاس پچاس ہزار روپے اور متبادل پلاٹ اپنی مرضی کی تعداد میں حاصل کیے اور حکومت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔ حکومت نے لیاری ایکسپریس وے تو بنا لیا مگر اس سلسلے میں کرپشن کا بھی نیا ریکارڈ بنا اور سرکاری اور غیر سرکاری لوگ بڑے پیمانے پر فیض یاب ہوئے۔

کراچی میں پہلے کے ڈی اے تھی جو بعد میں ایم ڈی اے اور ایل ڈی اے تین ترقیاتی ادارے تو بن گئے مگر ان تینوں اداروں کے کرپٹ افسروں اور اہلکاروں نے جو مال بنایا وہ کسی تحقیقاتی ادارے کو نظر نہیں آیا۔ ان کے حد سے بڑھے ہوئے اثاثوں کی اداروں کو تحقیقات کا موقعہ نہیں ملا۔ کراچی کی سرکاری زمینوں پر قبضے کرانے میں نواحی علاقوں کے پولیس تھانوں، پولیس افسروں اور سپاہیوں تک نے اہم کردار ادا کیا۔

نواحی علاقوں کے تھانوں گڈاپ، بن قاسم، شاہ لطیف ٹاؤن، ملیر، کیماڑی، گلزار ہجری، اجمیر نگری، سرجانی، ابراہیم حیدری، منگھو پیر، بلدیہ، کورنگی و دیگر میں سرکاری زمینوں پر نہ صرف پولیس رشوت لے کر قبضے کراتی تھی بلکہ گھروں کی تعمیر بھی پولیس کو رشوت دیے بغیر ممکن نہیں ہوتی تھی۔ حال ہی میں منگھوپیر تھانہ کے ایس ایچ او کی خبر میڈیا میں آئی ہے جس نے مبینہ طور پر زمینوں پر قبضے کے لیے 15 لاکھ رشوت دینے پر اپنے ہی اے ایس آئی کو گرفتار کرایا ہے۔ گرفتار پولیس افسر کے خلاف ایس ایچ او نے اپنی ہی مدعیت میں ایف آئی آر درج کرائی ہے کہ اس نے علاقے کے ایک قبضہ مافیا کے لیے دیہہ چاکرو میں زمین پر قبضہ کرانے کے لیے 15 لاکھ روپے رشوت دینے کی کوشش کی تھی۔ مذکورہ سرکاری زمین کے تین دعوے دار تھے۔

اینٹی کرپشن پولیس نے گلستان جوہر میں 6 سے 7 ارب کی سرکاری زمین کی چائنا کٹنگ کرکے فروخت کرنے کے الزام میں خلد آباد پولیس چوکی کے انچارج سمیت تین ملزموں کو گرفتار کرلیا ہے۔ اینٹی کرپشن ایسٹ زون نے بھی سرکاری زمینوں کی فروخت میں انتہائی مطلوب ملزم احسان نقوی کو گرفتار کیا ہے جب کہ ملزم کا ایک ساتھی سب رجسٹرار گڈاپ پہلے ہی گرفتار ہے ملزم کے خلاف پولیس اور ایف آئی اے میں تین مقدمات درج تھے۔

زمینوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ میں ریونیو افسران اور پولیس تو ملوث ہے ہی مگر کراچی کے دو اضلاع ملیر اور شرقی کے دو ڈپٹی کمشنر قاضی جان محمد اور شوکت جوکھیو بھی گرفتار ہوچکے ہیں۔ کراچی میں لینڈ مافیا نے سرکاری افسروں اور پولیس کے ذریعے اربوں کھربوں روپے کی سرکاری زمینیں غیر قانونی طور پر فروخت کرائیں جس میں متعدد ارکان اسمبلی بھی ملوث ہیں اور لینڈ مافیا انتہائی بااثر و طاقتور ہے۔

The post زمینوں کی بڑی کرپشن appeared first on ایکسپریس اردو.


زیرحراست ہلاکتوں کا معاملہ

$
0
0

پنجاب میں پولیس حراست میں ملزمان کی ہلاکت کے واقعات پر آج کل بہت شور ہے۔پنجاب کے دیہی علاقوں میں ایسے واقعات پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ دیہی او ر جاگیردارنہ کلچر کی وجہ سے ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ لیکن میرے لیے زیادہ پریشانی کی بات لاہور جیسے اربن اور بڑے شہر میں ایسے واقعات کا ہونا ہے۔

لاہور میں گزشتہ ایک ماہ میں پولیس حراست میں ہلاکت کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔ جب کہ پنجاب میں عمومی طور پر یہ چھٹا واقعہ ہے۔ اعدادو شمار کے تناظر میں دیکھا جائے تو پورا پنجاب ایک طرف جب کہ لاہور ایک طرف۔

یہ درست ہے کہ حکومت نے اب پولیس حراست میں ملزمان کی ہلاکت پر عدم برادشت کی پالیسی بنائی ہے۔ متعلقہ پولیس اہلکاران کے خلاف قتل کی دفعات کے تحت پرچے درج کیے جا رہے ہیں۔ انھیں نوکری سے نکالا جا رہا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ واقعات ختم نہیں ہو رہے۔ شاید جن عہدیداران کے خلاف پرچے درج کیے جا رہے ہیں وہ بہت جونیئر ہیں۔ اور پولیس میں جونیئر کی قربانی کی ایک رسم موجود ہے۔

جونیئر اپنے سنیئر افسران کے لیے ڈسپلن کی خاطرقربانی دیتے آئے ہیں۔اور ایسا لگ رہا ہے کہ آج بھی یہی جونیئر افسران اپنے سنیئر کے لیے قربانی دے رہے ہیں۔ اب گزشتہ روز لاہور کے علاقہ نواب ٹاؤن میں ہونے والے واقعہ کو ہی دیکھ لیں۔ تفصیلات کے مطابق لاہور میں نواب ٹاؤن کے علاقے میں پولیس کی ٹیم نے ایک گھر میں ریڈ کیا ہے۔

اس ریڈ میں ایک نوجوان اشفاق کی موت واقعہ ہو گئی ہے۔ اشفاق کے والد کے مطابق پولیس کی ریڈنگ پارٹی نے اشفاق کو ریڈ کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس کے سر پر بندوق کے بٹ مارے گئے۔ جس سے وہ شدید زخمی ہو گیا۔ اور اس کی موت ہو گئی۔ جب کہ دوسری طرف پولیس کا موقف ہے کہ ریڈ کے دوران اشفاق نے بھاگنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے اس کے سر پر چوٹ آئی اور بعد ازاں دل کا دورہ پڑنے سے وہ جاں بحق ہو گیا ہے۔ پولیس کا موقف ہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے سچ سامنے آجائے گا۔

ایک طرف لاہور پولیس اپنے پیٹی بھائیوں کا کھل کر دفاع کر رہی ہے دوسری طرف عوامی غصہ کم کرنے کے لیے متعلقہ پولیس افسران کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہے۔ حیرانی کی بات ہے، لاہور پولیس افسران کا موقف ہے کہ ریڈ کے لیے متعلقہ ایس ایچ او سے اجازت بھی نہیں لی گئی تھی۔

اور ایک اے ایس آئی چند پولیس کانسٹیبلز کے ساتھ ایک گھر میں گھس گیا اور اس نے بندہ مار دیا۔ یہ کیا ہے؟ کیا لاہور میں کسی کے گھر ریڈ کرنے کے لیے کوئی قواعد ہی نہیں ہیں؟ آپ جب چاہیں جس کے مرضی گھر گھس جائیں۔ اور جو مرضی کریں۔ یہ کیسے ممکن ہے۔پولیس کے مطابق اشفاق کے گھر میں جوا ہوتا تھا۔ اس لیے ریڈ کی گئی۔ نواب ٹاؤن لاہور کا کوئی پوش علاقہ نہیں ہے۔

یہ کوئی متوسط طبقہ یعنی مڈل کلاس کا بھی علاقہ نہیں ہے۔پولیس نے جھگیوں میں ریڈ کی ہے۔ اور جگی نشینوں کو پکڑنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ جھگیوں میں غریب لوگ ہی رہتے ہیں۔ان جھگیوں میں کسی بہت بڑے جوئے خانے کا وجود ممکن نہیں۔ میں اشفاق کی بے گناہی ثابت نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن لاہور میں تیس سال صحافت کرنے کے بعد مجھے اتنا تو اندازہ ہے کہ جھگیوں میں جوئے کا کوئی بڑا اڈا ممکن نہیں ہے۔

وہاں کوئی دولت مند جو ا کھیلنے نہیں جاتا۔ شاید لاہور پولیس کو نہیں معلوم لاہور کے بڑے جوئے کہاں ہوتے؟ لاہور کے جوئے کی بڑی بک کہاں ہیں؟ لاہور کے کونسے علاقوں کو جوئے کے لیے محفوظ سمجھا جاتا ہے؟ میں حیران ہوں کہ کیا لاہور پولیس نے امیروں کے تمام جوئے خانے بند کروا دیے ہیں جو جھگیوں میں ریڈ شروع کر دی ہے۔ پتہ نہیں سارے کام غریب سے ہی کیوں شروع کیے جاتے ہیں۔ ورنہ جہاں امیروں کے عشرت کدے ہیں وہاں لیکن پولیس کی رسائی نہیں ہے۔ یہ وہی معاملہ ہے کہ فائیو اسٹار ہوٹلز میں تو پولیس کے گھسنے کی ہمت نہیں لیکن عام گیسٹ ہاؤ سز میں چھاپے پر چھاپے مارے جاتے ہیں۔ ریسٹورنٹس پر چھاپے مارنے شروع کیے ہوئے ہیں۔

رحیم یار خان میں صلاح الدین کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد پوسٹ مارٹم کی جعلی رپورٹ نے بھی ابہام اور عدم اعتماد پیدا کر دیا ہے۔ اس لیے اب اس دلیل میں بھی وزن نہیں رہا کہ پوسٹ مارٹم سے حقیقت سامنے آجائے گی۔ سب کو معلوم ہے کہ پولیس اپنی مرضی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ حاصل کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتی ہے تا کہ کیس کو خراب کیا جا سکے۔

پولیس حراست میں ہلاک ہونے والے ملزمان کا مقدمہ بھی پولیس خود ہی درج کرتی ہے۔ اس کی تفتیش اور کیس کی پیروی بھی پولیس ہی کرتی ہے۔ اس لیے آج تک ایسے کسی مقدمے میں کسی پولیس اہلکار کوکوئی سزا نہیں ہوئی ہے۔ کون پولیس کے خلاف کیس کی پیروی کرے؟ اکثر پولیس جن کو مارتی ہے وہ کوئی با اثر ملزم نہیں ہوتے۔ ان کا تعلق معاشرہ کے کمزور طبقہ سے ہوتا ہے۔ آپ اشفاق کے کیس کو ہی دیکھ لیں، جھگی میں ریڈ کے لیے کسی اجازت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

ایک سال سے لاہور میںپولیس کا ایک نیا نظام متعارف کروایا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس کے خاطرہ خواہ نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ یہ پولیس ہے کوئی ملٹی نیشنل کارپوریٹ ادارہ نہیں ہے۔ افسروں کو بہر حال اپنے دفتر سے نکل کر تھانے تک جانا ہوگا ۔ انھیں خود کو ہر تھانہ کا ذمے دار سمجھنا ہوگا ۔ تب ہی ایسے واقعات رکیں گے۔ ورنہ بڑھتے جائیں گے۔

یہ درست ہے کہ رحیم یار خان کے واقعہ کا جب میڈیا میں بہت شور مچ گیا تو ڈی پی او رحیم یار خان کو تبدیل کیا گیا تا ہم لاہور میں ایک ماہ میں تین ہلاکتیں ہو گئی ہیں لیکن لاہور سے کسی کی قربانی نہیں ہوئی۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ آج کل میڈیا میں کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کا شور ہے۔  صلاح الدین کے واقعہ کے بعد اب مزید واقعات کو روکنے کے لیے ابھی تک کوئی موثر اقدمات نہیں کیے گئے ہیں ۔

آج کل ویسے بھی پولیس اور ڈی ایم جی گروپ کے درمیان ایک لڑائی چل رہی ہے۔ ڈی ایم جی گروپ ایک مرتبہ پھر پولیس کو اپنے زیر اثر لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جب کہ پولیس اپنی خود مختاری قائم رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔  شنید یہی ہے کہ نئے قواعد کے تحت ڈی سی او کو پولیس پر کنٹرول دینے کی بات کی جا رہی ہے جب کہ پولیس اس ضمن میں اپنی خود مختاری قائم رکھنا چاہتی ہے۔

پولیس ڈیپارٹمنٹ اپنا کلچرکیوں نہیں دیکھتا۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ پولیس کلچر میں سفاکی اور انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ پولیس گردی اس رائے کو مضبوط کر رہی ہے کہ پولیس پر چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ لاہور جیسے بڑے شہر میں پولیس گردی کے پے درپے واقعات معاشرہ پر بد نما داغ ہیں۔ اس ضمن میں بڑے اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ در گزر کی پالیسی کوئی کامیاب پالیسی نہیں ہے۔ انسانی جان کی قیمت کو سمجھنا ہوگا۔

The post زیرحراست ہلاکتوں کا معاملہ appeared first on ایکسپریس اردو.

ظلم کی ہوگئی ہے حد‘ یا رب

$
0
0

پچھلے ایک دو ہفتے میں جو خبریں آئی ہیں ، انھوں نے دہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ کون عفریت ہیں جو ملک پر چھا گئے ہیں، نہ یہ کسی سے ڈرتے ہیں، نہ انھیں قانون کا خوف ہے اور حد تو یہ ہے کہ یہ اللہ سے بھی نہیں ڈرتے۔ موت، قبر، قیامت ان باتوں پر ان کا ایمان ہی نہیں ہے۔

ابھی ہم صلاح الدین کا ہی رونا رو رہے تھے، جسے پولیس والوں نے مار ڈالا۔ صلاح الدین کا جثہ اور اس کا حوصلہ دیکھ کر یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر ایک ایک پولیس والا اس سے مقابلہ کرتا تو وہ سب کو ’’لم لیٹ‘‘ کر دیتا ، مگر اس پر تو سات آٹھ پولیس والے پل پڑے اور آخر وہ مرگیا۔ ’’ پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی۔‘‘ ابھی صلاح الدین کی ہاہا کار مچی ہوئی تھی کہ تحصیل چونیاں ضلع قصور سے تین بچوں کی لاشیں سامنے آگئیں جنھیں زیادتی کے بعد مار دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد پورا شہر باہر نکل آیا اور تھانہ چونیاں پر عوام نے دھاوا بول دیا جن والدین کے لال مارے گئے ان کا حال خراب تھا اور لوگ دہائیاں دے رہے تھے ’’عمران خان! چونیاں تمہیں للکار رہا ہے‘‘ مگر عمران اعلیٰ درجے کے عفریتوں سے لڑ رہا ہے۔

چونیاں میں عوام سراپا احتجاج تھے کہ اس شہر میں دو موٹر سائیکل سوار دو بچوں کو اغوا کرکے لے جا رہے تھے کہ لوگوں نے انھیں دیکھ لیا تو وہ ایک بے ہوش بچے کو گرا کر دوسرے کو لے جانے میں کامیاب ہوگئے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ ’’یہ بچے اغوا کرنے والا مافیا اتنا طاقتور ہے؟‘‘ ابھی یہی غم و غصے کی عوامی لہر چل رہی تھی کہ لٹن روڈ لاہور سے ایک رکشے والا تین بچوں کو لے جاتا ہوا لوگوں نے پکڑ لیا، رکشے والے کا بیان ہے کہ بچے خود رکشے میں بیٹھے تھے تو بھائی رکشے والے! تو ان بچوں کے رکشے سے اتارنے کا کہتا، مگر تو ان بچوں کو لے کر چل دیا، رکشے والے سے پوچھا جائے تو بچوں کو کہاں لے جا رہا تھا؟

یہ سب چل رہا تھا کہ اپنے لاڑکانے میں کمشنر لاڑکانہ کے دفتر کے سامنے ایک ماں کی گود میں اس کے دس سالہ بیٹے نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی، اس بچے کوکتے نے کاٹ لیا تھا، اس کے ماں باپ لاڑکانے کے علاوہ شکارپور بھی گئے مگر وہاں کہیں بھی کتے کے کاٹنے کی ویکسین نہیں تھی۔ کتے نے کاٹا، کتوں نے مار دیا۔ پھر اپنے سندھ سے ایک خبر آئی تصویر چھپی موٹرسائیکل والے درمیان میں ایک لاش رکھے جا رہے تھے۔

ان غریبوں کے پاس ایمبولینس کو دینے کے لیے پانچ ہزار روپے نہیں تھے اور کہانی یوں ختم ہوئی کہ موٹرسائیکل سوار باپ اور چچا لاش سمیت ایکسیڈنٹ میں مارے گئے۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ایمبولینس نہ دینے کا نوٹس لے لیا ہے۔

یہی دل دہلا دینے والی فضا چل رہی تھی کہ سجاول شہر سے خبر آئی، تمام ٹی وی چینلز پر دکھایا گیا، ایک تختے پر چارپائی ہے جس پر سات آٹھ سال کی بچی کی لاش ہے اور وارث ، لاش کو رسے کی مدد سے نہر کے دوسرے کنارے لے جا رہے ہیں۔ ’’وعدے‘‘ کے باوجود پل نہ بن سکا۔ اداکار علاؤالدین نے ایک پنجابی فلم کا گانا لکھا تھا، اسے مہدی حسن نے گایا تھا، یاد رہے کہ علاؤالدین پنجابی کے دبنگ، نڈر، بے خوف عوامی شاعر استاد دامن کے منہ بولے بیٹے بھی تھے۔گانے کی چند لائنیں دیکھیے:

گھنڈ مکھڑے تو لا او یار

سامنے آ کے سن لے دکھڑے

نہ لک کے تڑفا او یار

جیڑے اندروں باہروں کھوٹے

کون ایناں نوں ربّا روکے

تیتھوں ودھ کے ناز اینا دے

بن بن بین خدا او یار

ترجمہ کچھ یوں ہے ’’چہرے سے نقاب اتار اور سامنے آکے ہمارے دکھڑے سن لے۔ جو اندر اور باہر سے کھوٹے ہیں، اے رب! ان کو کون روکے، تجھ سے بڑھ کر ان کے ناز ہیں اور یہ خدا بن بن کر قابض ہیں، بیٹھے ہیں، ابھی دکھوں کی داستان چل رہی تھی کہ عروس البلاد روشنیوں کے شہر آسمان کو چھوتی ایمپائر کا شہر، جس کا نام کبھی کراچی ہوتا تھا، اب یہ کچرا چی کہلاتا ہے۔

اس شہر کے ایک پوش علاقے پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی میں واقع 2000 گز یعنی 4 کنال کے گھر پر نیب کے اہلکار چھاپہ مارتے ہیں۔ گھر کا مالک لیاقت قائم خانی گھر میں موجود تھا، اس گھرکی کار پارکنگ میں آٹھ گاڑیاں (مالیت کروڑوں روپے) پائی جاتی ہیں۔ 40 گز یعنی دو مرلے پر بنا ہوا باتھ روم ، ٹی وی لگا ہوا، ڈبل بیڈ بچھا ہوا، صوفے رکھے ہوئے، یہ دو مرلہ زمین وہ ہے جس پر ہمارے ملک کے غریب ذرا سے کھاتے پیتے لوگوں کا مکمل گھر ہوتا ہے۔

لیاقت قائم خانی گرفتار ہوکر جا رہا ہے اور صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہتا ہے ’’میرا تعلق زمیندار گھرانے سے ہے اور یہ گھر میرا آبائی گھر ہے‘‘ اگلے روز لیاقت قائم خانی کو پھر اس کے گھر لایا جاتا ہے اور لاکر کھلوایا جاتا ہے، اندر سے سونے کے زیورات نکلتے ہیں، نیب کے اہلکار کہتے ہیں دس ارب کا خزانہ ہے جو سابق ڈائریکٹر جنرل باغات حکومت کے گھر سے ملا ہے۔ ایک بات اور لیاقت قائم خانی نے اسلام آباد جاتے ہوئے کہی ’’سب پتا پڑ جائے گا اور میں باعزت بری ہوکر آؤں گا‘‘ او شاباشے قربان تیرے حوصلے تے۔ قارئین! یہ گھر تو پدی کا شوربا ہے۔ ابھی پنجاب کی طرف بھی نیب کی یلغار ہونے دیں ’’لگ پتا جائے گا‘‘ اور خیبر پختونخوا کے باغات میں بنے ہوئے محل، لہلہاتے ریشم و کم خواب کے پردے وغیرہ وغیرہ۔

یہ ہیں وہ خزانے جن کی وجہ سے گھر گھر اندھیارا ہے۔ مگر ان خزانوں تک پہنچنا بہت مشکل ہے بقول جگر ’’اک آگ کا دریا ہے‘‘ اس آگ کے دریا کو کون عبور کرے گا۔ جالب خدا کی بارگاہ میں التجائی ہے:

اپنے بندوں کی کر مدد یا رب

ظلم کی ہو گئی ہے حد یا رب

توڑ دے سامراج کا یہ غرور

کر اس آئی بلا کو رد یا رب

غیر تیری ہنسی اڑاتے ہیں

تجھ پہ بھی پڑ رہی ہے زد یا رب

نیک لوگوں پہ حکمراں بن کر

آتے ہیں کیسے کیسے بد یا رب

کیوں مسلط نہیں آسماں کے تلے

ہم پہ صدیوں سے چند صد یا رب

اے محل سراؤں کے باسیو! میں خود سے کچھ نہیں کہہ رہا۔ ماضی قریب ہی کا واقعہ ہے۔ انقلاب فرانس، حریت پسند انقلابی دستے، سارے ظلمت کے نشانات مٹانے کے شہر شہر لوگوں کے ہاتھ دیکھتے ہیں، ہاتھ نرم ہیں ’’گولی مار دو‘‘ ہاتھ کھردرے ہیں چھوڑ دو، یہ ہما محنت کش مزدور ساتھی ہے۔ غاصبو! قابضو تم نہیں تو تمہاری اولادیں یہ دن ضرور دیکھیں گی۔

اور یہ جو تحریک انصاف والے جاگیردار ہیں تحریک اور انصاف کا تقاضا ہے۔ اپنی اپنی آدھی جائیدادیں سرکاری خزانے میں جمع کروادیں، ورنہ وقت کا انتظارکریں۔

The post ظلم کی ہوگئی ہے حد‘ یا رب appeared first on ایکسپریس اردو.

وزیر اعظم عمران خان کا جنرل اسمبلی سے فقید المثال خطاب

$
0
0

گزشتہ 27 ستمبر کو جمعہ کے مبارک دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74 ویں اجلاس سے تاریخ ساز خطاب کرکے وزیر اعظم عمران خان نے مظلوم کشمیریوں کے سفیر اور مسلم امہ کے ابھرتے ہوئے ترجمان کی حیثیت سے اپنی زبردست اور شاندار کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ سچ پوچھیے تو ادبی زبان میں انھوں نے ایک قادرالکلام شاعر کے طور پر پورا مشاعرہ لوٹ لیا۔ ان کی تقریر کا ایک ایک لفظ حقیقت کا ترجمان تھا ،اس لیے اس میں بلا کی اثر انگیزی تھی۔ بقول اقبال:

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

تقریباً ایک گھنٹہ طویل دورانیے پر مشتمل ان کی یہ تقریر فکرانگیز تھی۔ اس تقریر کی ایک اور نمایاں اور قابل ذکر خوبی یہ تھی کہ مقرر نے اپنے انداز و بیان سے یہ ثابت کردیا کہ اسے انگریزی پر اہل زبان سے بھی زیادہ عبور حاصل ہے۔ سب سے بڑا کمال یہ کہ دنیا کے سب سے بڑے فورم سے وزیر اعظم عمران خان کا یہ تاریخی خطاب اولین بھی تھا اور فی البدیہ بھی۔ یوں لگتا تھا گویا:

عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں

فی البدیہ تقریر کو روایتی لکھی ہوئی تقریر پر ترجیح دے کر وزیر اعظم عمران خان نے اپنے پیش رو کی اہلیت و قابلیت پر اپنی نمایاں اور واضح برتری کا کھلا ثبوت پیش کردیا ہے اور شاعر بے بدل مرزا غالب کے اس مشہور شعر کی تائید کردی ہے:

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے

کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور

اگرچہ وزیر اعظم عمران خان کی اس تقریر کو تین دن کا عرصہ گزر چکا ہے مگر ابھی تک اس کے چرچے جاری ہیں ۔ عمران خان کے مخالف حلقے بھی ان کی صلاحیت و کامیابی کا اعتراف کرنے پر مجبور دکھائی دے رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والوں میں عمران خان کا نمبر بہ لحاظ ترتیب ساتواں تھا جب کہ ان کے حریف ہم منصب بھارتی پردھان منتری نریندر مودی ان سے قبل نہایت عیاری کے ساتھ چوتھے نمبر پر مقبوضہ کشمیر کے مظلوموں کی حالت زار اور اپنی اور اپنی حکومت کی بربریت کا تذکرہ گول کرنے کے بعد اپنی حکومت کی امن و آشتی کا جھوٹا پرچار کرکے جاچکے تھے۔

وزیر اعظم عمران خان نے اسٹیج پر آتے ہی ثابت کردیا کہ وہ اول درجے کی حیثیت کے حامل ہیں اور ان کا بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے کوئی موازنہ نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے بلاتکلف اور بلاتامل نریندر مودی اور ان کی انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ المعروف آر ایس ایس کا کچا چٹھا کھول کر سب کے سامنے رکھ دیا اور ببانگ دہل اس حقیقت کا انکشاف کردیا کہ بی جے پی کی مادر جماعت آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والا سرگرم کارکن ناتھورام گوڈسے ہی گاندھی جی کا  قاتل تھا جو سزائے موت پاکر اپنے کیفرکردار کو پہنچا تھا۔

وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں 1925 میں قائم ہونے والی ’’ہندوتوا‘‘ کا نعرہ لگانے والی ہندو انتہا پسند جماعت آر ایس ایس کے بانیوں اور سرغنوں گروگول والکر اور ساورکر کا مختصر حوالہ بھی دیا۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ بھارت کی موجودہ حکمران جماعت دراصل آر ایس ایس ہی کے بطن سے پیدا ہوئی ہے اور دیگر متعصب ہندو تنظیمیں بشمول شیو سینا اور بجرنگ دل بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہے۔

شیواجی مرہٹہ ان تمام ہندو انتہا پسند جماعتوں کا ہیرو ہے۔ شیوا جی مرہٹہ  نے طاقت کے بل بوتے پر ایک گروہ بنایا اور بالآخر کچھ علاقے پر قبضہ کرکے حکمران بن بیٹھا۔ مغل شہنشاہ اورنگزیب کے دور میں مغلیہ فوج نے اسے کافی تگ و دو کے بعد گرفتار کرلیا۔ مگر کچھ عرصے کے بعد یہ اپنی چالاکی اور عیاری سے مغلوں کی قید سے فرار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ کوئی بھوشتن نامی وزیر ہندی شاعر اس کا درباری شاعر تھا جس نے اس کی جھوٹی شان میں قصیدہ گوئی کرکے خوب خوب عزت، دولت اور شہرت پائی۔

وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74 ویں اجلاس میں اپنے تاریخی خطاب کے ذریعے جس غیر معمولی انداز میں مظلوم کشمیریوں کا مقدمہ لڑا ہے اس کی جتنی بھی تعریف و تحسین کی جائے وہ کم ہے۔ ان کی اس دلیرانہ اور بے مثل وکالت نے ایک جانب سوئے ہوئے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے تو دوسری جانب مظلوم کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔

اس کے ساتھ ہی ساتھ وزیر اعظم نے ہٹلر اور مسولینی کے فسطائی فلسفے پر عمل پیرا بھارتی سفاک حکمرانوں کے مکروہ چہرے بھی بالکل بے نقاب کردیے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے معذرت خواہانہ روایت کو ترک کرکے مقبوضہ کشمیر کے تنازعے کے حوالے سے ایک جرأت مندانہ، حقیقت پسندانہ اور منصفانہ موقف پیش کرکے نہ صرف اقوام متحدہ بلکہ اقوام عالم کو اس حقیقت کا احساس اور اعتراف کرنے پر مجبور کردیا کہ بھارت نہ صرف مقبوضہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرکے اس عالمی ادارے کے تقدس کو پامال کر رہا ہے بلکہ مظلوم کشمیریوں کا ناطقہ بند کرکے ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھا ڈھا کر ان پر عرصہ حیات تنگ کر رہا ہے۔

جابر و ظالم بھارتی حکمرانوں کا یہ طرز عمل انسانیت کی بدترین تذلیل اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے نہایت جرأت مندی اور حق گوئی کے ساتھ عالمی قوتوں کو ان کے دوغلے پن کا بھی خوب احساس دلایا ہے اور دو ٹوک الفاظ میں یہ باور کرایا ہے کہ عالم اسلام اور دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ انصاف کے معاملے میں ان کے رویے اور پیمانے قطعی مختلف ہیں۔ جب دیگر اقوام عالم پر کوئی افتاد پڑتی ہے تو ان کی انسانیت جاگ اٹھتی ہے اور جب مسلمانوں کو کوئی مشکل پیش آتی ہے اور ان کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی ہے تو انھیں سانپ سونگھ جاتا ہے۔ عمران خان نے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کا بڑی حوصلہ مندی اور دل سوزی سے تذکرہ کیا۔ ان کا یہ شکوہ بالکل بجا، برمحل اور بروقت تھا کہ بزبان علامہ اقبال:

برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر

وزیر اعظم نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ دہشت گردی کے حوالے سے اسلام کو خواہ مخواہ بدنام کیا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے جو بھی غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں وہ مغربی رہنماؤں کی متضاد باتوں سے پیدا ہوتی ہیں۔ انھوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ اسلامو فوبیا کا تصور مغرب کا اپنا پیدا کردہ ہے۔

نائن الیون کے بعد اسلاموفوبیا کو بہت تیزی سے دنیا بھر میں پھیلایا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے باآواز بلند یہ بھی کہا کہ مغرب میں پیغمبر اسلامؐ کی شان میں گستاخیوں کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی سے تاریخی خطاب میں اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ انھوں نے جو کچھ بھی کہا حرف  بہ حرف درست اور بالکل بجا اور ڈنکے کی چوٹ پر کہا۔ ان کا پورا خطاب حق گوئی اور ناقابل تردید حقائق کا آئینہ دار تھا۔

انھوں نے ضرورت سے زیادہ ایک لفظ بھی استعمال نہیں کیا اور قیمتی وقت کا ایک لمحہ بھی ضایع نہیں کیا۔ انھوں نے ایوان کے تقدس کا بھرپور احترام کرتے ہوئے ہر بات سلیقے اور انتہائی شائستگی سے کہی۔ ان کی ہر بات پوری دلچسپی اور توجہ سے سنی گئی اور ان کی تائید و تحسین میں کئی بار شرکائے مجلس نے تالیاں بھی بجائیں۔

تاہم بھارتی مندوبین کو وزیر اعظم کا شاندار خطاب ہضم نہیں ہوسکا۔ وہ اس میں کیڑے تو نہیں نکال سکے لیکن ان کے پیٹ میں یہ مروڑ  اٹھ رہے ہیں کہ عمران خان کو خطاب کے لیے 15 منٹ کے بجائے 45 منٹ کیوں دیے گئے؟ اس کا جواب شاید پنجابی زبان کی کہاوت ’’جیسا منہ ویسی چپیڑ‘‘ کی صورت میں مضمر ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پہلی مرتبہ فی البدیہ رواں اور انتہائی متاثر کن خطاب کرکے نہ صرف ایک بلند پایہ اور ثقہ مقرر کی حیثیت سے اپنی غیر معمولی صلاحیت کا عالمی سطح پر لوہا منوالیا ہے بلکہ اندرون ملک اپنی گرتی ہوئی ساکھ اور کم ہوتی ہوئی مقبولیت کو بھی بچا لیا ہے۔ بے شک عزت بخشنے والی اور ذلت سے دوچار کرنے والی ذات اللہ اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔

The post وزیر اعظم عمران خان کا جنرل اسمبلی سے فقید المثال خطاب appeared first on ایکسپریس اردو.

آزادی مارچ کیوں؟

$
0
0

مولانا فضل الرحمن کا تازہ شاہکار آزادی مارچ پلس دھرنا ہے۔ دھرنے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن آزادی مارچ والا مسئلہ سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ اگست کا مہینہ ہوتا تو آزادی مارچ کی گنجائش نکال لی جاسکتی تھی ، بہرحال مولانا کا کوئی کام چونکہ مصلحت سے خالی نہیں ہوتا لہٰذا ہم اس حوالے سے زیادہ فکرمندی یا تشویش کا اظہار نہیں کریں گے۔

مولانا ایک مستند عالم دین ہیں اور ایک مذہبی کم سیاسی جماعت کے امیر بھی ہیں۔ مولانا کی نرم خو طبیعت کا خاصہ ہے کہ وہ کسی نیک کام میں ہاتھ بٹانے بلکہ قیادت کرنے سے گریز نہیں کرتے، اسے ہم اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ مولانا عموماً برسر اقتدار جماعتوں سے دوستی رکھتے ہیں۔ حکمران جماعتوں سے دوستی کے باوجود مجال ہے کہ دل میں کوئی برا خیال آجائے۔

اصل میں مولانا ہمیشہ مصروف رہنا چاہتے ہیں اور مصروف رہنے کے لیے کوئی نہ کوئی مثبت یا منفی کام ضروری ہے ، اس حوالے سے دلچسپی کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ وہ حق دوستی ادا کرنا چاہتے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف سے ان کی بہت پرانی یاد اللہ ہے، وہ دوست ہی کیا جو برے وقت میں دوست کے کام نہ آئے۔ میاں محمد نواز شریف آج کل ایک بہت برے دور سے گزر رہے ہیں۔

ہمارے خیال میں شریف فیملی کا ان کی تاریخ میں اس سے برا دور نہیں گزرا۔ بڑے میاں صاحب بڑی پامردی سے اس برے دور کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ’’اچھے وقت‘‘ کے تو سب ہی دوست ہوتے ہیں، برے وقت کا دوست سہی معنوں میں سچا دوست ہوتا ہے۔ اور یہ مولانا کا بڑا بلکہ بہت بڑا پن ہے کہ وہ میاں محمد نواز شریف کا ایسے وقت میں ساتھ دے رہے ہیں جب سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے عمران خان سے ستارے نہیں ملتے۔ اصل میں عمران خان کی عادت ہے کہ وہ مولانا کا نام آتا ہے تو بے مزہ ہوجاتے ہیں اور بدمزگی میں عمران خان کے منہ سے کچھ نہ کچھ الٹی سیدھی باتیں نکل جاتی ہیں اور یہی رنجش کا سبب بن جاتی ہیں۔اصل میں عمران خان کا اقتدار میں آنا ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ اسے ہم اتفاق نہیں کہہ سکتے بلکہ لگتا ہے کہ جو لوگ بھی عمران خان کو اقتدار میں لائے ہیں، وہ مولانا کو تنگ کرنا چاہتے ہیں۔ عمران خان کل کا بچہ ہی کہلا سکتا ہے ، مولانا ایک میچور انسان ہیں وہ مذہب پر جتنا عبور رکھتے ہیں اتنا ہی بلکہ اس سے زیادہ عبور سیاست پر رکھتے ہیں۔ یہ عمران خان کی بدقسمتی ہے کہ انھوں نے مولانا سے پنگا لیا ہے۔

عمران خان غالباً نہیں جانتے کہ مولوی اور مولانا صاحبان کی پکڑ بہت مضبوط ہوتی ہے۔ عمران خان اب ملک کے وزیر اعظم ہیں اور مولانا حزب اختلاف کے ایک ذمے دار اور مضبوط نمایندے ہیں۔ عمران خان کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ ان کا مقابلہ کسی للو پنجو سے نہیں بلکہ ایک ایسے مولانا صاحب سے ہے جو اپنے مخالفین کو دھول چٹوائے بغیر نہیں چھوڑتے۔ میاں محمد نواز شریف دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے بڑے دشمن ہوتے ہیں، عمران خان لاکھ وزیر اعظم سہی لیکن سیاست میں تو وہ جونیئر ہی ہیں۔ اور اخلاقاً بھی سینئر کے سامنے جونیئرز کو حد و ادب کا خیال رکھنا چاہیے۔

سیاست بنیادی طور پر دشمنیوں کا کھیل ہے۔ عمران خان اور مولانا صاحب کے درمیان کوئی ذاتی تنازعہ ہے نہ کوئی پرانی دشمنی، بس کمبخت سیاست کی آگ ہے جو لگائے نہیں لگتی اور لگتی ہے تو دامن کو خاکستر کرکے رکھ دیتی ہے۔ کہتے ہیں کہ اونٹ کی دشمنی بہت مہنگی پڑتی ہے ہوسکتا ہے یہ بات درست ہو لیکن سیاستدانوں کی دشمنی اونٹ کی دشمنی سے زیادہ جان لیوا ہوتی ہے، اس لیے سمجھدار لوگ سیاستدانوں کی اگاڑی سے دور رہتے ہیں۔

اصل میں قضیہ بہت معمولی ہے۔ حضرت مولانا حزب اختلاف ہی نہیں بلکہ حزب اختلاف کی جان ہیں۔ اگرچہ بعض وقت خود اپنے مولانا کو رہنما دغا دے جاتے ہیں جیساکہ پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو دے گئے ہیں۔ بلاول کا کہنا ہے کہ مولانا طاقت کے ذریعے حکومت کو گرانا چاہتے ہیں اور ہم اس کے خلاف ہیں۔ بلاول بھٹو کا حافظہ کمزور لگتا ہے کیونکہ بلاول بھٹو عمران خان کو ووٹ کے ذریعے نہیں طاقت کے ذریعے ہی اقتدار سے الگ کرنا چاہتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ووٹ کے ذریعے عمران خان کو اقتدار سے نکالنے کے لیے ابھی چار سال چاہئیں اور یہاں حال یہ ہے کہ اقتدار کے بغیر ’’ساتھیوں‘‘ کو ایک پل بھی پہاڑ لگتا ہے۔ اگر شارٹ کٹ کرنا ہو تو مولانا جیسے طاقتور لوگوں کو ہی آگے لانا پڑے گا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ بلاول بھٹو کے غچا دینے سے مولانا کے جوش و جذبے پر کچھ اثر پڑا ہے یا نہیں البتہ نواز شریف جس راستے سے اقتدار کی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں وہ راستہ مولانا والا ہی ہے۔ مولانا کے ہزاروں کارکن نظم و ضبط کے اس قدر پابند ہیں کہ اگر مولانا کہیں کہ کارکن اپنے مورچوں سے نہ ہٹیں تو کیا مجال کہ کوئی کارکن اپنی جگہ چھوڑ دے۔مہنگائی اتنی شدید ہے کہ چیل انڈہ چھوڑ رہی ہے۔

ہماری حزب اختلاف کو امید تھی کہ مہنگائی کی گرمی سے عوام تنگ آکر باہر نکلیں گے لیکن پتا نہیں عمران خان نے کیا پھونک ماری ہے عوام کسی حوالے سے باہر نکل کر ہی نہیں دے رہے ہیں۔ حزب اختلاف آج گئی یا کل گئی کا ورد کر رہے تھے لیکن آئی ایم ایف کی رپورٹ، اسٹیٹ بینک کی رپورٹ عمران خان کے جانے میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ ادھر عمران خان چین کو اس قدر پسند آگئے ہیں کہ وہ پاکستان کو چین سے زیادہ اہمیت دے رہا ہے اور انکل ٹرمپ بھی خان کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں تو مولانا کی دال گلنے کے تمام راستے مسدود نظر آرہے ہیں۔

The post آزادی مارچ کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

قتل کی اجرت وصول ازمقتول

$
0
0

یہ قول زریں یا ڈاکٹرائن چونکہ ہمارا نہیں ہے، قہرخداوندی چشم گل چشم عرف سوائن فلو کا ہے، اس لیے اس کاجوبھی ثواب وعذاب یاحساب کتاب بنتاہے وہ اسی کوجانا چاہیے۔ ویسے تویہ قول زریں یامقتولین یا ڈاکٹراین خاص ہے یعنی اس نے خاص طورپر ڈاکٹرامرود، مردود کے بارے میں لانچ کیا ہواہے لیکن اسے عمومی بھی کہا جا سکتا ہے۔

قہرخداوندی نے اس ضمن میں جوبیان بزبان عیان اعلان کیاہے، اس میں کہاگیاہے کہ اجرتی قاتل کئی اقسام اور کیٹگری کے ہوتے ہیں جو طرح طرح کے آلات قتل سے واردات سرانجام دیتے ہیں یعنی قتل بذریعہ ترازو،قتل بذریعہ بازو اور قتل بذریعہ ’’مازو‘‘یعنی ملاوٹ وغیرہ کے کرتے ہیں لیکن دو اقسام کے اجرتی قاتل زیادہ مشہور ومعروف اور مصرف فی شغوف ہوتے ہیں ایک تو وہ جوقتل کا معاوضہ کسی اور سے لے کرکسی اور کوقتل کرتے ہیں۔

یہ سیدھے اور عام اجرتی ہوتے ہیں اور بہت پرانے زمانے سے چلے آرہے ہیں لیکن دوسری قسم کے جونسبتاً جدیداور ماڈرن اجرتی ہیں، یہ قتل کا معاوضہ مقتول ہی سے وصول کرتے ہیں اور پیشگی وصول کرتے ہیں اور ان کے آلات قتل بھی مختلف ہوتے ہیں جسے ڈاکٹر امرود مردود دوائیوںکے ذریعے وارداتیں کرتاہے یاجیسے علامہ بریانی تعویزات اور عملیات سے کرتاہے یالیڈر ٹائپ لوگ کچھ اور نادیدہ آلات استعمال کرتے ہیں۔

یہ تو وہ خود بھی جانتا ہے، ہم بھی جانتے ہیں اور مانتے ہیں کیونکہ اس کو پہچانتے ہیں اور اس کے اقوال وافعال واعمال کو چھانٹے اورچھانتے ہیں،کہ اس کا اصل نشانہ علامہ اور ڈاکٹر ہی ہوتے ہیں لیکن بات کو عمومی جامہ حجامہ بلکہ پجامہ پہناکر مشتہرعامہ کردیتاہے۔یہ اس دن کی بات ہے جب ڈاکٹر امرود مردود نے مفت’’کارمنیو‘‘مکسچر پلانے سے انکار کر دیاتھا ۔

ڈاکٹرامردو نے خود یہ مکسچرایجاد کیاہواہے جس میں ایک مشہور اشتہاری دوا کی طرح صرف آٹے کا سوڈا ہوتاہے لیکن اسے رنگارنگ فیلور کے  شربتوں سے ایک خوش ذائقہ مشروب بنایاہواہے اور بعض لوگوں کو مفت پلاتاہے خاص طور پرقہرخداوندی یا علامہ بریانی جب کسی خانہ بربادی جمعہ جمعرات یا چہلم، برسی سے اوور لوڈ ہوکر آتے ہیں، ایک دن ہم نے علامہ بریانی سے پوچھا بھی تھا کہ آپ کے پاس تواپنا جدی پشتی اور ڈویلپ کیاہوا چورن’’سب کچھ ہضم‘‘بھی ہے توبولے کہ وہ کم ازکم مفت سے تو مہنگا پڑتا ہے۔

اس لیے یہاں وہاں پیرٹکانے کی کوشش کرے گا لیکن میں بھی اسے چھوڑنے والا نہیں ہوں، پیر کے انگوٹھے تک اس کا پیچھاکروں گا اور اس نے واقعی پیچھا کیا۔ مرض نے بھی یہاں وہاں دوڑا دوڑا ،بھاگم بھاگ کا سلسلہ جاری رکھا۔کان سے آنکھوں پھرناک میں پھر یکے بعد دیگرے نتھنوں، آنتوں میں، ٹھوڑی میں،گردن میں گلے میں یہاں تک کہ زبان میں چھپنے کی کوشش کی لیکن وہ بھی ڈاکٹر امرود تھا اور پھر مردود بھی تھا۔چنانچہ دل جگر گردوں پھیپھڑوں اور آنتوں میں یہ تعاقب جاری رہا۔آخرکار دس سال گزرنے کے بعد وہ گھٹنوں تک جاچکاہے اور ڈاکٹرامرود کا یہ دعویٰ اپنی جگہ قائم ہے کہ میں اسے پیر کے انگوٹھے میں پہنچا کر دم لوں گا۔

اور مرض کادم نکالوں گا، چاہے اس کے ساتھ مریض کابھی دم کیوں نہ نکل جائے کیونکہ’’دام‘‘ تواسے برابرمل رہے ہیں۔ چنانچہ اسی مریض کودیکھتے ہوئے بظاہرہم سے لیکن حقیقت میں ڈاکٹرپر ضرب لگائے ہوئے کہنے لگا، یہ کیازمانہ آگیا، کیسے کیسے اجرتی قاتل پیدا ہوگئے کہ قتل بھی کرتے ہیں اور اجرت کسی دشمن کے بجائے اسی مقتول یا ہونے  والے مقتول سے لیتے ہیں۔ پھر اسی موضوع کوہدف مان کر وہ تیراندازی کی کہ ڈاکٹر امرود مردود کی بجائے کوئی اور ہوتا تویا تواس کا جبڑا توڑ چکا ہوتا یا اپنی دکان چھوڑ چکاہوتا۔اجرتی قاتلوں کے اس موضوع کے گرد حکایتوں اور لطیفوں کے جال بھی بنتاچلا گیا، پھر ایک اجرتی کی حکایت بیان کرتے ہوئے بولا،اس اجرتی قاتل نے نناوے قتل کیے تھے۔

آخر میں وہ توبہ تائب ہوکر کفارہ ادا کرنے کی کوشش کرنے لگا، اس نے لق ودق صحرا میں زرکثیر صرف کرکے ایک باغ لگایا جس میں خربوز تربوز کے ساتھ دوسرے بہت سارے پھل بھی تھے، یہاں تک کہ اس میں امرود جیسے فضول اور کیڑوں بھرے پھل کے درخت بھی تھے، یہاں اس نے امرود پر اچھا خاصا ’’کودم کود‘‘ کرتے ہوئے اسے دنیا کا سب سے مردود پھل قرار دیا۔پھر کہانی کو آگے کوبڑھاتے بولا کہ وہ اجرتی قاتل جس نے صرف نناوے قتل کیے تھے۔

آج کے اجرتیوں (ڈاکٹر امرود کی طرف دیکھ) مردودوں کی طرح کشتوں کے پشتے نہیں لگاتے تھے، اپنے گناہوں کا کفارہ اس طرح ادا کرنے لگا کہ راہ چلتے مسافروں کو پھل کھلاتا، پانی پلاتا اور ہرطرح کی خدمت کرتا۔ایک دن ایک نہایت ہی خستہ حال اور جگہ جگہ سے زخمی مسافرآیا تو اس نے جلدی سے پانی پلایااور پھل کاٹ کرکھلانے لگا۔

جب مسافر کی جان میں جان آئی تواس نے اس خستہ حالی اور جگہ جگہ سے ادھیڑنے کی وجہ پوچھی۔مسافر نے کہا،کیا بتاؤں، میں اس ایک گاؤں میں ڈاکٹری کی دکان کرتا تھا۔ لوگوں کو ان کے بوڑھے ’’بوجھوں‘‘ سے نجات دلاتا تھا لیکن ایک میری اور اس کی بدقسمتی سے ایک ایسی بڑھیا زد میں آئی جو اپنی اولاد پربوجھ تھی لیکن مجھے کیاپتہ تھا، میں نے تواس کی اولادوں پراحسان کی غرض سے انجکشن  کے نشانے پرلیا اور وہ ٹیں ہوگئی۔ اس پر گاؤں والے میرے خلاف ہوگئے اور سب اپنے اپنے بوڑھوں کے مدعی ہوگئے۔ میں بھاگا لیکن پھر بھی پتھروں کانشانہ بن گیا۔اب ارادہ ہے کہ اگلے گاؤں میں اپنی دکان کھولوں گا۔

اتفاق سے وہ اگلا گاؤں اس سابق اجرتی قاتل کاتھا جس میں اس کے والدین بھی تھے جن کی دعاؤں کی اسے سخت ضرورت تھی۔چنانچہ اس نے تلوار نکالی اور اس ڈاکٹر کا بھٹہ سا سر اڑادیا اور قتل الموذی قبل الایزا پرعمل کیا۔ کہتے ہیں، خدانے اس آخری قتل پراس کے سابقہ نناوے قتلوں کومعاف کردیا۔ وللہ اعلم۔

The post قتل کی اجرت وصول ازمقتول appeared first on ایکسپریس اردو.

تقریر ہو تو مہاتیر جیسی ورنہ نہ ہو

$
0
0

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے چوہترویں سالانہ اجلاس میں عمران خان کے علاوہ جن دو رہنماؤں نے کشمیر پر واضح گفتگو کی وہ رجب طیب اردگان اور ملائیشیا کے وزیرِ اعظم مہاتیر محمد ہیں۔ٹرمپ اور خلیجی ریاستوں کے سربراہان کا فوکس ایران رہا۔مودی کی بیشتر تقریر اندرونِ بھارت ترقیاتی منصوبوں کی تفصیل بتانے میں صرف ہو گئی۔

اگر جامعیت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو سب سے بہتر اور متوازن خطاب مہاتیر محمد کا تھا۔چورانوے سالہ مہاتیر محمد ایک ایسے عالمی رہنما ہیں جنہوں نے صرف باتوں کے خربوزے نہیں کاٹے بلکہ اپنے ملک کو ناداری سے اٹھا کر صرف بیس برس کی مدت میں درمیانہ درجے کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کر دیا۔

اقوامِ متحدہ میں اپنے ستائیس منٹ کے خطاب میں کہیں محسوس نہیں ہوا کہ ڈاکٹر مہاتیر محمد کسی انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے ہوں یا اپنی مقرری کی دھاک بٹھا رہے ہوں  یا کسی ایک موضوع سے بری طرح لٹک گئے ہوں۔میں دراصل کیا کہہ رہا ہوں۔یہ آپ کو مہاتیر محمد کے خطاب کا خلاصہ پڑھ کے زیادہ بہتر سمجھ میں آئے گا۔

’’ محترم صدرِ مجلس۔لگ بھگ پچھتر برس پہلے پانچ ممالک نے دوسری عالمی جنگ کے فاتح ہونے کا دعویٰ کیا اور اس دعویٰ کی بنیاد پر انھوں نے خود کو ویٹو کا اختیار دے کر باقی دنیا پر حکمرانی کا حق اپنے تئیں اپنے نام کر لیا۔یہ حق اس تنظیم ( اقوامِ متحدہ ) کو قائم کرتے ہوئے حاصل کیا گیا جس کا منشور ہی جنگوں کا خاتمہ اور تنازعات کا پرامن حل ڈھونڈنا قرارپایا۔یہ ممالک بھول گئے کہ جن انسانی حقوق اور مساوات کے وہ چیمپئن ہیں۔ ویٹو پاور بذاتِ خود ان کے اس دعویٰ کی کتنی بڑی نفی ہے۔

ویٹو پاور کا نتیجہ یہ نکلا کہ نظریاتی بنیادوں پر بٹی ان طاقتوں نے نہ صرف عالمی مسائل کے پرامن حل کا دروازہ بند کر دیا بلکہ تنظیم کے رکن باقی دو سو ارکان کی خواہشات کے احترام سے بھی انکار کر دیا۔مگر ان ویٹو پاورز کی ڈھٹائی ملاخطہ کیجیے کہ وہ دیگر ممالک کو کہتی ہیں کہ وہ مناسب حد تک جمہوری نہیں۔یہ پانچوں اپنے ویٹو کے حق کو برقرار رکھنے کے لیے اسلحے کی دوڑ اور جنگوں کے فروغ کو جائز سمجھتے ہیں۔  لڑائی کی وجوہات ایجاد کرتے ہیں تاکہ کاروبار پھلتا رہے اور کوئی انھیں چیلنج نہ کر سکے۔کیا یہی مقصد تھا اقوامِ متحدہ کے قیام کا ؟ کیا یہ ڈھانچہ تاحیات اسی طرح رہے گا ؟

یہ درست ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد مغربی ممالک کے درمیان کوئی لڑائی نہیں ہوئی مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ انھوں نے میدانِ جنگ مغرب سے مشرق میں منتقل کر دیا۔

جنابِ صدر اس حکمتِ عملی کا پہلا ثبوت فلسطینی زمینوں پر قبضے اور نوے فیصد عرب آبادی کو بے دخل کر کے اسرائیل کا قیام تھا۔تب سے اب تک اس تنازعے نے کئی بڑی جنگوں کو جنم دیا اور ان جنگوں کے کوکھ سے دہشت گردی نے جنم لیا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ ویٹو پاورز اس دہشت گردی کے بنیادی اسباب کی طرف دھیان دیتیں۔مگر انھوں نے اس کا حل فوجی طاقت اور اقتصادی پابندیوں میں ڈھونڈھ لیا۔یہ وہ نسخہ ہے جو کبھی بدامنی کی بیماری ٹھیک نہیں کر سکتا۔

جنابِ صدر بلاشبہ جمہوریت آمریت سے بدرجہا بہتر ہے۔مگر جمہوریت راتوں رات جڑ نہیں پکڑ سکتی۔جو اس نظام کو جادو کی چھڑی سے نافذ کرنا چاہ رہے ہیں خود انھیں اس نظام کو اپنانے میں صدیاں نہیں تو عشرے ضرور لگ گئے۔راتوں رات اپنی مرضی کا جمہوری نظام تھوپنے کا مطلب عدم استحکام اور خانہ جنگی ہے۔کئی ممالک اس ادھ کچے پکے تجربے کے دوران دوبارہ ایک بھیانک شخصی یا عسکری آمریت میں جکڑ دیے گئے۔

مگر یہاں بھی دہرا معیار برقرار ہے۔قانون کی حکمرانی کی دعویٰ دار ریاستوں کی جانب سے حریفوں کے لیے ہر طرح کی جکڑ بندی کا سامان ہے۔لیکن جو دوست ہیں انھیں بین الاقوامی قوانین سمیت ہر طرح کی روایت توڑنے کی کھلی چھوٹ ہے۔مثلاً اسرائیل کو کھلی چھوٹ ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ تعریف بھی کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کا واحد جمہوری ملک ہے۔مگر جو ممالک دوست نہیں ان کے بارے میں فرض کر لیا گیا ہے کہ وہاں کچھ بھی اچھا نہیں ہو سکتا۔جنابِ صدر واقعی اس دنیا میں انصاف نہیں ہے۔

جنابِ صدر سامراج سے آزادی کے بعد جن جن نوآزاد ممالک سے اقلیتی نسلوں اور گروہوں کو باہر نکالنے کی ظالمانہ کوشش ہوئی، ان میں سب سے افسوسناک مثال میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی ہے۔ہم سب کی آنکھوں کے سامنے قتل، ریپ اور گھروں کی آتشزدگی جاری ہے مگر ہمارا جو بھی اجتماعی ردِعمل ہے اس کے نتیجے میں اقوامِ متحدہ کی توقیر اور کم ہو رہی ہے۔

جنابِ صدر ایک اور مثال جموں و کشمیر کی ہے۔اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے باوجود اس خطے پر حملہ ہوا اور قبضہ ہوا۔اس اقدام کے پیچھے جو بھی وجہ یا جواز ہو غلط ہے۔ بھارت اور پاکستان کو بیٹھ کر مسئلے کا پرامن حل نکالنا چاہیے۔ اس معاملے میں اقوامِ متحدہ کو نظرانداز کرنا قانون کی بالا دستی کے تصور کو نظرانداز کرنے کے برابر ہے۔

جنابِ صدر آزاد تجارت کی بہت بات ہوتی ہے مگر اس کے پردے میں جو قوانین و ضابطے بنائے جا رہے ہیں، وہ امیر ممالک خفیہ طور پر بناتے ہیں اور پھر غریب ممالک پر تھوپ دیتے ہیں۔ان قواعد و ضوابط کا مقصد غریب معیشتوں کی قیمت پر امیر ممالک کی کمپنیوں کے منافع کو یقینی بنانا اور  تحفظ دینا ہے۔غریب ممالک کو امید نہیں کہ نوآبادیاتی دور میں انھیں جس طرح لوٹا گیا اس کا کوئی ازالہ کرے گا۔یہ ممالک بس اتنا چاہتے ہیں کہ انھیں بھی مساوی بنیادوں پر ترقی کرنے کی اجازت ہو۔

جنابِ صدر ملائشیا بحیثیت ریاست کسی بھی تنازعے کے حل کے لیے جنگ کے خلاف ہے۔تنازعات کے حل کے بہانے انسانوں کو ہلاک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اب تک قدیم دور سے جدید تہذیبی دور میں داخل نہیں ہو سکے۔حالانکہ جنگ کا سہارا لیے بغیر بھی تنازعات بات چیت، ثالثی اور عدالت کے ذریعے نمٹائے جا سکتے ہیں۔ ملائشیا نے اپنے ہمسائیوں کے ساتھ تمام تنازعات دو طرفہ بنیادوں پر بات چیت یا بین الاقوامی قانون کی مدد سے حل کیے ہیں۔کچھ میں ہم ہارے کچھ میں جیتے مگر کوئی انسانی جان ضایع نہیں ہوئی۔

جنابِ صدر مجھے یہ بات کبھی پلے نہیں پڑی کہ ہم اپنے ایک ایک انچ کے لیے جان لے لیں گے یا دے دیں گے۔ایک ایک انچ کے لیے جنگ اس انچ کی قیمت سے کہیں بھاری قیمت لے لیتی ہے۔جنگ جیتنے کا مطلب ہے کہ کسی ایک کو ہارنا ہے۔اگر ہم کسی بھی تنازعے کے حل کے لیے جنگ کے علاوہ کوئی بھی راستہ اختیار کریں تو بے شک کوئی ایک ہارے یا جیتے مگر مرے گا بہرحال نہیں ، نہ ہی کسی کی زمین برباد ہو گی۔

جنابِ صدر اس کرہِ ارض کا ماحول جس تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔اگر ہم نے فوراً کچھ نہ کیا تو اتنے جمع ہونے والے ہتھیار ہمارے کس کام آئیں گے جب ہم ہی نہ ہوں گے۔ کیا ہتھیاروں پر صرف ہونے والا پیسہ موسمیاتی تبدیلیوں سے ہو رہے نقصان کو کم کرنے کے لیے استعمال کرنے کا وقت آن نہیں پہنچا ؟ کیا ہلاکت خیزی کے لیے مختص بجٹ کا رخ زندگی کی بقا کی جانب موڑنے کے لیے اوسط ذہانت کے بجائے کوئی غیر معمولی ذہانت درکار ہے ؟ اگر ایسا ہے تو اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے ؟

جنابِ صدر میں سرمایہ دارانہ نظام کے حق میں ہوں مگر لگتا ہے سرمایہ داری پاگل ہو چکی ہے۔مجھے وحشت ہوتی ہے جب کمپنیاں اور افراد کھربوں ڈالر کمانے کی باتیں کرتے ہیں۔کسی بھی شخص یا کمپنی کے پاس بے تحاشا سرمایہ خطرناک عمل ہے۔بے تحاشا و بے لگام سرمایہ  باقیوں کو جھکا سکتا ہے ، ان کی پالیسیوں اور ذہنوں پر قبضہ کر سکتا ہے اور دنیا کو ایسی سمت میں ہانک سکتا ہے جہاں کوئی بھی نہیں جانا چاہتا۔

جنابِ صدر ہر کوئی بل گیٹس نہیں ہوتا جو اپنے منافع میں دوسروں کو بھی تھوڑا بہت حصہ دار بنائے۔بے تحاشا منافع کی ہوس ہم سب کی زندگیوں کو کم سے کم کرتی چلی جا رہی ہے۔وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ ہنگامی ضرورت ہے بین الاقوامی سطح پر نئے اینٹی ٹرسٹ قوانین بنانے کی تاکہ زیادہ سے زیادہ وسائل و سرمایہ کم سے کم ہاتھوں میں مرتکز ہونے کو روکا جا سکے۔بصورتِ دیگر آخر میں بس ایک ہی ہاتھ بچے گا جو ہم سب کا گلا گھونٹ کر خود بھی خودکشی کر لے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے  bbcurdu.com پر کلک کیجیے )

The post تقریر ہو تو مہاتیر جیسی ورنہ نہ ہو appeared first on ایکسپریس اردو.

میں نے بھی تالی بجائی

$
0
0

عمران خان نے 27 ستمبر کو سلامتی کونسل میں خطاب کر کے میچ اور دل دونوں جیت لیے‘ پورے پاکستان نے کھل کر تالیاں بجائیں‘ میں نے بھی دل سے کھل کر عمران خان کو شاباش دی اور تعریف بھی کی‘ عمران خان کی تقریر میں کیا تھا جس نے مجھ جیسے ناقد کو بھی تعریف پر مجبور کر دیا‘ میں اس طرف آنے سے پہلے آپ کو چند لمحوں کے لیے 1971 میں لے جاؤں گا۔

بھارت نے مکتی باہنی کے ذریعے 1969میں مشرقی پاکستان میں چھیڑ چھاڑ شروع کر دی تھی‘ پاکستان کے معاشی اور سیاسی حالات آج جیسے تھے‘ انڈسٹری بند ہو رہی تھی‘ جنرل یحییٰ خان نے 303 بیورو کریٹس کو نوکریوں سے نکال دیا چناں چہ افسروں نے خوف زدہ ہو کر کام بند کر دیا تھا‘ فائلیں رک گئی تھیں اور محکمے نیچے آنا شروع ہو گئے تھے۔

ملک میں عیاشی اور طوائف الملوکی کا دور بھی شروع ہو گیا تھا‘ گانے والیاں بڑے بڑے فیصلے کرا دیتی تھیں اور رہی سہی کسر 1970 کے انتخابات نے پوری کر دی‘ ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان اور شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان سے اکثریت حاصل کر لی‘ شیخ مجیب کی نشستیں ذوالفقار علی بھٹو سے کہیں زیادہ تھیں مگر خوب صورت اور بہادر جنرل یحییٰ خان ’’بدصورت اور ٹھگنے‘‘ بنگالیوں کو اقتدار نہیں دینا چاہتے تھے لہٰذا ملک میں خوف ناک سیاسی بحران پیدا ہو گیا‘ 1970 میں قومی اسمبلی ڈھاکا اور وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں ہوتا تھا گویا آئینی قبلہ مشرقی پاکستان اور حکومتی مرکز مغربی پاکستان ہوتا تھا‘الیکشن کو چارماہ گزر گئے مگر قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس نہ ہو سکا۔

جنرل یحییٰ خان اجلاس کے راستے میں رکاوٹ بن گئے‘ کیوں؟ کیوں کہ وہ جانتے تھے شیخ مجیب الرحمن اسمبلی کے پہلے اجلاس ہی میں وزیراعظم بن جائیں گے اوریہ لوگ کسی بھی قیمت پر یہ دن نہیں دیکھنا چاہتے تھے‘ ذوالفقار علی بھٹو بھی شیخ مجیب کو مسند اقتدار پر دیکھنے کے لیے تیار نہیں تھے چناں چہ انھوں نے مینار پاکستان کے سائے میں کھڑے ہو کر اعلان کر دیا ’’جو بھی ڈھاکا جائے گا ہم اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے‘‘ یہ سیاسی بحران تیزی سے فوج کے امیج کو نقصان پہنچانے لگا‘ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو مشیروں نے مشورہ دیا ہم اگر پاکستان پر حملہ کریں تو عوام اپنی فوج کا ساتھ نہیں دے گی لہٰذا ہم 1965 کی ہزیمت کا بدلہ لے لیں گے۔

اندراگاندھی قائل ہو گئی اور اس نے 22 نومبر کو عیدالفطر کے دن اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل کر دیں‘ پاکستانی فوج نے بھارتی توقعات کے برعکس بے جگری سے جواب دیا‘ بھارت کے چھکے چھوٹ گئے‘ بھارت کا خیال تھا یہ مغربی سرحدوں کو چھیڑے بغیر مشرقی پاکستان پر قبضہ کر لے گا لیکن پاک فوج کے ردعمل نے اسے پریشان کر دیااور یہ پاکستان کی توجہ تقسیم کرنے کے لیے 3 دسمبر کو مغربی پاکستان پر بھی حملہ کرنے پر مجبور ہو گیا‘ پاکستانی فوج جذبے کے ساتھ لڑ رہی تھی لیکن سیاسی طاقت اس وقت فوج کے ساتھ نہیں تھی۔

لہٰذا پاکستان دباؤ میں آ گیا‘ آغا شاہی اس وقت اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمائندے تھے‘ یہ چار دسمبر کو سلامتی کونسل چلے گئے‘ سوویت یونین بھارت کا اتحادی تھا‘ روس نے بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت کو سلامتی کونسل میں فریق بنانے کی قرارداد پیش کر دی‘ چین اس وقت بھی پاکستان کا دوست تھا‘ چین نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا‘ جنرل یحییٰ خان کو پاکستان اور فوج دونوں کو بچانے کے لیے سلامتی کونسل میں مؤثر آواز چاہیے تھی اور ملک میں اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ کوئی مؤثر آواز نہیں تھی‘ جنرل یحییٰ خان نے بھٹو صاحب کو تیار کیا اور انھیں وزیر خارجہ کا اعزازی ٹائٹل دے کر سلامتی کونسل بھجوا دیا‘ بھٹو صاحب 11 دسمبر 1971 کو نیویارک پہنچ گئے۔

امریکا اور چین نے فائر بندی کی قرارداد پیش کر رکھی تھی‘ اس دوران پولینڈ نے بھی سوویت یونین کی مدد سے سیز فائر کی درخواست جمع کرا دی چناں چہ اقوام متحدہ کے پانچ میں سے تین مستقل ارکان سیز فائر پر متفق ہو گئے‘ پاکستان جنگ ہار رہا تھا‘ ہمارے 90 ہزار فوجی مشرقی پاکستان میں پھنس چکے تھے‘ فائر بندی اس وقت پاکستان اور پاک فوج کے لیے واحد آپشن بچا تھا‘ 15 دسمبر کا دن آ گیا‘ ذوالفقار علی بھٹو سلامتی کونسل پہنچے‘ ایک خوف ناک جذباتی تقریر کی‘ سلامتی کونسل کو برا بھلا کہا‘ پولش قرارداد پھاڑ کر پھینکی اور یہ فرما کر ’’ہم (ہزار سال تک) لڑیں گے‘‘ سلامتی کونسل کے فلور سے اٹھ گئے۔

یہ تقریر پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی تھی‘ قوم نے حلق کی پوری طاقت سے جیے بھٹو کا نعرہ لگایا اور تالیاں بجا کر آسمان سر پر اٹھا لیا لیکن اس شان دار تقریر کے اگلے دن کیا ہوا؟ 16 دسمبر 1971 کو جنرل نیازی نے ڈھاکا کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈال دیے‘ پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا‘ بھٹو صاحب کی تقریر شان دار تھی‘ شان دار ہے اور شان دار رہے گی لیکن ہم نے اس شان دار تقریر کے بدلے میں کیا پایا؟ ہم نے آدھا پاکستان گنوا دیا‘ مورخین آج بھی کہتے ہیں ذوالفقار علی بھٹو اگر اس دن جذباتی تقریراور کاغذات پھاڑنے کی بجائے پولینڈ کی قرار داد پاس ہونے دیتے تو سیز فائر ہو جاتا‘ فوجیں واپس چلی جاتیں اور شاید پاکستان بچ جاتا لیکن یہ نہ ہو سکا اور یہ حقیقت ہے ماضی ماضی ہی ہوتا ہے اور شاید قدرت بھی ماضی کو نہیں بدل سکتی۔

وزیراعظم عمران خان کی 27 ستمبر کی تقریر بلاشبہ ذوالفقار علی بھٹو کی 15 دسمبر 1971 کی تقریر سے زیادہ شان دار اور جان دار تھی‘ میں نے بھی تقریر کے بعد قوم کے ساتھ کھڑے ہو کر عمران خان کے لیے تالی بجائی تھی‘ ہم بہادر لیڈر شپ کو ترسے ہوئے لوگ ہیں‘ ہم جب بھی اپنے کسی لیڈر کو دنیا کو للکارتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ہمارے اندر جذبہ بھی پیدا ہو جاتا ہے اور ہم دل کھول کر اس کی تعریف بھی کرتے ہیں‘ عمران خان نے بھی 27 ستمبر کو سلامتی کونسل کے ڈائس پر کھڑے ہو کر جو کہا قوم یہ دہائیوں سے سننا چاہتی تھی‘ ہم چاہتے تھے ہمارے لیڈر اقوام عالم کے درمیان کھڑے ہو کر پاکستان اور کشمیر کا مقدمہ لڑیں لیکن بدقسمتی سے ماضی کا کوئی بھی لیڈر اقوام متحدہ میں عمران خان کی طرح کھل کر بات نہیں کر سکا۔

عمران خان کی باتوں میں درد بھی تھا‘ جذبہ بھی‘ دلیل بھی اور اثر بھی‘ پوری دنیا نے اس تقریر کو سراہا اور میں دل سے سمجھتا ہوں عمران خان نے 27 ستمبر 2019  کودوسری بار ورلڈ کپ حاصل کر لیا‘ یہ مدر آف آل ورلڈ کپس لے کر پاکستان آئے‘ مجھے افسوس ہے میں ان کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ نہیں جا سکا‘ یہ تقریر واقعی جان دار اور شان دار تھی لیکن اس شان دار تقریر کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے آج مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کو 58دن ہو چکے ہیں اور دنیا کے 245 اور اقوام متحدہ کے 193رکن ملکوں میں سے کسی ملک نے بھارت کو کرفیو اٹھانے کا حکم نہیں دیا۔

سعودی عرب کے ولی عہد نے ہمارے وزیراعظم کو نیویارک جانے کے لیے اپنا جہاز دے دیا مگر نریندر مودی کو’’کرفیو اٹھا دو‘‘ کا ایک ایس ایم ایس تک نہیں کیا‘ طیب اردگان اور مہاتیر محمد نے بھی سلامتی کونسل میں کشمیر کا ذکر کیا مگر بھارت کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا‘ چین‘ روس اور امریکا کشمیر کے ایشو پر ہمارے ساتھ ہیں مگر یہ نریندر مودی کونہیں سمجھا رہے اور ہم نے شان دار خطاب فرما کر دوسری بار ورلڈ کپ بھی لے لیا مگر ہم اس تقریر کے باوجود کشمیر حاصل کر سکے اور نہ ہی کشمیریوں کو ’’کرفیو اٹھ گیا‘‘ کی خوش خبری دے سکے ‘ تقریر کے باوجود حالات جوں کے توں رہے۔

میں دل پر بھاری پتھر رکھ کر یہ کہنے پر مجبور ہوں دنیا کے مسئلے اگر تقریروں سے حل ہو سکتے تو کشمیر 27 ستمبر کو آزاد ہو چکا ہوتا‘ دنیا میں اگر تقریریں سب کچھ ہوتیں تو عمران خان 27 ستمبر کو دنیا کے سپر اسٹار اور نریندر مودی زیرو اسٹار بن چکے ہوتے اور راوی صرف اور صرف عمران خان کے لیے بانسری بجا رہے ہوتے مگر یہ دنیا بڑی ظالم ہے‘ اس میں مودی تقریر کا مقابلہ ہارنے کے باوجود جیت کر دہلی پہنچ جاتا ہے اور ہم تقریر کا ورلڈ کپ لے کر بھی خالی ہاتھ اسلام آباد آتے ہیں‘ ہم سچے ہیں لیکن ہماری جھولی خالی ہے جب کہ مودی جھوٹا ہے اور اس کی جھولی میں کشمیر چمک رہا ہے۔

ہمیں تقریریں ضرور کرنی چاہئیں‘ لیڈروں کو دلائل اور بے خوفی بڑا لیڈر بناتی ہے ہمیں بھی بڑا لیڈر بننا چاہیے مگر یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے قوموں کو تقریریں نہیں اندرونی استحکام‘ معاشی توازن اور سیاسی اتحاد بچایا کرتے ہیں چناں چہ کشمیرجب بھی آزاد ہوگا مضبوط پاکستان کے ذریعے آزاد ہو گا‘ تقریروں اور خطبوں سے نہیں‘ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کے سو سالوں سے بہتر ہوتی ہے‘ یہ بات صرف کتابوں میں اچھی لگتی ہے جب کہ حقیقت تو یہ ہے بنگال گیدڑ چھین کر لے گئے تھے اور میسور کے شیر کے ہاتھ میں اس ایک فقرے کے سوا کچھ نہیں بچا تھا۔

لہٰذا محترم وزیراعظم! مقدمے جیتنے کے لیے لڑے جاتے ہیں یہ سننے کے لیے نہیں کہ بے گناہ ملزم پھانسی پر لٹک گیا مگر وکیل کے دلائل نے جج کو انگلی دانتوں میں دابنے پر مجبور کر دیا اور جنگیں بھی جیتنے کے لیے لڑی جاتی ہیں مخالف فوجوں سے تالیاں بجوانے کے لیے نہیں۔عمران خان کی تقریر ذوالفقار علی بھٹو کے خطاب سے اچھی تھی مگر سوال یہ ہے قوم کو چسکے کے علاوہ تقریر سے کیا ملا؟آپ اگر مزید چسکا لینا چاہتے ہیں تو آپ سلامتی کونسل کے آرکائیو سے یاسرعرفات‘ ہیوگو شاویز‘ معمر قذافی اور خروشیف کی تقریریں نکال کر سن لیں‘ آپ تالیاں بجا بجا کر پاگل ہو جائیں گے۔

خروشیف نے تو اپنا جوتا ڈائس پر مار کر کہاتھا ’’میں تمہیں دفن کردوں گا‘‘ لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ سوویت یونین ٹوٹ گیا‘ قذافی کی لاش گلیوں میں گھسیٹی گئی‘ ہیوگوشاویز کاملک خوف ناک کساد بازاری کا شکار ہوگیا اور یاسرعرفات کا فلسطین آج بھی اسرائیلی فوج کے قبضے میں ہے لہٰذا تاریخ کہتی ہے قوموں کو محمد بن قاسم چاہیے ہوتے ہیں‘ محمد بن قاسم کی تقریریں نہیں اور ہم خطاب کے ذریعے دنیا فتح کرنا چاہتے ہیں اور یہ صرف ہم ہی کر سکتے ہیں۔

The post میں نے بھی تالی بجائی appeared first on ایکسپریس اردو.


معاشی ثمرات کی فراہمی اصل چیلنج

$
0
0

گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر نے اپنے حالیہ بیان میں بعض اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مہنگائی بڑھی تو ہمیں بھی شرح سود میں اضافہ کرنا پڑا ، اگر زرمبادلہ کے ذخائر نہ گھٹیں، حکومت مرکزی بینک سے قرضے نہ لے اور بچت وسرمایہ کاری کا حجم بڑھ جائے تو ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں آئی ایم ایف سے رجوع نہ کیا جائے۔

ملکی قرض جی ڈی پی کا 80 فیصد ہوگیا۔ یہ بات انھوں نے پیرکوانسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی میں پاکستان کی معیشت اور میکرواکنامک چیلینجزکے موضوع پرلیکچردیتے ہوئے کہی۔

معاشی ماہرین ہوسکتا ہے گورنر اسٹیٹ بینک کے قرض نہ لینے، بچت وسرمایہ کاری کا حجم بڑھنے کے مفروضے پر آئی ایم ایف سے آیندہ رجوع نہ کرنے کے بڑے فیصلے کا عندیہ دے رہے ہیں اور اگر ایسا ہوتا ہے، حکومت قرض کی مفت مئے پینے کی عادت سے ہاتھ کھینچ لیتی ہے، سادگی اور کفایت شعاری کو  اقتصادی نظام کی سمت ایک ٹھوس اور قابل عمل پیش رفت سمجھتی ہے تو اسے مثبت تبدیلی اور دلیرانہ فیصلہ کی ابتدا قراردیا جاسکتا ہے۔

بادی النظر میں حکومتی معاشی مسیحاؤںکی ساری معاشی تگ و دو آئی ایم ایف سے امدادی پروگرام لینے یا نہ لینے کی بحث کے محورکے گرد گھومتی رہی ہے اور سانپ وسیڑھی کا کھیل کئی ہفتے جاری رہا، میڈیا نے اسےTo Be or Not to Be’’اے برق میں رہوں نہ رہوں آشیاں رہے‘‘ کی فیصلہ کن صورتحال سے جوڑ دیا تھا چنانچہ حکومت نے انجام کار آئی ایم ایف سے رجوع کرہی لیا اور ملکی معیشت کو درپیش بحران سے نکالنے کے لیے 6 ارب ڈالر حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔

معاشی مبصرین کے مطابق اس سے حکومت کو ’’ بریتھنگ اسپیس ‘‘ مل گئی۔ اور اگر اسے وزیراعظم عمران خان کے سابقہ بیان کی روشنی میں دیکھا جائے جو آئی ایم ایف سے کچھ مانگنے سے گریز پر مبنی تھا تو گورنر اسٹیٹ بینک کے ارشادات آئی ایم ایف سے فاصلہ کرنے کا خوش آیند عندیہ سمجھنا چاہیے، لیکن اس عہد اور کمٹمنٹ پر پورا اترنے کے لیے حکومت اور مالیاتی امور کے نگرانوں کو ملکی معیشت کی حقیقی صورتحال کے ادراک سے پہلو تہی کرنے سے اجتناب کا مشورہ ہی دیا جاسکتا ہے۔

اس انداز نظر میں استقامت اس لیے بھی درکار ہے کہ پی ٹی آئی کی طرز حکمرانی یو ٹرن کے میکنزم ، فلسفے اور حکمت عملی کو اپنا سیاسی اصول بنا چکی ہے، اور اس تناظرمیں دیکھا جائے تو وزیراعظم خراب کارکردگی والے وزرا کوتبدیل کرنے جارہے ہیں ، یہ غیر معمولی شیک اپ ہوگا جس سے وزراء سمیت  بیوروکریسی ، انتظامی ڈھانچہ اور پولیس سسٹم تک میں فیصلوں کے زلزلے کی گڑگڑاہٹ محسوس کی جا سکے گی۔

دریں اثناء پہلی بار وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ڈانٹ پڑی ہے، وزیراعظم نے ان سے ڈنگی کے بے قابو ہونے اور سیکڑوں قیمتی جانوں کے اتلاف پر پنجاب کے محکمہ صحت پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عثمان بزدار کو ایک ہفتے کی مہلت دے دی ہے، بتایا جاتا ہے کہ گڈگورننس کے فقدان اور وزرا کے شاہانہ طرز عمل اور تجاہل عارفانہ کے خلاف پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ارکان پھٹ پڑے۔ تاہم بنیادی تطہیر اور تبدیلی اس وقت تک بے معنی ہوگی جب تک وفاقی کابینہ میں رد وبدل اور گڈگورننس کے اثرات نچلی سطح تک عوامی مسائل کے حل میں ممد ومعاون ثابت نہیں ہوتے، عوام ریلیف کو ترس رہی ہیں۔

مہنگائی بے قابو جب کہ غربت اور بیروزگاری پہلے دن سے آج تک سر موکسی تبدیلی اور ترقی و خوشحالی کا عندیہ دینے سے قاصر ہے، معاشی ثمرات میں دیر نہیں لگانی چاہیے۔گورنراسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ حکومت معاشی استحکام اورکاروبارمیں آسانی پیدا کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔

ملک میں بچت اور سرمایہ کاری بڑھانے کی ضرورت ہے ، سرمایہ کاری کی راہ میں آنے والی مشکلات کو ختم کرنا ہوگا۔ وہ یقین دلاتے ہیں کہ عالمی مارکیٹوں میں پاکستان کی خدمات اور اشیاء مسابقت کے قابل ہونے کی صورت میں معاشی استحکام آئے گا، پاکستان انٹرپرینیورکا ٹیلنٹ بہت زیادہ ہے اور آئیڈیازکی بھی کوئی کمی نہیں، نجی سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے ماحول پیدا کرنا پڑے گا۔

صحت مند مسابقت کاماحول پیدا کرنے کے لیے مسابقتی کمیشن کا اہم کردارہے۔ انھوں نے کہاکہ آئی ایم ایف آخری سہولت تھی جو استعمال ہوئی، شرح مبادلہ کو مارکیٹ سے ہم آہنگ کیا گیا۔ مارکیٹ بیس ریٹ مارکیٹ کے حالات اور توقعات کا حاصل ہے۔ توقعات بسا اوقات زیادہ ہوجاتی ہیں اس صورتحال میں اسٹیٹ بینک مداخلت کرے گا۔کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہورہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خسارہ صرف درآمدات کم کرکے کم ہوا ہے اوربرآمدات کا حجم بھی بڑھا ہے۔ سرمایہ کاری کے کھاتوں میں رقوم آرہی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ تبدیلی مشکل تھی لیکن شرح تبادلہ کو استحکام ہے۔ڈیٹا بتاتا ہے کہ نجی سرمایہ کاری کم شرح پر بھی نہیں بڑھ رہی تھی۔ پالیسی ریٹ پر تنقید ہے کہ سرمایہ کاری کم ہوگی۔

انھوں نے کہاکہ حکومت نے اسٹیٹ بینک سے قرض نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ زرمبادلہ ذخائر سب سے پہلے آئی ایم ایف پروگرام کا پتہ دیتے ہیں۔ نجی سرمایہ کاری بڑھانے کی اور وجوہات ہیں۔ زرمبادلہ ذخائر میں اس وقت اضافہ ہوتا ہے جب اسٹیٹ بینک مارکیٹ میں ڈالر بیچتاہے، اس عمل سے متعلق مالیاتی ڈسپلن بنا رہے گا۔ ہم خطے میں سب سے کم سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ سیونگ بڑھا کر سرمایہ کاری بڑھانے کی ضرورت ہے جس میں اضافہ نہیں ہورہا ۔ مجھے تشویش ہے کہ ریفارم کا سلسلہ جاری رہے گا۔

صرف شرح سود سے نمو نہیں بڑھے گی۔ تاہم معیشت مستحکم ہورہی ہے۔ ایز آف ڈوئنگ بزنس کا بڑا عمل دخل ہوگا۔ پالیسی ریٹ سوا تیرہ ہے۔ رواں سال ہمارے مہنگائی بڑھنے کا تخمینہ 12 فیصد ہے۔ ایکسپورٹ بڑھائے بغیر ہم اپنا معیار زندگی نہیں بڑھا سکتے۔ شرح سود بچت بڑھاتی ہیں۔ فن ٹیک اور ٹیکنالوجی بچتوں کو بڑھایا جا سکتا ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقرکا کہنا ہے کہ ملکی قرض جی ڈی پی کا 80 فیصد ہوگیا ہے۔ حکومت معاشی استحکام اورکاروبارمیں آسانی پیداکرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ ملک میں بچت اور سرمایہ کاری بڑھانے کی ضرورت ہے۔ سرمایہ کاری کی راہ میں آنیوالی مشکلات کوختم کرناہوگا۔

گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو کرنٹ اکاؤنٹ اور مالیاتی خساروں جیسے دو اہم مسائل کا سامنا رہا ہے۔ماہانہ دو ارب ڈالر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہواتھا۔ 2014 سے 2017 کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ماہانہ 2 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا تھا۔

گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ ملک کی معیشت کا دوسرا بڑا مسئلہ مالیاتی خسارہ ہے، بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر بھی تسلسل سے گرتے رہے۔رضا باقر کا مزید کہنا تھا کہ مہنگائی بڑھنے کا سبب بیرونی اور اندرونی وجوہ ہیں۔ ملکی قرض جی ڈی پی کا 80 فیصد ہوگیا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کے بعد برآمدات میں بہتری ہونا شروع ہوئی ہے۔گزشتہ مالی سال کے دوران ملکی برآمدات کا حجم 12 فیصد تھا جو اب بڑھ کر 27 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ اب ماہانہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مسلسل گھٹ کر نصف سے بھی کم ہوگیا ہے، مئی 2019 میں ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ کے طلب و رسد کے تابع رکھا گیا۔

اعدادوشمار کے سرکاری تناظر میں ارباب اختیار کو معاشی نمو اور ترقی و خوشحالی کے دعوؤںکو زمینی حقائق سے جانچنا چاہیے۔ سب اچھا نہیں ہے۔ بدترین لوڈ شیڈنگ جاری ہے، مہنگائی کا جن ناچ رہا ہے۔ اسٹریٹ کرائمز اوربہیمانہ جرائم بڑھ گئے ہیں۔ تعلیم وصحت کی صورتحال جوں کی توں ہے۔ لازمی ہے کہ حکومت معاشی منظر نامہ میں عوام کی توقعات کے مطابق تبدیلیاں لائے، عوام کو جمہوری ثمرات کا ملنا اب یقینی ہونا چاہیے۔

The post معاشی ثمرات کی فراہمی اصل چیلنج appeared first on ایکسپریس اردو.

برق گرتی بھی ہے تو مزدوروں پر

$
0
0

گزشتہ ایک سال میں محنت کشوں پر مہنگائی کی جتنی برق گری ہے، اتنی شاید ہی کسی اور طبقے پر گری ہو۔ ہر چند کہ مہنگائی اور بیروزگاری کے اثرات تمام نچلے درجات کے لوگوں پر پڑے ہیں، لیکن مزدور تو ایک طرح سے نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

اس لیے بھی کہ حکومت نے ایک غیر ہنرمند مزدور کی تنخواہ ساڑھے سترہ ہزار روپے مقرر کی ہے لیکن 80 فیصد مزدوروں کو یہ بھی میسر نہیں۔ اربوں روپے کے سامان حرب بنائے اور خریدے جاتے ہیں لیکن ایک کسان کے بیٹے کو کتے کے کاٹنے کے بعد ویکسین نہ ہونے وہ ماں کی گود میں تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے اور دھن والے ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں ٹی وی پر دیکھ کر افسوس کرتے ہیں۔ دوزخ کا نظارہ بہت ہی دردناک ہوتا ہے مگر اسے دور سے ہی دیکھنا امیروں کے لیے اچھا ہے۔

اگر ایک مزدور سب کچھ چھوڑ کر صرف سبزی، دال اور آٹے سے جینا چاہے تو بھی اسے نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ اس لیے کہ سبزی سو سے ڈیڑھ سو روپے کلو، دالیں ایک سو ساٹھ سے دو سو تیس روپے کلو اور آٹا پچپن روپے کلو ہے۔

اب اسے پکانے کے لیے مرچ مسالہ، تیل، لہسن، ادرک اور پیاز کی ضرورت ہے۔ مسالے چار سو روپے کلو، لہسن دو سو چالیس روپے کلو، ادرک تین سو بیس روپے کلو، پیاز نوے روپے کلو اور تیل دو سو پینتیس روپے کلو، ایک کمرے کے مکان کا کرایہ چھ ہزار روپے ہے، پانی پینے کا چھوٹا کین بغیر معدنیات کے پندرہ روپے کا، گیس بجلی کا خرچ ایک روز کا کم از کم ایک سو پچاس روپے پڑتا ہے۔ اب بتائیں کہ آٹھ سو سے بارہ سو روپے دیہاڑی پر کام کرنے والا مزدور کیسے گزارا کرتا ہوگا؟

ہر جگہ اور ہر ادارے میں مزدوروں کے حاصل شدہ حقوق کو سرمایہ دار چھینتا جا رہا ہے۔ جیساکہ حسن ابدال شہر کے مضافات میں واقع ایک جرمن کمپنی میں پچیس سال سے چار سو مزدور مختلف شعبوں میں کام کرتے آرہے ہیں۔ کمپنی نے مزدوروں کے تمام حقوق جو آئین پاکستان کی رو سے اور بین الاقوامی لیبر قوانین کے مطابق تمام مراعات حذف کی ہوئی ہیں۔ کمپنی کے کچھ شعبوں کو غیر قانونی ٹھیکیداروں کے حوالے کرکے بے وجود نام نہاد کمپنیوں کا نام استعمال کر رہی ہیں۔

ایک جانب مزدور اپنے حقوق کے حصول کی لڑائی لڑ رہے ہیں تو دوسری طرف انتظامیہ اپنی جانب سے مزدوروں کے خلاف غیر قانونی کارروائی کر رہی ہے‘ جس کے نتیجے میں مزدوروں کا روزگار چھینا جا رہا ہے جب کہ مزدوروں کا یہ مطالبہ ہے کہ ٹھیکیداری نظام کو ختم کر کے تمام مزدوروں کو مستقل کیا جائے۔

ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک نوجوان نے اپنے انٹرویو میں بیروزگاری، مہنگائی اور ماحولیات پر بڑی دلچسپ اور مدلل نکات اٹھائے۔ انھوں نے کہا کہ جب سے مشترکہ ملکیت اور ساجھے داری کی پیداوار ختم ہوئی اور انفرادی منافع خوری کی ریت شروع ہوئی تب ہی سے عوام کے مسائل میں اضافہ ہوا۔ انھوں نے کہا کہ بعض لوگ سرمایہ داری کو ایک فطری نظام قرار دیتے ہیں۔ تو کیا ایک سو پچاس سال کا دور فطری ہے اور ایک لاکھ پچاس ہزار سال کا دور غیر فطری تھا؟ انھوں نے یہ بھی کہا کہ سرمایہ دار اپنی پیداوار کو پروان چڑھانے کے لیے جو اشتہار بازی کرتا ہے وہ روزانہ اس دنیا میں ایک اعشاریہ دو ٹریلین ڈالر صرف اشتہار پر خرچ ہوتا ہے۔ خود سوچیں کہ پھر لوٹتا کتنا ہوگا؟

قصور میں بچے تو مرگئے، جتنے ہلاکو مرے، چنگیز مرے، ڈاکو مرے شہید ہوئے۔ قصور میں کسانوں کے بچے قتل کر دیے گئے۔ اگر کسی جاگیردار، سرمایہ دار، جنرل، علمائے سو، نوکر شاہی یا امریکی سفیر کا بچہ مرتا تو قیامت برپا ہو جاتی۔ میڈیا پر خبر نشر ہونے کے بعد ہی حکمران بشمول پولیس ایکشن میں آئی، ورنہ یہ جرائم پولیس کی سرپرستی میں پھیلتے چلے جاتے۔

کسی انقلابی فلسفی نے درست کہا تھا کہ پولیس جرائم پھیلاتی ہے، ڈاکٹر مرض پھیلاتا ہے، صحافی جھوٹ پھیلاتا ہے، عدلیہ ناانصافی پھیلاتی ہے، علما مذہب سے دور بھگاتے ہیں، وکیل خلفشار پھیلاتے ہیں اور فوج خون بہاتی ہے۔ ان اداروں کو ختم کر دیں تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ایک طرف آئی ایم ایف کی شرائط کو مانتے ہوئے ہماری حکومت نے مہنگائی کی انتہا کر دی اور مزید کرتی جا رہی ہے۔

آئی ایم ایف کا وفد آج کل پاکستان میں ہے اور ہماری حکومت کو تھپکی دیتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ خوب ہے اسے مزید بڑھاتے جاؤ۔ جب کہ آج ہی میرے پاس مردان سے محمد نثار کا ایک فون آیا۔ ان کا کہنا ہے کہ میرے پانچ بچے ہیں اور سب بیروزگار ہیں۔ بچے ہنرمند بھی ہیں، میری بیوی بیمار ہے۔ کھانے کو گھر میں آٹا نہیں تھا۔ کسی دوست سے ایک ہزار روپے قرض لے کر آٹا لایا۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمیں حکومت گزارا الاؤنس فراہم کرے یا پھر بچوں کو روزگار دے، اس وقت ہماری نوبت نیم فاقہ کشی کی ہے۔ جب کہ دوسری طرف دس بڑے آلات حرب کی پیداوار کرنے والے ممالک میں بھارت اور پاکستان بھی شریک ہے۔ تعلیم اور صحت کی خدمات میں بھارت اور پاکستان کا نمبر سب سے آخر میں آتا ہے۔

اس کے حل کا آسان سا راستہ ہے کہ دونوں ممالک اسلحے کی پیداوار اور خرید بند کر دیں، سرحدیں ختم کر دیں۔ جو جہاں جانا چاہتا ہے وہاں جا سکتا ہے۔ اس سے کھربوں روپے کی (اسلحہ کی پیداوار اور خرید) یعنی غیر پیداواری اخراجات کی کمی ہونے سے یہ رقم مہنگائی، بیروزگاری اور صحت کے شعبوں میں استعمال کر کے اس خطے کو جنت نظیر بنایا جا سکتا ہے، شاداب اور ماحول دوست بنایا جا سکتا ہے۔

مزدوروں کی حالت زار صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ تیل سے مالا مال صرف اٹھارہ لاکھ کی مقامی آبادی والا خلیجی ملک قطر میں پاکستانی مزدوروں کی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ یہاں اصلاحات کے باوجود ان مزدوروں کو تباہ کن حالات کا سامنا ہے۔انھیں کئی مہینوں سے تنخواہیں بھی ادا نہیں کی گئی ہیں اور قطری محکموں کی جانب سے ان سے کم ہی تعاون کیا جا رہا ہے۔ جب کہ دوسری جانب دو ہزار بائیس کی فٹبال کے عالمی کپ کی تیاریوں کے سلسلے میں بڑے بڑے تعمیراتی منصوبے جاری ہیں۔ ہرچند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی امداد باہمی کے سماج میں ہی ممکن ہے۔

The post برق گرتی بھی ہے تو مزدوروں پر appeared first on ایکسپریس اردو.

آزادی مارچ اور پیپلزپارٹی

$
0
0

مولانا فضل الرحمٰن پہلے دن سے عمران خان کے خلاف رہے ہیں اور خود عمران خان نے بھی فضل الرحمن سے کبھی دوستی اور ہم آہنگی نبھانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ ڈاکٹر طاہر القادری سے تو سمجھوتہ کرسکتے ہیں اور کرتے رہے ہیں لیکن مولانا سے ہلکا ہاتھ رکھنے کو تیار نہیں ہوئے۔ بلکہ دھرنے والے دنوں سے لے کر مولانا کی بے عزتی کرنے میں خان صاحب کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔

عمران خان کے ووٹرز بھی مولانا کی توہین کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ لال حویلی کے مکین شیخ رشید بھی اُن کی دیکھا دیکھی مولانا کی ہتک کرنے میں پیچھے نہیں رہنا چاہتے۔ حالانکہ پرویز مشرف اور ایم آرڈی کے زمانے میں شیخ رشید مولانا کی سیاست کے سب سے بڑے قصیدہ گو رہ چکے ہیں۔ جب خیبر پختونخوا میں مذہبی جماعتوں پر مشتمل کے اتحاد ایم آرڈی کی حکومت تھی اور ایک آمرکے غلط کاموں کو قانونی تحفظ دینے کے لیے آئین میں ترمیم کی سخت ضرورت تھی۔

اُس وقت مولانا فضل الرحمٰن ہی حکومت کے کام آئے اوردیگر جماعتوں کے سخت مخالفت کے باوجود وہ پرویز مشرف کے اِس وعدے پر کہ آنے والے دسمبر میں وہ وردی اُتار دیں گے وہ مجوزہ سترھویں آئینی ترمیم پر رضا مند ہو گئے۔ مولانا کی سیاست کے شیخ رشید اُن دنوں بہت دلدادہ تھے اور ساری حزب مخالف میں ایک مولانا ہی شیخ رشید کو سب سے ذہین، سمجھدار اور قابل سیاسی رہنما دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن آج چونکہ مولانا عمرانی حکومت کے سب سے بڑے مخالف ہیں تو وہی ممدوح مولانا، شیخ رشید کو سب سے زیادہ ناگوار اور ناپسندیدہ معلوم ہو رہے ہیں۔

مولانا ویسے تو پہلے دن ہی سے اِس حکومت کے سخت مخالف ہیں کیونکہ وہ اِسے عوام کے ووٹوں والی حقیقی حکومت سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ اُن کے بقول اِسے زبردستی ہمارے سروں پر مسلط کیا گیا ہے۔ حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کا بھی یہی مؤقف ہے لیکن وہ مولانا کی طرح فی الحال کسی تحریک یا ایجی ٹیشن پر راضی نہیں ہیں۔ اُن کے خیال میں حکومت کے کارکردگی اِس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے پانچ سال پورے کر پائے۔ عوام رفتہ رفتہ اُس کے خلاف خود ہی سڑکوں پر نکل آئیں گے۔

اور یوں اِسے لانے والے خود ہی اپنے فیصلوں پر پچھتائیں گے ۔ لہذا فی الحال ہمیں حکومت گرانے میں اتنی جلد بازی نہیں کرنی چاہیے، مگر مولانا دسمبر سے پہلے پہلے آزادی مارچ کرنے اور اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کی کوشش ہے کہ حزب اختلاف کی دیگر دو بڑی جماعتیں بھی اُن کے ساتھ اِس مارچ کا حصہ بنیں۔ اور اِس مقصد سے وہ گزشتہ تین ماہ سے گفت و شنید بھی کر رہے ہیں لیکن ملک کی دونوں سیاسی جماعتیں کوئی جواب دینے سے قاصر ہیں۔

مسلم لیگ (ن) نے کچھ کچھ رضامندی ظاہر کی ہے لیکن انھیں بھی دسمبر سے پہلے ایسی کسی تحریک کی کامیابی کے آثار دکھائی نہیںدیتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مولانا کو کوئی حتمی تاریخ دینے سے انکاری ہیں۔ وہ سمجھتی ہے کہ اگر یہ تحریک ناکامی سے دوچار ہو گئی تو اُن کی ساری سیاست پر پانی پھر جائے گا اور یوں ہو سکتا ہے وہ پہلے سے بھی زیادہ سخت مشکلات سے دوچار ہو جائیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی مکمل اور واضح طور پر اِس وقت کسی بھی احتجاجی تحریک کا حصہ بننے پر تیار نہیں ہے۔ سیاسی فیصلے کرنے میں پیپلز پارٹی سے زیادہ کوئی بھی سیاسی پارٹی ایسی نہیں ہے جو اُسے مات دے سکے۔

اُس کے سارے فیصلے تمام ممکنہ نتائج کو سامنے رکھ کرکیے جاتے ہیں۔ وہ مفادات اور مصلحت پسندی کے اُصولوں پر سختی سے قائم ہے، وہ جب چاہتی ہے تو سینیٹ کا حلیہ بدل دیتی ہے اور جب چاہتی ہے تو خاموشی کے ساتھ سمجھوتہ کرلیتی ہے۔ مسلم لیگ اگر اُس کے سابقہ چیئرمین رضا ربانی کی حمایت کرنے لگے تووہ اسٹیبلشمنٹ کے تیور دیکھتے ہوئے اُس سے بھی اپنا ہاتھ اُٹھا لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکیاں بھی دیکرکسی ایسے عذاب اور عتاب سے محفوظ رہی ہے جن سے میاں نواز شریف اپنے بھولے پن کی وجہ سے آج گزر رہے ہیں۔

سیاست میں جس ہشیاری اور چالبازی کی ضرورت ہوتی ہے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اُس سے پوری طرح واقف ہے۔ وہ جب چاہتی ہے بلوچستان کی صوبائی حکومت لمحوں میں گرا سکتی ہے اور سینیٹ میں مسلم لیگ کو نیچا دکھانے کے لیے رضاربانی کی قربانی دیکر ایک ایسا چیئرمین منتخب کروا سکتی ہے جس کے انتخاب کو پی ٹی آئی بھی اپنی جیت تصور کر رہی ہو۔ اُس کی خوبی یہ ہے کہ وہ بظاہر کسی ایسی تحریک کا حصہ بننا نہیں چاہتی جس سے حکومت کو قبل ازوقت گرایا جا سکے۔ یوں وہ موجودہ حکمرانوں کو یہ پیغام بھی دینا چاہتی ہے کہ وہ بھی ہمارے معاملے میں اپنا ہاتھ ہلکا رکھے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی صوبائی حکومت کو بھی کسی ممکنہ بحران سے بچائے رکھنا چاہتی ہے۔

پیپلز پارٹی کے بڑے بڑے فیصلے آج بھی آصف زرداری کر رہے ہیں۔ وہ جتنے ذہین، دور اندیش اور بالغ نظر ہیں پاکستان کی موجودہ سیاسی کھیپ میں اُن کا ثانی کوئی نہیں ۔ وہ مولانا کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتے لیکن اُن کے کہنے پرکسی ایسی تحریک کا حصہ بھی نہیں بننا چاہتے جو موجودہ حکومت کے زوال کا باعث بنے۔ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اِس وقت پنجاب میں پیپلز پارٹی کا عملاً کوئی وجود نہیں۔ موجودہ حکومت کی معزولی کے نتیجے میں اگر قبل از وقت انتخابات ہوئے تو اقتدار پھر بھی اُن کے ہاتھ نہیں آئے گا۔ لہذا پھر وہ ایسی کسی تحریک کاحصہ بھلا کیونکر بنیں۔ اُن کا مؤقف ہے کہ ہم دھرنے کی سیاست کے حامی اور قائل نہیں ہیں۔

ہم نے بھی خان صاحب کے دھرنے کی مخالف اِسی لیے کی تھی حالانکہ ہم اُس وقت اپوزیشن کا حصہ تھے اور ہماری سب سے بڑی مخالف جماعت مسلم لیگ (ن) برسراقتدار تھی۔ ہم چاہتے تو پی ٹی آئی کے ساتھ ملکر حکومت کا تختہ گول کر سکتے تھے لیکن جمہوریت کی خاطر ہم نے ایساکرنے سے اجتناب برتا، ہم آج بھی اِسی مؤقف پر سختی سے قائم ہیں۔ بظاہر یہ مؤقٖف انتہائی مناسب اور قابل ستائش ہے لیکن بلوچستان کی مسلم لیگی حکومت گرانے میں جو ہنر مندی اور چابک دستی اُس وقت زرداری صاحب نے دکھائی تھی وہ کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں ہے۔ اُس وقت انھیں جمہوریت کے اُصولوں کی پاسداری شاید یاد نہیں رہی تھی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت آج کل احتساب کے مراحل سے گزر رہی ہے۔

اندرون خانہ کسی خفیہ سمجھوتے اور ڈیل کے امکانات سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پیپلز پارٹی کا مولانا کے دھرنے سے انکار اُن کے لیے کسی ممکنہ ریلیف اور راحت کا باعث بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹریٹ پاور دکھانے کی سب سے بڑی دعویدار جماعت مولانا کے مارچ میں بھی شرکت سے گریزاں ہے۔ وہ مولانا کو مکمل مایوس اور انکار بھی نہیں کر رہی لیکن مولانا کے ساتھ کسی احتجاج میں شامل بھی ہونا نہیں چاہتی۔ اُسے اِس احتجاج کے تمام ممکنہ نتائج کا ادراک بھی ہے کہ کامیابی کی صورت میں بھی اُس کے سر پر اسلام آباد میںحکمرانی کا تاج ہرگز نہیں سجے گا اور اُس کے حصے میں وہی ایک صوبائی حکومت آئے گی لیکن ناکامی کی صورت میں وہ شاید اِس سے بھی محروم ہو جائے۔ اِسی لیے وہ یہ خطرہ ہرگز ہرگز مول نہیں لے سکتی۔

The post آزادی مارچ اور پیپلزپارٹی appeared first on ایکسپریس اردو.

اپنا کراچی

$
0
0

وہ خاصے مذہبی ہیں، گھر میں داخل ہوتے زوردار آواز سے سلام کرتے ہیں۔ ان کے جوان اور کچھ ادھیڑ عمر کے صاحبزادوں کی بھی یہ بہت اچھی عادت ہے۔ والد بزرگوار آنے جانے والوں، ٹھیلے والوں، سبزی والوں اور کام کرنے والوں سے بھی مسکرا کر خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ خاصے مقبول بھی ہیں۔

نمازی پرہیزگار ہیں حاجی بھی ہیں، اسی سال ان کی اہلیہ اور بیچ کے صاحبزادے بھی حج کی سعادت حاصل کر چکے ہیں۔ایسا نہیں کہ وہ صرف مذہبی ہیں بلکہ وہ اور ان کی فیملی پڑھی لکھی، باشعور بھی ہے پردے کا اپنے خاندان میں بہت خیال کرتے ہیں۔ خیر سے ایک ہی گھر میں پانچ چھ بیٹے بمعہ اہل و عیال کے بڑے سکون سے رہتے ہیں۔

کسی بڑے مفکر نے انسان کو معاشرتی حیوان بھی قرار دیا ہے اب یہ ان بڑے لوگوں نے کیوں کہا اور کس لیے کہا کچھ ایسا ہی درج بالا تحریر میں صاحب کے متعلق کہتے عجیب سا تو محسوس ہے لیکن یہ نامناسب بھی نہیں ہے۔ پانی کی کمی کا شکار کراچی ہمیشہ اپنے شہریوں کو پانی کی قدر کرنے کا احساس دلاتا رہا ہے لیکن یہاں یہ حال تھا کہ گو سرکاری نل سے پانی کم کم ہی آتا تھا لیکن برقیاتی مشین اس کی تلاش میں ساری ساری رات چلتی رہتی اور جب پانی کی موٹر نیچے ٹینک سے اوپر چھت پر بنے ٹینک پر منتقلی کے لیے چلتی تو وہ بھی بڑی مشکل سے رکتی ساری گلی اس مصنوعی بارش سے بھیگتی رہتی۔

عید کے روز ساری فیملی نماز پڑھنے چلی گئی یقینا پانی کی ضرورت کے باعث موٹر چلائی گئی ہوگی تو پھر رکی نہیں جب ڈیڑھ گھنٹے بعد وہ لوگ پلٹے تو اس وقت تک سارے محلے والے اور گزرنے والے اپنے نئے نکور کپڑوں کو پانی کے چھینٹے اور مصنوعی ندی کے بہاؤ سے بچاتے اور انھیں مغلظات سے نوازتے جاتے۔

سرکاری پانی سے چھیڑ چھاڑ شروع ہوئی تو اس قلت کو پورا کرنے کے لیے قدرتی طور پر پانی حاصل کرنے کے لیے بغیر کسی روک ٹوک کا کنواں کھدوا لیا گیا تب سے لے کر اب تک گھر کے سامنے ایک کیچڑ کا سماں ہی رہتا ہے سنا تھا کہ نیچے کا باتھ روم خراب تھا۔ لہٰذا کپڑے بھی اس طرح دھوئے جاتے رہے کہ ان کا پانی گلی کی سڑک پر بے دھڑک چھوڑ دیا جاتا پھر کچھ لوگوں نے سمجھایا کچھ منت کچھ سماجت کام آئی یوں اس جان کے جلاپے سے تو ذرا جان بچی پر اب گھر کے سامنے گٹر کے ڈھکن کو ذرا سا سرکا دیا گیا ہے تاکہ اوپر سے ٹینک سے برستے پانی کو اپنا راستہ بنانے میں دقت نہ ہو۔

صاحبو! بات اسی پر ختم نہیں ہوتی ہے۔ سال بھر بعد گھر بھر کی چپلیں، جوتے ہر سائز کے گھر کے چبوترے پر کوڑے کی مانند ڈھیر کردیے جاتے ہیں اب آتے جاتے جس غریب غربا کا دل چاہے سائز چیک کرے اور لے جائے کچھ یہی حال کپڑوں کا بھی ہے کہ پڑے رہتے ہیں اور پوچھنے والا کوئی نہیں۔ صرف یہی نہیں گھر میں کسی قسم کا بھی کام ہو مثلاً سفیدی، پلمبری، بقر عید کے بکرے گائے وغیرہ تو پہلے تو گھر میں ہی کوڑے کو سنبھالا جاتا ہے پھر ایک دن سب یا تو چبوترے پر ڈھیر ورنہ ردی پیپر والے کو بیچ دیا گیا اور جو بچ گیا پھر گھر کے باہر۔ رات کے بارہ بجے یا دو اگر ان کے گھر میں مہمانوں کی آمد و رفت ہے تو سمجھ لیں کہ رات کی نیند غائب۔ غرض پانچ چھ اسکوٹروں کا اسٹینڈ گاڑیوں کا شور اور بلند ہارن اب کون سمجھا سکے کہ صاحب تو خود ہی عالم ہیں۔

وزیر اطلاعات و محنت سندھ سعید غنی نے کراچی میں صفائی کی مہم کے حوالے سے سیوریج میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کے خلاف حکومت کی مدد کرنے والوں کے لیے ایک لاکھ روپے کا نقدی کی صورت میں انعام کا اعلان کیا ہے۔ یہ سن کر کچھ حیرت اور کچھ مسرت بھی ہوئی۔ یہ درست ہے کہ پچھلے چند مہینوں سے کراچی کے گٹر ابل رہے ہیں، سڑکیں گندے پانیوں سے سیراب ہیں اور اب بارشوں کے حوالے سے بھی ایسی ہی صورتحال ہے اپنے کراچی کی یہ حالت پہلے تو نہ تھی۔ جو ہم اور عام لوگ نہیں جانتے وہ دوسرے لوگ سب جانتے ہیں کہ کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلایا جاتا تھا گندگی و غلاظت کے حوالے سے دنیا بھر میں ممتاز ہوتا جا رہا ہے۔

گٹروں اور نالوں کو جیسے سیل کردیا گیا ہے۔ بہت سے نادیدہ افراد کے علاوہ بھی دیدہ ور اس قسم کے عمل میں انجانے میں ہی ملوث ہیں انھیں کوڑے سے صرف سازشی عناصر ہی نہیں بھرتے بلکہ غیر سازشی عناصر بھی اپنا فرض سمجھ کر ادا کرتے چلے جاتے ہیں۔ وزیر اطلاعات کا کہنا بھی بالکل درست ہے کہ شہر بھر میں چار لاکھ سے زائد مین ہولز اور ہزاروں کلو میٹر کی سڑکوں پر حکومت پہرہ نہیں دے سکتی۔

کیونکہ ان مین ہولز اور سڑکوں کا استعمال صرف حکومتی ادارے ہی نہیں بلکہ ہر طرح کی عوام کرتی ہے۔ آج ہم سب سڑکوں کی بری حالت پر چیخ رہے ہیں، گندے پانیوں سے جہاں گاڑیوں اور اسکوٹر سواروں کا نکلنا محال ہے ذرا سوچیے پیدل چلنے والوں کے لیے ایسے مقامات کتنے اذیت ناک ہوتے ہیں۔

خوبصورت سڑکوں کے کنارے اور درمیان میں ہرے بھرے درخت لہلہا رہے ہیں وہیں ان کے ساتھ ساتھ سڑک پر کوڑے کی ڈھیریاں ہماری معاشرتی حیوانیت کا مذاق اڑا رہی ہیں کہ یہ وہی کراچی شہر ہے جہاں کبھی سڑکیں پانی سے دھلا کرتی تھیں ، جہاں فجر کی اذانوں سے پہلے خاکروبوں کی جھاڑو لگانے کی آواز سے خاتون خانہ جاگ جایا کرتی تھیں اس زمانے میں اوور ہیڈ برجز گنتی کے ہوں گے لیکن سڑکیں صاف ستھری سیاہ تارکول کی چمکتی نظر آتی تھیں جہاں بارشوں کے بعد چھوٹے بڑے گڑھوں کی بھرمار نہ ہوتی تھی۔

گٹروں کے اوپر لوہے کے بھاری ڈھکن ہوا کرتے ہیں۔ گھروں کے پیچھے ذرا چھوٹی گلیاں صاف ستھری ہوا کرتی تھیں اور کہیں تو سیمنٹ و بجری سے پکی بھی تھیں۔ ہر علاقے میں بچوں کے لیے ایک پارک ہوا کرتا تھا جس کے کھلنے کے اوقات شام کے ہوا کرتے تھے اور مغرب کے بعد اندھیرا پھیلنے سے پہلے مالی حضرات تالے ڈال دیا کرتے تھے۔ باغوں میں ہری بھری گھاس اور رنگ برنگے پھول بھی ہوا کرتے تھے گو بچوں کے لیے اس وقت طرح طرح کے جھولے نہ ہوا کرتے تھے پر دو تین طرح کے کھیلنے کے جھولے اور دیگر ہوا کرتے تھے۔

پانی کی تلاش میں برقیاتی مشینوں کو چلایا نہ جاتا تھا، لوگوں کی آنکھوں میں شرم و مروت ہوا کرتی تھی وہ بزرگ جو باقاعدگی سے نماز پڑھنے مسجد جاتے بچے خوشی خوشی دوڑ کر ان سے ہاتھ ملانے میں مسرت محسوس کرتے۔ وہ میرا اپنا کراچی تھا۔ آج بھی میرا ہی ہے لیکن آج سیوریج میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کو پکڑنے کے لیے انعام کا اعلان ہوا ہے گھروں سے باہر کوڑا کرکٹ اور ملبہ پھینکنے والوں اور تھوکنے والوں کو سزا۔ شاید اس لیے کہ ہم علم رکھتے ہوئے بھی لاعلم ہیں گو ہم سب جانتے ہیں کہ ’’صفائی نصف ایمان ہے۔‘‘

The post اپنا کراچی appeared first on ایکسپریس اردو.

پاک بھارت تعلقات: پاکستان کو اب بولڈ فیصلے کرنا ہوں گے!

$
0
0

اقوام متحدہ کا اجلاس ہوگیا، جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کی بہترین تقریر بھی ہو گئی، وہ وطن واپس بھی پہنچ گئے، کابینہ کا اجلاس بھی ہوگیا، پنجاب و وفاق کی کابینہ میں دوبارہ اکھاڑ پچھاڑ کا فیصلہ بھی ہوگیا، اقوام متحدہ میں موجود ملیحہ لودھی اور کئی سفارتکاروں کو تبدیل کر دیا گیا، مگر اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اب پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟کیوں کہ اس وقت پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نمٹنا ہی سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔

ان مسائل میں سرفہرست مسئلہ کشمیر، معیشت، خارجہ امور اور اندرونی امن و امان اور انتظامی مسائل۔ اگر ہم مسئلہ کشمیر کی بات کریں تو وہاں آج دو ماہ ہوگئے کرفیو لگا ہوا ہے، اور کشمیر سے آنے والی خبروں کا کوئی حقیقی سورس بھی نہیں مل پار ہا کہ 80لاکھ مسلمانوں بلکہ سب سے  بڑھ کر انسانوں کی کیا حالت ہوگی؟

اس حوالے سے پاک فوج اور حکومت کی کیا حکمت عملی ہے وہ بہتر جانتے ہیں اور یقینا ہماری پاک فوج بہتر حکمت عملی بنا رہی ہوگی ، جس کا آنے والے دنوں میں یقینا اندازہ ہو جائے گا۔ مگر پاکستان کی حکومت کے لیے جو کرنے والے کام ہیں انھیں ضرور کرنا چاہیے، تاکہ ہم احتجاج سے آگے بڑھ کر کوئی اور حکمت عملی بھی بنا سکیں یا جوابی اقدامات کر سکیں جس سے یقینا بھارت کی حکومت پر دباؤ بڑھے گا۔

اس حوالے سے ہماری حکومت اگر چند ایک ضروری اقدامات کر لے تو یقینا فائدہ ہو سکتا ہے، جیسے حکومت ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائی کہ بھارت کی فضائی حدود کو بند کرنا ہے یا نہیں، کیوں کہ ہمارے وزیر ہوا بازی کے بقول پچھلی دفعہ فروری میں جب بھارت کی فضائی حدود کی بندش کی گئی تھی تو 4ماہ میں اُسے 44ارب روپے جب کہ پاکستان کو 8ارب روپے نقصان ہوا تھا۔ میری ناقص رائے اور حقیر سے تحقیق یہی کہتی ہے کہ اس میں کوئی قانونی پیچیدگی نہیں ہے اور کوئی ایسا قانون نہیں ہے جو ہمارے ملک کو اس سے روک سکے۔

پاکستانی فضائی حدود میں 11 ایسے راستے ہیں جو بھارت آنے یا جانے والے جہاز استعمال کرتے ہیں۔جب کہ بھارت کی سرکاری ایئر لائن ’’ایئر انڈیا‘‘ کی کم از کم 50 پروازیں روزانہ پاکستان کی فضائی حدود میں سے گزرتی ہیں۔جب کہ دیگر پرائیویٹ کمپنیوں کے جہاز اس کے علاوہ ہیں یعنی کم و بیش روزانہ 150پروازیں ایسی ہیں جنھیں پاکستانی حدود سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ اور سب سے اہم یہ کہ پابندی کی صورت میں بھارت اور یورپ، امریکا اور مشرق وسطی کے درمیان چلنے والی بھارتی پروازیں متاثر ہوں گی۔

نہ جانے پاکستان کی کیا مجبوری ہے کہ وہ بھارت کی فضائی حدود دوبارہ بند کرنے سے قاصر ہے، اس حوالے سے کابینہ کے اجلاس بھی ہوئے ہیں مگر وزیر اعظم اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کر پائے، ایسا شاید اس لیے ہے کہ فضائی حدود کی بند ش کے ردعمل میں دلی بھی ایسی پابندی عائد کر سکتا ہے۔ایسی صورت میں پاکستان اور مشرقی دنیا کے ملکوں کے درمیان چلنے والی پروازیں متاثر ہو سکتی ہیں۔

کیونکہ پاکستان اور مشرقی ممالک کے درمیان چلنے والی اکثر پروازیں بھارت کے اوپر سے ہو کر گزرتی ہیں۔دوسرا اس کے ساتھ اگر ہم بھارت کے ساتھ تجارت کی بات کریں تو اس میں بھی ہم شش و پنج میں مبتلا دکھائی دے رہے ہیں ، ہم کبھی تجارت بند کر دیتے ہیں تو کبھی اسے کھول دیتے ہیں جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت برائے نام رہ گئی ہے۔ خاص طور پر پاکستان کے لیے کیوں کہ بھارت محض چند اشیاء ہی پاکستان سے خریدتا ہے اور بدلے میں2ارب ڈالر کی چیزیں تھما دیتا ہے۔

میرے خیال میں پاکستان کو بھارت کے ساتھ تجارت بھی ختم کردینی چاہیے ، اور ہمیں ادویات سازی کے لیے را مٹیریل پورا کرنے کے لیے بھی دوسرے ممالک سے رجوع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اور ویسے بھی چونکہ پاکستان انڈیا کی نظر میں تجارت کے لیے ’’پسندیدہ ترین‘‘ نہیں رہا، کیوں کہ نریندر مودی نے پاکستان کو دیے گئے موسٹ فیورڈ نیشن کے درجے سے ہٹا دیا ہے۔

(ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کے قوانین کے تحت 1996 میں پاکستان کو دیا گیا ’’موسٹ فیورڈ نیشن‘‘ (ایم ایف این) یعنی تجارت کے لیے سب سے پسندیدہ ملک کا رتبہ واپس لے لیا ہے۔)اس لیے اس فیصلے کے بعدفوری طور پر پاکستان سے انڈیا برآمد ہونے والی تمام اشیا پر کسٹم ڈیوٹی 200 فیصد تک بڑھا دی گئی ہے۔200 فیصددرآمدی ڈیوٹی لگانے کا مطلب پاکستان سے درآمدات پر عملی طور پر پابندی لگانا ہی ہے۔ایسا نہیں ہے کہ ہماری بھارت کے ساتھ تجارت شروع سے ہی ایسی رہی ہے، بھارت اور پاکستان کی تجارت کا آغاز تقسیم ملک کے ساتھ ہی ہوگیا تھا۔ 1947سے شروع ہونے والی یہ دوطرفہ تجارت 1949 تک پہنچتے پہنچتے 58 فیصد ہوگئی تھی۔ پاکستان اپنا خام مال بھارت بھیجتا اور اس کے بدلے میں دوسری اشیاء درآمد کرتا۔

تیسر ایہ کہ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کی سرحد دنیا کی آدھی آبادی کے ساتھ لگتی ہے ، یعنی چین، ایران، افغانستان، بھارت اور کسی حد تک روس بھی اس لیے ہمیں اپنی تجارت پر زیادہ توجہ دینی چاہیے تاکہ ہم دنیا کی آدھی آبادی کے ساتھ تجارت کرسکیں۔اگر بھارت ہماری اشیاء نہیں خریدتا تو ہمیں نئے خریدار تلاش کرنا ہوں گے، اپنی پراڈکٹس میں جدت لانا ہوں گی۔ سوال یہ ہے کہ چین ، روس یا ایران ہماری کوئی چیز کیوں خریدے گا؟ جب ہماری پراڈکٹ میں انفرادیت کا عنصر ہوگا تبھی دنیا کی مارکیٹ ہمیں منہ لگائے گی۔

چوتھا یہ کہ ہمیں ملک میں حکومت کی رٹ بحال کرنا ہوگی، صرف ملک کے بارے میں سوچنا ہوگا، منی لانڈرنگ پر قابو پانے کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ یہ لوگ ریاست سے زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں، دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہم ’’معاشی دہشت گردوں‘‘ کو آج تک سزا نہیں دے سکے ، دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہم ٹیکس نہ دینے والوں کا محاسبہ نہیں کر پا رہے، الغرض ہر جانب ریاست کی رٹ ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ لہٰذاہمیں اپنی معاشی حالت بہتر بنانی چاہیے، اس کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہییں، ٹیکس نہ دینے والوں کا محاسبہ کرنا چاہیے، کاروباری ماحول کو بہتر بنانا چاہیے۔ اور سب سے بڑھ کر ہماری پالیسیوں میں تسلسل ہونا چاہیے تاکہ ہم ’’ٹکر‘‘ کی لڑائی لڑ سکیں!

The post پاک بھارت تعلقات: پاکستان کو اب بولڈ فیصلے کرنا ہوں گے! appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 22715 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>