وقت کا دھارا قوموں‘ نسلوں اور انسانوں کو ازل سے بہائے لیے جاتا ہے۔ اس دھارے میں ایک برس تو کیا ایک صدی کی بھی بھلا کیا حیثیت ہے۔ اس کے باوجود انسان اپنے معاملات کا تعین تقویم سے کرتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سرد جنگ کے دور میں 1968 کا سال بے حد اہمیت رکھتا ہے۔
اس وقت میکارتھی ازم یورپ‘ ایشیا ‘ افریقا اور لاطینی امریکا کی نوجوان نسل کے خوابوں کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کررہا تھا ‘ اس کے خلاف نوجوانوں کا اُبھار نہایت اہمیت رکھتا تھا اور اس کے اثرات تیسری دنیا کے ساتھ ہی یورپ پر بھی مرتب ہورہے تھے۔ سعید صاحب جب اس برس کے عنوان سے ایک باب لکھتے ہیں تو اس میں’ کمیٹی آف ہنڈرڈ‘ کے بارے میں لکھتے ہیںجو بیسویں صدی کے اہم ترین دانشور اور فلسفی برٹرینڈ رسل نے قائم کی تھی۔
وہ لکھتے ہیں کہ ویت نام میں امریکی جنگی جرائم کی تحقیق کے لیے رسل نے جو ٹریبونل بنایا‘ اس میں حمزہ علوی اس ٹریبونل کے ڈائریکٹر تھے اور بیرسٹر محمودعلی قصوری اس کے ایک رکن ۔ ان دوستوں اور شناساؤں کے درمیان وہ ہندوستان کے شعلہ بیاں سابق وزیر خارجہ وی کے مینن سے اپنی ایک دلچسپ ملاقات کا قصہ لکھتے ہیں۔یہ وہ زمانہ تھا جب کمیونسٹ ملکوں کا سفر آسان نہیں ہوتا تھا۔ اس کے باوجود سعید صاحب برطانیہ اور یورپ میں اپنے کمیونسٹ دوستوں کے توسط سے سوویت یونین کا سفر کرتے ہیں۔ زائرین کی طویل قطار میں انتظار کرنے کے بجائے انھیں براہ راست لینن کی حنوط شدہ لاش کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ وہ اپنے سوویت میزبانوں سے ڈاکٹر رشید جہاں کے مزار پر حاضری کی خواہش کرتے ہیں اور ان کی یہ خواہش پوری کی جاتی ہے۔
سعید صاحب کے دوستوں کے پَر دنیا میں ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں‘ اور ان کی اکثریت با اثر افراد اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والوں کی ہے ۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ فیروز گاندھی اور اندرا نہرو کی محبت جب پانی میں بتاشے کی طرح گھُل گئی تو دونوں علیحدہ ہوگئے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فیروز ایک نہایت حسین مسلمان لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوئے ۔ اندراجی نے فیروز کو اجازت دے دی کہ وہ اس لڑکی سے شادی کرسکتے ہیں لیکن لڑکی کا خاندان ظالم سماج بن گیا اور انھوں نے جھٹ اس کی شادی مسلمانوں میں کردی۔ فیروز کفِ افسوس ملتے رہ گئے ۔
وہ ہمیں سلطنت عثمانیہ کی ایک شہزادی سلمیٰ کا قصہ سناتے ہیں جس نے خلافت عثمانیہ کی شہزادیوں نیلوفر اور در شہوار کی طرح ایک مسلمان راجا سے شادی کی‘ شادی ناکام رہی اور شہزادی سلمیٰ نے ہندوستان سے راہ فرار اختیار کی ۔ پیرس میں ایک بچی کو جنم دیا اور ختم ہوگئی ۔ یہ بچی جس کا نام کنیزے مراد رکھا گیا تھا وہ فرانس میں پلی بڑھی اور آج فرانس کی ایک مشہور ناول نگا رہے ۔
کنیزے مراد نے اپنی ماں کی زندگی کا قصہ ایک ناول کی صورت فرانسیسی میں لکھا اور کئی انعامات و اعزازات اس کے حصے میں آئے ۔ کنیزے کے اس ناول کا ترجمہ اور تلخیص میں نے اپنے قلمی نام دنیار جبیں کے نام سے کیا جس کا کچھ حصہ شایع ہوا ۔کنیزے مراد ’امرائو جان‘ والے مظفر علی کی سوتیلی بہن ہیں ۔ وہ ہر سال دو سال بعد پاکستان آتی ہیں اور اگر سعید صاحب کراچی میں ہوں تو ان کی مہمان ہوتی ہیں ۔ پچھلے برس انگریزی میں ان کا ناول ’حضرت محل‘ شایع ہوا اور آکسفورڈ لٹریری فیسٹیول میں اس کی تعارفی تقریب ہوئی ۔
سعید خان صاحب کے والد جنہوں نے پاکستان نہ جانے کا فیصلہ کیا تھا‘ آخر کار ان کے بیٹے انھیں اور اپنی والدہ کو کراچی لے آئے ۔ بڑھتی ہوئی عمر اور تنہائی انسانوں کو بعض ایسے فیصلوں پر مجبور کردیتی ہے جو وہ اپنی جوانی میں نہیں کرتے ۔ یوں سعید صاحب کا مستقل پتہ کراچی کا وہ گھر ہوگیا جو ان کے والد اور بڑے بھائیوں نے بنوایا اور جس کے دروازے ان کی غیر موجودگی میں بھی ان کے دوستوں کے لیے کھلے رہتے ہیں ۔
وہ ہمیں گراناڈا ٹیلی وژن کی اس سیریز کا قصہ سناتے ہیں جس کا عنوان ’اینڈ آف دی ایمپائر‘ تھا اور جس میں 3 گھنٹے طویل ایک حصہ ’جوئیل ان دی کرائون‘ بر صغیر کی تقسیم سے متعلق تھا ۔ سعید صاحب اس پروگرام کے مشیر رہے ‘ انھوں نے اس کی کمنٹری لکھی ۔ میاں ممتازدولتانہ‘شوکت حیات خان‘ جناح صاحب کے پرائیوٹ سیکریٹری کے ایچ خورشید ‘ اپنے وقت کے نہایت اہم کمیونسٹ رہنما انیس ہاشمی اور کئی دوسرے ایسے لوگوں کے انٹرویو ریکارڈ کیے جن کا تعلق تقسیم کے زمانے میں مسلم لیگ‘ کمیونسٹ پارٹی یا کسی دوسری سیاسی جماعت سے تھا۔
اس ٹیلی فلم کے سلسلے میں وہ اپنی ٹیم کے ساتھ دلی بھی گئے جہاں انھوں نے مسز اندرا گاندھی ‘ مسز وجے لکشمی پنڈت ‘ مرار جی ڈیسائی ‘ جگ جیون رام اور دوسروں سے انٹرویوکیے ۔ انھوں نے لکھا ہے کہ مسز گاندھی سے ملاقات کا وقت طے تھا اور یہ لوگ روانہ ہونے والے تھے کہ مسز گاندھی کے اسٹاف کا فون آیا کہ انٹرویو کینسل ہوگیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس خبر نے ان سب لوگوں کو مایوس کردیا لیکن ابھی کچھ دیر گزری تھی کہ پرائم منسٹر ہائوس سے ایک بار پھر فون آیا جس میں ان سے کہا گیا کہ آپ لوگ فوراً آجائیں ۔یہ لوگ فوراً ہی چل پڑے۔
انٹرویو بہت خوشگوار ماحول میں ہوا ۔ دوسرے دن یہ بات معلوم ہوئی کہ انٹرویو سے کچھ پہلے مسز گاندھی نے اپنی بیوہ بہو مانیکا گاندھی اور یتیم پوتے ورن کو گھر سے باہر نکال دیا تھا ۔ یہ اتنی اہم بات تھی کہ اسٹاف کے خیال میں مسز گاندھی اس قابل نہیں ہوسکتی تھیں کہ ٹیلی وژن انٹرویو دیں ۔ مسز گاندھی کوجب معلوم ہوا کہ انٹرویو کیوں کینسل کیا گیا ہے تو انھوں نے ناراضگی کا اظہار کیا اور اپنے لوگوں کو ہدایت کی کہ وہ فوراً ٹیلی وژن ٹیم سے رابطہ کر کے انھیں پرائم منسٹر ہائوس بلائیں ۔
’اینڈ آف ایمپائر‘ اور بہ طور خاص ’جوئیل ان دی کرائون‘ 80 کی دہائی میںنشر ہوئی اور اس نے پاکستان اور ہندوستان کے ناظرین کو بہت متاثر کیا ۔اس فلم کے نشر ہونے کے بعد سعید صاحب کراچی آئے تو عزیز دوست ندیم اختر نے اس حوالے سے ان کا ایک انٹرویو بھی کیا جو میری ادارت میں شایع ہونے والے ماہنامہ’ علامت‘ میں شایع ہوا ۔ ندیم اختر‘ کے والد مرحوم خلیل احمد پولیس سروس آف پاکستان سے تھے ۔ وہ ڈی آئی جی تھے اور 50 سال کی عمر سے پہلے انتقال کرگئے ۔ سعید صاحب سے میری ملاقات ندیم اختر کے توسط سے ہوئی تھی ۔
سعید صاحب لندن میں سالہا سال رہے اور گھر بدلتے رہے ۔ کبھی وہ بلگریویا‘ کبھی ہمسٹیڈ اور کبھی پیٹ شل روڈ پر اپنے دوستوں کے ساتھ شراکت میں رہے ۔ 87 اور 88 کے دوران میں نے ان کی میزبانی کا خوب لطف اٹھایا ہے ۔ شیشے کے اُس پار لندن کی ڈھلوان چھتوں پر کبھی دھیما‘ کبھی تیز مینہ برس رہا ہے ۔ سرخ کھپریل پر بوندیں چمک رہی ہیں ۔ سعید بھائی ہم لوگوں کے لیے نہایت انہماک سے کھانا پکارہے ہیں۔ ان کے عزیز دوست ڈاکٹر باری بھی ان کا ساتھ دے رہے ہیں ان کے انگریز دوستوں کو بھی دیسی کھانوں کی خوشبو اچھی لگتی ہے ۔ کبھی ساجدہ مومن آئی ہوئی ہیں اور کبھی بی بی سی کے ڈیوڈ پیج ۔
ہندوستان میں بی بی سی کے مستقل نمایندے مارک ٹلی‘ جنھیں دلی والے محبت سے ’ٹُلّی صاحب‘ کہتے ہیں‘اور اب ’سر‘ کا خطاب پاچکے ہیں‘ سعید صاحب سے گہرا تعلق رکھتے ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ سعید حسن خان ایک ایسے شخص ہیںجن میں مشرق و مغرب کا سنگم نظر آتا ہے۔ وہ ہماری اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نے اپنے شانوں پر تاریخ کا ناقابل برداشت بوجھ اٹھایا اور پھر ذاتی فیصلے کیے ۔ وہ پاکستانی پاسپورٹ کو سینے سے لگائے رکھتے ہیں اور برٹش پاسپورٹ کی طرف نظر بھر کر بھی نہیں دیکھتے ۔ ہندوستان سے پاکستان آتے ہیں لیکن پھر لپک کر ہندوستان جا پہنچتے ہیں ۔
مسلم اشرافیہ نے تقسیم کے بعد اپنے ہم مذہبوں کو ہندوستان میں جس طرح بے یارو مددگار چھوڑا ‘ اس کی کڑواہٹ بھی ان کی خود نوشت میں ملتی ہے ۔ وہ اپنے عزیز ترین دوست مرحوم علائو الدین کو جس محبت سے یاد کرتے ہیں اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے دل میں انسانی رشتے کسی بوڑھے برگد کی جڑوں کی طرح اترے ہوئے ہیں ۔ یہ وہی علائو الدین ہیں جو 1971میں ڈھاکا کے کمشنرتھے اور جنہوں نے شیخ مجیب الرحمان کے خلاف جھوٹی گواہی دینے سے انکار کردیا تھا اور اس کی قیمت نہایت خاموشی اور وقار سے ادا کی تھی ۔
وہ ہندوستان میںپیدا ہوئے ۔17 سال کی عمر میں پاکستان آئے اور پھر ہوا کے جھونکے کی طرح انگلستا ن اور یورپ نکل گئے ۔ ان کی زندگی ہمیں اس دنیا کی جھلک دکھاتی ہے جو نسل ‘ مذہب اور ملک سے ماورا اس دھرتی کے تمام انسانوں کے لیے حسین خواب دیکھتی تھی ۔ ان دنوں وہ چند مہینوں کے لیے لندن میں ہیں‘ واپس آئیں گے تو اس ’بریلی انٹر کانٹی نینٹل‘ میں پھر رونق ہوجائے گی جس کا نام ڈیوڈ پیج نے رکھا ہے۔ کبھی اس کے دروازے سے ہمیں کنیزے مراد نکلتی دکھائی دیں گی اورکبھی کُرٹ جیکبسن اپنی جھلک دکھائیں گے۔
اشباع کی شاہ بانو علوی نے Across The Seas بہت توجہ اور سلیقے سے شایع کی اوربر صغیر کے ایک نادر انسان کی زندگی سے ہمیں آشنا کیا ہے۔