وزیر اعظم نوازشریف نے کراچی میں 1.5ارب روپے سے گرین لائن بس منصوبے کا اعلان کردیا۔ وزیر اعظم نے کراچی میں پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے K-IV منصوبے کے لیے 13ارب روپے دینے کی منظوری دی ۔کراچی گرین لائن منصوبے کا ٹریک 24.5کلومیٹر طویل ہوگاجو سرجانی سے لے کر کراچی سٹی سینٹر ٹاور پر مشتمل ہوگا۔ یوں اب کراچی میں بھی ریپیڈ بس سروس ٹریک پر جدید ایئرکنڈیشنڈ بسیں چلیں گی۔
گرین لائن بس پروجیکٹ 18ماہ میں مکمل ہوگا اور تقریباََ 4لاکھ افراد روزانہ ایک باوقار جدید ٹرانسپورٹ سے استفادہ کرسکیں گے ۔ اگر کراچی سرکلر ریلوے متحرک ہوجائے تو کراچی کے شہریوں کی زندگی میں کچھ آسانی پیدا ہوجائے گی۔ کراچی دنیا کے ان چند بڑے شہروں میں ایک ہے جس کی آبادی تو 2کروڑ کے قریب ہے مگر ٹرانسپورٹ کے نظام‘ امن و امان کی ناقص صورتحال‘ پانی ، بجلی،گیس کی کمی، تعلیمی اور صحت کی سہولتوں کے ناپید ہونے کی بناء پر انارکی کا شکار ہے ۔شہر کا ایک حصہ گینگ وار کی بناء پر مفلوج رہا ہے ۔وہاں بھی ٹرانسپورٹ کی شہری سہولتوں کی ضرورت ہے۔
مضافاتی علاقوں پر انتہاپسند طالبان کا قبضہ ہے ، شہر میں ٹارگٹ کلنگ ، اغواء برائے تاوان اور اسٹریٹ کرائمز کے بڑھنے کی وجہ سے تاجر برادری فوج کو بلانے کا مطالبہ کررہی ہے ۔ کراچی کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو عجیب حقیقت سامنے آتی ہے کہ آزادی کے وقت کراچی میں ٹرانسپورٹ کی سہولتیں بہتر تھیں مگر برسراقتدار حکومتوں کی ویژن کی کمی او ر دوسری وجوہات کی بناء پر پبلک ٹرانسپورٹ سکڑنے لگی اور حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ آبادی کی اکثریت اور چین میں مال برداری کے لیے تیار کردہ چنگ چی رکشوں کو اپنے سفر کے دھکوں کا مداوا جاننے لگی۔
کراچی اور کلکتہ میں سب سے پہلے ٹرام وے سروس شروع ہوئی تھی ۔50کی دہائی میں شہر کے ایک بڑے حصے میں ڈیزل سے چلنے والی ٹرام وے کی سروس دستیاب تھی کراچی میں سڑکوں پر ڈبل ٹیکر بس چلتی تھی ۔ جب بھارت سے لاکھوں افراد ہجرت کرکے کراچی آئے اور شہر میں نئی بستیاں آباد ہوئی۔
پنجاب اورخیبر پختونخوا سے بہت سے لوگ روزگار کے لیے کراچی منتقل ہوئے تو کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسائل پیدا ہونے لگے بسوں کی تعداد کم ہونے کی بناء پر مسافروں کو مختلف نوعیت کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا مگر برسر اقتدار حکومتوں نے کراچی شہر کی مستقبل کی ضروریات کا اندازہ نہیں لگایا یوں وہ جامع منصوبہ بندی نہیں ہوسکی جو دنیا کے بڑے شہروں لندن، نیو یارک، ٹوکیو وغیرہ میں ٹرانسپورٹ کے مسئلے کے حل کے لیے کی گئی تھی ۔ جنرل ایوب خان کے دور میں سرکلر ریلوے کا منصوبہ شروع ہوا ، یہ شہر میں ٹرانسپورٹ کے مسئلے کے حل کے لیے ریلوے استعمال کرنے کی پہلی کوشش تھی۔
سرکلر ریلوے وزیر مینشن سے سٹی اسٹیشن سے ایک طرف پپری اسٹیشن تک جاتی تھی۔ دوسری طرف یہ سائٹ ، ناظم آباد، فیڈرل بی ایریا، گلشن اقبال سے گزرتی ہوئی ڈرگ روڈ اسٹیشن پر مرکزی ریلوے لائن سے منسلک ہوجاتی تھی پھر شہر میں بڑی بسیں چلتی تھی ، اندرون شہر ٹرام وے سروس موجود تھی ، رکشے، ٹیکسیاں میٹر کے مطابق کرایہ وصول کرتے تھے ۔ ٹرانسپورٹ کا ایک ایسا نظام موجودتھاجس کو مستقبل کی ضرورتوں کے مطابق زیادہ بہتر بنایا جاسکتا تھا مگر ایک منصوبے کے تحت ٹرام سروس کو ختم کیا گیا۔
ٹرانسپورٹ مافیاء نے پولیس کی مدد سے انتظامیہ کو باور کرایا کہ ٹرام کی پٹری سے سڑک پر چلنے والا ٹریفک متاثرہوتا ہے یہ وہ وقت تھا کہ جب امریکا یورپ کے علاقوں ، مشرق بعید کے ممالک میں ٹرام کو بجلی کی جدید نظام پر منتقل کیا جارہا تھا ، شہروں میں ٹرام کے لیے سڑکوں پر جگہ نہیں تھی وہاں ٹرام کو اوورہیڈ برج پر منتقل کیا جارہا تھا۔ بھٹو دور میں ٹرام سروس بند کردی گئی اور جاپان سے برآمد کی جانے والی پیلی رنگ کی چار دروازوں والی منی بس کو ٹرام کے متبادل کے طور پر سڑکوں پر چلایا جانے لگا۔
ان بسوں میں مسافر مرغا بن کر سفر کرتے تھے ، خواتین بیچاری تو سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہوتی تھی ، ایک زمانے میں لانڈھی ، ملیر ، ڈرگ کالونی (شاہ فیصل کالونی ) سے آنے والے ہزاروں لوگوں کے لیے صبح کے اوقات میں سرکلر ریلوے سب سے موثر ذریعہ تھی ۔ عام آدمی سرکلر ریلوے کے ذریعے ملیر سے 30سے 45منٹ میں سٹی اسٹیشن پہنچ جاتا تھا، مگر ریلوے کی بدعنوان مافیا اور کراچی کی ٹرانسپورٹ مافیا کی گٹھ جوڑ سے ریل گاڑیاں لیٹ ہونے لگی ، ریلوے کی انتظامیہ نے اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے بجائے مسافروں کی کمی کا جواز بنا کر سرکلر ریلوے کو بند کردیا۔
بھٹو دور میں کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے پاس بسوں کا ایک بڑا فلیٹ موجود تھا یہ فلیٹ کراچی یونیورسٹی کے ہزاروں طلباء کی سفری ضروریات کو بھی پورا کرتا تھا مگر کرپشن اور گڈ گورننس کے بحران نے کے ٹی سی کو تباہ کردیا ۔ جنرل ضیاء کے دور میںبیوروکریسی نے کے ٹی سی کو خوب لوٹا ، بھٹو دور میں سویڈن سے بڑی ایئرکنڈیشنڈ بسوں کاایک فلیٹ تحفے میں ملا تھا مگر یہ بسیں پھر کے ٹی سی کے حالات کا شکار ہوگئی اور پبلک ٹرانسپورٹ کو پرائیوٹ سیکٹر کی مدد سے چلانے کی کوشش کی گئی ۔
جنرل ضیاء کے دور میں دوست محمد فیضی ٹرانسپورٹ کے وزیر بنے تو انھوں نے میٹرو بس سروس شروع کی ان چھوٹی بسوں میں زیادہ کرایہ لے کر مسافروں کو نشستوں پر بٹھایا جاتا تھا۔ اس طرح جب جماعت اسلامی کے رہنما نعمت اللہ خان کراچی کے ناظم بنے تو وزیر اعظم شوکت عزیز کی بینکوں سے لیزنگ پر حاصل کرنے والی بڑی ایئرکنڈیشن بس سڑکوں پر نظر آنے لگی ، ان بسوں میں خود کار دروازے تھے ، مگر کراچی میں امن وامان کی خراب صورتحال ڈیزل اور فاضل پرزہ جات کی قیمتوں میں اضافے کی بناء پریہ بسیں سڑکوں سے غائب ہوگئیں۔
کراچی کے سابق ناظم مصطفیٰ کمال نے شہر میں بڑی سڑکوں اوور ہیڈ برج اور انڈر پاس کا جال بچھایا مگر پبلک ٹرانسپورٹ ان کی ترجیح نہیں تھی ، ان کے آخری دور میں شہر کے محدود علاقوں میں گرین بسیں چلی مگر ان کے عہدے کی معیاد ختم ہونے پر یہ بسیں سٹی گورنمنٹ کے ورکشاپز میں بند ہوگئیں ۔ مصطفی کمال کے دور میں شہر میں چین کے مال بردار چنگ چی رکشوں کی بھرمار ہوگئی ۔ بعض صحافی کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے عہدیداروں نے ان رکشوں کی حوصلہ افزائی کی۔
اگرچہ کراچی پولیس کے افسران کہتے ہیں کہ ان رکشوں میں چوری کی موٹر سائیکلوں کے انجن استعمال ہونے لگے اور زیادہ تر نوعمر بچے ان رکشوں کے ڈرائیور ہیں مگر نچلے متوسط طبقے کے لیے چنگ چی رکشے پر سفر واحد زریعہ ہے ۔ کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے کو کارآمد بنانے کے لیے طویل عرصے سے غور ہورہا ہے ۔ جاپانی حکومت اس منصوبے کے لیے خطیر رقم کا قرضہ فراہم کرنے کے لیے تیار ہے مگر حکومت سندھ ریلوے ٹریک پر قائم تجاوزات کو ختم کرانے میں ناکا م رہی ہے ۔ اب جاپانی حکومت نے مزیدن پندرہ دن کی مہلت دی ہے اگر وفاقی حکومت سندھ حکومت پر دبائو ڈال کر سرکلر ریلوے کو متحرک کرتی ہے تو کراچی کے شہریوں کے لیے بڑی سہولت ہوگی۔
سندھ اور وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت 2008سے 2013تک تھی ۔ صدر آصف زرداری نے اپنے دور اقتدار میں چین کے سیکڑوں دورے کیے ۔ کراچی کے شہریوں کو امید تھی کہ وہ چین کی مدد سے پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی منصوبہ شروع کردیں گے مگر عوام مایوس رہے۔ وفاق کا منصوبہ شہر کے ایک حصے تک محدود ہے، شہر کے بیشتر حصوں میں اس طرح کے منصوبے ضروری ہیں ، پیپلزپارٹی کو اس منصوبے میں رکاوٹ ڈالنے کے بجائے باقی شہروں میں بھی نئے منصوبے شروع کرنے چاہیے۔ گرین لائن بس منصوبہ سرکاری شعبے میں ہوگا یہ وفاق کا منصوبہ ہے اور حکومت سندھ کو اس منصوبے کی تکمیل میں کسی قسم کی رکاوٹ پید ا نہیں کرنی چاہیے۔ کراچی شہر کو انڈر گرائونڈ ریل، جدید ٹرام اور بڑی بسوں کی ضرورت ہے ،کیا وفاق اور صوبے کی قیادت شہر کی مستقبل کی ضروریات پر توجہ دے سکتی ہے۔