سماج میں دانشوروں اور اہل قلم کی ذمے داریوں کے بنیادی معیار، ہزاروں برس کے دوران گزرنے والے فلسفی، دانشور، ادیب اور سائنس دان متعین کر گئے ہیں۔ یہ وہی ہیں جنھوں نے غور و فکر سے اپنے سماج کو تبدیل کیا اور فکری ارتقا کی نئی راہیں نکالیں۔ ان مرحلوں سے گزرتے ہوئے کچھ اپنی جان سے گئے، کچھ نے جلاوطنی سہی اور کچھ غدار اور گمراہ ٹھہرائے گئے۔
یہ ڈھائی ہزار برس پہلے کے یونانی تھے جنھوں نے سچ اور باضمیری کے نہایت کڑے معیار قائم کیے۔ سقراط کا ’صفائی کا بیان‘ ہمیں حیران کر دیتا ہے۔ سقراط پر دیوتاؤں سے بغاوت اور شہر کے نوجوانوں کو گمراہ کرنے کا الزام تھا۔ اس پر مقدمہ چلا اور موت کی سزا سنائی گئی۔ وہ جب اپنا دفاع کرنے کے لیے کھڑا ہوا تو اس نے کہا ’اے اہل ایتھنز جب تک میری جان میں جان ہے اور بدن میں طاقت ہے، میں فلسفے پر عمل کرنا اور اس کی تعلیم دینا نہیں چھوڑوں گا، تم مجھے رہا کرو یا نہ کرو، دونوں صورتوں میں یہ جان لو کہ میں اپنا راستہ کبھی نہیں بدلوں گا‘۔
سزائے موت سے چند گھنٹوں پہلے جب اس کے دوستوں نے اسے قید خانے سے فرار کرانا چاہا تو اس نے یہ کہہ کر ان کی پیشکش ٹھکرا دی کہ میں دنیا سے ایک ظالم کی حیثیت سے نہیں، ایک مظلوم کے طور پر رخصت ہونا چاہتا ہوں‘۔
ہم تاریخ اسلام کے صفحے پلٹیں تو ہمیں ابن رشد، منصور حلاج، رازی اور سرمد ایسے متعدد کردار ملتے ہیں جن میں سے کئی اپنے افکار و خیالات کی وجہ سے زندگی، زندان میں گزار کر ختم ہوئے، کسی نے سولی پر یوں جان دی کہ اس کا بدن تین دن اور تین رات تک کترا جاتا رہا اور کسی کی گردن جامع مسجد کی سیڑھیوں پر اڑا دی گئی۔
دانشوروں اور اہل قلم نے اپنی ذمے داریوں کو سولہویں صدی سے ہی بہت شدت سے محسوس کرنا شروع کر دیا تھا۔ 1592ء میں اپنے عہد کے ایک بڑے دانشور، شاعر، ریاضی داں اور ہئیت دان برونو سے کلیسا بہت ناراض تھا۔ اس کے سائنسی خیالات کی زد مذہبی عقائد پر پڑتی تھی۔ اسے گرفتار کیا گیا اور سات برس تک اس پر مذہبی عدالت (Inquisition) میں مقدمہ چلا، برونو کو موت کی سزا سنائی گئی اور سیکڑوں افراد کی موجودگی میں روم کے ایک چوک میں ناقابل یقین تشدد کے بعد اسے زندہ جلا دیا گیا اور لوگ کلیسا کے حق میں پرجوش نعرے لگاتے رہے۔
برونو کو تاریخ میں سائنس کا پہلا شہید کہا گیا ہے۔ برونو کی ہلاکت کے 16 برس بعد گلیلیو نے بھی خیال دشمن پادریوں کے سامنے ایک توہین آمیز مقدمے کا سامنا کیا۔ کوپرنیکس، برونو، گلیلیو وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنی علمی اور سائنسی تحقیقات پر اصرار نہ کیا ہوتا تو انسان چاند پر قدم نہ رکھ سکتا تھا اور نہ خلائی جہاز کروڑوں میل دور سے مریخ کے احوال کی خبر لا تا۔
صنعتی انقلاب اور چھاپہ خانے کی ایجاد نے اہل قلم اور اہل دانش کی ذمے داریوں کو روز افزوں کیا۔ اپنے رجعت پسند اور عقل دشمن سماج کو بدلنے کی کوشش کرنے والوں میں روسو اور والٹیئر سامنے کے نام ہیں۔ انقلاب فرانس کی بنیادیں ان کے خیالات پر استوار ہوئیں۔ حقوق انسانی، آزادی تحریر و تقریر، دنیا کے تمام انسانوں کے لیے مساوی حقوق اور عدل و انصاف کا آوازہ آج دنیا کے کونے کونے میں سنا جا رہا ہے۔
اس کی ابتدا اٹھارویں صدی میں تھامس پائین جیسے متعدد دانشوروں نے بھاری قیمت ادا کر کے کی۔ عورتوں کے حقوق کے لیے جون اسٹوارٹ مل، اینگلز اور دوسروں نے کتابیں لکھیں، میری اسٹون وال کرافٹ سے ورجینا وولف اور ایما گولڈ مان تک درجنوں دانشور عورتیں تھیں جنھوں نے اپنے قلم اور عمل سے عورتوں کے مساوی حقوق کی لڑائی لڑی جو آج تک جاری ہے۔ اسی طرح مارکس نے جلاوطنی اور مفلسی کی زندگی گزار کر دنیا بھر کے مزدوروں اور محنت کشوں کو منظم کیا اور سوشلسٹ انقلاب کی بنیاد رکھی۔
اٹھارویں اور انیسویں صدی سیاسی اور سماجی شکست و ریخت کی صدیاں تھیں۔ شاہی، جاگیرداری اور اشرافیہ پسپائی پر تھی۔ مساوات، عدل و انصاف، غلامی کے خاتمے اور جمہوریت کے قیام کے لیے سیکڑوں اہل قلم کی جدوجہد جاری تھی۔ اخباروں اور جریدوں کی اشاعت کے سبب شخصی اور مذہبی آزادی کے معاملات لوگوں کی توجہ کا مرکز بن رہے تھے۔ یہ انیسویں صدی کے آخری دن تھے جب ایک یہودی فوجی افسر پر چلنے والا مقدمہ فرانس کے مشہور ادیب ژولا کو مضطرب کر گیا۔
اس نے 1898ء میں فرانسیسی صدر کے نام ایک کھلا خط اخبار میں شائع کرایا۔ یہ خط تاریخ میں I’Accuse کے نام سے مشہور ہے۔ اس خط نے مجبور، مفلس اور بے آسرا اقلیتوں کے حقوق کی لڑائی کا سرنامہ لکھا۔ ژولا کو ایک اعلیٰ عہدے سے برطرف کیا گیا، جان بچانے کے لیے اسے انگلستان میں پناہ لینی پڑی اور ڈریفس کا مقدمہ جب پھر سے کھلا تو ثابت ہو گیا کہ وہ بے گناہ تھا اور ژولا نے ایک باضمیر ادیب ہونے کا حق ادا کر دیا تھا۔
بیسویں صدی کی تیسری، چوتھی اور پانچویں دہائی میں یورپ نے نازی فاشزم اور دوسری جنگ عظیم کو جھیلا۔ لاکھوں لوگ یہودی ہونے کے جرم میں ہلاک کیے گئے، ان کے لیے انصاف مانگنے والے اور فاشزم سے لڑنے والے جرمن ادیب، دانشور اور سائنس داں جان بچانے کے لیے یورپ کے ایک سے دوسرے ملک میں بھاگتے رہے۔ بریخت، ہرمن ہیسے، تھامس مان، سٹیفن زویگ اور فرائیڈ اس کی سامنے کی مثال ہیں۔
1945ء میں جاپان کے دو شہروں پر امریکی ایٹمی حملہ دنیا بھر کے دانشوروں اور اہل قلم کو دہلا گیا۔ رسل، آئن سٹائن، سارتر، سیمون دی بووا، آندرے سخاروف اور متعدد دوسرے اہل قلم کی ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف مزاحمت نے انھیں اپنی حکومتوں اور عوام کی نظر میں غدار ٹھہرایا۔ الجزائر کو فرانس سے آزادی دلانے کی جدوجہد کے دوران سارتر، سیمون دی بووا اور فرانسیسی دانشوروں پر قاتلانہ حملے ہوئے اور انھیں عوامی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ویت نام کی جنگ کے خلاف امریکا میں ادیبوں اور دانشوروں نے مہم چلائی جس کا نقطہ عروج فروری 1967ء میں شائع ہونے والانوم چومسکی کا طویل مضمون تھا جس نے امریکی رائے عامہ کو حکومت کے خلاف کر دیا اور بات وہاں تک پہنچی کہ ویت نام سے امریکا کو رخصت ہونا پڑا۔
ہم اگر دنیا کے نقشے کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ بیسویں صدی اور پھر اکیسویں صدی کے آغاز سے دنیا بھر کے بیشتر ملکوں میں دانشوروں اور اہل قلم نے ظلم اور ناانصافی کے خلاف جم کر لڑائی لڑی ہے اور اب صحافی بھی اس جنگ میں شامل ہو چکے ہیں جنھیں ان کی حکومتیں قتل کرنے میں دیر نہیں لگاتیں۔ ہندوستان، ایران، مصر، اسرائیل، فلسطین، عراق، سابق سوویت یونین، افریقہ اور امریکا میں اپنی سماجی اور اخلاقی ذمے داریاں ادا کرنے والے اہل قلم کی ایک طویل فہرست ہے۔ یہ امریکی دانشور تھے جنھوں نے بیسویں صدی میں میکارتھی ازم کا خوفناک دور گزارا ہے۔
ہم برصغیر پر نظر ڈالیں تو یہاں افسانہ لکھنے کے جرم میں ڈاکٹر رشید جہاں اور منٹو جیل جاتے ہیں ان کی کتابیں ضبط ہوتی ہیں، مقدمے چلتے ہیں۔ پاکستان قائم ہوتا ہے تو فیض، سبط حسن، جالب، شیخ ایاز اور متعدد دوسرے سماجی انصاف اور جمہوری حقوق کی لڑائی میں کیا نہیں سہتے۔ حسن ناصر کی ہڈیاں توڑ کر اسے گمنام قبر میں دفن کیا جاتا ہے۔
آج پاکستان میں ہم جس سنگین بحران سے دوچار ہیں اس کا ایک بہت بڑا سبب یہ ہے کہ ہمارے دانشوروں، ادیبوں اور قلمکاروں نے جمہوری اور سیاسی روایات کو آگے بڑھانے اور قومی مسائل پر مکالمہ کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کی۔ ہماری سرزمین پر جب دہشت گردی کی پنیری لگائی جا رہی تھی اور اس پر مذہب کا سنہرا غبار چھڑکا جا رہا تھا تو ہمارے لکھنے والوں کی اکثریت خاموش رہی۔ ان کا خیال تھا کہ خاموشی میں عافیت ہے۔
یہ سماج کی نہیں ان کی ذاتی عافیت تھی اور وہ بھی عارضی عافیت۔ 80ء کی دہائی میں اس وقت کے آمر مطلق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے صرف 7 دن بعد دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں کو ایوان صدر میں مدعو کیا۔ ایک بھاری تعداد کچے دھاگے سے بندھی اس آمر کے سامنے حاضر ہوئی۔ ان لوگوں نے ایوان صدر کے جگمگاتے ہوئے ماحول میں جمہوریت پر شب خون مارنے والے کے ہونٹوں سے اپنے باضمیر دانشوروں اور ادیبوں کے بارے میں یہ تضحیک آمیز جملے سنے کہ ان لوگوں کے لیے پاکستان کا رزق، یہاں کا پانی اس ملک کا سایہ، اس کی چاندنی حرام ہے۔
کل ہماری مقتدر طاقتیں جن جہادیوں کو اپنا اثاثہ قرار دیتی تھیں۔ آج وہی پاکستان کو تباہ و برباد کرنے کے درپے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب اہل قلم اپنی ذمے داریوں سے رو گردانی نہیں کر سکتے۔ یہ ہماری بقا کی جنگ ہے اور اس میں خاموشی حرام ہے۔
جمہوریت، عدل و انصاف، عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق کی لڑائی اب نئی نسل لڑے گی۔ اسے یہ طے کرنا ہو گا کہ کل اگر کوٹ رادھا کشن ایسا کوئی الم ناک واقعہ پھر سے رونما ہو، اگر کل کسی لڑکی کے ساتھ مختاراں مائی کی شرمناک کہانی دہرائی جائے، اگر دین کے نام پر لڑکیوں کے سیکڑوں اسکول بارود سے اڑا دیے جائیں، اگر ہماری عظیم صوفی روایت تباہ کی جا رہی ہوں، پشاور میں 16 دسمبر جیسا واقعہ کہیں اور رونما ہو تو ایسے نازک مرحلوں پر خاموشی جرم ہو گی۔ ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا ہماری اجتماعی ذمے داری ہے۔ آج جس دشمن نے ہمیں اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے اس کے خلاف آواز نہ اٹھانا، خاموش رہنا ایک سنگین اور ناقابل معافی قومی جرم ہے۔
(شاہ عبدالطیف یونیورسٹی، خیرپور کے بین الاقوامی سمینار میں پڑھا جانے والا اختصاریہ)