Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 22334

اصغر خان… کامیاب زندگی کے 94 سال

$
0
0

ایئرمارشل محمد اصغر خان 94 برس کے ہو گئے ہیں۔ ان کی قابل رشک زندگی کا کچھ حصہ میں نے بھی دیکھا ہے۔ جب وہ ملازمت سے ریٹائر ہو کر سیاست میں آ گئے تھے۔ پہلے پاکستان ایئرفورس اور پھر پی آئی اے میں خوبصورت زندگی گزارنے کے بعد وہ سیاست میں آ گئے۔ یہ سیاست کا صاف ستھرا دور تھا اور اس میں کسی سیاستدان کی زندگی اور نظریات کو دیکھا جاتا تھا سرمائے کو نہیں۔ ایئرمارشل 17 جنوری 1921ء میں جموں میں پیدا ہوئے۔

ان کے والد ماجد بریگیڈیئر رحمت اللہ خان ڈوگرا فوج میں بریگیڈیئر تھے۔ قیام پاکستان کے بعد 36 برس کی عمر میں وہ پاکستان ایئرفورس کے پہلے کمانڈر انچیف مقرر ہوئے اور ایئرفورس کے معمار اول کہلائے۔ 1965ء میں ایئرفورس سے ریٹائر ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر 44 سال چھ ماہ تھی۔ پھر وہ پی آئی اے کے چیئرمین بنائے گئے اور اسے دنیا کی درجہ اول کی ایئرلائن بنا دیا۔ پی آئی اے سے فارغ ہونے کے بعد وہ سیاست میں آئے اور قوم کو آمریت سے نجات دلانے کی جدوجہد شروع کی۔ بعد میں 26 ستمبر 1969ء میں اپنی پارٹی جسٹس پارٹی بنائی اور پھر پوری عمر سیاست میں بسر کر دی۔

انھوں نے ایبٹ آباد میں مستقل قیام کیا۔ یہاں انھوں نے ایک انگریز افسر کا گھر خریدا جس میں بڑے ہی قیمتی درختوں کی بڑی تعداد تھی۔ انھوں نے ایک دفعہ مجھے ان درختوں سے متعارف کرایا اور ہر درخت کی زندگی، نسل اور اس کی پرورش پر روشنی ڈالی۔ میں ا ن کا انٹرویو کرنے گیا تھا۔ ان دنوں وہ سیاست سے دور ہو کر گویا گوشہ نشین ہو گئے تھے اور اخباری انٹرویو سے معذرت کرنے لگے۔ میرے ایڈیٹر کو اندازہ تھا کہ وہ مجھے انکار نہیں کریں گے چنانچہ میں اچانک ہی ایبٹ آباد پہنچ گیا۔ ان دنوں مرحوم نسیم حجازی بھی اسی شہر میں آباد تھے۔

میں ان سے ملا اور مقصد بیان کیا تو انھوں نے بھی میرے ساتھ چلنے کو کہا اور یہ انٹرویو ایک دھماکا بن کر اس دن چھپا جب ملک بھر کے اخبارات میں نوکری سے نکالے گئے کوئی تین سو سے زائد اعلیٰ افسروں کی فہرست چھپی تھی۔ جنرل یحییٰ خان نے ان افسروں کو نکالا تھا۔ ایئرمارشل جو ان دنوں کسی صحافی کو قریب بھی نہیں آنے دیتے تھے لیکن میری پذیرائی کی۔ جی بھر کر باتیں ہوئیں اور مجھے چند دن اپنے ہاں قیام کی دعوت دی مگر میں ان کی انٹرویو کی سوغات لے کر جلد لاہور جانا چاہتا تھا اس لیے اجازت لی۔

جناب ایئرمارشل جدید دور کے ایک رکھ رکھاؤ والے سیاست دان ہیں اور دوستیوں کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ لاہور میں انھوں نے ایک بار جناب اکبر بگٹی کی خصوصی دعوت کی اور انھیں اپنی جماعت میں شمولیت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ اس دعوت میں ان دو کے علاوہ تیسرا میں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بگٹی صاحب سیاسی کنوارے ہیں اور کسی پارٹی کے عقد میں نہیں آنا چاہتے۔

پی آئی اے سے ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور میں برادر الطاف حسن قریشی نے ان کی دعوت کی۔ لاہور کے اس ہوٹل میں جہاں دعوت ہوئی تھی ایک ہجوم تھا۔ ان دنوں ایئرمارشل بہت نمایاں شخصیت تھے۔ انھوں نے حالات حاضرہ پر تقریر کی جس کے بعد میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ تو سیاست میں آنے والے ہیں جس کا انھوں نے مسکرا کر انکار کیا مگر بہت بعد میں ایک دن مجھ سے کہا کہ تمہارا اندازہ درست تھا۔ ایئرمارشل کی مسکراہٹ بڑی دلکش ہے۔ ڈھاکہ جا رہے تھے کہ جہاز سے اترتے وقت ایک ایئرہوسٹس نے مجھ سے کہا کہ آپ ایئرمارشل سے کہیں کہ وہ یہاں سے گزرتے ہوئے مجھے مسکرا کر دیکھ لیں۔

اب جب مشرقی پاکستان کا ذکر آیا تو اس سفر میں ایئرمارشل جس شہر میں رات کو ٹھہرے ان کی قیامگاہ کے باہر رات بھر مشرقی پاکستانیوں کا ہجوم ان کی صبح کی بیداری کا منتظر بیٹھا رہا اور جب وہ ناشتہ کر کے باہر نکلے تو ہجوم نے جس بے تابانہ اور پرجوش انداز میں ان کا استقبال کیا وہ اب تک میرے ذہن پر نقش ہے اور بنگالیوں کی محبت کا نقش بھی دل پر روشن ہے۔ اب جب میں ایسے جذباتی موقعوں کو یاد کرتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ مشرقی پاکستانی ہم سے علیحدہ کیسے ہو گئے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ علیحدہ کیے گئے۔ اس مشرقی پاکستانی سفر میں مرحوم محمد علی ہمارے ہمسفر تھے جو اس وقت مجیب کی پارٹی کے جنرل سیکریٹری تھے۔

ہم نے باری سال جانے کے لیے مشہور و معروف راکٹ پر سفر کیا۔ رات بھر کا یہ سفر جو سندر بن جنگل سے ہو کر گزرا تھا زندگی کا ایک یادگار سفر تھا۔ سندربن کے باشندوں کو ہم نے راکٹ کی پرشور آواز کے ساتھ رات کو بے چین کیا۔ ان کی آوازیں اور درختوں کی شاخوں کا شور کیا موسیقی تھی۔ یہ راکٹ بڑا آرام دہ تھا اور رات کے وقت اس کا سفر تو ایک افسانہ سا لگتا ہے۔ یہ سفر سندربن سے گزرتا تھا جو دریاؤں سے گھرا ہوا تھا۔ یہاں سندر نام کا ایک درخت ہوتا ہے جس کے نام سے یہ پورا جنگل سندربن کہلاتا ہے۔ جب یہ سفر ختم ہوا تو میں نے بہت سوچا کہ ایئرمارشل کے اعزاز میں گونجنے والے نعرے زیادہ دلکش تھے یا سندربن کے جنگل کے پاس پرندوں اور درندوں کا شور و غل۔ ہمارے وطن کا یہ حصہ بے حد خوبصورت تھا۔ اس کی یادیں عمر بھر تڑپاتی رہیں گی۔

ایئرمارشل کا ذکر ہو رہا تھا۔ یہ شخص حب وطن سے زیادہ ہی سرشار تھا۔ ایئرفورس کو ایسا بنایا کہ جب 1965ء کی جنگ میں یہ ایئرفورس جب ایک دوسرے عظیم المرتبت فضائی کمانڈر ایئرمارشل نور خان کی کمان میں تھی تو اس نے بھارت کی بہت بڑی ایئرفورس کو زمین پر ہی روند دیا۔ ہماری ایئرفورس کو یکے بعد دیگرے دو عظیم شخصیتوں کی کمان میں رہنے کا اعزاز ملا اور اس نے ملک کے دفاع کا حق ادا کر دیا۔ ایئرمارشل اصغر خان کی جماعت کو شروع میں بہت پذیرائی ملی غالباً نواز شریف نے بھی اس جماعت سے سیاست کا آغاز کیا تھا لیکن بوجوہ یہ جماعت چل نہ سکی اور ایئرمارشل کا دل سیاست سے اچاٹ ہو گیا اور وہ ایبٹ آباد کے اس خوبصورت گوشے میں خلوت نشین ہو گئے مگر پھر بھی وہ سیاست میں کسی حد تک سرگرم رہے۔ انھوں نے ایک الیکشن لڑنے کا ارادہ کیا۔

یہ الیکشن سردیوں میں ہو رہا تھا اور وہ راولپنڈی سے امیدوار تھے۔ میرا یہاں ووٹ نہیں تھا لیکن میں نے کہا تھا کہ کاش میں بھی ان کا ووٹر ہوتا۔ وہ اس الیکشن سے الگ ہو گئے اور مجھے پیار سے فون کیا کہ میں اس سردی میں تمہیں پریشان نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میں نے لکھا تھا کہ ووٹ تو نہیں لیکن میں راولپنڈی جا کر ان کی الیکشن مہم میں حصہ لوں گا۔ ایئرمارشل سے میرا نظریاتی اختلاف واضح ہے وہ پکے سیکولر ہیں لیکن وہ اتنی دلکش شخصیت ہیں کہ ان کی ایک مسکراہٹ پر بڑی حسین خواتین بھی جان دیتی ہیں۔ خدا انھیں صحت کے ساتھ سلامت رکھے۔ ان کی کامیاب طویل زندگی انھیں مبارک ہو۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 22334

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>