Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 22327

سیاسی کارکنوں کا کردار

$
0
0

سیاسی کارکن ہر سیاسی جماعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں،ان کارکنوں کا تعلق عموماً غریب طبقات ہی سے ہوتا ہے، لیکن سیاسی کارکنوں کا کردار مختلف ہی نہیں بلکہ متضاد بھی ہوتا ہے۔ مثلاً ایک ایسی جماعت جو ملک میں عوامی جمہوریت لانا چاہتی ہے اس کے کارکنوں کا کردار اس سیاسی جماعت کے کارکنوں سے مختلف ہوگا جو اشرافیائی جمہوریت کی علمبردار ہوتی ہے۔

ایک مذہبی جماعت کے کارکنوں کا کردار دوسری جماعتوں سے بالکل مختلف ہوگا کیونکہ مذہبی جماعتوں کے اہداف اور منشور عام سیاسی پارٹیوں سے مختلف ہوتے ہیں۔اسی طرح ایک ایسی سیاسی جماعت جس کا منشور ملک میں جاری استحصالی نظام کے خلاف جنگ اور مزدوروں، کسانوں اور غریب طبقات کی حکومت لانا ہو اس کے کارکنوں کا سیاسی کردار دوسری سیاسی جماعتوں سے بالکل مختلف ہوگا۔

اسی طرح قوم پرست جماعتوں کے کارکنوں کا کردار بھی دوسری سیاسی جماعتوں سے مختلف اس لیے ہوگا کہ ایسی سیاسی جماعتوں کے منشور دوسری سیاسی جماعتوں کے منشور سے مختلف ہوتے ہیں، لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سیاسی کارکن خواہ اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو اپنی جماعت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے اور اس کا تعلق غریب طبقات ہی سے ہوتا ہے۔

آئیے اب مختلف سیاسی جماعتوں کے منشور اور اس حوالے سے سیاسی کارکنوں کا ذرا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک ایسی سیاسی پارٹی جس کی قیادت جاگیردار طبقے کے ہاتھوں میں ہوتی ہے، ایسی سیاسی جماعت کے کارکن کی حیثیت ہاری،کسان جیسی ہوتی ہے چونکہ جاگیردارانہ نظام میں شخصیت پرستی کا کلچر دوسری سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔

لہٰذا ایسی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی سرگرمیاں پارٹی کے منشور کے بجائے پارٹی کی قیادت سے وفاداری پر منحصر ہوتی ہیں۔ ایسی  اشرافیہ یعنی جاگیردار طبقہ سیاست اوراقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے جمہوری نظام کو بھی موروثی نظام میں بدل دیتا ہے اور اپنی اولاد کو بادشاہتوں کے نظام کی طرح ولی عہدی نظام میں بدل دیتا ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ ایسی سیاسی جماعتوں کے کارکن پارٹی کے منشور کے بجائے پارٹی کی قیادت کے وفادار ہوتے ہیں خواہ قیادت کتنی ہی نااہل اور عوام دشمن کیوں نہ ہو۔

بھٹو مرحوم کی طرف سے پیپلزپارٹی کے قیام سے پہلے جو سیاسی کارکن نیشنل عوامی پارٹی جیسی ترقی پسند جماعت میں ہوتے تھے وہ پی پی پی میں یہ دیکھے بغیر چلے گئے کہ پی پی کی قیادت کا تعلق جاگیردار طبقے سے ہے اور اس طبقے کے مفادات مزدور، کسان راج سے متصادم ہوتے ہیں۔ اس فرق کو سمجھے بغیر جو ریلا پی پی پی میں گیا اسے بہت جلد یہ اندازہ ہوگیا کہ اس جماعت کی قیادت کے طبقات مفادات مزدور، کسان راج سے مختلف ہوتے ہیں اور وہ کسی صورت ملک میں مزدور، کسان راج نہیں لاسکتی۔ دوسری سیاسی جماعتوں سے جو کارکن پی پی میں آئے تھے ان میں سے جن کو پارٹی کے طبقاتی کردار کا انداز ہوا وہ اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے پارٹی سے الگ ہوگئے جن لوگوں یا کارکنوں کو پارٹی کے منشور سے زیادہ پارٹی کی قیادت سے عقیدت تھی وہ پارٹی سے وابستہ رہے اور قیادت کے مقاصد کو باالواسطہ یا بلاواسطہ پورے کرتے رہے۔

مسلم لیگ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی قیادت میں ہی تحریک پاکستان کا آغاز ہوا اور ملک کی تقسیم عمل میں آئی اگرچہ  مسلم لیگ کی قیادت جناح صاحب کر رہے تھے جن کا تعلق مڈل کلاس سے تھا لیکن پنجاب اور سندھ کے وڈیرے اور جاگیردار جو متحدہ ہندوستان میں اپنے طبقاتی مفادات کو غیر محفوظ سمجھ رہے تھے وہ مسلم لیگ میں بھی جمع ہوگئے اور جناح صاحب کے انتقال کے ساتھ ہی اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کرنے لگے۔

یوں وہ جماعت جو پاکستان بنانے کی دعوے دار تھی پاکستان کو تباہی کے راستے پر لے جانے کی ذمے دار بن گئی۔ چونکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی ہیئت ترکیبی بھی بدلتی گئی اس لیے اس کا کردار بھی بدلتا رہا، اقتدار کی لڑائی میں یہ جماعت اگرچہ کئی ٹکڑوں میں بٹ گئی لیکن ان سب کا ایک ہدف رہا، حصول اقتدار۔ چنانچہ یہ جماعت ملک کی سب سے بڑی موقع پرست جماعت بن گئی اور اس کے کارکن کا کردار بھی موقع پرستانہ بن گیا۔

حتیٰ کہ جناح صاحب نے پاکستان کے سیکولر کردار کے حوالے سے جو گائیڈ لائن مہیا کی تھی اسے بھی پارٹی یا پارٹی کے تمام دھڑوں نے بھلادیا اور صرف اور صرف حصول اقتدار ہی ان سب کی آخری منزل بن گیا اور کارکن بھی اپنی قیادتوں کی اتباع کرتے رہے۔

مذہبی جماعتیں پاکستان کی ایک اہم طاقت میں شمار ہوتی ہیں۔ مذہبی جماعتیں چونکہ ایک نظریاتی بنیاد رکھتی ہیں لہٰذا ان کے کارکن بھی وہی ہیں جو ان جماعتوں کے نظریات سے متفق ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ 67 سال سے مسلسل جدوجہد نظم و ضبط کے باوجود مذہبی جماعتیں کبھی اقتدار کی منزل تک نہ پہنچ سکیں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ مذہبی جماعتوں کا منشور دار حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے بلکہ متصادم ہے۔ان جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے آئین میں قرارداد مقاصد کو شامل کرنے کے باوجود آج تک ہونے والے کسی انتخابات میں عوام کی حمایت حاصل نہ کرسکیں۔

ان جماعتوں کے کارکنوں میں دوسری جماعتوں کے مقابلے میں نظریاتی اساس زیادہ مضبوط ہے لیکن ان جماعتوں کے کارکنوں کی طاقت کو ہمیشہ ان کی قیادتوں نے نان ایشوز میں استعمال کرکے اپنے وقت اور طاقت کا زیاں کیا۔ کوئی تعمیری کردار ان جماعتوں کے کارکن ادا نہ کرسکے اس حوالے سے ایک المیہ یہ ہے کہ مذہب ہی کے نام پر جو طاقتیں دہشت گردی کے مرتکب ہو رہی ہیں اور خود مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہا رہی ہیں ان کے حوالے سے بھی یہ اعتدال پسند مذہبی جماعتیں کوئی واضح پالیسی اختیار نہ کرسکیں۔

16/12 کے سانحے کے بعد اگرچہ اخلاقاً، اعتدال پسند مذہبی جماعتیں دہشت گردی کے خلاف زبان تو کھول رہی ہیں لیکن ان کے خلاف ریاستی اداروں کے آپریشن کی مختلف بہانوں سے مخالفت بھی کر رہی ہیں۔ اعتدال پسند مذہبی جماعتوں کے کارکن قوم و ملک کے اجتماعی مفادات کے لیے اپنی طاقت استعمال کرنے سے قاصر اس لیے رہی ہیں کہ ان کے اہداف نظریاتی دھند کے شکار رہے ہیں۔ جہاں تک انتہا پسند مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کا تعلق ہے وہ بلاامتیاز مذہب ملت انسانوں کا خون بہانے کو ہی اپنی نظریاتی ذمے داری سمجھ رہے ہیں۔

سیاسی جماعتوں کی ایک اور قسم قوم پرست کہلاتی ہے۔ بلاشبہ قوم پرستی چھوٹے صوبوں کے ساتھ بڑے صوبوں کی زیادتی بلکہ استحصال کے ردعمل میں وجود میں آئی لیکن ان جماعتوں کی قیادت نے یہ نہیں محسوس کیا کہ صوبے خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے عوام ہر صوبے میں استحصال کا شکار ہیں۔بڑے صوبوں کی ناانصافیوں میں بڑے صوبوں کے عوام کا کوئی دخل نہیں بلکہ بڑے صوبوں کے عوام بھی چھوٹے صوبوں کے عوام کی طرح طبقاتی استحصال کا شکار ہیں اور اس استحصال کی ذمے دار اشرافیہ ہے لیکن قوم پرست قیادت نے بلاامتیاز نفرت، تعصب اور تنگ نظری کا مظاہرہ کیا اور قوم پرست جماعتوں کے سیاسی کارکن بھی اسی اندھی راہوں کے مسافر بن گئے۔ یوں قوم پرستی عوام کو تقسیم کرنے اور عوام میں نفرتیں اور تعصبات پیدا کرنے کا ذریعہ بن گئی۔

المیہ یہ ہے کہ لسانی اور قوم پرست سیاست کرنے والوں کی اجتماعی طاقت متاثر کن ہے اگر یہ طاقت ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے کے بجائے ملک کی استحصالی طاقتوں اور استحصالی نظام کے خلاف اپنی اجتماعی طاقت کو بروئے کار لائیں تو اس ملک سے استحصالی طاقتوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ طاقتیں دانستہ یا نادانستہ استحصالی قوتوں کی آلہ کار بن رہی ہیں اور بالواسطہ طور پر استحصالی طبقات کو مضبوط بنانے کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ کاش لسانی اور قوم پرستانہ سیاست کرنے والوں کو اپنی طاقت کا اندازہ ہوجاتا اور وہ اس طاقت کو مثبت طریقے سے استعمال کرتیں تو آج چہرے نہیں نظام بدلو کے جو نعرے سنائی دیتے ہیں وہ حقیقت میں بدل جاتے اور سیاسی کارکنوں کی طاقت کا صحیح استعمال ہوتا۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 22327

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>