Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 22341

جی ایم سید کا خواب

$
0
0

بیسویں صدی کا آغاز تھا جب وہ سندھ کے ایک قصبے سن میں 17جنوری 1904 کو پیدا ہوئے۔ ابتدا سے ہی سیاست ان کا اوڑھنا بچھونا رہی۔ وہ ایک روشن خیال اور روادار انسان تھے لیکن بر صغیر اور سندھ میں اس وقت سیاست جو رنگ اختیارکر رہی تھی، اس نے انھیں آل انڈیا مسلم لیگ سے جوڑ دیا۔

قراردادِ پاکستان لاہور میں منظور ہوئی تو انھوں نے سندھ میں مسلم لیگی سیاست کو اس قدر مستحکم بنیادوں پر آگے بڑھا یا کہ وہ 1943میں سندھ کی صوبائی اسمبلی سے قیام پاکستان کے حق میں قرار دادِ پاکستان منظورکرانے میں کامیاب ہوگئے۔ اسے حالات کی ستم ظریفی کے سوا اورکیا کہا جائے کہ وہ جو جاگیرداروں سے بھری ہوئی سندھ مسلم لیگ میں متوسط طبقے کی ایک موثر آواز سمجھے جاتے تھے، انھیں بانیٔ پاکستان سے سیاسی اختلاف کی بناء پرمسلم لیگ سے ہی نکال دیا گیا۔ یوں وہ جس پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں پیش پیش تھے ، جب وجود میں آیا تو ان کی اور مسلم لیگ کی راہیں الگ ہو چکی تھیں اور انھیں ’غدار‘قرار دینے کی مہم کا آغاز ہو چکا تھا۔

ان کا نام غلام مرتضیٰ سید تھا اور جی ایم سید کے نام سے مشہور ہوئے۔باچا خان یعنی عبدالغفار خان کی طرح وہ بھی ابتدا سے ہی پاکستان میں ایک نا پسندیدہ اور متنازعہ فیہ شخصیت ٹہرے۔ پاکستان بننے کے کچھ دنوں بعد سے ہی ان کی زندگی قید وبند میں بسر ہوئی۔ درمیان میں کئی بار وہ رہا بھی ہوئے لیکن رہائی کی مدت کبھی دراز نہ ہو سکی۔ پاکستان میں آمریت رہی یا جمہوریت، دونوں ہی زمانوں میں ان پر مقدمے چلتے رہے۔ وہ ’غدار‘اور ’غیر محب ِ وطن‘کہے گئے۔

یہ بھی تاریخ کا ستم ہے کہ سندھ کا یہ بیٹا، بے نظیر کے دوسرے دور ِ حکومت میں 25اپریل1995 کو فوجی جوانوں کے پہرے میں قیدِ حیات سے آزاد ہوا۔ سندھ کے اس بیٹے کا گمان تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ، اس کی زمین کے کچلے اور پسے ہوئے لوگوں کے لیے نسخۂ شفا لکھے گی لیکن اس کی یہ خوش گمانی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئی اور وہ اپنی آنکھ میں خوابوں کی کر چیاں لیے ہوئے رخصت ہوا۔

سندھ صوفی انسٹی ٹیوٹ کے خادم حسین سومرو نے سائیں جی ایم سید کی یاد کی محفل ان حالات میں سجائی ہے جب امن، رواداری اور وسیع المشربی ہم سب کی ذاتی اور سماجی ضرورت ہے۔سندھ کی حالیہ تاریخ کو یاد کیا جائے تویہ ایک تاریخی سچ ہے کہ 1839میں کراچی اور سندھ پر حملہ آور ہونے والے فرنگیوں کی توپوں نے منوڑا کے قلعے کو مٹی کا ڈھیر بنا دیا تھا اور کھارودر اور میٹھو در سے ان کے فوجی فاتحانہ گزرے تھے لیکن یہ بھی تاریخی سچ ہے کہ پھر انھوں نے اس شہر کو سجا یا، سنوارا، اس کے عشق میں گرفتار ہوئے، اس کے بارے میں کتابیں لکھیں اور پیش گوئی کی کہ یہ بستی’ ملکۂ مشرق‘ ہوگی۔

تقسیم کے بعد سے ہم اس دل آراء شہر کو خون میں نہلاتے رہے ہیں اور اس کے روشن آسمان کو راکھ اور دھویں سے سیاہ کرتے رہے ہیں۔ سیدسائیں جو اس کے عاشق تھے،انھوں نے زمین کی ہوس اور زرکی طمع میں اپنے اِس شہرِ دل آرا  کی بے حرمتی کا صدمہ کس طرح سہا ہوگا،اس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔

ایک ایسے زمانے میں جب مذہب، مسلک، نسل اور لسان کی قربان گاہ پر انسانوں کی اور انسانیت کی بلی چڑھائی جارہی ہو، وہاں سید سائیں کے سوا اورکون یاد آسکتا ہے جنہوں نے کہا تھا کہ:’’آج یہ لوگ اسلامی آئین اور اسلامی طرزِ حکومت کی بات کر تے ہیں لیکن یہ بات سندھیوں کے لیے کبھی بھی دل آویز نہیں تھی۔

ہم سے کہاجا تا ہے کہ شریعت سماج کو تبدیل کر دیتی ہے لیکن یہ بات اپنی اخلاقی حیثیت اور قابلِ عمل ہونے کی صلاحیت کھوچکی۔‘‘وہ ایک ایسے کثیر المشرب ،روادار اور پُر امن کراچی کے رہنے والے تھے جہاں مسلمان، ہندو، پارسی، سکھ، عیسائی اور یہودی سب ہی ایک دوسرے سے شیرو شکر تھے۔ جی ایم سید نے رواداری اور انسانی دوستی کا خواب دیکھتے ہوئے 1948 میں یہ کہا تھا کہ:

’سوشلزم واحد نظام ہے جو کمزور طبقوں کو مکمل انصاف فراہم کر سکتا ہے۔ آج ہماری ساری قومی دولت چند نوابوں، جاگیرداروں اورنئے صنعت کاروںکے ہاتھوںمیںہے۔ ہمارے باقی سارے لوگ ادنیٰ مزدوروں کے ایک بڑے ہجوم کی طرح غلامانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ اتنی بڑی نا ہمواری اور استحصال کی صورت حال کو فوراً ختم ہو نا چاہیے۔ ورنہ انتشاراور بد حالی کی موجودہ صورت حال آخر کار پُر تشدد انقلاب کو جنم دے گی‘‘۔یہ وہی سوشلزم ہے جس کا نعرہ 60کی دہائی میں اپنی سیاست شروع کرتے ہوئے بھٹو صاحب نے لگا یا تھا۔

سید سائیں نو عمر تھے جب انھوں نے پہلی جنگ عظیم کی تباہ کاریاں دیکھیں۔ وہ نوجوان تھے جب دنیا کے ساتھ ساتھ ہندوستان کو بھی دوسری جنگ عظیم کی آگ میں جلتے دیکھا۔ اس آگ نے انھیں عالمی امن اور انسانوں کی ایک مشترک اور وسیع برادری کی اہمیت اور ضرورت کا یقین دلایا۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے 1952میں آسٹریا کا سفر کیا اور وہاں ہونے والی ایک عالمی امن کانفرنس میں شرکت کی۔ انھوں نے کہا تھا کہ امن ایک ایسا عظیم مقصد ہے جس کے آگے کسی قسم کی حدود و قیود کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ وہ عالمی بھائی چارے اور مختلف مذاہب، مختلف مسالک اورکثیر الثقافتی یک جہتی پر ایمان رکھتے تھے۔

اس موقعے پر انھوں نے مشہور روسی ادیب میکسم گورکی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ دھات کی بُو نہیں ہوتی لیکن سونا ایک ایسی دھات ہے جس سے خون کی بُو آتی ہے۔ اب سے 60برس پہلے ویا نا کی سر زمین پر کھڑے ہو کر وہ کہہ رہے تھے کہ امن کی فاختہ آج ایسی علامت بن چکی ہے جسے سب پہچانتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جنگ سے بچنے کا واحد اصول صرف یہ ہے کہ متحارب طاقتوں کے درمیان پُر امن مذاکرات ہوں اور طاقت کو ترک کر دیا جائے۔

ہمارا واحد ہتھیار شیریں معقولیت اور لوگوں میں شعوری بیداری ہے۔ آئیے عوام میں تعلیم کو عام کریں۔ کیونکہ آخری نتیجے کے طور پر وہی اپنی تقدیر کے مالک ہیں۔ آج استعماری طاقتیں ہمارے لوگوں میں توہم پرستی کو بڑھا وا دینا چاہتی ہیں اور بنیاد پرست اسلامی اتحاد  جیسے انتہا پرست نظریات کو فروغ دے کرہمارے مسائل میں مستقل اضافہ کر نا چاہتی ہیں۔‘‘

انھوں نے اس کانفرنس میں کہا تھا کہ بہت سی عالمی طاقتیں استعماریت کی جنگ میں مسلمانوں کو محض ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر نے کی کوشش کر رہی ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ یہ ان کے استعماری مقاصد کے حصول کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اور یہ بھی سبھی کو معلوم ہے کہ اسلامی ممالک میں مختلف موضوعات پر ہونے والی کانفرنسوں کی جو وبا پھوٹ پڑی ہے اس کے لیے روپیہ کون فراہم کر رہا ہے۔مجھے یہ کہتے ہوئے رنج محسوس ہو رہا ہے کہ ہمارا ملک بھی مسلم دنیا کی عالمی حکومت جیسے سنہری وعدوں سے متاثر ہو کر بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں میں ہتھیار بنتا جا رہا ہے۔

یہ وہ وقت تھا جب کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ کل کو القاعدہ،طالبان، داعش اور بوکو حرام جیسی انتہا پسند جماعتیں وجود میں آنے والی ہیں۔ سید صاحب نے اس وقت امریکی اور برطانوی حکومتوں سے کہا تھا کہ مذہب کی بنیاد پر مسلم اتحاد کے لیے کی جانے والی ان کی حکومتوں کی تمام ترکوششیں خطرناک نتائج سے بھر پور ہیں۔ اس وقت انھوں نے کہا تھا کہ انتہا پسندوں کی سر پرستی کی وجہ سے مسلم دنیا میں مذہبی تعصب، فسطائیت اور جنونی ہیجانات بڑھ رہے ہیں۔اور یہ اسی سر پرستی کی بدولت ہے کہ مشرقِ وسطی کے ممالک جمہوریت اور ایک منظم معاشرے اوراچھی قوم کے تصور سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔

اس وقت بہت سی مسلمان حکومتیں استعماری طاقتوں کی افواج کو اپنے ہوائی اڈے بیچ رہی ہیں۔ ہماری حکومتوں کے اس طرح کے فیصلوں کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں ان کا اندازہ لگا نا مشکل نہیں۔ ہمارے ممالک لامحالہ طور پر اپنی ہی سر زمین پر بیرونی طاقتوں کی فوجوں کے سامنے بے یارو مدد گار ہو جائیں گے اور ان کے قومی اقتدار کا خاتمہ ہوجائے گا اورعوام خطرناک حد تک نظریات پرستی کا شکار ہو کر دشمن کے ہاتھ میںہتھیار بن جائیں گے۔‘‘

1952میں وہ عالم انسانیت کے اتحاد کا اور جنگ کے بھیڑیوں کو قید کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ ان کے اس خواب سے ہم ان کے سیاسی شعور اور بین الاقوامی معاملات پر ان کی نگاہ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔انھوں نے ایک شیروشکر عالمِ انسانیت کے اور ایک پُر امن بر صغیر کے خواب دیکھے۔ شاد و آباد سندھ ان کی جوانی کا خواب تھا۔وہ پُر امن برصغیر اور شاد و آباد سندھ کا خواب دیکھتے ہوئے چلے گئے۔ ان کی رخصت کے بعد اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنا ہماری ذمے داری ہے۔

(سندھ صوفی انسٹی ٹیوٹ میں دیے جانے والے لیکچر کا اختصاریہ)


Viewing all articles
Browse latest Browse all 22341

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>