ہم ایک طویل مدت سے کسی رہبر کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور یہ اس لیے کہ کوئی ریوڑ بھی کسی چرواہے کے بغیر چر چگ نہیں سکتا۔ صرف ادھر ادھر بھٹک سکتا ہے۔ ہم بھی کسی چرواہے اور کسی راہبر کے بغیر بھٹک رہے ہیں اور کسی راہبر کی تلاش میں مدتوں سے بھٹک رہے ہیں اور اب تو اس قدر تھک بھی چکے ہیں بلکہ بار بار کے دھوکوں کے بعد اس قدر اکتا بھی چکے ہیں کہ اب کسی رہنما کی طلب کرنے کی خواہش بھی مرتی جا رہی ہے اور بھٹک بھٹک کر زندگی بسر کرنے کی عادت سی پڑ گئی ہے لیکن اس کے باوجود دلوں کے اندر قدرتی طور پر اس رہنما کی طلب زندہ رہتی ہے کیونکہ اس طرح زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ گھر کا بڑا موجود ہو تو بہت ساری پریشانیاں اس کے گلے پڑ جاتی ہیں اور آپ بڑی حد تک بے فکری کی زندگی بسر کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں دو قسم کے سربراہ آتے رہے ہیں۔ ایک ہمارے منتخب کردہ جمہوری حکمران دوسرے فوجی حکمران جو ہمیں پوچھ کر نہیں اپنی خواہش سے مغلوب ہو کر اپنی مرضی سے ہماری قیادت سنبھال لیتے ہیں۔ ہم نے اپنی زندگی کا آغاز جمہوریت سے کیا تھا اور ہمارا جمہوری لیڈر اور ہمارے ملک کا بانی ایک پیار کرنے والا غیر معمولی قائد تھا جو ذہانت فراست اور دیانت و امانت میں اپنی مثال آپ تھا۔ اس کی زندگی کے کئی واقعات تو ایسے حیران کن ہیں کہ اس شخص پر کسی قدرتی انعام کا گمان گزرتا ہے۔
ایسا لیڈر جس نے دنیا کے نقشے پر اور دنیا کی تاریخ میں پہلی بار اسلام کے نام پر ایک مملکت قائم کی، اس سے قبل جو مسلمان ممالک تھے وہ پہلے سے موجود تھے اور اس کے باشندوں نے بعد میں اسلام قبول کیا تھا لیکن ہمارے قائد نے دارالکفر میں اسلام کا پرچم بلند کیا اور ایک خطے کا نام پاکستان رکھ کر پہلے ہی دن سے خدا و رسولؐ کی اطاعت کا اعلان کیا یعنی اس ملک نے اپنی زندگی کا آغاز ہی اسلام سے کیا اور یہی اس کا ایک منفرد تاریخی اعزاز ہے جو شاید ہی کسی آبادی کو پھر نصیب ہو۔ ہماری کہانی اسی قائد سے شروع ہوتی ہے جو اس دنیا کے پہلے مسلمان ملک کا بانی اور رہنما لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت جلد ہی ایک آزمائش میں ڈال دیا اور ہمارا یہ قائد ہم سے بچھڑ گیا۔
تب سے ہم بھٹک بھٹک کر زندہ رہنے والی ایک قوم ہیں اور ہمیں قرار نہیں ہے لیکن ہماری بداعمالیوں اور نافرمانیوں کے باوجود ہم پر اللہ کی اتنی رحمت ضرور رہی اور چلی آ رہی ہے کہ ہم آزاد رہے اور ہمیں آزادی کو قائم رکھنے کے دنیاوی اسباب بھی فراہم ہوتے رہے۔ سرحد پار دشمن کے باوجود ہم جنگ اور امن دونوں میں زندہ رہے۔ اگرچہ ہمارے درمیان غدار بھی پیدا ہوتے رہے اور ہم ان کی کامیاب غداری میں آدھا ملک گنوا بھی بیٹھے جس سے ہمارے دشمن کی تسکین کا بڑا سامان پیدا ہوا لیکن پھر بھی ہم باقی نصف میں بھی اتنی طاقت پکڑ گئے کہ کمزور حکمرانوں کے باوجود دشمن سے بچ کر رہے اور بچتے چلے آ رہے ہیں مگر کمزور حکمرانوں سے ہم تنگ آ گئے ہیں۔
کبھی سویلین کبھی فوجی اس مسلسل چکر سے ہم بہت گھبرا چکے ہیں اور اب اپنی زندگی میں ٹھہراؤ کے طلب گار ہیں تا کہ ایک مضبوط بے خوف اور خوشحال زندگی بسر کر سکیں۔ ماہرین ارضیات ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم قدرت کے بے پناہ زیر زمین خزانوں کے اوپر آباد ہیں اور ہماری زمین کے اوپر بھی بہت کچھ ہے اتنا کچھ کہ ہم بھوکے نہیں مر سکتے اور ہر قسم کی رکاوٹ کے باوجود ہم آج دنیا کی ساتویں اور مسلمان کی پہلی ایٹمی قوت بھی ہیں لیکن یہ سب کچھ ہم نے بس قدرت کی کسی خصوصی مہربانی سے حاصل کیا ہے یا ہمیں دے دیا گیا ہے۔
اگر ہم کسی منظم اور محب وطن حکومت میں زندگی بسر کرتے تو ہم دنیا کی ایک طاقت ہوتے اور سہاروں کے لیے ادھر ادھر بھٹکتے نہ پھرتے اپنی سلامتی کی بھیک نہ مانگتے پھرتے۔ بہر کیف صورت حال کچھ بھی ہو ہم کسی ایسے لیڈر کی تلاش میں ہیں جو ہمیں سنبھال سکے اور اس تلاش میں اس قدر دیوانے ہو گئے ہیں کہ تنکے کا سہارا بھی مل جائے تو خوش ہو جاتے ہیں اس سے امیدیں باندھ لیتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال پنجاب کے سابق گورنر پنجاب محمد سرور کی ہے جو برطانیہ میں کامیاب کاروباری اور سیاسی زندگی بسر کرتے رہے ہیں لیکن پونڈ کی چکا چوند میں اپنے دل سے پاکستان کی محبت کو جدا نہیں کر سکے چنانچہ جب بھی موقع ملا ہے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر حتٰی کہ برطانیہ جیسے ملک کی شہریت اور اسمبلی کی رکنیت سے کمائی ہوئی ناموری بھی چھوڑ کر اور یہ سب اپنی اولاد کے سپرد کر کے پاکستان آ گئے ہیں۔ ہمارے ایک بلارے لیڈر برطانیہ کے محکوم ملک کینیڈا کی شہریت بھی ترک کرنے پر تیار نہیں ہیں جب کہ وہ جناب محمد سرور کی طرح وہاں کسی خاص کاروباری یا سیاسی حیثیت کے مالک بھی نہیں ہیں۔
جناب سرور صاحب ملک واپس آ کر ایک بہت بڑے عہدے آئینی اور خاموش منصب پر متمکن ہوئے ہیں لیکن تعمیر وطن کی باتیں بھی کرتے رہے ہیں جب کہ ان کا عہدہ اب محض ایک آئینی اور بے اختیار عہدہ تھا لیکن انھوں نے ملک کی خدمت کے لیے اپنا کردار ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان کی سچی اور صاف ستھری باتیں سن کر ہم نے چونک کر دیکھا کہ یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے اور پیار و محبت اور وطن پروری کی باتیں کون کر رہا ہے۔ ہمیں یہ شخص بے داغ دکھائی دیا اور آج ہم اس کی قیادت کی باتیں بھی کر رہے ہیں۔
وہ تو جو ہو گا دیکھا جائے گا اور یہ شخص اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے کئی دام ہم رنگ زمین سے کب بچ کر نکلے گا لیکن اس سے ایک بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہم کسی سچے اور صاف گو لیڈر کی تلاش میں دیوانے ہوئے جا رہے ہیں اور جب بھی کوئی سچی توانا آواز اٹھتی ہے تو اس پر کان دھر لیتے ہیں اور دلوں میں امیدیں بھی بسا لیتے ہیں۔ چوہدری سرور صاحب کسی جماعت میں شمولیت کی بات بھی کر رہے ہیں بہر حال جو بھی ہو گا ہماری سیاسی دنیا میں ایک اچھا اضافہ ہو گا اور کیا عجیب کہ ہماری اس تلاش میں سے کوئی تیز رو ہی نہیں کوئی راہبر بھی نکل آئے۔ ہمیں تو موجودہ حکمرانوں سے بھی بڑی امیدیں تھیں لیکن ہماری قسمت۔