Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22348 articles
Browse latest View live

علاقائی ثقافتیں اور عورتوں کا قتل

$
0
0

کیسے کیسے گھبرو‘ غیرت مند پنجابی اور اپنی بڑائی کی داستانیں بیان کرنے والے زندہ دلان لاہور اس دن ہائی کورٹ میں موجود تھے جب ایک بچی اینٹوں اور پتھروں کی زد میں تھی۔ وہ تڑپتی سسکتی رہی لیکن کسی جاٹ‘ راجپوت‘آرائیں‘ کشمیری‘سید‘ گجر اور دیگر پنجابی غیرت مند اقوام کے فرد میں ہمت نہ ہوئی کہ اس کی جان بچاتااور کیونکر بچاتا۔ کہ یہ رویہ تو ان کے اپنے رگ و پے میں تین ہزار سال سے ایک روایت کے طور پر دوڑ رہا ہے کہ عورت ان کی ذاتی جاگیر ہے۔

جاٹ کی لڑکی‘ راجپوت کی بیٹی یا گجر کی بہن کسی دوسرے خاندان میں اپنی مرضی سے شادی کر کے تو دکھائے۔ جو عورت ہماری ناک کٹوائے گی ہم اسے دنیا میں رہنے نہیں دیں گے۔ یہ عورتیں ہماری روایات کو نہیں جانتیں‘ ہمارے آبائو اجداد کا انھیں علم نہیں۔ ہم تو وہ لوگ ہیں کہ جب جنگ کرنے نکلتے تو قلعوں میں عورتوں کو بند کر کے آگ لگا دیتے تھے تاکہ شکست کی صورت میں یہ دشمن کے ہاتھ نہ آ جائیں۔ ہم تو نسل در نسل ایک خون اور ایک ہی برادری میں رشتے کرتے تھے کہ کہیں ہماری رگوں میں کسی ادنیٰ خون کی آمیزش نہ ہو جائے۔

یہ سب صرف پنجاب یا پنجابیوں تک محدود نہیں۔ بلوچستان میں جب کسی عورت کو سیاہ کار کیا جاتا ہے تو پورے کا پورا قبیلہ اسے بلوچی رسم و رواج کا نام دیتا ہے۔ ہر قبیلے کا ہزاروں سال سے عورتوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک اور رویہ ہے جو چلا آ رہا ہے۔مری قبائل کے لوگ اپنی عورتوں کو گوشت نہیں کھلاتے کہ وہ کہتے ہیں کہ جو خود گوشت ہے اسے گوشت کیا کھلانا۔ سیاہ کاری میں جب لڑکی کو قتل کیا جاتا ہے تو پھر پورے قبیلے پر یہ فرض عاید ہو جاتا ہے کہ اس لڑکے کو بھی قتل کریں۔

اگر سیاہ کار عورت بھاگ کر سردار کے ہاں پناہ لے لیتی ہے تو پھر اس کی جان تو بچ جاتی ہے لیکن اس کو سندھ کے علاقے میں بیچ دیا جاتا ہے اور اس کی فروخت سے ہونے والی آمدنی میں آدھی رقم سردار کا حصہ ہوتی ہے اور آدھی گھر والوں کا۔ یہ سب بلوچ غیرت اور بلوچ رسم و رواج کے نام پر ہو رہا ہوتا ہے۔ پشتونوں میں بھی سیاہ کاری کے ویسے ہی قانون کئی ہزار سال سے نافذ العمل ہیں‘ ان کے ہاں تو صلح کی صورت میں عورتیں بدلے میں دینے کا رواج آج تک چلا آ رہا ہے۔ ’’سوارا‘‘ کی رسم اسی کا ایک روپ ہے۔

غیرت مند سندھی بھی جو کئی ہزار سال سے اجرک‘ سندھی ٹوپی‘ ملاکھڑا‘ الغوزہ اور رقص کو اپنی ثقافت کا حصہ سمجھتے ہیں وہ کارو کاری کو بھی ویسے ہی ثقافت کا جزو لاینفک قرار دیتے ہیں۔ ان کے سامنے بھی اگر کسی عورت کو اس جرم میں قتل کیا جا رہا ہو تو کوئی سومرو‘ گبول‘ پلیجو‘ زرداری‘ ابڑو یا بھٹو اسے بچانے کے لیے نہیں آتا۔ کسی کو ایک مظلوم کی جان بچانے کے لیے غیرت و حمیت کی داستانیں یاد نہیں آتیں۔

وہ بلوچ جو حرّیت کے گیت گاتے ہیں‘ اپنی بہادری کے قصوں پر نازاں ہوتے ہیں ان میں سے بھی کسی مری‘ بگٹی‘ مینگل‘ بادینی‘ جمالدینی‘ رئیسانی‘ پرکانی یا لہڑی کو آپ بہادری کا طعنہ دے کر دکھائیں اور انھیں اس مظلوم عورت کے پیچھے پورا قبیلہ پڑا ہوا ہے اور وہ جان بچانے کو بھاگ رہی ہے‘ دربدر ہو رہی ہے‘ تمہیں تمہاری شجاعت کا واسطہ اس کی جان بچائو تو کوئی آگے نہیں بڑھے گا بلکہ کتنے آرام سے کہہ دے گا کہ یہ ان کے قبیلے کی رسم ہے۔ عورت ان کی ہے میں کیا کروں اور پھر کہے گا کہ اگر میرے قبیلے میں بھی کوئی ایسی عورت ہوتی تو میں بھی اس کے ساتھ یہی سلوک کرتا۔ میں نہیں چاہتا کہ لوگ میرے بعد آنے والی میری نسلوں کو یہ طعنہ دیں کہ تمہارا باپ یا دادا بے غیرت تھا۔ بلوچستان میں ایک بڑے سردار کی بیٹی پر یہ الزام لگا تھا، پڑھا لکھا آدمی تھا، اس نے بیوی کو قتل کرنے سے انکار کر دیا ۔

آج تک اپنے قبیلے میں وہ اور اس کی اولاد واپس نہ آ سکی۔ یہی حال پشتون معاشرے کا ہے وہاں تو ایسی باتوں کا بھی عورت پر الزام لگا کر قتل کر دیا جاتا رہا ہے کہ وہ بے چاری بکریاں چرانے گئی‘ راستے میں سوکھی گھاس پر سستانے کو لیٹ گئی‘ کپڑوں میں گھاس کے تنکے دیکھ کر خاوند نے قتل کر دیا۔ یہ واقعہ صدیوں پرانا نہیں بلکہ چند سال پہلے میری وہاں نوکری کا قصہ ہے۔ ایسے کتنے واقعات روز ہوتے ہیں لیکن کوئی یوسفزئی‘ کاکڑ‘ خلجی‘ غوری‘ اچکزئی اپنی بہادری کے جوہر دکھانے کے لیے اپنے قبیلے کے لوگ لے کر ان عورتوں کی داد رسی کے لیے باہر نہیں آیا۔ سب اسے ایک ثقافتی مجبوری سمجھتے ہیں۔ بڑے سے بڑا پڑھا لکھا پنجابی‘ سندھی‘ بلوچ اور پٹھان اپنی اس نسلی ثقافت کا اسیر ہے۔

لیکن میرا المیہ یہ ہے کہ جب بھی ان ’’عظیم‘‘ ثقافتوں کی بھینٹ کوئی عورت چڑھتی ہے تو میرے ملک کے اکثر ’’عظیم‘‘ دانشور اس کی سزا مسلمانوں کو گالی دینے سے دیتے ہیں۔ انھیں فوراً مسلم امہ یاد آ جاتی ہے انھیں اسلام کے نام پر بنا ہوا ایک ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ستانے لگتا ہے۔ کوئی ان لوگوں کی جانب انگلی نہیں اٹھاتا کہ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم تین ہزار سال سے سندھی‘ بلوچ‘ پشتون اور پنجابی ہیں‘ چند سو سالوں سے مسلمان ہیں اور تقریباً 70 سال سے پاکستانی۔ میرے آقا سید الانبیاﷺ نے جب عرب کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تھی تو عرب کے بدّو بھی یہی کہتے تھے کہ ہم ہزاروں سال سے عرب ہیں ‘تم یہ نئی باتیں کہاں سے لے کر آئے ہو۔

ہم اپنی ثقافت تہذیب روایات کو کیسے چھوڑ دیں۔ کوئی کالم نگار‘ تجزیہ نگار یا اینکر پرسن آج تک یہ سوال اٹھانے کی جرات نہیں کرسکا کہ تم جن ثقافتوں پر ناز کرتے ہو ان میں بھنگڑا ساگ اور ہیر کے ساتھ غیرت کے نام پر قتل بھی تو اس کا حصہ ہے۔ اجرک ٹوپی اور دھمال کے ساتھ کاروکاری‘ لیوا‘ نڑسر اور بلوچی پگڑی کے ساتھ سیاہ کاری اور اتنڑ رباب اور ٹپوں کے ساتھ ’’سوارا ‘‘بھی تمہاری تین ہزار سالہ ثقافتوں میں رچی ہوئی لعنتوں میں سے ایک ہیں۔ کوئی ان قوم پرست رہنمائوں کا گریبان تھام کر سوال نہیں کرتا۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ تم کیسے غیرت مند پنجابی‘ پٹھان‘ بلوچ اور پشتون ہو جو مجبور اور کمزور عورتوں کو قتل کرتے پھرتے ہو۔

ہر ایک کو مسلمان مولوی‘ اسلام اور نظریہ پاکستان یاد آ جاتا ہے۔ اس لیے کہ ان سب کے دماغوں میں صرف ایک مقصد چھپا بیٹھا ہے کہ وہ کس طرح اسلام اور رسولؐ اللہ کے فرمودات کو نشانہ بنائیں ۔لیکن ایسا کرنے کی جرات نہیں کر پاتے ۔اسی لیے جب بھی کوئی مجبور عورت جو ثقافت کے نام پر قتل کی جاتی ہے تو اس جرم کی غلاظت کو مسلمانوں‘ مولویوں اور نظریہ پاکستان کے کھاتے میں ڈال کر اسلام اور مسلمان کو بدنام کرنے کا ’’خوشگوار‘‘ فریضہ انجام دیتے ہیں اور پھر اس پر پھولے نہیں سماتے۔ وہ اسلام جو بے گناہ عورت کو قتل کرنے کے بارے میں قرآن کی ’’سورۃ التکویر‘‘ میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی ناراضگی اور غصے کو کس شدت سے بیان کرتا ہے۔

اس سورہ کا بہائو ایک خاص کیفیت میں اس غصے اور ناراضگی کی طرف لے جاتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے‘ ’’جب سورج لپیٹ دیا جائے گا‘ جب ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گر پڑیں گے‘ جب پہاڑوں کو چلایا جائے گا‘ جب دس مہینے کی حاملہ اونٹیوں کو بھی بے کار چھوڑ دیا جائے گا‘ جب وحشی جانور اکٹھے کر دیے جائیں گے اور جب لوگوں کے جوڑے بنا دیے جائیں گے‘ ‘۔قیامت کی یہ کیفیت بتانے کے بعد اللہ اس منظر نامے میں یہ سوال اٹھاتا ہے۔ ’’جس بچی کو زندہ گاڑھا گیا اسے پوچھا جائے گا کہ تمہیں کس جرم میں قتل کیا گیا ‘‘یعنی اللہ اس وقت قاتل کے چہرے کی طرف دیکھنا تک گوارا نہیں کرے گا۔

یہ وہ دن ہو گا جب نہ پنجابی غیرت کام آئے گی اور نہ پشتون حمیت۔ نہ بلوچی شجاعت اور نہ ہی سندھی تہذیب۔ اس دن صرف میرے رب کا فیصلہ ہو گا لیکن میرے ملک کے عظیم دانشور جو ساٹھ سال سے اس ملک کے لوگوں کو پنجابی‘ پشتون‘ بلوچ اور سندھی بنانے میں مصروف عمل ہیں وہ انھیں مسلمان کیسے بنا سکتے ہیں۔ انھیں اپنی ثقافتوں پر فخر اور غرور سکھائو گے تو ایسے ہی ہائی کورٹ کے دروازوں پر بچیاں قتل ہوتی رہیں گی۔


پاک بھارت تعلقات کا مستقبل

$
0
0

وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کے درمیان ملاقات میں امن مذاکرات کی بحالی اور تجارتی رابطے بڑھانے پر اتفاق ہوگیا ہے۔ اس کو تاریخی ملاقات کہا جارہا ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف پر شدید دبائو تھا کہ وہ بھارت نہ جائیں لیکن انھوں نے تمام دبائو کو ایک طرف رکھتے ہوئے نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ نریندر مودی سے ان کی ملاقات شاندار رہی ہے اور دونوں ملک درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے لیے امن ناگزیر ہے اور اب نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے۔

وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ نریندر مودی نے مجھے اپنی حلف برداری کی تقریب میں بلایا، یہ دونوں ملکوں کے لیے تاریخی موقعہ ہے کہ وہ عوام کی امیدیں پوری کریں اور ایک نئی تاریخ لکھیں۔ قوم نے ہمیں اس کے لیے واضح منڈیٹ دیا ہے۔ ہمارا مشترکہ ایجنڈا ترقی اور خوشحالی ہے لیکن خطے میں امن کے بغیر پورا ہونا ممکن نہیں۔

وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی ثقافتی اور روایتی قدریں مشترک ہیں۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی یہ باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ وہ بھارت کے ساتھ خوشگوار اور اچھے تعلقات کو کس قدر اہمیت دیتے ہیں‘ ادھر نو منتخب بھارتی وزیراعظم کا بھی یہی حال ہے‘ یوں دیکھا جائے تو آنے والے دنوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کا نیا دور شروع ہو گا اور اس میں کئی ایسے فیصلے ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے جنھیں ابھی انہونی سمجھا جا رہا ہے۔

وزیراعظم میاں نواز شریف سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی عیادت کے لیے خصوصی طور پر ان کی رہائش گاہ گئے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس موقعہ پر افغان صدر حامد کرزئی نے پاکستان پر سنگین الزامات لگائے جس میں حال ہی میں ہرات میں بھارتی قونصل خانے پر حملہ ہے۔ دوسرا الزام یہ تھا کہ طالبان کے لیڈر ملا عمر کوئٹہ میں مقیم ہیں۔ اس طرح حامد کرزئی نے بھارت اور پاکستان کے درمیان امن کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی تاہم مجھے لگتا ہے کہ حامد کرزئی اپنے مقصد میں ناکام رہے کیونکہ ان کے الزامات کو بھارتی میڈیا نے تو شاید کچھ اہمیت دی ہو لیکن بھارتی حکومت نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اس موقع پر وزیراعظم نواز شریف نے بھی فہم و فراست کا مظاہرہ کیا اور کسی تنازعے میں الجھنے کی کوشش نہیں کی۔

نواز شریف ہوں یا مودی دونوں نے باہمی تعلقات کے حوالے سے اچھی خواہشات کا اظہار کیا۔ 99ء میں بھی انھی اچھی خواہشات کا اظہار کیا گیا تھا لیکن نتیجہ کارگل کی شکل میں نکلا۔ پھر جب بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو نوبت ایٹمی جنگ تک پہنچ گئی۔ دونوں ملکوں کی فوجیں سرحدوں پر ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے 8 مہینوں تک کھڑی رہیں۔ وہ تو امریکا سمیت عالمی برادری مدد کو نہ آتی تو جنگ کے شعلے بھڑک چکے ہوتے۔

اگر اس دفعہ بھی نواز شریف مودی امن کی کوشش ناکام ہوگئی تو بھارت پاکستان کے غریب عوام ایٹمی جنگ سے بچ نہ پائیں گے۔ اللہ خیر کرے لیکن اس دفعہ صرف دعائوں سے کام نہیں چلے گا کیونکہ دونوں ملکوں کی امن دشمن قوتیں بہت طاقتور ہیں۔ وہ ہر قیمت پر جنگ چاہتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے حکمران طبقات اپنی بقا اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سر توڑ کوشش کررہے ہیں کہ جنگ ہو۔ اس جنگ میں حکمران طبقے ان کی آل اولاد تو بچ جائیں گے لیکن دونوں ملکوں کے غریبوں کی نسلوں تک کا خاتمہ ہوجائے گا۔

آئیے اب دیکھتے ہیں کہ جب بھارتیا جنتا پارٹی کا 80ء میں جنم ہوا تو اس وقت خطے کے حالات کیا تھے۔ اس سے ایک سال پہلے 79ء میں ایران میں مذہبی حکومت قائم ہوچکی تھی۔ بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اپنی بقا کے لیے ضیاء الحق کی شکل میں قوم کو انتہا پسندی کا ذہنی غسل دے رہی تھی۔ اس کام میں اسے عالمی اسٹیبلشمنٹ کی مدد بھی حاصل ہوگئی جس کی سربراہی امریکا کررہا تھا تاکہ افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دی جاسکے۔ اس عمل کے دوران پاکستانی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ دونوں ہی فائدے میں رہے کہ دونوں کے سر کڑاہی میں اور انگلیاں گھی میں تھیں لیکن بیڑہ غرق خطے کے عوام کا ہوگیا۔ اس معاملے میں بھارتی اسٹیبلشمنٹ کیوں پیچھے رہتی تو اس نے بھی بی جے پی کی شکل میں ہندو مذہبی جنونیت کی (درپردہ) سرپرستی شروع کردی۔

اس کام میں بڑے فائدے تھے کہ اس طرح سے قوم کو غلام بناکر رکھا جاسکتا تھا بلکہ اگر پاکستان کی شکل میں کسی کے خطرے کا سامنا کرنا پڑے تو مذہب کے نام پر بھارتی حکمران طبقے کے مفاد کو محفوظ بنانے کے لیے لاکھوں کروڑوں ہندو ہنسی و خوشی اپنی جان قربان کرسکیں۔ مذہبی انتہا پسندی و جنونیت مقامی سامراج اور عالمی سامراج دونوں کے لیے بڑے کام کی چیز ہے۔ اس میں ان کا فائدہ ہی فائدہ ہے کیوں کہ یہی وہ واحد طریقہ ہے جس کو استعمال کرکے غریب عوام کو حکمران طبقوں کے خلاف بغاوت سے روکا جاسکتا ہے۔ جنہوں نے وسائل پیداوار پر قبضہ کرکے عوام کو دانے دانے کا محتاج کردیا ہے۔ وہ حکمران طبقے جنہوں نے سیکڑوں ہزاروں سال سے غریب عوام کو ان کے حق حکمرانی سے محروم کرکے اپنا غلام بنایا ہوا ہے۔

بھارت میں تقسیم کے وقت یہ فیصلہ ہوگیا تھا کہ یہاں سیکولرازم کا مستقبل کیا ہوگا اور اس کا نتیجہ نریندر مودی کی شکل میں آنے میں 67 سال لگ گئے لیکن یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ مودی کی کامیابی برصغیر کی تقسیم کا منطقی نتیجہ ہے۔ جس مذہبی شدت پسندی کا بیج ہم نے پاکستان میں بویا‘ بھارت میں مودی کی شکل میں کاٹ لیا۔ اس کا ذمے دار کوئی اور نہیں ہم خود ہیں۔ بھارت میں سیکولر ازم کی ناکامی کے ذمے دار ہم بھی ہیں اور ہمارے ہاں سیکولر ازم کی ناکامی میں بھارتی انتہا پسندوں کا ہاتھ بھی ہے۔ ہمارے خطے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی نے امریکا یورپ میں بھی سیکولر ازم کا مستقبل خطرے میں ڈال دیا ہے۔ فرانس جرمنی میں ایک کروڑ کے قریب مسلمان آباد ہیں۔ وہاں پر عیسائی شدت پسندی بھی تیزی سے ابھر رہی ہے جو مطالبہ کرتی ہے کہ ان تمام مسلمانوں کو واپس ان کے ملک بھیجا جائے۔ اللہ عالم انسانیت پر رحم کرے۔

…پاکستان اور بھارت موجودہ نحس دور سے نکلیں گے یا نہیں نکلیں گے اس کا فیصلہ اس سال کے آخر میں ہوگا۔

سیل فون:۔ 0346-4527997

میں مایوس نہیں ہوں!

$
0
0

میاں تجمل سے میری واقفیت چند دہائیوں سے ہے۔وہ ایک کاروباری شخص ہے۔لاہور میں بیدیاں روڈ پر اس کا گیارہ ایکڑ کا گھر ہے۔کاروبار پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔لیکن ان تمام معاملات میں کوئی بھی ایسی بات نہیں، جس کی بنیاد پر میں کہہ سکوں کہ تجمل ایک حیرت انگیز انسان ہے۔میں 1984میں میو اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں ڈیوٹی کررہاتھا۔گیارہ بجے کے قریب ایک شخص شدیدزخمی حالت میں لایاگیا۔اسے کار نے کچل دیا تھا۔

تجمل اسے اسپتال خود لے کر آیاتھا۔اس کا اس سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔اس نے اس زخمی کے لیے ہر وہ کام کیا جو عزیز یا رشتہ دار کرتے ہیں۔مریض ایک ماہ اسپتال رہا۔ہر روز تجمل یا اس کا کوئی ملازم تیمارداری کے لیے ایسٹ سرجیکل وارڈ آتاتھا۔وہ روزانہ پورے وارڈ کے مریضوں کے لیے کھانا لاتے تھے۔جس دن مریض کو چھٹی ملنی تھی،اس دن تجمل آیا۔اس نے بڑی خاموشی سے اسے دس ہزار روپے دیے اور میرے پاس کرسی پر بیٹھ گیا۔یہ اس محیرالعقول آدمی سے میری پہلی ملاقات تھی۔

تجمل کوئٹہ کا رہنے والاہے۔غربت میں آنکھ کھولی۔بچپن میں اس نے دودھ دہی کی دکان پر کڑھایاں مانجھنی شروع کر دیں۔پھر وہ کوئلہ کے ایک ٹرک پر مزدوری کرنے لگ گیا۔تین چار سال میں کوئلے کے کام کی سمجھ آگئی۔کراچی کے ایک کاروباری ادارے کو اپنے پلانٹ کے لیے کوئلہ کی شدید ضرورت تھی۔تجمل نے ان سے پہلا کاروبار کیا۔وہ وقت سے دس گھنٹے پہلے کوئلہ پہنچا دیتا تھا۔ ایمانداری اوروقت کی پابندی نے اسے بہت مالی فائدہ پہنچایا۔وہ سات آٹھ برس میں کروڑ پتی ہوگیا۔پھر وہ لاہور آگیا۔

یہاں اس نے کپڑے کا کارخانہ لگایا جوکئی کارخانوں میں تبدیل ہوگیا۔مگر تجمل کو صرف ایک شوق تھا اوروہ تھا اپنے پیسے سے عام لوگوں کو سہولتیں مہیا کرنا!میری اس سے دوستی بڑھتی گئی۔اس کے پاس ذاتی استعمال کے لیے مرسیڈیز ہے اورایک چھوٹی سی سوزوکی بھی،مگر اس کے گھر کے گیراج میں ایک بہت پرانی اسٹیشن ویگن کھڑی ہے اور وہی اس کے لیے سب سے کار آمد گاڑی ہے۔یہ پرانی ویگن ہر وقت اس کی گاڑی کے پیچھے چلتی ہے۔تجمل اپنے سفر کے لیے سوزوکی استعمال کرتاہے۔

ایک دن اس نے مجھے کہا کہ جھنگ چلنا ہے۔اس نے کوئی عمارت دیکھنی تھی اورکسی قریبی عزیز کی شادی بھی تھی۔میں اوروہ جھنگ پہنچ گئے۔بلکہ شہر سے آگے نکل آئے۔میں حیران تھا کہ وہ کونسی فیکٹری کی عمارت ہے جسے تجمل دیکھنا چاہتا ہے۔اٹھارہ ہزاری کے قریب ایک پرائمری اسکول تھا۔ہم وہاں رک گئے۔تجمل نے چوکیدار کو کہا کہ وہ اسکول کے اندر جانا چاہتا ہے۔چوکیدار کہنے لگا کہ اتوار کو تو اسکول بند ہے اوروہ گیٹ نہیں کھول سکتا۔اسٹیشن ویگن سے تجمل کے عملہ نے چوکیدار کے کان میں کچھ کہا۔وہ چوکیدار بھاگ کرگیا۔گیٹ کھولا اورہم اندر چلے گئے۔

اس اسکول کی چاردیواری،عمارت کی نئی چھتیں،باتھ روم اورپلاسٹک کافرنیچر تمام تجمل نے بنوا کردیاتھا۔اسکول کے کونے میں اس نے دوہینڈ پمپ بھی لگوائے تھے۔جب ہم واپس مڑے تو چوکیدار کی آنکھوں میں آنسو تھے۔تجمل نے اپنے عملے کو اشارہ کیا۔وہ اسٹیشن ویگن سے پانچ تھیلے نکال کرلائے۔یہ ایک ماہ کا راشن تھا۔ہم واپس چل پڑے۔میں حیران ہونا شروع ہوگیا۔کسی کو پتہ نہیں تھا کہ اسکول کی یہ حالت کس نے بدلی ہے۔وہ اس طرح کے درجنوں اسکول ٹھیک کرچکاہے۔

واپسی پر جھنگ سے فیصل آباد روڈ پر نیا لاہور ایک کافی بڑا قصبہ ہے۔اس قصبہ سے متصل ایک گائوں میں شادی کی ایک بالکل عام سی تقریب ہورہی تھی۔ہم سارے شدید گرمی میں چارپائیوں پر بیٹھ گئے۔غریب آدمی کی کیا شادی ہوگی!بارات آئی۔رخصتی ہوئی۔اس کے بعد میرے سامنے لڑکی کے والد نے تجمل کے پیر پکڑ لیے۔یہ بہت مشکل مرحلہ تھا اوربہت جذباتی بھی۔میں خاموش رہا۔یہ شخص تجمل کی فیکٹری میں ایک ملازم کا باپ تھا۔وہ ورکر ایک ٹریفک حادثہ میں چھ سال پہلے ہلاک ہوگیاتھا۔

اس کے انتقال کے بعد اس خاندان کی تمام کفالت تجمل خود کرتاتھا۔شادی کے تمام اخراجات اسی نے کیے تھے۔اس نے ان لوگوں کو بتایا ہوا تھا کہ یہ سارے پیسے دراصل حکومت دیتی ہے،وہ صرف ان کو ڈاکیہ کی طرح پہنچادیتا ہے۔ ہم سب کو پتہ تھا کہ وہ جھوٹ بول رہاہے۔وہ کسی کو بتاناہی نہیں چاہتا کہ وہ کوئی نیک کام کررہاہے۔میں اس نیک شخص کے اخلاص کے سامنے پانی میں نمک کی طرح گھلناشروع ہوگیا۔

لاہور میں گنگارام اسپتال میں بچوں کاکینسر وارڈ ہے۔یہ ایک سرکاری ادارہ ہے۔اس کی حالت اتنی خستہ ہے کہ شائد بیان نہ کی جاسکے۔پچھلے مہینہ تجمل میرے پاس آیا اورمجھے اس کینسر وارڈ میں لے گیا۔ اتفاق سے میراایک غیر ملکی دوست بھی میرے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ہم سارے انتقال خون کے اس چھوٹے سے یونٹ میں چلے گئے۔اندر قیامت کا نظارہ تھا۔معصوم بچے اپنا خون تبدیل کروارہے تھے۔ایک ایک بیڈ پر چارچار معصوم پھول لیٹے ہوئے تھے۔

درجنوں بچے برآمدے میں فرش پر لیٹے تھے۔خون کی تھیلی کے اسٹینڈ کم ہونے کی وجہ سے کئی بچوں نے تھیلیاں اپنے ایک ہاتھ سے اونچی کررکھی تھیں۔تجمل نے اسٹیشن ویگن سے بسکٹ، فروٹ، ٹافیاں،نئے کپڑے، کھلونے اورجوس کے سیکڑوں ڈبے نکلوائے۔وہ یہ تمام چیزیں خود تقسیم کرنے لگ گیا۔تقریباًایک گھنٹے کے بعد ہم لوگ وارڈ سے باہر نکلے۔میں بالکل خاموش تھا۔میری زبان کی تالہ بندی ہوچکی تھی۔میرا غیر ملکی دوست وارڈ سے باہر نکل کر دھاڑے مار مار کر رونے لگا۔وہ بیس پچیس منٹ زاروقطار روتا رہا۔مجھے قطعاًعلم نہیں تھا کہ تجمل اوراس کا عملہ ہر ہفتہ یہاں آکر بغیر کسی کو بتائے ہوئے یہ خدمت عرصے سے کررہا ہے۔

اپنے عالی شان گھر میں تجمل بہت سادہ طریقے سے رہتا ہے۔اس کا کمرہ علیحدہ ہے۔اس میں اے سی نہیں لگا ہوا۔چند ٹیلیفون لگے ہوئے ہیں۔اس کے گھر میں ملازم غیر ملکی ہیں۔اکثر کا تعلق فلپائن سے ہے۔مگر وہ اپنا ذاتی کام خود کرتا ہے۔دن میں وہ چھ گھنٹے کاروبار کرتا ہے۔یہ وہ وقت ہے جب وہ مشین بن جاتا ہے۔کروڑوںاوراربوں کے سودے کرتا ہے۔باقی تمام وقت وہ اپنا نام بتائے بغیر عام لوگوں کو آسانیاں فراہم کرنے میں صرف کرتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ اس کے پیسے پر اصل حق ان غریب لوگوں کاہے جن کو پیسے کی ضرورت ہے۔وہ جتنا خرچ کرتا ہے،اس کے بقول وہ پیسہ خدا اسے دوگنا کرکے لوٹا دیتا ہے۔

زاہد گوجرنوالہ میں بائی پاس کے نزدیک رہتاہے۔خدا کے فضل سے اس کا گھر بہت وسیع اوردیدہ زیب ہے۔مگر زاہد کا دل اپنے گھر سے زیادہ وسیع ہے۔وہ ایک عجیب وغریب انسان ہے۔انتہائی خوبصورت ڈریس میں ملبوس یہ شخص دراصل ایک درویش ہے۔آپ کسی خلق خدا کے کام کا ذکر کرے۔ پتہ چلے گا کہ زاہد تو پہلے سے ہی یہ کام بغیر کسی صلہ کے کیے جارہاہے۔میری اس سے دوستی گجرانوالہ کی پوسٹنگ کے دوران ہوئی۔ زاہد نے اپنا گھر سماجی کاموں کے لیے وقف کیا ہواہے۔غریب لوگوں کی سہولت کے لیے اجتماعی شادیاں اس مردِ عجیب نے گجرانوالہ میں شروع کیں۔وہ اوران کی اہلیہ مل کر ان بچیوں کا جہیز بناتے ہیں۔ کسی سے امداد لیے بغیر یہ اپنی ذاتی گرہ سے کھانے کا خرچہ اٹھاتے ہیں اوران کی رخصتی کرتے ہیں۔ایک دن سخت دھوپ میں لاہور آرہا تھا۔

گجرانوالہ سے چند کلو میٹر باہر میں نے دیکھا کہ زاہد اورکچھ لڑکے سڑک کے ساتھ ساتھ پودے لگارہے ہیں۔چندلڑکے گھاس پھوس اکٹھا کررہے ہیں اورمیدان کی صفائی کررہے ہیں۔وہ اب تک اپنے شہر میں ہزاروں پودے لگاچکا ہے۔وہ اسپتال میں غریب مریضوں کے لیے مفت دوایاں فراہم کرتاہے۔اس کے گھر کا ایک کمرہ ایک ادبی بیٹھک ہے۔ملک بھر کے شاعر،ادیب اورلکھاری وہاں جمع ہوتے ہیں۔وہاں ان تمام لوگوں سے ادبی مکالمہ ہوتا ہے اورہر ہفتہ کوئی نہ کوئی رونق لگی رہتی ہے۔حسن نثار سے میری ملاقات زاہد کی وساطت سے ہوئی تھی۔ یہ عجیب شخص اپنے آپ کو دوسروں کی خدمت کے لیے وقف کرچکا ہے۔

ہمارے بنجر حکمران جھوٹ کے لباس میں ملبوس طمع کے گھوڑے پر سوار ہیں۔یہ ادنیٰ سے ادنیٰ مسئلہ حل کرنے میں بھی ناکام نظر آتے ہیں۔ تمام کام جو ان کے فرائض ہیں، وہ ان کو احسان بنا کرپیش کرتے ہیں۔اشتہاروں کے ذریعے مجبور کرتے ہیںکہ ہم ان لوگوں کا شکریہ ادا کریں!میں جب ان کی عامیانہ حرکتیں دیکھ کر مایوس ہونے لگتا ہوں تو میرے ذہن میں زاہد اورتجمل آجاتے ہیں۔دکھ کم ہو جاتاہے!ہماری اصل طاقت ہمارے یہی درویش لوگ ہیں جو بغیر کسی صلہ اورشہرت کے عام لوگوں میں آسانیاں تقسیم کررہے ہیں!اس لیے اب میں بالکل مایوس نہیں ہوں!

پیوست

$
0
0

1995 میں امریکا کے مشہور رسالے نیوز ویک نے ایک مضمون چھاپا تھا جس کا موضوع تھا انٹرنیٹ ایک بے کار چیز ہے اسے عام لوگ کبھی استعمال نہیں کریں گے لیکن نیوز ویک اپنی اس پیش گوئی میں بالکل غلط ثابت ہوا۔ جب 1997 تک انٹرنیٹ پر ایک ملین سائٹس بن چکی تھیں۔

’’6 ڈگریز ڈاٹ کام‘‘ وہ پہلی ویب سائٹ تھی جس پر لوگ اپنے پروفائلز بناسکتے اور اپنے فرینڈز کو اپنی لسٹ میں شامل کرسکتے جس کے بعد ’’فرینڈز ری یونائیٹ‘‘ اور درجنوں ایسی ویب سائٹس انٹرنیٹ پر آگئیں۔ سال 2000 تک انٹرنیٹ سے ستر ملین کمپیوٹرز دنیا بھر سے رابطے میں تھے۔

سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ ’’فرینڈسٹرز‘‘ 2002 میں یو ایس اے میں کھولی گئی اور صرف تین مہینے میں تین ملین USERS تک پہنچ گئی، اس کی کامیابی دیکھ بالکل ایسی ہی ہو بہو سائٹ ’’مائی اسپیس‘‘ 2003 میں بنی اور اس سے ملتی جلتی ویب سائٹ ’’فیس بک‘‘ 2004 میں بنی، یہ پہلے کالج کے طلبا کے لیے تھی اس لیے اسے لوگ ’’اسٹوڈنٹس کا فرینڈسٹرز‘‘ کے نام سے بھی پکارتے تھے۔

2006 تک دنیا کی سب سے مقبول اور نمبر ون ویب سائٹ ’’مائی اسپیس‘‘ تھی لیکن 2008 تک فیس بک نمبر ون ہوگئی، 2007 میں ایپل نے پہلا اسمارٹ فون آئی فون ریلیز کیا جس کے بعد USERS اب اپنے فون سے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ کو کھول سکتے تھے یعنی اب سوشل نیٹ ورک آپ کی جیب میں ہے۔

آج انٹرنیٹ اور سوشل نیٹ ورک ہماری زندگی کا اہم حصہ بن چکے ہیں جو لوگ عام طور پر باقاعدگی سے انٹرنیٹ نہیں استعمال کرتے وہ بھی فیس بک باقاعدگی سے استعمال کر رہے ہیں۔ اس وقت فیس بک پر 1.1 بلین ایکٹیو یوزرز ہیں۔

جہاں پہلے لوگ سوشل نیٹ ورکنگ کو بچوں کا کھیل اور وقت کا زیاں سمجھتے تھے وہیں وقت گزرنے کے ساتھ اس سوچ میں کئی اہم بدلاؤ آنے لگے۔

یہ سوشل میڈیا ہی تھا جس کی وجہ سے اوباما تیزی سے مقبول ہوئے۔ وہ جو تین سو سال میں نہیں ہوا وہ امریکا نے سوشل نیٹ ورکنگ کے ذریعے کچھ مہینوں میں ممکن کردیا۔ ایک افریقن امریکن پہلی بار امریکا کا صدر بنا، اگر اوباما کی کیمپین پر غور کیا جائے تو دیکھا جاسکتا ہے کہ فیس بک، ٹوئٹر کے ذریعے انھوں نے عوام خصوصاً نوجوانوں سے براہ راست رابطہ قائم کیا، بیشتر وہ لڑکے لڑکیاں جو پہلی بار ووٹ دے رہے تھے، اوباما خود سے فیس بک پر Message کرتے اور لوگوں کا جواب بھی دیتے، ان کی بیشتر ریلیز فیس بک پر ہی پلان کی گئیں اور ہزاروں لوگ ان میں موجود ہوتے۔

مصر کے انقلاب کے بارے میں آج سب جانتے ہیں لیکن جو سب نہیں جانتے وہ یہ ہے کہ یہ سارا انقلاب فیس بک کے ایک صفحے سے شروع ہوا تھا، جب دبئی میں رہنے والے ایک مصری گوگل مارکیٹنگ Executive ویل گوہنم (Wael Ghonim) نے جون آٹھ 2010 میں اپنے گھر میں انٹرنیٹ پر ایک چھبیس سالہ نوجوان کی تصویر دیکھی جسے مصری پولیس نے تشدد کرکے مار ڈالا تھا اس واقعے کی مذمت کرنے کے لیے ویل گوہنم نے فیس بک پر ایک پیج بنایا جس کے دس منٹ میں تین سو ممبر بن گئے۔

اس فیس بک پیج کے بہت جلد ہزاروں ممبر بن گئے اور ایک ایسی تحریک کا آغاز ہوگیا جس کا کوئی پہلے تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اس کے بعد مصر میں کیا ہوا؟ یہ انسانی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

پچھلے دس سال میں دنیا کی سیاست کی وجہ سے جن ملکوں کو سب سے زیادہ دھچکا پہنچا ہے ان میں ایک افغانستان ہے۔ یہ وہ ملک ہے جو پچھلی جنگ سے ہی نہیں سنبھل پایا تھا کہ نائن الیون کے بعد ایک عجیب سے موڑ پر آکھڑا ہوا۔ دنیا ان کے مسئلے سمجھنے کے بجائے الٹا ان پر ٹوٹ پڑی، ملک کی غلطی نہیں تھی ہاں شاید کچھ گنتی کے لوگ غلط کاموں میں ضرور ملوث تھے لیکن نائن الیون کی وجہ سے پورے ملک اور وہاں کے رہنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑا۔

پچھلے دس سال میں امریکا بلین آف ڈالرز خرچ کرچکا ہے کہ کس طرح افغانستان اور دنیا کے بیچ امن کے راستے ہموار کرے۔ وہ امن قائم ہوسکے جس کا انتظار افغانیوں کو بھی ہے لیکن اب تک کی ہر کوشش ناکام رہی۔

جہاں دنیا بھر کے لوگ سوشل میڈیا کو اپنی زندگی کا اہم حصہ بناچکے تھے وہیں افغانستان ان چیزوں سے بہت دور تھا لیکن کچھ سال پہلے امریکا کی ہی فنڈنگ سے ایک پروجیکٹ شروع کیا گیا جس کا نام تھا ’’پیوست‘‘ یعنی ’’جڑجانا‘‘ یہ ایک سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ تھی جو افغانستان میں فیس بک کی طرح کامیاب ہوگئی جب کہ امریکا نے دوسرے ملکوں جیسے کیوبا میں بھی پروجیکٹس شروع کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئیں۔

ہیلری کلنٹن نے کچھ سال پہلے جب مصر اور تیونیشیا میں سوشل میڈیا کا استعمال دیکھا تو فیصلہ کیا کہ افغانستان میں بھی اس طرح کی سائٹ بنائی جائے گی جس کے بعد ’’پیوست‘‘ بنی لیکن 2011 میں امریکا نے اس کی فنڈنگ روک دی۔

افغانستان میں پیوست کی شہرت بڑھتی گئی اور اس وقت 1.6 ملین یوزرز اس ویب سائٹ کو روز استعمال کر رہے ہیں لیکن کیوں کہ اب اس کو چلانے والی کمپنی کے پاس امریکن فنڈز نہیں تھے اس وجہ سے انھوں نے سروس کے لیے یوزرز سے چارج کرنا شروع کردیا جس کی وجہ سے کئی لوگوں نے اس پلیٹ فارم کو استعمال کرنا چھوڑ دیا۔ کمپنی والے مجبور ہیں پیسے لینے کے لیے Consumers سے ورنہ وہ آپریشن نہیں چلا سکتے تھے۔

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ وہ ملک جو دوسروں کے حساب سے ترقی یافتہ نہیں وہاں کے 1.5 ملین سے زیادہ لوگ انٹرنیٹ کے ایک پلیٹ فارم پر موجود ہیں جو دنیا سے براہ راست رابطے میں رہ سکتے ہیں، انٹرنیٹ ترقی کر رہا ہے اور سوشل نیٹ ورکنگ کی سائٹس کی مقبولیت پر کوئی دو رائے نہیں ہے۔ جب مصر میں فیس بک کے صرف ایک پیج سے انقلاب آسکتا ہے تو افغانستان میں ایک ویب سائٹ سے کیوں نہیں؟

’’پیوست‘‘ افغانستان کا فیس بک ہے جسے دنیا نظر انداز کر رہی ہے۔ امریکا کو چاہیے اربوں ڈالر دوسری چیزوں پر خرچ کرنے کے بجائے کچھ فنڈز پیوست پر لگائے تاکہ یہ سروس مفت ہوسکے اور مزید لوگ اسے جوائن کریں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں افغانستان کا وہ مجمع جمع ہو رہا ہے جسے امریکا پچھلے دس سال میں جمع نہیں کر پایا، ایک دفعہ یہ مجمع جمع ہوگیا تو ان سے بات کرنا آسان ہوگی یہ امریکا کو سمجھنا چاہیے۔

محلہ کمیٹیوں کی ضرورت اور اہمیت

$
0
0

ہمارے حکمران طبقے کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ ہر مسئلے کا ریڈی میڈ حل نکالتے ہیں جس وجہ سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ مزید شدت اختیار کرلیتا ہے، دوسرے ممالک خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک میں اہم قومی مسائل کے حل کے لیے ان مسائل کے محرکات اور متعلقات کا بھرپور طریقے سے تحقیقاتی جائزہ لیا جاتا ہے اور اس کی روشنی میں ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس طریقہ کار کی وجہ سے مسائل حل کرنے میں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔

کراچی ملک کا سب سے بڑا اور صنعتی شہر ہے اور ایسے شہروں میں پسماندہ علاقوں سے تلاش روزگار کے لیے آنے والوں کا ہجوم ہوتا ہے، روزگار کے لیے صنعتی شہروں میں آنے والوں کے ساتھ ساتھ جرائم پیشہ افراد کے گروہ بھی بڑے شہروں میں آتے رہتے ہیں۔ کراچی جن سنگین جرائم کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ان جرائم میں باہر سے آنے والوں کی اکثریت ملوث ہے۔ کراچی کی انتظامیہ جرائم کی روک تھام کے لیے جو اقدامات کرتی ہے اس میں اس تحقیق کا کوئی دخل نہیں ہوتا کہ مجرموں میں کراچی کے باشندوں کی تعداد کتنی ہے، باہر یعنی دوسرے صوبوں سے آنے والوں کی تعداد کیا ہے، ان اندھے اقدامات کی وجہ سے جرائم میں کمی تو نہیں ہوتی البتہ ان میں بے تحاشا اضافہ ضرور ہوتا ہے۔ کراچی عرصے سے اسی صورتحال سے دوچار ہے۔

کراچی کی آبادی ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ہے اور یہ شہر سیکڑوں میل پر پھیلا ہوا ہے جس میں ہزاروں بستیاں آباد ہیں جن میں مختلف زبان بولنے والے، مختلف نسل اور قومیتوں کے لوگ آباد ہیں جن میں جرائم پیشہ لوگ بھی شامل ہیں۔ اگر ہمارا حکمران طبقہ باشعور اور جرائم کے خاتمے میں مخلص ہوتا تو وہ مجرموں کے علاقوں، ان کی زبان اور قومیت کے حوالے سے مکمل معلومات حاصل کرتا اور اس کی روشنی میں جرائم کے تدارک کے لیے اقدامات کرتا تو ان میں کامیابی کے زیادہ امکانات ہوتے لیکن المیہ یہ ہے کہ اس سائنٹیفک طریقے سے کام کرنے کے بجائے اندھے کی لاٹھی کی طرح کے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور سونے پر سہاگہ یہ کہ محض سیاسی مفادات کی خاطر کہا جا رہا ہے کہ ’’کراچی سب کا شہر ہے‘‘۔ اس اندھی حماقت کا نتیجہ یہ ہے کہ جرائم پیشہ افراد کے گروہ کے گروہ کراچی آرہے ہیں اور جرائم کا گراف آسمان کو چھو رہا ہے۔

دوسرے صوبوں سے آنیوالوں کے ساتھ ساتھ دوسرے ملکوں سے آنیوالوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دوسرے ملکوں سے آنیوالے پاکستان کے قوانین کے تحت کراچی آرہے ہیں اور شہری حقوق حاصل کر رہے ہیں یا ہر کام رشوت کے عوض ہو رہا ہے۔ اس سوال کے جواب سے اس شہر کا ہر شہری واقف ہے۔ اس بدنظمی اور بدانتظامی کی وجہ سے کراچی لاقانونیت اور جرائم کا گڑھ بنا ہوا ہے اور حکمران طبقہ محض انٹ شنٹ بیانات پر گزارا کر رہا ہے۔ ہمارا میڈیا بلاشبہ فعال بھی ہے اور طاقتور بھی لیکن کراچی میں جرائم کی بھرمار کو کنٹرول کرنے میں کوئی مثبت رول ادا نہیں کر پا رہا ہے۔

ہماری صوبائی حکومت اور اس کے سربراہ قائم علی شاہ بہت سنجیدہ اور خاموش طبع انسان ہیں اور کراچی میں جرائم کو روکنے کی اپنی سی کوششیں بھی کر رہے ہیں، اس حوالے سے کراچی پولیس کو اربوں روپوں کی بلٹ پروف گاڑیاں اور اسلحہ وغیرہ بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ تازہ اطلاع کے مطابق کراچی پولیس کو جدید اسلحہ فراہم کرنے کے لیے مزید چھ کروڑ روپے فراہم کیے جا رہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ کسی کو اس حقیقت کا ادراک نہیں کہ سیکڑوں میل پر پھیلے اس شہر کے کونے کونے میں جرائم پیشہ افراد موجود ہیں اور انھیں ختم کرنا نہ پولیس کے بس کی بات ہے نہ رینجرز کے بس کی بات ہے، نہ پولیس میں دس پندرہ ہزار نفری کے اضافے سے اس سنگین صورتحال کو کنٹرول کرنا ممکن ہے۔

متحدہ کے قائد الطاف حسین بار بار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ سمیت دوسرے تمام جرائم کی روک تھام کے لیے محلہ کمیٹیاں قائم کی جانی چاہئیں۔ یہ تجویز ہم نے اپنے کالموں میں بھی پیش کی ہے اور بلاشبہ یہ ایک مثبت اور حقیقت پسندانہ تجویز ہے، کیونکہ گلی محلے کے لوگ اپنے اردگرد رہنے والوں کو اچھی طرح جانتے ہیں اور اگر کوئی نیا آدمی ان علاقوں، گلی محلوں میں آباد ہوتا ہے تو انھیں اس کا علم ہوتا ہے اور اہل علاقہ شریف شہریوں اور جرائم پیشہ افراد میں تمیز کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔

متحدہ کے قائد کی یہ تجویز اگرچہ حقیقت پسندانہ اور موثر ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ محلہ کمیٹیاں کون بنائے گا اور کیسے بنائے گا؟ ہمارے عوام کے درمیان قومیت، فقہ وغیرہ کے حوالے سے بے شمار تضادات موجود ہیں اور پھر محلہ کمیٹیاں بنانے میں پہل کرنا بذات خود ایک بڑے رسک کا کام ہے اور خوف و دہشت کے مارے ہوئے کراچی کے شہری خود ایسا رسک لینے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوں گے۔ ہاں اگر حکومت یا کوئی سیاسی جماعت یا جماعتیں اس حوالے سے پہل کریں تو عوام تعاون کرنے پر آمادہ ہوسکتے ہیں۔

ہماری شاہ جی حکومت پولیس کی نفری بڑھانے، انھیں جدید اسلحہ فراہم کرنے، بلٹ پروف گاڑیاں دلوانے پر اربوں روپیہ خرچ کر رہی ہے لیکن یہ سارے اقدامات اس لیے بے معنی اور بے سود ہیں کہ ہزاروں کچی پکی بستیوں پر مشتمل اس شہر کو نہ پولیس کی نفری بڑھاکر جرائم پیشہ افراد سے نجات دلائی جاسکتی ہے نہ اربوں روپے کے جدید اسلحے کے ذریعے اس شہر کو جرائم سے پاک کرنا ممکن ہے۔ اس کا واحد علاج محلہ کمیٹیاں ہی ہیں اور حکومت اگر چاہے تو تھانہ لیول پر محلہ کمیٹیاں قائم کرکے عوام کو جرائم کی روک تھام میں شامل کرسکتی ہے اور جس کام میں عوام شامل ہوتے ہیں اس کام میں کامیابی یقینی ہوتی ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف سے لاکھ اختلافات کریں، ان پر لاکھ الزامات لگائیں، ان کے پیش کردہ بلدیاتی نظام کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ یہ نظام صرف انتظامی اور مالی اختیارات نچلی سطح تک پہنچاکر حکومتی اشرافیہ کی اجارہ داری کا خاتمہ ہی نہیں کرتا تھا بلکہ گلی محلوں تک اس نظام کی ایسی موثر رسائی ہوتی تھی کہ محلہ کمیٹیوں جیسی تنظیمیں بنانا ممکن ہی نہیں بلکہ بہت آسان بھی تھا۔ لیکن وڈیرہ شاہی اقتدار مافیا کو قطعی یہ گوارا نہیں تھا کہ وہ اپنے انتظامی اور مالی اختیارات میں کمی کو قبول کرے۔

اس مجرمانہ اور عوام دشمن ذہنیت کی وجہ سے نہ صرف اس موثر نظام کو ختم کردیا گیا بلکہ اس کی جگہ نوآبادیاتی حکمرانوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے والے کمشنری نظام کی اس زور و شور سے وکالت کی گئی کہ سیاسی شرافت منہ دیکھتی رہ گئی۔ 8-7 سال گزرنے کے باوجود بلدیاتی نظام کو پیچھے دھکیلا جا رہا ہے اور معزز ریاستی ادارے تعاون فرما رہے ہیں۔

اگر بلدیاتی نظام موجود ہوتا تو بلاشبہ محلہ کمیٹیاں بنانا بہت آسان ہوتا، لیکن نہ بلدیہ نظام موجود ہے نہ اس کے جلد بحالی کے امکانات ہیں کیونکہ وڈیرہ شاہی مضبوط بھی ہے اور بااختیار بھی ہے، وہ کسی صورت میں نچلی سطح تک انتظامی اور مالی اختیارات کی تقسیم پر تیار نہیں ہوگی۔

بہرحال حقیقت یہی ہے کہ کراچی میں گلی گلی محلہ محلہ پھیلے ہوئے جرائم کی روک تھام نہ پولیس کی نفری بڑھاکر کی جاسکتی ہے نہ پولیس اور رینجرز کو اربوں روپوں کا جدید اسلحہ فراہم کرکے کی جاسکتی ہے اس کا واحد اور منطقی حل محلہ کمیٹیاں ہیں بشرطیکہ یہ کمیٹیاں سیاسی مفادات اور سیاست سے بالاتر اور آزاد ہوں۔ متحدہ اور پی پی پی صوبائی حکومت کے کوئلیشن پارٹنر ہیں اگر دونوں جماعتیں سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر کراچی کو ٹارگٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائمز سے نجات دلانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ کوشش کامیاب ہوسکتی ہے، اس حوالے سے دوسرا کوئی موثر آپشن موجود نہیں ہے۔

سندھ کی جامعات اور مسائل

$
0
0

میں اس وقت جامعہ کراچی کی سماعت گاہ کلیہ فنون میں بیٹھا ایک انتہائی اہم مسئلے پر مقررین کی باتیں غور سے سن رہا ہوں۔ ان مقررین میں جامعات کے اساتذہ کی تنظیم “FAPUASA” کے صدر ڈاکٹر وحید چوہدری اور انجمن اساتذہ جامعہ کراچی کے صدر ڈاکٹر جمیل کاظمی کے علاوہ سندھ بھر کی سرکاری جامعات کے نمایندے شامل ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ 2013 ایکٹ سندھ کی سرکاری جامعات کی خود مختاری پر کاری ضرب ہے اور اس سلسلے میں سندھ حکومت کی جانب سے جامعات کی غیر تدریسی آسامیوں پر تقرریوں کے لیے اشتہار دینا خلاف قانون بھی ہے۔

ڈاکٹر جمیل کاظمی کا کہنا تھا کہ وہ اپنے اس پرامن احتجاج کو جاری رکھیں گے اور اس کا دائرہ پورے پاکستان کی جامعات تک وسیع کریںگے، نیز قانونی جنگ بھی لڑیںگے۔ اس موقع پر جامعہ کراچی کے ایک استاد اسامہ شفیق کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کی جانب سے سیاسی مداخلت اور سیاسی بنیادوں پر تقرریوں کی کوششیں بھی بند ہونی چاہیے بلکہ خود جامعہ میں جو سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کی گئیں ہیں ان کا بھی ازالہ ہونا چاہیے۔ میرٹ کا قیام از حد ضروری ہے۔

بلاشبہ 2013 ایکٹ کے حوالے سے سندھ بھر کی جامعات کے اساتذہ کے تحفظات اپنی جگہ وزن رکھتے ہیں لیکن راقم کے خیال میں اس ساری صورت حال اور چند ایک دیگر فیصلوں کے تناظر میں یہ مسائل مستقبل میں کچھ اور رنگ اختیار کر جائیںگے اور اس نئے رنگ کے ایشوز سندھ کی سیاست پر بھی اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں چند گزارشات ہیں جن پر غور کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔

صوبہ سندھ پاکستان کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں ایک الگ شناخت بھی رکھتا ہے اور منفرد لسانی مسائل بھی رکھتاہے جس کی دو بنیادی وجوہات ہیں، ایک یہ کہ یہاں کی قدیم مقامی آبادی سندھی زبان کی حامل ہے لیکن یہ زیادہ تر دیہی علاقوں کی آبادی پر مشتمل ہے، یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ یہاں کہ منتخب نمایندوں نے کبھی بھی سندھ کی اس قدیم آبادی کو سندھ کی ترقی کی دوڑ میں دانستہ یا نادانستہ طور پر شامل نہیں ہونے دیا بلکہ صد افسوس کہ انھوں نے دیہی علاقوں میں زندگی کی بنیادی ضروری اور صحت و تعلیم جیسی اہم ضرورت بھی مہیا کرنے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا اور مزید ظلم یہ کہ اس پر لسانی سیاست بھی کی۔

چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سندھی زبان بولنے والی مقامی آبادی ایک جانب سندھ میں ہونے والی تیز تر ترقی کا ساتھ نہ دے سکی، دوسری جانب تعلیم کی سہولیات نہ ہونے کے باعث سندھ کے دیگر باشندوں سے جس میں اردو بولنے والے اور پاکستان کے دیگر علاقوں سے آنے والے شامل ہیں، سے مقابلے میں پیچھے رہ گئی۔ یوں ایک ہی ملک کے باشندے سندھ میں اس مدو جزر یا غلط حکمت عملیوں کے باعث آپس میں محبت کے وہ رشتے رکھنے سے قاصر رہے جو بحیثیت ایک پاکستانی قوم ہونا چاہیے تھا۔ رہی سہی کسر اس سیاسی عمل نے پوری کردی جس کے تحت اقتدار میں آنے کے لیے لسانی نعروں کو اپنایا گیا اور یہ عمل حکومتی سطح پر بھی پوری طرح نظر آیا، مثلاً کوٹہ سسٹم کا مسئلہ دیکھ لیجیے کہ ایک طویل عرصے سے اس کا نفاذ چلا آرہا ہے، حالانکہ کئی مرتبہ اس کی مدت بھی ختم ہوگئی مگر پھر اس کی مدت میں اضافہ کردیا گیا۔

کوٹہ سسٹم کے لیے جواز یہ ڈھونڈا گیا کہ دیہی علاقوں کے لوگوں کے پاس چونکہ علم حاصل کرنے کے مواقع بہت کم ہوتے ہیں سہولیات بھی نہیں ہوتیں لہٰذا کوٹہ سسٹم کے ذریعے انھیں آگے لانے کے لیے ایک ہمدردانہ طریقہ اختیار کیا جارہا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ دیہی علاقوں کے لوگوں کو تعلیم اور صحت کی بنیادی ضروریات ان کے دروازے پر فراہم کرکے ان کی مدد کیوں نہیں کی جاتی؟ شاید اس لیے کہ تعلیم، شعور دیتی ہے اور اگر نچلی سطح پر عوام میں شعور آگیا تو کچھ لوگوں کی سیاسی دکانیں بند ہوجائیں گی، کچھ کے مفادات پر کاری ضرب پڑے گی۔

ظاہر ہے کہ جب دیہی عوام کو پڑھنے کے لیے سہولیات ہی نہیں، انھیں تو روٹی، کپڑا اور مکان کے جھنجھٹ سے ہی چھٹکارا نہیں ملتا تو وہ بھلا تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کیسے حاصل کریںگے؟ جب تعلیم حاصل نہیں کریں گے تو سرکاری ملازمت کے لیے سندھ دیہی کوٹہ کی درخواستیں کیسے دے سکتے ہیں؟ گویا کوٹہ کے تحت دیہی لوگ درخواستیں دیںگے جو ڈگریاں رکھتے ہیں اور ڈگریاں کن کے پاس ہوںگی؟ ان ہی کے پاس جو تعلیم کو افورڈ یعنی اس کے اخراجات برداشت کرسکتے ہوں اور ایسے لوگ دیہی علاقوں کے وڈیرے یا سیاسی جماعتوں کے کرتے دھرتے ہی ہوسکتے ہیں، تو گویا کوٹہ سسٹم کے تحت سندھ کے دیہی عوام کے غریب نہیں بلکہ ایلیٹ کلاس مثلاً وڈیرے وغیرہ ہی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

ایک ایسی ہی مثال کراچی شہر کے قلب میں واقع لیاری کے علاقے کی لے لیجیے، سب کو پتہ ہے کہ لیاری میں ہمیشہ ووٹ کس کو ملتا ہے، کون جیتتا ہے، مگر کسی ایک نمایندے نے کبھی لیاری کے لوگوں کو پانی، صحت اور تعلیم کی سہولیات دیں؟ روزگار فراہم کیا؟ اگر یہ سب کچھ کیا ہوتا تو آج لیاری سے گینگ وار کے خوف سے وہاں کے مکین خود علاقہ چھوڑ کر بھاگ نہ رہے ہوتے بلکہ دیہی علاقوں سے بھی لوگ یہاں تعلیم حاصل کرنے آتے۔

مختصراً کہ سندھ حکومت میں شامل ماضی کے حکمرانوں نے سندھی بولنے والوں کے مسائل کے حل کا نعرہ لگاکر جو فیصلے کیے ان سے یہاں لسانی کشیدگی تو ضرور پیدا ہوئی مگر سندھ کے قدیم اور غریب باشندوں کی قسمت نہیں بدلی۔ اب بھی بعض فیصلے جو بظاہر یہاں کے باشندوں کی بہتری کے دعوے کے طور پر کیے جارہے ہیں ان کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں۔ سندھ کی جامعات میں ناظم امتحانات، ڈائریکٹر فنانس رجسٹرار جیسی اہم آسامیوں پر تقرری کے لیے جامعات کے حق کو سلب کرنا سندھ کے مفادات میں نہیں۔

بظاہر یہ شہری دیہی مسئلہ نہیں کیوں کہ اس میں سندھ بھر کی سرکاری جامعات بھی شامل ہیں لیکن چونکہ جامعہ کراچی نہ صرف سندھ کے شہر کراچی بلکہ پورے ملک کی بڑی جامعہ ہے اور یہ کراچی کے شہریوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کا ایک بڑا اور واحد ذریعہ ہے لہٰذا سندھ حکومت کی جانب سے اہم آسامیوں پر براہ راست تقرریوں میں ذرا سی بے احتیاطی اور غلطی سے لسانی کشیدگی کی چنگاری بھڑک سکتی ہے۔ اسی طرح جامعہ کراچی کے حوالے سے ایک اور اہم مسئلہ جامعہ کراچی کے اندرون سندھ دو کیمپس کی بنیاد رکھنے کے حوالے سے ہے۔ جامعہ کراچی کے اندرون سندھ دو کیمپس شروع کرنے کی ابتدائی منظوری جامعہ کراچی کے سینڈیکٹ کے اجلاس سے ہوچکی ہے۔

حکومت سندھ کی طرف سے اس سلسلے میں ایک طویل عرصے سے دبائو تھا۔ سوال یہ ہے کہ آخر جامعہ کراچی کے ہی کیمپس کیوں اندرون سندھ کے علاقوں میں کھلے جارہے ہیں؟ سندھ کی دیگر جامعات کے ذریعے یہ کمی پوری کیوں نہیں کی جاسکتی؟ بظاہر یہ مسئلہ گمبھیر نہیں لیکن عقل کہتی ہے کہ جامعہ کراچی کے اندرون سندھ کیمپس شروع کرنے سے سندھ کے لسانی مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔ کیوں کہ جب اندرون سندھ جامعہ کا کیمپس کام شروع کرے گا تو یقیناً وہاں سندھی اسپیکنگ اسٹاف بھرتی ہوگا اور جب وہاں کا کوئی ملازم شہر کراچی میں جامعہ کے کیمپس میں ٹرانسفر ہوگا یا کراچی شہر کے کیمپس سے کسی کا تبادلہ ہوگا تو یہ تمام عمل ایک نئے فساد کو جنم دے گا اور یہ عمل سیاسی شعبدہ بازوں کے لیے موقع فراہم کرے گا وہ اس پر لسانی سیاست کریں گے۔

ماضی میں بھی ڈاکٹر حضرات کی اندرون سندھ اور شہر کراچی میں تبادلے لسانی کشیدگی کا باعث بن چکے ہیں۔ آیئے غور کریں اور کوشش کریں کہ کم از کم تعلیمی میدان میں آج کوئی ایسا عمل سرزد نہ کریں جو کل ہمارے مسائل میں مزید اضافے کا باعث ہو اور جس سے عوام کی یکجہتی کمزور پڑے۔

یو ٹیوب

$
0
0

’’ترکی کی عدالت نے حکومت کی جانب سے یوٹیوب پر عائد پابندی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حکم جاری کیا ہے کہ عوام کو ویب سائٹ تک رسائی کی فوری اجازت دی جائے‘‘

express.pk پر یہ خبر پڑھنے کے بعد میں سوچ رہا ہوں کہ پاکستان میں تو یہ پاپولر ویب سائٹ گزشتہ حکومت نے بند کی تھی مگر ایک برس سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک اس پر پابندی نہیں ہٹائی گئی۔ حالانکہ حکومت ہٹ گئی۔ جس ایشو کے حوالے سے مسلمان ممالک میں احتجاج ہوا وہ ایشو لوگ بھول بھی چکے ہیں مگر پابندی ہے کہ ہٹنے کا نام تک نہیں لے رہی۔ اس حوالے سے مجھے سندھ کی تاریخ کا ایک دلچسب اور دل خراش واقعہ یاد آ رہا ہے۔

جب سندھ پر تالپور خاندان کی حکومت تھی، تب ایک بادشاہ کے مرنے بعد جب اس کا بیٹا تخت نشین ہوا تو اس نے بادشاہ بننے کی خوشی میں معمولی جرائم والے قیدیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا اور ان قیدیوں کو دربار میں بلایا تو ان قیدیوں میں ایک قیدی سفید بالوں والا بھی تھا۔ اس قیدی سے نئے بادشاہ نے دریافت کیا کہ تم کو کس جرم میں جیل ہوئی تھی۔ اس نے جواب دیا کہ حضور میں نے شاہی باغ کے درخت سے ایک بیر توڑ کر کھایا تھا اور مجھے اس جرم میں جیل ہوئی۔ بادشاہ نے حیران ہوکر پوچھا کہ تمہیں جیل میں رہتے ہوئے کتنا عرصہ گزر گیا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے ستر برس ہوگئے ہیں۔ آپ کے دادا نے مجھے جیل میں ڈالا تھا۔ یہ بات سن کر بادشاہ نے کہا کہ پھر تو تم ہمارے آباؤ اجداد کی نشانی ہو، ہم تمہیں کس طرح چھوڑ سکتے ہیں؟

اس وقت یہی حال انٹرنیٹ کی مقبول ویب سائٹ ’’یوٹیوب‘‘ کا ہورہا ہے۔ کیوں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی تبدیلی کے ساتھ بہت کچھ تبدیل ہوگیا ہے۔ صدر، وزیراعظم، چیف جسٹس، آرمی چیف، وزراء، گورنر اور بیوروکریٹ مگر نہیں بدلا تو گزشتہ حکومت کا وہ فیصلہ جس کے باعث آج تک اس ویب سائٹ پر پابندی عائد ہے جس کو جدید سافٹ ویئرز نے ’’برائے نام پابندی‘‘ بنا دیا ہے۔ اس ملک میں لوگ آج بھی اس ویب سائٹ کسی نہ کسی پراکسی کے معرفت دیکھتے رہتے ہیں مگر حکومت اس کو جمہوریت کی نشانی سمجھ کر ابھی تک گلے سے لگائے ہوئے ہے۔ حالانکہ اس ویب سائٹ پر پابندی ہٹائے جانے کے حوالے سے قومی اسمبلی میں متفقہ قرارداد بھی پیش ہوچکی ہے۔ مگر ابھی تک پوری دنیا میں پاکستان کی موجودہ جمہوری حکومت کے حوالے سے اس بات کا حوالہ آ رہا ہے کہ ’’پاکستان میں یوٹیوب پر پابندی عائد ہے‘‘

فیض احمد فیض نے کہا ہے کہ:

کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی؟

سنتے تھے کہ وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی

مگر وہ سحر کب آئے گی؟

آزادی کی سحر! اس سمجھ کی سحر کہ اب وہ دور گزر گیا جب حکومتیں میڈیا پر پابندی عائد کیا کرتی تھیں۔ اس سمجھ کی سحر کہ مذکورہ ویب سائٹ پر صرف توہین رسالت کی ایک قابل مذمت وڈیو نہیں بلکہ اسی ویب سائٹ پر اسلام کی تشہیر کے حوالے سے اتنا مواد موجود ہے جتنا شاید ہی کسی ویب سائٹ پر ہو۔ اس ویب سائٹ پر میں نے خود سنی ہیں وہ نعتیں جن کی صدا سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس ویب سائٹ پر علمائے دین کے ایسے لیکچرز موجود ہیں جن کو سن کر ہم خود کو اندھیرے سے روشنی کی طرف آتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔

مگر چند جاہلوں کی ایک حرکت کی وجہ سے کروڑوں لوگ اس ویب سائٹ سے محروم کردیے گئے جو اپنے اپنے مسائل کا حل اس ویب سائٹ کو دیکھ کر نکالا کرتے تھے۔ کسی کو کوئی کھانا بنانا ہو یا کسی کو کسی علمی بات کو جاننا ہو۔ کسی کو کسی ان دیکھے شہر کے مناظر دیکھنے ہوں یا کسی کو کسی واقعے کی وڈیو دیکھنی ہو۔ کسی کو جدید سائنس کی نئی تحقیق جاننی ہو یا کسی کو آرٹ کے خوبصورت اظہار کے انداز سے لطف اندوز ہونا ہو۔ اس ویب سائٹ پر سب کچھ موجود تھا۔ مگر ان لوگوں سے یہ حق چھینا گیا جو اسے دیکھنا چاہتے ہیں۔

کس قدر اچھا لگتا تھا ہم کو جب ہم بھولے بسرے انگریزی اور اردو گیت سنا کرتے تھے۔ مگر حکومت کے ایک حکم سے اس سب پر پابندی عائد ہوگئی جو سب کچھ ہم سب کو اچھا لگا کرتا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ وڈیو شیئرنگ کی دوسری ویب سائٹس بھی ہیں مگر جتنا مواد یوٹیوب پر ہے اتنا اور کسی ویب سائٹ پر نہیں۔ اگر میرا دل چاہے کہ میں کہ وہ گیت سنوں جس کے بول ہیں کہ:

آ نیلے گگن تلے پیار ہم کریں

تو اس خوبصورت گیت کی صدا مجھے کہاں میسر ہوگی؟ میں جانتا ہوں کہ انٹرنیٹ کی دنیا بہت وسیع ہے مگر یوٹیوب کے ہونے سے ایک سہولت تھی۔ ہم بیحد آسانی سے وہ کچھ دیکھا کرتے تھے جو ہمیں اب میسر نہیں۔ اس حکومت کا یہ فرض تھا کہ وہ اس ویب سائٹ پر قابل اعتراض مواد کو بلاک کرتی اور باقی ویب سائٹ کو عوام کے لیے کھول دیتی مگر اس حکومت نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے کہ بھلے لوگ ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم رہیں جن کے باعث وہ اپنے غم بھلا دیا کرتے تھے۔

ہمارے لوگوں کے پاس بہت تھوڑا ہے اور انھیں ذرا تھوڑے کی ضرورت ہے۔ مگر جو کچھ انھیں میسر تھا اس پر بھی قدغن لگانے والی روایت کی راہ کو نہ چھوڑنے کا فیصلہ کرکے اس پر عمل کرنے والی اس حکومت کو یہ بات کب سمجھ میں آئے گی کہ آزادیاں چھیننے سے لوگ غلامی کے زنجیروں میں قید ہوجاتے ہیں اور وہ غلام قید میں رہتے ہوئے بغاوت کے بارے میں ہی سوچا کرتے ہیں۔ ایک پرامن اور پرسکون معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ ہم پابندیوں سے نجات پائیں اور ان آزادیوں کی طرف سفر کریں جن آزادیوں کا تعلق ہماری روح سے ہے۔ انسان کا جسم تو حالات کی سختی کو برداشت کرسکتا ہے مگر انسان کی روح پابندی میں بہت اداس ہوجایا کرتی ہے۔

ہم اگر مغرب کی تحریک آزادی کا مطالعہ کریں ہم کو یہ بات معلوم ہو جائے گی کہ مغرب نے انسانی آزادی کا سفر بڑی تکالیف کا سامنا کرتے ہوئے کیا ہے۔ عالمی ادب کے قارئین اس بات کو کس طرح بھول سکتے ہیں کہ جب ڈی ایچ لارنس کی مشہور کتاب ’’لیڈی چیٹرلیز لور‘‘ پر پابندی عائد ہوئی تھی تب پوری دنیا میں ادب اور آزادی کے حوالے سے مباحثے شروع ہوگئے تھے اور بالآخر برطانوی عدالت نے مذکورہ کتاب پر پابندی ہٹائی۔ کیوں کہ اس میں محبت کی بات تھی۔ اصل بات محبت کی ہی ہوا کرتی ہے۔ وہ بات جو ڈاکٹر زواگو میں کی گئی اور سوویت حکومت نے اس پر بغیر سوچے پابندی عائد کی آج سوویت یونین نہیں مگر پوری دنیا میں ڈاکٹر زواگو موجود ہے۔

وہ ڈاکٹر زواگو جس پر ایک مشہور فلم بھی بنی تھی۔ اس فلم کو میں اداس کیفیت میں یوٹیوب پر دیکھا کرتا تھا۔ مگر ہماری حکومت نے اس ویب سائٹ پر عائد کی ہوئی پابندی ہٹانے کے بارے میں سوچا تک نہیں۔ہماری حکومتیں کب سمجھیں گی کہ پیار پر پابندی کبھی نہیں رہ سکتی۔ انسان کے لیے جتنا ضروری سانس لینا ہے اتنی ضروری اس کے لیے وہ آزادی جو بیحد بڑی ہے۔ یوٹیوب اس وسیع آزادی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ ہماری موجودہ حکومت کے برادر اسلامی ملک ترکی سے اچھے تعلقات ہیں۔ ترکی سے ہماری حکومت مدد لے رہی ہے۔ کاش! وہ اس ملک سے آزادی کے حوالے سے تھوڑی سی سمجھ بھی لے اور یوٹیوب پر پڑی ہوئی پابندی ہٹانے کا کارنامہ سرانجام دے۔

بجٹ کی بجلی عوام پر گرے گی

$
0
0

ایک سال گزرنے کے بعد گردشی قرضہ 350 ارب روپے تک دوبارہ پہنچ چکا ہے۔ ہر گزرتا دن اس مد میں ایک ارب روپے کا اضافہ کر دیتا ہے جس کا بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈالتا ہے۔ اسی طرح اس مد میں ہونے والا اضافہ اور کی جانے والی کرپشن کا سدباب کرنے کے بجائے عوام کو صرف یہ بتایا جاتا ہے کہ لوڈشیڈنگ اس لیے ہے کہ گردشی قرضہ ادا کرنا ہے اور وہ عنقریب ادا کردیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیاں 24 کلو گرام تیل سے kwh 100 بجلی پیدا کرتی ہیں، جب کہ عالمی سطح پر بجلی گھر 14 کلو گرام تیل سے اتنی بجلی پیدا کرتے ہیں۔

اسی طرح پاکستان میں گیس کے 12 ہزار BTU سے بجلی کا ایک یونٹ پیدا ہوتا ہے جب کہ بھارت میں وہی یونٹ 5 ہزار BTU سے پیدا ہوتا ہے۔ لیکن حکمران اس بدعنوانی پر آئی پی پی کا محاسبہ نہیں کریں گے کیونکہ ان کے شیئرز بھی ان میں ہیں۔ ایسے قرضے لے کرمصنوعی طور پر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضا فہ تو ہوگا جو آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق ضروری ہے لیکن اس سود کی ادائیگی کہاں سے ہوگی، اس کے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا۔ دوسرا زرمبادلہ کے یہ ذخائر آئی ایم ایف کے قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی میں صرف ہوجائیں گے جس کے بعد پاکستان کے خزانے میں صرف ادائیگیوں کی رسیدیں موجود ہوں گی اور اس کا بوجھ مزید قرضوں کے ذریعے پورا کرنے کی ناکام کوشش جاری رہے گی۔ لیکن اس سارے عمل میں معیشت کی تباہی کے ساتھ ساتھ ریاست کے مالیاتی اداروں کی تباہی کا سفر بھی جاری ہے۔

اسی طرح معاشی بجٹ خسارے کو کم دکھانے کے لیے بہت سی ایسی رقوم آمدن کے طور پر دکھائی جارہی ہیں جو پہلے کبھی بھی نہیں دکھائی گئیں۔ بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافے کے باوجود ہدف نہ پورا ہونے کے باعث ٹیکسوں کے علاوہ آمدن کی مد کو کھینچ تان کر ہدف تک لایا جا رہا ہے۔ غیر ملکی امداد کو پہلی دفعہ نان ٹیکس ریونیو کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ اسی طرح سرکاری اداروں کی آمدن، اسٹیٹ بینک کے منافع، گیس ڈویلپمنٹ سرچارج سمیت بہت سی ایسی آمدن کو نان ٹیکس ریونیو میں شامل کیا جا رہا ہے جسے پہلے 67 سال میںکبھی نہیں کیا گیا۔ اس بنیاد پر دعویٰ کیا جارہا ہے کہ بجٹ خسارہ کم ہو رہا ہے جب کہ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں۔

جولائی سے فروری تک بجٹ خسارہ 1005 ارب روپے ہے جو جی ڈی پی کا 3.9 فیصد ہے۔ تمام ہیرپھیر کے باوجود پورے مالی سال کا متوقع بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 6.7 فیصد ہے جو 5.8 کے ہدف سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر آئی پی پیز کو گردشی قرضہ ادا کیا جاتا ہے تو یہ خسارہ جی ڈی پی کے 7.6 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔

اسی طرح زرمبادلہ کے ذخائر کے لیے آئی ایم ایف کی جانب سے متعین کردہ ہدف کا حصول بھی مشکل ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کے متعلق بیانات میں کمرشل بینکوں کے اکاؤنٹ میں موجود ذخائر کو بھی شمار کیا جارہا ہے، اس لیے وہ زیادہ نظر آتے ہیں ۔ 2 مئی تک اسٹیٹ بینک کے پاس موجود ذخائر 7.2 ارب ڈالر تھے۔ اس میں یہ ’’خوشخبری‘‘ بھی سنائی جارہی ہے کہ آئی ایم ایف یکم جون تک 550 ملین ڈالر مزید جاری کرے گا۔ جب کہ آیندہ مالی سال میں آئی ایم ایف سے کل 2.2 ارب ڈالر ملیں گے۔ لیکن اسی دوران آئی ایم ایف کو 3 ارب ڈالر ادا کرنے ہوں گے، یعنی جتنے آئیں گے اس سے زیادہ واپس چلے جائیں گے جب کہ سود کے چکر کے باعث ادائیگیوں کا بوجھ موجود رہے گا۔

معیشت کو برباد کرنے والی ان پالیسیوں کو آئی ایم ایف کی جانب سے سراہے جانے کا راز بھی اسی امر میں پوشیدہ ہے۔ ساتھ ہی عالمی معاشی بحران اور سرمایہ داری کے زوال کے باعث عالمی مالیاتی ادارے بھی زوال پذیر ہیں اور معاشی پالیسیوں سے زیادہ اپنی پھنسی ہوئی رقم کی وصولی کے بارے میں فکرمند ہیں۔ اس لیے وہ ایک طرف وزیر خزانہ کو سراہتے ہیں اور دوسری طرف اس پر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے پر زور دیتے ہیں تاکہ وہاں سے انھیں محفوظ مقام پر منتقل کیا جاسکے۔ اس سارے گھن چکر میں عوام کی حالت اس شخص کی سی ہوگئی ہے جو سود کے چکر میں اپنی نسلوں تک کو گاؤں کے بنیے کے پاس گروی رکھوا چھوڑتا ہے، لیکن پھر بھی قرضہ ادا نہیں ہوپاتا۔

حالیہ اعداد و شمار کے مطابق موجودہ حکومت نے ایک سال میں 15.3 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کا اضافہ کیا ہے۔ اس مالی سال کے اختتام تک پاکستان پر بیرونی قرضوں کا حجم 72 ارب ڈالر ہوجائے گا جو گزشتہ سال 57 ارب ڈالر تھا۔ اس سال قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے 27.7 فیصد تک پہنچ جائے گا، جو گزشتہ سال 24.9 فیصد تھا۔

اس صورتحال میں آیندہ سال بھی تمام تر معاشی سرگرمی کا مقصد غیر ملکی قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی ہوگا اور اس کے لیے 18 کروڑ عوام کو محنت کی چکی میں پیسا جائے گا۔ آیندہ سال کے لیے مختص 3.9 کھرب روپے کے بجٹ میں سے 1550 ارب روپے قرضوں کی ادائیگی کے لیے رکھے جارہے ہیں جب کہ 720 ارب روپے دفاعی اخراجات کے لیے۔ ٹیکسوں کی مد میں آمدن کا ہدف 2.8 کھرب روپے رکھا گیا ہے۔

اس مد میں بھی ہدف پہلے کی طرح پورا نہیں ہوسکے گا۔ پہلے تو تمام تر ٹیکس بالواسطہ طور پر لگائے جاتے ہیں، جن میں پٹرول، بجلی سمیت ہر قسم کی اشیائے ضرورت شامل ہیں۔ اس سے کھرب پتی افراد اور بیروزگار نوجوان سمیت ہر شخص ایک ہی جتنا ٹیکس ادا کرتا ہے۔ پاکستان بالواسطہ (direct) ٹیکس لگانے والے ممالک میں آخری نمبر پر آتا ہے، جہاں آمدن، منافع، شئیرز کے لین دین اور کاروباروں پر ٹیکس لگانے کے بجائے چھوٹ دی جاتی ہے۔ مختصراً دولت مند افراد کے لیے ٹیکسوں کی چھوٹ اور عوام کے لیے پکڑ۔ آیندہ مالی سال میں بھی اس پالیسی کو جاری رکھا جائے گا۔

اسی طرح تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کا عندیہ دیا گیا ہے جو حقیقی افراط زر سے کہیں کم ہے۔ آئی ایم ایف کے حالیہ بیان کے مطابق افراط زر 9.2 فیصد ہے۔ خوراک کی اشیاء پر افراط زر کہیں زیادہ ہے۔ ایسے میں دس فیصد اضافے کے بعد بھی حقیقی تنخواہوں میں کمی ہوگی۔ اسی طرح نجی سطح پر محنت کش کی کم از کم تنخواہ دس ہزار روپے مقرر کی گئی ہے جب کہ ایک تولہ سونا پچاس ہزار روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔ حقیقی اجرتوں میں یہی کمی سرمایہ داروں کے منافعوں میں اضافے کا باعث ہے۔

پاکستان میں درست اعداد و شمار ملنا ناممکن ہے لیکن اندازاً کہا جاسکتا ہے کہ کم از کم گزشتہ 30 سال سے حقیقی اجرتیں مسلسل کم ہورہی ہیں۔ ٹریڈ یونین کی زوال پذیری اور نجکاری جیسی مزدور دشمن پالیسیوں کا نفاذ بھی اجرتوں کو کم سطح پر رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سادہ الفاظ میں حکمرانوں کی معاشی پالیسیاں کھلے عام سرمایہ داروں اور لٹیروں کو نواز رہی ہیں جب کہ محنت کش ذلت کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔

اسی دوران یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ صرف سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر سے زائد موجود ہیں۔ حقیقت اس سے کہیں زیادہ ہے جب کہ دوسرے محفوظ مقامات پر بھی کئی ارب ڈالر موجود ہیں جو اس ملک کے بدنصیب افراد کی محنت کا پیسہ ہے۔ اگر صرف یہ 200 ارب ڈالر واپس آجائے تو نہ صرف دس سال تک ٹیکس فری بجٹ بنایا جاسکتا ہے بلکہ تمام غیر ملکی قرضے بھی سود سمیت ادا کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن موجودہ نظام میں رہتے ہوئے اس کی توقع کرنا جرم ہے۔ الیکشن کمیشن کی تبدیلی کا ڈھنڈورا پیٹنا عوام کو دھوکا دینے کے لیے ہے تاکہ دولت مند افراد کی آمریت کا تسلسل جاری رہے۔

سیکڑوں نہیں ہزاروں ارب ڈالر کی اس دولت کے حصول سمیت ملک میں موجود تمام دولت اور معدنی ذخائر عوام کی فلاح و بہبود کے لیے صرف اسی وقت استعمال ہوسکتے ہیں جب اس نظام کا خاتمہ کیا جائے اور ذرایع پیداوار کو نجی ملکیت سے نکال کر محنت کش عوام کی اجتماعی ملکیت میں دے دیا جائے۔ ایسا صرف اور صرف ایک کمیونسٹ انقلاب کے ذریعے کیا جاسکتا ہے، ورنہ اشرافیہ عوام کی ہڈیاں اور خون ایسے ہی نچوڑتے رہیں گے اور سرمائے کا شکنجہ ہر روز ہزاروں افراد کو نگلتا رہے گا۔


ملازمت پیشہ خواتین سے شادی

$
0
0

لڑکیوں کے رشتے طے کرتے ہوئے یہ بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ دولہا کماؤ پوت ہو۔ ایک عرصے سے ایسا ہی چلا آرہا ہے۔ لیکن حقوق نسواں کے میدان میں آتے ہی خواتین نے بھی ’’کماؤ پوت‘‘ بننا شروع کردیا۔ وہ بھی معاشی ترقی میں مردوں کے شانہ بہ شانہ نظر آنے لگیں۔ اس تبدیلی کے بعد رشتوں ناتوں میں بھی تبدیلیوں کا عمل شروع ہوا تھا جو ناخوب بہ تدریج وہی خوب ہوا۔ رشتے طے کرتے ہوئے دیگر بہت سی خواہشات کے ساتھ یہ خواہش بھی جاگنے لگی اور کی جانے لگی کہ لڑکی برسر روزگار ہو۔ معاشیات کا دور ہے۔

کون ہوگا جو اس معاشی ترقی میں پیچھے رہ جانا چاہتا ہو۔ ہر فرد زیادہ سے زیادہ ترقی کرنا چاہتا ہے۔ بے حساب ترقی ’’سکائی از دا لمٹ‘‘۔ ایسے میں اگر خاندان کے معاش کی گاڑی کو محض ایک پہیے سے گھسیٹنے کی کوشش کی جائے تو لامحالہ وہ رفتار نہیں ہوسکتی جو دو پہیوں کے گھسیٹنے سے ممکن ہے۔ لہٰذا یہ خواہش بجا نظر آنے لگی کہ اب خواتین کو بھی ’’کماؤپوت‘‘ ہی ہونا چاہیے۔ اس کا ایک اضافی فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ہر دو ایک دوسرے کے دکھ درد کو زیادہ بہتر محسوس کرسکتے ہیں اور نسبتاً زیادہ ایک دوسرے کے قریب ہوں گے۔ ذہنی ہم آہنگی گزشتہ جوڑوں سے زیادہ ہوگی وغیرہ۔

ہمارے ہاں اس قسم کے تمام تر افکارات ظاہر ہے کہ دیسی نہیں ہیں مغرب سے درآمد کیے گئے ہیں۔ اس درآمدگی کے بعد ہم نے پلٹ کر نہیں دیکھا کہ خود مغرب میں کیا کچھ ہو رہا ہے اور وہاں کیا کہا جا رہا ہے۔ معروف انگریزی جریدے ’’فوربس‘‘ کے 2006 کے شمارے میں اس حوالے سے ایک دلچسپ مضمون پر نظر پڑی۔ یہ مضمون 22 اگست 2006 کو شایع ہوا تھا اور اس کے لکھنے والے ہیں ’’مائیکل نوئر‘‘ (21 مارچ 1969) آپ ’’فوربس‘‘ اور ’’ویرڈ‘‘ جرائد میں ’’بزنس رائٹر‘‘ اور مدیر ہیں۔ مضمون کا عنوان ہے ’’ملازمت پیشہ خواتین سے شادی مت کرو‘‘۔

مضمون کی ابتدا ہی وہ اس نصیحت سے کرتے ہیں کہ خوب صورت یا بدصورت لمبی یا کوتاہ قامت، کالی یا گوری، موٹی یا دبلی غرض کسی بھی عورت سے شادی کرلینا لیکن کبھی کسی ملازمت پیشہ خاتون سے شادی مت کرنا۔ کیوں؟ اس لیے کہ بہت سارے معاشرتی سائنس دان یہ سمجھتے ہیں کہ ملازمت پیشہ خواتین سے شادی کے بعد آپ کی شادی شدید قسم کے خطرات سے دوچار رہتی ہے۔ نوئر لکھتے ہیں کہ ہر فرد واقف ہے کہ شادی شدہ زندگی کے اپنے تناؤ ہیں لیکن جدید مطالعات بتاتے ہیں کہ ملازمت پیشہ خواتین میں طلاق کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے۔ (غالباً ٹائم میگزین کا حالیہ شمارہ اسی موضوع پر اعداد و شمار پیش کر رہا ہے) نہ صرف یہ کہ ان کی جانب سے طلاق کا مطالبہ ہونے کا زیادہ امکان ہے بلکہ اس امر کا امکان بھی زیادہ ہے کہ وہ دھوکا نہ دیں۔ انھیں بچوں کا ہونا نہیں بھاتا، اگر کسی طور بچے ہو بھی جائیں تو اس کا امکان ہے کہ وہ خوش نہیں رہتیں۔

یہ کوئی اچھا نتیجہ نہیں ہے۔ خاص کر مردوں کے لیے یا ان مردوں کے لیے جو کامیاب ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایسی ہی خواتین میں دلچسپی محسوس کریں گے جو ان ہی جیسے اہداف اور خیالات رکھتی ہوں اور کیوں نہ ہو آخر کو آپ کی ملازمت پیشہ منگیتر ایک پڑھی لکھی، سمجھ دار، پرامنگ اور جدید دنیا سے واقف ہے۔ بہ ظاہر یہ سب کچھ بہت عمدہ ہے۔ ٹھیک۔۔۔۔ لیکن صرف اسی وقت تک جب تک آپ شادی نہیں کرلیتے۔ اب ذرا حقائق کی دنیا میں آجائیں۔ خاتون جتنی کامیاب ہوں گی وہ اتنا ہی آپ سے غیر مطمئن ہوں گی۔ یقیناً یہ جملہ بہت سے افراد کو حسب حال لگتا ہوگا۔

ایک کامیاب ازدواجی زندگی کے بہت سے عوامل ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ کی نصف بہتر کے والدین کی ازدواجیات بھی۔ اگر ان میں علیحدگی ہوچکی ہے تو اس کا امکان اور بھی بڑھ جاتا ہے کہ ان کی بیٹی میں علیحدگی ہو۔ پہلی شادی کی عمر، نسل، مذہب، عقائد اور معاشرتی ومعاشی مقام اور یقینی طور پر بہت سی ملازمت پیشہ خواتین بہت عمدہ ملازمت کے ساتھ بہت عمدہ ازدواجی زندگی گزار رہی ہیں۔ لیکن یہاں ہم موازنہ پیش کر رہے ہیں ان خواتین سے جو غیر ملازمت پیشہ ہیں یعنی جو صرف گھر میں رہتی ہیں اور گھر کے کام کاج وغیرہ ہی میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ ہم اس حوالے سے اعداد و شمار کا جائزہ لے رہے ہیں۔

یہ واضح رہنا چاہیے کہ ہم کسی ہائی اسکول کی لڑکی یا ہائی اسکول تک پڑھی ہوئی خاتون کی بات نہیں کر رہے۔ ہماری ملازمت پیشہ لڑکی یونیورسٹی تک یا اس سے بھی زیادہ کی تعلیم یافتہ ہے۔ جو ایک ہفتے میں 35 گھنٹے یا اس سے زیادہ ملازمت کرتی ہے اور گھر سے باہر رہتی ہے۔ اس کی سالانہ آمدنی 30 ہزار ڈالر یا اس سے زیادہ ہے۔

بے شمار مطالعات اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ان سے شادی کرنا خود کو مصیبت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ اگر یہ ملازمت چھوڑ دیں اور گھر بیٹھ کر بچوں کو سنبھالیں تو یہ بہت ناخوش رہتی ہیں (جرنل آف میرج اینڈ فیملی 2003)۔ یہ اس وقت بھی خوش نہیں ہوتیں جب یہ آپ سے زیادہ پیسے کمانے لگ جائیں۔ (سوشل فورسز 2006) نیز اگر یہ آپ سے زیادہ آمدنی کی حامل ہوجائیں تو یہ بات آپ کو پسند نہیں آتی (جرنل آف میرج اینڈ فیملی 2001) اس کا زیادہ امکان ہے کہ آپ بیمار پڑجائیں (امریکن جرنل اوف سوشیالوجی) یہاں تک کہ آپ کا گھر بھی گندا رہتا ہے (انسٹیٹیوٹ آف سوشل ریسرچ)۔

کیوں؟ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس حقیقت کے باوصف کہ ملازمت، عورت اور شرح طلاق میں براہ راست تعلق ہے، یہ ایک پیچیدہ اور متنازع مسئلہ بھی ہے۔ زیادہ تر دلائل کا تعلق معاشی نظریات سے ہے اور تھوڑا بہت کامن سنس سے۔ کلاسیکل معیشتوں میں یا روایتی معاشروں میں مرد عام طور پر گھر کے باہر کے کام کیا کرتا ہے اور ذریعہ معاش اور آمدنی کے معاملات اس کی ذمے داری ہوتے ہیں۔ جب کہ عورت باہر کی ذمے داریوں سے علیحدہ ہوکر گھر اور بچوں کو دیکھتی ہے۔

نوبل انعام یافتہ ’’گیری ایس بیکر‘‘ کہتے ہیں کہ جب شادی شدہ افراد اپنے اپنے دائروں اور کاموں سے باہر آنے لگتے ہیں یا ان میں کمی بیشی کے مرتکب ہوں یا مثال کے طور پر اگر دونوں میاں بیوی ملازمت کرنے لگ جائیں تو ان کی شادی کی کل ’’ویلیو‘‘ دونوں کے لیے کم ہوجائے گی۔ کیوں کہ جو کام کیا جانا تھا دونوں اس میں کمی لائے اس سے دونوں کی زندگی مشکل ہوجاتی ہے اور طلاق کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہ صرف اس ہی کا نتیجہ نہیں ’’تجرباتی مطالعات‘‘ کے نتائج بھی عین اسی طرح کے ہیں۔

2004 میں جان ایچ جانسنز اعداد و شمار کا جائزہ لیا۔ ’’سروے آف انکم اینڈ پروگرام پارٹی سسپیشن‘‘ آپ نے نتیجہ اخذ کیا کہ جنس کام کے اوقات اور شرح طلاق پر براہ راست اثرانداز ہوتی ہے۔ جو خواتین بہت زیادہ وقت ملازمت کو دیتی ہیں ان میں شرح طلاق اتنی ہی زیادہ ہوا کرتی ہے۔ اس کے برعکس مردوں کے کام کے اوقات بڑھ جانے سے طلاق کی شرح پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

نوئر لکھتے ہیں کہ شادی پر اثرانداز ہونے والا ایک امر یہ بھی ہے کہ آپ نے اپنی بیوی کو یا منگیتر کو دفتر کے کسی صاحب کے ساتھ دیکھ لیا اور غلط فہمیوں یا صحیح فہمیوں میں مبتلا ہوگئے۔ یا خود خاتون ہی کو 12,8 گھنٹے کسی اور صاحب اور صاحبان کے ساتھ گزار کر اپنے شوہر سے زیادہ ذہنی ہم آہنگی والا کوئی فرد مل گیا۔ نوئر کا خیال ہے کہ ان عوامل کی بنا پر بھی ملازمت پیشہ یا کارپوریٹ خواتین میں شرح طلاق بڑھ جاتی ہے۔ نوئر کے بہت سے مباحث اور اعداد و شمار ظاہر ہے کہ امریکا سے ہیں اور وہ جس معاشرے کی بات کر رہے ہیں وہ ایک مکمل مغربی معاشرہ ہی ہے۔

ہم عمومی طور پر دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں ملازمت پیشہ خواتین میں شرح طلاق مغرب کے مقابلے میں کہیں کم نظر آتی ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ ہماری خواتین اور ہم اب تک ایک معاشی معاشرے کے شہری نہیں ہیں۔ ہماری روایات اور اقدار ابھی بہت کچھ باقی ہیں۔ ان روایات کے سبب اگرچہ ہماری ملازمت پیشہ خواتین کو ملازمت کے بعد گھر کی اور بچوں کی تمام تر ذمے داریاں بحسن و خوبی ہی انجام دینی پڑتی ہیں لیکن وہ اسے خوش دلی سے انجام دیتی ہیں۔

ایک مطالعے کے مطابق پاکستانی ملازمت پیشہ خواتین کی اکثریت 88 فیصد اپنی ملازمتوں کو مارے باندھے جاری رکھے ہوتی ہیں (ان میں خواتین اساتذہ شامل نہیں)۔ انھیں باہر کی دنیا کا تجربہ کرلینے کے بعد گھر کی دنیا اور گھر کی رانی بن کے رہنا زیادہ پسند ہوتا ہے۔ لیکن یہ بھی تجربہ ہے کہ ملازمت پیشہ خواتین کو مشرقی روایات کے عین مطابق دفتر میں بھی اور گھر میں ایک خاص عزت، مقام، مان اور مرتبہ ملتا ہے جس کا مغرب میں تصور بھی محال ہے۔

یقیناً ہمارے ہاں بھی تعلیم اور ملازمت شادیوں میں رکاوٹ اور شرح طلاق میں اضافے کا سبب ہے لیکن صبر، عمل، تربیت، روایت، رشتے داریاں اور بچوں کا اٹوٹ رشتہ اس بندھن کو مالا میں پروئے رکھتا ہے۔

اردو بازار

$
0
0

زمانہ قدیم میں عرف عام میں استعمال ہونے والا لفظ ’’بازار‘‘ ایسی کشادہ سڑک کا نام تھا جس کے دونوں اطراف میں موجود کاروباری لحاظ سے دکانیں ہوا کرتی تھیں، جہاں فروخت کرنے والے اور خریداروں کی ایک کثیر تعداد موجود ہوا کرتی تھی اور وہاں آپ کی اشیائے ضرورت باآسانی دستیاب ہوجایا کرتی تھیں۔ بازاروں کی بے شمار اقسام ہیں، لیکن عموماً ان بازاروں میں دو قسم کے بازارکافی شہرت کے حامل ہیں۔ (1) عام بازار،  (2) مخصوص بازار۔

عام بازار سے ضروریاتِ زندگی کی ہر قسم کی شے خریدی جاسکتی ہے، مخصوص بازاروں میں صرافہ بازار جہاں سونے اور چاندی کی خریدو فروخت کی جاتی ہے، مینا بازار جہاں صرف خواتین کی ضروریات زندگی کی اشیا دستیاب ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہفتہ کی بنیاد پر رعایتی نرخوں پر سامان کی فراہمی کے لیے عارضی بازار بدھ بازار، جمعہ بازار، پیر بازار، منگل بازار، جن کا انعقاد شہر کے کھلے اور وسیع میدانوں میں کیا جاتا ہے، ان کو شامیانہ بازار بھی کہا جاسکتا ہے۔ مگر آج ان تمام بازاروں کے علاوہ ایک ایسے بازار کا تذکرہ کرنا ہمارے کالم کا موضوعِ بحث ہے جس کا تعلق علم و ہنر کے پیاسوں کی آماجگاہ ’’اردو بازار‘‘ سے ہے۔

بلاشبہ مطالعاتی مواد کے حصول کا واحد ذریعہ کتاب، رسائل و جرائد، اخبارات ہوا کرتے ہیں۔ ان چیزوں کے مطالعے کے لیے ہمیں یا تو شہر کی لائبریری کا سہارا لینا پڑتا ہے یا گھر کے قریب واقع کتابوں کی مقامی دکان یا بک اسٹال کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ اگر مطلوبہ کتاب یا مطالعاتی مواد، مقامی کتب خانے سے نہ مل سکے تو لامحالہ ہمیں شہر میں موجود مرکزی اردو بازار کی طرف جانا پڑتا ہے جہاں ہر قسم کی نصابی اور غیر نصابی کتب کا ذخیرہ کثیر تعداد میں دستیاب ہوتا ہے۔ علم و ہنر کی دولت سے مالا مال یہ بازار متذکرہ بالا بازاروں پر افضلیت رکھتا ہے۔

اس بازار کے ملحقہ علاقوں میں چھاپہ خانوں اور کتابت کے مراکز کی خاصی تعدداد موجود ہوتی ہے، جو بے شمار لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ہیں۔ یہاں سے چھپنے والی کتابیں اور ہر قسم کا مطالعاتی مواد کتابی شکل میں تیار ہوکر ملک کے ہر شہر میں اس کی فراہمی کو ممکن بنایا جاتا ہے۔ اس بازار کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہم نے شعوری طور پر اس بات پر غور کرنے کی ضرورت کو محسوس کیا کہ اس بازار میں کتابوں کی خریدوفروخت کی وجہ سے اس کا نام کتاب بازار، علم و ہنر بازار یا کتاب گھر، صرف اردو بازار کیوں؟ کیونکہ یہاں اردو کے علاوہ بیشتر کتب کا تعلق انگریزی زبان میں مختلف سائنسی علوم، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دوسرے انسانی طرز عمل کے مطالعے کی بے شمار نصابی اور غیر نصابی کتب کی فروخت کی جاتی ہے، ہم نے مختلف ذرایع سے اس کی ارتقائی منازل کے بارے میں جاننے کی بھرپور کوشش کی۔

اس مشن کی تکمیل کے لیے ہم نے اردو ادب سے متعلق تمام اقسام کی کتب کی ورق گردانی کی اور شہر کی مختلف لائبریریوں سے بھی استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کی مگر افسوس باوجود کوشش کے ہم اردو بازار کی تاریخ اور اس کے ارتقاء کے بارے میں واضح طور پر معلومات حاصل نہیں کرسکے۔ ہاں البتہ تھوڑا بہت معلومات ضرور حاصل ہوئیں جس کی ابتداء ہندوستان کے شہر دہلی سے ہوئی، جو اردو ادب کا سب سے بڑا مرکز تھا۔

ترکی اور منگولین زبانیں ملا کر ایک لفظ ’’اوردو‘‘ تھا جس کا مطلب آرمی/ ملٹری کا محصور کیمپ تھا۔ یہ کیمپ غیر منقسم ہندوستان کے وسطی علاقہ میں واقع تھا، اس کیمپ کی حدود میں ایک بہت بڑی مارکیٹ قائم تھی جو چاندنی چوک سے دہلی کی جامع مسجد کے درمیان ایک نہر سے منسلک تھی۔ اس کیمپ کی نسبت سے یہ مارکیٹ اوردو بازار کے نام سے مشہور تھی، یہ مارکیٹ عام اشیاء کی خرید و فروخت کا سب سے بڑا کیمپ کا مرکز تھا۔ بنیادی اور ادبی لحاظ سے عربی اور فارسی کی آمیزش نے اس علاقے کو نستعلیق طرز کی حروفِ تہجی والی زبان جس کو محاورتاً ’’زبان اردوئے معلیٰ‘‘ کہا جاتا تھا جو اس علاقے میں شہرت کا سبب بنی۔

عصر قدیم یعنی 1857 کی جنگ آزادی میں اس علاقے میں بغاوتوں اور شورشوں کا بازار گرم رہا اور یوں جنگ و جدل کے نتیجے میں اس کی اصل شکل ختم ہوکر رہ گئی۔ حالات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ وہاں اردو زبان کا استعمال کثرت سے ہونے لگا تو یہاں کے بازار کا نام ’’اوردو‘‘ سے اردو بازار میں تبدیل ہوگیا۔ بلاشبہ ہر خاص و عام جانتے ہیں کہ ’’اردو‘‘ ترکی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے لشکر یا چھائونی۔ حافظ محمود شیرانی اپنی کتاب ’’مقالات حافظ محمود شیرانی‘‘ جلد اول کے صفحہ نمبر 11 پر فرماتے ہیں کہ ’’یہ لفظ اصل ترکی میں مختلف شکلوں میں ملتا ہے یعنی ’’اوردا‘‘ ’’اروہ‘‘ ’’اوردو‘‘ ’’اردو‘‘ جس کے معنی فرود گاہ لشکر اور پڑائو نیز لشکر و حصہ لشکر ہیں۔

اس کے علاوہ اس کا استعمال خیمہ، بازار لشکر، حرم گاہ، محل و محل سرائے و شاہی قلعے پر بھی ہوتا ہے۔‘‘ ان تمام تحقیق و تجسس کے باوجود یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس نام کی مناسبت سے کتب و رسائل کی خرید و فروخت کا مرکز کا سلسلہ کب کیسے اور کیوں ہوا۔ اس مخصوص بازار کا نام اردو بازار کیوں رکھا گیا، اس کی ابتداء کہاں سے ہوئی۔ ان تمام اسباب و واقعات کا جاننا بہت ضروری ہے۔ بلکہ ایک جگہ اسد اﷲ خان غالب فرماتے ہیں ’’اردو بازار کو کوئی نہیں جانتا تھا تو کہاں تھی اردو۔ بخدا! دہلی نہ تو شہر تھا، نہ چھائونی، نہ قلعہ، نہ بازار‘‘۔

پاکستان کا سب سے بڑا کتابی ذخیرے کا مرکز لاہور کا اردو بازار ہے جو اپنی قدیمی شکل میں اب تک موجود ہے۔ میرا چونکہ تعلیم کا سنہرا دور اسی شہر سے وابستہ ہے، مجھے یاد ہے کہ لاہور کے اس علم و ہنر کے عظیم بازار میں نہ صرف نئی کتب خریدی جاسکتی ہیں بلکہ پرانی کتب کی خریدو فروخت بھی کی جاسکتی ہیں۔

لندن میں پاکستانی لیڈروں کا ہجوم

$
0
0

سات سمندر پار کے لوگوں نے ہمیں بہت کچھ دیا۔ سو برس سے کچھ اوپر کی غلامی سے نجات دلائی بلکہ نجات دے دی اور اس میں کوئی کنجوسی نہیں کی۔ اپنی مفتوحہ زمین میں تعلیم پھیلائی جدید زمانے کی نعمتیں عام کیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ اپنے پیچھے دلچسپ انسانوں کا ایک گروہ چھوڑ گئے۔ یہ لوگ ہمارے لیے ایک تحفہ ہیں۔ جانے والوں نے جاتے جاتے ان کے ذہنوں میں یہ ڈال دیا کہ ہم جس ملک کو آزاد کر رہے ہیں اور جس کی ملکیت سے دستبردار ہو رہے ہیں یہ سب آپ کا ہے کیونکہ آپ نے اور آپ کے آبائو اجداد نے جس وفا داری اور جانفشانی سے ہماری خدمت کی ہے، ہماری تابعداری کی ہے، ہمارے بادشاہ کو اپنا بادشاہ مانا ہے اور علاوہ اس کے اور بھی بہت کچھ تو ہم اس کے عوض میں آپ کو یہ آباد ملک دے کر جا رہے ہیں اب آپ جانیں اور آپ کا یہ ملک جانیں۔ گڈبائی!

یہ برطانیہ کی قوم تھی جس نے بزور بازو ہمارے ملک پر قبضہ کیا بڑی مشکل سے رعایا کو قابو میں رکھا اسے جی بھر کر لوٹا لیکن انصاف یہ کیا کہ جاتے ہوئے سب کچھ واپس کر دیا۔ اب ان دنوں انھی انگریزوں کے شہر لندن میں ان کی سابقہ نسل در نسل چلی آنے والی غلام سیاسی قیادت نے ہجوم کر رکھا ہے۔ ان لوگوں کی ہئیت ترکیبی دیکھیں تو ہنسی آتی ہے ان میں برطانوی دور کے اشرافیہ کے نمایندے تو ہیں ہی اب کچھ مولوی بھی ان میں زبردستی شامل ہو گئے ہیں جنھیں آزادی کے نعروں میں منہ سے جھاگ اڑاتے دیکھ کر لطف آتا ہے۔

یہ لوگ برطانوی عہد کی اشرافیہ میں ایک دلچسپ اضافہ ہیں مگر اتنے چالاک اور ہوشیار کہ برطانوی دور کی اشرافیہ کو اپنا محتاج بنا لیا ہے اور ان کی محفلوں اور مجلسوں میں وہ پیرو مرشد بن کر بیٹھتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اشرافیہ کا ماتم کیا جائے اور ان قائدین اسلام کی تعریف کی جائے جن کا مطالبہ ہے کہ وہ کم از کم ایک کروڑ مسلمانوں کی نماز کی امامت کرائیں گے۔ ہمارا روتا دھوتا اشرافیہ آمین آمین کہتا رہ جاتا ہے۔ لندن کے ان جلسوں نے پاکستان کی دنیا ہی بدل دی ہے اور عمران خان جو اس گروہ کا روایتی حصہ نہیں ہیں وہ بھی اپنے بچوں سے ملاقات کے بہانے ان دنوں لندن میں ہیں۔ غرض جو بھی ہے ان دنوں وہ کسی نہ کسی بہانے لندن میں ہے اور پاکستانی عوام سے درخواست کرتا ہے کہ اسے بھی یاد رکھیں۔ سنا ہے شیخ الاسلام کا تو ایک مکان بھی لندن میں ہے۔ رہائش کی آسانی ہے۔

لندن کے یہ اجتماع ہوں یا لاہور اور اسلام آباد کے، ان کی اصل وجہ یہ ہے کہ لیڈروں نے اپنا کام فراموش کر دیا ہے اور اب ان کے لیے ان کے عوام ایک آزمائش بن چکے ہیں۔ جب عام لوگوں کے قائد برسرعام لٹیرے بن جائیں پولیس اور عدالتوں میں ان کے نام پکارے جائیں اور وہ یہ دھمکیاں دینے لگیں کہ کوئی ان کو پکڑ کر تو دیکھے یعنی دوسرے لفظوں میں وہ ہیں تو پکڑے جانے کے لائق لیکن اپنی وزارت عظمیٰ کے زمانے میں اتنی طاقت جمع کر لی ہے کہ اب وہ ریاستی مشین کو چیلنج کرتے ہیں۔ ایک صاحب نے اس پر کہا کہ یہ تو وہی بات ہوئی کہ مولا نہ مارے تے مولا مردا نئیں۔ یہ ایک ایسے لیڈر کی بات ہے جو اس ملک کا وزیراعظم رہا ہے اور ملک اور قوم کو اس اعزاز کا بدلہ دھمکیوں میں دے رہا ہے اور جس ریاست کا وہ وزیراعظم تھا اس کو شکست دینا چاہتا ہے۔

بہر کیف ہمارے جو لیڈر لندن میں ہیں ان کو پاکستان میں مقیم لیڈر بے روز گار کہتے ہیں۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ اب ان کے پاس ان کا سیاسی اثاثہ ختم ہو گیا ہے اور وہ بے روز گار ہو چکے ہیں۔ سچ ہے جس کا جو روز گار ہو اگر اس کا مال ختم ہو جائے تو وہ بے روز گار نہ ہوا تو کیا ہوا۔

اس وقت لندن میں یا کسی دوسرے شہر میں جو پاکستانی لیڈر کوئی اتحاد بنا رہے ہیں اور بنانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ سب کے سب بے روز گار ہیں یعنی کاروباری اثاثے سے محروم ہیں اور یہ اثاثہ ہے عوام کا اثاثہ۔ جن لوگوں کے پاس عوام ہیں انھیں کسی اتحاد کی کیا ضرورت ہے اس سے پہلے نو عدد جماعتوں کا اتحاد بنایا گیا تھا جو بہت کامیاب رہا اس لیے کہ اس اتحاد میں جتنی بھی جماعتیں تھیں الگ الگ ان کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں تھی لیکن جب یہ سب مل کر ایک اتحاد کی صورت اختیار کر گئیں تو ان کی ایسی زبردست سیاسی حیثیت بنی کہ بھٹو جیسا لیڈر بھی گھبرا گیا اور نتیجہ جو بھی نکلا بظاہر اتحاد کے حق میں نکلا۔

سیاسی اتحادوں کی کئی مثالیں ہیں جو اتحاد بن گئے اور انھیں صحیح قیادت مل گئی وہ منزل مراد تک جا پہنچے۔ نو جماعتی اتحاد پی این اے کو ایک دلچسپ بیرونی سرپرستی بھی حاصل تھی اور پاکستان میں بی بی سی کے نمایندے مارک ٹیلی کو جو یہودی تھا اس نو جماعتی اتحاد کا نواں رکن سمجھا جاتا تھا۔ ان دنوں جب کبھی مارک سے ملاقات ہوتی تو وہ مسکرا کر رہ جاتا۔ یہ اس کی مہربانی تھی کہ وہ ہماری بے عزتی نہیں کرتا تھا کہ دیکھو اپنی سیاسی قیادت کی اوقات کو۔

کالم کے دوران ایک سانحہ کی خبر ملی کہ حاجی سیف اللہ وفات پا گئے۔ حاجی صاحب ہماری رپورٹنگ کے دور میں پنجاب اسمبلی کے سب سے مقبول پارلیمنٹیرین تھے۔ حاجی صاحب اپنے کام پر بے حد محنت کرتے تھے اور اس کے عوض میں بے حد عزت پاتے تھے۔ پھر جدائی کا زمانہ آ گیا میں رپورٹنگ چھوڑ کر صحافت کے دوسرے شعبوں میں چلا گیا اور حاجی صاحب پہلے تو وفاقی وزیر بھی بن گئے پھر عملی سیاست سے گویا  ریٹائر ہو گئے۔ اس دوران ان سے ایک ڈاکٹر کے کلینک میں ملاقات ہوئی وہ بڑے پیار کے ساتھ ملے اور کہا کہ ڈاکٹر کا شکریہ جس نے ایک بار پھر ملا دیا۔ یہ وہ یاد گار لوگ تھے جو ہماری پارلیمنٹ کی سیاست میں زندہ رہیں گے۔ اب ہمارے پاس سوائے دعا کے اور کیا ہے۔ وہ نیک اور صالح لیڈر تھے اور اس لحاظ سے ایک منفرد مقام کے مالک تھے اللہ تعالیٰ ان کی نیکیاں ہرگز ضایع نہیں کرے گا۔

بھوک ہڑتال کا ہتھیار

$
0
0

بھوک ہڑتال سیاسی مطالبات پورے کرانے کا ایک غیر متشدد ہتھیار ہے۔جس کا مقصد سامنے والے کو احساسِ جرم میں مبتلا کرنا یا اپنے کاز کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا ہے۔

مقدس ہندو کتاب رامائن کے مطابق پہلی بھوک ہڑتال بھرت نے تب کی جب وہ رام کو قائل کرنا چاہتے تھے کہ آپ خود ساختہ جلاوطنی ترک کرکے ریاست کا کاروبار سنبھالیں۔ تاہم رام نے بھرت کو برت توڑنے پر آمادہ کرلیا۔بیسویں صدی کے ہندوستان میں مہاتما گاندھی کو انگریزی حکومت نے 1922 سے 42ء تک چار مرتبہ لمبی قید میں ڈالا اور گاندھی جی نے ستیہ گرہ ( سول نافرمانی ) کے تحت کئی بار بھوک ہڑتال کی۔ انگریز مہاتما کے سیاسی قد کاٹھ کی وجہ سے نہیں چاہتے تھے کہ مہاتما کو جیل میں بھوک ہڑتال کے سبب کچھ ہوجائے چنانچہ مہاتما اپنے مطالبات منوانے میں اکثر کامیاب ہوجاتے تھے۔

آزادی کے بعد بھی مہاتما نے بھوک ہڑتال کا ہتھیار ہندو مسلم فسادات رکوانے کے لیے خاصی مہارت سے استعمال کیا۔ان کے آخری برت کا سبب یہ تھا کہ حکومتِ ہند  پاکستان کو اس کے حصے کے وسائل اور سامانِ حرب دینے میں رکاوٹیں ڈال رہی تھی لیکن گاندھی جی نے برت رکھ کے نہرو اور پٹیل کو سامان بھجوانے پر آمادہ کرلیا۔اس پاکستان نوازی کا خمیازہ انھیں31 جنوری1948کو ایک جن سنگھی ناتھو رام گوڈسے کی سینے میں اترنے والی گولی کی شکل میں بھگتنا پڑا۔حکومتِ پاکستان نے قومی پرچم سرنگوں رکھا اور گورنر جنرل محمد علی جناح نے اپنے تعزیتی پیغام میں گاندھی کے لیے ’’اے گریٹ انڈین ’’ کا لقب استعمال کیا۔

برٹش دور میں ایک اور سیاسی قیدی جیتندر داس نے لاہور جیل میں اس مطالبے کے حق میں بھوک ہڑتال کی کہ سزا یافتہ قیدیوں اور ملزموں کی سہولتوں میں تفریق نہ برتی جائے۔تاہم وہ 13 ستمبر 1929کو مرن برت کے تریسٹھویں دن وفات پاگئے۔البتہ اسی زمانے میں دہشت گردی کے الزام میں قید بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی دت نے ایک سو انیس دن کی کامیاب بھوک ہڑتال کی اور جیل سے متعلق اپنے مطالبات منوانے میں جزوی کامیاب رہے۔

آزادی کے بعد گاندھی پرست سری رامولو نے 1952 میں آندھرا کو علیحدہ صوبہ بنوانے کے لیے  بھوک ہڑتال کی اور اٹھاون دن بعد دم توڑ دیا۔تاہم ان کی قربانی رائیگاں نہیں گئی اور پارلیمنٹ نے صوبوں کی تشکیل کے لیے نسلی و لسانی معیار تسلیم کرلیا۔ بعد میں کئی نئے صوبوں کی تشکیل اسی بنیاد پر ہوئی۔

مغربی دنیا میں بہت سے سیاسی کارکنوں نے حقوق کی جنگ میں بھوک ہڑتال کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔سب سے زیادہ بھوک ہڑتالیں آئرلینڈ پر برطانوی قبضے اور وہاں پر جاری کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقہ واریت کے ردِ عمل میں ہوئیں اور سب سے زیادہ شہرت آئرش ریپبلیکن آرمی کے ایک فعال کارکن بوبی سینڈز کے حصے میں آئی۔بوبی سینڈز شمالی آئر لینڈ کے ایک عام سے کیتھولک گھرانے میں پیدا ہوئے لیکن پروٹسٹنٹ اکثریت کے بیچ میں رہتے ہوئے انھیں اکثر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔کبھی غنڈے گھر والوں کو دھمکاتے۔کبھی کھڑکیوں پر پتھراؤ ہوجاتا۔چنانچہ بوبی سینڈز کے خاندان کو ہر چند ماہ بعد گھر بدلنا پڑتا۔ اسکول میں پروٹسٹنٹ بچوں نے کیتھولک بچوں کا سماجی بائیکاٹ کررکھا تھا مگر اساتذہ کے نزدیک یہ کوئی ایسی سنگین بات نہیں تھی۔

1969 میں جب نوجوان بوبی سینڈز نے ٹیکنیکل کالج میں داخلہ لیا تو پروٹسٹنٹ کارکنوں نے ان کا جینا دوبھر کردیا اور ایک دن اسلحے کے بل پر دھکے دے کر نکالتے ہوئے کہا کہ دوبارہ نظر آئے تو ٹانگوں پر چل کے نہیں جاؤ گے۔بوبی سینڈز اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ یوں کام نہیں چلے گا۔چنانچہ انھوں نے 1972 میں علیحدگی پسند مسلح تنظیم آئی آر اے میں شمولیت اختیار کرلی۔اگلے برس ہی غیرقانونی اسلحہ رکھنے کے جرم میں پانچ برس کی جیل ہوگئی مگر تین برس بعد رہا کردیا گیا۔لیکن چھ ماہ بعد ہی ایک فرنیچر کمپنی کے دفتر پر بم حملے کے الزام میں آئی آر اے کے کئی کارکن بوبی سینڈز سمیت حراست میں لے لیے گئے اور چودہ برس قید کی سزا سنا دی گئی۔ابتدائی بائیس دن انھیں ایک خالی کمرے کے ننگے فرش پر سونا پڑا۔

پندرہ دن بغیر کپڑوں کے گذارنے پڑے اور ہر خوراک کے نام پر ہر تین دن بعد ڈبل روٹی کا ایک ٹکڑا اور سادہ پانی ملنے لگا۔بعد میں جب جیل حکام کے خیال میں دماغ ٹھکانے پر آگیا تو کچھ معمولی سہولتیں فراہم کی گئیں۔تاہم آئی آر اے کے قیدیوں کا موقف تھا کہ وہ دہشت گرد نہیں بلکہ سیاسی ورکر ہیں لہذا انھیں جیل میں سیاسی قیدیوں جیسی مراعات دی جائیں اور پھر بھوک ہڑتال شروع ہوگئی۔ مطالبہ یہ تھا کہ ہمیں قیدیوں کی یونیفارم پہننے سے مستثنیٰ کیا جائے۔جبری مشقت نہ لی جائے۔ہر ہفتے ایک رشتے دار سے ملاقات ، ایک خط اور ایک پارسل بھیجنے اور وصول کرنے کا حق تسلیم کیا جائے۔

اس دوران ایک آئرش قوم پرست کی وفات کے سبب برطانوی پارلیمنٹ کی ایک نشست پر ضمنی انتخاب ہوا جس میں قوم پرستوں نے بوبی سینڈز کو اپنا امیدوار نامزد کیا اور وہ جیت کر برطانوی پارلیمان کے سب سے کم عمر رکن ( ستائیس برس ) قرار پائے۔لیکن کامیابی کے صرف پچیس روز بعد بھوک ہڑتال کے چھیاسٹھویں دن بوبی سینڈز کا میز جیل میں انتقال ہوگیا۔شمالی آئرلینڈ میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔اس دوران یکے بعد دیگرے نو دیگر آئرش بھوک ہڑتالی بھی جاں بحق ہوگئے۔ بوبی سینڈز کی ہلاکت کے بعد کئی یورپی شہروں میں مظاہرے ہوئے۔فرانس کے کئی قصبات میں متعدد کوچے ان کے نام سے موسوم ہوئے۔ سوویت یونین میں بوبی سینڈز کی نظموں کا ترجمہ ہوا۔نافا کی اسرائیلی جیل میں قید فلسطینیوں نے ایک تعزیتی خط کسی طرح اسمگل کرا کے بوبی سینڈز کے اہلِ خانہ تک پہنچوایا۔

امریکا میں مقیم آئرش برادری نے تعزیتی جلسے کیے۔ایرانی صدر ابو الحسن بنی صدر نے بھی ایک تعزیتی پیغام بھیجا اور تہران کی ونسٹن چرچل اسٹریٹ کا نام بوبی سینڈز اسٹریٹ رکھ دیا۔چنانچہ اس اسٹریٹ پر واقع برطانوی سفارتخانے نے اپنا صدر دروازہ بند کرکے پچھواڑے میں صدر دروازہ بنا لیا تاکہ خط و کتابت کے پتے کے طور پر بوبی سینڈز اسٹریٹ کے بجائے شاہراہِ فردوسی کا نام استعمال ہوسکے۔بھارتی لوک سبھا میں حزبِ اختلاف نے ایک منٹ کی تعزیتی خاموشی اختیار کی تاہم حکمراں کانگریس نے اس میں حصہ نہیں لیا۔لیکن طویل ترین بھوک ہڑتال کا ریکارڈ بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور کی شہری و سیاسی حقوق کی بیالیس سالہ کارکن اور شاعرہ لروم شرمیلا چانو نے قائم کیا ہے۔

شرمیلا 1972 میں پیدا ہوئیں۔ان کی تعلیم صرف سات جماعت ہے۔بچپن سے ہر جمعرات کو برت ( روزہ ) رکھنے کی عادی تھیں۔منی پور میں بھارت سے علیحدگی کی تحریک لگ بھگ چالیس برس سے چل رہی ہے۔اسے دبانے کے لیے ریاست میں 1980 سے آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ مجریہ 1958 نافذ ہے۔( اس ایکٹ کے تحت مسلح افواج اور نیم فوجی اداروں کو بنا وارنٹ تلاشی ، گرفتاری اور شک کی بنیاد پر گولی مار دینے کے اختیارات حاصل ہیں۔یہ ایکٹ دیگر شمال مشرقی ریاستوں ناگالینڈ ، میزو رم اور متنازعہ ریاست جموں کشمیر میں بھی نافذ ہے )۔مگر شرمیلا کا کسی بھی مسلح علیحدگی پسند گروہ سے کبھی کوئی لینا دینا نہیں رہا۔ہوا یوں کہ دو نومبر سن دو ہزار کو منی پور کے قصبے مالوم میں نیم فوجی آسام رائفلز کے جوانوں نے ایک بس اسٹاپ پر کھڑے دس شہریوں کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔

مرنے والوں میں ایک باسٹھ سالہ خاتون اور 1988کا سرکاری نیشنل چائلڈ بریوری ایوارڈ حاصل کرنے والی اٹھارہ سالہ سنام چندر منی بھی شامل تھیں۔لروم شرمیلا چانو کو جب خبر ملی تو انھوں نے بس اتنا کیا کہ اپنا برت طویل کردیا اور آج چودہ برس ہو چلے ہیں, ان کی بھوک ہڑتال کو۔ان کا بس ایک ہی مطالبہ ہے کہ منی پور اور دیگر ریاستوں سے اسپیشل پاورز ایکٹ ہٹایا جائے اور شہری آزادیوں کو بحال کیا جائے۔بھوک ہڑتال کے تیسرے روز شرمیلا کو خودکشی کی کوشش کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا جس کی بھارتی قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا ایک برس ہے۔چنانچہ انھیں ہر سال یہ مدت پوری ہونے سے چند روز پہلے رہا کردیا جاتا ہے اور پھر حراست میں لے لیا جاتا ہے۔

ایمنٹسی انٹرنیشنل شرمیلا کو ضمیر کا قیدی قرار دے چکی ہے۔ شرمیلا کا مقدمہ نوبیل انعام یافتہ ایرانی شخصیت شیریں عبادی اقوام ِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل تک لے جا چکی ہیں۔خود شرمیلا کا نام دو ہزار پانچ کی نوبیل انعام کی مستحق شخصیات کی فہرست میں آچکا ہے۔ پچھلے چودہ برس سے شرمیلا نے نہ ہی کچھ کھایا نہ پیا البتہ جیل حکام نے ان کی ناک سے خوراک کی نلکی معدے تک پہنچا رکھی ہے تاکہ وہ طبی عملے کی نگرانی میں زندہ رہیں۔حالیہ انتخابات میں کانگریس اور عام آدمی پارٹی نے انھیں لوک سبھا کا امیدوار بنانے کی پیش کش کی لیکن شرمیلا نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ سیاستداں بے شرم ہیں۔اسپیشل پاورز ایکٹ اٹھانے کا یقین ضرور دلاتے ہیں مگر کرتے ورتے کچھ نہیں۔

اس وقت پاکستان میں بھی ایک نوجوان نے بیالیس روز سے کراچی پریس کلب کے باہر بھوک ہڑتال کررکھی ہے۔ کالعدم بلوچ طلبا تنظیم بی ایس او آزاد کے کارکن لطیف جوہر کا مطالبہ ہے کہ ان کی تنظیم کے سربراہ زاہد بلوچ کو بازیاب کرایا جائے جنھیں دو ماہ قبل کوئٹہ سے اغوا کرلیا گیا تاہم پولیس اب تک اس اغوا کی ایف آئی آر کاٹنے سے انکاری ہے۔لطیف جوہر کا وزن تقریباً بیس کلوگرام کم ہوچکا ہے۔بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے لطیف کے کیمپ میں آکر اپیل کی کہ وہ بھوک ہڑتال ختم کردیں لیکن لطیف کا اصرار ہے کہ جنہوں نے زاہد بلوچ کو غائب کیا ہے اگر وہ ان کی گرفتاری تسلیم کرکے عدالت میں پیش کر دیں تو وہ بھوک ہڑتال ختم کرسکتے ہیں۔لیکن یہ وہ مطالبہ ہے جس پر عمل درآمد شائد وزیرِ اعلیٰ کے بھی بس میں نہیں۔لطیف کی بھوک ہڑتال تادم ِ تحریر جاری ہے۔

کچھ ایسے بھوک ہڑتالی بھی ہوتے ہیں جو علامتی بھوک ہڑتال یا پانچ گھنٹے کی بھوک ہڑتال وغیرہ پر یقین رکھتے ہیں۔مقصد سنگل کالم خبر ، ایک عدد ہار پہنی تصویر کی اشاعت اور ٹی وی چینل پر پٹی چلوانے کے کچھ بھی نہیں ہوتا۔اگر ایسوں کا تذکرہ شروع کردیں تو بات ہزاروں تک پہنچ جائے گی۔اور کچھ تو ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی بھوک ہڑتال ختم کرانے جب کوئی من پسند وی آئی پی نہیں آتا تو خود ہی احتجاجاً بھوک ہڑتال ختم کردیتے ہیں۔ خداایسوںکوبھی سلامت رکھے…

( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bcurdu.com پر کلک کیجیے )

قابل تقلید فیصلہ

$
0
0

اخباروں میں بعض وقت ایسی خبریں چھپتی ہیں جن کی گیرائی اور گہرائی کا اندازہ مشکل ہوتا ہے لیکن عموماً قارئین ایسی خبروں پر زیادہ توجہ نہیں دیتے لکھاری حضرات بھی ان ہی خبروں پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں جو ان کی وچار دھارا سے مطابق رکھتی ہیں۔ ایکسپریس میں لگی ایک خبر ایسی تھی کہ اس پر ہماری توجہ پوری طرح مرکوز ہوگئی یہ دو کالمی خبر سعودی حکومت کے ایک انتہائی اہم فیصلے سے متعلق ہے اس خبر کی سرخی کچھ اس طرح ہے ’’انتہا پسند علما کی بطور امام مسجد تقرری پر پابندی‘‘ ۔

حکومتوں کے بعض فیصلوں میں ہوسکتا ہے حکمرانوں کے مفادات کا بھی کوئی دخل ہو لیکن سعودی حکومت نے جو پابندی لگائی ہے وہ سعودی عوام عالم اسلام اور پوری انسانی برادری کے لیے سودمند اور قابل تقلید ہے۔ یہ ہماری اجتماعی بدقسمتی ہے کہ ساری دنیا میں مسلمان مذہبی انتہاپسندی کی وجہ سے نہ صرف بدنام ہو رہے ہیں۔ اگرچہ مذہبی انتہا پسندی سامراجی ملکوں کی پیداوار ہے لیکن اب یہ عفریت اس قدر بے لگام ہوگیا ہے کہ اس کی نظر میں اپنے پرائے جائز ناجائز کی کوئی حیثیت نہیں رہی ہے ہر روز پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا شدت پسندی کی خبروں سے بھرا رہتا ہے اور اس المیے کو کیا کہیں کہ اس کے کرتا دھرتا وہی لوگ ہیں جو مذہب اسلام کے نام پر ہر جگہ پاکستان سے افریقی ملکوں تک قتل و غارت گری کا بازار لگائے ہوئے ہیں ان کی شدت پسندی کا یہ پہلو بڑا عجیب وغریب ہے کہ ان کی ستم ظریفیوں کا شکار مسلمان ہی ہو رہے ہیں۔

میرے سامنے جو تازہ اخبارات رکھے ہوئے ہیں ان کی چند سرخیاں پیش خدمت ہیں جن سے یہ اندازہ ہوسکتا ہے کہ ہم بحیثیت قوم تنزلی کی کس انتہا پر پہنچے ہوئے ہیں۔ سرخیاں کچھ اس طرح ہیں:

’’مہمند میں دھماکا، لنڈی کوتل میں جھڑپ 8 سیکیورٹی اہلکار ہلاک‘‘

’’صومالی پارلیمنٹ پر شدت پسندوں کا حملہ20 افراد ہلاک‘‘

’’افغانستان 15 پولیس اہلکار اغوا 36 طالبان ہلاک‘‘

’’باجوڑ میں بمباری 15 شدت پسند ہلاک 30 زخمی‘‘

’’عراق بم دھماکوں میں 40 افراد ہلاک 100 زخمی‘‘

’’نائیجیریا بوکو حرام نے 200 سے زیادہ مغوی طالبات کے قتل کی دھمکی دے دی‘‘

یہ اور اس قسم کی بے شمار سرخیاں اخبارات کے صفحات پر چنگھاڑتی نظر آتی ہیں اور ان سب کا تعلق نہ ہنود ونصاری سے ہے نہ ہندوؤں اور سکھوں سے ، ان ساری خبروں کے مرکزی کردار مسلمان ہیں اور یہ سب اسلام کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ کیا اس قتل و غارت سے مسلمانوں اور اسلام کا سربلند ہورہا ہے یا عالمی سطح پر مسلمانوں اور اسلام کی بدنامی اور رسوائی ہو رہی ہے یہ ایسا سوال ہے جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔

مسلم انتہا پسند طاقتیں اسلامی نظام کے نفاذ کی علمبردار ہیں کسی بھی مذہبی یا سیاسی جماعت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند کے نظام کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرے پاکستان کی تمام مذہبی جماعتوں کے منشور میں اسلامی نظام کا نفاذ سرفہرست ہے اور یہ جماعتیں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے 66 سالوں سے مسلسل جدوجہد کر رہی ہیں اس پر کسی کو اعتراض اس لیے نہیں کہ یہ جدوجہد پرامن جمہوری طریقے پر کی جا رہی ہے۔

اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ کسی نظام کے نفاذ کے لیے پرامن جمہوری طریقہ استعمال کیا جاتا ہے یا پرتشدد بہیمانہ راستہ اختیار کیا جاتا ہے؟ اگر پاکستان کی اعتدال پسند مذہبی جماعتوں کی طرح دیگر مذہبی تنظیمیں بھی پرامن جمہوری راستہ اختیار کرتیں تو نہ ملک کے اندر کسی کو اعتراض ہوسکتا تھا نہ عالمی سطح پر کسی کو اس قسم کی پرامن جدوجہد پر اعتراض ہوسکتا تھا لیکن جب مذہبی انتہا پسند طاقتیں پرامن جمہوری راستے کو چھوڑ کر قتل و غارت کے پرتشدد راستے پر چلنے لگیں تو ملک کے اندر اور ملک کے باہر ہر جگہ ہی اس کی مذمت اور مخالفت کی جانے لگی۔

ہوسکتا ہے تشدد کے راستے پر چلنے والی طاقتوں کو یہ احساس ہوکہ پرامن جمہوری طریقے سے اسلامی نظام نافذ کرنے کا تجربہ ناکام ہوچکا ہے لہٰذا اب تشدد کے ذریعے اسلامی نظام کو نافذ کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر ہمارا یہ خیال درست ہے تو ہم معذرت کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ یہ طریقہ اسی لیے کامیاب نہیں ہوسکتا کہ اس طریقے کو عوام کی قطعی حمایت حاصل نہیں ہوسکتی اور جس جدوجہد کو عوام کی حمایت حاصل نہ ہو وہ جدوجہد کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔

کیا اس حقیقت سے انتہا پسند طاقتیں واقف نہیں؟ بی جے پی کو بھارت کی مذہبی انتہا پسند جماعت مانا جاتا ہے بی جے پی بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانا چاہتی ہے لیکن اس نے اپنے اس مقصد کے لیے کبھی تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا اگرچہ  وہ مذہبی تعصبات مذہبی منافرت کا پرچار کرتی رہی۔ وجوہات خواہ کچھ بھی ہوں 2014 کے الیکشن میں عوام نے اسے اقتدار دلادیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پرامن طریقے سے اقتدار میں آنے کے باوجود کیا بی جے پی بھارت کو ایک ہندو ریاست بناسکتی ہے؟ اس کا جواب نفی ہی میں آتا ہے۔

اس وقت یہ بحث غیر ضروری ہوگی کہ ’’کیا بی جے پی بھارت کو ایک ہندو ریاست بناسکے گی۔ کوئی بھی مذہبی ریاست خلا میں قائم نہیں ہوسکتی اس کے لیے ایک مربوط منظم اور جامعہ متبادل نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس حوالے سے مزید ریاستیں قائم کرنے کے دعویداروں کی پٹاری خالی ہی نظر آتی ہے۔‘‘

ہر مذہب میں عبادت گاہوں کو خدا کا گھر مانا جاتا ہے اور خدا کے گھروں کا تقاضہ یہ ہوتا ہے کہ یہاں امن بھائی چارے محبت اور مذہبی رواداری کا پرچار ہو۔ اگر عبادت گاہوں کو محبت کی جگہ نفرت امن کی جگہ جنگ کے پرچارکے لیے استعمال کیا جانے لگے تو یہ گھر خدا کے گھر نہیں رہتے۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ پاکستان ہی میں نہیں بلکہ مسلم ملکوں میں عبادت گاہوں کو نفرت تعصب اور انتہا پسندی کی ترویج کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جس کا نتیجہ قتل و غارت گری کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔

سعودی عرب میں حکومت نے مسجدوں میں انتہا پسندی کی ترویج پر پابندی لگا کر ایک انتہائی مثبت قدم اٹھایا ہے کیا دوسرے مسلم ملکوں میں اس قسم کی پابندیاں ضروری نہیں؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب مسلم ملکوں میں شدت پسندی اور دہشت گردی کے بھیانک تناظر ہی میں تلاش کیا جاسکتا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ مسلم ملک اپنے ملک و قوم کے بہتر مستقبل اور بدتر حال کے حوالے سے سعودی عرب کے اس مثبت فیصلے کی تقلید کریں اور دنیا میں مسلمانوں اور اسلام کی بدنامی اور رسوائی کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں۔

بھارت کے 15 ویں وزیر اعظم نریندر مودی

$
0
0

پیر 26 مئی کو آخر کار وہی ہوا جس کی سیاسی پنڈت ایک عرصے سے پیشین گوئی کر رہے تھے اور جس کی بھارت کے عام چناؤ کے موقعے پر ہونے والے ایگزٹ پولز نے نہایت واضح الفاظ میں نشاندہی کردی تھی یعنی برسوں سے برسر اقتدار انڈین نیشنل کانگریس کی ہار اور حزب اختلاف کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی عرف بی جے پی بنت آر ایس ایس کی جیت۔ مگر کانگریس کی شکست اس قدر عبرتناک اور شرمناک اور بی جے پی کی فتح اور کامیابی اتنی زبردست اور تاریخی ہوگی اس کا درست اندازہ بڑے بڑے سیاسی نجومی بھی لگانے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوسکے جس کے نتیجے میں ان کی قیاس آرائیاں محض دھری کی دھری رہ گئیں۔

جیسا کہ ہم شاید اس سے پہلے بھی عرض کرچکے ہیں بی جے پی کی فتح میں جہاں اس کی مسلسل کوششوں اور بھرپور تیاریوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے، وہیں کانگریس کی مسلسل ناقص کارکردگی اور ضرورت سے زیادہ غلط فہمی بلکہ خوش فہمی کا بھی کچھ کم عمل دخل نہیں ہے۔ دراصل کانگریس نے اپنی طویل حکمرانی کے نشے میں دھت ہوکر بھارت کی جنتا کو اپنی رعیت اور رعایا بلکہ گھر کی لونڈی باندی سمجھ لیا تھا اور ہندوستان کو آزادی دلانے والی سیاسی جماعت ہونے کی وجہ سے اسے یہ گھمنڈ ہوگیا تھا کہ اس نے ہندوستان پر ہمیشہ حکومت کرنے کا گویا ٹھیکہ لے لیا ہے۔

بھارت کی دوسری سب سے بڑی اکثریت یعنی بھارت کے ان مسلمانوں کو بھی شدید طور پر مایوس کردیا جو اپنے ووٹوں کی فیصلہ کن تعداد سے کانگریس کا پلڑا بھاری کرکے عام انتخابات کا پانسہ پلٹ دیا کرتے تھے۔ بہرحال بی جے پی اپنی کامیابی کا جشن منا رہی ہے اور کانگریس اپنے کرتوتوں کا خمیازہ بھگتتے ہوئے اپنی پسپائی کے کاری زخموں کو چاٹ رہی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی کو لوک سبھا میں غالب اکثریت حاصل ہے جس کے باعث وہ کسی اور سیاسی جماعت کی حمایت یا مدد کی محتاج نہیں ہے اور بلا روک ٹوک اپنی من چاہی سرکار بنانے میں پوری طرح سے خودمختار اور قطعی آزاد ہے۔

اب اسے اپنی اتحادی جماعتوں کی حمایت درکار نہیں ہے بلکہ اس کی اتحادی جماعتوں کو اس کی مرضی و منشا کے مطابق چلنے کی ضرورت ہے۔ لیکن شکست خوردہ سابق حکمراں جماعت کانگریس کا معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے کیونکہ ایوان زیریں میں اس کی صرف 44 نشستیں اسے کسی کی بھی حمایت دلانے میں کامیاب نہیں ہوسکتیں۔تاہم اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ بی جے پی کی راہ میں اب کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی۔ بہ قول اقبال:

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

شاید بہت کم لوگوں کا دھیان اس جانب گیا ہوگا کہ بھارتی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں بی جے پی کے سیاسی اتحاد یا مورچے این ڈی اے کی موجودہ تعداد مجموعی طور پر صرف 64 سیٹوں پر مشتمل ہے جب کہ کانگریس پارٹی کو تن تنہا اس ایوان میں 68 نشستوں کے ساتھ واضح برتری حاصل ہے۔ دوسری جانب اس ایوان میں بی جے پی کی اپنی نشستیں صرف 46 ہیں۔ یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ راجیہ سبھا میں بی جے پی کے اتحادیوں یعنی AL ADMK اور TDP کی نشستوں کی تعداد بالترتیب 10 اور 6 ہے۔ دوسری جانب ان اتحادیوں کی مخالف جماعتوں بی ایس پی اور ٹی ایم سی بالترتیب 14 اور 12 نشستیں حاصل ہیں جب کہ SP کی 6، NCP کی 6 اور JD-U کی 2 نشستیں اس کے علاوہ ہیں۔

حقیقی صورت حال یہ ہے کہ 240 ارکان پر مشتمل راجیہ سبھا میں کسی بھی بل کو منظور کرانے کے لیے بی جے پی کے اتحاد NDA کو کم سے کم 121 ارکان کی قطعی حمایت درکار ہوگی جوکہ جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ آج کے دن سے لے کر سال 2015 کے اختتام تک راجیہ سبھا میں صرف 23 سیٹیں خالی ہوں گی۔ بالفرض اگر NDA آیندہ راجیہ سبھا کی ان خالی نشستوں کو پر کرنے میں کوئی بہت بڑی کامیابی بھی حاصل کرلیتی ہے (جوکہ بعید از قیاس ہے) تب بھی وہ غالب اکثریت کے حصول سے میلوں کوسوں دور رہے گی۔

چشم کشا زمینی حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی بل اس وقت تک قانونی حیثیت حاصل کرنے کے لیے راشٹر پتی (صدر مملکت) کے دستخط حاصل کرنے کے لیے پیش نہیں کیا جاسکتا جب تک اسے راجیہ سبھا سمیت پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے کثرت رائے سے منظور نہ کیا ہو۔ باور ہو کہ اس وقت راجیہ سبھا میں 50 بل اس ایوان کی منظوری حاصل کرنے کے لیے زیر التوا پڑے ہیں جن میں Judicial Appointment Commission بل ، Drugs and Cosmetics (Amendment) بل، انسداد بدعنوانی (ترمیمی) بل اور Real Estate (Regulation and Development) جیسے اہم بلوں کے علاوہ بعض دیگر بل بھی شامل ہیں۔

بہر حال 26 مئی کو بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے والی بھارت کی سیاسی جماعت بی جے پی کے امیدوار 63 سالہ نریندر مودی نے راجدھانی نئی دہلی میں واقع راشٹرپتی بھون (ایوان صدر) میں وزارت عظمیٰ کے عہدے کا حلف اٹھاکر ہندوستان کے نام نہاد سیکولرزم کے چہرے پر پڑے ہوئے فریبی نقاب کو نوچ ڈالا اور حکمراں کانگریس پارٹی کا جنازہ نکال دیا۔ نریندر مودی ہندوستان کے 15 ویں اور بی جے پی کے دوسرے وزیر اعظم ہیں۔ وزیر اعظم کے عہدے کے لیے ان کا نام بی جے پی کے بدنام زمانہ بزرگ رہنما ایل کے ایڈوانی نے پیش کیا تھا جب کہ مرلی منوہر جوشی، ایم وین کیاہ نائیڈو، نیتن گڈکری، سشما سوراج، اور ارن جیٹلے سمیت پارٹی کے دیگر سیاسی رہنماؤں نے ان کی تائید کی تھی۔

63 سالہ نریندر مودی کسی تعارف کے محتاج نہیں کیونکہ بھارت کے صوبہ گجرات کے انسانیت سوز مسلم کش فسادات کے حوالے سے پوری دنیا انھیں خوب اچھی طرح سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ نریندر مودی اسلام اور مسلم دشمنی میں آر ایس ایس اور بی جے پی کے انتہا پسندوں میں سرفہرست شمار کیے جاتے ہیں اور ’’ہندوتوا‘‘ کا نعرہ لگا لگا کر انھیں نہ صرف اپنی جماعت میں تیزی سے اتنی غیر معمولی مقبولیت اور اہمیت حاصل ہوئی ہے بلکہ وہ ایک ٹی بوائے سے بلند ہوکر بھارت کے پردھان منتری کے عہدے تک جا پہنچے ہیں۔ نریندر مودی اور ان کی سیاسی جماعت کے مسلمانوں سے بے انتہا تعصب اور بغض و عناد کا اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کے کامیاب امیدواروں کی طویل فہرست میں ایک بھی مسلمان شامل نہیں ہے۔

یہ اور بات ہے کہ بعض نام نہاد ایمان اور ضمیر فروش مسلمانوں کے نام ان کے حمایتیوں میں شامل نظر آتے ہیں جن کا اسلام سے کوئی دور پرے کا بھی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔ سچ پوچھیے تو نریندر مودی اور ان کی پارٹی کو عام انتخابات میں یہ کامیابی ان کی اسلام اور پاکستان دشمنی کی بنا پر ہی حاصل ہوئی ہے۔ ان کی پاکستان دشمنی کا اندازہ لگانے کے لیے صرف یہی ایک مثال کافی ہے کہ انھوں نے اپنی جماعت کے ایک بزرگ اور انتہائی پرانے اور سینئر رہنما جسونت سنگھ کو اپنی پارٹی سے محض اس جرم کی پاداش میں نکال کر باہر کردیا تھا کہ انھوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی پر ایک کتاب لکھ ڈالی تھی۔

عصرِ حاضر میں آرٹ کی جمالیاتی اقدار

$
0
0

انگریزی زبان کالفظ ’’آرٹ‘‘جس کو اردوزبان میں ’’فن‘‘ بھی کہتے ہیںاور’’ہنر‘‘بھی کہاجاتاہے۔ان کی جمع ’’فنون وہنر‘‘یا’’آرٹس‘‘ ہے،مگر اس سے حقیقی مراد دراصل ایسا فن ہے جس میں لطافت ہو۔اسی لیے فن کا حرف سنتے ہی تخلیقی ہنر کی طرف دھیان جاتا ہے۔فنون لطیفہ سے مراد جذبات کا اظہار ہے اوردل کو چھولینے والی کسی تخلیق کاجنم لینا ہے۔ اقبال کے نزدیک

فن کی ہے خون جگر سے نمود

اسی لیے مصوری،مجسمہ سازی، تصویرکشی، تعمیرات، موسیقی ، تھیٹر،رقص اورفلم جیسے شعبوں کوفنون لطیفہ میں شمار کیا جاتا ہے۔اپنے خیال کو ہنر مندی سے پیش کرنے کا نام ’’آرٹ‘‘ ہے،اب چاہے اس کااظہار کسی بھی انداز میں ہو۔

آرٹ فن پارے کی تخلیقی خوبصورتی کی لاج رکھتا ہے۔ انسانی احساسات میں اتر کر روح کو متاثر کرتا ہے۔ لفظ ’’آرٹ‘‘ بڑا جادوگر لفظ ہے جس پر منکشف ہوجائے، اس کی دنیا بدل دیتا ہے اورکئی اس کی چاہ لیے اپنی زندگی برباد کر لیتے ہیں،مگر یہ ان پر اپنی معنویت نہیں کھولتا۔انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا کے مطابق’’وہ حسین اشیا،فطری اظہاریا ایسے تجربے، جن کو بیان کیاجا سکے اوروہ ہنر جس کے عمل میں سوچ بھی شامل ہو،وہ آرٹ ہے۔‘‘

آرٹ کی فلاسفی کا مطالعہ کیا جائے تو مختلف مفکروں نے اپنے اپنے انداز میں اس کی تعریف متعین کی ہے،مگر حتمی طورپر ایک تعریف جس پر تقریباً سب متفق ہیں،و ہ یہ ہے کہ ’’آرٹ انسانی جذبات کو دوسروں تک پہنچانے کاایک راستہ ہے۔‘‘ روس کاکلاسیکی ناول نگار ’’لیوٹالسٹائی‘‘ آرٹ کی تعریف بھی انھی معنوں میں کرتا ہے۔ ارسطو اپنی فلاسفی میں آرٹ کو ایک اچھی نقل سے تعبیر کرتا ہے۔ جرمنی کا عظیم فلاسفر’’مارٹن ہائی ڈیگر‘‘آرٹ کو ایک ایسا طریقہ مانتا ہے،جس کے ذریعے کوئی اپنا آپ دوسروں تک پہنچائے۔‘‘

عہد جدید میں آرٹ کی بے شمار اقسام تخلیق کی جا چکی ہیں ۔ کسی زمانے میں یہ جتنا سادہ میڈیم ہواکرتا تھا،اب اتنا سادہ نہیں رہا۔اس میں مختلف جہتیں پیدا ہو گئی ہیں،جس کے ذریعے صرف انسان کے شعوری جذبات کا اظہار ہی نہیں ہوتا، بلکہ یہ آرٹ ہمیں اب انسان کے لاشعور تک بھی لے جاتا ہے۔آرٹ ہمیں بتاتا ہے کہ آرٹسٹ کی ذہنی سطح کیا ہے۔ وہ کس طرح خیال کو تخلیق کالبادہ پہناتاہے۔وہ کون سے احساسات ہیں، جن کااظہار اسے آرٹسٹ بنا دیتا ہے۔ دورِ جدید آرٹ کی ان تمام سمتوں کابازیچہ ہے۔آرٹ کی فطرت اور اس سے جڑے ہوئے نظریات اس میں تخلیق کے متاثر کن عناصر کوجنم دیتے ہیں۔فلاسفی کی ایک شاخ جس نے آرٹ کے ان پہلوئوں پر تحقیق کی ہے،اس کو ’’جمالیات‘‘ کہتے ہیں۔یہ رخ بھی ہمیں بہت کچھ بتاتاہے۔

قبل از تاریخ سے لے کرعہد حاضرتک ہمیںبہت سارے ادوار ملتے ہیں،جس میں آرٹ مختلف انداز میں تخلیق ہوا۔ قبل ازتاریخ میں روس،ہندوستان،چین، جاپان، کوریا، افریقہ، امریکااورآسڑیلیاجیسے خطوں میںآرٹ کے سراغ ملتے ہیں۔دیواروں پر نقش ونگار،ظروف،مجسمہ سازی اور پینٹنگز کے نمونے ہمیں بتاتے ہیں کہ آرٹ نے ہمیشہ انسانی توجہ کواپنی طرف مرکوز کیا۔یورپ میں بھی پتھر،دھات اور لوہے کے ادوار میں مندرجہ بالا فنون کا بول بالا رہا ۔

عصر حاضر میں بعد ازتاریخ سے آرٹ اپنا سفر طے کرتے ہوئے جدید آرٹ تک پہنچا،پھر جدید آرٹ کے بعد کادور اوراب عصری آرٹ تک اس کا کینوس پھیلاہواہے،جو ہمیں ورطۂ حیرت میں مبتلا کردیتاہے کہ انسان کی جمالیات کتنی پختہ ہیں اوروہ اپنی بات کہنے کے لیے اظہار کے کتنے طریقے تراشتا ہے ،عقل دنگ رہ جاتی ہے۔دنیا بھر کی جامعات میں اب آرٹ بطورمضمون پڑھایاجاتاہے اوراس کی کئی شاخیں بھی ہیں۔پاکستان کے کئی شہروں میں بھی یہ مضمون باقاعدہ مرکزی حیثیت اختیار کرچکاہے۔

لاہور میں 1872سے قائم شدہ ’’نیشنل کالج آف آرٹس، لاہور‘‘آرٹ کی تعلیم کا سب سے بڑا مرکز ہے،اب تک یہاں سے ہزاروں کی تعداد میں طلبا آرٹ اوردیگر فنون لطیفہ کی تعلیم حاصل کرچکے ہیں ۔پاکستان کے کئی نامور فنکاروں کا تعلق بھی اسی درس گاہ سے ہے۔کراچی میں 1989 سے قائم شدہ ’’انڈس ویلی انسٹی ٹیوٹ آف آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر‘‘بھی نئی نسل میں اس فن کے ثمرات پہنچانے میں کوشاں ہے۔اس کے علاوہ اسی شہر میں 1964سے قائم شدہ ’’کراچی اسکول آف آرٹ‘‘اورجامعہ کراچی کا شعبہ ’’آرٹ اینڈ ویژول اسٹڈیز‘‘بھی نئی نسل کو آرٹ سے متعارف کروانے میں اپنا کلیدی کردار اداکررہاہے۔

اسلام آباد میں 1973سے قائم شدہ’’پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس‘‘بھی فنون لطیفہ کے فروغ میں متحرک ہے۔ طلبا یہاں سے مختلف فنون میں تعلیم حاصل کرکے معاشرے میں مثبت کردار اداکررہے ہیں۔ جامعہ پشاور کا شعبہ ’’آرٹ اینڈ ڈیزائن‘‘فن کے فروغ کے لیے نئی نسل کی توجہ کامرکز ہے۔کوئٹہ میں انسٹی ٹیوٹ آف فیشن اینڈ ڈیزائننگ سے منسلک ’’کالج آف ڈیزائن‘‘ بھی علاقائی خطے کے فنون کو جدید تعلیم کے ساتھ ہم آہنگ کرکے آرٹ کے فروغ کی کوششوں میں معاون ثابت ہورہاہے۔اسی طرح پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی جامعات،کالجز اور انسٹیٹیوٹس نے آرٹ کی تعلیم کو پھیلانے میں اپنا مثبت کردار نبھا رہے ہیں۔

دنیا بھر کے فنکاروں نے اپنے فن کے ذریعے اپنے نظریات کا پرچار بھی کیا۔یہی وجہ ہے، فنون لطیفہ کے تمام شعبوں میں ہمیں آرٹسٹ مختلف انداز کے کام کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔مثال کے طور پر اگر ہم صرف مصوری کے شعبے میں ہی جائزہ لیں، تو پینٹنگز کے ابتدائی دور سے لے کر موجودہ عہد تک تقریباً کوئی 150تحریکوں نے جنم لیا اور مصوروں نے ان کے زیر اثر فن پارے تخلیق کیے۔اسی طرح دیگر شعبوں میں بھی فنکار اپنے نظریات کے تابع رہے ۔

آرٹ کا ہنر صرف تخلیقات کی حد تک محدود نہیں ،بلکہ ہماری زندگی کا دارومدار بھی اس طرزفکر پر ہے،بس بات ذرا غور کرنے کی ہے۔پیدائشی طور پر ودیعت ہونے والی صلاحیتوں کو اگر نکھار لیاجائے،زندگی میں محنت کرکے کوئی مقام حاصل ہوجائے،کسی کے دل کو اپنے اخلاق سے فتح کر لیا جائے،تو یہ بھی ایک ہنر ہے،جس سے انسان کامیابیاں سمیٹ سکتا ہے۔ہمارے ہاں ایک عجیب چلن بن گیاہے کہ خوبیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے خامیاں ڈھونڈنے پر لوگ اپنی توانائی صرف کرتے ہیں۔ خامی کوڈھونڈکر نکالنا بھی ایک منفی ہنر ہی ہے،مگر عہدحاضر میں اکثریت اس فن میں تاک ہے۔

ہمارے موضوعات بڑے عجیب ہوگئے ہیں۔ سیاست پر گفتگو فرمانے کا شغل عام ہوگیا ہے۔سیاست کے چوروں اورڈاکوئوں پر بات کرکے ہمیں کیا مل سکتا ہے، کیا اچھی بات ہو کہ ہم کوئی اچھا سا گیت سنیں،اپنے کام پر توجہ دیں تو شاید کچھ بات بن جائے۔گزرتے وقت کے ساتھ ہماری روح بدآوازوں سے آلودہ ہوتی جا رہی ہے،اگر ہم اچھے خیال، سریلے گیت،میٹھے لہجوں، شفاف مناظر اورخوشبودار لوگوں کو اپنی زندگی میں اوردل میں جگہ دیں تو شاید روح کا میل صاف ہو اور ہم انسان کی فطری زندگی جی سکیں،لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟

صرف کراچی شہر میں ہزاروں لوگ تاک کرمار دیے جاتے ہیں اوریہ سلسلہ جاری ہے،حکومت صرف بیانات اور تحقیقی کمیٹیاں بنانے تک محدود رہتی ہے۔جون ایلیا نے کہا، ’’زندگی میں خوش رہنے کے لیے بہت زیادہ بے حسی چاہیے۔‘‘ یہ بھی ایک آرٹ ہے،جس میں ہم کافی خود کفیل ہوتے جا رہے ہیں۔منفی واقعات سے چینلوں کی اسکرین اور اخبارات کے صفحات بھرے پڑے ہیں، مگر یہ غم کسی کو نہیں کیونکہ ہمارے ہاں اب غیر کے مرنے کاغم اپنا نہیں ہوتا، ہم صرف تب ہی جھنجوڑ دیے جاتے ہیں ،جب کوئی اپنا لپیٹ میں آئے۔

زندگی کوآپ جی کر بسر کریں، تو یہ ایک ہنر ہے،اگر زندگی خود سے گزرے جارہی ہے،تو اس میں کوئی کمال ہنر نہیں ہے۔زندگی کی جمالیات یہ ہیں کہ سچے اور کھرے انسان بنیں۔محنت کریں، اور خوبصورتی کو دل سے روح تک اتاریں، پھر آپ کو شام کو ڈوبتا ہوا سورج،آدھی رات کا چاند،گرم پیالی میں چائے سے اٹھتی ہوئی بھاپ،مصور کی تصویر، گائیک کا گیت،فلموں کی کہانیاں،ناولوں کے کردار، ستار کی آواز ،پنچھی کی پرواز،سب کچھ اچھا لگے گا۔زندگی سے جب پیار ہوجائے،تو آدھی جیت ہوجاتی ہے۔محبتوں کو عام کریں گے،تو نفرتوں کی آگ ٹھنڈی ہوگی اورکوئی پھر تاک کر نہیں مارا جائے گا،مگر اس کے لیے درد مند دل اور احساس ہونا شرط ہے ،ایسا نہیں سوچیں گے ،تو پھر ایک دوسرے کے لیے بدگمانی ہی پیدا ہوگی، بقول نواب مصطفی خان شیفتہ۔۔

اہلِ زمانہ دیکھتے ہیں عیب ہی کو بس

کیا فائدہ جو شیفتہ عرضِ ہنر کریں


ٹھنڈک

$
0
0

دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ یوں تو انسانوں کی بے شمار قسمیں ہیں لیکن روزگار کے حوالے سے ہم نے انھیں دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے وہ ہیں جو پیدل یا سواری پر بیٹھ کر سیدھے اپنے کام کی جگہ پر پہنچتے ہیں، گھر سے نکلے اور ایک آدھ گھنٹے میں دکان، دفتر، کارخانے پہنچ گئے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایئرکنڈیشنر بنگلے سے نکل کر ٹھنڈی ٹھار کار میں بیٹھ کر اے سی والے دفتر میں بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کی زندگی میں ٹھنڈک ہی ٹھنڈک ہوتی ہے، پہلے گروہ میں وہ لوگ ہیں جو کسی نہ کسی طرح اسکول، اسپتال، بینک یا کھیت میں پہنچ جاتے ہیں۔

ایسے لوگ دن بھر اپنے کام کی جگہ رہتے ہیں اور چھٹی کرکے گھر پہنچتے ہیں، کیا پہلی قسم کے یہ لوگ مزے میں رہتے ہیں؟ دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو دن بھر سڑکوں اور گلیوں میں اپنا کام کرتے ہیں، ایسے لوگوں کو دفتر کے پنکھے کی ٹھنڈک نہیں ملتی، ان میں گاڑیوں کے ڈرائیور اور ریڑھی والوں کے علاوہ دوائوں کی کمپنیوں کے نمایندے بھی ہوتے ہیں۔ دفتروں میں چائے پہنچانے والے یا درجن بھر بینکوں کی نگرانی کرنیوالے نائب صدور ہوتے ہیں، جن کا کام ایک دفتر میں بیٹھنا نہیں ہوتا۔ کارخانوں میں ملازمین کی فلاح سے وابستہ لیبر انسپکٹر، سوشل سکیورٹی اور اولڈ ایج والوں کو بھی در در پھرنا پڑتا ہے۔کرۂ ارض کے لوگوں کو ہم نے دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔

پہلے وہ لوگ جو تیس چالیس منٹ میں کام کی جگہ پہنچ کر دن بھر وہیں رہتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ جو گھوم پھر کر اپنا کام کرتے ہیں۔ دوسری قسم کے لوگوں کو ٹھنڈک نہیں ملتی بلکہ گرمی کی لہروں اور دھوپ کی تپش کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایشیا و افریقا میں مئی، جون کی گرمی ہو تو اﷲ کی پناہ۔ ایسے لوگوں کے لیے ٹھنڈک کے فارمولے کی یاد دہانی کے لیے آج کا کالم لکھا جا رہا ہے۔ اس سے قبل ایک اور قسم کے لوگوں پر گفتگو کرتے ہیں جو آدھا وقت دفتر میں اور آدھا وقت یہاں سے وہاں آتے جاتے رہتے ہیں۔ اب آپ کی مرضی ہے کہ آپ ان کا شمار کہاں کرتے ہیں۔وکلا کو دن کا پہلا حصہ عدالتوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ہوتا ہے۔

دن کا دوسرا حصہ دفتر میں گزرتا ہے، اس ملے جلے رجحان کا کچھ فائدہ ہوتا ہے اور کچھ نقصان، فائدہ یہ ہوتا ہے کہ چلنے پھرنے سے وکلاء عموماً اسمارٹ ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے ہم عمروں سے کم عمر نظر آتے ہیں، نقصان یہ کہ پاکستان میں سال بھر میں نو دس ماہ گرم موسم رہتا ہے، ایسے میں کالے کوٹ اور ٹائی میں ایک عدالت سے دوسری اور کبھی ڈسٹرکٹ کورٹ سے ہائی کورٹ۔ یوں لگتا ہے کہ اس پیشے میں کیوں آئے۔ ایسے میں کبھی دفتروں کے ٹھنڈے کمروں یا اے سی والے بینک میں جانا ہوتا ہے تو عملے کی خوش نصیبی پر ناز کرتے ہیں۔ کیا ٹھنڈک ہے جس سے ہم محروم ہیں۔ آج کا کالم ایک ایسے کام کی یاد دہانی ہے جس سے کچھ حد تک جسم کا درجہ حرارت نارمل رہ سکتا ہے، ایسے موقع پر جب ہم لوگوں کی روزگار کے لیے جدوجہد کی بجا آوری پر گفتگو کررہے ہیں تو ہمیں ایک بات نہیں بھولنی چاہیے کہ انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا۔

ایسے دوسروں کے معمولات پسند آتے ہیں اور اپنی مشکلات کا رونا روتا رہتا ہے۔ ہم جن دوستوں کو پنکھے اور ایئرکنڈیشنڈ میں دن بھر کام کرتے حسرت سے دیکھتے ہیں تو ایسے لوگوں کو دوسروں کی آنیاں جانیاں اچھی لگتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح سے وکلا کی اچھی خاصی واک ہوجاتی ہے اور ہماری توند نکل آتی ہے ایک جگہ بیٹھ بیٹھ کر۔ دفتروں میں بیٹھنے والوں کو باہر گھومنے والوں کی چستی اچھی لگتی ہے اور وہ اپنی سستی پر کڑھتے ہیں۔ دوسرے گروہ کو اپنی بھاگ دوڑ اچھی نہیں لگتی اور وہ پنکھے اور اے سی کی ٹھنڈک کی تمنا کرتے ہیں۔ٹھنڈک حاصل کرنے اور سستی دور کرنے کا علاج کیا ہے؟ دونوں قسم کے لوگ ایک ہی کام کرکے اپنا مسئلہ حل کرسکتے ہیں، ایئرکنڈیشنڈ، فرج اور ڈیپ فریزر والے ٹھنڈک کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اگر اتنا عرصہ لگاتار مشین چلتی رہے گی تو ہیٹ اپ کرجائے گی۔

جنریٹر اور ٹی وی کے کارخانے والے کہتے ہیں کہ اتنا وقت استعمال کے بعد یہ احتیاط کی جائے تاکہ آپ کا قیمتی سامان طویل عرصے تک محفوظ رہے۔ الیکٹرک انجینئر زیادہ لوڈ کے سبب لگنے والی آگ کا ذمے دار صارفین کو قرار دیتے ہیں۔ گویا ہر مشین کا بنانے والا جانتا ہے کہ اتنے عرصے کام کے بعد اتنے وقت کے لیے مشین کو آرام کی ضرورت ہے۔ گاڑی میں اگر تیل پانی کا خیال نہ رکھا جائے تو اکثر اردو کا سفر انگریزی کا سفر بن جاتا ہے۔ یوں سمجھیں کہ یہ کوتاہی رنگ میں بھنگ ڈال سکتی ہے۔ اب دو قسم کے دنیا بھر کے لوگوں کو پرسکون رکھنے کی ترکیب کیا ہے؟ راحت پہنچانے کا کیا نسخہ تجویز کیا گیا ہے۔ کاہلی دور کرنے کا کیا ضابطہ ہے؟دوپہر بارہ بجے سے ہم ان لوگوں پر نظر دوڑا رہے ہیں جن کے لیے کالم لکھا جارہا ہے۔ جب ہم نے دنیا بھر کے لوگوں کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے تو اب کون بچا ہے۔

یہ وہ وقت ہوتا ہے جب غم روزگار میں مبتلا شخص تین چار گھنٹے کام کرچکا ہوتا ہے، ہم ان مارکیٹوں کی بات نہیں کررہے جو بارہ بجے کھلتی ہیں۔ تھوڑی دیر اور گزرتی ہے تو گھر سے نکلے شخص کو میدان عمل میں آئے دو سو سے ڈھائی سو منٹ گزرچکے ہوتے ہیں۔ اب اسے بھوک کے ساتھ تھکن کا احساس ہوتا ہے۔ اس میں ہمارے کالم کے دونوں ہیروز شامل ہیں۔ سیدھے کام کی جگہ پہنچنے والے اور در در گھومنے والے۔ پوری دنیا کے دفتروں اور کارخانوں میں عموماً ایک بجے لنچ ٹائم ہوتا ہے۔ گویا ہر قسم کا خیال رکھا جاتاہے۔ یہ خیال مالکان و سرمایہ دار رکھتے ہیں کہ استعدادی قوت میں اضافے سے دولت میں اضافہ ہو۔ چھوٹے ذہن کے خودغرض اب تھکن دور کرنے اور فریش ہونے کا کیا فارمولا ہے؟ آیئے جس عظیم ہستی نے انسانی مشین تخلیق کی ہے اس کی ہدایات کو سمجھتے ہیں۔

ایک شخص اونچائی سے یا لائوڈ اسپیکر پر آواز دے کر فلاح کی جانب بلاتا ہے۔ وضو کا عمل در در پھرنے والے کی تھکن دور کردیتا ہے۔ ہاتھ منہ، کان، ناک، گردن اور پائوں پر پانی کا لگنا اس کی تین چار گھنٹے کی اکتاہٹ کو دور کرکے تروتازہ اور صحت بخش کردیتا ہے، جس شخص کا جسم سارا دن دفتر میں بیٹھ کر اکڑ سا گیا ہے اس کے لیے رکوع و سجود شادابی کا سبب بنتے ہیں۔ صلوٰۃ اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے اور اس کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔ لاکھوں، کروڑوں فرشتے رب کی کبریائی بیان کرتے ہیں۔ حضرت انسان کی عبادات نہ اس کے مقام میں اضافے کا سبب ہیں اور ادائیگی نہ کرنے سے رب کائنات کے مرتبے میں کمی نہیں کی جا سکتی۔

یہ سب کچھ خالق نے اپنی مخلوق کے فائدے کے لیے تجویز کیا ہے۔ ہڈیوں میں لچک اور نظام ہضم کی بہتری کے علاوہ سیکڑوں فوائد اﷲ تعالیٰ نے رکھے ہیں، پھر تین چار گھنٹے کے کام کے بعد عصر اور اس کے ڈیڑھ گھنٹے بعد مغرب اور سونے سے پہلے عشا ہمارے اپنے فائدے کے لیے ہے، جو سونا اور اٹھنا نماز فجر کی ادائیگی کے علاوہ صحت کی بہتری کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ہمارا کوئی عمل اس کی شان میں اضافہ نہیں کرسکتا۔ ہماری بے نیازیاں اس اصلی ’’حمد‘‘ کی شان نہیں گھٹا سکتیں۔ یہ تو ہمارے اپنے روحانی و جسمانی فائدے کے لیے ہے، نماز جو معراج کا تحفہ ہے، قبر کی روشنی ہے، نجات کا راستہ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ محسن انسانیتؐ کی آنکھوں کی ٹھنڈک۔

جدید بلوچ سیاست اور بی ایس او

$
0
0

قبائلی سماج کی اقدار بھی عمومی سماجی اقدار سے مختلف ہوتی ہیں،اب وہ آئیڈیل قبائلی سماج تو خواب ہوئے جن کی بنیاد اصول ومساوات پر قائم ہو اس لیے یہ واضح رہے کہ ہم اس قبائلی سماج کی بات کر رہے ہیں جس میں ہم سانس لیتے ہیں جہاں سروائیول آف فٹسٹس کا قانون لاگو ہوتا ہے، جہاں زندگی اور اس کی تمام مراعات پر یا تو سردارکا حق ہے یا ان کا جن کی پشت پر سردار کا ہاتھ ہے۔ اس سماج کا ہر فرد اپنے تئیں سردار و نواب ہے جس کی ہر فکر ، ہر عمل حرفِ آخر ہے۔

اس سے آگے سوچنا ، اس پر سوال اٹھانا، حتیٰ کہ اس کی طرح نہ سوچنا بھی گناہِ کبیرہ ہے، غداری ہے ۔ اس لیے ایسے میں اگر کوئی سر پھرا آگے بڑھ کر نہ صرف سوال اٹھائے بلکہ اس سارے ڈھانچے کی فکری بنیادوں کو ہلا ڈالے ،جس کو سماج کی اکثریت برسوں تک اپنا نجات دہندہ سمجھتی ہو، تو اورکچھ نہ سہی تو اس کی ایمانداری اور حوصلے کی داد تو ضرور دینی چاہیے۔ آج سے چند برس پیشتربلوچستان میں عبدالرحیم ظفر نے ’’سنگ ِ لرزاں؛ بی ایس او تشکیل سے تقسیم تک‘‘ لکھ کر ایسی ہی جرأتِ رندانہ کا ثبوت دیا۔

جدید بلوچ سیاست کی تاریخ میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا وہی مقام ہے جوعبدالعزیز کرد اور یوسف عزیز کی قایم کردہ اولین تنظیم انجمن اتحادِ بلوچاں کا یا پہلی باضابطہ سیاسی جماعت قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کا۔بلوچ سیاست میں نئے خون کا آغاز ہی اسی سے نہیں ہوتا بلکہ آج تک نوابوں اور سرداروں کی پارٹیوں کو اقتدار تک پہنچانے والا یہی جوان خون ہے ، جو نعرے مار مار کر، وال چاکنگ کر کر کے، اپنے کندھوں پہ اٹھا اٹھاکر اپنے قائدین کو اقتدار کے ایوان تک پہنچاتے رہے ہیں اورجہاں ان کے قائدین ان کی جوانیوں اور خوابوں کو دفن کرتے رہے ہیں۔

یہ خواب شکنی اس قدر اور اتنی بار ہوئی کہ پھر کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ وہاں سے اٹھے اور آنیوالوں کو اتنا ہی بتا سکے کہ اس راہ میں کانٹے کتنے ہیں،کہاں کتنی کھائیاں ہیں اور کہاں ،کس مقام پہ رہبر ،رہزن کا روپ دھار لیتا ہے۔ بی ایس او کی تشکیل اور پھر اس کی تقسیم کے مرکزی کرداروں میں سے ایک اہم کردار، عبدالرحیم ظفر نے پہلی بار اس گواہی کوتحریری شکل دے کر بلوچستان کے سیاسی کارکنوں کے لیے کئی فکری دَر وَا کر دیے۔

ہندوستان کی تقسیم والے برس ،1947ء میں تحصیل جیونی کے ایک چھوٹے سے گائوں میں جنمے، رحیم ظفر بی ایس او کی چوتھی کابینہ 1965-66ء میں سیکریٹری جنرل کے عہدے پر متمکن رہے۔یہ وہی دور تھا جب ملک بھر میں اور بالخصوص بلوچستان میں نیپ کا طوطی بولتا تھا۔ بلوچستان کے سرکردہ سیاسی رہنما، میر بزنجو، نواب مری، سردار مینگل، نواب بگٹی، میر گل خان، ہم فکر و ہم راہ تھے۔ بلوچستان میں ان کی پوجا کی جاتی تھی۔ قوم انھیں نجات دہندہ سمجھتی تھی۔ بیشتر سیاسی و نظریاتی اختلافات کے باوجود بلوچستان کی سیاست میں نیپ اور مذکورہ بالا شخصیات کے کردار و اہمیت سے کبھی کسی سیاسی فرد کو انکار نہیں رہا۔

یہ تو ابھی چند برس قبل نواب مری کی جانب سے ایک انٹرویو میں نیپ میں شمولیت کو اپنی سیاسی غلطی قرار دینے کے بعد بلوچ جوانوں کی جانب سے نیپ اور بزنجو کو گالیاں دینے کا ’باضابطہ سلسلہ‘ شروع ہوا ،ورنہ بلوچستان کا پڑھا لکھا طبقہ آج بھی اس جماعت اور اس قائد کو بصدِ احترام یاد کرتا ہے۔بھلا اس حقیقت سے کس کو مفر ہے کہ بشمول نواب مری و بگٹی و مینگل کے کون تھا جو میر بزنجو کی شخصیت کے سحر سے محفوظ رہا ہو۔ نیپ میں شمولیت کو سیاسی غلطی قرار دینے والے نواب مری اب بھی انھیں اپنا ’استاد‘ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔رحیم ظفر اور ان کے ساتھی بھی اسی سحر انگیز شخصیت کی سیاسی تربیت کا حصہ رہے لیکن ان کے تمام تر سحر کے باوجود انھوں نے اندھی تقلید سے انکار کر دیا۔

تمام تر احترام کے باوجود انھوں نے محض قائد کے فیصلے کے تحت اپنے سیاسی اصولوں کی قربانی سے انکار کر دیا ، اور ان کے بقول یہی بی ایس او کی تقسیم کا بنیادی سبب تھا۔ اس اختلاف کاایک بنیادی سبب قائدین کا رویہ بھی تھا جنہوں نے پہلے تو بلوچ نوجوانوں کو سہانے خواب دکھائے اور پھر انھیں وال چاکنگ پہ لگا کر ووٹ کے حصول کی دوڑ لگا دی۔ رحیم ظفر کے یہ فقرے بلاشبہ ایک مخلص سیاسی کارکن کے خوابوں کی نوحہ گری کا اعلیٰ نمونہ ہیں،جو انھوں نے اپنے قائدین سے سخت محبت کا اظہار کرتے ہوئے لکھے ،کہ :’’انھوں نے وقت سے پہلے جذبہ جہاد کی چنگاریوں کو دہکتا ہوا شعلہ بنا دیا تھا ۔ان شعلوں کی روشنی میں ان کے چہرے دیوتائوں کی طرح دمکتے چمکتے پاک و شفاف نظر آتے تھے، ان کے پیروکار اور ماننے والے یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان دیوتائوں کی مجبوریاں بھی ہو سکتی ہیں یا وہ کوئی غلطی بھی کر سکتے ہیں‘‘ (ص،87)

وقت کے ساتھ دیوتا بدلتے رہے،لیکن ان کا عمل وہی رہا۔ یوں بلوچ طلبا تنظیم تقسیم در تقسیم کا شکار ہوتی رہی۔ اس تنظیم کا احیا سن دوہزار کے قریب ایک بار پھر اُس وقت ہوا جب اللہ نذر نامی نوجوان نے تنظیم کو پارلیمانی سیاسی تنظیموں کے اثر سے الگ کرنے کے لیے ’آزاد‘کے نام سے ایک الگ دھڑا تشکیل دے دیا۔یہ نوجوان اور اس کے ساتھی نہایت پڑھے لکھے تھے، ذہین تھے، علم دوست تھے۔ سو،بلوچ نوجوان جوق در جوق ان کے گرد جمع ہونے لگے۔بی ایس او کا یہ دھڑا بہت تیزی سے بلوچ طلبہ کا نمایندہ بن کر ابھرا۔ دو ہزار چار میں ڈاکٹر اللہ نذر لاپتہ ہوئے تو ان کی تنظیم کے وائس چیئرمین نے ان کی بازیابی کے لیے کراچی پریس کلب کے سامنے تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کر دی۔ یہ بلوچ مزاحمتی تحریک کے ابتدائی ایام تھے۔ اس بھوک احتجاج کے نتیجے میں اللہ نذر اور ان کے ساتھی منظرعام پہ لائے گئے۔

معمولی نوعیت کے مقدمات کے اندراج کے بعد شخصی ضمانت پہ رہا کر دیے گئے۔بعدازاں اللہ نذر نے مزاحمتی تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ جوائن کر لی۔بی ایس او کا ’آزاد‘ نامی دھڑا ان کی فکر کے زیر اثر مزاحمتی فکر سے جڑا رہا۔ اس لیے اس سے جڑے طلبا پر عتاب نازل ہوتا رہا۔ پہلے پہل ان کے کارکن اغوا ہوئے۔ پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں ملنے لگیں۔دوہزار آٹھ میں دو برس کے لیے منتخب ہونے والی کابینہ حالات کی سنگینی کے باعث چار برس تک اپنا کونسل سیشن تک منعقد نہ کر سکی ۔اسی دوران تنظیم کے مرکزی وائس چیئرمین ذاکر مجید کو لاپتا کر دیا گیا ۔ جس کی رہائی کے لیے اس کی جوان بہن فرزانہ مجید دو برسوں سے احتجاج پہ ہے، اور لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے ہونے والے ماما قدیر کے تاریخی لانگ مارچ میں بھی شامل رہی ۔ لیکن اس کے باوجود تنظیم اپنی حکمت عملی میں کسی قسم کی تبدیلی کی روادار نہ ہوئی۔

کسی زمانے میں بی ایس او کی فکری لائن متعین کرنے والے دانش ور طبقے کو نوجوانوں نے حاشیے پر لا پھینکا۔جو ایک آدھ اساتذہ آگے آئے، انھوں نے بھی نوجوانوں کی فکری رہنمائی کرنے کی بجائے ان کی رہنمائی میں چلنا شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ کہ نہ تو وہ اساتذہ رہے، نہ وہ کارکن باقی بچے۔کیمو فلاج کے باوجود تنظیم کی مرکزی قیادت نشانہ بنائی جا چکی۔مرکزی چیئرمین کی بازیابی کے لیے کراچی پریس کلب کے سامنے جاری بھوک ہڑتالی کیمپ کو ایک ماہ ہونے کو آیا۔بھوک ہڑتال پہ بیٹھے نوجوان کی جان جاتی نظر آتی ہے۔بلوچ طلبا کو خون کے اس دریا میں دھکیلنے والے ایک طرف ہو چکے۔تنظیم کے فیصلے اب ناتجربہ کار نوجوان قیادت کے ہاتھ میں ہیں۔جس کا اخلاص تو شبے سے بالاتر سہی، مگر یہ خلوص سیاست میں کچے پن کی گواہی بھی دے رہا ہے۔

بلوچ نوجوانوں کو وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے ازسر نو تنظیم سازی پہ غور کرنا ہوگا۔تنظیمی سطح پرجذبات کی رو میں بہہ کر کیے گئے فیصلوں کی پشیمانی عمر بھر کا روگ ہی نہیں بنتی، پورے سماج کی چولیں بھی ہلا دیتی ہے، اور اس کا نتیجہ بی ایس او کی تشکیل سے تقسیم تک کی کہانی بیان کرنے والے عمر رسیدہ ،سرد و گرم چشیدہ رحیم ظفر کے اس الم ناک تجربے کی صورت میں سامنے آتا ہے کہ،’’ اب سوائے زخم چاٹنے اور بے کار درخت (گز) کو اس امید کے ساتھ کہ شاید اس میں شہد کا چھتہ ہو، منہ مارنے کے اور کوئی چارہ نہیں۔‘‘

پانی کا عالمی بحران…پاکستان کی صورتحال

$
0
0

کرہ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور اس کے نتیجے میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کے بھیانک اور سنگین خطرات کا براہ راست تعلق کرہ ارض پر موجود زندگی کے ہر شعبے سے ہے جن سے نمٹنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی جہاں زندگی کے مختلف شعبوں پر منفی اثرات مرتب کررہی ہے ، وہیں زندگی کو رواں دواں رکھنے والی سب سے اہم ترین شے یعنی پانی اور اس کے ذخائر پر بھی شدید اثرات مرتب کررہی ہے۔

دنیا کے تمام خطوں میں آبی وسائل اور تازہ پانی کے نظام پر اس کے منفی اثرات کی وجہ سے دنیا بھر میں صاف پانی کے ذخائر میں تیزی سے کمی ہوتی جارہی ہے اور یہ امر عالمی سطح پر انتہائی تشویش کا باعث بنتا جارہا ہے کیونکہ آبی قلت دنیاکی اقتصادی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کے ساتھ ساتھ متعدد ملکوں میں علاقائی تنازعات کا باعث بھی بن رہی ہے۔ 50 ملکوں سے تعلق رکھنے والے 200 سائنسدانوں نے آج سے پندرہ سال پہلے اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے لیے مرتب کی جانے والی ایک رپورٹ میں دنیا کے 2 بڑے مسائل میں سے ایک پانی کو قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ پانی کی کمیابی تیسری عالمی جنگ کا موجب بن سکتی ہے۔

عالمی تنظیم برائے خوراک وزراعت (FAO) کے ایک اندازے کے مطابق 2025 تک ایک ارب 80کروڑ لوگ ان ملکوں یا ان علاقوں میں زندگی گزار رہے ہونگے جہاں پانی مکمل طور پر نایاب ہوگا۔ اقوام متحدہ کے ایک اندازے کے مطابق ایک عشرے کے دوران دنیا بھر کے شہروں میں بسنے والے ایسے انسانوں کی تعداد 114 ملین بڑھ چکی ہے جن کے گھروں میں یا قریب میں پینے کا صاف پانی موجود نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کرہ ارض پر موجود 7 ارب انسانوں کو روزانہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے جن کی تعداد 2050 تک 9ارب ہوجائے گی۔ واضح رہے کہ ہر انسان کو روزانہ 2 سے 4 لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے جس میں خوراک میں موجود پانی بھی شامل ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موسم کے ساتھ توانائی‘ زراعت اور پانی کا تعلق انتہائی اہم ہے جیسے جیسے اس تعلق کے درمیان کمی آتی جاتی ہے اس کی مناسبت سے توانائی‘زراعت اور پانی کا تحفظ خطرے سے دوچار ہوجاتا ہے۔ درجہ حرارت میں ہونیوالے اضافے اور اس کے نتیجے میں آب و ہوا اور موسموں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے دنیا کو بھیانک سیلابوں‘ خشک سالیوں‘ سطح سمندر میں اضافے اور صاف پانی کی شدید کمی سے دوچارکرنا شروع کردیا ہے جن کے مظاہر عالمی افق پر خصوصاً غریب اور پسماندہ ملکوں میں نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں سرفہرست ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہورہے ہیں۔

دنیا بھر کی حکومتیں اس تبدیلی سے شدید متاثر ہونے والے شعبوں میں جنگی بنیادوں پر حکمت عملیاں ترتیب دے رہی ہیں اور پانی کی بچت کے حوالے سے مختلف آگہی مہم چلارہی ہیں لیکن ہمارے ملک میں پانی کے تیزی سے بڑھتے ہوئے بحران پر ہر سمت بے حسی اور خاموشی طاری ہے۔ پاکستان 1992 سے دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے جو ’’آبی دبائو‘‘ کا حامل ملک کہلاتے ہیں۔ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کے عام شہری کو تو چھوڑ دیں لیکن انتہائی پڑھے لکھے افراد بھی اس حقیقت سے ناواقف ہیں اور آج صورتحال اس جگہ پہنچ چکی ہے کہ ہمارا شمار بہت جلد ان ملکوں میں ہونے والا ہے جو ’’آبی قلت‘‘ کے شکار ہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سالانہ مالیاتی رپورٹ 2012ء میں اس امر کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ملک میں پانی کی کمی شدت اختیار کرچکی ہے جس کے لیے نئے آبی ذخائر کی تعمیر بہت ضروری ہے ورنہ مستقبل میں آبی صورتحال مزید خراب ہونے کا امکان موجود ہے۔ یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہم سب کچھ تباہ ہونے کے بعد سوچنے کا عمل شروع کرتے ہیں۔ اس وقت ملک کی 18 فیصد آبادی کو صاف پانی کی سہولت میسر ہے تو دوسری جانب ملک کی غالب اکثریت کو جو پانی مل رہا ہے وہ بھی WHO کے مقرر کردہ معیارات کے مطابق نہیں ہے۔ آج ملک میں پانی کی فی کس دستیابی 1000 کیوبک میٹر ہے۔جو 2025 تک 800 کیوبک میٹر رہ جائے گی۔ پانی کے حوالے سے پاکستان لیبیا‘ الجزائر اور ایتھوپیا جیسے افریقی ممالک سے بھی پیچھے ہے۔

پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ آبی دبائو کے شکار ملکوں میں سے ایک ہے جب کہ ایسے ہی موسموں کے حامل ملکوں کے لیے تجویز کردہ پانی کا ذخیرہ 1000 دن کا ہے جب کہ پاکستان میں اس ذخیرہ کے گنجائش صرف 30 دن کی ہے۔ یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس (USIP) کی ایک تحقیق‘‘ میں بتایا گیا ہے کہ ’’پاکستان میں آبی دستیابی اور معیار میں کمی‘ غلط اور زیادہ استعمال کی وجہ سے آبی دستیابی اور آبی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے جب کہ مجموعی سطح پر پاکستان ماحولیاتی عدم تحفظ کا سامنا کررہا ہے۔‘‘ پانی کی قلت ملک کی معیشت کے لیے مستقبل میں سب سے بڑا خطرہ بن سکتی ہے اور آبی عدم تحفظ ایک خراب صورتحال کو بد ترین درجے تک پہنچاسکتا ہے۔

اس طرح پاک امریکا اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے سلسلے میں پانی سے متعلق امور پر بات چیت کے لیے قائم ورکنگ گروپ کی سربراہ ماریہ اوٹیرو نے پانی کی دستیابی میں ہونے والی کمی کو انتہائی سنگین مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے سے پاکستان کو ہنگامی بنیادوں پر نمٹنا ہوگا کیونکہ یہ پاکستان کو زرعی‘ معاشی اور یہاں تک کہ سیاسی بحران میں مبتلا کرسکتاہے۔ ہم اپنے صاف پانیوں کے قیمتی ذخائر کو گٹر کے طور پر استعمال کررہے ہیں اور اپنا تمام گھریلو ‘ زرعی اور صنعتی کوڑا اور فضلہ ان میں بلا روک ٹوک بہادیتے ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی کے قانون کے مطابق تمام صنعتی ادارے اس بات کے پابند ہیں کہ وہ اپنے زہریلے صنعتی پانی کو اخراج سے قبل صاف کریں لیکن صنعتی یونٹوں کی اکثریت اپنے زہریلے فضلے کو جس طرح صاف پانی میں شامل کررہی ہے۔

اس کی بد ترین مثالیں پانی کے سب سے بڑے ذخیرے کینجھر جھیل اور منچھر جھیلیں ہیں۔ دنیا کے متعدد ممالک اپنے پانیوں کو محفوظ کرنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں مثال کے طور پر چین 95 بڑے ڈیم تعمیر کررہا ہے جو 200فٹ یا اس سے زیادہ بلندی پر ہیں‘ بھارت 10بڑے ڈیموں سمیت سیکڑوںچھوٹے ذخائر بنارہا ہے جب کہ ایران 48‘ ترکی 51 اور جاپان 40 بڑے ڈیموں کی تعمیر میں مصروف ہے۔ ہمارے ملک میں تعمیر ہونیوالے بڑے یا چھوٹے ذخیرہ آب کے ساتھ کوئی نہ کوئی تنازع ‘ کوئی کرپشن کا معاملہ یا کوئی سیاسی تنازع جڑ جاتا ہے جس کی سزا ملک کے عوام بھگت رہے ہیں۔

ہمارے ماہرین پانی جیسی بنیادی ضرورت کے لیے آج تک کوئی متفقہ لائحہ عمل کسی بھی حکومت کے سامنے نہیں رکھ سکے ہیں اور پانی جیسی انسانی ضرورت کوسیاست زدہ کردیا ہے۔ عوامی سطح پر پانی کے بے پناہ ضیاع اور غلط استعمال کو روکنے کے لیے ہماری کوئی مذہبی یا سیاسی جماعت آواز نہیں اٹھاتی‘ نہ ہی سول سوسائٹی اس مسئلے کو قابل توجہ گردانتی ہے رہ گئیں وہ تنظیمیں اور فورم جو اس حوالے سے بڑی بڑی امداد وصول کرتی ہیں ان کے شعور و آگہی کی سرگرمیوں کی جگہ ملک کے پنج ستارہ ہوٹل ہوتے ہیں جہاں وہ بوتلوں میں محفوظ صاف و شفاف پانی کو استعمال کرتے ہوئے پانی کے مسائل زیر بحث لاتے ہیں۔

ہمیں ملک کے عوام کو پانی کے بارے میں مکمل حقائق سے آگاہ کرنا ہوگا ان کو بتانا ہوگا کہ پانی کے حوالے سے ہماری صورتحال بد ترین ہے۔ حکومتی سرپرستی میں ملک کی چاروں اکائیوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک صفحہ پر لانا ہوگا اور پانی کے حوالے سے ایک متفقہ عوامی پالیسی پر عملدرآمد بھی کرانا ہوگا۔ ذرایع ابلاغ کے ذریعے پانی کی بچت کی بھرپور مہم چلانی ہوگی۔وقت گزرتا جارہا ہے ایسا نہ ہو کہ پانی سروں پر سے گزرنے کے لیے نہ رہے اور پیروں کے نیچے بھی نہ بچے۔

کیسی امید

$
0
0

’’نواز شریف نے حریت پسند کشمیری لیڈروں سے ملاقات نہ کرکے کشمیر کے کاز کو نقصان پہنچایا‘‘

’’نواز شریف کے دہلی جانے سے برف پگھلی ہے دو طرفہ تعلقات میں بہتری آئے گی‘‘

’’نواز شریف نے دہلی جاکر ملک کی خودداری کا سودا کیا‘‘

’’مودی نے پاکستان کے وزیر اعظم کو خاص طور پر نہیں سارک ممالک کو مدعو کیا ہے‘‘

’’مودی کبھی مسلمانوں کے حامی نہیں ہوسکتے‘‘

’’مودی کی حلف برداری کی تقریب میں حامد کرزئی کی پاکستان کے خلاف اشتعال انگیزی‘‘

یہ ساری وہ خبریں یا خیالات ہیں جو نریندر مودی کے دعوت نامے کے بعد سے شروع ہوئے اور نواز شریف کے دہلی جانے تک جاری رہے اور اب مزید تیزی کا رجحان پایا جاتا ہے کیونکہ وزیر اعظم صاحب نے جس بات کا حوالہ دے کر کشمیری رہنماؤں سے ملاقات سے جو انکار کیا ہے اس پر اعتراض کیا جا رہا ہے ،دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی سے کسی کو انکار نہیں ہے ،خطے میں امن قائم رکھنے کے لیے دو طرفہ تعلقات کی بحالی ضروری ہے مگر یکطرفہ طور پر نہیں کہ صرف ہم ہی دوستی کی چاہ کر رہے ہیں اور فریق ثانی کو پرواہ ہی نہیں کیونکہ ہمارا پڑوسی ملک بھارت ہر وقت پاکستان کو نقصان پہچانے کی کوششوں میں ہی لگا رہتا ہے۔

ممبئی حملوں کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف کیا کیا زہر نہیں اگلا، بھارت روز اول سے ہی پاکستان کی سالمیت کا دشمن ہے بنگلہ دیش بننے کے بعد اندرا گاندھی کا یہ کہنا کہ آج ہم نے ہزار سالہ پرانا بدلہ لے لیا اس بات کا غماز ہے کہ بھارت نے پاکستان کو ایک علیحدہ آزاد ریاست تسلیم نہیں کیا بلکہ بھارتی لیڈر اور عوام اس کو ابھی تک اپنا اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں اور اسی لیے بھارت پاکستان کے خلاف مسلسل ریشہ دوانیاں کر رہا ہے۔

ہم ہر وقت امن کی خواہش کے گیت گاتے رہتے ہیں اور بھارت طبل جنگ بجاتا رہتا ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ بھارتی حکمرانوں نے ثقافت کے نام پر بھی پاکستانی چینلز کو دکھانے کی اجازت نہیں دی ہے ہمارے ہاں مگر معاملہ برعکس ہے ہم وعدے تو حب الوطنی کے کرتے ہیں ہم زندہ قوم ہیں نعرے بھی لگاتے ہیں مگر بھارتی فلمیں، ڈرامے دیکھے بغیر ہمارا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ 75 فی صد بھارتی ہندو عوام بھی پاکستانی عوام سے نفرت کرتے ہیں اور بھارتی لیڈر اس نفرت کو ختم کرنے کی بجائے نفرت انگیز تقاریر کرکے ان جذبات کو بڑھاوا دیتے ہیں۔

نریندر مودی یہ الیکشن پاکستان مخالف پروپیگنڈہ اور بھارتی مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے جیتا جس پر انھیں کوئی شرمندگی بھی نہیں ہے ۔ بھارت سے دوستی کی بات والوں کو اس بات پر بھی توجہ دینا ہوگی کہ کس طرح بھارتی میڈیا پاکستان کے خلاف پڑا رہا اور نریندر مودی نے وزیر اعظم کو 5 نکاتی ایجنڈہ یا فرمائشی پروگرام تھمادیا مگر ہم تو پانی کے ایشو پر بھی ان کے آگے اپنا مدعا نہ رکھ سکے ۔بھارت پاکستان کو صحرا بنانے پر تلا بیٹھا ہے مگر ہم بھارت کی ریشہ دوانیوں کو عالمی میڈیا کے سامنے نہیں لا رہے۔ سندھ طاس معاہدے کی کھلے عام خلاف ورزی ہو رہی ہے مگر ہمارے کانوں پر کوئی جوں نہیں رینگ رہی جب کہ بھارت کوئی موقع ضایع نہیں کرتا کسی بھی مرحلے پر پاکستان کو نیچا دکھانے کے جنگی جنون میں مبتلا بھارت لائن آف کنٹرول پر گاہے بہ گاہے بلا اشتعال فائرنگ کرتا رہتا ہے۔

متعدد بار قیمتی جانیں ضایع ہوچکی ہیں مگر ہمارے ہاں وہی پرانا راگ بج بج کر گھس گیا ہے مگر ہم بجائے جا رہے ہیں۔ ہمارے حکمران اس طرف توجہ دینے کے بجائے کہہ رہے ہیں کہ سرمایہ دار سرمایہ کاری کریں تجارتی روابط بڑھائیں۔اس وقت آلو کی قیمت 60 سے 80 تک جا پہنچی، ٹماٹر پیاز عوام کے لیے مہنگے ہو رہے ہیں کیونکہ اس کی کھپت بھارت کو جو فراہم کی جا رہی ہے۔ تجارتی روابط بھی بڑھیں دوستانہ ماحول بھی ہو مگر برابری کے ساتھ اس لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان ہر قسم کے تصفیہ طلب مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ سب اچھا ہونے کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے اپنا موقف دنیا کے سامنے واضح انداز میں پیش کرنا پڑتا ہے۔

اس وقت پاکستان کو موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے کیونکہ بھارت اور افغانستان میں جس طرح پاکستان مخالف حکومتوں کا قیام عمل میں آیا ہے ایسا نہ ہو اگر ہم اسی طرح کا طرز عمل اپناتے رہے تو خدانخواستہ پاکستان ان دونوں ممالک کے درمیان سینڈوچ نہ بن جائے اس لیے ہمیں چاہیے کہ پاکستان کو پرامن بنانے کے ساتھ ساتھ دشمنوں کے عزائم کو سمجھا جائے ، ہر ہاتھ ملانے والا دوست نہیں ہوتا، اس لیے خود سے دشمنوں کے خلاف پیش قدمی نہ کریں مگر کوئی ہمیں ختم کرنا چاہے تو اپنا طرز عمل ایسا رکھیں کہ دشمن کو منہ کی کھانا پڑے۔

کل کے اخبار میں ایک خبر پڑھ کر دھچکا سا لگا کہ بھارتی انتہا پسندوں نے فجر کی اذان پر پابندی لگانے کا مطالبہ کردیا ہے۔ ایسی صورت حال میں ہم کیسے امید رکھ سکتے ہیں کہ یہ موجودہ بھارتی حکومت مسلمانوں اور بالخصوص پاکستان کے ساتھ دوستانہ روابط رکھے گی ان کا تو کام ہی ہے بغل میں چھری اور منہ میں رام رام۔کسی کو یقین نہ آئے تو وہ نریندر مودی کی تازہ بیان بازی پر غور فرمائیں جس میں انھوں نے دعوی کیا ہے کہ دنیا سے منوائیں گے بھارت سب سے بڑی طاقت ہے، کیونکہ اپنی طاقت کا احساس دلا کر ہی دنیا میں بھارت کو اس کا جائز مقام دلایا جاسکتا ہے۔ع

آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

حسن مہدی سید، ایک گمنام شاعر

$
0
0

انسان اپنے جذبات وخیالات یا احساسات مصوری یا شاعری کے ذریعے احسن طریقے سے دنیا کے سامنے لاسکتا ہے، بس ان میں وہ جولانی طبع ہونی چاہیے جو ان کے کسی بھی فن کو جو من جملہ فن لطیفہ ہی کے زمرے میں آتا ہو بدرجہ اتم موجود ہونی چاہیے۔

پاکستان کے ہر صوبے میں اردو کے قابل قدر شعراء پائے جاتے ہیں، ان ہی میں سے ایک نام حسن مہدی سید کا بھی ہے جو صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کا پروقار مظاہرہ کرتے آئے ہیں مگر کیا کہیے کہ اس مظاہرے میں نہ نمائش ہے نہ خودفریبی بلکہ بقول شاعر ’’چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے‘‘ کے مصداق اپنے فکروفن کے آتش کدے میں خاموشی سے جھلستے ہوئے اپنی تخلیقات کو وجود میں لاتے اور لکھ کر بھول جاتے ہیں لیکن یہ بڑے پتے کی بات ہے کہ وہ شاعری کو دوست کی طرح برتنے والے ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں حسن مہدی سید کے بارے میں تفصیلاً کچھ کہوں ان کے بارے میں کچھ باتیں ہوجائیں۔

حسن مہدی سید نے 1963 میں کراچی کے ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے گھرانے میں آنکھ کھولی، ان کے والد سید اشفاق حسین کی ناگہانی وفات سے خاندان کا سارا بوجھ آپ کے بڑے بھائی سید آفاق ناصر پر آگیا جنھوں نے اپنا فرض سمجھتے ہوئے اپنے والد کے گھر کی باگ ڈور سنبھالی اور بہت احسن طریقے سے سنبھالی، حسن مہدی سید جو سید صاحب کے نام سے مشہور ہیں اپنے زمانہ طالب علمی ہی سے شعرو شاعری کے میدان میں طبع آزمائی کرتے آئے ہیں۔

غالباً 1980 کے بعد ہی سے مشق سخن جاری ہے، اور یہ رقم طراز بخوبی ان سے آگاہ ہے، حسن مہدی سید کا اصل میدان شاعری ہی ہے گو کہ وہ آسمان شاعری کا کوئی واضح چمکدار ستارہ نہیں ہیں لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ان کے فن کو دوربین لگا کر دیکھا جائے ان کی کئی نظمیں اور متعدد غزلیں کئی ادبی رسائل میں چھپ چکی ہیں اور قارئین سے خوب داد بھی سمیٹ چکی ہیں لیکن شاعری ان کے لیے کوئی پیٹ بھرنے کا وسیلہ نہیں ہے۔ وہ محکمہ انکم ٹیکس سے پچھلے 30 سالوں سے وابستہ ہیں۔ اس علمی و ادبی قحط الرجال میں ایسے لوگوں کی صحبت کچھ الگ ہی قسم کی توانائی فراہم کرتی ہے، سید صاحب کی شاعری رجائیت کے خلاف ہے شاید اسی لیے ان کی شاعری پڑھ کر یہ احساس قوی تر ہوتا چلا جاتا ہے کہ زندگی زندہ دلی کا نام ہے۔‘‘

سید صاحب بلا کے ذہین، بذلہ سنج اور نفیس الطبع انسان واقع ہوئے ہیں، شاعری میں وہ اساتذہ کے فن کو سراہتے ہیں۔ اس شہر بے اماں میں 1997 میں ساکنان شہر قائد کے مشاعرے میں بھی شریک ہوئے ہیں لیکن جیساکہ میں نے پہلے کہا کہ انھوں نے شاعری کو کسب معاش نہیں بنایا اور نا ہی وہ اس کو پسند کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’شاعری تو آپ کے احساسات کی ترجمان ہوا کرتی ہے آپ کس طرح اپنی محرومیوں، اپنے احساسات کو بیچ سکتے ہیں۔

شاعر بذات خود حساس طبع واقع ہوا ہے یعنی اگر میں یہ کہوں کہ شاعر ایک ایسا سانچہ ہے جس میں جو چیز یا خیال اس کی ظاہری حالت کے مطابق ڈالی جائے وہ ویسا ہی ہوتا ہے جیساکہ خود وہ شاعر ہم مختلف خیال اشعار کو پڑھ کر یا مفکر یہ جان لیتے ہیں کہ یہ خیال فلاں شاعر یا فلاں شاعرہ کا ہے یعنی وہ خیال یا وہ احساس جو شعر کے توسط سے ہم تک پہنچا ہے وہی اس شاعر کا طرہ امتیاز ہے یہ جداگانہ مسئلہ ہے بالفرض

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

کو سنتے ہی غالب کا نام ذہن میں آتا ہے اور ’’اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی‘‘ کو سن کر پروین شاکر کا نام آتا ہے حسن مہدی سید کے کلام میں سے کچھ حاضر قارئین ہے:

ہوں میں حیران آج تک ہند کی تقسیم پر

ہم نے پایا تھا وطن آدھا ادھر آدھا ادھر

تھی غزل استاد کی چیلے نے محفل لوٹ لی

اعتبار فکر و فن آدھا ادھر آدھا ادھر

حسن مہدی سید کی شاعری کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو تقسیم ہندو پاک کے غم و انبوہ بانہیں پھیلائے ملتے ہیں ، ان کی شاعری میں وطن کی تقسیم اور ہجرتوں کے دکھ اور کئی قومی المیے ملتے ہیں تو دوسری طرف کچھ پانے کی امید بھی نظر آتی ہے۔ یعنی ایک طرف تو وہ سامعین کو رلاتے ہیں تو دوسری طرف ان کو ہنساتے بھی ہیں، شاعری دراصل ریاضت مانگتی ہے اور ریاضت بغیر مطالعے کے نہیں آسکتی شاعری کے لیے جہاں خیال کی ایک اہمیت ہے تو دوسری طرف الفاظ کے ذخیرے بھی مہیا ہونے چاہئیں، ہم نے دیکھا ہے کہ جوش کے یہاں بے شمار الفاظ استعمال ہوئے اور انھوں نے اردو کے خزانے میں اضافہ کیا تو دوسری طرف منیر کم سے کم الفاظ میں پوری بات کرتے ہیں:

ہم نے پایا تھا وطن آدھا ادھر آدھا ادھر

یہ ایک مصرعہ گویا تاریخ تقسیم وطن عزیز ہے جب ہم سے ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) الگ ہوا ۔ وہ کربناک ساعت اس مصرعے میں موجود ہے یہ صرف سید صاحب کا ہی احساس نہیں ہے بلکہ پوری قوم کے دلوں کی ترجمانی ہے لیکن جب اپنے احساس و خیال کو سید صاحب نے لفظوں کے پیکر میں ڈھالا تو یہ ان ہی کا احساس ہے شاعری میں روحانیت کے ساتھ ساتھ مادیت (Materialism) بھی در آئی ہے۔ یعنی یہاں ایک توازن قائم ہونا چاہیے میرے خیال میں سید صاحب اسی توازن کے متلاشی ہیں۔

آج سے 20-15 سال پہلے ان کے لکھے ہوئے دو گیت منظر عام پر آئے اور اس کے بعد یہ سلسلہ اب تک موقوف ہے اس کے بارے میں وہ خود کہتے ہیں ’’بھائی بات دراصل یہ ہے کہ نہ ہمارے پاس کوئی سفارش ہے اور نہ ہی مایا دیوی یعنی سرمایہ کہ ہم ان دونوں میں سے کسی ایک کو بروئے کار لاتے ہوئے اس گروہ میں شامل ہوجائیں جو پاکستان کے 19-18 کروڑ عوام پر قابض ہے،ہم عوام ہی میں رہنا چاہتے ہیں، اور اسی میں خوش ہیں‘‘ سید صاحب آج کل کی سیاست سے سخت نالاں ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’’جب آپ رشوت دے کر اپنے کام نکلوا سکتے ہیں سیاہ کو سفید کرسکتے ہیں تو کسی سیاسی جماعت سے کیا امید رکھنی‘‘ میری دعا ہے کہ حسن مہدی سید اپنی شاعری کو (ممکنہ آنے والے) کسی مجموعے یا دیوان کی صورت میں لے کر آئیں تاکہ ہمیں ایک منفرد لب و لہجے اور ایک صاحب اسلوب شاعر کو سننے، پڑھنے کا موقع ملے۔ ہم سب آپ کے استقبال کے لیے تیار ہیں۔  حسن مہدی سید صاحب کی شاعری کے بارے میں دور حاضر کے مشہور و معروف ترقی پسند شاعر جناب حسن عابد مرحوم نے ایک دفعہ کہا تھا کہ مجھے حسن مہدی سید کی شاعری اس لیے پسند ہے کہ انھوں نے شاعری کو دوست کی طرح برتا ہے۔ حسن مہدی سید کا یہ شعر دیکھئے ۔

ہم نے چاہا تھا حسنؔ اسے چاہنے والوں کی طرح

وہ ملا بھی ہمیں تو ستم ڈھانے والوں کی طرح

Viewing all 22348 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>