Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22341 articles
Browse latest View live

ادیب سہیل: یہ لوگ ہمارا خزانہ ہیں

$
0
0

ادیب سہیل دو ہزار دنوں سے یاد فراموشی کی مملکت میں مقیم ہیں۔ وہ ہاتھ جس سے کتاب اور کاغذ نہیں چھوٹتا تھا ۔ جس کی آنکھیں لکھے اور چھپے ہوئے حروف کے موتی چنتی تھیں، اب لکھنا اور پڑھنا کچھ بھول سی گئی ہیں۔ انھیں دیکھیے تو دل کٹتا ہے۔ چند دنوں پہلے انجمن ترقی اردو میں ان کی تقریب پذیرائی ہوئی جسے انھوں نے اپنی زندگی کے بہت سے قیمتی سال نذر کردیے تھے۔ وہ ماہنامہ ’’ قومی زبان‘‘ کے مدیر رہے ۔ سہ ماہی ’’ اردو ‘‘ کی ذمے داریاں پوری کیں۔ ’’قومی زبان‘‘ کو ادب کی اقلیم میں ذاتی سربلندیوں کے لیے وہ کس کس طرح برت سکتے تھے لیکن ان کے مزاج کی صوفیانہ روش نے انھیں اس طرف دیکھنے ہی نہیں دیا۔

بہار کی سرزمین پر گوتم کی چھتر چھایا ہزاروں برس سے قائم ہے، ادیب سہیل کا خمیر وہاں کی مٹی سے اٹھا، وہ گوتم کی راہ پر چلنے والے بن گئے اور بے نیازی اور سیر چشمی ان کے مزاج کا خاصہ رہی ۔ انھوں نے نثر اور نظم میں جتنا کام کیا، ادارت اور ترجموں میں جتنا وقت صرف کیا، ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو آج اس سماج میں اس کی کیا دھوم ہوتی لیکن گوشہ گیری ان کا انتخاب تھی اور اس پر وہ ہمیشہ شاداں و فرحاں رہے۔

اب اس بات کو بہت دن ہوئے کہ وہ نیند اور بیداری کے دھندلکوں کے درمیان کہیں رہتے ہیں اور ہم سے بچھڑ گئے ہیں ۔ کئی برس سے وہ جس کیفیت کا شکار ہیں، اسے دیکھتے ہوئے رضی اختر شوق کا ایک مصرعہ یاد آتا ہے کہ آدھا چہرہ نیند سے باہر، آدھا چہرہ نیند میں ہے! یاد فراموشی کا یہ عذاب برین ہیمبرج کے سبب ان پر نازل ہوا، حالاں کہ وہ ان چند لوگوں میں رہے ہیں جن کا علمی، ادبی اور سیاسی حافظہ غضب کا رہا ہے۔ وہ جب قریبی دوستوں کی محفل میں لب کھولتے تو یہ عالم ہوتا کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی ۔

ہم اگر ان کے زمانے پر نظر ڈالیں تو یہ وہ دور ہے جب فرنگی راج میں ہندوستان پہلی جنگ عظیم کے زخموں سے نڈھال تھا۔ بارہ برس کے تھے کہ دوسری جنگ عظیم کا خونخوار دیو، آدم بُو۔ آدم بُو، پکارتا ہوا، ہندوستان کا بھی پھیرا لگا گیا۔ فاقوں سے نڈھال خاندانوں نے اپنے بیٹے اس جنگ کو دان کردیے۔ ان میں سے بیشتر واپس نہ آئے۔ ادیب سہیل جیسے گداز دل نوجوان نے یہ سب کچھ دیکھا اور پھر بنگال کا قحط اپنی روح پر سہا جس میںمائوں نے بیٹیاں ایک مٹھی چاول کے لیے پونجی پتی گھرانوں کو بیچ دیں ۔

ان کا ذہن اور ان کی روح ان زخموں سے نڈھال ہوئی اور پھر 47 اور اس کے بعد 71… حوادث کا ایک سونامی تھا جو انسانوں کو نگل رہا تھا۔ ایک ایسے عالمِ داروگیر میں وہ اگر اپنا ذہنی توازن قائم رکھ سکے تو اس کا سبب، انسانوں سے ان کا درد مندی کا وہ رشتہ تھا جس میں ترقی پسندی نے انھیں پرو دیا تھا ۔ وہ آخر تک اسی ڈور سے بندھے رہے۔ کراچی میں نادر گری کی جو چوبائی چل رہی تھی، اس میں بھی ان کی استقامت اور انسان دوستی پر آنچ نہ آئی اور وہ یہ کہہ سکے کہ!

غیروں پر الزام عبث ہے، ہم ہی اپنے دشمن ہیں

ہنستے بستے شہر کا اپنے ہاتھوں، سکوں برباد کیا

انھوں نے جم کر شاعری کی جس کی سچی قدر دانی ان کے پنڈی وال دوستوں نے کی ۔ وزیر آغا کے سہ ماہی ’اوراق‘ میں ان کی شاعری اور ان کی نثرکے لعل و گہر بکھرے ہوئے ہیں ۔ نجیب محفوظ، اور لورکا، سیموئیل بیکٹ، ناظم حکمت اور ایرن کریمر پر انھوں نے کس جانکاہی سے مضامین لکھے ۔

ایرن کریمر سے ان کا نظری رشتہ تھا۔ 1954میں ان کی اور کریمر کی خط و کتابت شروع ہوئی جو آخر تک جاری رہی ۔ کریمر میکارتھی ازم کا کٹر مخالف تھا اور میکارتھی ازم امریکا میں روشن خیالی اور روشن خیالوں کو نگل رہا تھا۔ انھوں نے کریمر کی نظمیں ترجمہ کیں۔ اس کی موت پر انھوں نے ایک نظم لکھی… سات سمندر… بیچ میں تھے ہم دونوں کے… وہ امریکا کا شہری تھا میں تھا پاکستانی… میرا اس کا ربط ہوا تھا 54 کے آخر میں… جب ’’میکارتھی ازم‘‘ کا ننگا ناچ تھا جاری… امریکا کے شہروں میں… اور امریکی اس کے خلاف صف آرا تھے… شہراہوں پر… وہ اس ’’ازم‘‘ کو ذہنی آزادی کا دشمن… جمہوری اقدار کا قاتل کہتے تھے… ان کہنے والوں میں میرا یار کریمر… شاعر اور جمہور محافظ… سب کے آگے آگے تھا… سات سمندر پار مری آواز سے اس کا ناتا تھا… میں نے بھی ایک نظم ’’اسکریننگ‘‘ ’’ازم‘‘ مخالف لکھی تھی…

میری نظم اسکریننگ جب دہلیز پہ اس کی پہنچی تو… اس نے جواباً لکھا:… میں تو سوچ نہیں سکتا تھا کوئی… دور افتادہ… میرے کاز کی خاطر… مجھ سے بڑھ کر سوچ بھی رکھتا ہے… آج یقین آیا ہے مجھ کو… ہم امریکی اپنی جہد میں تنہا نہیں… سارا زمانہ ساتھ رواں ہے… آج یقین آیا ہے مجھ کو… ایک کا غم سب کا ہوتا ہے… حق کی جنگ کہیں بھی ہو… وہ سب کی ہوتی ہے یارو۔… آج مجھے محسوس ہوا ہے دور بہت ہی دور… کوئی ہم گام ہے میرا… مجھ سے کم ادراک نہیں رکھتا ہے… میرے عصری غم کا… میرے دوست… مرے ہم راہی… میرے بھائی… نظم تمہاری… میرے لیے ہمت افزائی… رہ نمائی… خوش خبری نصرت کی جیسے گھر میں مرے خود ہی چل کر آئی!… یار کریمر… وھٹمن کا سچا شیدائی… اردو میں ادیب سہیل کے سوا کون تھا جو اس کے بارے میں اس دل گیری کے ساتھ لکھتا۔ وہ اسے ’’یار جانی‘‘ کہتے تھے۔ اس کا خط آتا تو خوشی سے تمتماتا ہوا چہرہ لیے میرے دفتر آجاتے اور پھر کریمر کے خط کی ایک ایک سطر جوش بھری آواز میں مجھے سناتے۔

ادیب سہیل سے میرے کئی رشتے ہیں۔ دھرتی کا اور اپنی تہذیبی اور ادبی روایات سے پیوستگی کارشتہ، میرا پہلا افسانوی مجموعہ ’قیدی سانس لیتا ہے‘ شایع ہونے کے چند مہینوں بعد مجھے خبر ملی کہ تاج سعید کے پرچے ’’قند‘‘ میں کسی صاحب نے اس پر تفصیل سے لکھا ہے۔ یہ لکھنے والے ادیب سہیل تھے۔ ان سے ملاقات اس مضمون کی اشاعت کے لگ بھگ ایک برس بعد ہوئی جو دل داری اور دل گیری کے رشتے میں ڈھل گئی ۔

گرمی، جاڑا، برسات ہر جمعے کو وہ انجمن کے دفتر سے اٹھتے اور میری طرف آتے ۔ عموماً محمود واجد صاحب بھی ساتھ ہوتے ۔ کبھی ’روشنائی‘ کے مدیر زین الدین احمد اور کبھی بہار سے آیا ہوا کوئی اور ادیب یا ادب دوست۔ بنگلہ دیش میں رہ جانے والے اردو کے معروف ادیب زین العابدین صاحب سے ان ہی نے میرا تعارف کرایا۔ دوپہر ہوجاتی، دستر خوان بچھتا لیکن ادیب بھائی اصرار کے باوجود ہمارا ساتھ نہ دیتے اور یہی کہتے کہ تمہاری بھابھی انتظار کررہی ہوں گی ۔ وہ میٹھے کے رسیا ہیں، میں ان کے لیے قلاقند، گلاب جامن یا رس گلے منگوا کر رکھتی ۔ وہ انھیں دیکھ کر مسکراتے اور سہج سہج کھاتے جاتے ۔ کیسی دل آویز محفلیں تھیں جو خواب و خیال ہوئیں ۔ ان میں شریک ہونے والے کئی اہم ادیب پکشی پکھیرو کی طرح اڑ کر عدم آباد گئے ۔

وہ دن یاد آتے ہیں تو دل خون ہوتا ہے ۔ کون سا موضوع تھا جس پر بحث نہ ہوتی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سوویت یونین کا خواب تحلیل ہورہا تھا ۔ اس سے برسوں پہلے چین اور سوویت یونین کے درمیان علیحدگی ہوچکی تھی جس نے انھیں بہت دل گرفتہ کیا تھا ۔ اس معاملے پر ان کے اور میرے نقطہ نظر میں اختلاف تھا ۔ میں 1998میں چین سے واپس آئی تو خوشی سے بے حال تھے ۔ میں اپنی دو آنکھوں سے مائو کا حنوط شدہ بدن دیکھ آئی تھی ۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ میری اسی طرح تعظیم و تکریم کریں جیسے اب سے ایک صدی پہلے حاجیوں کی ہوتی تھی ۔ ایک سادہ و معصوم انسان ۔ اسی لیے ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ مائو کا چین میکڈونلڈ کے راستے پر کیسے چل نکلا ۔ میں نے اس بارے میں لکھا تو انھوں نے مجھ سے شکایت کی ۔ یہ سب کچھ لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ ارے ادیب بھائی تو کیا کرتی؟ خاموش نہیں رہ سکتی ۔ انھوں نے دھیمے لہجے میں کہا۔ چہرے پر اداسی کی پرچھائیں تھی ۔

وہ ریلوے میں ملازم رہے اور اس کی ٹریڈ یونین سے جڑے ہوئے رہے ۔ ایوب خان حکومت کے خلاف پوسٹر لگانے ہوں تو وہ لئی کا کنستر اور پوسٹر لے کر ریل کے ڈبے میں بیٹھ جاتے ۔ ساتھ میں بھائی زین العابدین ایسے رضا کار بھی ہوتے جو ہر اسٹیشن پر باغیانہ پوسٹر چپکانے کا کام کرتے جاتے ۔ انھوں نے ایک ہشت پہلو زندگی گزاری جس کا عکس ان کی نظموں اور غزلوں میں نظر آتا ہے ۔ ان کی انسان دوستی ‘ تاریخی شعور اور سیاسی پیچاک سب ہی ان کی شاعری میں جھلکتے ہیں ۔

وہ گزرے ہوئوں کی تکریم کرتے اور نئے لکھنے والوں کی پذیرائی میں پیش پیش رہتے ۔ ان کی تقریب پذیرائی میں بہت دیر ہوگئی لیکن اس بارے میں داد فاطمہ حسن کو ملنی چاہیے جنہوں نے انجمن میں قدم رکھتے ہی انھیں یاد کیا اور آج کی محفل سجائی ۔ وہ خوش رہیں اور بزرگوں کو اسی طرح یاد کرتی رہیں کہ یہ لوگ ہمارا خزانہ ہیں ۔

(ادیب سہیل کی تقریب پذیرائی میں پڑھا گیا)


ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا

$
0
0

کسی اور کو اتفاق ہو نہ ہو ہمیں تو اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ اس ’’ملک‘‘ کو ضرور کسی کی ’’نظر‘‘ لگی ہے کیوں کہ ہر کام اور ہر معاملے میں

ہر کسے روز بہی می طلبد از ایام

مشکل ایں است کہ ہرروز بترمی بنیم

اس بات سے ہمارے اتفاق کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ’’نظر‘‘ کے معاملے میں ’’دورائیں‘‘ بالکل بھی نہیں ہیں ۔۔۔ پہلے پہل ہم نے اعتراض کیا تھا لیکن علامہ نے وضاحت کر دی تھی۔  لیکن ملک کو نظر لگنے والی اس بات پر اس کے ساتھ ہمارے اتفاق کی اصل وجہ کچھ اور ہے اور وہ یہ کہ ’’نظر لگنے‘‘ کے معاملے میں چشم گل چشم عرف قہر خداوندی کی تاریخ اور جغرافیہ دونوں اچھے خاصے روشن ہیں، بڑے بزرگ بتاتے ہیں کہ چشم گل چشم کی والدہ محترمہ ’’نظر گلہ‘‘ کی شہرت نظر اتارنے کے سلسلے میں ’’یہاں‘‘ سے لے کر پھر ’’یہاں‘‘ تک پھیلی ہوئی تھی، گاؤں میں کسی کو کسی کی بھی نظر لگے یا کچھ بھی ہو جائے بڑی بوڑھیاں ایک مرتبہ ’’نظر گلہ‘‘ کو بلوا کر اس کی نظر ضرور اترواتی تھیں۔

نظر اور نظر گلہ خالہ پر لوگوں کے اعتماد کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی لاری کے نیچے آیا ہو یا گولی لگی ہو یا کسی بیل یا بھینسے نے رگیدا ہو یا گلی کے کتے نے کاٹا ہو ۔۔۔ آخری تان ’’نظر‘‘ اتارنے پر ہی ٹوٹتی اس کام میں وہ اتنی ماہر تھی کہ اگر ہیضے کے مریض کی نظر بھی اتار دیتی تو ہیضہ فوراً ٹھیک ہو جاتا کیوں کہ مردوں کو ہیضہ نہیں ہوتا ۔۔۔ خود چشم گل چشم کے باپ غونڈل خان غونڈل کو جب فالج ہوا اور نظر گلہ خالہ نے اس کی نظر اتاری تو اس کا فالج بالکل ٹھیک ہو گیا تھا البتہ تھوڑا سا مر گیا تھا لیکن موت کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا کیوں کہ موت برحق ہے صرف کفن میں شک ہے

شفا اپنے تقدیر ہی میں نہ تھی

کہ مقدور بھر تو دوا کر چلے

نظر گلہ خالہ کے نظر اتارنے کا ایک اپنا مخصوص طریقہ ہوتا تھا ایک مٹی کے ٹوٹے ہوئے برتن کا ٹکڑا لے کر اس پر انگارے رکھ دیے جاتے تھے اور پھر نظر گلہ خالہ اس پر ہرمل کے دانے ڈال کر مخصوص منتر پڑھتی تھی جسے وہ نظر کا دم کہتی تھی ۔۔۔ اتر جا ۔۔۔ اچھی آنکھوں کی، بری آنکھوں کی، نیلی آنکھوں کی، پیلی آنکھوں کی، سبز آنکھوں کی، بھوری آنکھوں کی، اتر جا اتر جا اور دشمن پر پڑ جا ۔۔۔ اگر اس سے نظر نہ اترتی تو دوسرے مرحلے میں ہائی پونٹسی دھواں دیا جاتا ہے جو سرخ مرچوں کا ہوتا تھا کبھی کبھی ان انگاروں پر کچھ دھاگے بھی ڈال جاتے جو نظر لگانے والے کے آزار بند کے ہوتے تھے۔

گاؤں کے لوگوں کا کہنا تھا کہ نظر گلہ ترور ہر قسم کی نظر اتار سکتی تھی سوائے اپنے بیٹے چشم گل چشم کی نظر کے ۔۔۔ کیوں کہ اس کی آنکھوں کا رنگ اس فہرست میں شامل ہی نہ تھا جو وہ بتاتی تھیں، ایسا لگتا تھا کہ نظر گلہ خالہ نے اب تک جتنی بھی بری نظریں اتاری تھی وہ اتری نہیں تھیں بلکہ اس کے ساتھ چمٹ گئی تھیں اور سب کی سب اس کے اکلوتے بیٹے چشم گل چشم کی اکلوتی آنکھ میں مورچہ لگا کر بیٹھ گئی تھیں چنانچہ وہ اگر پتھر کو بھی دیکھ لیتا تو وہ پتھر کا ہو جاتا اور اگر دیوار پر نظر ڈال کر کہتا کہ مت ہل تو مجال ہے جو اپنی جگہ سے ایک انچ بھی ہلے۔

نظر گلہ خالہ کے علاج بے مثل کا نچوڑ چشم گل چشم کی صورت میں مجسم ہوا تو ’’ہالیوں‘‘ نے ہل ڈک لیے، اسے آتے ہوئے دیکھا جاتا تو جس کے ہاتھ میں جو بھی کام ہوتا وہی پتھر ہو جاتا، کوئی پانی بھی پی رہا ہوتا تو فوراً رک جاتا، کیا پتہ کم بخت پانی کے گھونٹ لینے کو ابھی آنکھ کی دھار پر رکھ لے، خود اس کی ماں کا اس پر اتنا پکا عقیدہ تھا کہ ایک دن تندور میں روٹی لگاتے ہوئے اپنا ہاتھ جلا بیٹھی، جب اس کے نظر باز سپوت نے گھر میں پرویش کیا تو اس وقت اس کا ہاتھ تندور کے اندر روٹی لگانے میں مصروف تھا بیٹے کی آواز سن کر وہ دھک سے ہو گئی اپنا ہاتھ اس ڈر سے نہیں نکالا کہ کہیں اکھیوں سے گولی نہ مارے، ایک ٹپہ جو خالص رومانوی تھا اسے لوگوں نے چشم گل چشم پر چپکا دیا تھا کہ

سترگے دے ڈکے تماچے دی

زہ دے پہ ڈکوتما چوویشتلے یمہ

یعنی تمہاری آنکھیں بھرے ہوئے پستول ہیں اور تم نے مجھے بھرے ہوئے پستولوں کا نشانہ بنایا ہے، یہاں تک مشہور ہو گیا تھا کہ چشم گل چشم کی ’’نظر‘‘ کی مار سے اور تو اور وہ خود بھی نہیں بچا ہے اس کی ایک آنکھ کے تلف ہونے کی وجہ بھی یہی سمجھی گئی کہ اس نے کہیں آئینے میں اپنی آنکھوں کو دیکھ لیا ہو گا اور ان پر تحسین کی نظر ڈالی ہو گی جس کی تاب نہ لا کر ایک آنکھ پچک گئی، ایک مرتبہ وہ شدید بیمار ہو گیا تو ماں نے گھر کے سارے آئینے ہمیشہ کے لیے چھپا دیے بلکہ توڑ دیے کہ لڑکا اس میں دیکھ دیکھ کر خود ہی کو نشانہ بنا رہا ہے، اورنگزیب عالم گیر کی بیٹی زیب النساء نے اسی لیے تو آئینے کے ٹوٹنے پر ملازمہ سے کچھ نہیں کہا تھا اس ملازمہ یا کنیز کے ہاتھ سے آئینہ ٹوٹ گیا تھا جو چین سے آیا تھا ۔۔۔ تب ملازمہ نے کہا

از قضا آئینہ چینی شکست

زیب النساء مخفیؔ نے سنا تو بولی

خوب شد اسباب خود بینی شکست

مطلب یہ کہ نظر گلہ ترور نے گھر سے اسباب خود بینی ہٹا کر اپنے بیٹے کی جان بچا لی، یہی وجہ ہے کہ ہم چشم گل چشم کی اس بات سے مکمل اتفاق رکھتے ہیں کہ اس ملک کوکسی نہ کسی کی ’’نظر‘‘ تو یقیناً لگی ہے بلکہ مسلسل لگی ہوئی ہے ایسی کہ خزانے سے لے کر وزیر قانون تک اور کھیتوں سے لے کر بازاروں تک ہر چیز سے لپٹی ہوئی ہے یوں کہیے کہ نظر نہیں ایک ’’آکاس بیل‘‘ ہے جو ملک کے پیڑ کو پنپنے نہیں دے رہی ہے

ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں

تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں

آپ سے کیا پردہ ۔۔۔ ہم اتنے بھی اچھے نہیں ہیں کہ آنکھیں بند کر کے ایک اکلوتی آنکھ والے راجہ کی بات پر یقین کریں بلکہ ہم نے خود بھی اپنی تحقیق کا ٹٹو چلایا تو کئی شواہد و ثبوت ایسے ملے کہ اس ملک کو جو کچھ بھی درپیش ہے وہ بری نظر کی وجہ سے ہے کیوں کہ جیسے ہی کوئی نئی حکومت یا پرانی حکومت کی ’’نئی باری‘‘ آتی ہے اس کا سارا لاؤ لشکر اس ملک کی ہر ہر چیز پر بری نظر ڈالنا شروع کر دیتا ہے، کون سے محکمے میں کتنی دراڑیں ہیں جہاں اپنے اپنے بچھو اور سنپولے گھائے جا سکتے ہیں کہاں کہاں کتنی جائیداد اور ملکیتں ہیں جن کو بغیر چورن کے ہضم کیا جا سکتا ہے یا اپنے چمچوں میں بانٹا جا سکتا ہے کہاں کہاں فنڈز کی کتنی ریوڑیاں اور بتاشے ہیں جن سے منہ پیٹ جیب اور گھر بھرے جا سکتے ہیں۔

مسلمانوں کو تو یہ بتایا گیا ہے کہ ’’علم‘‘ جہاں بھی ہوتا ہے مومن کی گمشدہ میراث ہوتا ہے لیکن پاکستانی لیڈروں کو بتایا گیا ہے یہ مت پوچھیے لیکن بتایا ضرور ہے کہ قوم کا مال ہر لیڈر کا ’’گم شدہ‘‘ مال ہوتا ہے جہاں بھی ملے جیسے بھی ملے جس قدر بھی ملے غڑاپ غڑاپ کر کے گٹکنا چاہے، دیکھا جائے تو یہ کچھ پیچیدہ بلکہ الجھا ہوا سا مسئلہ ہے پتہ نہیں کہ دوش کس کو دیا جائے، یعنی اصل گناہ گار کون ہے ہم نے اس الجھی ہوئی گتھی پر بہت مغز کھپایا بہت مغز کھپایا تب اس کا ’’سرا‘‘ ہاتھ لگا، اور اس سرے کا نام ’’عوام‘‘ ہے جو تقریباً ہر مرض کی اصل جڑ ہوتے ہیں۔

بلکہ ہمیں تو یہ یقین ہے کہ اگر ساؤتھ افریقہ میں کرکٹ کی کوئی میچ ہارتی ہے تو اس کی وجہ بھی یہی عوام ہوتے ہیں جن کو پارلیمانی زبان میں نہ سہی سیاسی زبان میں کالانعام تو کہا ہی جاتا ہے اور یہ کوئی ہوائی نہیں ہے بلکہ ہم ابھی دو اور دو چار کر کے ثابت کر دیتے ہیں، ہوتا یوں ہے کہ یہ ندیدے عوام جب اپنے ہونہار اور لائق و فائق ۔۔۔ ساتھ ہی ایماندار دیانت دار اور وفادار لیڈروں کی بے پناہ کارکردگی دیکھتے ہیں کہ وہ کس طرح اتنا تن من دھن سب کچھ عوام پر نچھاور کرتے ہیں ان کے لیے خواب و خور اپنے اوپر حرام کرتے ہیں اور اپنی ’’جان و مال‘‘ اس قوم پر لٹاتے ہیں تو وہ نہایت ہی خورسند ہو کر بے چارے لیڈروں کو نظر لگا دیتے ہیں  بے چارے لیڈر نظر لگتے ہی نظر کا شکار ہو جاتے ہیں۔

چنانچہ پھر وہ بھی اپنی دو آنکھوں کے ساتھ اپنے حالیوں موالیوں کی دوچاردرجن آنکھیں اپنے ساتھ کر دیتے ہیں اور ملک کے سارے محکموں کو دیکھنے لگتے ہیں جہاں جہاں کوئی کام کی چیز ملتی ہے کوئی سوراخ کوئی فنڈ کوئی ملکیت وغیرہ تو تاک کر نشانہ لگا دیتے ہیں اور پورے محکمے کی ایسی کی تیسی کر دیتے ہیں، مطلب یہ کہ بے چارے لیڈر اگر تمام محکموں اور اداروں پر نظر لگائے ہوئے ہیں تو صرف اس وجہ سے کہ یہ کم بخت عوام لیڈروں کو نظر لگا دیتے ہیں۔ وہ اتنی اچھی لیڈری کرتے ہیں کہ قوم ان پر اپنی بھوکی پیاسی ننگی ندیدی نگاہیں گاڑ کر نظر لگا دیتی ہے، ورنہ ہمارے لیڈر تو

دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں

لطیف جوہر کی جان بچائی جائے

$
0
0

نوجوان لطیف جوہر کی بھوک ہڑتال کو 45 دن ہوگئے ہیں۔ لطیف جوہر کا معائنہ کرنے والے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اس نوجوان کے جسم میں شوگر کا تناسب انتہائی کم ہوگیا ہے اور جسم میں پانی کی شدید کمی ہے۔ کراچی پریس کلب کی دیوار سے متصل بھوک ہڑتالی کیمپ کے مکین کا عزم ہے کہ اس کی تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چیئرپرسن زاہد بلوچ  18 مارچ کو کوئٹہ سے لا پتہ ہوئے۔ زاہد بلوچ کی رہائی تک بھوک ہڑتال جاری رہے گی ۔ بی ایس او آزاد کی رہنما کریمہ بلوچ کہتی ہیں  اگر لطیف جوہر کی جان چلی گئی تو کریمہ بلوچ یا کوئی اور ساتھی بھوک ہڑتال شروع کرے گا۔

بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ گزشتہ ہفتے اس کیمپ میں آئے، انھوں نے دو سینئر صحافیوں کے ہمراہ درخواست کی کہ لطیف جوہر بھوک ہڑتال ختم کردیں۔ لطیف کا کہنا ہے کہ زاہد بلوچ کی رہائی تک بھوک ہڑتال جاری رہے گی ۔ ڈاکٹر مالک بلوچ کا کہنا تھا کہ وہ بی ایس او آزاد کے چیئرپرسن زاہد بلوچ کو ذاتی طور پر جانتے ہیں، ڈاکٹر مالک اور زاہد بلوچ بی ایس او میں ساتھ کام کرتے تھے مگر سیاسی اختلافات کی بناء پر دونوں کے راستے جدا ہوگئے۔ ڈاکٹر مالک نے کہا کہ ان کے انتخابات میں بی ایس او کے کارکنوں نے متحرک کردار ادا کیا تھا۔ ڈاکٹر مالک نے اس موقعے پر انکشاف کیا کہ زاہد بلوچ کے اغواء کے واقعے کی انھیں کوئی اطلاع نہیں ہے مگر وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے زاہد کی بازیابی ان کی ذمے داری ہے۔

ڈاکٹر مالک نے اس موقعے پر اقوامِ متحدہ کے نام تیارکردہ عرض داشت پر دستخط کیے۔ اس عرضداشت میں اغواء ہونے والے سیاسی کارکنوں کی بازیابی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ لطیف جوہر کا کہنا ہے کہ زاہد بلوچ کے اغواء کے بعد بہت سے لوگوں نے اس کے بارے میں اطلاعات فراہم کرنے اور زاہد کی بازیابی کا وعدہ کیا مگر یہ وعدہ وفا نہیں ہوا۔ بی ایس او کی سنٹرل کمیٹی کی رکن کریمہ بلوچ کاکہنا ہے کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے زاہد بلوچ کے اغواء کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا مگر کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر مالک کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت ایف آئی آر درج کرنے کے لیے تیار ہے مگر کوئی ایف آئی آر درج کرانے کو تیار نہیں ہے۔

لطیف جوہر کی طبیعت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ اس کو رات کو نیند نہیں آتی، آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہے، وہ پیر میں درد کی بناء پر کھڑے نہیں ہوسکتے ۔ بلوچستان میں صورتحال بدستور خراب ہے۔ سیاسی کارکنوں کو ڈبل کیبن جیپوں میں آنے والے مسلح افراد اغواء کر کے لے جاتے ہیں، پھر ان کی لاشیں ملتی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اغواء ہونے والے افراد کی تعداد ہزاروں میں بتاتے ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان HRCP کی سالانہ رپورٹ میں تحریری طور پر بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال 116 افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں، ان میں سے 87 کی شناخت ہوگئی۔ ان لاشوں کی شناخت ان کے قریبی عزیزوں نے کی، باقی 29 لاشوں کے ورثاء کا پتہ نہیں چل سکا۔ پھر مختلف قید خانوں میں کتنے افراد قید ہیں یہ بات صرف بااختیار افراد کے علم میں ہے۔

لوگ سیاسی کارکنوں کے اغواء اور پھر ان کی لاشیں ملنے کی خبروں پر ماتم کرتے رہ جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس صدی کے آغاز سے بلوچستان میں سیاسی کارکنوں کے اغواء کا سلسلہ شروع ہوا۔ پہلے مری قبیلے سے تعلق رکھنے والے پھر سیاسی کارکن اغواء ہونے لگے۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد کئی اغواء شدہ کارکن اپنے گھروں کو پہنچ گئے۔ نیشنل پارٹی کے رہنما حاصل بلوچ کا کہنا تھا کہ رہا ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق بگٹی قبیلے سے تھا جنھیں خفیہ ایجنسیوں نے اکبر بگٹی قتل کے بعد اغواء کیا تھا، اچانک دوسرے صوبوں سے آ کر بلوچستان میں آباد ہونے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوئی مگر کچھ عرصے سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں ملنا شروع ہوئیں۔

یہ لاشیں کوئٹہ کے مضافاتی علاقے کے علاوہ حب اور کراچی کے اطراف سے بھی برآمد ہوئیں۔ اس سال کے اوائل میں خضدار کے مضافاتی علاقے سے اجتماعی قبریں ملنے کی خبریں ذرایع ابلاغ کی زینت بنیں۔ ان مسخ شدہ لاشوں میں چند کی شناخت ہوسکی۔ سپریم کورٹ اور چاروں ہائی کورٹوں نے اغواء ہونے والے افراد کے بارے میں مہینوں سماعت کی۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اغواء شدہ افراد کے بارے میں اپنے متعدد فیصلوں میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کے اہلکاروں کو ملوث قرار دیا۔ افتخار چوہدری کی مسلسل کوششوں کے باوجود یہ مسئلہ گھمبیر ہی رہا۔

اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے سالانہ اجلاسوں میں یہ مسئلہ بحث کا موضوع رہا۔ اسی بناء پر کونسل کا ایک وفد فیکٹ فائنڈنگ مشن پر پاکستان آیا۔ وزارتِ خارجہ و داخلہ نے اس مشن سے تعاون نہیں کیا۔ مشن کے اراکین نے چاروں صوبوں کے دورے کیے اور سیاسی کارکنوں ، انسانی حقوق کی تنظیموں کے اراکین، وکلاء اور صحافیوں کے انٹرویو کیے۔  اس کونسل کی رپورٹوں میں اغواء ہونے والے افراد کی تعداد خاص طور پر مسخ شدہ لاشوں کے اعداد و شمار نے دنیا بھر کو اس مسئلے کی طرف متوجہ کیا۔

گزشتہ سال ستمبر میں ایک سیاسی کارکن کے والد ماما قدیر بلوچ نے اغواء شدہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ سے کراچی تک پیدل لانگ مارچ کیا،عورتوں اور بچوں کے ساتھ کراچی سے اسلام آباد تک گئے، اس لانگ مارچ کی  شہرت ہوئی۔ جب نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک نے اقتدار سنبھالا تو انھوں نے اعلان کیا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی ان کی اولین ترجیح ہوگی۔ ڈاکٹر مالک اور نیشنل پارٹی کے ایک رہنما میر حاصل بزنجو نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ اب مزید کوئی سیاسی کارکن لاپتہ نہیں ہوگا مگر صوبائی حکومت کی یہ یقین دہانی ذرایع ابلاغ کی خبروں تک محدود رہی۔ سیاسی کارکنوں نے لاپتہ ہونے اور ان کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ بند نہ ہوا۔

بی ایس او آزاد کے چیئرپرسن زاہد بلوچ کا اغواء میں اس سال مارچ کا واقعہ ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان حکومت پر بالادستی کسی اور کی ہے جو سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کر کے صوبائی حکومت کو مفلوج کرنا چاہتی ہے اور دوسری طرف مذہبی انتہاپسندوں کی حوصلہ افزائی کر کے قوم پرستوں کی تقسیم کرنا چاہتی ہے۔ پنجگور اور تربت میں مخلوط تعلیم والے اسکولوں کو دھمکیوں کے بعد بند ہونا اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اپنے ہی ملک میں شہریوں کو اغواء اور انھیں تقسیم کر کے استحکام حاصل کیا جاسکتا ہے۔ تاریخ اس مفروضے کو غلط ثابت کرتی ہے۔

مشرقی پاکستان کے مقابلے میں بلوچستان کی صورتحال میں فرق یہ ہے کہ درمیانی طبقے سے تعلق رکھنے والی جماعتیں اب تک وفاق پر یقین رکھتی ہیں۔ عجیب ستم ظریفی ہے  کہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود زاہد بلوچ کا پتہ نہیں چلا سکے۔ ڈاکٹر مالک کی بے بسی کا اندازہ اقوامِ متحدہ کے نام لاپتہ افراد کی بازیابی کی یادداشت پر دستخط سے ہوتا ہے۔ ڈاکٹر مالک کی اس ناکامی کا مطلب صرف نیشنل پارٹی کی ناکامی ہی نہیں بلکہ 1973 کے آئین کی بالادستی اور سیاسی جدوجہد کے ذریعے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد کرنے والے ہر فرد کی بھی ناکامی ہے، پھر یہ ناکامی وزیر اعظم نواز شریف کی بھی ہے جنہوں نے بلوچستان اسمبلی میں اقلیتی جماعت نیشنل پارٹی کو حکومت بنانے کی دعوت دی تھی تاکہ بلوچستان کے عوام کا اعتماد بحال ہوسکے۔

اب اگر لطیف جوہر اپنی بھوک ہڑتال کے باعث ہلاک ہوجاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ بلوچستان میں جمہوری حکومت کا تجربہ ناکام بنادیا گیا ہے۔ یہ ناکامی ایک نئی تباہی کا آغاز ہوگا۔ انسانیت سے محبت کرنے والے ہر شخص کو لطیف جوہر کی جان بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ زاہد بلوچ سمیت ہر لاپتہ شخص کو رہا ہونا چاہیے اور جس نے قانون توڑا ہے اس کے خلاف قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔ کیا لطیف جوہر کی جان بچ جائے گی؟

لفظ، گورکن اور ہم

$
0
0

اگر کوئی صاحب آپ کو اس بات کے لیے ضد بحث کرتے نظر آئیں کہ پاکستانی قوم ایک مہذب و خوش و خرم قوم ہے تو آپ ان صاحب کی ذہنی حالت درست نہ ہونے کے بارے میں شک و شبہ کرنے میں حق بجانب ہوںگے۔ پاکستان کے حالات و واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں دنیا کی وحشی ترین قوم کا اعزاز حاصل ہو گیا ہے ۔ ہم نہ صرف جسمانی بلکہ بدترین ذہنی بیماریوں میں اپنے مبتلا ہونے کے ثبوت روز ملک میں کہیں نہ کہیں دے رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہم دنیا بھر میں جسمانی و ذہنی بیماریوں کے جراثیم پھیلانے میں بھی دن رات مصروف ہیں پوری دنیا ہم سے خو فزدہ ہے دنیا بھر میں پولیو ہمارے ملک سے درآمد ہو رہا ہے۔

دہشت گردی میں ہم ملوث پائے جاتے ہیں کر پشن ، ملاوٹ، بے ایمانی ، لالچ، منا فقت ، کمیشن ، انتہاپسندی دنیا بھر میں پھیلانے کی ہم ان تھک جد وجہد کر رہے ہیں۔ حاملہ معصوم و بے گناہ عورتوں کو اینٹیں مار مار کر قتل کرنے میں ہم مصروف ہیں مزاروں کو بموں سے مسمار ہم کر رہے ہیں، اسکولوں کو دھماکوں سے ہم اڑا رہے ہیں۔ دنیا بھر کی تمام بے ضابطگیوں میں ہم ملو ث ہیں دنیا بھر کی تمام ذہنی، جنسی و جسمانی کرپشن میں ہم نمبر ون پرآ گئے ہیں ۔

پوری دنیا سے نفرت و انتقام کی سیاست نا پید ہو چکی ہے جب کہ ہمارے ملک میں اسے روز بروز فروغ ملتا جا رہا ہے محاذ آرائی، کشیدگی کی سیاست میں تو ہم سے آگے کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا ہے ہم خود ہی مدعی ہیں خود ہی عدالت ہیں خود ہی منصف ہیں خود ہی جلاد ہیں اور خود ہی تماشائی ہیں ہم سب نے اپنے اندر ایک جیل بنا رکھی ہے اور ساری عمر اس جیل سے باہر آتے ہی نہیں ہیں۔ ہم سب کا اپنا اپنا قید خانہ ہے ہم اپنے قیدی خود ہیں اور ہم اپنے آپ کے پہرہ دار بھی خود ہی ہیں کوئی لاکھ کوشش کر کے دیکھ لے ہمیں اپنے آپ سے کوئی رہائی دلاہی نہیں سکتا ہمیں اپنی جان سے زیادہ پیاری اپنی اسیر ی ہے۔ کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے!

گیلپ انٹر نیشنل نے پچھلے دنوں دنیا بھر میں خوش رہنے والے ممالک کی فہرست جاری کی ہے جس میں پیرا گوئے کا پہلا جب کہ پاکستان کا 117 نمبرہے۔ گیلپ انٹرنیشنل کی جاری کردہ فہرست میں حیران کن طور پر پہلی 10 خو ش رہنے والی اقوام میں سے 9 کاتعلق لا طینی امریکا سے ہے۔ خوش رہنے والے لوگوں کی اس فہرست میں گزشتہ دو سال سے براجمان پیراگوئے اس سال بھی پہلے نمبر پر ہے جب کہ پانامہ دوسرے اورگوئٹے مالا کے باسی تیسرے نمبر پر ہیں۔ متحدہ عرب امارت کا 15 واں کینیڈاکا 16 واں آسٹریلیا کا18 واں دنیا بھر میں سب سے زیادہ خوش سمجھے جانے والے امریکیوں کا 24 واں اور چین کا 31 واں نمبر ہے۔

بھارت 78 واں جب کہ خوش رہنے والی اقوام میں افغانی 92، نمبر پر ہیں پاکستان خوش رہنے والے ممالک میں افغانستان سے بھی پیچھے چلا گیاہے جی اب آپ کیا کہیں گے ابراہام لنکن نے کہا تھا ’’آدمی اتنا ہی خوش ہوتاہے جتنا کہ وہ ہونا چاہتا ہے‘‘ دراصل ہمیں جو سماجی خیالات اور حالات ورثے میں ملتے ہیں بغیر ہم سوچے سمجھے بغیر قبول کر لیتے ہیں اس کی ایک تویہ وجہ ہے کہ انسان غور و فکر سے جی چراتا ہے اور دوسر ی یہ کہ ان کی جانچ پر کھ کا عمل خاصا اذیتناک ہوتا ہے لہذا غور و فکر نہ کرنے کی وجہ سے ہمارے ذہنوں میں ان گنت جالے بن جاتے ہیں اور ہم ان جالوں سے اس قدر مانوس ہو جاتے ہیں کہ ہم انھیں صاف ہی نہیں کرنا چاہتے۔

یہی ہمار ا ہمیشہ ہی سے یہ المیہ رہا ہے کہ ہم لفظوں کو ان کے اصل معنی میں کبھی بھی سمجھ ہی نہیں پائے ہیں۔ لفظ کو سمجھنے کے لیے لفظ میں داخل ہونا پڑتا ہے تب ہی جا کر اس لفظ کے معنی کا احساس آپ کو اندر سے جگاتا ہے جس طرح کہ گورکن مردے دفن کر کر کے زندگی اور موت کے معنوں سے اتنا بے معنی ہو جاتا ہے کہ اس کے نزدیک لفظ زندگی اور مو ت صرف پتھر بن کے رہ جاتے ہیں کچھ لفظ چیختے ہیں کچھ لفظ چلاتے ہیں کچھ لفظ روتے ہیں کچھ لفظ ہنستے ہیں کچھ لفظ مسکراتے ہیں بس آپ کے اندر انھیں سننے کی سمجھ اور صلاحیت ہونی چاہیے جس طرح ایک منظر آتا ہے اور گذر جاتاہے اسی طرح لفظ آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔

جب آپ میں لفظ کے اصل معنی کو سمجھنے کا احساس پیداہو جاتا ہے تو پھر لفظ آپ کے اندر ٹہر جاتے ہیں اور جو لفظ گزر جاتے ہیں وہ بے معنیٰ ہو جاتے ہیں ہم سب گورکن بن چکے ہیں ظلم، ناانصافی، کرپشن، ملاوٹ، جہالت، غربت، افلاس، فاقے، ایمانداری، کردار، خوشحالی،، موت، خوشیاں یہ سب لفظ ہمارے لیے بے معنی ہیں۔ ان سب الفاظ کی اہمیت اور حیثیت ہمارے نزدیک فقط پتھروں سے زیادہ کچھ نہیں ہے بلکہ اکثر تو ایسا لگتاہے کہ ہم سب بھی پتھر بن چکے ہیں، ترقی، خوشحالی، خو شی، احساسات، کے لیے کسی بھی معاشرے میں سب سے ضروری عنصر تبدیلی کا ہے اگر آپ تبدیلی کے سامنے خود ہی دیوار بن کے کھڑے ہو جائیں گے تو پھر معاشرے میں کیسے تبدیلی آئے گی کسی بھی سماج کی تبدیلی کے لیے عملی جدوجہد کی ضرورت نہیں ہوتی محض سوچ و فکر کی تبدیلی ہی سے سماج تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

اگر فکر اور سو چ کو تبدیل کر دیا جائے تو سماجی تبدیلی کا آغاز ہو جاتا ہے لیکن اس کے لیے سب سے ضرو ری چیز یہ ہے کہ پہلے آپ کو اسی بات کا احسا س ہو جانا چاہیے کہ آپ کی سو چ و فکر غلط ہے اور یہ کہ ساری، خرابیاں اور برائیاں اسی غلط سو چ و فکر کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں اور ساتھ ساتھ یہ کہ آپ اپنی ناکامی کو بھی تسلیم کر لیں۔ امریکا کے ایک شخص نے 1831میں تجارت شروع کی اس میں وہ ناکام ہو گیا 1832 میں اس نے ملکی سیاست میں حصہ لیا مگر وہاں بھی اس نے شکست کھائی 1834  میں اس نے دوبارہ تجارت شروع کی اس بار بھی وہ اپنی تجارت میں ناکام رہا۔1841 میں اس کے اعصاب جواب دے گئے 1843 میں دوبارہ سیاست میں داخل ہوا۔

اس کو امید تھی کہ اس بار اس کی پارٹی اس کو کانگریس کی ممبری کے لیے نامزد کرے گی، مگر آخری وقت تک اس کی امید پوری نہ ہو سکی اس کا نام پارٹی کے امیدواروں کی فہرست میں نہ آیا۔ 1855 میں اس کو پہلی بار موقع ملا کہ وہ سینیٹ کے لیے کھڑا ہو مگر وہ الیکشن ہار گیا۔ 1858 میں دوبارہ سینیٹ کے الیکشن میں کھڑا ہوا اور پھر شکست کھائی یہ بار بار ناکام ہونے والا شخص ابراہام لنکن تھا جو 1860 میں امریکا کا صدر منتخب ہوا اور اس نے امریکا کی تعمیر و ترقی میں اتنا بڑا کام کیا کہ آج وہ نئے امریکا کامعمار سمجھا جاتا ہے۔

ابراہام لنکن کو امریکہ کی قومی اور سیاسی تاریخ میں اتنا معزز نام کیسے ملا اور وہ اس اونچے مقام تک کس طرح پہنچا۔ ڈاکٹر نارمن ونسنٹ پیل کے الفا ظ میں اس کا جواب یہ ہے کہ وہ جانتا تھا کہ شکست کو کس طرح تسلیم کیا جائے حقیقت پسندی زندگی کا سب سے بڑا راز ہے اور ہارماننا حقیقت پسندی کی اعلیٰ ترین قسم ہے۔ ہار ماننے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس حقیقت کا اعتراف کر لیں کہ آپ دوسروں سے آگے نہیں ہیں بلکہ دوسروں سے پیچھے ہیں بالفاظ دیگر آپ جہاں فی الواقع ہیں وہیں نظری طور پر اپنے آپ کو کھڑا مان لیں۔

ہار ماننے کے بعدآدمی فوراً اس حیثیت میں ہو جاتا ہے کہ وہ اپنا سفر شروع کر دے کیونکہ سفر ہمیشہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں آپ فی الواقع ہیں نہ کہ وہاں سے جہاں ابھی آپ پہنچے ہی نہیں۔ آئیں ہم سب سے پہلے اپنی شکست تسلیم کر لیں کہ ہم دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں ہم اپنے آپ کو خوش نہیں رکھ سکے پھر اس کے بعد اپنا سفر ایک نئی توانائی، امنگ کے ساتھ دوبارہ شروع کر دیں کہ آج ہم اگر خو ش رہنے والے ممالک کی فہرست میں117 ویں نمبر پر ہیں تو اگلے چند سالوں میں انشاء اللہ پہلے نمبر پر ہونگے اور ہم ایک بے حس قوم نہیں بلکہ زندہ قوم بن کر دکھائیں گے۔

غریبوں کی پہنچ سے دور رکھیں…

$
0
0

سوچ لو: سوچ لو۔ اگر سوچ سکتے ہو تو لیکن جناب آپ کو سوچنے کی فرصت کہاں؟ آپ کے پاس ہر روز اور ہر پل مرتے ہوئے لوگوں کی آہیں سننے کا وقت کہاں؟ سرکاری اسپتالوں کے گندے بستروں پر پڑی زندہ لاشوں کو دیکھنے والی نظر کہاں؟ ٹوٹی ہوئی چارپائی پر زندگی اور موت سے لڑتی سانسوں کو سننے والی سماعتیں کہاں؟ حضور سوچ لیں… وقت ریت کی طرح جہاں اس ملک کے غریبوں کے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے وہی آپ کے پاس بھی اب وقت کم ہے۔ سوچ لو میرے ملک کے حکمرانوں کہ کہیں وقت آپ کے ہاتھ سے بھی نہ چلا جائے۔

ہم سب نے سنے ہیں آپ کے دعوی اور وعدوں میں قید خوشحالی لیکن آپ کا ظلم تو دیکھ لیں۔ اپنی آنکھوں کو چند لمحوں کے لیے کھول لیں اور جو دعوی آپ نے بڑے بڑے ہندسوں کی صورت میں ہمیں دکھایا ہے وہ ہمیں سمجھ نہیں آتا ۔ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ جب آپ نے اپنی بجٹ کی فائل سے موٹے موٹے حروف ہمیں بتانے کی کوشش کی تو کراچی کی سڑک کے کنارے میڈیکل اسٹور پر امین کبھی آسمان کو تو کبھی اپنے ہاتھ میں رکھے تیس روپے دیکھ رہا تھا ۔ کل تک تو وہ اپنے بچے کی کھانسی کے لیے شربت 30 روپے کا لیتا تھا جو آپ کے بجٹ سے ایک ہفتہ پہلے ہی 60 روپے کا ہو گیا۔ آپ تو لندن سے منگوا لینگے ۔۔ امین مزید تیس روپے کہاں سے لائے جس نے ایک وقت کی روٹی چھوڑ کر یہ پیسے بچائے تھے ۔

سات دنوں میں اربوں روپے کما لیے گئے لیکن آپ کو سوچنے کی فرصت کہاں ۔۔؟ آپ کی بیٹی کو درد ہو تو فورا لندن کا ٹکٹ کٹوا لیا جاتا ہے۔ خاندان کا خاندان، بیس کروڑ انسانوں کو جنگل میں چھوڑ کر لندن چلا جاتا ہے ۔ لیکن جناب لاہور میں بھی تو کئی بیٹیاں ایسی تھیں جو درد سے چلا رہی تھیں لیکن آپ نے آنکھیں بند کر لیں۔ آپ کو معلوم ہے ؟ نہیں۔ آپ کو کہاں فرصت؟ کہ جب اربوں کے اخراجات میں آپ ہمیں کھربوں کی باتیں بتا رہے تھے اُس وقت لاہور کی گلیوں میں اربوں روپے کون کما رہا تھا ۔؟ اب لوگ درد بھی نہیں لے سکتے۔ کیونکہ درد کی گولی بھی اُن کی پہنچ سے پار ہو گئی۔ لاہور میں مزدور کی تنخواہ کتنی ہے۔؟

آپ جو لمبا لمبا حساب کر رہے تھے۔ شاید آپ کو معلوم نہ ہو۔ کہ ایک مزدور اوسط تین سو روپے روزانہ پر کام کرتا ہے ۔ وہ جو درد کی دوا 100 روپے کی خریدتا تھا  جب آپ ترقی کی راہیں دکھا رہے تھے اور بجٹ پر ہمیں قائل کر رہے تھے وہ دوا 150 کی مل رہی تھی۔ ہم جاہلوں کا کیا لینا کروڑوں کے حساب سے۔ بس اتنا تو دیکھ لیتے کہ مزدور کی آدھی تنخواہ کہاں چلی گئی؟ لیکن آپ کے کان کہاں سُن سکتے کہ گھر میں پڑا نوجوان کس طرح سسک رہا تھا ۔

حضور سچ کہا آپ نے، اور آپ ہمیشہ ہی سچ کہتے ہیں کہ روپیہ مستحکم ہو گیا۔ مگر ہم جیسے غریبوں کا جیب میں یہ مستحکم نہیں ہو سکا۔ ہماری جیبوں میں شاید اسے ٹھہرنا ہی نہیں آتا۔ مجھ جیسا عام پاکستانی تو آج تک لاکھ روپے ساتھ نہیں دیکھ سکا ہمیں کیا معلوم کہ یہ اربوں روپے لکھے کیسے جاتے ہیں ؟ ہم کیا جانیں کہ صنعت اتنی بڑھ گئی ہے کہ پوری دنیا واہ واہ کر رہی ہے۔ ہم پاکستانیوں کو تو یہ معلوم ہے کہ جس بجٹ کو آپ نے گھنٹوں میں پڑھ دیا ہم اُس کی دھمک ایک مہینے سے محسوس کر رہے تھے۔ جناب، آپ اربوں، کھربوں کا حساب رکھتے ہیں ہم پاکستانیوں کو کیا معلوم کہ آپ نے دس کا نوٹ بھی دیکھا ہے یا نہیں۔ جہاں آپ جان دار حساب کتاب ہم پر اُلٹ رہے تھے اُس سے کچھ ہی فا صلے پر سب حیران تھے کہ الٹی روکنے والی دوا جو 15 روپے کی ملتی تھی وہ 25 روپے کی ہوگئی۔

حضور بس دس روپے ہی تو بڑھے ہیں آپ کی نظر میں یہ دس روپے کچھ بھی نہیں ہونگے۔ عمران خان صاحب کو الیکشن سے پہلے کی اور بعد کی ساری دھاندلی نظر آتی ہے۔ یہ دس روپے کی دھاندلی کسی کو نظر نہیں آئی ہو گئی کیونکہ اس سے ایک مہینے میں اربوں روپے بنا لیے گئے۔ لیکن ہم سے پوچھو کہ دس روپے کیا ہوتے ہیں؟ ایک روٹی سات روپے کی تھی جو 8 روپے کی ہو گئی۔ اس دس روپے میں آدھی آدھی کر کے ہمارے دو بچے ایک وقت کا کھانا کھا سکتے ہیں لیکن آپ کو کیا معلوم کہ یہ دس روپے کیا ہوتے ہیں ۔

آپ خاص آدمی ہیں اس حکومت کے ہم جیسے غریبوں کا سہارا آپ ہی تھے۔ امید تھی کہ آپ ہمیں یوں پل پل مرنے نہیں دینگے لیکن ہوا کیا؟ آپ نے کہا کہ مہنگائی کی شرح 8.5 فیصد رہی۔ مجھے یہ سمجھ آیا کہ 100 روپے میں 9 روپے کا خرچہ بڑھ گیا۔ اور ہماری مزدوری؟ کتنی بڑھی؟ ہماری روز کی اجرت میں اضافہ ہوا؟ نہیں بلکہ کیا ہوا۔ آپ کے عظیم الشان اعلانات سے پہلے ہی ہمارے بچوں کے لیے ملنے والا بخار کا شربت 25 روپے سے 55 روپے کا ہو گیا۔ جن کے بچے ہیں اُن سے پوچھے کہ مہنگائی کتنی بڑھی ہے۔ خدا کے واسطے۔ کچھ کرم کریں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اگر دوا اپنی مدت پوری کر چکی ہو تو اُسے پینا زہر ہوتا ہے۔

یہ حساب کتاب کی دوکان وہ ہی پرانی ہے جو ہر حکومت ہمیں نئی بوتل میں ڈال کر دیتی ہے۔ اب اس کی مدت ختم ہو گئی ہے۔ اگر سوچ سکتے ہو تو سوچ لو؟ لیکن تم نہیں سوچ سکتے کیونکہ تمھیں معلوم ہی نہیں ہے کہ پچاس کا نوٹ ایک غریب کی زندگی میں کیا اہمیت رکھتا ہے۔ آپ اربوں، کھربوں کی باتیں کرنے والے، آپ کو کیا معلوم کہ زخموں میں مرہم کیس رکھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ جہاں آپ تھے وہی سے کچھ دور محلے کے پاس ایک دکان میں زخم کا مرہم جو 37 روپے کا مل رہا تھا آپ کی تقریر سے پہلے اُس کی قیمت 70  روپے ہو گئی تھی۔ یہ 8 فیصد نہیں   حضور، اسے ہم جیسے جاہل 100 فیصد کہتے ہیں۔

لوگ کہتے ہیں کہ آپ بھی دل کے مریض ہیں۔ اور یہ درد دل کسی کو بھی سکون نہیں لینے دیتا۔ غریب اپنے دل کے ساتھ کیا کرے۔ آپ جیسے لوگ تو حساب کتاب کے درمیان سے دل کی دوا کر لیتے ہیں لیکن جناب یہ تو بتائے کہ وہ غریب کیا کرے جو اپنے دل کو سنبھالتا ہے تو روٹی ہاتھ سے چلی جاتی ہے۔ روٹی ہاتھ سے جاتی ہے تو بچے ہاتھ سے چلے جاتے ہیں۔ خود کو بچائے یا اپنی کائنات کو؟

سوچیں لیکن آپ کیسے سوچ سکتے ہیں۔ آپ تو اربوں کھربوں کے حساب کتاب میں الجھے ہوئے بیٹھیں ہیں۔ جب آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر یہ بتا رہے تھے کہ آیندہ بجٹ میں آپ کی دنیا سنور جائے گی تو ہم جیسے غریب اپنے دل کو پکڑے بیٹھے تھے۔ جو دل کی دوا 25 روپے کی ملتی تھی وہ 100 روپے کی ملنے لگی۔ سچ جتنا دل بچا تھا وہ بھی چلا گیا اور ہم گاتے رہے کہ کوئی جائے۔ اُسے ڈھونڈھ کے لے آئے۔ ناجانے یہ دل کہاں کھو گیا ؟ سچ لکھا ہوتا ہے کہ دوا کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں۔ آپ نے اُس پر تبدیل کر کے ہمیں یہ تحفہ دیا کہ دوا کو غریبوں کی پہنچ سے دور رکھیں…

پھر کل کا انتظار کیوں کریں

$
0
0

میں اپنی تحریر کے لیے جب بھی لفظ منتخب کرتی ہوں وہ زخمی نظر آتا ہے، ٹپکتے ہوئے لہو کو دیکھ کر میں خوفزدہ ہوتی ہوں کہ میری تحریر کس قدر لہولہان ہو گی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف لفظ زخم خوردہ ہیں یا ہمارے جسم و روح بھی۔

لفظ جو قلم سے تحریر کیے جاتے ہیں لفظ جو زبان سے نکلتے ہیں۔شاید اماں نے بھی کوئی زخم کھایا ہے۔ کافی دیر سے کسی کو بد دعا دے رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب آدمی پریشان حال ہو گا اور احتجاج کا کوئی راستہ بھی اس کے پاس نہ ہوگا تو صرف اس کا اختیار بد دعاؤں پر رہ جاتا ہے۔

بڑھاپا اور قیامت کی گرمی۔ کئی کئی گھنٹوں کی مسلسل لوڈشیڈنگ کا عذاب۔ فریج کا پانی گرم، کھانا اور دیگر اشیا خراب۔ وولٹیج کم و زیادہ۔ الیکٹرانک کی اشیا برباد۔ لوڈشیڈنگ کے باعث کن کن پریشانیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ فہرست تو الگ ہے اس وقت مسئلہ امتحان کا ہے۔ اب ہر شخص کے یہاں تو جنریٹر یا UPS نہیں۔ اگر ہو بھی تو غیر اعلانیہ طویل لوڈشیڈنگ کے باعث UPS کی بیٹری بھی جواب دے جاتی ہے۔ جب لائٹ ہی نہیں تو چارج کیسے ہو۔ کس کو پرواہ۔ جنھیں پرواہ ہونی چاہیے ان کے یہاں لائٹ تھوڑی جاتی ہے۔

امتحان کا زمانہ پانی غائب، بجلی غائب، پنکھا غائب، روشنی غائب، ایمرجنسی لائٹ بھی تو بجلی سے چارج ہوتی ہے۔ سو اب آپ موم بتی سے کام لیں یا تیل کا دیا جلائیں طالب علم بے چارے اس وقت تو میں بے چارے ہی کہوں گی ایسے حالات میں کمرہ امتحان میں طالب علم کی کارکردگی کیا ہو گی۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے علاقے میں تو بجلی کبھی کبھی جاتی ہے۔ لو حساب پھر ایک سوال؟

دل پر چوٹ سی پڑتی ہے کیا ہم ٹیکس نہیں دیتے کیا ہم بجلی کا بل نہیں دیتے پھر ہم ان خوش قسمتوں میں کیوں شامل نہیں۔

بجلی کا دورانیہ جب 2 گھنٹے کے بجائے 6 گھنٹے ایک وقت میں ہو جائے تو اماں کا بلڈ پریشر ہائی نہ ہو تو کیا ہو۔ ویسے بھی ان کے لاڈلے پوتے کا امتحان ہے شامت اعمال کہیں ہم نے پوچھ لیا کہ اماں کس کو بد دعا دے رہی ہو۔ بس غضب ہو گیا۔ عتاب کا رخ ہماری جانب تھا۔

’’اے بی بی! اتنی ننھی بچی نہیں ہو سب جانتی ہو کس کو کہہ رہی ہوں۔‘‘ اماں کا غصہ دو آتشہ دیکھ کر ہم نے وہ پنکھا ڈھونڈا جو سگنل سے خریدا تھا۔ پلاسٹک کا پنکھا ہلکا سا اور اماں پر جھلنا شروع کر دیا۔ دنیا آگے ترقی کر رہی ہے، اور ہم پیچھے کی طرف لوٹ رہے ہیں۔لوگ A.C گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور ہم گھر میں A.C تو دور کی بات بھلا اتنی لمبی لوڈشیڈنگ میں کیا خاک A.C چلے گا۔ پنکھے پر گزارہ کر رہے ہیں آج سے 60 سال پہلے بھی ہم پنکھے ہاتھ سے جھلتے تھے۔ گھر میں رنگین پنکھے بناتے تھے ستارے اور جھالریں لگا کر۔

اماں اپنے ماضی میں دور تک چلی گئیں اور ہم اپنے حال پر دور تک نظر ڈالنے لگے۔ بچپن میں ایک کہانی سنی تھی کہ پیچھے مڑ کر دیکھو گے تو پتھر کے ہو جاؤ گے ہم پتھر کے ہوں یا نہیں لیکن یہ حقیقت ضرور ہے کہ ہم پتھر کے دور میں داخل ہو رہے ہیں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم شدید گرمی میں کنواں کھدوانے پر مجبور ہیں۔ ہاتھ کا پنکھا، کنواں، بالٹی بالٹی پانی کا استعمال۔

آج کل اماں کی طرح ابا کا مزاج بھی چڑچڑا ہوتا جا رہا ہے، تنخواہ اور پنشن میں اضافہ آٹے میں نمک کے برابر اور مہنگائی کا پہاڑ سامنے۔ ابا بڑبڑائے۔ویسے ہم نے لاکھ سمجھایا کہ ذائقے کے لیے نمک ضروری ہے۔ مگر ہماری بات سن کر ابا کے منہ کا ذائقہ مزید بگڑ گیا۔ پانی کے ٹینکر کے لیے صبح صبح لائن میں لگنا اور قیمتاً ٹینکر کا پانی خریدنا۔ لو بھائی! پانی اور بجلی دونوں سہولتوں سے ہم محروم رہ گیا کچرا تو وہ بھی اٹھانے کے لیے ماہانہ پیسے دیتے ہیں۔ اب تو سانس لیتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ رکنے لگی تو آکسیجن کے پیسے دینے پڑیں گے۔

لیجیے صاحب پیسہ پیسہ ہر طرف پیسے کا کھیل ہے۔ اور یہ کھیل کچھ لوگ بڑی مہارت اور سلیقے سے کھیل رہے ہیں۔ شکست بھی اپنی اور فتح بھی اپنی گویا بازی اپنی مات نہیں لیکن جو لوگ اناڑی ہیں وہ پھنس جاتے ہیں۔ خیر کچھ لوگ تو بے سبب بھی پھنس جاتے ہیں پھر یہاں سے پیسے کا کھیل شروع ہوتا ہے۔

کھیل کوئی سا بھی ہو کھیلنے کا فن آنا چاہیے۔ جسے فن میں مہارت ہو وہ فنکار ہے اور ہمارے یہاں فنکاروں کی کمی نہیں۔ اداکاری کا شعبہ بھی کسی سے کم نہیں بلکہ اسی شعبے کے اثرات تو ہر خاص و عام میں منتقل ہو رہے ہیں۔ بلکہ اب تو لوگ اتنی کامیاب اداکاری کرتے ہیں کہ اصل چہرہ پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے۔اصل یا نقل کا فرق مشکل ہوتا پھر بھی تجربہ کار لوگ اصل و نقل کے درمیان فرق کر ہی لیتے ہیں۔ لیکن کیا فرق پڑتا ہے۔ بہت سی حقیقتوں کا ہمیں علم ہوتا ہے۔ لیکن بے عملی اور بے اختیاری کے دور میں حقائق سے آگاہی کوئی بڑا انقلاب برپا نہیں کرسکتی ہے۔ بلکہ یہ آگاہی ہمیں اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹنے لگتی ہے اور ہم لمحہ بھر کے لیے سوچتے ہیں کہ کاش ہم کچھ کرسکتے۔

ہم میں سے ہر شخص کچھ نہ کچھ کرنا چاہتا ہے لیکن وسائل نہیں ہاں البتہ مسائل ضرور ہیں۔ مسائل پر بات تو کی جاسکتی ہے لیکن خاتمے کا کوئی حل نہیں نکلتا اور مسائل کچرے کے ڈھیر کی طرح جمع ہوتے رہتے ہیں بس یہ جمع کرنے کی عادت نہیں جاتی۔ عادت کا کیا ہے۔ دروغ گوئی کی عادت بھی ہماری فطرت و زندگی کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔ اور اسی کا سہارا لے کر ہم مومن کے اس شعر کا سہارا لیتے ہیں کہ شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو۔

خیر آواز آواز کی بات ہے۔ 65ء کی جنگ میں آواز کے یہ شعلے ایسے لپکے تھے کہ جسم و جاں میں قومی جذبے کی آگ بھڑکا گئے۔ اور نغموں کی صورت میں دشمنوں کی صفوں میں قیامت برپا کردی۔ اور کبھی یہی آواز مجمع کو جمع کرنے اور استعمال کرنے کے کام بھی آتی ہے آواز کا خوبصورت ہونا ضروری نہیں دیکھنا یہ ہے کہ لفظوں کا استعمال کیسا ہے۔ خیر پہلے لفظ اعتماد بخشتے تھے اور اب یہی لفظ دھوکا دیتے ہیں۔ سچ ہے ’’دھوکا دیتے ہیں یہ بازی گر کھلا‘‘۔

پہلے تھوڑی شرم تھی۔ کام چوری چھپے ہوتا تھا۔ لیکن اب تمام حجاب اٹھ گئے ہیں اور جب پردہ ہی اٹھ جائے تو پھر خیر بات ہے سمجھ کی اب ہمارے قاری اتنے ناسمجھ بھی نہیں کہ بات کو سمجھ نہ سکیں۔ اللہ میاں نے ہماری قوم کو ذہن کی دولت معدنی دولت کے ساتھ خوب عطا کی ہے۔ بس جس دن ہم نے دونوں دولتوں کا صحیح استعمال کرلیا ہم دنیا کی بہترین قوم بن جائیں گے۔ ہم اچھے دنوں کے خواب دیکھتے ہیں۔ یقینا اچھے دن آئیں گے۔ ہمارا یقین انشاء اللہ سلامت رہے گا۔ لیکن اس کے لیے ہمیں اچھے کام کرنے ہوں گے۔ انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی۔ پھر کل کا انتظار کیوں کریں، آج کیوں نہیں؟

اور میں اکیلا رہ گیا

$
0
0

یہ جمعے کا دن تھا، 23 مئی 2014کی رات ساڑھے نو بجے حمید بھائی نے آغا خان اسپتال میں آخری سانس لی اور وہ آگے بڑھ گئے۔ اس طرف جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا، بس یادیں آتی رہتی ہیں۔ ہم چار بھائی اور ایک بہن ساتھ ساتھ چلے اور حمید بھائی کے بعد اب میں اکیلا رہ گیا ہوں، میں بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا۔ ہمارے ابا اماں نے اپنے بچوں کو تعلیم دلائی، خاندان میں پہلی بار علم کے چراغ روشن کیے۔ حمید بھائی کے جانے پر سب کچھ پھر سے یاد آ رہا ہے۔

حمید نیشنل بینک آف پاکستان میں ملازم تھے اور ترقی کرتے کرتے اسسٹنٹ وائس پریزیڈنٹ کے عہدے تک پہنچے۔ پورا بینک کیریئر آڈٹ ڈپارٹمنٹ میں رہے۔ وہ اصولوں کے سخت پابند تھے۔ دوران آڈٹ برانچ والوں کی چائے تک نہیں پیتے تھے۔ پریزیڈنٹ نیشنل بینک سے لے کر نیچے تک سب عبدالحمید خان کو جانتے تھے۔ حمید نے اس طرح اپنے فرائض ادا کیے کہ ان کے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی نیشنل بینک کے در و دیوار اور افسران، ملازمین انھیں بھولے نہیں تھے۔ بس ان کا نام لیں اور پھر ان کے قصے کہانیاں شروع۔ ایک بار صدر نیشنل بینک نے ایک فائل منگوائی، فائل حمید بھائی کے پاس تھی، اہم تھی۔

صدر نیشنل بینک کا خادم آیا اور فائل کے لیے بھائی سے کہا تو انھوں نے اسے یہ کہہ کر خالی ہاتھ واپس بھیج دیا ’’جاؤ اور پریزیڈنٹ صاحب سے کہہ دو عبدالحمید خان فائل نہیں دے رہا‘‘ خادم نے یہی الفاظ پریزیڈنٹ کے گوش گزار کر دیے۔ جواباً صدر صاحب مسکرائے اور خادم سے کہا ’’ٹھیک ہے تم جاؤ‘‘ کچھ دیر بعد حمید بھائی خود مذکورہ فائل لے کر صدر صاحب کے پاس گئے اور ان سے کہا ’’اتنی اہم فائل جس کا میں آڈٹ کر رہا ہوں میں کسی کے بھی حوالے نہیں کر سکتا۔

میں پانچویں فلور پر ہوں، آپ پہلے فلور پر، راستے میں کوئی بھی کاغذ غائب کیا جا سکتا ہے‘‘ یہ تھے حمید بھائی، جن کے سامنے بے شمار فائلیں آئیں جو ان سے باتیں کرتی تھیں اگر بھائی چاہتے تو بہت کچھ کر سکتے تھے مگر وہ ساتھ ایمان کے صاف شفاف وقت گزار کر ریٹائر ہوئے۔ اور ماں باپ کی لاج رکھ لی۔ اپنے دونوں بڑے بھائیوں مشتاق مبارک اور حبیب جالبؔ کی طرح انھوں نے بھی نیک نامی کمائی گو ان کا لکھنے لکھانے سے کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا مگر وہ بھی حق و سچ کے قائل تھے۔

آج حمید کے انتقال پر سارے بہن بھائی یاد آرہے ہیں۔ 1947ء میں اپنے ابا اور اماں کے ساتھ ہم بہن بھائیوں نے دہلی سے کراچی ہجرت کی تھی، ہمارے ابا بھی نثر اور شاعری کرتے تھے، ان کا موضوع مذہب، جگ بیتی تھا۔ دہلی سے کراچی آنے کو انھوں نے اس طرح بیان کیا ’’اور پھر ہم خواجہ نظام الدین اولیا کی چوکھٹ سے اٹھ کر بابا عبداللہ شاہ غازیؒ کے قدموں میں آ بیٹھے‘‘ بٹوارے کے وقت بھائی مشتاق کی شادی ہو چکی تھی۔ اماں ابا نے نئی نویلی دلہن اور بیٹی بیٹوں کے ساتھ کراچی کے علاقے جٹ لائن میں ڈیرے ڈال دیے۔ جہاں ایک کشادہ سرکاری کوارٹر بھائی مشتاق کے نام سرکار نے الاٹ کر دیا تھا۔ بھائی مشتاق محکمہ اطلاعات و مطبوعات میں ملازم تھے اور شاعر بھی بہت اچھے تھے جو قارئین مشتاق مبارک سے واقف نہیں، ان کے لیے بھائی مشتاق مبارک کا ایک قطعہ بطور تعارف لکھ رہا ہوں:

دوستوں کی ستم ظریفی کو

ہم فقط اپنی سادگی سمجھے

دوست میرے خلوص کو اکثر

میرا احساس کمتری سمجھے

مشتاق بھائی اپنے دور کے بڑے شعرا میں شمار کیے جاتے تھے اور یہ بھی کہ ہر طبقہ فکر میں ان کو مقبولیت حاصل تھی۔ ساٹھ کی دہائی کے وسط سے بھائی مشتاق کو شوگر، بلڈ پریشر نے گھیر لیا تھا۔ ان موذی بیماریوں کی وجہ سے جسم کے دیگر اہم اعضا بھی متاثر ہوئے۔ مجھے خوب یاد ہے بھائی مشتاق جناح اسپتال میں داخل تھے میں اور میرا بھتیجا مرحوم محمود الحسن (مشتاق بھائی کا بیٹا) تیمار داری کے لیے اسپتال میں موجود رہتے تھے۔ حمید نے ہم دونوں کی جیبوں میں سو سو روپے ڈال دیے تھے کہ بھائی کے لیے کسی دوا کی ضرورت پڑے تو دقت نہ ہو۔ اس زمانے کے سو روپے یوں سمجھیے جیسے آج کے بیس ہزار روپے۔ 1969 میں حمید کی شادی ہوئی، بارات کو کراچی سے ملتان جانا تھا۔

جولائی کا مہینہ اور ملتان شریف، سمجھیں قیامت کی گرمی، بھائی مشتاق بارات کے ساتھ جانے پر بضد اور حمید بھائی شادی ہی سے انکاری کہ اگر شدید بیمار بھائی مشتاق بارات کے ساتھ جائیں گے تو میں شادی نہیں کروں گا، شادی کے لیے میں بھائی کی جان خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔ لیکن ہوا وہی جو خدا کو منظور تھا۔ مشتاق انتہائی بیماری کی حالت میں ملتان گئے، چھوٹے بھائی حمید کے لیے اپنا لکھا ہوا سہرا پڑھا۔ حمید کی شادی میں لاہور سے میاں محمود علی قصوری بھی آئے ہوئے تھے اور نکاح نامہ پر بطور گواہ انھوں نے دستخط بھی کیے، ملتان نیشنل عوامی پارٹی کے قسور گردیزی بھی موجود تھے۔ 12 جولائی 1969کے دن حمید کی شادی ہوئی اور ڈاکٹروں کے کہنے کے عین مطابق پندرہ دن بعد بھائی مشتاق 27 جولائی 1969 کو میو اسپتال لاہور میں انتقال کر گئے۔

ہماری اماں کے ہاں نو بچے ہوئے۔ آٹھ بیٹے اور ایک بیٹی، چار بیٹے چھٹپنے میں ہی انتقال کر گئے، یہی کوئی ڈھائی سال کا، تو کوئی ساڑھے تین سال کا ہو کر۔ ہم پانچ بہن بھائیوں، مشتاق مبارک، حبیب جالب، رشیدہ بیگم، عبدالحمید خان اور سعید پرویز نے لمبی عمریں پائیں۔ مشتاق بھائی 1969 میں فوت ہوئے۔ بھائی حبیب جالب 1993 میں فوت ہوئے۔ بہن رشیدہ بیگم 2010 میں فوت ہوئیں اور 2014 میں بھائی حمید بھی مجھے اکیلا چھوڑ کر چلے گئے۔ 23 مئی 2014کی رات گیارہ بجے اسپتال سے میں اپنے بچوں کے ساتھ حمید کے گھر کے لیے روانہ ہوا۔ میں کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا کہ اچانک ایک خیال نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ زندگی میں پہلی بار یہ خیال میرے دل و دماغ میں جگہ بنا رہا تھا ’’میں اکیلا رہ گیا۔‘‘

ہم بہن بھائیوں نے زندگی کے یادگار مہ و سال ایک ساتھ گزارے ہیں۔ غربت و تنگدستی کے حالات تھے، مگر باہمت، غیرت مند ماں باپ نے حوصلہ نہیں ہارا۔ اماں کا مٹی کے بنے چولہے میں اوپلے جلا کر ہانڈی روٹی بنانا اور پھر چولہے کے قریب ہی سارے بہن بھائیوں کا مل کر کھانا کھانا۔ وہ مزا پھر زندگی میں نصیب نہیں ہوا۔ ہماری اکلوتی بہن رشیدہ کا کردار بھی بڑا اہم ہے۔ یہ رشیدہ آپا ہی تھیں کہ جن کی وجہ سے بھائی حبیب جالب کا پہلا مجموعہ ’’برگ آوارہ‘‘ شایع ہوا۔ واقعہ یوں ہے کہ لاہور کے مشہور مکتبہ کارواں کے چوہدری عبدالحمید نے حبیب جالب سے کہا کہ مسودہ لائیں، ہم شایع کریں گے۔

جالب نے غزلیں، نظمیں لکھنا شروع کیں تو پچیس سے آگے نہ بڑھ سکے۔ اسی پریشانی کو لیے جالب لاہور سے کراچی آئے۔ یہ 1957 تھا۔ آپا رشید کو بھائی کی پریشانی کا پتہ چلا تو وہ صندوق میں سے ایک پوٹلی لے آئیں اور کاغذات کے پرزے بھائی کے سامنے ڈھیر کر دیے۔ یہی وہ کاغذات کے پرزے تھے جن پر ’’برگ آوارہ‘‘ لکھی ہوئی تھی۔ آپا رشیدہ کی عادت تھی کہ بھائی جالب کے میلے کپڑوں کی جیبوں سے کاغذات، سگریٹ کے پیکٹ کو سیدھا کر کے لکھے اشعار سنبھال لیتی تھیں۔ یوں 1957 میں بھائی حبیب جالب کا پہلا مجموعہ منظر عام پر آیا۔ حنیف رامے کو بھی یاد کر لیتے ہیں کہ جنھوں نے برگ آوارہ کا سرورق بنایا تھا۔

احمد ندیم قاسمی صاحب نے فلیپ اور ڈاکٹر عندلیب شادانی نے مقدمہ تحریر کیا تھا۔بھائی حمید کا خاص وصف تھا، ان کا مزاج تھا کہ ان کے بڑے بھائی بہن مشتاق مبارک، حبیب جالب اور آپا رشیدہ بھی ان کی بات کا مان رکھتے تھے۔ وہ جو بھی بات کہتے اسے بڑے بھائی بہن حتیٰ کہ اماں ابا بھی اہمیت دیتے تھے۔ ہم چار بھائیوں میں تین کے ہاتھ میں قلم آیا شاعری اور نثر لکھی، مگر حمید نے اپنے قلم کو ’’جانچ پڑتال‘‘ یعنی آڈٹ جیسے مشکل کام میں استعمال کیا اور اماں ابا، بہن بھائیوں کے نام پر کوئی داغ دھبہ نہ لگنے دیا۔

’’ریٹائرمنٹ کے بعد حمید گھر کے ہوکر رہ گئے تھے، بس کتابیں پڑھنا یا بچوں کے ساتھ باتیں۔ وہ اپنے ہی مزاج کے آدمی تھے۔ جو ان کے مزاج آشنا ہو گئے وہی دوست ان سے ملنے گھر آتے یا حمید بھائی ان کے گھر چلے جاتے۔ باقی ناآشنائے مزاج لوگوں سے وہ نہیں ملتے تھے۔ شعر و ادب سے حمید بھائی کا لگاؤ فطری تھا کہ والد اور بڑے شاعر تھے۔ مجھے بھی یہ شرف حاصل ہے کہ بھائی میرے کالم اپنے پاس جمع رکھتے تھے۔ جیسے بھابی ممتاز (بیگم حبیب جالب) کی وفات پر لکھا کالم ’’تو ایک حقیقت ہے مری جاں میری ہمدم‘‘ یا آپا رشیدہ کی وفات کا کالم۔ ہمیشہ کالم پسند آنے پر وہ مجھے فون کرتے تھے اور حوصلہ افزائی کرتے تھے۔

پتہ ہے! حمید بھائی کو بعد از مرگ کیا مقام و مرتبہ ملا ہے! جی میں بتاتا ہوں سخی حسن قبرستان کراچی ہماری اماں کے عین پہلو میں حمید بھائی کو جگہ نصیب ہوئی ہے اور الحمداللہ یہ فیصلہ میرا تھا کہ اماں کے پہلو میں حمید کو دفنایا جائے۔ آج ان کے جانے پر اپنا وہی شعر دہرا رہا ہوں جو ان چھ اشعار کا حصہ ہے جو میں نے حبیب جالب کے انتقال (1993) پر کہے تھے:

تو جو گیا تو یاد ہمیں پھر آئے بہت

بچھڑے ہوئے سب یار پرانے تیرے بعد

جرم ضعیفی کی سزا

$
0
0

معاملہ صرف ایک مقتولہ فرزانہ اور اس کے قاتل بھائیوں کا نہیں ہے، بلکہ دو طبقات کی طویل داستان ہے، جن میں سے ایک طبقہ طاقتور اور دوسرا ضعیف ہے۔ فرزانہ کا ’’سنگین جرم‘‘ تو یہ تھا کہ اس نے عاقل بالغ ہونے کے ناتے اپنی مرضی سے اپنا نکاح کر لیا تھا، جس کی پاداش میں اس کے خاندان والوں نے اس ’’بے غیرت‘‘ کو’’ غیرت‘‘ کی بھینٹ چڑھا دیا اور اینٹیں مار مار کر اس کے پیٹ میں پلنے والے بچے سمیت اس کو دوسرے جہاں بھیج کر اپنی ’’عزت‘‘ بچا لی۔

فرزانہ نے اپنی مرضی کو خاندان کی مرضی پر ترجیح دے کر جو ’’جرم‘‘ کیا تھا، بلاشبہ اس کی سزا تو اسے دے دی گئی۔ وہ یہ نہ جانتی تھی کہ وہ جس معاشرے میں جی رہی ہے، وہاں روایات کس قدر مضبوط ہیں، جو بھی خاندانی ثقافت، تہذیب و روایات پر حرف آنے کا باعث بنے اس کے ساتھ وہی کچھ ہوتا ہے، جو فرزانہ کے ساتھ ہوا۔ جو بھی عورت خاندان کی ناک کٹوائے، اس کی گردن کاٹ دی جاتی ہے۔ ایک بابا جی کہنے لگے کہ اس خاتون ’’فرزانہ‘‘ نے مشرقی ثقافت کو پامال کیا اور اپنے والدین کی عزت کو بٹا لگایا ہے، اگر عورتیں خود ہی اپنی شادیاں کرنے لگیں تو پھر ہم میں اور مغرب میں فرق ہی کیا رہ گیا۔

عرض کیا کہ بالکل بجا کہ اپنی بچیوں کے لیے جو فیصلہ خاندان کے سمجھدار بزرگ کر سکتے ہیں، ناسمجھ لڑکی کا فیصلہ اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا، لیکن اگر کوئی ناسمجھی کر ہی بیٹھے تو کیا اس کی وہ سزا ہے جو فرزانہ کو ملی؟ فرزانہ نے ثقافت کو ہی پامال کیا ہے، شریعت کو تو نہیں روند ڈالا؟ کیا ثقافت شریعت سے بھی بڑھ کر ہے؟ کیا روایات کی قدر و قیمت انسانی جان سے بھی اعلیٰ ہوئی؟ اسلام تو کہتا ہے: ’’انسانی جان کی حرمت بیت اللہ سے بھی بڑھ کر ہے۔‘‘

ہاں! معاشرے میں حیا و پاکدامنی اور اپنی اقدار بھی ضروری ہیں، لیکن وہ یوں تو نافذ نہیں ہوتیں، جس طرح فرزانہ پر نافذ کی گئی، یوں تو کوئی کسی جانور کو بھی نہیں مارتا کہ اینٹیں مار مار بھیجے کے ساتھ جان ہی نکال دے۔ اگر کوئی کھلی بدکاری بھی کرے تو قانون ہاتھ میں لینے کی کسی کو اجازت نہیں، سزا ریاست دے، اگر لوگ فیصلے خود ہی کرنے لگیں تو پھر یہ ملک و ریاست تو نہیں، بلکہ جنگل ہی بن گیا۔ جہاں قانون اس کا ہی چلتا ہے جو طاقتور ہو۔

دنیا بھی شاید جنگل کا روپ دھارنے ہی چلی ہے۔ یہ جو ہر سال ’’غیرت‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹ کر کئی عورتوں کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا جاتا ہے، یہ جنگل ہی تو ہوا۔ پاکستان میں کس قانون کے تحت 2012ء میں 913 اور 2013ء میں 900 سے زاید خواتین کو ’’غیرت‘‘ کی بھینٹ چڑھایا گیا؟ یہ سلسلہ نجانے کب سے رواں ہے۔ بس غیرت محفوظ رہے، ’’جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی کوئی بات نہیں‘‘ لیکن اس حقیقت سے انکار کیسے کیا جا سکتا ہے کہ قتل تو قتل ہوتا ہے، اس کو غیرت کے ساتھ نتھی کر دینے سے کیا اس کی قباحت کم ہوجاتی ہے، ہر گز نہیں۔

فرزانہ کی بہن کا دعویٰ ہے کہ الزام بھائیوں پر ناحق لگا، قتل تو اقبال نے خود کیا ہے۔ جو بھی ہو سزا تو ضعیف فرزانہ کو ہی ملی۔ قتل بھائیوں نے کیا یا شوہر نے، قتل تو فرزانہ ہی ہوئی ہے، وہ عورت زاد ہے، کمزور ہے، ضعیف ہے اور یہی اس کا جرم ہے۔ عورت تو معاشرے میں ’’غیرت مندوں‘‘ کی جاگیر ہے۔ یہ روایت ہے، جو برس ہا برس سے چلی آ رہی ہے۔ برادریوں کو اس روایت پر فخر ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ضعیف عورت پر اپنی طاقت و جبر کے اظہار کے لیے کسی ’’غیرت‘‘ کا واسطہ ہی ڈھونڈنا پڑے، بلکہ اس ناتواں پر جبر تو بغیر کسی بہانے کے بھی ہو سکتا ہے۔

مرد طاقتور جو ہے، عورت اس کے ماتحت ہے، کمزور ہے۔ طاقتور اپنے ہر حکم کی بجا آوری چاہتا ہے، ہر حال میں اپنی سوچ کی تکمیل چاہتا ہے۔ کمزور کی جان بھی اس کی راہ میں چیونٹی سے ارزاں۔ کیا فرزانہ کے شوہر اقبال کو اپنی سابقہ بیوی عائشہ کو قتل کرنے کے لیے کسی ’’غیرت‘‘ کا سہارا لینا پڑا؟ بالکل نہیں۔ اس نے تو اپنی سابقہ بیوی عائشہ کو صرف اس لیے موت کے گھاٹ اتار دیا کہ وہ اس سے پیچھا چھڑا کر فرزانہ سے بیاہ رچانا چاہتا تھا۔ اپنی خواہش کی تکمیل چاہتا تھا، عورت زاد اس کی خواہش کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ کیسے بن جائے۔ اس کی کیا مجال۔ عورت کے نشانہ بننے کی لیے تو کسی بڑی وجہ کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

بس مرد کے ذہن میں یہ خیال آیا چاہیے کہ عورت میری رٹ کو چیلنچ کر رہی ہے۔ پھر تو عورت کی سزا کے لیے سالن میں نمک زیادہ ڈالنا ، گھر میں چھوٹی موٹی لڑائی اور ناچاقی ہو جانا ، بچے کی بجائے بچی کی پیدائش ہو جانا اور شوہر کی دوسری شادی پر ناراضی کا اظہار ہی کافی ہے۔ پھر کبھی بیوی کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے، کبھی بیوی کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا جاتا ہے، کبھی گلا دبا کر مار دیا جاتا ہے اور کبھی لوہے کے راڈ سے اس کا سر پھاڑ دیا جاتا ہے۔ جرم صرف ضعیف و کمزور ہونا ہی ہے۔

کسی دانا کا کہنا ہے کہ ’’اگر کسی معاشرے کا تجزیہ کرنا مقصود ہو تو اس معاشرے میں عورت کی سماجی حیثیت دیکھ لو۔‘‘ ہمارے معاشرے میں روز عورتوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات چیخ چیخ کر ہمارے معاشرے کا خوفناک تجزیہ خود ہی پیش کر رہے ہیں۔ روز ملک میں خواتین کے ساتھ بھیانک کھیل کھیلا جاتا ہے، آئے روز خواتین کی عصمت دری کے واقعات ’’غیرت ‘‘ والے معاشرے کا نقاب نوچ رہے ہیں۔

ابھی زیادہ مہینے نہیں گزرے کہ پنجاب کے علاقے چنیوٹ میں مسلح افراد نے ایک بے کس و مجبور نوجوان لڑکی کو اس کے گھر سے اٹھایا اور چار افراد اپنی حویلی کے باہر درخت سے باندھ کراس کی عزت سے کھیلتے رہے۔ معاشرے میں کمزور خواتین کے ساتھ اس قسم واقعات کون سی ’’غیرت‘‘ کا پیغام دے رہے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ یہ سب جرم ضعیفی کی ہی سزا ہے۔ معاشرے میں عورت کے استحصال کی کہانی پرانی ہے، جو زمانے کے ساتھ مزید تلخ ہورہی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ملک میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق صرف 2013ء کے دوران ملک بھر میں 56 خواتین کو بیٹی پیدا ہونے کے جرم میں موت کی نیند سلا دیا گیا۔ حالانکہ آفاقی حقیقت یہ ہے کہ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی سمیت ہر روپ میں عورت انتہائی عزت و احترام کی مستحق ہے اور اسلام نے نہ صرف عورت کو انسانی معاشرے میں اس کا جائز مقام دیا، بلکہ اسے وہ حقوق بھی عطا کیے، جن کا اس سے پہلے کوئی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ افسوس یہ ہے کہ ہم ان حقوق کا زبانی تذکرہ تو بہت کرتے ہیں، لیکن انھیں عملی جامہ پہنانے کے معاملے میں بہت پیچھے ہیں، آفاقی قوانین کی راہ میں ہماری ثقافت آڑے آجاتی ہے۔ ان حالات میں ’’علامہ اقبال‘‘ کا یہ شعر ہی پڑھا جا سکتا ہے ؎

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات!


چارج شیٹ کا جواب!

$
0
0

آپ پاک بھارت تعلقات و تنازعات بالخصوص مسئلہ کشمیر کے پس منظر میں خارجہ سیکریٹریوں سے لے کر حکومتی سربراہان کے درمیان ہونے والی گزشتہ ملاقاتوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، نہرو لیاقت ملاقات سے نواز مودی ملاقات تک ہر مذاکرات محض نشستن، گفتن اور برخاستن تک ہی محدود رہے، مگر ان ملاقاتوں میں ہمارے وزرائے اعظم اور صدور نے کشمیر و دیگر معاملات پر پاکستان کا ٹھوس موقف پورے استدلال کے ساتھ بھارتی حکمرانوں کے سامنے رکھا لیکن نواز مودی ملاقات میں صورت حال یکسر مختلف رہی۔

دراصل جب وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنے معاونین کی مشاورت سے بھارت کے نو منتخب وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کا فیصلہ کیا اندرون وطن مذہبی حلقوں اور شدت پسند تنظیموں کی طرف سے ان کے بھارتی دورے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور بھارت کے روایتی متعصبانہ رویے بالخصوص نریندر مودی کی مسلمان اور پاکستان دشمنی کے پیش نظر بعض حلقوں کی جانب سے وزیر اعظم کے فیصلے کو جلد بازی قرار دیتے ہوئے ’’ویٹ اینڈ سی‘‘ کے مشورے بھی دیے گئے۔

تاہم ملکی و غیر ملکی سطح پر بحیثیت مجموعی وزیراعظم کے فیصلے کو حوصلہ افزا اقدام قرار دیا گیا کہ اس دورے سے دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمیوں و کشیدگی کے خاتمے، مذاکراتی عمل کی بحالی اور کشمیر سمیت دیگر تنازعات کے حل کی جانب پیش رفت میں مدد ملے گی، خود وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھارت روانگی سے قبل وزیر اعلیٰ پنجاب سے لاہور میں ہونے والی دو گھنٹے طویل ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ اور پر امن تعلقات چاہتے ہیں اور بھارتی وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری میں شرکت دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کے حل میں مددگار ثابت ہو گی اور دونوں بھارت میں نو منتخب قیادت سے تمام معاملات پر کھل کر بات جیت کی جائے گی۔

وزیر اعظم میاں نواز شریف بڑی امیدوں کے ساتھ بھارت گئے تھے کہ نو منتخب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے تمام ایشوز پر بات چیت کر کے نئے دور کا آغاز کریں گے۔ تقریب حلف برداری میں شرکت کے بعد پاک بھارت وزرائے اعظم کے درمیان ہونے والی ملاقات کا جو احوال پاکستانی بالخصوص انڈین میڈیا میں شہ سرخیوں کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور نواز مودی ملاقات کے حوالے سے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں مبصرین و ماہرین جو تبصرے اور تجزیے کر رہے ہیں اس سے تو صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کا دورہ بھارت توقعات کے مطابق کامیاب نہیں رہا اور ہمارے وزیر اعظم اپنے نو منتخب بھارتی ہم منصب سے جملہ معاملات پر ڈٹ کر بات نہیں کرسکے۔

پاک بھارت میڈیا میں تو یہ طوفان برپا ہے کہ اس ملاقات کے دوران بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے پاکستانی ہم منصب میاں نواز شریف پر زبردست دبائو ڈالا اور برملا یہ مطالبہ کیا کہ پاکستان اپنی سر زمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دے اور مبینہ دہشت گردوں پر جلد کنٹرول حاصل کرے، نریندر مودی نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ پاکستانی قیادت ممبئی حملوں کی تفتیش جلد مکمل کر کے ملزمان کو سزا دے کر بھارت کو مطمئن کرے۔

اس کے علاوہ بھارتی وزیر اعظم نے مطلوبہ افراد کی حوالگی کے حوالے سے بھی وزیر اعظم میاں نواز شریف پر دبائو ڈالا، جواب میں پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف نریندر مودی کے سامنے تصادم کو تعاون سے بدلنے کی خواہش کا اظہار یا یوں کہیے کہ اپیلیں کرتے رہے کہ وہ باہمی تعاون اور تجارتی و اقتصادی رابطے بحال کرنا چاہتے ہیں اور خطے میں امن و تنازعات کے حل کی خاطر دو طرفہ مذاکراتی عمل جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق نریندر مودی نے میاں نواز شریف صاحب سے پانچ نکات پر بات چیت کی جس میں دہشت گردی کے خاتمے اور ممبئی حملوں کے حوالے سے موضوع نمایاں رہا، نریندر مودی نے ممبئی ٹرائل پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

نواز مودی ملاقات پر پاکستانی میڈیا میں اس حوالے سے کڑی تنقید کی جا رہی ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نریندر مودی کے مبینہ الزامات کے جواب میں مدلل انداز سے پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے میں ناکام رہے۔ حالانکہ روانگی سے قبل میاں صاحب نے قوم کو یقین دہانی کرائی تھی کہ بھارتی ہم منصب سے ملاقات میں تمام معاملات پر بات چیت کی جائے گی تو ہونا پھر یہ چاہیے تھا کہ جب نریندر مودی پاکستان پر دہشت گردی اور ممبئی حملوں سے متعلق مبینہ الزامات عائد کر رہے تھے تو میاں صاحب بھی جواب میں دو ٹوک انداز سے نریندر مودی کو یہ بتاتے کہ جناب زبانی سے تو آپ سے آپ امن امن کی بات کرتے ہیں لیکن آپ اپنے ملک کی دوغلی خارجہ پالیسی پر بھی تو نظر ڈالیے، خود آپ کی سر زمین ایک طویل عرصے سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔

میاں صاحب نریندر مودی کو باور کراتے کہ کسی طرح پڑوسی ملک افغانستان میں قائم اپنے قونصل خانوں کے ذریعے بھارت بڑی ہوشیاری اور چالاکی کے ساتھ پاکستانی علاقے بلوچستان میں مسلح شرپسندوں کو بھیج کر نہ صرف وہاں کا امن تہہ و بالا کر رہا ہے بلکہ علیحدگی پسندوں کی سرپرستی اور ان کے ہاتھ مضبوط کر کے پاکستان کی بقا و سالمیت پر مبینہ حملے کر کے ہمیں نقصان پہنچا رہا ہے اور کراچی و دیگر شہروں میں بھی بھارتی شرپسند عناصر کی خفیہ سرگرمیاں جاری ہیں۔

وزیر اعظم نواز شریف کو چاہیے تھا کہ وہ نریندر مودی کو یاد دلاتے کہ پاکستان تو امن عالم کی خاطر خود دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کر رہا ہے اور پاکستان کے ہزاروں فوجی جوان، سیکیورٹی اہلکار اور بے گناہ شہری اس جنگ میں شہید ہو چکے ہیں اور ملکی معیشت کو اربوں ڈالر کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا کیا وزیر اعظم میاں نواز شریف کو یہ یاد نہیں تھا کہ ابھی چند سال پہلے جب ملک پر پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے مصر کے معروف شہر شرم الشیخ میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سے ملاقات میں بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے حوالے سے ڈاکٹر سنگھ کے سامنے ایسے ناقابل دید ثبوت رکھے تھے کہ بھارتی وزیر اعظم کے پاس ان حقائق کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔

افسوس کہ میاں صاحب نریندر مودی کے سامنے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی جیسی جرأت اظہار کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ نتیجتاً مودی صاحب نے الٹا انھیں ’’چارج شیٹ‘‘ تھما دی۔وطن واپسی پر وزیر اعظم میاں نواز شریف کو میڈیا کی زبردست تنقید کا سامنا اور صفائیاں پیش کرنا پڑ رہی ہیں کہ جناب ہمارا دورہ بھارت نہایت کامیاب رہا، جیسا کہ وزیر اعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز صاحب نے فرمایا ہے کہ نواز شریف کو ملاقات کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے کوئی چارج شیٹ نہیں پکڑائی، دہشت گردی دونوں ممالک کا مسئلہ ہے اور ہمارے وزیر اعظم کی بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات توقع سے زیادہ بہتر رہی، لیکن حقائق کو جھٹلایا نہیں جا سکتا بات وہی سچ مانی جاتی ہے جسے زبانی حال کہہ رہی ہو۔

تاویلیں اور پورے استدلال سے سیاہ کو سفید قرار نہیں دیا جا سکتا بھارت کا مکروہ چہرہ اور متعصبانہ کردار دنیا کے سامنے ہے اور اب ایک انتہا پسند متعصب ہندو سیاست دان کے وزیر اعظم بننے کے بعد بھارت سے دوستانہ و خوشگوار تعلقات کے قیام تنازعات کے حل اور خطے میں امن پر بڑا سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ اس پر مستزاد نریندر مودی کے الزامات پر مبنی چارج شیٹ کے جواب میں ہمارے وزیر اعظم نواز شریف کی پر اسرار خاموشی اور تصادم کو تعاون سے بدلنے اور تجارتی و اقتصادی رابطے بڑھانے کی خواہش کے اظہار نے پاکستان کی پوزیشن کو اور کمزور کر دیا ہے، میاں صاحب ’’چارج شیٹ‘‘ کا یہ جواب تو نہ تھا۔

شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی …

$
0
0

شاعر بھی تھا ادیب بھی سیرت نگار بھی

جس نے ادب کو جلوۂ صد رنگ کردیا

تاریخ کے معلم اول کے روپ میں

اردو کو جس نے حسن و محبت سے بھردیا

تاریخ علم و ادب کے اس عظیم سپوت اور عظیم ستون کو دنیا سے گزرے ایک سو سال کا وقت ہوا، شبلی اردو ادب کے ایوان میں آج بھی اپنی خدمات کے پس منظر میں جگمگارہے ہیں۔ مولانا الطاف حسین حالی نے شبلی نعمانی ہی کے لیے کہا تھا ’’وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔‘‘

اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں بہت سے نامور ادیب، قانون دان، شاعر عربی و فارسی اور اردو کے عالم پیدا ہوئے۔ شبلی نعمانی بھی یہاں کی پہچان بنے زمانے کی بے چین روح نے ایک بے چین قالب میں جگہ بنائی، خانگی زندگی کے لحاظ سے ممکن ہے وہ اس قدر خوش قسمت نہ کہے جاسکتے ہوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ انھیں خوش قسمتی سے ایسے رہبر، استاد ملے جنھوں نے ان کی فطری صلاحیتوں کو تراش خراش کر تابناک ہیرا بنادیا۔ علم کی تلاش انھیں بڑے بڑے علما کے پاس لے گئی جنھوں نے شبلی کے جوہر کو نکھارا اور ان کے علم و فن کی خوب آبیاری کی۔

ان کے استادوں میں مولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی، مولانا فیض الحسن سہارن پوری کا نام خصوصیت سے قابل ذکر ہے ۔ بعد میں دوستی کے سائے میں سر سید احمد خان اور پروفیسر آرنلڈ کے اثرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ علم اور حصول علم کا شوق انھیں کشاں کشاں لیے پھرا، اس محبت اور جانفشانی نے ان کی صلاحیتوں کو سنوارا، زندگی کے تجربات میں والد صاحب کے بے حد اصرار پر وکالت کا امتحان دیا اور وکالت بھی کی مگر جی نہ لگا۔ والد کی خواہش پوری کرنے کے لیے تجارت کا شعبہ بھی اپنایا مگر یہاں بھی مزاج کی غیر موزونیت غالب رہی۔ سو تجارت بھی ترک کی۔

25 سال کی عمر میں شاعری، ملازمت، مولویت کے ساتھ ہر طرف کوشش جاری رہی، کامیابی ابھی دور تھی۔  1882 میں شبلی نے ’’علی گڑھ کالج‘‘ سے تعلق جوڑ لیا۔ یہاں وہ عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہاں سر سید سے ملے ان کا کتب خانہ ملا، پروفیسر آرنلڈ سے نئی زندگی کی امنگ ملی اور مغرب و مشرق کی کشمکش ملی، صلاحیتیں نکھر گئیں، یہاں تصانیف کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس نے اردو ادب کے دامن کو تاریخ، سیرت نگاری، فلسفہ ادب تنقید اور شاعری سے مالا مال کردیا، سیرت نگاری، مورخ، محقق کی حیثیت سے کامیابی کے سکے جمائے۔ سر سید اور علی گڑھ میں مشہور ’’صبح امید‘‘ مرتب ہوئی۔

سر سید کی وفات کے بعد حیدرآباد دکن پہنچے مشہور کتاب الفاروق مرتب کی جو تحقیق و مذہب کے نقطہ نظر کے سخت اعتراضات سے گزری مگر اپنی اپنی اہمیت مسلمہ کر گئی۔ ’’علی گڑھ‘‘ میں تاریخ اسلام اور حیدرآباد میں اسلامی تصوف اور فلسفہ پر زیادہ توجہ دی یہاں کہ علمی صحبتوں نے ادبی ذوق کو مہمیز کیا۔ تنقید نگاری کی طرف طبیعت مائل ہوئی یہاں مکتوبات شبلی بھی ضبط تحریر میں آئے جو اردو ادب کا سر مایہ ہیں۔شبلی نے غزلیں لکھیں جو لکھنو کے رنگ کے زیر اثر تھیں۔

اثر کے پیچھے دل حزیں نے سراغ چھوڑا نہیں کہیں کا

گئے ہیں نالے جو سوئے گردوں تو اشک نے رخ کیا زمیں کا

ابتدا میں رنگیں غزلیں لکھیں بعد میں قومی اور مذہبی نظمیں لکھنے لگے۔ رومانیت کا فسوں جاگا تو غزلیں پھر شروع کیں مگر فارسی میں مزا زیادہ رہا، مولانا شبلی کی زبان و بیان انداز تحریر و تقریر اردو کے ساتھ عربی و فارسی میں پر لف ہوتا تھا۔ مولانا ظفر علی خان خوشی محمد ناظر، سید سجاد حیدر یلدرم، مسعود علی محوی جیسے متعدد علی گڑھ کے طالب علم مستفید ہوتے رہے اور عربی و فارسی کے شعر و ادب کا ذوق ان میں شبلی کی کلاسوں اور علمی صحبتوں سے پیدا ہوا، ساتھ ساتھ علی گڑھ کالج کی اقامتی زندگی کی بہتری کے لیے مولانا شبلی شب و روز کوشاں تھے.

علی گڑھ کیمپس میں مشرقی روایات کی پا بندی اور اسلامی علوم و فنون کی ترویج میں ان کی دلچسپی بھی طلبہ پر اچھا اثر ڈالتی تھی اور کالج کے جدید ماحول میں ان کی روشن طرز قدیم و جدید کے امتزاج کا نمونہ پیش کرتی تھی، شبلی اپنی فطری ذہانت بلند خیالی اور اسلام دوستی میں جدید علوم و فنون کے دور میں بھی اس سے مرعوب ہوئے بغیر اسلامی علوم و فنون کے لیے آواز بلند کرتے تھے ان کے شاگرد مولانا محمد علی کا برملا اعتراف ہے کہ ’’مولانا شبلی نے ہمیشہ اسلام اور اسلام شعار کو طلبا کے سامنے زندہ حقیقت اور موثر طاقت کی حیثیت سے پیش کیا۔‘‘

پروفیسر ظفرالاسلام اصلاحی (شعبہ اسلامک اسٹڈیز علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی رقم طراز ہیں۔

’’ان کی شخصیت کا اہم پہلو اسلامیات بالخصوص قرآن کریم سے گہرا تعلق تھا ان کی تحریروں اور تقریروں اور نظموں میں اس کی بخوبی عکاسی ملتی ہے ان کے اندر قرآن پاک کا ذوق اور اس کے معنی و مفہوم سمجھنے کی طلب علی گڑھ میں طالب علمی کے زمانے سے پیدا ہوگئی تھی۔‘‘

شبلی جہاں جہاں گئے مسلمانوں کے نظام تعلیم کے لیے ایک بڑے مصلح ثابت ہوئے۔ 1900 میں لکھنو میں ’’ندوہ‘‘ کے مشہور مدرسے میں اقامت اختیار کی تمام اختلافات کے باوجود انھوں نے ندوہ کو ندوہ بنادیا ’’رسالہ الندوہ‘‘ کے ذریعے علمی خدمت اور اپنی نگاہ فیض سے مشہور اہل قلم پیدا کیے جو ان کے کام کو تا عمر جاری رکھے رہے۔

مولانا کے نظریات اور افکار اردو ادب کی چاشنی کے ساتھ مسلمانوں کی عظمت رفتہ اور اسلام سے محبت کا بین ثبوت تھی۔ اسی سلسلے کی ایک اہم نادر کوشش کا تحریری عکس ’’بعنوان مکہ معظمہ میں اسلامی یونی ورسٹی کی تاسیس کی تجویز۔‘‘

رسالہ معارف نومبر 2013 ’’آثار علیمہ و تاریخیہ سے ایک اہم مخطوطہ‘‘ متعارف ہوتا ہے۔ اس مراسلے کا عکس روزنامہ زمیندار میں چھپا ہے، علامہ شبلی نعمانی کی علم دوستی، علوم اسلامی سے شغف اور اہم ترین اسلامی ریاست میں فروغ علم کی خواہش سے جڑی ہے، مولانا ابوالکلام آزاد اس بارے میں نہ صرف نوٹ تحریر کرتے ہیں بلکہ اس تجویز کی تائید بھی کرتے ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ شبلی کی علمی و ادبی خدمات، تجاویز اور اقدامات پسندیدہ تھے۔

غرض شبلی زبان و ادب ، فلسفہ، مذہب، تاریخ و تنقید، سیرت و سوانح کون سا ایسا فن اور موضوع ہے جو ان کی دسترس میں نہ ہو ان کی تحریروں کے مطالعے کے بعد بے ساختہ یہ دل سے آواز آتی ہے۔

دیکھنا تقریر کی لذت جو اس نے کہا

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

ان کی تحریروں میں دل کشی اور شگفتگی ہے، شبلی میں ادبی خصوصیات کے تمام امکانات اور تمام صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہیں، ان کا اسلوب بیاں قابل صد رشک اور کسی حد تک ناقابل تقلید بھی کہا جاسکتاہے۔ علامہ شبلی نے کم و بیش پچاس ساٹھ ہزار صفحات پر مشتمل ذخیرۂ ادب چھوڑا ہے۔ بقول مہدی افادی:

’’یہ لٹریچر کی وہ قیمتی صنف ہے جسے آج کل کی اصطلاح میں تنقیدات عالیہ ’’ہائرکریٹیسزم کہتے ہیں۔ شبلی میں ایک خاص درجہ کا مادہ اختراعی تھا۔ غرض مشرقی زبانوں میں مختلف اضاف سخن کے پورے مالک تھے۔‘‘

مولانا شبلی نعمانی نام ہے ایک کامیاب انسان جو ہمہ جہت صلاحیتوں کا مالک، جو عظیم مصنف ہے جس کا سکہ جما ہے ادب کی دنیا میں اور جو مصنف گر بھی ہے۔

سوچ کا دھارا

$
0
0

گزشتہ دنوں ایک سنجیدہ ادبی محفل میں شریک سامعین میں سے کسی نے شکوہ کیا کہ جس وقت برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے یونیورسٹیاں بن رہی تھیں۔ اسی سال آگرہ میں تاج محل بن رہا تھا۔ جو ایک ملکہ کا مقبرہ ہے۔ پھر انھوں نے نہایت زور و شور سے برصغیر کے حکمرانوں خصوصاً مغل بادشاہوں کی مذمت کی کہ انھوں نے تعلیم اور صحت کی طرف توجہ نہیں دی۔ بلکہ اپنے سیرو شکار اور عیش پرستی میں غرق رہے۔ نتیجہ یہ کہ مسلمانوں کا اقتدار ختم ہوگیا اور انگریز قابض ہوگئے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان بادشاہوں نے تعلیم اور صحت کی طرف اتنی توجہ کیوں نہیں دی، جتنی کہ دینی چاہیے تھی۔ اسی لیے آج جب دوسری قومیں کہیں سے کہیں پہنچ چکی ہیں ہم ایک پس ماندہ قوم کے طور پر جانے جاتے ہیں۔تب میں نے کہا کہ آپ شاہ جہاں اور تاج محل کی بات کرتے ہیں کہ انھوں نے مقبرے بنوائے، اسپتال، اسکول، کالج اور یونیورسٹی نہیں۔ لیکن کبھی آپ نے سوچا کہ آج کا مورخ مستقبل میں ہمیں کس نام سے یاد کرے گا۔ پولیو زدہ معذور نسل پیدا کرنے والی جاہل قوم جو بدقسمتی سے خود کو مسلمان کہلوانا جانتی ہے اور بس۔ مغل بادشاہوں اور سلاطین دہلی نے برصغیر میں اتنا کچھ بنادیا کہ آج سیاحت کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ان ہی قلعوں اور مقبروں کا مرہون منت ہے۔

گزرے زمانے کے لیڈر، سیاست دان اور بادشاہوں نے ایسے ایسے شاہکار تخلیق کیے کہ زمانہ حیران ہے۔ لیکن آج پاکستان آتش فشاں کے جس دہانے پہ کھڑا ہے اس کی حدت اور شدت کا اندازہ تمام روشن خیال لوگوں کو ہے۔ ماضی کی تاریخ میں سرسید احمد خان جیسے مصلح قوم موجود تھے۔ جنھیں جدید تعلیم کی اہمیت کا ادراک ہوگیا تھا۔ اگر وہ نہ ہوتے تو آج بھی مسلمانوں کے نصیب میں چپراسیوں اور کلرکوں کی نوکریاں ہی لکھی ہوتیں۔ذرا آج کے منظرنامے پہ غور کیجیے۔ دنیا کی تمام مہذب اور تعلیم یافتہ قومیں امن کی خواہش مند ہیں۔ بل گیٹس نے جو دولت کمائی اس کا آدھا حصہ پولیو کے خاتمے اور انسانی فلاح و بہبود کے لیے وقف کردیا۔ یاد رہے یہ دولت بلاامتیاز مذہب و ملت دنیا کے تمام انسانوں کے لیے ہے۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ بل گیٹس بھی مذہباً یہودی ہے۔

اور یہ بھی حقیقت ہے کہ نوبل انعام پانے والوں میں سب سے زیادہ تعداد بھی یہودیوں ہی کی ہے۔ انسانیت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ کیونکہ انسانیت احترام آدمیت سکھاتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ زندگی کا مطلب دوسروں کے کام آنا ہے۔لیکن ہمیں اس سے کیا کہ ایک مخصوص گروہ باوجود تعداد میں کم ہونے کے، صرف ہتھیاروں کے بل بوتے پر پوری سوسائٹی کو یرغمال بنائے ہوئے ہے۔ مقبروں اور محلات کی تعمیر کو تنقید کا نشانہ بنانے والے ذرا یہ تو بتائیں کہ آج دنیا بھر میں پاکستان کی تصویر کس انداز میں دکھائی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں بچے کو اسکول جانے کی پاداش میں سگا باپ مار مار کر ادھ موا کردیتا ہے کہ جہالت ان کا ورثہ ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے اندر فرزانہ پروین کو پتھر مار کر ہلاک کردیا کہ جرم اس کا صرف پسند کی شادی تھی کہ ہم دوبارہ پتھروں کے دور میں واپس جانے کے لیے تیار ہیں۔ کوئی ایک تو مثبت سوچ رکھنے والا رویہ موجود ہو کہ اسے ’’نظر بٹو‘‘ کے طور پر ماتھے پہ سجالیں۔غیرت کے نام پر اپنی ہی بیویوں، بیٹیوں اور بہنوں کو سنگسار کرنے والوں کی غیرت اس وقت کہاں سوئی ہوتی ہے۔ جب ان کے بیٹے معصوم لڑکیوں اور چھوٹی چھوٹی بچیوں کی آبروریزی کرتے ہیں  اور کبھی پکڑے نہیں جاتے۔ عورتوں کو سربازار رسوا کرتے ہیں اور معزز ٹھہرتے ہیں کہ یہ ابن آدم کسی سردار یا طاقت ور سیاست دان کے فرزند ہیں۔ اسی لیے انھیں عورتوں پر تیزاب پھینکنے، ان سے زبردستی نکاح کرنے، انھیں خریدنے کی پوری آزادی اور سرپرستی حاصل ہے۔ شاید اس لیے کہ غیرت اور عزت صرف بنت حوا سے وابستہ ہے۔

مردوں کے سماج میں غیرت کا ٹھیکہ بھی ان ہی جاہل اور اجڈ مردوں کے پاس ہے  جو جب چاہیں اس ٹھیکے کو نیلام کردیں اور اسی غیرت کی ٹھیکے داری کرتے کرتے انھیں یہ حقوق بھی حاصل ہوگئے کہ جب چاہیں غیرت کے نام پر قتل کردیں اور جب چاہیں کتوں کے آگے زندہ عورتوں کو ڈال دیں اور جب غیرت زیادہ جوش میں آئے تو انھیں زندہ دفن کردیں۔ اور پھر ٹیلی ویژن اسکرین پہ بیٹھ کے فرمان جاری کریں کہ یہ سب گھناؤنی حرکات ان کی روایت کا حصہ ہیں ۔وہ دین دار پرہیز گار حضرات جو قرآن و سنت کے ذکر کے بغیر بات نہیں کرتے کیا وہ اس بات کا جواب دیں گے کہ ایسی وحشیانہ حرکتوں کا اسلام سے کیا تعلق بنتا ہے۔

افسوس کہ جنھیں قرآنی تعلیمات کا حقیقی ادراک نہیں، وہ مبلغ بنے بیٹھے ہیں۔ایک بار پھر اپنے موضوع کی طرف لوٹتی ہوں کہ آنے والے وقتوں میں پاکستانی قوم کو کن القابات سے نوازا جائے گا اور مورخ ان کے بارے میں کیا کہے گا۔ شاید کچھ اس طرح۔جعلی دواؤں کا کاروبار کرنے والے، عورتوں کو سنگسار کرنے والے، نابالغ بچیوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے، معصوم لڑکوں سے بدفعلی کرنے والے، دودھ دہی میں ملاوٹ کرنے والے، ایکسپائری ڈیٹ کی اشیا بیچنے والے، لیکن اسلام اسلام کا نعرہ صرف زبانی کلامی بلند کرنے والے۔ یہ تھے پاکستانی۔

دنیا کہاں سے کہاں جا رہی ہے، پوری دنیا امن کی خواں ہے۔ لیکن ایک گروہ ایٹم بم کو چلا کر پڑوسی کو بھسم کردینا چاہتا ہے۔ یہ احمق نہیں جانتے کہ اگر ایک ملک ایٹم بم چلائے گا تو دوسرا خاموش نہیں بیٹھے گا، پھر کیا ہوگا؟ برصغیر پاک و ہند کا نام و نشان نہ رہے گا۔ صرف راکھ کا ڈھیر بچے گا۔ اور اس راکھ کے ڈھیر کو دیکھنے کے لیے وہ بھی زندہ نہ بچیں گے جو آج بڑھ چڑھ کر جنگ کی باتیں کر رہے ہیں۔ بار بار نواز شریف کو یاد دلا رہے ہیں کہ انھوں نے مودی کے بلاوے پر بھارت جاکر غلطی کی ہے اور یہ بھی کہ انھوں نے وزیر اعظم کو منع کیا تھا کہ بھارت نہ جائیں۔ واہ کیوں نہ جائیں ۔ وزیر اعظم کو ان غیر ریاستی عناصر کی اجازت لینے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔

کیا ہی اچھا ہو کہ اسلام کے یہ مبلغ کبھی غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کی بھی گردن پکڑیں ۔ مگر ان کو حکمران جماعت کی گردن پکڑنے سے فرصت ملے تو کسی اور کی طرف بھی دیکھیں ۔ لیکن یہ وہیں نگاہ مرکوز رکھیں گے جہاں فائدے اور منافعے کی امید ہے ۔ بھلا فرزانہ جیسی معصوم عورتوں کا مقدمہ لڑنے سے انھیں کیا ملنے والا ہے ۔

کشکول ہمارا اٹوٹ انگ ہے

$
0
0

عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت نے ’’کشکول‘‘… کے بجائے … قرضہ لینے کے ’’ریکارڈ‘‘ توڑ دیے ہیں اور ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ عمران خان آخر چاہتے کیا ہیں، آخر کچھ نہ کچھ تو ’’ٹوٹ‘‘ ہی گیا نا … عار کی بات تب ہوتی جب کچھ بھی نہ توڑا جاتا اب یہ تو قسمت کی یا اتفاق کی یا سیاست کی بات ہے کہ کشکول کے بجائے ریکارڈ ٹوٹ گیا اور اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں … جب مقابلہ ہوتا ہے تو کسی نہ کسی فریق کو شکست ہونی ہی ہوتی ہے اور جب کسی ایک کی جیت ہوتی ہے تو دوسرے کی ہار ہوتی ہے نہ دونوں جیتتے ہیں نہ دونوں ہارتے ہیں ایسا تو بہت کم ہوتا ہے کہ لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور سانپ بھی مر جائے، ہاں البتہ یہ اچھی بات نہیں ہو گی کہ سانپ بھی نہ مرے اور لاٹھی یونہی ٹوٹ جائے، اصل بات یہ ہے کہ

شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میرؔ

مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا

ویسے دیکھا جائے تو یہ جو کشکول ہے یہ بڑا ہی انمول ہے نہ صرف یہ کہ گول مٹول ہے بلکہ اس کے بیچوں بیچ ایک ’’ہول‘‘ ہے اور اس ’’ہول‘‘ کے نیچے ’’سیاسیوں‘‘ کا ایک غول ہے جو منہ کھول ہے اور ہول سے جو بھی قطرہ ٹپکتا ہے وہ انمول ہے اس لیے دنیا گول ہے اور اس گول دنیا میں سوئٹزر لینڈ نام کا ایک پول ہے، یہ کوئی عام سا کشکول نہیں ہے جو لکڑی کا یا کسی عام دھات کا بنایا جاتا ہے اور اکثر نہ صرف ٹوٹ جاتا ہے بلکہ لوگ اس پر ٹانکے لگا کر بھی کام چلاتے ہیں اس سلسلے میں پشتو کا ایک ٹپہ بھی سند کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے کہ

خہ دہ چہ تہ د خیرہ راغے

ما پہ کچکول پتری وہل درپسے تلمہ

ترجمہ : اچھا ہوا کہ تم خیر سے آ گئے ورنہ میں اپنے کشکول کو ٹانکے لگا کر تیرے پیچھے نکلنے والا ہی تھا، سوچا جائے تو اس ٹپے کی بنیاد پر ایک پورا منظر ترتیب دیا جا سکتا ہے جو کچھ یوں ہوں گا کہ کوئی آئی ایم ایف خان نام کا محبوب چلا آ رہا ہے اور پاکستان نام کا عاشق ہاتھوں میں ہار لیے اہلاً و سہلاً کو کھڑا ہے پہلے اس کے گلے میں پھولوں کی مالا ڈالتا ہے اور پھر مالا کی آواز میں جب گلے ملنے لگتا ہے تو یہ ٹپہ الاپتا ہے کہ اچھا ہوا تم آ گئے ورنہ میں کشکول کو ٹانکے لگا کر نکلنے والا تھا … خیر نال آ … تے خیر نال جا… خوش آمدید ، ویل کم ، جی آیاں نو … اے آمدنت باعث آبادی ما

وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے

کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

ایک تو ہماری سمجھ میں یہ بات بالکل بھی نہیں آ رہی ہے کہ آخر لوگ اس ’’کشکول‘‘ کو توڑنے کے اتنے درپے کیوں ہیں، جو سچ پوچھیے تو ہمارا کل ’’اثاثہ‘‘ ہے کیوں کہ اسی کا دیا ہم کھاتے ہیں پیتے ہیں بلکہ اڑاتے بھی ہیں، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہ کشکول ہی ہمارا ہنر ہے، دھندہ ہے، جائیداد ہے، میراث ہے اسے توڑ دیا تو باقی کیا رہ جائے گا

مہا بلی شہنشاہ من

بھیک و کشکول اپنا فن

اور آپ تو جانتے ہیں کہ بزرگوں نے ’’آن‘‘ پر کتنا زور دیا ہے جان جائے پر آن نہ جائے … کہتے ہیں ایک جدی پشتی نسلی خاندانی بزرگ نے جب اپنے پیشے پر آنچ آتے دیکھی تو اپنے سگے بیٹے کو بھی لاٹھی کی دھار پر رکھ لیا یہ جس بزرگ کا ذکر ہے بھیک مانگنے کو اپنا باعزت پیشہ مانتے تھے اور شاید نسلی شجرات میں ہمارا بھی اس سے کوئی رشتہ جڑتا ہے، ایک دن لوگوں نے دیکھا کہ وہ اپنے اکلوتے اور جواں جہاں بیٹے کو بری طرح دھنک رہے تھے شور و غل پر سارا محلہ اکٹھا ہو کر آ گیا جو اس پیشے والوں پر مبنی تھا، محلے کے ایک بزرگ نے وجہ پوچھی کہ آخر اپنے بیٹے کو پرائے بیٹے کی طرح مار رہے ہو، تم کہیں کسی پچھلے جنم میں پرائمری کے استاد تو نہیں رہے … اس نے کہا نہیں ایسی کوئی بات نہیں خدا کے فضل سے اور بزرگوں کی دعاؤں سے ہمارے خاندان میں کوئی کھوٹ نہیں ہے بلکہ

سو پشت سے پیشۂ آبا گداگری

کوئی ’’نوکری‘‘ ذریعہ عزت نہیں مجھے

بلکہ اس ناہنجار نے کام ہی ایسا کیا ہے اگر مجھے اپنی نسل اور باعزت خاندان کے ختم ہونے کا خدشہ نہ ہوتا تو میں آج اس کی گردن دبا دیتا اور چمڑی ادھیڑ کر اور اس کی کھوپڑی خالی کر کے کشکول بنا لیتا، پوچھنے والے نے مزید تفصیل چاہی … تو بولا آج میں نے اپنی اس بے گناہ آنکھوں اور بے خطا کانوں سے اسے اپنے پیشے کے ساتھ غداری کرتے ہوئے دیکھا اور سنا ہے، بازار میں ایک آدمی سودا خرید رہا تھا اور یہ اس کے آگے کشکول پھیلائے آن ڈیوٹی تھا کہ اس بزرگ نے اس سے کہا کہ تم ویسے ہی کھڑے ہو تو ذرا سا یہ سامان اٹھا کر گاڑی تک پہنچانے میں میری مدد کرو … اور آپ یقین کریں اس کم بخت بدبخت ناہنجار نابکار نے اس کی بات مان لی اور اپنے پیشے کو رسوا کرتے ہوئے اس کی مدد کی اور اس سے دس روپے لے لیے، یہ سن کر اس سارے محلے کو جس کا نام غالباً پاکستان تھا سانپ سونگھ گیا سارے گنگ ہو کر رہ گئے ایسے کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں … صرف ایک بزرگ کے منہ سے اتنا نکلا کہ پھر؟ اس پر وہ بزرگ بھکاری بولا … ذرا سوچو تو سہی آج اس نے ایک شخص کی مدد کی کل کو باقاعدہ مزدوری کر کے خاندان کا نام ڈبوئے گا،یہ کہہ کر اس نے ایک مرتبہ بیٹے کی دھنائی کا سلسلہ وہیں سے جوڑا جہاں سے توڑا تھا۔

ہم کو ’’کشکول‘‘ عزیز اور ’’کشکول‘‘ کو ہم عزیز

جو کام کرے گا وہ مرا ’’خاندان‘‘ نہیں

جس کشکول بلکہ تاریخی کشکول کے توڑنے تاڑنے کی ناممکن باتیں ہو رہی ہیں یہ ساری باتیں ہی باتیں ہیں ورنہ اسے توڑنا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا کسی بھکاری کو کام کرنے پر مجبور کرنا … اسے دیکھا تو نہیں ہے لیکن سنا ہے کہ اس کشکول کی تیاری میں بہت لمبا لگ بھگ ستاسٹھ سال کا عرصہ لگا ہے اور اس کا میٹریل بھی کوئی عام میٹریل نہیں ہے پہلے تو ڈھیر ساری ’’خودی‘‘ کو جسے علامہ اقبال کے کہنے پر بہت زیادہ بلندی پر لے جایا گیا تھا، وہاں سے گرا کر بے شرمی کے ہاتھی کے پیروں تلے کچلا گیا پھر اسے بے غیرتی کی چکی میں خوب پیس کر ’’کوفتہ بخیتہ‘‘ کر دیا گیا اس کے بعد آنکھوں کی شرم کا پانی ڈال کر گوندھا گیا۔

اس کے بعد اس میں نکمے پن کا خمیر ڈال کر اٹھایا گیا جب سے یہ مصالحہ تیار ہو گیا تو واشنگٹن سے ایک خاص بینکنگ ماسٹر کو بلوا کر اسے پی ایل چار سو اسی نامی اوون میں ڈال کر پکایا گیا اس کے بعد جب یہ پک کر تیار ہو گیا تو ڈھٹائی اور بے حمیتی کے سارے مصالحے ملائے گئے اس کے بعد اسے سیاست کی بھٹی میں ڈال کر کتے کے بالوں کی آگ میں خوب تپایا گیا آخر میں اس پر سبز قدموں کا رنگ چڑھایا گیا اور ہمارا کشکول تیار ہوگیا۔

ظاہر ہے اب اسے توڑنے کے لیے ان سارے مفردات کے علاوہ تمام مصالحے درکار ہوں گے جو اس ملک میں اب اگتے ہی نہیں، خودی کا تو بیج ہی گم ہو چکا ہے، شرم کی ماں مر گئی ہے، حیا کسی کے ساتھ بھاگ چکی ہے، غیرت کا ڈالر سے نکاح ہو گیا ہے، حب الوطنی اب سوئٹرز لینڈ میں مستقل طور پر سٹل ہو گئی ہے اس لیے اگر کوئی توڑنا بھی چاہے تو اسے توڑ نہیں سکتا، نہ کوئی ہتھوڑا ہے نہ پتھر ہے نہ لکڑی ہے … اور پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا ۔۔۔ پھونکوں کو آپ جانتے ہیں نا پاکستان میں انھیں بیانات کہا جاتا ہے … مطلب یہ کہ

نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے

یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں

ایک نوجوان بادشاہ کی بیٹی پر عاشق ہو گیا اور اپنی ماں کو رشتے کے لیے بادشاہ کے پاس بھیج دیا، بادشاہ نے اس کی ماں سے کہا کہ تم ذرا لڑکے کو میرے پاس بھیج دینا، نوجوان آیا بادشاہ نے کہا …تم ایسا کرو میری دو شرطیں پوری کرو، پھر میں خوشی سے تمہارا خسر بن جاؤں گا، نوجوان نے سینہ پھلا کر شرطیں بتانے کو کہا تو بادشاہ نے کہا ایک شرط تو یہ ہے کہ تم ایک سال تک بھیک مانگ کر گزارہ کرو گے کوئی کام نہیں کرو گے پورے پاکستانی لیڈر بن جاؤ گے اور دوسری شرط اس شرط کے پورا ہونے پر بتاؤں گا۔

نوجوان چلا گیا اس زمانے کے لوگ بات کے پکے ہوتے تھے آج کے لیڈر نہیں ہوتے تھے چنانچہ ایک سال تک بھیک مانگتا رہا ٹھیک ایک سال بعد بادشاہ کے حضور پہنچا اور اپنی کامیابی کی خبر دی … بادشاہ نے شاباش دی اور کہا اب دوسری شرط سن … تم نے کہا تھا کہ تم میری بیٹی کے لیے جان بھی دے سکتے ہو، نوجوان نے کہا بے شک آزما کر دیکھ لو، بادشاہ نے کہا اب تم میری بیٹی سے شادی کر سکتے ہو لیکن اس شرط کے ساتھ کہ آیندہ محنت کر کے اسے کھلاؤ گے اور کسی سے کچھ نہیں مانگو گے، نوجوان نے تھوڑی دیر سوچا پھر کشکول اٹھایا لاٹھی لی یہ کہتے ہوئے چلا گیا

یہی ٹھہری ہے شرط وصل لیلیٰ

تو استعفا مرا باحسرت و یاس

بھلا اٹوٹ انگ بھی کبھی ٹوٹا ہے۔

داغ نہ لگ جائے

$
0
0

’’سید یوسف رضا گیلانی محمد خان جونیجو کی حکومت میں ایک نوجوان وزیر تھے۔ ان کو وزیر بنے ابھی کچھ عرصہ ہوا تھا۔ وزیراعظم جونیجو اور پیر صاحب پگاڑا کی پنجاب کے وزیراعلیٰ نواز شریف سے نہیں بنتی تھی۔ اور تو اور، جنرل ضیاء الحق کو بھی یہ گلہ تھا کہ نواز شریف یہ سمجھتے تھے کہ وہ وزیراعلیٰ پنجاب اس لیے تھے کہ ارکانِ صوبائی اسمبلی کی اکثریت ان کے ساتھ تھی۔ یہ بات جنرل ضیاء کو ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ نواز شریف یہ سمجھیں کہ وہ اپنی وجہ سے وزیراعلیٰ تھے نہ کہ جنرل ضیاء الحق کی بدولت! جنرل ضیاء نے اپنے دل کی بات پیر پگاڑا کے سامنے رکھی۔

جنرل ضیاء کا دکھڑا سن کر پیر پگاڑا نے فرمایا کہ سائیں فکر نہ کریں، نواز شریف ٹھیک ہوجائیں گے۔ اگلے دن پیر پگاڑا نے یوسف رضا گیلانی کو بلایا اور انھیں کہا کہ آپ پنجاب جائیں اور اپنے آپ کو وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر ممبرانِ اسمبلی کے سامنے پیش کرنا شروع کریں اور اپنے ساتھ چند بڑے بڑے سیاسی لوگوں کو شامل کریں۔ گیلانی صاحب نے پیر پگاڑا کے کہنے پر پنجاب میں جاکر ڈیرے لگا دیے، وہ ان دنوں وزیر ریلوے تھے۔ ائیرپورٹ اور ریلوے اسٹیشن سے آتے جاتے پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے درجنوں اراکین اسمبلی نے ان کا استقبال کرنا شروع کردیا۔ یہ خبر پھیل چکی تھی کہ وفاقی حکومت یوسف رضا گیلانی کو نیا وزیراعلیٰ بنانا چاہتی ہے۔ جب بات زیادہ پھیل گئی تو بڑے بڑے لوگوں نے ان سے خفیہ رابطے کرنا شروع کردیے۔

ان میں نصراللہ دریشک، عاشق گوپانگ، ملک اللہ یار کھنڈا، مخدوم الطاف، رفیق لغاری اور دیگر بے شمار ایم پی اے ان کے گروپ میں آگئے۔ سب سے بڑی کامیابی اس وقت ہوئی جب چوہدری پرویز الٰہی نے ان سے رابطہ کیا۔ وہ نواز شریف کو چھوڑ کر ان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے تھے۔ اور تو اور، منظور وٹو کو بھی جب اس سارے معاملے کی بھنک ملی تو وہ بھی گیلانی صاحب سے ملنے کے لیے بے چین ہوگئے۔ یوں بہت کم عرصے میں گیلانی صاحب نے ایم پی ایز کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ساتھ ملا لیا۔’’پیرپگاڑا صاحب کو پیغام بھیجا گیا کہ جناب! اب آپ بتائیں کہ نیا وزیراعلیٰ کس کو بنانا ہے کیونکہ نواز شریف کے خلاف بغاوت ہوچکی ہے۔

پیر صاحب سیاست کے پرانے گھاگ تھے۔ انھوں نے نوجوان گیلانی کو کہا کہ انتظار کرو۔ ’’گیلانی صاحب ابھی لاہور میں تھے اور اپنے تئیں اپنی مرضی کے وزیراعلیٰ کا نام سوچ رہے تھے کہ پتہ چلا کہ نواز شریف جنرل ضیاء الحق سے ملنے کے لیے اسلام آباد تشریف لے گئے ہیں۔ نواز شریف کو احساس ہوگیا تھا کہ جنرل ضیاء سے معافی تلافی کیے بغیر ان کی وزارت اعلیٰ نہیں بچے گی۔ وہ جنرل صاحب سے ملنے گئے اور اپنی وفاداری کا نئے سرے سے حلف اٹھایا۔ جب جنرل ضیاء اور نواز شریف کی ملاقات ختم ہوئی تو جنرل ضیاء الحق نے ایک بیان جاری کیا کہ نواز شریف کا کلّہ مضبوط ہے۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو نے بھی یہ بیان دیا کہ پنجاب میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ رہی سہی کسر پیر صاحب پگاڑا کے بیان نے پوری کردی کہ نواز شریف کی بوری میں سوراخ تھا جس کی میں نے سلائی کردی ہے۔ کھیل ختم ہوگیا تھا۔

’’جونہی یہ خبر لاہور پہنچی، سارے کے سارے ایم پی ایز خوفزدہ ہوکر بھاگ گئے۔ ان سب کو احساس ہوگیا کہ انھیں استعمال کیا گیا تھا۔ ان سے زیادہ گیلانی صاحب کو احساس ہوا کہ مجھے جنرل ضیاء، محمد خان جونیجو اور پیر پگاڑا نے مل کر استعمال کیا تھا۔ انھوں نے بتایا: میں بڑے بجھے دل کے ساتھ پیر پگاڑا صاحب سے ملنے گیا اور ان سے پوچھا کہ انھوں نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا تھا۔ وہ مسکرائے اور بولے: بچہ! یہ سب سیاست ہے۔ نواز شریف جنرل ضیاء کو آنکھیں دکھا رہا تھا۔ میں نے جنرل ضیاء سے کہا کہ ہم نواز شریف کو ٹھیک کردیں گے۔

اب ہم نے ایک ایسے بندے کا انتخاب کرنا تھا جس کو استعمال کرکے نواز شریف کو سبق سکھایا جاسکتا۔ میری نظر تمہارے اوپر پڑی۔ تم نوجوان ہو۔ تمہاری ابھی سیاست میں پوری کریڈیبلٹی نہیں ہے۔ ملتان کے ایک بڑے سیاسی گھرانے سے تمہارا تعلق ہے۔ دوسرے تم میرے رشتہ دار ہو لہٰذا تمہارے لیے ایم پی ایز کو یقین دلانا آسان تھا کہ وہ نواز شریف کو چھوڑ کر تمہارے ساتھ مل جائیں۔ شکر ہے میرا اندازہ غلط ثابت نہیں ہوا۔ تم نے مجھے مایوس نہیں کیا۔ گیلانی صاحب نے ٹوٹے دل کے ساتھ کہا کہ اس کا مطلب ہے آپ نے مجھے استعمال کیا ہے؟ پیر صاحب مسکرائے اور بولے: جی ہاں! میں نے آپ کو استعمال کیا ہے۔‘‘ (بحوالہ ’’ایک سیاست کئی کہانیاں‘‘ از رئوف کلاسرا، صفحہ 344 )

کیا آج کوئی پھر کسی کے ہاتھوں استعمال ہورہا ہے کہ ہمارے ہاں ایسا ہی ہوتا آرہا ہے؟ یوسف رضا گیلانی (جو بعد ازاں پاکستان کے وزیراعظم ہوئے) نے کتاب کے مصنف کو سیاست کی سفاکیوں کے بارے میں یہ عبرت انگیز کہانی لندن میں سنائی تھی۔ آج پھر وہی لندن ہے اور میدانِ سیاست میں آج بھی نواز شریف موجود ہیں، ایک مقتدر فرد کی حیثیت سے۔ چوہدری برادران بھی موجود ہیں جنہوں نے اسی لندن میں ایک جماعت کے سربراہ سے معاہدہ کیا ہے کہ نواز شریف کے چلتے ہوئے اقتدار کو چلتا کیسے کیا جائے۔ کیا نواز شریف کوئی ریڈ لائن عبور کرگئے ہیں کہ انھیں نیا سبق سکھایا جانا ضروری ہوگیا ہے؟ یہ نیا ’’لندن پلان‘‘ ماضی میں لندن ہی میں ہونے والے بہت سے پلانوں کی یاد دلاتا ہے۔

مدتوں قبل بلوچستان کے معروف سیاستدان جناب عطاء اللہ مینگل سے منسوب بھی ایک ’’لندن پلان‘‘ کی باز گشت مدتوں سنائی دیتی رہی ہے۔ یہ لندن ہی ہے جہاں بیٹھ کر پنجاب کے ایک سابق گورنر نے بھارتی ٹینکوں پر سوار ہوکر پاکستان کے ایک فوجی حکمران کا تختہ الٹنے کا اعلان کیا تھا اور لندن سے شایع ہونے والے ایک عالمی شہرت یافتہ جریدے میں اپنے ان ارادوں کے بارے میں ایک آرٹیکل بھی شایع کردیا تھا۔ بھارت کی اعانت حاصل کرنے کے حوالے سے پاکستانی عوام نے اس مضمون اور مضمون نگار کے خلاف سخت ردِ عمل کا اظہار کیا تھا لیکن کسے پروا تھی! یہ لندن ہے جہاں محترمہ بے نظیر بھٹو اور جناب نواز شریف نے کبھی متحد اور متفق ہوکر ایک مطلق حکمران سے گلو خلاصی کروانے کے لیے ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ پر دستخط کیے تھے۔ بلند جمہوری آدرشوں کے حصول کے لیے۔

آج پھر وہی لندن ہے جہاں علامہ طاہر القادری صاحب اور چوہدری شجاعت حسین و چوہدری پرویز الٰہی کے درمیان ایک میثاق طے پا گیا ہے۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ایک وزیراعظم اور اس کی حکومت سے نجات حاصل کرنے کے لیے۔ مگر وہ علامہ صاحب ایسی غیر سیاسی شخصیت،جن کا ملک بھر میں کوئی سیاسی حلقہ نہیں ہے، چوہدری برادران ان کے تعاون سے کیا حاصل کر پائیں گے؟ جمہوری روایات کا یہ حسن ہے کہ ہر ایک کو احتجاج کرنے، جلسے جلوس نکالنے اور اپنی اپنی ڈفلی بجانے کا حق ہے مگر کسی سیاسی جماعت اور سیاستدان کے بارے میں بہر حال یہ تاثر نہیں ابھرنا چاہیے کہ وہ کسی کے ہاتھوں استعمال ہورہا ہے۔

اس سے سیاست کاروں کے کردار پر دھبہ بھی لگتا ہے اور عوام میں ان کا اعتبار بھی جاتا رہتا ہے کہ حقائق تادیر چھپے تو نہیں رہ سکتے۔ آج کے حکمرانوں کو بھی اپنی ذات کے حصار سے نکل کر اور محض اپنے مفادات کے تحفظ و حصول سے بالا ہوکر آگے بڑھنا چاہیے۔ آخر کوئی وجہ تو ہے کہ نیا لندن پلان بنانے والوں کے ساتھ ساتھ جناب آصف زرداری کو بھی (مجبوراً؟) حکمرانوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا پڑ گئی ہے۔

امن کا خواب

$
0
0

اخباری خبر یہ ہے کہ بھارت کے نو منتخب وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارتی آئین کے تحت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لیے کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ ایکسپریس نے بھارتی ٹی وی کے حوالے سے خبر دی ہے کہ بھارتی وزیر مملکت برائے وزیر اعظم آفس جتندرا سنگھ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے بیان میں کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے لیے کارروائی کا آغاز کر دیا ہے، حکومت اس آرٹیکل پر بحث کو تیار ہے اور اس مقصد کے لیے این ڈی اے کی حکومت اسٹیک ہولڈرز سے رابطے کر رہی ہے۔

پہلے ہی روز نتائج کی بنیاد رکھتے ہوئے جتندرا سنگھ نے کہا کہ اس اقدام سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے موقف کی تائید ہوتی ہے جس کا اظہار انھوں نے انتخابی مہم میں کیا تھا، آئین کی دفعہ 370 ترقی میں نفسیاتی رکاوٹ ہے، متنازع حیثیت کی وجہ سے آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھارتی وزیر مملکت کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر اور بھارت میں واحد لنک آئین کا آرٹیکل 370 ہے، آرٹیکل 370 آئین کا حصہ نہ رہا تو کشمیر بھارت کا حصہ بھی نہیں رہے گا۔

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر متنازع علاقہ ہے اور اس کے حل کے لیے اقوام متحدہ نے کشمیر میں استصواب رائے کرانے کے لیے قرار دادیں منظور کر رکھی ہیں لیکن بھارت گزشتہ 65 سالوں سے اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر پر قابض ہے، اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے اور دنیا کو بے وقوف بنانے کے لیے وہاں نام نہاد انتخابات کا ڈھونگ رچاتا رہتا ہے جب کہ کشمیری عوام ہر بار ان نام نہاد انتخابات کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔ کشمیری عوام نے اپنے حق خود ارادیت کے لیے ہر سطح پر آواز بلند کی لیکن کسی نے سنجیدگی سے ان کی طرف نہیں دیکھا، آنکھیں اور کان بند رکھے تو ایسی صورت میں کشمیری عوام کے پاس ایک ہی راستہ احتجاج کا رہ گیا۔

سو انھوں نے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کے لیے احتجاجی جلسوں کا سلسلہ شروع کر دیا جس سے بوکھلا کر مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت نے بھارت کی مرکزی حکومت سے کمک طلب کر لی، آؤ دیکھا نہ تاؤ مقبوضہ کشمیر میں بھاری تعداد میں فوج گلی کوچوں میں پھیلا دی جس نے کشمیری عوام کے پر امن احتجاجی جلوسوں کو کچلنے کے لیے جس ظلم و بربریت کا مظاہرہ شروع کیا اس سے انسانیت کانپ اٹھی۔ اس ظلم و بربریت کے نتیجے میں اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری مسلمان بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوئے۔ بدنصیبی سے اس وقت عالمی انصاف نے اپنی آنکھوں پر تعصب کی سیاہ پٹی باندھ رکھی ہے اور اندھیرے میں رہ کر وہ بھی اسے دہشتگردی سے تعبیر کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔

یاد رہے کہ 19 جولائی 1947 کو مسلمانوں کی نمایندہ جماعت ’’مسلم کانفرنس‘‘ نے ایک قرارداد کے تحت پاکستان سے الحاق کا رسمی اعلان کر دیا تھا اور مہاراجہ ہری سنگھ جوکہ کانگریس سے ملا ہوا تھا، اس نے بزعم خویش کشمیری عوام کو اعتماد میں لیے بغیر 27 اکتوبر 1947 کو کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا۔ مہاراجہ ہری سنگھ کے اس من مانے فیصلے کے نتیجے میں پہلی جنگ ہوئی، کشمیری حریت پسندوں نے آزادی کی جنگ شروع کر دی تو بھارت خود اقوام متحدہ پہنچ گیا۔ 1949 میں اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرائی اور 5 جنوری 1949 کو اقوام متحدہ نے ایک قرارداد کے ذریعے کشمیر میں استصواب رائے کے لیے بھارت سے کہا۔

بھارت نے اپنی افواج نکالنے اور کشمیر میں استصواب رائے کرانے کا اقوام متحدہ میں وعدہ کیا مگر آج تک اپنے اس عالمی وعدے کو وفا کرنے میں ناکام ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر مسئلہ کشمیر دنیا کی توجہ کا مرکز بنا تو اس سے بوکھلا کر بھارت نے 6 دسمبر 1965 کو اچانک پاکستان پر حملہ کر کے اس پر جنگ مسلط کر دی۔ سوویت یونین کی مداخلت سے جنگ بندی ہوئی۔ اس طرح ایک بار پھر بھارت کو منہ کی کھانی پڑی۔ وقت گزرتا رہا لیکن بھارت کے زخم تازہ تھے۔ ایڈوانی یہ کہہ چکے ہیں کہ ’’بنگلہ دیش (مشرقی پاکستان)‘‘ بھارت کے ہاتھ سے جاتا رہا۔ ان بھارتی عزائم کا اعتراف ہے کہ بھارت کس طرح پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے میں پیش پیش تھا۔

اگرچہ ایک بار پھر 1971 میں بھارت نے پاکستان پر جنگ مسلط کی اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن تو گیا لیکن اس بھارتی پروپیگنڈے کو گنگا جمنا میں غرق کر گیا کہ ’’دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق ہو گیا ہے‘‘ کیونکہ مشرقی پاکستان میں دو بھائیوں کو آپس میں لڑوا کر مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے جدا کر تو لیا گیا لیکن اس حصے کو لاکھ کوشش کے باوجود بھارت میں ضم کرنے میں بھارت کے پاکستان دشمن لیڈر کامیاب نہ ہو سکے اور یہی دو قومی نظریے کی حقیقت ہے جو بھارت کے لیے قابل تکلیف بات ہے۔ پھر اسی جنگ کے نتیجے میں 1972 میں پاکستان اور بھارت نے شملہ سمجھوتہ پر دستخط کیے جس میں تمام معاملات بالخصوص مسئلہ کشمیر کو پر امن طور پر حل کرنے کا عہد کیا گیا لیکن بھارت مسلسل مذاکرات سے فرار ہوتا رہا اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا رہا۔

اور مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد بھارتی الیکشن کرائے جاتے رہے ہیں جن کا کشمیریوں نے ہر بار بائیکاٹ کیا ہے۔ 20 فروری 1999 میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے لاہور کا دورہ کیا اور اعلان لاہور کے تحت پاکستان اور بھارت نے ایک بار پھر تمام معاملات بالخصوص مسئلہ کشمیر کو پر امن طور پر حل کرنے کا عہد کیا۔ اس اثنا میں کارگل کا مسئلہ سامنے آیا جس سے مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر فلیش پوائنٹ بن گیا۔ امریکی مداخلت کے باعث اور مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے تحت حل کرانے کی یقین دہانیوں کے تحت 24 جولائی 2000 کو حزب المجاہدین نے جنگ بندی کا اعلان کیا مگر مسلسل جموں کشمیر میں بھارتی وحشیانہ قتل و غارت گری اور دلسوز مظالم کے باعث 8 اگست 2000 کو یہ اعلان واپس لے لیا گیا اس طرح بھارتی مظالم شدت اختیار کرتے چلے گئے۔

قبل ازیں 2000 کو امریکی صدر بل کلنٹن نے پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا جسے جنوبی ایشیا میں قیام امن کا مجوزہ نام دیا گیا تھا۔ بعد ازاں مارچ 2001میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل مسٹر کوفی عنان نے بھی پاکستان اور بھارت کا دورہ کیا اور دونوں ممالک کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے باہمی مذاکرات کرنے کا مشورہ دیا اور اس دورے کو پاکستان اور بھارت کے درمیان امن قائم کرنے کی کوششیں اگلے مرحلے میں داخل ہونے والی قرار دیا گیا تھا، اسی عالمی دباؤ کے نتیجے میں 23 مئی 2001 کو بھارت نے پاکستان کے (اس وقت کے چیف ایگزیکٹو) جنرل پرویز مشرف کو مذاکرات کے لیے دہلی آنے کی دعوت دینے کا فیصلہ کیا اور 25 مئی 2001 کو باضابطہ دعوت نامہ جاری کیا گیا جس کا پاکستان نے مثبت جواب دیا اور بھارتی وزیر اعظم واجپائی نے چیف ایگزیکٹو پاکستان جنرل پرویز مشرف کے جواب پر اطمینان کا اظہار کیا۔

اسی دوران جنرل پرویز مشرف نے بحیثیت صدر مملکت پاکستان کا حلف اٹھایا اور اسی حیثیت سے مذاکرات کے لیے دہلی روانہ ہوئے۔ مجوزہ امن مذاکرات جو جولائی 2001 میں آگرہ میں ہوئے جس کا نتیجہ ایل کے ایڈوانی کی مہربانیوں سے یہ نکلا کہ مجوزہ مذاکرات کا مسودہ متعدد بار تبدیلیوں کے بعد تیار ہوا لیکن بھارت حسب روایت ہٹ دھرمی پر اتر آیا۔ بقول پرویز مشرف کے ’’حالانکہ ایک میز اور دو کرسیاں معاہدے پر دستخط کے لیے رکھی جا چکی تھیں‘‘ بعد ازاں بھی پاکستان اور بھارت کے مابین نچلی سطح پر امن مذاکرات ہوتے رہے ہیں لیکن ہر بار یہ مذاکرات غیر نتیجہ ثابت ہوتے رہے ہیں۔

ان تمام تاریخی حوالے سے یہی بات عیاں ہے کہ بھارت مذاکرات کی میز سے گھبراتا رہا ہے اور اس سے فرار ہونے کا راستہ تلاش کرتا رہتا ہے۔ اور ایک بار پھر بھارت فرار کا راستہ تلاش کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ہر صورت میں کشمیری عوام اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حق میں جا سکتا ہے جس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف وہ امن کی باتیں کرتا رہتا ہے تا کہ عالمی دباؤ میں کمی آئے تو دوسری طرف وہ مذاکرات سے بھاگے جا رہا ہے اور تیسری طرف وہ کشمیریوں کے قتل عام میں مصروف ہے اور چوتھی طرف وہ اپنے ہی لوگوں کا خون بہا کر الزام پاکستان پر لگاتا رہا ہے۔ کیا اس صورت میں امن کا خواب پورا ہو سکتا ہے؟

ہوگا وہی جو مذکور ہے مکتوب ہے

$
0
0

اسلام دین فطرت اور امن و سلامتی کا مذہب ہے، عقل و شعور، حکمت و بصیرت، صبر، تحمل و برداشت اور وسیع النظری اسلام کا خاصہ ہے، اسلام صلح و مفاہمت اور گفت و شنید کے ذریعے الجھی ہوئی ڈور کو سلجھانے کی ہدایت کرتا ہے اور دینی بصیرت، رواداری، اعتدال، مساوات و میانہ روی کا دامن ہاتھ میں تھامے رکھنے، انتہا پسندی کے خاتمے اور ملی یگانگت کے ساتھ پوری فراست، بالغ النظری اور زمینی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی عزت و وقار اور قومی سلامتی کے تحفظ اور پر امن بقائے باہمی کے تاریخ ساز اصول کے تحت حکمت و سیاست سے بھرپور معاہدات اور تمام گمبھیر مسائل اور عظیم چیلنجز پر مکمل قابو پانے اور بھرپور حل کی ترغیب دیتا ہے۔

’’سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے‘‘ اس کو کہتے ہیں دانائی، سانپ بھی نہ مرے اور لاٹھی بھی ٹوٹ جائے یہ نادانی ہے۔ سیرت نبویؐ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مسئلے کا حل جنگ میں تلاش کرنا دانش مندی کے خلاف ہے، اسلام وسیع القلبی کے ساتھ احترام آدمیت اور تکریم انسانیت کا درس دیتا ہے۔

شاید یہ میاں صاحب کی صلح جو اور امن پسند طبیعت ہی تھی جو انھیں پر امن بقائے باہمی کے اصول کے تحت پائیدار امن کے قیام اور آغاز کے لیے انھیں پاکستان سے اٹھا کر بھارت نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں لے گئی اور اس طرح وہ تاریخ کے پہلے وزیر اعظم بن گئے جو اس نوعیت کے پروگرام میں شریک ہوئے، تقریب حلف برداری کے دوسرے دن میاں صاحب اور مودی کی اہم اور تفصیلی ملاقات ہوئی۔

اس ملاقات میں میاں صاحب نے 1999 کے اعلان لاہور کو دوبارہ آگے بڑھانے کی آرزو کی اور مودی نے میاں صاحب کو چارج شیٹ کا تحفہ پیش کرتے ہوئے ممبئی حملوں کے ملزمان کو سزا دلوانے اور دہشت گردوں کو لگام دینے کا مطالبہ کیا، میاں صاحب خیر سے وطن واپس لوٹ آئے لیکن اس ملاقات کا ثمر یعنی چارج شیٹ کے تحفے کو سوا اپنے ہمراہ اور کچھ نہ لا سکے۔ نریندر مودی کی انتہا پسند ہندو کی حیثیت سے پاکستان سے بغض و عداوت اور مسلم دشمنی سب پر واضح ہے۔؟

میاں صاحب کو بھارت لے جانے والی صرف ان کی صلح جو اور امن پسند طبیعت ہی نہیں بلکہ کئی ایسی مجبوریاں بھی ہیں جن سے پہلوتہی ممکن نہیں یہ ایک واضح اور روشن حقیقت ہیں …! اس حقیقت سے سب بخوبی واقف نہیں کہ ہم ایک عرصے سے حالت جنگ میں ہیں لیکن جنگ کرنے تسلی بخش انداز میں کلی طور پر نبرد آزما ہونے کی پوزیشن میں نہیں، ہمارے داخلی و خارجی حالات اور معیشت کی نا گفتہ بہ صورت حال ہمیں جنگ کی اجازت نہیں دیتے، ہماری معیشت بیرونی امداد کے دیمک زدہ بانسوں پر ٹکی ہوئی ہے۔

یہی امداد ہمیں غیروں کا غلام بنائے رکھنے اور وفاداری کا مکمل حق ادا کرنے پر بھی مجبور رکھتی ہے، ساتھ ہی یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہم ایک قوم نہیں بلکہ عوام کا ایک ہجوم ہیں جس میں ایمان، تنظیم اور یقین محکم کا شدید فقدان ہے، ہماری داخلہ اور خارجہ پالیسی بھی ناکامی سے دو چار ہے، داخلی طور پر دہشت گردی، تخریب کاری، بم دھماکے اور قتل و غارت پر ہے اور خارجی طور پر طاقتور ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے۔

بالعموم جنگ کسی مسئلے کا حل کبھی نہیں رہی اور بالخصوص دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان تو جنگ دائمی تباہی و بربادی کا پیش خیمہ اور خود کشی کے مترادف ہو گا۔ ہمیں تصادم سے ہٹ کر ترقی کے دیگر میدانوں میں دشمنی کے اس معرکے کو سر کرنا چاہیے جیسا کہ دیگر با حکمت ترقی یافتہ اقوام نے کیا، ہمیں بھی ترقی کے اس مفہوم اور اپنے ملک و قوم کو فائز کرنے کی ضرورت ہے کہ جس کی بدولت کوئی بھی بدنیت ہمیں نرم چارہ سمجھ کر ہماری طرف بری آنکھ سے دیکھنے کی ہمت تک نہ کر سکے لیکن افسوس اس کے لیے ہمیں جن عظیم الشان عناصر، خوبیوں، خصوصیات، صلاحیتوں، عزم و حوصلے، اتحاد و یکجہتی و یگانگت کی ضرورت ہے اس سے آج ہم محروم ہیں، تاہم مایوسی کفر ہے اور امید ہی زندگی کی وہ اہم حقیقت ہے جو یقین کے راستوں سے ہوتی ہوتی ہوئی بالآخر منزل تک پہنچا دیتی ہے، ہمیں بھی آج اس عظیم جذبے کی اشد ضرورت ہے۔

شاید یہی وہ حقیقی وجوہات اور مجبویاں ہیں جو میاں صاحب کو تلخیاں ختم کر کے بات چیت کے نئے دور کا آغاز کرنے اور مذاکرات کے ذریعے تمام مسائل بشمول مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنے کے لیے مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے بھارت لے گئی لیکن ہمیں امن پسندی اور صلح جوئی کے تمام تر جذبات کے ساتھ ساتھ تاریخ کی اس ناقابل تردید حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ محمد علی بوگرہ سے لے کر اب میاں نواز شریف تک سب ہی نے بھارت کو اپنے اپنے ادوار میں امن کی پیش کش کی مگر بھارت نے ہمیشہ ایک بد مست ہاتھی کی طرح ہماری ہر پیشکش کو نہ صرف اپنے پائوں تلے کچل دیا بلکہ پاکستان کو کمزور کرنے کی پس پردہ سازشیں جاری  رکھیں اور پاکستان کے وجود کو تسلیم کبھی نہیں کیا اور ہمیشہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کی سرپرستی کی۔

کشمیر پر غاصبانہ قبضے سے لے کر پاکستان کے چپے چپے میں دہشت گردی اور تخریب کاری کے تمام تانے بانے اور ڈانڈے بھارت سے ملتے ہیں، بھارت نے افغانستان میں کئی ایسے قونصل خانے بنا رکھے ہیں جہاں سے بلوچستان سمیت پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی دہشت گردی اور تخریب کاری کے منظم نیٹ ورک کی کمان کی جا رہی ہے اور انھیں اسلحہ و مالیاتی امداد سمیت تمام اہم اور ضروری سہولیات بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔

بھارت جس ممبئی اور پارلیمنٹ حملوں کا الزام پاکستان پر لگاتا ہے ان کی حقیقت سے تو خود بھارتی فوجی جرنیل اور خفیہ ایجنسیوں  نے پردہ اٹھا دیا کہ ان حملوں کا ڈراما بھارت نے خود پاکستان کو ساری دنیا میں بدنام کرنے، دہشت گرد قرار دلوانے، پابندیاں لگوانے اور مسلسل دبائو میں رکھنے کے لیے رچایا، نیز بھارتی کرنل پر دھت نے یہ شرمناک اور قابل مذمت انکشاف کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ سمجھوتہ ایکسپریس کو نذر آتش بھی انھوں نے خود کیا، نیز کشمیر بھی بھارت کی دہشت گردی کا ایک عرصے سے منہ بولتا ثبوت اور تخریب کاری کی مظلوم تصویر، سفاکیت و بربریت کا مجسم پیکر ہے جہاں دن رات بارہ لاکھ بھارتی فوجی نہتے و بے گناہ کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں، کشمیر پر مکمل قبضے کی سازش وہاں ڈیموں کی تعمیر کر کے آبی جارحیت کا کھلا مظاہرہ کمپوزٹ ڈائیلاگ و غیرہ یہ وہ بھارتی جرائم ہیں جن پر پوری دنیا خاموش، نیز اقوام متحدہ نے بھی اپنے ہونٹ سی لیے ہیں۔


کاش میں ایک درخت ہوتا

$
0
0

اگر میں ایک درخت ہوتا؛

زمین میں میری جڑیں ہوتیں۔ میرے بازو ہرے بھرے ہوتے۔ میں اوروں کو چھائوں دیتا۔ پنچھی میری ٹہنیوں پر گھونسلا بناتے۔ وہ گیت گاتے، تو میں گنگناتا۔ بچے میری شاخوں پر رسی ڈال کر جھولا جھولتے۔ وہ ہنستے، اور میں مسکراتا۔ اور جب بارش ہوتی، میں کھل اٹھتا۔ ہوا کے دوش پر لہراتا۔ رقص کرتا۔ میرا انگ انگ جی اٹھتا۔ نہ تو چلچلاتی دھوپ مجھے ستاتی، نہ ہی حبس طبیعت پر گراں گزرتا۔ ہنستے گاتے میں موسموں کی تلخیاں برداشت کرتا۔ ہاں میں خوش ہوتا!

تو اگر میں ایک درخت ہوتا، تھکے ہارے مسافر میری چھائوں میں آرام کرتے۔ محبت کرنیوالے میرے تنے پر کَندہ اپنے نام کرتے۔ مجھ پر پھل لگتے، جن کی مٹھاس خوشی سے لبریز ہوتی۔ مجھ پر پھول آتے، تو چار سو رنگ بکھر جاتے۔ میری محبت سب کے لیے یکساں ہوتی۔ مرد ہو یا عورت، بادشاہ ہو یا فقیر، رنگ چاہے کیسا ہو، عقیدہ چاہے کوئی ہو؛ سب کے لیے میری چھائوں ایک سی ہوتی۔ نرم اور پُرسکون۔ امیر اور غریب، دونوں کے لیے میرے پھلوں کی چاشنی ایک سی رہتی۔ سب میرے لیے برابر ہوتے۔

ہاں، اگر میں ایک درخت ہوتا؛ مجھے زمین کی خواہش نہیں ہوتی۔ میں جہاں ہوتا، وہیں خود کو مطمئن اور مسرور پاتا۔ میں کسی سے لڑتا جھگڑتا نہیں۔ کسی کا حق نہیں مارتا۔ کسی کے وسائل پر قبضہ نہیں کرتا۔ قدرت کی عطا کردہ نعمتوں پر قناعت کر لیتا۔ میں کسی کو گزند نہیں پہنچاتا۔ کسی کا دل نہیں دُکھاتا۔ کسی کو قتل نہیں کرتا۔ مجھے اپنے ہمسائے کے سیاسی نظریات سے غرض نہیں ہوتی۔ میں اُس کی لسانی شناخت سے بے پروا ہوتا۔ میں اُس کے مذہبی عقاید میں نہیں الجھتا۔ ہاں، اگر میں ایک درخت ہوتا، تو اپنی چھوٹی سی کائنات میں خوش رہتا۔ تعصب نہیں برتتا۔ سب سے یکساں سلوک کرتا۔ کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا۔

شومئی قسمت؛ میں درخت نہیں ہوں۔ مگر خوش نصیب ہوں کہ انسان ہوں۔ اشرف المخلوقات۔ زمین پر خدا کا خلیفہ۔ سب سے افضل۔ سب سے برتر۔ مگر نہ جانے کیا سبب ہے، خوشی مجھ سے روٹھ گئی ہے۔ بے جڑی کا کرب مجھے ستاتا ہے۔ نہ تو میں گیت گاتا ہوں، نہ ہی گنگناتا ہوں۔ ہنسنے مسکرانے کے فن سے یک سر لاعلم۔ اور جب بارش ہوتی ہے، میں گھبرا جاتا ہوں۔ چلچلاتی دھوپ مجھے ستاتی ہے۔ حبس یاسیت طاری کر دیتا ہے۔ ہاں، میں قنوطی ہو!

تو میں انسان ہوں۔ گلی سے گزرتے تھکے ہارے مسافروں کی مجھے پروا نہیں۔ بس، اپنے آرام سے غرض ہے۔ اپنے باغات کے پھل اوروں میں نہیں بانٹتا۔ اپنے آنگن میں کھلنے والے پھولوں کی خوش بو پر پہرہ لگا دیتا ہوں۔ میری محبت فقط میری ذات کے لیے ہے۔  ہاں، میں شاہ پرست ہوں۔ فقیروں سے میرا کوئی ناتا نہیں۔ بجائے علم کے اثر و رسوخ کی بنیاد پر آدمی کی حیثیت کا تعین کرتا ہوں۔ جنس کوئی ہو، رنگت کیسی ہی ہو، صرف اُسے چنتا ہوں، جس سے میرا مفاد وابستہ ہو۔ نہیں، میں درخت نہیں۔ اور زمین کی آرزو مجھے بے کل رکھتی ہے۔ اِس کے لیے لڑتا جھگڑتا ہوں۔ اپنے حق کے لیے دوسروں کا حق مارنا میرے نزدیک جائز ہے۔

ضرورت پیش آئے، تو فقط دل نہیں دُکھاتا، دل لگا بھی لیتا ہیں۔ صرف اپنے عقاید کو جائز خیال کرتا ہوں، دوسرے جائیں جہنم میں۔ ملاقاتی کی لسانی شناخت، شناخت کرنے کے بعد معاملہ کرتا ہوں۔ ہمسائے کے سیاسی نظریات کی ٹوہ میں رہتا ہوں، تاکہ وقت پڑنے پر مخبری کر سکوں۔تو میں انسان ہوں، حکمران ہوں؛ الیکشن کے سمے جو وعدے کرتا ہوں، اُنھیں مسند سنبھالتے ہی بھول جاتا ہوں۔ عہدے باٹنے سے قبل، قابلیت نہیں قبیلہ دیکھتا ہوں۔ ترجیح اپنے بہو بیٹوں کو دیتا ہوں۔ ملک میں کم، بیرون ملک زیادہ وقت گزارتا ہو۔ الیکشن جیت جائوں، تو جشن مناتا ہوں۔ اور ہار جائوں، تو دھاندلی کا راگ الاپنے لگتا ہوں۔ خود کو جمہوریت پسند کہتا ہوں، مگر اُس کی بساط لپیٹنے کے لیے ’’گرینڈ الائنس‘‘ بنتا ہوں۔

کل جنھیں معطون ٹھہرایا تھا، آج اُن سے ہاتھ ملاتا ہوں۔ کیمرے کے آگے مسکراتا ہوں۔ شرم کو پاس پھٹکنے نہیں دیتا۔تو میں انسان ہوں، ایک سیاست دان ہوں؛ جب اپوزیشن میں ہوتا ہوں، تو ایک برس میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ داغ دیتا ہوں، اور جونہی اقتدار میں آیا، نظمیں غزلیں سب بھول جاتا ہوں۔ جسے سڑکوں پر گھسیٹنے کا ارادہ کیا تھا، اُسی کے ساتھ بیٹھ کر مسکراتا ہوں۔ جب کوئی پوچھتا ہے؛ اجی حضرت، ڈالر کی قدر کم ہونے کے باوجود استعفیٰ کیوں نہیں دیتے، تو میں اُنھیں تازہ تازہ پیش گوئیاں سنتا ہوں۔تو میں ایک دانش وَر ہوں؛ اور اپنا قلم فروخت کر چکا ہوں۔ جہل کا بیوپار کرتا ہوں۔ کھوکھلے نظریات بیچ رہا ہوں۔ جذباتیت کا ناسور پھیلا رہا ہوں۔ اور میں ایک عالم ہوں۔ اور فروغ علم کو فضول گردانتا ہوں۔

بھائیو، مطالعہ وقت کا زیاں۔ خرد کی راہ گمراہی۔ سائنس، فلسفے اور منطق کا نام سنتے ہی ناک بھوں چڑھاتا ہوں۔ جو صاحبِ منصب کہتا ہے، چپ چاپ کرتا جاتا ہوں۔میں قانون کا محافظ ہوں، مگر قانون کو اپنی حفاظت کے استعمال کرتا ہوں۔ رشوت زندگی کی جزو لاینفک۔ بدعنوانی میرے جسم کا اٹوٹ انگ۔ قانون اندھا ہوتا ہے، اِسی باعث جرائم کے سمے آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔ چاہے آپ اینٹ استعمال کریں، یا بندوق؛ مجھے غرض نہیں۔ میں استاد ہوں، مگر کلاس نہیں لیتا۔ سارا وقت کوچنگ سینٹر میں بیتاتا ہوں۔ صحافی ہوں، مگر خبر سے زیادہ مجھے اپنی خواہش کی پڑی ہے۔ میں انجینئر ہوں، مگر زیر تعمیر پل میں کم، اپنی زیر تعمیر کوٹھی میں مجھے زیادہ دل چسپی ہے۔ ڈاکٹر ہوں، مگر اسپتال سے زیادہ وقت کلینک میں گزارتا ہوں۔

ادیب ہوں، مگر تخلیقی سے زیادہ تشکیلی سرگرمیوں میں مصروف۔ گروہ بندیوں میں جٹا۔ پیسے دے کر اپنے انٹرویوز چھپواتا ہوں۔ اپنے ہر گیت، ہر افسانے کو شاہ کار ٹھہراتا ہوں۔ میں مدیر بھی ہوں، ناشر بھی؛ سمجھ لیجیے، پورا مافیا ہوں۔تو میں مرد ہوں؛ اور عورت کو پیر کی جوتی سمجھتا ہوں۔ اُسے خادمہ خیال کرتا ہوں۔ ناقص العقل ٹھہراتا ہوں۔ اُس پر تشدد کرتا ہوں۔ ضرورت پیش آئے، تو چہرے پر تیزاب پھینکنے سے دریغ نہیں کرتا۔ معاملہ گمبھیر ہو، تو آنکھ، ناک، کان کاٹ ڈالتا ہوں۔ تو میں مرد ہوں؛ عورت کے الفاظ، اُس کے جذبات کی نہیں، فقط اپنی تسکین کی پروا کرتا ہوں۔ اُسے تعلیم سے دُور رکھتا ہوں۔

پسند کی شادی نہیں کرنے دیتا۔ ہاں، مقدس کتاب سے اس کی شادی کر دیتا ہوں۔ جب اُس کے قتل کی خبر سنتا ہوں، تو کاندھے اُچکا کر آگے بڑھ جاتا ہوں۔ زندہ درگور کرنے کے واقعے کو اپنی ثقافت ٹھہراتا ہوں۔ جب پتا چلتا ہے کہ اُس کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہوئی ہے، تو قصورواروں سے زیادہ اُسے قصوروار ٹھہراتا ہوں۔ اُسے فحاشی اور بے حیائی کا منبع خیال کرتا ہوں۔ فتنہ قرار دیتا ہوں۔ اور۔۔۔میں اِس کھوکھلے معاشرے کا ایک بدنصیب مرد ہوں۔ اور اپنے ہم جنسوں کے وحشت ناک جرائم پر، اُن کی مجرمانہ خاموشی پر شرمندہ ہوں۔ اور ظلم کو بڑھاوا دیتے پدرسری سماج کے زوال کے لیے دعا گو ہوں۔ ہاں، میں اِس بدحال معاشرے کا ایک فرد ہوں۔

کاش میں فقط ایک درخت ہوتا۔

سماجی رابطوں کا موسم

$
0
0

ہر موسم کی اپنی خوبصورتی اور مزاج ہے۔ یہ بدلتے موسم اپنے ساتھ فطرت کے حسین رنگ لے کر آتے ہیں، گرمی کا موسم اپنے ساتھ جھلستی دھوپ، حبس اور صحت بخش غذا لے کر آتا ہے۔ اس موسم کی نعمتیں بے شمار ہیں۔ اکثر لوگ باغوں اور کھلی فضا میں زیادہ تر وقت گزارتے ہیں۔ دریا اور سمندر کے کنارے آباد ہو جاتے ہیں۔ آج کل پاکستان کے مختلف علاقوں میں شدید گرمی پڑ رہی ہے۔

سندھ کے دیہی علاقے شدید ترین گرمی کی لپیٹ میں ہیں۔گرمیاں شروع ہوتے ہی مزاج بھی بدلنے لگتے ہیں۔ ایک لحاظ سے گرمی کو ذات سے علیحدگی کا موسم بھی کہا جاتا ہے۔ ایک طرف گرمی کی شدت تو دوسری طرف بجلی کی آنکھ مچولی شروع ہو جاتی ہے۔ لوگ چڑچڑے اور حواس باختہ ہو جاتے ہیں۔ پانی کی قلت پریشانی میں اضافہ کر دیتی ہے۔ لیکن ذات سے بیزاری کے اس موسم میں بھی شادیوں کے دعوت نامے ملے ہیں۔

گرمی کی تعطیلات کا آغاز ہو چکا ہے، لہٰذا ماحول میں تخلیقی اثر اور تحرک پایا جاتا ہے۔ مہمانوں کی آمد و رفت کے سلسلے جاری ہیں۔ کچھ لوگ بیرون ملک سفر کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ذہن نئے منصوبے اور آنکھیں سہانے سفر کے خواب بن رہی ہیں۔ بچوں کے تھکا دینے والے امتحانات کے بعد مائیں بھی سکون کا سانس لیتی ہیں۔ ماحول میں بھی ٹھہراؤ آ جاتا ہے۔ گرمی کے دنوں میں سماجی رابطے عروج پر پہنچ جاتے ہیں۔ بہت سے گھروں میں مہمان پہنچ چکے ہیں۔ اور کہیں پر سفر کی تیاری چل رہی ہے۔ یہ تمام تر ہلچل محسوس کرنے پر ذہن کو جیسے نئے موسم کی نوید ملنے لگتی ہے۔

ہمارے ملک میں چاروں موسم طرح طرح کے کھانوں، مشروبات و دلچسپیوں سے سرشار ہیں۔ موسموں کے ساتھ وقت کے اوقات اور رہن سہن کے طریقے کار بھی بدل جاتے ہیں۔ جیسے سردیوں میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ رات ہوتے ہی گھر واپس لوٹ جائیں۔ جب کہ گرمی کے موسم میں رات گئے راستے، شاہراہیں و بازار لوگوں کے پر ہجوم بے کراں سے پر رونق رہتے ہیں۔قانون فطرت بھی عجب ہے۔ جس میں یہ عناصر ہم مزاج ہوں یا متضاد اپنے دائرے سے باہر نہیں جاتے۔ فطرت کے تمام تر اجزا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، ان میں انحصار، قربت، یقین اور مطلوبہ نتیجہ بھی برآمد ہوتا ہے۔ یہ ترتیب و توازن ہمیشہ مظاہر فطرت کا انمٹ حصہ ہے۔

زندگی حقیقت پسندی اور منطق کے اردگرد گھومتی ہے، جس میں جھوٹ، دھوکے اور منافقت کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ آپ جتنی محنت کریں گے، اتنا ہی صلہ ملے گا۔ قدرت کے اس نظام میں، انسان کے لیے سہولت و شفا کا حیران کن امتزاج ملتا ہے۔ جیسے گرمیوں کی سبزیوں و پھل، انسانی جسم کو ریشہ و پانی کی وافر مقدار مہیا کرتے ہیں۔ اس غذا میں موجود صحت بخش جزئیات جسم میں مختلف کیمیائی اجزا کی کمی کو پورا کرتے ہیں۔ گرمی کے موسم میں دستیاب ہونے والی غذا تاثیر میں ٹھنڈی اور معتدل پائی جاتی ہے۔ جھیلیں، دریا و سمندر گرمی کے موسم میں انسانی مزاج کو ٹھنڈا رکھتے ہیں۔ انسان نے پانی سے ہمیشہ تحرک حاصل کیا ہے۔

پانی اور احساس کا قریبی تعلق رہا ہے ۔ پانی کی قربت سکون، تخیل اور توانائی عطا کرتی ہے۔ جاپان کے سائنسدان ڈاکٹر مسارو اموٹو کہتے ہیں کہ ’’نہ فقط پانی ہماری سوچ اور احساس پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ انسانی سوچ و جذبات بھی پانی کے مالیکیول اسٹرکچر (سالماتی ڈھانچے) پر اثرانداز ہوتے ہیں۔‘‘ سمندر کی لہروں کا آہنگ اور تسلسل ذہن میں ٹھہراؤ کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ سمندر کی ہوا صحت بخش منفی آئرن (جوہری ذرات) سے بھری ہوئی ہے۔ جو جسم میں آکسیجن کو جذب کرنے کی صلاحیت بڑھاتے ہیں۔ یہ منفی آئرن انسانی جسم کے کیمیائی عمل Serotonin سیروٹنن میں توانائی پیدا کرتے ہیں۔ جسم میں ان کیمیائی اجزا کا توازن ذہنی و جسمانی دباؤ کو اعتدال پر لے کر آتا ہے۔

گرمی میں لو لگنے کے واقعات عام ہوتے ہیں۔ چھوٹے بچے گرمی کی شدت سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ شدید گرمی میں سر ڈھانپ کر باہر نکلنا چاہیے۔ لو لگنے کی صورت میں کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے قریبی سپر مارکیٹ، چوک اسٹور، سینیما یا ایسی جگہ جہاں ایئرکنڈیشن چلتے ہوں، پناہ لینی چاہیے۔ یا کسی سایہ دار ٹھنڈی جگہ آرام سے بیٹھ جائیں۔ کیونکہ اس وقت دماغ گھومتا ہے۔ دل کی دھڑکن بے قابو ہو جاتی ہے، سر درد بڑھ جاتا ہے۔ انسان کو خود کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ لہٰذا سب سے پہلے اس کیفیت کا تدارک ضروری ہے۔ اس کے بعد پانی پینے کا مرحلہ ہے۔ اگر بہت شدید گرمی ہے تو جسم کو پانی کی وافر مقدار چاہیے۔ اس کے بعد سر پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے تواتر سے برسائے جائیں۔ گیلا ٹھنڈا کپڑا گردن کے گرد لپیٹ کر بھی کچھ دیر میں آرام آ جاتا ہے۔ یا پھر کوئی رومال برف کے پانی سے تر کر کے سر پر لپیٹ دیا جائے۔

ایسی حالت میں زمین پر لیٹ کر پیر اوپر ٹکا لینے چاہئیں۔ پیروں کو جسم سے دو یا تین فٹ اونچا رکھنا ہے۔ میرے سامنے جب بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں، تو لوگوں پر گھبراہٹ طاری ہو جاتی ہے۔ گرمی کا ستایا ہوا شخص اور بھی حال سے بے حال ہو جاتا ہے۔تیز گرمی میں باہر نکلنے سے پہلے وافر مقدار میں پانی پی کر نکلنے سے لو لگنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ لو لگنے کی صورت میں املی، کیری، سبز دھنیے لیموں و نیازبو کا پانی فائدے مند رہتا ہے۔ اس کے علاوہ لسی، ستو، کم دودھ میں وافر مقدار میں پانی کے ساتھ چینی و نمک ملا کر مستقل استعمال سے بھی افاقہ ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر بیس منٹ کے بعد پانی کا گلاس پینا چاہیے۔

گرمی کے موسم میں باہر کی ناقص غذا، آلودہ پانی، برف کا استعمال کئی وبائی بیماریوں کو متعارف کروا دیتا ہے۔ گرمی میں کالرا، آنتوں کی بیماریاں، ڈینگی، ٹائیفائیڈ، پیلیا، ملیریا، جسم میں پانی کا انحطاط اور لو لگنا وغیرہ شامل ہے۔ بچوں کو پہلے سے چکن پاکس، مینرلز (خسرے) ربیلا سے بچاؤ کے ٹیکے لگوانے چاہئیں۔ ہر سال ہزاروں بچے گیسٹرو کے مرض کا شکار ہو کے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ویکسین الگ غیر موثر ہو جاتی ہے۔ گرمیوں کے دنوں میں باہر کی غذا استعمال نہ کی جائے، پانی ابال کر پیا جائے اور صفائی و ستھرائی پر دھیان دینے سے کئی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔

گرمی کے دنوں میں چمڑی کی بیماریاں عام ہو جاتی ہیں۔ جس کا بھی ایک سادہ سا علاج ہے۔ نیم کے پتوں کو ابال کر مستقل ان سے غسل کرتے رہنا۔ قدیم زمانے میں نیم کا پانی ایسے مریضوں کو پلایا جاتا تھا۔ان دنوں فریج میں رکھا ہوا باسی کھانا بعض اوقات نقصان دے ثابت ہوتا ہے۔ بجلی دیر تک چلے جانے سے جمے ہوئے کھانوں کی افادیت متاثر ہوتی ہے۔ پروسیسڈ فوڈ یا گوشت فقط ان دکانوں سے لینا چاہیے، جہاں جنریٹر پر چوبیس گھنٹے فرج چلنے کی سہولت موجود ہو۔ اکثر خواتین بھی سہولت کی خاطر ایک وقت میں دنوں کا کھانا فریز کر لیتی ہیں۔ یہ سہولت گرمی کے دنوں کے لیے موزوں نہیں ہے۔ انھیں گھر والوں کو باسی کھانا کھلانے کے بجائے تازہ کھانا کھلانا چاہیے۔ تا کہ اہل خانہ صحتمند رہیں۔ اور انھیں بار بار اسپتال جانے کی نوبت نہ پیش آئے۔

آج کل ناقص غذا اور غیر شفاف پانی کی وجہ سے جگر کی بیماریوں میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ دوست کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ کھانے میں مزیدار قسم کی بریانی اور زردہ بھی تھا۔ کھانے کے بعد فرماتی ہیں کہ یہ کھانا دو مہینے پہلے ان کے بھائی کی شادی کا ہے، جو اس نے فریز کر دیا تھا۔ یہ سن کر تو اس وقت میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے! پھر وہ مجھے کفایت اور سہولت کے حوالے سے فریز کیے گئے کھانوں کے فوائد بتانے لگیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ایسی سہولتیں، اس موسم میں جان لیوا ثابت ہو سکتی ہیں۔

گرمی کے موسم کے آتے ہی ہر طرف ٹھیلے آموں سے سج جاتے ہیں۔ سگھڑ خواتین چٹنیاں، مربے اور اچار بناتی ہیں۔ جو تحفے کے طور پر ایک دوسرے کو بھیجے جاتے ہیں۔ آم کے تحائف رابطوں کو اور بھی مستحکم بنا دیتے ہیں۔ میل جول اور سماجی رابطوں کا یہ موسم ہر طرف مہک رہا ہے۔

پی پی اور بلاول کا نیا کردار…

$
0
0

پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں پی پی پی واحد سیاسی جماعت ہے جس کی بنیاد نہ لسانی ہے نہ صوبائی و علاقائی، اس کی بنیاد قومی اور وفاقی ہے۔ 1967میں قیام میں آنے والی واحد سیاسی جماعت ہے جس کا رہنما ایک ایسا شخص تھا جو تعلیم کے ساتھ سیاسی تاریخ کا پروفیسر تھا جس میں پاکستان کو ترقی کی بلندیوں پر لے جانے کی صلاحیت تھی۔ وہ ایک اچھے وکیل اور ماہر لغت انگلش تھے ان کی صلاحیتوں پر یورپ، امریکا، افریقہ اور عرب ممالک کے سربراہان قائل تھے۔

انھوں نے 1970 کے عام انتخابات میں پنجاب سے بھی اکثریت حاصل کی۔ جب کہ 1970کے عام انتخابات میں  بلوچستان اور سرحد میں بلوچ اور پختون وم پرست جماعتوں کی اکثریت تھی جسکی بنیاد صوبائی قومیت تھی یہی وجہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے بنگالی بنیاد پر ووٹ حاصل کیے۔ پاکستان کے پانچ صوبے تھے ان میں پی پی پی نے دو صوبوں میں اکثریت حاصل کی ایک صوبہ سندھ اور ایک صوبہ پنجاب میں ۔ پاکستان کی وحدانیت وفاق کی مضبوطی کا تقاضہ تھا اقتدار اسی کو دیا جائے جس نے دو صوبوں میں اکثریت حاصل کی اور اس کی بنیاد قوم پرستی یا لسانی نہیں تھی۔ 1971 کی جنگ میں پاکستان کو ون یونٹ ٹوٹنے کے اثرات سے گزرنا پڑا اور سیاسی فیصلہ درست نہ ہونے سے فوج کو مشرقی پاکستان میں داخلی معاملات میں الجھانے سے ہمیں بہت بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔

90 ہزار قیدی اور ہمارا مغربی پاکستان کا کچھ علاقہ ہندوستان کے قبضے میں چلا گیا۔ عوام کا مورال گر چکا تھا۔ دنیا کی مضبوط ترین فوج اس سازش کا شکار ہونے کی وجہ سے شکست  سے دوچار ہو گئی تھی مگر اس وقت بعض جرنیلوں نے بڑی دانشمندی سے اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کیا۔ جنہوں نے نہ صرف پختونستان اور گریٹر بلوچستان اور سندھو دیش کے نام پر چلنے والی تحریک کو بے اثر بنایا بلکہ ہندوستان سے نوے ہزار فوجی رہا اور مقبوضہ علاقے خالی کروائے اور ہندوستان سے مسئلہ کشمیر پر معاہدہ کیا اور پاکستان کو جوہری قوت میں تبدیل کر کے ہماری پاک افواج کو ناقابل تسخیر قوت بنا دیا ۔

بد قسمتی یہ رہی کہ پاکستان کو علیحدہ مملکت کے طور پر تسلیم نہ کرنے والے انتہا پسند مذہبی عناصر اور سندھی، بلوچ اور پختون کی بنیاد پر قومی تحریک چلانے والوں نے پاکستان کی وفاقی قوت کو توڑنے میں بڑا اہم رول ادا کیا، جس کا سب سے زیادہ فائدہ اسوقت کے امریکی صدر کارٹر نے اٹھایا جنھیں پاکستان کے جوہری قوت بننے پر بڑا صدمہ تھا کیونکہ ان کی پالیسی ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ دنیا میں کسی مسلم ملک کو ، مسلم قوم کو کبھی بڑی طاقت بننے نہیں دینا ہے۔

اسی لیے امریکا  نے کبھی ہندو کے جوہری قوت بننے اور نہ یہودی کے جوہری قوت بننے اور عیسائی ملکوں اور بدھ مت والوں کے جوہری قوت بننے میں کبھی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی مگر ذوالفقارعلی بھٹو نے کرنل قذافی، شام کے حافظ الاسد اور سعودی عرب کے شاہ فیصل جیسے مدبر رہنمائوں کی مدد سے پاکستان کو بڑے خفیہ طریقہ سے جوہری قوت بنانے میں جو کامیابی حاصل کی اس نے امریکی صدر کو اتنا طیش دلایا کہ انھوں نے بھٹو اور ان کے خاندان کے صفایا کرنے کا سرعام عندیہ دیا۔ اسی سامراج کی آشیرباد پر 5 جولائی 1977 کو اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل ضیا الحق نے مارشل لاء لگایا جب کہ  بھٹو کے خلاف چلنے والی پی این اے کی تحریک میں امریکی ڈالروں کی امداد کام آئی۔

تمام سیاسی قوم پرست رہنما جن میں نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ ولی خان اور تحریک استقلال کے سربراہ ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان اور سندھ کے پیر پگاڑا نے بھٹو کے خلاف تحریک چلا کر پاکستان میں مارشل لاء کے اسباب پیدا کیے جب کہ تحریک کے اسباب اور پی این اے کی ڈیمانڈ کے 32 میں سے 31 نکات پر معاملات طے ہو چکے تھے۔

یہ مارشل لاء صرف اس لیے لگا کہ غیر مسلم قوتیں امریکا، برطانیہ اور فرانس اس بات پر متحد تھیں کہ مسلمانوں میں ایسی قیادت پیدا نہ ہونے دی جائے جو ان کے مد مقابل ہو اور جب بھٹو نے اسلامی سربراہی کانفرنس کا کامیاب ترین انعقاد کیا اور عربوں کو پاکستان کی فوجی صلاحیتوں کا اعتراف کروایا تو ایک نعرہ دیا کہ اب دنیا میں مسلمان ایک تیسری قوتTHIRLD WORLD کے طور پر سامنے آ چکی ہے تو اس دن سے پاکستان کے سالمیت کے خلاف امریکا نے بہت کام کیا پہلے پاکستان کو سیاسی طور پر یتیم کیا،  بھٹو کے خاندان کو مروایا، بھٹو کو جوڈیشری کے ذریعے اور بینظیر بھٹو کو انتہا پسندوں کے ذریعے قتل کروایا۔ مرتضیٰ اور شاہنواز ہلاک کیے گئے۔ وہ اب بھی سب سے زیادہ اسی جماعت کو نقصان پہنچائے گا جو پاکستان میں سیاسی آزادی، بیوروکریسی پر قابو پانے کے لیے کامیاب جدوجہد کرے گی ۔

موجودہ وزیر اعظم نے اپنے گزشتہ حکمرانی کے دور سے بہت سبق حاصل کیا ہے۔ وہ بھٹو کے انداز سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ وہ دو باتوں پر توجہ دے رہے ہیں ایک ملک میں معاشی اور اقتصادی نظام کو درست کرنا چاہتے ہیں، انرجی کے کمی کو ختم کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے وہ امن عامہ پر بھرپور توجہ دے رہے ہیں، اور ابھی تک کوئی سیاسی دبائو قبول نہیں کیا۔ اسی لیے ہمیں یہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ شاید نواز شریف کو بھی مدت پوری نہیں کرنے دی جائے گی۔ بلاشبہ جو قومی سیاست کے بجائے علاقائی اور لسانی سیاست کر رہے ہیں انھیں قومی دھارے میں آنے سے کچھ سیاسی نقصان یہ ہو گا کہ ان کے ووٹ بینک کم ہو جائیں گے مگر مستقبل کے پاکستان کے حق میں قومی سیاست ہی اس ملک کی ترقی کا راز ہے۔

بھٹو کی صحیح جانشین بے نظیر ہی تھیں جنہوں نے سیاسی رکاوٹوں میں آگ کے دریا عبور کیے وہ اپنے باپ کے مشن پر گامزن تھیں اور اپنے والد کے مقام تک پہنچ چکی تھیں شاید اسی لیے انھیں قتل کر کے پاکستانی قوم کو سیاسی یتیم بنا دیا گیا۔ ان کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پارٹی کی اصل قوت چیف ایگزیکٹو کمیٹی کو دے دی جاتی اور پارٹی میں سیاسی اصول ذوالفقارعلی بھٹو ہی کے رکھے جاتے سب سے زیادہ توجہ پاکستان کے 62 فیصد آبادی والے صوبے پر دینی چاہیے تھی۔ آصف علی زرداری صرف پارٹی کے چیئر پرسن رہتے یا پھر پاکستان کے صدر رہتے تو حال ہی میں ہونیوالے انتخابات میں پی پی پی کو پنجاب، بلوچستان اور کے پی کے میں ایسی شکست کا سامنا نہ ہوتا۔

اب بے نظیر کے صاحبزادے بلاول بھٹو جوان ہو رہے ہیں ان کو پی پی پی کا چیئر مین بنا دیا گیا ہے۔ سیاست میں آنے کے لیے انھیں بہت زیادہ سیاسی مطالعے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے وہ اپنی پارٹی کے تمام صوبوں کے اہم رہنمائوں پر مشتمل ایک مشاورتی کونسل بنائیں۔ تمام اقدامات ان کے مشورے اور رضامندی سے کریں۔ پارٹی کے نوجوانوں کو عوام کے قریب لائیں ہر علاقے میں وارڈ آفس بحال کریں۔ عوامی معاملات پر بھر پور توجہ دیں ۔ کرپشن کرنیوالوں پر نگاہ رکھیں اور اللہ نے اس پارٹی کو یہ موقع دیا ہے کہ سندھ کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کی وجہ سے اس صوبے میں انقلابی ترقیاتی کام کریں اور سندھ کے معاملات میں پی پی پی کے 70 فیصد ورکرز و رہنمائوں کا تعلق ان سے ہو جن کی مادری زبان سندھی نہیں ہے۔

میرا مقصد شہری علاقوں سے ہے صرف سندھ میں دو بڑی قومیں آباد ہیں ایک قدیم سندھی اور دوسرے جدید سندھی جو مہاجروں کی اولاد  ہیں۔ پارٹی میں یہ تاثر ختم ہو کہ پی پی پی صرف اندرون سندھ کی پارٹی ہے ، پی پی پی کے پاس پروفیسر این ڈی خان، تاج حیدر ، رضا ربانی، شہلا رضا جیسی شخصیات ہیں اور آپ کے اس اقدام سے شہر کراچی اور حیدرآباد سے غیر سندھی بولنے والے بہت سے تعلیم یافتہ، معزز شخصیات، علمی و ادبی شخصیات اس جماعت میں آنے کے لیے تیار ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو صرف پاکستان کو وفاقی طور پر مضبوط کرنا چاہتے ہیں جو سیاست میں نہ فرقہ پرستی کے قائل ہیں نہ لسانی سیاست نہ علاقائی سیاست کے ۔ اگر پی پی پی ایسے لوگوں کو اپنی جماعت میں دعوت دے تو یہ پی پی پی پھر ایک بار ذوالفقارعلی بھٹو کی جماعت بن سکتی ہے۔ یہ کام اب بلاول بھٹو کا ہے ۔

حیدر آباد، مفادات کا مارا ہوا شہر…

$
0
0

ملک کے شہروں کی درجہ بندی جس طرح بھی ہو، جو شخص جس شہر میں رہتا ہے اور اسے اس شہر سے جذباتی لگاؤ ہے۔ وہ شہر اس کے لیے اول نمبر ہی رہتا ہے۔ یہ پاکستانی نہیں بین الاقوامی تصور ہے۔ میں بھی ایک شہر میں رہتا ہوں جو پہلے پاکستان کا تیسرا اس کے بعد، نمبر بدلتا ہے کیونکہ اس شہر کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ چھوٹے شہر ترقی کر کے اگلے نمبروں پر چلے گئے اور یہ بڑا شہر ان ’’وجوہات‘‘ کی بنا پر جن پر میں گفتگو نہیں کرنا چاہتا اپنے نمبر کھوتا چلا گیا۔ آج نہ جانے کون سے نمبر پر ہے اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ میں نے گورنمنٹ ہائی اسکول سوسائٹی حیدرآباد سے میٹرک پاس کیا سندھ یونیورسٹی نے میٹرک کا سرٹیفکیٹ دیا۔

اس وقت اس اسکول کے سامنے ایک خوبصورت گول باغیچہ تھا جس میں ہری بھری گھاس اور پھول پودے تھے۔ اس وقت یہ بات 50 سے 59 تک کے سالوں کی ہے۔  حیدر آباد کی سڑکوں پر صبح میونسپل کمیٹی کے سقے پانی ڈالتے اور خاکروب انھیں دھویا کرتے تھے۔ یہ میری زندگی کی داستان کا ایک حصہ ہے۔ نالیاں بہت تنگ تھیں مگر روزانہ یہی سقے اور خاکروب ان کو نہایت تندہی سے صاف کرتے تھے اور صرافہ بازار شاہی بازار حیدر آباد میں دکانوں کے نیچے یہ نالیاں سرعت کے ساتھ بہتی تھیں۔ وہ باغیچہ جس کا ذکر میں نے ابھی کیا سب سے پہلے اس کو نظر لگی۔ کسی بد ذوق نے وہاں ’’گول بلڈنگ‘‘ کا فیصلہ کیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس خوبصورت جگہ ایک بدصورت عمارت راستہ روک کر کھڑی ہو گئی۔ آج بھی کھڑی ہے۔

ٹھنڈی سڑک پر اب درخت نظر آنے کے آثار ہو گئے ہیں اور ایک بار پھر شاید وہ ٹھنڈی سڑک بن جائے جس کے دو رویہ ’’گولر‘‘ کے درخت تھے جن کی چھاؤں میں آدھا حیدر آباد دوپہر گزارتا تھا۔ یونیورسٹی کی رونقیں تو جام شورو یونیورسٹی منتقل ہونے کے بعد ہی ماند پڑ گئی تھیں اور اب تک بحال نہیں ہو سکیں۔ بات صرف شہر کی خوبصورتی کی ہے اور اس میں ’’لوگ‘‘ بھی خوبصورتی کا ایک حصہ ہوتے ہیں۔ وہ خوبصورتی اب غائب ہو گئی۔ ایک عرصے سے یہ عمارت اپنے ان خوبصورت لوگوں کا انتظار کر رہی ہے۔ شاہراہیں جو بہت قاعدے اور قانون کے تحت تھیں اب ’’بیوہ کی مانگ‘‘ کی طرح بکھر چکی ہیں۔ اس کا نام لاہور ہوتا تو شاید یہ بھی ترقی کر جاتا۔ اس کے بھی مسائل حل ہو جاتے پر یہ تو محض ایک جملہ معترضہ ہے۔

اس کی شکایت تو ہم اپنے لوگوں سے کریں گے بھلا وزیر اعلیٰ پنجاب تو یہاں کے مسائل حل نہیں کریں گے۔ شہر کا حال لکھوں تو صفحات درکار ہیں اور اتنے صفحات تو اس اخبار کے پاس بھی نہیں ہوں گے جہاں آپ مجھے پڑھ رہے ہیں۔ شہر کے ساتھ یہ سلوک تو شہر کے ذمے داروں نے کیا ہے۔ ایک زمانہ ایسا آیا جب سندھ کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی کے میئر کراچی حیدر آباد میں رہے تو حیدر آباد کے حصے میں بھی کچھ پارک، دو فلائی اوور آ گئے۔ ڈرینج سسٹم بہتر ہو گیا اور وہ بھی پچاس سال کے بعد۔ اور اس کے بعد پھر وہی خاموشی۔ اور اس بار خاموشی بہت ہولناک ہے۔ بے حسی اور بے رحمی کا دور دورہ ہے۔ سڑکیں ’’موئن جو دڑو‘‘ کی سڑکیں لگ رہی ہیں، شاید وہاں اچھی ہوں گی زندہ لوگوں کا شہر۔ مردہ پرستی کا احوال سنا رہا ہے۔

پدرم سلطان بود کی کہانی آپ کو کیا سناؤں اس شہر کی تمام ’’خوبصورتیاں‘‘ اور ’’حسن‘‘ میرے سینے میں بذریعہ چشم محفوظ ہیں۔ میں خود اس شہر کی تاریخ کا ایک چشم دید گواہ ہوں۔ مگر ایف آئی آر کس کے خلاف لکھواؤں۔ سب میرے ہیں، سب ایک گھر کے ’’بھائی‘‘ ہیں۔ کسی کی طرف ایک انگلی اٹھاؤں تو تین انگلیاں خود میری طرف اٹھ جاتی ہیں۔ بہت افسوس ہوتا ہے۔ پاکستان میں سیاست کا مطلب ’’کچھ‘‘ کا آرام ’’باقی‘‘ کی ’’مصیبت‘‘ لگتا ہے اور اس میں کم یا زیادہ سارے ہی لوگ ساتھ ساتھ نظر آتے ہیں چاہے تعلق کسی جماعت سے ہو۔ انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا جا سکتا۔ سچ بولنا پڑے گا۔ ہر قیمت پر اور سچ کی قیمت میں جانتا ہوں۔

بھولے بادشاہ ہمارے وزیر اعلیٰ صاحب نے شکوہ کیا ہے کہ 11 ترقیاتی منصوبے سندھ کے وفاق نے اگلے بجٹ میں سے نکال دیے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ سندھ اسلام آباد کے لیے سندھ سے پانی کی کٹوتی چاہتا ہے اور دوسرے مطالبوں کے علاوہ ۔۔۔۔کیا کہوں کوٹری کے پل کے نیچے دریا سسکیاں لے رہا ہے۔ اور اسلام آباد کو سندھ سے پانی چاہیے یہاں تک تو شاہ صاحب نے ٹھیک کہا کہ آپ پیاسوں سے پانی مانگ رہے ہیں۔ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں احتجاج کے باوجود شاہ صاحب کہتے ہیں کہ ہماری بات نہیں سنی گئی۔ سندھ کے عوام وفاق سے ناراض ہیں۔

بلوچستان کے بعد پہلی بار یہ لفظ کسی دوسرے صوبے کے لیے سنا ہے میں نے اپنی پوری زندگی میں۔ اور وہ ہے سندھ۔ مگر شاہ صاحب ایک سوال آپ سے کرتے ہیں حیدر آباد کی گئی گزری خوبصورتی کے صدقے کہ آپ پھر اس اجلاس میں شریک کیوں رہے۔ واک آؤٹ کرتے تو آپ کے صوبے کے عوام آپ کی بات کو مزید توجہ دیتے اور آپ کو عوامی طاقت عوامی مسائل کے حل کے لیے مل جاتی ہر چند کہ آپ کو اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ آپ تو پہلے ہی بہت طاقتور صوبائی مینڈیٹ کے مالک ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ آیندہ سندھ کے دورے پر سندھ کی بات سنوں گا۔ کمال ہے ہمارے مرنے جینے کی باتیں وہ ’’موقعہ وصال‘‘ پر سنیں گے۔

’’خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک‘‘ بجٹ آچکا۔ کہانی ختم اب اگلے بجٹ میں دیکھیں گے۔ بڑے بھولے بادشاہ سید قائم علی شاہ صاحب۔ مگر یہ بات اس طرح نہیں ہے ایک اور شاہ صاحب مسلسل حکومت کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں سکھر والے کہ آپ حکومت کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں ہم آپ کو گرنے نہیں دیں گے۔ شاید وہ یہ کہنا چاہتے ہیں میری ناقص رائے میں جس پر میں پیشگی معذرت خواہ ہوں کہ

’’آپ نے ہمیں نہیں گرنے دیا‘‘۔۔۔۔

’’ہم آپ کو نہیں گرنے دیں گے‘‘۔۔۔۔۔

’’ہم ایک دوسرے کا سہارا بنیں گے‘‘

پاکستانی شہریت پامالی کی دہلیز پر…

$
0
0

ملک میں امن و امان کے حوالے سے جہاں بہت سے عوامل اور محرکات ہمارے سامنے ہیں، وہیں ملک میں موجود اور انتہائی تیزی سے بڑھتی ہوئی غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد، ان کے کوائف کی رجسٹریشن نہ ہونا اور اس عمل میں رکاوٹوں کا کھڑا ہونا بھی ہے جو کہ سراسر حکومتی لاپرواہی، بے حسی، مفاد پرستی یا بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ چند دن پہلے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے انکشاف کیا کہ پاکستانی کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کے حامل اٹھاون غیر ملکیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے جو کہ پاکستان آرمی، پولیس اور حساس اداروں سمیت مختلف سرکاری محکموں میں کام کر رہے تھے۔

قائمہ کمیٹی نے حساس اداروں کی رپورٹ  کے حوالے سے بتایا کہ ان غیر ملکیوں کو جنھیں نادرا نے شناختی کارڈ جاری کیے تھے، میں سے ایک افغان انٹیلی جنس کا اہل کار پاکستانی حساس ادارے میں ’’خدمات‘‘ انجام دے رہا تھا۔ کمیٹی نے ایک اور انتہائی حیران کن انکشاف کیا کہ پاکستانی شہریوں کے کوائف اکٹھے کر کے مرتب کرنے والے انتہائی اہمیت کے حامل قومی ادارے ’’نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی‘‘ (نادرا) میں اس وقت سات امریکی شہری اعلیٰ عہدوں پر ’’خدمات‘‘ انجام دے رہے ہیں۔ چند ماہ قبل بھی قائمہ کمیٹی نے حیرت انگیز انکشاف کیا تھا کہ نادرا شہریوں کے کوائف پر مشتمل کمپیوٹر سی ڈیز دو سو روپے میں فروخت کر رہا ہے، جس کے ذریعے جعلساز موبائل فونز کی سمیں جاری کروا رہے تھے۔

جعل سازی کے ذریعے اصل کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈز کا اجرا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے بھی اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ملک بھر میں تیس لاکھ غیر قانونی تارکین وطن کو قومی شناختی کارڈ جعل سازی کے ذریعے جاری کیے جا چکے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت صرف کراچی میں چھبیس لاکھ غیر قانونی تارکین وطن رہائش پذیر ہیں جب کہ دیگر رپورٹس کے مطابق اتنی ہی تعداد کے لگ بھگ پچیس لاکھ غیر قانونی تارکین جعل سازی کے ذریعے اصل کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ بنوا چکے ہیں جن میں سے بیشتر نے اپنی قومیت اور زبانیں تبدیل کر کے یہ کارڈز حاصل کیے ہیں، انھی میں ایک بڑی تعداد ایسے تارکین کی ہے جنھیں مقامی شہریوں کے کوائف چوری کر کے شناختی کارڈ جاری کیے گئے، بعض نے تو اپنا باپ کسی پاکستانی شہری کو ظاہر کر کے بھی کارڈ حاصل کیے، اس طرح لاکھوں کی یہ تعداد پاکستانی قوم میں مکمل طور پر ضم ہو چکی ہے۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو کراچی میں اس وقت پچاس لاکھ سے زائد غیر قانونی تارکین وطن آباد ہیں۔

تازہ ترین رپورٹس کے مطابق ملک کے سب سے بڑے اور تجارتی شہر جسے معاشی حب ہونے کے ساتھ ملک کو مجموعی ریونیو کا ستر فیصد حصہ فراہم کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے، میں پاکستانی شہریت دس سے بیس ہزار روپے میں فروخت کرنے کے لیے ایجنٹ مافیا سرگرم عمل ہے، جو جعل سازی سے دستاویزات تیار کر کے ’’اصل کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ‘‘ جاری کراتی ہے۔ یہ مافیا پرانے مینوئل شناختی کارڈ، راشن کارڈ، بلز، ڈیتھ سرٖٹیفکیٹس، اسکول چھوڑنے کے سرٹیفکیٹس، تعلیمی اسناد، مختلف سرکاری و نجی کنٹریکٹس یا کوئی بھی ثبوت جو تیس چالیس سال پرانا شہری ثابت کر سکے، جعل سازی سے بالکل اصل جیسا تیار کر لیتی ہے جو کہ خانہ پری میں انتہائی معاون ثابت ہوتا ہے۔

آپ دنیا کے کسی بھی ملک سے کسی بھی رنگ، نسل اور قوم کا کوئی بھی شخص آنکھوں پر پٹی باندھ کر کراچی لے آئیں، جسے نہ تو یہاں کی کوئی زبان بولنا آتی ہو اور نہ ہی یہاں کے کسی شہری سے آشنا ہو، آپ اس کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ آسانی سے بنوا سکتے ہیں، ایجنٹ کو ایک فون کریں، ایجنٹ آپ کے پاس حاضر ہو جائے گا، پندرہ سے بیس ہزار روپے میں معاملہ طے کریگا، دو تین ہزار ایڈوانس لے کر  وہ اس غیر ملکی کے کوائف بمعہ تصویر کے ساتھ لے جائے گا اور ٹھیک  ایک ماہ کے اندر اندر آپ کے دروازے پر آموجود ہو گا، وہ آپ سے باقی رقم وصول کر کے ’’اصل قومی کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ‘‘  آپ کے حوالے کر دے گا۔

اسی طرح غیر قانونی تارکین وطن کو ایک سہولت یہ بھی دی جاتی ہے کہ تنسیخ کی تاریخ کے بعد انھیں کارڈز کی تجدید کے لیے نادرا کے دفتر جانے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ نئے کارڈ پر بھی پرانی تصویر ہی لگا دی جاتی ہے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کیس کو نادرا کی جانب سے اعتراض لگا کر واپس کر دیا جائے تو یہ مافیا عدالتوں سے رجوع کر لیتی ہے اور دستاویزات پیش کر کے کارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، اگر عدالت کو شک گزرے تو عدالت سے استدعا کی جاتی ہے کہ متعلقہ تارک وطن کی تصدیق کے لیے اس کے آبائی وطن کی حکومت یا متعلقہ ادارے کو خط لکھ کر پوچھا جائے، عدالت کے خط لکھنے پر یہ مافیا اپنے پھیلے ہوئے پروں کے ذریعے تمام دستاویزات کی تصدیق عدالت کو فراہم کرا دیتی ہے جس کا معاوضہ ایک لاکھ روپے تک وصول کیا جاتا ہے۔

پاکستانی شہریت حاصل کرنے کے بعد بہت سے تارکین وطن دیگر اداروں کی طرح نادرا میں بھی ملازمت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اگرچہ قائمہ کمیٹی کا کہنا ہے کہ وہ جعل سازی میں ملوث نادرا کے اہل کاروں کے خلاف کارروائی کرے گی، مگر اس سے پہلے بھی تو بہت کچھ سامنے آ چکا ہے، کیا کارروائیاں ہوئیں وہ بھی قوم کیسامنے آنی چاہئیں۔ مگر مسئلہ تو ہے کہ پاکستان میں غیر ملکی طاقتیں اتنی مضبوط ہو چکی ہیں کہ اب کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا بلکہ ان کی پالیسیوں کے آگے ہماری حکومتیں، عدالتیں اور انتظامیہ بے بس نظر آتے ہیں۔

تارکین وطن سے متعلق سپریم کورٹ آف پاکستان کے ریمارکس اور احکامات ہمارے سامنے ہیں، پشاور ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ بھی اس سلسلے میں احکامات جاری کر چکی ہیں مگر اس معاملے میں سب کے سب ہی بے بس نظر آئے ہیں۔ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں غیر ملکی پاکستان میں موجود ہیں اور ان کا کوئی ڈیٹا یا ریکارڈ حکومت کے پاس موجود نہیں ہے، بلکہ موجودہ حکومت نے تو غیر قانونی تارکین وطن کی رجسٹریشن کے لیے قائم کیے گئے ادارے ’’نیشنل ایلینز رجسٹریشن اتھارٹی‘‘ (نارا) کو بھی ختم کرکے ’’نادرا‘‘ میں ضم کردیا گیا ہے۔

اس بارے میں حکومتی اداروں نے موقف اختیار کیا کہ نادرا کو جس مقصد کے لیے قائم کیا گیا تھا وہ اس میں ناکام رہی لہٰذا اسے ختم ہی کر دیا جائے، حالانکہ حکومت کو اس بارے میں تحقیق کرانی چاہیے تھی کہ وہ کون سی وجوہات اور عوامل ہیں جن کے باعث یہ ادارہ ناکام ہوا ہے۔ نادرا حکام سپریم کورٹ کے روبرو یہ بیانات ریکارڈ کرا چکے ہیں کہ انھیں کام کرنے سے روکا جاتا رہا ہے، بلکہ نادرا حکام نے سپریم کورٹ میں یہ بھی بتایا کہ تھا کہ انھیں اس سلسلے میں ہدایات ملتی تھیں کہ غیر ملکیوں کو غیرملکی نہ کہا جائے۔

حکومت کو اس بات کی مکمل چھان بین کرانا چاہیے تھی کہ وہ کون سی طاقتیں ہیں جو نادرا کو کام کرنے سے روکتی رہیں اور ان طاقتوں کے عزائم اور مقاصد کیا تھے، اس کے ساتھ یہ بھی معلوم کیا جانا چاہیے تھا کہ اس معاملے میں رکاوٹیں پیدا کرنیوالے افراد جعل سازی کے ذریعے اصل شناختی کارڈ حاصل کر کے اتنے با اثر تو نہیں ہو چکے کہ وہ اپنے ہم وطنوں کے مفادات پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتے۔ ہماری سیاسی جماعتیں، مذہبی تنظیمیں اور لسانی گروہ بھی غیر قانونی تارکین وطن کے لیے اپنے پاکستانی شہریوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ نرم گوشہ رکھتے ہوئے موقف اختیار کرتی ہیں کہ یہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں جس کی وجہ سے ہم ان کا بھرپور ساتھ دیں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ غیر قانونی تارکین وطن ہمارے بھائی ہیں اور ان میں اکثریت بھی مسلمانوں کی ہے اور ہمیں ان کی ہر صورت ہر ممکن مدد کرنا چاہیے جو کہ ہم نے کی ہے اور مستقبل میں بھی کرتے رہیں گے، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کا ریکارڈ ہی نہ مرتب نہ کرنے دیا جائے اور سیاسی، مذہبی اور لسانی عددی برتری حاصل کرنے کی دوڑ میں ہم اپنے قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر اپنی نسلوں کی آزادی اور ان کے جان و مال دائو پر لگا دیں۔ اس قدر حساس معاملے میں حکومت کی اس حد تک بے حسی پر کیوں نہ ماتم کیا جائے کہ غیر ملکیوں کو مکمل چھوٹ دے کر اپنی آزادی دائو پر لگائی جا رہی ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ اس سلسلے میں شہریوں کی رجسٹریشن سے متعلق قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے اسے انتہائی حساس معاملہ قرار دیا جائے، شہریت کی درخواست دینے والے کے کوائف کی تصدیق کے لیے خفیہ اداروں کی خدمات کے ساتھ ٹھوس طریقہ کار وضع کیا جائے، جعل سازی سے شناختی کارڈ حاصل کرنے والوں کی شکایات اور ان پر عمل درآمد کے لیے نادرا میں برانچ قائم کی جائے جس کی مانیٹرنگ وفاقی وزارت داخلہ کے سپرد کی جائے اور کسی بھی سرکاری افسر و اہلکار، کارڈ بنانے یا بنوانے والے اور تصدیق کنندہ پر غفلت برتنے پر سنگین سزائوں کا اطلاق کیا جائے اور چند ایک کو فوری طور پر سزائیں دلوا کر اس گھنائونے کاروبار کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ سیاسی، مذہبی اور لسانی تنظیمیں بھی ہوش کے ناخن لیں، ورنہ وہ وقت دور نہیں جب اس خطرناک اسکرپٹ کی حقیقت کھل جائے اور ایک ’’خاموش گروہ‘‘ ایک جم غفیر کے ساتھ ہمارے سامنے آ کھڑا ہو اور ہمارے بس میں کچھ بھی نہ رہے۔

Viewing all 22341 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>