ادیب سہیل دو ہزار دنوں سے یاد فراموشی کی مملکت میں مقیم ہیں۔ وہ ہاتھ جس سے کتاب اور کاغذ نہیں چھوٹتا تھا ۔ جس کی آنکھیں لکھے اور چھپے ہوئے حروف کے موتی چنتی تھیں، اب لکھنا اور پڑھنا کچھ بھول سی گئی ہیں۔ انھیں دیکھیے تو دل کٹتا ہے۔ چند دنوں پہلے انجمن ترقی اردو میں ان کی تقریب پذیرائی ہوئی جسے انھوں نے اپنی زندگی کے بہت سے قیمتی سال نذر کردیے تھے۔ وہ ماہنامہ ’’ قومی زبان‘‘ کے مدیر رہے ۔ سہ ماہی ’’ اردو ‘‘ کی ذمے داریاں پوری کیں۔ ’’قومی زبان‘‘ کو ادب کی اقلیم میں ذاتی سربلندیوں کے لیے وہ کس کس طرح برت سکتے تھے لیکن ان کے مزاج کی صوفیانہ روش نے انھیں اس طرف دیکھنے ہی نہیں دیا۔
بہار کی سرزمین پر گوتم کی چھتر چھایا ہزاروں برس سے قائم ہے، ادیب سہیل کا خمیر وہاں کی مٹی سے اٹھا، وہ گوتم کی راہ پر چلنے والے بن گئے اور بے نیازی اور سیر چشمی ان کے مزاج کا خاصہ رہی ۔ انھوں نے نثر اور نظم میں جتنا کام کیا، ادارت اور ترجموں میں جتنا وقت صرف کیا، ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو آج اس سماج میں اس کی کیا دھوم ہوتی لیکن گوشہ گیری ان کا انتخاب تھی اور اس پر وہ ہمیشہ شاداں و فرحاں رہے۔
اب اس بات کو بہت دن ہوئے کہ وہ نیند اور بیداری کے دھندلکوں کے درمیان کہیں رہتے ہیں اور ہم سے بچھڑ گئے ہیں ۔ کئی برس سے وہ جس کیفیت کا شکار ہیں، اسے دیکھتے ہوئے رضی اختر شوق کا ایک مصرعہ یاد آتا ہے کہ آدھا چہرہ نیند سے باہر، آدھا چہرہ نیند میں ہے! یاد فراموشی کا یہ عذاب برین ہیمبرج کے سبب ان پر نازل ہوا، حالاں کہ وہ ان چند لوگوں میں رہے ہیں جن کا علمی، ادبی اور سیاسی حافظہ غضب کا رہا ہے۔ وہ جب قریبی دوستوں کی محفل میں لب کھولتے تو یہ عالم ہوتا کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی ۔
ہم اگر ان کے زمانے پر نظر ڈالیں تو یہ وہ دور ہے جب فرنگی راج میں ہندوستان پہلی جنگ عظیم کے زخموں سے نڈھال تھا۔ بارہ برس کے تھے کہ دوسری جنگ عظیم کا خونخوار دیو، آدم بُو۔ آدم بُو، پکارتا ہوا، ہندوستان کا بھی پھیرا لگا گیا۔ فاقوں سے نڈھال خاندانوں نے اپنے بیٹے اس جنگ کو دان کردیے۔ ان میں سے بیشتر واپس نہ آئے۔ ادیب سہیل جیسے گداز دل نوجوان نے یہ سب کچھ دیکھا اور پھر بنگال کا قحط اپنی روح پر سہا جس میںمائوں نے بیٹیاں ایک مٹھی چاول کے لیے پونجی پتی گھرانوں کو بیچ دیں ۔
ان کا ذہن اور ان کی روح ان زخموں سے نڈھال ہوئی اور پھر 47 اور اس کے بعد 71… حوادث کا ایک سونامی تھا جو انسانوں کو نگل رہا تھا۔ ایک ایسے عالمِ داروگیر میں وہ اگر اپنا ذہنی توازن قائم رکھ سکے تو اس کا سبب، انسانوں سے ان کا درد مندی کا وہ رشتہ تھا جس میں ترقی پسندی نے انھیں پرو دیا تھا ۔ وہ آخر تک اسی ڈور سے بندھے رہے۔ کراچی میں نادر گری کی جو چوبائی چل رہی تھی، اس میں بھی ان کی استقامت اور انسان دوستی پر آنچ نہ آئی اور وہ یہ کہہ سکے کہ!
غیروں پر الزام عبث ہے، ہم ہی اپنے دشمن ہیں
ہنستے بستے شہر کا اپنے ہاتھوں، سکوں برباد کیا
انھوں نے جم کر شاعری کی جس کی سچی قدر دانی ان کے پنڈی وال دوستوں نے کی ۔ وزیر آغا کے سہ ماہی ’اوراق‘ میں ان کی شاعری اور ان کی نثرکے لعل و گہر بکھرے ہوئے ہیں ۔ نجیب محفوظ، اور لورکا، سیموئیل بیکٹ، ناظم حکمت اور ایرن کریمر پر انھوں نے کس جانکاہی سے مضامین لکھے ۔
ایرن کریمر سے ان کا نظری رشتہ تھا۔ 1954میں ان کی اور کریمر کی خط و کتابت شروع ہوئی جو آخر تک جاری رہی ۔ کریمر میکارتھی ازم کا کٹر مخالف تھا اور میکارتھی ازم امریکا میں روشن خیالی اور روشن خیالوں کو نگل رہا تھا۔ انھوں نے کریمر کی نظمیں ترجمہ کیں۔ اس کی موت پر انھوں نے ایک نظم لکھی… سات سمندر… بیچ میں تھے ہم دونوں کے… وہ امریکا کا شہری تھا میں تھا پاکستانی… میرا اس کا ربط ہوا تھا 54 کے آخر میں… جب ’’میکارتھی ازم‘‘ کا ننگا ناچ تھا جاری… امریکا کے شہروں میں… اور امریکی اس کے خلاف صف آرا تھے… شہراہوں پر… وہ اس ’’ازم‘‘ کو ذہنی آزادی کا دشمن… جمہوری اقدار کا قاتل کہتے تھے… ان کہنے والوں میں میرا یار کریمر… شاعر اور جمہور محافظ… سب کے آگے آگے تھا… سات سمندر پار مری آواز سے اس کا ناتا تھا… میں نے بھی ایک نظم ’’اسکریننگ‘‘ ’’ازم‘‘ مخالف لکھی تھی…
میری نظم اسکریننگ جب دہلیز پہ اس کی پہنچی تو… اس نے جواباً لکھا:… میں تو سوچ نہیں سکتا تھا کوئی… دور افتادہ… میرے کاز کی خاطر… مجھ سے بڑھ کر سوچ بھی رکھتا ہے… آج یقین آیا ہے مجھ کو… ہم امریکی اپنی جہد میں تنہا نہیں… سارا زمانہ ساتھ رواں ہے… آج یقین آیا ہے مجھ کو… ایک کا غم سب کا ہوتا ہے… حق کی جنگ کہیں بھی ہو… وہ سب کی ہوتی ہے یارو۔… آج مجھے محسوس ہوا ہے دور بہت ہی دور… کوئی ہم گام ہے میرا… مجھ سے کم ادراک نہیں رکھتا ہے… میرے عصری غم کا… میرے دوست… مرے ہم راہی… میرے بھائی… نظم تمہاری… میرے لیے ہمت افزائی… رہ نمائی… خوش خبری نصرت کی جیسے گھر میں مرے خود ہی چل کر آئی!… یار کریمر… وھٹمن کا سچا شیدائی… اردو میں ادیب سہیل کے سوا کون تھا جو اس کے بارے میں اس دل گیری کے ساتھ لکھتا۔ وہ اسے ’’یار جانی‘‘ کہتے تھے۔ اس کا خط آتا تو خوشی سے تمتماتا ہوا چہرہ لیے میرے دفتر آجاتے اور پھر کریمر کے خط کی ایک ایک سطر جوش بھری آواز میں مجھے سناتے۔
ادیب سہیل سے میرے کئی رشتے ہیں۔ دھرتی کا اور اپنی تہذیبی اور ادبی روایات سے پیوستگی کارشتہ، میرا پہلا افسانوی مجموعہ ’قیدی سانس لیتا ہے‘ شایع ہونے کے چند مہینوں بعد مجھے خبر ملی کہ تاج سعید کے پرچے ’’قند‘‘ میں کسی صاحب نے اس پر تفصیل سے لکھا ہے۔ یہ لکھنے والے ادیب سہیل تھے۔ ان سے ملاقات اس مضمون کی اشاعت کے لگ بھگ ایک برس بعد ہوئی جو دل داری اور دل گیری کے رشتے میں ڈھل گئی ۔
گرمی، جاڑا، برسات ہر جمعے کو وہ انجمن کے دفتر سے اٹھتے اور میری طرف آتے ۔ عموماً محمود واجد صاحب بھی ساتھ ہوتے ۔ کبھی ’روشنائی‘ کے مدیر زین الدین احمد اور کبھی بہار سے آیا ہوا کوئی اور ادیب یا ادب دوست۔ بنگلہ دیش میں رہ جانے والے اردو کے معروف ادیب زین العابدین صاحب سے ان ہی نے میرا تعارف کرایا۔ دوپہر ہوجاتی، دستر خوان بچھتا لیکن ادیب بھائی اصرار کے باوجود ہمارا ساتھ نہ دیتے اور یہی کہتے کہ تمہاری بھابھی انتظار کررہی ہوں گی ۔ وہ میٹھے کے رسیا ہیں، میں ان کے لیے قلاقند، گلاب جامن یا رس گلے منگوا کر رکھتی ۔ وہ انھیں دیکھ کر مسکراتے اور سہج سہج کھاتے جاتے ۔ کیسی دل آویز محفلیں تھیں جو خواب و خیال ہوئیں ۔ ان میں شریک ہونے والے کئی اہم ادیب پکشی پکھیرو کی طرح اڑ کر عدم آباد گئے ۔
وہ دن یاد آتے ہیں تو دل خون ہوتا ہے ۔ کون سا موضوع تھا جس پر بحث نہ ہوتی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سوویت یونین کا خواب تحلیل ہورہا تھا ۔ اس سے برسوں پہلے چین اور سوویت یونین کے درمیان علیحدگی ہوچکی تھی جس نے انھیں بہت دل گرفتہ کیا تھا ۔ اس معاملے پر ان کے اور میرے نقطہ نظر میں اختلاف تھا ۔ میں 1998میں چین سے واپس آئی تو خوشی سے بے حال تھے ۔ میں اپنی دو آنکھوں سے مائو کا حنوط شدہ بدن دیکھ آئی تھی ۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ میری اسی طرح تعظیم و تکریم کریں جیسے اب سے ایک صدی پہلے حاجیوں کی ہوتی تھی ۔ ایک سادہ و معصوم انسان ۔ اسی لیے ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ مائو کا چین میکڈونلڈ کے راستے پر کیسے چل نکلا ۔ میں نے اس بارے میں لکھا تو انھوں نے مجھ سے شکایت کی ۔ یہ سب کچھ لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ ارے ادیب بھائی تو کیا کرتی؟ خاموش نہیں رہ سکتی ۔ انھوں نے دھیمے لہجے میں کہا۔ چہرے پر اداسی کی پرچھائیں تھی ۔
وہ ریلوے میں ملازم رہے اور اس کی ٹریڈ یونین سے جڑے ہوئے رہے ۔ ایوب خان حکومت کے خلاف پوسٹر لگانے ہوں تو وہ لئی کا کنستر اور پوسٹر لے کر ریل کے ڈبے میں بیٹھ جاتے ۔ ساتھ میں بھائی زین العابدین ایسے رضا کار بھی ہوتے جو ہر اسٹیشن پر باغیانہ پوسٹر چپکانے کا کام کرتے جاتے ۔ انھوں نے ایک ہشت پہلو زندگی گزاری جس کا عکس ان کی نظموں اور غزلوں میں نظر آتا ہے ۔ ان کی انسان دوستی ‘ تاریخی شعور اور سیاسی پیچاک سب ہی ان کی شاعری میں جھلکتے ہیں ۔
وہ گزرے ہوئوں کی تکریم کرتے اور نئے لکھنے والوں کی پذیرائی میں پیش پیش رہتے ۔ ان کی تقریب پذیرائی میں بہت دیر ہوگئی لیکن اس بارے میں داد فاطمہ حسن کو ملنی چاہیے جنہوں نے انجمن میں قدم رکھتے ہی انھیں یاد کیا اور آج کی محفل سجائی ۔ وہ خوش رہیں اور بزرگوں کو اسی طرح یاد کرتی رہیں کہ یہ لوگ ہمارا خزانہ ہیں ۔
(ادیب سہیل کی تقریب پذیرائی میں پڑھا گیا)