Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22348 articles
Browse latest View live

کتابیں قاری کی تلاش میں

$
0
0

اے روشنی طبع تو برمن بلا شدی۔ ویسے تو یہ خوشی کی بات ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اردو صحافت کو بہت فروغ حاصل ہوا ہے لیکن اس فروغ سے ہم جیسے اخباری قاری کے لیے کیسے کیسے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ پاکستان میں وہ زمانہ کتنا اچھا تھا جب اخبار کم تھے۔ انگریزی کے لے دے کے دو نمایندہ اخبار تھے۔ کراچی سے ڈان۔ لاہور سے پاکستان ٹائمز۔ اردو کے اخبار گنتی میں زیادہ تھے لیکن کتنے ایسے تھے کہ انھیں آسانی سے نظر انداز کیا جا سکتا تھا۔ سمجھ لیجیے کہ وہ کسی گنتی ہی میں نہیں تھے۔ جو گنتی میں تھے‘ ان میں خبروں تبصروں تجزیوں کے سوا ایک کالم بھی ہوا کرتا تھا۔ کوئی اخبار ایک سے زیادہ کالم کا مشکل ہی سے متحمل ہو سکتا تھا مگر وہ ایک کالم ایسا ہوتا تھا کہ قاری کی اس سے پوری تشفی ہو جاتی تھی۔ جیسے مرحوم ’امروز‘ میں مولانا چراغ حسن حسرت کا کالم۔

اب اخبار ان گنت ہیں۔ انگریزی سے کہیں بڑھ کر اردو کے اخبار اور ایک سے بڑھ کر ایک اور ہر اخبار میں کالموں کا ایک پورا جمعہ بازار اب آپ سوچئے کہ ع

اس مختصر حیات میں کیا کیا کرے کوئی

اور ہماری مشکل یہ ہے کہ ان کالم نگاروں میں کتنے تو ہمارے دوست ہیں ونیز رفقائے کار۔ انھیں کے ساتھ انصاف کرنے بیٹھیں تو ہماری زندگی نبڑ جائے گی اور ان کالموں کا انت ہوتا نظر نہیں آئے گا۔ سو ہم کرتے یہ ہیں کہ یا قسمت یا نصیب کہہ کر اخبار کو بیچ سے کھولتے ہیں جہاں کالم قطار اندر قطار نظر آتے ہیں اور سب پر اچٹتی سی نظر ڈالتے جاتے ہیں اس توقع کے ساتھ کہ جس کالم میں کوئی کام کی بات ہو گی وہ خود ہی ہماری دوڑتی نظر کو پکڑے گی کہ جاتے کہاں ہو۔ پہلے مجھے پڑھو۔ مثال کے طور پر ابھی تک پرسوں کی بات ہے کہ ایک کالم کے بیچ کی سطروں پر ہماری نظر پڑی اور وہیں ٹھٹھک گئی۔ کالم نگار بیان یہ کر رہا تھا کہ آرٹ کونسل کی بین الاقوامی کانفرنس میں کس کس ادیب نے انھیں اپنی تصنیف لطیف پیش کی۔ کس کس نے اور کتنوں نے؎

ایک دو تین چار پانچ چھ سات

آٹھ نو دس تلک تو تھی اک بات

ارے وہاں تو کتاب پیش کرنے والوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں اب ہمیں تجسس ہوا کہ یہ خوش قسمت کالم نگار کون ہے۔ نظر ڈالی تو پتہ چلا کہ جبار مرزا صاحب ہیں۔ آغاز کلام یوں کیا ہے کہ ’’عطاء الحق قاسمی صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے سیکڑوں‘ قلم کاروں‘ شاعروں‘ ادیبوں‘ نقادوں‘ صحافیوں اور ماہرین تعلیم کو ایک جگہ اکٹھا کیا‘‘ آگے پڑھنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ ہم نے فقرے کو اس طرح پایہ تکمیل تک پہنچایا کہ وہ قطار اندر قطار آ رہے تھے اور اپنی اپنی تصنیف ہمیں نذر کرتے گزر رہے تھے۔ ان سب مصنفین کے نام اگر ہم نے یہاں لکھے تو کالم کا کام تمام ہو جائے گا اور اپنی اپنی کتاب نذر کرنے والے ادیبوں کی گنتی ختم نہیں ہو گی۔ ایک نام جس پر انھوں نے بہت زور دیا ہے وہ سن لیجیے ’’کتابیں دینے والوں میں یونس جاوید صاحب سرفہرست ہیں‘‘۔ یہ نام پڑھ کر ہم نے خوشی سے اپنا ماتھا پیٹ لیا۔ وجہ مت پوچھئے۔ حساب دوستاں در دل۔

ویسے جب تک ٹی ہائوس شاد آباد تھا

ایک یونس جاوید کیا کسی بھی یار عزیز کو کسی بھی کانفرنس میں جا کر اپنی تصنیف بانٹنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔ پہلے ایڈیشن کی کھپت تو ٹی ہائوس ہی میں ہو جاتی تھی۔ دو ڈھائی سو عدد پر مشتمل پورا ایڈیشن چٹکیوں میں اُڑ جاتا تھا۔ جلد ہی دوسرا تیسرا اڈیشن آ جاتا اور اس تصنیف کی مقبولیت کی دلیل بن جاتا۔

ایک اینگری ینگ مین ادیب کا قصہ اس طرح تھا کہ ہر مہینے وہ اپنا رسالہ نکالتے تھے اور ٹی ہائوس کی ہر میز پر پہنچا کر مطمئن ہو جاتے تھے۔ صفحہ اول سے آخری ورق تک ان کی اپنی نگارشات سے لبریز ہوتا تھا۔ پھر بھی بہت کچھ کہنے سے رہ جاتا تھا جو اگلی اشاعت کے لیے محفوظ کر لیا جاتا تھا۔ اس کی ایک عدد کاپی ہمیں ادبدا کر موصول ہوتی تھی اس باعث کہ ہر اشاعت میں ہمارا حساب بیباق کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ مگر زاہد ڈار کو انھوں نے بلیک لسٹ کر رکھا تھا۔ اس لیے ہمارا پرچہ فوراً ہی اچک کر وہ لے جاتا تھا۔ سو ہمیں کبھی یہ پتہ نہ چل سکا کہ ہمارا حساب کتنا بیباق ہوا ہے کتنا باقی ہے۔ زاہد ڈار نے کبھی ہمیں بتایا نہیں۔ ہم نے کبھی پوچھا نہیں۔ اس اینگری ینگ مین کو علی گڑھ کے حلقوں میں البتہ ایک مستند نقاد کا درجہ حاصل تھا۔ الہ آباد کا حوالہ ہم نے اس لیے نہیں دیا کہ وہ تو ظفر اقبال کا مفتوحہ علاقہ ہے۔

مگر ٹی ہائوس کے بند ہو جانے سے ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ اردو کی کتنی قابل قدر تصانیف کو اپنے قاری کی تلاش میں دربدر بھٹکنا پڑ رہا ہے۔ مگر اب جب سے لٹریچر فیسٹیول اور اردو کانفرنسوں کا باب کھلا ہے تو ایسی تصانیف کو اپنے قاری کی تلاش میں سہولت پیدا ہو گئی ہے۔ واضح ہو کہ اردو میں فی زمانہ دو قسم کی کتابیں چھپتی ہیں۔ ایک وہ کتابیں جنھیں قارئین تلاش کر کے حاصل کرتے ہیں۔ باقی وہ کتابیں اور وہی کتابیں زیادہ چھپتی ہیں جو خود قاری کی تلاش میں بھٹکتی پھرتی ہیں لٹریچر فیسٹیول اور اردو کانفرنسوں میں ان دونوں قسم کی کتابوں کو اپنے قاری میسر آ جاتے ہیں مگر اپنے اپنے حساب سے۔

جب لٹریچر فیسٹیول ہوتا ہے یا کوئی اردو کانفرنس ہوتی ہے تو وہاں کتابوں کے اسٹال بھی آراستہ نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر باہر سے جو مندوبین آتے ہیں تو انھیں جن نئی شایع ہونے والی معقول کتابوں کی سن گن ملی ہوتی ہے ان کی تلاش میں وہ ان اسٹالوں کی طرف لپکتے ہیں۔ مقامی قارئین کو بھی سہولت اسی میں نظر آتی ہے کہ جب لٹریچر فیسٹیول میں جائیں گے تو فلاں فلاں کتاب جو ان دنوں چھپی ہے وہ وہاں سجے کسی بک اسٹال سے خرید لیں گے۔

باقی رہیں وہ کتابیں جو خود قاری کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہیں ان کے مصنفین اپنی نئی تصانیف تھیلوں میں بھر بھر کر لٹریچر فیسٹیول میں پہنچتے ہیں۔ لٹریچر فیسٹیول واقعی لٹریچر فیسٹیول ہوتا ہے۔ وہاں ہجوم کو دیکھ کر مصنفین کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ انھیں وہاں ہر فرد اپنی تصنیف کا ممکنہ قاری نظر آتا ہے۔ کتنے کھلے دل سے وہ ان ممکنہ قارئین کو اپنی تصانیف آٹو گراف کے ساتھ نذر کرتے ہیں اور وہ قارئین کتنی کشادہ قلبی سے مصنف سے کتاب وصول کر کے اس تھیلے میں ٹھونس لیتے ہیں جو تحفہ میں ملی ہوئی کتابوں سے پہلے ہی لبالب بھر چکا ہوتا ہے۔

بظاہر یہ تصانیف یہاں آ کر منزل مقصود پر پہنچ جاتی ہیں لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ ایسی نذر کردہ کتابوں کو اس انجان ممکنہ قاری کی کتابوں کی الماری میں جب جگہ نہیں مل پاتی تو وہاں سے نکل کر بالآخر وہ شہر کے فٹ پاتھ پر پہنچتی ہیں جہاں سیکنڈ ہینڈ کتابوں کی قطار میں وہ بھی سج جاتی ہیں اور اپنے قاری کا انتظار کرتی ہیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔


بھارت اور میڈیا

$
0
0

مجھے اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہوئی جب مکیش امبانی کی کمپنی نے بھارت کے ایک بڑے ٹیلی ویژن نیٹ ورک کی ملکیت حاصل کر لی مگر کسی بھارتی الیکٹرانک میڈیا نے اتنی بڑی خبر کا کوئی ذکر اذکار ہی نہیں کیا۔ جس بات سے میں ہکا بکا رہ گیا وہ یہ تھی کہ اخبارات نے اس کی خبر ضرور دی تھی تاہم تفصیلات میں جانے سے گریز کیا تھا۔ مجھے توقع تھی کہ کم از کم ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا (EGI) ضرور اس کا نوٹس لے گا۔ لیکن یہ بات قابل فہم ہے کہ جب میں نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ ایڈیٹروں کو بھی اپنے اثاثوں کا عام اعلان کرنا چاہیے تو انھوں نے اس تجویز کو یکسر مسترد کر دیا حالانکہ سیاست دانوں سے ان کا یہی مطالبہ رہتا ہے۔ کیایہ دہرا معیار نہیں؟

مجھے کارپوریشنوں کے میڈیا میں سرمایہ کاری کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔ بڑھتے ہوئے اخراجات اور اشتہارات کی کمی کے باعث میڈیا فاقہ کشی تک پہنچ گیا ہے گو  مثالی صورت یہی ہے کہ بھارتی میڈیا اپنے طور پر خود کفیل ہو لیکن چونکہ زیادہ تر پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے لیے یہ ممکن نہیں اس لیے انھیں مجبوراً کارپوریشنوں کا سہارا لینا پڑتا ہے لیکن اس ضمن میں بھی انھیں حدود و قیود کا خیال رکھنا چاہیے۔

سابق وزیراعظم مسز اندرا گاندھی نے اخبارات کے لیے غیر ملکی اکویٹی کی حد 26 فیصد مقرر کر دی تھی۔ تاہم بعض وجوہات کی بنا پر اس رعایت کو ٹیلی ویژن تک توسیع نہیں دی گئی۔ شاید اس وجہ سے کہ ہوا کو کنٹرول کرنا مشکل ہے۔ جہاں تک غیر ملکیوں کی ملکیت کو محدود کرنے کا تعلق ہے تو یہ بات قابل فہم ہے۔

اگر غیر ملکی اکویٹی کو ’’ٹروجن ہارس‘‘ سے تشبیہہ دی جائے کہ جسے ایک خاص حد سے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے تو بھارتی کارپوریشنوں کو بھی نہیں چاہیے کہ وہ ’’لکھشمن ریکھا‘‘ کو عبور کریں۔ لیکن یہ کارپوریشنیں بھی بے حد طاقتور ہیں کیونکہ سیاست دان اپنی عیاشانہ زندگی بسر کرنے اور الیکشن لڑنے کے لیے انھی پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ بہت سی چیزیں نظروں سے اوجھل رہتی ہیں۔

مرکز میں یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے بوجوہ پریس یا میڈیا کمیشن بنانے کے مطالبے کو مسترد کر دیا۔ آزادی کے بعد سے صرف دو کمیشن بنائے گئے۔ ایک تو آزادی کے فوراً بعد جب کہ دوسرا 1977ء میں ایمرجنسی کے خاتمے کے بعد۔ دوسرے کمیشن نے جو سفارشات پیش کیں ان کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی کیونکہ مسز گاندھی نے کسی ایسے اقدام کی طرف دیکھنے سے بھی انکار کر دیا تھا جس میں ایمرجنسی کے بعد کے عرصہ کا ذکر ہو (اور پولیس اصلاحات کے بارے میں جو نہایت قابل تعریف رپورٹ تیار کی گئی تھی وہ بھی ضایع کر دی گئی)

نریندر مودی کی سربراہی میں قائم ہونے والی حکومت ماضی سے یکسر مختلف ہے لہٰذا اسے یقینی طور پر ایک کمیشن قائم کرنا چاہیے جو مسز گاندھی کی حکومت کے بعد سے میڈیا کی پوزیشن کا جائزہ لے ۔

میں پریس کی آزادی کا دل سے قائل ہوں حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے نئے وزیر اطلاعات و نشریات پرکاش جوادیکر (Javadekar) کے بیان سے بہت کوفت ہوئی ہے جس میں انھوں نے پریس کی آزادی کی یقین دہانی کراتے ہوئے ایک انتباہ بھی کر دیا ہے لیکن مجھے اس انتباہ کی سمجھ نہیں آئی۔ بھارتی پریس اعلیٰ اقدار کی حفاظت میں کسی دوسرے ملک کے پریس سے کمتر نہیں، جن اقدار کو سیاست دانوں نے تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔

آزادی کے بعد سے بھارتی پریس کی غیر ذمے داری کی کوئی مثال موجود نہیں لیکن یہ بات حکومت کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی جس نے کہ 1975ء میں ایمرجنسی کے دوران اخبارات پر سنسر شپ عاید کر دی تھی۔ حتیٰ کہ اب بھی بہت سی ریاستوں میں اخبارات کو وزرائے اعلیٰ کا دبائو برداشت کرنا پڑتا ہے بلکہ انھیں سزا بھی ملتی ہے اشتہارات جو کہ چھوٹے اخبارات کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہوتے ہیں وہ بھی حکومت کی حمایت کرنے والوں کو دیے جاتے ہیں جب کہ تنقید کرنے والوں کو اشتہارات سے محروم رکھا جاتا ہے اور حکومت جو کچھ بھی خرچ کرتی ہے وہ ٹیکس دھندگان کا روپیہ ہوتا ہے۔

اشتہارات کی ’’گاجر‘‘ دوسرے ملکوں میں بھی چلتی ہے اور حکومتیں کسی ہچکچاہٹ کے بغیر اس کا استعمال کرتی ہیں۔ حکمرانوں کے پاس کروڑوں اربوں روپے کی رقم ان کے صوابدیدی اختیارات کے لیے ہوتی ہے تا کہ وہ اپنی اثر پذیری کو بڑھا سکیں۔ کارپوریشنوں اور بااثر افراد کے کسی گروپ کی طرف سے میڈیا کوکنٹرول کرنے کی کہانیاں بھارت سے کسی جگہ پر بھی مختلف نہیں ہیں۔

گزشتہ کچھ ہفتوں میں بنگلہ دیش اور پاکستان کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ وہاں کی سیاست میں جس قدر خرابیاں ہیں۔اس کے لیے ایک علیحدہ مقالہ تحریر کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم میں اپنے کالم کو میڈیا تک محدود رکھ رہا ہوں جو کہ بلاشبہ سیاست پر اثرانداز ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش میں ٹی وی چینلز کی بہت بڑی تعداد ہے جو کہ سب کے سب بنگالی زبان میں ہیں حالانکہ روزنامہ اخبارات کی زیادہ تعداد نہیں لیکن چندمستثنیات سے قطع نظر زیادہ تر پرنٹ میڈیا برسراقتدار حکومت کی حمایت میں خبریں دیتا ہے جب کہ الیکٹرونک میڈیا ایسا نہیں کرتا۔

پاکستان ابھی تک ایک جاگیردارانہ ریاست کی طرح ہے۔تاہم اس کا میڈیا برصغیر میں سب سے زیادہ تعداد میں ہے۔ میڈیا سے متعلق مرد اور عورتیں بڑی جراتمندی سے خبریں دیتے ہیں جو کہ زیادہ تر درست ہوتی ہیں۔

میڈیا جو بات بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ برصغیر میں پریس اور ٹی وی چینلز کے مالکان میں اب کوئی بھی غیر ملکی نہیں۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نے چوٹی کے اخبارات کی برطانوی ملکیت واپس لینے کی خاطر بڑے صنعتی اداروں کی مدد طلب کی تھی۔ اور چونکہ میڈیا ایک مکمل طور پر ترقی یافتہ میدان ہے اور جس کا عوام کی زندگی پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے تو اب وقت آ گیا ہے کہ قانون کے تحت بعض تجاویز ان کے بارے میں بھی ہونی چاہئیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ میڈیا کی تمام تر توجہ مارکیٹنگ اور پیکنگ پر مرکوز ہے۔ یہ بھی بڑی اہم چیزیں ہیں لیکن ان کی زیادہ ترجیح نفس مضمون پر ہونی چاہیے۔ افسوس کہ اس میں اور زیادہ غفلت کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

نیا سیاسی بحران

$
0
0

موجودہ حکومت کے خلاف بعض جماعتوں کی جانب سے سابقہ انتخابات کے حوالے سے حکومت مخالف گرینڈ الائنس بناکر ایک نیا سیاسی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ گو کہ تمام سیاسی جماعتیں جمہوریت کا انتہائی احترام کا دعوی کرتی ہیں اور حکومت کا بھی کوئی ادارہ نہیں چاہتا کہ مملکت کے دیگر ستونوں کے ساتھ کسی قسم کی محاذ آرائی کا تاثر بھی جائے۔تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں سمیت تمام اداروں کی اولین ترجیح ملک بھر میں عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات کو پھلنا پھولنا ہونا چاہیے۔

سسٹم کے استحکام اور اچھی حکمرانی و انصاف صرف اسی صورت بحال رہ سکتا ہے جب قانون کا احترام تمام ادارے اپنی حدود میں رہتے ہوئے کریں۔ملک میں انتخاب کے حوالے سے آئینی ترمیم کے بعد اس وقت مملکت کو 1980ء اور1990ء کی دہائیوں جیسی صورتحال کا سامنا نہیں ہے کہ جب لوگ حکومت کی بساط الٹنے کے لیے صدر کی جانب سے دفعہ 58(ٹو) بی کے استعمال کرنے کی آس لگاتے تھے یا پھر مارشل کے نفاذ کے لیے فوج کی طرف دیکھتے تھے۔ اب یہ دونوں راستے بند ہوچکے ہیں ۔ تمام ادارے جمہوری طریقے سے انتقال اقتدار کی جانب پر امن طریقے اور سیاسی تلخیوں کے باوجود تیزی سے گامزن ہیں۔

عوام ملکی استحکام و تبدیلی کی خواہش لیے ہر آنے والے دن ، خواب دیکھتے ہیں۔ تمام اداروں کی ذمے داری بھی بنتی ہے کہ نظام میں استحکام لائیں۔موجودہ حکومت تمام تر مشکلات کے باوجود اپنی آئینی مدت ذمے داری کے ساتھ پوری کرے۔بحران بھی آتے رہیں گے ، مسائل بھی پیدا ہوتے رہیں گے لیکن تمام سیاسی جماعتوں کو مستقل مزاجی کے ساتھ صبر و برداشت کا ماحول برقرار رکھنا ہوگا اور عوام کی خدمت کے وعدے کو ہر صورت پورا کرنا ہوگا۔جب تک اداروں کے درمیان ہم آہنگی ، سسٹم کے استحکام اور اچھی حکمرانی کے ذریعے ملک کی خدمت کے عزم کو کامل کرنا ہوگا۔ کیونکہ یہ موجودہ حالات سے بددل اور مسائل و مشکلات میں گھرے ہوئے عوام کے لیے امید افزا ہے۔

ہمارا المیہ ہی یہ رہا ہے کہ مملکت کے بااختیار ادارے اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے معاون و مددگار بننے کے بجائے اپنی خواہشات اور مفادات کی پاسدار ی کرنے لگ جاتے ہیں اور بعض سیاسی جماعتیں اسے اپنی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کرتی ہیں جس سے عوام میں بے چینی اور بد اعتمادی بڑھ جاتی ہے ۔ مقننہ،انتظامیہ اورعدلیہ میں ہمیشہ ٹکرائو کی کیفیت پیدا ہوتی رہی ہے جس سے نظام میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور پاکستان کی سرزمیں نا اتفاقیوں کی بناء پر ایک مدت تک بے آئین اور طالع آزمائوں کی آماجگاہ بنا رہا  حتی کہ دوٹکڑے ہوگیا۔

مملکت کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ انتقال اقتدارکا مرحلہ پر امن طریقے سے ہو ا اور اب انتخابات کے بعد بھی اسی سلسلے کو اسی عمل کے تحت ہونے  دیتے رہنا چاہے ۔ تمام تر اعتراضات و خامیوں کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی اور ان کی اتحادی جماعتیں قابل تعریف ہیں کہ پاکستان میں جمہوری عمل کو درست پٹری پر لانے کے لیے صبرکا دامن تھامے رکھا اور غیر آئینی قوتوں کو مداخلت کا جواز فراہم نہیں کیا، مسلم لیگ کی حکومت کو بھی اسی بردباری کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔ہر مرحلے پر افواج پاکستان نے خصوصی کردار ادا کیا جو کسی بھی ترقی یافتہ اور باشعور عوام کی حفاظت کرنے والے ادارے کا کردار ہوتا ہے ۔

حکومتِ وقت پر اس وقت بہت ذمے داریاں عائد ہیں کیونکہ انھوں نے ہی اداروں کو مزید مضبوط بنانا اور ان کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔ ماضی میں نواز و پی پی پی حکومت کا جو بھی طرز عمل رہا انھیں اب اپنی خامیوں کو خود ہی دور کرنا ہوگا۔ تحریک انصاف کو بھی صبر و تحمل کو اپنانا ہوگا۔ میڈیا اس وقت ایک اہم ستون کے طور پر حکومت کے تمام اداروں اور سیاسی جماعتوں کا بے رحم احتساب کرتا نظر آتا ہے ، کیا ہی اچھا ہوتا کہ میڈیا اپنا احتسابی عمل بھی خود پر لاگو کرلے تاکہ میڈیا کی ساکھ عوام میں مثبت برقرار رہے۔کسی ادارے کو اپنی انا کا مسئلہ بنائے بغیر تصادم اور محاذ آرائی سے بچنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ حکومتوں کی غلطیوں کا خمیازہ کسی فرد واحد کو نہیں بلکہ پوری قوم کو اٹھانا پڑتا۔

ماضی کی پرویز مشرف کی خارجہ و داخلہ پالسیوں کی بنا ء پر مملکت ایک ایسی جنگ میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے جہاں ایسے اندرونی و بیرونی دونوں جانب سے خطرات کا سامنا ہے ۔ افغانستان کی جانب سے بار بار الزامات اور بھارت کی جانب سے کشمیر و دیگر حساس سیکٹر پر بلا جواز اشتعال انگیز واقعات کے سدباب کے لیے تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کو  ملکی یکجہتی کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہوکر اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔

صرف نہ چلائے جانے والے ایٹمی ہتھیاروں کو ہاتھی کے دانت کی طرح دکھانے سے ملکی مسائل کم نہیں ہو جائیں گے۔ افغانستان اپنے داخلی مسائل اور بھارت اپنی مملکت میں علیحدگی پسند تحریکوں کو کچلنے کے لیے پاکستان کی آڑ لیتے ہیں اور پاکستان کی جانب سے تمام مثبت خیر سگالی کے جذبات کو یکسر سرد مہری کی نذر کر دیتے ہیں۔ جس سے  خطے میں امن کے بجائے عدم استحکام کو ہی فروغ مل رہا ہے اور مہنگائی میں پسی ہوئے عوام کو اسلحے کی دوڑ میں متواتر پیسا جا رہا ہے۔

با حیثیت قوم ابھی تک ہم صوبائیت ، لسانیت کے گورکھ دھندے سے نہیں نکل پائے ہیں ۔ وزیر اعظم نوز شریف کی جانب سے چھوٹے صوبوں میں پائی جانے والی اس احساس محرومی کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہونگے۔ وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے ابھی تک سینیٹ سے خطاب نہ کرنا  ، قومی پالیسی کے تعین میں ناکامی تصور کیا جائے گا جب کہ انتخابات میں کیے گئے وعدوں کا پاس رکھنا اور انھیں پورا کرنا ، عوام کے اعتماد کو جلا بخشے گا۔

دہشت گردی کے خلاف آل پارٹیز کانفرنسوں کے انعقاد میں کے باوجود ناکامیوں نے عوام میں دہشت گردی کے خلاف حکومتی دعوئوں پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے تو دوسری جانب تحریک انصاف کی جانب سے محض پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ، جمہوریت کو ڈی ریل کرنا اور لندن میں بننے والا جھرلو سیاسی اتحاد حیران کن ہے کہ قوم سے کیے جانے والے وعدے اگر پارلیمنٹ میںموجود سیاسی جماعتیں نہیں کریں گی تو پھر عوام سے دہشت گردی کے خلاف سخت موقف اپنانے کی کیا ضرورت تھی ۔پارلیمنٹ اگر پسند نہیں تو انتخابات میں حصہ کیوں لیتے ہیں ، ہار جائو تو دھاندلی ، جیت پرجمہوریت کی فتح قرار دینے کی روش کو ختم کرنا ہوگا۔

اگر دہشت گردی کے خلاف کسی متفقہ پالیسی میں کسی بھی شخص یا ادارے کو کوئی تحفظات ہیں تو پھر قوم کو اس سے آگاہ کیا جائے۔ محض بیانات پر اکتفا کرنے کے بجائے ملکی کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اپنی تجاویز کو قوم کے سامنے لائیں ، ابھی اقتدار کے نئے ،مرحلے کے لیے سب کو مقررہ مدت تک انتظار کرنا ہوگا ۔ ہر سیاسی جماعت کو اپنے مینڈیٹ کے تحت عوام کی خدمت کا فرض سونپا گیا ہے۔ اس روگردانی قوم کے ووٹ سے اور آئین سے غداری کے مترادف قرار دیا جائے گا۔لسانیت ، صوبائیت اور فرقہ واریت کے آسیب کی دنیا سے باہر نکل کر مملکت کو نئے بحرانوں سے بچانے کے لیے مثبت و اجتماعی جدوجہد میں ہی کامیابی ہے۔اس کے باوجود ہمیں اپنی ذمے داریوں کا احساس نہیں ہوا تو تاریخ ، سنبھلنے کے لیے بار بار موقع نہیں دیتی۔

مملکت کی وحدت پارہ پارہ ہوچکی ہے۔ ایسے یکجا کرنے کے لیے مل کر ہی کوشش کرنا ہوگی۔اندرونی خلفشار سے بیرونی طاقتیں ہی فائدہ اٹھاتی ہیں ، ہمیں مصر ، لبنان، شام اور عراق کی مثال اپنے سامنے رکھ کر ایک بار سوچنا ضرور ہوگا۔ہوسکتا ہے کہ پھر موقع نہ ملے۔لہذا قوم کو اس پر آشوب دور میں مزید امتحانات میں نہ ڈالیں۔قوم کو ویسے ہی پر ٓاشوب مصائب اور تکالیف کا سامنا ہے ، قوم و مملکت کی بقا اس وقت خطرے میں ہے ، ملکی سلامتی کے ادارے پل صراط سے گذر رہے ہیں ، ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔

بلوچستانی ادب

$
0
0

حسین عورت خواہ کتنی ہی ذہین و فطین کیوں نہ ہو، اکثریت کی نگاہ اُس کے حسن پہ ہی مرکوز رہتی ہے۔ بعینہٰ بلوچستان کا سیاسی بیانیہ اس کے باقی تمام پہلوؤں پہ اس قدر حاوی ہے، کہ نہ تو لکھاری نہ ہی قاری کا ذہن اس طرف مائل ہوتا ہے۔ یہ درست کہ معروض سے فرار ممکن نہیں، لیکن معروض محض سیاسی سرگرمیوں تک محدود نہیں ہوتا حتیٰ کہ جو سماج حالتِ جنگ میں ہوں، وہاں بھی محض جنگی سرگرمی نہیں ہوتی، لوگ محبت بھی کر رہے ہوتے ہیں، دھوکے بھی ہو رہے ہوتے ہیں، بازار بھی چل رہے ہوتے ہیں، بازاری پن بھی جاری ہوتا ہے۔

سو، سیاسی سطح پر متاثرہ بلوچستان میں بھی وہ ساری سماجی سرگرمیاں کسی نہ کسی سطح پر چل رہی ہوتی ہیں، جو کسی بھی سماج کی فعالیت کا مظہر ہوتی ہیں۔ انھی میں ایک ادبی سرگرمی بھی ہے۔ اس لیے کچھ عرصے کے لیے ہم سیاسی منظر سے ہٹ کر بلوچستان میں تخلیق ہونے والے ادب پہ بات کریں گے … درحالانکہ کوئی بھی سماجی سرگرمی غیر سیاسی نہیں ہوتی! اس لیے بلوچستانی ادب کے تذکرے میں سیاست کا ذکر بارہا آتا رہے گا … بالکل ایسے ہی جیسے کسی حسین و ذہین خاتون کی ذہانت پہ بات کرتے ہوئے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے حسن پہ بار بار نگاہیں جا ٹکتی ہیں!

بلوچستان میں تخلیق ہونے والے ادب سے متعلق بات کرنے سے پہلے ہمیں یہ طے کرنا ہو گا کہ ہم کس زبان میں تخلیق ہونے والے ادب پہ بات کر رہے ہیں، کہ یہاں اردو سمیت بیک وقت بلوچی، براہوی، پشتو، فارسی، ہزارگی میں ادب تخلیق ہو رہا ہے۔ سرسری تذکرہ ہم ان سب کا کریں گے۔ لیکن چونکہ بہرحال حاوی زبان اردو ہے، اس لیے اسی کا تذکرہ بھی حاوی رہے گا۔ بلکہ بلوچ دانش وروں کا ایک حلقہ جو بلوچوں کو سات قومی و مادری زبانوں کا حامل قرار دیتا ہے، اردو کو بھی بلوچوں کی مادری زبان کے بطور دیکھتا ہے۔ قطع نظر اس سے، اردو سے بلوچوں اور اہلِ بلوچستان کا رشتہ موجودہ پاکستان کے تمام خطوں میں سب سے زیادہ قدیم اور مستحکم رہا ہے۔

بیسویں صدی کے آغاز سے شروع ہونے والی ہماری اولین سماجی و سیاسی سرگرمیوں کا میڈیم اردو ہی رہی ہے۔ بلوچستان کے اولین سیاسی رہنما یوسف عزیز مگسی کے مکاتیب ہوں کہ تقاریر، شاعری ہو کہ پمفلٹ یا پھر بندش کا شکار ہونے والے ایک درجن سے زائد اخبارات و جرائد، سبھی کی زبان اردو رہی۔ بلوچستان کے پہلے سیاسی گروہ انجمن اتحادِ بلوچاں سے، پہلی باضابطہ سیاسی جماعت قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کے دساتیر اردو میں ہی تحریر ہوتے رہے۔

اُنیس سو بیس کی دَہائی میں تخلیق ہونے والا بلوچستان کا پہلا اردو افسانہ اسی یوسف عزیز مگسی کے زورِ قلم کا نتیجہ تھا۔بلوچستان میں چونکہ ادب کی تخلیق کا سہرا آغاز سے ہی اُن احباب کے سر رہا جو بیک وقت سیاسی و سماجی سطح پہ بھی سرگرم تھے، اس لیے ان کے قلم سے تخلیق ہونے والا ادب اپنے عہد کی سیاسی و سماجی تاریخ کا سادہ سا بیانیہ ہے۔ موجودہ بلوچستان کی ادبی تخلیقات اسی کا تسلسل ہیں۔

واضح رہے کہ اُس زمانے میں اردو میں ایک تو وہ لوگ لکھ رہے تھے جو یہاں کے مستقل باسی تھے، جن کا جینا مرنا یہیں اسی مٹی سے وابستہ تھا،اس لیے ان کے ہاں سارا ادب مقامی مسائل سے جڑا ہوا تھا۔ لیکن بیک وقت ایک اور طبقہ بھی اردو میں لکھ رہا تھا، یہ وہ لوگ تھے جو ہندوستان کی تقسیم سے قبل اور بعد میں بلوچستان منتقل ہوئے، اور بلوچستان کے نامور افسانہ نگار آغا گل کے بقول، وہاں سے یہ لوگ ’جعلی کلیم کے ساتھ اپنا ناسٹیلجیا بھی لے کر آئے۔‘ اس ناسٹیلجیا سے وہ آخری دم تک پیچھا نہ چھڑا سکے۔ اس لیے ان کی تخلیقات میں نہ یہاں کی بوباس رچی، نہ مقامی رنگ آیا۔ یہ تحریریں پڑھتے ہوئے اگر مصنف کا پس منظر معلوم نہ ہو تو آپ کو آج بھی یہ قدیم ہندوستان کے کسی فرد کی تحریریں معلوم ہوں گی۔ دلچسپ بات یہ کہ یہ تسلسل بھی آج تک اسی طرح قائم ہے۔

جیسے عالمی دنیا میں ’جدید دنیا‘ کی اصطلاح نائن الیون کے بعد کی دنیا کے لیے استعمال ہوتی ہے، اسی طرح بلوچستان میں نئی سیاست ہو کہ صحافت یا نیا ادب، اس کا تذکرہ مابعد بگٹی (اگست 2006) سے شروع ہوتا ہے۔ نواب بگٹی کا قتل، بلوچستان کا نائن الیون تھا۔ اس واقعے نے بلوچستان کے سیاسی و سماجی فیبرکس کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ بلوچستان کے شہروں سے لے کر دیہات تک ایک آگ سی لگ گئی۔ اس واقعے اور اس سے جڑے متعلقات پہ بے تحاشا ادب تخلیق ہوا۔ کہانیاں، نظمیں، گیت… گویا کوئی صنفِ ادب ایسی نہ تھی جو اس واقعے سے متاثر نہ ہوئی ہو۔ حتیٰ کہ دیہات میں مائیں اپنے بچوں کو اکبرخان اور بالاچ کے نام کی لوریاں سنانے لگیں۔

گلوکاروں نے گیت گائے۔ اکبر خان کے بعد نوابزادہ بالاچ اور پھر غلام محمد بلوچ اور ان کے ساتھیوں کے قتل کے تسلسل نے اس بابت تخلیق کو بھی گویا ازخود تسلسل مہیا کر دیا۔ صرف سن دوہزار دس کے بعد سے مکران سے شایع ہونے والے ادبی جرائد کی تعداد چند ایک سے بڑھ کر دو درجن تک پہنچ گئی۔ بالخصوص بلوچی کتابیں ہزاروں کی تعداد میں بکنے اور پڑھی جانے لگیں۔ جامعہ بلوچستان کا شعبہ بلوچی جہاں اساتذہ، طلبا کے داخلوں کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے رہتے تھے، محض شعبے میں جان ڈالنے کے لیے یار دوستوں کو داخلے دیے جاتے تھے، وہاں طلبا کا جم غفیر جمع ہو گیا۔ یہاں تک کہ اس شعبے کو داخلے کے لیے ایک سخت امتحان کا انعقاد کرنا پڑا، اس کے باوجود تعداد اس قدر بڑھ گئی کہ داخلے کے لیے منتظر طلبا کی تعداد، داخل طلبہ کی فہرست سے طویل ہوتی چلی گئی۔

ان چند برسوں میں ایک درجن سے زائد نئے پبلشرز سامنے آئے۔ بلوچی ادب میں یہ ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ کہاں تو ایک ادیب کو کتاب چھاپنے کے لیے بجار (چندہ) کرنا پڑتا تھا، اور کہاں اب مفت کتاب چھاپنے کے لیے پبلشرز کی فرمائشیں آنے لگیں۔ اس وقت بلوچی کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر کی ایک کتاب گزشتہ برس شایع ہوئی تو محض پندرہ دن میں اس کا پہلا ایڈیشن ختم ہو گیا۔ ایک ہزار کا دوسرا ایڈیشن بھی ایک ماہ میں تمام ہوا۔ بلوچستان اور بالخصوص بلوچی میں لکھنے والوں کو پہلی بار قارئین کا ایک وسیع حلقہ میسر آیا۔ انھیں وسیع پیمانے پر پڑھا، اور سراہا جانے لگا۔

یہ اور بات کہ زیادہ سے زیادہ پڑھے اور سراہے جانے کی خواہش میں لکھنے والوں کی اکثریت کلیشے کا شکار ہو گئی اور ایک ہی موضوع پہ اس قدر لکھا گیا کہ خیالات کی تکرار سے ابکائیاں آنے لگیں۔ المختصر، گزشتہ دس برس سے بلوچستان کی سیاست، صحافت اور ادب ایک ہی احساس کے گرد گھوم رہے ہیں، جسے ایک لفظ میں بیان کیاجائے تو وہ ہوگا؛ ’مزاحمت!‘ بلوچستان میں کتابوں کی دکانوں، تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز پر چھاپوں اور بعض کتابوں کی بندش کو اسی پس منظر میں رکھ کر دیکھیںتو ان کی تفہیم سہل ہوجاتی ہے۔

تو یہ رہا بلوچستان کے ادب اور جدید ادبی رحجانات کا سرسری تذکرہ۔ آیندہ نشستوں میں ہم بلوچستان کی مختلف زبانوں میں تخلیق ہونے والے ادب کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لیں گے۔ اور دیکھیں گے بلوچستان کے جدید ادبی رحجانات کون سے ہیں … ایک وجیہہ خاتون کی ذہانت سے آشنائی یقینا آپ کو اس کی چاہت میں مبتلا کر دے گی!

اور کتنے چراغ گل ہونگے؟

$
0
0

روزنامہ ایکسپریس کی خبر کے مطابق مئی کے مہینے میں کراچی میں دہشت گردوں نے 167 افراد قتل کردیے جب کہ بم دھماکوں میں 7 شہری ہلاک ہوئے، پورے مئی میں صرف 27 مئی کا دن پرامن رہا جس دن کوئی ٹارگٹ کلنگ نہیں ہوئی، البتہ دہشت گردوں نے مئی میں بلاامتیاز اپنے ٹارگٹس کو نشانہ بنایا جن میں آرمی اور نیوی کے جوان، پولیس افسر اور اہلکار، ڈاکٹر، وکیل، سرکاری ملازمین، عام شہری، سیاسی جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے عہدیدار و ارکان اور خواتین بھی شامل تھیں۔

مئی میں کیماڑی آئل ٹرمینل کے قریب آئل ٹینکر میں 3 دھماکے، نارتھ ناظم آباد میں رینجرز ہیڈکوارٹرز پر بھی موٹرسائیکل بم دھماکا شامل ہے۔ اتحاد ٹاؤن میں پہلی بار بم دھماکے کے لیے گدھا گاڑی کو استعمال کیا گیا جس میں گدھا بھی ہلاک ہوا اور میمن گوٹھ میں پٹاخے بنانے والی فیکٹری میں دھماکے سے چھ افراد کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ مئی میں بھتہ خوروں اور دہشت گردوں نے ڈیڑھ درجن سے زائد دستی بموں اورکریکر کے حملے کرکے 30 سے زائد افراد کو زخمی بھی کیا۔

مئی کے مہینے میں یہ سب کچھ ایسے حالات میں ہوا جب کراچی میں رینجرز اور پولیس کا آپریشن بھی جاری تھا اور شہر میں جگہ جگہ رینجرز اور پولیس کی اسنیپ چیکنگ، چھاپے، محاصرے اور ٹارگٹڈ آپریشن بھی جاری تھا مگر پھر بھی شہر میں ٹارگٹ کلنگ، تشدد اور فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا اور 167 افراد کو موت کے گھاٹ اترنا پڑا۔

کراچی کے شہری اس بات پر حیران ہیں کہ بڑی تعداد میں رینجرز اور پولیس کے دن رات جاری ٹارگٹڈ آپریشن کے باوجود قتل و غارت گری، بم دھماکوں، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کا سلسلہ بند ہونے میں کیوں نہیں آرہا۔شہر کے تاجروں کے پاس اب بھی بھتے کی پرچیاں اور فون آرہے ہیں اور کراچی انتظامیہ اس پر بھی قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی ہے اور ٹارگٹڈ کلنگ تو دور کی بات اہم تجارتی اور صنعتی علاقوں سے بھتہ خوری بھی نہیں رکوائی جا سکی ہے۔ جس کے سدباب کے لیے کراچی کے صنعتکار اور تاجر متعدد بار احتجاج کرچکے ہیں مگر انتظامیہ اور حکومتی حلقوں کی طرف سے ماضی کی طرح کرائی جانے والی یقین دہانیاں اور پورے نہ ہونے والے بلند و بانگ دعوے ختم نہیں ہو رہے۔

وزیر اعظم کی خصوصی دلچسپی اور آئے دن کراچی کے دورے بھی  حالات کو بہتر بنانے میں موثر ثابت نہیں ہو رہے اور وزیر اعظم کو یہ بتا کر مطمئن کردیا جاتا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ میں کمی واقع ہوئی ہے۔ وزیر اعظم کو بھی کراچی انتظامیہ سے باز پرس کرنی چاہیے کہ ان کے دعوؤں کے برعکس مئی میں 167 شہریوں کی ہلاکتیں کیوں ہوئیں اور بھتہ خوری کنٹرول کیوں نہیں ہو رہی۔

گزشتہ 6 ماہ کے دوران کراچی میں ناظم آباد وہ علاقہ ہے جہاں 38 شہریوں کو نشانہ بنایا گیا مگر ناظم آباد میں 38 ہلاکتوں کے باوجود خصوصی توجہ نہیں دی گئی۔ 3 ماہ قبل ناظم آباد کی اہم سیاسی و سماجی شخصیت حامد خان کو نمازجمعہ کی ادائیگی کے بعد گول مارکیٹ جیسے پررونق علاقے میں دن دہاڑے قتل کیا گیا تھا۔ حامد خان کے قتل پر گول مارکیٹ جیسا اہم تجارتی علاقہ سوگ میں 3 روز مکمل بند رہا تھا ، جس کے بعد توقع تھی کہ انتظامیہ ناظم آباد کو دہشت گردوں سے محفوظ رکھنے کے لیے موثر اقدامات کرے گی مگر کچھ نہیں ہوا اور 30 مئی جمعے کو ایک پرنسپل سمیت 6 شہری ہلاک ہوئے اور پرنسپل کو ناظم آباد میں ان کے بچوں کے سامنے نشانہ بنایا گیا۔

رینجرز اور پولیس کے جاری آپریشن کے دوران افسران اپنی پریس کانفرنسوں میں بڑے فخر سے جرائم پیشہ عناصر کی گرفتاریاں ظاہر کرتے ہیں جن سے بھاری تعداد میں اسلحے کی برآمدگی کا بھی دعویٰ کیا جاتا ہے اور بعض ملزمان کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ یہ ایک دو نہیں درجنوں افراد کے قتل میں ملوث ہیں۔ ایسے ملزموں کی گرفتاری پر محکمہ فوراً انعامات اور ترقیوں کا اعلان کردیتا ہے جن پر عمل بھی ہوجاتا ہے مگر بعد میں ایسے خطرناک قاتل قرار دیے جانے والوں پر ایک بھی قتل ثابت نہیں ہوتا اور وہ معمولی سزا کے بعد چھوٹ یا ضمانت پر رہا ہوجاتے ہیں مگر ان کے مقدمات کمزور کرنے والے سرکاری اہلکاروں کی معطلی ہوتی ہے اور نہ تنزلی۔

پولیس افسران کو کراچی میں جاری بدامنی، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کے سدباب سے زیادہ کمائی سے دلچسپی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر ماہ پولیس اور رینجرز پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں مگر حالات بہتر نہیں ہو رہے۔

سپریم کورٹ نے مشہور سماجی کارکن پروین رحمٰن کے قاتلوں کی گرفتاری نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی پولیس کی نااہلی اور غیر ذمے داری نے کراچی کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ یہ ریمارکس پروین رحمن کیس میں دیے۔ پروین رحمٰن کے قتل کا ایک سال میں بھی سراغ نہ لگایا جاسکا اور ان کا قتل کیس داخل دفتر کردیا گیا ہے۔

کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے اور نہ جانے کتنے معروف اور غیر معروف افراد ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ہنرمند، سماجی خدمات انجام دینے والے  سماجی کارکن اور اب تو بچے اور خواتین بھی اپنی جانوں سے جاچکے اور اب یہاں گدھے سمیت کوئی بھی محفوظ نہیں۔ بھاری سرکاری سیکیورٹی میں رہنے والوں کو بے گناہوں کی حفاظت کا حقیقی خیال نجانے کب آئے گا؟

تمہیں کیا کرنا ہے؟

$
0
0

واقعہ ایسا نہیں کہ میں اسے دہراتی لیکن جب میں سوشل میڈیا پر اختلاف کی صورت میں استعمال کی جانیوالی زبان دیکھتی ہوں تو نہ صرف وہ واقعہ یاد آجاتا ہے بلکہ یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ لیڈر اپنے کارکن کو کیسے تیار کرتا ہے۔ واقعہ 1990 کا ہے جب میاں نواز شریف وزیراعظم تھے اور سندھ میں جام صادق علی اکلوتے رکن صوبائی اسمبلی ہونے کے باوجود وزیر اعلیٰ سندھ کے عہدے پر براجمان تھے اور جن کی آشیرباد سے براجمان تھے ان کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے ورکرز اور لیڈرشپ پر خصوصی طور پر مہربان تھے۔

جامعہ کراچی میں میرا ایم ایس سی کا آخری سیمسٹر تھا جب خوف کو بڑھانے کے لیے مجھے بھی گرفتار کیا گیا۔ ان کا خیال تھا کہ خواتین کی گرفتاری سے پیپلز پارٹی کے اکابرین اور کارکن ڈر جائیں گے اور حکومت مخالف سرگرمیوں میں کمی آجائے گی لیکن ہوا اس کے برعکس وہ مجھے ہی خوف زدہ نہیں کرسکے تو کسی اور کو کیا کرتے۔ مجھے دھمکیاں دی جاتی رہیں کہ ’’ایسے کیس بنائیں گے کہ کئی برس تک باہر نہیں نکل سکوگی‘‘ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے خوفزدہ کرنے میں ناکام رہنے والوں نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے بھیانک کیس بنا دیے اور ایک ماہ بعد جیل بھیج دیا گیا اب ایک نیا دور شروع ہوا۔

پیشیاں انسداد دہشت گردی کورٹ میں ہوتی تھیں کیونکہ الزامات ہی کچھ ایسے تھے، بے نظیر بھٹوکو دباؤ میں لینے کے لیے آصف علی زرداری پر سنگین ترین مقدمات بنائے گئے اور ان کی حاضری بھی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں یقینی بنائی جاتی تھی ۔یہ ڈیزائن کرنے والوں کے ذہن میں شاید یہ تھا کہ ہم جیسے کارکن جب لیڈر کو اپنی بے بسی میں دیکھیں گے تو انھیں عقل آجائے گی۔ لیکن ہوا کچھ یوں کہ لیڈرشپ کو اتنا قریب دیکھ کر ہم کارکنوں کو ’’عقل‘‘ کیا آتی ہمارے حوصلے اور بڑھ گئے اور انسداد ہشت گردی کورٹ جس کا ماحول اس طرح بنایا گیا تھا کہ ایک دہشت طاری ہوجاتی تھی ہم سب کے لیے ایک طرح کا پکنک پوائنٹ بن گیا۔

پیشی والے دن خصوصی طور پر تیار ہوکر کورٹ جاتے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو سن کر دل ہی دل میں ہنستے رہنا جھوٹے گواہوں کو مقدس کتابوں پر حلف لے کر بیان دیتے دیکھنا اور پھر وکیلوں کی جرح پر اعتماد کو ہکلاتے دیکھنا، سوال کے جواب میں بار بار پسینہ پونچھنا اور جرح ختم ہوتے تیزی سے نکلتا دیکھنا معمول سا بن گیا تھا ایسے ماحول میں جہاں ڈر اور خوف کا دور دور نشان نہ ہو۔ ایک روز یہ ہوا کہ پیشی جاری تھی بی بی عدالت میں موجود تھیں لیکن جج کی کرسی پر موجود شخص کا رویہ اس روز انتہائی ہتک آمیز تھا صاف ظاہر ہو رہا تھا جج صاحب کو کچھ خصوصی احکامات موصول ہوئے ہیں اور وہ ان احکامات پر عمل کر رہے ہیں۔

اہانت آمیز رویہ صرف بی بی کے ساتھ تھا ورنہ دیگر ملزمان بشمول میرے ان کا رویہ وہی تھا جو روز ہوتا تھا پھر ایک وقت ایسا آیا کہ جج صاحب شاہ کی وفاداری میں حد سے ہی گزر گئے ۔ میں بی بی کے بائیں ہاتھ پر بیٹھی تھی اور بہت دیر سے جذبات پر قابو پانے میں کامیاب ہو رہی تھی لیکن اس آخری حرکت کو برداشت نہ کرسکی نتائج کی پرواہ نہ کرتے ہوئے میں اپنی جگہ سے اٹھنے ہی لگی تھی کہ بی بی نے میرا ہاتھ دبایا ۔میں نے ان کی جانب دیکھا تو انتہائی مدہم آواز میں کہا کہ ’’بیٹھ جاؤ‘‘ میں بیٹھنا نہیں چاہتی تھی لیکن انھوں نے گھور کر دیکھا تو مجھے بیٹھنا ہی پڑا جس نے بی بی سے ایک بار پھر ملاقات کی ہے وہ میری بات کی تائید کرے گا کہ بی بی کی آنکھوں میں ایک عجیب طرح کی طاقت تھی جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔شاید اس موقعے پر میں اسی لیے دبک گئی تھی۔

جج صاحب نے اس کے بعد بھی اپنی کارروائیاں  جاری رکھیں لیکن عدالت کے برخاست ہوتے ہی بی بی کا رخ میری جانب ہوا۔ ’’یہ تم کیا کرنے جا رہی تھیں؟‘‘ انھوں نے کسی قدر برہم سے لہجے میں سوال کیا تھا۔ ’’بی بی! وہ آپ۔۔۔۔!‘‘ میں اتنا ہی کہہ پائی تھی کہ بی بی نے ہاتھ اٹھاکر مجھے مزید کچھ کہنے سے روک دیا۔ ’’وہ جج ہیں‘‘ انھوں نے کہا لیکن اب کی بار برہمی نہیں تھی۔ ’’لیکن وہ تو۔۔۔۔!‘‘ میں نے پھر سے کچھ کہنا چاہا لیکن ایک بار پھر روک دی گئی۔

’’اگر وہ اپنا مقام بھول گیا ہے تو کیا تمہیں بھی بھول جانا چاہیے کہ تمہیں کیا کرنا ہے؟‘‘ بی بی کے انداز میں ایک استاد کی شفقت تھی۔ یہ صبر و تحمل ، یہ برداشت،در گزر ، رواداری اور منصف کے مقام  کے احترام کا احساس ! کیا کہوں بی بی نے انصاف و قانون اور تاریخ کے کتنے بڑے سبق ایک ہی وقت میں یاد دلائے۔ ’’سوری بی بی!‘‘ میرے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا اس واقعے کو ربع صدی ہونے کو ہے لیکن کبھی عدالت جانے کا اتفاق ہوا تو بی بی کے لفظ کانوں میں گونجتے ہیں ۔ صرف یہی نہیں جب کوئی اپنے مقام سے گر جاتا ہے تب بھی بی بی یاد آتی ہیں ۔ ’’اگر وہ اپنا مقام بھول گیا ہے تو کیا تم بھی بھول جاؤگی کہ تمہیں کیا کرنا ہے؟‘‘

ہم کو تو انتظار ِسحر بھی قبول ہے

لیکن شب ِ فراق ترا کیا اصول ہے

نیا سیاسی منظرنامہ اور اس کے تقاضے

$
0
0

وطن عزیز پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع انتہائی اہمیت کا حامل ہے جہاں ایک جانب اس کی سرحدیں اپنے ازلی دشمن بھارت سے ملتی ہیں تو دوسری جانب اسے اپنے آزمائے ہوئے دوست چین کا قرب بھی حاصل ہے۔ اس کے علاوہ اس کی سرحدیں مسلم آبادی والے ممالک افغانستان اور ایران سے بھی ملی ہوئی ہیں۔ تزویراتی اعتبار سے یہ Locationکچھ اس نوعیت کی ہے کہ جس کے بارے میں صرف یہی کہنے پر اکتفا کیا جاسکتا ہے کہ:

اے روشنی طبع تو برمن بلاشدی

بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے بارے میں زیادہ کچھ کہنے کی اس لیے کوئی ضرورت نہیں کہ وہ تو اس کے قیام ہی کا مخالف ہے اور روز اول سے اس کے وجود کو ہی صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے درپے ہے۔ یہ اسی کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا نتیجہ تھا کہ 1971 میں سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہوا اور ہمارا مشرقی بازوکٹ کر ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگیا۔ اس سانحے کے پس پشت سب سے گھناؤنا کردار اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ادا کیا تھا جس کا تعلق سیکولرازم کی چیمپئن اس سیاسی جماعت کانگریس سے تھا جو ہندوستان کے حالیہ عام انتخابات میں تاریخ کی بدترین شکست سے دوچار ہونے کے بعد اپنے کیفر کردار کو پہنچ گئی ہے۔

رہا سوال پاکستان کے دوسرے پڑوسی افغانستان کا تو اس کی بکاؤ قیادت نے قیام پاکستان کے وقت ضمیر فروشی اور بھارت نوازی کی اس قدر انتہا کردی کہ ایک عرصے تک ہمارے وطن عزیز کے وجود ہی کو تسلیم نہیں کیا۔ ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ صرف طالبان کے مختصر سے عرصہ حکمرانی کے سوائے افغانستان میں زیادہ تر بھارت کے ہمنوا حکمراں ہی اقتدار پر قابض رہے ہیں۔ ہم اس منظر کے عینی شاہد ہیں جب بھارت کے آنجہانی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو افغانستان کے حکمرانوں سردار داؤد اور سردار نعیم کا دلی میں سواگت کر رہے تھے اور افغانستان کے یہ دونوں قائدین ان سے بغل گیر ہو رہے تھے۔ لگتا ہے کہ آج حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ جیسے بھارت نواز  قائدین کی صورت میں تاریخ اپنے آپ کو ایک مرتبہ پھر دہرا رہی ہے۔ عبداللہ عبداللہ کی اصلیت سے بھلا کون واقف نہیں ہے۔

بھارتی حکمرانوں کا دست شفقت ہمیشہ ان کے سر پر رہا ہے اور انھوں نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ بڑے عیش کے دن بھارت میں گزارے ہیں۔ اب افغانستان میں صدارتی منصب پر فائز ہونے کے بعد کیا وہ بھارت کا حق نمک ادا نہیں کریں گے؟ حق نمک ادا کرنے میں تو حامد کرزئی نے بھی اپنی جانب سے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کے نومنتخب وزیر اعظم نریندر مودی نے نہ صرف سب سے پہلے شرف ملاقات ان ہی کو بخشا بلکہ دونوں لیڈروں کی باڈی لینگویج سے دونوں کی قرابت اور گرم جوشی بالکل صاف ظاہر ہو رہی تھی۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے برسوں سے بچھڑے ہوئے دو ہم مشرب یا سگے بھائی آپس میں مل رہے ہوں۔ اس کے بعد جب وزیر اعظم میاں نواز شریف سے ملاقات کی باری آئی تو مودی جی کا رویہ کچھ اور ہی تھا۔ جس کا اظہار ایک مشہور فلمی گانے کے یہ بول کر رہے تھے:

لاکھ چھپاؤ‘ چھپ نہ سکے گا راز ہو کتنا گہرا

دل کی بات بتا دیتا ہے اصلی نقلی چہرا

اگرچہ مصافحہ بھی ہوا اور مسکراتے ہوئے تصویر بھی کھینچی گئی مگر یہ سب کارروائی محض رسمی اور دنیا دکھاوے کے لیے تھی۔ سچ پوچھیے تو سارک ممالک کے سربراہوں کے حوالے سے میاں صاحب کو تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت بھی مودی کی ایک ڈپلومیٹک چال تھی جس کا مطلب دنیا کو یہ دکھانا تھا کہ بھارت کے نئے پردھان منتری کتنے نیک نیت اور کشادہ دل ہیں۔  اگر میاں صاحب مودی کے اس دعوت نامے کو ٹھکرا دیتے تو مودی جی انھیں دنیا بھر میں رسوا اور بدنام کرنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑتے۔

دوسری جانب اندرون ملک بعض حلقوں کا اصرار تھا کہ میاں صاحب اس وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری میں ہرگز شرکت نہ کریں جس کے ہاتھ گجرات کے مظلوم مسلمانوں کے خون میں رنگے ہوئے ہیں، لیکن میاں نواز شریف نے مخالف حلقوں کی ناراضگی کا خطرہ مول لے کر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے ذریعے مودی کی ڈپلومیٹک چال کا جواب ڈپلومیسی کے ذریعے دے دیا۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے خیرسگالی کے جذبے کا اظہار کرتے ہوئے پاک بھارت تعلقات کے سلسلے کو دوبارہ وہیں سے شروع کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کردیا جہاں سے یہ سلسلہ بی جے پی کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورہ لاہور کے بعد ٹوٹا تھا۔

میاں صاحب نے صرف اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ  اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بی جے پی کے سابق وزیر اعظم واجپائی کی مزاج پرسی کے لیے بھی گئے جو آج کل علیل ہیں۔ مگر میاں صاحب کی روایتی شرافت کا جواب پردھان منتری نریندر مودی کی جانب سے حسب عادت اور حسب فطرت اس ڈھٹائی کے ساتھ دیا گیا اور عقابی انداز میں اپنے مطالبات پیش کیے گئے جن میں ممبئی حملوں کا معاملہ نمایاں طور پر شامل تھا۔

بھارت میں وزارت عظمیٰ اور افغانستان میں عہدہ صدارت کے لیے ہونے والے انتخابات ایک نئے سیاسی منظرنامے کی غمازی کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں کچھ اہم تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔ بھارت اور افغانستان کا سیاسی گٹھ جوڑ عبداللہ عبداللہ کی افغان صدارت کی صورت میں ایک نئی اور اہم سیاسی کروٹ لے سکتا ہے۔ ان حالات میں اگر میاں نواز شریف کی حکومت نے بھارت کو افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں تک راہداری کی تجارتی سہولت فراہم کردی تو ایسے حالات میں بھارت اور افغانستان کی نئی سیاسی قیادتوں کا خطرناک گٹھ جوڑ پاکستان کی بقا اور سلامتی کے علاوہ بعض دیگر قومی مفادات کے حوالے سے بھی گہری تشویش کا باعث ہونے کے علاوہ شدید اور تباہ کن پیچیدگیاں اور الجھنیں بھی پیدا کرسکتا ہے۔

دوسری جانب بھارت کے نومنتخب وزیر اعظم نریندر مودی اپنے انتخاب سے پہلے ہی عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی رابطوں میں اضافے کی باتیں کرتے رہے ہیں جس کا اولین مقصد پاکستان اور اس کے دیرینہ دوست اور پڑوسی کے درمیان فاصلے بڑھانا اور غلط فہمیاں پیدا کرنا ہے۔

ان گمبھیر حالات میں ہماری وزارت خارجہ کو جس کا قلم دان وزارت ، خود وزیر اعظم کے پاس اضافی ذمے داری کی صورت میں پڑا ہوا ہے بڑے نازک اور سنگین ترین چیلنجوں کا سامنا ہے۔ گویا پاکستان اس وقت چکی کے دو پاٹوں کے درمیان ہے، مشرق میں مودی کا ہندوستان اور شمال مغربی رخ پر عبداللہ عبداللہ کا افغانستان۔ بھارت کی پچھلی حکومت نے تو ہمارے مغربی پڑوسی اور برادر ملک ایران سے بھی ہمارے تعلقات خراب کرنے کی بڑی کوشش کی تھی لیکن شکر کا مقام ہے کہ ہماری حکومت اور وزارت خارجہ نے بھارت کے ان مذموم اور ناپاک عزائم کو بروقت بھانپ لیا اور ایران کی قیادت کو گمراہ کرنے کی تمام چالوں کو ناکام کردیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس خطے کے نئے سیاسی منظر نامے کے حوالے سے سال 2014 وطن عزیز پاکستان کے لیے انقلابی تبدیلیوں کا سال ہے جس میں بھارت اور افغانستان میں ابھرنے والی نئی سیاسی قیادتوں کے علاوہ افغانستان سے امریکی اتحادی افواج کے انخلا کی صورت میں رونما ہونے والی سب سے بڑی سیاسی تبدیلی سب سے اہم اور انتہائی توجہ طلب ہے۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ پاکستانی قوم زیادہ سے زیادہ اتحاد کا مظاہرہ کرے اور سیاسی اور فوجی قیادت شانہ بہ شانہ نئے چیلنجوں سے نبرد آزما ہو تاکہ ملک کی سلامتی پر کوئی آنچ نہ آنے پائے اور کسی کو بھی ہماری جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی ہمت و جرأت نہ ہو۔

میرا سہما ، جلتا ہوا کراچی

$
0
0

کراچی میں مختلف گاڑیاں نذر آتش کردیں گئیں۔اس میں تین رکشے بھی شامل تھے۔رکشے والا دیر تک اپنے رکشے کو جلتے دیکھتا رہا۔ہڑتال یا احتجاج کسی کا بھی ہو، مشتعل عوام کا پہلا نشانہ بنتی ہیں… پبلک ٹرانسپورٹ، گاڑیاں اور دوسری املاک۔ اور جلانیوالے کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ انھوں نے محض کوئی بس، ویگن یا دیگر املاک کو ہی نہیں، جلنے والی املاک کے توسط سے پلنے والے پورے خاندان کو زندگی بھر سسکنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔

زیادہ تر ڈرائیور حضرات یہ ٹرانسپورٹ قسطوں پر حاصل کرتے ہیں اور روز کی ہونے والی کمائی سے وہ ایک خطیر رقم اس کی قسط ادا کرنے میں صرف کرتے ہیں۔ شرپسند عناصر حکومت سے ناراضگی پر اپنے ذاتی غصے کو بجھانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کو آگ تو لگا دیتے ہیں لیکن وہ اس سے واقف ہی نہیں ہوتے کہ ان کا یہ فعل کسی غریب انسان کی زندگی پہ کیا قیامت لاسکتا ہے۔اس کے گھر کی خوشیاں لمحہ بھر میں آگ کی زد میں آ گئیں اور سب ختم ہوگیا۔

اس کے بچوں کا مستقبل اب اندھیرے کے سوا کچھ نہیں۔کتنا بڑا المیہ ہے، کیسا دل کو چیر کر رکھ دینے والا سانحہ ہے کہ غربت کے باعث لوگ اپنے بچوں کو تعلیم، آرام دہ زندگی اور تفریح تو کجا زندگی بھی نہیں دے پا رہے، مگر ہمارے یہاں اس سانحے پر بات بھی نہیں کی جا رہی، جو اس سانحے سے بھی بڑا المیہ ہے۔جب کہ حکومت کی طرف سے جلنے والی گاڑیوں کا معاوضہ دینے کی کوئی خاطر خواہ پالیسی سامنے نہیں آسکی۔ ہمارے کرتا دھرتا ادھورے پاکستانی صحیح لیکن ہم عوام ان کے لیے جان دینے کے لیے تیار ہیں۔یہ شہر برسوں سے خون ریزی تباہی اور بربادی کے مناظر دیکھ رہا ہے۔زبان کے نام پر ہونیوالے فسادات کتنے ہی گھر اجاڑ چکے ہیں۔

رہی سہی قصر آئے دن ہونے والی ہڑتالوں نے پوری کردی ۔احتجاج کرنا ہر کسی کا حق ٹھہرا۔لیکن اپنے بھائیوں کی املاک کو نقصان پہچاناکہاں کی عقلمندی ہے۔کراچی کے حالات کسی ایسے ملک کے جیسے ہی ہیں جہاں جنگ ہو رہی ہو۔قتل و غارت گری کے واقعات کی سنگینی وحشت اور زندگی کے مظاہرے اور اس میں استعمال ہونے والا اسلحہ اس تجزیے کو صحیح ثابت کرتا ہے۔یہ میرا شہر جہاں کلاشنکوف ہی ڈر نہیں بانٹتی شہری اب اپنی املاک کے ختم ہوجانے کے ڈر کو ساتھ لیے نفسیاتی مریض بنتے جا رہے ہیں۔اگر ریاستی ادارے عوام کے جان ومال کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتے توکم از کم متاثرین کی اشک شوئی اور ان کے مالی نقصان کے ازالے سے گریز اور تاخیر نا کریں۔

پاکستان بھر میں ذرایع نقل و حرکت کے لیے لاکھوں کی تعداد میں پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں پر دوڑ رہی ہے۔ اس پبلک ٹرانسپورٹ کی وجہ سے لاکھوں افراد اپنی منزل پر پہنچ سکتے ہیں۔ شہر کی سڑکوں پر رواں دواں پبلک ٹرانسپورٹ میں کئی بسیں اور ویگنیں بہت قیمتی اور مہنگی ہوتی ہیں۔ آئے دن کی ہڑتالوں میں گاڑیوں کو نذرآتش کرنے کی خبریں اب اتنی عام ہو چکی ہیں کہ انھیں سن کر اب تو اس پر توجہ بھی نہیں جاتی۔ شہر بھر میں تقریباً 15 ہزار سے زائد پبلک ٹرانسپورٹ چلتی ہے اوراس ٹرانسپورٹ سے ہمارے مزدور طبقہ کا روزگار وابستہ ہے۔

اب تک 500 سے زائد گاڑیاں جلائی گئی ہیں  جب کہ حکومت کی جانب سے صرف 100 کے قریب گاڑیوں کا معاوضہ دیا گیا ہے وہ بھی اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ اس سے قبل 2007 میں پرویز مشرف دور حکومت میں ٹرانسپورٹر کو معاوضہ دیا گیا تھا اور فی کس دو لاکھ روپے ایک گاڑی کا معاوضہ دیا گیا۔ ایسے میں حکومت کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ٹرانسپورٹروں کو تحفظ فراہم کرے۔ کتنے ہی ایسے ڈرائیور موجود ہیں جو قسطوں پر ویگن لے کر چلاتے تھے اور ان کی ویگن شرپسندوں کے قہر کا نشانہ بن گئی۔ اگر کوئی بدنصیب کسی یونین کا رکن نہیں تو جلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی پوچھنے والا نہیں۔ آخر ان واقعات کا ذمے دار کون ہے؟

بنیادی طور پر حکومت وقت کی ذمے داری ہے کہ وہ متاثرہ ڈرائیورز کو معاوضہ دیں۔ جس طرح کے حادثات جنم لے رہے ہیں اس میں غریب عوام کہاں جائے۔ان کی خوشیوں کا ضامن آج کون بنے گا۔کراچی کے حالات سے آج ہر شخص متاثر ہورہا ہے۔ حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی قانون سازی کی جائے کہ جس میں ذاتی املاک کو نقصان پہنچنے کی مد میں جو اخراجات ہیں ان کی ذمے داری حکومت اٹھائے۔ حکومت معاوضوں کا اعلان ضرور کرتی ہے لیکن اکثریت اس سے محروم ہے۔

حکومت اپنے کاموں کے لیے ٹرانسپورٹرز کی جن گاڑیوں کو روکتی ہے ان کو بھی معاوضہ نہیں دیا جاتا جو کہ بہرحال غریب ڈرائیورز کے لیے پریشانی کا باعث ہے، اس سلسلے میں جلد ہی قانون سازی کرنی ہوگی۔ ورنہ ہمارے مظلوم عوام میں اشتعال بڑھتا رہے گا۔ بیروزگاری ذہنی مسائل کو جنم دے رہی جو کہ بہرحال ایک قومی مسئلہ ہے۔امن و امان کی دن بدن خراب ہوتی صورتحال سے ہر شخص متاثر ہو رہا ہے، فوری طور پر حکمت عملی اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ کتنے ہی لوگ ہمت ہار کر ذہنی مریض بنتے جائیں گے۔


وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا

$
0
0

صدر ممنون حسین کے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب اور اس کے ایک روز بعد اسحاق ڈار کی بجٹ تقریر کے دوران صرف ایک رکنِ اسمبلی نے کچھ شور شرابہ کرنے کی کوشش کی۔ ایسا کرتے ہوئے جمشید دستی بارہا شیخ رشید اور تحریک انصاف کے بہت سارے اراکین کی طرف مدد طلب کرتی نگاہوں سے بھی دیکھتے پائے گئے۔ کوئی ایک رکن بھی لیکن ان کی مدد کو نہیں آیا۔ دستی کی ان سولو فلائٹس کو میں نے میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کی بچگانہ کوشش کے سوا اور کچھ نہ سمجھا۔ دو دن گزر جانے کے بعد مگر آہستہ آہستہ بات کھل رہی ہے کہ اسمبلی کے ایوان میں سلطان راہی بنے جمشید دستی دراصل دل ہی دل میں ان دنوں بہت پریشان ہیں۔

200 اراکین اسمبلی نے اپنے دستخطوں کے ساتھ قومی اسمبلی کے اسپیکر کو ان کے خلاف ایک باقاعدہ تحریک استحقاق بھیج دی ہے۔ محض قانونی حوالوں سے دیکھا جائے تو اس تحریک کو نظرانداز کرنا سردار ایاز صادق کے لیے بہت مشکل ہو گا۔ دستی کے خلاف تحریک بھیجنے والوں کا اصرار ہے کہ آج سے چند ماہ پہلے ٹیلی ویژن اسکرینوں پر خالی بوتلوں والی بوری کے ساتھ بارہا نمودار ہو کر مظفر گڑھ کے اس ’’پارسا انقلابی‘‘نے ان کو اجتماعی طور پر رسوا کیا ہے۔ سارے ملک کو یہ پیغام دیا ہے کہ عوام سے ووٹ لے کر قومی اسمبلی میں پہنچ جانے کے بعد اس کے اراکین کی اکثریت اسلام آباد میں ان کے لیے بنائے Flats میں غیر اخلاقی سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتی ہے۔

دستی صاحب نے یہ قصہ قومی اسمبلی ہی کے ایک اجلاس میں بیان کیا تھا۔ ان کی تسلی کے لیے قومی اسمبلی کے اراکین پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی بنائی گئی۔ دستی صاحب نے اس کمیٹی کے اجلاسوں میں شریک ہو کر اپنے لگائے ہوئے الزامات کا شدت سے دفاع کرنے کا تردد ہی نہ کیا۔ اس پر بالآخر عدم اعتماد کا اظہار بھی کر دیا۔ میری دانست میں قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی نے اس کے باوجود کافی درگزر سے کام لیا۔ ایسی کمیٹیاں جب کسی بھی شہری کو کسی بھی حوالے سے طلب کریں تو وہاں حاضری ضروری ہے۔ دانستہ غیر حاضری سے نبٹنے کے لیے ان کمیٹیوں کو تقریباََ وہی اختیارات حاصل ہیں جو اعلیٰ عدالتوں کو کسی شخص کی پیشی کو یقینی بنانے کے لیے میسر ہوتے ہیں۔

ہمارے دیسی ساخت کے ’’انقلابیوں‘‘ کے ساتھ مسئلہ مگر یہ بھی ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے بڑھکیں لگا کر ہیرو تو بنا کرتے ہیں۔ مگر جب کوئی ان کی Bullying کو سنجیدگی سے چیلنج کر ڈالے تو نہایت خاموشی سے بکری بن جانے کو فوقیت دیتے ہیں۔ دستی صاحب نے اپنی جانب سے لگائے الزام کی تحقیق کے لیے بنائی کمیٹی کے سلسلے میں بھی یہی کچھ کیا۔ میرے پاس تین سے زیادہ مستند ذرایع سے اس ملاقات کی پوری تفصیل موجود ہے جو دستی صاحب نے کافی منت سماجت کے بعد سردار ایاز صادق سے کی تھی۔ اس ملاقات میں ان کی ’’داد فریاد‘‘ کو میں ہوبہو الفاظ میں بیان کر سکتا ہوں۔ مجھے مگر لوگوں کے بھرم برقرار رکھنے کی بیماری ہے۔ کسی کی ذات کے بارے میں بہت مجبور ہو کر ہی زبان کھولا کرتا ہوں۔ اس لیے درگزر ہی بہتر ہے۔

قومی اسمبلی کے سارے اراکین فرشتے ہرگز نہیں ہیں۔ وہ میرے اور آپ کی طرح انسان ہیں۔ اسی معاشرے کے نمایندے جہاں پارسائی کا شور تو بہت مچایا جاتا ہے مگر دودھ اور دوائوں جیسی بنیادی اشیاء بھی خالص نہیں ملتیں۔ پارلیمانی لاجز کا ذکر کرتے ہوئے میں آپ کو پوری ذمے داری کے ساتھ بتا سکتا ہوں کہ وہاں 70 فیصد کے قریب اراکین پارلیمان اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔

خواتین کی نشستوں پر منتخب ہونے والی اراکین کے لیے یہ ایک محفوظ ترین ’’محلہ‘‘ ہے۔ اور ان خواتین میں سے کئی ایسی ہیں جو سینیٹ یا قومی اسمبلی کے اجلاسوں کے دوران یہاں تنہا قیام پذیر ہوتی ہیں۔ مائوں بہنوں اور بچوں کے ساتھ عام علاقوں میں رہنے والے لوگ بھی خوب جانتے ہیں کہ ان کے محلے کی ’’شہرت‘‘ ہمارے جیسے معاشرے میں کتنی اہم ہوا کرتی ہے۔ ’’پارلیمانی لاجز‘‘ کو آپ بوریوں میں خالی بوتیں بھر کر ٹیلی ویژن اسکرینوں پر گلا پھاڑتے ہوئے ’’غیر اخلاقی سرگرمیوں کے گڑھ‘‘ ثابت کرنا شرع ہو جائیں تو وہاں کے مکین اجتماعی طور پر لعنت ملامت کا نشانہ بن جاتے ہیں۔

ہماری اشرافیہ میں سو عیب ہیں۔ اس کے سیاسی نمایندے عوامی مسائل کے بارے میں عمومی طور پر قطعی بے حس بھی نظر آتے ہیں۔ ان کے اندازِ سیاست کی کئی ایسی باتیں ہیں جن کی شدید ترین الفاظ میں مسلسل مذمت ہونا چاہیے۔ ان کی قابلِ مذمت حرکتوں سے مگر ان کے بچوں کو ’’غیر اخلاقی سرگرمیوں کے گڑھ‘‘ کے باسی بنا کر دُنیا کے سامنے رسوا کر دینا مگر کسی بھی صورت جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پارسائی کے غضب سے اندھے ہوئے دستی نے مگر یہ سب کچھ بڑے ہی بے دریغ انداز میں کر ڈالا۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر سے اکیلے میں مل کر انھیں اس معاملے کو بھلا دینے کا مناسب موقعہ مل گیا تھا۔ صدر ممنون کے خطاب اور اسحاق ڈار کی بجٹ تقریر کے دوران خواہ مخواہ نظر آنے والی پھرتیوں سے انھیں اب اپنے ہاتھ سے لگائے زخم یاد دلانے کی ہرگز ضرورت نہ تھی۔ اب وہ جانیں اور قومی اسمبلی۔

1985ء سے پارلیمان کے بارے میں مسلسل لکھتے ہوئے لیکن میرے دل میں اب اور طرح کے خدشات اُمڈ آئے ہیں۔ حالیہ چند ہفتوں میں ہونے والے کچھ واقعات کی وجہ سے ہمارے میڈیا کی مجموعی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ ہماری اشرافیہ کے تمام تر لوگ خواہ ان کا تعلق کسی بھی شعبے یا محکمے سے ہو یہ سوچتے نظر آ رہے ہیں کہ بالآخر وقت آگیا ہے کہ ’’دو ٹکے کے صحافیوں‘‘ کو ان کی ’’اصل اوقات‘‘ میں واپس بھیج دیا جائے۔

1985ء کی قومی اسمبلی کے قیام کے چند ہی روز بعد کچھ اراکین اسمبلی نے ان کے بارے میں چھپی چند اخباروں کی خبروں اور کالموں کے خلاف ’’تحاریکِ استحقاق‘‘ پیش کرنا شروع کر دی تھیں۔ سید فخر امام کو خدا خوش رکھے۔ انھوں نے ایک تاریخی رولنگ دے کر ایسی تحاریک کا راستہ روک دیا۔ اپنی رولنگ میں انھوں نے پریس گیلری کو قومی اسمبلی کے ایوان کی  Extension قرار دے کر اس کی توقیر کو مسلم کر دیا۔ مجھے یقین ہے کہ دستی کے بعد اب کئی صحافی بھی قومی اسمبلی کے تقریباََ ہر اجلاس میں تحاریکِ استحقاق کا نشانہ بنائے جائیں گے۔ وہ دن ہوا ہوئے جب ہمارا یعنی پارلیمان کے بارے میں لکھنے اور بولنے والے صحافیوں کا پسینہ گلاب تھا۔

احتساب۔۔۔!

$
0
0

انسداد بد عنوانی کی وفاقی عدالت کے جج محمد اعظم خان نے ٹڈاپ بدعنوانی اسکینڈل میں ملوث سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، سابق سینئر وفاقی وزیر تجارت مخدوم امین فہیم، سابق ڈپٹی سیکریٹری محمد زبیر سمیت 9 ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں اور انھیں گرفتار کر کے 17جون کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ایف آئی اے نے ملزمان کو مفرور قرار دیا تھا، چالان میں بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم جب اڈیالہ جیل میں مقیم تھے تو ان کی ملاقات فیصل صدیق خان سے ہوئی تھی۔

2008ء میں جب یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم منتخب ہوئے تو فیصل صدیق خان نے وزیر اعظم سے ملاقات کی اور مبینہ طور پر 50 لاکھ روپے کا چیک وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری محمد زبیر کو دیا اور جعلی کمپنیوں کے نام پر ایکسپورٹ سبسڈی کے طور پر کروڑوں روپے حاصل کیے اور اس کا کمیشن وزیر اعظم کے اکائونٹ میں منتقل کیا۔ سابق سینئر وزیر تجارت امین فہیم پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ایک معطل سرکاری افسرکو ڈائریکٹر مقرر کیااور ساز باز کر کے کروڑوں روپے حاصل کیے۔

اسی طرح سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف پر رینٹل پاور کیس میں فرد جرم عائد کرنے کے لیے انھیں ساتھیوں سمیت 3 جون کو عدالت میں طلب کر لیا ہے۔  ہم نے ان تینوں محترم وزرا کا جن میں دو وزرائے اعظم بھی شامل ہیں ان پر عائد الزامات کے حوالے سے ذکر اس لیے کیا ہے کہ ان تینوں محترم ہستیوں کا تعلق پیپلزپارٹی کی حکومت سے ہے جو 2008ء سے 2013ء تک ملک میں برسر اقتدار رہی اور اقتدار کے دوران اور اقتدار کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت پر کرپشن کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے چھوٹے اور بڑے میاں صاحب کی طرف سے تو 2013ء کی انتخابی مہم کے دوران پی پی پی کی حکومت کو کھلم کھلا ’’علی بابا چالیس چور‘‘ کا نام دیا جاتا رہا ہے لیکن پی پی پی کی حکومت بننے کے بعد مسلم لیگ نہ صرف ان علی بابائوں کی حکومت میں شامل ہوئی بلکہ پورے پانچ سال فرینڈلی اپوزیشن کا وہ کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں پاکستان کی جمہوری تاریخ میں پہلی بار کوئی حکومت اپنی 5 سالہ آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب رہی۔

دونوں وزرائے اعظم اور سابق سینئر وزیر امین فہیم اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کیسز کا تعلق بد عنوانیوں کے خلاف احتساب سے ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کرپشن کے حوالے سے ساری دنیا میں بدنام ہے جس ملک میں ایک ادارے کے معمولی سربراہ توقیر صادق پر 86 ارب کی کرپشن کا الزام ہو اس ملک میں اعلیٰ پیمانے پر ہونے والی کرپشن کا اندازہ لگانا کوئی مشکل بات نہیں۔یہ بھاری رقوم عوام کی حالت بہتر بنانے کے بجائے حکمران طبقات کے بینک اکائونٹس میں چلی جا رہی ہے اور مقام حیرت و شرم ہے کہ ان اربوں روپوں کا مصرف سوائے دولت پر قبضہ جما کر اپنی آنے والی نسلوں کے لیے شاہانہ زندگی کو یقینی بنانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔

مٹھی بھر خاندانوں کی آل اولاد کے پُر تعیش مستقبل کی خاطر اس ملک کے 18 کروڑ غریب اور مفلوک الحال عوام کے حال اور مستقبل کو تباہ کرنا کسی حوالے سے جائز کہلایا جا سکتا ہے؟کرپشن وہ بھی اربوں کھربوں کی کرپشن کے خلاف کوئی حکومت اقدامات کرتی ہے تو اس کی حمایت ہی کی جا سکتی ہے لیکن اس حوالے سے جو سوال سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا چند مخصوص لوگوں کے احتساب سے ملک کے ایک ایک ادارے میں پھیلی ہوئی کرپشن کو روکا جا سکتا ہے؟ اسے ہم اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کے خود حکمران خاندان کے خلاف اربوں روپوں کی کرپشن کے کیسز عشروں سے عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔

پی پی پی کے رہنما اگر یہ سوال کرتے ہیں کہ حکمرانوں کے خلاف اسی اسپیڈ سے احتساب کیوں نہیں کیا جا رہا ہے جس اسپیڈ سے ان کے خلاف کیا جا رہا ہے تو حکمرانوں کے پاس اس کا جواب کیا ہوگا؟ حیرت کا مقام یہ ہے کہ دو سابق وزرائے اعظم ایک سینئر وزیر پر کرپشن کے جو الزامات ہیں ان کی مجموعی رقم سے دس گنا زیادہ کرپشن کا الزام صرف ایک بیوروکریٹ توقیر صادق پر ہے اور ہر قومی ادارے میں ایک سے زیادہ توقیر صادق بیٹھے ہوئے ہیں۔ کیا ان حقائق کی موجودگی میں محض چند افراد کے خلاف احتساب سے ملک کرپشن کی لعنت سے پاک ہو  جائے گا؟ پی پی کے رہنما اگر اس احتساب کو ٹارگٹڈ احتساب اور سیاسی انتقام کا نام دے رہے ہیں تو ان کے اس الزام کا دفاع کس طرح کیا جائے گا؟

کرپشن سرمایہ دارانہ نظام کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے ایک معمولی کلرک اور چپراسی سے لے کر وزرائے اعظم تک سب اس لعنت میں گرفتار ہیں لیکن نچلے طبقات کی چھوٹی چھوٹی کرپشن محض ان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے ہوتی ہے اس کرپشن میں ارتکاز زر کا کوئی خطرہ نہیں رہتا لیکن اعلیٰ سطحی کرپشن میں چند ہاتھوں میں اربوں کھربوں کا ارتکاز زر ہوتا ہے اور یہ دولت دولت کے عمومی سرکولیشن سے باہر نکل جاتی ہے، جس کا منطقی نتیجہ غربت میں اضافے کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست ان حقائق سے باخبر ہونے کے باوجود غربت میں کمی کرنے کے لیے بے مقصد اقدامات کرتے ہیں اور غربت میں کمی کے لیے جو بھاری امداد اور قرضے غریب ملکوں کو دیے جاتے ہیں وہ بھی امیروں کی جیب میں چلے جاتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ اور سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ یوسف رضا گیلانی، پرویز اشرف اور امین فہیم کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، انھوں نے کہا ہے کہ حکومت اپنی پالیسی تبدیل کرے ورنہ ’’مفاہمتی پالیسی‘‘ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ زرداری کے بیان سے دو باتیں واضح ہو کر سامنے آتی ہیں ایک یہ کہ پیپلز پارٹی کے مذکورہ رہنمائوں کے خلاف لگائے جانے والے الزامات درست نہیں بلکہ سیاسی انتقام کا نتیجہ ہیں، دوسری بات یہ واضح ہوتی ہے کہ ’’مفاہمتی سیاست‘‘ کی حقیقت کیا ہے!

یہ بات بہر حال سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر یوسف رضا گیلانی راجہ پرویز اشرف اور مخدوم امین فہیم کے خلاف مقدمات حکومت کی انتقامی کارروائی ہے تو ایسے وقت میں جب ملک کی بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتیں حکومت کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لانے کی تیاری کر رہی ہیں، عوام مہنگائی، گیس، بجلی کی لوڈ شیڈنگ، ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ مذہبی انتہا پسند طاقتیں دہشت گردانہ کارروائیوں کا ایک بار پھر بھرپور آغاز کرنے کی دھمکیاں دے رہی ہیں، پیپلز پارٹی جیسی واحد فرینڈلی اپوزیشن سے اختلاف کا مطلب کیا ہے؟

احتساب پاکستان کی اولین ضرورت ہے لیکن احتساب صرف پیپلز پارٹی کے تین رہنمائوں کے خلاف کارروائی کا نام نہیں اگر احتساب کرنا ہی ہے تو پھر ان تمام سیاست دانوں اور بیورو کریٹس کے خلاف احتساب ہونا چاہیے جو اربوں روپوں کی جائیداد اور بینک بیلنسوں کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ ان تمام ارب پتیوں کے اثاثوں کی مکمل طور پر غیر جانبدارانہ اور آزادانہ تحقیق اور اثاثے چھپانے والوں کے لیے سخت ترین سزائوں سے احتساب کا آغاز ہونا چاہیے اور جن لوگوں کے خلاف عدالتوں یا نیب میں کیسز ہیں انھیں کم سے کم مدت میں نمٹا کر بے گناہوں کو بدنامی سے اور گنہگاروں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے تا کہ کم از کم اعلیٰ سطح پر ہونے والی اربوں روپوں کی کرپشن کو روکا جا سکے۔!

برابر کے شہری؟

$
0
0

میری میز پر ملکی اخبارات کے اداریے، ہیومن رائٹس کمیشن کی مختلف رپورٹس، واشنگٹن پوسٹ اور دیگر غیر ملکی اخبارات کے مختلف تجزیاتی کالم پڑے ہوئے ہیں۔ میں کئی دنوں سے انھیں پڑھ رہا ہوں۔ ان میں ہمارے معاشرے کے ایک ایسے سماجی المیہ کو بار ہا بیان کیا گیا ہے جس پر اکثر لوگوں کی نظر نہیں پڑی۔ اگر کسی نے اسے  دیکھا ہے تو بھی سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ یہ مسئلہ مسیحی اور ہندئو لڑکیوں کا زبردستی مذہب تبدیل کروانا اور ان سے طاقت اور جبر کے زور پر شادیاں کرنا ہے۔ میری فہم اور گمان سے یہ اَمر بالکل باہر ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے! مگر اس میں ایک اور پہلو بھی انتہائی قابل ذکر ہے۔ وہ یہ کہ کوئی بھی مذہبی جماعت اس کام میں شامل نہیں ہے۔

فرحت مسیح صرف چودہ سال کی تھی۔ وہ خانیوال میں اپنے والدین کے ساتھ عام زندگی بسر کر رہی تھی۔ ایک دن وہ اپنی بہن سے مل کر واپس آ رہی تھی کہ ریلوے اسٹیشن کے باہر اسے ایک تانگہ نظر آیا۔ اس میں دو خواتین بھی موجود تھیں۔ کوچوان نے بتایا کہ یہ دونوں خواتین  اسی گائوں کی سواریاں ہیں جہاں فرحت جانا چاہتی ہے۔ خیر دس پندرہ منٹ کی مسافت کے بعد کوچوان نے ان دونوں خواتین کو سڑک پر اتار دیا اور ایک اور مرد سواری بیٹھ گئی۔ اس چودہ سالہ بچی کو قطعاً معلوم نہیں تھا کہ یہ سواری کوچوان کا چھوٹا بھائی ہے۔ فرحت کو ایک ڈیرہ پر لے جا کر قید کر دیا گیا۔ کچھ دنوں بعد فرحت کو گائوں کے ایک مکان میں منتقل کر دیا گیا۔

کوچوان جب بھی باہر جاتا تو فرحت کمرے میں قید کر دی جاتی تھی۔ کئی بار اسے رسی سے بھی باندھ دیا جاتا تھا۔ ایک دن اس گھر میں ایک مولوی صاحب آئے۔ انھوں نے اعلان کر دیا کہ فرحت آج سے مسلمان ہو چکی ہے۔ وہ مکمل اَن پڑھ تھی۔ اس سے دو تین کاغذوں پر انگوٹھے لگوائے گئے اور بتایا گیا کہ اب وہ اس کوچوان کی منکوحہ بیوی ہے۔ فرحت نے لوگوں کو بار بار بتایا کہ وہ اپنے والدین کے پاس جانا چاہتی ہے اور شادی نہیں کرنا چاہتی۔ جواب میں اس لڑکی پر بے پناہ تشدد کیا جاتا رہا اور اس کی قید میں دردناک اضافہ بھی ہو گیا۔ ظلم کا یہ سلسلہ پانچ سال مسلسل چلتا رہا۔ اس پانچ برس میں فرحت کو دن میں بند رکھا جاتا تھا۔

ایک دن اس نے کوچوان کی بہن کی منت سماجت کی۔ جس نے اسے دن میں مردوں کی غیر موجودگی میں ایک گھنٹہ کے لیے کھول دیا۔ وہ بھاگ کر اس مکان سے باہر نکل آئی اور کسی طریقے سے اپنے والدین کے پاس پہنچ گئی۔ وہ غربت اور جہالت کی وجہ سے کوئی قانونی کارروائی نہ کر سکی کیونکہ قانون کے مطابق اس کے پاس اس واقعہ کا کوئی بھی چشم دید گواہ موجود نہیں تھا۔ اس دوران اسے  قتل کرنے کی دھمکیاں بھی ملتی ر ہیں۔ آج فرحت تیس سال کی ہے اور وہ بغیر کسی شناخت کے ایک بڑے شہر میں رہ رہی ہے۔ وہ مختلف گھروں میں محنت مزدوری کر کے اپنا وقت گزارتی ہے۔

خوشی مسیح اور سیما مسیح دونوں انتہائی غریب تھے۔ ان کے گیارہ بچے تھے۔ اس خاندان نے لیاقت بٹ نامی شخص سے گھر کرایہ پر لیا۔ گھر کیا تھا سر چھپانے کی ایک سادہ سی جگہ تھی۔ گھر کے ایک حصہ میں مالک مکان اور اس کی بیوی بھی رہتے تھے۔ خوشی کے گیارہ بچوں میں سے چھ کی شادی ہو چکی تھی جب کہ پانچ بچے اس کے پاس ہی رہتے تھے۔ اس کی تین بیٹیاں نادیہ، نبیلہ اور نعیمہ بھی اپنے خاندان کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان بچیوں میں سے کوئی بھی اسکول نہیں جاتا تھا۔ ان کی والدہ بھی مکمل اَن پڑھ تھی اور اسے اپنے بچوں کو تعلیم دینے کا کوئی خاص شوق نہیں تھا۔ خوشی بس ڈرائیور تھا جب کہ اس کی بیوی سیما گھروں میں جھاڑو لگاتی تھی اور صفائی کا کام کرتی تھی۔ اس کی تینوں بیٹیاں بھی اکثر اس کے ساتھ مختلف گھروں میں کام کرتی  تھیں۔

تھوڑے عرصے کے بعد ان تینوں لڑکیوں نے مختلف وجوہات سے دوسروں کے گھر کام پر جانا چھوڑ دیا اور اپنے گھر پر سلائی کڑھائی کا کام شروع کر دیا۔ ان لوگوں کو یہاں منتقل ہوئے چار ماہ ہی ہوئے تھے۔ ایک دن میاں بیوی کام سے واپس آئے تو لڑکیاں گھر پر موجود نہیں تھیں۔ خوشی مسیح فوراً قریبی تھانہ میں چلا گیا۔ وہ خوش قسمت تھا کہ اس کی شکایت پر F.I.R درج کر لی گئی۔ وہ روز تھانہ کے چکر لگاتا تھا۔ اسے اپنی لڑکیوں کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ اچانک مالک مکان کی بیوی نے بتایا کہ اس کی تینوں لڑکیاں مسلمان ہو چکی ہیں اور ان میں سے ایک کی شادی بھی ہو چکی ہے۔ خوشی مسیح ایک سال تک تھانہ اور کچہری میں دھکے کھاتا رہا۔ پولیس نے تقریباً بارہ ماہ بعد ان تینوں لڑکیوں کو عدالت میں پیش کیا۔

مجسٹریٹ کی عدالت کے باہر ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا اور انھوں نے خوشی مسیح کے خلاف نعرے لگانے شروع کر دیے۔ مجسٹریٹ نے دبائو میں آ کر تینوں لڑکیوں کو دار الامان بھجوا دیا۔ والد کو اس کی بیٹیوں سے ملنے سے روک دیا گیا۔ عدالت میں کارروائی جاری رہی۔ ثابت ہو گیا کہ ان تینوں اَن پڑھ لڑکیوں کو شدید دبائو اور لالچ دے کر مذہب تبدیل کرنے کے متعلق مجبور کیا گیا تھا۔ اس دوران خوشی کے گھر کو آگ لگا دی گئی اور اس کو سردیوں میں بے آسرا  باہر نکال دیا گیا۔ اس خاندان کو آج تک انصاف نہیں مل سکا۔ یہ لوگ اس قدر خوف زدہ ہیں کہ اب مستقل ایک جگہ قیام نہیں کرتے۔ یہ ہر چھ سات ماہ بعد اپنا گھر بدل لیتے ہیں۔ آج تک اس کی کوئی لڑکی گھر واپس نہیں آئی۔ نادیہ اب چھبیس سال کی ہے۔ اس کی شادی ایک رکشہ ڈرائیور سے ہو چکی ہے۔

اب آپ اندرون سندھ میں ہندو خاندانوں پر نظر دوڑائیے۔ جمنا کی عمر چھ سال اور اس کی بڑی بہن پوجا دس برس کی ہے۔ اس کے والد کا نام سوما اور والدہ کا نام مرجو ہے۔ یہ میر پور خاص میں اختر کالونی میں رہتے ہیں۔ جمنا اور پوجا اپنے والدین کی غربت کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ وہ مٹی کے کھلونے گھر گھر بیچتی ہیں اور اس طرح خاندان کا گزارہ ہو جاتا ہے۔ مالی وسائل کی تنگی اور مسلسل غربت اس خاندان کا مقدر ہے۔ اس سال فروری کے مہینے میں یہ دونوں بچیاں کھلونے بیچنے گھر سے باہر گئیں۔ مگر واپس نہ پہنچیں۔

سوما نے اپنی بچیوں کو تلاش کرنا شروع کر دیا۔ وہ کہیں نہیں ملیں۔ جب میڈیا نے اس واقعہ کو رپورٹ کیا اور دبائو میں اضافہ ہونے لگا تو مقامی پولیس نے رپٹ درج کر کے کارروائی شروع کر دی۔ معلوم ہوا کہ یہ لڑکیاں رجب نامی شخص کے پاس ہیں۔ جب انکو عدالت میں پیش کیا گیا تو عدالت کو بتایا گیا کہ وہ مسلمان ہو چکی ہیں۔ عدالت نے انکو دار الامان بھجوا دیا۔ چھ سالہ جمنا کو عدالت نے والدین کے حوالے کر دیا۔ مگر اس کی بڑی بہن دار الامان میں قیام پذیر ہے۔

رنکل کماری کی عمر انیس سال ہے۔ وہ میر پور کی رہنے والی ہے۔ وہ عام بچیوں کی طرح مقامی کالج میں پڑھ رہی تھی۔ چوبیس فروری کو اسے چند لوگوں نے بندوق کے زور پر اغوا کر لیا۔ اس کا والد نند لال مقامی اسکول میں ٹیچر ہے۔ نند لال کو بتایا گیا کہ بیٹی زندہ ہے اور مسلمان ہو چکی ہے۔ پولیس، تھانہ اور کچہری کسی جگہ بھی اِس غریب والد کی شنوائی نہیں ہوئی۔ اس کو یہ بھی بتایا گیا کہ رنکل کی شادی نوید نامی شخص سے ہوچکی ہے۔

مقامی عدالت نے اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ رنکل کا نام بدل کر فریال رکھ دیا گیا۔ یہ واقعہ میڈیا نے دنیا بھر میں رپورٹ کیا۔ سپریم کورٹ نے بھی اس واقعہ کا نوٹس لے لیا۔ رنکل یا فریال کو سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا۔ جج صاحب نے عدالت کو عام لوگوں سے خالی کروایا۔ لڑکی کا بیان لیا گیا۔ اس لڑکی نے ملک کی سب سے بڑی عدالت میں بیان دیا کہ اس کو زبردستی مسلمان کیا گیا ہے اور اس کی شادی بھی زبردستی کی گئی ہے۔ اس لڑکی نے یہاں تک کہا کہ اسے مار دیا جائے مگر وہ اپنے خاوند کے پاس واپس نہیں جانا چاہتی۔ اس نے عدالت میں یہ بھی کہا کہ اس ملک میں اس کے مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے انصاف کا حصول تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے۔

بسنت لال گلشن2011ء میں بلوچستان میں صوبائی وزیر تھے۔ ان کے بقول صرف ایک سال میں چار لڑکیوں اور تین ہندئو لڑکوں سے زبردستی مذہب تبدیل کرایا گیا۔ بلوچستان میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ ہندئو موجود ہیں۔ ان کا کوئی والی وارث نہیں۔ ان کا اغوا بالکل عام سی بات بن چکی ہے۔ لورالائی، چمن اور سبی میں کئی ایسے معاملات سامنے آئے ہیں جن میں خوف، طاقت اور پیسے کو استعمال کر کے بچوں کا مذہب تبدیل کروایا گیا ہے۔ کشن چند پروانی پانچ بار پاکستان کی پارلیمنٹ کے ممبر رہے۔ وہ اس طرح کے تمام معاملات پر انتہائی سنجیدگی سے نظر رکھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اقلیتوں کے مسائل تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ان میں کسی قسم کی کمی نہیں ہو پا رہی۔ ہر طرف بے بسی کا عالم ہے۔

ہمارے ملک میں سالانہ جبر سے مذہب تبدیل کروانا اور پھر زبردستی شادیوں کے تین سو واقعات رونما ہوتے ہیں۔ 1947ء کی دس فیصد غیر مسلم اقلیت اب سکڑ کر تین فیصد کے قریب رہ گئی ہیں۔ اکثریت ملک چھوڑ کر اور ممالک میں جا چکے ہیں۔ ہمارے ملک کے یہ قانونی شہری خوف کا شکار ہو کر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے عظیم قائد نے تمام اقلیتوں کو برابر کے حقوق کی ضمانت دی تھی۔ ان کی کابینہ کا مرکزی وزیر قانون ہندئو تھا۔ پوری سیاسی زندگی میں قائد اعظم نے کسی مذہبی تعصب کو نزدیک نہیں آنے دیا۔ اسلام دنیا میں امن اور استحکام کا ضامن ہے۔ ہمارے مذہب میں کسی قسم کا جبر نہیں ہے۔

ہمارا مذہب محبت، بھائی چارہ اور صلہ رحمی کا نشان ہے۔ پھر یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے۔ اور سوال یہ بھی ہے کہ کیوں ہو رہا ہے؟ میرے سامنے کئی ایسے کیسز کی رپورٹیں پڑی ہیں جس کو میں بیان ہی نہیں کر سکتا۔ میں کئی معاملات لکھ نہیں سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ تمام رپورٹس غلط ہوں! یہ بھی ممکن ہے کہ ان تمام واقعات کے محرکات بھی بالکل مختلف ہوں! مگر ان معاملات میں اگر رتی بھر بھی صداقت ہے تو ہمیں پوری تہذیب اور عدل کے ساتھ ان کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے! اس لیے کہ غیر مسلم شہریوں کے تمام حقوق ہمارے جیسے ہیں! یہ ہمارے ملک کے شہری ہیں! برابر کے شہری؟

منصوبہ بندی اور بجٹ

$
0
0

دنیا میں جمہوریت کی آمد اور آمریت کے بت تو اٹھارویں صدی کے وسط اور انیسویں صدی کے ابتدائی دور میں ٹوٹتے رہے مگر انقلاب روس ایک ایسا انقلابی اور عوامی جمہوری انقلاب تھا جس پر علامہ اقبال بھی لینن کے حضور جا کھڑے ہوئے اور فرماتے ہیں کہ

انقلاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا

آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک

زمین کی کوکھ سے غریب عوام کا یہ انقلاب جس کو بالشویک انقلاب کہا جاتا ہے بادشاہت اور آمریت کے خلاف پہلی فتح تھی۔ اس انقلاب کی جس قدر پذیرائی دنیا میں ہوئی کسی اور انقلاب کی نہ ہوئی۔ اس دور کے نوجوانوں کو اس انقلاب نے اس قدر متاثر کیا کہ ایک دور ایسا تھا کہ جو بھی جواں فکر کا مالک اس سے متاثر نہ ہوتا اس کو صاحب عقل نہ سمجھا جاتا تھا۔ بہرحال اب اس انقلاب کے خدوخال بدلتے جا رہے ہیں کہ آلات پیداوار اور حصول روزگار میں بھی تبدیلی رونما ہورہی ہے اور یہ صاحبان فکر زر اور محنت کے رشتوں کو نئے نئے انداز سے مربوط کرتے رہیں گے۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ غریبی مٹاؤ کا نعرہ ہر حکومت لگاتی ہے کیونکہ یہ نفیس نعرہ عوام کو گمراہ کرنے کا ذریعہ ہے۔ بقول علامہ کے وہ زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکے قند، مگر نام نہاد جمہوریتوں میں زہر ہلاہل پر قند کی کوٹنگ کرکے پیش کی جاتی ہے۔

اگر ذاتی ملکیت کی حد پر کوئی قدغن نہ بھی لگائی جائے تو بھی سرمایہ دارانہ جمہوریت بھارت میں جس کو ٹاٹا، برلا جیسے کاروباری پروان چڑھاتے ہیں ، لہٰذا وہ نمایندے کب، کیوں اور کیسے عوامی مفادات کا کام کرسکتے ہیں۔ یہ حکومتیں محض عوام کے اندرونی جذبات کے نکاس کا ذریعہ ہیں، جہاں غریب کا خون اس قدر سستا نچوڑا جاتا ہے کہ جھونپڑ پٹی یا گاؤں گوٹھ میں ان کے خستہ مکانات مقدر بن جاتے ہیں۔ سوویت یونین میں پہلا 5 سالہ منصوبہ دنیا کی پہلی عوامی جمہوری یونین نے پیش کیا، ایک مرتبہ نظام کو نئی بنیادوں پر استوار کرنا ضروری ہے۔

ذرا غور کیجیے چین کے انقلاب پر آریوں کی آبادی والے ملک پہلے سائیکل کا انقلاب جہاں ماؤزے تنگ اور چو این لائی، لیو شاوچی سائیکل پر آفس جاتے تھے، پھر آیا دور موٹر کار اور ٹریکٹروں اور پھر دور آیا ہیوی مشینری، اور اب ستاروں پر کمندیں ڈال رہے ہیں، یہ ہے منصوبہ بندی، قانون کی پاسداری اور عوام کو محنت کا ثمر۔ جہاں ایسی حکومت متحرک ہوتی ہے، جہاں سائنس، آرٹس اور معیشت کا تکون وجود میں آتا ہے، سائنس فنی ندرت،، آرٹس حسن و جمال اور کامرس قیمت کا تعین، تب جاکر پروڈکٹ کی پذیرائی دنیا میں ہوتی ہے مگر حسن و جمال کے لیے لطافت کی تعلیم ضروری ہے، جس کو ڈیزائن کی شکل میں مرصع کیا جاتا ہے مگر اس کے لیے خصوصی تعلیمی ماحول اور ثقافتی ورثہ ضروری ہے، جس میں چین مالا مال تھا اور آج دنیا کی بڑی کمپنیوں نے اپنے برانڈ چین میں تیار کرانے شروع کردیے۔

اس کے لیے نفاست اور صفائی جو ہمارے لیے نصف ایمان کا درجہ رکھتی ہے، ہماری ٹیکسٹائل فیکٹریوں کے شٹل لیس (Shuttle Less) لومز کے مزدوروں کو حاصل نہیں، نہ سر پر ٹوپی، نہ ہاتھ میں گلف اور نہ ہاتھ صاف اور فیکٹری مالکان کی غفلت کے نتیجے میں دس فیصد سے زائد مال بی کوالٹی بن جاتا ہے۔ ایک تو انرجی بحران، مال مہنگا اور پھر دس پندرہ فیصد مال کا بی کوالٹی بن جانا جس سے عالمی منڈی میں مال مسابقت سے محروم، مہنگا مال کس طرح وہ عالمی منڈی میں مقابلے کی سکت رکھ سکتا ہے۔

اگر آپ غور کریں تو موجودہ بجٹ کے 3 حصے ہیں، ایک مفروضہ معاشی آمدورفت کا ہے کہ جس طرح حکومت نے زرمبادلہ کے ذخائر کو وقتی طور پر بڑھایا ہے اسی طرح وہ ترقیاتی اخراجات کو بھی پورا کرے گی، پہلی بار جو زرمبادلہ کے ذخائر ہیں ان میں سب سے بڑی قوت وہ لوگ ہیں جو بیرون ملک سے اپنی رقوم بھیج رہے ہیں۔ اگر آپ ان کی رقم کا تجزیہ کریں تو پاکستان کی تمام گارمنٹس اور ٹیکسٹائل فیکٹریوں کی کارکردگی ان سمندر پار پاکستانیوں کے قریب تر ہے، اس پر سے ان کی ایکسپورٹ کو بروئے کار لانے کے لیے خطیر اخراجات، ایکسپورٹ پروموشن بیورو، ڈیوٹی ڈرا بیک، ایکسپورٹ ری فنانس وغیرہ وغیرہ، اداروں کے اخراجات، ملازمین پھر مالکان کو مختلف مراعات (Incentive) مگر سمندر پار پاکستانیوں کو کیا مراعات حاصل ہیں؟

وہ ووٹ کے حق سے بھی محروم ہیں، چہ جائیکہ انتخابات یا ملکی سیاست میں حصہ لینا سمندر پار پاکستانیوں سے، البتہ ڈار صاحب نے مگر وعدہ فردا تو کرلیا ہے۔ دیکھیں یہ وعدہ کس قسم کا ہے کیونکہ اس کی کوئی شکل نہیں۔ اب آئیے تنخواہ کے معاملے پر، یقیناً گورنمنٹ ملازمین پر تو مراعات کے دروازے باآسانی کھل جائیں گے مگر پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازمین کو کون تنخواہ نافذ کرائے گا جہاں جعلی تھرڈ پارٹی ایمپلائمنٹ کا عمل جاری ہے، اور ان گورنمنٹ ملازمین کا کیا ہوگا جو گزشتہ 3 یا 4 برس کے کنٹریکٹ سسٹم پر ملازمتیں کررہے ہیں اور ہر قسم کی مراعات سے محروم ہیں، اس پر طرفہ تماشا کہ 240 ارب روپوں کے نئے ٹیکس۔ کیا یہ واقعی عوام کو ریلیف دیا گیا ہے۔

ہاں موجودہ بجٹ کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس بجٹ میں ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے یقینی طور پر غوروفکر کی گئی ہے اور عملی اقدامات کیے گئے ہیں، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ٹیکسٹائل کی کاروباری انجمنوں اپٹما اور ٹی ایم اے کی کوششیں قابل ستائش ہیں اور انھوں نے اپنا کیس حکومت کو نہایت مثبت طریقے سے پیش کیا۔ رہ گیا ٹیکسوں کا نظام نہایت ناقص ہے اگر آپ این ٹی این حاصل کرنے جائیں تو پھر اتنے چکر لگانے پڑیں گے کہ آپ پریشان ہوجائیں گے۔ ارے بھائی کوئی آپ کے پاس ٹیکس دینے جا رہا ہے پھر بھی اس کو کئی بار چکر لگانا کیا معنی۔

آئیے نجکاری کی طرف چلیے، خدا نہ کرے کہ کسی گھر پر کوئی افتاد پڑے، جب کسی گھر کی آمدنی ختم ہوجاتی ہے تو پھر وہ ادھار مانگتا ہے اور اگر جب ایسا وقت آتا ہے کہ ادھار ملنا بھی بند ہوجاتا ہے تو پھر وہ اپنی پراپرٹی فروخت کرتا ہے اور اگر پراپرٹی نہ ہو تو پھر گھر کی چیزیں اونے پونے فروخت کرتا ہے۔ خیر جو بھی صورت حال ہو اس کی مثال اپنی منافع بخش پٹرولیم اور جہاز کی صنعت فروخت کرنا کسی بھی ملک کے لیے کیا معنی ہیں۔ البتہ 3G اور 4G یقیناً ایک اچھا قدم ہے لیکن نجکاری کمیشن ملک کی ساکھ کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔

ایک اور قدم جو پورٹ قاسم پر (LMG) ایل ایم جی کا منصوبہ یقینی طور پر یہ ایک اچھی پیش رفت ہے اگر رسل و رسائل کے معاملات پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ حکومت موٹروے پر زیادہ دلچسپی لیتی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ یہ آپ خود غور کریں کہ موٹروے کی زیادتی ریلوے کی ترقی میں مانع ہوگی، ماسوائے جہاں ریلوے ٹریک لے جانا آسان نہ ہو ورنہ مال برداری کا عمل ریلوے سے بہتر کسی ذریعے سے ممکن نہیں۔  اگر آپ کو یاد ہو جب سے این ایل سی (NLC)شروع ہوا اس نے ریلوے کی مال برداری پر منفی اثرات مرتب کیے لہٰذا ریلوے کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے نیٹ ورک کو بہتر اور سگنل سسٹم کو جدید بنایا جائے اور ترقی یافتہ ممالک سے فنی تعاون لیا جائے۔

موجودہ حکومت نے پنجاب میں ترقی کے لیے بہتر اقدامات کیے ہیں خصوصاً صوبائی حکومت نے سندھ کی صوبائی حکومت نے نہ بسوں کا کوئی جال بچھایا اور نہ ہی ریلوے کا پروگرام پروان چڑھایا لہٰذا ڈیڑھ کروڑ والے اس شہر کو جو تجارت کی رو سے اس کو بے رحم و کرم چھوڑ دیا گیا البتہ لیاری کے حالات ذرا بہتر ہوئے ہیں، کچھ امن کی بحالی ہوئی ہے۔ یہاں نہ رکشہ ٹیکسی کا کوئی میٹر ہے، بسوں کا حال یہ کہ اگر آپ چڑھیں تو وہ ہر جگہ سے شکستہ، ہاتھ کٹنے، کپڑے پھٹنے کا خطرہ ہے، اس لیے (پرائیویٹ) ذاتی ٹرانسپورٹ میں اضافہ، پٹرول کا یہ بوجھ حکومت کو زبردست نقصان پہنچا رہا ہے۔

ایک طرف کراچی میں امن و امان کا مسئلہ دوسری جانب آفس فیکٹری یا دکان تک جانے میں وقت کا زیاں، انسانی اعصاب شکنی کے برابر ہے کیونکہ لوگ بس کی چھتوں پر سفر کر رہے ہیں۔ محض اگر صرف ایک ماہ اس انداز میں صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبران کو بسوں میں منزل مقصود پر بھیجا جائے تو وہ اپنی بے بسی سے تنگ آکر خودکشی پر آمادہ ہوجائیں گے یا تقریر کا فن بھول جائیں گے، لہٰذا بجٹ کی تخلیق کے لیے ضروری ہے ملک کے مختلف طبقات کی زندگی کا جائزہ لیا جائے ورنہ یہ محض کاغذ کا پیٹ بھرنے کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ پولٹری فارمنگ لائف اسٹاک پر خاصی بحث اور غور و فکر کی ضرورت تھی کیونکہ ٹیکسٹائل کے بعد سب سے زیادہ لوگ اس شعبے سے وابستہ ہیں عوام کے لیے رزق اور غذا کا ذریعہ ہیں۔

ابھی تو بدن میں لہو ہے بہت

$
0
0

ان دنوں اخبارات میں بڑے زبردست قسم کے ’’سائنسی ٹوٹکے‘‘ آ رہے ہیں۔پنسلوانیا یونیورسٹی کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چائے میں ایک عنصر ’’چا چا چا‘‘ نام کا ہوتا ہے جو ناک کی ہڈی کو بڑھانے میں مدد دیتا ہے، کافی میں ’’کف کف کف‘‘ نام کا ایسڈ بالوں کے اندر گھس کر انھیں ’’چسپا‘‘ بنا دیتا ہے جس کی وجہ سے بالوں کے دو مونہہ آپس میں ایسے جڑ جاتے ہیں کہ

من تو شدم تو من شدی من جاں شدم تو تن شدی

تا کس نہ گوئید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری

قہوے کے باغوں میں چونکہ پریاں اپنے گھونسلے بناتی ہیں، اس لیے قہوہ پینے سے انسانوں اور بالخصوص عورتوں کا رنگ بھی پریوں سا ہو جاتا ہے بلکہ ان کے پر بھی نکل آتے ہیں جنھیں لوگ دوپٹہ سمجھتے ہیں، اس قسم کی تحقیقاتی اور انکشافاتی خبریں ہم بڑی دل چسپی سے اس لیے پڑھتے ہیں کہ جن نتائج پر یہ آج پہنچے ہیں وہ نتائج سیکڑوں سال پہلے ہمارے بزرگوں پر منکشف ہوئے تھے مثلا خون دینے سے انسان کا خون اور زیادہ نکھر جاتا ہے اس جدید انکشاف کا پتہ ہمارے بزرگوں کو صدیوں پہلے لگا تھا چنانچہ اکثر لوگ فصد کھلواتے تھے یا جونکیں لگواتے تھے اور صاحب استطاعت لوگ اس غرض کے لیے بیویاں اور کنیزیں رکھتے تھے لیکن مختلف رنگوں نسلوں علاقوں اور عمروں کا حساب کتاب رکھنے کے لیے پھر شاہی سائنس دانوں نے کمپیوٹر بنا دیا۔

آج کی مغربی سائنس کوئی ایک بھی ایسی چیز ایجاد نہیں کر پائی جو ہمارے اجداد نے بغداد، استنبول، دہلی، آگرہ، دمشق اور سمر قند میں نہیں کی تھی، ابھی ابھی جو تازہ ترین انکشافاتی تحقیق ہم نے اخبار میں پڑھی ہے وہ یہ ہے کہ کسی امریکی یونیورسٹی نے چوہوں پر تجربہ کر کے معلوم کیا ہے کہ چوہوں کے خون میں عمر بڑھانے کی شکتی ہوتی ہے، اب یہ محض وقت اور پیسے کا ضیاع نہیں تو اور کیا ہے، اس پر جو سرمایہ خرچ ہوا ہے اس کا آدھا بھی ہمیں دے دیتے تو ہم یہ بات صرف ایک کہاوت سے ثابت کر دیتے، اور کہاوت یہ ہے کہ بلی کی نو جانیں ہوتی ہیں اور اس لیے ہوتی تھیں کہ پرانے زمانے میں ہر بلی کم از کم نو سو چوہے کھا کر ہی حج پر جاتی تھی ’’فی سو چوہوں‘‘ میں ایک جان حساس کر لیجیے۔

مطلب یہ کہ کہاوت بنانے والوں کو پتہ تھا کہ چوہوں کے خون میں عمر درازی کا کوئی نہ کوئی عنصر ضرور ہے صرف وہ اس عنصر کو نام نہیں دے پائے تھے لیکن یہ کیا مشکل ہے ابھی دیے دیتے ہیں ’’خون چو‘‘ نام کیسا رہے گا۔ خون چوسنے سے عمر طاقت اور نہ جانے کیا کیا بڑھ جاتا ہے، نوجوان اور کم عمر چوہوں کا خون جب بڑی عمر کے چوہوں میں منتقل کیا گیا تو ان کی پژمردگی بشاشت میں بدل گئی نہ صرف اچھلنے کودنے لگے بلکہ لیڈی چوہوں پر بری نظر بھی ڈالنے لگے

خون پینے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بڈھے کی صحت اچھی ہے

ہماری معلومات اس سلسلے میں ان سے زیادہ اپ ٹو ڈیٹ ہیں وہ تو نوجوان چوہوں کا خون بوڑھے چوہوں کو چڑھا کر ابھی چوہوں کو جوان کر رہے ہیں جب کہ ہمارے بزرگ خون چڑھائے بغیر بھی جوانوں کی جوانی اپنے اندر منتقل کرتے تھے، 81 سالہ بڈھے 18 سالہ دوشیزاؤںسے شادیاں کرتے تھے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب افغان مہاجرین ہم کو انصار بنانے آئے تھے تو اکثر بڈھے یہی نسخہ استعمال کرتے تھے۔

یہ نئی تحقیق والے ابھی اس طریقہ علاج کے بارے میں علم ہی نہیں رکھتے جہاں تک خون کا تعلق ہے تو بادشاہ لوگ اگر رعایا کا خون اپنے اندر منتقل کرتے رہتے تھے اور یہ طریقہ علاج آج جمہوریت کے دور میں بھی اسلامی ممالک کے اندر رائج ہے، چونکہ حکمرانوں پر عوام کی خدمت کا ’’بوجھ‘‘ بہت زیادہ ہوتا ہے یعنی وقت کم اور مقابلہ سخت ہوتا ہے اس لیے وہ اس طریقہ علاج پر بہت زیادہ بھروسہ کرتے ہیں اور پھر یہ بھی ہے کہ عوام کی زندگی ویسے بھی زندگی سے زیادہ شرمندگی ہوتی ہے اس لیے جتنی زیادہ ان کو جلدی چھٹکارا دلایا جائے ان کے لیے اچھا ہوتا ہے، مصیبت جتنی کم ہوتی ہے اتنا ہی بہتر ہے

منحصر مرنے پر ہو جس کی امید

ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے

کسی اور ملک کا تو ہمیں پتہ نہیں ہے لیکن اپنے ملک کے بارے میں ہم یہ فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ یاں اس بلڈ ٹرانسفیوژن کے لیے بڑے اعلیٰ پائے کے انتظامات کیے گئے ہیں اس سلسلے میں حکومت بلکہ حکومتوں کی تعریف نہ کرنا قطعی غلط ہو گا اس لیے ہمیں سب سے پہلے تو حکومت کے ’’حسن انتظام‘‘ اور تکنیکی مہارت پر عش عش کرنا ہو گا تو چلیے آٹھ منٹ تک بالکل خاموش رہ کر دل میں عش عش کرنا شروع کر دیجیے

رب کا شکر ادا کر بھائی

جس نے ہماری جمہوریت بنائی

دنیا میں یوں تو ایک لاکھ ایک ہزار ایک سو ایک اعشاریہ ایک ’’جمہورتیں‘‘ رائج ہیں لیکن ان سب میں کوئی نہ کوئی ایسا عیب پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے تسلی بخش انداز میں بلڈ ٹرانسفیوژن نہیں ہوتا ہے بہت کم خون حکمرانوں تک منتقل ہوتا ہے کیوں کہ وہاں کے عوام کسی نہ کسی طرح اپنا خون بچانے کے لیے کامیاب ہو جاتے ہیں یا کسی نہ کسی طرح واپس لے لیتے ہیں یعنی

بلا سے گر مژہ یار تشنہ خوں ہے

رکھوں کچھ اپنی بھی مژگان خوں فشاں کے لیے

لیکن اپنے یہاں کے طریقہ ’’علاج‘‘ میں ایسا بالکل بھی ممکن نہیں ہے، کیونکہ اس غرض کے لیے حکومت نے جو بلڈ بینک رکھے ہوئے ہیں اور جن کو یہاں محکمے کہا جاتا ہے ان میں ایک سے بڑھ کر ایک ماہر پایا جاتا ہے وہ انتہائی مہارت کے ساتھ ’’پیچ گھما کر‘‘ خون کا بہاؤ بڑھاتے رہتے ہیں اور عوام کی رگوں سے خون کھنیچتے رہتے ہیں، اس خون کو جمع کر کے اور اپنا حصہ وصول کر کے آگے منتقل کر دیا جاتا ہے اور اسے قابل انتقال بنا کر فنڈز کا نام دے دیا جاتا ہے اور خاص طور پر منتخب کیے ہوئے ’’مریضوں‘‘ کو چڑھا دیا جاتا ہے

ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر

یہ خوں جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے

مطلب کہنے کا یہ ہے کہ اس راز کا ہمیں پہلے سے پتہ ہے کہ خون چڑھانے سے کیا کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں اور یہ لوگ اب کہیں جا کر چوہوں پر تجربات کر رہے ہیں ہم نے چوہوں پر تجربات کیے بغیر ہی ’’چوہوں‘‘ کے خون کا کمال معلوم کر لیا تھا اور بلیوں کی درازیٔ عمر کا راز جان لیا تھا اور یہ تو کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ اپنے یہاں ’’چوہے‘‘ بہت ہوتے ہیں جو اگرچہ اتنے موٹے تازے نہیں ہوتے لیکن پھر بھی زیادہ ہوتے ہیں اس لیے قطرہ قطرہ لے کر بھی ’’دریا‘‘ بنا لیے جاتے ہیں

ابھی تو بدن میں لہو ہے بہت

قلم چھین لے روشنائی نہ دے

پہلے رگ رگ سے مری خون نچوڑا اس نے

اب وہ کہتے ہیں کہ رنگت تری کیوں پیلی ہے

جستجو مسلسل جستجو

$
0
0

یہ ایک ایسے شخص کی داستان حیات ہے جس کا انتقال ہمارے ہی زمانے میں ہوا یعنی 1910 میں یہ عظیم شخص اس قدر ہر دلعزیز تھا کہ اس کی وفات سے بیس برس پہلے اس کے دروازے پر عقیدت مندوں کا ہجوم لگا رہتا تھا ۔ ہزاروں لوگ دور دراز سے یہ خواہش دل میں لیے وہاں آتے تھے کہ اس کی ایک جھلک دیکھ سکیں اس کی باتیں سن سکیںیا اس کے ہاتھ کو بوسہ دے سکیں ۔اس کے دوست مسلسل کئی کئی برس تک اس کے گھر پرڈیرہ ڈالتے رہتے اور اس کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ شارٹ ہینڈ میں قلمبند کرلیتے یہاں تک وہ عام بات چیت میں اپنی زندگی کا کوئی معمولی سا معمولی واقعہ بھی سناتا تو وہ صفحہ قرطاس پر رقم ہو جاتا بعد میں ان تمام واقعات کو موٹی موٹی جلدوں کی شکل میں شایع کیا گیا۔

اس کا نام ٹالسٹائی تھا اس کی زندگی اور نظریات کے بارے میں کم و بیش 237,000 کتابیں او ر 56,000 مضامین لکھے جاچکے ہیں اس کی اپنی نگارشات کی ایک سو جلدیں ہیں ایک شخص کے لیے اتنا زیادہ لکھنا ایک بہت بڑے معجزے کی سی بات ہے۔ اس کی داستان حیات بھی اس کے لکھے ہوئے بعض ناولوں کی طرح دلچسپ اور رنگین ہے وہ بیالیس کمروں کی ایک شاندار حویلی میں پیدا ہوا اس کے آس پا س دو لت کے انبار لگے ہوئے تھے اس نے قدیم روسی رئیسوں کی طرح شاہانہ ٹھاٹ باٹ سے پرورش پائی لیکن اپنی زندگی کے آخری دور میں وہ اپنی تمام زمین سے دستبردار ہوگیا۔ اس نے تمام دنیوی سازوسامان بانٹ دیا اور روس کے ایک چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر وفات پائی۔ مالی اعتبار سے یہ ایک غریب شخص کی موت تھی جسے چاروں طرف سے عقیدت مند کسانوں نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔

نوجوانی میں وہ بہت خوش لباس تھا وہ بڑی نزاکت سے زمین پر جچے تلے قدم رکھتا اور ماسکو کے اچھے سے اچھے درزیوں کی دکانوں کا طواف کرتا رہتا لیکن زندگی کے آخری حصے میں وہ روسی کسانوں کی طرح انتہائی سستا لباس پہنتا اپنے جوتے خود اپنے ہاتھوں سے بناتا اپنا بستر خود لگاتا کمرہ خود صاف کرتا اور لکڑی کی ایک بوسیدہ سی میز کرسی پر بیٹھ کر لکڑی کے چمچے سے انتہائی سادہ اور سستی غذا کھاتا۔ نوجوانی میں خود اس کے الفاظ میں وہ ’’ایک گندی اور ناپاک زندگی ‘‘ بسر کرتا تھا شراب پیتا لوگوں سے لڑائیاں مول لیتا اور ہر اس جرم کا ارتکاب کرتا جس کاذہن تصور کرسکتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ ٹالسٹائی کی زندگی ایک بہت المیہ تھی اور اس المیے کی سب سے بڑی وجہ اس کی ازدواجی زندگی تھی اس کی بیوی عیش و آرام کی دلدادہ تھی اور ٹالسٹائی کو ان چیزوں سے سخت نفرت تھی وہ شہرت اور وقار کی بھوکی تھی اور ٹالسٹائی ان باتوں کو کوئی وقعت نہیں دیتا تھا جب کہ اسے دولت سے محبت تھی اور ٹالسٹائی کا نظریہ تھا کہ دولت اکٹھی کرنا اور ذاتی جائیداد رکھنا بہت بڑا گناہ ہے اور یہ کہ صرف محبت سے ہی لوگوں کے دل جیتے جا سکتے ہیں۔

کئی برس تک وہ اسے گالیوں ، بدعائوں اور طعنوں کا شکار بناتی رہی اور خود ٹالسٹائی کے الفاظ میں اس نے گھر کو جہنم کا نمونہ بنا دیا اس سارے فساد کی جڑ یہ تھی کہ ٹالسٹائی اس بات پر مصر تھا کہ وہ کوئی معاوضہ لیے بغیر روسی عوام کے لیے کتابیں لکھتا رہے گا آخر کار جب وہ بیاسی برس کا ہوا تو اس میں اتنی ہمت نہ رہی کہ اپنے ناخوشگوار گھریلو حالات کا مزید مقابلہ کر سکے چنانچہ 21 اکتوبر 1910 کی ایک تاریک اور خنک رات کو گھر سے نکل گیا یہ جانے بغیر کہ اس کی منزل کونسی ہے گیارہ روز بعد وہ نمونیے کا شکار ہوکر یہ کہتا ہوا ایک ریلوے اسٹیشن پر انتقال کر گیا کہ ’’ اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے ‘‘ اس کے آخری الفاظ یہ تھے ’’جستجو مسلسل جستجو ۔‘‘

ادب جدید کا رہبر میکسم گورکی کہتا ہے کہ ’’ ادب انسانیت کا نقاد ہے وہ اس کی کج روی کو ظاہر کرتا ہے اور اس کی مکاریوں کو بے نقاب کرتا ہے اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے انسان کی حیات مستعار کو دائم و قائم بنائے ادب کی بے کلی اور تڑپ اس لیے ہے کہ آدمی کو سمجھائے کہ وہ حالات کا غلام نہیں ہے بلکہ حالات اس کے غلام ہیں۔ وہ آدمی کو بتلانا چاہتا ہے کہ وہ آپ اپنی زندگی کا مالک ہے اور اسے جس روش پر چاہے لے جا سکتا ہے اس لحاظ سے ادب تغیر پسند، قدامت شکن اور دور جدید کا پیش رو ہے۔‘‘

ادب زندگی کے اس سوال کا جواب ہے کہ انسان کس سے محبت اور کس سے نفرت کرے اور کس طرح زندہ رہے۔ ریاست کسی فرد یا طبقہ کا نام نہیں ہے ریاست کا وجود عوام سے عبارت ہے اور ہر سچا اورترقی پسند ادیب اپنے عوام کا وفادار ہوتاہے اور اپنی فنی صلاحیتوں سے انھیں زندگی اورترقی کی جدوجہد میں مدد دیتا ہے ۔ ہمارے عوام اس وقت غیر منظم ہیں کم تعلیم یافتہ ہیں انھیں یہ معلوم ہے کہ رجعتی مضبوط اور طاقتور ہیں اور انھوں نے عوام کو گمراہ کر نے کے لیے لاتعداد ذہنوں کو خرید رکھا ہے جس نظام میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں وہ گل سڑ چکا ہے۔ اب اس کی طبعی عمر بھی ختم ہو چکی ہے کیونکہ یہ نئے زمانے کے نئے تقاضوں کا ساتھ دینے کی اہلیت سے محروم ہے آج عوام کی جنگ آزادی ایسے دور میں داخل ہوئی ہے جب طبقاتی کشمکش بڑھ رہی ہے۔

لوٹنے اور لٹنے والے بہت واضح طور پر ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آرا ہو رہے ہیں۔ مرتا ہوا طبقاتی اور عدم مساوات کا نظام بڑھتے ہوئے انقلابی دھارے کو روکنا چاہتا ہے رجعتی طبقہ مختلف نظریات کے ذریعے عوام کے شعور اور عمل کو مفلوج کرنے کی کوشش کررہاہے تعلیم اور پرچار کے اکثر ذرایع اس کے ہاتھ میں ہیں وہ مخصوص اخبارات اور مخصوص ٹی وی چینلز کے ذریعے مسلسل زہریلا پرچار کررہا ہے رجعتی نظریات کے خلاف جدوجہد ترقی پسند ادیبوں کا بہت بڑا فرض ہے۔ ہمیں ان تمام عناصر کے خلاف جم کر جنگ کرنی ہے جو کسی نہ کسی طریقے سے تعصب، نفرت ، انتہا پسند نظریات کی تبلیغ کرتے ہیں۔

فوچک ، چیکو سلواکیا کی کمیونسٹ پارٹی کا لیڈر اورایک ترقی پسند ادیب تھا جب جرمنوں نے چیکو سلواکیہ پر قبضہ کیا اور پارٹی غیر قانونی ہوگئی تب اس نے بڑے مشکل حالات میں پارٹی کے غیر قانونی پوشیدہ مرکز قائم کرنے اورغیر قانونی مرکزی اخبار نکالنے کے کام میں حصہ لیا لیکن جرمن نازی اسے گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئے اور بے حد جسمانی اذیت کے بعد بالآخر انھوں نے اسے قتل کر ڈالا فوچک نے اپنی گرفتاری کے ایام میں یہ مضامین لکھے جو چیک قوم کے جیل کا نگراں محفوظ کرتا رہا،جب چیکو سلواکیہ آزاد ہوا تو ان مضامین کو اس کی بیوی نے کتابی شکل میں شایع کردیا۔

فوچک نے اپنی کتاب کے دیباچہ میں لکھا ’’ میں نے اپنی زندگی کی فلم کو سیکڑوں بار دیکھ لیا ہے میں اس کی ہزاروں تفصیلوں سے واقف ہوں اب میں اسے لکھ ڈالنے کوشش کرتا ہوں چاہے جلاد کی پھانسی کا پھندہ کتاب ختم کر نے سے پہلے ہی میر ا گلا گھونٹ دے پھر بھی لاکھوں ، کروڑوں انسان اس کاخوش آیند انجام دیکھنے کے لیے باقی رہ جائیں گے ‘‘ ایک انسان اور ایک ادب کے فرائض و مقاصد یکساں اور مشترک ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ ایک اپنے ماحول کی ترجمانی کرتا ہے اور دوسرا اس سے متاثر ہوتا ہے، استحصال اور عدم مساوات کے خلاف ہمارے عوام کی جیت یقینی ہے، بس ہم سب کو اپنی جدوجہد اور تیز کرنا پڑے گی کیونکہ ہمارے پاس کھونے کے لیے سوائے زنجیروں کے اور کچھ نہیں اور جیتنے کو ایک دنیا پڑی ہے ۔

ماضی پرستی، اسٹیٹس کو اور میڈیا

$
0
0

2007ء کے بعد ناقابل تصور حد تک طاقتور ہونے والا میڈیا اگرچہ آج کل ایک خود ساختہ بحران کی وجہ سے کچھ کمزور ہو رہا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارا میڈیا اب بھی بہت طاقتور ہے جو سوال آج ہمارے سامنے کھڑا ہے وہ یہ ہے کہ میڈیا کی طاقت کا استعمال کیسے ہونا چاہیے؟ میڈیا کی روایتی ذمے داری اطلاعات تک رسائی اور عوام تک درست اطلاعات پہنچانا ہے۔ یہ ذمے داری ہمارا میڈیا پوری طرح سر انجام تو دے رہا ہے لیکن سرمایہ دارانہ سماج میں مقابلے کی جو علت پائی جاتی ہے اس سے میڈیا کسی حد تک غیر متوازن ہو جاتا ہے آج کل ہمارا میڈیا اسی صورت حال سے گزر رہا ہے۔ دور جدید کے میڈیا کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ نیوز کے ساتھ عوام تک ویوز بھی پہنچاتا ہے۔

ہمارا معاشرہ پسماندگی سے نکل کر ترقی کی طرف پیشرفت کرنے کی جو کوشش کر رہا ہے اس میں ویوز کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ ویوز کی ذمے داری پوری کرنے والے چونکہ مختلف الخیال لوگ ہوتے ہیں لہٰذا ویوز میں اختلاف رائے ایک فطری بات ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے جو ماضی میں زندہ ہے اور عوام تک جو ویوز وہ پہنچاتا ہے وہ حال پر ماضی کی برتری پر مشتمل ہوتی ہیں، یہ طبقہ فکر اپنی نظر میں کتنا ہی برحق اور محترم کیوں نہ ہو وہ عوام کو فکری پسماندگی کی طرف ہی دھکیلتا ہے اور نان ایشوز کو ملک کے اہم ترین ایشوز کے طور پر پیش کر کے عوام میں ذہنی پسماندگی اور ذہنی انتشار کو بڑھاوا دیتا ہے۔ اس طبقے کی ایمانداری پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا لیکن ہماری دنیا میں بے ایمانی بھی بڑی ایمانداری سے کرنے کا رواج ہے۔

میڈیا کا دوسرا طبقہ فکر وہ ہے جو نہ ماضی پرست ہے نہ مستقبل سے اسے کوئی دلچسپی ہوتی ہے وہ اپنے اور ملک کے حال میں مگن رہتا ہے اس طبقے کی فکری پہچان Status Quo کی حمایت ہے۔ اس خوبی کی وجہ سے وہ نہال رہتا ہے لیکن اس کا کردار بھی معاشرتی پیشرفت میں رکاوٹ ہی بنا رہتا ہے، ہو سکتا ہے Status Quo کے حامیوں میں ایماندار لوگ بھی ہوں لیکن یہ ایمانداری معاشرتی پیشرفت کو روکنے کا سبب ہی بنتی ہے، موقع پرست مڈل کلاس اس طرز فکر کی زبردست حمایت کرتی ہے۔

تیسرا طبقہ وہ ہے جو ماضی کے تجربات حال کی ضروریات کے پیش منظر میں مستقبل کی تعمیر پر یقین رکھتا ہے۔ یہ طبقہ فکر چونکہ صدیوں سے جمے جمائے معاشرے میں تبدیلی چاہتا ہے اس لیے وہ تمام قوتیں جو تبدیلی کی مخالف ہوتی ہیں اس طبقے کی مزاحمت کرتی ہیں۔ خاص طور پر وہ داخلی طاقتیں جن کے مفادات ماضی پرست اور اسٹیٹس کو سے جڑے ہوتے ہیں اور وہ خارجی طاقتیں جن کے مفادات کا تقاضا تبدیلیوں کی مخالفت کرنا ہوتا ہے وہ نہ صرف تبدیلیوں کے علمبرداروں کی سختی سے مزاحمت کرتی ہیں بلکہ محض اپنے مفادات کی خاطر ماضی پرستوں اور Status Quo کے حامیوں کی دامے درمے سخنے ہر طرح مدد کرتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ماضی پرستوں اور اسٹیٹس کو کے حامیوں کو مالی وسائل کی کوئی تنگی نہیں رہتی اس کی ایک زندہ مثال ماضی پرستوں اور اسٹیٹس کو کے حامیوں کے وہ بڑے بڑے جلسے جلوس اور پروپیگنڈہ مشنری ہے جس پر کروڑوں روپے پانی کی طرح بہا دیے جاتے ہیں۔ اس کے برخلاف روشن مستقبل کے لیے کام کرنے والے وسائل کے حوالے سے بہت تہی دست ہوتے ہیں ان کی تہی دستی کا عالم یہ ہوتا ہے کہ وہ پمفلٹ چھپوانے ، بینر بنوانے تک سے معذور ہوتے ہیں۔

کسی بھی فرسودہ اور لوٹ مار پر مبنی سیٹ اپ کو تبدیل کرنے کا مطلب ان تمام طبقات کے مفادات پر ضرب لگانا ہوتا ہے جو ماضی اور حال کو اپنی لوٹ مار کے لیے استعمال کرتے ہیں تبدیلی کے اس عمل کو سیاسی اصطلاح میں ’’انقلاب‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایک تشویشناک بات اس حوالے سے یہ ہے کہ روسی بلاک کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد لفظ انقلاب کو اس قدر مشکوک اور متنازعہ بنا دیا گیا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کے حامی اور سرپرستوں نے سوشلسٹ بلاک کی ٹوٹ پھوٹ کو انقلابات کی ناکامی کا نام دے کر لفظ انقلاب کو اس قدر بدنام کر دیا ہے کہ عام آدمی ہی نہیں بلکہ مڈل کلاس بھی ایک زبردست ذہنی انتشار کا شکار ہو کر رہ گئی ہے، لیکن اس ناامیدی میں امید کا سب سے بڑا پہلو یہ ہے کہ Status Quo سے بیزار اور مایوس ہر شخص تبدیلی یعنی انقلاب چاہتا ہے۔ عوام کی یہ ایک ایسی اجتماعی خواہش ہے جس سے بڑے سے بڑا بے ضمیر بھی انکار نہیں کر سکتا۔

یہی وہ صورت حال ہے جہاں میڈیا کا کردار اور اہمیت واضح ہو کر سامنے آتی ہے۔ ہم نے ابتدا ہی میں نشان دہی کر دی تھی کہ میڈیا میں بھی مختلف الخیال لوگ موجود ہیں اور اپنی اپنی فکر اپنی اپنی ضرورتوں کے پس منظر میں عوام کو فکری غذا فراہم کر رہے ہیں یہ تو ممکن نہیں کہ ان میں سے کسی کی فکر پر پہرے بٹھا دیے جائیں، لیکن یہ بہرحال ممکن ہے کہ ملک و قوم کے روشن مستقبل کے لیے کام کرنے والوں کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کی جائے۔ اس حوالے سے پہلی وضاحت یہ ضروری ہے کہ تبدیلی یا انقلاب کو محض انقلاب روس انقلاب چین انقلاب فرانس وغیرہ سے نہ جوڑا جائے کیونکہ انقلاب کا مقصد صرف 1917ء کا انقلاب روس 1949ء کا انقلاب چین یا 1789ء کا انقلاب فرانس ہی نہیں ہے۔

ہر ملک میں تبدیلی کا الگ الگ مقصد ہوتا ہے مثلاً پاکستان کو نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام سے نکال کر صنعتی ترقی کے دور میں لے جانا بڑی تبدیلی یا انقلاب ہے۔ پاکستان کا نظام تعلیم انتہائی فرسودہ ہے اسے تبدیل کرنا اور ملک میں جدید علوم سائنس و ٹیکنالوجی آئی ٹی فلائی سائنس وغیرہ کو فروغ دینا بھی انقلاب کی تعریف میں آتے ہیں۔ہمارا ملک مذہبی انتہا پسندی کے دلدل میں بری طرح پھنسا ہوا ہے مذہبی انتہا پسندی اس شدت کو پہنچ گئی ہے کہ اس ملک کا ہر شہری اس سے پناہ مانگ رہا ہے کیونکہ یہ انتہا پسندی صرف عوام کے جان و مال کے لیے ہی عذاب نہیں بنی ہوئی ہے بلکہ فکری طور پر وہ ماضی کو حال پر مسلط کر کے ترقی کے راستے کو روکنا چاہتی ہے۔

اگر عوام کے جان و مال کے تحفظ اور ملک کے روشن مستقبل کے لیے مذہبی انتہا پسندی کا رخ موڑنے کی کوشش کی جائے تو یہ بھی ایک بالواسطہ انقلابی کوشش ہی کہلا سکتی ہے۔ ہمارے ملک میں جو سیاسی نظام رائج ہے اگرچہ اسے جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے لیکن یہ نظام کسی حوالے سے بھی جمہوری نہیں ہے بلکہ ماضی کی بادشاہتوں کی ایک نئی برانڈ ہے۔ جہاں حکمران طبقات نہ صرف ڈنکے کی چوٹ پر ولی عہد شہزادے شہزادیاں تخلیق کر رہے ہیں بلکہ عوام کی دولت کو استعمال کر کے انھیں عوام میں مقبول کرانے کی جو عوام اور جمہوریت دشمن کوشش کر رہے ہیں ان کا راستہ روکنا بھی بالواسطہ انقلابی کوشش ہی کے زمرے میں آتا ہے۔

نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام، فرسودہ تعلیمی نظام، ولی عہدی جمہوریت، اقتدار مافیا، لوٹ مار کا بے شرمانہ کلچر، مذہبی انتہا پسندی کے خلاف میڈیا میں جو بھی آواز اٹھے اس کی پذیرائی اسے اہمیت دینا اسے عوام تک مکمل صورت میں پہنچانا یہ سب میڈیا کی ذمے داری ہے اگر میڈیا باشعور ہو تو وہ خبروں کا ڈسپلے بھی اس طرح کر سکتا ہے کہ خبر کے مثبت پہلو اجاگر ہو جاتے ہیں اور منفی پہلو دب جاتے ہیں۔ اگر ملک میں سیاسی جماعتیں ایماندار، محب عوام اور روشن خیال ہوں تو میڈیا کو وہ کردار ادا کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی جس کا ذکر ہم نے کیا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سیاسی جماعتوں کی اولین ترجیح ان کے ذاتی اور جماعتی مفادات ہیں یہ جماعتیں باتیں تو تبدیلیوں اور انقلاب کی کرتی ہیں لیکن یہ ساری سازشیں یہ ساری باتیں عوام کو گمراہ کرنے انھیں ذہنی انتشار میں مبتلا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔

میڈیا میں پسماندہ ذہنیت کے لوگ بھی قدم قدم پر موجود ہیں لیکن میڈیا روشن خیال لوگوں سے بھی خالی نہیں اب یہ ان دوستوں کی ذمے داری ہے کہ وہ وقت کے تقاضوں کو سمجھیں اور ان لوگوں کو زیادہ وقت زیادہ جگہ نہ دیں جو ماضی پرست ہیں یا پھر جوں کے توں Status Quo کے حامی ہیں ان خیالات کی بھرپور پذیرائی کریں جو معاشرے کو آگے ترقی کی طرف لے جانے کی مخلصانہ کوششیں کر رہے ہیں۔ یہی میڈیا کی ذمے داری میڈیا کی ترجیحات ہونی چاہیے۔


سماجی انصاف

$
0
0

جب بھی جون آیا ہم اعداد و شمار کی نذر ہوجاتے ہیں۔ پہلے تو ایک بار مہنگائی کے نشتر ٹوٹتے تھے اب کی بار تو منی بجٹوں کی بوندا باندی کسی وقت بھی ہوسکتی ہے۔ غریبوں کی جیبوں کو رفو چاک در چاک لگتے رہے۔ مفلسوں کی قبا پر پیوندوں پر پیوند جڑنے لگے۔ خیر بجٹ آگیا اور ماہ رمضان بس کچھ دن بعد آن پڑا ہے۔ پھر ہوگا خورونوش کی چیزوں کا بازار گرم اور غریبوں کی جیب کو لگیں گے پھر اور رفو۔ آئین کے آرٹیکل 3 کے ساتھ پڑھیے آرٹیکل 56 اور پڑھیے پھر پرنسپل آف پالیسی یعنی باب دوئم، حصہ دوم آئین کا۔ یوں لگے گا کہ ہمارا آئین مساوات کی بات کرتا ہے۔ کرتا تو ہے، مگر ہوتا نہیں۔ اب کی بار تو کچھ یوں ہے کہ ہم حکمرانوں کی نااہلی کا ٹیکس دیتے ہیں۔ 1400 ارب سے بھی زائد واپڈا وغیرہ کو سبسڈی ملتی ہے۔

اتنے پیسے کے بدلے واپڈا وغیرہ دیتی ہے لگ بھگ 40 فیصد کا شارٹ فال۔ اور دنیا کی مہنگی ترین بجلی۔ دیہاتوں پر تو فالج گرا ہے، زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے اور حکمرانوں کو شرح نمو کی پڑی ہے۔ نو مہینے کے اعداد و شمار جوکہ بیوروآف اسٹیٹکس نے شایع کیے تھے یعنی مارچ تک 4.1 فیصد شرح نمو تھی۔ کچھ ہفتے پہلے اسی بیورو آف اسٹیٹکس کی اپریل تک شرح نمو آگئی تھی جو کم ہوکر 3.8 فیصد ہوگئی تھی ۔ اس کو کہتے ہیں اعداد و شمار سے کھیلنا۔ پاکستان کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے اعداد و شمار میں بھی ملاوٹ ہوتی ہے۔ ایک پروگرام ورلڈ ڈونرز کا یہ بھی ہے کہ پاکستان کو اپنے اعداد و شمار میں شفافیت لانا ہوگی اور اس کے لیے بھی وہ فنڈ دینے کے لیے تیار ہیں۔

بجٹ قانونی طور پر آئین کے 156 سے نکلتا ہے یعنی نیشنل اکنامک کاؤنسل NEC وضع کرتی ہے کہ کس طرح آمدنیوں اور اخراجات کے مساوی تخمینہ ہوگا۔ یہ ادارہ اپنی نوعیت کا فیڈرل ادارہ ہے۔ جس طرح CCI ہے، سینیٹ ہے وغیرہ۔ اس بجٹ کے ایک ہفتہ پہلے اس ادارے کا اجلاس ہوا جس میں 1175 ارب سالانہ ترقیاتی منصوبے کا اعلان ہوا۔ جو نہ ہوا،مگر اصل بات  یہ ہے کہ سماجی انصاف کا بنیادی اصول جس کے لیے یہ ادارہ آئین میں معنی رکھتا ہے پرنسپل آف پالیسی کی تشریح چاہتا ہے، اس پر ہمیشہ کی طرح ہونٹ سلے رہے، اور اگر کسی نے ڈاکٹر مالک کی طرح کھولے بھی تو اس سسٹم میں ایسی باتیں سننے کے لیے وہ کان بھی تو نہیں ۔

یہ بجٹ کیا آیا کہ جیسے خزاں آئی، جینا اور تنگ ہوا۔ گیس مہنگی ہوئی ان کارخانوں کی جن کی کھپت ہم کرتے ہیں وہ اس مہنگی گیس کو اپنی چیزوں کی قیمت میں جذب کریں گے۔ CNG لگ بھگ دگنی مہنگی ہونے کو جا رہی ہے۔ اس سے 65 ارب اور جمع ہوں گے۔ یہ پیسے اتنے ہی ہیں جتنے GST کو ایک فیصد بڑھانے سے پچھلے سال جمع ہوئے تھے۔ گھریلو صارفین پر GIDC والا Cess  جو گیس پر لگا ہے اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔ یہ سچ ہے کہ گیس ہمارے پاس مروج دنیا کے ریٹس سے کم تھی۔ ہر طرف خسارہ ہی خسارہ ہے اور ان خساروں کو کم کرنے کے لیے غریبوں کا معاشی قتل لازم ہے۔

ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 9.5 فیصد ہے۔ ہندوستان کی یہ شرح ہم سے دگنی ہے۔ ہم دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں اس حوالے سے شمار رکھتے ہیں۔ فنانشل خسارہ GDP کے 5 فیصد کے برابر ہے۔ درآمدات اور برآمدات میں عدم توازن 18 ارب ڈالر کا ہے۔  انھوں نے ہمیشہ وہ ٹیکس بڑھائے جس سے غریبوں کی قوت خرید متاثر ہوئی اور امیروں پر براہ راست ٹیکس نہیں لگاسکے، ان ایوانوں میں بیٹھے شرفا نے جب اپنے ریٹرنز داخل کیے تو پتا چلا کہ ان میں سے بہت سارے ایسے ہیں جو ٹیکس ہی نہیں ادا کرتے۔ اور ایسے ٹیکس چوروں کی بھی بڑی فہرست ہے۔ بجٹ کا سب سے بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی لگ بھگ 1325 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔

یہ اخراجات اس لیے بڑھے کیوں کہ ہم امیروں پر ٹیکس نہیں لگاسکے، اور اس لیے بھی بڑھے کہ ہم غیر ترقیاتی اخراجات کم نہیں کرسکے۔ یعنی FBR سے ہم توقع کرتے ہیں کہ وہ 2800 ارب ہمیں دے گی، اس کے آدھے تو جائیں گے سود و قرضوں کی ادائیگی میں۔ جو آمدنی ہوگی اس سے چلے گی حکومت، ترقیاتی کاموں کے لیے بہت سارا حصہ نئے قرضوں سے پورا ہوگا۔ یہ بھی ہمت افزا بات ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر حیران کن انداز میں واپس بحال ہوئے۔ لیکن بیرونی قرضے لینے میں بھی اس حکومت نے پچھلی حکومتوں کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔

حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ آیندہ سال شرح نمو کو 5.1 فیصد تک لے کر جائیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر رواں سال شرح نمو 4.1 فیصد ہے تو پورا ایک فیصد آگے بڑھ بھی سکتی ہے جس کی خبر جون گزرنے کے بعد آئے گی اور ساتھ اگلے سال تک اگر 3000 میگاواٹ نئی بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کرجاتے ہیں تو کچھ کہا جاسکتا ہے کہ ایسا ہوجائے۔ باتیں کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں، دس سالہ پلان بنایا ہے، کہ ایکسپورٹ 2025 تک 130 ارب ڈالر ہوجائے گی۔ دس سال پہلے ہماری ایکسپورٹ 112 ارب ڈالر تھی، جوکہ دگنی ہوکر 24 ارب ڈالر ہوگئی ہے لیکن 9/11 سے جو معجزہ ہوا وہ Remittance میں تقریباً ساڑھے تین گنا اضافہ ہوا۔

ڈار صاحب کہتے ہیں 2015-16 کے بعد شرح نمو اوسط سات فیصد کو پہنچ جائے گی اور 2025 تک بجلی کی پیداوار 45000 میگاواٹ ہوجائے گی۔ یہ ساری باتیں کاغذی شہروں والی ہیں۔ ہم تب کچھ بہتر سمجھیں گے کہ جب حکمراں ڈائریکٹ ٹیکس میں وصولیاں بڑھائیں اور ترقیاتی کاموں کے لیے جتنے پیسے رکھیں اس میں کٹوتی نہ کریں اور ان کاموں کے اندر کرپشن کو ختم کرائیں۔

اول تو GDP میں اضافہ نہیں ہوا اور اگر ہوا ہے تو اس کی تصدیق کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے روزگار پانے والوں کے بیورو آف اسٹیٹکس کے اعداد و شمار رواں سال کے لیے کیا کہتے ہیں اور اگر سال شرح نمو بڑھی اور اس کا فائدہ روزگار کے مواقع پیدا کرتے ہوئے غریبوں کی زندگی میں کچھ تبدیلی لاسکا ہے تو ایسے شرح نمو کو سراہا جاسکتا ہے۔

پاکستان کی معاشی بدحالی کا تعلق پاکستان کی برسوں میں بنائی اس  بیانیےNarrative کا بھی ہے جس سے موقع پرستوں نے اقتدار پر قبضہ کیا ہے اور لوٹ کھسوٹ کی ہے۔ یہ اس کا ثمر ہے جو آج ملک کی نصف آبادی غربت کی لکیر کے نیچے رہتی ہے۔ ان کو پینے کے صاف پانی، ان کے بچوں کو مفت تعلیم، مفت صحت کے مواقعے اور روزگار کے مواقع چاہئیں۔ جب تک یہ ملک سماجی انصاف کی طرف رواں نہیں ہوگا کوئی نہ کوئی دہشت گردی وہ طالبان کی صورت میں ہو یا بلوچستان میں شورش کی شکل میں یا کوئی اور صورت میں سول وار کو جنم دیتا رہے گا۔

معاشی کامیابی کے تین اصول

$
0
0

شاید حکمران جماعت کو قوم میں پائی جانیوالی شدید مایوسی اور بے اطمینانی کا پوری طرح ادراک ہی نہیں، اپنی معاشی بقا کی جنگ میں مصروف عمل اس عام آدمی کی اقتصادی دشواریوں کا اندازہ ہی نہیں، تبھی تو قوم کو اقتصادی اور معاشی لحاظ سے بے فیض اور بے ثمر بجٹ دیا گیا جس میں لفظوں کے گورکھ دھندے کے سوا عام آدمی کی فلاح اور بہبود سے متعلق کوئی واضح ریلیف دینے سے مکمل اجتناب کیا گیا، وجہ وہی پرانی اور بوسیدہ کہ ’’ آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں‘‘۔

موجودہ بد ترین اقتصادی اور معاشی حالات میں اس سے بہتر بجٹ پیش نہیں کیا جاسکتا اور پچھلے 60 سالوں سے حکمران طبقہ انھیں دو بنیادی وجوہات کو بیان کرکے ہر سال پوری قوم کے 95% فیصد لوگوں کی بجٹ سے وابستہ جائز آرزوئوں اور توقعات کا خاتمہ کرنے کی حکمت عملی پر گامزن ہے یعنی پاکستانی قوم کتنی بھی محنت ومشقت کرلے چاہے اپنی آمدنی کا نصف حصہ بالواسطہ اور بلا واسطہ ٹیکس کی شکل میں قومی خزانے میں جمع کروادے مگر اس کے بدلے اسے کسی بھی بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں دیا جائے گا، غربت و افلاس اور مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے لوگوں کی مشکلات کا خاتمہ کبھی بھی نہیں کیا جائے گا اور گمان غالب ہے کہ آنیوالے سالوں میں بھی مذکورہ بالا دونوں بنیادی وجوہات کا ذکر کرکے بجٹ بنانے کی روش کو برقرار رکھا جائے۔

ثابت ہوا کہ موجودہ ظالم اور عوامی احساس سے عاری اشرافیہ جب تک پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہیںگے پاکستانی قوم کی تقدیر کے فیصلے کرنے کا اختیار لیے ہوئے ہونگے اس وقت تک پاکستانی قوم کو لاحق انتہائی پریشان کن معاشی حالات سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ حقیقت ہے کہ ایک بھوکے شخص کا حقیقی احساس ایک بھوکا شخص ہی کرسکتا ہے، ایک بیمار شخص ہی دوسرے بیمار شخص کی تکلیف کو محسوس کرسکتا ہے، ایک پیاسا شخص ہی پانی سے محروم دوسرے شخص کی پیاس کو محسوس کرسکتا ہے۔ زندگی کو میسر تمام اعلیٰ ترین سہولیات حاصل کیے ہوئے حکمران بھلا کس طرح بھوکی، پیاسی، بیمار، بیروزگار قوم کے درد کو محسوس کرسکتے ہیں۔

دنیا کی تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسا واقعہ قلم بند نہیں ہے کہ کسی اشرافیہ حکومت نے اپنی غریب، مفلوک الحال اور غربت اور پسماندگی میں مبتلا قوم کی فلاح و بہبود، ان کی معاشی مشکلات کو کم کرنے کے انقلابی اقدامات اٹھائے ہوں ان کی اچھی صحت اور علم سے متعلق کسی پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کی مخلصانہ کوشش کی ہو، یہ ممکن ہی نہیں چوں کہ اشرافیہ حکومتیں غربا، محنت کشوں اور مزدوروں کے استحصال پر ہی اپنا وجود قائم رکھتی ہیں، ان کا تخت حکمرانی انھی مزدوروں، کسانوں اور محنت کشوں کے خون پسینے سے حاصل شدہ معاشی وسائل کے انتہائی غیر منصفانہ تقسیم کی بنیاد پر ہی اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہوتا ہے۔

ملک میں انقلابی تبدیلیاں رونما کرنے کے نام پر قائم ہونے والی حکومت جو اپنے آپ کو جمہوری انداز سے منتخب ہونے کا راگ الاپتے ہوئے نہیں تھکتی اسے اس بجٹ کو بناتے وقت اپنے ان وعدوں اور عوام سے کیے گئے عہد و پیمان کو ضرور یاد رکھنا چاہیے تھا جس میں اس نے عوام کو مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کے فوری خاتمے کا یقین دلایا تھا، ان کے بہتر مستقبل کی نوید سنائی تھی۔ ان کی آرزوئوں اور تمنائوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے دعوے کیے تھے، ان کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے ناقابل تنسیخ عہد وپیمان کیے تھے۔ جمہوری حکمران صرف جمہور کو مطمئن اور آسودہ کرکے ہی اپنی حکمرانی کو جاری رکھتے ہیں اور جمہور کے غیض و غضب اور ناراضگی کے نتیجے میں جمہوری حکومت کا قائم رہنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتا۔

کسی بھی کامیاب جمہوری حکومت کی اقتصادی اور معاشی کامیابی تین بنیادی اصولوں میں پنہاں ہوتی ہے۔ (1) کہ حکومت نے اپنے پچھلے مالی سال میں رکھے ہوئے اہداف کو حاصل کیا یا نہیں یعنی اپنے وسائل میں کتنا اضافہ کیا۔ (2) ملکی جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس نیٹ کو کتنا بڑھایا اور (3) وہ حکومت وقت Tax Exemption کا خاتمہ کرنے میں کس حد کامیاب ہوئی۔ موجودہ حکومت اپنے پچھلے بجٹ میں رکھے ہوئے ان اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ حکومت وقت موجودہ بجٹ میں رکھے ہوئے اپنے اقتصادی اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی۔

ایک عوامی حکومت سب سے پہلے اپنے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرتی ہے اور ڈائریکٹ ٹیکس کی پالیسی پر گامزن ہوتے ہوئے آمدنی کے مطابق ٹیکس میں اضافہ کرتی ہے اور ان اربوں پتی اور کروڑ پتی لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی حکمت عملی وضع کرتی ہے جو اپنی آمدنی اور اثاثوں کو جعلی ناموں پر منتقل کرکے کسی نہ کسی طور ٹیکس ادا کرنے سے اپنے آپ کو بچائے رکھتے ہیں۔ ایک عوامی حکومت ملک میں موجود اپنے قدرتی وسائل کو ہر قیمت پر بڑھانے کے جنون میں مبتلا ہوتی ہے۔

معاشرے میں موجود استحصال کی بوسیدہ روایت یعنی Tax Exemption کا خاتمہ کرنا اپنا اولین فرض سمجھتی ہے اور وہ حکومت قوم کی بہتری اور ترقی کی خاطر مذکورہ بالا مقاصد کو حاصل کرلے تو پھر وہ قوم اقتصادی پسماندگی سے نکل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتی ہے، پھر اس قوم کو ترقی کرنے سے دنیا کی کوئی قوت روک نہیں سکتی مگر افسوس موجودہ حکومت ٹیکس نیٹ کو بڑھانے، ٹیکس مستثنیات کا خاتمہ کرنے اور قومی وسائل میں اضافہ کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے اور اسی وجہ سے حکومت وقت پہلے سے پسے ہوئے مہنگائی کے ستائے ہوئے ٹیکس دہندہ عوام پر مزید بوجھ ڈال کر اپنے اخراجات کو پورا کرنے کی روش پر گامزن ہے۔

بین الاقوامی اداروں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی بینک،یوروبانڈز، سعودی عربیہ اور اندرونی بینکوں سے اربوں ڈالرز حاصل کرتے وقت یہ جواز پیدا کیا گیا کہ ان اربوں ڈالرز سے افراط زر کا خاتمہ کرکے معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرینگے، ملک میں عوام کو لاحق معاشی بد حالی کو فوری ختم کرنے کا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا، عوام کو بیروزگاری، مہنگائی اور لوڈشیڈنگ سے فوری نجات دلائی جائے گی مگر یہ تمام وعدے اور دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے، خدا جانے وہ اربوں ڈالرز کہاں گئے، انھیں کس مقصد کے لیے استعمال کیا جارہاہے، کچھ پتا نہیں، مہنگائی ہے کہ دن بدن بڑھتی ہی جارہی ہے، عوام غربت اور افلاس کی دبیز چادر میں لپٹے جارہے ہیں۔

اقتصادی امور سے منسلک وفاقی وزیر صاحب اور ان کی ٹیم عوام سے متعلق اس حساس ترین معاملے پر انگریزی زبان کے مشکل ترین لفظوں پر مبنی اقتصادی زبان میں Inflation کم ہوجانے Debt Servicing اور Physical Deficit کم ہونے PSDPکو بڑھانے اور Foreign Exchange کے اضافے اور ڈالر کو Consolidated رکھنے کے وعدے کرکے اپنی بجٹ تقریر ختم کرنے کو ہی اپنی کامیابی سمجھے بیٹھے ہیں، وہ قوم کو یہ بتانے پر تیار نہیں کہ بجٹ میں بیان کیے ہوئے اعداد و شمار سے پاکستانی قوم کو اگلے سال کس قسم کے فوائد حاصل ہوںگے، بجلی کی قیمت کو کیسے کم کیا جائے گا؟ اس کی مستقل ترسیل کو کیسے ممکن بنایا جائے گا؟ ہر مہینے بڑھنے والی اشیا خورونوش کی قیمتوں کو کیسے کم نہ سہی بڑھنے سے روکا جائے گا؟

اس سال 2800 ارب روپے ٹیکس کی شکل میں عوام سے وصول کرنے کے عوض انھیں کس قسم کی سہولیات میسر ہوںگی۔ پٹرول اور ڈیزل پر کتنی سبسڈی دے کر عوام کو ارزاں سفری سہولت مہیا کی جائیںگی، زمینداروں، کارخانہ داروں پر ان کے وسائل کے اور آمدنی کے مطابق کتنا ٹیکس وصول کیا جائے گا، عام آدمی کو معیاری صحت اور سستی تعلیم کے حصول کو کس طرح ممکن بنایا جائے گا؟ عام آدمی کے لیے گھر کے حصول کو کس طرح ممکن بنایا جائے گا۔

یہ سوالات ہیں جو پاکستان کی غربت و افلاس کے چنگل میں پسی ہوئی عوام اپنے ذہنوں میں لیے بیٹھے ہیں مگر افسوس پچھلے 66 سالوں سے تمام پاکستانی حکمران ان سوالوں کے جواب دینے سے گریزاں ہیں اور شاید ان سوالوں کے جواب  کبھی نہ مل پائیں چوں کہ اشرافیہ طبقات پر مشتمل حکمران طبقہ کسی کو بھی جواب دہ ہونا گوارہ نہیں کرتے وہ صرف حکم چلاتے ہیں اور عوام سے صرف فرماں برداری کی متمنی ہوتے ہیں۔

قومی کھیل اور قومی کردار

$
0
0

ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ جناب دور حاضر کے ’’آزاد میڈیا‘‘ کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ عموماً ایک آدھ خبر اصل عوامی ایشوز پر بھی مل جاتی ہے، ان کا یہ طنز اپنی جگہ وزن رکھتا ہے، بہر کیف ہمیں ان کا یہ طنز چند روز قبل بھرپور طریقے سے یاد آیا کہ جب ہماری نظر اخبار میں ایک ایسی اسٹوری (خبر) پر پڑی جو واقعی اس ملک کا ایک اہم ایشو بھی ہے اور ہماری قوم کے ہمدرد رہنمائوں کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے۔

یہ خبر پاکستان کے قومی کھیل ہاکی کے کھلاڑیوں سے متعلق ہے، خبر کے مطابق 20 سال گزر گئے، ہاکی ورلڈ کپ 1994 کی فاتح ٹیم کو انعامات نہ مل سکے، فاتح ٹیم کی وطن واپسی پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کھلاڑیوں کو پرکشش انعامات دینے کا وعدہ کیا تھا، 1995 اوائل میں اس وقت کے وزیراعلیٰ میاں منظور احمد وٹو نے قومی ہاکی ٹیم کو وزیراعلیٰ ہائوس مدعو کیا تھا اور ایک پر وقار تقریب میں ان کے لیے ملتان روڈ لاہور کے قریب ایک ایک کنال کے پلاٹ دینے کا وعدہ کیا تھا۔

1986 میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا کہ وعدے کے مطابق اعلان کیے گئے انعامات تمام کھلاڑیوں کو نہ مل سکے جس پر قومی ٹیم کے عظیم اور نامور کھلاڑیوں نے احتجاجاً پریس کانفرنس بھی کی تھی۔ ان نامور کھلاڑیوں میں حسن سردار اور رشیدالحسن جیسے عالمی شہرت یافتہ ہاکی کے کھلاڑی بھی شامل تھے، یہ کس قدر افسوس ناک اور شرم ناک پہلو ہے کہ 1994 میں شہباز سینئر عالمی ہاکی کپ لے کر وطن پہنچتے ہیں اور ان کی شان میں (اپنی شان بڑھانے کے لیے حکومتی ذمے دار) انعامات دینے کا اعلان بھی کرتے ہیں اور پھر یہ کھلاڑی ان انعامات کے لیے ایسے کوشش کرتے سرگرداں پھرتے ہیں جیسے کوئی بیوہ اپنی پنشن کے حصول کے لیے سرکاری دفاتر کے چکر لگاتی ہو۔

بات صرف اتنی نہیں ہے کہ کھلاڑیوں کو انعامات نہیں ملے بلکہ بات قومی غیرت اور ہمارے سیاسی رہنمائوں کی بے حسی کی ہے جو اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر قوم کے ہیروز کے ساتھ بھی مذاق کرتے ہیں کہ عوام کے دلوں سے وطن کی مٹی کی محبت بی ختم ہوجائے۔

قومی کھیل کے ساتھ ایسا رویہ کیوں؟ حالانکہ ہاکی کی تاریخ میں پاکستانی کھلاڑیوں کی وہ کارکردگی ہے کہ جس کے بغیر ہاکی کی تاریخ کبھی مکمل ہی نہیں ہوسکتی، وہ تو گوروں نے جدید ٹیکنالوجی کا بہانہ بناکر کھیل کے میدان میں آسٹرو ٹرف متعارف کراکے اس کھیل کے میدان کو اپنے حق میں کرلیا ورنہ تو گھاس کے میدان پر فتح حاصل کرنا ان کا خواب ہی رہتا۔

ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ہاکی یا فٹ بال کے مقابلے میں کرکٹ حکومتوں کی ترجیحات میں کیوں رہتا ہے اور کرکٹ کے کھلاڑیوں کو اس قدر پیسہ کیوں ملتاہے؟ 12 جون سے پوری دنیا کے کروڑوں شائقین فیفا کے عالمی فٹ بال کپ کے مقابلے دیکھیں گے لیکن پاکستان کی فٹبال ٹیم انھیں ان مقابلوں میں نظر نہیں آئیگی ۔ کیوں؟ کیا پاکستان فٹ بال میں اتنا یتیم ہے ، قحط الرجال ہے، جی نہیں ۔ اسپورٹس کے تنگ نظر مسیحائوں، بیوروکریٹس اور سیاسی پنڈتوں نے کھیلوں کی اپنی مفاد پرستانہ ترجیحات مرتب کی ہیں اور کھیلوں کا بیڑا غرق کردیا ہے۔

بظاہر اس کی مزید دو وجوہات سامنے نظر آتی ہیں۔ (1) یہ کہ کرکٹ کھیل چوں کہ طویل زیادہ ہوتا ہے یعنی پورے پورے دن اور اگر ٹیسٹ کرکٹ ہو تو پھر پورا ہفتہ ہی اس کی نذر ہوجاتاہے، چنانچہ میڈیا پر اس کو وقت بھی زیادہ ملتاہے۔ (2) یہ کہ چونکہ یہ میڈیا پر زیادہ وقت چھایا رہتا ہے لہٰذا اسپانسر بھی اس کھیل کو زیادہ مل جاتے ہیں، ظاہر ہے کہ ایسی سپورٹ اس کھیل کے کھیلنے والوں کو بھی مالی طور پر فائدہ پہنچاتی ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کرکٹ کا ایڈونٹیج نہیں مگر ہم اپنے قومی کھیل کو سرکاری سطح پر پروموٹ کیوں نہیں کرتے؟ کیا ہمارے حکمران اس کے مجرم نہیں؟ ایک جانب روپے پیسے کی ایسی بارش کہ ایک چھکے پر کھلاڑی لکھ پتی، کروڑ پتی بن جائے دوسری جانب قومی کھیل کے کھلاڑی ورلڈ کپ جیتنے کے بعد وعدے کے مطابق محض ایک کنال کا پلاٹ بھی نہ دیا جائے۔

ہمارے حکمرانوں کو شاید قوم کے نام سے ہی چڑ ہے یا بقول سینیٹر عبدالحسیب خان کہ ہماری پارلیمنٹ میں پاکستانی کم اور غیر ملکی زیادہ ہیں یعنی وہ لوگ ایوانوں میں بیٹھے ہیں جن کے مفادات اس ملک سے وابستہ نہیں، جن کی شہریت، کاروبار، بینک بیلنس سب غیر ملکی سرحدوں میں محفوظ ہیں، اسی لیے ہر وہ کام جو اس ملک کے عوام کی بھلائی سے وابستہ ہو، سرخ فیتے کی نذر ہوجاتاہے، غور کیجیے قومی کھیل ہاکی کی طرح قومی زبان اردو کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟

کیا اردو زبان کا سرکاری سطح پر نفاذ نہ کرکے آئین کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی؟ لیکن آئین کی اس خلاف ورزی پر کوئی ہمدرد اسلام و پاکستان دھرنا نہیں دیتا نہ ہی کوئی تحریک چلاتا ہے کیوں کہ اگر قومی زبان اردو سرکاری سطح پر رائج ہوگئی تو پھر ایک غریب کسان اور مزدور کا بچہ بھی سی ایس ایس امتحان پاس کرکے ان حکومتی اداروں کا حصہ بنتا ہے جہاں انگریزی ڈرافٹ میں عوام کے خلاف پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔

غریب عوام کو ایسے اداروں سے دور رکھنے کا بہترین اور کامیاب طریقہ یہی ہے کہ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ نہ دیاجائے ورنہ کل اس ملک کے اختیارات میں حصہ حاصل کرلیںگے۔ حال ہی میں ایک عدالتی فیصلے میں جسٹس کے یہ ریمارکس (ایک بار پھر) سننے کو ملے کہ عدالتی کارروائی کے فیصلے اردو میں تحریر کیے جائیں کیوں کہ عوام کی اکثریت انگریزی سے نابلد ہے اسے علم ہونا چاہیے کہ کیا فیصلے تحریر ہورہے ہیں۔ اس ملک میں کیا عجب تماشا لگا ہوا ہے کہ ایک چپڑاسی کو بھی تقرری اور تنزلی نیز ترقی کا خط بھی انگریزی میں جاری کیا جاتاہے اور وہ بے چارا چپڑاسی اپنا خط ہاتھ میں لیے لوگوں کی منتیں کرتا نظر آتا ہے کہ کوئی اسے بتادے کہ اس میں کیا لکھا ہے؟

قومی زبان سے ایک چھوٹا سا دلچسپ واقعہ یاد آیا کہ ایک مرتبہ ڈاکٹر کے پاس ایک مریض اپنا چیک اپ کرارہا تھا، ڈاکٹر نے پوچھا ’’آپ کو صبح سے کوئی ’’وو میٹنگ‘‘ تو نہیں ہوئی؟ مریض نے حیرت سے ڈاکٹر کی طرف دیکھا اور نفی میں سر ہلادیا۔ میں قریب ہی بیٹھا تھا اور محسوس کر رہا تھا کہ اس کی سمجھ میں بات نہیں آئی لہٰذا میں نے لقمہ دیتے ہوئے کہاکہ ڈاکٹر صاحب پوچھ رہے ہیں کہ تمہیں صبح سے کوئی الٹی تو نہیں ہوئی؟ اس پر اس مریض نے فوراً کہا جی ڈاکٹر صاحب تین الٹیاں ہوچکی ہیں۔ جب بھی کچھ کھاتاہوں ’’الٹی‘‘ ہوجاتی ہے۔

بس جناب! ہماری قوم کا بھی یہی مرض ہے کہ ہماری حاکموں کو یہی نہیں پتہ کہ قوم کو کیا بیماری ہے اس کی حالت کیا ہے، بھلا جس حاکم کو یہ ہی نہ پتہ ہو کہ مرض کیا ہے تو وہ اس کا علاج کیا کرے گا؟ بس یہی ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس کے باعث نہ تو خواہش کے باوجود اس قوم کی تقدیر بدلی جارہی ہے نہ ہی قومی زبان و قومی کھیل کا تقدس بحال ہورہا ہے، فٹ بال جیسے کھیل کو ترجیح دینا تو دور کی بات ہے حالاں کہ اس میں بھی کوئی مشکل نہیں تھی صرف کراچی کے علاقے لیاری میں ہی فٹ بال کی سرپرستی کی جاتی اور فٹ بال کے میدان بنادیے جاتے تو وہاں سے عالمی سطح کے فٹ بالر پیدا ہوتے، نہ بے روزگاری ہوتی نہ ہی گینگ وار کے کارندے پیدا ہوتے۔

اب بھی وقت ہے کہ ہم غور و فکر کرلیں اور قوم اور قومی معاملات کا احساس کرلیں اور اپنا اپنا کردار ادا کرلیں۔

پیش کردہ بجٹ…عوام کی توقعات کے برعکس

$
0
0

مالی سال 2014-15ء کا بجٹ پاکستان کے عوام کی توقعات کے برعکس تھا۔ رواں مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے حکومت کے لیے یہ مجبوری تھی کہ اسے برسر اقتدار آئے ہوئے چند یوم ہی گزرے تھے۔ لہٰذا جن لوگوں نے بجٹ بنایا تھا اس میں معمولی ردوبدل کے ساتھ بجٹ پیش کردیا گیا تھا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں یہ کہہ کر 10 فی صد اضافہ کیا گیا تھا کہ چونکہ معاشی حالات بہتر نہیں ہیں اور مسلم لیگ (ن) کو حکومت سنبھالے ہوئے چند یوم ہی گزرے ہیں لہٰذا سرکاری ملازمین اسی کم اضافے پر اس سال اکتفا کریں معاشی حالات بہتر ہوتے ہی آیندہ مالی سال کے بجٹ میں ملازمین کی اشک شوئی کردی جائے گی۔

لیکن ایک دفعہ پھر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں محض 10 فی صد اضافہ کیا گیا۔ جسے ایپکا اور سرکاری ملازمین کی دوسری تنظیموں نے مسترد کردیا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ نظرثانی کرنے کے بعد تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کردیا جائے گا جیساکہ اس سے قبل وعدہ کیا جاچکا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے الیکشن کے دوران غریب عوام سے بہت سے وعدے کیے تھے۔ جس کی وجہ سے اس دفعہ جب بجٹ پیش کیا جانے لگا تو عوام کو بھرپور توقع تھی کہ بجٹ کی حکمت عملی کچھ ایسی ہوگی جس سے عوام کو ریلیف ملے گا۔مہنگائی میں کمی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ روزگار میں اضافے کی حکمت عملی سامنے لائی جائے گی۔

لیکن کچھ ایسا ہوا کہ جو بھی اقدامات اٹھائے گئے ہیں اس کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہی ہوگا۔ کیونکہ مختلف اشیا پر کسٹم ڈیوٹی میں اضافے کے باعث ان اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا۔ جس سے عوام ہی متاثر ہوں گے۔ گھی، تیل پر ٹیکس میں اضافے کی تجویز کے باعث ان اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ پرچون فروشوں پر 5 فی صد ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملک بھر میں 25 لاکھ تک پرچون فروش موجود ہیں جن کی اکثریت ایسی ہے جو ماہانہ 20 ہزار روپے بل ادا کرتے ہیں۔ لہٰذا ان پر ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔ لیکن تمام ٹیکسوں کے نفاذ کے باعث مہنگائی کا ایک اور ریلا عوام کو بہا کر لے جائے گا۔

بجٹ میں بین الاقوامی چین اسٹوروں کی شاخوں، ایئرکنڈیشن شاپنگ پلازوں میں دکانیں چلانے والوں، کریڈٹ کارڈ یا ڈیبٹ کارڈ مشین رکھنے والوں اور ماہانہ 50 ہزار بل ادا کرنے والوں کو درجہ اول میں رکھتے ہوئے ان پر 17 فی صد سیلز ٹیکس لگایا جا رہا ہے جب کہ 20 ہزار سے زائد بجلی کا بل دینے والوں پر 7.5 فی صد کے حساب سے سیلز ٹیکس لگایا جائے گا اور 20 ہزار تک بجلی کا بل دینے والوں کو 5 فی صد سیلز ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔

لہٰذا ان تمام باتوں کا ایک ہی نتیجہ نکلے گا کہ دکاندار، شاپ کیپر ٹیکسوں کا کوئی بوجھ ہو اسے گاہکوں پر منتقل کرنے سے نہیں چوکتے۔ اور بالآخر یہ ٹیکس خریداروں پر ہی منتقل ہوکر رہ جائے گا۔ حکومت کے بین الاقوامی سفر پر جانے والے عوامی کلاس پر سفر کرنے والوں پر ٹیکس میں 160 روپے کا اضافہ کردیا ہے۔ یعنی اکانومی کلاس پر سفر کرنے والے کو اب 5 ہزار ٹیکس دینا ہوں گے جب کہ بزنس و فرسٹ کلاس میں سفر کرنے والوں کو اس مد میں 10 ہزار روپے ٹیکس ادا کرنا ہوں گے۔ سگریٹ پر ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کردیا گیا ہے۔

بجٹ میں بعض پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لیے اہم اقدام کیا گیا ہے مثلاً گلگت، بلتستان، بلوچستان اور مالاکنڈ میں فروٹ پروسیسنگ انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیے پلانٹ مشنری پر ہر قسم کی ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے۔ اسی طرح فاٹا کے لیے بھی سرمایہ کاری کرنے پر مراعات و رعایت دی گئی ہے۔

2010ء کی بات ہے جب جون 2010ء میں بجٹ پیش کرنے سے قبل مختلف عالمی اداروں کی جانب سے جائزہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے یہ بتایا گیا کہ معاشی ترقی کی شرح 3 فی صد تک رہے گی۔ اس دوران دنیا کی مختلف رپورٹوں میں بھی تین فی صد کا حوالہ ہی دیا جاتا رہا کہ بجٹ پیش کرنے سے چند دن قبل کچھ ایسا رونما ہوگیا کہ ملکی ترقی کی شرح کو 4.1 فیصد بتایا گیا۔ ایک طرف بیرونی ترسیلات میں اضافہ ظاہر کیا جا رہا ہے جوکہ 13 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ملکی پیداوار میں بھی اضافہ کیا جائے۔ بصورت دیگر طلب میں اضافے کے باعث افراط زر میں بھی اضافہ ہوگا۔

بجٹ کے مطابق افراط زر کی شرح 8 فی صد تک رکھی جائے گی۔ البتہ کھانے پینے کی کئی اشیا پر ٹیکسوں میں کمی کے باعث ان اشیا کی قیمتوں میں کمی ہوجائے گی۔ حکومت نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کم ازکم اجرت 12 ہزار روپے مقرر کی ہے حالانکہ اسے 15 ہزار تک لے جانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ لیکن پہلے کی طرح اس پر عملدرآمد کرنے میں مشکلات حائل ہیں۔ البتہ وزیر خزانہ نے پوسٹ بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سب کو اس پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ دوسری طرف کئی اشیا پر کسٹم ڈیوٹی اور دیگر ٹیکسوں میں اضافے کے باعث یہ تمام بوجھ صارفین پر منتقل ہوں گے نیز دکاندار جس قسم کا بھی ٹیکس دیتا ہے وہ صارف پر منتقل کردیتا ہے۔ جب کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ بجٹ کی آڑ میں کسی کو قیمتیں بڑھانے نہیں دیا جائے گا۔

اس پر عملدرآمد کافی مشکل کام ہے لیکن اگر حکومت پرعزم ہوجائے تو ایسا کرنا مشکل نہ ہوگا۔ بجٹ پیش کرنے کے دوسرے روز تقریر کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ 9 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالیں گے۔ لیکن اس کے لیے ضروری تھا کہ حکومتی بجٹ پیش کرتے ہوئے ایسی حکمت عملی اپناتی جس سے غربت میں کمی واقع ہوتی۔ حکومتی دعویٰ ہے کہ مالیاتی خسارہ کم کرکے 8.8 فی صد سے 4 فی صد تک لے آئیں گے۔ اس سے قبل بھی ایسے ہی دعوے کرتے کرتے مالیاتی خسارہ بڑھتا ہی چلا گیا ہے۔

ماہرین کے مطابق اسے کسی حد تک تجارت دوست بجٹ بھی کہا جاسکتا ہے۔ بجٹ میں وعدہ کیا گیا ہے کہ آیندہ تین سال میں ایس آر اوز کلچر کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ وفاقی بجٹ میں تعلیم کے شعبے اور صحت کے شعبے کے لیے رقوم مختص کی جاتی ہیں لیکن چونکہ یہ شعبے صوبائی حکومتوں کے حوالے ہیں لہٰذا وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ صوبوں کو ترغیب دے کہ وہ تعلیم اور صحت کے لیے بجٹ میں اضافہ کریں۔ خستہ حال اسکولوں کی تعمیر نو کی جائے۔

اسپتالوں سے غریب عوام کو دوائیں دینے اور انھیں انتہائی معیاری صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لیے رقوم میں اضافہ کیا جائے۔ عوام کو پینے کے صاف پانی کے لیے رقوم میں اضافہ کیا جائے۔ کیونکہ غربت میں کمی لانے کے لیے ضروری ہے کہ عوام کے لیے تعلیم کی سہولیات سستی ترین تعلیم نیز ابتدائی تعلیم مفت اور مفت صحت کی سہولیات پینے کا صاف پانی، شہروں اور دیگر علاقوں میں نکاسی آب کا بہتر انتظام کی فراہمی باآسانی کی جائے۔ غربت میں کمی لانے کے لیے روزگار کی فراہمی بھی حکومت وقت کا فریضہ ہے۔ وہی بجٹ عوام کی توقع کے مطابق ہوتا ہے جس سے عوام کی فلاح و بہبود میں اضافہ ہو رہا ہوتا ہے۔

سنکیانگ دہشت گردی …9 افراد کو سزائے موت

$
0
0

مسلم آبادی کی اکثریت والے چینی صوبے سنکیانگ جہاں کچھ عرصہ قبل دہشت گردی کے ایک ہولناک واقعے سے متعدد افراد ہلاکت کا شکار بن گئے تھے‘ چینی حکومت نے سرعت سے کارروائی کرتے ہوئے 9 افراد کو دہشتگردی اور تخریب کاری کے الزامات میں سزائے موت دینے کا اعلان کیا ہے۔ فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی نے چین کے سرکاری ٹی وی کے حوالے سے بتایا ہے کہ سنکیانگ میں بہت ساری عدالتوں میں بیک وقت کارروائی شروع ہوئی جس میں 81 مشتبہ افراد کو مختلف نوعیت کی سزائیں سنائی گئیں۔ سنکیانگ جو مذہبی تفریق کے باعث مسائل کا شکار ہے وہاں پر دہشت گرد دھماکے کے بعد مقامی انتظامیہ نے زبردست کریک ڈائون کر کے بہت سے مشتبہ افراد گرفتار کر لیے تھے۔

انھی میں سے جن پر جرم ثابت ہو رہا ہے عدالتیں انھیں سزا دے رہی ہیں‘ موت کی سزا فی الحال ابھی صرف 9افراد کو ملی ہے۔ چینی حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ سنکیانگ میں کچھ مسلح گروہ آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں۔ ادھر چین کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ چین اس علاقہ میں دہشت گردی کے خطرات کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے تاکہ علاقے کی مسلم آبادی کو جس ناروا سختی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کے لیے جواز پیدا کر سکے۔ سنکیانگ کے دارالحکومت ارومچی میں جمعرات کے دن 29 مزید افراد کو دہشت گردی کے شبہ میں گرفتار کر لیا گیا۔ حکومت چین نے استغاثہ تیار کرنے والے وکلاء کو ہدایت کی ہے کہ مذکورہ 29 افراد کے خلاف 24 گھنٹے کے اندر اندر چالان مکمل کر کے عدالت میں پیش کر دیا جائے۔

یہاں اس بات کا تذکرہ بے جا نہ ہو گا کہ سنکیانگ کا چینی صوبہ پاکستان کی سرحد کے قریب ترین ہے اور چین کے لیے پاکستان تک رسائی کے لیے بھی یہ آسان ترین راستہ ہے تاہم عالمی سامراج یہ پسند نہیں کرتا کہ چین اس راستے سے افریقہ اور مشرق وسطیٰ کی وسیع مارکیٹ تک رسائی حاصل کرے۔ لہٰذا صوبہ سنکیانگ میں تخریب کاری اور دہشتگردی کی وارداتوں کو اس تناظر میں بھی دیکھا جانا چاہیے‘ بہر حال چینی حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ کوئی بھی اقدام کرتے ہوئے اس بات کی پوری تحقیقات کرے کہ اصل ملزم ہی سزا پا سکیں کیونکہ جلد بازی کی کارروائی میں بے گناہوں کو سزا ملنے کا بھی امکان ہوتا ہے۔

Viewing all 22348 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>